ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق0%

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 299

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 299
مشاہدے: 79163
ڈاؤنلوڈ: 4440

تبصرے:

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 299 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79163 / ڈاؤنلوڈ: 4440
سائز سائز سائز
ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

مؤلف:
اردو

زيادہ محبت كرنے والے ہوتے ہيں _

اصولى طور پر بيٹى كى پيدائشے ميں آخر بيوى كا كيا قصور ہے جو شوہر اس پر اعتراض كرتے ہيں اس ميں مياں بيوى دونوں ہى شريك ہيں _

ممكن ہے بيوى شوہر پر اعتراض كرے كہ لڑكى كيوں پيدا كى _ در حقيقت اس ميں قصور وار كوئي بھى نہيں ہے بلكہ يہ چيز تو خدا كى مرضى و مصلحت پر منحصر ہوتى ہے _ وہ جس كو چاہتا ہے لڑكى ديتا ہے اور جس كو چاہتا ہے لڑكا عطا كرتا ہے _ البتہ كچھ دانشوروں كا خيال ہے كہ لڑكے يا لڑكى كى پيدائشے حمل كے شروع كے دومہينوں ميں ماں كى غذاكى نوعيت پر منحصر ہے ان كا كہنا ہے كہ غذا كے مخصوص پروگرام كے تحت حسب ودلخواہ اولاد پيدا كى جا سكتى ہے _

لہذا جن لوگوں كى شديد خواہش ہے كہ بيٹا پيد اہو بہتر ہے كہ اس سلسلے ميں اس فن كے ماہر ين سے مشورہ كريں اور بلا سبب اپنى اور اپنى بيوى كى پريشانى اور ناراضگى كے اسباب فراہم نہ كريں _ ايك عقلمند اور روشن خيال انسان بيٹى كى پيدائشے كى خبر سن كر نہ صرف يہ كہ رنجيدہ نہيں ہوتا بلكہ خوشى و شادمانى كا اظہار كرتاہے _ اس خيال سے كہ دوسرے اور اس كى بيوى يہ نہ سوچيں كہ بيٹى كى پيدائشے پر اسے افسوس ہے ، معمول سے كچھ زيادہ ہى خوشى ظاہر كرتا ہے _ بيوى كى نسبت زيادہ نوازش ومحبت سے پيش آتا ہے اور امكان ميں ہوتو اس كوتحفہ پيش كرتا ہے _ اپنى نومولود بچى كى ولادت پر جشن مناتا ہے _ اگر بيوى بيٹى كى پيدائشے سے رنجيدہ ہے تو اس كو تسلى ديتا ہے اور دليل و ثبوت كے ذريعہ واضح كرتا ہے كہ بيٹے اور بيٹى ميں كوئي فرق نہيں _ خود بھى كبھى بيٹوں كو بيٹيوں پر ترجيح نہيں ديتا او راس طرح عہد جاہليت كے فرسودہ اور فضول خيالات سے مقابلہ كرتا ہے _

ايک شخص رسول خدا (ص) کے پاس بيئها تها که اس کوبيئي کي پيداکش کي خبر ملي - يه خبر سن کر اس کے چهرهے کارنگ متغير هوگيا - پيغمبر اکرم (ص) نے پوچها - تمهارے چهرے کي رنگت کيوں بدل بدل گئي ؟ عرض کيا جب ميں گهر سے چلاتها اس دقت سيري بيوئي و ضع خمل کمي حالت بس تهي اب مجھے اطلاع ملى ہے كہ لڑكى پيدا ہوئي ہے _ رسول خدا (ص) نے فرمايا : زمين اس كو جگہ دے گى اور آسمان اس كے سرپر سايہ كرے گا _ اور خداوند عالم اس كو روزى عطاكرے گا _ وہ پھول كى مانند ہے كہ جس كے وجود سے تم كو فائدہ ہوگا _(۲۸۳)

۲۶۱

زمانہ حمل اورزچگي

زمانہ حمل بہت حساس اورسرنوشت ساز دور ہوتا ہے _ ماں كى غذا اور اس كى جسمانى حركات و نفسياتى حالات خود اس كے مستقبل پر اور اس كے رحم ميں پرورش پانے والے بچے ، دونوں پر بہت زيادہ اثر ڈالتے ہيں _

بچے كى سلامتى يابيمارى ، طاقت ياكمزوري، خوبصورتى يا بد صورتى ، خوش اخلاقى يا بداخلاقى اور كسى حد تك ذہانت و عقلمندى اسى زمانے ميں جبلكہ وہ رحم مادر ميں ہوتا ہے تشكيل پاتى ہے _

ايك دانشور لكھتا ہے : بچے كے والدين كے ہاتھ ميں ہے كہ اس كى اچھى طرح نشو و نما كريں يا خراب اور غمگين گوشہ ميں اس كى پرورش كريں _ يہ امر مسلم ہے كہ مذكورہ دوسرى جگہ انسانى روح كے رہنے كے لائق نہيں ہوتى اس لئے انسانيت كے مقابلہ ميں ماں باپ كے كندھوں پر بہت بھارى ذمہ دارى ركھى گئي ہے _(۲۸۴)

لہذا زمانہ حمل كو ايك عام زمانہ نہيں سمجھنا چاہئے _ اور اس كى طرف سے بے توجہى برتنى چاہئے بلكہ دوران حمل كى ابتدا سے ہى ماں باپ پر بہت بڑى ذمہ دارى عائد ہوجاتى ہے كہ اگر ذرا بھى غفلت برتى تو شديد ا ً اور ناقابل تلافى مشكلات كا سامنا كرنا پڑتا ہے _ يہاں پر چند باتوں كا تذكرہ ضرورى معلوم ہوتا ہے _

۱_ غذائي پروگرام : جو بچہ ماں كے رحم ميں پرورش پاتا ہے وہ ماں كے خون سے غذا حاصلہ كرتا ہے اور نشو ونما پاتا ہے _ اس بناء پر ماں كى غذا ، اتنى مكمل اور بھر پور ہونى چاہئے كہ خود اپنى غذائي ضروريات كو پورا كرے اور صحيح و سالم زندگى گزارے اور دوسرى طرف بچے كے جسم و جان

۲۶۲

كى پرورش كے لئے جن غذائي مواد كى ضرورت ہوتى ہے وہ اسے فراہم ہوسكے تا كہ اچھى طرح صحت و سلامتى كى ساتھ نشو و نما پا سكے ، لہذا ايك حاملہ عورت كا غذائي پروگرام بہت مناسب اور ممكن ہونا چاہئے _ كيونكہ بعض غذائي مواد مثلاً مختلف وٹامن ، معدنى مواد، پروٹين ، چربى ، شكر اور نشاستہ و غيرہ كى كمى يا فقدان سے ماں اور بچے (جو كہ ماں كے خون سے غذا حاصل كرتا ہے ) دونوں ہى كى صحت و سلامتى كو خطرہ لاحق ہوتا ہے _

