تفسير راہنما جلد ۴

 تفسير راہنما6%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 897

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 897 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 182902 / ڈاؤنلوڈ: 5806
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

شیخ طوسی کا جواب

تقیہ جھوٹ نہیں ہے  کیونکہ  ، الکذب ضد الصدق و ہو الاخبار عن الشیء لا علی ما ہو بہ. یعنی جھوٹ  سچائی کی ضد ہے اور جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی خبر دے، جس کی کوئی حقیقت  نہ ہو .

پس جھوٹ کا دو رکن ہے :

الف: کسی واقعے کے بارے میں خبر دینا .

ب: اس خبر کا واقعیت کے مطابق نہ ہونا.

جبکہ تقیہ کے تین رکن ہیں :

الف:حق بات کا چھپانا.

 ب: مخالفین کے ساتھ موافقت کا اظہار کرنا .

 ج: اور یہ دونوں رکن اس لئے ہو کہ دشمن کے شر سے اپنی جان یا مال کو حفاظت کرے .

 لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ  اخباری ہے اور تقیہ دشمن کو برحق ظاہر کرنا ہے .دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھا ہے وہ بھی حق ہو، جبکہ تقیہ میں یہ شرط ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھا ہے وہ حق ہو .

اگر کسی نے اشکال کیا  کہ جھوٹ تقیہ سے اعم ہے .تو ہم جواب دیں گے کہ بالفرض تقیہ کرنے والا خبر دینے کی نیت کرے     بلکہ تعریض کی نیت کرے(1)

--------------

(1):- .   ہمان ،  ص  ۲۸۰.  

۱۸۱

تقیہ یعنی منافقت!

ممکن ہے کوئی یہ  ادعا کرے کہ جو مکر اورفریب منافق لوگ کرتے ہیں ، تقیہ  بھی اسی کی ایک قسم ہے. کیونکہ منافق دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے زبان پر ایسی چیزکا اظہار کرتے ہیں جس کے برخلاف دل میں چھپا رکھا ہو .

شیخ طوسی اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتےہیں کہ مخادع  اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دل میں موجود بات کے برخلاف زبان پر اظہار کرے  تاکہ جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اس سے وہ محفوظ رہے .اسی لئے منافق کو مخادع کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زبان کے ذریعے اسلام  کاکلمہ پڑھ کر کفر کے حکم لگنے سے فرار کرکے اپنی جان بچاتا ہے اگر چہ منافق مؤمن کو ظاہراً زبان کے ذریعے دھوکہ دیتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے .

یہ  درست ہے کہ تقیہ میں بھی باطن کے خلاف بات کا اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جان بچاتا ہے ؛ لیکن یہ دونوں ( تقیہ اور نفاق) اصولاًباہم مختلف اور متفاوت ہے .اور دونوں قابل جمع بھی نہیں.

امام صادق(ع) اس مختصر حدیث میں  مؤمن ہونے کا دعوا کرنے اور ایسے موارد میں تقیہ کے دامن پکڑنے والوں کو شدید طور پر ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:و ایّم اﷲ لو دعیتم لتنصرونا لقلتم لا نفعل انّما نتقی و لکانت التقیه احبّ الیکم من آبائکم و امّهاتکم ، ولو قد قام القائم ما احتاج الی مسائلکم عن ذالک و لا قام فی کثیر منکم حدّ النفاق .(1)

یعنی خدا کی قسم ! اگر تمہیں ہماری مدد کیلئے بلائے جائیں تو  کہہ دینگے ہر گز انجام نہیں دیں گے،کیونکہ ہم تقیہ کی حالت میں ہیں  .تمہارے والدین کا تقیہ کرنا تمہارے نزدیک  زیادہ محبوب ہے ، اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور ہماری حکومت تشکیل دے گا ، تو خدا کی قسم بغیر سوال کئے ، منافقین کو سزا دینا شروع کریگا جنہوں نے تمہارا حق مارا ہے

--------------

(1):- .      وسائل الشیعہ، ج ۲ ، باب ۲۵.

۱۸۲

یہ حدیث بتا تی ہے کہ امام(ع)  اپنے بعض نادان دوست کے بے موقع تقیہ کرنے کی وجہ سے غم و غصہ کا اظہار فرما تے ہوئے نفاق اور تقیہ کے درمیان حد فاصل کو واضح فرمارہے ہیں .

اپنے مقدس اہداف کی ترقی کی خاطر پردہ پوشی کرنے اور چھپانے کا نام تقیہ ہے اور جائز ہے .اجتماعی اور الٰہی اہداف کی حفاظت کی خاطر اپنا ذاتی اہداف کو فدا کرنے کا نام تقیہ ہے .اس کے برخلاف اگر کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی اور قومی مفاد کو قربان کرے تو وہ منافق کہلائے گا.

ایک اور حدیث میں امام (ع)سے منقول ہے :جب بھی انسان ایمان کا اظہار کرے ،لیکن بعد میں عملی میدان میں اس کے برخلاف عمل کرے تو وہ مؤمن  کی صفات سے خارج ہے  اور اگراظہار خلاف ایسے موارد میں کیا جائے جہاں تقیہ جائز نہیں  ہے تو اس کا عذر قابل قبول نہیں ہے: لانّ للتقیه مواضع من ازالها  عن مواضعها لم تستقم له (1)

کیونکہ تقیہ کے بھی کچھ حدود ہیں جو بھی اس سے باہر قدم رکھے تو وہ معذور نہیں ہوگا .اور حدیث کے آکر میں فرمایا : تقیہ وہاں جایز ہے جہاں دین اور ایمان میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو .

کمیت شاعر کہ جو مجاہدوں کی صف میں شمار ہوتا ہے کہ اپنے ذوق شاعری سے استفادہ کرتے ہوئے بنی عباس کے دور خلافت میں اس طاغوتی نظام کے خلاف قیام کیا اور  مکتب اہل بیتکی حمایت کی ایک دن امام موسیٰ ابن جعفر(ع) کی خدمت میں پہنچا ، دیکھا کہ  امام کا چہرہ بگڑا ہواہے .

--------------

(1):- .      ہمان ، ج ۶ ، باب ۲۵.

۱۸۳

 جب وجہ پوچھی   توشدید اور اعتراض آمیز لہجے میں  فرمایا :کیا تونے بنی امیہ کے بارے میں یہ شعرپڑھا ہے ؟!

فالان صرت ا لی امّة    و الامم  لها الی مصائر

یعنی ابھی تو میں خاندان  بنی امیہ کی طرف  متوجہ ہوا ہوں اور ان کا کام میری طرف متوجہ ہورہا ہے

کمیت کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: مولا !اس شعر کو میں نے پڑھا ہے لیکن خدا کی قسم میں اپنے ایمان پر باقی ہوں اور آپ خاندان اہل بیت سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کے دوستداروں سے بھی محبت رکھتا ہوں اور اسی  لئےآپ کے دشمنوں سے بیزار ہوں؛ لیکن اسے میں نے تقیۃً  پڑھا ہے

امام(ع) نے فرمایا:اگر ایسا ہو تو تقیہ ہر خلاف  کاروں کیلئے قانونی اور شرعی مجوز ملے گا .اور شراب خوری بھی تقیہ کے تحت جائز ہوجائے گا .اور بنی عباس کی حکومت کا دفاع کرنا بھی جائز ہوجائے گا. اس قسم کے تقیہ سے تملّق ،چاپلوسی اور ظالموں کی ثنا خوانی کا بازار گرم اور پر رونق ہوجائے گا.اور نفاق ومنافقت بھی رائج ہوجائے گا(1)

تقیہ،  جہادکے متنافی

اشکال  یہ ہے : اگر تقیہ کے قائل ہوجائیں تو اسلام میں جہاد کا نظریہ ختم ہونا چاہئے جبکہ اس جہاد کی خاطر مسلمانوں کی جان و مال ضائع ہوجاتی ہیں(2)

--------------

(1):- مکارم شیرازی؛ تقیہ سپری عمیقتر، ص ۷۰.   

(2):- قفاری ؛ اصول مذہب الشیعہ، ج۲، ص ۸۰۷.

۱۸۴

جواب: اسلامی احکام جب بھی جانی یا مالی ضرر اور نقصان سے دوچار اور روبرو ہوجاتا ہے تو دو قسم میں تقسیم ہوجاتا ہے :

1.  وہ احکامات جن کا اجراء کرنا  کسی جانی ضرر یا نقصان  سے دوچار نہیں ہوتا ، جیسے نماز کا واجب ہونا ، جس میں نہ مالی ضرر ہے اور نہ جانی ضرر .

2.  وہ احکامات جن کا اجرا کرنا ، جانی یا مالی طورپر ضرر یا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جیسے زکوۃ  اور خمس  کا ادا  کرنا ، راہ خدا میں جہاد کرنا وغیرہ .

تقیہ کا حکم صرف پہلی قسم سے مربوط ہے کہ بعض موارد میں ان احکام کو بطور حکم ثانوی اٹھایا جاتا ہے .لیکن دوسری قسم سے تقیہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے .اور جہاد کا حکم بھی دوسری قسم میں سے ہے ، کہ جب بھی شرائط محقق ہوجائے تو جہاد  بھی واجب ہوجاتا ہے .اگرچہ بہت زیادہ جانی یامالی نقصان بھی کیوں نہ اٹھانی پڑے.

تقیہ اور آیات تبلیغ کے درمیان  تعارض

آلوسی کہتا ہے کہ تقیہ ان دو آیات کے ساتھ تعارض پیدا کرتا ہے کہ جن میں پیغمبر اکرم (ص) کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے(1)

۱. يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ (2)

--------------

(1):-   ابوالفضل آلوسی؛ روح المعانی،ج ۳، ص ۱۲۵.

(2):- مائدہ۶۷.

۱۸۵

 اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے.

اس آیہ مبارکہ  میں اپنے حبیب کو تبلیغ کا حکم دے رہا ہے اگر چہ خوف  اور ڈر ہی کیوں نہ ہو.

۲. الَّذِینَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ الل ه وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا الل ه وَكَفَی بِالل ه حَسِیبًا (1) یعنی وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ،اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے  .

اس آیہ شریفہ میں خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ایک بہترین صفت قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے .

اسی طرح اللہ  تعالیٰ کے احکامات کو چھپانے کی مذمت میں بھی آیات نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ فرمایا:إِنَّ الَّذِینَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ الل ه مِنَ الْكِتَابِ وَ يَشْترَُونَ بِهِ ثمََنًا قَلِیلاً  أُوْلَئكَ مَا يَأْکلُُونَ فىِ بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ الل ه يَوْمَ الْقِيَمَةِ وَ لَا يُزَكِّیهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ. (2)

جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے  .

--------------

(1):- احزاب ۳۹.

(2):- بقرہ ۱۷۴.

۱۸۶

اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے یہاں تقیہ بے مورد ہے .

 لیکن اگر تقیہ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے مثال کے طور پر ایک  کم اہمیت والا فقہی فتویٰ دے کر کسی فقیہ  یا عالم دین کی جان پچانا.

تقیہ اور ذ لّت مؤمن

اشکال :وہابی لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے خداتعالیٰ نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے.(1)

جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں کہ اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروی کار لایا جائے تو موجب ذلت نہیں ہوسکتا کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کی خاطر حق بات کرنے سے  سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ  ذلت کا سبب  ہے اور نہ مذمت کاباعث

چنانچہ عمار ابن یاسر نے ایسا کیا تو قرآن  کریم نے بھی اس کی مدح سرائی  شروع کی .

--------------

(1):- .      موسی موسوی؛ الشیعہ و التصحیح ، ص ۶۷.

۱۸۷

تقیہ ،ما نع امر بہ معروف

اشکال یہ ہے کہ تقیہ انسان کو امربہ معروف اور نہی از منکر کرنے سے روکتی ہے کبھی جان کا خوف دلا کر تو کبھی مال یا مقام کا .جب کہ یہ دونوں (امر اور نہی ) واجبات اسلام میں سے ہے .اس مطلب کی تائید میں فرمایا : افضل الجہاد کلمة حق عند سلطان جائر. ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا  بہترین جہاد  ہے .

اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

۱ـ امر بہ معروف و نہی از منکر بہ صورت مطلق جائز  نہیں بلکہ اس کیلئے بھی کچھ شرائط و معیارہے  کہ اگر یہ  شرائط اور معیار موجود ہوں تو  واجب ہے ..ورنہ  اس کا واجب ہونا ساقط ہوجائے گا .

من  جملہ شرائط امر بہ معروف و نہی از منکر  میں سے یہ ہیں :انکار کرنے میں کوئی ایسا مفسدہ موجود نہ ہو جو اس سے بھی کسی بڑے  جرم ،جیسے قتل و غارت میں مبتلا ہو جائے ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرنا جائز نہیں ہے

۲ـ  وہ روایات جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا اظہار کرنے کو ممدوح قرار دیتی ہیں ، وہ خبر واحد ہیں جو ادلہ عقلی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی یعنی تعارض کے موقع پر دلیل عقلی مقدم ہو گا ،اس سے  دفع ضرر اور حفظ جان مراد ہے(1)

تقیہ امام معصوم(ع)سےمربوط شبہات

اشکال کرنے والا اس مرحلے میں تقیہ کے شرعی جواز کو فی الجملہ قبول کرتا ہے ، کہ بعض موارد میں مؤمنین کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے لیکن دینی رہنماؤں جیسے امام معصوم(ع) کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اگر دین کے رہنما تقیہ کرے تو درج ذیل اشکالات وارد ہوسکتے ہیں :

--------------

(1):- .      دکتر محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی، ص ۲۸۹.

۱۸۸

 تقیہ اور امام(ع) کا بیان شریعت

شیعہ عقیدے کے مطابق امام معصوم کے وجود مبارک کوشریعت اسلام کے بیان کیلئے  خلق کیا گیا ہے لیکن اگر یہ حضرات تقیہ کرنے لگے تو بہت سارے احکام رہ جائیں گےاور مسلمانوں تک نہیں پہنچ پائیں گے. اور ان کی بعثت کا فلسفہ  بھی ناقص ہو گا. اسی سلسلے میں اہل سنت کے ایک عالم نے اشکال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے علی(ع) کو  اظہار حق کی خاطر منصوب کیا ہے تو تقیہ کیا معنی  رکھتا  ہے ؟!

اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ امامان معصوم نے بہترین انداز میں اپنے وظیفے پر عمل کئے ہیں لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں نے  ان کے فرامین کو قبول نہیں کیا .

. چنانچہ حضرت علی(ع) کے بارے میں منقول ہے آپ ۲۵ سال خانہ نشین ہوئے تو قرآں مجید کی جمع آوری ، آیات کی شان نزول ، معارف اسلامی کی توضیح اور تشریح کرنے میں مصروف ہوگئے اور ان مطالب کو اونٹوں پر لاد کر مسجد میں مسلمانوں کے درمیان لے گئے تاکہ ان معارف سے لوگ استفادہ کریں  ؛ لیکن خلیفہ وقت نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا .(1)

جب امام نے یہ حالت دیکھی تو خاص شاگردوں کی تربیت اور ان کو اسلامی احکامات اور دوسرے معارف کا تعلیم دیتے ہوئے اپنا شرعی وظیفہ انجام دینے لگے ؛ لیکن یہ ہماری کوتاہی تھی کہ ہم نے ان کے فرامین کو پس پشت ڈالا اور اس پر عمل نہیں کیا .

امام کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں:

1.  معتزلہ والے کہتے ہیں کہ امام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ امام کا قول ، پیغمبر اسلام(ص) کے قول کی طرح حجت ہے .

2.  امامیہ  والے کہتے ہیں کہ اگر تقیہ کے واجب ہونے کے اسباب نہ ہو،کوئی اور مانع بھی موجود نہ ہو تو امام تقیہ کرسکتے ہیں شیخ طوسی کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام تقیہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ شرائط موجود ہو .

--------------

(1):- .      محمد باقر حجتی؛ تاریخ قرآن کریم، ص ۳۸۷.

۱۸۹

امام کیلئے تقیہ جائز ہونے کے  شرائط

     شرعی وظیفوں  پر عمل پیرا ہونا اور احکام کی معرفت حاصل کرنا اگر فقط امام پر منحصر نہ ہو جیسے امام کا منصوص ہونا فقط امام کے قول پر منحصر نہیں ہے بلکہ قول پیغمبر (ص) اور عقل سلیم کے ذریعے سے بھی مکلف جان سکتا ہے تو  ایسی صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں

      اس صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں کہ آپ کا تقیہ کرنا حق تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ بنے اورساتھ ہی شرائط بھی پوری ہو.

     جن موارد میں امام تقیہ کررہے ہیں وہاں ہمارے پاس واضح دلیل موجود ہوکہ معلوم ہوجائے کہ امام حالت تقیہ میں حکم دے رہے ہیں .

اس بنا پر اگر احکام کی معرفت امام میں منحصر نہ ہو ، یا امام کا تقیہ کرنا حق تک جانے میں رکاوٹ نہ ہو اور کوئی ایسی ٹھوس دلیل بھی نہ ہو جو امام کا تقیہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتی ہو اور ساتھ ہی اگر معلوم ہو کہ امام حالت تقیہ میں ہو تو کوئی حرج نہیں کہ  امام تقیہ کرسکتے ہیں(1)

 تقیہ، فرمان امام(ع) پر عدم اعتماد کاباعث

شیعہ مخالف لوگوں کا کہنا ہے  کہ اگر ہمارے آئمہ معصومینوسیع پیمانے پر تقیہ لگے تو یہ احتمال ساری روایات جو ان حضرات سے ہم تک پہنچی ہیں ،میں پائی جاتی ہے کہ ہر روایت تقیہ کرکے بیان کئے  ہوں .اس صورت میں کسی ایک روایت پر بھی ہم عمل نہیں کرسکتے .کیونکہ کوئی بھی روایت قابل اعتماد نہیں ہوسکتی. اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمارے آئمہ معصومین کا تقیہ کرنا کسی قواعد و ضوابط کےبغیر ہو تو یہ اشکال وارد ہے .

--------------

(1):- .      محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی، ص۳۳۳.

۱۹۰

لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرنے کیلئے خواہ وہ تقیہ کرنے والا امام ہو یا عوام ہو یا خواص ہو ، خاص شرائط ہیں اگر وہ شرائط نہ ہو تو تقیہ کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے .اور جب اماموں کے تقیہ کے علل و اسباب اگر ان کو معلوم ہوجائے تو یہ اشکال بھی باقی نہیں رہے گا .

تقیہ اور علم امام  (ع)

علم امام کے بارے میں شیعہ متکلمین کےدرمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں :اور یہ اختلاف بھی روایات میں  اختلاف  ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں .

پہلا نظریہ : قدیم شیعہ متکلمین جیسے ، سید مرتضی وغیرہ معتقد ہیں کہ امام تمام احکامات اور معارف اسلامی کا علم رکھتےہیں لیکن مختلف حادثات اور بعض واقعات جیسے اپنی رحلت  کب ہوگی؟ یا دوسروں کی موت کب واقع ہوگی ؟و...بصورت موجبہ جزئیہ ہے نہ موجبہ کلیہ .

دوسرا نظریہ : علم امام(ع) دونوں صورتوں میں یعنی تمام احکامات دین اور اتفاقی حادثات کے بارے میں بصورت موجبہ کلیہ علم رکھتے ہیں(1)

بہ ہر حال دونوں نظریہ کا اس بات پر اتفاق ہے  کہ علم امام(ع)احکام اور معارف اسلامی کے بارے میں  بصورت موجبہ ہے .  وہ شبہات جو تقیہ اور علم امام سے مربوط ہے وہ بعض کے نزدیک دونوں مبنا میں ممکن ہے  اور بعض کے نزدیک صرف دوسرے مبنی میں ممکن ہے

پہلا اشکال: تقیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ  آئمہ تمام فقہی احکام اور اسلامی معارف کا علم نہیں رکھتے ہیں اور اس کی توجیہ کرنےاور روایات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کیلئے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں.

--------------

(1):- .      کلینی ؛ اصول کافی، ج۱ ، ص ۳۷۶

۱۹۱

اس اشکال کو سلیمان ابن جریر زیدی نے مطرح کیا ہے ،جوعصر آئمہمیں زندگی کرتا تھا .وہ کہتا ہے کہ رافضیوں کے امام نے اپنے پیروکاروں کیلئے دو عقیدہ بیان کئے ہیں جس کی موجودگی میں کوئی بھی مخالف ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نہیں جیت سکتا.

پہلا عقیدہ  بداء ہے .

دوسرا عقیدہ تقیہ ہے.

شیعیان اپنے  اماموں سے  مختلف مواقع پر سوال کرتے تھے اور وہ جواب دیاکرتے تھے اور شیعہ لوگ ان روایات اور احادیث کو یاد رکھتے  اور لکھتے تھے ،لیکن ان کے امام ، چونکہ کئی کئی مہینے  یا سال گذرجاتے لیکن ان سے مسئلہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ؛ جس کی وجہ سے وہ پہلے دئے ہوئے جوابات بھی بھول جاتے تھے کیونکہ اپنے دئے گئے جوابات کو یاد نہیں رکھتے تھے اس لئے ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جوابات دئے جاتے تھے .اورشیعہ جب اپنے اماموں پر ان اختلافات کے بارے میں اشکال کرتےتھے تو توجیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے جوابات تقیۃً بیان ہوئے ہیں .اور ہم جو چاہیں اور جب چاہیں جواب دے سکتے ہیں  .کیونکہ یہ ہمارا حق ہے. اور ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز تمہارے مفاد میں ہے اور تمہاری بقا اور سالمیت کس چیز میں ہے .اور تمھارے دشمن کب تم سے دست بردار ہونگے .

سلیمان آگے بیان کرتا ہے : پس جب ایسا عقیدہ ایجاد ہوجائے تو کوئی بھی ان کے اماموں پر  جھوٹے ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا اور کبھی بھی ان کے حق اور باطل میں شناخت نہیں کرسکتا. اور انہی تناقض گوئی کی وجہ سے بعض شیعیان ابو جعفر امام باقر(ع) کی امامت کا انکار کرنے لگے(1)

--------------

(1):- ۱.    نوبختی؛  فرق الشیعہ ،  ص  ۸۵ ـ۸۷.

۱۹۲

پس معلوم ہوا کہ دونوں مبنی کے مطابق شیعوں کے اماموں کے علم پر یہ اشکال وارد ہے  .

جواب :

 امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے امامان معصوم تمام  احکام اور معارف الٰہی کے بارے میں کلی علم رکھتےہیں اس بات پر متقن دلیل بھی بیان کیا گیا ہے لیکن ممکن ہے وہ دلائل برادران اہل سنت کیلئے قابل قبول نہ ہو.

