طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق0%

طُلوعِ عشق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

طُلوعِ عشق

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 12800
ڈاؤنلوڈ: 3943

تبصرے:

طُلوعِ عشق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 52 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12800 / ڈاؤنلوڈ: 3943
سائز سائز سائز
طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق

مؤلف:
اردو

اسلامي روش ہي بہتر ہے

عيسائيت اور يہوديت سميت ديگر اديان ميں يہ رشتہ (شاد ي) مختلف صورتوں ميں موجود ہے۔ اسلام نے اِن اديان کي شادي کے طريقے کو معتبر جانتے ہوئے مرد و عورت کو مياں بيوي قرار ديا ہے اور ان کي اولاد کو بھي حلال زادہ سمجھا ہے۔

اسلام ميں شادي کا تصور، طريقہ اور روش بقيہ تمام اديان اور اقوام کے طريقہ ازدواج سے زيادہ بہتر ہے۔ شادي کے مقدمات، اس کي اصل و بنياد نيز اس کا دوام و بقا انسان کي مصلحت کے عين مطابق رکھا گيا ہے۔ البتہ دوسرے اديان ميں ہونے والي شادياں بھي ہمارے نزديک معتبر اور قابل احترام ہيں يعني وہ نکاح جو ايک عيسائي کے لئے اُس کے گرجا گھر يا ايک يہودي کے لئے اُس کے مَعْبَد (کنيسہ) ميں يا ہر قوم کے اپنے اپنے خاص طريقے سے انجام ديا جاتا ہے وہ ہمارے نزديک صحيح ہے اور ہم اسے باطل نہيں کہتے ہيں۔ ليکن جو طريقہ اسلام نے معين کيا ہے وہ دوسروں سے بہتر ہے کہ جس ميں شوہر اور بيوي دونوں کے لئے الگ الگ حقوق، مشترکہ ازدواجي زندگي کے آداب اور ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننے کي روش بھي بيان کي گئي ہے۔ ’’اسلامي بنياد‘‘ يہي ہے کہ ايک گھرانہ تشکيل پائے اور وہ خوش بخت اور خوشحال بھي ہو۔

نکاح کے چند بول کے ذريعے ؟

يہ نکاح جو ہم پڑھتے ہيں، در حقيقت اس کے چند بول (صيغوں ) کے ذريعے ہم دو اجنبيوں اور مختلف ماحول و خاندان کے لڑکے لڑکي کو ايک دوسرے سے ملا ديتے ہيں۔ يوں يہ آپس ميں اس طرح شير و شکر ہو جاتے ہيں کہ يہ پوري دنيا سے زيادہ ايک دوسرے کے لئے محرم، ايک دوسرے کے سب سے نزديک اور مہربان و غمخوار بن جاتے ہيں۔ دوسري بات يہ کہ ہم اس نکاح کے ذريعے انساني معاشرے ميں ايک نئي اکائي ايجاد کرتے ہيں اور يوں معاشرے کا يہ انساني اجتماع ’’گھرانے‘‘ کي اکائي سے تشکيل پاتا ہے۔ تيسري بات يہ کہ آپ دونوں انسان ہيں، ايک بيوي ہے اور ايک شوہر کہ آپ ميں سے ہر ايک کو دوسرے کي ضرورت ہے اور ہم اس نکاح کے چند جملے پڑھ کر آپ کي ان ضرورتوں کے مثبت حل کا سامان کرتے ہيں۔

ہم يہ تين کام انجام ديتے ہيں۔ يہ آپ کي زندگي کي ابتدا بھي ہے اور بنياد بھي اب اس کے بعد آگے خود آپ کي ذمہ داري ہے۔

