الف :شادي بياہ کي تقريبات ميں شاہانہ تجمل اور اسراف
اسلامي شادي کي سادہ مگر پر رونق محفل
اگر آپ مختلف اقوام عالم ميں شادي کي تقريبات کو ملاحظہ کريں تو آپ اسلام ميں شادي کي تقريب کو سادہ پائيں گے ۔البتہ جشن و سرو ر اورخوشي منانے اور اس کے اظہار کرنے ميں کوئي عيب نہيں ہے۔ ہر کوئي اپنے ذاتي ميل اور شوق کي بنا پر جتنا چاہے خوشي و مسرت کا اظہار کرے ليکن يہ سب شادي کي ديني تقريبات اور دين کا حصہ نہيں ہے۔جو بھي چاہے وہ يہ کام انجام دے سکتا ہے اور جو نہ چاہے وہ انجام نہ دے مثلاًو ہ حتماً ايک معبد و عبادت خانے (گرجا گھر)ميں جاکر کسي کے سامنے دو زانوہوکر فلاں فلاں کام انجام ديں۔وہ تمام مراسم اور رسومات جو دوسري قوموں ميں موجود ہيں اسلام ميں نہيں ہيں۔
اسلام ميں صرف ايک شرعي صيغہ (نکاح)ہے کہ جسے پڑھنا چاہيے۔ البتہ اسلام ميں مختلف معاملات اور لين دين کہ جن کي اہميت شادي سے کم ہے، ميں ہم گواہ بناتے ہيں۔ اب تو باقاعدہ نکاح رجسٹر ار نکاح نامے کو رجسٹر ڈ کرتا ہے، رجسٹرڈ کرانے کے اپنے دفاتر ہيں اور اس کام ميں کسي قسم کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، دکھاوے اور فضو ل خرچي کي ضرورت نہيں ہے۔ لوگ بہت آساني اور بغير اسراف و فضول خرچي کے شادي کا يہ مقدس کام انجام دے سکتے ہيں۔
اسلامي نکاح يا جاہلي نکاح
شريعت نے شادي سے زمانہ جاہليت کي قيدوشرط کو ہٹاکر اسے ايک نئي فکر، شرائط اور خاص طريقہ کار عطا کيا ہے۔ اگر ہم کوئي ايسا کام کريں کہ ہماري شادي کي تقريبات اسلام کي دور کردہ چيزوں سے پاک اور اسلام کے بتائے ہوئے طريقہ کار سے آراستہ ہوں تو ہماري يہ شادياں اسلامي کہلائيں گي اور نکاح بھي پيغمبر اسلام ۰ کي خوشنودي کے مطابق انجام پائے گا۔ليکن خدانخواستہ اگر ہم نے اسلام کي طرف سے ممنوع شدہ اور زمانہ جاہليت کي رسومات کو اپني شادي ميں جگہ دي تو اس وقت ہمارا نکاح اور تقريبات جاہلانہ کہلائيں گي۔
ہم مسلمان ہيں اور ہمارا نام بھي مسلمان ہے ليکن ہمارا کام غير اسلامي اور جاہلانہ ہوگا۔ يا اگر وہ چيزيں کہ اسلام نے شادي ميں جن کا خيال رکھنے کا حکم ديا ہے، خيال نہ رکھيں تو اس وقت بھي ہماري شادي کامل طور پر اسلامي نہيں ہوگي۔ اگر شادي اسلامي طريقے سے انجام پائے يعني قرآن اور اسلام کي بيان کردہ روش کے مطابق تو زندگي بھي شيريں ہوگي اور مياں بيوي اچھي زندگي گزاريں گے۔
شادي کو آسان بنائيں، خدا آپ کي مدد کرے گا