امام صادق (ع) سے ايك حديث منقول ہے كہ ''مال جو كچھ كھاتى ہے اور پيتى ہے ، ماں كے رحم ميں موجود بچے كى غذا اسى سے بنتى ہے _(۲۸۵)

يہاں پر ايك اور مشكل بھى پيش آتى ہے _ بعض خواتين كا حمل كے پورے زمانے ميں يا كچھ مدت تك عام مزاج نہيں رہتا بلكہ بعض كھانوں سے انھيں نفرت ہوجاتى ہے يا كم خوراك ہوجاتى ہيں جبكہ اس زمانے ميں انھيں زيادہ غذا كى ضرورت ہوتى ہے اس لئے جن غذائي چيزوں سے انھيں رغبت ہواور وہ مختلف غذائي مواد سے بھرپور بھى ہوں اور ان كا حجم بھى ہو ان كے لئے مہيا كى جائيں _ اس قسم كے غذائي پروگرام كى تنظيم كرنا دشوار كام ہے بالخصوص ان افراد ك ےلئے جن كى آمدنى كم ہو اور حفظان صحت او رغذاؤں كى خاصيت سے پورى طرح آگاہ نہ ہوں _ يہاں پر بچے كے باپ كے اوپر بہت بڑى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے _ اس كو چاہئے اپنے امكان بھر كوشش كرے اوراپنى حاملہ بيوى اور بچے كے لئے جو كہ ابھى رحم مادر ميں پرورش پارہا ہے ، مناسب اور طاقت و توانائي سے بھر پور غذائيں مہيا كرے _ اگر اس نے عظيم ذمہ دارى سے كوتاہى كى تو اس كى بيوى اور بچے دونوں كى صحت و سلامتى كو نقصان پہونچے گا _ اس دنيا ميں بھى اس كا خميازہ بھگتنا پڑے گا اور آخرت ميں بھى خدا كے عتاب كا نشانہ بننا پڑے گا _

۲_ ذہنى سكون : ايام حمل كے دوران عورت كو مكمل ذہنى سكون و آرام كى ضرورت ہوتى ہے اور اسے زندگى سے بھر پور اور خوش و خرم رہنا چاہئے _ كيونكہ جسمانى آرام اور ذہني

۲۶۳

سكون اور خوشى ومسرت خو د اس كى صحت و سلامتى پر بھى اثر انداز ہوتى ہے اور اس كے شكم ميں پرورش پانے والے بچے كے جسم اورنفسيات پر بھى اس كا بہت اثر پڑتا ہے _ خوشى و سكون كا ماحول فراہم كرنا بھى شوہر كى ذمہ دارى ہے شوہر كو چاہئے ہميشہ اپنى محبتوں اور نوازشوں اور دلجوئيوں سے اپنى بيوى كے دل كو گرم اورخوش ومطمئن ركھے ليكن حمل كے زمانے ميں اس ميں اور اضافہ كردينا چاہئے _ شوہر كا سلوك ايسا ہونا چاہئے كہ اس كى بيوى اپنے وجود ميں پيدا ہونے والے اس تغير پر غرور و شادمانى محسوس كرے اور اپنے آپ پر فخر كرے كہ اس كى سرشت ميں ايك اچھے اور سالم انسان كى پرورش كى ذمہ دارى ركھى گئي ہے _ اور اسے اطمينان ہو كہ اس كا شوہر اپنے پورے وجود سے اسے چاہتا ہے اور اپنے ہونے والے بچے سے بھى دلچسى ركھتا ہے _

۳_ شديد حركات سے پرہيز كرنا چاہئے : حمل كے زمانے ميں عورت كو آرام كى ضرورت ہوتى ہے اور اسے دشوار اور بھارى كاموں سے پرہيز كرنا چاہئے _ بھارى چيزيں اٹھانا، تيزتيز چلنا ، اچھلنا ، كودنا خود اس كے اور بچے كے لئے نہايت مضر اور نقصان دہ ثابت ہوسكتا ہے _ حاملہ عورتوں كو اس بات كو پورا دھيان ركھنا چاہئے _ شوہروں كا بھى فرض ہے كہ اپنے بيويوں كو بھارى چيزيں نہ اٹھانے ديں اور بھارى كام نہ كرنے ديں بلكہ بھارى كام خود انجام ديں _

۴_ زمانہ حمل ميں بعض خواتين وضع حمل كے مراحل سے بہت زيادہ خوفزدہ رہتى ہيں _ خصوصاً جن خواتين كا پہلا بچہ ہو يا جن كے بچے غير فطرى طريقے سے پيدا ہوتے ہوں _اس سلسلے ميں بھى شوہر كو اپنى بيوى كى مدد كرنى چاہئے اسے تسلى دے ہمت بندھائے _ _اور بتائے كہ اگر اپنى صحت و تندرسى كا خيال ركھا تو بچے كى پيدائشے ميں كوئي مشكل نہ ہوگى يہ ايك فطرى عمل ہے جس سے تمام عورتوں كو گزرنا پڑتا ہے اور اس كو برداشت كرنا بہت مشكل نہيں ہے اس تكليف بصورت بچہ عطا فرمائے گا جو ہمارے لئے افتخار كا باعث ہوگا _ اور اپني

۲۶۴

ہر طرح كى مدد كا وعد كرے _ و غيرہ

۵_ بچے كى پيدائشے كا مرحلہ سخت ہوتا ہے _ حاملہ عورتيں احتمالى خطرات و نتائج سے خوفزدہ ہوتى ہيں _ وضع حمل كے بعد بھى ضعف و كمزورى باقى رہتى ہے _ بچے كى پيدائشے كے سلسلے ميں عورت كو نو ماہ حمل كى زحمت ، پھر بچے كو جنم دينے كے سخت اور صبر آزما مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے اوردودھ پلانا ہوتا ہے _ ليكن بچے كو وجود ميں لانے ميں شوہر پورى طرح دخيل رہتا ہے _ در حقيقت بچہ ماں باپ دونوں كے اشتراك سے وجود ميں آتا ہے _ اگر چہ اس نئے وجود كا مركز ماں كا رحم ہوتا ہے _ لہذا شوہر كا اخلاقى ، انسانى اور اسلامى لحاظ سے يہ فريضہ ہے كہ زچگى كے سخت مراحل سے گزرنے ميں اپنى بيوى كى دلجوئي كرے _ اور پورى كوشش كرے كہ يہ مرحلہ آسانى سے انجام پاجائے _ اگر ڈاكٹر ، دوا اور اسپتال لے جانے كى ضرورت ہو تو اس سے دريغ نہ كرے _ اظہار محبت كے ذريعہ بيوى كى ہمت بنڈھائے _ جب بيوى اسپتال ميں ہو تو برابر اس كى احوال پرسى كرتا رہے _ برابر اس كے پاس جائے بچے كى پيدائشے كے بعد ممكن ہو تو فوراً اس كے پاس جائے _ جب بيوى و بچہ اسپتال سے گھر آئيں تو بہتر ہے كہ خود ساتھ رہے _ اور گھر ميں اس كے آرام كے سامان مہيا كرے _ كمزورى كے زمانے ميں اسے بھارى كام نہ كرنے دے _ كوشش كرے كہ اس كے لئے مقوى غذاؤں كا انتظام رہے تا كہ وہ اپنى كھوئي ہوئي طاقت كو پھر سے محال كرلے اور صحت و سلامتى كے ساتھ اپنے كاموں او رنوزاد كى پرورش ميں مشغول ہوجائے _

