طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق0%

طُلوعِ عشق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

طُلوعِ عشق

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 12807
ڈاؤنلوڈ: 3943

تبصرے:

طُلوعِ عشق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 52 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12807 / ڈاؤنلوڈ: 3943
سائز سائز سائز
طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق

مؤلف:
اردو

کامياب ازدواجي زندگي کے سنہرے اصول

پانچواں مرحلہ

ہنستي مسکراتي اور خوشحال زندگي

دريچہ

زندگي کي مٹھاس اور شيريني دراصل مياں بيوي کي عقلمندي مہارت اور ايک دوسرے کے حقوق و آداب کي رعايت کرنے سے حاصل ہوتي ہے۔

ہمارے پيارے نوجوان لڑکے لڑکيوں کو اپنے نئے سفر کے آغاز ميں اپني مشترکہ زندگي کي لازمي ضروريات اور ذہني اور فکري توانائي کے حصول کے ليے خود کو بہت زيادہ مشقت کا محتاج سمجھنا چاہیے۔

اس طرح اُن کي زندگي روز بروز شيريں اور جاذب ہوتي جائے گي۔

کامياب ازدواجي زندگي کے اس مرحلے پر ہمارا مہربان رہبر اپني قوم کے نوجوانوں کو ايک خوشحال اور ہنستي مسکراتي زندگي تک جانے والي راہوں کي نشاندہي کررہا ہے۔

عملي شکر سب سے زيادہ اہم ہے

شکر کا مقصد صرف زبان سے’’خدايا تيرا شکر‘‘ کہنا اور سجدہ شکر بجا لانانہيں ہے۔ نعمت کا شکرانہ ہے کہ انسان نعمت کو پہچانے۔ اُسے چاہیے کہ وہ يہ جانے کہ يہ نعمت خداوندِ عالم نے اسے عطا کي ہے، لہٰذا اس نعمت سے ايسا استفادہ اور سلوک اختيار کرے جو خدا کي مرضي و پسند کے عين مطابق ہو۔ يہ ہے نعمت کے شکرانے کا مفہوم۔

اگر زبان سے تو ’’شُکْراً لِلّٰہ‘‘ کہيں ليکن آپ کا دل ميرے ان بيان کردہ مفاہيم سے نا آشنا ہو تو يہ شکر نہيں ہے۔ شادي بھي خداوند عالم کي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور ہديہ ہے۔ خداوند متعال نے بہترين شريکِ حيات يا شريکہ حيات آپ کو دي ہے۔ پس آپ کو چاہیے کہ اس نعمت کا کماحقہ شکر بجالائيں۔

زندگي کے رازوں کي حفاظت کيجئے

شوہر اور بيوي دونوں کو چاہیے کہ اپني زندگي کے اسرار کي حفاظت کريں۔ نہ بيوي اپنے شوہر کے رازوں کو کسي کے سامنے اِفشا کرے، اسي طرح مرد بھي مثلاً اپنے دوستوں ميں، کسي کلب يا دعوت ميں اپني بيوي سے متعلق باتوں کو بيان نہ کرے۔ آپ ان باتوں کا مکمل خيال رکھيے اور راز اور ذاتي باتوں کي حفاظت کيجئے تاکہ ان شائ اللہ آپ کي زندگي مستحکم اور شيريں ہوسکے۔

ايک دوسرے کے غمخوار بنیے

ايک دوسرے کي حقيقي مدد يہ ہے کہ دو انسان ايک دوسرے کے دلوں سے غموں کے بھاري بوجھ کو دور کريں۔ ہر ايک اپني زندگي ميں ايک خاص قسم کے مسائل ميں گرفتار اور مشکل ميں پھنسا رہتا ہے اور ممکن ہے کہ کسي قسم کے شک و ترديد کا شکار ہوجائے۔ يہ اُس کے جيون ساتھي کا فرض ہے کہ ايسے نازک موقع پر اپنے ساتھي کي مدد کے ليے جلدي کرے اور اُس کا ہاتھ تھامے، غم و اندوہ کو اس کے دل سے دور کرکے اس کي راہنمائي کرے اور اس کے شک و شبہہ کو دور اور غلطي کي اصلاح کرے۔

سادہ زندگي اور ميانہ روي

آپ سادہ زندگي گزاریے۔ البتہ يہ بات ضروري ہے کہ ہم بہت زيادہ زہد و تقويٰ کے مالک نہيں ہيں لہٰذا اُس ميں آخري درجے کے زہد و تقويٰ کا تصور نہ کيجئے۔ وہ سادہ زندگي جس کي ہم بات کررہے ہيں وہ زاہد و عابد افراد کے زہد و تقويٰ کے تصور سے بہت مختلف ہے۔ يہ سادگي، لوگوں کي عام روز مرّہ زندگي کے امور سے متعلق ہے۔ وہ سادگي جو ہم نے اختيارکي ہے اگر خدا کے مقرب بندے اسے ديکھيں تو شايد ہماري سادگي کے مفہوم پر ہزاروں اعتراضات کريں۔

کوشش کیجئے کہ آپ کي زندگي اسراف و فضول خرچي کي بنيادوں پر قائم نہ ہو اور آپ اپني زندگي کو سادہ بنائيں۔ اپني زندگي کو خداوند متعال کي پسند کے مطابق گزاریے اور طيّباتِ الٰہي (خدا کي پسنديدہ اور پاک و پاکيزہ چيزوں) سے بہرہ مند ہوں ليکن اعتدال اور ميانہ روي کے ساتھ۔ اعتدال بھي ضروري ہے، ميانہ روي بھي اور عدالت بھي۔ اپني زندگي ميں انصاف کو حاکم بنائیے اور ديکھئے کہ دوسرے کيسي زندگي گزاررہے ہيں۔ اپنے اور دوسروں کے درميان زيادہ فاصلہ ايجاد نہ کيجئے۔

