چوتھي فصل
حقوق نسواں کے دفاع کيلئے تين بنيادي نکات
اس مسئلے ميں ميري نظر ميں جو چيز اہميت کے قابل ہے وہ دو تين نکات ہيں اور ميري آپ سے توقع اور خواہش يہ ہے کہ ان نکات پر پوري توجہ ديں۔
١۔عورت کوعورت اور مرد کو مرد رہنے ديے
پہلي بات
اولاً حقوق نسواں کا مسئلہ کوئي ايسامسئلہ نہيں ہے جو صرف اسلامي جمہوريہ ايران سے ہي مخصوص ہويا ہم يہ خيال کريں کہ اس مسئلے ميں صرف ہم ہي ہيں جو اپنے معاشرے سے لڑرہے ہيں،نہيں! يہ ايک تاريخي جنگ ہے يعني پوري تاريخ ميں واضح دلائل کي روشني ميں عورت ہميشہ مرد کے ظلم و ستم کا نشانہ بني ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت يہ ہے کہ عورت جسماني لحاظ سے مرد سے کمزور ہے اور يہ بہت واضح و روشن امر ہے۔
مرد کي آواز عورت سے زيادہ بھاري، قدوقامت کے لحاظ سے وہ بلند و بڑا اورجسماني ساخت کے لحاظ سے بڑے جثے و ہيکل کا مالک ہے۔ مردانہ تخليق کي خصوصايت ميں تسلط، برتري اور فعال ہونا شامل ہے جبکہ عورت کي تخليقي خصوصيات ميں اس کي نرمي، لطافت،ملائم ہونا اورجذب کرنا شامل ہے۔
دوسري بات
اگر آپ عورت کے بارے يں اسلامي تعبيرات کوملاحظہ کريں تو آپ ديکھيں گے کہ عورت کے بارے ميں حقيقي اور واقعي تعبيرات موجود ہيں ۔ ’’اَلمَرآَةُ رَيحَانَه ولَيسَت بِقَهرَمَانَةٍ
‘‘
عورت پھول ہے ،ريحانہ يعني پھول، انسان پھول کے ساتھ کيساسلوک کرتا ہے؟ پھول کے نرم وجود کے مقابلے ميں انسان کيا طرز عمل اپناتا ہے؟ اگر پھول سے کُشتي لڑي جائے تو پھول کي پتياں الگ الگ ہوکر بکھر جائيں گے اور پھول کا پورا وجود ہي ختم اور نابود ہوجائے گا۔ اگر پھول کو پھول سمجھيں اور اُس سے پھول جيسا برتاو کريں تو يہ زينت کا باعث بنے گا اور خود پھول کا وجود ايک اہميت وخاصيت کو پائے گا۔
’’ولَيسَت بِقهرمَانَةٍ
‘‘ وہ قہرمان نہيں ہے، قہرمان کا مطلب پہلوان نہيں ، يہ ايک عربي تعبير ہے جو فارسي زبان سے لي گئي ہے ،قہرمان يعني خود کسي کام کو مستقيماً انجام دينے والا، انچارج يا ٹھيکے دار جو اپني نگراني ميں مختلف کام انجام ديتا ہے،يعني عورت کو اپنے گھر ميں کاموں کو انجام دينے والا انچارج نہ سمجھيں۔يہ خيال نہ کريں کہ آپ گھر کے مالک اور مطلق العنان سربراہ ہيں اورگھر کے کام کاج اور بچوں کي تربيت وغيرہ جيسے اہم بڑے چھوٹے کام ايک انچارج کے پاس ہيں اور گھر کي انچارج آپ کي بيوي ہے لہٰذا اس سے ايسا سلوک روا رکھا جائے جو ايک سربراہ اپنے ماتحت افراد سے رکھتا ہے !يہ مسئلہ ايسا نہيں ہے۔
تيسري بات
آپ ملاحظہ کيجئے کہ مرد کا يہ برتاو اور سلوک، ايک حقيقي برتاو ہے اور براہ راست عورت کي طبيعت ومزاج سے مخاطب ہے۔ عورت تو اپني طبيعت ومزاج کو فراموش نہيں کرسکتي اورمصلحت بھي نہيں ہے کہ وہ اسے فراموش کرے۔ وجہ يہ ہے کہ ايک کامل خانداني نظام زندگي ميں عورت کي يہ طبيعت ومزاج بہت موثر ہے اور يہ لازمي بھي ہے۔ وگرنہ اگر اِس جنس (عورت) کو خواہ حقيقي و واقعي طور پريا خصوصيات و عادات کے لحاظ سے ايک دوسري جنس ميں تبديل کرديں
تو گويا ہم نے اُس کے کمال کو کم کرديا ہے، کيا حقيقت اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟
ہميں چاہيے کہ عورت کوعورت اور مرد کو مرد ہي رہنے ديں تاکہ نظام ہستي کا کاروبار اپني خوبصورتي کے ساتھ اپنے کمال کو پہنچے ۔ اگر ہم نے مرد کو اس کي تمام خصوصيات ، عادات و صفات ،مردانہ مزاج اور اُس کے تمام وظائف کے ساتھ عورت ميں تبديل کيا يا عورت کو مرد ميں تبديل کيا تو يہ بہت بڑي غلطي ہوگي۔
