تفسير راہنما جلد ۴

 تفسير راہنما6%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 897

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 897 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178014 / ڈاؤنلوڈ: 5531
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

آیت ۸۷

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ )

ايمان والو جن چيزوں كو خدا نے تمہارے لئے حلال كيا ہے انہيں حرام نہ بناؤ اور حد سے تجاوز نہ كرو كہ خدا تجاوز كرنے والوں كو دوست نہيں ركھتا ہے_

۱_ اہل ايمان كو خدا وند عالم كى پاك و پاكيزہ اور حلال نعمات سے بہرہ مند ہونے سے خود كونہيں روكنا چاہيئے_

يا ايها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم مذكورہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ'' لا تحرموا ...'' كى بيان كردہ تحريم، تحريم عملى ہو، يعنى خدا كى حلال اشياء كو حرام سمجھے بغير ان سے استفادہ نہ كرنا اور پرہيز كرنا_

۲_ دين ميں بدعت اور خدا كے حلال و حرام ميں تبديلى كرنا حرام ہے_يا ايها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم و لا تعتدوا اس احتمال كى بناپر كہ تحريم حلال كا مطلب خدا كى حلال كى ہوئي اشياء كو حرام سمجھنا ہو_

۳_ صرف خداوند متعال قوانين و احكام كى تشريع اور وضع كى صلاحيت ركھتا ہے_لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم

۴_ مؤمنين كو خداوند عالم كے پاك و پاكيزہ اور حلال مواہب كو قسم يا كسى اور طريقے سے اپنے اوپر حرام نہيں كرنا چاہيئے_يا ايها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم آيات كے اس حصے اور آيت ۸۹ميں بيان كردہ قسم كے احكام كے ارتباط كو مدنظر ركھتے ہوئے يہ كہا جاسكتا ہے كہ'' لا تحرموا ...'' سے مراد قسم يا اس جيسے كسى اور ذريعے سے طيبات (حلال اشيائ) كو حرام قرار دينے سے منع كرنا ہے، اور اس بناپر تحريم سے مراد حقيقى اور واقعى تحريم (حرام كرنا) ہوگي_

۶۴۱

۵_ خداوند متعال كے پاك و پاكيزہ مواہب سے بہرہ مند ہونے اور استفادہ كرنے كيلئے سب سے زيادہ موزوں انسان مؤمنين ہيں _يا ايها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم تمام لوگوں كى بجائے صرف اہل ايمان كو مخاطب قرار دينا اور پھر انہيں حلال و پاكيزہ اشياء سے استفادہ كرنے كى نصيحت و تاكيد كرنا اس بات كى جانب اشارہ ہے كہ مواہب خداوندى سے بہرہ مندى كے سب سے زيادہ موزوں افراد صرف مومنين ہيں _

۶_ رہبانيت اوردنياوى نعمات كو افراط كى حد تك ترك كرنا دين اسلام كے ساتھ ہم آہنگ نہيں ہے_

لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم

۷_ جو چيز خداوند متعال كى طرف سے حلال ہے وہ پاك و پاكيزہ اوراچھى ہے_

لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم طيب اس چيز كو كہتے ہيں جو انسان كے دل كو بھائے، اور طيبات كا ''ما احل اللہ'' كى طرف اضافہ اضافہ بيانيہ ہے، يعنى ''ما احل '' طيبات كى تفسير ہے، گويا سوال ہو رہا ہے كہ طيبات كس كو كہاجاتا ہے اور جواب ديا جارہا ہے كہ جو كچھ خداوند متعال نے حلال قرار ديا ہے_

۸_ خداوند متعال كے احكام اور قوانين طبع انسانى كے ساتھ سازگار ہيں _لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم

اگر چہ مقصود (نہى از تحريم حلال) سمجھانےكيلئے كلمہ طيبات ذكر كرنے كى ضرورت نہيں تھى ليكن اس كے باوجود اسے ذكر كرنے كا مقصد اس حقيقت كى جانب اشارہ ہے كہ خداوند عالم كى حلال كردہ اشياء انسانى طبع كے مطابق اور ان كى لذت كا موجب ہيں _

۹_ ماديات سے استفادہ كرنے كا جواز ان كے انسانى طبيعت كے ساتھ سازگار اور متناسب ہونے پر موقوف ہے_

لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم

۱۰_ دين اسلام كے احكام و قوانين كى بنياد انسانوں كى مصلحت ہے_طيبات ما احل الله لكم

لفظ ''طيب ''كا معنى وہ چيز ہے جو انسان كے دل كو بھائے جبكہ'' لكم'' كى لام منفعت كيلئے ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ خداوند متعال نے مختلف چيزوں كو حلال كرتے وقت انسانوں كى مصلحت اور فائدے كو ملحوظ ركھا ہے_

۱۱_ مواہب اور طيبات سے استفادہ كرنے ميں اعتدال و ميانہ روى كى مراعات اور افراط و تفريط سے اجتناب كرنا لازمى ہے_لا تحرموا و لا تعتدوا

۶۴۲

اس احتمال كى بناپر كہ جملہ'' لا تعتدوا، ''لا تحرموا طيبات ما احل اللہ'' كيلئے تاكيد يا تفسير نہيں ، بلكہ توضيح ہو، يعنى حلال اشياء سے استفادہ كرو، ليكن حد سے تجاوز نہ كرو_

۱۲_ خداوند متعال كى جانب سے معين كردہ احكام اور قوانين كے دائرے ميں حركت كرنا لازمى ہے_لا تحرموا و لا تعتدوا

۱۳_ حلال كو حرام قرار دينا اور احكام خدا ميں تبديلى كرنا خدا وند عالم كى حدود اور قوانين سے تجاوز ہے_

لا تحرموا و لا تعتدوا مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ جملہ'' و لا تعتدوا'' جملہ ''لا تحرموا ...'' كيلئے تاكيد اور تفسير ہو_

۱۴_ انسان كا اپنے آپ كو خدا كے پاك اور حلال مواہب سے محروم كرنا خود اپنے آپ كو نقصان پہنچانا ہے_

و لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم و لا تعتدوا اگر تحريم طيبات كا معنى اپنے آپ كو مواہب الہى سے محروم كرنا ليا جائے تو ممكن ہے جملہ ''لاتعتدوا'' ، جملہ ''لا تحرموا ...'' كا فلسفہ بيان كررہاہو، يعنى مبادا طيبات سے دريغ كرو كيونكہ يہ كام اپنے اوپر ظلم و تعدى اور خود اپنے حقوق كو پامال كرنا ہے_

