تفسير راہنما جلد ۴

 تفسير راہنما6%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 897

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 897 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177909 / ڈاؤنلوڈ: 5529
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

 خودشناسی میں ارادہ کا کردار

اگر آپ اپنی ہوا و ہوس کو قوی سمجھتے ہیں تو اس کی یہ وجہ ہے کہ خودسازی کے بارے میں آپ کا ارادہ ضعیف ہے ۔اگر آپ اپنے ارادہ کو مضبوط بنا لیں اور پختہ ارادہ کے ساتھ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے قدم بڑھائیں تو اس صورت میں آپ کویقین ہو جائے گا کہ آپ کا نفس اور ہوا و ہوس آپ کے زیر تسلط اور مغلوب ہے۔

آپ یقین رکھیں کہ ارادہ کی حقیقت سے آپ کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ آپ کے محکم ارادے کے سامنے آپ کے نفس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ولایت و امامت کی چھٹی کڑی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:

''صٰاحِبُ النِّیَّةِ الْخٰالِصَةِ نَفْسُهُ وَ هَوٰاهُ مَقْهُوْرَتٰانِ تَحْتَ سُلْطٰانِ تَعْظِیْمِ اللّٰهِ  وَالْحَیٰائِ مِنْهُ'' (1)

جو کوئی پختہ ارادہ اور خالص نیت کا مالک ہو ،اس کا نفس اور ہوا و ہوس سلطنت الٰہی کی تعظیم  اور خدا سے حیاء کی وجہ سے مقہور و مغلوب ہوتی ہیں۔

یعنی خالص اور پختہ ارادہ رکھنے والا شخص خود کو خدا کی عظمت کے سامنے حاضر سمجھتا ہے اور برے کاموں کو انجام دینے کی راہ میں شرم و حیاء مانع آتی ہے ۔اسی وجہ سے اس کا نفس، نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس مغلوب ہو جاتی ہیں اور یہ ان پر مسلط ہو جاتاہے۔

اس بناء پر اپنے نفس کے قوی ہونے کا گلہ و شکوہ نہ کریں بلکہ اپنے ارادے کے ضعف اور ناپختگی کا رونا روئیں اور اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۱۰ ، مصباح الشریعہ:4

نفس کو کمزور کرنے کا طریقہ

آپ ارادہ کر لیں کہ جب بھی کوئی گناہ یا برا کام انجام دیں تو اس کے برابر اچھا اور نیک کام انجام دیں اگر آپ نے اس پر عمل کیا تو کچھ دنوں کے بعد آپ مشاہدہ کریں گے کہ آپ میںنفسانی خواہشات کمزورہو چکی ہیں۔حضرت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''اِذٰا عَلِمْتَ سَیِّئَةً فَاعْمَلْ حَسَنَةً تَمْحُوْهٰا'' (1)

جب بھی تم نے کوئی برا کام انجام دیا تو پھر نیک کام بھی انجام دو تا کہ برے کام کو نابود کر سکو۔

غلط اور برے کاموں کے جبران کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے سے ناپسندیدہ اور برے کاموں کے اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔اس کے آثار میں سے ایک نفسانی خواہشات کی قدرت ہے۔اس بناء پر ہمیں  خاندان وحی علیھم السلام کے انسان ساز فرامین سے ابھی یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم سے جب بھی کوئی خطا سرزد ہو جائے  تو اس کے جبران کے طور پر نیک اور اچھا عمل انجام دیں تا کہ برے عمل کا اثر ختم ہو جائے۔یہ کامیابی کی ایک اہم کنجی ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔آپ کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرمودات کی پیروی کرنے سے آپ کے لئے تاریک راہیں بھی روشن ہو جائیں گی،آپ کے لئے پیچیدگیا ں حل ہو جائیں گی  اور آپ پر غالب نفس مغلوب ہو جائے گا ۔تب آپ کو یہ یقین ہو جائے گا کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

اب ہم آپ کے لئے اسلام کے درخشاں ستارے مرحوم مرزا قمی کا واقعہ بیان کرتے ہیں تا کہ آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۱ ص۳۸۹، امالی  طوسی:ج۱  ص۱۸۹

۲۱

مرحوم مرزا قمی کی وفات کے بعد ''شیروان ''کا رہنے والا ایک شخص ہمیشہ آپ کے مرقد پر حاضر ہوتا اور وہ کسی سے کوئی اجرت لئے بغیروہاں ایک خادم کی طرح خدمت کرتا ۔نیز کسی نے اسے اس کام پر معین بھی نہیں کیا تھا۔کیونکہ یہ کام رائج اور مرسوم نہیں تھا اس لئے اس کی خدمت گزاری کی وجہ دریافت کرنے لگے۔

اس نے کہا:میں شیروان کا رہنے والا ہوں اور اس شہر کے امیر ترین افراد میں سے ہوں ۔میں سمجھا کہ میں حج کے لئے مستطیع ہوں  لہذامیں حج بیت اللہ کی ادائیگی کے ارادہ سے سفر کا لباس پہن کر شہر سے نکلا۔

مکہ معظمہ پہنچنے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد میں دریائی راستہ کے ذریعے واپس روانہ ہوا۔ایک دن میں رفع حاجت کے لئے کشتی کے کنارے پر بیٹھا کہ میرے پیسوں کی تھیلی پھٹ گئی اور سارے پیسے دریا میں گر گئے ۔ میرے د ل سے ایک سرد آہ نکلی  اور اس بارے میں میری امید ٹوٹ گئی ۔ میں پریشانی و حیرانگی کے عالم میںاپنی منزل کی طر ف لوٹا اور اپنا تھوڑا بہت سامان اٹھا کر نجف اشرف  میں داخل ہوا اور کائنات کے مشکل کشاء حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام سے متوسل ہوا۔

ایک رات میں نے آنحضرت علیہ السلام کو عالم خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا:

پریشان نہ ہو،تم قم جاؤ اور اپنے پیسوں کی تھیلی مرزا ابوالقاسم عالم قمی سے مانگو  وہ تمہیں دے دیں گے۔میں خواب سے بیدار ہوا ور میں نے اس خواب کو اس دن کے عجائب میں سے جانااور میں خود سے کہا کہ میرے پیسوں کی تھیلی عمان کے دریا میں گری ہے اور حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے میری قم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے!

میں نے خود سے کہا:عراق کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد حضرت معصومہ علیھا السلام کی زیارت کی غرض سے قم جاؤں گا اور میں یہ واقعہ میرزا قمی سے بیان کروں گاشاید انہیں اس کا کوئی حل معلوم ہو۔

اسی لئے میں قم آیا اور حضرت فاطمۂ معصومہ علیھا السلام کی زیارت کے بعد مرحوم مرزا قمی کے گھر گیا اتفاقاً وہ قیلولہ کا وقت تھا اور آپ اپنی بیرونی رہائشگاہ پر تشریف فرما نہیں تھے

۲۲

میں نے ان کے ایک خادم سے کہا:میں ایک مسافر ہوں اور دور دراز کے علاقہ سے آیا ہوں :مجھے جناب مرزا قمی سے بہت ضروری کام ہے

خادم نے جواب میں فرمایا:وہ ابھی آرام فرما رہے ہیں۔آپ جائیں اور عصر کے وقت تشریف لائیں ۔

میں نے کہا:میری ایک چھوٹی سی عرض ہے ۔

خادم نے تند لہجہ میں کہاجاؤ! اندر والا دروازہ کھٹکھٹاؤ۔

میںجسارت کرتے ہوئے اٹھا اور دروازے پر دستک دی ،اندر سے آواز آئی فلاں شخص صبر کرو میں آتا ہوں اور انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا ۔پھر وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے اپنے کپڑوں سے مجھے پیسوں کی وہی تھیلی نکال کر دی جو عمان کے دریا میں گر  گئی تھی اور مجھ سے فرمایا:میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں کسی کو اس واقعہ کی خبر ہو ۔یہ تھیلی لو اور اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔

میں نے مرزا قمی کی دست بوسی کی اور ان سے الوداع کہہ کر اس دن کے اگلے روز اپنے وطن روانہ ہو گیا۔کام کاج اور روزگار کی مصروفیت کے باعث کافی عرصہ میں اس واقعہ کو بھول گیا ۔کچھ عرصہ کے بعد جب میں تھک گیا تو ایک روز میں اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھ کر اپنے گذشتہ سفر کی روداد سنانے لگا ۔مجھے یہ واقعہ بھی یاد آیا اور میں نے اسے اپنی زوجہ سے بیان کر دیا۔

جب میری زوجہ اس واقعہ سے آگاہ ہوئی تو اسے بہت تعجب ہوا  اور اس نے کہا:جب تم ایسے شخص سے آشنا ہو گئے ہو توتم نے اسی پر اکتفاء کیوں کی  اور تم نے ان کی ملازمت کیوں نہیں کی اور  ان کی ہمنشینی و صحبت کیوں اختیار نہیں کی؟

میں نے کہا:پس مجھے کیا کرنا چاہئے؟

۲۳

اس نے کہا:انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کرنی چاہئے اور مرنے کے بعد انہی کے مرقد کے ساتھ دفن ہونا چاہئے ۔

میں نے کہا:کیونکہ مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا اس لئے میں یہ کام انجام نہ دے سکا ۔اب تو وقت گزر گیا اور میں اس عظیم نعمت سے محروم ہو گیا ہوں۔

اس نے کہا:نہیں !واللہ!اب بھی وقت نہیں گزرا اور تم آسانی سے اس کا جبران کر سکتے ہو۔ کیونکہ قم ایک آباد اور معنوی شہر ہے  اور اگر انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کا شرف حاصل ہو جائے تو اس سے نیک  کام اور کیا ہو سکتاہے ۔اٹھو !ہمارے پاس جو کچھ ہے اسے اپنے ساتھ قم لے چلتے ہیں  اور اسے اپنی زندگی کا سرمایہ قرار دیتے ہیں اور اپنی پوری زندگی حضرت معصومہ علیھا السلام کے روضۂ مطہر کی مجاوری اور اس بزرگ ہستی کی خدمت میں بسر کرتے ہیں۔

میں نے اس کی بات مان لی اور اپنی تمام جائیداد ،گھر اور زمین وغیرہ فروخت کرکے اپنی زوجہ  کے ساتھ قم چلا گیا۔جب میں قم میں داخل ہوا تو مجھے خبر ملی کہ مرزا قمی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں  اس وقت سے میں نے ان کیقبر کی ملازمت اختیار کر لی ہے اور جب تک میرے جسم میں جان ہے میں اس کام سے دستبردار نہیں ہوں گابلکہ یہ میرے لئے باعث فخرہے۔(1)

اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں لیکن ہم نے انہیں انجام دینے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے ۔اسی لئے ہم اسے ناممکن کہتے ہیںحالانکہ حقیقت میں وہ ممکن ہوتے ہیں  اور وہ واقع پذیر ہو چکے ہوتے ہیں اور آئندہ بھی واقع ہو سکتے ہیں۔جیسے پیسوں کی وہ تھیلی جو عمان کے دریا میں گر گئی تھی اور جو مرحوم مرزا قمی  نے اپنے کپڑوں سے نکال کر اس کے مالک کو دی۔