مختلف افراد اور خاندانوں کي سعادت کے اسباب ميں سے ايک سبب يہ ہے کہ بے جا اور فضول قسم کے قوانين، خيالي شان و شوکت اور اسٹيٹس والي زندگي سے دوري اختيار کي جائے اور مادي امور کو حدّ لازم سے زيادہ اہميت نہ دي جائے اور نہ ہي انہيں اپنے سر پر سوار کيا جائے۔ يا کم سے کم يہ کوشش ہوني چاہیے کہ يہ اوپر کے خرچے اور غير اضافي خريداري اور غير ضروري لوازمِ زندگي آپ کي اصلي (اور روز مرّہ) زندگي کا حصّہ شمار نہ ہوں بلکہ وہ ايک ’’طرف‘‘ (جانبي) اور سائيڈ کي چيز ہوں۔ زندگي کي بنياد کو ابتداہي سے سادگي کے ساتھ اٹھانا چاہیے اور زندگي کي فضا ايسي فضا ہو جو (افرادِ خانہ کے لئے) قابلِ تحمل ہو۔ سادہ زندگي گزارنا رفاہ اور آسائش سے منافات نہيں رکھتا ہے۔ آسائش بھي درحقيقت سادہ زندگي گزارنے کے سائے ميں ہي حاصل ہوتي ہے۔

ہار جيت کے بغير مقابلہ

خود کو ہوس و رقيب بازي، فضول خرچي اور مادي زرق و برق کا اسير نہيں بنائیے اور کوشش کيجئے کہ زندگي ميں مادّيت کي دوڑ ميں شريک نہ ہوں۔ کوئي بھي اِس دوڑ ميں خوش بخت اور کامياب نہيں ہوسکتا۔ زندگي کي يہ ظاہري زرق و برق اور چمک دمک کسي بھي انسان کو نہ تو خوش بخت کرتي ہے اور نہ ہي اُسے خوشحال اور مطمئن بناتي ہے۔ حقيقت تو يہ ہے کہ انسان کے ہاتھ جو کچھ آتا ہے اُس کے نتيجے ميں اُس کي ہوس کم ہونے کے بجائے بڑھتي ہي رہتي ہے اور يوں وہ ايک بہتر سے بہتر چيز کي تلاش اور خوب سے خوب تر کي جستجو ميں ہي زندگي گزارديتا ہے۔ شريعت نے ہميں زندگي گزارنے کا ايک اصول ديا ہے کہ ’’اَلْعِفَافُ وَاَلْکِفَافُ‘‘يعني وہ زندگي جو آساني سے گزاري جا سکے کہ جس ميں تنگي نہ ہو اور انسان کسي کا محتاج نہ ہو۔ آپ بھي اس طرح آگے قدم بڑھائیے۔

کفايت والي زندگي!

عيش و آرام، ٹھاٹھ باٹھ، پيسے کي ريل پيل، زبردستي کے خرچے پاني، اضافي خريداري اور فضول خرچي والي زندگي انسانوں کو بد بخت بناديتي ہے۔ يہ اچھي بات نہيں ہے۔ زندگي آرام اور کفايت کے ساتھ گزارني چاہیے يعني اعتدال اور ميانہ روي کے ساتھ نہ کہ پُر خرچي اور اسراف کے ساتھ۔ ان چند چيزوں کو بعض افراد باہم ملا کر کيوں غلطي کرتے ہيں۔

کفايت والي زندگي اور کافي زندگي کا مقصد روپے پيسے، غذا اور وسائلِ زندگي کي بہتات اور فراواني نہيں ہے بلکہ مراد يہ ہے کہ انسان کسي کا محتاج نہ ہو اور وہ کسي کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے تاکہ وہ ضرورياتِ زندگي کے ليے اپنے پاس موجود کافي مقدار ميں وسائل زندگي سے اپني زندگي چلا سکے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہنسي خوشي اور قناعت کا مالک .بھي ہو و اِلَّا زيادہ درآمد و تنخواہ، اوپر کے اخراجات اور ٹھاٹھ باٹھ سے زندگي اچھي اور خوشحال نہيں ہوسکتي۔ يہ چيزيں کسي بھي صورت ميں انسان کو حقيقي آرام اور خوشحالي نہيں دے سکتيں ہيں۔

زندگي کو سادہ انداز سے گزارئیے اور جتني بھي اس راہ ميں کوشش کرسکتے ہيں، کيجئے۔ البتہ ہماري مراد ہر گزيہ نہيں ہے کہ گھر کے مرد حضرات اور سر پرست خشک اور زور زبردستي کے زہد و تقويٰ کے ذريعے اپنے اہل و عيال اور نزديکي افراد پر سخت گيري کريں اور وہ تنگي ميں زندگي گزاريں۔ ہماري ہر گز يہ مراد نہيں ہے بلکہ ہماري خواہش يہ ہے کہ معاشرے کے تمام افراد اپنے عقيدے، ايمان و عشق اور دل کي رضايت و خوشي سے ايک حدپر قانع رہيں۔

کتنا ہي بہتر ہو کہ آپ کي زندگي سادہ ہو اور آپ خود کو اسٹيٹس (نام نہاد حيثيت و آبرو )اور زندگي کي زرق و برق کا اسير نہ بنائيں۔ اگر آپ اس اسٹيٹس کي دوڑ ميں شريک ہوگئے تو اسے چھوڑنا سخت ہوگا۔ اگر کوئي يہ چاہتا ہے کہ اس زمانے ميں سادہ زندگي گزارے تو وہ يہ کام کرسکتا ہے۔ ايک زمانہ تھا کہ يہ کام سخت اور مشکل تھا۔ اگر چہ کہ بعض افراد اپنے ہي ہاتھوں اس کام کو مشکل بناتے ہيں۔ اپنے لباس، خوراک، مسکن، اسٹيٹس اور دنياوي زرق و برق کواپنے اوپر اس حد تک سوار کرليتے ہيں کہ اُسے آسان بنانا دشوار ہوجاتا ہے۔