چنانچہ شیخ طوسی نے اپنی روایت کی کتاب تہذیب الاحکام  کو انہی اختلافات کی وضاحت اور جواب کے طور پر لکھی ہے

علامہ شعرانی اور علامہ قزوینی یہ دو شیعہ دانشورکا بھی یہی عقیدہ ہے کہ  شیعوں کے امام تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ تقیہ کرنے کا اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے تھے

علامہ شعرانی کہتے ہیں : آئمہ  تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ صرف  امر بہ معروف کیا کرتے تھے کیونکہ امامان تمام واقعیات سے باخبر تھے :  اذا شائوا  ان یعلموا علموا.کے مالک تھے  ہمارے لئے تو تقیہ کرنا صدق آتا ہے لیکن آئمہ کیلئے صدق نہیں آتا کیونکہ وہ لوگ تمام عالم اسرار سے واقف ہیں

علامہ قزوینی فرماتے ہیں :آئمہ تقیہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ عالم تھے اور تمام اوقات اور وفات کی کیفیت اور نوعیت سے باخبرتھے اس لئے ٖٖٖصرف ہمیں تقیہ کا حکم دیتے تھے(1)

اس  شبہ کا جواب

اولا: علم امام کے دوسرے مبنا پر یہ اشکال  ہے  نہ پہلے مبنا پر ، کیونکہ ممکن ہے جو پہلےمبنا  کا قائل ہے  وہ کہے  امام اپنی موت اور مرنے کے وقت اور کیفیت سے آگاہ نہیں تھے ، اس لئے جان کے خوف سے تقیہ کرتے تھے

--------------

(1):- .  مجلہ نور علم، ش ۵۰ ـ ۵۱، ص ۲۴ ـ ۲۵.

۱۹۳

ثانیاً : امام کا تقیہ کرنا اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ ممکن ہے اپنے اصحاب اور چاہنے والوں کی جان کے خوف سے ہوں ؛ یا اہل سنت کے ساتھ مدارات اور اتحاد کی خاطر تقیہ کئے ہوں. دوسرے لفظوں میں اگر کہیں کہ تقیہ کبھی بھی جان یا مال کے خوف کے ساتھ مختص نہیں ہے

ثالثاً: جو لوگ دوسرے مبنا کے قائل ہیں ممکن ہے کہہ دیں کہ امام اپنی موت کے وقت اور کیفیت کا علم رکھتے تھے اور ساتھ ہی جان کا خوف بھی کھاتے اور تقیہ کے ذریعے اپنی جان بچانا چاہتے تھے

ان دو شیعہ عالم دین پر جو اشکال وارد ہے یہ ہے ، کہ اگر آپ آئمہ کے تقیہ کا انکار کرتے ہیں تو ان تمام روایتوں کا کیا جواب دیں گے کہ جن میں خود آئمہ طاہرین  تقیہ کے بہت سے فضائل بیان فرماتے ہیں  اور ان روایتوں کا کیا کروگے جو امام کے تقیہ کرنے کو ثابت کرتی ہیں؟!

تقیہ اور عصمت

احکام اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں ایک عام دین دارشخص سے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی بات کو خدا اور رسول کی طرف نسبت دے دے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام تقیہ کرتے ہوئے ایک ناحق بات کو خدا کی طرف نسبت دے ؟!یہ حقیقت میں امام کے دین اور عصمت پر لعن کرنے کے مترادف ہے !(1)

جواب یہ ہے کہ اگر ہم تقیہ کی مشروعیت کو آیات کے ذریعے ثابت مانتے ہیں چنانچہ اہل سنت بھی اسے مانتے ہیں ، کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تقیہ کو حکم کلی قرار دیا ہے.

--------------

(1):- محسن امین، عاملی؛  نقض الوشیعہ ، ص ۱۷۹.

۱۹۴

ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ امام (ع) نے بہ عنوان حکم اولی اس بات کو خدا کی طرف نسبت دی ہے ؛ لیکن بعنوان حکم ثانوی کسی بات کو خدا کی طرف نسبت دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے .جیسے خود اللہ تعالیٰٰ نے قرآن مجید میں مجبور شخص کیلئے  مردار کھانے کوبحکم ثانوی ، جائز قرار دیا ہے

ثانیاً: شیعہ اپنے اماموں کوصرف راوی کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے بلکہ  انہیں خودشارعین میں سے مانتے ہیں .جو اپنے صلاح دید کے مطابق حکم جاری کرتےہیں .

 بجائےتقیہ؛ خاموشی کیوں اختیار نہیں کرتے؟

اشکال: تقیہ کے موقع پر امام بطور تقیہ جواب دینے کی بجائے خاموشی کیوں اختیار نہیں کرتے ؟!

جواب :

اولا: امام معصوم(ع) نےبعض موارد میں سکوت بھی اختیار کئے ہیں اور کبھی طفرہ بھی کئے ہیں اورکبھی  سوال اور جواب  کو جابجا بھی کئے ہیں .

ثانیا:سکوت خود تعریف تقیہ کے مطابق ایک قسم کاتقیہ ہے کہ جسے تقیہ کتمانیہ کہا گیاہے .

ثالثا: کبھی ممکن ہے کہ خاموش رہنا ، زیادہ  مسئلہ کو خراب کرے جیسے اگر سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس ہو تو اس کو گمراہ کرنے کیلئے تقیةً جواب دینا ہی  زیادہ فائدہ مند ہے(1)

رابعا: کبھی امام کے تقیہ کرنے کے علل اور اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے واقعیت کے خلاف اظہار کرنا ضروری ہوجاتا ہے جیسے اپنے چاہنے والوں کی جان بچانے کی خاطر اپنے عزیز کو دشمنوں کے درمیان چھوڑنا اور یہ صرف اور صرف واقعیت کے خلاف اظہار کرکے ہی ممکن ہے

--------------

(1):- فخر رازی؛ محصل افکار المتقدمین من الفلاسفہ والمتکلمین،ص ۱۸۲.

۱۹۵

.اور کبھی دوستوں کی جان بچانے کیلئے اہل سنت کے فتوی کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے چنانچہ امام موسیٰ کاظم(ع)نے علی ابن یقطین  کو اہل سنت کے طریقے سے وضو کرنے کا حکم دیا  گیا(1)

تقیہ کی بجائے توریہ کیوں نہیں کرتے ؟!

شبہ: امام(ع)موارد تقیہ  میں توریہ کرسکتے ہیں، تو توریہ کیوں نہیں کرتے ؟ تاکہ جھوٹ بولنے میں مرتکب نہ ہو(2)

اس شبہہ کا جواب:

اولاً:تقیہ کے  موارد میں توریہ کرنا خود ایک قسم کا تقیہ ہے

ثانیاً: ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر امام کیلئے ہر جگہ توریہ کرنے کا امکان ہوتا تو ایسا ضرور کرتے .

ثالثاً:بعض جگہوں پر امام کیلئے توریہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اظہار خلاف پر ناچار ہوجاتےہیں.

تقیہ اور دین کا  دفاع

شبہہ:اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ، اللہ تعالیٰٰ کے دین کی حفاظت کرنا ہے .اگر چہ اس راہ میں قسم قسم کی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑے .اور اہل بیت پیغمبر بالخصوص ان ذمہ داری کو نبھانے کیلئے زیادہ حقدار ہیں(3)

جواب:آئمہ طاہرین نے جب بھی اصل دین کیلئے کوئی خطر محسوس کیا اور اپنے تقیہ کرنے کو اسلام پر کوئی مشکل وقت آنے کا سبب پایا تو تقیہ کو ترک کرتے ہوئے دین کی حفاظت کرنے میں مصروف ہوگئے

--------------

(1):- ہمان ،  ص  ۱۹۳.

(2):- وسائل شیعہ، ج۱، ص  ۲۱۳.

(3):- ابوالقاسم، آلوسی؛ روح المعانی،ج۳، ص۱۴۴.

۱۹۶

.اور اس راہ میں اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا .جس کا بہترین نمونہ سالار شہیدان اباعبداللہ (ع) کا دین مبین اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کے علاوہ اپنے عزیزوں کی جانوں کا بھی نذرانہ دینے سے دریغ نہیں کیا لیکن کبھی ان کا تقیہ نہ کرنا اسلام پر ضرر پہنچنے ، مسلمانوں کا گروہوں میں بٹنے ، اسلام دشمن طاقتوں کے کامیاب ہونے  کا سبب بنتا تو ؛ وہ لوگ ضرور تقیہ کرتے تھے ..چنانچہ اگر علی(ع) رحلت پیغمبر (ص) کے بعد تقیہ نہ کرتے اور مسلحانہ جنگ کرنے پر اترآتے تو  اصل اسلام  خطرے میں پڑ جاتا اور جو ابھی ابھی مسلمان ہو چکے تھے ، دوبارہ کفر کی طرف پلٹ جاتے .کیونکہ امام کو اگرچہ ظاہری فتح حاصل ہوجاتی ؛ لیکن لوگ کہتے کہ انہوں نے پیغمبر کے جانے کے بعد ان کی امّت پر مسلحانہ حملہ کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا .

پس معلوم ہوا کہ آئمہ طاہرین  کا تقیہ کرنا ضرور بہ ضرور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر تھا.

تقیہ« سلونی قبل ان تفقدونی» کے منافی

امام علی(ع) فرماتے ہیں : مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان سے اٹھ جاؤں ، اور تم مجھے پانہ سکو

 اس روایت میں سوال کرنے کا حکم فرمارہے ہیں ، جس کا لازمہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ بطور  جواب فرمائیں گے  ، اسے قبول کرنا ہم پر واجب ہوگا؛ اور امام کا تقیہ کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ بعض سوال کا امام جواب نہیں دیں گے. 

جواب : یہ کلام امیر المومنین (ع) نے اس وقت فرمایا ، کہ جب آپ برسر حکومت تھے  ؛ جس وقت تقیہ کے  سارے علل و اسباب مفقود تھے .یعنی تقیہ کرنے کی ضرورت نہ تھی.اور جو بھی سوال آپ سے کیا جاتا  ،اس کا جواب تقیہ کے بغیر  کاملاً دئے جاسکتے تھے البتہ اس سنہرے موقع سے لوگوں نے استفادہ نہیں کیا .لیکن ہمارے دیگر آئمہ طاہرین کو اتنی کم مدت  کابھی موقع نہیں ملا. یہی وجہ ہے کہ بقیہ اماموں سے ایسا جملہ صادر نہیں ہوا اگرچہ شیعہ اور سنی سوال کرنے والوں  کو احکام بیان کرنے میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی .امام سجاد(ع)سے روایت  ہے کہ ہم پر لازم نہیں ہے کہ ہمارے شیعوں کے ہر سوال کا جواب دیدیں .اگر ہم چاہیں تو جواب دیں گے ، اور اگر نہ چاہیں تو گریز کریں گے(1)

--------------

(1):- وسائل الشیعہ، ج ۱۸، ص۴۳.

۱۹۷

تقیہ  اور  شجاعت

اس  شبہہ کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے سارے امام انسانیت کے اعلاترین کمال اور فضائل کے مرتبے پر فائز ہیں یعنی ہر کمال اور صفات بطور اتم ان میں پائے جاتے ہیں اور شجاعت بھی کمالات  انسانی میں سے ایک ہے . 

لیکن تقیہ اور واقعیت کے خلاف اظہار کرنا بہت سارے مواقع پر جانی خوف کی وجہ سے ہے

اس کے علاوہ اس سخن کا مضمون یہ ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰٰ نے ایسے رہنما اور امام بھیجے ہیں، جو اپنی جان کی خوف کی وجہ سے پوری زندگی حالت تقیہ میں گذاری(1)

جواب: اولاً شجاعت اور تہور میں فرق ہے شجاعت حد اعتدال اور درمیانی راہ  ہے لیکن تہور افراط  اور بزدلی ، تفریط ہے .اور شجاعت کا یہ معنی نہیں کہ بغیر کسی حساب کتاب کے اپنے کو خطرے میں ڈالدے بلکہ جب بھی کوئی زیادہ اہم مصلحت خطرے میں ہو تو اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں .

ثانیاً: ہمارے لئے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ تقیہ کے سارے موارد میں خوف اور ترس ہی علت تامہ ہو ، بلکہ اور بھی علل و اسباب پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے تقیہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں .جیسے اپنے ماننے والوں کی جان بچانے کی خاطر ، کبھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ محبت اور مودت ایجاد کرنے کی  خاطر تقیہ کرتے ہیں جن کا ترس اور خوف سےکوئی رابطہ نہیں ہے .