’’فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلقَ اللّٰهِ
‘‘
قرآن ميں ذکر کي گئي تخليق خدا کي تبديلي يہي ہے۔ اگر ايسا کيا توہم نے عالم ہستي کے کامل ترين نظام کو تباہ و برباد کرديا کہ جس ميں ايک جنس اِن خصوصيات اورعادات وصفات کے ساتھ اور دوسري جنس اِن خُلقيات اور خاص طبيعت ومزاج کے ساتھ ہے تاکہ دونوں ايک دوسرے کو مکمل وجود بناسکيں۔
چوتھي بات
اس تمام گفتگو سے ميري غرض يہ تھي کہ تاريخ ميں جہالت کي وجہ سے عالم خلقت کے ان دونوں وجود، مرد وعورت کي اپني اپني خاص صفات ، عادات اورطبيعت کو خوداُس کے خاص تناظر ميں ديکھا نہيں گيا ہے لہٰذا مرد نے اپنے طاقت وقدرت کے بل بوتے ہميشہ ظلم و ستم کيا ہے اور عور ت اُن کے تاريخي ظلم کي ايک منہ بولتي تصوير ہے۔ کيا آپ نے توجہ اور غور کيا؟! يہ مسئلہ دراصل ايک تاريخي ظلم وستم سے مقابلہ ہے لہٰذا اگر ہم نے اس مقابلے ميں عجلت ، سطحي نگاہ ، تدبُّر وتعمق کے بغير اور اس چيز کو مدنظر رکھے بغير کہ ہميں کيا کرنا چاہيے ،کام کيا تو ہمارا يہ اقدام کاميابي کو کئي سالوں عقب دھکيل دے گا، بنابرايں،بہت پختگي اور سنجيدگي کے ساتھ مگر مسلسل کام کرنے کي ضرورت ہے۔
٢۔ اسلامي ثقافت، شرعي احکامات اوررضائے الٰہي پر توجہ
مغربي ثقافت کا ظاہري مثبت نکتہ
دوسرا نکتہ يہ ہے کہ اگر آج ہم دنيا کو دو حصوں ميں تقسيم کريں ،ايک حصہ مغربي ثقافت سے متلعق ہے جبکہ دوسراحصّہ ديگر مختلف ثقافتوں سے،توہم يہ کہہ سکتے ہيں مغربي ثقافت والي نصف دنيا ميں عورت پر نسبتاً زيادہ ظلم ہوا ہے۔ مختلف حوالوں، ذرائع ابلاغ اورموثق ذرائع سے ملنے والي خبروں، حادثات وواقعات،اعدادوشمار، رپورٹوں اورتجزيہ وتحليل کے ذريعے ميں يہ دعويٰ کرسکتا ہوں۔
توجہ فرمائيے کہ مغرب ميں ايک ايسا مسئلہ ہے کہ جو آنکھوں کو خيرہ کرتا ہے اور وہ يہ ہے کہ اس معاشرے ميں مرد و عورت کے درميان اُن کے اجتماعي معاملات، کردار اوربرتاو ميں کوئي فرق نہيں رکھا گيا ہے۔ يعني جس طرح ايک جلسے يا محفل ميں ايک مرد داخل ہوتا ہے ، سلام عليک اوراحوال پرسي کرتے ہوئے اس محفل کا يک جز بن جاتا ہے، اسي طرح ايک عورت بھي آتي ہے اور اس محفل کا حصہ بن جاتي ہے۔ چنانچہ اُ س معاشرے ميں اِس جہت سے مرد وعورت کے کردار وعمل ميں کسي قسم کا کوئي فرق اور طبقاتي يا انساني جنس کے لحاظ سے کوئي فاصلہ موجود نہيں ہے۔ آپ نے توجہ فرمائي ! مغربي معاشرے کے اس اجتماعي سلوک اور عمل نے دنيا والوں کي آنکھوں کو خيرہ کرديا ہے۔
انسان جب اس ظاہري حالت کو ديکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ يہ تو ايک وضعِ مطلوب ہے اور سب اس وضع وحالت سے خوش ہيں ۔ حتي وہ افراد جو اپنے منطقي دلائل کي وجہ سے اس اجتماعي رفتار وسلوک کے مخالف ہيں جب اسے ديکھتے ہيں تو يہ کہتے ہيں کہ يہ کوئي اتني بري چيز نہيں ہے ! وہ ايک معاشرتي نظام ميں مرد و عورت کو دواجنبيوں کي طرح نہيں ديکھتے ہيں بلکہ ان پر بہن بھائي کي حيثيت سے نگاہ ڈالتے ہيں کہ دونوں جب ايک گھر ميں داخل ہوتے ہيں تو ايک دوسرے کو سلام کرتے ہيں،ايک دوسرے کي مزاج پرسي کرتے ہيں اور ساتھ زندگي گزارتے ہيں! مغرب ميں مردو عورت اس طرح آپس ميں زندگي بسر کرتے ہيں۔
اس ظاہري مثبت نکتے کے پس پردہ منفي نکات