قناعت سب کے ليے مفيدہے

ميں آپ کي خدمت ميں عرض کرتا ہوں کہ ہم، آپ کو حضرت سلمان فارسي ۲ اور حضرت ابوذر ۲ کے زہد کي طرف دعوت نہيں دے رہے ہيں۔ ہم، آپ اور سلمان ۲ و ابوذر ۲ ميں بہت زيادہ فاصلہ ہے۔ ہم ميں ہر گز اس بات کي طاقت نہيں ہے کہ ان درجات، بلنديوں اور اعليٰ مقامات تک پہنچيں يا فرض کريں اور آساني سے دل ميں ان مقامات کي آرزو کريں۔ ليکن آپ کي خدمت ميں يہ عرض کروں کہ اگر ہمارے اور اُن کي زندگي کے درميان ہزار درجات کا فاصلہ ہے تو اُس فاصلے کو ١٠ درجات، ٢٠درجات اور ١٠٠ درجات سے کم کيا جاسکتا ہے اور اس طرح ہم خود کو اُن کي زندگي کے نزديک کرسکتے ہيں۔ آپ کو چاہیے کہ قناعت کريں اور قناعت کرنے سے ہر گز شرم محسوس نہ کريں۔

بعض لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ قناعت کرنا صرف فقير، خالي ہاتھ اور بے چا رے افراد کا کام ہے اور اگر آدمي کے پاس مال و دولت ہے تو وہ دل کھول کر خرچ کرے اور اُسے قناعت کي کيا ضرورت ہے؟ يہ غلط خيال ہے! آپ کو زندگي اور اُس کے وسائل کي جتني ضرورت ہے فقط اُسے ہي استعمال ميں لائیے، صرف لازمي حدتک ، نہ فضول خرچي کي حد تک۔ کفايت کي حد تک وسائل زندگي استعمال کريں کہ جو انسان کي ضروريات اور اُس کي حاجات کا جواب دينے کے ليے کافي ہو، يعني انسان کسي کا محتاج نہ ہو۔ يہ وہ مقام ہے جہاں انسان کو توقف کرنا چاہیے۔

زندگي سے بے جا اُميديں، غير ضروري اور زيادہ توقعات وابستہ کرنا در حقيقت انسان کي معاشي تنگي اور خود انسان کي اپني پريشاني کا سبب بنتا ہے۔ اگر انسان اپني زندگي سے توقع اور اميديں کم رکھے تو يہ اس کي سعادت کا باعث ہوگي۔ يہ صرف انسان کي آخرت کيلئے ہي اچھي اور سود مند نہيں بلکہ اُس کي دنيا کے ليے بھي فائدہ مند ہے۔

آپ کي پوري کوشش اس بات پر ہوني چاہیے کہ شان و شوکت ميں آگے بڑھنے اور اسٹيٹس کي دوڑ سے دور رہ کر سادہ زندگي گزاريں۔ اور وہ ايسي زندگي ہو کہ جو معاشرے کے متوسط طبقے کے ساتھ مطابقت رکھتي ہو۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ اس بارے ميں معاشرے کا نچلا طبقہ آپ کے مدِّنظر ہو، نہيں! بلکہ آپ متوسط طبقے کو ديکھئے ليکن آپ ماديت کي دوڑ کو اہميت و توجہ نہ ديں۔ ٹھيک ہے کہ ہر جگہ ايک مقابلہ اور دوڑ لگي ہوئي ہے۔ جس طرح خدا کي جنّت کي راہ ميں دوڑ لگي ہوئي ہے اسي طرح دنيا کي خيالي جنت کيلئے بھي مقابلہ جاري ہے، اس کي زرق و برق اور شان و شوکت، مقام و قدرت اور شہرت طلبي کيلئے بھي دوڑ لگي ہوئي ہے۔ سب اس مقابلے ميں شريک ہيں ليکن يہ مقابلہ صحيح نہيں ہے۔ آپ ميں سے جو بھي مادہ پرستي اور ماديّت کي دوڑ ميں شريک ہو تو اس کا جيون ساتھي اسے (پيار ومحبت سے)منع کرے اور ايک ناصح کي طرح اس سے برتاؤ کرے۔ بہرحال انسان کو چاہیے کہ زندگي کے تمام مراحل ميں ميانہ روي، قناعت متواضعانہ اور سادہ طريقہ زندگي کو فراموش نہ کرے اور يہي اسلام کي نظر ہے۔

شادي کي تقريب سے آغاز کريں

آپ کو چاہیے کہ زندگي کے تمام امور ميں سادگي کو اپنائيں اور اس کي ابتدا شادي کي تقريبات سے ہوني چاہیے کيونکہ ساري چيزيں يہيں سے شروع ہوتي ہيں۔ اگر شادي کي تقريبات، سادہ منعقد ہوں تو آنے والے دوسرے اقدامات بھي سادہ ہي ہوں گے۔ اگر ايسا نہ ہوا اور آپ نے عياش، فضول خرچ اور اسراف پسند متمول افراد کي طرح شادي کي تقريبات منعقد کيں تو آپ بعد ميں ايک چھوٹے سے گھر جاکر مختصر سے وسائلِ زندگي کے ساتھ زندگي گزارنے پر قادر نہيں ہوں گے۔ بعد ميں ايسا نہيں ہوسکے گا کيونکہ ازدواجي زندگي کي ابتدا اور بنياد ہي خراب ہوچکي ہے اور وہ وقت ہاتھ سے نکل گيا ہے۔

آپ کو چاہیے کہ زندگي کو سادہ زيستي اور سادگي پر کھڑا کريں تاکہ يہ زندگي خود آپ پر، آپ کے اہل و عيال، عزيز واقارب اور معاشرے کے افراد کے ليے آسان ہو، ان شائ اللہ۔

اپنے والدين کا بھي خيال رکھيے

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ معاشرے ميں اسٹيٹس (نام نہاد حيثيت و عزت) کي اِ س دوڑ نے شادي کي پُرخرچ محفلوں(مہندي، مايوں اور چوتھي کي اسراف سے ) پُر اور غير ضروري تقريبات(۱) ، آسمان سے باتيں کرتي ہوئيں مہر کي رقموں، جہيز کي لمبي لمبي لسٹوں اور بڑے بڑے شاندار ہوٹلوں اور شادي ہالوں ميں شاديوں نے معاشرے کے اخلاق کو بہت بگاڑ ديا ہے!

