دوسري فصل
اسلام خواتين کے کمال ، راہ ِ حصول اور طريقہ کار کو معين کرتا ہے
الف: معنوي کمال اورروحاني رُشد کا ميدان
اسلام نے خواتين کي فعاليت کيلئے تين ميدانوں کو معين کيا ہے۔ پہلا ميدان خود خواتين کے معنوي کمال اورروحاني رُشد کاميدان ہے۔ اس ميدان ميں (فعاليت، ترقي اور عروج کے لحاظ سے) مرد و عورت ميں کوئي فرق نہيں ہے۔يعني مرد معنوي وروحاني لحاظ سے بلند ترين مقامات تک رسائي حاصل کرسکتا ہے اور ايک عورت بھي اعليٰ ترين درجات پر کمند ڈال سکتي ہے۔ ايک مرد حضرت علي ابن ابي طالب کي پيروي کرتے ہوئے اونچے مقام کو پاسکتا ہے تو ايک عورت بھي حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کي تآسّي و تقليد ميں اعليٰ درجات کو حاصل کرسکتي ہے۔
اہل ايمان کيلئے دو مثالي خواتين کا تذکرہ ، زن فرعون اور حضرت مريم
قرآن مجيد جب باايمان انسانوں کيلئے کوئي مثالي نمونہ پيش کرنا چاہتا ہے تو مردو ں سے مثال نہيں لاتا بلکہ خواتين ميں سے ايک خاتون کو بطورمثالي نمونہ پيش کرتا ہے۔ ’’مَثَلاً لِلَّذِينَ آمَنُوا امرَآَتَ فِرعَونَ
‘‘
۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں خداوند متعال مومن اور نيک انسانوں ميں سے دو خواتين کوبطورمثال اور آئيڈيل کي حيثيت سے پيش کرتا ہے۔ يعني جب خداوند عالم انسانيت اورمعنوي کمال کيلئے مثالي نمونہ پيش کرنا چاہتا ہے تو پيغمبروں، عظيم مردوں اورعلمي وديني شخصيات کا ذکر کرنے کے بجائے دو خواتين کو نمونے کے طور پر پيش کرتا ہے۔اُن ميں سے ايک ،زن فرعون ہے۔ ’’اِذ قَالَتْ رَبِّ ابنِ لِي عِندَکَ بَيتاًفِي الْجَنَّةِ
‘‘
، يعني وہ عورت جو اپنے شوہر کي طاغوتي اور سرکش قدرت سے لڑنے کيلئے ڈٹي رہي اور وہ عورت جو اپنے پورے استقلال کے ساتھ اپنے متجاوز، قدرت مند، فرعون نامي اور فرعون صفت شوہر کے سامنے ثابت قدمي سے رہي۔ عورت کي عظمت يہاں ہے کہ اس کا شوہر ضلالت وگمراہي کے راستے کواُس پرمسلط نہ کرسکے،خواہ وہ شوہر ، فرعون جيسا يا اس جيسي طاقت وقدرت کامالک ہي کيوں نہ ہو! لاکھوں مرد، فرعون کي قدرت وطاقت کے سامنے تسليم اور اس کے ارادے کے اسير وغلام ہيں ليکن خوداِس مرد کي بيوي ، خود اِس کے گھر ميں اِس کے ارادوں اورقدرت کي اسير نہيں ہے بلکہ آزاد ہے اوروہ خدا پر ايمان لاتي ہے ، فرعون (کے جاہ وحشم، مال و ثروت اور تخت و تاج اوراُس ) کے راستے کو خير آباد کہتي ہے اور اِس کے مقابلے ميں راہ خدا اورراہ حق کا انتخاب کرتي ہے۔ يہي وجہ ہے کے اُسے عظيم و شائستہ اورقابل ِ مثال انسان کي حيثيت سے ،نہ صرف خواتين سے بلکہ تمام بني نوع انسان سے منتخب کيا جاتا ہے۔
دوسري مثالي عورت، دختر حضرت عمران،مادر حضرت عيسي ، حضرت مريم ہيں۔ ’’مَريَمَ ابنَةَ عِمرَانَ
‘‘
۔مريم وہ جوان لڑکي ہے کہ جو اپنے شہر کے تمام مردوں کي تمہت اوربدترين اورکثيف ترين سوئ ظن کے مقابلے ميں مضبوط کوہ کي مانند جمي رہي اور خدا نے اپني قدرت کاملہ کے ذريعے کلمۃُ اللہ اورروح کو اُس کے پاکيزہ دامن ميں قرار ديا۔ وہ خدا کے نبي کي تربيت اپنے ذمہ ليتي ہے اور اپنے فرزند کو اُس زمانے کي تاريک دنيا کي نورانيت کا باعث بناتي ہے۔ يہ دو خواتين ہيں کہ جنہوں نے دنيا ميں نور افشاني کي ہے۔ يہ سب اس بات کي عکاسي کرتے ہيں کہ کہ اس امر ميں اسرار و رموز پوشيدہ ہيں کہ ان تمام انسانوں کي کثير تعداد ميں سے کہ جہاں اولين وآخرين کي خلائق جمع ہيں، جب خداوند عالم ، عالم بشريت سے دو انسانوں کو مثال اورنمونے کے طور پر انتخاب کرتااوراُنہيں متعارف کرانا چاہتا ہے تو صرف دو خواتين کو منتخب کرتا ہے، نہ کہ دو مردوں ياايک مردايک عورت کو بلکہ صرف اورصرف دو خواتين کو۔
پس اس پہلے ميدان يعني انسان روحاني ترقي اور معنوي کمال کے ميدان ميں ، مردو عورت ميں کوئي فرق نہيں ہے۔ عورت ،مرد کے مثل اورمرد، عورت کي مانند، دونوں قرب خدا اور روحانيت کے اعليٰ مدارج ومراتب تک رسائي حاصل کرسکتے ہيں۔ لہٰذا خداوند عالم قرآن ميں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اِنّ المُسلمِينَ والمُسلماتِ والمومِنينَ و المُومنِاتِ والقَانِتِينَ وَالقاَنِتاتِ والصّادِقِينَ والصَّادِقاتِ وَ الصَّابِرينَ والصَّابِراتِ والخَاشِعِينَ والخَاشَعَاتِ وَالمتَصَدِّقِينَ و المُتصَدِّقاتِ والصَّآئِمِينَ والصَّآئِمَاتِ وَالحَافِظِينَ فُرُوجَهُم وَالحَافِظَاتِ وَالذَّاکرِينَ اللّٰهَ کَثِيراً والذَّاکِراتِ
