تفسير راہنما جلد ۴

 تفسير راہنما8%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 897

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 897 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178025 / ڈاؤنلوڈ: 5532
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

٢۔ علم و حکمت:

حضرت علی ـاس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''جو شخص حکمت سے آگاہ ہے اس کو نگاہیں ہیبت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہیں ''۔(١)

٣۔ حلم:

حضرت علی ـسے منقول ہے: ''حلم وقا رکا باعث ہے '' ۔(٢)

٤۔سکوت:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''زیادہ خاموشی انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے ''۔(٣) نیز مومنین اور پرہیز گاروں کی خصوصیات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' اے ہمام ! مومن زیادہ سے زیادہ خاموش رہتا ہے اور باوقار ہوتا ہے ''۔(٤)

٥۔ تواضع و فروتنی:

حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''فروتنی تم پر بزرگی اور شان و شوکت کا لباس پہناتی ہے '' ۔(٥) اسی طرح روایات میںدوسرے اسباب جیسے آہستہ گفتگو کرنا(٦) وغیرہ بیان ہوا ہے کہ اختصار کی وجہ سے انھیںہم ذکر نہیں کررہے ہیں۔ آیات و روایات میںاطمینان قلب کے لئے بہت سے اسباب و علل بیان کئے گئے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہے:

١۔ ازدواج:

قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: ''اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑوں کو تمہارے لئے خلق فرمایا تاکہ ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت ورحمت قرار دی۔ ہاں، اس (نعمت ) میں صاحبان عقل و فکر کے لئے یقینا ً نشانیاںہیں''۔(٧) دوسری جگہ فرماتا ہے: ''وہ ایسی ذات ہے جس نے تم کو ایک نفس سے خلق فرمایا اور اس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ اس سے سکون حاصل کرو'' ۔(٨)

٢۔ عدالت:

حضرت فاطمہ زہرا ٭ فرماتی ہیں: ''خداوند عالم نے ایمان کو شرک دور کرنے کا ذریعہ....... اور عدالت کو دلوں کے سکون کا باعث قرار دیا ہے ''۔(٩)

____________________

١ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص ٢٣، ح ٤، اور ملاحظہ ہو : صدوق، علل الشرائع، ج ١، ص ١١٠، ح ٩ ؛ مجلسی، بحار لا نوار، ج ١، ص ١١٧تا ١٢٤۔٢۔ آمدی، غرر الحکم، حکمت ٥٥٣٤۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٢٦، ح ١۔ ٤۔ ایضاً۔٥۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤١٨٤۔ ٦۔ کافی، ج٥، ص٣٩،ح٤۔٧۔ سورئہ روم، آیت ١ ٢۔ ٨۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٩۔ ٩۔ صدوق، من لا یحضر الفقیہ،ج٣، ص٥٦٨،ح٤٩٤٠۔ علل الشرایع، ص٢٤٨، ح٢۔ طبرسی، احتجاج، ج١،ص١٣٤۔

۱۴۱

٣۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی مومن نہیں ہے مگر یہ کہ خداوندعالم اس کے ایمان کے نتیجہ میں اس کے لئے ایک انس قرار دیتا ہے کہ جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے، اس طرح سے کہ اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو تو اپنے مخالفین سے وحشت نہیں رکھتا''۔(١) واضح ہے کہ اس سکون و اطمینان کا درجہ ایمان کے اعتبار سے ہے، جتنا ایمان کا درجہ زیادہ ہوگا اس سے حاصل شدہ سکون بھی زیادہ پایدار ہوگا۔

٤۔ خدا کی یاد:

قرآن کریم میں مذکور ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لا چکے ہیںاور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں آگاہ ہوجائیں کہ یاد الہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔(٢)

٥۔ حق تک پہنچنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:'' انسان کا دل ہمیشہ حق کی تلاش و جستجو میں مضطرب اور پریشان رہتاہے اور جب اسے درک کرلیتا ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے ''۔(٣) اس لحاظ سے شک وتردید کے علائم میں سے ایک اضطراب اور عدم سکون ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا ذہنی درد و الم ہے۔ اُن تمام مذکورہ موارد کا فقدان جو سکون و وقار کے اسباب و علل میں شمار کئے گئے ہیں ان دونوں کے تحقق کے موانع شمار ہوتے ہیں مگر چونکہ بعض دیگر امور روایات میں سکون و وقار کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا ذیل میںان میں سے اہم ترین امور کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

۱۔ لوگوں سے سوال و درخواست کرنا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''لوگوں سے سوال کرنا انسان کی زندگی کو ذلت وخواری سے جوڑ دیتا ہے، حیا کو ختم کردیتا اور وقار کو کم کردیتا ہے ''۔(٤) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''فقیر انسان میں ہیبت و عظمت کا وجود محال ہے

۲۔ حد سے زیادہ ہنسنا اور ہنسی مذاق کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ ہنستا ہے اس کی شان و شوکت کم ہوجاتی ہے ''۔ رسولخدا فرماتے ہیں: ''زیادہ ہنسی مذاق کرنا انسان کی آبرو کو ختم کردیتا ہے''۔(٥)

____________________

١ ۔ مجلسی، بحار لا نوار ج ٦٧، ص ٨ ٤ ١، ح ٤۔ ٢۔ رعد ، ٢٨۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص٤٢١، ح ٥۔ ٤ ۔ مجلسی، بحار لا نوار، ج ٧٨، ص ١٣٦، ح ٣و ج ٧٥، ص ١٠٨۔

٥ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤، اور ملاحظہ ہو حرانی، تحف العقول، ص ٩٦۔

۱۴۲

نیز حضرت علی ـ سے وصیت فرماتے ہیں : ''ہنسی مذاق کرنے سے اجتناب کروکیونکہ تمہاری شان و شوکت اور عظمت ختم ہوجائے گی ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہے وہ کم عقل شمار ہوتا ہے''۔(٢)

٣۔ مال، قدرت،علم، تعریف اور جوانی سے سر مست ہونا:

حضرت علی ـ کی طرف منسوب بیان کے مطابق عاقل انسان کو چاہیے کہ خود کو مال، قدرت، علم، ستائش و جوانی کی سرمستی سے محفوظ رکھے، کیونکہ یہ سر مستی انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے اوراس کے وقارکو ختم کردیتی ہے۔(٣)

٤۔ جلد بازی:

جلد بازی سے مراد کسی کام کو بغیر سونچے سمجھے انجام دینا ہے۔ حضرت علی ـ مالک اشتر کو لکھتے ہیں: ہر گز کسی ایسے کام میں جلد بازی نہ کرو جس کا ابھی وقت نہ ہوا ہو! یا جس کام کا وقت ہوچکا ہو اس کے کرنے میں سستی نہ دکھاؤ! کوشش کروکہ ہر کام کو اس کے موقع و محل اور اس سے مخصوص وقت میں ہی انجام دو''۔(٤) ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: '' کسی کام میں جب تک کہ واضح نہ ہو اس کے کرنے میں جلد بازی نہ کرو''۔(٥) اور فرماتے ہیں: اس چیز میں جس میںخدا نے جلد بازی لازم نہیں قرار دی ہے اس میںجلد بازی نہ کرو ۔ ''(٦)

اسلام کے خلاقی نظام میںجلد بازی ہمیشہ نا پسندنہیں ہے، بلکہ بعض امور میں اس کی تاکید بھی کی گئی ہے، لیکن درج ذیل موارد میں جلد بازی سے روکا گیا ہے جیسے سزادینے، جنگ و خونریزی کرنے، کھانا کھانے، نماز تمام کرنے اور غور خوص کرنے میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکیوں، خدا کی خوشنودی، توبہ، عمل صالح اور تحصیل علم وغیرہ کے لئے جلد بازی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم نیک امور کی جانب سبقت کرنے کی تاکید فرماتا ہے: '' نیک کاموں میںایک دوسرے پر سبقت کرو''۔(٧)

____________________

١۔ صدوق، امالی، ص ٣ ٢٢، ح ٤۔ اختصاص، ص ٢٣٠ ؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٦٦٤، ح ٦، اور ٦٦٥، ح١٦۔

٢۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٦٩۔ ٣۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٩٤٨ ١٠۔

٤۔ نہج البلاغہ، نامہ ٥٣۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٣۔ ٦ْ۔ ایضاً، خطبہ ٠ ١٩۔ ٧۔ سورئہ بقرہ، آیت ٤٨ اور سورئہ مائدہ، آیت ٨ ٤۔

۱۴۳

دو۔ نفس کے لئے خطر ناک شئی

نفس کے لئے خطر ناک شئی اس کا ضعیف ہونا ہے جس کے مضر اثرات ہیں اور یہ نفس کے موانع میںشمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اثرات جیسے عدم ثبات، پست ہمتی، غیرت و حمیت کا نہ ہونا ان مباحث کے ضمن میں جو قوت نفس کے علائم میںبیان ہوئے ہیں، آشکار ہوگئے۔ یہاں پر ایک دوسرا مانع یعنی ''تہاون'' اور ''مداہنہ ''کا ذکر اس کی اہمیت کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔

''مداہنہ'' سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نرمی، کوتاہی اور سستی سے کام لینا ہے''۔(١) امر

با لمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور کوتاہی یا نفس کے ضعیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے یا اس شخص کے مال اور اعتبار میں دنیوی طمع و آرزو کی وجہ سے جس کی نسبت سستی اور کوتاہی کو روا رکھتا ہے۔(٢)

آیات وروایات میں دین میں نرمی اور کوتاہی کرنے کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات بیان کئے گئے ہیں ، جیسا کہ خدا وندعالم کفارو مشرکین کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''وہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی سے کام لو تو وہ بھی نرمی سے کام لیں ''۔(٣) یعنی طرفین میںسے ہر ایک دوسرے کے دین سے متعلق سہل انگاری اور نرمی سے کام لے۔(٤ ) حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' میری جان کی قسم، حق کے مخالفین گمراہی و فساد میں غوطہ لگا نے والوں سے ایک آن بھی مقابلہ و جنگ کرنے میں سستی نہیں کروں گا''۔(٥) حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: '' خداوند سبحان نے حضرت شعیب کو وحی کی کہ تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ افراد پر عذاب نازل کروں گا، ان میں سے ٤٠ ہزار افراد برے ہیں اور ٦٠ ہزار ان کے برگزیدہ ہیں۔ حضرت شعیب نے پوچھا: خدایا ! اخیار اور برگزیدہ افراد کا جرم و گناہ کیاہے ؟ تو خداوند سبحان نے جواب دیا: ان لوگوں نے گناہگاروں کے مقابل سستی اور نرمی سے کام لیا ہے اور میرے ناراض ہونے سے وہ ان پر ناراض نہیں ہوئے ''۔(٦)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٧٣ ؛ طریحی، مجمع البحرین، ج ١، ص ٦٦ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج١٣، ص ٢ ١٦ ؛ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٨٢۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢٣٢ تا٢٤٠۔ ٣۔ قلم ٩۔

٤۔ طباطبائی، المیزان، ج١٩، ص ٣٧١۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٤۔

٦۔ تہذیب، طوسی، ج ٦، ص ١٨١ ،ح ٣٧٢ ؛ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٦، ح ١۔