جب بھي شادي کي بات ہوتي ہے تو نوجوان يہ کہتے ہيں کہ اگر ہم ابھي شادي کريں تو گھر اور کام کيلئے کيا کريں گے؟ يہ وہي شرائط اور پابندياں ہيں کہ جو ہميشہ اصلي اور بنيادي کاموں کا راستہ روکتي ہيں۔ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اِنْ يَّکُوْنُوْا فُقَرَائَ يُغْنِيْهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهِ
‘‘(اگر وہ فقير و ضرور ت مندہوں گے تو خدا نہيں اپنے فضل سے غني کردے گا) يعني خداوندعالم ان کي مدد کرے گا۔آپ شادي کريں۔
جو لوگ (فقر کے خوف کو شادي کي راہ ميں رکاوٹ بننے سے روکتے ہوئے) شادي کرتے ہيں تو يہ شادي ان کي معيشت ميں کسي خاص مشکل کا سبب نہيں بنتي ہے بلکہ اس کے برعکس خدا انہيں اپنے فضل و کرم سے غني بھي کرتا ہے۔ جي ہاں يہ خدا وند عالم کا قول ہے! ليکن ہم اپنے ليے ايک کي جگہ دس غير ضروري خرچ کرتے ہيں ،زندگي کے غير ضروري اور اضافي خرچوں کو بڑھاتے ہيں اور جھوٹي ضرورتوں کو وجود ميں لاتے ہيں۔
جي ہاں جب يہ ہوگا تو مشکل تو پيش آئے گي۔ غلطي کس کي ہے؟ پہلے درجے پر غلطي اہل ثروت اور متمول افراد کي ہے، وہ افراد جو زندگي کي آسائشوں سے بہرہ مند ہوں، جو سطح زندگي کو اوپر لے جاتے ہيں ،خواہشات،توقع،اميدوں،جھوٹي آرزوؤں اور غير ضروري حاجتوں کي سطح کو بلند کرتے ہيں۔ اس کے بعد بعض اعليٰ حکام کي غلطي ہے کہ جن کو آکر عوام کے سامنے ان چيزوں کيلئے بولنا اور آسان شادي کے وسائل فراہم کرنا چاہيے ليکن وہ يہ کام انجام نہيں ديتے ہيں۔ ہم يہ نہيں کہنا چاہتے ہيں کہ نوجوانوں اور ان کي شادي کي نسبت حکومتوں کي کوئي ذمے داري نہيں ہے۔ ليکن ايک اسلامي معاشرے ميں اس چيز کو رواج پانا چاہيے کہ شادي ايک ضرورت ہے اور اسے صحيح وقت پر اپني سادگي کے ساتھ انجام پانا چاہيے۔
يہ جو لڑکياں کہتي ہيں کہ ہم ابھي شادي کيلئے تيار نہيں ہوئے ہيں يا لڑکے جو يہ کہتے ہوئے نظر آتے ہيں کہ شادي ابھي ہمارے بس کي بات نہيں، ان کي يہ باتيں کوئي معقول اور منطقي نہيں ہيں۔ زندگي کے بہت سے مسائل ميں ہم ديکھتے ہيں نوجوان آمادہ ہيں، ان کي وضع زندگي بھي اچھي ہے۔ وہ خود بھي اچھے ہيں اور مسائل کو اچھي طرح سمجھتے اور درک کرتے ہيں۔ ليکن سمجھنا چاہیے کہ رشتہ ازواج ميں منسلک ہونا دراصل ايک قسم کا عہد وپيمان اور ذمے داري ہے ١ ۔ انسان کي ذمے داري کو قبول نہ کرنے کي يہ عادت اس کام کي انجام دہي ميں تھوڑي بہت رکاوٹ بن جاتي ہے۔
اظہارِ خوشي اور مہمانوں کي دعوت، درست مگر اسراف نہ ہو!