مرد اگر اس طرح سے اپنے اخلاقى و اسلامى فريضہ كو پورا كرے گا تو خدا اسے اجر عطا فرمائيگا حضرت رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ہيں كہ تم ميں بہترين مرد وہ ہے جو اپنى بيوى كے ساتھ اچھا سلوك كرے _ اور ميں تم سب كى بہ نسبت اپنى بيويوں سے سب سے اچھا سلوك كرنيوالا ہوں _(۲۸۶)

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : خدا اس شخص پر رحمت نازل كرتا ہے جو

۲۶۵

اپنے اور اپنى بيوى كے درميان اچھا رابط قائم ركھتا ہے كيونكہ خداوند عالم نے مرد كو اختيار ديا ہے اور اس كو سرپرست بنايا ہے _(۲۸۷)

مرد اپنے اچھے طرز سلوك سے اپنے خاندان كے مركز كو اور زيادہ پر خلوص اور گرم بنا كر ازدواجى زندگى كو مزيد مستحكم و پائيدار بنا سكتا ہے _ ايسے مرد كى بيوى بھى اپنے مہربان شوہر كى نوازش محبتوں اور زحمتوں كا جواب بھى محبت سے دے گى اور نہايت ذوق و شوق اور دلچسپى كے ساتھ زندگى كے كاموں ميں مشغول رہے گى _

بچہ كى پرورش ميں بيوى كى مدد كيجئے

بچے ، مياں بيوى كى مشتركہ ازدواجى زندگى كا ثمرہ ہوتے ہيں _ بچے كى پيدائشے ميں دونوں برابر كے حصہ دار ہوتے ہيں ان كے نفع و نقصان ميں دنوں شريك ہوتے ہيں _ لہذا بچے كى پرورش و نگہداشت بھى مياں بيوى كا مشرتكہ فريضہ ہے نہ كہ فقط بيوى كا يہ صحيح ہے كہ مائيں نہايت محبت و رغبيت كے ساتھ اپنے بچے كى پرورش كرتى ہيں اور بچے كے تمام كام نہلانا دھلانا ، دودھ پلانا و غيرہ نہايت دلچسپى اور توجہ كے ساتھ انجام ديتى ہيں _ بچے كى ديكھ بھال اور پرورش ميںہر قسم كى تكليف و زحمت برداشت كرتى ہيں _ بچہ بيمار يا بے چين ہو تو سارى رات جاگ كر گزارديتى ہيں اس كے رونے چيخنے چلاّنے كو برداشت كرتى ہيں ليكن شوہروں كو بھى چاہئے كہ اپنى بيوى كے ايثار اور زحمات كو معمولى نہ سمجھيں اور يہ نہ كہيں كہ بچہ كى پرورش كرنا عورت كا كام ہے ميرى اس سلسلے ميں كوئي ذمہ دارى نہيں _ يا جب بچہ بے چين ہو اور رورہا ہو تو بچہ كو ماں كے پاس چھوڑ كر خود دوسرے كمرے ميںجا كر سوجائے _

برادر عزيز يہ بات بالكل درست نہيں _ يہ بچہ آپ دونوں كا ہے_ اس كى ديكھ بھال بھى آپ دونوں كا مشتركہ فريضہ ہے _ كيا آپ محبت و جذبات سے عارى ہيں ؟ كيا انصاف ہے كہ آپ خود تو ايك كونے ميں جاكر آرام كريں اور بيچارى بيوى كو تنہا اس شور اور پريشانى سے

۲۶۶

نپٹنے كے لئے چھوڑديں؟ كيا زن دارى اور خاندان سے محبت اسى كا نام ہے ؟ اگر آپ دن بھر كے كاموں سے تھك گئے ہيں تو آپ كى بيوى بھى تو سارے دن گھر كے كاموں ميںمشغول رہى ہے اور تھكى ہارى ہے _ اگر آپ كو نيند آرہى ہے تو اس كو بھى نيند آرہى ہوگى _ اگر بچہ كے رونے اور چيخنے چلاّنے سے آپ كے اعصاب خستہ ہوجاتے ہيں تو بيچارى ماں بھى تو پريشان ہوجاتى ہے ليكن اس كے لئے سوائے برداشت كرنے كے اور كوئي چارہ ہى نہيں ہے _

برادر محترم انصاف ، ضمير ، اسلامى اخلاق اور رفيق زندگى كا ساتھ نبھانے كا تقاضہ يہ ہے كہ ايسے حساس موقعوں پربچے كى نگہداشت ميں اپنى بيوى كى مدد كريں يا تو دونوں مل كر بچے كو چى كرائيں اس كے بعد سوئيں _يا كچھ ويربچے كو آپ ديكھيں اور آپ كى بيوى سوجائے _ اور كچھ دير بيوى بچے كو ديكھے اور آپ سوجائيں _ اگر آپ كى بيوى رات كو جاگنے كے سبب صبح كى نماز كے بعد آرام كرنا چاہے تو آپ اس سے اس بات كى توقع نہ كريں كہ ہرروز كى مانند وہ آپ كے لئے ناشتہ تيار كرے _ كيا ہرج ہے اگر آپ خود چائے اور ناشتہ تيار كركے كھاليں اور بيوى كے لئے بھى تيار كركے باہر جائيں _ جب سفر يا دعوت ميں جائيں تو ضرورى نہيں ہے كہ بيوى ہى سارے وقت بچے كو گود ميں لئے رہے _ بلكہ آپ اس كام ميں بھى اس سے تعاون كريں _ بطور مجموعى بچے كى ديكھ بھال اور پرورش ميں آپ پورى طرح مدد كريں _ زن دارى اوراسلامى اخلاقى اسى كانام ہے _ اور يہ چيز آپ كى زندگى كو خوشى و مسرت سے ہمكناركرے گى _