ثالثا ً: امام کا خوف اپنی جان کی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ دین مقدس اسلام کے مصالح اور مفاد کے مد نظرامام خائف ہیں ، کہ ایسا نہ ہو ، دین کی مصلحتوں کو کوئی ٹھیس پہنچے .جیسا کہ امام حسین (ع) نے ایسا ہی کیا .

اب اس اشکال یا بہتان کا جواب کہ  آئمہ طاہرین نے اپنی آخری عمر تک تقیہ کیا ہے ؛ یہ ہے:

--------------

(1):- کمال جوادی؛ ایرادات و شبہات علیہ شیعیان در ہند و پاکستان.

۱۹۸

اولا ً : یہ بالکل بیہودہ بات   ہے اور تاریخ کے حقائق سے بہت دور ہے .کیونکہ ہم آئمہ طاہرین کی زندگی میں دیکھتےہیں کہ بہت سارے موارد میں انہوں نے  ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بہادرانہ طور پر جنگ و جہاد کئے ہیں چنانچہ امام موسیٰ کاظم (ع)نے اس وقت ، کہ جب ہارون نے چاہا کہ باغ فدک آپ کو واپس کریں ،  ہارون الرشید کے کارندوں کے سامنے برملا عباسی حکومت کے نامشروع اور ناجائز ہونے کا اعلان فرمایا ، اور مملکت اسلامی کے حدود کو مشخص کیا .

ثانیا ً : ہدایت بشر ی صرف معارف اسلامی کا برملا بیان کرنے پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ بعض اہم اور مؤثر افراد تک اپنی بات کو منتقل کرنا بھی کافی اور باعث بنتا تھا کہ سارے لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ جائیں.

تقیہ اور تحلیل حرام و تحریم حلال

شبہہ یہ ہے کہ اگر اس بات کو قبول کرلے کہ امام بعض فقہی مسائل کا جواب بطو رتقیہ دیں گے تو  مسلماً ایسے موارد میں حکم واقعی  (حرمت) کی بجائے (حلیت ) کا حکم لگے گا اور یہ سبب بنے گا شریعت میں تحلیل حرام  اور تحریم حلال کا، یعنی حرام حلال میں بدل جائے گا اورحلال حرام میں(1)

اس شبہہ کا جواب  یہ ہے کہ شیعوں کے نزدیک تقیہ سے مراد ؛اضطراری حالات میں بعنوان حکم ثانوی ،آیات اور روایات معصوم کی پیروی کرنا ہے .

تقیہ کا حکم بھی دوسرے احکام جیسے  اضطرار، اکراہ ، رفع  ضرر اور  حرج کی طرح ہے ، کہ ایک معین وقت کیلئے حکم اولی کو تعطیل  کرکے اس کی جگہ   تقیہ والا حکم لگایا جاتا ہے .اور ان جیسے احکام ثانوی فقہ اہلسنت  میں بھی ہر جگہ موجود ہے .

تقیہ ا یک حکم اختصاصی  ہے  یا عمومی؟

--------------

(1):- احسان الہی ظہیر؛ السنّہ والشیعہ، ص ۱۳۶.

۱۹۹

اس حصے میں درج ذیل مسائل کی بررسی کرنے کی ضرورت ہے :

1.  قانون تقیہ پر اعتقاد رکھنا کیا صرف شیعہ امامیہ کے ساتھ مختص ہے یا دوسرے مکاتب فکر بھی اس کے قائل ہیں ؟اور اسے ایک الہی قانون کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں ؟!

2.  کیا تقیہ کوئی ایسا حکم ہے جو ہرجگہ اور ہرحال میں جائز ہے یا اس کے لئے بھی خاص زمان یا مکان اور دیگر اسباب کا خیال رکھنا واجب ہے ؟

3.  کیا حکم تقیہ ،متعلّق کے اعتبار سے  عام ہے یا نہیں ؟ بطوری کہ سارےلوگ  ایک خاص شرائط میں اس پر عمل کرسکتے ہیں ؟  یا بعض لوگ بطور استثنا ہر عام و خاص شرائط کے بغیر  بھی تقیہ کرسکتے ہیں ؟جیسے : پیغمبر و امام(ع)؟

جواب: دو احتمال ہیں :

۱ـ تقیہ یک حکم ثانوی عام  ہے کہ سارے لوگ جس سے استفادہ کرسکتے ہیں .

۲ـ پیغمبران تقیہ سے مستثنی ہیں کیونکہ عقلی طور پر مانع موجود  ہے شیخ طوسی اور اکثر مسلمانوں نے دوسرے  احتمال  کو قبول کئے ہیں کہ پیغمبر کیلئے  تقیہ جائز نہیں ہے .کیونکہ اس کی شناخت اور علم اور رسائی صرف اور صرف  پیغمبر  کے پاس ہے 

اور صرف  پیغمبر  اور ان کے فرامین کے ذریعے شریعت کی شناخت اور علم ممکن ہے .پس جب پیغمبر  کیلئے تقیہ جائز ہو جائے تو ہمیں کوئی اور راستہ باقی نہیں رہتا جس کے ذریعے اپنی تکلیف اور شرعی وظیفہ کو پہچان لیں اور اس پر عمل کریں(1) اسی لئے فرماتے ہیں :فلا یجوز علی الانبیاء قبائح و لا التقیة فی اخبارهم لا نّه یؤدی الی التشکیک (2)

--------------

(1):- محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی،ص ۳۲۸.

(2):- التبیان ، ج۷ ، ص  ۲۵۹. 

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

تعالى ،اہل كتاب ، دشمن ، دشمن كى پہچان ، عيسائي، كفار ،مشركين ، مومنين ، يہود

دشنام :جائز _ ۴/۱۴۸;_ كى حرمت ۴/۱۴۸; _كى مذمت ۴/۱۴۸;_ كے احكام ۴/۱۴۸

دعا :_كا پيش خيمہ ۵/۲۵;_ كى قبوليت ۵/۱۱۴;_كى قبوليت كا پيش خيمہ ۵/۱۱۴; _ كے آداب ۵/۸۳، ۱۱۴; _ كے اثرات ۴/۱۰۶;_ ميں دنيا طلب كرنا ۵/۱۱۴;_ ميں مؤثر عوامل ۵/۱۱۴;قابل قدر _۵/۱۱۴نيز ر_ك عيسىعليه‌السلام ، عيسائي ، ، مقربين ،مناجات ، موسىعليه‌السلام ، نفرين _

دعوت :ر_ ك استغفار ، اسلام ، اصلاح ، امم ، انبيائعليه‌السلام ، اہل كتاب ، ايمان ، بنى اسرائيل، بھلائي، تقوى ، توبہ ، توحيد ، جنگ ، عبادت ، عمل، عيسائي ، قرض، قيامت ، كفار، مشركين ، نيكي

دفاع :_ كا حق ۵/۲۹ نيز ر_ ك انبياء (ع)

دل بستگى :_ كا معيار۵/ ۱۰۰; ناپسنديدہ _ ۵/۱۰۰

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں _

دمشق:۵/۳۰

دنيا :_ اور آخرت ۴/۱۳۴; _ كى قدر و قيمت ۴/ ۱۳۴

دنيا پرست :_وں كا عمل ۴/۱۳۴; _ وں كى دھمكى ۴/۱۳۴نيز ر_ك دنيا پرستي

دنيا پرستى :_ كى مذمت ۴/۱۳۴; _ كے اثرات ۵/۴۲، ۶۳، ۸۰نيز ر_ ك امتحان ، دعا ، دنيا پرست ، يہود

دور انديشى :_ كے موانع ۵/۳۰

دوستان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : ۵/۵۶دوستان خدا:۵/۵۴،۵۶_ كى صلابت ۵/۵۴

دوست كى پہچان :_ كى اہميت ۵/۸۲

۸۲۱

نيز ر_ك دوستي

دوستى :حرام _ ۵/۵۱ ، ۵۷، ۵۸، ۸۰;_كا پيش خيمہ ۵/۸۲ _ كا معيار ۵/۵۱; _ كے اسباب ۵/۸۲; ناپسنديدہ _ ۵/۵۲، ۵۴، ۸۱نيز ر_ ك الله تعالى ، اہل كتاب، تمسخر اڑانے والے ، دوست كى پہچان ، ظالمين ، عيسائي ، كفار، مشركين ، منافقين ، مومنين ، يہود

دھمكى :_كا كردار ۵/۱۰; _ كے اثرات ۴/۱۵۴; خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں _

دھوكہ :ر_ك مكر و فريب

دين :اكمال _ كے اسباب ۵/۳; بہترين _ ۴/۱۲۵; پسنديدہ _ ۵/۳ ; پہلا _ ۴/۱۶۳; _ اور اقتصاد ۵/۶۶;_ اور انسانى طبع ۵/۸۷;_اور رفاہ ۵/۶۶; _ اور علم ۵/۵۰; _ اور عينيت ۵/۶۶، ۶۸، ۸۱، ۸۷، ۸۸، ۸۹،۹۱،۹۷; _ اور مادى ضروريات ۵/۸۸; _ اور معاشرہ ۵/۶۶; _اور وقت كے تقاضے۵/۴۸;_ پر عمل كرنا ۵/۸۱; _ حنيف ۴/۱۲۵;_شناسى كے موانع ۴/۱۵۵ _ كا احياء ۵/۴۴; _ كا اعتلاء ۵ /۴۵;_كا پھيلاؤ ۵/۵۴; _ كا تظاہر ۵/۷۲;_ كا تمسخر اڑانے كا سرچشمہ ۵/۵۸، ۵۹; _ كا تمسخر اڑانے كا گناہ ۵/۵۷; _ كا فلسفہ ۴/۱۷۰، ۵/۳۵، ۹۰; _ كا كردار ۵/۴۸; _ كامل ۵/۳; _ كا منبع ۵/۴۸; _ كو جھٹلانا ۴/۱۴۳; _ كو قبول كرنا ۵/۴۹; _ كو قبول كرنے سے اعراض ۵/۵۰; _ كو قبول كرنے سے محروميت ۵/۴۹; _ كو قبول كرنے كے موانع ۵/۴۹، ۱۰۴; _ كو نقصان پہنچانا ۵/۵۴; _كى آسيب شناسى ۵/۳،۷۷،۷۸;_ كى اہميت ۵/۴۸;_ كى بے حرمتى ۵/۴۹; _ كى تبليغ ۵/۶۷; _ كى تحريف ۴/۱۱۹، ۵/۴۱;_ كى تكميل ۵/۳، ۶; _ كى جانب جھكاؤ كے موانع ۴/۱۴۱; _ كى حفاظت ۵/۱۰۵; _ كى حفاظت كے عوامل; _كى حقانيت ۵/۵۸; _ كى طرف نسبت دينا ۴/۱۲۴;_كى مسكوت چيزوں كے متعلق سوال كرنا ۵/۱۰۲; _ كى نعمت ۵/۶; _ كے اركان ۵/۵۸; _ كے اعتلا كے موانع ۵/۵۴;_ كے حصول كا طريقہ ۵/۴۸;_ كے بعض حصوں كو جھٹلانا ۴/۱۵۰; _ كے بعض حصوں كو قبول كرنا ۴/۱۵۰; _ كے دشمن ۵/۵۲; _ كے دشمن اور مومنين ۵/۶۴; _ كے دشمنوں كى سازش ۵/۱۱،۶۴;_ كے دشمنوں كى نااميدى ۵/۳; _كے مبانى ۴/۱۰۵، ۵/۵۸; _ كے مجہولات كے بارے ميں سوال كرنا ۵/۱۰۱; _ ميں بدعت ايجاد كرنا ۴/۱۱۹، ۵/۸۷، ۱۰۳; _ميں تحريف كا پيش خيمہ ۵/۴۲; _ ميں غلوكا بطلان ۵/۷۷; _ ميں غلو