عياشي ،شاہانہ خرچ، فضول خرچي اور اسراف ايک معاشرے کيلئے مضر اور نقصاندہ ہيں۔ وہ لوگ جوشاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور فضول خرچي کي مخالفت کرتے ہيں تو اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ وہ زندگي کي لذتوں اور خوشيوں سے بے خبر ہيں۔ نہيں! بلکہ وہ ان کاموں کو معاشرے کيلئے نقصاندہ جانتے ہيں بالکل ايک مضر دوا يا فاسد خوراک کي مانند۔ بيش از حد خرچے اور تصنع و تجملات معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہيں ليکن اگر يہ معقول و مناسب حد پر رہيں تو اس ميں کوئي عيب نہيں ہے۔ ليکن اگر انہي چيزوں ميں دوڑ شروع ہوجائے اور ايک دوسرے پر سبقت لينے کا خيال ذہن ميں آئے تو يہ اپني حد سے تجاوز کرکے آگے بڑھ جائے گا۔
١ جب آپ کہيں نوکري کرتے ہيں خواہ وہ حکومتي محکمہ ہو يا پرائيوٹ ادارہ تو آپ کے اس ادارے ميں ايک مقام و پوسٹ کي مناسبت سے آپ کي تنخواہ مقرر کي جاتي ہے ليکن جب آپ کو اعليٰ درجے کيلئے ترقي دي جاتي ہے تو آپ کي تنخواہ بھي بڑھتي ہے، الاؤنس ميں بھي اضافہ ہوتا ہے، گاڑي بھي ملتي ہے اور پي آر بھي بڑھتي ہے ليکن ان سب کے ساتھ ساتھ آپ کي ذمے داري بھي بڑھتي ہے اور آپ کے ماتحت افراد ميں بھي اضافہ ہوتا ہے۔ ہر آدمي اپني ترقي سے خوش ہوتا ہے۔ ليکن کيا آپ اس ذمے داري سے پہلو تہي کرنے کي وجہ سے تنخواہ، تمام الاؤنس اور ديگر مراعات سے صرف نظر کریں گے؟ ہر گز نہيں آپ عہدے کي ترقي کے ساتھ ساتھ ذمے داري کو بھي قبول کرتے ہيں ۔اسي طرح شادي ميں بھي انسان کو بہت سي سہوليات ملتي ہيں ليکن ساتھ ہي ذمے داري بھي بڑھتي ہے۔ اب آپ کے ساتھ آپ کي بيوي اور آپ کا چھوٹا سا خاندان بھي ہوتا ہے۔ (مترجم)
کچھ لوگ ہيں کہ جو (غذا ميں) اسراف کرتے ہيں، اسے پھينکتے اور گراتے ہيں۔ آج کے موجودہ زمانے ميں جبکہ بہت سے فقير ہمارے معاشرے ميں ہيں اور بہت سے ايسے افراد بھي ہيں کہ جو زندگي کي بنياد ي سہوليات سے بھي محروم ہيں، يہ کام سراسر اسراف و فضول خرچي ہے، اپني حد سے بہت زيادہ ہے اور بے بنياد بھي۔ جو بھي يہ کام کرے گا برا کرے گا۔
کچھ لوگ ہيں کہ جو انہي کاموں سے ثواب حاصل کرنے کے بجائے گناہ و عذاب حاصل کرتے ہيں۔ حرام کا مطلب صرف يہ نہيں ہے کہ محرم و نا محرم اور ديگر مسائل کا خيال نہ رکھا جائے، صحيح ہے کہ يہ بھي حرام کام ہيں ليکن بيش از حد خرچ کرنا اور فضول خرچي کرنا بھي حرام ہے،زندگي کي سہوليات سے محروم اور تہي دست افراد کي دل آزاري بھي بہت سے موارد ميں حرام ہے۔ اسي طرح بيٹي کے جہيز کو بنانے ميں حلال و حرام کي پرواہ نہ کرنا اور ان وسائل ميں افراط سے کام لينا بھي حرام ہے۔