۔

--------------

[1] ۔ عبقریّ الحسان: ج۲ص۱۰۰

۲۴

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اسے جس شخص کیطرف رہنمائی کی تو فرمایا:وہ پیسوں کی تھیلی مرزا ابو القاسم عالم قمی سے مانگو۔یعنی حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام ایسے افراد کو عالم سمجھتے ہیں؛ حالانکہ آپ دوسر ی طرح سے بھی تعبیر فرما سکتے تھے اور ان کی شہرت کی وجہ سے صرف مرزا قمی کہہ کرہی معرفی کروا سکتے تھے

پس ہمیشہ جستجو اور طلب جاری رکھو تا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ خودشناسی تک رسائی حاصل کر سکیں اور کچھ غیر ممکن امور آپ کے لئے ممکن بن سکیں۔جیسا کہ نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کوانسان کی لاشعوری طور پر طلب کرتاہے یا پھر انسان ان سے آگاہ ہوتاہے۔نفس کو کنٹرول کرنا بھی ایسے ہی ہے ۔یعنی اگر انسان چاہے تو اپنے نفس پر قابو پا سکتاہے ،جس طرح انسان اسے بالکل آزاد چھوڑ کر حیوانات سے بھی پست  و بدترہو سکتا ہے۔

آدمی زادہ طرفی معجون است     از ملایک سرشتہ و زحیوان

گر کند  میل این، پس از آن     ور کند میل، شود بہ  از  آن

۲۵

2۔ خودشناسی میں خوف خدا کا کردار

خداوند عالم کی معصیت و مخالفت کا خوف انسان کو ہوا و ہوس  ترک کرنے کی طرف مائل کرتا ہے  جس کے نتیجہ میں انسان کو خود شناسی کا راستہ مل جاتاہے  اور ہدایت کا راستہ فراہم ہو جاتاہے ۔

خداوند متعال کا ارشاد ہے:

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی ، فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَأْوٰی (1)

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے اور جنت انہی کا مقام ہے۔

خدا کے حکم کی مخالفت کا خوف عقل کی قوت سے ایجاد ہوتاہے انسان جتنا زیادہ عقلمند ہو گا اور اپنی تجربی عقل میں جتنا زیادہ اضافہ کرے گا ،اتنا ہی اس میں خدا کے قوانین کی مخالفت کا خوف زیادہ ہو جائے گا اور وہ اتنا ہی زیادہ ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی کی مخالفت کرے گا۔

--------------

[1]۔ سورۂ نازعات، آیہ:40،41

۲۶

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''قٰاتِلْ هَوٰاکَ بِعَقْلِکَ'' (1)

اپنی ہوا و ہوس کو عقل کے ذریعہ نابود کرو۔

اس بناء پر انسان کی عقل جتنی کامل اور زیادہ ہو گی ،اس میں نفس کی مخالفت اور نفسانی خواہشات کو مارنے کی قدرت  بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اسے بہتر طریقے سے خودشناسی حاصل ہو گی۔

آپ عقل کی قوت سے استفادہ اور تجربی عقل میں اضافہ کے ذریعے اپنے امور اور پروگرام میں اچھی طرح غور وفکر کر سکتے ہیں اور اسے مکتب اہلبیت علیھم السلام کے ساتھ تطبیق دے سکتے ہیں۔غور و فکر    سے آپ کی عقلی قدرت کو تقویت ملے گی اور آپ میں خودشناسی اور خودسازی کے لئے آمادگی پیدا ہو گی اور خدا کے حکم کی مخالفت کا خوف بھی زیادہ ہو گا اور آپ زیادہ قوت و طاقت سے نفس کی مخالفت کر پائیں گے۔

--------------

[1] ۔بحار  الانوار:ج۱ص۱۹۵  اور  ج۷۱ص۴۲۸

۲۷

3۔ اپنے باطن اور ضمیر کو پاک کرنا

ہمیں خودسازی کے لئے نہ صرف اپنے ضمیر کو معارف اہلبیت علیھم السلام سے منور کرنا چاہے  بلکہ اپنے وجود کی گہرائیوں کو دشمنان دین کی چاہت سے بھی پاک کرناچاہئے اور اپنے ضمیر کو اہلبیت ولایت و عصمت علیھم السلام  کے تابناک انوار سے روشن کرنا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام خدا کو مخلوق سے تشبیہ دینے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

''لَمْ یَعْقَدْ غَیْبَ ضَمِیْرِهِ عَلٰی مَعْرِفَتِکَ'' (1)

اپنے پوشیدہ ضمیر کو اپنی معرفت کا پیوند نہیں لگایاہے۔

اس بناء پر انسان کو نہ صرف ظاہری شعور و ضمیر سے آگاہ ہونا چاہئے بلکہغائب اور پوشیدہ ضمیر سے بھی آگاہ ہونا چاہئے ۔خود سازی اور خود شناسی کے لئے انسان کو ضمیر اور شعور کے دونوں مرحلوں کو پاک کرنا چاہئے ۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۷ ص۳۲۰

۲۸

 خودشناسی کے موانع

۱۔ ناپسندیدہ کاموں کی عادت خودشناسی کی راہوں کو مسدود کر دیتی ہے:

کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ ہم اپنے وجود میں روحانی طاقت سے غافل ہونے کی وجہ سے اس سے استفادہ نہ کریں اور اسے برے اور بیکار کاموں کا عادی بنا لیں؟!

مکتب اہلبیت علیھم السلام کی نظر میں سب سے بہترین عبادت ناپسندیدہ اور بری عادتوں پر غلبہ پانا ہے؛کیونکہ کسی بھی کام کا عادی ہو جانا انسان پر فطرت ثانوی کے حاکم ہونے کی مانند ہے ۔

اسی لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام عادت کو فطرت ثانویہ کا نام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اَلْعٰادَةُ طَبْعُ ثٰانٍ'' (1)

عادت فطرت ثانوی ہے۔

اسی لئے جب انسان کسی چیز کا عادی ہو جائے تو وہی چیز انسان پر حاکمہوجاتی ہے ۔اسی وجہ سے کسی برے اور ناپسندیدہ کام کا عادی شخص اگر خود کو برے کاموں سے نجات دے تو گویا اس نے افضل ترین عبادت انجام دی ہے ۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۱ص۱۸۵          

۲۹

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام اپنے ایک مختصر کلام میں فرماتے ہیں:

''اَفْضَلُ الْعِبٰادَةِ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (1)

سب سے افضل عبادت عادت پر غالب آنا ہے۔

کیونکہ برے اور ناپسندیدہ کاموں پر غالب آنے سے روحانی کمالات تک پہنچنے کے راستے کھل جاتے ہیں اور عالی ترین معنوی مقامات تک پہنچنے کا وسیلہ فراہم ہو جاتا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''بِغَلَبَةِ الْعٰادٰاتِ أَلْوُصُوْلُ اِلٰی أَشْرَفِ الْمَقٰامٰاتِ'' (2)

عادتوں پر غلبہ پانے سے عظیم مقامات حاصل ہوتے ہیں۔

صرف گناہوں کا عادی ہونا ہی نہیں بلکہ ہر قسم کا بیہودہ اور ناپسندیدہ کام ترقی  اور زندگی کے دوسرے اہم امور تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔انسان کو چاہئے کہ وہ روحانی قوتوں کے  حصول کے لئے ناپسندیدہ عادتوں کی پیروی سے اجتناب کرے تا کہ کمالات کے عالی مراحل تک پہنچ سکے۔مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''غَیْرُ مُدْرِکِ الدَّرَجٰاتِ مَنْ أَطٰاعَ الْعٰادٰاتِ'' (3)

جو کوئی اپنی عادتوں کی اطاعت کرے ، وہ بلند درجات تک نہیں پہنچ سکتا۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۲ص۳۷۵           

[2] ۔ شرح غرر الحکم: ج۳ص۳۸۲

[3] ۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۳۸۲

۳۰

کیونکہ کوئی بھی عادت انسان کو زنجیر کی طرح قید کر لیتی ہے اور پھر ترقی کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہتااور  بلند معنوی درجات تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس بناء پر کمال کے مراحل تک پہنچنے کے لئے ہر قسم کی بری عادتوں اور ناپسندیدہ امور کو ترک کرنا لازم اور ضروری ہے تا کہ انسان آسانی سے روحانی تکامل تک پہنچ سکے۔

حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''غَیِّرُوا الْعٰادٰاتِ تَسْهُلَ عَلَیْکُمُ الطّٰاعٰاتِ'' (1)

عادتوں کو تبدیل کرو (یعنی بری عادتوں کو ترک کر دو)تا کہ اطاعت(خداوندی) تمہارے لئے آسان ہو سکے۔

اس فرمان سے یہ استفادہ کیا جا سکتا ہے خدا کے احکامات کی پیروی کو مشکل بنانے کے لئے شیطان اور نفس کا ایک حربہ انسان کو برے کاموں کا عادی بنا دینا ہے۔اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ احکامات الٰہی کی آسانی سے پیروی کے لئے شیطان اور نفس کے اس حربہ سے ہوشیار  اور باز رہے تا کہ آسانی سے خدا کے احکامات کی پیروی کر سکے اور مکتب اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی رہنمائی سے انسانیت کے بلند درجوں تک پہنچ سکے۔

گلی کہ تربیت  ز  دست  باغبان  نگرفت

اگر بہ چشمۂ خورشید سرکشد خود روست

ہر انسان کے پاس بے شمار سرمایہ ہوتاہے کہ جس سے استفادہ کرناچاہئے لیکن بیہودہ اور ناپسندیدہ عادتیں اس سرمایہ کو قید  کر دیتی ہیں جو انسان کی قدرت و توانائی کو مزید قوت و طاقت بخشنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۳۸۱

۳۱

بری عادت کا عادی ہو جانے والا انسان ایسے سرمایہ دار شخص کی طرح ہوتاہے کہ جس نے اپنے اموال کو ضائع کر دیا ہو ۔ایسا انسانجب تک اپنے سرمایہ کو آزاد نہ کر الے اسے حسرت و ناامیدی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔جس طرح انسان اپنے سرمایہ اور اموال کو مقید حالت سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح سے اسے خود کو بری عادتوں سے نجات دلانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے ۔

لیکن افسوس کہ اب انسانی معاشرے نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی عظیم روحانی توانائیوں کو قید کر رکھا ہے ۔ایک گروہمعاشرے کو صرف مادّی امور میں ہی ترقی دلانے کے لئے کوشاں ہے تو دوسرا گروہ کمزور ممالک کے اموال و وسائل پر قبضہ جمانے کے لئے ۔حالانکہ یہ سب خود کو انسان دوست اورحقوق بشر کے حامی سمجھتے ہیں!!