سب سے اہم ترين فائدہ

رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے اور اپنا گھر بسانے کو اسلام ميں بہت زيادہ اہميت دي گئي ہے اور اس کے بہت سے فوائد ہيں ليکن اس کا سب سے اہم ہدف اور فائدہ اپنا گھر بسانا ہے۔ مياں بيوي کے درميان محبت و خلوص اور ايثار و فدا کاري کا يہ رشتہ اور معاشرے ميں گھرانے کي ’’اکائي‘‘ کي تشکيل دراصل مرد و عورت دونوں کے روحاني آرام و سکون، کمال اور اُن کي شخصيت کے رشد اور پختگي ميں بہت موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سب کے بغير مرد کا وجود بھي ناقص ہے اور عورت کا وجود بھي نا مکمل رہتا ہے۔ دوسرے تمام مسائل کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔ اگر يہ گھرانہ، صحيح و سالم اور محبت و خلوص کي فضا ميں تشکيل پائے تو يہ معاشرے کے موجودہ اور آئندہ حالات پر اثر انداز ہو گا۔

ازدواجي زندگي کا آغاز دراصل گھرانے کي تشکيل کے لئے اقدام کرنا ہے جب کہ گھر کو بسانا درحقيقت تمام اجتماعي روابط کي اصلاح اور انساني تربيت کي بنياد ہے۔

درحقيقت شادي عبارت ہے لڑکے اور لڑکي کي اپني مشترکہ ازدواجي زندگي شروع کرنے اور گھر بسانے سے۔ لڑکا اور لڑکي ايک دوسرے کو ديکھيں (اور پسند کريں)، شرعي عقد (نکاح) پڑھا جائے اور يہ ايک دوسرے کے مياں بيوي بن جائيں اور يوں محبت و خلوص کي فضا ميں ايک گھرانے کي بنياد رکھي جاتي ہے۔ خداوند عالم ہر لحاظ سے صحيح و سالم اور مسلمان گھرانے کو پسند کرتا ہے۔ جب ايک گھرانہ تشکيل پاتا ہے تو اس پر بہت سي برکتيں بھي نازل ہوتي ہيں، مياں بيوي کو اپني بہت سي ضرورتوں کا مثبت حل مل جاتا ہے اور انساني نسل اپنا سفر جاري رکھتي ہے۔ ان تمام مراحل ميں اصل چيز اولاد، خوبصورتي و زيبائي اور مال و دولت نہيں ہے بلکہ اصل جوہر يہ ہے کہ دو انسان مل کر اپني مشترکہ ازدواجي زندگي کا آغاز کرتے ہيں چنانچہ اس مشترکہ زندگي کي فضا اور ماحول کو صحيح و سالم ہونا چاہيے۔

اس گھرانے کي بنياد رکھنا بذات خود سب سے اہم عنصر ہے۔ خلقت بشر کي اساس اس پر رکھي گئي ہے کہ ايک مرد و عورت مل کر باہمي شراکت و رضا مندي سے اس اکائي کي بنياد رکھيں تا کہ زندگي آساني سے، بغير کسي مشکل و تشويش خاطر کے انساني حاجت و ضرورت کي جواب دہي کے لئے آگے بڑھے۔ اگر يہ سب چيزيں نہ ہوں تو جان ليں کہ زندگي اپني ايک ٹانگ کے سہارے چل رہي ہے۔

دوسري بات

محبت و خلوص ميں تشکيل پانے والا گھرانہ اور خانداني نظام زندگي

دريچہ

اب ہمارے بہترين اور عزيز ترين لڑکے اور لڑکياں جان گئے ہيں کہ ’’رشتہ ازدواج‘‘ ميں منسلک ہونے اور اس مقدس بندھن کا سب سے بہترين نتيجہ اور اصل ہدف ’’گھرانے‘‘ کي بنياد رکھنا ہے۔

آج کے زمانے ميں سب ہي ’’گھرانے‘‘ کے متعلق باتيں کرتے ہيں اور سب ہي کو اس بارے ميں تشويش لاحق ہے۔ معاشرتي اور تاريخي علوم کے ماہرين کسي بھي معاشرے کي سب سے پہلي اور بنيادي ترين شکل ’’گھرانے‘‘ کو قرار ديتے ہيں۔ اس طرح ماہرين نفسيات بھي انسانوں کے نفساني حالات کي جڑوں کو ’’گھرانے‘‘ ميں ہي تلاش کرتے ہيں۔ جب کہ تربيت کے شعبے سے منسلک مفکرين اور دانش مند حضرات ’’گھر‘‘ کو ہي تربيتي امور کا مرکز جانتے ہيں اور اجتماعي مصلح حضرات بھي ہر قسم کي اصلاح طلب تبديلي و انقلاب کو ’’گھرانے‘‘ سے ہي مربوط قرار ديتے ہيں اور