‘‘
۔ خداوند عالم نے (اسلام، ايمان، اطاعت ، صداقت،صبر، خشوع و فروتني،صدقہ دينے ، روزے داري، شرمگاہ کي حفاظت اور ذکر الٰہي جيسے اہم ترين معنوي امور ميں ) مرد وعورت کوايک دوسرے کے شانہ بشانہ لاکھڑا کيا ہے ۔ ’’اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُم مَغفِرَةً وَّ اَجراً عَظِيماً
‘‘
(خدا نے ان مردو خواتين کيلئے مغفرت اور اجر عظيم مہيا کر رکھا ہے)۔ يہ وہ پہلا ميدان ہے کہ جہاں مرد وعورت ميں کوئي تفاوت نہيں ہے۔
ب: اجتماعي فعاليت کا ميدان
دوسرا ميدان کہ جہاں خواتين اپنے وجود کو ثابت کرسکتي ہيں وہ اجتماعي فعاليت کاميدان ہے۔ خواہ وہ فعاليت اقتصادي ہو يا سياسي،يا خاص معنوں ميں اجتماعي فعاليت ہو يا تحصيل علم اور تحقيق وريسرچ ،تعليم و تدريس اورراہ خدا سميت زندگي کے تمام شعبوں ميں جدوجہد اورمحنت کرناہو ، ان تمام شعبہ ہائے زندگي ميں مختلف قسم کي فعاليت اورمحنت و جدوجہد کرنے ميں مر دو عورت ميں اسلام کي نگاہ ميں کوئي فرق نہيں ہے۔
اگر کوئي يہ کہے کہ مرد کو تحصيل علم کا حق ہے ، عورت کو نہيں، مرد تدريس کرسکتاہے، عورت نہيں؛ مرد اقتصادي و معاشي ميدان ميں آگے بڑھ سکتا ہے ، عورت کو اقتصاد ومعيشت سے کيا سروکار اور مرد سياسي فعاليت انجام دے سکتا ہے ، عورت کا سياست سے کيا کام؟تو نہ صرف يہ کہ اِس کہنے والے نے اسلام کي منطق کو بيان نہيں کيا بلکہ برخلاف اسلام، سخن اُس کے لبوںپر آئي ہے۔ اسلام کي نگاہ ميں انساني معاشرے اور زندگي کے تمام شعبوں سے مربوط فعاليت ميں مرد وعورت دونوںکو شرکت کي اجازت ہے اور دونوں اس امر ميں مشترک ہيں۔ہاں البتہ بعض ايسے کام ہيں جو خواتين کے کرنے کے نہيں ہيں چونکہ اُس کي جسماني ساخت اور اُس کي طبيعت و مزاج اورفطرت سے مطابقت نہيں رکھتے۔ بعض کام ايسے ہيں جنہيں انجام دينا مرد کے بس کي بات نہيں ہے چونکہ اُس کي جسماني، اخلاقي اور روحي صفات و عادات سے ميل نہيں کھاتے۔ اس موضوع کا اِس سے کوئي تعلق نہيں ہے کہ عورت اجتماعي فعاليت کے ميدان ميں سرگرم عمل ہوسکتي ہے يانہيں۔ کاموں کي تقسيم در حقيقت امکانات ،شوق اور اُس کام کے تقاضوں اور اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے کي گئي ہے۔ اگر عورت شوق رکھتي ہو تو وہ معاشرتي زندگي سے مربوط مختلف قسم کي اجتماعي فعاليت کو انجام دے سکتي ہے۔
اجتماعي فعاليت اورحجاب و حدود کي رعايت
البتہ ان فعاليت کي انجام دہي کيلئے کچھ اصول و قوانين کو معين کيا گياہے کہ يہ اصول و قوانين عورت اور اُسے فعاليت کي اجازت دينے سے مربوط نہيں ہيں بلکہ مرد وعورت کے باہمي اختلاط اور بے مہار ميل و جول اور رابطے سے مربوط ہے کہ جن کو اسلام بہت زيادہ خاص مسائل کي حيثيت سے ديکھتا ہے۔ اسلام يہ کہتا ہے کہ مرد و عورت کو چاہيے کہ وہ معاشرتي زندگي کے تمام پہلووں اورتمام مقامات ، شاہراہوں، اداروں ، کارخانوں وغيرہ ميں اپنے درميان ايک حد وفاصلے کے قائل ہوں اور اِسي ليے مرد و عورت کے درميان حجاب اور اسي سے مربوط حدود و قوانين کو وضع کيا گيا ہے۔ مرد و عورت کا باہمي اختلاط اورميل جول،مردوں کے آپس ميں يا خواتين کے آپس ميں ميل جو ل اوررابطے جيسا نہيں ہے لہٰذا ان تمام امور کا خيال رکھنا چاہيے، يعني مرد حضرات بھي ان قوانين اورحدود کا خيال رکھين اور خواتين بھي حجاب و حدود کي پابندي کريں۔ اگر مرد و عورت کے باہمي رابطے اور ميل جول کي روش ميں اسلامي احکامات و حساسيت کو مدنظر رکھا جائے تو اجتماعي فعاليت کے ميدان کے وہ تمام کام جو مرد انجام دے سکتے ہيں خواتين بھي اگر جسماني قدرت اور شوق کي مالک ہوں اورفرصت ووقت رکھتي ہوں ، وہ کام انجام دے سکتي ہيں۔