ميں ان لوگوں سے ہر گز راضي نہيں ہوں کہ جو شادي کي تقريبات اور اس سے مربوط مسائل ميں اسراف و فضول خرچي سے دوسروں کے ليے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کرتے ہيں۔ ہم خوشي کے اظہار، جشن منانے اور مہمانوں کي دعوت کرنے کي حمايت کرتے ہيں ليکن ان سب ميں اسراف و فضول خرچي کے مخالف ہيں۔
بہت سے ايسے لڑکے لڑکياں ہيں جو اہلِ ثروت کي عياشيوں اور فضول خرچيوں کي وجہ سے اپنے پاس زندگي کے وسائل ميں کمي، حزن و غم اور ايک قسم کي ملامت کا احساس کرتے ہيں اور اُن ميں احساسِ کمتري پيدا ہوتا ہے۔
يہ بڑے بڑے ہوٹل اور شادي ہال شادي کو شيريں نہيں بناتے
اِن بڑے بڑے اور پُر خرچ ہوٹلوں، شادي ہالوں اور فضول خرچي والي تقريبات کو چھوڑ ديجئے۔ ممکن ہے کہ کوئي کسي شادي ہال ميں سادہ سي شادي کي تقريب منعقد کرے تو اس ميں کوئي عيب نہيں ہے۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ شادي ہال ميں کسي بھي صورت ميں شادي نہ کي جائے۔ چونکہ بعض گھروں ميں اتني گنجائش نہيں ہوتي اور وہاں امکانات اور سہوليات بھي نہيں ہوتي ہيں (تو اس صورت ميں شادي ہال کو استعمال کرنے ميں کوئي مضائقہ نہيں ہے) ليکن اسراف نہ کريں۔ شادي ميں خوشي کا اظہار کرنا، مہمانوں کو دعوت دينا، رشتہ داروں، نزديکي افراد اور دوستوں کو مدعو کرنا اچھي بات ہے ليکن اسراف کرنا برا ہے اور نہ ہي مسلمان قوم کے شان کے مطابق ہے۔
شادي، نکاح اور وليمے کي تقريبا ت اور جشن و مسرّت اچھي چيز ہے۔ حتيٰ کہ رسول ختمي مرتبت ۰ نے بھي اپني صاحبزادي کي شادي کے موقع پر ايک محفل منعقد کي، خوشي و مسرّت کا اظہار کيا، لوگوں نے اشعار پڑھے، خواتين نے تالياں بجا کر خوشي کا اظہار کيا۔ لہٰذا آپ کي کوشش يہ ہوني چاہیے کہ شادي کي تقريبات اور اس سے مربوط مسائل ميں اسراف نہ ہو۔
ہمارے يہاں کي شادي، وليمہ، مہندي اور چوتھي وغيرہ کي پُر خرچ محافل، اسراف و فضول خرچ کا منہ بولتا ثبوت ہيں۔ مہنگے ہوٹلوں اور گراں قيمت شادي ہالوں ميں تقريبات منعقد کي جاتي ہيں، انواع و اقسام کے کھانوں، پھلوں اور ميٹھے پر بہت زيادہ رقم صرف کي جاتي ہے، کھانے زمين پر گرتے ہيں، کوڑے ميں پھينکا جاتا ہے اور يوں غذا ضائع ہوتي ہے۔ کس ليے؟ صرف حيثيت ، آبرو اور اسٹيٹس دکھانے کے ليے؟ !صرف اس ليے کہ اسراف کي دوڑ ميں پيچھے نہ رہ جائيں؟!