يہ ايک مثبت نکتہ ہے ليکن بہت سطحي اورظاہري، ليکن اسي ظاہري نکتے کے پس پردہ بہت سے منفي نکات پوشيدہ ہيں ۔ سب سے پہلي بات يہ کہ گھر کي چار ديواري ميں بالکل ايسا نہيں ہے ۔ يہ کوئي منبري گفتگونہيں ہے جو چند سامعين کوخوش کرنے يا کوئي نعرہ نہيں ہے جو چند افرا دکو جمع کرنے کيلئے لگايا جائے بلکہ يہ سب حقيقت اور سچي خبريں ہيں اور ان کے ديئے ہوئے اعداد وشمار سے اخذ شدہ ہيں۔ گھروں ميں خواتين پر ظلم و ستم ہوتا ہے حتي اس خاتون پر بھي جو اپنے ملازم شوہر کي مانند ملازمت کرتي ہے اور دن ميں دو گھنٹے کي چھٹي ميں جب گھر آتي ہے تو اس پر ظلم
ہوتا ہے !
کيسے ظلم ہوتا ہے ؟ اس ليے کہ يہ دو انسان ہيں،ايک مردہے اور ايک عورت۔ اگر يہ صورتحال ايک تصوراتي اور آئيڈيل صورتحال ہوتي يعني يہ دو انسان ہيں،دونوںملازمت کرتے ہيں، رات کو تھکے ہارے آتے ہيں اور سو جاتے ہيں ، صبح اٹھتے ہيں اوردوبارہ اپنے اپنے کاموں پر چلے جاتے ہيں ۔حالانکہ يہ دونوں مرد نہيں ہيں، ان ميں سے ايک مرد ہے اور ايک عورت۔مرد وعورت ميں سے ہر ايک کو الگ الگ چيز کي ضرورت ہوتي ہے۔ايسے ماحول ميں مرد پربھي ظلم و ستم ہوتا ہے۔ ليکن چونکہ مرد، عورت کي بہ نسبت مضبوط و قوي ہوتا ہے لہٰذا ہم اُس کے ظلم کو يہاں بيان نہيں کرنا چاہتے ہيں۔ جس پر يقيني صورت ميں ظلم ہوتا ہے وہ عورت ہے ،اس ليے کہ وہ مرد جو اس عورت کو شوہر ہے ،اور بہت خواتين سے جنسي اور عاشقانہ تعلقات رکھتا ہے۔ اس کے يہ ناجائز تعلقات اورروابط مکمل طورپر سچے اور وفادار مياں بيوں کي مانند محبت سے لبريز ہوتے ہيں حالانکہ وہ اپنے اہل وعيال سے بھي ايسے تعلقات نہيں رکھتا ہے!
يہ ايک عورت پر بہت کاري ضرب اور بہت بڑ احملہ ہے ۔ايک بيوي کي خواہش ہوتي ہے کہ وہ اپنے جيون ساتھي سے محبت آميز، صاف شفاف اور نزديکي ترين تعلقات رکھتي ہو اوريہ دونوں پوري دنيا سے زيادہ ايک دوسرے کے قريب ہوں۔ لہٰذا ايسے گھرانے ميں سب سے پہلي چيز جو عورت سے چھيني جاتي ہے ، يہي ہے! اب آپ فرض کيجئے کہ کوئي ايسا شوہر ہو کہ جو کبھي اپني بيوي سے رحم کا سلوک بھي کرے اور کبھي ظلم بھي کرے ليکن پھر بھي اُس کے ساتھ گہرا دوستانہ و عاشقانہ اوربقول معروف ’’جانم، سوئٹي يا ہني‘‘ کا رابطہ رکھتا ہو۔ توکيا يہ رابطہ اورتعلقات بہترہيں يا نہيں ؟ يعني دو دوستوں کي مانند يہ دونوں گھر ميں داخل ہوں ، ايک دوسرے کو سلام کريں، احوال پرسري کريں،ميز پر بيٹھ کر ايک ساتھ چائے پئيں اوراسکے بعد يہ اپني راہ لے اور وہ اپني راہ! مسلّم ہے کہ يہ بھي پہلي صورتحال سے بہتر نہيں ہے۔
آپ ايک عورت کي حيثيت سے اس فيصلے کيلئے اپنے وجدان کي طرف رجوع کيجئے کہ کياآپ اس دوسري صورت حال کو پہلي کي بہ نسبت زيادہ پسند کرتي ہيں؟ يہ شوہر قابل تحسين ہے يا پہلا شوہر ؟ميں گمان بھي نہيں کرسکتا کہ کوئي ايسي عورت موجود ہو کہ جو اس دوسرے شوہر کو پہلے والے شوہر پر ترجيح دے۔يعني وہ بيوي (پہلے والے سخت گير) شوہر کي سخت مزاجي کے نتيجے ميں پيدا ہونے والي تلخي کو اس (دوسرے شوہر) سے اس کي حقيقي محبت و چاہت اور اس بات کے مقابلے ميں کہ اُس کا شوہر اس کے سوائے کسي اور عورت کا عاشق ودلداہ اور کسي اور سے جنسي تعلقات رکھنے والا نہيں ہے، قبول کرليتي ہے۔ آپ نے توجہ فرمائي ! يہ ہے وہ پہلا ستم جو مغربي عورت پر ہوتا ہے۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ وہاں تمام گھرانے ايسے ہيں ليکن معمولاً صورتحال يہي ہے اور دوسري جانب عورت پرہونے والا جسماني ظلم اور اذيت وآزار دوسري طرف!