۱۴۴

دین میں سستی ،سہل انگاری اور کوتاہی سے متعلق روایات میں جو نقصان دہ اور ضرر رساں اثرات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے انسانی سماج کی گراوٹ، فسادو تباہی، گناہ و عصیان کی زیادتی، سزا ودنیوی اور اخروی عذاب اور دنیا وآخرت میں نقصان وخسارہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(١)

٢۔ حلم و برد باری اور غصہ کا پینا

'' حلم '' عربی زبان میں امور میں تامل، غوروفکر، تدبیر کرنے اور جلد بازی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ '' حلیم '' اس انسان کو کہتے ہیں جو حق پر ہونے کے باوجود جاہلوں کو سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے اور مقابل شخص کی جاہلانہ رفتار سے وجود میں آنے والے غیض وغضب سے اپنے کو قابو میں رکھے۔(٢) بعض علماء اخلاق حلم کو اطمینان قلبی اور اعتماد نفس کا ایک درجہ خیال کرتے ہیں کہ اس کا مالک انسان آسانی سے غضبناک نہیں ہوتا اور ناگوار حوادث جلدی اسے پریشان اور مضطرب نہیں کرتے۔ اس وجہ سے حلم کی حقیقی ضد غضب ہے، کیونکہ حلم اصولی طور پر غضب کے وجود میں آنے سے مانع ہوجاتا ہے۔ حلم اور '' کظم غیظ '' ( غصہ کو پینے ) کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کظم غیظ صرف خشم و غضب کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے ضبط کر کے ٹھنڈا کردیتا ہے جب کہ حلم بے جا غیض و غضب کے پیدا ہونے سے مانع ہوتا ہے، پس حلم غیض و غضب کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا ''کظم غیظ '' اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے علائم کے ظاہر ہونے کو روک کر درحقیقت اس کا علاج کرتا ہے۔(٣)

قرآن کریم میں حلم ١٠ بار سے زیادہ خداوندسبحان کے صفات میں شمار کیا گیا ہے کہ ان موارد میں نصف سے زیادہ ''غفور'' اور ''حلیم '' ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔(٤)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٥، ح ٦، اور ج ٨، ص ٤ ٣ ١، ح ١٠٣، اور ص ١٢٨، ح ٩٨ ؛ حرانی، تحف العقول، ص ١٠٥، ٧ ٣ ٢؛ نہج البلاغہ، خ ٨٦، ٢٣٣؛ شیخ مفید، ارشاد، ص ٩٢۔

٢۔ ابن اثیر، نہایہ، ج ١، ص ٣٤ ٤، ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٢، ص ١٤٦ ؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٢٩، مجمع البحرین، ج ١، ص ٥٦٥۔ اور فیض کاشانی، ملا محسن، المحجةالبیضائ، ج ٥، ص ٣١٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٥ ٢٩، ٢٩٦۔

٤۔ عبد الباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص ٢١٦، ٢١٧۔

۱۴۵

اسلام کے اخلاقی نظام میںحلم اور بردباری کی قدر و منزلت اس درجہ بلند ہے کہ لوگوں کی رہبری و امامت کے ایک لوازم میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول خدا فرماتے ہیں: ''امامت اوررہبری تین خصوصیات کے مالک افراد کے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے، ایسا تقویٰ جو اسے خدا کی نافرمانی سے روکے، ایسا حلم وبرد باری جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرے اور لوگوں پر ایسی پسندیدہ حکمرانی کہ ان کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح ہو''۔(١) حضرت علی ـ نے فرمایا: '' حلم ڈھانکنے والا پردہ اور عقل شمشیر براں ہے، لہٰذا اپنی اخلاقی کمی کو برد باری سے چھپاؤ اور اپنی نفسانی خواہشات کو عقل کی شمشیر سے قتل کرڈالو ''۔(٢) یعنی انسان کی اخلاقی کمی کے لئے حلم ایک پردہ ہے۔ دوسری جگہ حلم کو عزت کا بلند ترین مرتبہ(٣) عاقلوں کی سرشت ،(٤) اور قدرت کی علامت(٥) تصور کیا گیا ہے۔ کظم غیظ اور غصہ کو پینا در حقیقت تحلّم اور زحمت و کلفت کے ساتھ حلم اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے کظم غیظ اہمیت کے اعتبار سے حلم سے کم درجہ رکھتا ہے، اگر چہ اپنی جگہ اہم اور قابل تعریف ہے۔ قرآن کریم کظم غیظ کو متقین کی صفت اور ایک قسم کی نیکی اور احسان جانتاہے۔ قرآن فرماتا ہے: ''اپنے پروردگار کی عفو و بخشش اورایسی بہشت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور وہ ان پرہیز گاروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے ۔(٦) وہ لوگ جو فراخی اور تنگی حالتوں میں انفاق کرتے ہیں اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور خدا وند عالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔ پیغمبر اکرم نے غصہ کے پینے کی فضیلت میں فرمایا ہے: ''خدا تک انسان کے پہنچنے کے محبوب ترین راستے دو گھونٹ نوش کرنا ہے،ایک غصّہ کا گھونٹ جو حلم وبردباری کے ساتھ پیاجاتا ہے اور غصّہ بر طرف ہوجاتا ہے، دوسرا مصیبت کا گھونٹ کہ جو صبر وتحمّل سے زائل ہوتا ہے ''(٧)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٠٧، ح ٨۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٢٤۔٣۔ کلینی، کافی ج ٨، ص ١٩، ح ٤۔

٤۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٢٧٤، ح ٨٢٩۔٥۔ صدوق، خصال، ج ١، ص ١١٦، ح ٩٦۔

٦۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ١ ، ١٣٤۔٧۔ کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٩۔

۱۴۶

حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فر مایا ہے: ''جو کوئی ایسے خشم وغضب کو کہ جسے وہ ظاہر کرسکتا ہے پی جائے تو قیامت کے دن خدا وند تعالیٰ اپنی رضا سے اس کے دل کو پرکردے گا ''(١)

الف۔ حلم اور کظم غیظ کے اسباب و موانع:

روایات میں علم، عقل، فقہ، تحلم، بلند ہمتی اور حلیم و برد بار افراد کی ہمنشینی کو حلم اختیار کرنے کے اسباب و علل میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام علی رضا ـ فرماتے ہیں: ''فقاہت کی علامتوں میں سے حلم اور سکوت ہے''۔(٢)

نیز حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اگر تم واقعاً حلیم نہیں ہو تو حلم کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہوجائے''۔(١) اسی طرح آپ نے فرمایا: ''حلم اور صبر دونوں جڑواں ہیں اور دونوں ہی بلند ہمتی کا نتیجہ ہیں ''۔(٢) اس کے مقابل کچھ صفات ایسے ہیں جو حلم و برد باری کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں کہ ان میں سے سفاہت ، بیوقوفی، حماقت ، دُرشت مزاجی، تند خوئی، غیض وغضب، ذلت وخواری اور ترش روئی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(٣)

ب۔حلم و برد باری کے فوائد:

اخروی جزا کے علاوہ آیات و روایات میں دنیوی فوائد بھی حلم و برد باری کے بیان کئے گئے ہیں۔ یہ فوائد خواہ انسان کی انسانی زندگی میں نفسانی صفات اور عملی صفات ہوں خواہ ا نسان کی اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار میںظاہر ہوں، ان میں سب سے اہم فوائد یہ ہیں: سکون قلب، وقار، نجابت، رفق ومدارا، صبر، عفو و بخشش، خاموشی، سزادینے میںجلد بازی نہ کرنا، اور خندہ روئی فردی فائدے کے عنوان سے اور کرامت وبزرگواری، کامیابی ،صلح و آشتی، ریاست و بزرگی، لوگوں کے دلوں میں محبوبیت اور پسندیدہ وخوشگوارزندگی حلم و برد باری کے اجتماعی فوائد ہیں ۔ان میں سے بعض فوائد پر اس کے پہلے بحث ہوچکی ہے اور بعض دیگر ایک قسم کی رفتار (عمل) ہیں کہ عملی صفات کے بیان کے وقت ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔

____________________

١۔کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٦۔ ٢۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح ٤۔٣۔ نہج البلاغہ، حکمت ٧ہ٢؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص١١٢، ح ٦، ص ٢٠، ح ٤ اور تحف ا لعقول، ص ٦٩۔٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٦٠۔٥۔ صدوق، خصال، ج ٢، ص ٤١٦، ح ٧ ؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ١٣، ص ٤٢١، ح ١٥ ؛ غرر الحکم، ح ٢٠٠٩ اور ٣٩٤٠ ؛نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٧٥ اور ٢٩٥ ؛ فیض کاشانی، المحجة البیضائ، ج١٥، ص ٢٨٨، ٣٠٨۔

۱۴۷

٣۔ حیا

حیا نفسانی صفات میںایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس تاثیر کا اہم ترین کردار خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ '' حیا'' لغت میں شرم وندامت کے مفہوم میںہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے۔(١) علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیا ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے۔(٢)

آیات و روایات میں ''حیا '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔ اس مفہوم کو کتاب و سنت میں مذکور حیا کے مسائل اور ابواب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم حیا کی تمام اقسام کے درمیان ایک مشترک مفہوم ہے اس وجہ سے حیا کے تین اصلی رکن ہیں: فاعل، ناظر اور فعل۔ حیا میں فاعل وہ ہے جو نفسانی کرامت و بزرگواری کا مالک ہے۔ ناظروہ ہے کہ جس کی قدرو منزلت فا عل کی نگاہ میںعظیم اور قابل احترام ہے اور فعل جو کہ حیا کے تحقق کا تیسرا رکن ہے، برا اور ناپسنددیدہ فعل ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر ''حیا ''''خوف '' و '' تقویٰ '' کے درمیان فرق کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ حیا میں روکنے والا محور ایک محترم اور بلند مرتبہ ناظر کے حضور کو درک کرنا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا ہے، جبکہ خوف وتقویٰ میں روکنے والا محور، خدا کی قدرت کا درک کرنا اور اس کی سزا کا خوف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حیا کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔ اسی طرح یہ بات قابل توجہ ہے کہ حیا مختلف شعبوںمیںکی جاتی ہے کہ اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی، جیسا کہ عورتوں کی حیا '' اخلاق جنسی'' میں، گھرمیں حیا کی بحث '' اخلاق خانوادہ ''میں اور دوسروں سے حیا '' اخلاق معاشرت '' میں مورد تحقیق قرار دی جائے گی۔ یہاں پر حیا سے متعلق صرف عام اور کلی مباحث ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔

٢۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔

۱۴۸

الف۔ حیا کی اہمیت:

رسول خدا حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا، اور حیا کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو حیا کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا''۔ (٢ ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''حیا اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ حیا کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہو لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوںکے ساتھ سچائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوںکی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوںکے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیا ہے۔(٤) حضرت علی ـ نے حیا کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیا تمام خوبصورتی اور نیکی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے''۔(٥) حیا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جو حیا نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے''۔(٦) رسول اکرم کی سیرت کے بارے میں منقول ہے کہ آنحضرت جب بھی لوگوں سے بات کرتے تھے تو عرق شرم (حیا کا پسینہ ) آپ کی پیشانی پر ہوتا تھا اور کبھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتے تھے۔(٧)