آپ بيٹے اور بيٹياں جو داماد اور بہو بن رہے ہيں آپ کو چاہیے کہ اس بُت کو گرانے کيلئے پہلا قدم آپ اٹھائيں۔ آپ کہیے کہ ہميں ايسي شادي اور ايسي تقريبات نہيں چاہیے اور ہميں اس جہيز کي بہتات، اسراف والي تقريبات اور بڑے بڑے اور شاندار ہوٹلوں ميں شاديوں اور فنکشنوں کي کوئي ضرورت نہيں ہے۔ جب معاشرہ مشکل اور سختي ميں ہوا اور جب اُس پر فقر کي بدحالي سايہ فگن ہو تو انسان کودوسروںکي صورتحال پر توجہ کرني چاہیے۔

ہم شادي کرنے والے لڑکے اور لڑکيوںکو اس بات کي تاکيد کرتے ہيں کہ والدين سے اصرار اور ضد و بحث نہ کريں، اُن سے زيادہ نہ چاہيں اور ايسا نہ ہو کہ وہ آپ کي خواہشات کے دباؤ ميں آکر شرما حضوري سے کام ليں اور قرضوں تلے دب جائيں۔

ميں اور آپ، سب کو چاہئے ان چيز کو دور پھينکيں۔ شادي درحقيقت صرف ايک مقدس ترين انساني رشتے کا ملاپ ہے۔ يہ ملاپ کيوں اور کس ليے ہے؟ دونوجوانوں کا مل کر گھر بسانا اور نئي زندگي بسر کرنا۔ يہ دنياکا سب سے زيادہ انسانيت والا کام ہے لہٰذا اسے مادي اور پيسے والا نہ بنائیے۔ يہ آپ کي ذمہ داري ہے کہ اُسے ان خواہشات، رسومات اور روايات سے آلودہ نہ ہونے ديں۔ اگر شادي کرنے والے لڑکے اور لڑکياں اہلِ قناعت اور سادہ زندگي کے حامي ہوں تو گھر و خاندان کے بڑے بھي ان کي پيروي کرنے ميں مجبور ہوجاتے ہيں۔

____________________

١ مختلف خاندانوں کے مختلف آداب و رسومات نے بھي اجتماعي اخلاق کو بگاڑنے اور شادي جيسے مقدس امر کو مشکل بنانے ميں کوئي کسر نہيں اٹھارکھي ہے۔ کہيں بھات کي رسم ہے تو کہيں نيگ و سلامي کي اور اسي طرح کي مختلف رسميں کہ جن کي وجہ سے متوسط گھرانے کے والدين سالہا سال قرضوں ميں دبے رہتے ہيں۔ لڑکيوں کي عمريں نکلي جارہي ہيں اور والدين اس دن کي اُميد ميں آس لگائے بيٹھے ہيں کہ جب اُن کي لڑکي کے ہاتھ پيلے ہوں اور وہ اپني زندگي کا آغاز کریں۔ سادہ شادي ہي اس کا واحد علاج ہے۔ آئیے اپني خواہشات کو قربان کرکے معاشرے ميں سادي شاديوں کي بنياد رکھ کر اس ثوابِ جاريہ کا آغاز کريں۔(مترجم)

حجاب اور عفّت

اسلام، حجاب اور پردے کے بارے ميں دستور رکھتا ہے۔ قرآن نے حجاب کے بارے ميں حدود و قوانين کو بيان کرتے ہوئے اور مرد اور عورت دونوں کے ليے الگ الگ حکم صادر کيے ہيں۔ يہ سب احکامات خودلوگوں ہي کيلئے ہيں اور صرف اس ليے ہيں کہ گھر آباد، خوشحال اور گھروالے خوش بخت ہوں۔ يہ نوجوان دلہنيں جو کسي بھي صورت ميں اپنے شوہروں کا ہاتھ چھوڑنا نہيں چاہتي ہيں اور يہ نوجوان لڑکے جو اپني محبوب شريکہ حيات کي جدائي کا تصور بھي نہيں کرسکتے چنانچہ يہ کام حجاب کي حدود اور اس کے قوانين کا لحاظ کيے بغير نہيں ہوسکتا۔ قرآني آيات اس طرح کي حکمت و دانائي سے بھر پور اور گہري ہيں۔

يہ محرم و نامحرم کے مسائل، حجاب و پردے اور عورت کي حفاظت يہ سب کس کے ليے ہے؟ يہ قرآني حکم’’قُلْ لِلْمُوْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبصَارِهِم وَ يَحْفَظُوْا فُرُوجَهُمْ وَقُلْ لِلْمُوْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ‘(۱) ١ ۔(اے رسول ۰ آپ مومن مرد اور مومن عورتوں سے کہہ ديجئے اپني نگاہوں کو نيچي رکھيں اور اپني شرمگاہوںکي حفاظت کريں) ہر چيز کيلئے اپني آنکھيں نہ کھولو اور ہر چيز پر نگاہ نہ ڈالو۔ يہ اس ليے ہے کہ مياں بيوي آپس ميں مہربان اور وفادار رہيں۔

وہ مرد اور عورت جو دنيا کے بد ترين معاشروں ميں اپني خواہشاتِ نفس پر عمل کرتے ہوں، ہر بُرا راستہ انہوں نے طے کيا ہو، جس طرح اُن کے دل نے کہا بُرائي انجام دي ہو اور جس سے بھي چاہا اس سے تعلق قائم کرچکے ہوں تو اب اُن کيلئے گھرانے کي پُر محبت فضا کي کيا اہميت ہوگي؟ کچھ بھي نہيں! اور اُن لوگوں نے ان سب کانام رکھا ہے ’’آزادي‘‘۔ اگر يہ آزادي ہے تو يہ بشريت کے ليے سب سے بڑي بلا ہے۔