ميں نے دو سال قبل (١٩٩٥) ايک امريکي جريدے ميں گھروں ميں ہونے والے مردوں کے ظلم و ستم کے اعداد وشمار کا مطالعہ کيا تھا،وہ اعداد و شمار واقعاً بہت وحشتناک تھے۔ البتہ آپ کو معلوم ہے کہ امريکي بعض جہات سے مثلاً کُھلے ٹُلے ہونے ميں قديم يورپي ممالک سے بہتر ہيں اور انگلستان، فرانس اورديگر يورپي ممالک کے مقابلے ميں زيادہ کھلے ہيں۔
يہي کھلي حالت جو مغربي ثقافت ميں مشاہدہ کي جاتي ہے، امريکا ميں يورپي ممالک سے زيادہ ہے، ليکن اس کے ساتھ ساتھ امريکا ميں ايک گھريلو عورت پرظلم و ستم ،زدوکوب اوراہانت تحقير دوسرے مغربي ممالک سے بھي زيادہ ہے۔ ان اعداد و شمار ميں ميں نے خود ديکھا ہے ، وہ لکھتے ہيں کہ يہ اُن لوگوں کے اعداد وشمار ہيں جنہوں نے جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آکر شکايت درج کرائي ہے جبکہ شکايت درج نہ کرانے والوں کي ايک کثير تعداد موجود ہے۔
ہم کيا کريں؟
پس آپ ديکھئے کہ يہ وہ پہلا ظلم ہے جو وہاں کي خواتين پر ہوتا ہے اور کوئي اُس کي طرف متوجہ نہيں ہے۔ اب ايسي حالت ميں ہم آئيں اوراپنے شعاروں اورنعروں ميں ايسي چيزوں کو بيان کريں کہ جو مغربي ثقافت خواتين کے حقوق کے دفاع يا خود خواتين سے برتاو کے عنوان سے بيان کرتي ہے اور انہيں شعار اور نعروںکي حيثيت سے متعارف کراتي ہے! کيا يہ مصلحت ہے؟ ان تمام چيزوں کو آئيڈيل بناکر انہيں مسلمان معاشرے کے سامنے پيش کرنا اور اُن پر عمل کرنا ہمارے ليے کہيں سے بھي سودمند نہيں ہے۔
اگر آپ اسلام کي نظر کو حقيقي اور گہري صورت ميں سمجھيں نہ کہ سطحي نظر کہ جو اکثراوقات غير حقيقي مطالب اور خيالات کامجموعہ ہوتي ہے، اور عورت کے بارے ميں اسلامي نظر کا لبّ لباب سمجھا اورنکالا جائے تو يہ امر سزوار ہے کہ جس کيلئے حقيقتاً جدوجہد کي جائے اور شعاربلند کيے جائيں۔ميري خواہش ہے کہ آپ جو شعاراور نعرے لگاتے ہيں ان ميں ان چيزوں کے نہ لے کر آئيں (جو مغربي ثقافت کا حصہ ہيں)اور مغربي ثقافت کي طرف جھکاو کو حقوق نسواں کيلئے اپنے مقابلے کا ہدف قرارنہ ديں۔اس ليے کہ اولاً مغربي ثقافت ايک ناکام ثقافت ہے اور لوگ بھي يہ باتيں سننے کيلئے تيار نہيں ہيں اور بہت سے افراد ان باتوں کو قبول بھي نہيں کرتے ہيں۔ معاشرے ميں بہت سے صاحب نظر اور ديگر افراد ہيں کہ جو ممکن ہے کہ ان باتوں کو قبول نہ کرتے ہوں تو يہ افراد مقابل ميں آکھڑے ہوں گے کيونکہ يہ لوگ بھي حقوق نسواں کا دفاع کرنے کے خواہش مند ہيں۔
ثانياً بجائے اس کے کہ سب ہاتھوں ميں ہاتھ ديں اورماضي ميں ضائع شدہ ايک حق کے اثبات کيلئے جدوجہدکريں، آپس ميں مقابلہ آرائي شروع کرديں گے! يوں يہ غلط سلسلہ چل نکلے گا اور يہ اونٹ کسي کروٹ نہيں بيٹھے گا۔ ثالثاً اس طرزعمل کو اپنانے ميں مصلحت نہيں ہے اور نہ ہي خداوند عالم اس سے راضي ہے ۔ انسان کو ايسا کام انجام دينا چاہے کہ اُس کا خدا اُس سے راضي ہو۔