____________________

١۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔

٣۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔٤۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔

٥۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔٦۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔٧۔ کافی ، ج٥ ،ص٥٦٥، ح٤١۔

۱۴۹

کبھی حیا کا منفی رخ سامنے آتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جب اس کا سبب حماقت، جہالت، اور نفس کی کمزوری ہو۔ اسلامی اخلاق میں ایسی شرم و حیا کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اسے اخلاقی فضیلت شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان کے رشد و علو کے لئے رکاوٹ اور مختلف شعبوںمیں اس کے پچھڑنے کا سبب ہوتی ہے۔ روایات میں اس طرح کی شرم کو جہل و حماقت اور ضعف کی حیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔(١)

ب۔ حیا کے اسباب و موانع :

بعض وہ امور جو روایات میں حیا کے اسباب کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:

١۔عقل:

رسول خدا نے ایک عیسائی راہب ( شمعون بن لاوی بن یہودا) کے جواب میں کہ اس نے آپ سے عقل کے علائم وماہیت کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: ''عقل حلم کی پیدائش کا باعث ہے اور حلم سے علم، علم سے رشد، رشدسے عفاف اور پاک دامنی، عفاف سے خوداری، خوداری سے حیا، حیا سے وقار، وقار سے عمل خیر کی پابندی اور شر سے بیزاری اور شر سے تنفرسے نصیحت آمیز اطاعت حاصل ہوتی ہے۔(٢)

٢۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: '' جو حیا نہیں رکھتا وہ ایمان بھی نہیں رکھتا ''۔

اسی طرح روایات میں کچھ امور کو حیا کے موانع بے حیا ئی کے اسباب و علل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں: ایک۔ حرمتوں اور پردوں کو اٹھا دینا: حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: '' شرم وحیا کا پردہ اپنے اور اپنے بھائیوںکے درمیان سے نہ اٹھاؤ اور اس کی کچھ مقدار باقی رکھو، کیونکہ اس کا اٹھانا حیا کے اٹھانے کے مترادف ہے''۔(٣)

۳۔ لوگوںکی طرف دست سوال دراز کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' لوگوں کی طرف دست سوال دراز کرنا عزت چھین لیتا ہے اور حیا کو ختم کردیتا ہے''۔(٤)

____________________

١۔ صدوق، خصال، ج ١، ص٥٥، ح ٧٦ ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٠٦، ح ٦۔ ٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٩، اسی طرح ملاحظہ ہو، ص ٢٧ ؛ صدوق، خصال، ج ٢، ص٤٠٤، ٤٢٧ ؛ کلینی، کافی، ج١، ص ١٠، ح ٢ ۔اور ج ٢، ص ٢٣٠۔ ٣۔ کافی، ج ٢، ص ٦٧٢، ح٥۔٤۔ ایضاً، ج٢، ص ١٤٨، ح ٤۔

۱۵۰

٣۔ زیادہ بات کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ خطا کرتا ہے اور جو زیادہ خطا کرتا ہے اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم کم ہوجاتی ہے اس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اور جس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے''۔(١)

٤۔ شراب خوری:

حضرت امام علی رضا ـ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے شراب کی حرمت کی علت کے بارے میں فرمایا: ''خداوندسبحان نے شراب حرام کی کیونکہ شراب تباہی مچاتی ہے، عقلو ں کو حقائق کی شناخت میں باطل کرتی ہے اورانسان کے چہرہ سے شرم و حیا ختم کردیتی ہے''۔(٢)

ج۔ حیا کے فوائد:

روایت میں حیا کے کثرت سے فوائد پائے جاتے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ خدا کی محبت:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے ''۔(٣)

٢۔عفّت اور پاکدامنی:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''حیا کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے''۔(٤)

٣۔ گناہوں سے پاک ہونا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:'' چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا، کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا، جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو''۔(٥)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔٢۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔٣۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔

٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔ ٥۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔

۱۵۱

٤۔ رسول خدا نے شرم و حیا کے کچھ فوائد کی شرح کے ذیل میں فرمایا ہے:

''جو صفات حیا سے پیدا ہوتے ہیں یہ ہیں: نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میںرکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوںکے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنھیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے''۔(١)

اسلام کی اخلاقی کتابوں میں ''وقاحت '' اور ''بے شرمی'' سے متعلق بہت سے بیانات ہیںکہ ہم اختصار کی خاطر صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ اپنے شاگرد ''مفضل '' سے فرماتے ہیں: ''اے مفضل! اگرحیا نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا''۔(٢)

د۔حیا کے مقامات :

بیان کیا جاچکا ہے کہ ''حیا'' ناظر محترم کے حضوربرے اعمال انجام دینے سے شرم کرنا ہے۔ اس بنا پر پہلے: اسلام کی اخلاقی کتابوں میں خدا، اس کی طرف سے نظارت کرنے والے، اس کے نمایندے، انسان اور دوسروں کی انسانی اور الہی حقیقت کا ذکر ایک ایسے ناظر کے عنوان سے ہوا ہے کہ جن سے شرم وحیا کرنی چاہیے۔(٣)

دوسرے: حیا کے لئے ناپسندیدہ اور امور ہیں اور نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیا کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی۔ بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے مفہوم میں پہلے بیان کئے گئے ضابطہ و قانون کے باوجود یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ انسان ان موارد کی نسبت ایک طرح علمی شبہہ رکھتا

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔٢۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔

٣۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔

۱۵۲

ہے اور ایک حد تک ان موارد میں حیا کرنے کی تائید کے لئے توجیہات گڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اس کے خیالات و تصورات باطل ہیں۔ وہ بعض موارد اور مقامات جہاں حیا نہیں کرنی چاہیے، درج ذیل ہیں:

١۔ حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا: پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیا کی وجہ سے ترک نہ کرو ''۔(١)

٢۔تحصیل علم سے حیاکرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے''۔(٢)

٣۔ حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیا نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا''۔(٣)

٤۔ مہمانوںکی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے''۔(٤)

٥۔دوسروں کا احترام کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے: منجملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے''۔(٥)

٦۔ نہ جاننے کے اعتراف سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں کہ ''میں نہیں جانتا'' شرم نہیں کرنی چاہیے''۔(٦)

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔ ٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔٥۔ غرر الحکم۔

٦۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔

۱۵۳

٧۔ خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا:

امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے، اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو ''۔(١)

٨۔ معمولی بخشش کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی کمتر ہے۔''(٢)

٩۔اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: ''یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو ؟ خدا کی قسم، اگر اہل مدینہ نہ ہوتے (کہ ملامت اور نکتہ چینی کریں) تو میں بھی اس بات کو دوست رکھتا کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں''۔(٣)

٤۔ عفّت

نفسانی صفات میںایک دوسر ی روکنے والی صفت عفّت اور پاکدامنی ہے۔ '' عفّت '' لغت میں نا پسند اور قبیح امر کے انجام دینے سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے۔(٤) علم اخلاق کی اصطلاح میں ''عفت'' نام ہے اس نفسانی صفت کا جو انسان پر شہوت کے غلبہ اور تسلّط سے روکتی ہے۔(٥) شہوت سے مراد اس کا عام مفہوم ہے کہ جو شکم وخوراک کی شہوت، جنسی شہوت، بات کرنے کی شہوت اور نظر کرنے کی شہوت اور تمام غریزوں (شہوتوں) کو شامل ہوتی ہے، حقیقت عفّت یہ ہے کہ شہوتوںاورغریزوں سے استفادہ کی کیفیت میں ہمیشہ شہوتوں کی جگہ عقل و شرع کا غلبہ اور تسّلط ہو۔ اس طرح شہوتوں سے منظّم ومعیّن عقلی وشرعی معیاروں کے مطابق بہرہ مند ہونے میں افراط و تفریط نہیں ہوگی۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔٢۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔٤۔ لسان العرب، ج ٩، ص ٢٥٣ ،٢٥٤ ؛ جوہری ،صحاح اللغة، ج ٤، ص ١٤٠٥، ١٤٠٦ ؛ نہایہ، ج ٣، ص ٢٦٤۔٥۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن ص ٣٥١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٥ ۔

۱۵۴

الف۔ عفّت کے اقسام:

عفّت کے لئے بیان شدہ عام مفہوم کے مطابق عفّت کے مختلف ابعاد وانواع پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

١۔ عفّت شکم:

اہم ترین شہوتوںمیں سے ایک اہم کھانے کی شہوت و خواہش ہے۔ کھانے پینے کے غریزہ سے معقول ومشروع (جائز ) استفادہ کو عفّت شکم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس عفّت کے متعلق قرآن میں اس آیت کی طرف اشارہ کیاجا سکتا ہے کہ فرماتا ہے: ''تم میں جو شخص مالداراور تونگر ہے وہ (یتیموں کا مال لینے سے) پرہیز کرے اور جو محتاج اور تہی دست ہے تو اسے عرف کے مطابق ( بقدر مناسب) کھا نا چاہیے''۔(١) اس عفّت کی تفصیلی بحث اقتصادی اخلاق میںکی جاتی ہے۔

٢۔ دامن کی عفت: جنسی غریزہ قوی ترین شہوتوں میں سے ایک ہے اسے جائز ومشروع استعمال میں محدود کرنا اور محرمات کی حد تک پہونچنے سے روکنا ''عفّت دامن '' یا پاکدامنی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اسی معنی میں عفّت کا استعمال درج ذیل آیت میں ہوا ہے: ''جن لوگوںمیں نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے انھیں چاہیے کہ پاکدامنی اور عفّت سے کام لیں یہاں تک کہ خدا انھیںاپنے فضل سے بے نیاز کردے ''۔(٢)

اس عفّت کی بحث تفصیلی طور پراخلاق جنسی میں بیان کی جائے گی ۔اگر چہ اپنے آپ کو شہوتوںکے مقابل بچانا شکم اور دامن کی شہوت میں منحصر نہیں ہے، بلکہ تمام شہوتوں کو شامل ہے لیکن چونکہ یہ دونوں ان سب کی رئیس ہیں اور اخلاق کی مشہور کتابوں میں صرف انھیںدو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حتیٰ بعض علماء نے ان دو کو عفّت کی تعریف میں بھی شامل کیا ہے،(٣) لہٰذا انھیں دو قسموں کے ذکر پر اکتفا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ان دو قسموں میں سے ہر ایک، ایک خاص عنوان سے مربوط ہے لہٰذا ہر ایک کی اپنے سے متعلق عنوان میں مفصل بحث کی جائے گی، یہا ں پر ان کے بعض کلی اور مشترک احکام کا ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ نسائ، آیت ٦، اسیطرح سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ سورئہ نور، آیت ٣٣؛ اسی طرح ملاحظہ ہو: آیت ٦٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٥۔