۳۲

2۔ خود فراموشی

اگر انسان کے علم کا منبع وحی الٰہی ہوتو اس  کے علم میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا اتنی ہی اس کی توجہ پاکسازی اور تہذیب نفس کی طرف بڑھتی جائے گی۔ کیونکہ اگر علم کا منبع و سرچشمہ صحیح ہو اور خدا کے لئے علم حاصل کیا جائے تو یہ نفس کی آلودگی کے ساتھ ساز گار نہیں ہے ۔اسی لئے ہر عالم رباّنی نفس کی مخالفت اور تہذیب  و اصلاح نفس کی کوشش کرتا ہے۔

امیر المؤمنین  حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

کُلَّمٰا اَزْدٰادَ عِلْمُ الرِّجٰالِ زٰادَتْ عِنٰایَتُهُ بِنَفْسِهِ وَ بَذَلَ فِْ رِیٰاضَتِهٰا (1)

انسان کا علم جتنا زیادہ ہو  جائے ، اس کی نفس کی طرف توجہ بھی زیادہ ہو جاتی ہے  اور وہ اس کی ریاضت میں زیادہ توجہ کرتا ہے۔

اس بناء پر علم و آگاہی انسان کو خودسازی اور خودشناسی کی دعوت دیتی ہے اور نفس سے مربوط مسائل میں غفلت و فراموشی سے باز رکھتی ہے۔

--------------

[1] ۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص6۲۱

۳۳

 خودفراموشی کے دو عوامل، جہل اور یاد خدا کو ترک کرنا

خود کو پہچاننے والے افراد کے مقابل میں ایسے بھی افراد ہیں کہ جو نفس کی شگفتگی اور اس کے آثار سے بے خبر ہیں اور انہیں زندگی کے مسائل کی کوئی خبر نہیں ہے۔اسی لئے وہ اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور تہذیب نفس کی کوشش نہیں کرتے۔اسی وجہ سے وہ خود شناسی کی عظیم نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔

سنگی و گیاہی کہ در اوخاصیتی ھست

زان آدمی بہ ، کہ در او منفعتی نیست

مولائے کائنات حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''مَنْ جَهَلَ نَفْسَهُ أَهْمَلَهٰا'' (1)

جو کوئی اپنے نفس سے جاہل ہو ،وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

اس بناء پر خود فراموشی کے عوامل میں سے ایک نفس کے حیاتی مسائل سے جہالت اور علم و آگاہی کا نہ ہونا ہے ۔انسان کا علم اہلبیت علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کی روشنی میں جتنا زیادہ ہو گا ،اتنا ہی وہ ان مسائل کی طرف زیادہ متوجہ ہو گا۔

خود فراموشی اور نفس کو بے لگام چھوڑ دینے کی دوسری وجہ گناہ انجام دینا اور خدا  و اولیائے خدا کی یاد کو ترک کرنا ہے۔

--------------

[1] ۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ ص۱۷۸

۳۴

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اہلبیت  اطہار علیھم السلام کی یاد خدا کی یاد ہے اور ان کو بھلا دینا خدا کو بھلا دینا ہے ۔کیونکہ جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''اِذٰا ذُکِرْنٰا ذُکِرَ اللّٰهِ '' (1)

جب ہمیں(خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام ) یاد کیا جائے تو خدا گو یاد کیا گیاہے۔

خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد کو چھوڑ دینا ،انسان کو زندگی کے اہم مسائل سے غافلکر دیتا ہے اور عظیم معنوی حقائق سے بھی دور کر دیتا ہے  اورا نسان کو خودفراموشی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

 اس بارے میں خداوند متعال کا ارشاد ہے:

(وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ) (2)

اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا اور وہ سب واقعی فاسق اور بدکار ہیں ۔

پس گناہ اور خدا اور خدا کے احکامات کو بھلا دینا انسان کو خود فراموشی میں گرفتار کر دیتاہے۔اس بناء پر خودشناسی کے لئے خودسازی کی کوشش کریں اور خود سازی کے لئے خود فراموشی کو چھوڑیں  اور خودفراموشی کو ترک کرنے کے لئے جہل و نادانی ،خدا اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی یاد کو  ترک نہ کریں ۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار: ج۷۲ ص۲۵۸، اصول  کافی: ج۲ص۱۸6

[2]۔ سورہ  حشر، آیت:۱۹

۳۵

پس علم و دانش اور خدا و اولیائے خدا کی یاد انسان کوخودفراموشی سے  دور رکھتی ہے ۔خود فراموشی کو چھوڑ کر خودسازی تک پہنچ سکتے ہیںاور خودسازی سے خودشناسی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔لیکن اگر ہم اپنے نفس کو ہی نہ پہچان سکیں تو ہم راہ نجات سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ لَمْ یَعْرِفْ نَفْسَهُ بَعُدَ عَنْ سَبِیْلِ النَّجٰاةِ وَ خَبَطَ فِ الضَّلاٰلِ وَ الْجَهٰالاٰتِ '' (1)

جو کوئی اپنے نفس کو نہ پہچان سکے ،وہ راہ نجات سے دور ہو جائے گا اور گمراہی و جہالت میں مبتلا ہو جائے گا۔

اس وجہ سے خود شناسی اور معرفت نفس کی عظمت کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ مَعْرِفَةَ کَمَعْرِفَتِکَ بِنَفْسِک'' (2)

کوئی بھی معرفت تمہارے نفس کی معرفت کی طرح نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۴۲6

[2]۔ بحار الانوار: ج۷۹ص۱6۵، تحف العقول:284

۳۶

 نتیجۂ بحث

روحانی مسائل میں تکامل کے لئے ہمیں خودشناسی کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔جیسا کہ ہم خاندان وحی علیھم السلام  کی تعلیمات سے سیکھتے ہیں کہ جسے اپنے نفس کی معرفت اور خودشناسی حاصل ہو جائے گویا وہ بلند مقام تک پہنچ کر مفید ترین معارف سے آگاہ ہوا ہے۔

اپنے نفس کو پہچانیں اور اس کی قدرت و طاقت اور توانائیوں سے آگاہی حاصل کریں ۔ کوشش کیجئے کہ اپنی قوت کو شیاطین کے تسلط سے رہا کریں اور اپنے روحانی سرمایہ کو بیگانوں کے ہاتھوں قید سے نجات دلائیں۔

اپنی روحانی قوت کے حقیقی دشمنوں کو پہچانیں اور ان کے ساتھ برسر پیکار آنے سے کمالات کے بلند درجوں تک پہنچیں۔ہوا و ہوس اور بے فائدہ زندگی اور بیہودہ کاموں کی عادت روح کے خطرناک ترین دشمن ہیں جو آپ  کی روحانی قوتوں کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں۔

غور وفکر ، پختہ ارادے ،ہمت،ایمان و یقین اور ایسی ہی دوسری قوتوں کے ذریعے اپنی روح کو ایسے دشمنوں کی قید سے نجات دلائیں اور ان قوتوں کو تقویت دینے سے خودشناسی تک پہنچیں اور روح اور کمال کے بلند درجوں کی طرف پرواز کریں۔

ای نقد اصل و فرع ندانم چہ گوہری؟

کز آسمان بر تر و از خاک کمتری!

۳۷

دوسراباب

معارف  سے  آشنائی

حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں :

'' اَلْمَعْرِفَةُ بُرْهٰانُ الْفَضْلِ ''

معرفت ،فضیلت کی دلیل ہے۔

    اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

    معارف کا ایک گوشہ

    معارف کہاں سے سیکھیں

    عارف نما لوگو ں کی شناخت

    عرفاء کی شناخت

    عرفاء کی صفات

    صاحبان معرفت کی صحبت

    عرفانی حالت میں تعادل و ہماہنگی کا خیال رکھنا

    نتیجۂ بحث

۳۸

اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

اعتقادات اور معارف کی بحثوں میں سے ایک اہم بحث امام علیہ السلام کے مقام و منزلت کی معرفت ہے  جوہم سب پر لازم و واجب ہے ۔جہاںتک ہو سکے ہمیں اپنی توانائی کے مطابق آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام اور امام کی معرفت حاصل کرنی چاہئے۔یہ سب کی ایک عمومی ذمہ داری ہے ۔اس کا لزوم مسلّم و ثابت ہے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے زید نامی شخص سے فرمایا:

''اَتَدْرِ بِمٰا اُمِرُوا؟اُمِرُوا بِمَعْرِفَتِنٰا  وَ الرَّدَّ اِلَیْنٰا وَ التَّسْلِیْمِ لَنٰا'' (1)

کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کس چیز کا حکم دیاگیا ہے ؟انہیں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیں پہچانیں اور اپنے عقائد کوہماری طرف منسوب کریں اور ہمارے سامنے تسلیم ہو جائیں۔

اس بناء پر معارف کے باب میں ایک اہم مسئلہ ا نسان کاآئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت حاصل کرنا اور ان کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے ۔معصومین علیھم السلام کے فرامین اور ارشادات میں غور و فکر کریں تا کہ ان ہستیوں کی عظمت کو سمجھ سکیں ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج 2ص۲۰۴

۳۹

آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت میں اضافہ کے لئے ابو بصیر کی ایک بہترین روایت بیان کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

قٰالَ :دَخَلْتُ فِ الْمَسْجِدَ مَعَ اِبِ جَعْفَرٍ علیه السلام وَ النّٰاسُ یَدْخُلُوْنَ  وَ یَخْرُجُوْنَ فَقٰالَ لِی:سَلِ النّٰاسَ هَلْ یَرَوْنَنِ؟فَکُلُّ مَنْ لَقَیْتُهُ قُلْتُ لَهُ :أَرَأَیْتَ أَبٰا جَعْفَرٍ علیه السلام؟فَیَقُوْلُ :لاٰ وَ هُوَ وٰاقِف حَتّٰی دَخَلَ اَبُوْ هٰارُوْنِ الْمَکْفُوْفُ ،قٰالَ:سَلْ هٰذٰا فَقُلْتُ:هَلْ رَأَیْت اَبَا جَعْفَرٍ؟فَقٰالَ أَلَیْسَ هُوَ قٰائِماً ،قٰالَ:وَمٰا عِلْمُکَ؟قٰالَ :وَ کَیْفَ لاٰ أَعْلَمُ وَهُوَ نُوْر سٰاطِع

قٰالَ:وَ سَمِعْتُهُ یَقُوْلُ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْاَفْرِیْقِیَّةِ:مٰا حٰالُ رٰاشِدٍ؟

قٰالَ:خَلَّفْتُهُ حَیًّا صٰالِحًا یُقْرِؤُکَ السَّلاٰمُ قٰالَ:رَحِمَهُ اللّٰهُ  

قٰالَ:مٰاتَ؟قٰالَ:نَعَمْ،قٰالَ:وَ مَتٰی؟قَالَ بَعْدَ خُرُوْجِکَ بِیَوْمَیْنِ :

قٰالَ وَاللّٰهِ مٰا مَرَضٍ وَ لاٰ کٰانَ بِهِ عِلَّة قٰالَ:اِنَّمٰا یَمُوْتُ مَنْ یَمُوْتُ مِنْ مَرَضٍ اَوْ عِلَّةٍقُلْتُ مَنِ الرَّجُلُ؟قٰالَ:رَجُل کٰانَ لَنٰا مُوٰالِیًا وَ لَنٰا مُحِبًّا