۱۵_ اہل ايمان كيلئے محرمات الہى سے اجتناب كرنا لازمى ہے_يا ايها الذين آمنوا لا تعتدوا

كہا جاسكتا ہے كہ گذشتہ جملہ''لا تحرموا طيبات ما احل اللہ'' كے قرينہ كى بناپر''لا تعتدوا'' سے مراد محرمات كا ارتكاب ہے، اور چونكہ محرمات كا ارتكاب حلال اشياء كو حرام قرار دينے سے زيادہ نقصان دہ ہے لہذا اسے تجاوز و تعدى سے تعبير كيا گيا ہے_

۱۶_ احكام دين ميں تغير و تبدل كرنا اور خداوند عالم كى حدود و قوانين سے تجاوز كرنا ايمان كے ساتھ ہم آہنگ نہيں ہے_يايها الذين آمنوا لاتحرموا و لاتعتدوا

۱۷_ دنيا ميں مواہب الہى سے استفادہ كرنے ميں افراط و تفريط سے كام لينا ايمان كے ساتھ سازگار نہيں ہے_

يا ايها الذين آمنوا لا تحرموا و لا تعتدوا

۱۸_ حد سے تجاوز كرنے والے محبت خداوندى سے محروم ہوتے ہيں _ان الله لا يحب المعتدين

۱۹_ خدا كے پاك و حلال مواہب سے استفادہ كرنے ميں افراط و تفريط سے كام لينا محبت خداوندى سے محروميت كا سبب بنتا ہے_

۶۴۳

لا تحرموا و لا تعتدوا ان الله لا يحب المعتدين

۲۰_ محرمات كا ارتكاب محبت خداوندى سے محروم ہونے كا سبب ہے_لا تعتدوا ان الله لا يحب المعتدين

مذكورہ مطلب اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ'' لا تعتدوا ''سے مراد ارتكاب محرمات سے منع كرنا ہو، جيسا كہ پہلے بھى اس كى وضاحت ہوچكى ہے_

۲۱_ انسان كا عمل و كردار، محبت خداوندى كے حصول يا اس سے محروميت كى راہ ہموار كرتا ہے_ان الله لا يحب المعتدين

احكام: ۱، ۲، ۴احكام كا فلسفہ ۱۰;احكام كى تشريع كا سرچشمہ۳

اسلام:اسلام اور دنيوى وسائل ۶;اسلام كا معتدل ہونا ۶; اسلام كى خصوصيت ۶

اعتدال:اعتدل كى اہميت ۱۱

الله تعالى:الله تعالى كى حدود ۱۲; الله تعالى كى حدود سے تجاوز ۱۳، ۱۶ ;الله تعالى كى حدود ميں تبديلى كرنا ۱۶ ; الله تعالى كى قانون سازى ۳;الله تعالى كى محبت سے محروم ہونا ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱ ; الله تعالى كى محبت كے موجبات۲۱;الله تعالى كى نعمات ۱، ۴، ۵، ۱۴، ۱۷، ۱۹

انسان:انسان كى مصلحتيں ۱۰

ايمان:ايمان كے اثرات ۱۶، ۱۷

بدعت:بدعت كى حرمت ۲

حلال:تحريم حلال۴، ۱۳; تحريم حلال كى حرمت ۲; تحريم حلال كے احكام ۱; حلال چيزوں كى پاكيزگى ۷

خود:

۶۴۴

خودكو نقصان پہنچانا ۱۴

دنيوى وسائل:دنيوى وسائل سے استفادہ ۹، ۱۷

دين:دين اور انسانى طبع ۸، ۹، ۱۰; دين اور عينيت ۸، ۱۰; دين ميں بدعت ۲;دينى تعليمات كى خصوصيات ۸

دينداري:ديندارى كا دائرہ كار۱۲

روايت: ۲۲

طيبات :طيبات سے استفادہ ۱، ۵، ۱۱، ۱۹;طيبات سے استفادہ ترك كرنا ۱۴طيبات كى تحريم ۴

عمل:عمل كے اثرات ۲۱

قسم:ناپسنديدہ قسم ۴

متجاوزين :متجاوزين كى محروميت ۱۸

محرمات :محرمات سے اجتناب ۱۵;محرمات كو حلال قرار دينے كى حرمت ۲;محرمات كى تحليل۱۳; محرمات كے ارتكاب كے اثرات ۲۰

مصرف :مصرف كے آداب ۷; مصرف كے احكام ۱، ۴; مصرف ميں افراط ۱۷; مصرف ميں افراط كے اثرات ۱۹; مصرف ميں تفريط ۱۷ ; مصرف ميں تفريط كے اثرات ۱۹; مصرف ميں ميانہ روى ۱۱، ۱۷

مؤمنين:مومنين كا مقام و مرتبہ ۵;مؤمنين كى ذمہ دارى ۱، ۴، ۱۵

۶۴۵

آیت ۸۸

( وَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ حَلاَلاً طَيِّباً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِيَ أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ )

اور جو اس نے رزق حلال و پاكيزہ ديا ہے اس كو كھاؤ اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس پر ايمان ركھنے والے ہو _

۱_ خدا كى جانب سے لوگوں كو مادى وسائل سے استفادہ كرنے كى ترغيب _و كلوا مما رزقكم الله حلالاً طيباً

گذشتہ آيت كے قرينہ كى بناپر ''اكل ''سے مراد صرف كھانا نہيں بلكہ مطلق تصرفات ہيں _

۲_ انسانوں كوروزى خداوند متعال ديتا ہے_و كلوا مما رزقكم الله

۳_ روزى اور ديگر مادى وسائل سے استفادہ كرنے كا جواز ان كے حلال اور طيب ہونے كے ساتھ مشروط ہے_

و كلوا مما رزقكم الله حلالاً طيباً مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ ''مما رزقكم ''، ''كلوا'' كيلئے مفعول اور'' حلالا طيباً '' ،''رزقكم اللہ'' كيلئے حال ہو، يعنى خداداد وسائل سے استفادہ كر و بشرطيكہ وہ حلال اور طيب ہوں _