۱۵۵

ب۔عفّت کی اہمیت:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' سب سے افضل عبادت عفّت ہے '' ۔(١) اور حضرت امام محمد باقر ـ سے منقول ہے: ''خدا کے نزدیک بطن اور دامن (شرمگاہ) کی عفّت سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے ''۔(٢) اور جب کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نیک اعمال انجام دینے میں ضعیف اور کمزور ہوں اور کثرت سے نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن امید کرتا ہوںکہ صرف مال حلال کھاؤں اور حلال طریقہ سے نکاح کروں تو حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا: '' عفّت بطن ودامن سے افضل کون سا جہاد ہے ؟''(٣) رسول خدا اپنی امت کے سلسلہ میں بے عفتی اور ناپاکی کے بارے میںاپنی پریشانی کا اظہار یوں کرتے ہیں: ''میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیز کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں معرفت کے بعد گمراہی، گمراہ کن فتنے اور شہوت بطن ودامن''۔(٤)

ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''میری امت کے جہنم میں جانے کا زیادہ سبب شہوت شکم ودامن کی پیروی کرناہے'' ۔(٥)

ج۔ عفّت کے اسباب:

شکم اور دامن کی عفّت میں سے ہرایک کے پیدا ہونے کے اسباب اقتصادی اور جنسی اخلاق سے مربوط بحث اور اس کے مانند دوسری بحثوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن روایت میں عام عوامل واسباب جیسے عقل، ایمان، تقویٰ حیا و مروت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اختصار کی رعایت اور ایک حد تک ان کی علت کے واضح ہونے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہیں۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٧٩ ،ح ٣۔

٢۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٨ ۔ ص ٧٩، ح ١۔

٣۔ جامع السعادات، ص ٧٩، ح ٤ ۔

٤۔ جامع السعادات، ح ٦ ۔

٥۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٧۔

۱۵۶

د۔ عفّت کے موانع:

عفّت کے عام موانع میں ''شرارت '' اور ''خمود '' ( سستی اور سہل انگاری ) ہے، ان دونوں کی مختصرتوضیح درج ذیل ہے:

١۔ شرارت:

شرارت سے مراد اپنے عام مفہوم کے لحاظ سے شہوانی قوتوں کی پیروی کرنا ہے اس چیز میں جو وہ طلب کرتی ہیں،(١) خواہ وہ شہوت شکم ہو یا شہوت مال دوستی یا اس کے مانند کسی دوسری چیز کی شہوت ۔ شرارت یعنی جنسی لذتوں میں شدید حرص کا ہونا اور ان میں زیادتی کا پایا جانا۔(٢) حضرت علی ـ نے شرارت کی مذمت میں فرمایا ہے: '' شرارت تمام عیوب کی رئیس ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ کا بیان اس سلسلہ میں یہ ہے: کہیںایسا نہ ہو کہ جو کچھ خدا نے تم پر حرام کیا ہے اس کا تمہارا نفس حریص ہوجائے کیونکہ جو شخص بھی دنیا میں حرام خدا وندی کا مرتکب ہوگا خداوند سبحان اسے جنت سے اور اس کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم کردے گا ''۔(٤)

٢۔ خمود:

''شرارت'' کے مقابل ہے یعنی ضروری خوراک کی فراہمی میں کاہلی اور کوتاہی کرنا اور جنسی غریزہ سے ضروری استفادہ کرنے میں سستی اور کوتاہی کرنا اس طرح سے کہ صحت و سلامتی، خاندان کی تباہی اور نسل کے منقطع ہونے کا سبب بن جائے ۔ یہ واضح ہے کہ یہ حالت غریزوں اور شہوتوں سے استفادہ میں تفریط اور کوتاہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔(٥) ''خمود'' حکمت خلقت کے مخالف اور نسل انسان کے استمرار و دوام نیز اس کی بقا اور مصلحت کے مخالف ہے، اس کے علاوہ اسلامی اخلاق میں غرائز وشہوات سے جائز استفادہ کی جوکثرت سے تاکید پائی جاتی ہے اور جو کچھ رہبانیت اور دنیا سے کنارہ کشی کی مذمت کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے وہ سب '' خمود '' کی قباحت کو بیان کرتے ہیں ۔اس امر کی تفصیلی بحث '' اخلاق جنسی '' میں ہوگی۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٣، ص ٥٠٦۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٤۔ ٣۔ ؛ کلینی، کافی، ج٨، ص ٩ ١، ح٤ ؛ نہج البلاغہ، حکمت، ٣٧١۔٤۔ کلینی، کافی ، ج٨، ص ٤، ح ١۔٥۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٣۔

۱۵۷

ہ۔ عفّت کے فوائد :

روایات میں عفّت کے متعدد دنیوی اور اخروی فوائد بیان کئے گئے ہیں جیسے پستیوں سے نفس کی حفاظت کرنا، شہوتوں کو کمزور بنانا اور عیوب کا پوشیدہ ہونا کہ یہاں اختصار کے پیش نظررسول خدا کے ایک کلام کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کررہے ہیں۔

عفّت کے علائم یہ ہیں: جو کچھ ہے اس پر راضی ہونا، اپنے کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا، نیکیوں سے استفادہ کرنا، آسائش اور راحت میں، اپنے ما تحتوں اور مسکینوں کی دل جوئی، تواضع، یا د آوری ( غفلت کے مقابل )، فکر، جو د و بخشش اور سخاوت کرنا۔(١)

٥۔ صبر

نفسانی صفات میں سب سے عام اور اہم روکنے والی صفت ''صبر '' ہے۔ ''صبر '' کے معنی عربی لغت میں حبس کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے ہیں۔(٢) اور بعض نے اسے بے تابی اور بے قراری سے نفس کو باز رکھنے سے تعبیر کیا ہے۔(٣) اخلاقی اصطلاح میں صبرنام ہے نفس کو اس چیز کے انجام دینے اور آمادہ کرنے جس میں عقل و شرع کا اقتضاء ہونیز اس چیز سے روکنا جسے عقل وشرع منع کرتے ہیں۔(٤) مذکورہ تعریفوں کے پیش نظر ''صبر '' ایک ایسی عام اور روکنے والی نفسانی صفت ہے کہ جس میں دو اہم جہت پائے جاتے ہیں : صبر ایک طرف انسان کی غریزی اور نفسانی خواہش اور میلان کوحبس اور دائرئہ عقل وشرع میںمحدود کرتا ہے۔ دوسری طرف نفس کو عقل وشرع کے مقابل ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے سے روکتا ہے اور اسے اس بات پر ابھارتا ہے کہ اپنے کو فرائض الہی کی پابندی کے لئے زحمت اٹھانے اور دشواریوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے، البتہ اگر یہ حالت انسان میں سہولت و آسانی سے پیدا ہوجائے تو اسے ''صبر'' اور اگر انسان زحمت ومشقت میں خود کو مبتلا کرکے اس پر آمادہ کرے تو اسے '' تصبر '' (زبردستی صبر کرنا )کہتے ہیں۔

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص٢٠۔

٢۔ زبیدی، تاج العروس، ج ٧، ص ٧١ ؛ راغب اصفہانی، مفردات، ٤٧٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٤، ص ٤٣٨۔

٣۔ جوہری، صحاح اللغة، ج ٢، ص ٧٠٦۔ طریحی، مجمع البحرین، ج ٢، ص ١٠٠٤۔

٤۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٤٧٤۔

۱۵۸

الف۔ صبر کی قسمیں:

صبر کے لئے جو عام اور وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق علماء اخلاق نے متعدد جہات سے صبر کے لئے مختلف اقسام و انواع بیان کی ہیں کہ ان میں سے اہم ترین اقسام کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

١۔ مفہوم کے لحاظ سے:

مذکورہ تعریفوں کے مطابق کبھی صبر سے مراد نفسانی جاذبوں اور دافعوں میں ہر قسم کی محدودیت کا ایجاد کرنا ہے کہ جو ایک عام مفہوم ہے اور کبھی اس سے مرادناگوار امور کی نسبت عدم رضایت اور بے تابی کے اظہار سے نفس کو روکنا ہے۔ اس لحاظ سے صبر کے دو مفہوم ہیں کہ کبھی خاص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

٢۔ موضوع کے لحاظ سے:

صبر اپنے عام مفہوم میں موضوع کے اعتبار سے متعدد انواع کا حامل ہے۔

کبھی صبر سختیوں اور مصیبتوںپر ہوتا ہے جو کہ ان سختیوں اور مصیبتوں کے مقابل مضطرب وپریشان نہ ہونا اور سعہ صدر کی حفاظت ہے، اسے '' مکروہات پر صبر '' کہتے ہیں اور اس کے مقابل ''جزع '' اور بے قرار ی ہے صبر کی رائج قسم یہی ہے۔ جنگ کی دشواریوں پر صبر کرنا '' شجاعت'' ہے اور اس کے مقابل '' جبن '' بزدلی اور خوف ہے۔ اور کبھی صبر غیض و غضب کی سرکشی اور طغیانی کے مقابل ہے کہ اسے '' حلم '' اور '' کظم غیظ '' کہتے ہیں۔ کبھی صبر عبادت کے انجام دینے میں ہے کہ اس کے مقابل ''فسق '' ہے جو شرعی عبادت کی پابندی نہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اور کبھی صبر شکم کی شہوت اور جنسی غریزہ کے مقابل ہے کہ جسے '' عفّت ''کہتے ہیں۔ اور دنیا طلبی اور زیادہ طلبی کے مقابل ہے جو کہ ''زہد '' ہے اور اس کے مقابل '' حرص '' ہے۔

۱۵۹

اور کبھی صبر اسرار کے کتمان پر ہوتا ہے کہ جسے راز داری کہتے ہیں۔(١)

٣۔ حکم کے لحاظ سے:

صبر اپنے تکلیفی حکم کے اعتبارسے پانچ قسم میں تقسیم ہوتاہے: واجب صبرجو کہ حرام شہوات ومیلانات کے مقابل ہے۔ اور مستحب صبر مستحبات کے انجام دینے پر ہونے والی دشواریوں کے مقابل ہے۔ حرام صبر جو بعض اذیت و آزار پر ہے جیسے انسان کے مال، جان اور ناموس پر دوسروں کے تجاوز کرنے پر صبر کرنا۔ صبر ناگوار اور مکروہ امور کے مقابل جیسے عاشور کے دن روزہ رکھنے کی سختی پر صبر کہ جو مکروہ ہے ان موارد کے علاوہ مباح ہے، لہٰذا ہمیشہ صبر پسندیدہ اور محبوب شیٔ نہیں ہے، بلکہ کبھی حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوجاتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص٢٨٠، ٢٨١؛ رسول اکرم نے ایک حدیث میں صبر کی تین قسم بیان کی ہے: مصیبت کے وقت صبر، طاعت و بندگی پر صبر، اور معصیت و گناہ پر صبر۔ کلینی، اصو ل کافی، ج ٢، ص ٩١، ح ١٥۔ اسی طرح بعض علماء اخلاق نے صبر کو اس وجہ سے دو قسم پر تقسیم کیا ہے متاع دنیا (سراء ) پر صبر اور بلا (ضراء ) پر صبر۔ ملاحظہ ہو نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٩٣، ٢٩٤۔

٢۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٨٥۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