البتہ بہنوں سے بھى اس سلسلے ميں عرض ہے كہ شوہر بہت زيادہ توقعات نہ ركھيں كيونكہ كسب معاش اور ضروريات زندگى كو مہيا كرنے ميں اسے گوناگون مشكلات اورزحمتوں كا سامنا پڑتا ہے اورانھيں يہ بات ذہن ميں ركھنى چاہئے كہ مرد كو گھر سے باہر طرح طرح كى مشكلات كا سامنا كرنا پڑتا ہے اور تھكاہارا آرام وسكون حاصل كرنے كى غرض سے گھر آتاہے لہذا يہ توقع نہ كريں كہ جب وہ گھر آئے تو كپڑے اتاركرفوراً بچے اور گھر كے كاموں ميں مشغول ہوجائے _ اس سلسلے

۲۶۷

ميں ضرورت سے زيادہ اور عام حالات ميں اسے سے مدد كى اميد نہيں ركھنى چاہئے _

اختلافات كو حل كرنے ميں سب سے بڑى ركاوٹ

خاندانى اختلافات كو دوركرنے ميں جو چيز سب سے بڑى ركاوٹ بنتى ہے وہ خود بينى اور خودپسندى كى بيمارى ہے_ افسوس بہت سے لوگ اس مہلك بيمارى ميں مبتلا ہوتے ہيں _ اس مرض ميں مبتلا انسان كى عقل پر پردے پڑجاتے ہيں _

ايسا انسان صرف اپنى خوبيوں كو ديكھتا ہے اورانھيں بہت بڑا تصور كرتا ہے ليكن اسے اپنے آپ ميں كوئي بھى خامى يابرائي نظر نہيںآتى _ اس وقت اور بھى بدتر ہوتا ہے جب اس مرض ميں مبتلا دو سرا شخص بھى مل جائے اور ايك دوسرے كى عيب جوئي كريں _

كہيں مياں بيوى دونوں اس مرض كا شكار ہوتے ہيں او ركہيں ان ميں سے صرف ايك اس مرض ميں مبتلا ہوتا ہے _ جہاں دونوں ہى اس بيمارى گرفتار ہوں وہاں رات دن لڑائي جھگڑے اور تنقيد كا سلسلہ جارى رہتا ہے _ دونوں ايك دوسرے كے عيبوں پر نظر ركھتے ہيں اور اسے بڑا كر كے پيش كرتے ہيں او رتنقيد كرتے رہتے ہيں ليكن اپنے آپ كو ہر قسم كے عيوب ونقائص سے مبرا سمجھتے ہيں _ اگر مياں بيوى ميں سے كوئي ايك اس مرض ميں مبتلا ہوتا ہے تو وہ دوسرے پر نكتہ چينى كرتا ہے ليكن خود كو بالكل پاك و بے عيب سمجھتا ہے _ جہاں پر مياں بيوى دونوں ہى اس مرض كا شكار ہوتے ہيں وہاں ان كى اصلاح بيحد دشوار كام ہے چونكہ خود كو بے عيب سمجھتے ہيں اور پند و نصيحت سننے كے روا دار نہيں ہوتے _ جب ريڈيو يا ٹيلى وين(۱) سے خاندان سے متعلق نشر ہونے والے

۱_ اسلامى جمہوريہ ايران كے ريڈيو اور ٹيلى وين سے خاندانوں كى اصلاح كے متعلق بے حد مفيد اور كار آمد پرو گرام د لچسپ انداز ميں نشر ہوتے ہيں _ سلسلہ وار ڈراموں ، تقريروں اور انٹر و يو و غيرہ كى شكل ميں خاندانى مسائل اور ان كے حل پر روشنى ڈالى جاتى ہے _ كئي سال سے ايك مشہورعالم دين حجة الا سلام حسينى اخلاق در خانوادہ نامى پرو گرام ٹيلى وين سے بے حد دلچسپ اور دلنشين اور انداز ميں پيش كرر ہے ہيں _ ( مترجم )

۲۶۸

پروگراموں كو سنتے ہيں اگر كسى ايسے عيب كے بارے ميں بتايا جاتا ہے جو ان ميں سے كسى ايك ميں موجود ہوتا ہے تو اس كو نہايت توجہ سے سنتے ہيں اور فوراً دوسرے فريق كى طرف رخ كركے بولنا شروع كرديتے ہيں ليكن اگر كسى ايسے عيب كا ذكر كيا جارہا ہو جو خود ان ميں موجود ہو تو اس پر ذرا بھى غورنہيں كرتے اور اپنے آپ كو اس سے پاك و مبرا سمجھتے ہيں _ اخلاقى كتابيں خريد كرلاتے ہيں اور بيوى كوديتے ہيں كو لواسے پڑھواوراپنے فرائض پر عمل كروليكن خود ان كتابوں كو پڑھنے كى ضرورت محسوس نہيں كرتے كيونكہ خود كو سو فيصد بے عيب سمجھتے ہيں _ بعض افراد ميں خودپسندى اتنى زيادہ اوراتنى عميق ہوتى ہے كہ انھيں اپنے اس مرض كا ذرا بھى احساس نہيں ہوتا _ ظاہر ہے ايسے خاندانوں كى اصلاح اور ان كى مشكلات كو حل كرنا نہايت دشوار بلكہ ناممكن ہوتا ہے _ وہ مجبور ہيں كہ ياتو سارى عمر اختلافات لڑائي جھگڑے اور رنج و مصيبت كے ساتھ زندگى گزاريں يا طلاق و عليحدگى اختياركريں اور اس سے پيدا ہونے والے خراب نتائج كو برداشت كريں _ لہذا ان تمام خاندانوں سے جو كہ اس طرح كے اختلافات كا شكار ہيں استدعا كى جاتى ہے كہ خود بينى اور خودغرضى سے دستبردار ہوجائيں اور كم سے كم اس بات پر غور كريں كہ ممكن ہے ان كے اندر بھى كوئي عيب موجود ہو اوران كا بھى قصور ہو _ اور كسى مناسب موقع پر بغير كسى تعصب اور خودخواہى كے ، دوامين اورعادل قاضيوں كى مانند مل كربيٹھيں اور اپنے اختلافات كے موضوع پر بات چيت كريں _ بغير كسى تعصب كے اوراپنا دفاع كئے بغير خوب غور سے ايك دوسرے كى بات سنيں _ ہر ايك اپنى اصلاح كى غرض سے ، كوئي بات چھپائے بغير اپنے قصور اور غلطيوں كو نوٹ كرے _ اس كے بعد دونوں ارادہ كريں كہ اپنے عيوب كى اصلاح كرنے كى كوشش كريں گے _ اگر واقعى اپنے اختلافات كو حل كرے اور آپس ميں مفاہمت پيدا كرنے كى ضرورت محسوس كرتے ہيں تو اس طريقے سے اپنى مشكلات كا حل بخوبى تلاش كرسكتے ہيں اور اپنى گم گشتہ محبت اور صلح و صفائي كو پھر سے حاصل كرسكتے ہيں _