فضول خرچي نہ کريں۔ اگر آپ نے فضول خرچي کي تو نہ صرف يہ کہ آپ نے خود کو نقصان پہنچايا بلکہ لوگوں کو بھي نقصان سے دوچار کيا۔ آپ نے اپنے نوجوانوں لڑکے لڑکيوں کي اُميدوں اور آرزوؤں کا بھي گلا گھونٹا اور رسولِ اکرم ۰ کي نگاہوں ميں خود کو بے آبرو کيا اور آپ نے اپنے اس کام سے خود کو امامِ زمانہ کي نظروں سے بھي گراديا ۔ آپ کي فضول خرچي اور اِسراف، خلافِ شريعت کام حساب کيا جائے گا۔
ايک اچھي شادي وہ نہيں ہے کہ جس ميں روپيہ پاني کي طرح بہايا جائے بلکہ ايک اچھي شادي وہ ہے جو بناوٹ، ريا اور تصنّع کے بغير انجام پائے۔ جب ايک شادي ميں ان تمام امور کا خيال رکھا جائے گا تو وہ شادي اچھي ہوگي خواہ وہ ايک مختصر سي محفل ہي کيوں نہ ہو۔ گھر کے ايک دو کمروں ميں عزيز واقارب، ملنے جلنے والے اور دوست جمع ہوں تو يہ شادي اچھي شادي ہے۔ مہنگے ہوٹلوں اور پُرخرچ شادي ہالوں ميں لمبي لمبي دعوتيں، لمبے لمبے دسترخوان پر چُنے ہوئے انواع واقسام کے کھانے، مہنگے ترين امکانات و وسائل اورلمبے خرچے پاني، ان ميں سے کوئي بھي چيز شادي سے مناسبت نہيں رکھتي ہے۔ ميں نہيں کہتا کہ يہ چيزيں شادي (نکاح)کو باطل کرديتي ہے۔ نہيں! شادي اپني جگہ صحيح کہلائے گي ليکن يہ تمام چيزيں زندگي اور معاشرے کے ماحول کو خراب اور کڑوا بناديتي ہيں۔
گزشتہ زمانے ميں يہ بڑے بڑے شادي ہال نہيں تھے اور نہ ہي ان چيزوں کا کوئي وجود تھا۔ ايک دو کمروں ميں محفل منعقد کرتے تھے، مہمان آتے تھے اور ان کي پذيرائي ہوتي تھي۔ کيا اس زمانے کي شادياں آج سے زيادہ بے برکت و بے رونق تھيں؟ کيا لڑکيوں کي عزّتيں آج کے زمانے سے کمتر تھيں کہ شاديوں کو رونق بخشنے اور لڑکيوں کي عزّت و آبرو بڑھانے کيلئے بڑے بڑے ہالوں ميں جائيں۔
ٹھيک ہے بذات خود بڑے شادي ہالوں ميں (مہمانوں کي تعداد کو مدِّنظر رکھتے ہوئے) شادي کرنے ميں کوئي عيب نہيں ہے، ميں ان شادي ہالوں کي مخالفت نہيں کرتا ہوں ليکن ان سب فضول خرچيوں، اسراف، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، تجمل اور ريا کا مخالف ہوں۔ ليکن اب کچھ لوگ ہوٹل ميں جا کر شادي کريں تو يہ کام غلط ہے اور شادي ہالوں کي موجودگي ميں اس کو اس کي کوئي ضرورت نہيں ہے۔
آپ شادي کي تقريبات کو جتنا مختصر او ر سادہ منعقد کريں گے اتنا ہي بہتر ہے۔ آپ اپنے اس فعل سے غريب، تہي دست اور نادار افراد کي ہمّت افزائي کيجئے اور اُن کيلئے راہ ہموار کريں تاکہ وہ مايوس نہ ہوں۔
بعض حکام کي غلطي
يہ تو معلوم ہوگيا کہ بڑے ہوٹلوں اور فضول خرچي والي تقاريب، دعوتيں اور شادياں نہ تو اہلِ علم کي شان کے مناسب ہيں اور نہ ہي پر ہيز گار اور مومن افراد کي شان و مقام کے ۔يہ سب طاغوتي اور شاہي دور کي چيزيں ہيں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض افراد آج بھي غلطي کررہے ہيں۔ چونکہ شاہ کے دور ميں اعليٰ حکام اور بڑے بڑے افراد ايسا کرتے تھے اور آج يہ بھي بڑے بن گئے ہيں لہٰذا سوچتے ہيں کہ ہميں بھي يہ کام کرنے چاہييں۔ نہيں جناب، وہ لوگ طاغوتي تھے اور اہلِ دنيا تھے اور ہمارا تعلق علما سے ہے اور جو لوگ عالمِ دين نہيں ہيں وہ ديندار ہيں۔ ہماري زندگي بھي دوسري طرح کي ہے اور عمل بھي، ہماري منش و طبيعت بھي دوسري طرح کي ہے اور اخلاق بھي۔ ہمارا ہدف بھي اُن سے بالکل مختلف ہے اور نہ ہي ہميں اُن کي تقليد کرني چاہیے۔ ہميں ايسا کام کرنا چاہیے کہ لوگ ہماري پيروي کريں۔
يہ عزت و آبرو نہيں ہے!
