تفسير راہنما جلد ۴

 تفسير راہنما8%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 897

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 897 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 182888 / ڈاؤنلوڈ: 5806
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

علیہ کو ولی عہد نامزد کردیا ۔اپنی زندگی ہی میں اس کی ولی عہدی پر بیعت لے لی مگر حسین ابن علی علیھما السلام سے ایسے مطالبہ کی جراءت نہ کرسکا ۔

معاویہ کی وفات کے بعد یزید تخت نشین ہوا اوراس نے مدینہ کے گور نر کو لکھا کہ حسین ابن علی (علیھما السلام) سےبیعت کامطالبہ کیا جائے کہاں نواسہ رسول حسین ابن علی (علیھماالسلام) اورکہاں ابو سفیان کے پوتے یزید بن معاویہ کی بیعت -

چہ نسبت خاک راباعالم پاک

نواسہ رسول نے بیعت یزید کو ٹھوکر مارا اور خطرات سے بے نیاز ہو کر نکل کھڑے ہوئے تویہاں بھی شیعہ ساتھ تھے ۔۔۔۔۔

بہتر جانوں نے اس طرح جام شہادت نوش کیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی ۔غیرت وعقیدت کامسئلہ نہ ہوتا تو جان بھی بچتی اور انعام بھی ملتا ۔

حسین علیہ السلام شہید ہوگئے ۔ ہزاروں شیعہ مختلف وجوہ کی بنا پر نصرت امام نہ کرسکے ۔بعد شہادت حسین (ع) ،سلیمان بن صرد کی سرکردگی می روضہ حسین (ع) پر گئے اور رات بھر گریہ زاری کرتے رہے ۔صبح ہوئی تو اہلبیت کے دشمنوں سےٹکرانے کے لئے چل دئیے ۔ اس اندوہناک واقعہ نے ان کی ضمیر کو اس طرح جھنجھوڑ ا تھا کہ اب ان میں جینے کی خواہش ہی ختم ہوگئی تھی ۔چنانچہ وہ دشمن کے خاتمہ پر تل گئے اور اس وقت تک دشمن کامقابلہ کرتے رہے جب تک کہ خود ختم نہ ہوگئے اور اس وقت تک دشمن کامقابلہ کرتے رہے جب تک کہ خود ختم نہ ہوگئے ۔چند افراد کے علاوہ سب ہی نے جان دیدی

ممتاز شیعہ مختار ثقفی کہ جو شہادت حسین علیہ السلام کے وقت پابند سلاسل تھے کی بیڑیاں کٹیں تو انھوں نے بھی قاتلان حسین (ع) سے انتقام لینے کی ٹھانی اپنے گرد ہزاروں شیعہ اکٹھا کئے ۔پھر چن چن کر قاتلان حسین (علیہ السلام)کو تہہ تیغ کیا

۲۱

اس خونریزی کے دوران ہزاروں شیعوں نے جان ومال کی قربانی دی سانحہ کربلا کے بعد شیعیت کو ایک نئی زندگی ملی ۔قربانی کا ایک نیا جذبہ اور ولولہ ولائے اہلبیت کی بھر پور روشنی !

سانحہ کربلا کے تقریبا دوسال بدع یزید واصل جہنم ہوا ۔پھریزیدوں کی لائن لگ گئی ۔چہرے الگ الگ تھے مگر سب یزید ۔تاریخ کا کیسا جبر ہے کہ کس مسند رسالت پر خلیفہ رسول کے نام سے کیسے کیسے کوڑھی چہرے نظر آتے ہیں ۔ مردان بن حکم ،عبدالملک بن مروان ،ولید بن عبد الملک ہشام بن عبد الملک اور پھران کے خونین گورنروں کا سلسلہ ،سب سے بڑھ کر عراق کا گورنر حجاج بن یوسف ،جس کے بارے میں مولانا مودودی عاصم بن ابی النجود کا قول بیان کرتے ہیں کہ " اللہ کی حرمتوں میں کوئی حرمت ایسی نہیں رہ گئی جس کا ارتکاب اس شخص نے نہ کیا ہو اور پھر مولانا وموصوف حضرت عمربن عبدالعزیز کا قول بیان فرماتے ہیں کہ " اگر دنیا کی تمام قومیں خباثت کا مقابلہ کریں اور اپنے اپنے سارے خبیث لےآئیں تو ہم تنہا حجاج کو پیش کرکے ان پر بازی لے جاسکتے ہیں ۔(خلافت و ملوکیت ص ۱۸۵، ۱۸۶)

پھر آگے چل کر کہتے ہیں کہ یہ ظلم وستم اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں ایک مرتبہ حضرت عمربن عبدالعزیز چیخ اٹھے کہ۔

"عراق میں حجاج ،شام میں ولید مصر میں قرہ بن شریک ،مدینہ میں عثمان بن حیان ، مکہ میں خالد بن عبداللہ القسری ،خداوند تری دنیا ظلم سے بھر گئی ہے ، اب لوگوں کو راحت دے "۔(خلافت وملوکیت ۔۱۸۷ ۔ابن اثیر جلد ۴ ص ۱۳۷)

۲۲

کو مرتے وقت وصیت کی کہ حجاج بن یوسف کا ہمیشہ لحاظ کرتے رہنا ۔کیونکہ وہی ہے جس نے ہمارے لئے سلطنت ہموار کی ، دشمنوں کو مغلوب اور ہمارے لے خلاف اٹھنے والوں کو دبایا ۔"

(ابن اثیر جلد ۴ ص ۱۰۳ البدایہ جلد ۹ ص ۶۷ ،ابن خلدون جلد ۳ ص ۵۸)

ان یزون سے پہلے جن حضرات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ تو غلطی کرتے نہیں تھے ۔ خطا اجتہادی کرتے تھے ،مگر ان وحشی درندوں کے بارے میں کہ جن کے مظالم پر عمر بن عبدالعزیز بے اختیار چیخ اٹھے کہ خداوند تری دنیا ظلم سے بھر گئی ،اب تو انھیں راحت دے ۔یہ مولوی کیوں خاموش ہے ؟ ان بے رحم خلیفوں اور ان کے درندہ صفت گورنروں کے ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والے شیعہ کو تو اسلام دشمن اور فسادی کہا جاتا ہے مگر ان ظالموں کےبارے میں زبان خاموش ہے ۔۔۔۔۔۔بات یہ ہے کہ ظلم کی حمایت ان کی میراث ہے ۔

ہندوستان میں بھی شیعوں پر کچھ ظلم نہیں ڈھائے گئے ۔ اس سلسلہ میں فیروزشاہ تغلق کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے جس نے شیعوں کو قتل کرایا ۔مختلف نوعیت کی سزائیں دیں ۔ جزیہ تک عائد کردیا ۔

اور اب پاکستان میں سود اعظم اہلسنت کےنام سے ایک یزیدی گروہ پھر سرگرم عمل ہے ،

اس سلسلہ کلام کے آخر میں ہم یہ عرض کرتے ہوئے کہ شیعیت مظلومیت اور مظلوم کی حمایت کی تاریخ ہے مولانا مودودی کی تحریر پیش کرتے ہیں "

"بنو امیہ کے خلاف ان کےطرز حکومت کی وجہ سے عام مسلمان میں جو نفرت پھیلی اور اموی وعباسی دور میں اولاد علی (ع) اور ان کے حامیوں پر ظلم وستم کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں ہمدردی کے جو جذبات پیدا ہوئے انھوں نے شیعی دعوت کو غیر معمولی طاقت بخش دی " (خلافت وملوکیت ص ۲۱۱)

آپ کایہ فرمانا کہ فتنہ روافض نے خمینی کہ شہ پر سر ابھارا ہے ۔۔۔۔۔۔تو جناب یہ دبا ہوا کب تھا ،یہ تو آزادی کا دور ہے ۔بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں بھی یہ سرابھارتا رہا ہے ۔اور کٹتا رہا ہے ۔ ۔۔۔۔پاکستان اور ہندوستان کے شیعوں نے کون سی نئی

۲۳

گستاخی کی ہے جس کی بنا پر سر " ابھارنے " کا محاورہ استعمال کیا جارہا ہے ۔مجلس ،ماتم اور جلوس جو پہلے تھا سواب بھی ہے اور اسی طرح سے ہے کہ جیسے پہلے تھا ۔۔۔۔۔۔دراصل آپ کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ شیعیت نے ایران کے اسلامی انقلاب کی وجہ سے عالمی سطح پر اپنے آپ کو پہچنوایا ہے ۔آپ کو تکلیف یہ ہے کہ اسلام اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ ہوا تو شیعہ کے ہاتھوں ۔اور صرف ایران ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر اس کے اثرات پڑے ہیں ۔خاص طور سے شیعوں میں ہر جگہ ایک انقلابی طبقہ وجود میں آگیا ہے ۔۔۔۔۔آپ کی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی وجہ سے عرب ریاستوں کے بد معاش شیخوں اور سعودی عرب کے شاہی لٹیروں کو خطرات لاحق ہیں ۔۔۔۔۔اور یہ سب آپ کے آقا ہیں ۔

آپ کے دلوں میں ابو سفیان والا اسلام نہ ہوتا تو آپ بھی اسلامی انقلاب سے عام مسلمانوں کی طرح خوش ہوتے ، مگرآپ خوش ہونے کے بجائے عام مسلمانوں کو آقائےخمینی اور اس انقلاب سے بد ظن کرنے کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہے ہیں ۔

آپ نے ارباب اقتدار سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ شیعہ نوازی کا رویہ

۲۴

چھوڑیں اور شیعوں کے ساتھ وہ معاملہ کریں جو کسی اقلیت کے ساتھ کیاجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ارباب اقتدار تعلیم یافتہ ہیں وہ مسلمانوں کے ساتھ اقلیت کاسا سلوک کیسے کرسکتے ہیں ۔ پڑھے لکھے باشعور حکمراں تو اقلیتوں کے جذبات کازیاد ہ خیال رکھتے ہیں تاکہ انھیں یہ احساس نہ ہو کہ محض اقلیت ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے ۔ آئین کی رو سے بھی بلا امتیاز مذہب وعقیدہ تمام شہریوں کویکساں حقوق حاصل ہیں ۔ دراصل آپ کو شیعوں کے معاملے میں اقلتیں اس لئے یاد آئیں کہ آپ ذہنی طور سے اسی سڑے ہوئے زمانہ کی یادگار ہیں کہ اقلیتوں کی ذمی بنا کر ان سے غلاموں جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا اور آپ شیعوں کو بھی دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہتے ہیں ۔

ہم آپ کو بتا دینا چاہتے ہیں اور پہلے بھی بتاتے رہے ہیں کہ ہوش میں آئیے ۔سعودی ریال کا اتنا نشہ اچھا نہیں ۔آپ اس نشہ میں اپنے گھر کو کیوں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ یہ آپ کسے اقلیت قرار دے رہے ہیں ؟ ملک کی چوتھائی آبادی کو اور وہ بھ کوئی آپ جیسے خرکاروں کی آبادی نہیں بلکہ دانشوروں ،ادیبوں ،فنکاروں ،سیاست دانوں اور اعلی عہدیداروں کی آبادی ہے ۔آپ اس کریم کو نکال دیں گے تو آپ کے پاس بچے گا کیا ؟ یاد رکھئیے کہ ان کی وفا داریاں ملک سے اسی وقت تک برقرار رہتی ہیں کہ جب تک انھیں اپنے مخصوص روایات کے ساتھ عزت و آبرو سے جینے دیا جائے ورنہ بغداد سے لالوکھیت تک ایک ہی کہانی ہے ۔۔۔۔۔بات زیادہ بڑھی تو پھر نہ کہیں جماعت اسلامی نظرآئے گی اور نہ سواد اعظم اور نہ ہی ہفت روزہ تکفیر ۔

۲۵

باعث تکفیر

دیوبند کے فتنہ پرداز منظور نعمانی نے شیعہ اثنا عشریہ کے تین خاص عقیدوں کا ثبوت (بزعم خود)ان کی بنیادی اور مستند کتابوں کے حوالہ سے پیش کرکے اصحاب فتوی سے ان کے بارے میں کفر کے فتوے لئے ہیں ۔ اس کے بقول ان تینوں عقیدوں کی نوعیت یہ ہے کہ ان سے دینی حقیقتوں کی تکذیب ہوتی ہے جنھیں علماء کی اصطلاح میں " قطعیات: اور "ضروریات دین" کہا جاتا ہے اور وہ تین عقیدے یہ ہیں ۔