خواتين کو اعليٰ تعليم حاصل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ بعض لوگ اس فکر کے حامل ہيں کہ لڑکيوں کو تعليم حاصل نہيں کرني چاہيے، يہ بہت بڑي غلطي ہے۔ لڑکياں اُن تمام مضامين ميں تعليم حاصل کرسکتي ہيں جو اُن کيلئے سودمند اورمفيد ہيں اوراُنہيں شوق بھي ہے۔ انساني معاشرے کو تعليم يافتہ لڑکيوں اورخواتين کي ضرورت ہے جيسا کہ وہ تعليم يافتہ لڑکوں اور مرد حضرات کا نيا زمند ہے۔ البتہ تحصيل علم کے ماحول کو لڑکے اور لڑکي دونوں کيلئے صحيح و سالم اور پاکيزہ ہونا چاہيے۔ ملکي جامعات کو چاہيے کہ وہ قوم کے بچوں بچيوں کو حصول تعليم کيلئے امن و سکون کا ماحول فراہم کريں۔ کوچہ و بازار عزت و آبرو اور اخلاق کي حفاظت کے لحاظ سے قابل اطمئنان ہوں اور اس سلسلے ميں لڑکے اور لڑکي ميں کوئي فرق نہيں ہے۔ اگر يہ امن وسکون حاصل ہوجائے تو کوچہ و بازار، جامعات اوراسکول و کالج ميں بھي امن ہوگا اورافراد کو اخلاقي اورفکري سا لميت بھي حاصل ہوجائے گي۔ يہ اعلي عہديداروں اوروالدين کا کام ہے، تو ايسے ماحول ميں مسلمان لڑکے ، لڑکياں اور مرد وخواتين سب اپني فعاليت کو بطريق احسن انجام دے سکيں گے۔
معاشرتي زندگي ميں حجاب کے فوائد
اس قسم کے بے مہار ميل جول اور روابط و تعلقات کا سدباب کرنے اور اخلاقي حدود کي حفاظت کيلئے اسلام نے خواتين کيلئے حجاب کو معين کياہے۔ خود يہ حجاب خواتين کو ايک قسم کي حفاظت اور امن و سکون عطا کرتا ہے۔ ايک باحجاب مسلمان عورت نہ صرف يہ کہ امن و سکون کا احساس کرتي ہے بلکہ مسلمان مرد بھي (آنکھوں اور شہوت کے گناہوں وغيرہ کي دوري کي وجہ سے ) راحت و آرام پاتے ہيں۔جہاں بھي حجاب کو خواتين سے لے کر انہيں عرياني و فحاشي (اور بے پردگي) سے نزديک کيا جائے تو سب سے پہلے خود خواتين اور اِس کے بعد مردوں اور نوجوانوں سے (روحاني اور جسماني) آرام و سکون چھين ليا جائے گا۔ اسلام نے معاشرے کے ماحول کو پاکيزہ رکھنے اور (روحاني و جسماني) آرام وسکون کي حفاظت کيلئے حجاب کو واجب کيا ہے تاکہ خواتين معاشرے ميں باآساني اپنے امور کو انجام دے سکيں اور مرد اپني ذمہ داريوں اور فرائض سے عہدہ برآں ہوسکيں۔ يہ حجاب ، اسلام کے شاندار احکامات ميں سے ايک حکم ہے اور اس کا ايک فائدہ يہي ہے کہ جسے آپ کي خدمت ميں عرض کيا۔ اس کے دوسرے بہت سے فوائد بھي ہيں کہ جن کي جانب بعد ميں اشارہ کريں گے۔
معاشرتي زندگي ميں خواتين کي فعاليت کي اساسي شرط؛
عفت وپاکدامني کي حفاظت اورمردوں سے غير شرعي تعلقات سے دوري
پس اس دوسرے ميدان ميں کہ جو اجتماعي ،سياسي، علمي اور دوسري قسم کي فعاليت کا ميدان ہے،ايک مسلمان عورت کوايک مسلمان مرد کي طرح (آزادانہ فضا ميں )فعاليت کا حق حاصل ہے مگر زمانے کے تقاضوں کے ساتھ، يعني وہ معاشرتي زندگي ميں جس خلا اور جس ذمے داري کا اپنے دوش پر احساس کريں، اُنہيں انجام ديں۔ مثلاً ايک لڑکي چاہتي ہے کہ طب کے شعبے ميں قدم رکھے اور ڈاکٹر بنے ، يا اقتصاد کے ميدان ميں اپني ماہرانہ اورپيشہ وارانہ صلاحيتوں کو بروئے کار لائے يا ديگر علمي مضامين ميں فعاليت انجام دے ،يا جامعہ ميں تدريس کرے، يا سياسي ميدان ميں مردوں کا بوجھ ہلکا کرے ياصاحب قلم يا ايڈيٹر بن کر ادب و معاشرے کي خدمت کرے تو اُس کيلئے تمام راستے کھلے ہيں۔ مگر ايک شرط کے ساتھ! اور وہ يہ کہ وہ اپني عفت و پاکدامني کي حفاظت کرے اور مردو عورت کے درميان بے مہار ميل جول اور غير شرعي تعلقات سے کنارہ کشي اختيار کرے تو ايسے اسلامي معاشرے ميں مرد وعورت دونوں کيلئے راہ کھلي ہے۔ ہمارے اس مطلب پر گواہ،وہ تمام اسلامي آثار ہيں کہ جو اس سلسلے ميں ہمارے پاس موجود ہيں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اسلامي احکام و فرائض ہيں کہ جو مرد وعورت کو يکساں طور پر اجتماعي ذمے دارياں عطاکرتے ہيں۔ يہ جو حديث ميں فرمايا گيا ہے کہ’’مَن اَصبَحَ لاَ يَهتَمُّ بِاُمُورِ المُسلِمِينَ فَلَيسَ بِمُسلِمٍ‘‘
(جو اس حالت ميں صبح کرے کہ اُسے مسلمانوں کے حالات سے کوئي دلچسپي نہ ہوتو وہ مسلمان نہيں ہے) يہ حکم صرف مردوں کيلئے نہيں ہے بلکہ خواتين کو بھي چاہيے کہ مسلمانوں کے حالات ، دنيائے اسلام سميت پوري دنيا کے مسائل کي نسبت احساس ذمے داري کريں اور اُن پر توجہ ديں، چونکہ يہ ايک اسلامي وظيفہ ہے۔
