کامياب ازدواجي زندگي کے سنہرے اصول
تيسرا مرحلہ
کاموں کي تقسيم کا فن
دريچہ
دو نو جوان لڑکے اور لڑکي اپني مادي اور معنوي زندگي کے کمال کے مشترک ہدف اور خدا کے عطا کردہ سرمايہ عشق کے ساتھ
اپني نئي زندگي کے آغاز کے لئے تيار ہوتے ہيں۔
خدا وند حکيم نے مياں بيوي کو ايک دوسرے کے وجود کي تکميل کا ذريعہ قرار ديا ہے اور انہيں زندگي کے ميدانِ نبرد کي مختلف
اور گوں نا گوں ضرورتوں کے تناسب کے ساتھ ايک دوسرے سے متفاوت تخليق کيا ہے۔
ايک خوشحال و آباد اور کامياب گھرانے کي تشکيل اور ايک ميٹھي زندگي ميں کاموں کي تقسيم کا فن بہت زيادہ اہميت کا حامل ہے ۔
ان دونوں ميں ہر ايک کو چاہیے کہ اپني طاقت و قدرت کے مطابق ايک ’’بارِ حيات ‘‘کو اُٹھالےاور ساتھ ہي وہ زندگي ميں اپنے شريک حيات کے اہم اور حساس نوعيت کے کردار کي مدد کے لیے اپنے کردار کي اہميت پر بھي ايمان رکھتا ہو۔
وہ جو بھي کام اپنے ذمے لے اُسے اپني پوري سنجيدگي اور سليقہ مندي سے انجام دے۔
اِس کے ساتھ ساتھ اپنے ’’ہمراہ و ہمسفر‘‘ کے کردار کو حقيقي رنگ دينے کے لئے اس کي مدد کرے۔
کاموں کي تقسيم ،گھر ميں خاتون کے خاص کردار ،گھريلو امور کو چلانے ، ان کي اہميت اور گھر سے باہر ان کي فعاليت اور کام سے متعلق مختلف نظريات اور بے شمار سوالات ذہن ميں ابھرتے ہيں۔
اس نئي راہ فعاليت کے ابہامات کو دور کرنے کے لیے اِس ’’مرشد ‘‘ کي پرمغز باتيں اور نکات بہت موثر ہيں۔
کاموں کي تقسيم
جب دو انسان کسي ايک کام ميں شريک ہوتے ہيں اور رشتہ ازدواج ميں منسلک ہوکراپني مشترکہ زندگي کا آغاز کرتے ہيں تو بہت سي ايسي ذمے دارياں ہيں جو ان کے درميان مشترک ہوتي ہيں جو گھر کي گاڑي چلانے اور مختلف قسم کي مدد و اعانت سے عبارت ہيں اور جو گھر کو خوشحال آباد بنانے ميں بہت موثر کردار ادا کرتي ہيں لہٰذا دونوں کو چاہیے کہ اِس سلسلے ميں ايک دوسرے کي مدد کريں۔
يہ کام دونوں کے درميان مشترک ہيں ليکن ان کاموں کوتقسيم ہونا چاہیے۔ کبھي کبھي يہ ديکھنے ميں آتا ہے کہ مياں بيوي اپنے کاموں کو تقسيم نہيں کرتے ہيں ليکن بہتر يہ ہے کہ کاموں کو اس طرح تقسيم کيا جائے کہ بعض کاموں کو مرد اور بعض کاموں کو بيوي انجام دے بالکل دوسرے کاموں ميں مدد و تعاون کي طرح۔
ايک اچھا گھر وہي ہے جہاں مياں بيوي ايک دوسرے کي مدد کريں اور ايک دوسرے کا ہاتھ بٹائيں ۔اگر شوہر کسي مشکل يابُرے حالات کا شکار ہو تو بيوي کو چاہیے کہ وہ اس کي پريشاني کا بوجھ ہلکا کرے ۔يا اگر گھر کے کاموں ميں يا اپنے ديگر امور ميں بيوي کو دشواري کا سامنا ہو تو شوہر کو اس کي دشواري کو دور کرنے ميں پوري کوشش کرني چاہیے۔ دونوں کو چاہیے کہ ايک دوسرے کے مستقبل کي مثبت تعمير کے لئے خود کو شريک قرار ديں اور ان تمام کاموں کو خدا کے لئے انجام ديں۔
ايک دوسرے کو روحي طور پر مضبوط بنايئے