وہ مرد جو اپني خواہشات کے مطابق جس خاتون سے چاہے لذّت اٹھائے تو اُس کي نہ کوئي لگام ہے اور نہ وہ کسي حدود اور قانون کا پاس رکھتا ہے اور وہ عورت جو حيا، عفّت اور حجاب سے آراستہ نہ ہو تو اُس کي بھي حفاظت کا کوئي انتظام نہيں ہے۔ ايسے مرد و عورت اپني بيويوں اور شوہروں کيلئے کسي قسم کے بھي احترم و اہميت کے قائل نہيں ہيں۔ ليکن اسلام کے ازدواجي نظام ميں مياں بيوي ايک دوسرے کي نسبت ذمے دار، جوابدہ اور ايک دوسرے کو پسند کرنے والے ہيں۔ جہاں وہ ايک دوسرے کے ضرورت مند ہيں اور ان کا وجود ايک دوسرے سے وابستہ ہے۔ اسلام ميں ان قوانين کا عظيم اور طولاني سلسلہ کس ليے ہے؟ اس ليے کہ ايک خاندان کي بنياديں مستحکم ہوں، مياں بيوي ايک دوسرے سے خيانت نہ کريں اور ہميشہ ايک دوسرے کے ساتھ زندگي گزاريں۔

____________________

١ سورہ نور آيت ٣١ ۔٣٢، اس ميں ہميں يہ حکم ديا گيا ہے کہ اپني نگاہوں ميں سے کچھ نگاہوں کو (جو حرام و شبہات کي طرف اُٹھتي ہوں)نيچي رکھيں نہ کہ ہروقت آنکھوں کو بند رکھيں۔

کامياب ازدواجي زندگي کے سنہرے اصول

چھٹا مرحلہ

تذکُّر اور يا د دہاني

دريچہ

زندگي کي خو شحا لي اور شیر یني، میا ں بیو ي کي با ہمي شر اکت و تعا و ن ، عقلمند ي اور ایک دوسر ے کے حقوق

کي ر عا یت کر نے کي مرہونِ منت ہے حضرت عليفر ما تے ہيں کہلِکُلِّ شَيْئٍ آفَة (۱) ’’اس عا لم میں ہر چیز کیلئے ایک آفت وبلا ہے‘‘ ۔

ہر ذي قیمت اور اہمیت و الي چیز کي بہتر ین حفا ظت اور بہتر اند از میں اس سے استفا د ہ کر نے کیلئے سب سے پہلے اس کي آفتو ں سے آگا ہي حا صل کر ني چاہیے۔

اس کے بعد عقلمندي اور ہوش و درايت سے اس کي پائيداري اور حفاظت کے ليے قدم اٹھايا جائے۔ یہ د نیا کي ز ند گي کا قا نو ن ہے۔

چیز جتني زیا دہ قيمتي ہو گي اس کي آفا ت بھي اُس قد ر زیا د ہ اور خطر نا ک ہو ں گي۔

مشتر ک از دواجي زند گي کہ جو ایک مقد س عہد و پیما ن سے شر و ع ہو تي ہے،

انسانوں کے ليے خد ا و ند عا لم کي عظیم الشان نعمتو ں میں سے ایک نعمت ہے لیکن سا تھ ہي بہت سي آفتوں ميں بھي گھري ہوئي ہے۔

چشم بينا، نوجو ان ہمسر کي سنجید گي و تو جہ اور ر استے کي آفا ت کي صحيح شنا خت ہي شيطاني آفتوں سے نجا ت کي ر ا ہ ہے۔

بید ار ر ہنما اور عقلمند و آگا ہ ہاد ي اس با ر ے میں آنے و الے خطر ا ت سے ہمیں آگا ہ کر ر ہا ہے۔

____________________

١ بحار الانوار، جلد ٧٠، صفحہ ٢٢٨

ایک دو سر ے کے حسد او ر غیر ت کو نہ جگا ئیے

میں ہمیشہ نوجوان شوہروں کو اس با ت کي تاکید کر تا ہوں کہ آپ نامحرم خو اتین کے ساتھ معاشرت اور نشت و برخاست بلکہ اپني محرم خواتین کے ساتھ ايسا کوئي کام اور بات نہ کریں کہ جس کي وجہ سے آپ کي بیویاں حسد کر نے لگیں۔ اس طر ح نوجوان بیویوں کي خدمت میں تاکید اًعر ض کرتا ہوں کہ وہ اجنبي اور نامعلوم افراد کے ساتھ کوئي کام انجام نہ دیں اور اُن سے گفتگو نہ کريں تاکہ آپ کے شوہروں کي غیرت و حسد نہ جاگے۔ یہ حسد انسان کو بدبین بناتا ہے اور محبت کي بنیادو ں کو کمزور کرکے اُسے جڑ سے ختم کردیتا ہے۔

میاں یا بیوي کي تحقیر، خاند ان کي نابودي کا آغاز

ظلم، اہانت اور بغیر کسي وجہ کے ترجيحي رویہ اختیار کرنا ہر حال میں غلط و ناپسندیدہ ہے۔ اگر آپ دنیا کے سب سے بہترین مرد ہوں اور آپ اپني تعلیم، معلومات اور دیگر جہات سے مکمل انسان ہوں تو آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ایک نچلے طبقے کي کم پڑھي لکھي خاتون کے ساتھ چھوٹا سا بھي ظلم کریں اور اس کي اہانت کریں۔ عورت، عورت ہي ہے تا قیامت۔ آپ کو اس کي چھوٹي سے چھوٹي اہانت کا بھي ہر گز حق حاصل نہیں ہے۔یہ صرف ہم ہي سے مخصوص نہیں، یہ پرفیوم میں نہائے ہوئے سوٹ بوٹ والے یو رپي کبھي دوسرے معاشروں کے باشندوں پر بدترين انداز میں ظلم کرتے ہیں۔ مرد، عورت سے کتنا ہي بلند مقام کیوں نہ رکھتا ہو، اُسے یہ حق نہیں کہ اپني بیو ي پر ظلم و جفا کرے۔