سورئہ احزاب کي آيت نمبر ٣٥ کے مطابق خواہ اسلام ہو ياايمان کي مضبوطي ، خداوند متعال کي اطاعت گزاري ہو يا خشوع اورفروتني ، راہ خدا ميں صدقہ دينا ہو يا روزے داري، صبر و استقامت ہو يا عزت و ناموس کي حفاظت يا پھر ذکر الٰہي ، ان تمام فضيلتوں ميں مرد و عورت سب برابر ہيں (يعني ہر کوئي اپني سعي اور کوشش کے نتيجے ميں بلند سے بلند مقام حاصل کرسکتا ہے)۔ اگر خواتين اسلامي حدود و قوانين کا احترام کريں تو معاشرتي اور اجتماعي فعاليت اُن کيلئے مکمل طور پر مباح، جائز اور مطلوب ہے۔ خواتين اس شرط کے ساتھ معاشرے ميں اپنا بھرپور فعال کردار ادا کريں اور معاشرے ميں موجود اپني نصف طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کو خوشبخت بنائيں۔ جس وقت خواتين بھي معاشرے ميں مردوں کے شانہ بشانہ تحصيل علم ميں مشغول ہوں تو اس کے اجتماعي و انفرادي فوائد اس زمانے کي نسبت دُگنے ہوں گے کہ جب معاشرے ميں صرف مردوں کو تحصيل علم کا حق حاصل ہو۔ خواتين کي شعبہ تدريس سے وابستگي کے وقت معاشرے ميں معلمين کي تعداد اُس تعداد سے دو برابر ہوگي کہ جب صرف مرد تدريس کريں۔ ملکي تعمير و ترقي ، تعمير نو،اقتصادي ميدان ميں آگے قدم بڑھانے، منصوبہ بندي کرنے، ايک ملک، شہر، گاوں اور گھريلو اورشخصي امور ميں مطالعہ کرنے جيسے اہم امور ميں مرد و عورت ميں کوئي فرق نہيں ہے ، سب ذمے دار ہيں اور سب کو يہ کام انجام دينے چاہئيں۔
مسلمان بيٹيو! اور مومنہ خواتين ! يہ بھي آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ اہل يورپ جو اِس بات کا دعويٰ کرتے ہيں کہ يورپي معاشرے ميں عورت آزاد ہے تو اس کا کيا مطلب ہے؟يہي يورپي ہي تھے کہ جو نصف صدي قبل عورت کو اِس بات کي اجازت نہيں ديتے تھے کہ وہ اپنے ذاتي مال و ثروت ميں اپني مرضي کے مطابق تصرّف کرے! يعني ايک يورپي يا امريکي عورت ، پچاس ساٹھ سال قبل اگر لاکھوںروپے کي مالک بھي ہوتي تو اُسے يہ حق نہيں تھا کہ وہ اپني خوشي اور ارادے سے اُسے خرچ کرسکے۔وہ ہر صورت ميں اپنے مال و دولت کو اپنے شوہر ،باپ يا بھائي کے اختيار ميں دے ديتي اور وہ لوگ اپنے ميل اور ارادے سے اِس عورت کي دولت کو خود اُس کيلئے يا اپنے ليے خرچ کرتے تھے! ليکن اسلام ميں ايسا ہرگز نہيں ہے۔ اسلام ميں عورت اپني ثروت و دولت کي خود مالک ہے ، خواہ اُس کا شوہر راضي ہو يا نہ ہو، اِس ميں اس کے با پ کي مرضي شامل ہو يا نہ ہو، کوئي فرق نہيں ہے۔ اسلامي قوانين کي رُو سے عورت اپنے مال و دولت اور جمع پونچي کو استعمال ميں لائے اور اِس ميں وہ کسي کے اذن و ارادے کي محتاج نہيں ہے۔ خواتين کے اقتصادي استقلال و آزادي کي حمايت کرنے ميں دنيا، اسلام سے تيرہ صدياں عقب ہے۔ اسلام نے اس امر کو تيرہ صدي قبل بيان کيا ہے ليکن يورپ ميں ابھي چاليس پچاس سال اور بعض ديگر ممالک ميں اس مدت سے بھي کم عرصہ ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے معاشرے کي عورت کو اِس بات کي اجازت دي ہے کہ وہ اپنے ذاتي مال و ثروت ميں تصرف کرے! اسلام اس جہت سے بھي بہت آگے ہے۔
ج: گھريلو زندگي کا ميدان
خواتين کي فعاليت کا تيسرا اہم ترين ميدان ، اُن کي گھريلو اور خانداني زندگي ہے ۔ ہم نے معنوي کمال ميں عورت کے کردار پر روشني ڈالي ہے اور ہر قسم کي اجتماعي فعاليت کيلئے اسلامي احکامات کو بھي بيان کيا ہے ۔ ليکن اس تيسرے حصے ميں ہم گھريلو اور خانداني زندگي ميں عورت کے اہم کردار کو بيان کريں گے يعني ايک عورت، ايک بيوي اور ماں کے روپ ميں کيا کردار ادا کرسکتي ہے۔ يہاں اسلام کے احکامات اتنے زيادہ نوراني اور باعث فخر ہيں کہ انسان جب ان احکامات کا مشاہدہ کرتا ہے تو خوشي سے جھوم اٹھتا ہے۔
١۔ شوہر کا انتخاب
عورت ايک بيوي اورہمسر کي حيثيت سے مختلف مراحل زندگي ميں اسلام کي خاص لطف و عنايت کا مرکز ہے۔ سب سے پہلے مرحلے ميں انتخاب شوہر کا مسئلہ ہے۔ اسلام کي نظر ميں عورت، انتخاب شوہر کے مسئلے ميں بالکل آزاد ہے اور کسي کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ شوہر اور اس کے جيون ساتھي کے انتخاب ميں اُس پر کوئي چيز تھونپے يا اپني رائے مسلّط کرے۔ يہاں تک کہ اُس کے بھائيوں ،باپ يا اُس کے عزيز و اقارب اگر يہ چاہيں کہ اپني رائے يا مرضي و پسند کو اُس پر تھونپيں کہ تم صرف فلاں شخص سے ہي شادي کرو تو انہيں ہرگز يہ حق حاصل نہيں ہے۔يہ اسلام کي نظر ہے۔
لوگوں کے جاہلانہ آداب و رسوم اور ہيں اور اسلامي احکامات اور !