ايک دوسرے کي مدد کے معني يہ نہيںہيں کہ مياں بيوي ايک دوسرے کے کام انجام دينے لگيں، نہيں! بلکہ انہيں چاہیے کہ ايک دوسرے کي ہمت بندھائيں اور روحي و باطني طور پر ايک دوسرے کو مضبوط کريں۔ چونکہ مرد حضرات معاشرے ميں معمولاً مشکل اور سخت کاموں کو انجام ديتے ہيں لہٰذا خواتين کو چاہیے کہ وہ ان کے حوصلوں کو بلند کريں ،ان کے جسم و جان سے خستگي اور تھکاوٹ کو دور کريں، تبسم سے ان کا استقبال کريں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ ان کي خوشي کا انتظام کريں ۔اگر خواتين گھر سے باہر کسي کام کو انجام ديتي ہيں تو مردوں کو چاہیے کہ ان کي مدد کريں اور ان کي مضبوط پناہ گاہ بنيں ۔
مدد اور تعاون سے مراد روحي مدد اور ايک دوسرے کے حوصلوں اور ہمتوں کو بلند کرنا ہے ۔بيوي کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کي ضرورتوں، اندرون اور بيرونِ خانہ اس کي فعاليت اور اس کي جسماني اور فکري حالت کو درک کرے ۔ ايسا نہ ہو کہ بيوي کے کسي فعل سے مرد اپنے اوپر نفسياتي دباو اور شرما شرمي محسوس کرے ۔شريکہ حيات کو چاہیے کہ وہ کوئي ايسا کام انجام نہ دے کہ جس سے اس کا شوہر زندگي سے مکمل طور پر نااميد اور مايوس ہو جائے اور خدا نخواستہ غلط راستوں اور عزت و ناموس کو زک پہنچانے والي راہوں پر قدم اُٹھالے۔
زندگي کے ہر گام اور ہر موڑ پر ساتھ دينے والي شريکہ حيات کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کو زندگي کے مختلف شعبوں ميں استقامت اور ثابت قدمي کے لئے شو ق و رغبت دلائے۔ اگر اس کي نوکري اس طرح کي ہے کہ وہ اپنے گھر کو چلانے ميں اپنا مناسب و صحيح کردار ادا نہيں کر پا رہا ہے تو اس پر احسان نہ جتائے اور اسے طعنے نہ دے۔ يہ بہت اہم باتيں ہيں۔ يہ ہيں خواتين کے وظائف۔ اسي طرح شوہر کي بھي ذمے دارياں ہيں کہ وہ بيوي کي ضرورتوں کا خيال رکھے، اس کے احساسات کو سمجھے اور کسي بھي حال ميںاس کے حال سے غافل نہ ہو۔
کاميابي کے لئے راہ ہموار کريں
اگر شوہر يہ ديکھے کہ اس کي بيوي اپنے اسلامي فرائض کي انجام دہي کے لئے ايک نيک قدم اٹھانا چاہتي ہے تو اسے چاہیے کہ اس کام کے وسائل اسے فراہم کرے اور اس کي راہ ميں مانع نہ بنے۔ بعض لڑکياں ہيں کہ جو شادي کے بعد بھي تحصيلِ علم اور درسِ دين کو حاصل کرنا چاہتي ہيں۔ ان کي خواہش ہوتي ہے کہ قرآني تعليمات سے آشنا ہوں، کارِ خير انجام ديں اور بعض خير و بھلائي کے کاموں ميں شرکت کريں ليکن ان کے شوہر کبھي کبھي ان کي خواہشات کے جواب ميں بد اخلاقي کا مظاہرہ کرتے ہيں کہ ’’ہم ميں ان کاموں کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہيں ہے !‘‘ ، ’’ہم نے شادي اس لئے کي ہے کہ زندگي گزاريں نہ کہ يہ جھميلے پاليں‘‘ اور يوں اپني بيويوں کو کار ہائے خير انجام دينے سے روکتے ہيں۔ اس طرح بہت سے مرد ہيں کہ جو صدقات و خيرات دينا چاتے ہيں تاکہ مختلف اجتماعي کاموں ميں شريک ہوں ليکن ان کي بيوياں ان کي راہ ميں رکاوٹ بن جاتي ہيں۔