۲۶۹

اگر اپنے مسائل باہمى تبادلہ خيالات كے ذريعہ حل كرنے ميں دشوارى محسوس كريں تو ثالث كے طور پر كسى تجربہ كار، خيرخواہ، مومن اور قابل اعتماد شخص سے مدد لے سكتے ہيں _ يہ شخص اگر اپنے عزيزوں ميں سے ہو تو زيادہ اچھا ہے _ اس موقع پر اپنے حالات ميں اصلاح كى غرض سے كوئي بات چھپائے بغير، اختلافات پيدا كرنے والى تمام باتيں بے كم و كاست كو بتاديں _ اور اس سے كہيں كہ ان كے مسائل كا فيصلہ كرے _ اس ثالث كى باتوں كو خوب غور سے سنيں اگر كسى بات ميں كوئي شك و شبہ ہو تو اس سے وضاحت سے پوچھيں _ اور اس كى بتائي ہوئي باتوں پر عمل كرنے كے ارادے سے انھيں نوٹ كرليں _ اور تمام باتوں پر نہايت ايماندارى كے ساتھ عمل كريں اوراپنے خاندان كے كھوئے ہوئے سكون و چين كو پھر سے بحال كرليں _ اگر چہ خودخواہى اور ضد كو چھوڑدينا اور اپنے خاندان كے كھوئے ہوئے سكون و چين كو پھر سے بحال كرليں _ اگرچہ خودخواہى اور ضد كو چھوڑدينا اور كسى ثالت كى باتوں كو مان ليناآسان كام نہيں ہے _ ليكن ايك دانشمند انسان ، جو اپنے خاندان كے ثبات و بقا او رسكون و آرام كا خواہان ہوتا ہے ، اس كے لئے يہ كام چندان مشكل نہيں ، اس كے نتيجہ ميں اس كے حاصلہ مفيد نتائج سے بہرہ مند ہوسكتا ہے _

مياں بيوى كے ماں باپ يا قريبى رشتہ دار اگران كے اختلافات سے واقف ہوں تو انھيں چاہئے كسى كى بيجا حمايت كئے بغير انھيں سلجھانے كى كوشش كريں _ بہتر ہے كہ خاموشى كے ساتھ اختلافات كومزيد ہوا ديئےغير نہايت غير جانبدارى كے ساتھ ، اختلافات كے موضوع كو ايك ايماندار، خيرخواہ اور تجربہ كارشخص كے سامنے پيش كريں اور اس سلسلے ميں اس سے مدد ليں تا كہ خدا كى مدد سے ان كے اختلافات رفع ہوجائيں _

خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے : اگر مياں بيوى ميں جدائي اور جھگڑا پيدا ہونے كا انديشہ ہو تو ايك شخص كو مرد كے رشتہ داروں ميں سے اور ايك شخص كو بيوى كے رشتہ داروں ميں

۲۷۰

سے منتخب كرو اگر يہ دونوں ثالث آپس ميں ميل كرادينا چاہيں گے تو خداوند عالم ان كے درميان توافق پيدا كرے گا _ خدا بيشك تمام چيزوں سے واقف اور تما م رموز سے باخبر ہے _(۲۸۸)

طلاق

اگر چہ اسلام كى نظر ميں طلاق ايك جائز اور شرعى امر ہے ليكن اسى كے ساتھ اسے بدترين اور نہايت ناپسنديدہ فعل قرارديا گيا ہے _ امام جعفرصادق (ع) فرماتے ہيں : شادى كيجئے ليكن طلاق نہ ديجئے كيونكہ طلاق واقع ہونے سے عرش خدا لرز جاتا ہے _(۲۸۹)

حضرت امام جعفر صادق (ع) يہ بھى فرماتے ہيں : خداوند عالم اس گھر كو دوست ركھتا ہے جہاں شادى انجام پائے اور اسے وہ گھر ناپسند ہے جہاں طلاق دى جائے _ خدا كے نزديك سب سے زيادہ قابل نفرت اور ناپسنديدہ چيز طلاق ہے _(۲۹۰)

شادى كرنا ، جوتا اور موزہ خردينا نہيں ہے كہ جب دل بھرگيا اٹھاكے پھينك ديا اوردوسرا جوتا خريدليا _ شادى ايك مقدس انسانى عہد و پيمان اور معنوى ملن ہے _ دو اانسان باہم عہد و پيمان كرتے ہيں كہ آخر عمر تك ايك دوسرے كے يارومددگار اور مونس و غمخوار رہيں گے _ اسى مقدس عہد پر بھروسہ كركے لڑكى اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں كو چھوڑ كر سينكڑوں آرزؤں كے ساتھ شوہر كے گھر ميں قدم ركھتى ہے اور اپنى عفت و عصمت كو اس كے حوالے كرديتى ہے ، اسى ملكوتى عہد پر اعتماد كركے مرد عقد و شادى اور ضروريات زندگى كو فراہم كرنے كے لئے بہت زيادہ خرچہ كرتا ہے _ اور شب و روز اپنے خاندان كے آرام و آسائشے كے لئے زحمت اٹھاتا ہے شادى كوئي ہوس بازى يا كھيل تماشہ نہيں ہے كہ مرد يا عورت كوئي معمولى بہانہ كركے اس كو توڑ ڈاليں _ يہ درست ہے كہ طلاق كو جائز قرارديا گيا ہے ليكن اسلام كى مقدس شرع ميں اسكى سختى سے ممانعت كى گئي ہے _ افسوس كہ اسلامى ممالك ميں يہ گھناؤنى چيز اس قدر رائج ہوگئي ہے كہ اس نے خاندانوں كى بنيادوں كو متزلزل كركے ازدواجى زندگى كے اعتماد كو سلب كرليا ہے

۲۷۱

طلاق جائز ہے ليكن بے حد ناگزير مواقع كے علاوہ اس سے استفادہ نہيں كرنا چاہئے پيغمبر اسلام (ص) كا فرمان ہے كہ مجھ سے جبريل امين نے عورتوں كے بارے ميں اس قدر تاكيد كى ہے كہ ميں سمجھتا ہوں سواے اس موقع كہ وہ زنا كى مرتكب ہوئي ہوں انھيں ہرگز طلاق نہيں دينى چاہئے _(۲۹۱)

ہمارے معاشرے ميں جو طلاقيں انجام پاتى ہيں ان ميں سے اكثر كے اسباب و علل بے بنياد اور ناقابل توجہ ہوتے ہيں بلكہ اكثر بچگانہ بہانوں اور مياں بيوى كے ضد كے نتيجہ ميں انجام پاتى ہيں _ اور نہايت چھوٹى چھوٹى اور غير اہم باتوں كى خاطر شادى شدہ زندگى كا شيرازہ بكھر جاتاہے _ ليكن مياں يا بيوى اپنى نادانى اور خود غرضى سے ايك نہايت معمولى بات كو اس قدر بڑا بناديتے ہيں كہ مفاہمت اور سمجھوتہ ناممكن بن جاتا ہے ذيل كے واقعات پر توجہ فرمايئے