کچھ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ بڑے بڑے ہوٹلوں اور پُر خرچ شادي ہالوں ميں شادي کي تقريبات منعقد کرنا، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور اسراف دولہا دلہن کي سر بلندي اور عزت و شرف کا باعث بنتا ہے! دولہا دلہن کي عزت و سر بلند ي ان کي انسانيت، تقويٰ، پاکدامني، اور ان کي نظروںکي بلندي ہے ناکہ يہ چيزيں۔
جان ليں کہ شادي کو سادہ بنانا خواہ مہر کي رقم ہو، جہيز ہويا بارات و وليمے کي تقريب، باعثِ ننگ و شرم نہيں ہے جيسا کہ کچھ لوگ خيال کرتے ہيں کہ اگر ہم اپني بچي کي شادي سادہ کریں گے تو ہماري بيٹي کا سر شرم سے جھک جائے گا، نہيں! يہ آپ کي غلطي ہے۔
ہم تہي دست اور نادار افراد کو نصيحت کرتے ہيں کہ قرض لينے کے ليے اِدھر اُدھر ہاتھ پير نہ ماريں، صرف اس ليے کہ اپني عزت و آبرو کو محفوظ رکھيں! عزت و آبرو کيا ہے؟ کيا يہي ہے عزت و آبرو!؟ اگر ہم آنکھيں کھول کر حقيقت کو ديکھيں تو يہ عزت نہيں ہے۔ کچھ لوگ ہيں کہ جو قرضدار بنتے ہيں تاکہ معاشرے ميں آبرو مند رہيں! يہ کام سراسر غلط اور بے بنياد ہے۔
فضول خرچي کرنے والوں کا حساب کتاب بہت سخت ہے
ميں ملک کے تمام لوگوں کو اس بات کي تاکيد کرتا ہوں کہ شادي کو آسان بنائيں۔ بعض لوگ ہيں کہ جو شادي کو مشکل بناتے ہيں۔ مہر کي بڑي بڑي رقميں اور جہيز کي لمبي لمبي لسٹيں ہي شادي کو مشکل بناتي ہيں۔لڑکے کے گھر والے ايک زبردست قسم کے جہيزکي توقع کيوں رکھيں؟ لڑکي کے گھر والے، رسم و رواج اور فضول خرچي کي دوڑ ميں آگے نکلنے کے ليے زيادہ جہيز کيوں ديں؟ اور شادي کي تقريب کو رنگين بنانے کے ليے فضول خرچي کيوں کريں؟ آخر ان سب کا کيا نتيجہ نکلے گا؟ اس کا نتيجہ يہ ہوگا کہ لڑکے بغير شادي کے زندگي گزاريں اور لڑکيا ں گھروں ميں ہي بيٹھي رہيں اور کسي ميں اس بات کي جرآت نہيں ہوگي کہ وہ شادي کا خيال بھي کرے۔
وہ لوگ جو فضول خرچي اور اسراف کے ذريعے شادي کرتے ہيں کيا ان لوگوں سے زيادہ خوش قسمت ہيں کہ جو سادہ طريقے سے شادي کرتے ہيں؟ کون ہے کہ جو ايسا دعويٰ کرسکتا ہے؟ يہ کام صرف کچھ نوجوان لڑکے لڑکيوں کي آرزوؤں کا گلا گھونٹنے، ان کي زندگي کو تلخ بنانے کے علاوہ کچھ اور نہيں کرسکتا۔ يعني يہ لوگ اگر اس طرح شادي نہيں کرسکے تو يہ حسرت ان کے دل ميں ہميشہ کے ليے دفن ہوجائے گي يا وہ شادي ہي نہيں کرسکیں گے۔ چاہیں گے کہ ہم لڑکي کو دلہن بنا کر گھر لائيں ليکن جب اس کے خالي ہاتھوں کو ديکھيں گے تو يہ ان کي حسرت بن جائے گي اور لڑکي گھر ميں ہي بيٹھي رہ جائے گي اور يوں يونيورسٹي کے طالب علم، مزدور يا معمولي تجارت اور دکان والے يونہي غير شادي شدہ رہيں گے۔
