ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق0%

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 299

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 299
مشاہدے: 79150
ڈاؤنلوڈ: 4439

تبصرے:

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 299 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79150 / ڈاؤنلوڈ: 4439
سائز سائز سائز
ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام كتاب :ازدواجى زندگی كے اصول يا خاندان كا اخلاق

مصنّف :حجة الاسلام و المسلمين ابراہيم اميني

ترجمہ :محترمہ عندليب زہرا كامون پوري

كتابت :سيد قلبى حسين رضوى كشميري

ناشر :سازمان تبليغات اسلامى روابط بين الملل _ تہران_ اسلامى جمہوريہ ايران پوسٹ بكس ۱۳۱۳ ۱۴۱۵۵

تعداد :۵۰۰۰

تہيہ و تنظيم:شعبہ اردو_ سازمان تبليغات اسلامي

تاريخ :جمادى الثانى سنہ ۱۴۱۰ ھ

۳

عرض مترجم

دوسرى زبانوں كے لٹريچر اپنى زبان ميں منتقل كرنے كا مقصد كسى قوم كے ادب و ثقافت اور تہذيب و تمدّن سے اپنى قوم اور اپنے ہم وطنوں كو روشناس كرانا ہوتا ہے _ ترجمہ كا كام ہر دور ميں ہوتا رہا ہے اور يہ بڑى عمدہ روش ہے _

البتہ زير نظر كتاب كا ترجمہ مذكورہ مقصد كو سامنے ركھ كر نہيں كيا گيا ہے بلكہ ترجمہ كے لئے اس كتاب كو منتخب كرنے كے كچھ دوسروے اسباب ہيں _

خاندان ميں افراد كے درميان باہمى تعلقات و روابط اوراخلاق كے متعلق اردو ميں جامع اور قابل قدر تصانيف بہت كم نظر آتى ہيں خصوصاً ہمارى زبان ميں ايسى كتابوںكى بے حد كمى ہے جس ميں ان روابط كو قرآن و حديث اور اقوال ائمہ اطہار (ع) كى روشنى ميں بيان كيا گيا ہو _

ہم سبھى اپنے اپنے فرائض اور ذمہ داريوں كى ادائيگى ميں رات دن مشغول رہتے ہيں ليكن اگر اس ميں خدا كى خوشنودى كا تصور بھى شامل رہے اور اگر ہم اس بات سے واقف ہوں كى خدا كى نظر ميں ہمارے روزمرہ كے معمولى سے معمولى كاموں كى بھى كتنى اہميت ہے ، تو ان كاموں كى قدر و قيمت كئي گنا بڑھ جاتى ہے _

مثلاً خواتين رات دن گھروارى كے گوناگوں كاموں ميں مشغول رہتى ہيں ان صبر آزما كاموں كو ہنسى خوشى يا بددلى كے ساتھ چار و ناچار انجام دينا ہى پڑتا ہے _ البتہ اگر انھيں يہ معلوم ہوجائے كہ

۴

يہ تمام كام محض ان كے فرائض كى انجام وہى ميں شامل نہيں ہيں بلكہ ان كا شمار عبادات الہى ميں ہوتا ہے اور خداوند عالم نے اسے عورت كے جہاد سے تعبير كيا ہے تو ان كاموں كو انجام دينے ميں زيادہ شوق ، دلچسپى اور لگن پيدا ہوگى _ اور جو كام ذوق و شوق اور دلچسپى كے ساتھ انجام ديا جائے خواہ وہ كيسا ہى تھى تھكا دينے والا كيوں نہ ہو اس ميں زيادہ تھكن كا احساس نہيں ہوتا _ البتہ وہى كام اگر مجبورى اور اپنے اوپر مسلط سمجھ كركيا جائے تو چونكہ دل جمعى اور دلچسپى كے ساتھ نہيں كيا جاتا ، اس لئے اس ميں تھكن زيادہ محسوس ہوتى ہے اوراكتا ہٹ بھى قائم رہتى ہے _ يہى وجہ ہے كہ جو كام ہم پر ہمارى مرضى كے بغير مسلط كئے جاتے ہيں ان كو ہم اچھى طرح انجام نہيں دے پاتے ليكن جن چيزوں سے ہم كو دلچسپى ہے ان كاموں كو ہم مختصر وقت ميں اور بہتر طريقے سے انجام ديتے ہيں _

بچّے كى پرورش آسان كام نہيں _ ماں دن بھر كے كاموں كے بعد تھك كررات كو سنا چاہتى ہے مگر بچّے كو كسى وجہ سے نيند نہيں آرھى ہے وہ بے چين ہے _ كبھى بہانے كركے روتا ہے كبھى كسى چيز كى فرمائشے كرتا ہے_ ماں پر نيند كا غلبہ ہے _ ايك طرف نرم و گرم بستر آرام كرنے كى دعوت دے رہا ہے دوسرى طرف بچے كو پرسكون كرنا ہے _ مامتا كا عظيم جذبہ ہر چيز پر غالب آتا ہے وہ اپنا آرام بھول كر بچے كو آرام پہونچانے كى فكر ميں لگ جاتى ہے _ مامتا كا يہ جذبہ خداوند رحيم و كريم كا ہى عطا كردہ ہے ليكن اگر ماں كے دل ميں بچّے كى محبت كے ساتھ يہ جذبہ بھى شامل رہے كہ وہ خدا كى معصوم مخلوق اور معاشرہ كى ايك فرد كى خدمت انجام دے رہى تو يقينا اجر ميں كئي گنا اضافہ ہوجائے گا _

آج كل بعض خواتين بچوں كو دودھ پلانا معيوب سمجھتى ہيں اگر انھيں يہ معلوم ہوجائے كہ ان كے بچے كى صحت و سلامتى نيز ذہنى و جسمانى نشو و نما اور كردار سازى كے لئے ماں كا دودھ كتنى اہميت ركھتا ہے نيز خدا و رسول (ص) نے بھى اس كى بہت تاكيد كى ہے اور اس كا بڑا اجر مقرر فرمايا ہے تو يقين ہے مومن خواتين اس سے ہوے والے دہرے فائدے كو نظر انداز نہيں كريں گے _ ايران ميں اسلامى انقلاب كى كاميابى كے بعد ماؤں كى يادآورى كے لئے دودھ كے ڈبوں پر حضرت رسول اكرم (ص) كے اقوال درج ہوتے ہيں _