جار و مجرور( على اللہ) كو مقدم كرنا حصر پر دلالت كرتا ہے_

۲۴_ حضرت موسيعليه‌السلام كے خوف خدا ركھنے والے ساتھيوں (يوشع اور كالب )نے بنى اسرائيل كو مقدس سرزمين پر حملہ آور اور جابروں سے نبرد آزماہونے كيلئے آمادہ كرنے كى خاطر بہت زيادہ تبليغ كيا_قال رجلان ان كنتم مؤمنين

۲۵_( حضرت موسيعليه‌السلام كے چچازاد بھائيوں ) يوشع بن نون اور كالب بن يافنا نے بنى اسرائيل كو مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كى دعوت دي_قال رجلان ادخلوا عليهم الباب مذكورہ آيہ شريفہ كى وضاحت ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے:احدهما يوشع بن نون والآخر كالب بن يافنا، قال: و هما ابنا عمه (۱) ايك يوشع بن نون اور دوسرے كالب بن يافنا تھے اوريہ دونوں حضرت موسيعليه‌السلام كے چچازاد بھائي تھے_

اطاعت:اطاعت كے اسباب ۸

اللہ تعالى:اللہ تعالى كى نعمتيں ۶ ،۷

انبياء:انبياء كى اطاعت ۸

ايمان:ايمان كے اثرات ۲۳

باطل:باطل پر فتح ۱۷

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كى تاريخ ۱، ۱۰، ۱۲، ۲۴، ۲۵;بنى اسرائيل كى دعوت ۲۴;بنى اسرائيل كى صفات ۱۰، ۱۱;بنى اسرائيل كى كاميابى ۱۶;بنى اسرائيل كى گستاخى ۱۰;بنى اسرائيل كى نافرمانى ۱۰، ۱۱;بنى اسرائيل كى ھٹ دھرمى ۱۱;بنى اسرائيل كے مؤمنين ۲

تحريك :تحريك كے علل و اسباب ۵

توكل:توكل كا پيش خيمہ۲۳;توكل كى اہميت ۲۱، ۲۲;خدا پر توكل ۱۹، ۲۰، ۲۱

جنگ:جنگ كى دعوت ۱۲;جنگ ميں منصوبہ بندى ا ۱، ۱۴، ۱۶، ۱۸

جہاد:

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۳۰۳ ح ۶۸; نورالثقلين ج۱ ص ۶۰۶ ح ۱۱۳_

۳۶۱

جہاد كى اہميت ۲۱

حضرت موسيعليه‌السلام :حضرت موسيعليه‌السلام كى داستان ۱;حضرت موسيعليه‌السلام كى نافرمانى ۱۱;حضرت موسيعليه‌السلام كے اوامر ۵;حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھى ۱، ۲، ۳، ۴، ۲۴

حق:حق كى فتح۱۷

خوف:خدا كا خوف ۴،۵، ۸، ۹،۲۴; خوف كے اثرات ۵، ۸، ۹ ; خوف كے موانع ۹;دشمنوں كا خوف ۱۲، ۱۳

دشمن:دشمن پر فتح ۲۰; دشمن سے مقابلہ كرنا ۱۳;دشمن كى طاقت ۱۳

دليري:دليرى كا پيش خيمہ۹

ذمہ داري:ذمہ دارى كا پيش خيمہ ۵، ۷

روايت: ۲۵

طرز عمل:طرز عمل كى اساس و بنياد ۹، ۲۳

ظالمين:ظالمين پر فتح۱۶; ظالمين سے جنگ ۳; ظالمين سے مقابلہ ۱۱، ۱۴، ۲۴

كالب بن يافنا: ۴، ۵، ۱۴، ۱۵، ۲۵كالب بن يافنا كى تبليغ ۲۴;كالب بن يافنا كى دعوت ۱۲، ۱۹;كالب بن يافنا كے فضائل ۶

كام:كام كے آداب ۲۲

كاميابي:كاميابى كى شرائط ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۲۰

مبارزت:مبارزت كا طريقہ ۱۸

مقدس سرزمين: ۱، ۳، ۱۲، ۲۴، ۲۵مقدس سرزمين كا فتح كرنا ۱۴، ۱۵

مومنين:مومنين كى ذمہ دارى ۱۸نافرماني:نافرمانى كا پيش خيمہ ۱۱

نعمت سے بہرہ مند لوگ: ۶، ۲۱

يوشع بن نون: ۴، ۵، ۱۴، ۱۵، ۲۵يوشع بن نون اور بنى اسرائيل ۱۹;يوشع بن نون كى تبليغ ۲۴;يوشع بن نون كى دعوت ۱۲، ۱۹ ; يوشع بن نون كے فضائل۶

۳۶۲

آیت ۲۴

( قَالُواْ يَا مُوسَى إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَداً مَّا دَامُواْ فِيهَا فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ موسي ہم ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے جب تك وہ لوگ وہاں ہيں _ آپ اپنے پروردگار كے ساتھ جاكر جنگ كيجئے ہم يہاں بيٹھے ہوئے ہيں _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام كے حكم كے باوجود بنى اسرائيل اس بات پر مصر اور بضد تھے كہ مقدس سرزمين كے جابروں سے نبرد آزمائي سے اجتناب كيا جائے_قالوا يا موسي انا لن ندخلها ابداً

۲_ قوم موسي( بنى اسرائيل )مقدس سرزمين پر قابض طاقتور حكمرانوں كا آمنا سامنا كرنے اور ان كے ساتھ نبرد آزما ہونے سے ڈرتى تھي_قالوا يا موسي انا لن ندخلها ابداً

۳_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم نے يوشع اور كالب كى طرف سے جابروں كا مقابلہ كرنے كيلئے حضرت موسي كا ساتھ دينے اور ان كى مدد كى اپيل سے بے اعتبائي كي_ادخلوا عليهم الباب قالوا يا موسي انا لن ندخلها ابداً

يوشع اور كالب كى باتيں سننے كے بعد بنى اسرائيل حضرت موسيعليه‌السلام سے مخاطب ہوئے تا كہ ان دو كى باتوں سے بے اعتنائي اور بے توجہى كا اظہار كريں _

۴_ بنى اسرائيل نے مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كيلئے يہ شرط عائد كى كہ پہلے وہاں سے جابروں كا انخلاء ہوجائے_

انا لن ندخلها ابداً ما داموا فيها

۵_ بنى اسرائيل مقابلہ كيے بغير مقدس سرزمين كو فتح كرنے كى بے جا توقع ركھتے تھے_انا لن ندخلها ابداً ما داموا فيها

۶_ سعى و كوشش كے بغير كاميابى كى توقع ركھنا ايك بيجا اور غير معقول توقع ہے_انا لن ندخلها ابدا ما داموا فيها

۷_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كے لوگ ہٹ دھرم، ضدي،

۳۶۳

نصيحت قبول نہ كرنے والے اور خدا كى نعمتوں كے بدلے ميں ناشكرے تھے_اذكروا نعمة الله عليكم قالوا يا موسي انا لن ندخلها ابدا ماداموا فيها

۸_ بنى اسرائيل گستاخانہ انداز ميں حضرت موسيعليه‌السلام اور ان كے خدا سے مطالبہ كرتے تھے كہ خدا وند اور حضرت موسي جاكرمقدس سرزمين كے جابروں كے ساتھ لڑائي اور نبرد آزمائي كريں _قالوا فاذهب انت و ربك فقاتلا

۹_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم خدا كى شان ميں گستاخى كرتى تھي_فاذهب انت و ربك''ربنا'' كى بجائے ''ربك'' كہنا قوم حضرت موسيعليه‌السلام كى جسارت كى حكايت كرتا ہے_

۱۰_ قوم موسيعليه‌السلام كے غلط نظريہ كے مطابق خداوند متعال جسم و جسمانيات ركھتا ہے_فاذهب انت و ربك فقاتلاً

حضرت موسيعليه‌السلام اور خداوند متعال كو ايك ہى طرح سے جانے اور لڑنے كا كہنا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ وہ خدا كو حضرت موسيعليه‌السلام جيسا ايك موجود خيال كرتے تھے_

۱۱_ بنى اسرائيل نبرد آزمائي سے عليحدگى كا اعلان كركے حضرت موسيعليه‌السلام كے معجزے اور مقدس سرزمين كو فتح كرنے كيلئے خدا كى خالص امداد كے خواہاں تھے_اذهب انت و ربك فقاتلاً بنى اسرائيل كى آنكھوں كے سامنے فرعونيوں كى نابودى كيلئے خدا كا مدد كرنا اور حضرت موسي كا معجزے دكھانا ہوسكتا ہے اس احتمال كى تائيد كرے ''اذھب ...'' سے ان كى مراد يہ توقع تھى كہ جابروں كى نابودى كيلئے خدا اس طرح مدد كرے اور حضرت موسيعليه‌السلام معجزہ دكھائيں كہ ان سے جنگ و جہاد كى ضرورت ہى نہ پڑے_

۱۲_ حضرت موسي كى قوم نے خدا كى مدد، اس كى شرائط اور اس كى علل و اسباب سے غلط مطلب اخذ كيا_

فاذهب انت و ربك فقاتلاً

۱۳_ بنى اسرائيل جابر و ظالموں كے خلاف نبرد آزما ہونے كى بجائے عليحدگى اختيار كركے گھر ميں آرام اور مزے سے بيٹھنے پر بضد تھے_انا هنا قاعدون

۱۴_ خدا پر توكل; اس كى راہ ميں جہاد سے كنارہ كشي، سعى و كوشش سے اجتناب اور شرعى ذمہ داريوں سے لاپروائي برتنے كے ساتھ ہم آہنگ اور سازگار نہيں ہے_و علي الله فتوكلوا فاذهب انت و ربك فقاتلا انا ههنا قاعدون

حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كا گھر ميں بيٹھے رہنا اور ميدان جنگ خداوند متعال وحضرت موسيعليه‌السلام كے حوالے كردينا اس نصيحت كے بالكل برعكس ہے جو

۳۶۴

يوشع اور كالب نے خدا پر توكل كرنے كے بارے ميں كى تھى اور اس سے معلوم ہوتا ہے كہ فرائض الہى سے كنارہ كشى توكل كے ساتھ ہم آہنگ اور سازگار نہيں ہے_

آرزو:ناپسنديدہ آرزو ۶

اللہ تعالى:اللہ تعالى كى توہين ۹;اللہ تعالى كى مدد كى درخواست ۱۱;اللہ تعالى كى مدد كى شرائط ۱۲;اللہ تعالى كى نافرمانى ۱۴;اللہ تعالى كى نعمتيں ۷

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كا توہين كرنا ۹;بنى اسرائيل كا خوف ۲;بنى اسرائيل كا عقيدہ ۱۰، ۱۲;بنى اسرائيل كا كفران نعمت ۷;بنى اسرائيل كى تاريخ ۲، ۴، ۸، ۱۳;بنى اسرائيل كى صفات ۷; بنى اسرائيل كى گستاخى ۸;بنى اسرائيل كى نافرمانى ۱، ۳، ۱۱; بنى اسرائيل كى نظر ميں خدا۱۰;بنى اسرائيل كى ہٹ دھرمى ۷; بنى اسرائيل كے تقاضے ۴، ۵، ۸، ۱۱