۱:- شیعہ اثنا عشریہ "شیخین " یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو کافر سمجھتے ہیں ۔

۲:- شیعہ اثناعشریہ قرآن میں ہرقسم کی تحریف کے قائل ہیں ۔

۳:- شیعہ اثنا عشریہ عقیدہ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کےمنکر ہیں ۔

۱:- عقیدہ تکفیر شیخین:

مسلمانوں کے ہاں طریقہ ہے کہ جب کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو اس سے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھوایا جاتا ہے اور اس طرح سے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتاہے ۔پھر اسے ایمان وعقیدہ کی باتیں سکھائی جاتی ہیں ۔ایمان مفصل ومجمل کی تعلیم دی جاتی ہے ۔

۲۶

ایمان مفصل :-

آمنت باللہ وملآئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالی والبعث بعد الموت ۔

میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کی کتابون پر ار اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد ج اٹھنے پر ۔

یہاں کہیں نہیں ہے کہ میں ایمان لایا ابو بکر کے ایمان لانے پر اور میں ایمان لایا عمر کے ایمان لانے پر ۔۔۔۔۔۔تو پھر کسی مسلمان کو ان دونوں کی تکفیری پرکس اصول کے تحت کافر قرار دیا جاسکتا ہے ؟

ایمان مجمل:-

" آمنت بااللہ کما ھو باسمائہ وصفاتہ وقبلت جمیع احکامہ اقرار باللسان وتصدیق بالقلب "

میں ایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے ناموں اور اپنی صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے سارے حکموں کو قبول کیا ۔زبان سے اقرار ہے اور دل سے یقین ہے ۔

یہاں پر بھی کہیں ابو بکر و عمر کا تذکرہ نہیں ہے ،تاہم سارے حکموں کو قبول کرنے والی بات قابل غور ہے ۔۔۔۔مگر پورے قرآن میں کہ یہ حکم خدا کو معلوم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کہیں اشارۃ " بھی ابو بکر وعمر کا تذکرہ نہیں ہے ۔

دراصل یہ تاریخ کا مسئلہ ہے مگر دیوبند کے منظور نعمانی نے اسے قرآن

۲۷

کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ اثنا عشری شیعہ کو کافر قراردیا جاسکے اس سلسلہ میں اس نے قرآن کی بہت سی آیتیں اس دعوے کے ساتھ پیش کی ہیں کہ یہ آیتیں حضرات شیخین کے بارے میں نازل ہوئیں اور یہ ثابت کرے کی کوشش فرمائی ہے کہ شیخین کے ایمان سے انکار کا مطلب یہ ہے کہ ان دینی حقیقتوں کی تکذیب کی جارہی ہے کہ جنھیں علماء کی اصطلاح میں" قطعیات " اور "ضروریات دین" کہا جاتا ہے ۔

یہ بات ایک عام پڑھا لکھا آدمی بھی جانتا ہے کہ قطعی بات وہ کہلا تی ہے کہ جس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو اور ضروریات وہ ہوتی ہے ہیں کہ جن کے بغیر کہیں کوئی رخنہ پڑے ۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قرآن میں دور رسالت کی صرف دوہستیوں کا ان کے نام کے ساتھ تذکرہ گیا گیا ہے ،ابو لہب و زید بن حارثہ ۔۔۔۔ ان کے علاوہ اس دور کا کوئی نام قرآن میں نظر نہیں آتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض آیتیں ایسی ہیں کہ جن میں شیخین کےبارے میں بغیر نام لئے کچھ کہا گیا ہے ۔مگر جو کچھ کہا گیا ہے وہ قطعی نہیں ،چنانچہ مفسرین نے اپنے اپنے فہم وفراست اور رجحانات کے مطابق ان باتوں سے معافی ومطالب اخذ کئے ہیں ۔ ۔۔۔۔ اگر کسی آیت میں اللہ تعالی کا صحابہ کرام سے راضی ہوجانے کا تذکرہ ملتاہے تو ساتھ ساتھ اس "رضا " پر گفتگو کی بھی خاصی گنجائش ہے ۔۔۔۔غار والی آیت میں جہاں مفسرین حضرت ابو بکر کی فضیلت کا پہلو نکالتے ہیں وہاں ایسے مفسرین بھی ہیں کہ اسی آیت سے وزنی دلیلوں کےساتھ ان کے ایمان کی کمزوری کا پہلو بھی نکالتے ہیں ۔

۲۸

" ایمان اوراسلام اور کفر کی حقیقت اور ان کی حدود "کے عنوانات کے تحت منظور نعمانی نے ایک عبارت لکھی ہے اور اسے لکھ کر وہ خود آپ اپنے جال میں آگئے ۔۔۔۔۔۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے رسول کو دل سے اللہ کارسول مانا جائے جو وہ اللہ کی طرف سے بتلائیں اس سب کی تصدیق اور اس کو قبول کیا جائے اور اس پر ایسا یقین کیاجائے جس میں شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو ۔ ان کی کسی ایک بات کا انکار اور یقین نہ کرنا موجب کفر ہوگا ۔جن مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا اور ان کوآپ کی تعلیم بالواسطہ پہنچی (جیسا کہ ہمارا حال ہے ) ان کے لئے یہ حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف انھیں تعلیمات اور احکام کی ہوگی جو ایسے قطعی اور یقینی طریقہ سے ثابت ہیں جن میں شک وشبہ یا تاویل کی گنجائش نہیں ۔ مثلا یہ بات کہ حضور نے شرک وبت پرستی کے خلاف توحید کی تعلیم دی ، قیامت وآخرت ،جنت ودوزخ کی خبروں ، ایک مستقل مخلوق کی حیثیت سے فرشتوں کے وجود کی اطلاع دی ۔

قرآن پاک کو ہمیشہ محفوظ رہنے والی اللہ کی کتاب اور اپنے کو اللہ کا آخری نبی بتلا یا ۔جس کے بعد اللہ کی طرف سے کوئی نبی نہیں آئے گا ،اور مثلا پانچ وقت کی نماز ، رمضان کے روزوں اور زکواۃ وحج کےفرض ہونے کی تعلیم دی اور اس طرح کی بہت سی دینی حقیقتیں اور دینی احکام ہیں جن کے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہونے کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں تو کسی کے مومن ومسلم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ایسی تمام باتوں کی اپنے علم کے مطابق (اجمالی یا تفصیلی )تصدیق کی جائے ۔ان کو دل سے مانا جائے ، قبول کیا جائے '۔

۲۹

اب اس تحریر کے بعد ایمان شیخین پرایمان لانے کی "قطعیات " میں شمار کرنے کی گنجائش رہ جاتی ہے ؟ ان کے بارے میں تو کوئی حکم ہی نہیں ہے نہ قطعی نہ غیر قطعی اللہ کے حکموں کو قبول کرنے ( ایمان مجمل کے مطابق) کا دوسرا بڑا ذریعہ حدیث ہے اور حدیث میں بھی کہیں یہ نہیں ہے کہ اللہ کا حکم ہے کہ خبردار شیخین کے ایمان پر شک نہ کرنا ورنہ تم کافر ہوجاؤگے ۔

اگر مطلب براری کے لئے ان حدیثوں کا سہار ا لیا جائے کہ جن میں شيخین کے فضائل بیان ہوئے ہیں تو یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ دور بنی امیہ میں سیاسی ضرورت کے تحت شیخین کی فضیلت کے لئے بہت سی حدیثیں گھڑی گئی ہیں اور پھر ایسی حدیثیں بھی ہیں جن سے شیخین کی شخصیت کے تاریک پہلو سامنے آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی قطعی بات تونہ ہوئی ۔پھر ایمان شیخین پر یقین کو قطعیات کیسے کہہ سکتے ہیں ۔؟

آپ کے خیال میں صحابہ کرام پر ضروریات دین کی اصطلاح کا بھی اطلاق ہوتا ہے ۔کیونکہ "دین "صحابہ ہی کے ذریعہ سے مسلمانوں تک پہنچا ہے مگر ہم یہ عرض کریں گے کہ آپ نے تو حصول دین کے لئے خود اپنی پسند کاراستہ اختیار کیا ہے ۔۔۔۔یہ آپ کی پسند معاملہ ہے اسلام کا نہیں ۔۔۔۔آپ نے خود سنگین غلطی کی اور شیعوں سے کہتے ہیں کہ تم کیوں نہیں کرتے ؟ آپ نے ہر صحابی کو معتبر جانا ، محض اس لئے کہ وہ رسول اللہ پر ایمان لایا اور انھیں دیکھا حجتہ الوداع تک صحابہ کی تعداد کم از کم ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ہر شخص "عادل" ہو ۔ پھر یہ کیا تماشہ ہے "الصحابہ کلھم عدول" یعنی تمام صحابہ عادل ہیں ،اور پھر اس کے آگے ایک او ر قیامت "اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم "

۳۰

یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ۔ ان میں سے جس کی اقتد کروگے راستہ پاؤگے ۔

ذرا سوچئے تو کہ آج کے دور میں اگر رسول اللہ صلعم کی بیعثت ہوئی تی تو کیا گدھے گاڑی والا ،بس کنڈیکٹر ،دھوبی ،نائی ،قصائی ،ڈاکٹر ،انجینئر پروفیسر اور تاجر محض رسول اللہ پر ایمان لانے اور آپ کی زیارت کی وجہ سے صحابی ہوجاتا اور ہر ایک اسلام سے وابستگی، ذہنی سطح ، علمی استعداد ،نیکی وپارسائی غرض ہر لحاض سے برابر ہوجاتا اور پھر اپنی مرضی پر ہوتا کہ جس کی چاہے اقتدا کرے ،چاہے گدھے گاڑی والے کو اپناہادی بنادلے اور چاہے تو پروفیسر کو بات ایک ہی ہے ۔

آپ تو دور دراز کے تعلق رکھنے والوں کو بھی شرف صحابیت سے نوازتے ہیں اور ہر ایک کو ہدایت ورہنمائی کے قابل سمجھتے ہیں مگر سچی بات تویہ ہے کہ رسول اللہ سے قریب اور بعض بہت ہی قریب رہنے والے صحابہ سےبھی ایسے افعال سرزد ہوئے کہ جن کی بناپر ہر شخص کوان کے بارے میں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے ۔

تاریخ داں اچھی طرح جانتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کس نے رسول کی رسالت پر شک کیا اورگستاخانہ لہجہ میں بات کی ، اور کس نے دوران علالت انھیں سامان کتابت فراہم کرنے سے منع کیا اور کہا کہ یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ،ہمیں کتاب خدا کافی ہے اور کس کس نے رسول اللہ کے حکم سے روگردانی کرتے ہوئے جیش اسامہ میں شامل ہونے سے پہلو تہی کی اور کتنے صحابی ایسے تھے کہ جو رسول اللہ صلعم کا جنازہ چھوڑ کر خلافت کا مسئلہ طے کرنے سقیفہ بنو ساعدہ چلے گئے تھے ۔

۳۱

وہ کون سے بزرگ تھے جو کہ احد کے دن جب مسلمانوں نے راہ فرار کی ، پہاڑ پر بزکوہی کی طرح کودتے پھرتے تھے اور وہ کون صاحب تھے کہ جو ایسا بھاگے کہ تین دن کے بعد واپس ہوئے ، اور وہ کون سے حضرات تھے کہ جنھوں نے خیبر سے راہ فرار اختیار کی ۔ کہاں تک لکھا جائے ،اس طرح کی بیسوں باتیں خاص اور عام صحابہ سے منسوب ہیں ۔ ۔۔۔۔۔یہ خالص تاریخی مسئلہ ہے ، اب جس کا دل چاہے ان باتوں پر یقین نہ کرے اور ان سب کواپنا ہادی بنالے اور جس کا دل چاہے ان باتوں پر یقین کرے اور انھیں چھوڑ دے اور اگر صحابہ ہی سے دلچسپی ہے تو ایسے صحابہ کو پکڑئیے کہ جن کا دامن صاف ہے اور "ضرورت دین" کا مسئلہ حل کرلیجئے ۔ ورنہ اصل " ضرورت دین " تو رسول اللہ کا گھرانہ ہے ۔رسول اللہ نے تو بتا بھی دیا تھا کہ میں اپنے بعد دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔ایک کتاب اور دوسرے اپنے اہلبیت ان سے متمسک رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے اور علم کا دروازہ بھی دکھا دیا تھا مگر مسلمانوں کی قسمت کہ انہوں نے اس دروازے کو خود اپنے اوپر بند کرلیا ، قرآن کو پکڑ لیا اور اہلبیت کو چھوڑ دیا ، اور شیعہ سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم بھی انھیں چھوڑ دو اور انہیں " ضروریات دین" سمجھو کہ جنہیں ہم سمجھتے ہیں ، ورنہ تم ٹھہرے کافر۔