۵

اسى طرح كسب معاش اور بيوى بچّوں كے اخراجات پورے كرنے كے لئے مرد كوگھر سے باہر گوناگوں مشكلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے البتہ كسى كو كم زحمات كے ساتھ روزى مہيّا ہوجاتى ہے اور كسى كو اس كے حصول كے لئے بے حد زبردست صبرو ضبط اور محنت و مشقّت سے كام لينا پڑتا ہے _ البتہ اگر مرد كو خدا كے نزديك اپنے عمل كى قدر و قيمت كا اندازہ ہوجائے اور وہ اپنے فرائض كو خوشى خوشى اور خوشنودى خدا كے تصور كو سامنے ركھ كر انجام دے تو اس كو كہيں زيادہ ثواب ملے گا _

اسلام ميں عورت و مرد دونوں كو حقوق عطا كئے گئے ہيں اور ان كى جسمانى ساخت كى مناسبت سے عادلانہ طور پر ان كے فرائض بھى مقرر كئے گئے ہيں _

ہم كو اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے اور اپنى مقدس كتاب قرآن مجيد بے حد عزيز ہے لہذا ہم ميں سے ہر مسلمان عورت و مرد كا فرض ہے كہ اسلام كى روشنى ميں اپنے حقوق و فرائض كو سمجھ كر اس پر عمل كريں اور اپنے مثال كردار كے ذريعہ اپنے مقدس دين كى تبليغ كريں _

زير نظر كتاب ايك مشہود و معروف عالم دين اور مصنف كى فكر كا نتيجہ ہے اس كتاب ميں بعض جملوں يا مفہوم كى تكرار كى گئي ہے ليكن اسے مصنف كے طرز نگارش كى خامى نہيں سمجھنا چاہئے بلكہ اس كا مقصد اس موضوع پر تاكيد كرنا ہے اور باربار مختلف طريقوں سے اسے دہراكر ذہن نشين كرانا ہے _ بعض جگہ طوالت سے كام ليا گيا ہے _ اس كا مقصد بھى يہى ہے كہ مثالوں كے ذريعہ بات اس طرح بيان كى جائے كہ دل ميں اتر جائے _

شاہى دور ميں ايرانى معاشرہ مغرب كى اندھى تقليد كے نتيجہ ميں گوناگوں برائيوں ميں ملوث تھا غير اسلامى افكار كى پيروى كے سبب اخلاقى بے راہ روى عام تھى عام طور پر خاندانى انس و محبت ، ايثارو قربانى كا فقدان تھا _ اسى لئے اس دور ميں طلاقوں كى تعداد بہت زيادہ تھى بلكہ اس سلسلے ميں ايران كا شمار دنيا كے ملكوں ميں چوتھى نمبر پر تھا _ خدا كا شكر ہے اسلامى انقلاب كى كاميابى كے بعد ايران ميں زندگى كے ہر شعبہ ميں نمايان تبديلياں نظر آتى ہيں _ كل كے ايران ميں جن چيزوں كو اعلى معيار كى نشانى سمجھا جاتا تھا آج ان چيزوں كو معيوب سمجھا جانے لگا ہے چونكہ پرانے آثار يہ لخت اور يكسر تو مٹ نہيں سكتے اس لئے

۶

طاغوتى دور كى سچى مثالوں اور واقعات سے مددلى گئي ہے تا كہ اس كى خامياں واضح ہوسكيں اور آئندہ نسليں ان سے محفوظ رہتے كى كوشش كريں _ خدا كا شكر ہے بر صغير ميں اسلامى معاشرہ ابھى تك ان بہت سى خاميوں سے پاك ہے جن كا اس كتاب ميں ذكر كيا گيا ہے اس لئے بہت سى باتيں عجيب و غريب معلوم ہوں گى _ ليكن دوسروں كى اندھى تقليد كا انجام ہميشہ بہت خراب ہوتاہے اور ہمارے يہاں بھى ماڈرن اور ترقى يافتہ بننے كا شوق بڑھتا جارہا ہے اور اپنے دينى و اسلامى اقدار كو فراموش كيا جارہاہے اور اگر خدا نخواستہ يہ شوق اسى شدّت سے جارى رہا تو وہ دن دور نہ ہوگا كہ ہمارا معاشرہ بھى فسق و فجور ميں گرفتار ہوجائے اور خاندانوں سے محبت و خلوص كا خاتمہ ہوجائے_

اس كتاب كا ترجمہ كرنے كا مقصد يہى ہے كہ ہمارے ملك ميں ناسمجھى اور ناتجربہ كارى كى وجہ سے برباد ہونے والى زندگيوں كوتباہى سے بچايا جا سكے اور اس كے مطا لعہ كے ذريعہ خاندانوں كى اصلاح ہو _ بہتر ہے كہ شادى سے پہلے لڑكے اور لڑكى كو اس كا مطالعہ كرنے كى ترغيب دلائي جائے _ جن نوجواں جو روں نے نئي زندگى ميں قدم ركھا ہے ، اس كتاب كا مطالعہ كركے شروع سے ہى اپنے حالات اور اخلاق كو سنوارنے كى كوشش كريں _ جن ميں بيويوں كى زندگياں نصف گزر چكى ہيں وہ بھى اس كتاب كا مطالعہ كركے اپنے اصلاح كركے اپنے خاندان اور نئي نسل كو تباہى و بربادى سے بچا سكتے ہيں _ مثل مشہور ہے :'' صبح كا بھولا اگر شام كو گھرواپس آجائے تو اسے بھولا نہيں كہتے _''