البتہ اسلامي معاشرے ميں تاريخي پيچ وخم کے نتيجے ميں جاہلانہ عادات ورسوم کاوجود رہا ہے۔ يہ جاہلانہ عادات ورسوم آج بھي بعض ممالک ميں موجود ہيں ،خود ہمارے ملک کے بعض شہروں ميں بھي موجود ہيں۔ فرض کيجئے ، جيسا کہ مجھے علم ہے کہ بعض قبائل ميں ہر لڑکي کے چچا زادبھائي کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ اِس لڑکي کي شادي کے بارے ميں اظہار رائے کرے! يہ کام غلط ہے، اسلام نے کسي کو ايسا کام کرنے کي ہرگز اجازت نہيں دي ہے۔ حقيقت سے بے خبر اور جاہل مسلمان جو بھي کام کريں اُسے اسلام کے کھاتے ميں نہيں ڈالنا چاہيے۔ يہ جاہلانہ عادات و رسوم ہيں۔ جاہل اور حقيقت سے بے خبر مسلمان، جاہلانہ آداب و رسوم کے مطابق بہت سے ايسے کام انجام ديتے ہيں کہ جن کا اسلام اور اُس کے نوراني احکامات سے دور دور تک کوئي تعلق نہيں ہے۔ اگر کوئي کسي لڑکي کو مجبورکرے کہ تم اپنے چچا زاد بھائي سے ہي شادي کرو تو اُس نے خلاف شريعت کام انجام ديا ہے ۔ اگر کوئي اِس لحاظ سے کہ وہ ايک لڑکي کا چچا زاد بھائي ہے اور (جاہلانہ عادات و رسوم کي بنا پر) اُس نے خود کو يہ حق ديا ہے کہ اُسے شادي کرنے سے منع کرے اور اُس سے کہے کہ چونکہ تم نے مجھ سے شادي نہيں کي پس ميں تم کو کسي اور سے شادي کرنے کي اجازت نہيں دوں گا۔لڑکي کا چچا زاد بھائي اور جو بھي اُس کي اس فعل ميں مدد کرے گا ، وہ خلاف شريعت اور حرام فعل کے مرتکب ہوئے ہيں۔ اس فعل کا حرام اور خلاف شريعت ہونا بہت ہي واضح ہے اورفقہائے اسلام اس بارے ميں متفق القول ہيں۔
اگرفرض کريں کہ ايک قبيلہ دوسرے قبيلہ سے اپنے اختلافات مثلاً خون ريزي کے مسئلے کو حل کرنے کيلئے اس طرح اقدامات کريں کہ يہ قبيلہ ايک لڑکي کو اس کي اجازت کے بغير اورمرضي کے خلاف دوسرے قبيلے کے حوالے کردے، يہ کام خلافِ شريعت ہے۔ البتہ ايک وقت خود لڑکي سے اجازت ليتے ہيں تو اس ميں کوئي قباحت نہيںہے۔وہ لڑکي ہے، لڑکے کو چاہتي ہے تو اس ميں کوئي عيب نہيں ہے کہ وہ دوسرے قبيلے کے ايک نوجوان سے شادي کرے کہ اس طرح دونوں قبيلوں کا اختلاف ختم ہوسکتا ہے،يہ بہت اچھي بات ہے ليکن اگر لڑکي کو اس کام کيلئے مجبور کيا جائے تو يہ کام شريعت کے سراسر خلاف ہے۔
بيوي پر شوہر کي اطاعت?!