۸۲۲

كاسرچشمہ ۵/۷۷; _ ميں غلو كرنا ۴/۱۷۱، ۵/۷۷; _ ميں غلو كى حرمت ۴/۱۷۱، ۵/۷۷; _ ميں غلو كے اثرات ۵/۷۸; _ ميں غور و فكر ۵/۵۸; _ى تعليمات ۴/۱۱۳;_ى تعليمات پر عمل كرنا ۵/۶۶، ۶۸، ۷۰;_ى تعليمات سے استفادہ كرنا ۵/۵۰;_ى تعليمات سے جاہل ہونا ۴/۱۵۵، ۱۶۲;_ى تعليمات سے روگردانى ۵/۴۹، ۱۰۲، ۱۰۴، ۱۰۵;_ى تعليمات كا تمسخر اڑانا ۴/۱۵۵;_ى تعليمات كا سرچشمہ ۵/۶۸;_ى تعليمات كا علم ۵/۶۳; _ ى تعليمات كا فلسفہ ۵/۵۰، ۱۰۰;_ى تعليمات كو فراموش كرنا; _ى تعليمات كو قبول كرنا ۵/۷۰;_ى تعليمات كى تبيين ۵/۱۹، ۱۰۲;_ى تعليمات كى تشريع ۵/۱۰۱;_ى تعليمات كى تعليم ۵/۱۱۰;_ى تعليمات كى حقانيت ۵/۴۵; _ ى تعليمات كى خصوصيت ۵/۸۷;_ ى تعليمات كى قدر و قيمت ۵/۵۰;_ى تعليمات ميں انسجام ۵/۶۷;_ ى شعائر ۵/۵۸ نيز ر_ ك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابراہيمعليه‌السلام ، اختلاف، اديان ، اسلام ، الله تعالى ، امتحان ، امم ، اہل كتاب، ايمان، بصيرت ، بنى اسرائيل ، ديندارى ، دين فروشي، دينى تعليمات كا نظام ،صابئين، علما ، عيسائي ، عيسائيت ، لوگ، مسلمان،معاشرہ ، نوحعليه‌السلام ، وقت كے تقاضے ، يہود

ديندارى :_ كا تظاہر ۴/۱۴۳; _كى حدود ۵/۵۷;_ كے اثرات ۵/۷۰;كے موانع ۵/۴۴نيز ر_ك اہل كتاب ، دين ، دين فروشي

دين فروشى :_ كا خطرہ ۵/۴۴; _ كى حرمت ۵/۴۴; _ كى مذمت ۵/۴۴; _ كے موانع ۵/۴۴نيز ر_ك دين ، دينداري، يہود

دينى تعليمات كا نظام :۴/۱۴۸، ۱۴۹، ۵/۳، ۴، ۴۱نيز ر_ ك دين

دينى قائدين :_كو خبردار كرنا ۴/۱۱۳نيز ر_ ك دين

ذ

ذبح :_كے احكام ۵/۱، ۳ ;_ كے وقت بسم الله پڑھنا ۵/۳; زمانہ جاہليت ميں _ ۵/۳نيز ر_ ك ذبيحہ

ذبيحہ:حرام _ ۵/۳

۸۲۳

نيز ر_ك اہل كتاب، ذبح

ذكر :آشكار _ ۴/۱۴۲; بے قدر و قيمت _ ۴/۱۴۲; تسلسل كے ساتھ _ ۴/۱۰۳;خدا كا _ ۴/۱۴۲، ۵/۷۱، ۹۱; خدا كى ربوبيت كا _ ۵/۸۳; خدا كى رحمت كا _ ۵/۹۸; خدا كى نعمتوں كا _ ۵/۷، ۱۱، ۱۱۰; _ ترك كرنے كا پيش خيمہ ۵/۹۲; _ ترك كرنے كے اسباب ۵/۹۱;_ خدا كى اہميت ۴/۱۰۳; _ خدا كے اثرات ۴/۱۰۳; _ خدا كے اسباب ۴/۱۴۲، ۱۴۳; _ خدا ميں ادب كا لحاظ ۵/۱۱۲; _ قيامت كى اہميت ۵/۱۰۹; _ قيامت كے اثرات ۵/۲۹;_ كا پيش خيمہ ۵/۹۱; _ كى اہميت ۴/۱۰۶، ۵/۳۴، ۹۱ ; _ كے اثرات ۴/۱۰۸ ،۱۱۰، ۱۱۱، ۱۲۲، ۱۳۰، ۱۳۱، ۱۳۵، ۱۴۸، ۱۷۱، ۵/۴، ۱۱، ۱۲، ۲۸، ۴۰، ۴۲، ۴۴، ۴۹، ۹۱، ۹۸; _ كے موانع ۵/۹۱; _ نعمت كى اہميت ۵/۲۰; عذاب خدا كا _ ۵/۹۸; عہد خدا كا _ ۵/۷; قيامت كا _ ۵/۱۰۹; مغفرت خدا كا _ ۵/۹۸نيز ر_ ك تاريخ ، جنگ

ذلت :دنيوى _ ۵/۴۱;دنيوى _ كا پيش خيمہ ۴/۱۰۲; دنيوى _ كے اسباب ۵/۴۱، ۴۲نيز ر_ ك زندگى ، عيسائي ، منافقين ، يہود

ذمہ داري:_ قبول كرنے كى شرائط ۵/۱۰۲ ; _ كا پيش خيمہ ۵/۱۴، ۲۳; عمومى _ ۵/۷۹

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كيئے جائيں

ر

راز :_ فاش كرنا ۵/۶۱نيزر_ ك انسان ، اہل كتاب

راہب :ر_ك عيسائيت

ربوبيت :غير خدا كى _ ۵/۷۲نيز ر_ك الله تعالى

رجس :ر_ك پليدي

رجحان:ناپسنديدہ _ ۴/۱۱۹، ۱۶۹;ناپسنديدہ _ كے موانع ۴/۱۳۹

رجحانات:ر_ ك رجحان

۸۲۴

رجم:ر_ك زناكار

رحمت :_ خدا سے بہرہ مند افراد ۴/۱۷۵، ۵/۷۴_ سے محروم ہونا ۴/۱۷۵; _ كے اسباب ۴/۱۷۵نيز ر_ ك الله تعالى ، ايمان

رزق :ر_ك روزي

رسوم :ر_ك زمانہ جاہليت

رشتہ دار:_وں كو نقصان پہنچانا ۴/۱۳۵; _وں كے خلاف گواہى ۴/۱۳۵; _وں كے مفادات ۴/۱۳۵نيز ر_ ك رشتہ داري

رشتہ داري:_ كا كردار ۵/۲۷نيزر _ ك رشتہ دار

رشد :ر_ك ترقي

رشوت:_ سے اجتناب ۵/۶۲، ۶۵;_ كا گناہ ۵/۶۲; _ كى حرمت ۵/۴۲; _ كى مذمت ۵/۴۲; _ كے اثرات ۵/۴۲; _ كے احكام ۵/۴۲;نيز ر _ ك اہل كتاب، يہود

رضا كار :ر_ك بنى اسرائيل ، مجاہدين رضائے الہى كے طالب :۵/۱۶

رفاقت :ر_ك دوستي

رفاہ :_ كى قدر و قيمت ۵/۶۶; _ كے اسباب ۵/۶۶نيز ر_ ك رفاہ طلبي

رفاہ طلبى :_كا پيش خيمہ ۵/۴۴نيز ر _ ك رفاہ

ركوع :ر_ ك انفاق

رمضان المبارك :اكيس _ ۴/۱۵۸

روايات :۴/۱۰۱، ۱۰۳، ۱۰۵، ۱۱۲، ۱۱۴، ۱۱۵، ۱۱۹، ۱۲۵، ۱۲۷،

۸۲۵

۱۲۸، ۱۲۹، ۱۳۷، ۱۴۰، ۱۴۱، ۱۴۲، ۱۴۳، ۱۴۸، ۱۵۶، ۱۵۷، ۱۵۸، ۱۶۰، ۱۶۳، ۱۶۴، ۱۷۰، ۱۷۳، ۱۷۴، ۱۷۶، ۵/۱، ۳، ۴، ۵، ۶، ۲۰، ۲۱، ۲۳، ۲۶، ۲۷، ۳۰، ۳۱، ۳۲، ۳۳، ۳۸، ۴۲، ۴۳، ۴۴، ۴۵، ۶۳، ۶۴، ۶۶، ۶۷، ۷۲، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۲، ۸۷، ۸۹، ۹۰، ۹۴، ۹۵، ۹۶، ۹۷، ۱۰۳، ۱۰۵، ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۱، ۱۱۵

روٹى :_ كا نزول ۵/۱۱۵

روح القدس :۵/۱۱۰

روز غدير :_ كى اہميت ۵/۳

روزہ :ر_ ك كفارہ

روزى :پاكيزہ _ ۵/۸۸; حلال _ ۵/۸۸; _زيادہ ہونے كى شرائط ۵/۶۶; _ كاسرچشمہ ۵/۲، ۸۸; _ كم ہونے كا پيش خيمہ ۵/۶۶نيز ر_ك الله تعالى ، انسان ،طعام، عيسائي ، موجودات ، يہود

رہبر:دينى _ كى اطاعت ۵/۸۱; _ اور فاسقين ۵/۴۹; _ كا انتخاب ۵/۱۲; _ كا علم ۵/۴۹; _ كا نقش ۵/۵۶; _ كو خبر دار كرنا ۵/۴۹; _ كى استقامت ۵/۴۹; _ كى اہميت ۵/۴۹; _ كى ذمہ دارى ۴/۱۰۵، ۵/۳۳، ۳۸، ۱۱۴; _ كى زيركى كى اہميت ۵/۴۹; _ كى شرائط ۵/۵۵، ۱۰۴; _ كى لغزش كے اسباب ۵/۴۹; _ كى مخالفت ۴/۱۱۵; _ كى مخالفت كى سزا ۴/۱۱۵_; _ كے دشمن ۵/۴۹; _ كے ساتھ محشور ہونا ۴/۱۱۵نيز ر_ ك امامت، دينى قائدين ، قائدين كفر، قائدين گمراہى ، يہود

ريا :_ سے اجتناب ۴/۱۴۲، ۱۴۶; _ كے اثرات ۴/۱۴۲، ۱۴۳نيزر_ ك عبادت ، نماز

ز

زانى :ر_ك زناكار

زبور:_ايك آسمانى كتاب ۴/۱۶۳; _ كى اہميت ۴/۱۶۳; _ كى قدر و منزلت ۴/۱۶۳

زكوة :_ ادا كرنے سے اجتناب كرنا ۴/۱۳۷; _ ترك

۸۲۶

كرنا ۵/۱۲; _ كى ادائيگى ۴/۱۶۲، ۵/۱۲، ۵۵; _ كى ادائيگى كى اہميت ۵/۱۲، ۵۵ ; _ كى ادائيگى كے آداب ۵/۵۵; _ كى اہميت ۴/۱۶۲، ۵/۵۵; _ كے اثرات ۵/۱۲نيزر _ ك اديان ، بنى اسرائيل ، يہود_

زمانہ جاہليت :_سے محبت كاپيش خيمہ ۵/۵۰; _كا معاشرہ ۵/۱۰۳;_ كى ثقافت ۵/۵۰; _ كى رسوم ۴/۱۲۷، ۵/۳، ۵۰، ۹۰، ۱۰۴; _ كى رسوم سے محبت ۵/۵۰; _ كى رسوم كے خلاف جہاد ۵/۳، ۵۰; _كے علما كى قليل تعداد ۵/۱۰۳;_ كے كفار ۵/۱۰۳; _ ميں ازلام ۵/۹۰;_ ميں استخارہ ۵/۹۰ ; _ ميں بدعت كے اسباب ۵/۱۰۳; _ ميں بدعت گذار ۵/۱۰۳نيزر _ك قرعہ

زمين :_ كا گھومنا ۵/۲۶; _ كا مالك ۴/۱۲۶، ۱۳۱، ۵/۱۷، ۱۸، ۴۰، ۱۲۰; _ كا نظام ۵/۹۷; _ى مخلوقات كا مالك ۴/۱۳۲