بہر حال ميرے خيال ميں زير نظر كتاب معاشروں كى اصلاح كے لئے كافى كارآمد اور مفيد ثابت ہوسكتى ہے _ اپنى قوم و ملت كى سربلندى و كاميابى كى آرزو اور دعاؤں كے ساتھ _

والسلام عليكم و رحمة اللہ و بركاتہ

عندليب زہرا موسى كاموں پوري

۷

پيش لفظ

ہر لڑكے اور لڑكى ، سن بلوغ كو پہونچنے كے بعد سب سے بڑى آرزو يہ ہوتى كہ وہ شادى كريں اور شادى كے ذريعہ اپنى مشرتكہ زندگى كى اساس پر زيادہ سے زيادہ استقلال و آزادى حاصل كريں اور ايك مونس و غمخوار اور ہمدم و ہمراز پاليں _ ازدواجى زندگى كو زندگى كا نقطہ عروج اور خوش نصيبى كا آغاز سمجھا جاتا ہے اسى لئے شادى كا جشن منايا جاتا ہے _ عورت كو مرد كے لئے پيدا كيا گيا ہے اور مرد كو عورت كيلئے جو مقناطيس كى طرح ايك دوسرے كو اپنے ميں جذب كرليتے ہيں _ شادى اور مشتركہ زندگى كے ذريعہ خاندان كى تشكيل ايك فطرى خواہش ہے جو انسان كى سرشت ميں ركھى گئي ہے _ اور يہ چيز خود ، خداوند عالم كى عطا كردہ نعمتوں ميں سے ايك عظيم نعمت ہے _

يقينا خاندان كے نرم و گرم ماحول كے علاوہ وہ كون سى جگہ ہوسكتى ہے جو جوانوں كے لئے ايك قابل اطمينان پناہ گاہ كى حيثيت ركھتى ہو_ يہ اپنے خاندان سے تعلق خاطر اور محبت ہى تو ہوتى ہے جو جوانوں كو پراگندہ افكار اور ذہنى پريشانيوں سے نجات دلاتى ہے _ يہيں پر انھيں ايك وفادار مہربان ساتھى و غمگسار مل سكتا ہے جو مصيبتوں اور پريشانيوں ميں ان سے اظہار ہمدردى كرے اور ان كے غم ميں برابر كا شريك ہو _

ازدواج كا مقدس پيمان ايك ايك آسمانى رشتہ ہے جودلوں كو آپس ميں جوڑ ديتاہے _ پريشان دلوں كو سكوں بخشتا ہے _ پراگندہ افكار كا رخ ايك مقصد كى جانب موڑديتا ہے _'' گھر '' عشق و محبت كا گہوارہ، انس و مودت كا مركز اوربہترين پناہ گاہ ہوتا ہے _

خدائے بزرگ و برتر، قرآن مجيد ميں اس عظيم نعمت كا ذكر كرتے ہوئے فرماتا ہے :

۸

'' خدا كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى يہ ہے كہ اس نے تمہارے ہى جنس ميں سے تمہارے لئے شريك زندگي(ہمسر) پيدا كى تا كہ ان سے انس پيدا كرو اور ان كے ساتھ آرام و چين سے رہو اور تمہارے درميان الفت و محبت پيدا كى _ اس سلسلے ميں غور كرنے والوں كے لئے بہت سى نشانياں موجود ہيں _(۱)

پيغمبر اسلام (ص) فرماتے ہيں :'' ايسا مرد ، جو بيوى نہيں ركھتا ، مسكين اور بيچارہ ہے خواہ وہ دولتمند ہى كيوں نہ ہو _ اسى طرح بے شوہر كى عورت مسكين اور بيجارى ہے اگر چہ دولتمند ہى كيوں نہ ہو ''_(۲)

حضرت امام جعفر صادق (ع) نے ايك شخص سے پوچھا _ تمہارى بيوى ہے ؟ اس نے كہا نہيں _ آپ نے فرمايا ميں پسند نہيں كرتا كہ ايك شب بھى بغير بيوى كے رہوں چاہے اس كے بدلہ ميں سارى دنيا كى دولت كا مالك ہى كيوں نہ بن جاؤں_(۳)

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا ارشاد گرامى ہے : اسلام ميں كوئي چيز ايسى نہيں جو خدا كے نزديك شادى سے زيادہ عزيز اور محبوب ہو _(۴) جى ہاں خداوند مہربان نے انسان كو ايك عظيم اور گران بہا نعمت عطا كى ہے ليكن افسوس صد افسوس كہ اس عظيم نعمت كى قدر نہيں كى جاتى اور اكثر اوقات نادانى اور خود غرضى كے سبب، مہر و محبت كا يہ مركز ، ايك تاريك زندان بلكہ دہكتے ہوئے جہنّم ميں تبديل ہوجاتا ہے _

انسان كى جہالت اور نادانى كا نتيجہ ہوتا ہے كہ گھر كى رونق اور خاندان كا سكون و چين ايك اذيت ناك قيد خانے ميں تبديل ہوجاتا ہے اور خاندان كے افراد مجبور ہوجاتے ہيں كہ يا تو آخر عمر تك اس تاريك زندان ميں زندگى گزاريں يا پھر شادى كے مقدس بندھں كو توڑڈاليں _

ہاں اگر مياں بيوى اپنے اپنے حقوق و فرائض سے پورى طرح واقف ہوں اور اس پرعمل كريں تو گھر ، كا ماحول بہشت برين كى مانند صاف ستھرا اور پاكيزہ ہوگا اور اگر آپس ميں اختلاف اور باہمى كشمكش پيدا ہوجائے تو گھر ، ايك حقيقى قيدخانہ بن جائے گا _

خاندان ميں اختلاف كے مختلف اسباب و عوامل ہوتے ہيں مثلاً مالى وجوہات ، مياں بيوى كى خاندانى ، تربيت ، زندگى ، كا ماحول ، شوہر يا بيوى كے ماں باپ يا دوسرے عزيزوں كى بيجامداخلت ، اور اسى طرح