توقعات:ناپسنديدہ توقعات ۵

توكل:خدا پر توكل۱۴

جنگ:جنگ سے فرار ۱۳

جہاد:جہاد ميں حصہ نہ لينا ۱۴

خوف:جنگ كا خوف ۲

ظالمين:ظالمين سے مقابلہ ۱، ۳، ۱۳

عقيدہ:باطل عقيدہ ۱۲

كالب بن يافنا:كالب بن يافنا كى دعوت ۳

كاميابي:كاميابى كى شرائط ۵، ۶

معجزہ:معجزہ كى درخواست ۱۱مقدس سرزمين: ۲، ۴

مقدس سرزمين كى فتح ۵، ۱۱; مقدس سرزمين كے ظالمين ۴، ۸

يوشع بن نون:يوشع بن نون كى دعوت ۳

۳۶۵

آیت ۲۵

( قَالَ رَبِّ إِنِّي لا أَمْلِكُ إِلاَّ نَفْسِي وَأَخِي فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ )

موسي نے كہا پروردگار ميں صرف اپنى ذات اور اپنے بھائي كااختيار ركھتا ہوں لہذا ہمارے اور اس فاسق قوم كے درميان جدائي پيداكردے _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام نے بنى اسرائيل كو جابر و ظالم افراد كا مقابلہ كرنے كيلئے آمادہ نہ كر سكنے پر خدا كى بارگاہ ميں معذرت طلب كي_قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي

۲_ حضرت موسيعليه‌السلام كو بنى اسرائيل كى جانب سے مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كى غرض سے تيار ہوكر ظالموں كے ساتھ مقابلہ كرنے كے سلسلے ميں مايوسى اور نااميدى _قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي

۳_ حضرت موسيعليه‌السلام نے خدا كى بارگاہ ميں بنى اسرائيل كى طرف سے ظالموں كا مقابلہ كرنے سے سركشى كرنے پر شكايت كي_قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي

۴_ تمام بنى اسرائيل ميں سے حضرت موسيعليه‌السلام كے مطيع ومددگار اور قابل اعتماد ساتھى صرف انكے بھائي (ہارون) تھے_قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے جب كہ ''اخي'' كا عطف ''نفسي'' پر ہو_

۵_ حضرت موسيعليه‌السلام كى طرح حضرت ہارونعليه‌السلام كو بھى مقدس سرزمين فتح كرنے كيلئے بنى اسرائيل كو آمادہ كرنے كا حكم ديا گيا تھا_قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي آيت نمبر ۲۳'' و قال رجلان ...'' اس بات كى علامت ہے كہ وہ دو مرد بھى حضرت ہارون كى مانند حضرت موسي كے مطيع اور فرمانبردار تھے اور يہ حقيقت اس جملہ ''لا املك الا نفسى و اخي'' كى اس تفسير كے ساتھ ہم آہنگ نہيں ہے

۳۶۶

كہ مجھے صرف اپنا اور اپنے بھائي كا اختيار حاصل ہے اور بنى اسرائيل ميں سے صرف ہارون ميرا مطيع و فرمانبردار ہے، پس''اخي'' ايسا مبتداء ہے جس كى خبر محذوف ہے، يعنى (و اخى لا يملك الا نفسہ) كہ ميرا بھائي صرف اپنا اختيار ركھتا ہے، اور اپنا اور اپنے بھائي كا نام لينے كى وجہ يہ ہے كہ بنى اسرائيل كو آمادہ كرنے كى ذمہ دارى حضرت ہارونعليه‌السلام كے كاندھوں پر بھى ڈالى گئي تھي_

۶_ تمام انسانوں حتى انبيائے خدا كو بھى دوسروں پر نہيں ، بلكہ صرف اپنى ذات پر اختيار حاصل ہے_قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي

۷_ حضرت موسيعليه‌السلام نے پروردگار كى بارگاہ ميں اپنے اور اپنے بھائي ہارونعليه‌السلام كيلئے بنى اسرائيل سے جدائي كى درخواست اور دعا كي_فافرق بيننا و بين القوم الفاسقين

۸_ خداوند متعال كے نيك بندوں كيلئے فاسقوں كے ساتھ زندگى گذارنا بہت كٹھن اور ناپسنديدہ ہے_فافرق بيننا و بين القوم الفاسقين

۹_ حضرت موسيعليه‌السلام نے يہ دعا كركے اپنى قوم پر نفرين كى كہ وہ ميرے اور ميرے بھائي ہارونعليه‌السلام كے وجود سے فيض ياب ہونے سے محروم رہيں _فافرق بيننا و بين القوم الفاسقين

۱۰_ بنى اسرائيل اپنى ہٹ دھرمى اور حضرت موسيعليه‌السلام كے فرامين سے منہ موڑنے كى وجہ سے ايك فاسق قوم تھي_

و بين القوم الفاسقين

۱۱_ حكم جہاد كے مقابلے ميں سركشى كرنا گناہ ہے_و بين القوم الفاسقين

۱۲_ بنى اسرائيل كى سركشى اور گناہ حضرت موسيعليه‌السلام كى جانب سے ان پر نفرين كرنے كا سبب بنا_

فافرق بيننا و بين القوم الفاسقين

۱۳_ خدا كى ربوبيت اس سے دعا اور التجاء كا پيش خيمہ ہے_قال رب فافرق بيننا و بين القوم الفاسقين

اقدار:منفى اقدار ۸

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى ربوبيت ۱۳

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى ذمہ دارى كى حدود ۶

۳۶۷

انسان:انسان كى ذمہ دارى كا دائرہ ۶

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل اور موسيعليه‌السلام ۱۰; بنى اسرائيل پر نفرين۹، ۱۲; بنى اسرائيل كا فسق ۱۰;بنى اسرائيل كا گناہ ۱۲;بنى اسرائيل كى تاريخ ۳، ۵; بنى اسرائيل كى فوجى تيارى ۱ ، ۵; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۳، ۱۰، ۱۲;بنى اسرائيل كى ہٹ دھرمى ۱۰

جہاد:جہاد ترك كرنا ۱۱

حضرت موسيعليه‌السلام :حضرت موسيعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۲، ۷، ۹، ۱۲; حضرت موسيعليه‌السلام اور حضرت ہارونعليه‌السلام ۴;حضرت موسيعليه‌السلام كاقصہ ۱، ۳، ۷، ۹;حضرت موسيعليه‌السلام كى دعا ۷; حضرت موسيعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵ ;حضرت موسيعليه‌السلام كى شكايت ۳;حضرت موسيعليه‌السلام كى طرف سے نفرين ۹، ۱۲; حضرت موسيعليه‌السلام كى مايوسى ۲; حضرت موسيعليه‌السلام كى معذرت خواہى ۱;حضرت موسيعليه‌السلام كے حكم كى نافرمانى ۱۰; حضرت موسيعليه‌السلام كے ساتھى ۴

حضرت ہارونعليه‌السلام :حضرت ہارونعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۷، ۹; حضرت ہارونعليه‌السلام كا مطيع ہونا۴; حضرت ہارونعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵

دعا:دعا كا پيش خيمہ ۱۳

صالحين: ۸

ظالمين:ظالمين كے ساتھ مبارزت۱، ۲، ۳

فاسقين: ۱۰فاسقين كے ساتھ زندگى گذارنا ۸

گناہ:گناہ كے اثرات ۱۲;گناہ كے موارد ۱۱

معاشرت:ناپسنديدہ معاشرت ۸

مقدس سرزمين:مقدس سرزمين كى فتح ۲، ۵مقدس مقامات: ۵

نافرماني:نافرمانى كے اثرات ۱۲

نفرين:نفرين كے اسباب ۱۲

۳۶۸

آیت ۱۹

( يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُواْ مَا جَاءنَا مِن بَشِيرٍ وَلاَ نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ )

اے اہل كتاب تمہارے پاس رسولوں كے ايك وقفہ كے بعد ہمارا يہ رسول آيا ہے كہ تم يہ نہ كہو كہ ہمارے پاس كوئي بشير و نذير نہيں آيا تھا تو لو يہ بشيرو نذير آگيا ہے اور خدا ہرشے پر قادر ہے _

۱_ خداوند متعال نے تمام اہل كتاب كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے اور اسلام قبول كرنے كى دعوت دى ہے_

يا اهل الكتاب قد جاء كم رسولنا

۲_ اہل كتاب (يہود و نصاري )بعثت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے منتظر تھے_يا اهل الكتاب قد جاء كم رسولنا

كلمہ ''قد'' ہوسكتا ہے اس فعل كے حصول كےانتظار پر دلالت كررہاہو جس پر يہ داخل ہوتا ہے جيسے ''قد قامت الصلاة''

۳_ اہل كتاب رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دائرہ كار ميں آتے ہيں اور اسے قبول كرنے كے پابند ہيں _

يا اهل الكتاب قدجاء كم فقد جاء كم بشير و نذير

۴_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اہم فريضہ احكام و معارف الہى كى توضيح

۳۶۹

و تشريح ہے_قد جائكم رسولنا يبين لكم مذكورہ بالا مطلب ميں احكام اور معارف دين كو ''يبين'' كيلئے مفعول مقدرفرض كيا گيا ہے_

۵_ احكام و معارف الہى توضيح و تشريح كے محتاج ہيں _يبين لكم فعل ''يبين'' اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ دينى احكام اور معارف كو جہاں لوگوں تك پہنچانے اورابلاغ كى ضرورت ہے، وہاں ان كى توضيح و تشريح كى بھى ضرورت ہے، لہذا يہ نہيں فرمايا: ''يبلغ'' يعنى وہ تم تك پہنچائے گا_

۶_ سعادت و شقاوت اور خوشبختى و بدبختى كى راہوں كى توضيح و تشريح رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہداف ميں سے ايك ہے_قد جاء كم رسولنا يبين لكم ممكن ہے ''يبين'' كا مفعول وہ مفہوم ہو جو ''بشير و نذير'' سے حاصل ہوتا ہے، يعنى سعادت و شقاوت_

۷_ يہود و نصاري كے ہاتھوں مخفى ركھے گئے حقائق و معارف كو روشن و واضح كرنا رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہداف ميں سے ايك ہے_قد جاء كم رسولنا يبين يہ اس بناپر ہے كہ''يبين'' كا محذوف مفعول وہ حقائق ہوں جنہيں علمائے اہل كتاب نے چھپائے ركھا اور آيت نمبر ۱۵ اس مطلب كا قرينہ ہے_

۸_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور گذشتہ انبياء و رسل كى بعثت ميں طولانى فاصلہ ہے_على فترة من الرسل

''فترة'' سكون و انقطاع كے معنى ميں ہے، لھذا ''فترة من الرسل'' كا معنى انقطاع پيغمبرى ہے اور ''فترة'' كو نكرہ ذكر كرنا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ يہ انقطاع كافى لمبا عرصہ جارى رہا_

۹_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت خدا كى طرف سے اہل كتاب پر اتمام حجت تھي_ان تقولوا ما جاء نا من بشير و لا نذير فقد جاء كم بشير و نذير ''ان تقولوا'' سے پہلے ''لام'' تعليل اور ''لا'' نافيہ محذوف ہے، يعنى لئلا تقولوا_