زنا :_ كا گناہ ۴/۱۳۷;_ئے محصنہ كى حد ۵/۴۳نيز ر_ ك زناكار

زناكار :شادى شدہ _ كو سنگسار كرنا ۵/۴۳نيز ر _ ك زنا ،شادى

زنا كى تہمت :_ كى حرمت ۴/۱۵۶

زندگى :ذلت كى _ ۵/۱۴; _ كے آداب ۵/۳۵; _ كے قوام كے اسباب ۵/۹۷; _ ميں انصاف ۴/۱۳۵; _ ميں ميانہ روى ۵/۶۶نيز ر_ ك فاسقين ، يتيم

زہد:حرام _ ۵/۱۰۳نيز ر_ ك يہود

زيارت :ر_ ك كعبہ

زيركى :_ اور تقوى ۵/۱۰۰; _ كى اہميت ۴/۱۰۱، ۱۰۲، ۱۴۱، ۵/۶۱، ۱۰۵; _ كے اثرات ۴/ ۱۰۲نيز ر_ ك جنگ ، قاضي، قيادت ، مومنين

۸۲۷

س

سازش:ر_ ك خيانتكار ، دشمن ، دين ، عيسىعليه‌السلام ، منافقين ، يہود

سائبہ :(سانڈھ)_ كے احكام ۵/۱۰۳، ۱۰۴

سائنسى علوم :_كا سرچشمہ ۵/۳۱

سب كا گھر : ۵/۹۷

سبل السلام :_ كى قدر و قيمت ۵/۱۶

سب و شتم :ر_ك دشنا م

سبيل الله : ۴/۱۶۰، ۱۶۷، ۵/۱۶، ۳۵، ۵۴_سے روكنا ۴/۱۶۰، ۱۶۷، ۱۶۸; _سے روكنے كا ظلم ۴/۱۶۱، ۱۶۸; _سے روكنے كى سزا ۴/۱۶۱; _ سے روكنے كے اثرات ۴/۱۶۰

سپاس گزارى :ر_ ك شكر

ستائش :ر_ ك حمد

ستم :ر_ ك ظلم

سجدہ كرنا :خدا كو _ ۴/۱۵۴نيز ر_ ك ابراہيم (ع)

سچائي :ر_ك صداقت

سخت دل :_ اور علم ۵/۱۰۴; _ اور ہدايت ۵/۱۰۴

سختى :ر_ك مشكلات

سخن :ر_ك گفتگو

سرّ :ر_ك راز

سرپرستى :ر_ك انتظام و انصرام

سر تسليم خم كرنا:

۸۲۸

اوامر خدا كے سامنے_ ۵/۱۰۸; جائز فيصلہ كے سامنے_ ۵/۴۹;خدا كے سامنے_ ۵/۱، ۴۴، ۱۱۱; خدا كے سامنے _كى اہميت ۴/۱۲۵; خدا كے سامنے _ كى فضيلت۴/۱۲۵;_ كاپيش خيمہ۵/۱۱۱; _ كا مقام ۵/۱۱۱;_ كى اہميت ۵/۱۱۱; _ كى قدر و قيمت ۴/۱۲۵; _كے اثرات ۵/۱۰۸

سرزمين شام : ۵/۲۱

سرزمين مصر : ۵/۲۶

سرزنش :ر_ك خاص موارد

سرقت :ر_ ك چوري

سركش لوگ: ۵/۶۴_ وں كا غمزدہ ہونا ۵/۶۸نيز ر_ ك سركشي

سركشى :_ كے اثرات ۵/۶۴، ۶۸; _ كے علل و اسباب ۵/۶۸; _ كے مراتب ۵/۶۴، ۶۸; _ميں اضافہ كا پيش خيمہ۵/۶۸;_ ميں اضافہ كے اسباب ۵/۶۸نيز ر_ ك اہل كتاب، سركش لوگ ، قابيل ، قرآن كريم ، يہود

سرگردانى :_ كے اسباب ۴/۱۳۷، ۱۴۳

نيزر _ ك ايمان، بنى اسرائيل ، عملى موقف فاسقين ،قابيل ،قيامت ، كفر، منافقين

سرگوشى :_ سے منع كرنا ۴/۱۱۴; قابل قدر _ ۴/۱۱۴; نيكى كى _ ۴/۱۱۴نيز ر_ك مسلمان

سرُور:_ كى اہميت ۵/۱۱۴

سزا :آسمانى بجلى كے ذريعہ _ ۴/۱۵۳; اخروى _ كے اسباب ۵/۴۱; بغير بيان كے _ ۴/۱۶۵; دنيوى _ ۵/۳۳; دنيوى _ كے اسباب ۴/۱۵۳، ۱۶۰; _ سے در گذر كرنا ۴/۱۴۹; _ سے نجات پانا ۴/۱۲۳; _ سے نجات پانے كے اسباب ۵/۴۹، ۹۳; _ كا معيار ۴/۱۲۳; _ كى اقسام ۴/۱۷۳; _ كى شرائط ۵/۹۴ ; _ كے اسباب ۵/۲، ۲۶، ۳۲ ; _ كے مراتب ۴/۱۵۱، ۵/ ۲، ۳۲، ۳۳، ۴۱، ۶۰; _ معاف كرنا ۴/ ۱۲۳;_ ميں امتيازى سلوك ۴/۱۲۳ _ ميں انصاف ۴/ ۱۲۳، ۱۲۴; _ ميں تفاوت ۵/۶۰; مكر كے ذريعہ _ ۴/۱۴۲

۸۲۹

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں _

سزائے موت دينا :رك محارب ، مفسدين

سستى :_ سے اجتناب ۴/۱۰۴; _ كے موانع ۴/۱۰۴

سطحى سوچ :_ كے اثرات ۴/ ۱۶۲

سعادت :اخروى _ ۴/ ۱۳۴; اخروى _كا پيش خيمہ ۴/۱۳۴; دنيوى _ ۴/۱۳۴; دنيوى _ كا پيش خيمہ۴/۱۳۴; _ سے محروم ہونا ۴/۱۶۸; _ كا انتخاب ۴/۱۷۰; _كا پيش خيمہ۴/۱۳۴، ۱۷۱; _ كا سرچشمہ ۴/۱۳۴; _ كى تبيين ۵/۱۹; _ كے اسباب ۴/۱۷۰، ۱۷۱، ۵/۳۵ ، ۶۹، ۷۰، ۸۱نيز ر_ ك انسان، عيسائي

سعى :ر_ ك كوشش

سفر :ر_ ك يہود

سقائي:ر_ك پانى پلانا

سكوت :ر_ ك يہود

سليمانعليه‌السلام :_ كى نبوت ۴/۱۶۳

سماعت :_ كى قدر و قيمت ۵/۷۶; _ كے موانع ۵/۷۱نيز ر_ك الله تعالى

سمندر :_ كے فوائد ۵/۹۶

سنت :_ كا كردار ۴/۱۰۵، ۵/ ۱۰۱، ۱۰۴، ; _ كى پيروى ۴/۱۱۵;_ كى تعليم ۴/۱۰۵; _ كى قدر و قيمت ۴/۱۱۵

نيز ر_ ك ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، قرآن كريم ، كفار

سنگسار كرنا:ر_ ك زناكار

سوال :بے جا _ كا گناہ ۵/۱۰۱; حرام _ ۵/۱۰۱;_ اور جواب ۴/۱۲۷، ۵/۱۰۱ ; _ كا پيش خيمہ ۴/۱۲۷; _

۸۳۰

كے اثرات ۵/۱۰۲; ممنوع _ ۵/۱۰۱ نيز ر_ ك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،امم، انبيائعليه‌السلام ، دين ، عيسىعليه‌السلام ، قيامت ، ميراث

سود :_ كى حرمت ۴/۱۶۱; _ كے احكام ۴/۱۶۱نيز ر_ ك سود خوري

سو د خورى :_ كے اثرات ۴/۱۶۱نيز ر_ ك سود ، يہود

سياست:ر_ك سياسى نظام

سياسى نظام: ۴/۱۳۹، ۱۴۱، ۱۴۴، ۵/۴۹، ۵۰، ۵۱، ۵۵، ۵۷

سيرت :ر_ ك بنى اسرائيل ، مومنين

سير و سلوك:_ كا طريقہ ۵/۳۵

ش

شادى :اہل كتاب كے ساتھ_ ۵/۵; پاكدامن كے ساتھ _ ۵/۵; حرام _۵/۵;زنا كار سے _۵/۵;_ كا پيش خيمہ ۴/۱۳۰ ; _ كى شرائط ۵/۵ ; _ كے احكام ۴/۱۲۹، ۵/۵; كنيز سے _۵/۵;يتيم كے ساتھ _ ۴/۱۲۷نيز ر_ ك عورت ، ہم بستري

شاكرين :_ كى جزا ۴/۱۴۷

شاہد :ر_ك گواہ

شبہ :_كا پيش خيمہ۵/۱۷

شتر مرغ :ر_ك كفارہ

شجاعت :_ كا پيش خيمہ ۵/۲۳، ۴۴;_ كى اہميت ۵/ ۳ ، ۴۴نيز ر _ك انبياءعليه‌السلام ، حزب الله ، مومنين ، ہابيل ، يہود

شخصيت :_ محفوظ ركھنے كى اہميت ۴/۱۱۲نيز ر_ ك انسان ،عيسىعليه‌السلام ، ہابيل

شر :_ كى جانب ميلان ۵/۲۷

۸۳۱

ر_ك شرور

شراب :_پينا ايك ناپسنديدہ فعل ۵/۹۰;_پينے كا گناہ ۴/۱۳۷، ۵/۹۰، ۹۳;_ تحريم سے پہلے ۵/۹۳ ; _خورى صدر اسلام ميں ۵/۹۰، ۹۳; _ سے اجتناب كرنا ۵/۹۰ ، ۹۱، ۹۲، ۹۳ ; _ كى پليدى ۵/۹۰ ; _ كى تحريم ۵/۹۱ ; _ كى تحريم كا فلسفہ ۵/۹۱;_كى حرمت ۵/۹۰;_ كے اثرات ۵/۹۱ ; _ كے احكام ۵/۹۰، ۹۱;_ كے مفاسد ۵/۹۱; _ كے موارد ۵/۹۰

شرعى ذمہ دارى :_ پر عمل كرنا ۵/۵، ۴۴، ۵۴، ۸۸، ۹۴، ۹۶، ;_پر عمل كرنے كا پيش خيمہ ۴/۱۳۱، ۵/۱۲، ۴۴، ۹۱، ۹۴، ۹۸، ۱۰۸;_ پر عمل كرنے كے اثرات ۵/۶، ۲۶; _ پر عمل كرنے كے موانع ۵/۴۴; _ ترك كرنے كا پيش خيمہ ۵/۴۹; _ ترك كرنے كے اثرات ۵/۵; _ سے سوء استفادہ كرنا ۵/۳; _ كا آسان ہونا ۴/۱۳۱، ۵/۶، ۱۰۱ ; _ كا سرچشمہ ۵/۱; _كا قلمرو ۵/۱۰۲;_ كى سہولت كا سرچشمہ ۵/۳; _ كى شرائط ۴/ ۱۲۹، ۵/۸۹ ; _ كے رفع ہونے كے موارد ۵/۳;_ ميں قدرت ۴/۱۲۹، ۵/۶، ۸۹نيز ر_ ك بنى اسرائيل ، كفار ، مومنين