۹

كى دوسرى بہت سى وجوہات _

ليكن منصف كا عقيدہ ہے كہ خاندانى اختلافات اور آپسى كشيدگى كا سب سے بڑا سبب، مياں بيوى كى ازدواجى زندگى كے فرائض سے عدم واقفيت اور خاندان كى مشترك زندگى كے لئے پہلے سے آمادہ نہ ہوتا ہے

كسى بھى ذمہ دارى كو سنبھالنے سے پہلے اور كسى كام كو انجام دينے كے لئے تيارى اور مہارت حاصل كرنا ايك بنيادى شرط مانى جاتى ہے _ اور جو شخص كافى معلومات نہ ركھتا ہو اور پہلے سے آمادہ نہ ہو وہ كسى بھى كام كو بخوبى انجام نہيں دے سكتا يہى وجہ ہے كہ كسى ذمہ دارى كو سنبھالنے سے پہلے اس كے لئے ٹرنينگ حاصل كرنى ہوتى ہے _

شادى اور مشترك زندگى كى بنياد قائم كرنے كے لئے بھى پہلے سے كافى معلومات ، تيارى اور مہارت حاصل كرنا ضرورى ہے _ لڑكى كو چاہئے كى اپنى بيوى كى طرز فكر ، اس كى پسند و ناپسند ، اس كى جذبات و خواہشات اور ازدواجى زندگى كى مشكلات اور اس كے حل نيز آداب و معاشرت كے متعلق كافى معلومات حاصل كرے _ اس بات پر توجہ ركھنى چاہئے كہ بيوى لانے كا مطلب كوئي چيز خريد نا يا نوكرانى لانا نہيں ہے بلكہ اس كا مطلب وفادارى ، صداقت ، محبت اور تعاون كا عہد كرنے اور خاندان كى مشترك زندگى ميں قدم ركھنا ہے لڑكى كو بھى چاہئے كہ اپنے شوہر كے طرز فكر ، اس كى اندرونى خواہشات و جذبات اور پسند و ناپسند كو مد نظر ركھے اور سمجھے كہ شادى كا مطلب نوكر حاصل كرنا اور بغير كسى قيد و شرط كے تمام خواہشات و آرزؤوں كا پورا ہوجانا نہيں ہے _ بلكہ شادى كا مقصد آپس ميں ايك دوسرے كے ساتھ تعاون اور زندگى كى جد و جہد ميں برابر كا شريك ہونا ہے اور اس مقدس مقصد كے حصول كے لئے عفو و درگذر اور ايثار و قربانى جيسى خصوصيات اور آپسى سمجھوتے كا ہونا بہت ضرورى بلكہ لازمى ہے _ چونكہ شادى كے ذريعہ لڑكے اور لڑكى كى قسمت كا فيصلہ ہوتاہے لہذا ان كے لئے ضرورى معلومات حاصل كرنا اور اخلاقى طور پر آمادہ رہنا نہايت ضرورى ہے _ مگرافسوس ہمارے معاشرے ميں اس اہم موضوع كى نسبت غفلت برتى جاتى ہے _

جہيز مہر ، خوبصورتى اور شخصيت كے مسئلہ پر والدين كا فى توجہ ديتے ہيں _ مگر لڑكے اور لڑكى كے لئے خاندانى زندگى كو تشكيل ديتے نيز ايك دوسرے كے حقوق كو بخوبى ادا كرنے كے لئے

۱۰

پہلے سے آمادگى كو شادى كى اصل شرط قرار نہيں ديتے _

لڑكى كى شادى كرديتے ہيں ليكن ايسى حالت ميں كہ وہ امور خانہ دارى اور شوہر دارى كے آداب و طور طريقوں سے نا آشنا ہوتى ہے لڑكے كے لئے بيوى فراہم كرديتے ہيں اگر چہ وہ ''زن داري'' اور خاندان كى سرپرستى كے اصولوں سے ناواقف ہوتا ہے _

جب دونا تجربہ كا نوجوان زندگى كے ميدان ميں قدم ركھتے ہيں تو اپنى كم علمى اور ناسمجھى كى بناپر سينكڑوں قسم كى مشكلات سے دوچار ہوجاتے ہيں _ اختلافات ، تلخياں ، لڑائي اور جھگڑے شروع ہوجاتے ہيں _ ماں باپ كى مداخلت بھى ، چونكہ عقل و تدبر كى روسے نہيں ہوتى ، لہذا ان مشكلات كو حل كرنے كے بجائے ، اختلافات كو اور زيادہ بڑھانے اور اس ميں اضافہ كرنے كا سبب بنتى ہے _

شادى كے شروع كادور ايك پر آشوب اور بحرانى دورہوتا ہے _ اسى نازك دور ميں بہت سى زندگياں اطلاق كے ذريعہ تباہ و برباد ہوجاتى ہيں بعض ايسے بھى ہوتے ہيں جو شادى كے بندھن كو توڑتے تو نہيں مگر ان كى زندگيوں ميں آخر عمر تك كشمكش اور زور آزمائي كا سلسلہ جارى رہتا ہے اوراس '' اختيارى قيدخانے'' كے عذاب و مصيبت كو طلاق پر ترجيح ديتے ہيں _ بعض خاندان كچھ دن بعد ، جلدہى يا دير ميں ايك دوسرے كے اخلاق و كردار سے واقف ہوجائے ہيں اور ان كى زندگيوں ميں ايك حد تك سكون او ر ٹھہراؤ پيدا ہوجاتا ہے _

كاش ايسے لڑكے اور لڑكيوں كے لئے جو شادى كى منزل ميں قدم ركھنا چاہتے ہيں ، ازدواجى زندگى كے آداب اور طور طريقے سكھانے كے نام سے كچھ تربيتى ادارے قائم كئے جائيں اور وہاں ان كى صحيح طريقے سے تربيت كى جائے اور جب وہ وہاں كے كورس كو پورا كرليں اور مشتركہ خاندانى زندگى گزارنے كيلئے تيار ہوجائيں تو انھيں با صلاحيت ہونے كا سرٹيفكيٹ ديا جائے اس كے بعد وہ شادى كريں ( خدا كرے جلد وہ دن آئے ) _