بیوي کیلئے بھي یہي حکم ہے۔ کبھي کبھار ایک پڑھي لکھي خاتون ایک عام سے نوکري والے یا مزدور سے شادي کرتي ہے چنانچہ اُسے بھي یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے شوہر کي تحقير کرے۔ اس کا شوہر کیسا بھي ہو بہرحال اپني بیوي کي تکیہ گاہ ہے اور بیوي کو اُسي پر تکیہ اور بھروسہ کرنا چاہیے۔

یہ بیوي کي ذمہ داري ہے کہ وہ روحي طور پر اپنے شوہر کي ایسي حفاظت کرے کہ اُس پر تکیہ کرسکے۔ اگر ایسا ہو تو یہ صحیح و سالم گھرانہ ہے۔ اگر آپ نے اس طرح اپنے گھر کو بسایا تو جان ليے کہ آپ نے اپني خوش بختي کے ایک اساسي رکن کي حفاظت کرلي ہے ۔

آئیڈیل کي تلاش میں افراط سے کام لینا

لڑکے اور لڑکیوں کو چا ہیے کہ زندگي کے آئیڈیل کے پیچھے نہ بھاگیں۔ شا دي میں کوئي بھي آئیڈیل نہیں ہوتا ہے اور نہ ہي انسا ن اپنے آئیڈیل کو ڈھونڈسکتا ہے۔ اُنہیں چا ہیے کہ مل جل کر زندگي کي تعمیر کریں۔خداوند عالم ان کي زندگي کو شیریں کرے گا، انہیں برکت عطا کرے گا اور اُنہیں رضا ئے الٰہي حاصل ہوگي، ان شائ اللہ۔

شادي کے ابتد امیں جب میاں بیوي ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو انہیں سامنے سب کچھ اچھا اور خوبصورت ہي نظر آتا ہے،کچھ مدت بعد وہ کہتے ہيں کہ ٹھيک ہے،مناسب ہے،اس کے بعد نقائص،کمي و کوتاہي اور کمزورياں آہستہ آہستہ دونوں ميں نظر آنے لگتي ہيں۔ليکن ان تمام باتوں کو مياں بيوي کے ليے سرد مہري اور دل کي تنگي کا باعث نہيں بننا چاہيے۔ بلکہ انہي کوتاہيوں اور کمزور يوں کے ساتھ ہي زندگي گزارني چاہیے کيونکہ آئيڈيل اور بے عيب مرد اور عورت اس عالم ہستي ميں کہيں بھي نہيں مل سکتے۔

غير شرعي معاشرت

وہ مرد جو غير نامحرم خواتين سے سروکار رکھتا ہے تو مختلف سطح پر دوجگہ اس کي جبلي خواہشات کي سيرابي کا امکان موجود ہے۔ ايسا آدمي جو کبھي بھي فطري خواہشات کي سيرابي کيلئے اپني بيوي پر اکتفا نہيں کرے گا۔يہ اس مرد کي مانند نہيں ہے کہ جو کسي بھي نامحرم عورت پر نظريں نہيں اٹھاتا ہے۔ يہ جو کہا جاتا ہے کہ عورت اجتماعات اور محفلوں ميں نامحرم مردوں سے مخلوط نہ ہو،اسي ليے ہے کہ يہ عورت صرف اپنے شوہر کو اپنا دل دے، اور اسي کي عاشق ہو۔

اگر اس عورت کي حالت يہ ہو کہ اس کا شوہر اس کيلئے عام سا انسان اور معمولي شوہر ہوجائے تو اس مرد کي عورت کي نگاہوں ميں کوئي وقعت وحيثيت نہيں ہوگي جيسا کہ آجکل ہميں مغربي معاشرے ميں نظر آرہا ہے۔ ايسي عورت کہتي ہے کہ ميرے اپنے شوہر سے بني بني اور نہيں بني تو نہيں بني، ميں طلاق لے لوں گي اور قصے کويہيں تمام کردوں گي۔ تم اپني راہ لو اور ميں اپني راہ! يہ بہت بري صورتحال ہے۔کچھ خواتين ايسي ہيں جو اس بات کي کوشش کررہي ہيں کہ خواتين کي حالت ايسي ہوجائے۔يقين رکھيے يہ بات خود خواتين کيلئے مضر ہے اور انہيں کبھي فائدہ نہيں پہنچاسکے گي کيونکہ يہ سوچ، خاندان کي بنيادوں کو متزلزل کر ديتي ہے۔

گھر کي چار ديواري اور عفت و نا موس ،گھر کے محافظ ہيں

محرم و نامحرم، حجاب، نگاہ کرنے اور نگاہ نہ کرنے کے مسائل اور غير صحيح اور نقصاندہ طريقہ زندگي يہ وہ چيز يں ہيں کہ جن کي اسلام ميں بہت زيادہ تاکيد کي گئي ہے۔بعض(اسلامي)ممالک ميں اور جہاں اسلام نہيں ہے وہاں ان چيزوں کا خيال نہيں رکھا جاتا ہے۔

صحيح ہے کہ يہ مسائل مرد و عورت کيلئے ايک خاص قسم کي محدوديت کا باعث بنتے ہيں ليکن شريعت نے ان قوانين کو خانداني نظام زندگي اور ايک گھرانے کي بنيادوں کے استحکام، پائيداري، اسکي حفاظت اور خوشحالي کيلئے وضع کيا ہے۔اگر ان مسائل و قوانين ميں ہر انسان تدبر و تآمل کرے تو وہ حکمت کے بيش بہا گوہروں کو موجود پائے گا۔

يہ جو آپ ديکھتے ہيں کہ اسلام ميں محرم و نامحرم کے مسائل اور مرد و عورت کے الگ الگ ہونے پر اتني زيادہ تاکيد کي گئي ہے يہ دقيانوسي اور فرسودہ باتيں نہيں ہيں کہ جو انسان کو پتھر کے زمانے کي طرف ماضي ميں لے جائيں۔ يہ باتيں دراصل انساني اور بشري مفاہيم کا اہم ترين حصہ ہيں۔ ان ميں سب سے اہم ترين عنصر يہ ہے کہ خاندان کي بنياديں مستحکم ہوں۔ مياں بيوي کا آپس ميں احساس وفاداري کرنا اور حسد سے پرہيز کرنا يہ بھي بہت اہم بات ہے۔