رضائے الٰہي کيلئے کام کيجئے
حقوق نسواں کے اس دفاع، اس حکومت اور اس فعاليت سے ہمارا ہدف رضائے الٰہي کا حصول ہے۔ اگر ہمارا خدا ہم سے راضي نہ ہو توہميں اُن تمام چيزوں اوردنياوي طور پر اپنے کامياب ترين نتائج ميں سے کوئي ايک بھي نہيں چاہيے! انسان صرف اپنے خدا کو راضي وخوشنود کرے۔ ہم يہاں صرف چار دن کي زندگي بسر کررہے ہيں اور صرف کچھ دنوں کيلئے ہمارے بدن اور سانس کے درميان رشتہ قائم ہے ،اس کے بعد ہم ايسي جگہ پہنچيں گے کہ جہاں ازاول تاآخر صرف اور صرف رضائے الٰہي ہي انسان کے کام آتي ہے ۔ لہٰذا انسان کو اپنے رب کي خوشنودي کے حصول کيلئے اقدام کرنا چاہيے۔
آپ اسے اپنا ہدف ومقصد بنائيے، اپنے کاموں اورجدوجہد ميں قصد قربت کيجئے اورخدا کيلئے کام کيجئے تو خدا بھي آپ کي مدد کرے گا۔
بيماري کي تشخيص کيلئے حقيقت کو مدنظر رکھنا ضروري ہے!
مجھے ايک خط ملا جو خاص طور پر ميرے نام تھا۔ميں نے اُسے ملک کي خواتين کي ايک فعال اوراچھي انجمن کو بھيجا تاکہ وہ اس خط ميں موجود مسائل کے بارے ميں تحقيق کريں۔ وہ خط بہت طولاني مگر شيريں اور خوبصورت تھا ليکن ميري نگاہوں ميں اس خط ميں موجود معلومات صحيح نہيں تھيں۔ اس ميں بہت زيادہ شکوہ و شکايات کي گئي تھيں اور جو کچھ ہمارے معاشرے ميں نہيں ہے، اُسے خواتين سے نسبت ديا گيا تھا۔ صرف اس خيال سے کہ يہ سب باتيں اسلام سے مربوط ہيں ليکن درحقيقت ايسا نہيں تھا ميري نظر ميں بيماري کي تشخيص کيلئے انسان کو حقيقت بين ہونا چاہيے۔
اسلامي احکامات کي حکمت
توجہ فرمائيے کہ اسلام نے مرد و عورت کے درميان حجاب کو قرار ديا ہے اور اس حقيقت کا انکار نہيں کيا جاسکتا ہے کہ يہ حجاب بھي کسي مصلحت وحکمت کے مطابق ہے کہ حجاب کي صحيح ترين شکل يہي ہے۔ يہ جو کہتے ہيں کہ جب مرد وعورت تنہا ايک کمرے ميں ہوں کہ جہاں دروازہ بند ہو اور پردہ پڑا ہو تو وہاں ان دونوں کا ايک ساتھ موجود ہونا حرام ہے۔ اس حکم کے پيچھے ايک حکيمانہ اور عميق نظر ہے اور وہ صحيح بھي ہے ۔ معاشرے کے افراد، مرد يا عورت ہونے کي بنا پر جب اپنے باطن کي طرف رجوع کريں گے تو اس بات کي تصديق کريں گے کہ يہ حکم صحيح ہے، کوئي اس کا انکار نہيں کرسکتا کہ يہ کہے کہ يہ حکم غلط ہے ۔