ايك ۲۴ سالہ خاتون اپنے شوہر سے فرمائشے كرتى ہے كہ اس كے ماں باپ كوشاندار دعوت دے _ چونكہ شوہر اس كى يہ فرمائشے پورى نہيں كرتا اس لئے طلاق كا مطالبہ كرتى ہے _(۲۹۲)

ايك مرد اس سبب سے كہ اس كى بيوى كے يہاں لڑكياں پيدا ہوتى ہيں ، پانچ بچوں كے ہوتے ہوئے اس كو طلاق دے ديتا ہے _(۲۹۳)

ايك عورت اس بناء پر طلاق كاتقاضہ كرتى ہے كہ اس كا شوہر عارف قسم كا ہے اورزندگى ميں دلچسپى نہيں ليتا _(۲۹۴)

ايك مرد ، ايك دولتمند خاتون سے شادى كرنا چاہتا ہے اس لئے اپنى بيوى كو طلاق دينے كى درخواست كرتا ہے _(۲۹۵)

ايك عورت اس وجہ سے كہ ا س كے شوہر نے اپنے كوٹ كى آستين ميں روپيہ چھپا ركھا تھا ، عليحدگى كا مطالبہ كرتى ہے _(۲۹۶)

ايك شخص اپنى بيوى كو منحوس كہہ كر طلاق ديتا ہے كيونكہ شادى كے بعد اس كے باپ كا انتقال ہوگيا اور اس كے ماموں كا ديواليہ نكل گيا _(۲۹۷)

۲۷۲

اكثر طلاقيں اسى قسم كى معمولى اور غير اہم باتوں كى بنياد پر انجام پاتى ہيں _ اگر مياں بيوى انجام كار كے متعلق غور كريں تو اس منحوس چيز سے پرہيز كريں _

جو مياں بيوى عليحدہ ہونا چاہتے ہيں انھيں چاہئے جلد بازى سے ہرگز كام نہ ليں بہتر ہے كہ پہلے اس كے نتائج اور اپنے مستقبل كے بارے ميں خوب غور و فكر كريں _ اس كے بعد فيصلہ كريں خاص طور پر ان دو باتوں كے متعلق اچھى طرح غور و فكر كرنا چاہئے _

۱_ جو مياں بيوى عليحدہ ہونا چاہتے ہيں يقينا بعد ميں دوسرى شادى كرنے كا ارادہ ركھتے ہوں گے مرد سوچتا ہے كہ اس بيوى كو طلاق دے كر اپنى پسند كے مطابق دوسرى عورت سے شادى كرلوں گا عورت بھى يہى سوچتى ہے كہ اس شوہر سے طلاق حاصل كركے ايك آئيڈيل مرد سے شادى كرلوں گى ليكن ان مياں بيوى كو يہ بات ذہن نشين كرلينى چاہئے كہ عليحدہ ہونے كى صورت ميں و ہ بدنامى كا شكار ہوجائيں گے _ ہوس باز، خود غرض اور بے وفا مشہور ہوجائيں گے _ مرد جس لڑكى كو شادى كا پيغام بھجواتے گا تحقيق كے بعد اس كے گھروالوں كو معلوم ہوجائے گا كہ اس نے اپنى بيوى كو طلاق دى ہے اور اس سبب سے اس كا كردار مشكوك ہوجائے گا _ وہ لوگ سوچيں گے كہ يا تو يہ آدمى اچھا نہيں ہے جس كے سبب اس كى بيوى نے طلاق لے لى يا اس نے اپنى بيوى كو طلاق دے دى جس سے معلوم ہوتا ہے كہ وفادار نہيں ہے _

جو عورت اپنے شوہر سے طلاق ليتى ہے اس كو جاننا چاہئے كہ دوسرى شادى ميں اس كو بہت سى مشكلات پيش آئيں گى _ كيونكہ لوگ سوچتے ہيں كہ اگر يہ عورت وفادار اور نيك ہوتى تو اپنے شوہر سے طلاق نہ ليتى _

اس لئے مرد عورت دونوں كو دوسرى شادى كرنے ميں بہت سى ركاوٹوں كا سامنا كرنا پڑتا ہے اور اكثر ديكھنے ميں آيا ہے كہ مرد ناچار بقيہ سارى عمرتنہا اور پريشان زندگي

۲۷۳

گزارنے پر مجبور ہوجاتاہے _اور عورت بھى مجبوراً سارى عمر ماں باپ يا دوسرے رشتہ داروں كے سرپر پڑى رہتى ہے _ يا بغير كسى ہمدرد كے تنہا زندگى گزارتى ہے _ تنہا زندگى بہت دشوار اور تھكادينے والى ہوتى ہے كبھى كبھى تو يہ تنہائي انسان كو ڈس ليتى ہے اور انسان ايسى زندگى پر موت كو ترجيح ديتا ہے اور اكتا كر خودكشى كرڈالتا ہے _

ايك ۲۲ سالہ جوان عورت نے جو ايك بچہ ہوجانے كے باوجود طلاق لے كر اپنے باپ كے گھر چلى آئي تھى ، اپنى بہن كى شادى كى رات خودكشى كرڈالتى ہے _(۲۹۸)

فرض كيجئے مرد بہت زيادہ مالى نقصانات برداشت كركے اور سعى بسيار كے بعد دوسرى شادى كرنے ميں كامياب ہوجاتاہے ليكن كيا معلوم دوسرى بيوى پہلى سے بہتر ہوگى يا نہيں بلكہ اكثر انجام كا ربدتر ہى ہوتاہے _ اكثر ديكھنے ميں آتا ہے دوسرى شادى بھى ناكام ہوتى ہے او راگر امكانى صورت پيدا ہوگئي تو د وسرى بيوى كو طلاق دے كر پہلى بيوى سے صلح كرليتا ہے _

ايك اسّى سالہ مرد نے عدالت ميں بتايا: تقريباً ساٹھ سال قبل ميں نے ايك عورت سے شادى كى تھى _ ميرى زندگى بہت پرسكون تھى ليكن كچھ مدت كے بعد اپنى بيوى كے ناروا سلوك سے ناراض ہوكر ميں نے اس كو طلاق دے دى _ اس دوران ميں ، ميں ۹۷ مختلف عورتوں سے نكاح او رمتعہ كئے اور طلاقيں ديں _ كافى عرصہ بعد ميں نے محسوس كيا كہ ميرى پہلى بيوى ان سب سے زيادہ وفادار تھى ، بہت كوشش كے بعد ميں نے اسے ڈھونڈ نكالا ، چونكہ وہ بھى ميرى طرح تنہائي سے تھك چكى تھى اس لئے ہم دونوں پھر سے شادى كرنے پر رضامندہوگئے _(۲۹۹)