ثُمَّ قٰالَ:لَئِنْ تَرَوْنَ اَنَّهُ لَیْسَ لَنٰا مَعَکُمْ اَعْیُن نٰاظِرَة اَوْاَسْمٰاع سٰامِعَة، لَبِئْسَ مٰا رَأَیْتُمْ ،وَاللّٰهِ لاٰ یَخْفٰی عَلَیْنٰا شَیْئ مِنْ أَعْمٰالِکُمْ ،فَاحْضِرُوْنٰا جَمِیْعًا وَ عَوِّدُوا اَنْفُسَکُمْ الْخَیْرَ ، وَ کُوْنُوْا مِنْ اَهْلِهِ تُعْرَفُوْا فَاِنِّ بِهٰذٰا اٰمُرُ وُلْدِ وَ شِیْعَتِ''(1)

ابو بصیر کہتے ہیں :میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا جب کہ وہاں پر لوگوں کی رفت و آمد تھی۔

امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:لوگوں سے پوچھو کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟

میں ہر ایک سے ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے امام باقر علیہ السلام کو دیکھا ہے؟انہوں نے کہا نہیں۔یہاںتک کہ وہاں ابو ہارون نامی ایک نابینا شخص آیا ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:46،خرائج:ج۲ص۵۹۵ح 7

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

تعالى ،اہل كتاب ، دشمن ، دشمن كى پہچان ، عيسائي، كفار ،مشركين ، مومنين ، يہود

دشنام :جائز _ ۴/۱۴۸;_ كى حرمت ۴/۱۴۸; _كى مذمت ۴/۱۴۸;_ كے احكام ۴/۱۴۸

دعا :_كا پيش خيمہ ۵/۲۵;_ كى قبوليت ۵/۱۱۴;_كى قبوليت كا پيش خيمہ ۵/۱۱۴; _ كے آداب ۵/۸۳، ۱۱۴; _ كے اثرات ۴/۱۰۶;_ ميں دنيا طلب كرنا ۵/۱۱۴;_ ميں مؤثر عوامل ۵/۱۱۴;قابل قدر _۵/۱۱۴نيز ر_ك عيسىعليه‌السلام ، عيسائي ، ، مقربين ،مناجات ، موسىعليه‌السلام ، نفرين _

دعوت :ر_ ك استغفار ، اسلام ، اصلاح ، امم ، انبيائعليه‌السلام ، اہل كتاب ، ايمان ، بنى اسرائيل، بھلائي، تقوى ، توبہ ، توحيد ، جنگ ، عبادت ، عمل، عيسائي ، قرض، قيامت ، كفار، مشركين ، نيكي

دفاع :_ كا حق ۵/۲۹ نيز ر_ ك انبياء (ع)

دل بستگى :_ كا معيار۵/ ۱۰۰; ناپسنديدہ _ ۵/۱۰۰

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں _

دمشق:۵/۳۰

دنيا :_ اور آخرت ۴/۱۳۴; _ كى قدر و قيمت ۴/ ۱۳۴

دنيا پرست :_وں كا عمل ۴/۱۳۴; _ وں كى دھمكى ۴/۱۳۴نيز ر_ك دنيا پرستي

دنيا پرستى :_ كى مذمت ۴/۱۳۴; _ كے اثرات ۵/۴۲، ۶۳، ۸۰نيز ر_ ك امتحان ، دعا ، دنيا پرست ، يہود

دور انديشى :_ كے موانع ۵/۳۰

دوستان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : ۵/۵۶دوستان خدا:۵/۵۴،۵۶_ كى صلابت ۵/۵۴

دوست كى پہچان :_ كى اہميت ۵/۸۲

۸۲۱

نيز ر_ك دوستي

دوستى :حرام _ ۵/۵۱ ، ۵۷، ۵۸، ۸۰;_كا پيش خيمہ ۵/۸۲ _ كا معيار ۵/۵۱; _ كے اسباب ۵/۸۲; ناپسنديدہ _ ۵/۵۲، ۵۴، ۸۱نيز ر_ ك الله تعالى ، اہل كتاب، تمسخر اڑانے والے ، دوست كى پہچان ، ظالمين ، عيسائي ، كفار، مشركين ، منافقين ، مومنين ، يہود

دھمكى :_كا كردار ۵/۱۰; _ كے اثرات ۴/۱۵۴; خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں _

دھوكہ :ر_ك مكر و فريب

دين :اكمال _ كے اسباب ۵/۳; بہترين _ ۴/۱۲۵; پسنديدہ _ ۵/۳ ; پہلا _ ۴/۱۶۳; _ اور اقتصاد ۵/۶۶;_ اور انسانى طبع ۵/۸۷;_اور رفاہ ۵/۶۶; _ اور علم ۵/۵۰; _ اور عينيت ۵/۶۶، ۶۸، ۸۱، ۸۷، ۸۸، ۸۹،۹۱،۹۷; _ اور مادى ضروريات ۵/۸۸; _ اور معاشرہ ۵/۶۶; _اور وقت كے تقاضے۵/۴۸;_ پر عمل كرنا ۵/۸۱; _ حنيف ۴/۱۲۵;_شناسى كے موانع ۴/۱۵۵ _ كا احياء ۵/۴۴; _ كا اعتلاء ۵ /۴۵;_كا پھيلاؤ ۵/۵۴; _ كا تظاہر ۵/۷۲;_ كا تمسخر اڑانے كا سرچشمہ ۵/۵۸، ۵۹; _ كا تمسخر اڑانے كا گناہ ۵/۵۷; _ كا فلسفہ ۴/۱۷۰، ۵/۳۵، ۹۰; _ كا كردار ۵/۴۸; _ كامل ۵/۳; _ كا منبع ۵/۴۸; _ كو جھٹلانا ۴/۱۴۳; _ كو قبول كرنا ۵/۴۹; _ كو قبول كرنے سے اعراض ۵/۵۰; _ كو قبول كرنے سے محروميت ۵/۴۹; _ كو قبول كرنے كے موانع ۵/۴۹، ۱۰۴; _ كو نقصان پہنچانا ۵/۵۴; _كى آسيب شناسى ۵/۳،۷۷،۷۸;_ كى اہميت ۵/۴۸;_ كى بے حرمتى ۵/۴۹; _ كى تبليغ ۵/۶۷; _ كى تحريف ۴/۱۱۹، ۵/۴۱;_ كى تكميل ۵/۳، ۶; _ كى جانب جھكاؤ كے موانع ۴/۱۴۱; _ كى حفاظت ۵/۱۰۵; _ كى حفاظت كے عوامل; _كى حقانيت ۵/۵۸; _ كى طرف نسبت دينا ۴/۱۲۴;_كى مسكوت چيزوں كے متعلق سوال كرنا ۵/۱۰۲; _ كى نعمت ۵/۶; _ كے اركان ۵/۵۸; _ كے اعتلا كے موانع ۵/۵۴;_ كے حصول كا طريقہ ۵/۴۸;_ كے بعض حصوں كو جھٹلانا ۴/۱۵۰; _ كے بعض حصوں كو قبول كرنا ۴/۱۵۰; _ كے دشمن ۵/۵۲; _ كے دشمن اور مومنين ۵/۶۴; _ كے دشمنوں كى سازش ۵/۱۱،۶۴;_ كے دشمنوں كى نااميدى ۵/۳; _كے مبانى ۴/۱۰۵، ۵/۵۸; _ كے مجہولات كے بارے ميں سوال كرنا ۵/۱۰۱; _ ميں بدعت ايجاد كرنا ۴/۱۱۹، ۵/۸۷، ۱۰۳; _ميں تحريف كا پيش خيمہ ۵/۴۲; _ ميں غلوكا بطلان ۵/۷۷; _ ميں غلو

۸۲۲

كاسرچشمہ ۵/۷۷; _ ميں غلو كرنا ۴/۱۷۱، ۵/۷۷; _ ميں غلو كى حرمت ۴/۱۷۱، ۵/۷۷; _ ميں غلو كے اثرات ۵/۷۸; _ ميں غور و فكر ۵/۵۸; _ى تعليمات ۴/۱۱۳;_ى تعليمات پر عمل كرنا ۵/۶۶، ۶۸، ۷۰;_ى تعليمات سے استفادہ كرنا ۵/۵۰;_ى تعليمات سے جاہل ہونا ۴/۱۵۵، ۱۶۲;_ى تعليمات سے روگردانى ۵/۴۹، ۱۰۲، ۱۰۴، ۱۰۵;_ى تعليمات كا تمسخر اڑانا ۴/۱۵۵;_ى تعليمات كا سرچشمہ ۵/۶۸;_ى تعليمات كا علم ۵/۶۳; _ ى تعليمات كا فلسفہ ۵/۵۰، ۱۰۰;_ى تعليمات كو فراموش كرنا; _ى تعليمات كو قبول كرنا ۵/۷۰;_ى تعليمات كى تبيين ۵/۱۹، ۱۰۲;_ى تعليمات كى تشريع ۵/۱۰۱;_ى تعليمات كى تعليم ۵/۱۱۰;_ى تعليمات كى حقانيت ۵/۴۵; _ ى تعليمات كى خصوصيت ۵/۸۷;_ ى تعليمات كى قدر و قيمت ۵/۵۰;_ى تعليمات ميں انسجام ۵/۶۷;_ ى شعائر ۵/۵۸ نيز ر_ ك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابراہيمعليه‌السلام ، اختلاف، اديان ، اسلام ، الله تعالى ، امتحان ، امم ، اہل كتاب، ايمان، بصيرت ، بنى اسرائيل ، ديندارى ، دين فروشي، دينى تعليمات كا نظام ،صابئين، علما ، عيسائي ، عيسائيت ، لوگ، مسلمان،معاشرہ ، نوحعليه‌السلام ، وقت كے تقاضے ، يہود

ديندارى :_ كا تظاہر ۴/۱۴۳; _كى حدود ۵/۵۷;_ كے اثرات ۵/۷۰;كے موانع ۵/۴۴نيز ر_ك اہل كتاب ، دين ، دين فروشي

دين فروشى :_ كا خطرہ ۵/۴۴; _ كى حرمت ۵/۴۴; _ كى مذمت ۵/۴۴; _ كے موانع ۵/۴۴نيز ر_ك دين ، دينداري، يہود

دينى تعليمات كا نظام :۴/۱۴۸، ۱۴۹، ۵/۳، ۴، ۴۱نيز ر_ ك دين

دينى قائدين :_كو خبردار كرنا ۴/۱۱۳نيز ر_ ك دين

ذ

ذبح :_كے احكام ۵/۱، ۳ ;_ كے وقت بسم الله پڑھنا ۵/۳; زمانہ جاہليت ميں _ ۵/۳نيز ر_ ك ذبيحہ