سچ مچ، گھرانے کي اہميت کتني زيادہ ہے؟

اسلام کي اس بارے ميں کيا نظر ہے؟

کس طرح ايک ’’گھرانے‘‘ کي بنيادوں کو مستحکم بنايا جا سکتا ہے؟

اور ، اور، اور

اسلام اور معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ کے مقام و منزلت اور اس کے مختلف اثرات کو اسلام کے مايہ ناز مفکر اور فلسفہ شناس دانشمند کي حيثيت سے اپنے ہر دلعزيز قائد و رہبر سے سننا اس عظيم بنياد کو رکھنے والے نوجوانوں کے لئے راہ گُشا ہے۔

کلمہ طيبہ يا پاک بنياد

گھرانہ ’’کلمہ طيبہ‘‘ ١ کي مانند ہے اور کلمہ طيبہ کي خاصيت يہ ہے کہ جب يہ وجود ميں آتا ہے تو مسلسل اس کے وجود سے خير و برکت اور نيکي ہي ملتي رہتي ہے اور وہ اپنے اطراف کي چيزوں ميں نفوذ کرتا رہتا ہے۔ کلمہ طيبہ وہي چيزيں ہيں کہ جنہيں خداوند متعال نے انسان کي فطري ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کي صحيح بنيادوں کے ساتھ اُسے تحفہ ديا ہے۔ يہ سب کلمہ طيبہ ہيں خواہ وہ معنويات ہوں يا ماديات۔

انساني معاشرے کي اکائي

جس طرح ايک انساني بدن ايک اکائي ’’سيل‘‘ يا ’’خليے‘‘ سے تشکيل پاتا ہے کہ ان خليوں کي نابودي،خرابي اور بيماري خود بخود اور فطري طور پر بدن کي بيماري پر اختتام پذير ہوتي ہے۔ اگر ان اکائيوں ’’خليوں‘‘ ميں پلنے والي بيماري بڑھ جائے تو خطرناک شکل ميں بڑھ کر پورے انساني بدن کے لئے خطرے کا باعث بن سکتي ہے۔ اسي طرح انساني معاشرہ بھي اکائيوں سے مل کر بنا ہے جنہيں ہم ’’گھرانہ‘‘ کہتے ہيں۔ ہر گھر اور گھرانہ انسان کے معاشرتي بدن کي اکائي ہے۔ جب يہ صحيح و سالم ہوں گے اور صحيح اور اچھا عمل انجام ديں گے تو معاشرے کا بدن بھي يقيناًصحيح و سالم ہو گا۔

اچھا گھرانہ اور اچھا معاشرہ

اگر کسي معاشرے ميں ايک گھرانے کي بنياديں مستحکم ہو جائيں، مياں بيوي ايک دوسرے کے حقوق کا خيال رکھيں، آپس ميں خوش رفتاري، اچھے اخلاق اور باہمي تعاون سے پيش آئيں، مل کر مشکلات کو حل کريں اور اپنے بچوں کي اچھي تربيت کريں تو وہ معاشرہ بہترصورتحال اور نجات سے ہمکنار ہوجائے گا اور اگر معاشرے ميں کوئي مصلح موجود ہو تو وہ ايسے معاشروں کي باآساني اصلاح کر سکتا ہے۔ ليکن اگر صحيح و سالم اور اچھے گھرانے ہي معاشرے ميں موجود نہ ہوں تو کتنے ہي بڑے مصلح کيوں نہ آ جائيں وہ بھي معاشرے کي اصلاح نہيں کر سکتے۔