اگر بعض صحابہ وامہات المومنین کو نہ ماننے کی وجہ سے آپ کسی کو کافر ٹھہرائیں تو ٹھیک ہے ! ٹھہر ائیے ۔ہم بھی کچھ حوالے حدیثوں سے اور کچھ شہادتیں تاریخ سے پیش کئے دیتے ہیں اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ دیکھیں کس کس کو کافر قراردینے کی جراءت کرتے ہیں ۔

اس تفصیل میں جائے بغیر کہ رسول کی لخت جگر بی بی فاطمہ زہرا کو شیخین کی طرف سے کیا کیا دکھ پہنچے ،ہم صرف اتنا بتائیں گے کہ بی بی انہی دکھوں

۳۲

کے سبب رسول اللہ کے انتقال کےبعد ۶ مہینے سے زیادہ زندہ نہ رہسکی اور اس پورے عرصہ میں فریاد کرتی رہی اے بابا جان ! آپ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد مجھ پر اتنے دکھ پڑے کہ اگر دن پر پڑتے تو رات ہوجاتا ۔ ہم ان دکھوں کی تفصیل میں اس لئے نہیں جارہے ہیں کہ مناظرے کی کتابون میں اس پر بڑی بحثیں ہوچکی ہیں اور اس چھوٹی سی کتاب میں اس کی گنجائش بھی نہیں ہے ۔ ہم یہاں صرف دوحقیقتوں کا تذکرہ کریں گے ۔

پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ فاطمہ بنت رسول (س) ابو بکر سے اس قدر ناراض تھیں کہ اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا اور وصیت فرماگئیں کہ ابو بکر ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ۔اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ رسول نے ارشاد فرمایا تھا کہ جس نے فاطمہ (س) کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ۔

حدیث شریف :-

"فوجدت فاطمة علی ابی بکر فی ذالک فهجد ته فلم تکلم حتی توفیت وعاست بعد النبی صلی الله علیه وسلم ستة اشهر فلما توفیت دفنها زوجها علی لیلا ولم یوذن بها ابا بکر وصلی علیها

(بخاری کتاب المغازی ،غزوہ خیبر)

ترجمہ :- تو حضرت فاطمہ اس مسئلہ میں ابو بکر سے ناراض ہوگئیں اور انہوں نے اپنی وفات تک حضرت ابو بکر سے گفتگو نہ کی ، حضرت فاطمہ آنحضرت کی وفات کے بعد ۶ ماہ زندہ رہیں ، جب ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے شوہر حضرت علی (ع) نے انہیں رات ہی میں دفن کر دیا اور انہیں شریک ہونے کی اجازت دی اور خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھ لی ۔

"ابو الولید حدثنا ابن عینینه عن عمرو بن دینار عن ابن

۳۳

ابی ملیکة عن المسور ابن محزمه رضی الله عنها ان رسول الله صلی الله علیه وسلم قال فاطمة بضعة منی فمن اغضبها اغضبنی "(بخاری شریف ،کتاب الانبیاء حدیث نمبر۹۵۳)

ترجمہ:- ابو الولید ابن عینییہ ، عمر بن دینار ،ابن اب ملیکہ حضرت مسور ابن محزمہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (س) میرے گوشت کا ٹکڑا ہے ، جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھ کو غضبناک کیا ۔ اب غور فرمائیے کہ رسول اللہ کو غضب ناک کرنے والوں کا کہاں ٹھکانا ہے ؟ ایک اور مثال کہ جناب رسول خدا (ص) نے فاطمہ کے شوہر اور اپنے عم زاد کہ جنہیں مسلمان خلیفہ راشد سمجھتے ہیں سے بغض رکھنے والوں کےبارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے ۔ ازالۃ الخلفاء میں ہے کہ :-

سلمان فارسی سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ان سے پوچھا ، تم حضرت کو کیوں چاہتے ہو ؟ انھوں کہا کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ جس نے علی علیہ السلام سے دوستی کی اس نے مجھ سے دوستی کی اور جس نے علی علیہ السلام سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا ۔"

"عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے سنا ۔آپ حضرت علی سے فرمارہے تھے کہ مبارک ہیں وہ جو تم کو دوست رکھتے ہیں اور تمہارے معاملہ میں سچ کہتے ہیں اور بربادی ہے ان کے لئے جو تم سے بغض رکھتے ہیں اور تمہاری بابت جھوٹ بولتے ہیں ۔

ترمذی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ ہم (انصار )منافقوں

۳۴

کو حضرت علی علیہ السلام کے بغض سے پہچانتے ہیں "

"ام سلمہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق حضرت علی علیہ السلام سے دوستی نہ کرے گا اور نہ کوئی مومن ان سے بغض رکھے گا "۔

یہ تمام روایتیں شاہ ولی اللہ دہلوی نے ازالۃ الخلفاء مقصد دوم مآثر علی ابن ابی طالب میں تحریر فرمائی ہیں ۔ اب یہ سواد اعظم والے جانیں کہ کیا شاہ ولی اللہ صاحب بھ کسی یہودی سازش کا شکار ہوگئے تھے کہ انہوں نے یہ روایتیں نقل کردیں ۔

ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رسول کی زندگی ہی میں لوگوں کے بغض کا شکار تھے اور بغض رکھنے والے ان روایات کی رو سے ظاہری مسلمان تھے ۔

رسول اللہ کی آنکھ بند ہوتے ہی حضرت علی مرتضی کے خلاف بغض وحسد کا اظہار ہونے لگا مگر آج سے چودہ سو برس بعد اس کا ادراک عام مسلمانوں کے لئے بڑا مشکل ہے ، مگر تاریخ میں ایک ایسا موڑ بھی آگیا کہ علی علیہ السلام کے خلاف تلواریں نکل آئیں ۔۔۔۔۔ تو اب کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ علی سے دشمنی رکھنے والوں کو نہ پہچانا جائے ۔

قول رسول ہے کہ کوئی مومن علی علیہ السلام سے بغض نہیں رکھے گا ،مگر اسے کیا کیجئے کہ ام المومنین صحابی رسول وخلیفہ راشد کے مقابلے پر ہزاروں مسلمانوں کو ساتھ لے کر میدان جنگ میں تشریف لے آئیں اور ایسی جنگ کی کہ جس کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمانوں کے سرتن سے جدا ہوگئے ۔

یہ جنگ تاریخ میں "جنگ جمل " کے نام سے مشہور ہے ۔۔۔۔۔۔۔اب

۳۵

سواد اعظم کے سیاہ قلب مفتی بی بی عائشہ کے بارے میں کیا فتوی دیں گے ؟

قول رسول ہے کہ یاعلی بربادی ہے ان کے لئے جو تم سے بغض رکھتے ہیں اور تمہاری بابت جھوٹ بولتے ہیں ۔

معاویہ بن ابی سفیان کہ جنہیں بھی صحابی کادرجہ دیا جاتا ہے نے ہمیشہ علی سے بغض رکھا اور ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا ۔ان جیسے خلیفہ راشد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور صفین کے میدان مین ایک خونریز جنگ لڑی پھر جب شکست سے قریب ہونے لگے تر بڑے مکر کے ساتھ قرآن کو درمیان میں لائے اور علی علیہ السلام کو جنگ بند کرنے پر مجبور کردیا ۔اور پھر اپنی فریب کاریوں کے طفیل ایک خلیفہ راشد کی موجودگی میں اسلامی ریاست کے ایک بڑے علاقہ پر خود مختار حکمراں کی حیثیت سے قابض رہے اور اس پر بس نہیں کیا بلکہ حضرت علی علیہ السلام کی حدود ریاست میں شام کے بھیڑیا صفت سالار بسر بن ارطاۃ کو قتل وغارت گری کی چھوٹ دے رکھی تھی ۔ یہ بھیڑیا جب موقع ملتا بھیڑیوں کی فوج لے کر حضرت علی علیہ السلام کے علاقے میں گھس جاتا اور علی علیہ السلام کے فوجی دستے پہنچے تویہ فرار ہو جاتا اور اپنے پیچھے ظلم کی ایک نئی داستان چھوڑ جاتا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس درندے نے عبیداللہ ابن عباس کے دو معصوم بچوں کو بے جرم وخطا ذبح کر دیا ۔

معاویہ کے جرائم یہیں پر ختم نہیں ہوجاتے ہیں بلکہ یہ شخص تو صحابی رسول حجر بن عدی اور ان کسے ساتھیوں کوحب علی کے جرم میں قتل کرادیتا ہے ، معاویہ کی اس حرکت پر حضرت عائشہ بھی اظہار ناراضگی کرتی ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ایسی روائتیں بھی ملتی ہیں کہ امام حسن علیہ السلام کی شہادت اس زہر دغا سے ہوئی کہ جس کا انتظام اسی شخص نے کیا تھا ۔

معاویہ کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے اور اگر صرف صحابہ کرام کے

۳۶

ساتھ اس کے برتاؤ کو زیر بحث لایا جائے تو بھی ساری باتوں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا لہذا اب ہم صرف حضرت علی علیہ السلام پر اس کی طرف سے ہونے والے سب وشتم کو زیر بحث لائیں گے ۔

صحابی رسول اورمسلمانوں کے خلیفہ راشد حضرت علی مرتضی پرسب وشتم کرنے اورباقاعدہ اس فعل قبیح کی رسم قائم کرنے والا شخص معاویہ ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ خود بھی مسلمانوں کا "صحابی رسول " ہے یہ شخص خود بھی حضرت علی علیہ السلام پر سب وشتم کرتا ہے اور چاہتا کہ دوسرے صحابہ بھی ایسا ہی کریں ۔ اپنے عاملوں کو تو اس نے اس بارے میں خاص طور سے حکم دے رکھا تھا اور یہ عمال مستعدی سے اس کا حکم بجالاتے خاص طور سے جمعہ کے خطبات بغیر توہین علی علیہ السلام کے مکمل نہ ہوتے ۔

افسوس کہ سب علی علیہ السلام کا سلسلہہ حیات علی علیہ السلام تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ آپ کی شہادت کے بعد بھی جاری رہا ۔ یہاں تک کہ بنو امیہ کے واحد صالح حکمران عمربن عبد العزیز کا دور آیا اور اس نے اس رسم قبیح پر پابندی لگادی ۔

صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب فضائل علی میں ہے کہ

عن عامر بن سعد بن ابی وقاص عن ابیه قال امیر معاویه بن ابی سفیان سعد فقال ما منعک ان تسب اباتراب فقال اماما ذکرت ثلاثا قالهن رسول الله صلی الله علیه وسلم فلن اسبه "

ترجمہ:- عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان نے سعد کو حکم دیا پھر کہا کہ تجھے کس چیز نے روکا ہے کہ تو ابوتراب پر سب کرے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں رسول اللہ کے تین ارشادات کو یاد کرتا ہوں تو میں ہرگز علی علیہ السلام پر سب نہیں کرسکتا

۳۷

صحیح مسلم کے علاوہ صحیح ترمذی مسند احمد بن حنبل اور دوسری کتب حدیث میں بھی معاویہ کی جاری کردہ اس قبیح رسم کا تذکرہ موجود ہے ۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑا ستم یہ تھا کہ علی علیہ السلام پر سب وشتم ان کے چاہنے والوں کے سامنے کیا جاتا اور مکینگی کی انتہا یہ کہ عزیزوں اور بیٹیوں کی موجودگی کا بھی خیال نہ کیا جاتا ۔

جب صلح نامہ لکھا جارہا تھا تو حضرت امام حسن علیہ السلام نے ایک شرط یہ بھی لکھوانا چاہی کہ میرے والد پر سب وشتم نہ کیا جائے ،مگر معاویہ نے اسے تسلیم نہیں کیا تو امام حسن نے یہ مطالبہ کیا کہ کم از کم میرے سامنے ایسا نہ کیا جائے چنانچہ معاویہ نے یہ بات مان لی مگر اسے پورا نہیں کیا ۔تصدیق کے لئے ملاحظہ ہو طبری جلد نمبر ۴ ، البدایہ ابن کثیر جلد ۸ اور الکامل جلد ۳