ذبيحہ:حرام _ ۵/۳

۸۲۳

نيز ر_ك اہل كتاب، ذبح

ذكر :آشكار _ ۴/۱۴۲; بے قدر و قيمت _ ۴/۱۴۲; تسلسل كے ساتھ _ ۴/۱۰۳;خدا كا _ ۴/۱۴۲، ۵/۷۱، ۹۱; خدا كى ربوبيت كا _ ۵/۸۳; خدا كى رحمت كا _ ۵/۹۸; خدا كى نعمتوں كا _ ۵/۷، ۱۱، ۱۱۰; _ ترك كرنے كا پيش خيمہ ۵/۹۲; _ ترك كرنے كے اسباب ۵/۹۱;_ خدا كى اہميت ۴/۱۰۳; _ خدا كے اثرات ۴/۱۰۳; _ خدا كے اسباب ۴/۱۴۲، ۱۴۳; _ خدا ميں ادب كا لحاظ ۵/۱۱۲; _ قيامت كى اہميت ۵/۱۰۹; _ قيامت كے اثرات ۵/۲۹;_ كا پيش خيمہ ۵/۹۱; _ كى اہميت ۴/۱۰۶، ۵/۳۴، ۹۱ ; _ كے اثرات ۴/۱۰۸ ،۱۱۰، ۱۱۱، ۱۲۲، ۱۳۰، ۱۳۱، ۱۳۵، ۱۴۸، ۱۷۱، ۵/۴، ۱۱، ۱۲، ۲۸، ۴۰، ۴۲، ۴۴، ۴۹، ۹۱، ۹۸; _ كے موانع ۵/۹۱; _ نعمت كى اہميت ۵/۲۰; عذاب خدا كا _ ۵/۹۸; عہد خدا كا _ ۵/۷; قيامت كا _ ۵/۱۰۹; مغفرت خدا كا _ ۵/۹۸نيز ر_ ك تاريخ ، جنگ

ذلت :دنيوى _ ۵/۴۱;دنيوى _ كا پيش خيمہ ۴/۱۰۲; دنيوى _ كے اسباب ۵/۴۱، ۴۲نيز ر_ ك زندگى ، عيسائي ، منافقين ، يہود

ذمہ داري:_ قبول كرنے كى شرائط ۵/۱۰۲ ; _ كا پيش خيمہ ۵/۱۴، ۲۳; عمومى _ ۵/۷۹

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كيئے جائيں

ر

راز :_ فاش كرنا ۵/۶۱نيزر_ ك انسان ، اہل كتاب

راہب :ر_ك عيسائيت

ربوبيت :غير خدا كى _ ۵/۷۲نيز ر_ك الله تعالى

رجس :ر_ك پليدي

رجحان:ناپسنديدہ _ ۴/۱۱۹، ۱۶۹;ناپسنديدہ _ كے موانع ۴/۱۳۹

رجحانات:ر_ ك رجحان

۸۲۴

رجم:ر_ك زناكار

رحمت :_ خدا سے بہرہ مند افراد ۴/۱۷۵، ۵/۷۴_ سے محروم ہونا ۴/۱۷۵; _ كے اسباب ۴/۱۷۵نيز ر_ ك الله تعالى ، ايمان

رزق :ر_ك روزي

رسوم :ر_ك زمانہ جاہليت

رشتہ دار:_وں كو نقصان پہنچانا ۴/۱۳۵; _وں كے خلاف گواہى ۴/۱۳۵; _وں كے مفادات ۴/۱۳۵نيز ر_ ك رشتہ داري

رشتہ داري:_ كا كردار ۵/۲۷نيزر _ ك رشتہ دار

رشد :ر_ك ترقي

رشوت:_ سے اجتناب ۵/۶۲، ۶۵;_ كا گناہ ۵/۶۲; _ كى حرمت ۵/۴۲; _ كى مذمت ۵/۴۲; _ كے اثرات ۵/۴۲; _ كے احكام ۵/۴۲;نيز ر _ ك اہل كتاب، يہود

رضا كار :ر_ك بنى اسرائيل ، مجاہدين رضائے الہى كے طالب :۵/۱۶

رفاقت :ر_ك دوستي

رفاہ :_ كى قدر و قيمت ۵/۶۶; _ كے اسباب ۵/۶۶نيز ر_ ك رفاہ طلبي

رفاہ طلبى :_كا پيش خيمہ ۵/۴۴نيز ر _ ك رفاہ

ركوع :ر_ ك انفاق

رمضان المبارك :اكيس _ ۴/۱۵۸

روايات :۴/۱۰۱، ۱۰۳، ۱۰۵، ۱۱۲، ۱۱۴، ۱۱۵، ۱۱۹، ۱۲۵، ۱۲۷،

۸۲۵

۱۲۸، ۱۲۹، ۱۳۷، ۱۴۰، ۱۴۱، ۱۴۲، ۱۴۳، ۱۴۸، ۱۵۶، ۱۵۷، ۱۵۸، ۱۶۰، ۱۶۳، ۱۶۴، ۱۷۰، ۱۷۳، ۱۷۴، ۱۷۶، ۵/۱، ۳، ۴، ۵، ۶، ۲۰، ۲۱، ۲۳، ۲۶، ۲۷، ۳۰، ۳۱، ۳۲، ۳۳، ۳۸، ۴۲، ۴۳، ۴۴، ۴۵، ۶۳، ۶۴، ۶۶، ۶۷، ۷۲، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۲، ۸۷، ۸۹، ۹۰، ۹۴، ۹۵، ۹۶، ۹۷، ۱۰۳، ۱۰۵، ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۱، ۱۱۵

روٹى :_ كا نزول ۵/۱۱۵

روح القدس :۵/۱۱۰

روز غدير :_ كى اہميت ۵/۳

روزہ :ر_ ك كفارہ

روزى :پاكيزہ _ ۵/۸۸; حلال _ ۵/۸۸; _زيادہ ہونے كى شرائط ۵/۶۶; _ كاسرچشمہ ۵/۲، ۸۸; _ كم ہونے كا پيش خيمہ ۵/۶۶نيز ر_ك الله تعالى ، انسان ،طعام، عيسائي ، موجودات ، يہود

رہبر:دينى _ كى اطاعت ۵/۸۱; _ اور فاسقين ۵/۴۹; _ كا انتخاب ۵/۱۲; _ كا علم ۵/۴۹; _ كا نقش ۵/۵۶; _ كو خبر دار كرنا ۵/۴۹; _ كى استقامت ۵/۴۹; _ كى اہميت ۵/۴۹; _ كى ذمہ دارى ۴/۱۰۵، ۵/۳۳، ۳۸، ۱۱۴; _ كى زيركى كى اہميت ۵/۴۹; _ كى شرائط ۵/۵۵، ۱۰۴; _ كى لغزش كے اسباب ۵/۴۹; _ كى مخالفت ۴/۱۱۵; _ كى مخالفت كى سزا ۴/۱۱۵_; _ كے دشمن ۵/۴۹; _ كے ساتھ محشور ہونا ۴/۱۱۵نيز ر_ ك امامت، دينى قائدين ، قائدين كفر، قائدين گمراہى ، يہود

ريا :_ سے اجتناب ۴/۱۴۲، ۱۴۶; _ كے اثرات ۴/۱۴۲، ۱۴۳نيزر_ ك عبادت ، نماز

ز

زانى :ر_ك زناكار

زبور:_ايك آسمانى كتاب ۴/۱۶۳; _ كى اہميت ۴/۱۶۳; _ كى قدر و منزلت ۴/۱۶۳

زكوة :_ ادا كرنے سے اجتناب كرنا ۴/۱۳۷; _ ترك

۸۲۶

كرنا ۵/۱۲; _ كى ادائيگى ۴/۱۶۲، ۵/۱۲، ۵۵; _ كى ادائيگى كى اہميت ۵/۱۲، ۵۵ ; _ كى ادائيگى كے آداب ۵/۵۵; _ كى اہميت ۴/۱۶۲، ۵/۵۵; _ كے اثرات ۵/۱۲نيزر _ ك اديان ، بنى اسرائيل ، يہود_

زمانہ جاہليت :_سے محبت كاپيش خيمہ ۵/۵۰; _كا معاشرہ ۵/۱۰۳;_ كى ثقافت ۵/۵۰; _ كى رسوم ۴/۱۲۷، ۵/۳، ۵۰، ۹۰، ۱۰۴; _ كى رسوم سے محبت ۵/۵۰; _ كى رسوم كے خلاف جہاد ۵/۳، ۵۰; _كے علما كى قليل تعداد ۵/۱۰۳;_ كے كفار ۵/۱۰۳; _ ميں ازلام ۵/۹۰;_ ميں استخارہ ۵/۹۰ ; _ ميں بدعت كے اسباب ۵/۱۰۳; _ ميں بدعت گذار ۵/۱۰۳نيزر _ك قرعہ

زمين :_ كا گھومنا ۵/۲۶; _ كا مالك ۴/۱۲۶، ۱۳۱، ۵/۱۷، ۱۸، ۴۰، ۱۲۰; _ كا نظام ۵/۹۷; _ى مخلوقات كا مالك ۴/۱۳۲

زنا :_ كا گناہ ۴/۱۳۷;_ئے محصنہ كى حد ۵/۴۳نيز ر_ ك زناكار

زناكار :شادى شدہ _ كو سنگسار كرنا ۵/۴۳نيز ر _ ك زنا ،شادى

زنا كى تہمت :_ كى حرمت ۴/۱۵۶

زندگى :ذلت كى _ ۵/۱۴; _ كے آداب ۵/۳۵; _ كے قوام كے اسباب ۵/۹۷; _ ميں انصاف ۴/۱۳۵; _ ميں ميانہ روى ۵/۶۶نيز ر_ ك فاسقين ، يتيم

زہد:حرام _ ۵/۱۰۳نيز ر_ ك يہود

زيارت :ر_ ك كعبہ

زيركى :_ اور تقوى ۵/۱۰۰; _ كى اہميت ۴/۱۰۱، ۱۰۲، ۱۴۱، ۵/۶۱، ۱۰۵; _ كے اثرات ۴/ ۱۰۲نيز ر_ ك جنگ ، قاضي، قيادت ، مومنين

۸۲۷

س

سازش:ر_ ك خيانتكار ، دشمن ، دين ، عيسىعليه‌السلام ، منافقين ، يہود

سائبہ :(سانڈھ)_ كے احكام ۵/۱۰۳، ۱۰۴

سائنسى علوم :_كا سرچشمہ ۵/۳۱

سب كا گھر : ۵/۹۷

سبل السلام :_ كى قدر و قيمت ۵/۱۶

سب و شتم :ر_ك دشنا م

سبيل الله : ۴/۱۶۰، ۱۶۷، ۵/۱۶، ۳۵، ۵۴_سے روكنا ۴/۱۶۰، ۱۶۷، ۱۶۸; _سے روكنے كا ظلم ۴/۱۶۱، ۱۶۸; _سے روكنے كى سزا ۴/۱۶۱; _ سے روكنے كے اثرات ۴/۱۶۰

سپاس گزارى :ر_ ك شكر

ستائش :ر_ ك حمد

ستم :ر_ ك ظلم

سجدہ كرنا :خدا كو _ ۴/۱۵۴نيز ر_ ك ابراہيم (ع)

سچائي :ر_ك صداقت

سخت دل :_ اور علم ۵/۱۰۴; _ اور ہدايت ۵/۱۰۴

سختى :ر_ك مشكلات

سخن :ر_ك گفتگو

سرّ :ر_ك راز

سرپرستى :ر_ك انتظام و انصرام

سر تسليم خم كرنا:

۸۲۸

اوامر خدا كے سامنے_ ۵/۱۰۸; جائز فيصلہ كے سامنے_ ۵/۴۹;خدا كے سامنے_ ۵/۱، ۴۴، ۱۱۱; خدا كے سامنے _كى اہميت ۴/۱۲۵; خدا كے سامنے _ كى فضيلت۴/۱۲۵;_ كاپيش خيمہ۵/۱۱۱; _ كا مقام ۵/۱۱۱;_ كى اہميت ۵/۱۱۱; _ كى قدر و قيمت ۴/۱۲۵; _كے اثرات ۵/۱۰۸

سرزمين شام : ۵/۲۱

سرزمين مصر : ۵/۲۶

سرزنش :ر_ك خاص موارد

سرقت :ر_ ك چوري

سركش لوگ: ۵/۶۴_ وں كا غمزدہ ہونا ۵/۶۸نيز ر_ ك سركشي

سركشى :_ كے اثرات ۵/۶۴، ۶۸; _ كے علل و اسباب ۵/۶۸; _ كے مراتب ۵/۶۴، ۶۸; _ميں اضافہ كا پيش خيمہ۵/۶۸;_ ميں اضافہ كے اسباب ۵/۶۸نيز ر_ ك اہل كتاب، سركش لوگ ، قابيل ، قرآن كريم ، يہود

سرگردانى :_ كے اسباب ۴/۱۳۷، ۱۴۳

نيزر _ ك ايمان، بنى اسرائيل ، عملى موقف فاسقين ،قابيل ،قيامت ، كفر، منافقين

سرگوشى :_ سے منع كرنا ۴/۱۱۴; قابل قدر _ ۴/۱۱۴; نيكى كى _ ۴/۱۱۴نيز ر_ك مسلمان

سرُور:_ كى اہميت ۵/۱۱۴

سزا :آسمانى بجلى كے ذريعہ _ ۴/۱۵۳; اخروى _ كے اسباب ۵/۴۱; بغير بيان كے _ ۴/۱۶۵; دنيوى _ ۵/۳۳; دنيوى _ كے اسباب ۴/۱۵۳، ۱۶۰; _ سے در گذر كرنا ۴/۱۴۹; _ سے نجات پانا ۴/۱۲۳; _ سے نجات پانے كے اسباب ۵/۴۹، ۹۳; _ كا معيار ۴/۱۲۳; _ كى اقسام ۴/۱۷۳; _ كى شرائط ۵/۹۴ ; _ كے اسباب ۵/۲، ۲۶، ۳۲ ; _ كے مراتب ۴/۱۵۱، ۵/ ۲، ۳۲، ۳۳، ۴۱، ۶۰; _ معاف كرنا ۴/ ۱۲۳;_ ميں امتيازى سلوك ۴/۱۲۳ _ ميں انصاف ۴/ ۱۲۳، ۱۲۴; _ ميں تفاوت ۵/۶۰; مكر كے ذريعہ _ ۴/۱۴۲

۸۲۹

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں _

سزائے موت دينا :رك محارب ، مفسدين

سستى :_ سے اجتناب ۴/۱۰۴; _ كے موانع ۴/۱۰۴

سطحى سوچ :_ كے اثرات ۴/ ۱۶۲

سعادت :اخروى _ ۴/ ۱۳۴; اخروى _كا پيش خيمہ ۴/۱۳۴; دنيوى _ ۴/۱۳۴; دنيوى _ كا پيش خيمہ۴/۱۳۴; _ سے محروم ہونا ۴/۱۶۸; _ كا انتخاب ۴/۱۷۰; _كا پيش خيمہ۴/۱۳۴، ۱۷۱; _ كا سرچشمہ ۴/۱۳۴; _ كى تبيين ۵/۱۹; _ كے اسباب ۴/۱۷۰، ۱۷۱، ۵/۳۵ ، ۶۹، ۷۰، ۸۱نيز ر_ ك انسان، عيسائي

سعى :ر_ ك كوشش

سفر :ر_ ك يہود

سقائي:ر_ك پانى پلانا

سكوت :ر_ ك يہود

سليمانعليه‌السلام :_ كى نبوت ۴/۱۶۳

سماعت :_ كى قدر و قيمت ۵/۷۶; _ كے موانع ۵/۷۱نيز ر_ك الله تعالى

سمندر :_ كے فوائد ۵/۹۶

سنت :_ كا كردار ۴/۱۰۵، ۵/ ۱۰۱، ۱۰۴، ; _ كى پيروى ۴/۱۱۵;_ كى تعليم ۴/۱۰۵; _ كى قدر و قيمت ۴/۱۱۵

نيز ر_ ك ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، قرآن كريم ، كفار

سنگسار كرنا:ر_ ك زناكار

سوال :بے جا _ كا گناہ ۵/۱۰۱; حرام _ ۵/۱۰۱;_ اور جواب ۴/۱۲۷، ۵/۱۰۱ ; _ كا پيش خيمہ ۴/۱۲۷; _

۸۳۰

كے اثرات ۵/۱۰۲; ممنوع _ ۵/۱۰۱ نيز ر_ ك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،امم، انبيائعليه‌السلام ، دين ، عيسىعليه‌السلام ، قيامت ، ميراث

سود :_ كى حرمت ۴/۱۶۱; _ كے احكام ۴/۱۶۱نيز ر_ ك سود خوري

سو د خورى :_ كے اثرات ۴/۱۶۱نيز ر_ ك سود ، يہود

سياست:ر_ك سياسى نظام

سياسى نظام: ۴/۱۳۹، ۱۴۱، ۱۴۴، ۵/۴۹، ۵۰، ۵۱، ۵۵، ۵۷

سيرت :ر_ ك بنى اسرائيل ، مومنين

سير و سلوك:_ كا طريقہ ۵/۳۵

ش

شادى :اہل كتاب كے ساتھ_ ۵/۵; پاكدامن كے ساتھ _ ۵/۵; حرام _۵/۵;زنا كار سے _۵/۵;_ كا پيش خيمہ ۴/۱۳۰ ; _ كى شرائط ۵/۵ ; _ كے احكام ۴/۱۲۹، ۵/۵; كنيز سے _۵/۵;يتيم كے ساتھ _ ۴/۱۲۷نيز ر_ ك عورت ، ہم بستري

شاكرين :_ كى جزا ۴/۱۴۷

شاہد :ر_ك گواہ

شبہ :_كا پيش خيمہ۵/۱۷

شتر مرغ :ر_ك كفارہ

شجاعت :_ كا پيش خيمہ ۵/۲۳، ۴۴;_ كى اہميت ۵/ ۳ ، ۴۴نيز ر _ك انبياءعليه‌السلام ، حزب الله ، مومنين ، ہابيل ، يہود

شخصيت :_ محفوظ ركھنے كى اہميت ۴/۱۱۲نيز ر_ ك انسان ،عيسىعليه‌السلام ، ہابيل

شر :_ كى جانب ميلان ۵/۲۷

۸۳۱

ر_ك شرور

شراب :_پينا ايك ناپسنديدہ فعل ۵/۹۰;_پينے كا گناہ ۴/۱۳۷، ۵/۹۰، ۹۳;_ تحريم سے پہلے ۵/۹۳ ; _خورى صدر اسلام ميں ۵/۹۰، ۹۳; _ سے اجتناب كرنا ۵/۹۰ ، ۹۱، ۹۲، ۹۳ ; _ كى پليدى ۵/۹۰ ; _ كى تحريم ۵/۹۱ ; _ كى تحريم كا فلسفہ ۵/۹۱;_كى حرمت ۵/۹۰;_ كے اثرات ۵/۹۱ ; _ كے احكام ۵/۹۰، ۹۱;_ كے مفاسد ۵/۹۱; _ كے موارد ۵/۹۰

شرعى ذمہ دارى :_ پر عمل كرنا ۵/۵، ۴۴، ۵۴، ۸۸، ۹۴، ۹۶، ;_پر عمل كرنے كا پيش خيمہ ۴/۱۳۱، ۵/۱۲، ۴۴، ۹۱، ۹۴، ۹۸، ۱۰۸;_ پر عمل كرنے كے اثرات ۵/۶، ۲۶; _ پر عمل كرنے كے موانع ۵/۴۴; _ ترك كرنے كا پيش خيمہ ۵/۴۹; _ ترك كرنے كے اثرات ۵/۵; _ سے سوء استفادہ كرنا ۵/۳; _ كا آسان ہونا ۴/۱۳۱، ۵/۶، ۱۰۱ ; _ كا سرچشمہ ۵/۱; _كا قلمرو ۵/۱۰۲;_ كى سہولت كا سرچشمہ ۵/۳; _ كى شرائط ۴/ ۱۲۹، ۵/۸۹ ; _ كے رفع ہونے كے موارد ۵/۳;_ ميں قدرت ۴/۱۲۹، ۵/۶، ۸۹نيز ر_ ك بنى اسرائيل ، كفار ، مومنين

شرعى مسافت : ۴/۱۰۱

شرك :خدا كے ساتھ _ ۵/۷۲ ;_ ذاتى ۵/ ۱۱۶; _ سے اجتناب كرنا ۴/۱۷۱، ۵/ ۹۰، ۹۲ ; _ صدر اسلام ميں ۵/۹۰; _ عبادى ۴/۱۱۷، ۵/۷۶، ۱۱۶; _ عبادى كاپيش خيمہ ۵/۷۶ ; _ كا انجام ۵/۷۲; _ كا ظلم ۵/۷۲; _ كا گناہ ۴/۱۱۶، ۱۱۸، ۵/۷۲، ۹۰ ; _ كا مقابلہ ۵/۳; _كى بخشش ۴/۱۱۰;_ كى سزا ۴/۱۱۶; _كى طرف رجحان ۵/۷۲; _ كى نفى ۵/۷۵، ۱۱۶، ۱۱۷;_كے اثرات ۵/۹۱;_كے مظاہر كا ناپسنديدہ ہونا ۵/ ۹۰; _ كے موارد ۴/۱۱۶، ۱۷۱، ۵/۷۳; _ كے موانع ۵/۷۳، _ ميں تحقيق ۵/۷۵نيز ر_ ك استغفار ، اہل كتاب، ايمان ، تثليث ، توبہ ، عيسىعليه‌السلام ، عيسائي

شريعت :ر_ ك دين

شريك حيات:_ سے محبت ۴/۱۲۹; _ كا متعدد ہونا ۴/۱۲۹; _ كى نعمت ۵/۲۰; _ كے انتخاب كا معيار ۵/۵; _ كے حقوق ۴/۱۲۸، ۱۲۹;_ كے درميان انصاف كرنا ۴/۱۲۹; _ كے ساتھ بھلائي كرنا ۴/۱۲۸

شطرنج :_ كى حرمت ۵/۹۰

شعائر :

۸۳۲

_ كا احترام ۵/۲; _ كا تمسخر اڑانا ۵/۵۸، ۵۹; _ كى بے حرمتى ۵/۲;_ كے تمسخر اڑانے كا سرچشمہ ۵/۵۸، ۵۹; _ كے تمسخر اڑانے كا گناہ ۵/۵۸; _ كے موارد ۵/۲نيزر _ ك دين