اسي طرح يہ جو کہا گيا ہے کہ عورت زينت و آرائش کرکے مردوں کے سامنے نہ آئے، يہ حکم بھي بالکل صحيح ہے ۔ مغربي ثقافت بالکل اس کے برعکس ہے۔ مغربي ثقافت اپنے معاشرے کي عورت سے يہ کہتي ہے تم اچھي طرح ميک اپ کرو، زينت و آرائش کرو! يہ ہے مغربي ثقافت، ميک اپ کي انواع و اقسام کي چيزيں ايک خوبصورتي نہ رکھنے والي عورت کو بھي مختلف قسم کے ميک اپ کيلئے اس لئے دي جاتي ہيں کہ وہ جب مرد کے سامنے جائے تو مرد اسے خوبصورتي و زيبائي ميں ديکھے اور اس کي طرف مائل ہو! جبکہ حقيقت يہ ہے کہ ايسے ميک اپ کي مصنوعي خوبصورتي کے نتيجے ميں پيدا ہونے والا ميل و رغبت چند لمحوں سے زيادہ قائم نہيں رہتاہے۔ يعني جب يہ مرد اس عورت کے پاس آئے گا تو وہ خود ديکھے گا کہ يہ خوبصورتي حقيقي نہيں ہے ليکن مقصد يہ ہے کہ جيسے ہي اس پر نگاہ ڈالے تو اس کي تعريف کرے ! يہ چيز مغربي ثقافت ميں ايک امر مطلوب کي حيثيت رکھتي ہے۔
حکمت اوردوسرے کلام ميں فرق
ليکن اسلامي ثقافت ميں شوہر کے علاوہ زينت وآرائش ايک امر مذموم ہے ۔لہٰذا اس کو اچھي طرح سمجھنا چاہيے اور اس ميں حکمت پوشيدہ ہے ۔ ’’ذَا لِکَ مِمَّا اَوحَيٰ اِلَيکَ رَبُّکَ مِنَ الحِکمَةِ
‘‘
( يہ وہ چيز ہے کہ جسے تمہارے رب نے تمہاري طرف حکمت کے ساتھ وحي کيا ہے)۔ آپ قرآن ميں ملاحظہ کريں کہ خداوند عالم نے پيغمبر وں سے خطاب ميں بہت جگہ حکمت کو مکرر بيان کيا ہے۔ مثلاً حضرت لقمان کے بارے ميں چند مطلب کو ذکر کرتا ہے۔ ’’وَلَا تَمشِ فِي الاَرضِ مَرَحًا
‘‘
( زمين پر اکڑکر مت چلو)۔ يہ وہ بيانات ہيں کہ جو حضرت لقمان اپنے بيٹے کوبطور نصيحت فرماتے ہيں۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ’’ذالِک مِمَّا اَوحيٰ اِلَيکَ ربُّک مِنَ الحِکمَةِ
‘‘
۔ حکمت کي خصوصيت يہ ہے کہ جب آپ اسکے لب و لہجے پر نگاہ ڈاليں گے تو آپ کو يہ بہت سادي اورمعمولي بات نظر آئے گي ليکن جب آپ اس ميں غوروخوص کريں گے تو اس کي گہرائي کو نہيں پاسکيںگے کہ وہ کتني عميق ہے؟ يہ ہے حکمت کي خاصيت ! توجہ فرمائيے۔
حکمت اورہمارے اپنے بنائے ہوئے فلسفوں ، اہل عقل و منطق اوراُن کے استدلال کے درميان بنيادي فرق يہ ہے کہ ہم کلمات کے ظاہر کو خوبصورت بناتے ہيں کہ جب انسان اس پر نگاہ ڈالتا ہے تو اسے ايک اوقيانوس کي مانند پاتا ہے ليکن جب اُس کي گہرائي کو ديکھتا ہے تو گہرائي کو دو ملي ميٹر پاتا ہے ! ظاہر ميں ايک اوقيانوس ہے ليکن باطن ميں کچھ نہيں ۔ ليکن قرآني کلمات اور حکمتيں ايسي نہيں ہے ۔ ميرا حضرت امام خميني کے بارے ميں بھي يہي تجربہ ہے ۔ لہٰذا ميں نے سب سے پہلے لفظ ’’حکيم‘‘ کو اُن کيلئے استعمال کيا ہے ۔ ميں نے ديکھا کہ حکيم جسے کہا جاتا ہے وہ ايسا ہي ہوتا ہے ۔ امام خميني جب باتيں کرتے تھے تو ايسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بہت ہي سطحي اورمعمولي باتيں کررہے ہيں اوراُن کي باتيں انسان کي نظر ميں کوئي جلوہ نہيں کرتي تھيں ليکن جب انسان اس ميں غوروفکر کرتا تھا تو ديکھتا تھا کہ کتني گہري وعميق ہيں!