معاویہ کایہ جرم کہ اس حضرت علی علیہ السلام پر سب وشتم کی رسم جاری کی روز روشن کی طرح عیال ہے اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ، لہذا ہر دور کے جلیل القدر علماء نے معاویہ کے اس جرم کو تسلیم کیا ہے ۔

دور حاضر کے ممتاز عالم مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کہ جن کا قیام بھارت میں ہے "تاریخ اسلام " جلد دوم میں لکھتے ہیں ۔

امیر معاویہ نے اپنے زمانہ میں بر سرمنبر حضرت علی پر سب وشتم کی مذموم رسم جاری کی تھی اور ان کے تمام عمال اس رسم کو ادا کرتے تھے ۔ مغیرہ بن شعبہ بڑی خوبیوں کے بزرگ تھے لیکن امیر معاویہ کی تقلید میں یہ بھی اس مذموم بدعت سے نہ بچ سکے ۔حجر بن عدی اور ان کی جماعت کو قدرتا اس سے تکلیف پہنچی تھی " (تاریخ اسلام جلد ۲)

۳۸

مولانا سید ابو اعلی مودودی فرماتے ہیں:

ایک نہایت مکروہ بدعت حضرت معاویہ کے عہد میں یہ شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں میں بر سر منبر حضرت علی علیہ السلام پر سب وشتم کی بو چھاڑ کرتے تھے ، حتی کہ مسجد نبوی منبر رسول پر عین روضہ نبوی کےسامنے حضور کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے یہ گالیاں سنتے تھے کسی کے مرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا ،شریعت تو درکنار ،انسانی اخلاق کے بھی خلاف تھا اور خاص طور پر جمعہ کے خطبہ کو اس گندگی سے آلودہ کرنا تو دین واخلاق کے لحاظ سے سخت گھناؤ نا فعل تھا ۔ حضرت عبدالعزیز نے آکر اپنے خاندان کی دوسری غلط روایات کی طرح اس روایت کو بھی بدلا اور خطبہ جمعہ میں سب علی کی جگہ یہ آیت پڑھنا شروع کردی ۔۔۔۔۔۔( خلافت وملوکیت ،مولانا ابو الاعلی مودودی ص ۱۷۵)

صحابی رسول حجر بن عدی شیعہ کی موجودگی میں مسجد کوفہ میں خطبہ کے دوران حضرت علی کرم اللہ پر سب وشتم کیا جاتا ۔ آپ نے اس کمینگی پر آواز اٹھائی تو گرفتار کر لئے گئے ۔پھر آپ کو معاویہ کے پاس شام بھیج دیاگیا اور معاویہ نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو علی سے محبت کرنے کے جرم میں قتل کرادیا ۔ اس سلسلہ میں ہم مولانا ابو اعلی مودودی کی ایک تحریر پیش کرتے ہیں ۔ آپ حجر بن عدی کے بارے میں لکھتے ہیں :

"ایک زاہد وعابد صحابی اورصلحائے امت میں ایک اونچے مرتبہ کے شخص تھے ۔حضرت معاویہ کے زمانہ میں جب منبروں پر خطبوں میں اعلانیہ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت اور سب وشتم کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔۔۔۔کوفہ میں حجر بن عدی رضی اللہ علیہ سے صبر

۳۹

نہ ہوسکا اور انہوں نے جواب میں حضرت علی علیہ السلام کی تعریف اور حضرت معاویہ کی مذمت شروع کردی ۔۔۔۔۔جب زیاد کی گورنری میں بصرے کے ساتھ کوفہ بھی شامل ہوگیا ۔۔۔۔وہ خطبے میں حضرت علی علیہ السلام کو گالیاں دیتا تھا اور یہ اٹھ کر اس کا جواب دینے لگتے تھے ۔ ۔۔۔۔ آخر کار اس نے انہیں اور ان کے بارہ ساتھیوں کو گرفتار کرلیا ، اور ان کے خلاف بہت سے لوگوں کی شہادتیں اس فرد جرم پر لیں کہ ۔۔۔۔۔۔ان کا دعوی ہے کہ خلافت آل ابی طالب کے سوا کسی کے لئے درست نہیں ہے ۔۔۔۔یہ ابو تراب (حضرت علی علیہ السلام ) کی حمایت کرتے ہیں ۔ ان پر رحمت بھیجتے ہیں اور ان کے مخالفین سے براءت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

اس طرح یہ ملزم حضرت معاویہ کے پاسے بھیجے گئے اور انہوں نے ان کے قتل کا حکم دیا ۔قتل سے پہلے جلادوں نے ان کے سامنے جو بات پیش کی وہ یہ تھی کہ " ہمیں حکم دیا گيا ہے کہ اگر تم علی علیہ السلام سے براءت کا اظہار کرو اور ان پر لعنت بھیجو تو تمہیں چھوڑ دیا جائے " ان لوگوں نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا اور حجر نے کہا " میں زبان سے وہ بات نہیں نکال سکتا جو رب کو ناراض کرے ۔ آخر کار وہ ان کے سات ساتھی قتل کردیئے گئے ۔ ان میں سے ایک صاحب عبدالرحمن بن حسان کو حضرت معاویہ نے زیاد کے پاس بھیج دیا ۔ اور اس کو لکھا کہ انھیں بدترین طریقہ سے قتل کرو ۔چنانچہ اس نے انہیں زندہ دفن کردیا "(خلافت وملوکیت ص ۱۴۶)

یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والوں کی شرم وغیرت کوکیا ہوا ؟ ان کی عقلوں پر کون سے دیز پردے پڑے ہوئے ہیں ؟ انھیں کیا چیز باطل کی حمایت پر کمربستہ کئے ہوئے ہے ؟ یہ ناموس صحابہ کے پاسباں نامو ‎ س رسول

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

آیت ۱۱۶

( وَإِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ )

او رجب الله نے كہاكہ اے عيسي بن مريم كيا تم نے لوگوں سے يہ كہہ ديا ہے كہ الله كو چھوڑ كر مجھے او رميرى ماں كو خدامان لو _ تو عيسي نے عرض كى كہ تيرى ذات بے نياز ہے ميں ايسى بات كيسے كہوں گا جس كا مجھے كوئي حق نہيں ہے او راگر ميں نے كہا تھا تو تجھے تو معلوم ہى ہے كہ تو ميرے دل كاحال جانتا ہے او رميں تيرے اسرار نہيں جانتا ہوں _ تو تو غيب كا جاننے والا بھى ہے _

۱_ خداوند متعال قيامت كے دن انبياءعليه‌السلام كى موجودگى ميں حضرت عيسيعليه‌السلام سے پوچھے گا كہ كيا انہوں نے لوگوں كو اپنى اور اپنى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كى عبادت كرنے كا كہا تھا؟و اذ قال الله يا عيسي ابن مريم ا انت قلت للناس اتخذونى و امى الهين اگر آيہ شريفہ ۱۱۹ يعني'' قال الله هذا يوم ...'' كى طرف توجہ كريں نيز اس حقيقت كى جانب توجہ كريں كہ جب حضرت عيسيعليه‌السلام اپنى امت كے درميان موجود تھے، تو كوئي بھى ان كى اور حضرت مريمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى الوہيت اور خدائي كا معتقد نہيں تھا، تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مذكورہ سوال و جواب قيامت كے دن ہوگا، واضح ر ہے كہ فعل مضارع اور مستقبل كى جگہ فعل ماضى استعمال كرنے كا مقصد يہ ہے كہ خداوند متعال حتما اور يقينا سوال كرے گا_

۲_ خداوند متعال قيامت كے دن اپنے انبياءعليه‌السلام سے يہ سوال كرے گا كہ ان كى امتيں كس طرح باطل كى طرف مائل ہوگئيں _

و اذ قال الله يا عيسي ابن مريم ا انت قلت للناس

۷۶۱

۳_ بعض عيسائي خيال كرتے تھے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام اور ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام خداوند عالم كے ہم پلہ اور مساوى دو خدا ہيں _ا انت قلت للناس اتخذونى و امى الهين من دون الله

۴_ الوہيت اور عبادت ميں شرك در حقيقت خدا وند متعال كا انكار ہے_اتخذونى و امى الهين من دون الله

۵_ عيسائي يہ باطل عقيدہ ركھتے تھے كہ حضرت عيسي نے ان سے چاہا ہے كہ وہ لوگ انكى اور انكى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كى عبادت كريں اور انہيں خدا تسليم كريں _أانت قلت للناس اتخذونى و امى الهين

۶_ الوہيت اور خدائي كا مقام جنم لينے اور جنم دينے كے ساتھ ہم آہنگ نہيں ہے_اتخذونى و امى الهين

۷_ خداوند متعال الوہيت و عبادت كے لائق ہر قسم كے شريك سے پاك و منزہ ہے_قال سبحانك

۸_ حضرت عيسيعليه‌السلام اس بات كے معتقد اور معترف تھے كہ خداوند متعال الوہيت و عبادت كے لائق ہر قسم كے شريك سے پاك و منزہ ہے_قال سبحانك

۹_ حضرت عيسيعليه‌السلام قيامت كے دن اپنے اور اپنى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كے بارے ميں الوہيت اور خدائي كے بيہودہ ادعا كا سختى سے انكار كريں گے_ما يكون لى ان اقول ما ليس لى بحق

۱۰_ حضرت عيسيعليه‌السلام كى شخصيت اس سے بہت بلند ہے كہ وہ اپنے اور اپنى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كے بارے ميں بے بنياد قسم كے دعوے كريں _ما يكون لى ان اقول ما ليس لى بحق

۱۱_ انبيائے الہى اس سے پاك و منزہ ہيں كہ اپنى عبادت يا اپنے آپ كو خدا قرار دينے كى دعوت ديں _

ما يكون لى ان اقول ما ليس لى بحق

۱۲_ كوئي بھى شخص حتى حضرت عيسيعليه‌السلام اور ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام بھى خدا كا شريك بننے كى صلاحيت نہيں ركھتے_ما يكون لى ان اقول ما ليس لى بحق

۱۳_ حضرت عيسيعليه‌السلام كا واضح طور پر يہ اعتراف كرنا كہ وہ اور ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام خدائي كى صلاحيت نہيں ركھتے، عيسائيوں كے اس عقيدہ كے لغو اور بے بنياد ہونے پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام اور ان كى والدہ بھى خدا ہيں _

۷۶۲

ما يكون لى ان اقول ما ليس لى بحق

۱۴_ حضرت عيسيعليه‌السلام خداوند متعال كے ساتھ شريك بننے كى فكر سے پاك و منزہ ہيں _

ما يكون لى ان اقول ما ليس لى بحق تعلم ما فى نفسي جملہ''ما يكون لى ان اقول ...'' اس چيز كى وضاحت كررہا ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام نے كبھى ايسى چيز كا اظہار نہيں كيا جس كى وہ قابليت نہيں ركھتے، اور جملہ''تعلم ما فى نفسي'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ انہوں نے كبھى اس طرح كى چيز كے بارے ميں سوچا بھى نہيں ، يعنى كبھى ان كے ذہن ميں بھى نہيں آيا كہ وہ الوہيت و خدائي اور خدا كا شريك بننے كى صلاحيت يا قابليت ركھتے ہيں _

۱۵_ خداوند متعال انسان كى گفتار، كردار، افكار اور اس كى نفسانى صفات و حالات سے بخوبى آگاہ ہے_ان كنت قلته فقد علمته تعلم ما فى نفسي

۱۶_ حضرت عيسيعليه‌السلام بخوبى جانتے اور اس بات كے معتقد تھے كہ خداوند متعال ان پر احاطہ علمى ركھتا ہے اور ان كے تمام افكار و نفسانى صفات سے آگاہ ہے_تعلم ما فى نفسي

۱۷_ تمام انسان حتي حضرت عيسى جيسے انبياءعليه‌السلام بعليه‌السلام ھى اس سے لاعلم ہيں كہ خدا كى ذات ميں كيا كچھ موجود ہے_تعلم مافى نفسى و لا اعلم ما فى نفسك

۱۸_ اگر انسان اس چيز كو ملحوظ ركھيں كہ انبياءعليه‌السلام كا علم محدود ہے تو وہ كبھى ان كى الوہيت يا خدائي كے معتقد نہيں ہوں گے_و لا اعلم ما فى نفسك