شفا :ر_ك بيمار

شفاعت :_ سے محروم ہونا ۴/۱۷۳، ۵/۴۱; _ كے اثرات ۵/۴۱نيز ر_ ك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، شفاعت كرنے والے ، عيسىعليه‌السلام ، قيامت ، مشركين ، مومنين

شفاعت كرنے والے :قيامت ميں _ ۴/۱۷۳، ۵/۷۲نيز ر_ك شفاعت

شقاوت:_ كا انتخاب ۴/۱۷۰; _كا پيش خيمہ ۴/۱۳۷;_ كى تبيين ۵/۱۹ ; _ كے اسباب ۴/ ۱۲۱نيز ر _ ك كفار

شك :_ كے موانع ۵/۱۱۴نيز ر_ ك الله تعالى ،عيسى (ع)

شكار :بحرى جانوروں كا _;برى جانوروں كا _ ۵/۹۶; ۵/۹۶; پرندوں كا _ ۵/۹۶; تفريح كے طور پر _ ۵/۹۶; جائز _ ۵/۲، ۴، ۹۶; حرام _ ۴/۱۵۴، ۵/۱، ۲، ۳، ۴، ۹۵، ۹۶; حرام _ سے استفادہ ۵/۳; حلال _ ۵/۴;خشكى اور سمندر دونوں ميں زندگى كرنے والے جانوروں كا _ ۵/۹۶;_ ترك كرنے كى اہميت ۵/۴; _ كا محرك ۵/۴; _ كى تقسيم ۵/۴; _ كى حليت كى شرائط ۵/۴; _ كى شرائط ۵/۴; _ كے احكام ۵/۱، ۲، ۴، ۹۶; _ كے وقت بسم الله پڑھنا ۵/۴; _ كے وقت تقوى كى مراعات ۵/۴; شكارى باز كا _ ۵/۴; شكارى تيندوئے كا _ ۵/۴; شكارى حيوانات كا _ ۵/۴; شكارى شيركا_ ۵/۴; شكارى كتے كا _ ۵/۴ ; مچھلى كا_ ۴/۱۵۴; ممنوعہ _ ۵/۴نيز ر_ ك احرام ، امتحان ، حج ، حرم ، كفارہ ، مكہ مكرمہ

شكارى باز:ر _ ك شكار

شكارى شير :ر_ ك شكار

شكايت :ر_ ك موسى (ع)

۸۳۳

شكر :خدا كا _ ۴/۱۴۷; خدا كے _كا پيش خيمہ۵/۶; _كى نعمت ۵/۱۱، ۲۱، ۸۹; _ كى نعمت كى اہميت ۵/۶; _ كے اثرات ۴/۱۴۷نيز ر_ ك شاكرين ، مومنين

شكست :_كا پيش خيمہ ۵/۵۶;_ كے اسباب ۴/۱۰۲نيز ر_ ك آيہ تبليغ ، اسلام،بنى اسرائيل ، خوف، دشمن ، عيسائي ، كفار، يہود

شناخت :_ كے درجات ۵/۱۱۴; _ كے ذرائع ۴/۱۵۵، ۵/۳۱، ۱۰۰; _ كے موانع ۴/۱۵۵

شوہر :_ كا حقوق ادا نہ كرنا ۴/۱۲۸، ۱۲۹; _ كى ذمہ دارى ۴/۱۲۹; _ كے حقوق ادا نہ كرنے پر مذمت ۴/۱۲۸

شوہر كى نافرمانى كرنا :شوہر كى نافرمانى ترك كرنے كا پيش خيمہ ۴/۱۲۸نيز ر_ ك شوہر

شہادت :ر_ ك گواہي

شير :ر _ ك شكار

شيطان :_ اور مومنين ۵/۹۱ ; _ پر لعنت ۴/۱۱۸; _ سے اجتناب كرنا ۵/۹۲; _ كا ايمان ۴/۱۱۸; _ كا تسلط ۴/۱۱۹;_ كا عمل ۵/۹۰; _ كا فساد پھيلانا ۴/۱۱۹; _ كا مكر و فريب ۴/۱۲۰; _كا نقش ۴/۱۱۹، ۵/۹۱;_ كا ور غلانا ۴/۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۰، ۱۲۱، ۵/۳۰; _ كا وعدہ ۴/۱۲۰; _ كى پليدى ۵/۹۰ ; _ كى پيروى ۴/۱۱۷، ۱۱۸، ۱۱۹; _ كى سركشى ۴/۱۱۷; _كى صفات ۴/۱۱۷;_ كى قسم ۴/۱۱۹; _كى محروميت ۴/۱۱۸، ۱۱۹; _ كى مذمت ۴/۱۱۷; _ كى نااميدى ۴/۱۱۸; _ كى ولايت ۴/۱۱۹، ۱۲۲; _ كى ولايت كا قبول كرنا ۴/۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۱; _ كے اہداف ۴/۱۱۸، ۱۱۹; _ كے جال ۵/۹۱; _ كے ورغلانے كا طريقہ ۴/۱۲۰; _ كے ورغلانے كے اسباب ۴/۱۱۹نيز ر_ ك ابليس ، شيطان كے پيروكار، عبادت ، عمل ، مومنين

شيطان كے پيروكار: ۴/۱۱۹، ۱۲۱_وں كا انجام ۴/۱۲۱

۸۳۴

ص

صابئين:_ كا ايمان ۵/۶۹; _ كا دين ۵/۶۹; _ كا عقيدہ ۵/۶۹; _ كى ذمہ دارى ۵/۶۹

صادقين :۵/۱۱۹_ بہشت ميں ۵/۱۲۰;_ قيامت كے دن ۵/۱۱۹; _ كى جزا۵/ ۱۱۹; _ كى رضايت ۵/۱۱۹ ;_ كى فتح ۵/۱۱۹; _ كى كاميابي۵/۱۱۹;_ كے فضائل ۵ / ۱۱۹

صاعقہ :_كے ذريعے عذاب ۴/۱۵۳; _ كے ذريعے ہلاكت ۴/۱۵۳نيز ر_ك سزا

صالحين :۵/۲۵_ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۵/۸۴; _ اور قرآن كريم ۵/۸۴; _ بہشت ميں ۵/۸۴، ۸۵; _ قيامت كے دن ۵/۱۱۹; _ كا ذكر خير ۵/۶۶; _كا مقام و مرتبہ ۵/۸۴;_ كى جزا ۵/۱۱۹; _ كى رضا مندى ۵/۱۱۹; _ كى ہم نشينى ۵/ ۸۴

نيز ر _ ك اہل كتاب ، بنى اسرائيل

صداقت :_ كى اخروى جزا ۵/۱۱۹; _ كى قدر و قيمت ۵/۷۵; _ كے اخروى اثرات ۵/۱۱۹نيز ر _ ك اللہ تعالى _عيسىعليه‌السلام ،مريم (ع)

صدقہ :_ كى تشويق دلانا ۴/۱۱۴;_ كے موارد ۵/۴۵صراط مستقيم : ۴/۱۷۵، ۵/۱۲، ۱۶_ كى قدر و قيمت ۵/۱۶

صفائي:ر _ ك پاكيزگى ، خوراك

صلابت :ر _ ك مجاہدين ، مومنين

صلاحيتيں :ان كا كردار ۵/ ۵۴

صلح:_ كى اہميت ۵/۲ ، ۱۶; _ كے علل و اسباب ۵/۱۶نيز ر _ ك آتشي، اصلاح

ض

ضرورت مند افراد :_ كى حاجت روائي ۴/۱۱۴،۱۲۵،۵/ ۵۵

۸۳۵

ضوابط:اجتماعى _ ۵/۲

ط

طاغوت:_ كى اطاعت ۵/۶۰; _ كى ولايت ۴/۱۱۵

طاغوت پرست لوگ :_ جہنم ميں ۵/۶۰;_وں كا ٹھكانا ۵/۶۰; _ وں كى جانب سے تمسخر اڑانا ۵/۶۰; _ وں كى گمراہى ۵/۶۰

طبيعى اسباب:ر_ك طبيعى عوامل

طبيعى عوامل : ۴/۱۴۳، ۱۵۳

طعام :ر _ ك كھانا

طفل :ر _ ك بچہ

طلاق :پسنديدہ _ ۴/۱۳۰; _ سے منع كرنا ۴/۱۳۰; _كا پيش خيمہ ۴/۳۰; _ كى تشريع ۴/۱۳۰;_ كى تشويق كرنا ۴/۱۳۰;_ كے اثرات ۴/۱۳۰، ۱۳۱;_ كے موانع ۴/۱۲۸

طمع :_ كے اثرات ۴/۱۲۸، ۵/۴۲، ۴۴نيز ر _ ك انسان ، ثروتمند افراد، منافقين ، يہود

طہارت :_ كى قدر و منزلت ۵/۶;_ كے احكام ۵/۵ ، ۶;_ كے مبطلات ۵/۶نيز ر _ ك اہل كتاب ، پاكيزگى ، مومنين

طيّبات :_ سے استفادہ كرنا ۵/۵، ۸۷، ۸۸;_ سے استفادہ نہ كرنا ۵/۸۷، ۸۸;_ سے محروميت ۴/۱۶۱;_ كى تحريم ۴/۱۶۰، ۵/۸۷، ۸۹;_ كى تشخيص كے اسباب ۵/۱۰۰;_ كى جانب جھكاؤ ۵/ ۱۰۰;_ كى حليت ۵/۴;_ كى قدر و قيمت ۵/۱۰۰; _ كے موارد ۵/۴

ظ

ظالمين :_ پر فتح ۵/۲۳; _ جہنم ميں ۵/۷۲; _كا بے پناہ ہونا ۵/۷۲; _ كو افشا كرنا ۴/۱۴۸; _ كى اصلاح ۵/۳۹; _ كى بدگوئي ۴/۱۴۸; _كى توبہ ۵/۳۹; _ كى توبہ كى قبوليت ۵/۳۹; _ كى سزا ۵/۲۹; _كى

۸۳۶

محروميت ۵/۵۱، ۵۲; _كے ساتھ جنگ ۵/۲۱، ۲۲، ۲۳; _ كے ساتھ دوستى ۵/۸۰; _ كے ساتھ مقابلہ ۵/۲۳، ۲۴، ۲۵; _ كے ساتھ مقابلہ كى روش ۴/۱۴۸نيز ر _ ك اہل كتاب ، خوف ، مقدس سرزمين

ظلم :_ ترك كرنے كا پيش خيمہ ۵/ ۵۲;_ كا پيش خيمہ ۵/۲;_ كا دنيوى عذاب ۴/۱۶۱; _ كا سرچشمہ ۴/۳۵;_ كى اخروى سزا ۴/۱۶۱;_ كى حرمت ۵/۸;_ كى سزا ۵/۳۳;_ كے اثرات ۴/۱۵۳، ۱۶۰، ۱۶۱، ۱۶۸، ۱۶۹; _ كے اسباب ۵/۴۵; _ كے موارد ۴/ ۱۲۴، ۱۴۸، ۱۵۳، ۱۶۸، ۵/۲۹، ۴۵، ۵۱، ۷۲، ۱۰۷; _ كے موانع ۵/ ۲۸، ۲۹