عورت کا اجتماعي کردار
جو کچھ قرآن و احاديث پيغمبر ۰ و اہلبيت ميں عورت کے بارے ميں بيان کيا گيا ہے وہ حکمت ہے کہ جس پر واقعاً توجہ کرني چاہيے۔ ان تمام بيانات ميں سے ايک مسئلہ يہي حجاب اور مرد و عورت کے درميان حفاظتي وجود کا مسئلہ ہے ۔ حجاب کے ذريعے سے ہونے والي يہ حفاظت سب جگہ کے ليے نہيں ہے بلکہ خاص جگہ پر ہے ۔ فرض کيجئے کہ ايک خاتون حکومت کے اعليٰ عہدے پر فائز ہوتي ہے۔ البتہ ميں يہ نہيں کہوں گا کہ کون سا مقام؟ کيونکہ ميں نے بطور مثال ايک مقام کو مجمل انداز سے بيان کيا ہے جو واضح نہيں ہے اور ايسي حالت ميں يہ بھي صحيح نہيں ہے کہ انسان بغير کسي وجہ سے کسي بھي حکومتي عہدے کو تنقيد کا نشانہ بنائے ۔ بہرحال اگر وہ ايک ايسے عہدے کو حاصل کرلے کہ جہاں رجوع کرنے والوں کي تعداد بہت زيادہ ہے تو اس ميں کوئي حرج نہيں ہے اور نہ ہي يہ امر عورت کي فعاليت ميں مانع بنے گا۔ اس مقام پر عورت ہزاروں مرد اور ديگر رجوع کنندگان کي حکيمانہ انداز سے پذيرائي کرے ، اُن کے مسائل کوسنے، جواب دے اور ان کے جائز حقوق کيلئے احکامات صاد رکرے ۔ اس ميں نہ کوئي محدوديت ہے اور نہ کوئي چيزمانع ہے۔
اسلامي خواتين کا اجتماعي کردار
مختلف مسائل سے مقابلے اورميدان جنگ ميں بھي ايسا ہي ہے۔ حضرت زينب علیھا السلام کے سامنے ايک ميدان تھا جہاں آپ نے کام کيا، حضرت زہر علیھا السلام نے بھي ايک ميدان ميں قدم رکھا ،جناب حکيمہ خاتون يا حضرت امام صادق کي خواہر نے ميدان عمل ميں قدم رکھا ۔ حضرت امام صادق نے کسي سے فرماياکہ جاو اور يہ مسئلہ ان (ميري بہن) سے پوچھو۔ کچھ آئمہ عليہم السلام کي خواہر اورزوجات يا بعض پيغمبروں کي بيويوں نے علمي و ثقافتي ، سياسي، انقلابي،اور فوجي ميدانوں ميں قدم رکھا ہے۔ توجہ فرمائيے ۔عورت کاعورت ہونا ان تمام ميدانوں ميں اس کي فعاليت کي راہ ميں ہرگز مانع نہيں ہوتا ليکن ان سب جگہ حجاب کاحکم ضرور موجود ہے ۔ آپ اس کي پابندي کيجئے اور مقابلے کيلئے ميدان عمل ميں قدم رکھيے۔
٣۔گھرانے ميں شوہر و بيوي کے کردار پر زيادہ توجہ کي ضرورت
خواتين کے حقوق کے دفاع کيلئے تيسرا بنيادي اور لازمي نکتہ جو آپ کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا ہوں يہ ہے کہ ميري نظرميں خواتين پر ظلم ستم کے جتنے مقامات بيان کيے گئے ہيں ان ميں سب سے زيادہ ظلم گھرانے ميں ہوا ہے۔ اس مسئلے کو آپ جتنا بيان کرسکتے ہيں،بيان کيجئے۔ يہ جو ميں نے بيان کيا ہے کہ خواتين فلاں مقام و منصب کو حاصل کريں، يہ بعدکا مرحلہ ہے اور اتنا قابل اہميت نہيں ہے ۔ سب سے اہم مرحلہ شوہر اوربيوي کا آپس ميں ايک دوسرے سے برتاو اور کردارکا مرحلہ ہے۔ اگر آپ ايسے قوانين وضع کرسکيں کہ جب ايک عورت اپنے شوہر کے گھر ميں ہو تو امن و سکون کا احساس کرے تو يہ ايک قابل تحسين امر ہے۔
بيوي کيلئے امن و سکون کا ماحول فراہم کيجئے