آپ توجہ فرمايئے کہ اسلامي احکام نے شوہر کے انتخاب اور گھرانے کي تشکيل کي ابتدا ہي سے خواتين کي مدد کرنے کو مدنظر رکھا ہے۔ چونکہ بہت سے مرد، خواتين پر ظلم و ستم کرتے تھے تو اسي ليے اسلام اُن کے ظلم کے سامنے ڈٹ گيا ہے۔جب ايک گھرانہ تشکيل پاتا ہے تو اسلام کي نظر ميں گھر کے اندر مرد اور عورت دونوں زندگي ميں شريک ہيں اور دونوں کو چاہيے کہ آپس ميں محبت کا سلوک کريں۔ مرد کو يہ حق حاصل نہيں ہے کہ بيوي پر ظلم کرے اور بيوي کو بھي يہ حق حاصل نہيں وہ شوہر سے ناحق بات کہے۔ گھرانے اور خاندان ميں مرد وعورت کے رابطے اور تعلقات بہت ظريف ہيں۔ خداوند عالم نے مرد و عورت کي طبيعت ومزاج اور اسلامي معاشرے اور مرد وعورت کي مصلحت کومدنظر رکھتے ہوئے ان احکامات کو معين کيا ہے۔ شوہر ، صرف چند جگہ کہ ميں صرف ايک مقام کو صراحت سے بيان کرنے پر ہي اکتفائ کروں گا اور ديگر مقام کو يہاں بيان نہيں کروں گا، اپني بيوي کو حکم دينے کا حق رکھتا ہے اور بيوي پر لازم ہے کہ اُسے بجالائے ۔ وہ مقام کہ جسے ميں صراحت کے ساتھ بيان کروں گا يہ ہے کہ شوہر اپني بيوي کو اپني اجازت کے بغير گھر سے باہر جانے پر روک سکتا ہے۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ نکاح ميں اس بارے ميں کوئي شرط نہ رکھي گئي ہو۔ اگر نکاح ميں شرط نہيں لگائي گئي ہوتو مرد بيوي کو روک سکتا ہے۔ يہ احکام الٰہي کے پيچيدہ اسرار ورموزميں سے ايک راز ہے اور يہ حق صرف شوہر کو ديا گيا ہے۔ حتي باپ کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے۔ ايک باپ بھي اپني بيٹي کو اس بات کا پابند نہيں کرسکتا کہ اگر تم باہر جانا چاہو تو مجھ سے اجازت لو ۔ نہ باپ کو يہ حق حاصل ہے
اور نہ بھائي کو اپني بہن کيلئے يہ حق ديا گيا ہے ليکن شوہر اپني بيوي کيلئے اس حق کا مالک ہے۔ البتہ خواتين نکاح کے وقت کچھ شرائط کو نکاح ميں درج کرواسکتي ہيں اور ان شرائط پر مياں بيوي دونوںکو سختي سے عمل در آمد کرنا ہوگا۔بنابرايں، اگر کسي شرط کو نکاح کے ذيل ميں لکھيں تو يہ دوسري بحث ہے ليکن پہلے مرحلے ميں خداوند عالم نے شوہر کو اپني بيوي کي نسبت يہ حق عطا کيا ہے ۔ ايک دو اور ايسے مقامات ہيں کہ جہاں بيوي پر واجب ہے کہ وہ اِن ميں اپنے شوہر کي اطاعت کرے ( کہ في الحال اُن سے صرف نظر کرتا ہوں)۔
مستحکم گھرانے کيلئے مياں بيوي کي صفات و عادات سے استفادہ
يہ سب احکامات، مرد وعورت کي طبيعت و مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے صادر کيے گئے ہيں۔ مرد و عورت دونوں کے مزاج و فطرت کي اپني اپني خصوصيات ہيں۔ گھرانے کے اندر مردوں کے فرائض ،کاموں اور مردانہ حوصلے اور جذبے کي عورت سے ہرگز توقع نہيں کرني چاہيے اور اِسي طرح گھر کے ماحول ميں بيوي کي نسوانہ خصوصيات کي مرد سے اميد نہيں رکھني چاہيے۔ دونوں کي اپني اپني فطري اور روحي صفات و خصوصيات ہيںکہ عالم بشريت ، معاشرے اورمرد وعورت کے اجتماعي نظام کي مصلحت يہي ہے کہ گھرانے ميں دونوں کي خصوصيات وعادات کا اپنے اپنے مقام پر خاص خيال رکھا جائے۔ اگر ان کا خيال رکھا جائے تو شوہر بھي خوشبخت ہوگا اور بيوي بھي خوشحال رہے گي۔ ايسے ماحول ميں کسي کو کسي پر ظلم کرنے،زبردستي اپني بات منوانے اور دوسرے سے اپني خدمت کرانے کاکائي حق نہيں ہوگا۔ بعض مرد حضرات يہ خيال کرتے ہيں کہ يہ عورت کي ذمہ داري ہے کہ وہ اپنے سے مربوط تمام کاموں کو انجام دے۔ البتہ گھر کے ماحول ميں شوہر اور بيوي ايک دوسرے سے محبت کرتے ہيں اور وہ اپنے ذاتي شوق اورميل سے ايک دوسرے کے کاموں اور امور کو انجام ديتے ہيں ۔اپنے ميل و رغبت سے کسي کام کو انجام دينے کا اِس بات سے کوئي تعلق نہيں ہے کوئي (شوہر) يہ خيال کرے يا اِس طرح کا رويہ اختيار کرے کہ اُس کي بيوي کي يہ ذمہ داري ہے کہ وہ اپنے شوہر کي ايک نوکراني کي مانند خدمت کرے۔ اسلام ميں ايسي چيز کا کوئي وجود نہيں ہے!
٢۔ تربيت اولاد
گھر اورگھرانے ميں خواتين کے من جملہ فرائض ميں سے ايک فريضہ ،تربيت اولاد ہے۔ وہ خواتين جو گھر سے باہر اپني مصروفيات کي وجہ سے صاحب اولاد ہونے ميں پس و پيش سے کام ليتي ہيں تو وہ درحقيقت اپني زنانہ اور بشري طبيعت و مزاج کے خلاف اقدام کرتي ہيں۔ خداوند عالم اُن کے اس کام سے راضي نہيں ہے۔ وہ خواتين جو اپنے بچوں ،تربيت اولاد ،بچے کو دودھ پلانے اور اُسے اپني محبت بھري آغوش ميں پرورش کرنے کو اُن کاموں کيلئے کہ جن کا وجود اِن خواتين پر موقوف نہيں ہے،ترک کرديتي ہيں تو وہ غلطي کا شکار ہيں۔تربيت اولاد کي بہترين روش يہ ہے کہ وہ اپني ماں کي محبت و چاہت کے سائے ميں اپني ممتا کي آغوش ميں پرورش پائے۔ جو خواتين اپني اولاد کو خداکے عطا کيے ہوئے اس عطيّے سے محروم کرتي ہيں، وہ غلطي کا ارتکاب کررہي ہيں اور اس طرح انہوں نے نہ صرف يہ کہ اپني اولاد کے نقصان کيلئے اقدام کيا ہے بلکہ وہ اپنے اور اپنے معاشرے کيلئے بھي ضرر و زياں کا باعث بني ہيں۔ اسلام اس چيز کي ہرگز اجازت نہيں ديتا ہے۔ خواتين کے اہم ترين وظائف ميں ايک وظيفہ يہ بھي ہے کہ وہ اپني اولاد کو محبت و چاہت ،صحيح تربيت، اپنے دل کي پوري توجہ اور تربيت کے اصولوں پر توجہ ديتے ہوئے اِس طرح پرورش ديں کہ يہ انساني موجود خواہ بيٹا ہو يا بيٹي، جب بڑا ہو تو روحي لحاظ سے ايک سالم انسان اور نفسياتي الجھنوں سے دورہو اور ذلت وبدبختي اور ہلاکت ومصيبت کہ جس ميں آج مغرب ويورپ اور امريکي نوجوان نسل گرفتار ہے، کے بغير پرورش پائے۔
خانداني نظام زندگي کي اہميت سے رُوگرداني۔۔۔!