۱۰_ انبياءعليه‌السلام كى بعثت خدا كى جانب سے لوگوں پر اتمام حجت ہے_ان تقولوا ما جاء نا من بشير و لا نذير

اگر چہ آيہ شريفہ ميں مخاطب اہل كتاب ہيں ، ليكن يقيناً رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ذريعے سے اتمام حجت كے سلسلے ميں اہل كتاب اور ديگر لوگوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_

۳۷۰

۱۱_ بشارت( فرمانبردار لوگوں كو خوشخبرى دينا )اور انذار (گناہگاروں كو ڈرانا )انبيائے خدا كى رسالت كى روح اور ان كى تبليغ كا طريقہ كار ہے_فقد جاء كم بشير و نذير

۱۲_ جاہل قاصر كا عذر قابل قبول ہے_ان تقولوا ما جاء نا من بشير و لا نذير چونكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا بھيجا جانا عذر پيش كرنے كى راہ ميں ركاوٹ شمار كيا گيا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر يہ انجام نہ ديا جاتا تو عذر باقى رہتا_

۱۳_ خداوند متعال قادر مطلق ہے اور ہر كام انجام دينے كى قدرت ركھتا ہے_و الله على كل شيء قدير

۱۴_ انبيائے خدا كى بعثت خدا كى قدرت مطلقہ كا ايك جلوہ ہے_قد جاء كم والله على كل شيء قدير

۱۵_ خداوند متعال اپنے وعدہ و وعيد كى انجام دہى پر قادر ہے_فقد جاء كم بشير و نذير والله على كل شيء قدير

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت ۲، ۹;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ داري۴;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا دائرہ كار ۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كا فلسفہ ۶;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہداف ۷

اتمام حجت: ۱۰

احكام:احكام كى توضيح و تشريح ۴، ۵

اللہ تعالى:اللہ تعالى كا انذار ۱۵ ;اللہ تعالى كى بشارت ۱۵;اللہ تعالى كى دعوت ۱; اللہ تعالى كى قدرت ۱۳، ۱۴، ۱۵

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۱۰، ۱۴ ;انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱۱;انبياءعليه‌السلام كى رسالت ۱۱

اہل كتاب:اہل كتاب اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲;اہل كتاب اور اسلام ۱;اہل كتاب پر اتمام حجت ۹;اہل كتاب كو دعوت ۱;اہل كتاب كى توقعات ۲;اہل كتاب كى ذمہ دارى ۳

ايمان:آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانا ۱;ايمان كا متعلق ۱

تبليغ:تبليغ كا طريقہ ۱۱

۳۷۱

جاہل:جاہل قاصر ۱۲;عذر والاجاہل ۱۲

دين:دينى تعليمات كى توضيح و تشريح ۴، ۵، ۷

سعادت:سعادت كى توضيح و تشريح ۶

شقاوت:شقاوت كى توضيح و تشريح ۶

عيسائي:عيسائي اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲;عيسائي اورحق كا كتمان۷;

عيسائيوں كى توقعات ۲

فرمانبردار:فرمانبرداروں كو بشارت۱۱

گناہگار:گناہگاروں كو ڈرانا۱۱

نبوت:نبوت كا فلسفہ ۱۰;نبوت ميں فترت۸

يہود:يہود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲;يہود اور حق كا كتمان ۷; يہود كى توقعات ۲

آیت ۲۰

( وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاء وَجَعَلَكُم مُّلُوكاً وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِينَ )

اور اس وقت كو ياد كرو جب موسي نے اپنى قوم سے كہاكہ اے قوم اپنے اوپر الله كى نعمت كو ياد كرو جب اس نے تم ميں انبيا ئقرار دئے اور تمھيں بادشاہ بنايا او رتمھيں وہ سب كچھ دے ديا جو عالمين ميں كسى كو نہيں ديا تھا _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام اور ان كى قوم كى آپ بيتى ياد ركھنے كے قابل اور سبق آموز ہے_و اذ قال موسي لقومه يا قوم ''اذ قال ...'' ميں ''اذ'' ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے محذوف فعل كا مفعول ہے_

۲_ حضرت موسيعليه‌السلام كى طرف سے بنى اسرائيل كو وہ نعمتيں

۳۷۲

ياد كرنے كى دعوت جو خداوند متعال نے ان پر نازل كى تھيں _واذ قال موسي لقومه يا قوم اذكروا نعمة الله عليكم

۳_ خدا كى نعمتوں كى طرف توجہ دينا اور انہيں ياد كرنا لازمى ہے_اذكروا نعمة الله عليكم

۴_ بنى اسرائيل حضرت موسيعليه‌السلام سے پہلے بھى كئي ايك انبياءعليه‌السلام كى نعمت سے بہرہ مند ہوئے تھے_اذ جعل فيكم انبياء

۵_ خدا كى جانب سے بنى اسرائيل كو عطا كى جانے والى عظيم نعمتوں ميں سے ايك يہ تھى كہ ان كے درميان كئي انبياءعليه‌السلام مبعوث كيے گئے_اذكروا نعمة الله عليكم اذ جعل فيكم انبياء

۶_ اُمتوں كے درميان انبياءعليه‌السلام كا بھيجا جانا ان كيلئے عظيم نعمت ہے_اذكروا نعمة الله عليكم اذ جعل فيكم انبياء

۷_ بنى اسرائيل اپنى زندگى كى تاريخ كے ايك حصے ميں حاكم و فرمانروا ر ہے ہيں _و جعلكم ملوكاً

۸_ بنى اسرائيل كى حكومت اور فرمانروائي خدا كى طرف سے ان كيلئے نعمت تھي_اذكروا نعمة الله عليكم و جعلكم ملوكاً

۹_ حضرت موسي كى قوم اپنى تاريخ كے ايك حصے ميں دوسرى اقوام پر سردارى كرتى رہى ہے_اذكروا نعمة الله عليكم اذ جعلكم ملوكاً مذكورہ بالا مطلب ميں ''ملوك'' كو سيادت و سردارى سے كنايہ كے طور پر اخذ كيا گيا ہے_

۱۰_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كى آزادى اور فرعونيوں كى غلامى سے چھٹكارا ان پر خدا كى عظيم نعمتوں ميں سے ايك ہے_و جعلكم ملوكاً چونكہ حضرت موسيعليه‌السلام كى تمام قوم كا بادشاہ ہونا ناممكن ہے، لہذا ان كى سابقہ غلامى كى زندگى كو ديكھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ ملك سے مراد يہ ہے كہ انہيں فرعونيوں كے چنگل سے چھٹكارا مل گيا اور اس كے بعد ان كى تقدير فرعونيوں كے ہاتھوں رقم نہيں ہوتى تھي_

۱۱_ امتوں كى فرمانروائي، سردارى اور آزادى خدا كى عظيم نعمتوں ميں سے ايك ہے_اذكروا نعمة الله عليكم اذ جعلكم ملوكاً

۱۲_ بنى اسرائيل ميں انبياء كے مبعوث كيے جانے سے ان كى حاكميت اور آزادى كى راہ ہموار ہوئي_

اذ جعل فيكم انبياء و جعلكم ملوكاً ممكن ہے كہ ''جعلكم ملوكا'' پر '' جعل

۳۷۳

فيكم انبيائ'' كا مقدم كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہو كہ بنى اسرائيل ميں انبياء كى موجودگى ان كى آزادى اور فرمانروائي كا سبب بني_

۱۳_ خدا كى بعض خاص نعمات سے صرف بنى اسرائيل بہرہ مند ہوئے_و اتيكُم ما لم يوت احداً من العالمين

۱۴_ دنيا ميں كوئي بھي، قوم موسيعليه‌السلام كو عطا كى جانے والى خاص نعمتوں سے بہرہ مند نہيں ہوا_

و اتيكم ما لم يؤت احداً من العالمين

۱۵_ بيوي، نوكر چاكر اور گھربار ان نعمتوں ميں سے ہيں جوبنى اسرائيل كو خدا كى جانب سے عطا ہوئيں _

و جعلكم ملوكاً رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' جعلكم ملوكا'' كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں : زوجة و مسكن و خادم(۱) يعنى اس سے مراد بيوي، گھربار اور نوكر چاكر ہيں _ مذكورہ حديث ''ملك'' كا تنزيلى معنى بيان كررہى ہے، چنانچہ عرف عام ميں بھى يہ بات رائج ہے كہ جو كوئي بيوي، نوكر اور گھر كا مالك ہوكہتے ہيں يہ بادشاہ ہے_

آزادي:آزادى كا پيش خيمہ ۱۲;آزادى كى اہميت ۱۱

اللہ تعالى:اللہ تعالى كى نعمتيں ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۳، ۱۵

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كا نقش ۱۲;انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۵، ۶;انبياءعليه‌السلام كى نعمت ۴، ۶

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل سے مختص اشياء ۱۴;بنى اسرائيل كى آزادى ۱۰، ۱۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۷،۹;بنى اسرائيل كى حكومت ۷، ۸، ۹، ۱۲;بنى اسرائيل كى نعمتيں ۴، ۵، ۸، ۱۰، ۱۳، ۱۴، ۱۵;بنى اسرائيل كے انبيائ۴، ۱۲;بنى اسرائيل كے فضائل ۹

تاريخ:تاريخ سے عبرت ۱;تاريخ كے ذكر كرنے كى اہميت ۱

حضرت موسيعليه‌السلام :حضرت موسيعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۲;حضرت موسيعليه‌السلام كى داستان ۱; حضرت موسيعليه‌السلام كى دعوت ۲حكومت:حكومت والى نعمت ۱۱

روايت: ۱۵

شريك حيات:شريك حيات والى نعمت ۱۵

غلام:غلام كو آزاد كرنا ۱۰

____________________

۱) الدر المنثور ج۳، ص۴۷، سطر ۵_

۳۷۴

گھر:گھر والى نعمت ۱۵

نوكر:نوكر والى نعمت ۱۵

ياد آوري:نعمت كى يادآورى كى اہميت ۲، ۳

آیت ۲۱

( يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ )

اور اے قوم اس ارض مقدس ميں داخل ہو جاؤ جسے الله نے تمہارے لئے لكھ ديا ہے اور ميدان سے الٹے پاؤں نہ پلٹ جاؤ كہ الٹے خسارہ والوں ميں سے ہوجاؤگے _

۱_ مقدس سرزمين ميں داخل ہونے اور اس پر قبضہ كرنے كيلئے حضرت موسيعليه‌السلام كا اپنى قوم كو حكم_

يا قوم ادخلوا الارض المقدسة

۲_ خدا كى يہ تقديرتھى كہ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم مقدس سرزمين ميں سكونت اختيار كرے_الارض المقدسة التى كتب الله لكم

۳_ خدا نے حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كو حق ديا تھا كہ وہ مقدس سرزمين ميں سكونت اختيار كرے_التى كتب الله لكم