نيز ر _ ك استغفار ، اللہ تعالى ،اہل كتاب ، بنى اسرائيل ، توبہ ، چورى ،خود ، دشمن ، سبيل اللہ ، شرك، عيسائي ، قابيل، قتل ، كفر ، گناہ ، لوگ ، معاشرہ، يہود

ظاہر پرستي:_ كے اثرات ۴/۱۵۳نيز ر _ ك يہود

ظلمت :_ سے نكلنا ۵/ ۱۶نيز ر _ ك نور

ظن و گمان :_ سے اجتناب ۴/۱۵۷; _ كا غير معتبر ہونا ۴/۱۵۷نيز ر _ ك بنى اسرائيل

ع

عابد ين:_ قيامت كے دن ۴/۱۷۲

عاقبت :_ كى تعيين كے عوامل ۵/۸۰

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں

عالم :ر _ ك كائنات

عبادت :خدا كى _ ۴/۱۱۷، ۱۲۵، ۱۵۳; خدا كى _ كى دعوت دينا ۵/۷۲; شيطان كى _ ۴/ ۱۱۸ ;_ ترك كرنے كے آثار ۴/۱۷۳; _ كا پيش خيمہ ۵/۷۶; _ كى اہميت ۵/۵۵، ۹۱; _ كى تشويق ۴/۱۷۲; _ كى حفاظت كرنا ۵/ ۹۱ ; _ كى قدر و قيمت ۴/۱۷۲; _كى نافرمانى ۴/۱۷۳; _ كے آداب ۴/۱۴۲;_ كے اثرات ۵/۸۲; _ ميں خلوص ۴/ ۱۴۲; _ ميں ريا ۴/۱۴۲; _ميں سستى كے اثرات ۴/ ۱۴۳; _ ميں نشاط ۴/ ۱۴۳; _ ميں نظم و ضبط ۴/ ۱۰۲; غير خدا كى _

۸۳۷

۵/ ۷۶نيز ر _ ك علم

عبد :ر _ ك غلام

عبرت:_كے عوامل ۵/ ۳۱; _ كے موانع ۵/ ۳۰; _ كے موجبات ۵/۳۸نيز ر _ ك اسلاف : اہل كتاب ، تاريخ

عبوديت :_سے اجتناب كرنا۴/ ۱۷۲; _ كا پيش خيمہ ۴/۱۷۲;_ كو ترك كرنا ۴/ ۱۷۳; _ كى تشويق كرنا ۴/ ۱۷۳;_ كى دعوت دينا ۵/ ۱۱۷; _ كى علامات ۴/ ۱۷۳; _ كى قدر وقيمت ۴/ ۱۷۲; _ كے موانع ۴/ ۱۷۲نيز ر _ ك انسان ، برگزيدہ لوگ ، عيسىعليه‌السلام ، مقربين ، ملائكہ

عتق:ر _ ك غلام

عُجب :_ كے اثرات ۴/ ۱۳۵، ۵/۲۷نيز ر _ ك يہود

عدالتى نظام : ۴/ ۱۰۵، ۱۳۵، ۵/ ۴۵، ۴۹، ۵۰نيز ر _ ك قضاوت

عداوت:ر _ ك دشمني

عدد:ايك لاكھ چوبيس ہزار كا _ ۴/۱۶۴; بارہ كا _ ۵/۱۲، ۱۱۱; بہتر كا _ ۵/۶۶; چار كا _ ۵/۲۶; چاليس كا _ ۵/۲۱، ۲۶

عدل و انصاف :_سے انحراف ۵/ ۸;_كا پيش خيمہ ۴/۱۳۵; _ كا دائرہ كار ۴/ ۱۳۵; _ كا قيام ۴/۲۷، ۵/ ۸،۹، ۱۰; _ كا نفاذ ۴/۱۳۵; _ كى اہميت ۴/ ۱۲۹، ۱۳۵، ۵/۲، ۸، ۴۲; _ كى خلاف ورزى كے موارد ۴/۱۳۵; _ كے اثرات ۵/۸; _ كے اسباب ۴/ ۱۳۶; _ كے موانع ۴/ ۱۳۵، ۵/۸; _ كے نفاذ سے اجتناب ۴/۱۳۵;_ كے نفاذ كى اہميت ۵/۸; غير مسلموں كا _ ۵/۹۵; معاشرتى _ ۴/۱۳۵; معاشرتى _ كے موانع ۴/۱۳۵

نيز ر _ ك اديان، اديان كے پيرو كار،انتقام ، انصاف پسندلوگ،انصاف پسندي،بين الاقوامى تعلقات ، جزا، زندگى ، سزا ، شريك حيات ، عورت ، قدر و قيمت كا اندازہ لگانا ، قضاوت ، گواہى ، مستضعفين ، معاشرہ

۸۳۸

عذاب :آگ كا _ ۵/۳۷; اخروى _ ۵/۴۱; اخروى _ كے اسباب ۵/۴۲; اخروي_ كے ذرائع ۵/۳۷; اخروى _ كے مراتب ۴/۱۶۱; اہل _ ۴/۱۴۷، ۵/۱۱۸; دائمى _ ۵/۸۰; دنيوى _ ۵/۴۱; دنيوى _ كا پيش خيمہ ۵/۴۹; دنيوى _ كے اسباب ۴/۱۵۳، ۱۶۰;_ بلا بيان ۴/۱۱۵، ۱۴۴; _ سے عفو و درگذر ۵/۳۴; _ سے محفوظ رہنا ۵/۷۱; _ سے نجات ۴/۱۲۳، ۵/۳۳، ۳۶، ۳۷، ۷۱، ۷۳; _ سے نجات كى شرائط ۴/۱۱۵;_ سے نجات كے اسباب ۴/۱۴۷، ۵/۳۶، ۴۱، ۷۴، ۹۸; _ كا سرچشمہ۵/ ۴۰، ۱۱۸: _ كى اقسام ۴/ ۱۵۱، ۵/ ۱۱۵; _ كى كيفيت ۵/ ۱۱۵; _ كے اسباب ۴/۱۱۵، ۱۳۸، ۱۳۹، ۱۵۱، ۱۵۳، ۱۶۰، ۱۶۱، ۱۷۳، ۵/۱۸، ۴۱، ۴۹، ۷۲، ۷۳، ۸۰، ۹۴، ۹۵، ۹۸، ۱۱۵، ۱۱۸; _ كے مراتب ۴/۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۵، ۱۵۱، ۱۶۱، ۱۷۳، ۵/ ۳۲، ۳۳، ۳۶، ۳۷، ۴۱، ۴۲، ۷۳، ۷۴، ۹۴، ۹۸، ۱۱۵;_ميں ہميشہ رہنا ۵/۸۰; عمومى _ كا پيش خيمہ ۴/۱۶۱

خاص موارداپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں

عذر :ناقابل قبول _ ۴/ ۱۵۵، ۵/۱۳

عذر خواہى :ر _ ك موسى (ع)

عرف :ر _ ك عرفى معيار

عرفى معيار : ۵/۸۹

عزت :_ كى اہميت ۴/۱۳۹; _ كے اسباب ۴/۱۳۹; _ كے موانع ۴/۱۳۹نيز ر _ ك اللہ تعالى ، مسلمان ، منافقين ، مومنين

عصمت :ر _ ك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابراہيمعليه‌السلام ، خطا ، گناہ

عصيان :_ ترك كرنے كا پيش خيمہ ۵/۵۲; _ كا پيش خيمہ ۵/۲۳، ۵۲;_ كى اخروى سزا ۴/ ۱۷۳;_ كى سزا ۴/۱۷۲، ۵/۲۶، ۸۰; _ كے اثرات ۴/ ۱۶۰، ۵/۵ ، ۲۵،۲۶، ۴۷، ۷۸، ۸۰; _ كے موانع ۵/۴۰

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں

عفت :_ كى اہميت ۵/۵; _ كى قدر و قيمت ۵/۵

۸۳۹

نيز ر _ ك مرد ، مريمعليه‌السلام ، معاشرہ

عفو و درگذر :_ كى اہميت ۵/۱۳،۴۵; _ كى ترغيب ۴/ ۱۴۹، ۵/۴۵;_كى شرائط ۵/۳۹;_كے اثرات۴/۱۲۸ ، ۱۴۹، ۵/۱۳; _ كے اسباب ۵/۱۳; قابل قدر _ ۴/۱۴۹

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں _

عقاب :ر _ ك سزا، عذاب

عقل :_ كا كردار ۵/۵۸، ۱۰۰نيز ر _ ك قرآن كريم

عقلاء :_ كى كاميابي۵/ ۱۰۰; _ كے فضائل ۵/ ۱۰۰

عقود :_ كى وفا ۵/۱; _ كے احكام ۵/۱

عقيدہ :باطل _ ۴/۱۱۹، ۱۲۳، ۱۳۴، ۱۷۱، ۵/ ۱۷، ۱۸، ۲۴، ۵۲، ۶۴، ۷۱، ۷۲،۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۸۸، ۹۲، ۹۳، ۱۱۶، ۱۱۷; باطل _ كا سرچشمہ ۴/ ۱۱۹، ۵/۷۷; باطل _ كى پيروى ۵/۷۷; باطل _كى ترويج كے عوامل ۵/۷۷; باطل _ كى سزا ۵/۷۲، ۱۱۸; باطل _ كے اثرا ت ۵/۶۴; باطل _ كے موانع ۵/۱۱۶; پسنديدہ _ ۴/۱۷۱; صحيح _ كا سرچشمہ ۵/۷۱; صحيح _ كا معيار ۴/۱۷۱; _ پر ثابت قدم رہنا ۵/۱۱۳; _ كى اہميت ۵/۴۸; _ كى تشخيص كا طريقہ ۵/۷۳; _كى تضعيف كى روش ۴/۱۳۷; _ كے اثرات ۴/۱۴۷;_ ميں تقوى كى مراعات ا ۵/۹۳; _ ميں متزلزل ہونا ۴/۱۳۸; _ ميں منافقت ۴/۱۳۹; _ ميں ہوس پرستى ۵/۷۷

خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں

علم :_ اور اخلاق ۵/۸۲; _ اور ايمان ۴/۱۶۲; _ اور حكمت ۴/۱۷۰;_ اور ذمہ دارى ۴/۱۱۵; _ اور عبادت ۵/۸۲; _ اور عمل ۴/۱۰۴،۵، ۵/۷۱، ۷۴; _غيب كے موارد ۵/۱۰۹;_كا پيش خيمہ ۵/۹۷; _ كا كردار ۴/۱۶۲، ۱۷۰; _ كى اہميت ۴/۱۱۱، ۵/۹۷، ۱۱۶; _ كى قدر و قيمت ۴/۱۷۰، ۵/۶ ۷، ۱۰۴; _ كے اثرات ۴/۱۱۳، ۱۳۷، ۱۶۷، ۱۷۲، ۵/۲، ۴۹، ۸۳، ۹۵، ۹۷، ۱۰۸; _ كے حصول كا پيش خيمہ ۴/۱۶۲ ۴

نيز ر _ ك ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اللہ تعالى ، انبياءعليه‌السلام ، انسان ،

۸۴۰

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897