۱۱

چونكہ مصنف كى نظر ميں يہ بہت اہم سماجى مسئلہ ہے اور وہ اس كى اہميت كو شدت سے محسوس كرتا ہے _ اسى لئے اس نے يہ كتاب تصنيف كى ہے _ اس كتاب ميں ازدواجى زندگى كى مشكلات كاجائزہ ليا گياہے اور قرآں مجيد ، پيغمبر اسلام و ائمہ عليہم السلام كى احاديث سے استفادہ كيا گيا ہے _ كہيں پر ذاتى تجربوں اور روزمرہ رونما ہونے والے واقعات كے اعداد و شمار كى مدد سے اہم نكتوں كى طرف توجہ دلائي گئي ہے او ر ضرورى ہدايات دى گئي ہيں _

مصنف اس بات كا دعوى نہيں كرتا كہ اس كتاب كو پڑھنے سے زندگى كى تمام مشكلات حل ہوجائيں گے بلا شبہ زندگى ميں اور بہت سى مشكلات اور اس كے گوناگوں اسباب ہوتے ہيں ليكن يہ اميد كرتا ہے كہ اس كتاب كے مطالعہ سے اور اس پرع مل كركے ، بہت سى خاندانى ، الجھنوں اورپريشانيوں كا سدباب كيا جا سكتا ہے _

ملت كے خيرخواہوں اور دانشوروں سے توقع كى جاتى ہے كہ اس موضوع كى اہميت و ضرورت كو محسوس كريں گے اور اپنے مؤثر اور سنجيدہ اقدامات كے ذريعہ خاندانوں كو پريشانيوں اور بدبختى سے نجات دلائيں گے _ ( انشاء اللہ)

اس كتاب ميں عورت اور مرد دونوں كے فرائض كو الگ الگ بيان كيا گيا ہے _ يہ كتاب دو حصوں پر مشتمل ہے _ پہلے حصہ ميں شوہر كے لئے بيوى كے فرائض كے موضوع پر بحث كى گئي ہے اور دوسرے حصے ميں بيوى كى نسبت شوہر كے فرائض پر روشنى ڈالى گئي ہے _ ليكن شوہر و بيوى دونوں كيلئے ضرورى ہے كہ دونوں حصوں كا مطالعہ كريں تا كہ اپنے مشتركہ فرائض سے واقفيت حاصل كريں اور اپنے حالات ميں بہترى پيدا كريں _

ممكن ہے جب آپ كتاب كے كسى حصے كو پڑھيں تو خيال ہو كہ ايك طرف جانبدارى سے كام ليا گيا ہے اور دوسرے كے فرائض كو بيان كرنے كے سلسلے ميں غفلت برتى گئي ہے _ ليكن ايسا نہيں ہے _ جب آپ دوسرے حصہ كو بھى پڑھيں گے تو اس بات كى تصديق كريں گے كہ كسى قسم كا تعصب نہيں برتا گيا ہے بلكہ زن و شوہر دونوں كے حقوق و فرائض كے سلسلے ميں غير جانبدارى سے كام ليا گيا ہے _

قم _ حوزہ علميہ_ ابراہيم اميني تيرماہ سنہ ۱۳۵۴ ہجرى شمسى _جولائي سنہ ۱۹۷۵ ئ

۱۲

پہلا حصّہ

خواتين كے فرائض

شادى كا مقصد

شادى انسان كى ايك فطرى ضرورت ہے اور اس كے بہت سے فائدے ہيں جن ميں سے اہم يہ ہيں:

۱_ بے مقصد گھومنے اور عدم تحفظ كے احساس سے نجات اور خاندان كى تشكيل

غير شادى شدہ لڑكا اور لڑكى اس كبوتر كى مانند ہوتے ہيں جس كا كوئي آشيانہ نہيں ہوتا اور شادى كے ذريعہ وہ ايك گھڑ ٹھكانہ اور پناہ گاہ حاصل كرليتے ہيں _ زندگى كا ساتھى ، مونس و غمخوار ، محرم راز ، محافظ اور مددگار پاليتے ہيں _

۲_ جنسى خواہشات كى تسكين

جنسى خواہش، انسان كے وجود كى ايك بہت اہم اور زبردست خواہش ہوتى ہے اسى لئے ايك ساتھى كے وجود كى ضرورت ہوتى ہے كہ سكون و اطمينان كے ساتھ ضرورت كے وقت اس كے وجود سے فائدہ اٹھائے اور لذت اصل كرے _ جنسى خواہشات كى صحيح طريقے سے تكميل ہونى چاہئے كيونكہ يہ ايك فطرى ضرورت ہے _ ورنہ ممكن ہے اس كے سماجى ، جسمانى اور نفسياتى طور پر برے نتائج نكليں _ جو لوگ شادى سے بھاگتے ہيں عموماً ايسے لوگ نفساتى اور جسمانى بيماريوں ميں مبتلا ہوتے ہيں _

۳_ توليد و افزائشے نسل

شادى كے ذريعہ انسان اولاد پيدا كرتا ہے _ بچے كا وجود شادى كا ثمرہ ہوتاہے اور خاندان كى بنياد كو مستحكم كرنے نيز مياں بيوى كے تعلقات كو خوشگوارى اور پائدار بنانے كا سبب بنتا ہے _ يہى وجہ ہے كہ قرآن او راحاديث ميں شادى كے مسئلہ پر بہت زيادہ تاكيد كى گئي ہے مثال كے طور پر _خداوند عالم قرآن مجيد

۱۳

ميں فرماتا ہے ، خدا كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى يہ (بھي) ہے كہ اس نے تمہارے لئے شريك زندگى بنائي تا كہ تم ان سے انس پيدا كرو_(۵) رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں: اسلام ميں زناشوئي (شادي) سے بہتر كوئي بنياد نہيں ڈالى گئي ہے _(۶)