ميري عزيز بہنو! آپ مشاہدہ کيجئے کہ مغربي خواتين کے اپنے گھرانوں ، خاندانوں اور اولاد کو اہميت نہ دينے کي وجہ سے مغربي معاشرے کي نوبت يہاںتک آپہنچي ہے کہ امريکا اور يورپي ممالک ميں آج لاکھوں تباہ حال اوربُرے نوجوان ،دس بارہ سال کي عمر ميں اپني تباہي اوربربادي کا سامان کررہے ہيں۔حالانکہ يہ وہي ممالک ہيں کہ جہاں مادي تہذيب وتمدن اپنے عروج پر ہے،جن کے بڑے بڑے محل و قصر، بڑے اورترقي يافتہ ايٹمي پلانٹ، سو منزلہ سے زيادہ سر بفلک عمارتيں اور علمي اور ٹيکنالوجي ترقي اور پيش رفت ، زبان زدِخاص وعام ہے۔ ايسے ماحول ميں يہ نوجوان تباہ و برباد ہورہے ہيں، قاتل ہيں،اسمگلنگ ،منشيات، سگريٹ اور ديگر قسم کے نشوں ميں گرفتار ہيں۔ ان سب کي کيا وجہ ہے؟ وجہ يہ ہے کہ مغربي عورت گھر ،گھرانے اور خانداني نظام زندگي کي قدر وقيمت سے غافل ہے۔
گزشتہ زمانے ميں مغربي خواتين کي يہ حالت نہيں تھي۔ چاليس پچاس سال سے مغربي خواتين کي حالت خصوصاً امريکا اور بعض يورپي ممالک ميں روز بروز بدتر ہوتي چلي گئي ہے ۔ جس دن سے مغربي خواتين نے اِس غلط راہ پر قدم اٹھايا ہے وہ سوچ بھي نہيں سکتي تھيں کہ تيس، چاليس يا پچاس سال ميں اُن کا ملک ومعاشرہ اِس حالت سے دوچار ہوجائے گا کہ بارہ سالہ لڑکا ريوالور سے گولي چلائے، يا تيز خنجر اپني جيب ميں رکھ کر پھرے يا رات يا دن کے کسي حصے ميں نيويارک، لندن يا دوسرے مغربي شہروں کي سڑکوں کے گوشہ وکنار پر کسي کو قتل کرے اور بغير کسي چيز کاملاحظہ کيے ہوئے کسي کو موت کے گھاٹ اتار دے! يہ ہے اُن کي حالت زار! جب کسي معاشرے ميں خاندان اورگھرانے کا شيرازہ بکھر جائے تو اس کي يہي حالت ہوتي ہے۔
عورت ، گھرانے کي باني اور محافظ
حقيقت تو يہ ہے کہ يہ عورت ہي ہے جو ايک گھرانے اور خاندان کو وجود ميں لاتي ہے اور اُس کا دوام بھي اُسي کے وجود پربرکت سے وابستہ ہے۔ اِس بات کواچھي طرح ذہن نشين کرليجئے۔ ايک گھرانے کو تشکيل دينے والا بنيادي اوراساسي عنصر ، عورت ہے نہ کہ مرد۔ مرد کے بغير ممکن ہے کہ کوئي گھرانہ وجود رکھتا ہو۔ يعني فرض کيجئے کہ کوئي ايسا گھرانہ ہو کہ جہاں مرد موجود نہ ہو يا وہ انتقال کر گيا ہو اور گھر کي عورت اگر عاقل ،مدبر اورگھريلو ہو تو وہ اپنے گھرانے کو محفوظ رکھ سکتي ہے، بنابرايں ،يہ عورت ہي ہے جو نہ صرف يہ کہ گھرانے کو وجود ميں لانے کا باعث بنتي ہے بلکہ اس کي حفاظت بھي کرتي ہے۔
گھرانے اور خاندان ميں عورت کے کردار پر اسلام کي اتني اہميت دينے اور تاکيد کرنے کي وجہ يہي ہے کہ اگر عورت اپنے گھرانے اور خاندان سے مخلص ہو، اُس سے عشق و محبت کرے ، اپني اولاد کي تربيت پر اہميت دے،بچوں کي ديکھ بھال کرے، اُنہيں اپنا دودھ پلائے، اپني آغوش ميں پرورش دے، قرآني قصوں، اسلامي احکامات، سبق آموز کہانيوں اوراسلامي آداب وغيرہ کے ذريعے اُن کي ثقافتي ضرورتوں کو پورا کرے اورہر لمحے سے استفادہ کرتے ہوئے مادي غذاوں کي مانند انہيں اپنے بچوں کي روح کے ذائقے ميں ڈالے تو اُس معاشرے کي نسليں پختہ ، رشيد اور کامياب نسليں ہوں گي۔ يہ ہے عورت کا ہنر اور فن اور يہ امور اُس کے تحصيل علم ، تدريس ، ملازمت ،فعاليت اور سياست وغيرہ جيسے اہم ميدان ميں قدم رکھنے سے کوئي منافات نہيں رکھتا ہے۔
گھريلو اوراجتماعي فعاليت ميں توازن ضروري ہے
اسلام کے ابتدائي زمانے ميں خواتين ميدان جنگ ميں زخميوں کي مرہم پٹي کرنے کے علاوہ کہ يہ کام سب سے زيادہ خواتين کے ذمے تھا ،حتي نقاب کے ساتھ بھي اُس زمانے کي سخت اوردوبدو جنگ کے باوجود ، شمشير بھي چلاتي تھيں! اِسي کے ساتھ ساتھ گھر ميں اپنے بچوں کو اپني آغوش ميں ليتيں ،اُن کي اسلامي تربيت کرتيں اور ساتھ ہي اپنے حجاب کي پوري طرح حفاظت بھي کرتيں تھيں کيونکہ ان تمام امور ميں کوئي تصادم نہيں ہے۔