١ سورہ ابراہيم کي آيت ٢٤ کي طرف اشارہ ہے کہ ارشاد رب العزت ہے : ’’اللہ تعاليٰ نے کلمہ طيبہ کي مثال پيش کي ہے جيسے ايک شجر طيبہ کہ جس کي جڑيں زمين ميں مستحکم ہوں اور شاخيں آسمان ميں پھيلي ہوئي ہوں اور اپنے رب کے حکم سے اپنا پھل بھي لے کر آتا ہے‘‘۔

ہر وہ ملک کہ جس ميں گھرانے کي بنياديں مضبوط ہوں تو اس ملک کي بہت سي مشکلات خصوصاً معنوي اور اخلاقي مشکلات اس مستحکم اور صحيح و سالم گھرانے کي برکت سے دور ہو جائيں گي يا سرے ہي سے وجود ميں نہيں آئيں گي۔ يہ بندھن اور ملاپ اور زندگي کا نيا روپ دراصل خداوند عالم کي بڑي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور اُس کے اسرارِ خلقت ميں سے يک سرّ ہے۔ اسي طرح معاشروں کي صحت و سلامتي اور اصلاح و بہتري نيز ان کے بقا اور دوام کا دارو مدار اسي ازدواجي زندگي پر ہے۔

اگر ايک گھرانہ صحيح صورت ميں تشکيل پائے اور منطقي، عقلي اور اخلاقي اصول دونوں مياں بيوي پر حاکم ہوں اور وہ گھر، خدا او ر شريعت مقدسہ کے معيّن شدہ اصولوں کے مطابق چلے تو يہ گھرانہ اصلاح معاشرہ کي بنياد قرار پائے گا نيز اس معاشرے کے تمام افراد کي سعادت کي بنياد بھي يہي گھر بنے گا۔

گھر کو بسانا دراصل انسان کي ايک اجتماعي ضرورت ہے۔ چنانچہ اگر کسي معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ صحيح و سالم اور مستحکم ہوں، حالاتِ زمانہ ان کے پائے ثبات ميں لغزش پيدا نہ کريں اور وہ مختلف قسم کي اجتماعي آفات سے محفوظ ہوں تو ايسا معاشرہ اچھي طرح اصلاح پا سکتا ہے، اس کے باشندے فکري رشد پا سکتے ہيں، وہ روحاني لحاظ سے مکمل طور پر صحيح و سالم ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ نفسياتي بيماريوں سے بھي دور ہوں۔

اچھے گھرانے سے محروم معاشرہ نفسياتي بيماريوں کا مرکز ہے

اچھے گھرانوں سے محروم معاشرہ ايک پريشان، غير مطمئن اور زبوں حالي کا شکار معاشرہ ہے اور ايک ايسا معاشرہ ہے کہ جس ميں ثقافتي، فکري اور عقائدي ورثہ آنے والي نسلوں تک با آساني منتقل نہيں ہوسکتا۔ ايسے معاشرے ميں انساني تربيت کے بلند مقاصد آساني سے حاصل نہيں ہو پاتے يا اس ميں صحيح و سالم گھرانوں کا فقدان ہوتا ہے يا ان کي بنياديں متزلزل ہوتي ہيں۔ ايسے معاشروں ميں انسان اچھے تربيتي مراکز اور پرورش گاہوں ميں بھي اچھي پرورش نہيں پا سکتے۔

صحيح و سالم گھرانے کا فقدان اس بات کا سبب بنتا ہے کہ نہ اس ميں بچے صحيح پرورش پاتے ہيں، نہ نوجوان اپني صحيح شخصيت تک پہنچ سکتے ہيں اور انسان بھي ايسے گھرانوں ميں کامل نہيں بنتے۔ جب کہ اس گھر سے تعلق رکھنے والے مياں بيوي بھي صالح اور نيک نہيں ہوں گے، اس گھر ميں اخلاقيات کا بھي فقدان ہو گا اور گذشتہ نسل کے اچھے اور قيمتي تجربات بھي اگلي نسلوں تک منتقل نہيں ہو سکتے ہيں۔ جب ايک معاشرے ميں اچھا گھرانہ موجود نہ ہو تو جان ليجئے کہ اس معاشرے ميں ايمان اور دينداري کو وجود ميں لانے والا کوئي مرکز موجود نہيں ہے۔