ميں يہ خيال کرتا ہوں کہ جولوگ اسراف والي تقريبات، مہر کي بڑي بڑي رقموں اور جہيزکي لمبي لمبي لسٹوں سے اس امرِ مقدس کو دوسروں کے ليے مشکل بناتے ہيں تو خداوند عالم ان کا بہت سخت حساب لے گا۔ يہ نہيں ہوسکتاکہ وہ يہ کہيں کہ جنابِ عالي ہمارے پاس دولت ہے اور ہم جو چاہیں کريں گے۔ يہ سب غلط باتيں ہيں۔ مال و دولت ہونا تو اس بات کي دليل نہيں بنتا کہ دوسروں کي دل آزاري کريں اور ان کي خواہشات کا گلا گھونٹيں!
کيا يہ بات درست ہے کہ جب انسان کے پاس مال و دولت ہو تو وہ ايسا قدم اٹھائے کہ دوسرے وہ کام انجام نہ دے سکيں؟ نوجوانوں ميںا س بات کي جرآت نہ ہو کہ وہ شادي کے ليے اقدامات کريں؟ ايسا کوئي کام نہيں ہونا چاہیے کہ جس کي وجہ سے نادار اور تہي دست افراد، وہ لوگ جن کا ان تمام باتوں کيلئے دل راضي نہيں ہوتا، جن کي فکريں اس فضول خرچي کے خلاف ہيں اور وہ يہ قصد نہيں رکھتے يہ تمام لوگ شادي نہ کرسکيں۔
بيکار زحمت و مشقت
اسراف، فضول خرچي اور ديگر کاموں کو انجام نہ ديجئے، اس فضول خرچي ميں آپ کي بھلائي نہيں ہے اور خدا بھي اس کام سے راضي نہيں ہے۔ آپ خود کو ايک بيکار قسم کي زحمت و مشقت ميں ڈال رہے ہيں۔ اس تمام فضول خرچي کے عوض اس کا دسواں حصہ اگر ايک فقير اور مستحق فرد کو ديں تو گويا آپ نے تمام عالم کے برابر ثواب حاصل کيا۔ کيا يہ لوگ ديوانے ہيں کہ جو بغير اجر و ثواب اور رضائے الٰہي کے اتني فضول خرچي کرتے ہيں؟ حتيٰ کہ لوگ بھي ان سے خوش نہيں ہيں۔ ايسے فضول خرچ افراد سے لوگ بھي راضي نہيں ہيں۔ آپ صرف خدا کو راضي کيجئے۔
اسرافِ بالغرض اگر گناہ نہيں تو ثواب بھي نہيں
اگر آپ فلاں ہوٹل ميں دعوت کريں اسراف کريں اور نئے نئے قسم کے پھل لے کر آئيں تو کيا آپ کي محفل ميں کوئي رونق اور برکت آجائے گي؟ البتہ ايسي مہماني اوردعوت کا خدا کے يہاں کوئي اجر نہيں ہے۔ جان ليجئے کہ اس کا رتي برابر ثواب نہيں ہے۔ اسراف کرنا اگر گناہ نہ ہو کہ البتہ گناہ ہے بالفرض کسي ايک صورت ميں اگر گناہ نہ ہو تو بھي ثواب نہيں ہے۔ آپ اپنے اس فعل سے سينکڑوں نوجوان لڑکے لڑکيوں کو شادي کي دعوت دينے سے محروم کررہے ہيں۔ کيونکہ وہ آپ کے فعل کو ديکھتے ہيں اور چاہتے ہيں کہ آپ کا مقابلہ کريں ليکن وہ اس بات پر قدرت نہيں رکھتے اور يوں شادي کا مقدس امر تاخير کا شکار ہوجاتا ہے۔