شرعى مسافت : ۴/۱۰۱

شرك :خدا كے ساتھ _ ۵/۷۲ ;_ ذاتى ۵/ ۱۱۶; _ سے اجتناب كرنا ۴/۱۷۱، ۵/ ۹۰، ۹۲ ; _ صدر اسلام ميں ۵/۹۰; _ عبادى ۴/۱۱۷، ۵/۷۶، ۱۱۶; _ عبادى كاپيش خيمہ ۵/۷۶ ; _ كا انجام ۵/۷۲; _ كا ظلم ۵/۷۲; _ كا گناہ ۴/۱۱۶، ۱۱۸، ۵/۷۲، ۹۰ ; _ كا مقابلہ ۵/۳; _كى بخشش ۴/۱۱۰;_ كى سزا ۴/۱۱۶; _كى طرف رجحان ۵/۷۲; _ كى نفى ۵/۷۵، ۱۱۶، ۱۱۷;_كے اثرات ۵/۹۱;_كے مظاہر كا ناپسنديدہ ہونا ۵/ ۹۰; _ كے موارد ۴/۱۱۶، ۱۷۱، ۵/۷۳; _ كے موانع ۵/۷۳، _ ميں تحقيق ۵/۷۵نيز ر_ ك استغفار ، اہل كتاب، ايمان ، تثليث ، توبہ ، عيسىعليه‌السلام ، عيسائي

شريعت :ر_ ك دين

شريك حيات:_ سے محبت ۴/۱۲۹; _ كا متعدد ہونا ۴/۱۲۹; _ كى نعمت ۵/۲۰; _ كے انتخاب كا معيار ۵/۵; _ كے حقوق ۴/۱۲۸، ۱۲۹;_ كے درميان انصاف كرنا ۴/۱۲۹; _ كے ساتھ بھلائي كرنا ۴/۱۲۸

شطرنج :_ كى حرمت ۵/۹۰

شعائر :

۸۳۲

_ كا احترام ۵/۲; _ كا تمسخر اڑانا ۵/۵۸، ۵۹; _ كى بے حرمتى ۵/۲;_ كے تمسخر اڑانے كا سرچشمہ ۵/۵۸، ۵۹; _ كے تمسخر اڑانے كا گناہ ۵/۵۸; _ كے موارد ۵/۲نيزر _ ك دين

شفا :ر_ك بيمار

شفاعت :_ سے محروم ہونا ۴/۱۷۳، ۵/۴۱; _ كے اثرات ۵/۴۱نيز ر_ ك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، شفاعت كرنے والے ، عيسىعليه‌السلام ، قيامت ، مشركين ، مومنين

شفاعت كرنے والے :قيامت ميں _ ۴/۱۷۳، ۵/۷۲نيز ر_ك شفاعت

شقاوت:_ كا انتخاب ۴/۱۷۰; _كا پيش خيمہ ۴/۱۳۷;_ كى تبيين ۵/۱۹ ; _ كے اسباب ۴/ ۱۲۱نيز ر _ ك كفار

شك :_ كے موانع ۵/۱۱۴نيز ر_ ك الله تعالى ،عيسى (ع)

شكار :بحرى جانوروں كا _;برى جانوروں كا _ ۵/۹۶; ۵/۹۶; پرندوں كا _ ۵/۹۶; تفريح كے طور پر _ ۵/۹۶; جائز _ ۵/۲، ۴، ۹۶; حرام _ ۴/۱۵۴، ۵/۱، ۲، ۳، ۴، ۹۵، ۹۶; حرام _ سے استفادہ ۵/۳; حلال _ ۵/۴;خشكى اور سمندر دونوں ميں زندگى كرنے والے جانوروں كا _ ۵/۹۶;_ ترك كرنے كى اہميت ۵/۴; _ كا محرك ۵/۴; _ كى تقسيم ۵/۴; _ كى حليت كى شرائط ۵/۴; _ كى شرائط ۵/۴; _ كے احكام ۵/۱، ۲، ۴، ۹۶; _ كے وقت بسم الله پڑھنا ۵/۴; _ كے وقت تقوى كى مراعات ۵/۴; شكارى باز كا _ ۵/۴; شكارى تيندوئے كا _ ۵/۴; شكارى حيوانات كا _ ۵/۴; شكارى شيركا_ ۵/۴; شكارى كتے كا _ ۵/۴ ; مچھلى كا_ ۴/۱۵۴; ممنوعہ _ ۵/۴نيز ر_ ك احرام ، امتحان ، حج ، حرم ، كفارہ ، مكہ مكرمہ

شكارى باز:ر _ ك شكار

شكارى شير :ر_ ك شكار

شكايت :ر_ ك موسى (ع)

۸۳۳

شكر :خدا كا _ ۴/۱۴۷; خدا كے _كا پيش خيمہ۵/۶; _كى نعمت ۵/۱۱، ۲۱، ۸۹; _ كى نعمت كى اہميت ۵/۶; _ كے اثرات ۴/۱۴۷نيز ر_ ك شاكرين ، مومنين

شكست :_كا پيش خيمہ ۵/۵۶;_ كے اسباب ۴/۱۰۲نيز ر_ ك آيہ تبليغ ، اسلام،بنى اسرائيل ، خوف، دشمن ، عيسائي ، كفار، يہود

شناخت :_ كے درجات ۵/۱۱۴; _ كے ذرائع ۴/۱۵۵، ۵/۳۱، ۱۰۰; _ كے موانع ۴/۱۵۵

شوہر :_ كا حقوق ادا نہ كرنا ۴/۱۲۸، ۱۲۹; _ كى ذمہ دارى ۴/۱۲۹; _ كے حقوق ادا نہ كرنے پر مذمت ۴/۱۲۸

شوہر كى نافرمانى كرنا :شوہر كى نافرمانى ترك كرنے كا پيش خيمہ ۴/۱۲۸نيز ر_ ك شوہر

شہادت :ر_ ك گواہي

شير :ر _ ك شكار

شيطان :_ اور مومنين ۵/۹۱ ; _ پر لعنت ۴/۱۱۸; _ سے اجتناب كرنا ۵/۹۲; _ كا ايمان ۴/۱۱۸; _ كا تسلط ۴/۱۱۹;_ كا عمل ۵/۹۰; _ كا فساد پھيلانا ۴/۱۱۹; _ كا مكر و فريب ۴/۱۲۰; _كا نقش ۴/۱۱۹، ۵/۹۱;_ كا ور غلانا ۴/۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۰، ۱۲۱، ۵/۳۰; _ كا وعدہ ۴/۱۲۰; _ كى پليدى ۵/۹۰ ; _ كى پيروى ۴/۱۱۷، ۱۱۸، ۱۱۹; _ كى سركشى ۴/۱۱۷; _كى صفات ۴/۱۱۷;_ كى قسم ۴/۱۱۹; _كى محروميت ۴/۱۱۸، ۱۱۹; _ كى مذمت ۴/۱۱۷; _ كى نااميدى ۴/۱۱۸; _ كى ولايت ۴/۱۱۹، ۱۲۲; _ كى ولايت كا قبول كرنا ۴/۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۱; _ كے اہداف ۴/۱۱۸، ۱۱۹; _ كے جال ۵/۹۱; _ كے ورغلانے كا طريقہ ۴/۱۲۰; _ كے ورغلانے كے اسباب ۴/۱۱۹نيز ر_ ك ابليس ، شيطان كے پيروكار، عبادت ، عمل ، مومنين

شيطان كے پيروكار: ۴/۱۱۹، ۱۲۱_وں كا انجام ۴/۱۲۱

۸۳۴

ص

صابئين:_ كا ايمان ۵/۶۹; _ كا دين ۵/۶۹; _ كا عقيدہ ۵/۶۹; _ كى ذمہ دارى ۵/۶۹

صادقين :۵/۱۱۹_ بہشت ميں ۵/۱۲۰;_ قيامت كے دن ۵/۱۱۹; _ كى جزا۵/ ۱۱۹; _ كى رضايت ۵/۱۱۹ ;_ كى فتح ۵/۱۱۹; _ كى كاميابي۵/۱۱۹;_ كے فضائل ۵ / ۱۱۹

صاعقہ :_كے ذريعے عذاب ۴/۱۵۳; _ كے ذريعے ہلاكت ۴/۱۵۳نيز ر_ك سزا

صالحين :۵/۲۵_ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۵/۸۴; _ اور قرآن كريم ۵/۸۴; _ بہشت ميں ۵/۸۴، ۸۵; _ قيامت كے دن ۵/۱۱۹; _ كا ذكر خير ۵/۶۶; _كا مقام و مرتبہ ۵/۸۴;_ كى جزا ۵/۱۱۹; _ كى رضا مندى ۵/۱۱۹; _ كى ہم نشينى ۵/ ۸۴

نيز ر _ ك اہل كتاب ، بنى اسرائيل

صداقت :_ كى اخروى جزا ۵/۱۱۹; _ كى قدر و قيمت ۵/۷۵; _ كے اخروى اثرات ۵/۱۱۹نيز ر _ ك اللہ تعالى _عيسىعليه‌السلام ،مريم (ع)

صدقہ :_ كى تشويق دلانا ۴/۱۱۴;_ كے موارد ۵/۴۵صراط مستقيم : ۴/۱۷۵، ۵/۱۲، ۱۶_ كى قدر و قيمت ۵/۱۶

صفائي:ر _ ك پاكيزگى ، خوراك

صلابت :ر _ ك مجاہدين ، مومنين

صلاحيتيں :ان كا كردار ۵/ ۵۴

صلح:_ كى اہميت ۵/۲ ، ۱۶; _ كے علل و اسباب ۵/۱۶نيز ر _ ك آتشي، اصلاح

ض

ضرورت مند افراد :_ كى حاجت روائي ۴/۱۱۴،۱۲۵،۵/ ۵۵

۸۳۵

ضوابط:اجتماعى _ ۵/۲

ط

طاغوت:_ كى اطاعت ۵/۶۰; _ كى ولايت ۴/۱۱۵

طاغوت پرست لوگ :_ جہنم ميں ۵/۶۰;_وں كا ٹھكانا ۵/۶۰; _ وں كى جانب سے تمسخر اڑانا ۵/۶۰; _ وں كى گمراہى ۵/۶۰

طبيعى اسباب:ر_ك طبيعى عوامل

طبيعى عوامل : ۴/۱۴۳، ۱۵۳

طعام :ر _ ك كھانا

طفل :ر _ ك بچہ

طلاق :پسنديدہ _ ۴/۱۳۰; _ سے منع كرنا ۴/۱۳۰; _كا پيش خيمہ ۴/۳۰; _ كى تشريع ۴/۱۳۰;_ كى تشويق كرنا ۴/۱۳۰;_ كے اثرات ۴/۱۳۰، ۱۳۱;_ كے موانع ۴/۱۲۸

طمع :_ كے اثرات ۴/۱۲۸، ۵/۴۲، ۴۴نيز ر _ ك انسان ، ثروتمند افراد، منافقين ، يہود

طہارت :_ كى قدر و منزلت ۵/۶;_ كے احكام ۵/۵ ، ۶;_ كے مبطلات ۵/۶نيز ر _ ك اہل كتاب ، پاكيزگى ، مومنين

طيّبات :_ سے استفادہ كرنا ۵/۵، ۸۷، ۸۸;_ سے استفادہ نہ كرنا ۵/۸۷، ۸۸;_ سے محروميت ۴/۱۶۱;_ كى تحريم ۴/۱۶۰، ۵/۸۷، ۸۹;_ كى تشخيص كے اسباب ۵/۱۰۰;_ كى جانب جھكاؤ ۵/ ۱۰۰;_ كى حليت ۵/۴;_ كى قدر و قيمت ۵/۱۰۰; _ كے موارد ۵/۴

ظ

ظالمين :_ پر فتح ۵/۲۳; _ جہنم ميں ۵/۷۲; _كا بے پناہ ہونا ۵/۷۲; _ كو افشا كرنا ۴/۱۴۸; _ كى اصلاح ۵/۳۹; _ كى بدگوئي ۴/۱۴۸; _كى توبہ ۵/۳۹; _ كى توبہ كى قبوليت ۵/۳۹; _ كى سزا ۵/۲۹; _كى

۸۳۶

محروميت ۵/۵۱، ۵۲; _كے ساتھ جنگ ۵/۲۱، ۲۲، ۲۳; _ كے ساتھ دوستى ۵/۸۰; _ كے ساتھ مقابلہ ۵/۲۳، ۲۴، ۲۵; _ كے ساتھ مقابلہ كى روش ۴/۱۴۸نيز ر _ ك اہل كتاب ، خوف ، مقدس سرزمين