اسلام کا ديا ہو احجاب،اسلام ميں حرام کردہ نظريں اور اسلام کا ممنوع کيا ہوا ميل جول اور طرزِ معاشرت اسي ليے ہے کہ آپ کا دل اور محبت ايک نکتے پر متمرکز ہوجائے۔ اسلام کے بيان کردہ حجاب، چہرے کو چھپانے اور مرد و عورت کے باہمي مخلوط طرز معاشرت کي نفي جيسي باتوں کو ديکھ کر کوتاہ نظر افراد يہ خيال کرتے ہيں کہ يہ صرف ظاہري سي باتيں ہيں، نہيں! حقيقتاً يہ بہت گہري اور عميق باتيں ہيں۔ يہ باتيں اس ليے ہيں کہ خاندان اپني جگہ قائم رہيں اور مياںبيوي کے دل ايک دوسرے سے جڑے اور گھرانے خوشحال اور مستحکم رہيں۔ ان احکام کي وجہ يہي ہے۔ يہ محرم ہے، وہ نامحرم ہے، فلاںکو نہ ديکھو، فلاں کے ساتھ ميل جول اور نشست وبرخاست نہ رکھو، فلاں سے ہاتھ نہ ملاؤ، فلاں کے سامنے نہ ہنسو، نامحرم کے سامنے زينت و آرائش نہ کرو اور خود کو دوسروں کے سامنے جلوہ نہ دو، اگر آپ اسلام کي بيان کردہ ان تمام باتوں اور فقہ و شريعت کے بيان کردہ ان تمام پروگراموں پر عمل پيرا ہوں تو آپ کا يہ چھوٹا سا گلشن ہرا بھرا رہے گا اور بلائيں اور آفتيں اِسے کوئي نقصان نہيں پہنچا سکيں گي۔

مياں بيوي اس بات کا اچھي طرح احساس کر يں کہ وہ ايک دوسرے سے وابستہ ہيں ان کا وجود ايک دوسرے کے بغير نا مکمل ہے اور وہ ايک گھر ميں رہتے ہيں۔ بيوي ہر گز يہ محسوس نہيں کرتي کہ گھر اس کيلئے ايک جھنجھٹ اور اس کے ہاتھ کي زنجير ہے۔ اسي طرح شوہر بھي يہ احساس نہيں کرتا کہ اس کا گھر اور بيوي اس کيلئے باعث زحمت ہیں۔

اسلام نے اس قدر جو تا کيد کي ہے کہ نامحرم کيلئے اپني آنکھوں کو بند رکھو، تمہاري آنکھيں کوئي بھي حرام چيز نہ ديکھيں تو يہ صرف اس ليے ہے کہ جب آنکھ کسي کو ديکھے گي تو آپ کي بيوي يا مياں کے پيار کا کچھ حصہ بھي اس کي طرف چلا جائے گا۔ (ديکھنے والا) خوا ہ مرد ہو يا عورت اس ميں کوئي فرق نہيں ہے۔مرد کيلئے ايک اور طرح سے حکم ہے اور عورت کيلئے ايک اور طرح سے فرمان موجود ہے۔ جب پيار کم ہو گا تو محبت بھي کمزور ہو جائے گي اور جب محبت ضعيف ہو گي تو گھر کي بنياديں بھي متزلزل ہو جائيں گي۔ اس وقت جو چيز آپ کيلئے لازمي و ضروري ہو گي وہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گي اور جو آپ کيلئے ضرر و نقصان کا باعث ہوگي وہ آپ تک پہنچ جائے گي۔

کامياب ازدواجي زندگي کے سنہرے اصول

ساتواں مرحلہ

آساني اور چھوٹ دينا

الف :شادي بياہ کي تقريبات ميں شاہا نہ تجمل اور اسراف

ب :مہر،خلوص و سچائي کي علامت يا لڑکي کي قيمت؟

ج :جہيز زندگي کي آساني يا فخر و مباہات کا ذريعہ؟

دريچہ

ہم انسانوں کي زندگي ميں سب سے بڑي جس آفت کا سب سے زيادہ مشاہدہ کيا جاسکتا ہے وہ ’’کسي کام کو سخت بناکر انجام‘‘ دينا ہے۔

جب ايک کام کو آساني سے انجام ديا جاسکتا ہے تو ہم اسے مشکل سے کيوں انجام ديتے ہيں؟ درحقيقت اس طرح خود کو اور دوسروں کو مشکل سے دوچار کرديتے ہيں ۔

خام خيالي ،بے جا قسم کي فکر ميں پڑنا اور کاموں کو بغير کسي سبب کے طول دينا دراصل خود سختي کے جال ميں پھنسانا ہے!

ہم اپني زندگي ميں طبيعي، فطري اور عام طور پر بہت سي مشکلات ميں گرفتار ہيں۔

يہ کس قدر احمقانہ بات ہوگي کہ عقل و منطق کے اصول و قوانين کي عدم پابندي کے ذريعے ہم اپنے کاموں کو پہلے سے زيادہ مشکل بناديں!