خواتين کي اجتماعي فعاليت اور نوکري کے لئے اہم ترين شرط
بہت سے افراد ہم سے سوال کرتے ہيں کہ کيا آپ اس بات کے موافق ہيں کہ خواتين گھر سے باہر کام يا نوکري کريں ؟ہم يہي کہتے ہيںکہ يقينا ہم خواتين کے بيکار بيٹھے رہنے کے مخالف ہيں ۔عورت کو ہر حال ميں کام کرنا چاہیے، البتہ کام دو قسم کے ہيں ايک گھر کے اندر کا کام اور دوسرا گھر کے باہر کا ليکن دونوں کام ہيں ۔اگر کسي ميں اس چيز کي صلاحيت ہے کہ وہ گھر سے باہر کے کاموں کو انجام دے تو اسے يہ قدم ضرور اٹھانا چاہیے اور يہ بہت اچھا ہے ۔ليکن اس کي شرط ہے کہ جو بھي ملازمت اور کام اختيار کيا جائے وہ خواہ گھر کے اندر ہي کيوں نہ ہو مياں بيوي کے آپس کے تعلقات اور رشتے کو کوئي نقصان نہيں پہنچائے۔
بہت سي خواتين ہيں کہ جو صبح سے شام تک کاموں ميں جُتي رہتي ہيں اور جب شام کو تھکا ہارا اور شريکہ حيات کي محبت کا پياسہ شوہر گھر لوٹتا ہے تو ان خواتين ميں ايک مسکراہٹ سے بھي اپنے شوہروں کے استقبال کرنے کا حوصلہ نہيں رہتا ۔يہ بہت بري بات ہے ۔گھر کے کام کاج کو انجام ديناچاہیے مگر اتنا نہيں کہ يہ کام گھر کي بنياد ہي کو خراب کر دے اور ايسا نہ ہو کہ بقول معروف ’’گھر کو آگ لگ گئي گھر کے چراغ سے ۔‘‘
بيوي اگر چاہتي ہے کہ وہ باہر جا کر کام اور ملازمت کرے تو اس ميں کوئي عيب نہيں ہے اور اسلام بھي اس کي راہ ميںرُکاوٹ نہيں بنتاليکن يہ نہ اس کي ذمہ داري ہے اور نہ اس کا وظيفہ ! جو چيز اس پر واجب ہے وہ گھر کے تمام افراد کے لئے اس کي حيات بخش فضا کي حفاظت کرنا ہے۔
کارہائے خير کي انجام دہي کے لئے ايک دوسرے کو ترغيب دلانا
يہ آپ مياں بيوي کي ذمہ داري ہے کہ ايک دوسرے کے تمام جزوي اور کلي حالات اور اوضاع کا خيال رکھيں ،ايک دوسرے کي مدد کريں اور ايک دوسرے کے يارو مددگار بنيں خصوصاً راہِ خدا اور فرائض و واجبات کي انجام دہي ميں ۔
اگر شوہر راہِ خدا ميں قدم اٹھانا چاہتا ہے تو بيوي مدد کرے اور اگر بيوي کسي وظيفے اور واجب کام کو انجام دينا چاہتي ہے تو شوہر اس کا مددگار بنے ۔يہ دونوں کي ذمہ داري ہے کہ راہِ خدا ميں جدوجہد کريں اور ايک دوسرے سے مکمل تعاون کريں ۔
اگر گھر کا مرد علمي ميدان يا قومي مسائل اور ملي و اجتماعي تنظيموںميںسرگرم عمل ہے تو بيوي کو چاہیے کہ اس کي مدد کرے تاکہ وہ اپنے کاموں کو با آساني انجام دے سکے ۔اسطرح مرد حضرات کي بھي يہ ذمے داري ہے کہ وہ گھر کي خواتين کو يہ موقع ديں کہ وہ بھي روحانيت و معنويت کي راہ ميں قدم اٹھائيں۔ اگر وہ تحصيل علم کي خواہش مند ہيں تو اپني اس خواہش کو بآساني عملي جامہ پہنا سکيں اور اگر وہ اجتماعي کاموں ميں حصہ لينا چاہتي ہيں تو وہ بغير کسي مشکل کے اس ميدان ميں وارد ہو سکيں۔