۴_ خدا كى عطا كردہ نعمتوں اور وسائل كى يادآورى انسان ميں خدا كى اطاعت و فرمانبردارى كا محرك پيدا كرنے كا پيش خيمہ ہے_اذ جعل فيكم انبياء و جعلكم ملوكا ادخلوا الارض المقدسة بظاہر دكھائي ديتا ہے كہ حضرت موسيعليه‌السلام اپنى قوم ميں خدا كى اطاعت كا محرك پيدا كرنے كيلئے انہيں خدا كى نعمتيں ياد دلاتے تھے_

۵_ مقدس سرزمين پر قبضہ كرنے كيلئے بنى اسرائيل كا راہ خدا ميں جہاد كرنا ان نعمتوں كى شكر گذارى تھى جو انہيں خدا كى جانب سے عطا كى گئي تھيں _اذكروا نعمة الله يا قوم ادخلوا الارض المقدسة خدا كى نعمتيں بيان كرنے كے بعد حضرت موسيعليه‌السلام كا بنى اسرائيل كو مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كا حكم دينا اس بات كى علامت ہے كہ اس حكم پر عمل

۳۷۵

پيرا ہونا خدا كى نعمتوں كا شكر ادا كرنے كے مترادف ہے_

۶_ خدا اور اس كے انبياء كى اطاعت خدا كى نعمتوں كا شكر ہے_اذكروا نعمة الله عليكم ادخلوا الارض المقدسه

۷_ خدا كى نعمتوں كے مقابلے ميں انسان پر بھى كچھ ذمہ دارياں عائد ہوتى ہيں _اذكروا نعمة الله عليكم ادخلوا الارض المقدسة

۸_ حضرت موسيعليه‌السلام نے اپنى قوم كو مقدس سرزمين كے باسيوں سے آمنا سامنا كرتے وقت بھاگ جانے يا پيچھے ہٹنے سے منع كيا تھا_و لا ترتدوا على ادباركم

۹_ مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كى صورت ميں حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم اور وہاں كے باسيوں ميں لڑائي چھڑجانے اور جنگ بھڑك اٹھنے كا خطرہ تھا_ادخلوا و لا ترتدوا علي ادباركم

۱۰_ حضرت موسي نے اپنى قوم كو خبردار كيا تھا كہ مقدس سرزمين كے ظالم باسيوں سے لڑائي كے وقت بھاگ جانے يا پيچھے ہٹنے كى صورت ميں نقصان اٹھاؤگے_و لا ترتدوا على ادباركم فتنقلبوا خاسرين

۱۱_ جنگ اور جہاد سے بھاگ جانا ممنوع اور نقصان دہ ہے_و لا ترتدوا علي ادباركم فتنقلبوا خاسرين

۱۲_ خدا نے حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كے مقدر ميں مقدس سرزمين ميں سكونت اختيار كرنا لكھ ديا تھا، بشرطيكہ وہ جہاد اور مبارزت ميں حصہ ليں _التى كتب الله لكم و لا ترتدوا علي ادباركم فتنقلبوا خاسرين خسران (فتنقلبوا خاسرين )كا ايك مصداق قوم موسيعليه‌السلام كا مقدس سرزمين ميں داخلے سے محروم ہونا ہے، بنابريں ان كا مقدس سرزمين ميں سكونت اختيار كرنا اس صورت ميں ان كى تقدير بنے گى جب وہ دشمن كے مقابلے ميں ڈٹ جائيں گے _

۱۳_ بنى اسرائيل كو شام كى مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كا حكم ديا گيا_ادخلوا الارض المقدسة

مذكورہ آيہ شريفہ كى وضاحت ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے:يعنى الشام (۱)

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱، ص۳۰۵، ح۷۵، نورالثقلين ج۱، ص ۶۰۷، ح ۱۱۴_

۳۷۶

۱۴_ بنى اسرائيل چاليس سال دربدر كى ٹھوكريں كھاكر توبہ كرنے اورخدا كے ان سے راضى ہوجانے كے بعد شام ميں داخل ہوئے_يا قوم ادخلوا الارض المقدسة امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے مذكورہ آيہ شريفہ كى تلاوت كے بعد فرمايا :... ثم دخلوها بعد اربعين سنة و ما كان خروجهم من مصر و دخولهم الشام الا من بعد توبتهم و رضاء الله عنهم (۱) يعنى پھر وہ چاليس سال بعد اس ميں داخل ہوئے اور ان كا اپنے وطن سے نكل كر شام ميں داخلہ اس وقت ممكن ہوسكا جب انہوں نے توبہ كى اور خدا ان سے راضى ہوا_

اللہ تعالى:اللہ تعالى كى اطاعت ۶; اللہ تعالى كى اطاعت كا پيش خيمہ ۴; اللہ تعالى كى تقديرات۲، ۱۲;اللہ تعالى كى رضايت ۱۴;اللہ تعالى كى نعمتوں كو بيان كرنا ۴;اللہ تعالى كى نعمتيں ۳، ۷

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى اطاعت ۶

انسان:انسان كى ذمہ دارى ۷

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كا جہاد ۵، ۱۲;بنى اسرائيل كا دربدرہونا ۱۴;بنى اسرائيل كى تاريخ ۲، ۸، ۹، ۱۲، ۱۳، ۱۴;بنى اسرائيل كى توبہ ۱۴;بنى اسرائيل كى شرعى ذمہ دارى ۱۳;بنى اسرائيل كے حقوق ۳; بنى اسرائيل مقدس سرزمين ميں ۲، ۳

تحريك :تحريك كا پيش خيمہ ۴

جنگ:جنگ سے فرار۸، ۱۰;جنگ سے فرار كى ممنوعيت ۱۱; جنگ ميں استقامت ۸

جہاد:جہاد سے فرار كى ممنوعيت ۱۱;راہ خدا ميں جہاد ۵

چاليس كا عدد: ۱۴

حضرت موسيعليه‌السلام :حضرت موسيعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۱، ۸;حضرت موسيعليه‌السلام كا خبردار كرنا ۱۰;حضرت موسيعليه‌السلام كا قصہ ۸;حضرت موسيعليه‌السلام كے فرامين ۱، ۸;عہد حضرت موسيعليه‌السلام كى تاريخ ۱، ۲، ۹

روايت: ۱۳، ۱۴

سرزمين شام: ۱۳، ۱۴

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱، ص۳۰۶، ح۷۵، نورالثقلين ج۱، ص ۶۰۷، ح۱۱۴_

۳۷۷

شكر:نعمت كا شكر ۵، ۶، ۷

ظالمين:ظالمين سے جنگ كرنا ۱۰

مقدس سرزمين: ۱، ۵، ۸، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۳

مقدس مقامات: ۱، ۲، ۳، ۵، ۸، ۹

نقصان:نقصان كے اسباب ۱۱;نقصان كے موارد ۱۰

آیت ۲۲

( قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْماً جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىَ يَخْرُجُواْ مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُواْ مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ موسي و ہاں تو جابروں كى قوم آباد ہے اور ہم اس وقت تك داخل نہ ہوں گے جب تك وہ وہاں سے نكل نہ جائيں پھر اگروہ نكل گئے تو ہم يقينا داخل ہوجا ئيں گے _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام كے فرمان كے باوجود بنى اسرائيل اس بات پر مصر تھے كہ مقدس سرزمين كے جابروں كے ساتھ نبرد آزما ہونے سے كنارہ كشى اختيار كى جائے_قالوا يا موسى ان فيها قوما جبارين و انا لن ندخلها

۲_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم (بنى اسرائيل )مقدس سرزمين پر حاكم طاقتور جابروں سے آمنا سامنا كرنے سے ڈررہى تھي_قالوا يا موسي ان فيها قوما جبارين و انا لن ندخلها

۳_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم نے مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كيلئے يہ شرط عائد كى تھى كہ پہلے وہاں سے جابر باسيوں كو نكالا جائے_و انا لن ندخلها حتى يخرجوا منها

۴_ حضرت موسيعليه‌السلام كے زمانے ميں مقدس سرزمين پر طاقتور اور جابر لوگ آباد تھے

_

۳۷۸

ان فيها قوما جبارين

۵_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم جنگ و جہاد اور جابروں سے الجھے بغير مقدس سرزمين كو فتح كرنے كى بيجا توقع ركھتى تھي_

انا لن ندخلها حتى يخرجوا منها فان يخرجوا منها فانا داخلون آيہ شريفہ اور اس كا سياق و سباق حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كى اس فكر كو سراسر غلط قرار دے ر ہے ہيں كہ قدس كى سرزمين كسى جنگ اور جہاد كے بغير فتح ہوجائے_

۶_ جنگ اور جہاد كے بغير فتح و كامرانى كى توقع ايك بيجا اور نامعقول توقع ہے_فان يخرجوا منها فانا داخلون

بنى اسرائيل:

بنى اسرائيل كا ڈر ۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱، ۲، ۳;بنى اسرائيل كى نافرمانى ۱; بنى اسرائيل كے مطالبات ۳، ۵

توقعات:ناپسنديدہ توقعات۶

جنگ:جنگ سے فرار ۱

حضرت موسيعليه‌السلام :حضرت موسيعليه‌السلام كے اوامر ۱;عہد حضرت موسيعليه‌السلام كى تاريخ ۴

ظالمين:ظالمين سے جنگ ۱، ۲

كاميابي:كاميابى كى شرائط ۶

مقدس سرزمين: ۱، ۴، ۵مقدس سرزمين كے ظالم لوگ ۲، ۳

۳۷۹

آیت ۲۶

( قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الأَرْضِ فَلاَ تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ )

ارشاد ہواكہ اب ان پر چاليس سال حرام كردئے گئے كہ يہ زمين ميں چكر لگا تے رہيں گے لہذا تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ كرو _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم چاليس سال تك مقدس سرزمين پر قبضہ كرنے سے محروم رہي_

قال فانها محرمة عليهم اربعين سنة ''محرمة'' سے مراد حرمت تشريعى نہيں بلكہ حرمت تكوينى ہے_

۲_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كا مقدس سرزمين پر قبضے اور وہاں سكونت اختيار كرنے سے محروم رہنا ان كے فسق اور حضرت موسيعليه‌السلام كے فرمان سے منہ موڑنے كا نتيجہ اور سزا تھي_انا لن ندخلها ابدا فانها محرمة عليهم

جملہ ''فانھا محرمة ...'' حضرت موسيعليه‌السلام كى نفرين (فافرق بيننا ...)پر نہيں ، بلكہ ان كے حكم سے منہ موڑنے پر متفرع ہے_

۳ _ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم چاليس سال تك بيابان ميں سرگردان رہي_اربعين سنة يتيهون فى الارض

چونكہ جملہ ''يتيھون'' ''عليھم'' كى ضمير كيلئے حال ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كى سرگردانى كى مدت بھى چاليس برس تھي_

۴_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كا بيابان ميں سرگردان رہنا ان كے فسق اور حضرت موسيعليه‌السلام كے فرمان سے منہ موڑنے كا نتيجہ اور سزا تھي_انا لن ندخلها يتيهون فى الارض

۵_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كا ان كے فرمان سے منہ موڑنے كے زمانے سے ان كے چاليس سال تك ٹھوكريں كھانے اور قدس پر قبضے سے محروميت كا آغاز ہوا_انا لن ندخلها اربعين سنة يتيهون فى الارض

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897