ايسے معاشرے کہ جن ميں گھرانوں کي بنياديں کمزور ہيں يا جن ميں اچھے گھرانے سرے ہي سے وجود نہيں رکھتے يا کم ہيں يا اگر ہيں تو ان کي بنياديں متزلزل ہيں تو وہ فنا اور نابودي کے دھانے پر کھڑے ہيں۔ ايسے معاشروں ميں نفسياتي الجھنوں اور بيماريوں کے اعداد و شمار ان معاشروں سے زيادہ ہيں کہ جن ميں اچھے اور مستحکم گھرانے موجود ہيںاور مرد و عورت گھرانے جيسے ايک مظبوط مرکز سے متصل ہيں۔

غير محفوظ نسليں

انساني معاشرے ميں گھرانہ بہت اہميت اور قدر و قيمت کا حامل ہے۔ آنے والي نسلوں کي تربيت اور معنوي، فکري اور نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم انسانوں کي پرورش کے لئے گھرانے کے فوائد تک نہ کوئي پہنچ سکتا ہے اور تعليم و تربيت کے ميدان ميں نہ ہي کوئي چيز بھي گھر و گھرانے کي جگہ لے سکتي ہے۔ جب خانداني نظامِ زندگي بہتر انداز ميں موجود ہو تو ان کروڑوں انسانوں ميں سے ہر ايک کے لئے ديکھ بھال کرنے والے (والدين جيسے دو شفيق وجود) ہميشہ ان کے ہمراہ ہوں گے کہ جن کا کوئي بھي نعم البدل نہيں ہوسکتا۔

’’گھرانہ‘‘ ايک امن و امان کي داوي محبت اور پُر فضا ماحول کا نام ہے کہ جس ميں بچے اور والدين اس پر امن ماحول اور قابل اعتماد فضا ميں اپني روحي، فکري اور ذہني صلاحيتوں کو بہتر انداز ميں محفوظ رکھتے ہوئے ان کي پرورش اور رُشد کا انتظام کر سکتے ہيں۔ ليکن جب خانداني نظام ہي کي بنياديں کمزورپڑ جائيں تو آنے والي نسليں غير محفوظ ہو جاتي ہيں۔

انسان، تربيت، ہدايت اور کمال و ترقي کے لئے خلق کيا گيا ہے اور يہ سب اہداف صرف ايک پر امن ماحول ميں ہي حاصل کئے جا سکتے ہيں۔ ايسا ماحول کہ جس کي فضا کو کوئي نفسياتي الجھن آلودہ نہ کرے اور ايسا ماحول کہ جس ميں انساني صلاحيتيں اپنے کمال تک پہنچيں۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے ايسے ماحول کا وجود لازمي ہے کہ جس ميں تعليمات ايک نسل کے بعد دوسري نسل ميں منعکس ہوں اور ايک انسان اپنے بچپنے سے ہي صحيح تعليم، مددگار نفسياتي ماحول اور دو فطري معلّموں يعني والدين کے زير سايہ تربيت پائے جو عالَمِ دنيا کے تمام انسانوں سے زيادہ اس پر مہربان ہيں۔

اگر معاشرے ميں صحيح خانداني نظام رائج نہ ہو تو انساني تربيت کے تمام اقدامات ناکام ہو جائيں گے اور اس کي تمام روحاني ضرورتوں کو مثبت جواب نہيں ملے گا۔ يہي وجہ ہے کہ انساني تخليق اور فطرت ايسي ہے کہ جو اچھے گھرانے، صحيح و کامل خانداني نظام کے پُر فضا اور محبت آميز ماحول اور والدين کي شفقت و محبت کے بغير صحيح و کامل تربيت، بے عيب پرورش اور نفسياتي الجھنوں سے دور اپني لازمي روحاني نشو و نما تک نہيں پہنچ سکتي ہے۔ انسان اپني باطني صلاحيتوں اور اپنے احساسات و جذبات کے لحاظ سے اسي وقت کامل ہو سکتا ہے کہ جب وہ ايک مکمل اور اچھے گھرانے ميں تربيت پائے۔ ايک مناسب اور اچھے نظام زندگي کے تحت چلنے والے گھر ميں پرورش پانے والے بچوں کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم اور ہمدردي اور مہرباني کے جذبات(۱) سے سرشار ہوں گے۔