امير المومنين عليہ السلام فرماتے ہيں _ شادى كرو كہ يہ رسول خدا (ص) كى سنت ہے _

پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم كا ارشاد ہے : جو شخص چاہتا ہے كہ ميرى سنت كى پيروى كرے اسے چاہئے شادى كرلے _ شادى كے وسيلے سے اولاد پيدا كرے ( اور مسلمانوں كى تعداد ميں اضافہ كرے ) تا كہ قيامت ميں ميرى امت كى تعداد ، دوسرى امتوں سے زيادہ ہو _(۷)

امام رضا عليہ السلام فرماتے ہيں : انسان كے لئے نيك اور شائستہ شريك زندگى سے بڑھ كر اور كوئي سودمند چيز نہيں _ ايسى بيوى كہ جب اس كى طرف نگاہ كرے تو اسے خوشى و شادمانى حاصل ہو _ اس كى غير موجودگى ميں اپنے نفس اور اس كے ماں كى حفاظت كرے _(۸)

مذكورہ باتيں ، شادى كے ذريعہ حاصل كئے جانے والے دنيوى اور حيوانى فوائد و منافع كے متعلق تھيں كہ ان ميں سے بعض سے حيوانات بھى بہرہ مند ہوتے ہيں _ البتہ اس قسم كے مفادات كوانسان كى ازدواجى زندگى كا (اس اعتبار سے كہ وہ انسان ہے) اصل مقصد قرار نہيں ديا جا سكتا _

انسان اس دنيا ميں اس لئے نہيں آيا ہے كہ وہ ايك مدت تك كھائے ، پيئے ، سوئے ، عيش كرے ، لذتيں اٹھائے اور پھر مرجائے اور نابود ہوجائے _ انسان كا مرتبہ ان تمام باتوں سے كہيں اعلى اورارفع ہے _ انسان اس دنيا ميں اس لئے آيا ہے تا كہ علم عمل اور اعلى اخلاق كے ذريعہ اپنے نفس كى تربيت كرے اور انسانيت كى راہ مستقيم اور كمال كے مدراج كو طے كرے اور اس طرح پروردگار عالم كے قرب حاصل كرسكے _

انسان ايك ايسى اعلى و برتر مخلوق ہے جو تہذيب و تزكيہ نفس كے ذريعہ برائيوں سے اجتناب كركے اپنے فضائل اور بلند اخلاق نيز نيك كام انجام دے كر ايسے ارفع مقام پر پہونچ سكتا ہے جہاں

۱۴

فرشتوں كى بھى رسائي ممكن نہيں _

انسان ايك جاودان مخلوق ہے اور اس دنيا ميں اس كے آنے كا مقصد يہ ہے كہ پيغمبر وں كى ہدايت و رہنمائي كے ذريعہ دين كے اصول و قوانين كے مطابق عمل كركرے اپنے لئے دين و دنيا كى سعادت فراہم كرے اور جہان آخرت ميں پروردگار عالم كى رحمت كے سائے ميں خوشى و آرام كے ساتھ ابدى زندگى گزارے لہذا انسان كى ازدواجى زندگى كے اصل مقصد كو اسى پس منظر ميں تلاش كرنا چاہئے _ ايك ديندار انسان كے نزديك شادى كا اصل مقصد يہ ہے كہ وہ اپنے شريك زندگى كے اشتراك و تعاون سے اپنے نفس كو گناہوں ، برائيوں اور بداخلاقيوں سے محفوظ ركھے اور صالح اعمال اور نيك و پسنديدہ اخلاق و كردار كے ساتھ اپنے نفس كى تربيت كرتے تا كہ انسانيت كے بلند مقام پر پہونچ جائے اور خدا كا تقرب حاصل كرلے _ اور ايسے اعلى مقصد كے حصول كے لئے شائستہ ، نيك اور موزوں شريك زندگى كى ضرورت ہوتى ہے _

دو مومن انسان جو شادى كے ذريعہ خاندان كى تشكيل كرتے ہيں انس و محبت كے سائے ميں سكون و اطمينان كے ساتھ اپنى جائز خواہشات سے بہرہ مندہوسكتے ہيں اور اس طرح ناجائز تعلقات قائم كرنے ، فساد وتباہى كے مراكز كا رخ كرنے نيز خاندانوں كو تباہ كردينے والى شب باشيوں كے شرسے محفوظ ركھنے كے اسباب مہيا كئے جا سكتے ہيں _

يہى سبب ہے كہ پيغمبر اكرم او رائمہ اطہار عليہم السلام نے ازدوج يعنى شادى پر بہت زيادہ تاكيد فرمائي ہے _ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ہيں : جو شخص شادى كرتا ہے اپنے آدھے دين كى حفاظت كے اسباب مہيا كرليتا ہے _(۹)

امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : شادى شدہ انسان كى دو ركعت نماز ، غير شادى شدہ انسان كى ستر ركعت كى نمازوں سے زيادہ افضل ہے _(۱۰)

ديندار اور مناسب شريك زندگى (خواہ مرد ہو يا عورت) كا وجود ، فرائض كى ادائيگى اور واجبات

۱۵

و مستحبات پر عمل كرنے نيز محرمات و مكروہات سے اجتناب كرنے ، نيكيوں كو اختيار كرنے اور برائيوں سے پرہيز كرنے كے سلسلہ ميں بہت اہم كردار ادا كرتا ہے _

اگر شوہر و بيوى دونوں ديندار ہوں اور تزكيہ نفس سے بہرہ مند ہوں تو اس دشوار گزار راہ كو طے كنرے ميں نہ صرف يہ كہ كوئي ركاوٹ نہيں ہوگى بلكہ ايك دوسرے كے معاون و مددگار ثابت ہوں گے _ خدا كى راہ ميں جہاد كرنے والا ايك سپاہى كيا اپنى شريك زندگى كے تعاون اور رضامندى كے بغير ميدان جنگ ميں اچھى طرف لڑسكتاہے اور دليرانہ كارنامے انجام دے سكتا ہے ؟ كيا كوئي انسان اپنى شريك حيات كى موافقت كے بغير روزى ، علم اور مال و دولت كے حصول ميں تمام شرعى اوراخلاقى پہلوؤں كا لحاظ ركھ سكتا ہے ؟ اسراف اور فضول خرچيوں سے بچ سكتا ہے؟ اپنے ضرورى اخراجات كے علاوہ رقم كو نيك كاموں ميںخرچ كرسكتا ہے؟