ايك شخص نے اپنى دوسرى بيوى كو طلا قدے دے دى كيونكہ دوسرى بيوى اس كى پہلى بيوى سے ہونيوالے اس كے دو بچوں كى نگہداشت نہيں كرسكتى تھى _ اور اپنى پہلى بيوى سے ، جسے اس نے پانچ سال قبل طلاق دے دى تھى پھر سے شادى كرلى _(۳۰۰)

۲_ جو مياں بيوى عليحدہ ہونے كى فكر ميں ہيں اگر بال بچوں والے ہيں تو انھيں اس اہم اور

۲۷۴

حساس مسئلہ پر بھى غوركرنا چاہئے _ بچوں كى خوشى اور بھلائي اسى ميں ہوتى ہے كہ ماں باپ دونوں ساتھ رہيں تا كہ وہ باپ كے سائے اور ماں كى شفيق آغوش ميں پرورش پائيں _

اگر اس مشترك زندگى كے تانے بانے بكھر جاتے ہيں تو بچوں كى اميدوں كے محل چكنا چور ہوجاتے ہيں _ اور ان كى خوشى و مسرت كا خاتمہ ہوجاتاہے _ اگرباپ ان كى پرورش كى ذمہ دارى لے تو ماں كى بے لوث محبت ومامتا سے محروم ہوجاتے ہيں اور اكثر اوقات سوتيلى ماں سے سابقہ پڑتا ہے _ سوتيلى ماؤوں كا سلوك عام طور پر اچھا نہيں ہوتا _ وہ اپنى سوت كے بچے كو اپنے اوپر ايك بوجھ سمجھتى ہے لہذا اكثر سوتيلى مائيں بچوں كو بہت اذيت و آزار پہونچاتى ہيں _ باپ كے پاس بھى سوائے صبرو خاموشى كے اور كوئي چارہ نہيں ہوتا _

ايك چودہ سالہ دلہن جس نے خودكشى كا اقدام كيا تھا اسپتال ميں بتايا : ميں ايك سال كى تھى جب ميرے ماں باپ عليحدہ ہوگئے اور جيسا كہ ميں نے سنا ہے ميرے باپ نے ڈيڑھ سال بعد دوسرى شادى كرلى اور اب بھى دونوں باہم زندگى گزاررہے ہيں _ ميرى سوتيلى ماں مجھ كو بہت مارتى پٹيتى تھى _ يہاں تك كہ اس نے كئي بار كباب بنانے والى لوہے كى سيخ سے ميرے جسم كو جلا ديا _ اگر چہ ميرے باپ كى ماں حالت اچھى ہے ليكن انھوں نے مجھے اسكول نہ جانے ديا _ ميں ہميشہ اسكول اور كتابوں كى حسرت ميں كڑھتى رہى _ ايك ماہ قبل ميرے باپ نے زبردستى ميرا نكاح ايك ۴۵ سالہ مرد سے كرديا _(۳۰۱)

ايك تيرہ سالہ لڑكى نے گلى ميں رسى ڈال كر خودكشى كرلى _ يہ لڑكى اپنے دو بھائيوں كے ساتھ رہتى تھى _ اس كے بھائي نے بتايا كہ ميرے ماں باپ تين سال قبل عليحدہ ہوگئے تھے _ ميرى ماں نے ايك اور مرد سے شادى كرلى اور دو مہينے قبل ميرے باپ كا بھى انتقال ہوگيا _ ميں كل شام ساڑھے چھ بجے جب گھر واپس آيا تو مجھے معلوم ہوا كہ ميرى بہن نے گلے ميں رستى ڈال كر خودكشى كرلى _(۳۰۲)

۲۷۵

اگر بچہ كى سرپرستى ماں كے ذمہ ہوتى ہے تو معصوم بچے باپ كى سرپرستى اور محبت سے محروم ہوجاتے ہيں اكثر اوقات سوتيلے باپ كے ظلم و ستم كا نشانہ بنتے ہيں _

ايك ماں نے اپنے نئے شوہر كى مدد سے اپنے آٹھ سالہ بچے كے ہاتھ پاؤں پلنگ ميں باندھ ديئےور كمرے كا دروازہ بند كركے باہر گھومنے چلى گئي _ جب وہ لوگ واپس لوٹے تو ديكھا كمرے ميں آگ لگ گئي تھى اور بچہ جل كر ختم ہوچكا تھا _(۳۰۳)

طلاق ، خاندان كے محبت بھرے مركز كو درہم برہم كرديتى ہے _ اس خاندان كے بچے لاوارث اور خانماں برباد ہوجاتے ہيں _ كبھى كبھى ماں باپ اپنى خود غرضى اور ضد ميں آكر ان بے گناہ معصوم بچوں كويونہى لا وارث چھوڑديتے ہيں _

۴_۶_۹_اور ۱۲ سال كى عمر كے چار بچے آوارہ اور سرگردان و پريشان ايك پوليس چوكى ميں گئے _ بڑے بچے نے بتايا كہ ہمارے ماں باپ ميں مسلسل لڑائي جھگڑا ہوتا رہتا تھا _ كچھ دن قبل دونوں عليحدہ ہوگئے اور ان ميں سے كوئي بھى ہم لوگوں كى سرپرستى قبول كرنے كے لئے تيارنہيں ہے _(۳۰۴)

جن معصوم بچوں كا كوئي سرپرست نہ رہے اور ان كى كوئي جائے پناہ نہ ہو تو ايسے بچے زيادہ تر آوارہ اور بد معاش بن جاتے ہيں _ ان كى نفسياتى الجھنيں انھيں بچپن سے ہى يا بڑے ہونے كے بعدچوري، ڈكيٹى ، مارپيٹ اور قتل و غارت جيسے جرائم ميں مبتلا كرديتى ہيں ، اخبار ورسائل ميں ہميں ايسے مجرموں كى خبريں برابر پڑھنے كو ملتى ہيں _ اخبار اطلاعات لكھتا ہے :_

بچوں كى اصلاح و تربيت كے مركز ميں تحقيق كرنے سے معلوم ہوا كہ اس مركز كے ايك سوسولہ مجرم جوانوں ميں سے اسّى افراد كى مائيں سوتيلى تھيں اور ان كے كہنے كے مطابق ان كى گمراہى اور بے راہروى كا سبب ان كى سوتيلى ماؤوں كا ظلم و ستم ، سختياں اور برا سلوك تھا _(۳۰۵)

برادر عزيز اور خواہر گرامى خدا كى خوشنودى اور اپنے معصوم بچوں كى خاطر ايثار و فداكاري