زندگي کے ان ہمراہيوں کي کوشش ہوني چاہيے کہ وہ ايک دوسرے کي راہ خدا کي طرف راہنمائي وہدايت کريں ،صراط مستقيم پر قدم اٹھانے اور اس پر ثابت قدم رہنے کي تاکيد اور کوشش کريں۔ تَوَاصَوْابِالحَقِّ َوَ تَوَاصَوْابِالصَّبْرِ(حق بات کي نصيحت اور صبر کي تلقين) کو ہميشہ مد نظر رکھيں کہ جو مسلمان ہونے کا خاصہ اور ايمان کي علامت ہے۔
اپنے خدائي ہدف کے حصول کي خواہشمند مياں بيوي کو چاہيے کہ ايک دوسرے کے ديندار ہونے اور تقويٰ کا خيال رکھنے کيلئے ايک دوسرے کے ہاتھوں کو تھاميں۔ شوہر کي کوشش يہ ہو کہ اس کي بيوي ديندار ہو اور زندگي کے ہر لمحے ميں تقويٰ کا خيال رکھے۔ اسي طرح عورت بھي اپنے شوہر کي مدد گار بنے تاکہ وہ اپنے دين کي بنيادوں کو مستحکم بنائے، پاکدامن رہے اور تقويٰ کے سائے ميں اپني زندگي گزارے۔
يہاں بيوي کي مدد سے مراد صرف گھر کے کاموں ميں ہاتھ بٹانا، برتن دھونا اور گھر کي صفائي وغيرہ ميں اس کي مدد کرنا نہيں ہے۔ صحيح ہے کہ يہ بھي بيوي کي مدد ہے ليکن بيوي کي مدد سے مرادزيادہ تر روحي طور پر اسے مضبوط بنانا اور اُس کي اِس طرح فکري اور معنوي مدد کرنا ہے کہ دونوں راہِ اسلام پر کار بند اور ثابت قدم رہيں۔ايک دوسرے کو تقويٰ، صبر، دينداري، حيا، عفت، قناعت اور سادي زندگي جيسے ديگر اہم امورِ زندگي کي تلقين ونصيحت کريں اور اس راہ ميں ايک دوسرے کي دستگيري کريں تاکہ زندگي کو بہترين طريقے سے گزارسکيں، انشائ اللہ۔
غمخواري ہي حقيقي مدد ہے!
دوسرے کي واقعي مدد يہ ہے کہ دوانسان ايک دوسرے کے دل سے غموں کے بوجھ کو ہلکا کريں ۔اگر دونوں ميں سے کوئي بھي زندگي ميں کسي مشکل ميں گرفتار ہو اور مصيبتيں اس کے دل پر حملہ آور ہوں يا وہ کسي مسلئے ميں ابہام و ترديد کا شکارہوں ہو تو يہاں مياں بيوي ميں سے دونوں کو چاہيے کہ اس حساس موقع پر اپني شريکہ حيات يا شوہر کي مدد کيلئے جلدي کرے ، اس کے دل سے غم کا بوجھ ہٹادے اور اس کي غلطي اور ا شتباہ کو دور کرکے اس کي رہنمائي کرے۔ اگر وہ اس بات کا مشاہدہ کرے کہ اس کا ساتھي کسي خطا کا مرتکب ہورہا ہے تو اسے متنبہ کرے اور اسے روکے۔
سليقہ مند بيوي کي مديريت کي اہميت
خواتين کي گھريلوذمہ داريوں کي اہميت، بيروني وظائف اور ذمے داريوں سے نہ تو کسي بھي صورت ميں کم ہيں اور نہ ہي ان کي زحمت و سختي کا موازنہ کيا جا سکتا ہے۔ شايد ان کي گھريلو ذمے داريوں کي زحمت و سختي زيادہ ہي ہو اور وہ بھي اس ليے کہ وہ ايک گھريلو ماحول کي نگہبان ہيں جس کيلئے بہت محنت اور جدوجہد کي ضرورت ہوتي ہے چونکہ خواتين گھر کے اندروني معاملات کي مدير (منيجر) اور وزير داخلہ کا درجہ رکھتي ہیں۔ سليقہ مند خاتون ہي ہے جو گھر کے ايک اہم اور حساس نوعيت کے ادارے کوچلاسکتي ہے۔ يعني وہ جو خاندان اور گھر کے ماحول پر کڑي نگاہ رکھتي ہو اور گھر کا نظم و نسق دراصل اس کي نظارت، تدبير اور مديريت و مينجمنٹ سے وابستہ ہو اور يہ بہت دِقّت طلب، سخت اور زحمت والاکام ہے کہ جو بہت ظرافت کا محتاج ہوتا ہے۔ يہ کام صرف اورصرف خواتين کے نرم و نازک احساسات، لطيف مزاج اور ان کي محبت سے لبريز نسواني صفات ہي کے ذريعے سے انجام پاسکتا ہے۔ کسي مرد کيلئے اس بات کا کوئي امکان نہيں ہے کہ نرم و نازک اور ظريف احساسات کا خيال رکھتے ہوئے گھر کو چلائے۔
کچھ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ بيوي تو گھر ميں بيکار بيٹھي رہتي ہے، ہر گز نہيں !ايک خاتون گھر کي چارديواري ميں بہت زيادہ، سخت ترين اور ظريف ترين کاموں کو انجام ديتي ہے۔ کچھ لوگ اس طرح سوچتے ہيں کہ اگر ايک خاتون کا کام صرف انہي گھريلو کاموں کو انجام دينا ہے تو يہ ايک عورت کي اہانت ہے ،نہيں !اس ميں خاتون کي ہر گز کوئي تحقير نہيں ہے۔ ايک خاتون کا سب سے اہم کام يہ ہے وہ ايک زندگي کو ہنستا مسکرا تا، شاد آباد اور خوش وخرم رکھے۔
بچوں کي پرورش، بہت بڑا ہنر ہے
بہت سے گھريلو کام بہت سخت ہوتے ہيں کہ جن ميں سے ايک بچوں کي پرورش اور تربيت ہے۔ آپ جس کام کو بھي مدِّنظر رکھيں کہ جو بہت دشوار ہو ليکن وہ بچوں کي پرورش کے مقابلے ميں آسان ہوگا۔ بچوں کي پرورش دراصل ايک بہت بڑا ہنر ہے۔ مرد حضرات ايک دن بھي يہ کام انجام نہيں دے سکتے ليکن خواتين بہت توجہ، سنجيدگي، ہمت و حوصلے اور ظرافت سے يہ بڑا کام انجام ديتي ہيں اور خدا وند عالم نے اُن کي طبيعت و مزاج ميں اس بات کي صلاحيت رکھي ہے۔ ليکن حقيقت تو يہ ہے کہ بچوں کي پرورش وہ سخت کام ہے جو انسان کو تھکا ديتا اور اسے خستہ حال کرديتاہے۔
نوکري اور گھريلو زندگي کو خوشحال بنانا
وہ نوجوان جو راہِ خدا ميں کاموں ميں مشغول ہيں وہ رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کي وجہ سے اپنے کاموں اور فعاليت کو متوقف نہ کريں۔ ہم مرد حضرات کو ہميشہ اس بات کي تاکيد کرتے ہيں کہ وہ اپنے کام کاج، تجارت (بزنس)اور نوکري ميں وقت دينے اور سر کھپانے کي وجہ سے اپني گھريلو زندگي اور خانداني نظام کوخراب نہ کريں۔ کيونکہ بعض مرد ايسے ہيں جو علي الصبح گھر سے نکلتے ہيں اور رات گئے گھر لوٹتے ہيں، يہ روش درست نہيں ہے۔ جن لوگوں کے ليے اس بات کا امکان ہے ہم انہيں تاکيد کرتے ہيں کہ وہ دوپہر کے وقت گھر جائيں اور اپنے بيوي بچوں کے درميان رہ کر اپني کھوئي ہوئي توانائي بحال کريں، گھر کي گرم اور پُر محبت فضا ميں اُن کے ساتھ کھانا کھائيں، کم و بيش ايک گھنٹہ اُن کے ساتھ رہيں اور اُس کے بعد اپنے کام کي طرف لوٹ آئيں۔ اس کے بعد ايک مناسب وقت يعني اوّل شب ميں گھر جائيں اور بچوں کے سونے سے قبل اُن سے ملاقات کريں اور گھر کے تمام افراد مل کر ايک اجتماعي ملاقات تشکيل ديں۔
عورت، مرد سے زيادہ مضبوط اور قوي ہے!