ايک گھرانے ميں تين قسم کے انسانوں کي اصلاح ہوتي ہے۔ ايک مرد ہيں جو اس گھر کے سرپرست يا والدين ہيں، دوسرے درجے پر خواتين کہ جو ماوں کا کردار ادا کرتي ہيں اور تيسرے مرحلے پر اولاد کہ جو اس معاشرے کي آنے والي نسل ہے۔

اچھے گھرانے کي خوبياں

ايک اچھا گھرانہ يعني ايک دوسرے کي نسبت اچھے، مہربان، پُر خلوص جذبات و احساسات کے مالک اور ايک دوسرے سے عشق و محبت کرنے والے مياں بيوي جو کہ ايک دوسرے کي جسماني اور روحاني حالت کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق ايک دوسرے کي مدد کريں، ايک دوسرے کي فعاليت، کام کاج اور ضرورتوں کو اہميت ديں اور ايک دوسرے کے آرام و سکون اور بہتري و بھلائي کو مدّنظر رکھيں۔ يہ سب پہلے درجے پر ہيں۔

____________________

١ ماہرين نفسيات اس بات کے قائل ہيں اور ہماري احاديث و روايات بھي اس مطلب پر تاکيد کرتي ہيں کہ گھر ميں والدين کا اپني اولاد سے ہمدردي، محبت، شفقت اور مہرباني و پيار سے پيش آنا بچوں کي تربيت اور ان کي نشو و نما ميں بہت زيادہ موثر ہے۔ والدين کا خشک رويہ بچوں سے مہرباني، ہمدردي، اور پيار و محبت کو سلب کر لے گا اور وہ بچے سخت مزاج، ناقص اور نا ہموار طبيعت کے مالک ہوں گے۔ (مترجم)

دوسرے درجے پر اس گھرانے ميں پرورش پانے والي اولاد ہے کہ جس کي تربيت کے لئے وہ احساس ذمّہ داري کريں اور مادي اور معنوي لحاظ سے انہيں صحيح و سالم پرورش کا ماحول فراہم کريں۔ ان کي خواہش يہ ہوني چاہيے کہ ان کے بچے مادي اور معنوي لحاظ سے سلامتي اور بہتري تک پہنچیں، انہيں بہترين تعليم و تربيت ديں، انہيں مودّب بنائيں، اچھے طريقوں سے اپني اولاد کو برے کاموں کي طرف قدم بڑھانے سے روکيں اور بہترين صفات سے ان کي روح کو مزيّن کريں۔ ايک ايسا گھر دراصل ايک ملک ميں ہونے والي تمام حقيقي اصلاحات کي بنياد فراہم کر سکتا ہے۔ چونکہ ايسے گھرانوں ميں اچھے انسان ہي اچھي تربيت پاتے ہيں اور بہترين صفات کے مالک ہوتے ہيں۔ جب کوئي معاشرہ شجاعت، عقلي استقلال، فکري آزادي، احساس ذمہ داري، پيار و محبت، جرآت و بہادري، وقت پر صحيح فيصلہ کرنے کي صلاحيت، دوسروں کي خير خواہي اور اپني خانداني پاکيزگي و نجابت کے ساتھ پرورش پانے والے لوگوں کا حامل ہو گا تو وہ کبھي بد بختي و روسياہي کے شکل نہيں ديکھے گا۔

اچھے خانداني نظام ميں ثقافت کي منتقلي کي آساني

ايک معاشرے ميں اس کي تہذيب و تمدّن اور ثقافت کے اصولوں کي حفاظت اور آئندہ آنے والي نسلوں تک ان کي منتقلي اچھے گھرانے يا بہترين خانداني نظام کي برکت ہي سے انجام پاتي ہے۔