تمام افراد تھوڑے سے غورو فکر سے يہ بات اچھي طرح جان سکتے ہيں کہ کسي بھي کام کو سنجيدگي ،تو جہ، مستحکمي،منظم اور بہترين انداز سے انجام دينے اور اُسے پيچيدہ ،سخت اور مشکل بنانے ميں زمين آسمان کا فرق ہے۔

کاموں کو مشکل بنا کر انجام دينا فرصت کو ختم کردينا ہے،عمر کو برباد کرتا ہے اور

کاميابي کے امکان کو کم اور افسردگي و سرد مہري کو زيادہ کرتا ہے۔

اِس کے ساتھ سرمائے کو نابود کرکے زندگي کو تلخ بناتا ہے۔

يہي وجہ ہے کہ حضرت ختمي مرتبت ۰ ايسے افراد سے جو کاموں کو سخت بناتے اور سخت گيري سے پيش آتے ہيں، دوري اختيار کرتے ہوئے خود کو ان سے دور کرتے ہيں۔

’’وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِيْنَ ‘‘(۱) ۔

ہمارے معاشرے ميں موجود بہت سے گھرانے اور خاندان اِس خطرناک آفت و بيماري ميں مبتلا ہيں، جس کي وجہ سے بہت سے اہم مسائل روبہ زوال ہيں۔

اِن جملہ مسائل ميں سے ايک اہم اور تقدير ساز مسئلہ شادي ہے۔

آداب و رسومات کي بجا آوري اور آبرومندي، اسٹيٹس، معاشرتي حيثيت اور ناک کا مسئلہ بنانے اور دولہا دلہن کي شان و شوکت کو بڑھانے کے بہانے سے ہم نے زندگي کے ان يادگار اور شيريں لمحات کوايک وحشتناک خواب ميں تبديل کرديا ہے۔

اِس تلخ اور کڑوي بيماري نے بہت سے نوجوانوں کو اپني زندگي اور گھر بسانے سے نااُميد کرديا ہے،جبکہ بہت سے دوسروں کو ان کي مشترکہ زندگي کي ابتداميں ہي بہت سي مشکلات سے دوچار کرديا ہے۔

بہت سے گھرانے اپني اولاد کي شادي کي عمر نزديک آنے پرخوشي و سرور کے بجائے اضطراب و پريشاني کا اظہار کرتے ہيں۔

غير شادي شدہ رہنے کي طولاني مدت اور شادي ميں تا خير سے پيدا ہونے والي ثقافتي، تربيتي اور اخلاقي مشکلات ناقابلِ شمار ہيں۔

جہيز کي لعنت کے نتيجے ميں ايک مشقت اور درد سر والي زندگي نے

____________________

١ سورہ ص آيت ٨٦۔ ’’اور ميں نہ بناوٹ کرنے (اور نہ غلط بيان کرنے) والا ہوں‘‘۔

دو نوجوانوں کي زندگي کي شيريني کو تلخي ميں تبديل کر ديا ہے۔

اِس اجتماعي اور معاشرتي بيماري ميں ہم سب برابر شريک ہيں،ليکن ہم سب ميں سے اِن تمام مسائل کو مشکل بنانے والے خاندان،خدا کے سامنے سب سے زيادہ جوابدہ ہيں۔

لہٰذااس اجتماعي مشکل کو بر طرف کرنے کے ليے ہم سب کو ميدان عمل ميں آنا ہوگا تاکہ اس خدائي حکم اور آسماني رشتے اور جاہليت کو قيد و بند سے نجات ديں اور نوجوانوں کيلئے زندگي کے راستے کو ہموار کريں۔

ان جاہلانہ رسوم و آداب اور احمقانہ روش اور طرزِ فکر کے منحوس اثرات کو اِس فطري ناموس اور اسلامي سنت ميں جگہ جگہ ديکھا جاسکتا ہے۔

اپنے ہمسفر (مياں يا بيوي)کے انتخاب ميں ہم نے لڑکے لڑکي کے کفو اور ہم پلہ ہونے ميں دين، تقوي اور اخلاق کي جگہ بہت سي عجيب و غريب شرائط کو داخل کرديا ہے!

مہر، جو انسان کي سچائي و صداقت کيلئے ہديہ ہے اور سنت نبوي ۰ ميں جس کے مال و دولت ہونے کي فکر پر کوئي توجہ نہيں دي گئي ہے

بلکہ جس کے کم ہونے کو دلہن کے نيک قدم اور اچھے شگون کي علامت قرار ديا گيا ہے، کو لڑکيوں کي قيمت ميں تبديل کرديا ہے!

جہيز نے جو والدين کي اپني اولاد سے محبت و دوستي کي نشاني اور اِن کي مشترکہ ازدواجي زندگي کے آغاز کوسہل اور آسان بنانے کا وسيلہ ہے، ان کي زندگي کي راہ کي رکاوٹ اور خاندانوں کيلئے ايک بڑي مصيبت بنادي ہے!شادي، بارات اور وليمے کے جوڑوں اور ديگر چيزوں کي خريداري اور شاپنگ کے نام پر لمبے چوڑے خرچوں کو نوجوانوں اور ان کے گھروالوں پر تھونپ ديا ہے۔

شادي بياہ اور وليمے کي تقريبات جو دو خاندانوں کي خوشي اور سرور کا ذريعہ ہيں، کے ليے فضول خرچي، اسراف اور زبردستي کے خرچوں کي اسقدر کڑي شرئط لگا دي گئي ہيں کہ ان شاديانوں کے پيچھے اشکبار آنکھيں اور غم کے دريا ميں ڈوبے ہوئے دل نظر آرہے ہيں۔

توجہ فرمائيے کہ جس چيز ميں خدا اور اس کے رسول ۰ کي مرضي و خوشي ہے اور اُس چيز ميں جسے ہم انجام ديتے ہيں، کتنا زيادہ فاصلہ ہے؟

ہميں صدق دل سے اعتراف کرنا چاہيے کہ آسان اور سادي شادي کيلئے شريعت نےجتني تاکيد کي ہے ہم نے اس کے مقابلے ميں اسے مشکل بنانے ميں ہي قدم اٹھايا ہے۔

جھوٹي حيثيت آبرو اور اسٹيٹس کي يہ دوڑ نجانے کب ختم ہوگي؟ اس معاشرتي انحراف اور ناسور کي تدبير و دوا کے ليے ہم ’’اُس ‘‘کي محفل ميں آئے ہيں۔

وہ اپني حکيمانہ نظر وں سے درد کو بھي پہچانتا ہےاور شفا کيلئے اپنا طبيبانہ نسخہ بھي ديتا ہے،مصلحانہ انداز ميں نصيحت بھي کرتا ہے

اور ہم سب کو رسول ۰ اکرم اور عليو فاطمہ کي سيرت کي طرف دعوت بھي ديتا ہے۔