ظلم :_ ترك كرنے كا پيش خيمہ ۵/ ۵۲;_ كا پيش خيمہ ۵/۲;_ كا دنيوى عذاب ۴/۱۶۱; _ كا سرچشمہ ۴/۳۵;_ كى اخروى سزا ۴/۱۶۱;_ كى حرمت ۵/۸;_ كى سزا ۵/۳۳;_ كے اثرات ۴/۱۵۳، ۱۶۰، ۱۶۱، ۱۶۸، ۱۶۹; _ كے اسباب ۵/۴۵; _ كے موارد ۴/ ۱۲۴، ۱۴۸، ۱۵۳، ۱۶۸، ۵/۲۹، ۴۵، ۵۱، ۷۲، ۱۰۷; _ كے موانع ۵/ ۲۸، ۲۹

نيز ر _ ك استغفار ، اللہ تعالى ،اہل كتاب ، بنى اسرائيل ، توبہ ، چورى ،خود ، دشمن ، سبيل اللہ ، شرك، عيسائي ، قابيل، قتل ، كفر ، گناہ ، لوگ ، معاشرہ، يہود

ظاہر پرستي:_ كے اثرات ۴/۱۵۳نيز ر _ ك يہود

ظلمت :_ سے نكلنا ۵/ ۱۶نيز ر _ ك نور

ظن و گمان :_ سے اجتناب ۴/۱۵۷; _ كا غير معتبر ہونا ۴/۱۵۷نيز ر _ ك بنى اسرائيل

ع

عابد ين:_ قيامت كے دن ۴/۱۷۲

عاقبت :_ كى تعيين كے عوامل ۵/۸۰

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں

عالم :ر _ ك كائنات

عبادت :خدا كى _ ۴/۱۱۷، ۱۲۵، ۱۵۳; خدا كى _ كى دعوت دينا ۵/۷۲; شيطان كى _ ۴/ ۱۱۸ ;_ ترك كرنے كے آثار ۴/۱۷۳; _ كا پيش خيمہ ۵/۷۶; _ كى اہميت ۵/۵۵، ۹۱; _ كى تشويق ۴/۱۷۲; _ كى حفاظت كرنا ۵/ ۹۱ ; _ كى قدر و قيمت ۴/۱۷۲; _كى نافرمانى ۴/۱۷۳; _ كے آداب ۴/۱۴۲;_ كے اثرات ۵/۸۲; _ ميں خلوص ۴/ ۱۴۲; _ ميں ريا ۴/۱۴۲; _ميں سستى كے اثرات ۴/ ۱۴۳; _ ميں نشاط ۴/ ۱۴۳; _ ميں نظم و ضبط ۴/ ۱۰۲; غير خدا كى _

۸۳۷

۵/ ۷۶نيز ر _ ك علم

عبد :ر _ ك غلام

عبرت:_كے عوامل ۵/ ۳۱; _ كے موانع ۵/ ۳۰; _ كے موجبات ۵/۳۸نيز ر _ ك اسلاف : اہل كتاب ، تاريخ

عبوديت :_سے اجتناب كرنا۴/ ۱۷۲; _ كا پيش خيمہ ۴/۱۷۲;_ كو ترك كرنا ۴/ ۱۷۳; _ كى تشويق كرنا ۴/ ۱۷۳;_ كى دعوت دينا ۵/ ۱۱۷; _ كى علامات ۴/ ۱۷۳; _ كى قدر وقيمت ۴/ ۱۷۲; _ كے موانع ۴/ ۱۷۲نيز ر _ ك انسان ، برگزيدہ لوگ ، عيسىعليه‌السلام ، مقربين ، ملائكہ

عتق:ر _ ك غلام

عُجب :_ كے اثرات ۴/ ۱۳۵، ۵/۲۷نيز ر _ ك يہود

عدالتى نظام : ۴/ ۱۰۵، ۱۳۵، ۵/ ۴۵، ۴۹، ۵۰نيز ر _ ك قضاوت

عداوت:ر _ ك دشمني

عدد:ايك لاكھ چوبيس ہزار كا _ ۴/۱۶۴; بارہ كا _ ۵/۱۲، ۱۱۱; بہتر كا _ ۵/۶۶; چار كا _ ۵/۲۶; چاليس كا _ ۵/۲۱، ۲۶

عدل و انصاف :_سے انحراف ۵/ ۸;_كا پيش خيمہ ۴/۱۳۵; _ كا دائرہ كار ۴/ ۱۳۵; _ كا قيام ۴/۲۷، ۵/ ۸،۹، ۱۰; _ كا نفاذ ۴/۱۳۵; _ كى اہميت ۴/ ۱۲۹، ۱۳۵، ۵/۲، ۸، ۴۲; _ كى خلاف ورزى كے موارد ۴/۱۳۵; _ كے اثرات ۵/۸; _ كے اسباب ۴/ ۱۳۶; _ كے موانع ۴/ ۱۳۵، ۵/۸; _ كے نفاذ سے اجتناب ۴/۱۳۵;_ كے نفاذ كى اہميت ۵/۸; غير مسلموں كا _ ۵/۹۵; معاشرتى _ ۴/۱۳۵; معاشرتى _ كے موانع ۴/۱۳۵

نيز ر _ ك اديان، اديان كے پيرو كار،انتقام ، انصاف پسندلوگ،انصاف پسندي،بين الاقوامى تعلقات ، جزا، زندگى ، سزا ، شريك حيات ، عورت ، قدر و قيمت كا اندازہ لگانا ، قضاوت ، گواہى ، مستضعفين ، معاشرہ

۸۳۸

عذاب :آگ كا _ ۵/۳۷; اخروى _ ۵/۴۱; اخروى _ كے اسباب ۵/۴۲; اخروي_ كے ذرائع ۵/۳۷; اخروى _ كے مراتب ۴/۱۶۱; اہل _ ۴/۱۴۷، ۵/۱۱۸; دائمى _ ۵/۸۰; دنيوى _ ۵/۴۱; دنيوى _ كا پيش خيمہ ۵/۴۹; دنيوى _ كے اسباب ۴/۱۵۳، ۱۶۰;_ بلا بيان ۴/۱۱۵، ۱۴۴; _ سے عفو و درگذر ۵/۳۴; _ سے محفوظ رہنا ۵/۷۱; _ سے نجات ۴/۱۲۳، ۵/۳۳، ۳۶، ۳۷، ۷۱، ۷۳; _ سے نجات كى شرائط ۴/۱۱۵;_ سے نجات كے اسباب ۴/۱۴۷، ۵/۳۶، ۴۱، ۷۴، ۹۸; _ كا سرچشمہ۵/ ۴۰، ۱۱۸: _ كى اقسام ۴/ ۱۵۱، ۵/ ۱۱۵; _ كى كيفيت ۵/ ۱۱۵; _ كے اسباب ۴/۱۱۵، ۱۳۸، ۱۳۹، ۱۵۱، ۱۵۳، ۱۶۰، ۱۶۱، ۱۷۳، ۵/۱۸، ۴۱، ۴۹، ۷۲، ۷۳، ۸۰، ۹۴، ۹۵، ۹۸، ۱۱۵، ۱۱۸; _ كے مراتب ۴/۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۵، ۱۵۱، ۱۶۱، ۱۷۳، ۵/ ۳۲، ۳۳، ۳۶، ۳۷، ۴۱، ۴۲، ۷۳، ۷۴، ۹۴، ۹۸، ۱۱۵;_ميں ہميشہ رہنا ۵/۸۰; عمومى _ كا پيش خيمہ ۴/۱۶۱

خاص موارداپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں

عذر :ناقابل قبول _ ۴/ ۱۵۵، ۵/۱۳

عذر خواہى :ر _ ك موسى (ع)

عرف :ر _ ك عرفى معيار

عرفى معيار : ۵/۸۹

عزت :_ كى اہميت ۴/۱۳۹; _ كے اسباب ۴/۱۳۹; _ كے موانع ۴/۱۳۹نيز ر _ ك اللہ تعالى ، مسلمان ، منافقين ، مومنين

عصمت :ر _ ك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابراہيمعليه‌السلام ، خطا ، گناہ

عصيان :_ ترك كرنے كا پيش خيمہ ۵/۵۲; _ كا پيش خيمہ ۵/۲۳، ۵۲;_ كى اخروى سزا ۴/ ۱۷۳;_ كى سزا ۴/۱۷۲، ۵/۲۶، ۸۰; _ كے اثرات ۴/ ۱۶۰، ۵/۵ ، ۲۵،۲۶، ۴۷، ۷۸، ۸۰; _ كے موانع ۵/۴۰

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں

عفت :_ كى اہميت ۵/۵; _ كى قدر و قيمت ۵/۵

۸۳۹

نيز ر _ ك مرد ، مريمعليه‌السلام ، معاشرہ

عفو و درگذر :_ كى اہميت ۵/۱۳،۴۵; _ كى ترغيب ۴/ ۱۴۹، ۵/۴۵;_كى شرائط ۵/۳۹;_كے اثرات۴/۱۲۸ ، ۱۴۹، ۵/۱۳; _ كے اسباب ۵/۱۳; قابل قدر _ ۴/۱۴۹

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں _

عقاب :ر _ ك سزا، عذاب

عقل :_ كا كردار ۵/۵۸، ۱۰۰نيز ر _ ك قرآن كريم

عقلاء :_ كى كاميابي۵/ ۱۰۰; _ كے فضائل ۵/ ۱۰۰

عقود :_ كى وفا ۵/۱; _ كے احكام ۵/۱

عقيدہ :باطل _ ۴/۱۱۹، ۱۲۳، ۱۳۴، ۱۷۱، ۵/ ۱۷، ۱۸، ۲۴، ۵۲، ۶۴، ۷۱، ۷۲،۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۸۸، ۹۲، ۹۳، ۱۱۶، ۱۱۷; باطل _ كا سرچشمہ ۴/ ۱۱۹، ۵/۷۷; باطل _ كى پيروى ۵/۷۷; باطل _كى ترويج كے عوامل ۵/۷۷; باطل _ كى سزا ۵/۷۲، ۱۱۸; باطل _ كے اثرا ت ۵/۶۴; باطل _ كے موانع ۵/۱۱۶; پسنديدہ _ ۴/۱۷۱; صحيح _ كا سرچشمہ ۵/۷۱; صحيح _ كا معيار ۴/۱۷۱; _ پر ثابت قدم رہنا ۵/۱۱۳; _ كى اہميت ۵/۴۸; _ كى تشخيص كا طريقہ ۵/۷۳; _كى تضعيف كى روش ۴/۱۳۷; _ كے اثرات ۴/۱۴۷;_ ميں تقوى كى مراعات ا ۵/۹۳; _ ميں متزلزل ہونا ۴/۱۳۸; _ ميں منافقت ۴/۱۳۹; _ ميں ہوس پرستى ۵/۷۷

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں

علم :_ اور اخلاق ۵/۸۲; _ اور ايمان ۴/۱۶۲; _ اور حكمت ۴/۱۷۰;_ اور ذمہ دارى ۴/۱۱۵; _ اور عبادت ۵/۸۲; _ اور عمل ۴/۱۰۴،۵، ۵/۷۱، ۷۴; _غيب كے موارد ۵/۱۰۹;_كا پيش خيمہ ۵/۹۷; _ كا كردار ۴/۱۶۲، ۱۷۰; _ كى اہميت ۴/۱۱۱، ۵/۹۷، ۱۱۶; _ كى قدر و قيمت ۴/۱۷۰، ۵/۶ ۷، ۱۰۴; _ كے اثرات ۴/۱۱۳، ۱۳۷، ۱۶۷، ۱۷۲، ۵/۲، ۴۹، ۸۳، ۹۵، ۹۷، ۱۰۸; _ كے حصول كا پيش خيمہ ۴/۱۶۲ ۴

نيز ر _ ك ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اللہ تعالى ، انبياءعليه‌السلام ، انسان ،

۸۴۰

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897