رشتہ ازدواج ميں نوجوان لڑکے لڑکي کے منسلک ہونے کا سب سے بہترين فائدہ ’’گھر بسانا‘‘ ہے۔ اس کا سبب بھي يہي ہے کہ اگر ايک معاشرہ اچھے گھرانوں، خانداني افراد اور بہترين نظام تربيت پر مشتمل ہو تو وہ بہترين معاشرہ کہلائے جانے کا مستحق ہے اور وہ اپني تاريخي اور ثقافتي خزانوں اورورثہ کو بخوبي احسن اگلي نسلوںں تک منتقل کرے گا اور ايسے معاشرے ميں بچے بھي صحيح تربيت پائيں گے۔ چنانچہ وہ ممالک اور معاشرے کہ جن ميں خانداني نظام مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو وہاں ثقافتي اور اخلاقي مسائل پيش آتے ہيں۔

اگر موجودہ نسل اس بات کي خواہش مند ہے کہ وہ اپنے ذہني اور فکري ارتقائ، تجربات اور نتائج کو آنے والي نسلوں کو منتقل کرے اور ايک معاشرہ اپنے ماضي اور تاريخ سے صحيح معنيٰ ميں فائدہ حاصل کرے تو يہ صرف اچھے گھرانوں يا اچھے خانداني نظام زندگي کے ذريعے ہي ممکن ہے۔ گھر کي اچھي فضا ميں اس معاشرے کي ثقافتي اور تاريخي بنيادوں پر ايک انسان اپنے تشخص کو پاتا ہے اور اپني شخصيت کي تعمير کرتا ہے۔ يہ والدين ہي ہيں کہ جو غير مستقيم طور پر بغير کسي جبر اور تصنّع (بناوٹ) کے فطري اور طبيعي طور پر اپنے فکري مطالب، عمل، معلومات، عقائد اور تمام مقدس امور کو آنے والي نسلوں تک منتقل کرتے ہيں۔

خوشحال گھرانہ اور مطمئن افراد

اسلام ’’گھرانے‘‘ پر مکمل توجہ ديتاہے اور گھرانے پر اس کي نظر خاص الخاص اہتمام کے ساتھ جمي ہوئي ہيں کہ جس کي وجہ سے خانداني نظام يا گھرانے کو انساني حيات ميں مرکزيت حاصل ہے۔ اسي لئے اس کي بنيادوں کو کمزور يا کھوکھلا کرنے کو بدترين فعل قرار ديا گيا ہے۔

اسلام ميں گھرانے کا مفہوم يعني ايک چھت کے نيچے دو انسانوں کي سکونت، دو مختلف مزاجوں کا بہترين اور تصوراتي روحاني ماحول ميں ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا، دو انسانوں کے انس و الفت کي قرار گاہ اور ايک انسان کے ذريعے دوسرے انسان کے کمال اور معنوي ترقي کا مرکز، يعني وہ جگہ کہ جہاں انسان پاکيزگي حاصل کرے اور اسے روحاني سکون نصيب ہو۔ يہ ہے اسلام کي نگاہ ميں خوشحال گھرانہ اور اسي ليے اسلام اس مرکز ’’گھرانے‘‘ کو اس قدر اہميت ديتا ہے۔

قرآن کے بيان کے مطابق اسلام نے مرد و عورت کي تخليق، ان کے ايک ساتھ زندگي گزارنے اور ايک دوسرے کا شريکِ حيات بننے کو مياں بيوي کے لئے ايک دوسرے کے آرام و سکون کا باعث قرار ديا ہے۔

قرآن ميں ارشاد ِ خداوندي ہے کہ ’’وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْکُنَ اِلَيْهَا ‘‘(۱)

____________________

١ سورہ اعراف ١٨٩

جہاں تک مجھے ياد ہے قرآن ميں دو مرتبہ ’’سکون‘‘ کي تعبير آئي ہے(۱)