۴_ خدا كے وسائل اور روزى سے حلال و پاكيزہ طريقے (خدا كے احكام و قوانين كے دائرے ميں رہتے ہوئے) سے استفادہ كرنا لازمى ہے_و كلوا مما رزقكم الله حلالاً طيباً مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ جب ''حلالاً طيباً''محذوف مفعول مطلق'' اكلاً'' كى صفت ہو، اس مبنا كے مطابق خدا كے عطا كردہ وسائل سے بہرہ مند ہونے اور استفادہ كرنے كى دو قسميں ہوں گي: ايك حلال اور دوسرے حرام طريقے سے استفادہ كرنا، اگر چہ خود وسائل حلال و طيب ہوں _

۵_ خداوند عالم كا رزق اورروزى انسان كيلئے پاك و پاكيزہ اور حلال ہے_و كلوا مما رزقكم الله حلالاً طيباً

ممكن ہے ''حلالاً طيباً'' ، ''كلوا'' كيلئے مفعول ہواور'' مما رزقكم اللہ'' كا ''من'' ''حلالا طيبا'' كيلئے بيان ہو، اور يہ بھى ممكن ہے كہ'' ما رزقكم اللہ'' كيلئے قيد توضيحى ہو، دونوں

۶۴۶

صورتوں ميں مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۶_ ہر وہ چيز جسے خداوند متعال نے حلال كيا ہے وہ پاك و پاكيزہ اور موافق طبع ہے_حلالاً طيبا اگر ''طيباً'' ،''حلالاً'' كيلئے صفت توضيحى ہو_

۷_ دينى احكام و قوانين ميں انسان كى طبيعى و فطرى ضروريات كو پورا كرنے كى جانب توجہ دى گئي ہے اور اسے مد نظر ركھاگيا ہے_لا تحرموا طيبات و كلوا مما رزقكم الله حلالاً طيباً

۸_ اہل ايمان تقوي كى مراعات كرنے كے پابند ہيں _واتقوا الله الذى انتم به مؤمنون

۹_ خداوند عالم كى عطا كردہ روزى اور وسائل سے استفادہ كرتے وقت تقوي كى مراعات لازمى ہے_

و كلوا مما رزقكم الله حلالا طيبا و اتقوا الله

۱۰_ خداوند عالم كى عطا كردہ نعمات كو اپنے اوپر يا دوسروں پر حرام قرار دينا اور ان سے استفادہ نہ كرنا تقوي كے خلاف ہے_و كلوا مما رزقكم الله حلالاً طيباً و اتقوا الله خدا كى عطا كردہ نعمات كے مباح ہونے كى تصريح اور حلال چيزوں كو حرام قرار دينے سے منع كرنے كے بعد تقوي كا حكم دينا اس بات كى جانب اشارہ ہوسكتا ہے كہ اگر انسان كا عقيدہ يا عمل ان احكام كے خلاف ہو تو يہ تقوي سے دورى ہے_

۱۱_ مادى وسائل سے استفادہ كو تقوي كے برخلاف سمجھنا ايك بے بنياداور غلط تصور ہے_و كلوا مما رزقكم الله حلالا طيبا و اتقو الله

۱۲_ تقوي اور خداوند متعال كے حلال و حرام كا پابند رہنا اللہ تعالى پر ايمان كا لازمہ ہے_و كلوا حلالا طيبا و اتقوا الله الذى انتم به مؤمنون

۱۳_ اہل ايمان كيلئے ميدان عمل ميں اپنے ايمان كى حفاظت كرنا اور اس پر پابند رہنا ضرورى ہے_و اتقوا الله الذى انتم به مؤمنون جملہ'' انتم بہ مؤمنون''،'' اتقوا اللہ'' كيلئے شرط كى حيثيت ركھتا ہے، بنابريں ايمان كى بقاء تقوي كى مراعات كے ساتھ احكام خداوندى پر عمل كرنے كى مرہون منت ہوگي_

۱۴_ احكام خداوندى پر عمل تقوي جبكہ حدود خداوندى سے تجاوز عدم تقوي كى علامت ہے_

و لا تعتدوا و اتقوا الله الذين انتم به مؤمنون

۶۴۷

اللہ تعالى:اللہ تعالى كاتشويق كرنا ۱; اللہ تعالى كى حدودسے تجاوز ۱۴;اللہ تعالى كى حدودكى مراعات كرنا ۴، ۱۲، ۱۴ ;اللہ تعالى كى رزاقيت ۲ ; الله تعالى كى عطا كردہ نعمات ۹، ۱۰

انسان:انسان كى روزى ۵

ايمان:ايمان كى حفاظت ۱۳;ايمان كے اثرات ۱۲

تقوي:تقوي اور دنيوى وسائل ۱۱;تقوي كى اہميت ۸، ۹; تقوي كى علامات ۱۴;تقو ي كے اثرات ۱۰

حلال:حلال چيز كو حرام قرار دينا ۱۰

دنيوى وسائل:پاك و پاكيزہ وسائل ۶;حلال دنيوى وسائل ۶; دنيوى وسائل سے استفادہ كرنا ۱، ۳، ۹، ۱۱

دين:دين اور عينيت ۷;دين اور مادى ضروريات ۷

روزي:پاكيزہ روزى ۳، ۵;حلال روزى ۳، ۵;روزى كا سرچشمہ ۲

شرعى فريضہ:شرعى فريضہ پر عمل كرنا ۱۳، ۱۴

طيبات :طيبات سے استفادہ كرنا ۴;طيبات سے استفادہ نہ كرنا ۱۰

عدم تقوي:عدم تقوي كى علامات۱۴

عقيدہ:باطل عقيدہ ۱۱

مصرف :مصرف كے آداب ۳، ۴;مصرف ميں تقوي ۹

مؤمنين:مؤمنين كى ذمہ دارى ۸، ۱۳

۶۴۸

آیت ۸۹

( لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ )

خدا تم سے بے مقصد قسميں كھانے پر مواخذہ نہيں كرتا ہے ليكن جن قسموں كى گرہ دل نے باندھ لى ہے ان كى مخالفت كا كفارہ دس مسكينوں كے لئے اوسط درجہ كا كھانا ہے جو اپنے گھر والوں كو كھلاتے ہو يا ان كا كپڑا يا ايك غلام كى آزادى ہے پھر اگر يہ سب نا ممكن ہو تو تين دن روزے ركھو كہ يہ تمہارى قسموں كا كفارہ ہے جب بھى تم قسم كھا كر اس كى مخالفت كرو لہذا اپنى قسموں كا تحفظ كرو كہ خدا اس طرح اپنى آيات كو واضح كركے بيان كرتا ہے كہ شايد تم اس كے شكرگذار بندے بن جاؤ_