۱۹_ خداوند متعال حضرت عيسيعليه‌السلام كے باطن سے آگاہ ہے جبكہ حضرت عيسيعليه‌السلام خدا كى ذات سے لاعلم ہيں ، اور يہ چيز اس پر ٹھوس دليل ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام خدا نہيں ہوسكتے اور صرف اللہ تعالى عبادت كے لائق ہے_

سبحانك تعلم ما فى نفسى و لا اعلم ما فى نفسك انك انت علام الغيوب

جملہ'' سبحانك ما يكون لى ...'' وحدانيت خدا كو بيان اور الوہيت حضرت عيسيعليه‌السلام كى نفى كررہا ہے اور جملہ''تعلم ما فى نفسى و لا اعلم .'' اس پر دليل كى حيثيت ركھتا ہے ، نيز اس پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام كا علم محدود جبكہ خدا وند عالم كا علم مطلق ہے_

۲۰_ صرف خداوند متعال غيب اور اسرار و رموز سے دقيق اور وسيع طور پر آگاہ ہے_انك انت علام الغيوب

۲۱_ صرف خداوند متعال انسان كے باطن كا وسيع اور دقيق علم ركھتا ہے_

۷۶۳

تعلم ما فى نفسى انك انت علام الغيوب

۲۲_ انسان كا باطن اور ذات اور اس كى طرف سے ظاہر نہ ہونے والے افكار، غيبى امور كے زمرے ميں آتے ہيں _

تعلم ما فى نفسى انك انت علام الغيوب

۲۳_ كائنات كے تمام حقائق سے بطور مطلق آگاہ ہونا الوہيت كا معيار ہے_

تعلم ما فى نفسى و لا اعلم ما فى نفسك انك انت علام الغيوب

اسماء و صفات:صفات جلال ۷

الله تعالى:الله تعالى سے مختص امور ۱۹، ۲۰،۲۱;الله تعالى كا انكار ۴;الله تعالى كا علم ۱۶، ۱۷ ;الله تعالى كا علم غيب ۱۵،۱۹، ۲۰،۲۱ ; الله تعالى كى تنزيہہ ۷، ۸;الله تعالى كى ذات كا علم ۱۹; الله تعالى كى وحدانيت ۱۲

الوہيت:الوہيت كا معيار ۶، ۲۳;الوہيت كا مقام ۶

امت:امتوں كے رجحانات كے بارے ميں سوال و جواب ۲

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام سے سوال و جواب ۲;انبياءعليه‌السلام قيامت كے دن ۱;انبياءعليه‌السلام كا عقيدہ ۱۱;انبياءعليه‌السلام كا علم ۱۷;انبياءعليه‌السلام كى الوہيت كى نفى ۱۸;انبياءعليه‌السلام كى دعوت ۱۱;انبياءعليه‌السلام كے علم كا دائرہ ۱۷ ، ۱۹

انسان:انسان كى جہالت ۱۸;انسان كى نيت ۱۵; انسان كے اسرار ۲۱، ۲۲;انسان كے حالات و كيفيات ۱۵

توحيد:توحيد ذاتى ۷، ۸، ۱۲، ۱۴ ;توحيد عبادى ۷، ۸

شرك:شرك ذاتى ۴;شرك عبادى ۴;شرك كى نفى ۸، ۱۱

عالم آفرينش:عالم آفرينش كا علم ۲۳

عقيدہ:باطل عقيدہ ۳، ۵، ۱۳;باطل عقيدہ كے موانع ۱۸

علم:علم كى اہميت ۲۳

عيسيعليه‌السلام :

۷۶۴

عيسيعليه‌السلام سے سوال و جواب ۱; عيسي قيامت كے دن ۱، ۹; عيسيعليه‌السلام كا عقيدہ ۸، ۱۰، ۱۳، ۱۴، ۱۶;عيسيعليه‌السلام كا علم ۱۶;عيسيعليه‌السلام كى الوہيت ۳، ۵;عيسيعليه‌السلام كى الوہيت كى نفى ۹، ۱۳، ۱۹;عيسيعليه‌السلام كى تنزيہہ۱۴;عيسيعليه‌السلام كى شخصيت ۱۰; عيسيعليه‌السلام كى لاعلمى ۱۹; عيسيعليه‌السلام كے حالات ۱۶

عيسائي:عيسائيوں كا عقيدہ ۳، ۵، ۱۳

غيب:غيب كے موارد ۲۲

قيامت:قيامت ميں سوال و جواب ۱، ۲

مريمعليه‌السلام :حضرت مريمعليه‌السلام كى الوہيت ۳، ۵;حضرت مريمعليه‌السلام كى الوہيت كى نفى ۹، ۱۳

آیت ۱۱۷

( مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلاَّ مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ )

ميں نے ان سے صرف وہى كہا ہے جس كا تو نے حكم ديا تھا كہ ميرے او راپنے پروردگار كى عبادت كرواور ميں جب تك ان كے درميان رہا ان كاگواہ او رنگراں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھالياتو تو ان كانگہبان ہے او ر تو ہرشے كا گواہ او رنگراں ہے _

۱_ حضرت عيسيعليه‌السلام كى تعليمات اور اپنى امت كيلئے ان كے احكام تمام كے تمام فرامين خداوندى سے ماخود تھے_

ما قلت لهم الا ما امرتنى به

۲_ حضرت عيسيعليه‌السلام فرامين خداوندى كے ابلاغ ميں اپني رسالت كى حدود كى سختى سے پابندى كرتے تھے_

ما قلت لهم الا ما امرتنى به ان اعبدوا الله

۳_ حضرت عيسيعليه‌السلام اور تمام لوگوں كا اختيار صرف خداوند متعال كے پاس ہے_ان اعبدوا الله ربى و ربكم

۷۶۵

۴_ حضرت عيسيعليه‌السلام كے بنيادى ترين فرائض اور ذمہ داريوں ميں سے ايك ذمہ دارى يہ تھى كہ وہ لوگوں كو تو حيد اور خدائے واحد كى عبادت كى دعوت ديں _ما امرتنى به ان اعبدوا الله ربى و ربكم اگر چہ حضرت عيسيعليه‌السلام كے كاندھوں پر عبادت خدا كے فرمان كے علاوہ كچھ اور پيغامات پہنچانے كى ذمہ دارى بھى عائد ہوتى تھي، ليكن اس كے باوجود، ''ما امرتنى بہ ''كى ''ان اعبدوا اللہ'' سے تفسير كرنا اس پرواضح دليل ہے كہ توحيد كا فرمان حضرت عيسيعليه‌السلام كے بنياد ى فرائض ميں سے ايك تھا_

۵_ حضرت عيسيعليه‌السلام كا اپنے سميت تمام انسانوں پر خدا كى ربوبيت كى وضاحت كرنا ان كى واضح ترين تعليمات ميں سے ايك تھا_ما قلت لهم الا ما امرتنى به ان اعبدوا الله ربى و ربكم

۶_ انبياءعليه‌السلام كى رسالت كے بنيادى ترين اصول ميں سے ايك يہ ہے كہ وہ لوگوں كو خداوند متعال كى بندگى اختيار كرنے كى دعوت ديں _ما امرتنى به ان اعبدو الله

۷_ عبادت كى لياقت كا معيار ، ربوبيت ہے_ان اعبدوا الله ربى و ربكم ''اللہ'' كى ''ربى و ربكم ''كے ذريعے توصيف اس علت كى جانب اشارہ ہے جو عبادت خدا (اعبدوا) كو لازمى قرار ديتى ہے، يعنى چونكہ خداوند متعال پروردگار اور رب ہے لہذا صرف وہى عبادت كے لائق ہے_

۸_ حضرت عيسي كا علي الاعلان خدا كى بندگى كا اعتراف كرنا مشرك عيسائيوں كے اس دعوي كے بے بنياد ہونے پر دلالت كرتا ہے كہ وہ خداوند عالم كے ہم پلہ اور شريك ہيں _ء انت قلت ما قلت لهم الا ما امرتنى به ان اعبدوا الله ربى و ربكم

۹_ حضرت عيسيعليه‌السلام جب تك اپنى امت كے درميان موجود تھے ان كے عقائد اور اعمال پر شاہد اور ناظر ر ہے_

و كنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم

۱۰_ حضرت عيسيعليه‌السلام جب تك اپنى امت كے درميان موجود تھے انہيں شرك كى جانب ميلان سے روكتے ر ہے_

و كنت عليهم شهيدا ما دمت فيها بعد والے جملے ميں موجود كلمہ ''رقيب'' كے قرينہ كى بناپر كلمہ ''شھيداً ''اس پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام اپنى امت پر گواہ اور شاہد ہونے كے علاوہ ان كى نگرانى كرتے ر ہے كہ كہيں وہ اپنے عقائد ميں انحراف سے دوچار نہ ہوجائيں _

۱۱_ انبياءعليه‌السلام جب تك اپنى امتوں كے درميان موجود ر ہے

۷۶۶

ان كے اعمال اور عقائد كے گواہ اور ناظر ر ہے ہيں _و كنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم

۱۲_ حضرت عيسيعليه‌السلام كى وفات اور انہيں امت سے اٹھا لينا خدا كا ذمہ ہے_فلما توفيتي

۱۳_ حضرت عيسيعليه‌السلام كو عيسائيوں سے اٹھا لينے كے بعد صرف خداوند متعال ان كا نگہبان اور نگراں ہے_

فلما توفيتنى كنت انت الرقيب عليهم

۱۴_ خداوند متعال ہميشہ لوگوں كا نگہبان اور نگراں ہے_فلما توفيتنى كنت انت الرقيب عليهم

جملہ'' كنت انت الرقيب عليھم'' كے حصر سے معلوم ہوتا ہے كہ خداوند متعال حضرت عيسيعليه‌السلام كى موجودگى ميں بھى ان كى امت كا نگہبان و نگراں تھا، ليكن ان كى وفات كے بعد صرف خداوند متعال ان كا نگہبان اور نگراں ہے_

۱۵_ خداوند متعال تمام واقعات اور اشياء كا گواہ اور ان پر ناظر ہے_و انت على كل شيء شهيد

الله تعالى:الله تعالى سے مختص امور ۳، ۱۳; الله تعالى كى ربوبيت ۳، ۵; الله تعالى كى طرف سے نگرانى ۱۳، ۱۴; الله تعالى كے اختيارات ۳; الله تعالى كے افعال ۳، ۱۲;الله تعالى كے اوامر ۱

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كا نقش و كردار ۱۱; انبياءعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۶;انبيائعليه‌السلام كى رسالت ۶;انبياءعليه‌السلام كى گواہى ۱۱

انسان:انسان كى نگرانى كرنا ۱۴

توحيد:توحيد ذاتى كى دعوت ۴;توحيد عبادى كى دعوت ۴

شرك:شرك كى نفى ۱۰

عبوديت :عبوديت كى دعوت ۶

عقيدہ:باطل عقيدہ ۸

عيسيعليه‌السلام :حضرت عيسيعليه‌السلام اور عيسائي ۱،۹; حضرت عيسيعليه‌السلام اور عيسائيوں كا شرك ۱۰; حضرت عيسيعليه‌السلام كا پابند ہونا ۲; حضرت عيسىعليه‌السلام كا عقيدہ ۸ ;حضرت عيسىعليه‌السلام كى الوہيت كى نفى ۸;حضرت عيسىعليه‌السلام كى تعليمات ۵; حضرت عيسىعليه‌السلام كى تعليمات كا سرچشمہ۱;حضرت عيسىعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۴،۵; حضرت عيسىعليه‌السلام كى رسالت ۲،۴،۱۰; حضرت عيسىعليه‌السلام كى عبوديت ۸;

۷۶۷

حضرت عيسىعليه‌السلام كى فضيلت ۱،۲; حضرت عيسىعليه‌السلام كى گواہى ۹ ;حضرت عيسيعليه‌السلام كى وفات ۱۲،۱۳

عيسائي:عيسائيوں كا عقيدہ ۸ ; عيسائيوں كى نگرانى ۱۳

گواہ:امتوں كے گواہ ۹، ۱۱;گواہوں كاعمل ۹، ۱۱

معبود:معبود كى ربوبيت ۷;معبود ہونے كا معيار ۷

آیت ۱۱۸

( إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ )

اگر تو ان پر عذاب كرے گا تو وہ تيرے ہى بندے ہيں او راگر معاف كردے گا تو تو صاحب عزت بھى ہے او رصاحب حكمت بھى ہے _