مومن اور ديندار شريك زندگى اپنے ساتھى كو نيكى اور اچھائيوں كى ترغيب دلاتے ہيں اور لاابالى اور بداخلاق، اپنے شريك زندگى كو برائيوں اور بداخلاقيوں كى طرف راغب كرتے ہيں _ اور انسانيت كے مقدس مقصد سے دور كرديتے ہيں _ اسى سبب سے مرد اور عورت دونوں كے لئے كہا گيا ہے كہ شريك حيات كے انتخاب كے وقت ، ايمان، ديندارى اور اخلاق كو بنيادى شرط قرار ديں _

رسول خداصلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا ارشاد ہے كہ خداوند عالم نے فرمايا: جب ميں ارادہ كرتا ہوں كہ دنيا و آخرت كى تمام خوبياں كسى مسلمان شخص كے لئے جمع كردوں تو اس كو مطيع قلب، ذكر كر نيوالى زبان اور مصيبتوں پر صبر كرنے والا بدن عطا كرتا ہوں _ اور اس كو ايسى مومن بيوى ديتا ہوں كہ جب بھى اس كى طرف ديكھے اسے خوش و مسرور كردے اور اس كى غير موجودگى ميں اپنے نفس اور اس كے مال كى حفاظت كرنيوالى ہو'' _(۱۱)

ايك شخص نے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں آكر عرض كيا كہ ميرى بيوى ، جب ميں گھر ميں داخل ہوتا ہوں تو ميرے استقبال كے لئے آتى ہے ، جب گھر سے باہر جاتا ہوں نے مجھے رخصت

۱۶

كرتى ہے _ جب مجھے رنجيدہ ديكھتى ہے تو ميرى دلجوئي كرتى ہے اور كہتى ہے اگرتم رزق و روزى كے متعلق فكرمند ہوتو رنجيدہ نہ ہو كہ روزى كا ضامن تو خدا ہے اور اگر آخرت كے امور كے بارے ميں سوچ رہے ہو تو خدا تمہارى فكر و كوشش اور ہمت ميں اوراضافہ فكرے _ رسول خدا (ص) نے فرمايا: اس دنيا ميں خدا كچھ خاص اور مقرب بندے ہيں اور يہ عورت بھى خدا كے ان خاص بندوں ميں سے ہے_ ايسى بيوى ايك شہيد كے نصف ثواب سے بہرہ مند ہوگى _(۱۲)

امير المومنين حضر ت على (ع) كے پيش نظر بھى يہى اعلى مقصد تھا كہ حضرت زہرا عليہا السلام كے بارے ميں فرمايا كہ وہ اطاعت خدا كى راہ ميں بہترين معاون و مددگار ہيں _

تاريخ ميں ہے كہ رسول خدا (ص) ، حضرت على (ع) اور جناب زہرا(ع) كى شادى كے بعد مبارك دينے اور احوال پرسى كى غرض سے ان كے گھر تشريف لے گئے _ حضرت على (ع) سے پوچھا : اپنى شريك زندگى كو تم نے كيسا پايا؟

كہا : خدا كى اطاعت كے لئے ، زہرا كو ميں نے بہترين مددگار پايا

اس كے بعد جناب فاطمہ زہرا (ع) سے پوچھا : تم نے اپنے شوہر كو كيسا پايا؟

كہا : بہترين شوہر _(۱۳)

امير المومنين عليہ السلام نے اس مختصر سے جملہ كے ذريعہ ، اسلام كى شائستہ اور مثالى خاتون كا تعارف بھى كرايا ، اور ازدواجى زندگى كے بنيادى اور اہم مقصد كو بھى بيان فرماديا_

۱۷

''شوہر داري'' يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال

بيوى بننا كوئي معمولى اور آسان كام نہيں كہ جسے ہر نادان اور ناہل لڑكى بخوبى بنھا سكے _ بلكہ اس كے لئے سمجھدارى ، ذوق و سليقہ اور ايك خاص دانشمندى و ہوشيارى كى ضرورت ہوتى ہے _ جو عورت اپنى شوہر كے دل پر حكومت كرنا چاہتى ہے اسے چاہئے كہ اس كى خوشى و مرضى كے اسباب فراہم كرنے اس كے اخلاق و كردار اور طرز سلوك پر توجہ دے اور اسے اچھے كاموں كى ترغيب دلائے ، اور برے كاموں سے روكے _ اس كى صحت و سلامتى اور اس كے كھانے پينے كا خيال ركھے اور اسے ايك باعزت ، محبوب اور مہربان شوہر بنانے كى كوشش كرے تا كہ وہ اس كے خاندان كا بہترين سرپرست اور اس كے بچوّں كا بہتريں باپ اور مربى ثابت ہو _ خداوند عالم نے عورت كو ايك غير معمولى قدر و صلاحيت عطا فرمائي ہے _ خاندان كى سعادت و خوش بختى اس كے ہاتھ ميں ہوتى ہے اور خاندان كى بدبختى بھى اس كے ہاتھ ميں ہوتى ہے _

عورت چاہے تو اپنے گھر كو جنت كا نمونہ بنا سكتى ہے اور چاہے تو اسے جہنّم ميں بھى تبديل كرسكتى ہے وہ اپنے شوہر كو ترقى كى بلنديوں پر بھى پہونچا سكتى ہے _ اور تنزلى كى طرف بھى لے جا سكتى ہے _ عورت اگر ''شوہر داري'' كے فن سے بخوبى واقف ہو اور خدا نے اس كے لئے جو فرائض مقرر فرمائے ہيں انھيں پورا كرے تو ايك عام مرد كو بلكہ ايك نہايت معمولى اور نااہل مرد كو ايك لائق اور باصلاحيت شوہر ميں تبديل كر سكتى ہے _