۱_ جو قسميں بغير كسى ہدف اور مقصد كے زبان سے جارى ہوجائيں خداوند متعال ان پر سزا نہيں دے گا_

لا يؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم ''ايمان'' يمين( قسم) كى جمع ہے اور'' فى ايمانكم'' ،'' اللغو'' سے متعلق ہے_ جبكہ

لغو قسم اس قسم كوكہا جاتا ہے كہ جو عادت كى وجہ سے اور قسم كے مضمون كى طرف توجہ كيے بغير زبان سے جارى ہوجائے_

۲_ خداوند متعال نے لغو اور بلا مقصد كھائي جانے والى

۶۴۹

قسموں پر سزا نہ دينے اور بازپرس نہ كرنے كا فيصلہ كركے اہل ايمان پر فضل و كرم كيا ہے_

لا يؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم جملہ''لا يؤاخذكم ''كے امتنان آميز لب و لہجے سے معلوم ہوتا ہے كہ لغو اور بلا مقصد كھائي جانے والى قسموں پر سزا نہ دينے كى وجہ مومنين پر خدا كا فضل و كرم ہے_

۳_ اگر قسم توڑنے والوں كى قسميں ،قسم كى طرف توجہ كرتے ہوئے قسم كے قصد كے ساتھ ہوں تو خداوند متعال انہيں سزا سے دوچار كرے گا_و لكن يؤاخذكم بما عقدتم الايمان امت مسلمہ كا اس پر اتفاق ہے كہ صرف اس صورت ميں قسم پر سزا دى جائيگى اور كفارہ واجب ہوگا جب قسم كھانے والا اس پر پابند نہ ر ہے(مجمع البيان)

۴_ قصد اور نيت كے ساتھ كھائي جانے والى قسموں پر پابند رہنا لازمى ہے_و لكن يؤاخذكم بما عقدتم الايمان

۵_ كردار و گفتار كے اعتباركا معيارقصد اور نيت ہے_و لكن يؤاخذكم بما عقدتم الايمان

۶_ قسم توڑنا گناہ اور كفارہ كى ادائيگى اس كى بخشش كا باعث بنتى ہے_و لكن يؤاخذكم بما عقدتم الايمان فكفارته ذلك كفارة ايمانكم قسم توڑنے والوں كو سزا دينا ان كى معصيت كارى اور نافرمانى كى دليل ہے_ اور كلمہ كفارہ كہ جس كا معنى ڈھانپنے والا ہے، اس بات كى جانب اشارہ ہے كہ كفارہ كى ادائيگى سے گناہ بخشے جاتے ہيں _

۷_ قسم توڑنے كا كفارہ ،دس مسكينوں كو كھانا كھلانا يا ان كے لباس كا انتظام يا ايك غلام آزاد كرنا ہے_

فكفارته اطعام عشرة مساكين اهليكم او كسوتهم او تحرير رقبة

۸_ قسم توڑنے والے كو كفارہ كى تين اقسام (مساكين كو كھانا كھلانايا ان كيلئے لباس كا انتظام كرنا يا ايك غلام آزاد كرنا) ميں سے كسى ايك كے انتخاب كرنے كا اختيار حاصل ہے_فكفارته اطعام عشرة مساكين او كسوتهم او تحرير رقبة جملہ'' فمن لم يجد'' كو گذشتہ جملات پر متفرع كرنا اس نكتہ كى تصريح ہے كہ مكلف ان تين اقسام ميں سے ايك كو انتخاب كرنے كا اختيار ركھتا ہے، البتہ اگر يوں فرمايا ہوتا كہ'' اوصيام ثلاثة ايام'' تو پھر ان موارد كے درميان ترتيب كے لازمى ہونے كا احتمال موجود ہوتا_

۹_ كفارہ قسم كے طور پر ديا جانے والا كھانا كم از كم اس كھانے كے برابر ہونا چاہيئے جس طرح كا كھانا كفارہ دينے والے اپنے گھر ميں عام طور پر كھاتے

۶۵۰

ہيں _فكفارته اطعام عشرة مساكين من اوسط ما تطعمون اهليكم مذكورہ بالا مطلب كى حضرت امام باقرعليه‌السلام كا يہ فرمان بھى تائيد كرتا ہے كہ آپ نے مذكورہ آيت ميں موجود '' اوسط ماتطعمون'' كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرمايا : ( ما تقوتون بہ عيالكم من اوسط ذلك ...)(۱) يعنى وہى جو تم عام طور پر اپنے اہل و عيال كو كھلاتے ہو_

۱۰_ قسم توڑنے والا كفارے كے طور پر وہى لباس دے جو وہ عام طور پر استعمال كرتا ہے_

من اوسط ما تطعمون اهليكم او كسوتهم اطعام كے مورد ميں كھانے كى نوعيت كى وضاحت لباس كى نوعيت كيلئے بھى قرينہ ہوسكتى ہے_

۱۱_ اسلامى قوانين اور احكام كى تشريع ميں فقر و افلاس كا خاتمہ ہے_فكفارته اطعام عشرة مساكين او كسوتهم

۱۲_ دين اسلام نے غلاموں كو غلامى سے نجات دلانے كى جانب توجہ دى ہے_او تحرير رقبة

۱۳_ اسلام كے انفرادى احكام و قوانين اور معاشرے كى مصلحتوں اور وسيع تر مفادات كے درميان بہت قريبى ہم آہنگى پائي جاتى ہے_فكفارته اطعام عشرة مساكين او تحرير رقبة

۱۴_ دس مسكينوں كو كھانا كھلانے يا ان كيلئے لباس كا انتظام يا غلام آزاد كرنے سے عاجز ہونے كى صورت ميں قسم توڑنے كا كفارہ يہ ہے كہ تين دن روزے ركھے جائيں _فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام

۱۵_ دينى احكام كى انجام دہى مكلف كى قدرت و استطاعت سے مشروط ہے_فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام

۱۶_ انسان اپنى قدرت و توانائي كے دائرے ميں رہتے ہوئے اپنى كوتاہيوں اور گناہوں كى تلافى كا ذمہ دار ہے_

فكفارته اطعام فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام

۱۷_ قسم كاكفارہ ادا كرنے كيلئے مادى وسائل كا حصول لازمى ہے_فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام

جملہ'' فمن لم يجد'' اس پر دلالت كرتا ہے كہ قسم توڑنے والے كو كفارہ كى ادائيگى كيلئے وسائل كے حصول كى كوشش كرنا چاہيئے كيونكہ فعل'' لم

____________________

۱) كافى ج۷ص ۴۵۴، ح ۱۴; تفسير برہان ج۱ ص ۴۹۵، ح ۴_

۶۵۱

يجد'' يعنى اسے نہ ملے، ان موارد ميں استعمال ہوتا ہے، جہاں ايك شخص سعى و كوشش كے باوجود كوئي چيز حاصل نہ كر سكے_

۱۸_ اپنى قسموں كى وفا اور پابندى لازمى ہے_و احفظوا ايمانكم

۱۹_ قسم كيلئے كفارے كے تعين كو قسم توڑنے كيلئے سند نہيں بنا لينا چاہيئے_ذلك كفارة ايمانكم اذا حلفتم و احفظوا ايمانكم كفارہ قسم كى وضاحت كے بعد'' واحفظوا ايمانكم'' كے ذريعے قسم پر پابند رہنے كا حكم دينا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اگر چہ كفارے كى ادائيگى بخشش گناہ كا باعث بنتى ہے ليكن مكلف كو اسے قسم توڑنے كيلئے جواز نہيں بنا لينا چاہيئے_

۲۰_ خداوند كريم نے اپنى آيات اور احكام وضاحت كے ساتھ اہل ايمان كيلئے بيان كيے ہيں _

كذلك يبين الله لكم آياته

۲۱_ خداوند متعال كے احكام اور قوانين اس كى آيات كے زمرے ميں آتے ہيں _كذلك يبين الله لكم آياته

پچھلى آيات كے قرينہ سے يہاں ''آيات'' سے مراد الہى احكام و قوانين ہے_

۲۲_ احكام خداوندى اور ان كى تبيين خدا كى نعمات ميں سے ہيں ، اور لوگ اس پر شكر و سپاس كے ذمہ دار ہيں _

لا تحرموا و احفظوا ايمانكم كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تشكرون احكام كى وضاحت كے بعد شكر و سپاس كا حكم دينے سے معلوم ہوتا ہے كہ خداوند متعال كے احكام اور ان كا بيان اس كى نعمتوں كے زمرے ميں آتے ہيں ، كيونكہ شكر ہميشہ نعمت كے بدلے ميں ادا كيا جاتا ہے_

۲۳_ قسم كے احكام اور اس كے كفارے خدا كى نعمتوں كے زمرے ميں آتے ہيں اور ان پر شكر و سپاس ادا كرنا ضرورى ہے _ذلك كفارة ايمانكم كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تشكرون

۲۴_ كوتاہيوں كى تلافى اور گناہوں پر پردہ ڈالنے كى راہ كا كھلا ہونا خداوند متعال كى نعمت ہے اور اس پر شكر و سپاس لازمى ہے_ذلك كفارة ايمانكم كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تشكرون كلمہ ''آيات'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك مصداق قسم توڑنے كا گناہ ختم كرنے كيلئے كفارہ كا لازمى ہونا ہے_

۲۵_ خدا كے عطا كردہ رزق، ان سے استفادہ كا جواز اور لغو و بلا مقصد كھائي جانے والى قسموں سے درگذر

۶۵۲

خداوند عالم كى نعمتيں ہيں اور ان پر شكر و سپاس لازمى ہے_و كلواممارزقكم الله حلالاً طيباً كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تشكرون گذشتہ آيات كى روشنى ميں يہ كہا جاسكتا ہے كہ جملہ '' كذلك يبين اللہ لكم آياتہ'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك وہ مسائل ہيں جو ان آيات ميں بيان ہوئے ہيں ، من جملہ رزق و روزى كا خدادادى ہونا و

۲۶_ احكام خداوندى پر عمل كرنا اس كے شكر و سپاس كے زمرے ميں آتا ہے_كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تشكرون جملہ'' كذلك ...'' يعنى خداوند متعال كا اس طرح وضاحت و صراحت كے ساتھ اپنے احكام بيان كرنے كا تقاضا يہ تھا كہ اس كے بعد''لعلكم تعملون'' لايا جاتا، ليكن اس جگہ ''لعلكم تشكرون'' ذكر كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ احكام الہى پر عمل كرنا اس كى جانب سے نازل شدہ احكام كے مقابلے ميں شكر ادا كرنے كے مترادف ہے_

۲۷_ بلامقصد و ہدف اور غير سنجيدہ طور پر اللہ كى قسم كھانے پر خداوند متعال سزا نہيں دے گا_لا يؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام نے مذكورہ بالا آيت ميں موجود ''لغو'' كى وضاحت كرتے ہوئے فرمايا:''اللغو قول الرجل ''،''لا والله'' و ''بلي والله'' ولا يعقد على شيء (۱) يعنى لغو سے مراد ''لا واللہ'' اور ''بلي واللہ'' جيسى قسم كھانا ہے جب كہ يہ بلاقصد ہو_

۲۸_ طيبات اور لذائذ كو اپنے اوپر حرام قرار دينے كى قسم لغو ہے اور اسے توڑنے پر خداوندعالم كى طرف سے مواخذہ نہيں ہوگا_لا يؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہوئي ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا كى حمد و ثنا كے بعد اپنے اصحاب سے فرمايا: (فما بال اقوام يحرمون على انفسهم الطيبات فقاموا هولاء فقالوا: يا رسول الله فقد حلفنا على ذلك_ فانزل الله تعالى لا يؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم ...)(۲) يعنى بعض لوگوں كو كيا ہوگيا ہے؟ وہ اپنے لئے طيبات (پاك و حلال اشيائ) كو حرام قرار ديتے ہيں يہ لوگ كھڑے ہوئے اور عرض كي: يا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ہم تو اس كى قسم كھا چكے ہيں ، تب خداوند متعال نے يہ آيہ شريفہ نازل فرمائي: خداوند متعال تمہارى لغو اور بے مقصد قسموں پر سزا نہيں دے گا

۲۹_ قسم توڑنے كا كفارہ يہ ہے كہ دس مسكينوں كو كھانا كھلايا جائے اور ہر ايك كى مقدار ايك مد( چودہ چھٹانك) كے برابر ہو_