وہ مرد حضرات جو تنومند، صحت مند جسم، کندھوں اور بازوؤں کے اُبھرے ہوئے عضلات کے مالک ہيں وہ جسم کي اِس ظاہري خوبصورتي کے مالک ہيں اور اُن کا جسم مضبوط بھي ہے۔ ليکن گھريلو زندگي کي پيچيدگيوں ميں ذہني کاکردگي، احساسات، ہمدردي اور مہرباني کے لحاظ سے عورت، مرد سے زيادہ قوي اور مضبوط ہے۔ اُس کي قوت برداشت اور تحمل کي قدرت بھي زيادہ ہوتي ہے اور وہ زندگي کے راستوں سے بھي اچھي طرح واقف ہے۔ عورت کا مزاج اسي طرح کا ہے اور خواتين کي اکثريت بھي اسي طرح کي ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ بعض خواتين ايسي نہ ہوں۔ غرضيکہ خواتين اُس ميدان ميں کامياب ہوسکتي ہيں کہ جہاں بڑے بڑے سورما اور دلير مرد ہار جاتے ہيں۔ صرف تھوڑے سے تحمل و برداشت، تھوڑي سي خوش اخلاقي اور مختلف طريقہ کار کے ذريعے وہ مرد حضرات کو اس جگہ لاسکتي ہيں کہ جو مقام اُن کے لائق و شائستہ ہے تاکہ اُن کي زندگي پہلے سے زيادہ ميٹھي اور شيريں ہوجائے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا کي پيروي کيجئے
آپ حضرت فاطمہکي شادي کے مراسم اور اُس کے بعد کي اُن کي ازدواجي زندگي اور اُن کي سادہ، فقيرانہ اور زاہدانہ زندگي کے لحاظ سے حضرت فاطمہ کو ديکھئے۔ آپ کا وہ سادہ سا کمرہ اور اس کي وہ سادہ سي چٹائي کہ جسے آپ سب نے بارہا سنا ہے۔ گھر کے اندر آپ کي محنت و مشقت، حضرت اميرالمومنين جيسے عظيم، فعّال محنت طلب اور مجاہد شوہر کي زندگي اور اُن کے چھوٹے سے گھر ميں تمام سختيوں پر آپ کا صبر و شکر اور محنت واقعاً قابلِ ديد ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ عليہا تمام زندگي کام اور فعاليت ميں مشغول رہيں۔ يعني جہاں بھي جنگ ہوتي علي ابن ابي طالب سب سے آگے آگے ہوتے اور جہاں بھي کوئي اہم کام ہوتا سب سے پہلے علي ابن ابي طالب ہي قدم اٹھاتے۔ (يہ ہے اميرالمومنين کي مصروف زندگي)۔ تقريباً نو دس سال حضرت زہرا نے اميرالمومنين کے ساتھ باہم زندگي گزاري ہے۔ آپ توجہ فرمائیے کہ ان نو دس سالوں ميں يہ نوجوان شوہر اپنے بيوي بچوں کي ايک عام انسان کي مانند کتني خدمت کرسکا ہے؟ ايک ايسي مصروف زندگي ميں تمام مشکلات، سختيوں اور فقرو فاقے پر صبر کرنا، بڑے جہاد کو انجام دينا، بچوں کي بہترين تربيت اور وہ تمام ايثار و فداکاري جو حضرت زہرا نے انجام ديں اور جن ميں سے آپ نے کچھ واقعات کو سُنا ہے، يہ سب ہمارے ليے مشعلِ راہ ہيں۔ ہماري دُلہنوں کو چاہیے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ عليہا کو اپنے ليے مثالي نمونہ اور زندگي کا اُسوہ قرار ديں۔ اسي طرح دولہا حضرات کو بھي چاہیے کہ وہ حضرت فاطمہ اور اميرالمومنينکي سيرت کو اپنے ليے مشعلِ راہ بنائيں۔