خداوند عالم نے انساني جوڑے کو اس کي جنس (انسانيت) سے ہي قرار ديا ہے يعني عورت کا جوڑا مرد اور مرد کا جوڑا عورت کو قرار ديا ہے تا کہ ’’لِيَسْکُنَ اِلَيْھَا‘‘ يعني يہ انسان خواہ مرد ہو يا عورت، اپنے مياں يا بيوي سے آرام و سکون حاصل کرے۔

يہ آرام و سکون دراصل باطني اضطراب کي زندگي کے پُر تلاطم دريا سے نجات و سکون پانے سے عبارت ہے۔ زندگي ايک قسم کا ميدان جنگ ہے اور انسان اس ميں ہميشہ ايک قسم کے اضطراب و پريشاني ميں مبتلا رہتا ہے لہٰذا يہ سکون بہت اہميت کا حامل ہے۔ اگر يہ آرام و سکون انسان کو صحيح طور پر حاصل ہو تو اس کي زندگي سعادت و خوش بختي کو پا لے گي، مياں بيوي دونوں خوش بخت ہو جائيں گے، اور اس گھر ميں پيدا ہونے والے بچے بھي بغير کسي نفسياتي دباو اور الجھن کے پرورش پائيں گے اور خوش بختي ان کے قدم چومے گي ۔ صرف مياں بيوي کے باہمي تعاون، اچھے اخلاق و کردار اور پُرسکون ماحول سے اس گھرانے کے ہر فرد کے لئے سعادت و خوش بختي کي زمين ہموار ہو جائے گي۔

زندگي کي کڑي دھوپ ميں ايک ٹھنڈي چھاوں

جب مياں بيوي دن کے اختتام پر يا درميان ميں ايک دوسرے سے ملاقات کرتے ہيں تو دونوں ايک دوسرے سے يہي اميد رکھتے ہيں کہ انہوں نے گھر کے ماحول کو خوش رکھنے، اسے زندہ بنانے اور تھکاوٹ اور ذہني الجھنوں کو دور کر کے اسے زندگي گزارنے کے قابل بنانے ميں اپنا اپنا کردار موثر طريقے سے ادا کيا ہوگا۔ ان کي ايک دوسرے سے توقع بالکل بجا ہے۔ اگر آپ بھي يہ کام کر سکيں تو حتماً انجام ديں کيونکہ اس سے زندگي شيريں اور ميٹھي ہوتي ہے۔

انسان کي زندگي ميں مختلف ناگزير حالات و واقعات کي وجہ سے طوفان اٹھتے ہيں جس ميں وہ ايک مضبوط پناہ گاہ کا متلاشي ہوتا ہے۔ مياں بيوي کا جوڑا اس طوفان ميں ايک دوسرے کي پناہ ليتا ہے۔ عورت اپنے شوہر کے مضبوط بازوں کا سہارا لے کر اپنے محفوظ ہونے کا احساس کرتي ہے اور مرد اپني بيوي کي چاہت و فدا کاري کي ٹھنڈي چھاوں ميں سکھ کا سانس ليتا ہے۔ مرد اپني مردانہ کشمکش والي زندگي ميں ايک ٹھنڈي چھاوں کا ضرورت مند ہے تا کہ وہاں کي گھني چھاوں ميں تازہ دم ہو کر دوبارہ اپنا سفر شروع کرے۔ يہ ٹھنڈي چھاوں اسے کب اور کہاں نصيب ہو گي؟ اس وقت کہ جب وہ اپنے گھر کي عشق و الفت، مہرباني اور محبت سے سرشار فضا ميں قدم رکھے گا، جب وہ اپني شريکہ حيات کے تبسّم کو ديکھے گا کہ جو ہميشہ اس سے عشق و محبت کرتي ہے، زندگي کے ہر اچھے و بُرے وقت ميں اس کے ساتھ ساتھ ہے، زندگي کے ہر مشکل لمحے ميں اس کے حوصلوں ميں پختگي عطا کرتي ہے اور اسے ايک جان دو قالب ہونے کا احساس دلاتي ہے۔ يہ ہے زندگي کي ٹھنڈي چھاوں۔

____________________

١ومِن آياته آن خلق لکم من آنفسکم آزواجاً لتسکنوا اِليها (سورہ روم ٢١)