ايك دانشور لكھتا ہے : عورت ايك عجيب و غريب طاقت كى مالك ہوتى ہے وہ قضا و قدر كى مانند ہے _ وہ جو چاہے وہى بن سكتى ہے _(۱۴)

اسمايلز كہتا ہے : اگر كسى فقير اور بے مايہ شخص كے گھر ميں خوش اخلاق اور متقى و نيك عورت

۱۸

موجود ہو تو وہ اس گھر كو آسائشے و فضيلت اور خوش نصيبى كى جگہ بناديتى ہے _

نيپولين كہتا ہے :'' اگر كسى قوم كى ترقى و تمدن كا اندازہ لگانا ہوتو اس قوم كى خواتين كو ديكھو ''_

بالزاك كہتا ہے : نيك و پاكدامن عورت كے بغير، گھر ايك قبرستان كى مانند ہے _

اسلام ميں بيوى كے فرائض كو اس قدر اہميت د ى گئي ہے كہ اس كو خدا كى راہ ميں جہاد سے تعبير كيا گيا ہے _ حضرت على (ع) فرماتے ہيں : عورت كا جہاد يہى ہے كہ وہ بحيثيت بوى كے اپنے فرائض كو بخوبى انجام دے _(۱۵)

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ اسلام كى عظمت و ترقى كے لئے _ اسلامى ممالك كا دفاع كرنے اور سماج ميں عدل و انصاف قائم كرنے كے لئے خدا كى راہ ميں جہاد ، ايك بہت بڑى عبادت شمار كيا جاتا ہے يہ بات بخوبى واضح ہوجاتى ہے كہ عورت كے لئے شوہر كى ديكھ بھال كرنا اور اپنے فرائض كو انجام دينا كتنا اہم كام ہے _

رسول خدا(ص) فرماتے ہيں : جس عورت كو ايسى حالت ميں موت آجائے كہ اس كا شوہر اس سے راضى و خوش ہو ، اسے بہشت نصيب ہوگى _(۱۶)

حضرت رسول خدا (ص) كا يہ بھى ارشاد ہے كہ: عورت ، خدا كے حق كو ادا نہيں كرسكتى جب كہ وہ بحيثيت شريك زندگى اپنے فرائض كو بخوبى ادا نہ كرے _(۱۷)

محبت كا اظہار كيجئے

ہر انسان و دوستى كا بھوكا ہوتاہے _ اس كى خواہش ہوتى ہے كہ دوسرے اس سے محبت كريں _ انسان كادل محبت كى طاقت سے زندہ رہتا ہے _ اگر كسى كو يہ معلوم ہوجائے كہ اسے كوئي محبوب نہيں ركھتا تو ايسا انسان خود كو تنہا و بيكس محسوس كرتاہے _ ہميشہ غمگين اور پمردہ رہتا ہے _

خاتون محترم آپ كے شوہر كا دل بھى اس خواہش كے احساس سے خالى نہيں ہے وہ بھي

۱۹

عشق و محبت كا بھوكا ہے _ پہلے وہ اپنے ماں باپ كى محبت سے بہرہ ور تھا ليكن جب سے اس نے آپ سے رشتہ پيمان وفا باندھا ہے ، اس وقت سے اپنے آپ كو آپ كے اختيار ميں ديديا ہے اب وہ آپ سے توقع ركھتا ہے كہ اس مہر و محبت كى تلافى كريں اور اسے دل كى گہرائيوں سے چاہيں _ اس نے تمام تعلقات كو منقطع كركے آپ اسے رشتہ محبت و دوستى استوار كيا ہے اور چاہتا ہے كہ آپ اپنا بھرپور پيار و محبت اس پرنچھاوركريں وہ شب وروز آپ كے آرام و آسائشے كے لئے زحمت اٹھاتا ہے اور اپنى محنت و مشقت كے ما حصل كو اخلاص كے ساتھ آپ كے اوپر نچھا وركرديتاہے _ آپ ہى اس كى شريك زندگى _ دائمى مونس اور حقيقى غمخوار ہيں حتى كہ آپ كے ماں باپ سے زيادہ اس كو آپ كى خوشى و سعادت كا خيال رہتا ہے _ اس كى قدر پہچانئے اور صميم قلب اس سے محبت كيجئے اگر آپ اس كو عزيز ركھيں گى تو وہ بھى آپ پر اپنى محبت نچھاور كرے گا كيونكہ محبت دو طرفہ ہوتى ہے اور دل كو دل سے راہ ہوتى ہے _

محبت و مہربانى كے اظہار ميں واقعاً ايك عجيب و غريب تاثير ہوتى ہے _ ايك بيس سالہ لڑكا جو ديہات سے پڑھنے كے لئے تہران آيا تھا اپنى ۳۹ سالہ بيوہ مالك مكان كا عاشق ہوگيا كيونكہ اس خاتون نے اپنى مہربانيوں كے ذريعہ اس كے دل ميں ماں كى جگہ لے لى تھى اور ماں سے دورى كے خلاء كو پر كرديا تھا _(۱۸) اگر محبت دو طرفہ ہو تو ازدواجى زندگى كى بنياديں مضبوط ہوجاتى ہيں اور جدائي كا خطرہ باقى نہيں رہتا _

اس غرور ميں نہ رہئے كہ ميرے شوہر نے مجھ پر محبت كى نگاہ كى ہے اور اس كا عشق ہميشہ قائم رہے گا كيونكہ ايسا عشق جو ايك نگاہ سے پيدا ہوتا ہے دوامى اور پائيدار نہيں ہوتا _ اگر آپ چاہتى ہين كہ اس كا عشق ہميشہ قائم رہے تو دائمى مہر و محبت كے رشتہ كى حفاظت كيجئے _ اگر آپ اپنے شوہر سے محبت كريں گى تو اس كا دل ہميشہ خوش و خرم اور شاداب رہے گا اپنے كام كاج ميں پورى دل جمعى كے ساتھ لگارہے گا اور زندگى ميں بھر پور دلچسپى لے گا اور ہر كام ميں كاميابى حاصل كرے گا _

۲۰