____________________

۱) كافى ج۷ص۴۴۳ح۱ نورالثقلين ج۱ ص ۶۶۵ ح ۳۲۳_۲) تفسير قمى ج۱ص ۱۸۰; نورالثقلين ج۱ ص ۶۶۵ ح ۳۲۰_

۶۵۳

فكفارته اطعام عشرة مساكين من اوسط ما تطعمون اهليكم حضرت امام صادقعليه‌السلام مذكورہ آيت شريفہ ميں موجود ''اوسط ما تطعمون'' كى توضيح ميں فرماتے ہيں :(هو كما يكون انه يكون فى البيت من ياكل اكثر من المد و منهم من ياكل اقل من المد فبين ذلك ...)(۱) يعنى اسے اپنے گھر كے ان افراد ميں سے ايك فرد سمجھو جن ميں سے بعض ايك مد (چودہ چھٹانك ) سے زيادہ اور بعض اس سے كم كھاتے ہيں پس مد ان كے درميان ہوگا ..._

۳۰_ كفارہ قسم كے طور پر ديئے جانے والے لباس ميں اس بات كا دھيان ركھنا ضرورى ہے كہ وہ لباس سال كے مختلف موسموں گرمى و سردي، اسى طرح فقير كے مرد يا عورت ہونے كے ساتھ مناسبت ركھتا ہو_

فكفارته او كسوتهم حضرت امام باقرعليه‌السلام يا حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مذكورہ آيت كى توضيح ميں روايت ہوئي ہے:(و اما كسوتهم فان وافقت به الشتاء فكسوته و ان وافقت به الصيف فكسوته، لكل مسكين ازار و رداء و للمراة ما يوارى ما يحرم منها ازار و خمار و درع )(۲) يعنى كفارے كے طور پر لباس دينے كى صورت ميں اگر گرميوں كا موسم ہو تو گرميوں كا لباس اور اگر سرديوں كا موسم ہو تو سرديوں كا لباس دينا چاہيئے، اسى طرح اگر وہ فقير مرد ہو تو اسے لنگى اور چادر( شلوار قميص) پر مشتمل مردانہ لباس اور اگر عورت ہو تو اسے لنگي، اوڑھنى يا چلمن اور قميص پر مشتمل ايسا زنانہ لباس دينا چاہيئے جو اس كے پورے بدن كو ڈھانپ لے_

۳۱_ اگر كفار ہ قسم كے طور پر لباس ديا جائے تو وہ مرد كيلئے شلوار و قميص جبكہ عورت كيلئے شلوار و قميص اور دوپٹے پر مشتمل ايسا لباس ہونا چاہيئے جو اس كے پورے بدن كو ڈھانپ لے_فكفارته او كسوتهم

مذكورہ آيہ شريفہ كى توضيح ميں حضرت امام باقرعليه‌السلام يا امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہوئي:(... و اما كسوتهم لكل مسكين ازار و رداء و للمراة ما يوارى ما يحرم منها ازار و خمار و درع . )(۳)

۳۲_ كفارہ قسم كے طور پر ديا جانے والا كھانا كم از كم اتنا ضرور ہونا چاہيئے جو ان مسكينوں ميں سے ہر ايك كا ايك وقت كيلئے پيٹ بھر سكے، يا اگرلباس ديا جائے تو اتنا ضرور ہونا چاہيئے كہ ان ميں سے ہر ايك كا بدن ڈھانپ سكے_

فكفارته اطعام عشرة مساكين من اوسط ما تطمعون اهليكم او كسوتهم

___________________

۱) كافى ج۷ص۴۵۳ح ۷ نورالثقلين ج۱ص ۶۶۷ ح ۳۳۳_۲) تفسير عياشى ج۱ ص ۳۳۷ ح ۱۶۷ تفسير برہان ج۱ ص ۴۹۶ ح ۱۲_۳) تفسير عياشى ج۱ ص ۳۳۷ ح ۱۶۷ تفسير برہان ج۱ ص ۴۹۶ ح ۱۲_

۶۵۴

حضرت امام باقرعليه‌السلام مذكورہ آيت ميں موجود كلمہ ''اوسط'' كے معنى كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں : (...تشبعهم به مرة واحدة ، قلت: كسوتهم، قال: ثوب واحد )(۱) يعنى ...اتنا دو كہ ان كا ايك وقت كيلئے پيٹ بھر سكے: راوى كہتا ہے ميں نے پوچھا: انہيں ديا جانے والا لباس كتنا ہونا چاہيئے؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ايك لباس_

۳۳_ جس شخص كے پاس اپنے اہل و عيال كے خرچے كے علاوہ كچھ بھى نہ ہو اس كا كفارہ قسم يہ ہے كہ تين دن روزے ركھے_فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام حضرت امام موسي كاظمعليه‌السلام مذكورہ آيت كى توضيح ميں فرماتے ہيں : (اذا لم يكن عنده فضل عن قوت عياله فهو ممن لا يجد )(۲) يعنى جس شخص كے پاس اپنے اہل و عيال كے خرچے كے علاوہ كچھ نہ ہو وہ ''ممن لا يجد'' كا مصداق ہے_

آيات خداوندي: ۲۱آيات خداوندى كى تبيين ۲۰

احكام: ۴، ۷، ۱۷، ۲۸، ۲۹، ۳۲احكام پر عمل كرنا ۲۶;احكام كو وضع كرنا۱۱

اسلام:اسلام اور غلامى ۱۲;اسلام اور فقر ۱۱;اسلام اور معاشرہ ۱۳;اسلام كى خصوصيت ۱۳

اللہ تعالى:اللہ تعالى كا رزق ۲۵;اللہ تعالى كا فضل ۲;اللہ تعالى كى حدود ۲۲;اللہ تعالى كى نعمتيں ۲۲، ۲۳، ۲۴، ۲۵

دنيوى وسائل:دنيوى وسائل سے استفادہ ۲۵

دين:دين اور عينيت ۱۱، ۱۳

روايت: ۹، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۰،۳۱، ۳۲، ۳۳

سزا كا نظام: ۳، ۲۷

شرعى فريضہ :شرعى فريضہ كى شرائط ۱۵;شرعى فريضہ ميں قدرت ۱۵، ۱۶، ۱۷

شكر:نعمت پر شكر ادا كرنا ۲۲، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۶