۱_ حضرت عيسي اور ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كى الوہيت و خدائي پر عقيدہ ركھنے والے عذاب خداوندى كے مستحق ہيں _ان تعذبهم فانهم عبادك

۲_ تمام انسان خدا وند متعال كے بندے اور مملوك ہيں _ان تعذبهم فانهم عبادك

۳_ چونكہ تمام انسان خدا كے بندے اور مملوك ہيں لہذا وہ ان ميں سے مشركوں كو عذاب دينے كا حق ركھتا ہے_

ان تعذبهم فانهم عبادك

۴_ مشركين عذاب خداوندى كے حقدار ہيں _ان تعذبهم فانهم عبادك

۵_ خداوند متعال كو حضرت عيسيعليه‌السلام اور ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كى الوہيت و خدائي كے معتقد افراد كو عذاب دينے يا بخش دينے كا اختيار حاصل ہے_ان تعذبهم و ان تغفر لهم

۶_ قيامت كے دن مشركين كو عذاب سے دوچار كرنے يا انہيں بخش دينے كا اختيار خداوند متعال كے ہاتھ ميں ہے_

ان تعذبهم و ان تغفر لهم

۷_ حضرت عيسيعليه‌السلام اپنى امت كے شرك آلود رجحانات

۷۶۸

ميں كسى بھى طرح سے شريك ہونے سے پاك و منزہ ہيں _ان تعذبهم و ان تغفر لهم

حضرت عيسىعليه‌السلام نے جملہ'' ان تعذبنا'' كے ذريعے نہيں ، بلكہ جملہ'' ان تعذبھم ...'' كے ذريعے اپنى عاقبت كو مشرك عيسائيوں كى عاقبت سے جدا كيا ہے اور يہ اس حقيقت كى جانب اشارہ ہے كہ اپنى امت كے شرك كى جانب ميلان ميں ان كا كوئي كردار نہيں ہے_

۸_ حضرت عيسي تمام لوگوں حتي اپنى امت كے گمراہوں پر بھى مہربان و شفيق تھے_

ان تعذبهم فانهم عبادك و ان تغفر لهم فانك انت العزيز الحكيم

۹_ خداوند عالم كى جانب سے مشركين كى بخشش كا امكان موجود ہے_و ان تغفر لهم فانك انت العزيز الحكيم

۱۰_ صرف خداوند متعال عزيز (ناقابل شكست قدرتمند) اور حكيم( بہت زيادہ دانا) ہے_فانك انت العزيز الحكيم

۱۱_ خدا كى عزت و قدرت مشركين كى بخشش و مغفرت كے امكان كى دليل ہے_و ان تغفر لهم فانك انت العزيز الحكيم

۱۲_ خداوند متعال كے تمام افعال حتى مشركوں كى مغفرت اور بخشش بھى حكمت كى اساس پريعنى كسى مصلحت كے تحت انجام پاتى ہيں _و ان تغفر لهم فانك انت العزيز الحكيم

۱۳_ خدا كے عذابوں كا سرچشمہ اس كى عزت و حكمت ہے_و ان تعذبهم فانك انت العزيز الحكيم

جملہ''فانك انت '' جس طرح''ان تغفر لكم '' ميں محذوف جزا كى وضاحت كررہا ہے اسى طرح ممكن ہے كہ ان ''تعذبھم'' ميں محذوف جزا يا سزاكى جانب بھى اشارہ كررہاہو، اس صورت ميں آيت كا مفہوم يہ ہوگا كہ خداوند متعال پر كسى قسم كا اعتراض نہيں كيا جاسكتا كيونكہ ايك تو وہ عزيز ہے اور اس پر كوئي حكم لاگو نہيں كيا جاسكتا اور دوسرا وہ حكيم ہے اور اس كے تمام افعال من جملہ بندوں پر عذاب يا ان كى مغفرت و بخشش حكمت كى اساس پر يعنى كسى نہ كسى مصلحت كے تحت انجام پاتى ہے_

اسماء و صفات:حكيم ۱۰;عزيز ۱۰

الله تعالى:اللہ تعالى سے مختص امور ۱۰; اللہ تعالى كا عذاب ۱،۳،۴; اللہ تعالى كى حكمت ۱۲،۱۳; اللہ تعالى كى عزت ۱۱،۱۳; اللہ تعالى كى قدرت ۱۱; اللہ تعالى كى

۷۶۹

مالكيت ۲،۳; اللہ تعالى كى مغفرت ۹; اللہ تعالى كے اختيارات ۵،۶; اللہ تعالى كے افعال ۱۲; اللہ تعالى كے عذاب كا سرچشمہ ۱۳

انسان:انسان كى عبوديت ۲;انسان كى مملوكيت ۲، ۳

بخشش:بخشش كا سرچشمہ ۵

عذاب:عذاب كا سرچشمہ ۵; عذاب كے اسباب ۱; عذاب كے مستحق افراد ۴

عقيدہ:باطل عقيدے كى سزا ۱

عيسيعليه‌السلام :حضرت عيسيعليه‌السلام اور عيسائي ۷،۸; حضرت عيسيعليه‌السلام اور گمراہ لوگ ۸; حضرت عيسيعليه‌السلام كا مہربان ہونا ۸ ; حضرت عيسيعليه‌السلام كو پاك و منزہ قرار دينا ۷ ; حضرت عيسي كى الوہيت ۱،۸

عيسائي:عيسائيوں كا شرك ۷

مريمعليه‌السلام :حضرت مريمعليه‌السلام كى الوہيت و خدائي ۱، ۵

مشركين:مشركين قيامت ميں ۶; مشركين كا عذاب ۳،۴،۶; مشركين كى بخشش ۶،۹،۱۱،۱۲

آیت ۱۱۹

( قَالَ اللّهُ هَذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ )

الله نے كہا كہ يہ قيامت كادن ہے جب صادقين كو ان كاسچ فائدہ پہنچائے گا كہ ان كے لئے باغات ہوں گے جن كے نيچے نہريں جارى ہوں گى اور وہ ان ميں ہميشہ ہميشہ رہيں گے _ خدا ان سے راضى ہوگا اور وہ خدا سے اور يہى ايك عظيم كاميابى ہے _

۱_ سچ بولنے والے اور اچھے كردار كے مالك افراد قيامت كے دن اپنے سچ كے ثمرات سے بہرہ مند ہوں گے_

قال الله هذا يوم ينفع الصادقين صدقهم

۲_ حضرت عيسيعليه‌السلام ہميشہ سچ بولنے والے اور اچھے كردار

۷۷۰

كے مالك افراد كے زمرے ميں آتے ہيں _هذا يوم ينفع الصادقين صدقهم

گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''الصادقين ''كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك مصداق حضرت عيسيعليه‌السلام ہيں _

۳_ اس پر خداوند عالم بھى گواہ ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام نے اپنى الہى ذمہ داريوں كى انجام دہى اور ادعا الوہيت سے اظہار برائت ميں سچ كا مظاہرہ كيا_قال الله هذا يوم ينفع الصادقين صدقهم ''صدقھم'' كے مورد نظر مصاديق ميں ايك مصداق گذشتہ آيات ميں بيان ہونے والى حضرت عيسيعليه‌السلام كى گفتگو ہے، جس ميں انہوں نے توحيد و يكتاپرستى كى دعوت دينے، اپنے اور اپنى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كيلئے خدائي كے دعوي كى نفى كرنے كے علاوہ صراحت كے ساتھ يہ بيان كيا كہ امت كے شرك كى طرف ميلان ميں ان كا كوئي كردار نہيں _

۴_ قيامت، انسان كے اپنے گفتار و كردار كے ثمرات سے بہرہ مند ہونے كا دن ہے_قال الله هذا يوم ينفع الصادقين صدقهم

۵_ سچ بولنے والے اور اچھے كردار كے مالك افراد كى جزا بہشت ہے_هذا يوم ينفع الصادقين صدقهم لهم جنات

۶_ جنت ميں بے شمار باغات اور خوبصورت چمن ہونگے، نيز درختوں كے نيچے سے فراوان نہريں جارى ہونگي_

لهم جنات تجرى من تحتها الانهار خالدين فيها

۷_ اہل بہشت ہميشہ كيلئے دائمى جنت اور اس كى نعمتوں سے بہرہ مند ہونگے_خالدين فيها ابدا

۸_ خداوند متعال سچ بولنے والے اور اچھے كردار كے مالك افراد سے خوش اور راضى جبكہ وہ خدا سے خوش و راضى ہوں گے_رضى الله عنهم و رضوا عنه

۹_ خداوند متعال ہميشہ اہل بہشت سے خوش و راضى اور وہ بھى ہميشہ خدا سے خوش و راضى ہوں گے_رضى الله عنهم و رضوا عنه

۱۰_ حضرت عيسيعليه‌السلام ہميشہ خداوند متعال سے راضى و خوش اور خداوند متعال ان سے راضى و خوش ہے، نيز ان كا شمار اہل بہشت كے زمرے ميں ہوتا ہے_قال الله هذا يوم ينفع الصادقين رضى الله عنهم و رضوا عنه

گذشتہ آيات كى روشنى ميں اس آيت كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك مصداق حضرت عيسي (ع)

۷۷۱

ہيں _

۱۱_ جاويدان بہشت سے بہرہ مندي، خوشنودى خدا كا حصول اور اس سے راضى و خوش ہونا فلاح و نجات اور بہت بڑى كاميابى ہے_لهم جنات رضى الله عنهم و رضوا عنه ذلك الفوز العظيم

مذكورہ بالا مطلب ميں ''ذلك ''كو آيہ شريفہ ميں مذكور تمام جزاؤں كيلئے اشارہ قرار ديا گيا ہے_ اور'' الفوز ''كى الف لام استغراق مجازى كےلئے ہے، يعنى مذكورہ جزائيں بہت بڑى كاميابى اور عين فلاح و نجات ہيں _

۱۲_ رضائے خداوندى كا حصول اور انسان كا اس سے راضى و خوش ہونا جاودان بہشت سے بہرہ مند ہونے سے زيادہ فضيلت كا حامل ہے_رضى الله عنهم و رضوا عنه ذلك الفوز العظيم مذكورہ بالا مطلب اس بناپر اخذ كيا گيا ہے جب ''ذلك'' صرف جملہ''رضى الله عنهم و رضوا عنه'' كى جانب اشارہ ہو_

۱۳_ قيامت كے دن فلاح و نجات اور عظيم كاميابى صرف سچ بولنے والوں اور اچھے كردار كے مالك افراد كے ساتھ مختص ہے_هذا يوم ينفع الصادقين ذلك الفوز العظيم

۱۴_ حضرت عيسيعليه‌السلام فلاح و نجات اور انتہائي عظيم كاميابى پانے والے انسان ہيں _ذلك الفوز العظيم

الله تعالى:الله تعالى كى رضا۸، ۹، ۱۰; الله تعالى كى رضاكى اہميت ۱۱; الله تعالى كى رضا كى قدر و قيمت ۱۲;الله تعالى كى گواہى ۳

انسان:انسان كى رضايت كى قدر و قيمت ۱۲

اہل بہشت:اہل بہشت بہشت ميں ۷;اہل بہشت كى جاودانى ۷;اہل بہشت كى رضايت ۹

بہشت:بہشت كا جزا ہونا ۵; بہشت كا نقشہ ۶; بہشت كى اہميت ۱۱; بہشت كى قدر و قيمت ۱۲; بہشت كى نعمتيں ۷; بہشت كى نہريں ۶; بہشت كے باغات ۶; بہشت كے درخت۶

صادقين: ۲صادقين قيامت ميں ۱، ۱۳;صادقين كى جزا ۵; صادقين كى رضايت ۸;صادقين كى فلاح و نجات ۱۳; صادقين كى كاميابى ۱۳; صادقين كے فضائل ۱۳

۷۷۲

صالحين:صالحين قيامت ميں ۱; صالحين كى جزا ۵; صالحين كى رضايت ۸

صداقت:صداقت كى اخروى جزا ۴;صداقت كے اخروى اثرات ۱

عمل:عمل كى اخروى جزا ۴

عيسيعليه‌السلام :حضرت عيسيعليه‌السلام كى رضايت ۱۰;حضرت عيسيعليه‌السلام كى صداقت ۲، ۳; حضرت عيسيعليه‌السلام كى فلاح و نجات ۱۴