آلِ رسول ۰ کي تقليد کريں
عالم ہستي کي سب سے بہترين دختر اور دلہن حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ عليہا تھيں۔ اس طرح اس عالم کي سب سے بہترين شخصيت اور داماد حضرت امير المومنين علي ابن ابي طالب عليہ السَّلام تھے۔ آپ يہ ديکھئے کہ انہوں نے کيسے شادي کي؟ہزاروں خوبصورت، اچھے حسب و نسب، صحت مند اور محبوب نوجوان اميرالمومنين حضرت علي ابن ابي طالب کے ايک بال کے برابر بھي نہيں ہیں۔ اسي طرح ہزاروں نوجوان خوبصورت و زيبا اور بہترين حسب و نسب والي لڑکياں بھي حضرت زہرا سلام اللہ عليہا کے ايک بال کي برابري بھي نہيں کرسکتيں۔ يہ افراد خدا وندِعالم کي بارگاہ ميں عرفان و قربِ الٰہي کے بلند و بالا مقامات کے حامل ہيں اور ان کا شمار اپنے زمانے کي بڑي عظيم شخصيات ميں ہوتا تھا۔
حضرت فاطمہ تو حضرت ختمي مرتبت ۰ کي صاحبزادي تھيں کہ جو پوري اسلامي دنيا کے سربراہ اور حاکم مطلق تھے جبکہ حضرت عليسپاہِ اسلام کے پہلے نمبر کے سردار تھے۔ آپ توجہ کيجئے کہ انہوں نے کيسے شادي کي؟ کتنا کم مہر اور کتنا کم جہيز اور خدا کے نام اور اس کي ياد و ذکر کے ساتھ ان کي زندگي کي ابتدا ہوئي۔ يہ ہمارے ليے بہترين مثال اور اسوہ ہيں۔ اسي زمانے ميں بہت سے ايسے جاہل افراد تھے کہ جن کي بيٹيوں کے مہر کي رقم بہت زيادہ تھي۔ مثلاً ايک ہزار اونٹ
۔کيا ان لڑکيوں کا مقام حضرت زہرا سلام اللہ عليہا سے زيادہ اونچا تھا؟ آپ ان کي تقليد کرنے کے بجائے دخترِپيغمبر ۰ کي تقليد و پيروي کريں اور اميرالمومنين کو اپنے ليے نمونہ عمل قرار ديں۔
دلہن کے ليے کرائے کا لباس!
بعض لوگ ہيں کہ جو دلہن کا بہت مہنگا لباس خريدتے ہيں آخر کيوں؟اس کي کيا ضرورت ہے؟ بہت سے لوگ جو دلہن کے ليے لباس بنوانا چاہتے ہیں وہ دلہن کے ليے کرائے پر لباس لے کر آتے ہيں۔ اس ميں کيا حرج ہے؟ کيا يہ شرم و عيب کي بات ہے؟ ہر گز نہيں! اس ميں ننگ و عيب کا سوال ہي پيدا نہيں ہوتا اور نہ ہي اس ميں کوئي چيز مانع ہے۔
بعض لوگ اس چيز کو اپنے ليے عيب تصور کرتے ہيں۔ انسان کے ليے ننگ و شرم تو يہ ہے کہ وہ ايک خطير رقم خرچ کرکے ايک چيز خريدے اور ايک بار استعمال کرنے کے بعد اِسے دور پھينک دے۔
صرف ايک بار استعمال کرنے کيلئے اتني زيادہ رقم! اور وہ بھي اس معاشرے ميں جہاں بعض لوگوں کے پيٹ بھرے ہيں اور بعض حقيقتاً نياز مند اور مستحق بھي موجود ہيں۔