۲۷۶

سے كام ليجئے ، جو كچھ اب تك ہوا اسے بھول جايئے بہانے نہ تلاش كيجئے _ ہوس بازى سے دستبردار ہوجايئے ايك دوسرے كے معمولى عيوب اور خاميوں كو نظر انداز كيجئے _ باہمى كشمكش اور ہٹ دھرمى چھوڑديجئے _ اپنے اور اپنے معصوم بچوں كے انجام كے بارے ميں خواب اچھى طرح غور و فكر كيجئے يہ بيچارے تو بے قصور ہيں _

ان كى مسكين و افسردہ صورتوں اور حسرت بھرى نگاہوں پر ترس كھايئےہ معصوم آپ سے اس بات كى توقع ركھتے ہيں كہ آپ ان كے اشيانے يعنى خاندان كے پر خلوص مركز كو درہم برہم نہ ہونے ديں گے اور ان بے بال و پر كے چوزوں كو سرگرداں اور بے خانماں نہ كريں گے _

اگر آپ نے ان كى دلى خواہشات و جذبات كو نظر انداز كرديا تو ان كے ننّھے ننّھے دل ٹوٹ جائيں گے اور ان كے نالہ و فغاں بے اثر نہ ہوں گے اور آپ كبھى بھى خوشى و اطمينان محسوس نہ كر سكيں گے !!

۲۷۷

فہرست ماخذ

(حواشى )

۱_ سورہ روم آيت ۲۱

۲_ مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، مصنف : على بن ابى بكر ابوالحسن نور الدين الہيثمى مصري(م سنہ ۸۰۷ ھ ،سنہ ۱۴۰۵ئ)

۳_بحار الانوار ، مصنف ، علامہ محمد باقر مجلسى (رہ) (م سنہ ۱۱۱۱ھ) جلد ۱۰۳ ص ۲۱۷

۴_ بحارالانوار ، جلد ۱۰۳ ص ۲۲۲

۵_ سورہ روم آيت ۲۱

۶_ وسائل الشيعہ : تاليف : شيخ محمد بن الحسن الحر العاملى (م سنہ) جلد ۱۴ ص ۳

۷_ وسائل الشيعہ جلد ۱۴ ص ۱۳

۸_ وسائل الشيعہ ج ۱۴ ص ۲۳

۹_ وسائل الشيعہ ج ۱۴ ص ۵

۱۰_ وسائل الشيعہ ج ۱۴ ص ۶

۱۱_ وسائل الشيعہ ج ۱۴ ص ۶

۱۲_ وسائل الشيعہ ج ۱۴ ص ۲۳

۱۳_ بحارالانوار ج ۴۳ ص ۱۱۷

۱۴_ كتاب'' در آغوش خوش بختي'' ص ۱۴۲

۱۵_ بحار الانوارج ۱۰۳ ص ۲۵۴

۱۶_ محجة البيضائ: تاليف : محمد بن المرتضى معروف بہ ملا محسن فيض كاشانى ( م سنہ ۱۰۰۰ ھ) ج ۲ ص ۷۰

۱۷_ مستدرك الوسائل ، تاليف : ميرزا حسين النورى الطّبرسى _ ج ۲ ص ۵۵۲_

۱۸_ روزنامہ اطلاعات تہران _ الامار چ سنہ ۱۹ ۷۰ شمارہ ص ۱۳۴۰

۲۷۸

۱۹_ سورہ روم ، آيت ۲۱

۲۰_مستدرك ، ج ۲ ص ۵۳۲

۲۱_ بحارالانوار ج ۱۰۳ ص ۲۳۵

۲۲_بحارالانوار ج ۷۴ ص ۱۸۱

۲۳ _مستدرك ج ۳ ص ۵۵۱

۲۴ _ بحارالانوار ج ۱۰۳ ص ۲۵۳

۲۵_ مستدرك ج ۲ ص ۵۵۱

۲۶ _روزنامہ اطلاعات تہران _ ۴ مئي سنہ ۱۹۷۲ ء شمارہ ۱۳۷۸۷

۲۷ _روزنامہ اطلاعات تہران ، ۲۲ نوامبر سنہ ۱۹۷۱ شمارہ ۱۳۶۵۲

۲۸_ بحار الانوار ج ۷۶ ص ۳۶۳بہ ملا محسن فيض كاشانى ، ج ۲ ص ۹۳۱

۲۹_ محجة البيضاء ج ۲ ص ۷۲

۳۰_ روزنامہ اطلاعات ، ۱۸ نوامبر سنہ ۱۹۷۱ شمارہ ۱۳۶۵۱

۳۱_ روزنامہ اطلاعات ، ۳جنورى سنہ ۱۹۷۲ شمارہ سنہ ۱۳۶۸۹

۳۲_ بحارالانوار ج ۷۱ ص ۳۸۹

۳۳_ بحارالانوار ج ۷۳ ص ۲۹۸

۳۴_ رونامہ اطلاعات ۲۳ جنورى سنہ ۱۹۷۲ئ

۳۵_ روزنامہ اطلاعت ۲۵ آگست سنہ ۱۹۷۱

۳۶_ بحارالانوار ج ۷۱ ص ۳۷۷

۳۷_ بحار الانوار ج ۱۰۳ص ۲۵۳

۳۸_ بحارالانوار ج ۱۰۳ ص ۲۵۳

۳۹_ بحار الانوار ج ۱۰۳ ص ۲۴۲

۲۷۹

۴۰_ بحارالانوار ج ۷۶ص ۳۶۷

۴۱ _ مستدرك ج ۲ ص ۵۳۲

۴۲ _ بحارالانوار ج ۱۰۳ ص ۲۱۷

۴۳_ مستدرك ج ۲ ص ۵۳۴

۴۴_ سورہ ابراہيم آيت ۷

۴۵_ بحارالانوار ج ۱۰۳ ص ۲۳۹

۴۶_ شافى _تاليف : محمدبن المرتضى معروف

۴۷_ وسائل الشيعہ ج ۱۱ ص ۵۴۲

۴۸_ روزنامہ اطلاعات ۲۴ دسمبر سنہ ۱۹۶۹

۴۹_ روزنامہ اطلاعات ۲۸ ، نوامبر سنہ ۱۹۷۱ئ

۵۰_ روزنامہ اطلاعات ۶ فرورى سنہ ۱۹۷۲ئ

۵۱_ روزنامہ اطلاعات يكم مارچ سنہ ۱۹۷۲ئ

۵۲_ روزنامہ اطلاعات ۲۷ فرورى سنہ ۱۹۷۲ئ

۵۳_ بحار الانوار ج ۷۳ ص ۳۸۵_

۵۴_ بحارالانوار ج ۱۰۴ ص ۳۸

۵۵_ روزنامہ اطلاعات ۲۲فرورى سنہ ۱۹۷۲

۵۶_ بحارالانوار ج ۱۰۴ ص ۳۹

۵۷_ سورہ نور آيت ۳۱

۲۸۰