طيبات :طيبات كى تحريم ۲۸

عرفى معيار: ۹

عورت:عورت كا لباس ۳۱;مسكين عورت ۳۰

____________________

۱) كافى ج۷ص ۴۵۴ ح ۱۴نورالثقلين ج۱ص۶۶۷ح ۳۳۴_۲) كافى ج۷ص ۴۵۲ ح۲ نورالثقلين ج۱ ص ۶۶۷ ح ۲۳۶_

۶۵۵

غلام:غلام كو آزاد كرنا ۷، ۸، ۱۲، ۱۴

قدر و قيمت كا اندازہ لگانا:قدر و قيمت كا اندازہ لگانے كا معيار ۵

قسم:سم پر پابند رہنا ۴، ۱۸، ۱۹; قسم توڑنا ۲۸; قسم توڑنے كا گناہ ۶;توڑنے كى سزا ۳;قسم كے احكام ۴، ۷، ۸، ۹، ۲۳، ۲۸، ۲۹ ;لغوقسم ۱، ۲، ۲۷، ۲۸ ; لغوقسم سے اجتناب ۲۵

كفارہ:قسم توڑنے كا كفارہ ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۴، ۱۷، ۱۹، ۲۳، ۲۹، ۳۱، ۳۲، ۳۳ ;كفارہ كے احكام ۹، ۱۰، ۱۷، ۲۹، ۳۱، ۳۲، ۳۳; كفارہ كے روزے ركھنا ۱۴، ۳۳;كفارہ ميں كھانا كھلانا ۷، ۸، ۱۴، ۳۲; كفارہ ميں لباس دينا ۷، ۸، ۱۰، ۱۴، ۳۰، ۳۱، ۳۲ ;گناہ كا كفارہ ۲۴

گناہ:گناہ كى بخشش كے اسباب ۶;گناہ كے موارد ۶

لذتيں :لذتوں كو حرام قرار دينا ۲۸

مرد:مرد كا لباس ۳۱;مسكين مرد ۳۰

مسكين:مسكينوں كا لباس ۸;مسكينوں كو كھانا كھلانا ۷، ۸، ۲۹، ۳۲;مسكينوں كے كپڑے ۷، ۳۰، ۳۱

مؤمنين:مؤمنين كا مقام ومرتبہ ۲

نيت:نيت كے اثرات ۱، ۳، ۴، ۵

آیت ۹۰

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ )

ايمان والو شراب ، جوا ، بت، پانسہ يہ سب گندے شيطانى اعمال ہيں لہذا ان سے پرہيز كرو تا كہ كاميابى حاصل كرسكو_

۱_شراب،جوا،بت اور جوے ميں ہارجيت كيلئے مخصوص لكڑى كے تير سب كے سب پليد اور ناپاك ہيں _

۶۵۶

انما الخمر و الميسر والانصاب والازلام رجس ''انصاب ''كلمہ نصب كى جمع ہے، اور بعض كے نزديك اس كا معنى بت ہے، جبكہ بعض دوسروں كے نزديك انصاب ان پتھروں كو كہا جاتا تھا جو بتوں كى چوكھٹ پر نصب كيے جاتے تھے اور ان پر بتوں كيلئے قربانى ذبح كى جاتى تھي، اسى وجہ سے مشركين انہيں تبرك كا باعث سمجھتے ہوئے قابل احترام شمار كرتے تھے، اور'' از لام ''زلم( جوئے كيلئے مخصوص تير) كى جمع ہے، يہ بھى جوئے اور قسمت آزمائي كے وسائل ميں سے شمار ہوتے تھے_

۲_ شراب پينا، جوا كھيلنا، مظاہر شرك كى طرف جھكاؤ اور زمانہ جاہليت ميں رائج فال لينے كے طريقے سب شيطانى عمل ہيں _انما الخمر من عمل الشيطان

۳_ شراب پينا اور جوا كھيلنا كبيرہ گناہوں كے زمرے ميں آتے ہيں _انما الخمر و الميسر رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه چونكہ خداوند متعال نے شراب اور جوے كو پليد اور شيطانى عمل قرار ديتے ہوئے فلاح و نجات كو ان كے ترك كرنے پر موقوف كيا ہے، نيز بعد والى آيہ شريفہ ميں اسے دشمنى اور كينہ كا سبب اور ياد خداوندى اور نماز كو بھلا دينے كا باعث شمار كيا گيا ہے، لہذا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ شراب پينے اور جوا كھيلنے كو صغيرہ گناہ ميں شمار نہيں كيا جا سكتا_

۴_ مظاہر شرك كى جانب جھكاؤ كبيرہ گناہوں كے زمرے ميں آتا ہے_والانصاب و الازلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحون

۵_ اہل ايمان شراب ، جوا اور مظاہر شرك سے اجتناب كرنے كے پابند ہيں _يا ايها الذين آمنوا انما الخمر والميسر فاجتنبوه

۶_ زمانہ جاہليت ميں رائج ہونے والے فال لينے كے طريقوں (قسمت آزمائي) اور استخاروں سے اجتناب كرنا لازمى ہے_والازلام رجس فاجتبوه

ازلام سے مراد لكڑى كے وہ تير ہيں جو قرعہ كيلئے استعمال ہوتے تھے، يعنى ان تين لكڑيوں كو كہاجاتا، جن ميں سے ايك پر ''افعل''، يعنى انجام دو، دوسرى پر'' لا تفعل''، يعنى انجام نہ دو لكھا ہوا ہوتا، جبكہ تيسرے پر كچھ بھى نہيں لكھا ہوتا تھا، زمانہ جاہليت ميں سفر پر روانہ ہونے يا كوئي بھى اہم كام انجام دينے سے پہلے ان تينوں لكڑيوں كو ايك تھيلے ميں ڈال ديا جاتا اور پھر ايك لكڑى نكالى جاتى اوراس كے مطابق عمل كيا جاتا تھا_

۶۵۷

۷_ اہل ايمان پليد ا ور شيطانى كاموں سے دورى اختيار كرنے كے ذمہ دار ہيں _رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه

۸_ شيطان ايك ايسا موجود ہے جو پليد اور ناپاك اعمال كا مالك ہے_رجس من عمل الشيطان

۹_ اديان الہى ميں اعمال كو حرام قرار دينے كا معيار ان كى پليدى اور ناپاكى ہے_رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه

۱۰_ عہد بعثت ميں شراب پينے اور جوا كھيلنے كى لت اور مظاہر شرك كى جانب جھكاؤ ركھنے كا رواج تھا_يا ايها الذين آمنوا انما الخمر رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه

۱۱_ شراب ، جوا اور مظاہر شرك سے اجتناب فلاح و نجات تك پہنچنے كا پيش خيمہ ہے_انما الخمر والميسر والانصاب والازلام فاجتنبوه لعلكم تفلحون

۱۲_ پليديوں اور شيطانى اعمال سے دورى اختيار كرنا فلاح و نجات كا پيش خيمہ ہے_رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحون

۱۳_ دينى احكام وضع كرنے كا ايك مقصد لوگوں كى فلاح و نجات ہے_انما الخمر فاجتنبوه لعلكم تفلحون

۱۴_ ہر نشہ آور مائع شراب ہے اور حرام _انما الخمر من عمل الشيطان فاجتنبوه

مذكورہ آيہ شريفہ ميں '' الخمر'' كے بارے ميں حضرت امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں :(فكل مسكر من الشراب خمر اذا اخمر فهو حرام )(۱) يعنى ہر نشہ آور مائع خمر ہے اور جب اس سے نشہ ہوتا ہے تو وہ حرام ہے_

۱۵_ شرط لگاكر جيتنے اور ہارنے والا كھيل (يہاں تك كہ اخروٹ يا ہڈيوں كے ساتھ ہى كيوں نہ ہو) جوے كے زمرے ميں آتا ہے اور حرام ہے_يا ايها الذين آمنوا انما الخمر والميسر رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مذكورہ آيت ميں كلمہ'' ميسر'' كے بارے ميں كيے گئے سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں :(كلما تقومر به حتى الكعاب والجوز )(۲) يعنى اس سے مراد ہر وہ چيز ہے جس كے ذريعے جوا كھيلا جائے حتى ہڈياں اور اخروٹ و غيرہ_

۱۶_ بتوں كيلئے قربان كيے گئے حيوانات سے اجتناب لازمى ہے_

____________________

۱) تفسير قمى ج۱ص۱۸۰ نور الثقلين ج۱ص۶۶۸ح ۳۴۲_

۲) كافى ج۵ ص۱۲۳،ح۲،نورالثقلين،ج۱،ص۶۶۸،ح۳۴۰_

۶۵۸

والانصاب رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''انصاب'' كے معنى كے بارے ميں كيے گئے سوال كے جواب ميں فرمايا: (ما ذبحوه لآلهتهم ...)(۱) اس سے مراد وہ جانور ہيں جنہيں وہ اپنے خداؤں كيلئے قربان كيا كرتے تھے_

۱۷_ جوئے كے تيروں كے ذريعے اشياء تقسيم كرنا جوزمانہجاہليت ميں رائج ايك قسم كى قرعہ اندازى تھي، حرام ہے_

والازلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه مذكورہ آيہ شريفہ ميں كلمہ ''ازلام'' كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہيں :(قد احهم التى يستقسمون بها )(۲) يعنى يہ ان تيروں كو كہا جاتا ہے جن كے ذريعے وہ اشياء كو تقسيم كيا كرتے تھے_

۱۸_ شطرنج اور چوسر كا كھيل جوئے كے زمرے ميں آتا ہے اور حرام ہے_والميسر رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه حضرت امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہوئي ہے: الشطرنج و النرد ميسر(۳) يعنى شطرنج اور چوسر ميسر كے زمرے ميں آتے ہيں _

احكام: ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸احكام كى تشريع كا معيار ۹

ازلام :ازلام كى پليدى ۱

بت:بتوں كى پليدى ۱;بتوں كيلئے قربانى سے اجتناب كرنا ۱۶

پليدي:پليدى سے اجتناب كرنا ۷، ۱۲;پليدى كى حرمت ۹

ترقي:ترقى و تكامل كے اسباب ۱۳

جاہليت:زمانہ جاہليت كى رسوم ۲، ۶; زمانہ جاہليت ميں ازلام ۱۷; زمانہ جاہليت ميں استخارہ ۶

جوا:جوے سے اجتناب ۵،۱۱; جوے كا گناہ ۲; جوے كا ناپسنديدہ ہونا۲; جوے كى پليدى ۱; جوے كى حرمت ۱۵،۱۸;جوے كے احكام ۱۵،۱۷،۱۸; جوے كے موارد ۱۵،۱۷، ۱۸;صدر اسلام ميں جو ا ۱۰

___________________

۱) كافى ج۵ص ۱۲۳ ح ۲; نورالثقلين ج۱ ص ۶۶۸ ح ۳۴۰_۲) كافى ج۵ص۱۲۳ح۲; نورالثقلين ج۱ ص ۶۶۸ ح ۳۴۰_

۳) تفسير عياشى ج۱ ص ۳۴۱ ح ۱۸۶ تفسير برہان ج۱ ص ۴۹۸ ح ۹، ۱۰_

۶۵۹

دين:فلسفہ دين ۱۳

روايت: ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸

شراب:شراب پينے كا گناہ ۳;شراب پينے كا ناپسنديدہ ہونا ۲;شراب پينے كے موارد ۱۴;شراب سے اجتناب ۵، ۱۱ ;شراب كى پليدى ۱;شراب كى حرمت ۱۴; شراب كے احكام ۱۴;صدر اسلام ميں شراب ۱۰

شرك:شرك سے اجتناب ۵، ۱۱ ;شرك كا گناہ ۴;صدر اسلام ميں شرك ۱۰;مظاہر شرك كا ناپسنديدہ ہونا ۲

شطرنج:شطرنج كى حرمت ۱۸

شيطان:شيطان كا عمل ۸;شيطان كى پليدى ۸

عمل:شيطانى عمل ۲;شيطانى عمل سے اجتناب ۷، ۱۲

ناپسنديدہ عمل ۲

فا ل لينا:زمانہ جاہليت ميں فال لينا ۶; ناپسنديدہ فال لينا ۲

قرعہ اندازي:زمانہ جاہليت ميں قرعہ اندازى ۱۷

كاميابي:كاميابى كا پيش خيمہ ۱۱، ۱۲ ; كاميابى كے اسباب ۱۳

گناہ:گناہ كبيرہ ۳، ۴

محرمات : ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸

محرمات كى پليدى ۹;محرمات كى تحريم كا معيار ۹

مشروبات:حرام مشروبات۲، ۳، ۵، ۱۱، ۱۴ ; نشہ آور مشروبات ۱۴

موجودات:پليد موجودات ۸

مؤمنين:مؤمنين كى ذمہ دارى ۵، ۷

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897