بعض لوگ افراط کا شکارہيں اور بعض لوگ تفريط کا! کچھ کہتے ہيں کہ چونکہ اجتماعي فعاليت ہميں اجازت نہيں ديتي ہے کہ ہم گھر، شوہر اور بچے داري کريں پس ہميں اجتماعي فعاليت سے دستبردار ہوجانا چاہيے۔ اِس کے برخلاف کچھ لوگ يہ کہتے ہيں کہ چونکہ گھر، شوہر اور بچے داري کے مسائل اور جھميلے ہمارا پيچھا نہيں چھوڑتے کہ ہم اجتماعي اورمعاشرتي امور ميں قدم رکھيں پس ہميں گھر بار کو خير آباد کہہ دينا چاہيے۔ يہ دونوں فکر غلط ہيں۔ نہ اِسے اُس کي خاطر اور نہ اُسے اِس کي وجہ سے چھوڑنا چاہيے۔
اسلامي انقلاب کي کاميابي ميں خواتين کا کردار
عائلي اور خانداني نظام زندگي ميں ايک مسلمان عورت اپنے گھرانے ميں بہت سے وظائف کي حامل ہے کہ جو گھرانے ميں اُس کے بنيادي رکن ہونے ، تربيت اولاد، ہدايت اور شوہر کي روحي تقويت کرنے عبارت ہیں۔ ايران ميں شاہي طاغوتي حکومت سے مقابلوں ميں بہت سے مرد ميدان ِ مبارزہ ميں نبرد ميں مصروف تھے ليکن اُن کي خواتين نے انہيں اجازت نہيں دي کہ وہ شاہي حکومت سے مقابلے کو جاري رکھيں ، کيونکہ ان ميں اِس بات کي قوت نہيں تھي کہ وہ مقابلے کي سختيوں کو تحمل کريں۔ اِس کے برخلاف بہت سي خواتين اس مبارزے کي راہ ميں استقامت اور ڈٹے رہنے پر نہ صرف يہ کہ اپنے شوہروں کي حوصلہ افزائي کرتيں تھيں بلکہ اُن کي مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کي ہمتوں کو بلند رکھنے کيلئے روحي طور پر اُن کي پشت پناہي بھي کرتيں تھيں۔سن ١٩٧٧ اور ١٩٧٨کے عوامي مظاہروں ميں جب ملک کے کوچہ و بازار سب عوام سے بھرے پڑے تھے تو خواتين اپنے شوہروں اور بچوں کو مظاہروں ،شاہي حکومت سے مبارزے و مقابلے کرنے اور عوامي رضا کار فوجي (بسيج) کو فعال بنانے ميں اہم اور کليدي کردار کي حامل تھيں۔
انقلاب اور آٹھ سالہ تھونپي گئي جنگ کے دوران ہماري ماوں نے اپنے بيٹوں کو راہ اسلام ميں سر بہ کف مجاہدوں اور دليروں ميں جبکہ بيويوں نے اپنے شوہروں کو صاحب ِ استقامت اور مضبوط انسان ميں تبديل کرديا تھا۔ يہ ہے اولاد اور شوہر کيلئے بيوي کا کردار اور اس کے عمل کي تاثير۔ يہ وہ کردار ہے کہ جسے ايک عورت اپنے گھر ميں ادا کرسکتي ہے اوريہ اُس کے بنيادي کاموں ميں سے ايک کام ہے اور ميري نظر ميں عورت کا يہ کام اُس کے سب سے زيادہ اہم ترين کاموں ميں شامل ہے۔ اولاد کي صحيح تربيت اور زندگي کے بڑے بڑے ميدانوں اورامتحانوں ميں قدم رکھنے کيلئے شوہر کي روحي طور پر مدد کرنا ايک عورت کے اہم ترين کاموں ميں شامل ہے ۔ ہم خدا کے شکر گزار ہيں کہ ہماري مسلمان ايراني خواتين نے اس ميدان ميں بھي سب سے زيادہ خدمات انجام ديں ہيں۔
البتہ ايران کي شجاع، ہوشيار، استقامت اور صبر کرنے والي خواتين نے انقلاب اور جنگ کے زمانے ميں ، خواہ محاذ جنگ پر ہوں يا محاذ جنگ کے پيچھے يا پھر گھر کي چار ديواري کے اندر بالعموم تمام ميدانوں ميں بہت فعال کردار ادا کيا ہے اور آج بھي سياست ، ثقافت اورانقلاب کے ميدانوں ميں بھي عالمي دشمنوں کے مقابلے ميں اپنا بھرپور کردار ادا کررہي ہيں۔
وہ افراد جوہمارے وطن اور اسلامي جمہوريہ کے نظام کا تجزيہ و تحليل کرنا چاہتے ہيں جب اِن مصمّم ارادوں، اس آگاہي اورشعوروشوق کا مشاہدہ کريں گے تو ايراني قوم اور اسلامي جمہوريہ کے نظام کے مقابلے ميں ستائش و تعظيم کا احساس کريں گے۔
____________________