حضرت عيسيعليه‌السلام كے فضائل ۱۰

فلاح و نجات:فلاح و نجات كے موارد ۱۱

فلاح و نجات يافتہ لوگ : ۱۳، ۱۴

كاميابي:كاميابى كے موارد ۱۱

نيك لوگ: ۲نيك لوگ قيامت ميں ۱، ۱۳;نيك لوگوں كى فضيلتيں ۱۳;نيك لوگوں كى فلاح و نجات ۱۳; نيك لوگوں كى كاميابى ۱۳

آیت ۱۲۰

( لِلّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ )

الله كے لئے زمين و آسمان او ران كے درميان كى كل حكومت ہے اور وہ ہرشے پر قدرت ركھنے والا ہے _

۱_ آسمانوں اور زمين اور ان ميں موجود ہر چيز كا مالك اورحاكم صرف خداوند متعال ہے_

لله ملك السموات والارض و ما فيهن

۲_ اگر يہ يقين كرلياجائے كہ تمام ہستى كائنات كا مالك صرف اور صرف خدا ہے تو پھر غير اللہ كى الوہيت يا خدائي كى صلاحيت كا احتمال پيدا نہيں ہوتا_لله ملك السموات والارض و ما فيهن

جملہ'' للہ ملك ...'' خداوند متعال كى وحدانيت، اس كے عبادت كے لائق و قابل ہونے اور الوہيت ميں كوئي شريك نہ ركھنے كى تعليل ہوسكتا ہے_

۳_ آسمان متعدد ہيں _لله ملك السموات

۷۷۳

۴_ خداوند متعال كى قدرت تمام كائنات پر محيط ہے_و هو علي كل شيء قدير

۵_ الوہيت كا معيار تمام كائنات پر قدرت مطلقہ اور حاكميت ہے_لله ملك السموات والارض و ما فيهن و هو على كل شيء قدير

۶_ اگر خدا كى قدرت مطلقہ كو مدنظر ركھاجائے تو يہ واضح ہوجاتا ہے كہ الوہيت ميں اس كا كوئي بھى شريك نہيں ہوسكتا_

و هو على كل شيء قدير ممكن ہے جملہ ''و هو على كل شيء ...'' بھى ''جملہ للہ ملك ...'' كى مانند گذشتہ آيات ميں بيان شدہ حقائق كيلئے تعليل ہو_

۷_ آسمانوں اور زمين پر خدا كى حاكميت و مالكيت اور اس كى قدرت مطلقہ صادقين كو دائمى جنت عطا كيئے جانے كى ضمانت فراہم كرتى ہے_ينفع الصادقين صدقهم لهم جنات و ما فيهن و هو على كل شيء قدير

صادقين كو دائمى بہشت كا وعدہ دينے كے بعد تمام كائنات پر خدا كى حاكميت و مالكيت اور اس كى قدرت مطلقہ كا ذكر اس حقيقت كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے كہ اس وعدہ كو پورا كرنا خداوند متعال كى قدرت سے باہر نہيں ہے_

آسمان :آسمانوں كا مالك ۱، ۷;آسمانوں كا متعدد ہونا ۳

الله تعالى:الله تعالى كا محيط ہونا ۴;الله تعالى كى حاكميت ۱، ۲;الله تعالى كى قدرت ۴، ۵، ۶، ۷;الله تعالى كى مالكيت ۱، ۷

الوہيت:الوہيت كا معيار۲، ۵

ايمان:ايمان كے اثرات ۲

بہشت:بہشت كے اسباب ۷;جاودانى بہشت ۷

توحيد:توحيد ذاتى ۶;توحيد كے دلائل ۶

زمين:زمين كا مالك ۱، ۷

صادقين:صادقين بہشت ميں ۷

عالم آفرينش:عالم آفرينش كا حاكم ۱، ۲، ۵

۷۷۴

اشاريے (۱)

آ

آبرو:حفظ _ كى اہميت ۴/۱۱۲;ہتك _ ۵/۳۲; ہتك _ كى حرمت ۴/ ۱۴۸; ہتك _ كى سرزنش ۴/ ۱۴۸

آتش:ر_ك جہنم ، عذاب

آخرت:_ ميں امداد ۴/۱۴۵نيز ر_ ك دنيا ، قيامت

آدمعليه‌السلام :_ كا وصى ۵/ ۲۷;_ كى داستان ۵/ ۲۷; _ كے اوامر ۵/۲۷نيز ر_ك آدمعليه‌السلام كى اولاد

آدم كشى :ر_ك قتل

آدمعليه‌السلام كى اولاد:_ كى داستان ۵/۲۷ ، ۲۹ ، ۳۰ ، ۳۱ ; _ كى قربانى ۵/۲۷نيز ر_ك آدم (ع)

آرام و سكون :ر_ك اطمينان ، گھرانہ

آرزو:_ كى قدر و قيمت ۴/۱۲۳ ;_ كے اثرات ۴/۱۱۹ ; باطل _ ۴/۱۱۹ ;پسنديدہ _۵/۸۴; شيطانى _ ۴/۱۱۹ ; ناپسنديدہ_ ۴/۱۱۹، ۱۲۰ ، ۱۲۱ ، ۵/۲۴; ناپسنديدہ _ پر سرزنش ۴/۱۱۹ ; ناپسنديدہ _ كا پيش خيمہ ۴/۲۰ ۱ ; ناپسنديدہ _ كے اثرات ۴/۱۲۳نيز ر_ك اہل كتاب، جہنمى لوگ، عيسائي، مسلمان

آزادي:_كى حدود ۴/۱۴۹

۷۷۵

آزار :ر_ك اذيت

آزمائش :ر_ك امتحان

آسائش :ر_ك رفاہ

آسمان :_ كا مالك ۴/۱۲۶ ، ۱۳۱ ، ۵/۱۷ ، ۱۸ ، ۴۰ ، ۱۲۰;_ كا نظام ۵/۹۷; _وں كا متعدد ہونا ۴/۱۲۶ ، ۱۳۱ ، ۱۳۲ ، ۱۷۰ ، ۱۷۱ ، ۵/۱۸ ، ۴۰ ، ۹۷ ، ۱۲۰ ;_ى موجودات كا مالك ۴/۱۳۲

آسمانى بجلي:ر_ك صاعقہ

آسمانى دستر خوان :۵/۱۱۳_ كا تدريجى نزول ۵/۱۱۵ ; _ كا فلسفہ ۵/۱۱۴ ; _ كا قصہ ۵/۱۱۱ ، ۱۱۲ ; _ كا معجزہ ۵/۱۱۴ ; _ كا نزول ۵/ ۷۸ ، ۱۱۲ ، ۱۱۴، ۱۱۵; _ كى درخواست ۵/۱۱۲ ، ۱۱۳ ، ۱۱۴ ; _ كى مادى قدر و قيمت ۵/ ۱۱۴; _ كى معنوى قدر و قيمت ۵/ ۱۱۴; _ كے آثار ۵/۱۱۲ ; _كے نزول كے آثار ۵/ ۱۱۴نيز ر_ ك حواري

آسمانى كتب:_ پر عمل كرنا ۵/۶۶ ، ۶۸; _ پر عمل كرنے كے موانع ۵/۴۴ ; _ سے روگردانى ۵/۶۶، ۶۸ ، ۷۷ ; _ سے روگردانى كے اثرات ۵ /۶۶ ; _ كا جھٹلانا ۴/۱۳۶; _ كا كردار ۴/۱۷۰ ، ۵/۴۴ ، ۴۶ ، ۴۷ ، ۶۶ ; _ كا نزول ۴/۱۳۶ ، ۵/۶۶; _كى آپس ميں ہم آہنگى ۵/۴۶ ، ۴۸،۶۶ ، ۶۸ ;_ كى تحريف ۵/۱۳ ; _ كى تعليم ۵/۱۱۰;_كى تعليمات ۵/۶۶; _ كى حفاظت ۵/۴۴ ; _ كى حقانيت ۵/۴۴ ، ۴۸; _كى ميانہ روى ۵/۶۶نيز ر_ ك آنحضرت، انجيل ، اہل كتاب،ايمان ، تورات ،زبور ، قرآن ، كفر ، گذشتہ لوگ

آسيب شناسي:ر_ك دين

آشتي: كى اہميت ۴/ ۱۲۸ ، ۱۲۹ ; _ كے موانع ۴/ ۱۲۸نيز ر_ك اصلاح ،صلح، گھرانہ

آگاہى :ر_ ك بصيرت ، علم

آميزش:_ كے احكام ۶/۵نيز ر_ك شادى كرنا

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

۷۷۶

_ انجيل ميں ۵/۱۴ ; _ اور آسمانى كتب ۵/۱۵ ; _ اور آي ہ تبليغ ۵/۶۷; _ اور انجيل ۵/۱۵ ; _اور اہل كتاب ۴/۱۵۳، ۵/۱۵،۲۷ ، ۴۸ ، ۴۹ ، ۵۹،۶۰ ، ۶۲ ، ۶۸ ; _ اور بنى اسرائيل ۵/۱۳ ; _ اور تقيہ ۵/ ۶۷; _ اور تورات ۵/۱۵ ; _ اور خائنين ۴/۱۰۷ ; _ اور خطا ۴/۱۱۳;_ اور قرآن كريم ۴/۱۰۵، ۵/۱۶; _ اور كفار ۵/۶۸; _ اور لوگ ۵/۴۱; _ اور لوگوں كا كفر ۵/۴۱; _ اور وحشى جانوروں كا شكار ۵/۹۴ ; _ اور ولايت علىعليه‌السلام ۵/۵۵ ; _ اور يہودى ۵/۱۳ ، ۴۲; _ پر افترا باندھنا ۵/۴۱ ; _پر افترا باندھنے كے آثار ۵/۴۱ ; _ پر وحى ۴/۱۰۵ ، ۱۱۳ ، ۱۶۳ ; _ تورات ميں ۵/۱۳; _ سے جنگ ۵/۳۳ ، ۳۴ ; _ سے خيانت ۵/۱۳ ; _ سے دشمنى ۴/۱۱۶ ; _سے سوال ۴/۱۲۷ ، ۱۷۶ ، ۵/۴ ;_سے ہمدردى ۴/۱۵۳ ، ۱۶۶; _ كا استدلال۵/۱۷ ; _ كا استغفار ۴/۱۰۶; _ كا اشتياق ۵/۴۱;_ كا افشاء كرنا ۵/۶۰;_ كا امتحان ۵/۹۴; _ كا انتخاب ۴/۱۶۳ ; _ كا خليفہ ۵/۳ ; _ كا درگزركرنا ۵/۱۳ ، ۱۵; _ كا دين ۵/۳;_ كا علم ۴/۱۰۵ ، ۵/۱۵ ، ۴۰; _ كا علم لدنى ۴/۱۱۳; _ كا عمل ۴/۱۰۷ ; _ كا غم و اندوہ۴/۱۶۶، ۵/۴۱ ، ۶۷ ، ۶۸ ; _ كا مقام و مرتبہ۵/۱۵ ; _ كا نقش و كردار ۴/۱۲۷ ، ۱۷۰ ، ۱۷۶ ، ۵/۴ ، ۱۵ ، -۱۶ ، ۴۳ ، ۴۹ ، ۸۶; _ كو الہام۴/۱۱۳; _ كو خبردار كرنا ۴/۱۰۷، ۵/۴۱ ، ۴۹;_كى آفاقى رسالت ۴/۱۷۰، ۵/۴۸ ، ۴۹ ، ۶۸; _ كى اطاعت ۴/۱۱۵ ، ۵/۷ ، ۵۶، ۹۲ ، ۱۰۴ ،۱۰۵; _كى اطاعت كے آثار ۵/۱۶ ، ۹۲ ، ۱۰۵; _ كى بعثت ۴/۱۷۰ ، ۱۷۴ ، ۵/۱۹ ;_كى بعثت كا فلسفہ ۴/۱۷۴; _ كى پريشانى ۵/۴۱ ، ۴۲ ; _كى تعليمات ۵/۶۴; _ كى تعليمات سے روگردانى ۵/ ۱۰۴; _ كى تعليمات كى حقانيت ۴/۱۷۰;_ كى تكذيب ۴/۱۳۷ ، ۱۵۱ ، ۱۶۷ ، ۵/۸۴ ; _ كى حفاظت ۴/۱۱۳ ، ۵/ ۴۲ ، ۶۷ ; _ كى حقانيت ۴/۱۱۵ ، ۱۶۶ ، ۵/۱۵; _ كى حقانيت كى گواہى ۵/ ۸۳ ; _ كى حقانيت كے گواہ ۵/۱۴ ; _كى حكمت ۴/۱۱۳ ; _ كى ذمہ دارى ۴/۱۰۵،۱۰۶ ، ۱۲۷ ، ۵/۱۳ ، ۱۷ ، ۱۹ ، ۲۷ ، ۴۲ ، ۴۸ ، ۴۹، ۵۹ ،۶۰ ،۶۷ ، ۹۲; _ كى ذمہ دارى كى حدود ۵/۴۱ ، ۹۲ ،۹۹;_ كى رسالت ۵/۱۵ ، ۶۷ ، ۹۲ ; _ كى رسالت كى حدود ۵/۱۹،۴۱; _ كى رسالت كے دلائل ۵/۱۱۰ ; _ كى سنت ۴/۱۰۵; _كى شفاعت ۵/۴۱ ; _ كى عصمت ۴/۱۱۳ ; _ كى عظمت ۵/۱۵; _ كى قدرت ۵/۴۱; _ كى قدرت كى حدود ۵/۴۱ ; _ كى قضاوت ۴/ ۱۰۵،۱۱۳ ، ۵/ ۴۱، ۴۲ ، ۴۳ ، ۴۸ ، ۴۹ ، ۵۰ ;_ كى قضاوت سے اعراض ۵/ ۴۹ ; _ كى قضاوت سے محروميت ۵/ ۴۹; _ كى قضاوت كا رد كرنا ۵/ ۴۳ ; _ كى قضاوت كا قبول كرنا ۴/ ۱۱۵ ، ۵/ ۴۹; _ كى كتاب ۵/۱۵ ، ۴۸ ; _ كى مخالفت ۴/۱۱۵ ; _ كى مخالفت كا حرام ہونا ۴/۱۱۵; _ كى مخالفت كے آثار ۴/۱۱۵;_ كى نافرمانى ۵/۷; _ كى نافرمانى كے آثار ۵/۹۲ ; _ كى نبوت ۴/۱۶۳ ، ۱۶۴ ، ۱۷۰ ، ۵/۱۵ ; _كى نبوت كا فلسفہ ۵/۱۰;_ كى نبوت كى تكذيب ۴/۱۵۰ ، ۱۶۴ ، ۱۶۷ ، ۱۶۸ ، ۱۶۹; _ كى نبوت كى حقانيت ۴/۱۶۶ ، ۱۷۴; _ كى

۷۷۷

ولايت ۵/۴۸ ، ۵۵ ، ۵۶ ; _ كى ہدايت ۵/۱۵ ، ۱۶، ۴۱ ; _كے اختيارات ۵/۴۲; _ كے اوامر ۵/۹۲; _ كے اوامر پر عمل كرنا ۵/۱۰۵ ;_ كے اہداف ۵/۱۶ ; _ كے پيروكار ۴/۱۱۵ ; _ كے پيروكاروں كى پاداش ۴/ ۱۷۵; _ كے تكوينى اختيارات ۵/۶۷ ; _ كے جانشين ۴/ ۱۰۵ ; _كے دشمن ۵/ ۴۱ ; _ كے دوست ۵/ ۵۶;_ كے ساتھ دشمنى كى سزا ۴/۱۱۵ ; _ كے ساتھ عہد ۵/۷ ; _ كے غم و اندوہ كے اسباب ۵/۶۸ ; _ كے فضائل ۴/۱۰۵ ، ۱۱۳ ، ۱۶۷ ، ۵/۴۱ ; _ كے مخالفين كى سزا ۴/۱۱۵

نيز ر_ك آيہ تبليغ ،ا ہل كتاب ، ايمان ، بنى اسرائيل ، تمسك، خائن لوگ، صالحين ، عيسائي ، كفر ، لوگ ، مشركين ، منافقين ، نجاشى ، يہود

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اصحاب:ر _ ك آنحضرت(ص)

آنحضرت كے پيروكار :۴/۱۱۵_وں كا اجر ۴/ ۱۷۵

آنكھ :رك قصاص

آئيڈيالوجى :ر _ ك نظريہ كائنات

آيات الاحكام :ر_ ك احكامآيات خدا : ۴/ ۱۵۳ ، ۵/ ۸۶ ، ۸۹_ كا احترام و تقدس ۴/۱۴۰; _ كا تمسخر اڑانا ۴/۱۴۰ ; _ كو جھٹلانا ۴/ ۱۴۰ ، ۱۵۵ ، ۱۶۲ ،۵/۱۰ ; _ كو جھٹلانے كے اسباب ۵/۸۶ ; _ كى قدر و قيمت ۵/ ۴۴ ; _ كى وضاحت ۵/ ۸۹نيز ر_ك ، عيسائيت ، كفر ،مكذبين، يہود

آيہ تبليغ : ۵/ ۶۷_ كا اعلان ۵/۶۷; _ كى اہميت ۵/۶۷ ; _ كے مخالفين ۵/۶۷;_كے مخالفين اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۵/۶۷ ; _ كے مخالفين كى شكست ۵/۶۷ ; _ كے منكرين ۵/۶۷نيز ر_ ك آنحضرت(ص)

ا

ابديت :ر_ك جاوداني

ابرار :ر_ك نيك لوگ

ابراہيمعليه‌السلام :

۷۷۸

_ حنيف ۴/۱۲۵; _ خليل ۴/ ۱۲۵;_ كا اعتدال ۴/۱۲۵;_ كا برگزيدہ ہونا ۴/۱۲۵ ; _ كا سجدہ ۴/۱۲۵ ;_ كا مقام و مرتبہ ۴/۱۲۵; _ كى عصمت ۴/۱۲۵; _ كى فضيلتيں ۴/ ۱۲۵; _ كى نبوت ۴/۱۶۳; _ كے دين كى اطاعت ۴/۱۲۵ ; _ كے دين كى اہميت ۴/۱۲۵ ; _ كے دين كى خصوصيات ۴/۱۲۵

ابليس:_ كا وسوسہ ۵/۳۰نيز ر_ك شيطان

اتحاد:_كى اہميت ۵/ ۹۱; _ كے اثرات ۵ /۵۶ ، ۹۱ ; _ كے اسباب ۵/۴۸نيز ر_ك امم، كفار ، معاشرہ ، مؤمنين

اتمام حجت: ۴/۱۴۴ ، ۱۶۵ ، ۱۶۶ ، ۵/۱۹ ، ۳۲ ، ۹۴نيز ر_ك اہل كتاب، موسى (ع)

اجتماعى نظام:۴/ ۱۰۵ ، ۱۳۵ ، ۱۳۹ ، ۱۴۴ ،۵/۴۸ ، ۵۱_ كى اہميت ۵/ ۱۰نيز ر_ك معاشرہ

اجر:_ كا سرچشمہ۴/۱۷۳; _ كامعيارو ملاك ۴/۱۲۳; _ كا وعدہ ۴/۱۴۶; _ كى اميد ركھنا ۵/۳۵; _ كى خوشخبرى ۵/۹; _ كى ضمانت دينا ۵/۳۲; _ كے اسباب ۴/۱۱۴، ۱۲۴، ۱۶۲، ۱۷۳، ۵/۹ ; _ كے مراتب ۴/۱۱۴، ۱۴۶، ۱۶۲، ۱۷۳، ۵/۹، ۳۲ ; _ ميں انصاف ۴/۱۲۴

خاص موارد اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں _

اجماع:حجيت _ كى شرائط ۴/۱۱۵نيز ر_ك مؤمنين

احبار:ر_ك يہود

احتضار :ر_ ك وصيت

احرام :_ كى حالت ميں دريائي جانوروں كا شكار ۵/۹۶ ; _ كى حالت ميں شكار كرنا ۵/۱ ، ۹۴ ، ۹۵ ، ۹۶ ; _ كے احكام ۵/۹۵ ; _ كے محرمات ۵/۱ ، ۲ ، ۹۵ ، ۹۶نيز ر_ ك حج، كفارہ

احساسات :ر_ ك جذبات

احساس برترى :ر_ك تكبر،عيسائي ، يہود

۷۷۹

احكام : ۴/۱۰۱ ، ۱۰۲ ، ۱۰۳ ، ۱۰۵ ، ۱۰۷ ، ۱۱۵ ، ۱۱۹ ، ۱۲۳ ، ۱۲۹ ، ۱۳۵ ،۱۳۹ ، ۱۴۰ ، ۱۴۱ ، ۱۴۴ ، ۱۴۸ ، ۱۴۹ ، ۱۵۴ ، ۱۵۶ ، ۱۶۱، ۱۷۱ ، ۱۷۶ ، ۵/۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۶ ، ۸ ، ۳۱ ، ۳۲ ، ۳۳ ، ۳۴ ، ۳۸ ، ۴۲ ، ۴۴ ، ۴۵، ۴۹ ، ۵۱ ، ۵۸ ، ۸۷ ، ۸۹، ۹۰ ، ۹۱ ، ۹۵ ، ۹۶ ، ۱۱۰_پرعمل كرنا۵/۱،۶۷،۸۹;_سے روگردانى ۵/ ۴۳ ، ۴۹ ; _ كا اجمالى فلسفہ ۵/۱۰۲ ; _ كا تمسخر اڑانا ۵/۵۸; _ كا تمسخر اڑانے كا سرچشمہ ۵/۵۸; _ كاجھٹلانا ۵/۵ ; _ كا فلسفہ ۴/۱۰۲، ۵/۵ ، ۶ ، ۳۲ ، ۴۴ ، ۴۷ ، ۵۰ ، ۵۱ ، ۵۷ ، ۵۸ ، ۸۷ ، ۹۱ ، ۹۵ ، ۹۸; _ كا كردار ۵/۶ ، ۴۸ ، ۴۹ ; _ كا لچكدار ہونا ۴/۱۰۱ ، ۱۰۲ ، ۵/۳ ; _ كامعيار ۴/۱۶۱ ، ۵/۴۷ ، ۹۱ ، ۱۰۰ ; _كى تبديلى ۴/۱۶۰; _ كى تبيين ۵/۱۲ ، ۱۹ ، ۳۲ ، ۴۵ ، ۹۱ ، ۱۰۱ ; _كى تبيين كا فلسفہ ۴/۱۷۶;_ كى تشريع ۴/۱۲۷ ، ۱۳۰ ، ۱۶۰ ، ۱۷۶ ، ۵/۴ ، ۸۹ ، ۹۷; _كى تشريع كا پيش خيمہ ۵/۴;_ كى تشريع كا سرچشمہ۵/۸۷; _ كى تشريع كا معيار ۴/۱۶۱ ، ۵/۹۰ ، ۹۱ ، ۱۰۱ ; _ كى تشريع كے اسباب ۵/۱۰۲ ; _ كى تشريع كے موانع ۵/۱۰۱; _ كى حقانيت ۵/۵; _ كى خصوصيت ۴/۱۰۱ ، ۱۳۵ ; _ كى قدر وقيمت ۴/۱۱۵ ; _ كے اجرا كا پيش خيمہ ۵/۲_كے مبانى ۵/۵۸; _كے مصالح ۵/۳۲; ثانوى _ ۵/۳ ، ۶ ; حكومتى _ ۵/۴۷; عدالتي_ ۵/۳۲

خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كئے جائيں

اختلاف:_ حل كرنے كے اسباب ۴/۱۳۰ ; _ سے گريز كرنا ۴/ ۱۲۸ ; _ كى سزا ۴/۱۱۵ ; _ كے اثرات۵/۱۴ ; _ كے علل و اسباب ۴/۱۱۵ ، ۱۵۷ ; دينى _ كا حل ۴/ ۱۵۲

نيز ر_ ك اختلاف ڈالنا ، اديان ، امم ،انسان ، كفار، گھرانہ ، عيسائي ، يہود

اختلاف ڈالنا :_ كا گناہ ۴/ ۱۱۵ ، ۱۱۶ ; _كى حرمت ۴/۱۱۵نيز ر_ ك اختلاف

اختيار :ر_ ك انسان ، ايمان ،جبر ، كفر ، ہدايت

اخلاص :_ كے اسباب ۴/ ۱۴۳يز ر_ ك حوارى ، عبادت، عمل ، گواہي

اخلا ق:_ كى توسيع كا پيش خيمہ ۵/۶۳ ; _ كے اثرات ۵/۸۲ ; _ ميں تقوى كى رعايت كرنا ۵/۹۳; پسنديدہ _۴/۱۴۹

نيز ر_ ك اخلاقى نظام، علم

خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كئے جائيں

۷۸۰

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897