انسان اپني بيٹي کو بہت محنت، محبت، نرمي اور والدين سے عشق کے ساتھ پروان چڑھاتا ہے اور اس کے بعد وہ لڑکي جواني کے مرحلے ميں قدم رکھتي ہے۔ اس مرحلے ميں بھي لڑکي اپنے والدين کے گھر ميں ان کي بچي ہي شمار کي جاتي ہے، اس کے بعد اُس کے ہاتھ پيلے کرکے اُسے شوہر کے گھر بھيج ديا جاتا ہے اور اُس کے بعد وہ ايک ايسي عورت کي شکل ميں ظاہر ہوتي ہے کہ جس سے (خانداني مسائل ،تربيت اولاد اور خانہ داري جيسے مسائل سے متعلق) ہر چيز کو سمجھنے، ہر چيز کو جاننے اور ہر کام کو انجام دينے کي توقع کي جاسکتي ہے! پس اگر عورت يہاں چھوٹي سي بھي غلطي کرے تو وہ تنقيد کا نشانہ بنتي ہے! ليکن يہ نہيں ہونا چاہيے۔ آپ ايسا کام کيجئے کہ جب ايک لڑکي شوہر کے گھر جائے تو وہ جس سن وسال ميں بھي ہو امن و سکون کا احساس کرے اور اسے يہ اطمئنان حاصل ہو کہ وہ (شوہر يا شوہر کے گھر والوں کي طرف سے) کسي بھي قسم کے ظلم وستم کا نشانہ نہيں بنے گي۔ اس نکتے کي طرف توجہ فرمائيے! اگر آپ يہ ماحول فراہم کرسکيں تو ضرور اقدام کيجئے تو ميري نظر ميں آپ نے ايک بہت بڑا قدم اٹھايا ہے۔ يعني و ہ اپنے شوہر کے گھر ميں ناحق بات نہيں سنے يا اگر وہ کسي ظلم کا نشانہ بنے يااُس سے ناحق بات کي جائے تو اپنے حق کا دفاع کرسکے اور وہ قانوني امکانات کے ذريعے اپنے حق کو محفوظ رکھ سکے
اور يہ کام اتنا اہم ہے کہ ميري نظر، توجہ اورفکر کا زيادہ حصہ (ايک مسلمان عورت کيلئے) اسي ماحول کي فراہمي ميں مشغول ہے۔ ميں يہ ديکھ رہا ہوں کہ (ہمارے معاشرے سميت ديگر اسلامي ممالک ميں ) عورت کو يہ ماحول فراہم نہيں ہوسکا ہے حتيکہ مومن و متقي افراد کے گھروں ميں بھي ايسا ماحول نہيں ہے اورموجودہ زمانے کے گھرانے بھي اس آئيڈيل ماحول سے محروم ہيں۔
چند سال قبل ايک پي ايچ ڈي خاتون نے ہم سے شکايت کي کہ اُس کا شوہر جو زيادہ تعليم يافتہ نہيں ہے ، مجھ پر (مختلف مسائل زندگي ميں ) زور و زبردستي کرتا ہے اور يہ خاتون اپنے حق کا دفاع نہيں کرسکتي ہے۔ يہ ايک نمونہ ہے اور ايسي بہت سے مثاليں ہيں اور افسوس يہ ہے کہ ہمارے معاشرے ميں يہ چيزيں موجود ہيں۔ اگر آپ کچھ کرسکيں تو ان تمام چيزوں کو قوانين کے ذريعے ختم کرديجئے (تاکہ خواتين کے حقوق شوہروں کے ظلم اور زبردستي کي وجہ سے ضايع نہ ہوں) ۔وہ نکتہ کے جسے ميں نے قبلاً آپ کي خدمت ميں عرض کيا کہ مرد کي بہ نسبت عورت کا جسماني لحاظ سے کمزور ہونا اس پر ظلم ہونے کا باعث بنا ہے تو اُسے معرفت اور تعليم کے ذريعے سے ايک جہت سے اور قانون کي مدد سے دوسري جہت سے مضبوط بنانا چاہيے يعني خواتين کے ہاتھ ميں اُن کے حقوق کے دفاع کے اقتدار کے وسائل دينے چاہئيں۔
يہ وسائل ، معرفت اورتعليم کي طرف سے خواتين پر ظلم و ستم کي راہ ميں ايک طرف سے مانع بن جاتے ہيں جبکہ دوسري طرف قانون ہے جو خواتين کے حقوق اور ظلم سے اُن کي حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا اگر يہ’’ دونوں طرف‘‘ خواتين کيلئے فراہم ہوجائيں تو يہ ايک قابل تحسين امر ہے۔ آپ اپني خواتين کو تحصيل علم اور بيٹيوں کو اعليٰ تعليم کے حصول کي ترغيب دلايئے اور اعليٰ تعليمي مراکز ميں اپني بيٹيوں کے داخلے کو قانوني لحاظ سے سہل و آسان بنائيے۔ اگر يہ چيز حاصل ہوگئي تو ميري نظر ميں تمام چيزيں حاصل ہوجائيں گي۔ مثلاً فرض کيجئے کہ موجودہ زمانے ميں ممکن ہے کہ خواتين کو اس بارے ميں فکر لاحق ہو کہ وہ ڈرائيونگ کيوں نہيں کرتيں يا ٹرک ڈرائيور کيوں نہيں بنيں؟ فلاں کام انجام کيوں نہيں ديتيں؟ ان چيزوں کي اہميت نہيں ہے اور نا ہي ان چيزوں کي قدر وقيمت ہے کہ انسان ان کيلئے جدوجہد کرے۔
ہندوستاني عورت اور روزانہ پانچ روپے اجرت!
ميں کبھي فراموش نہيں کرسکتا کہ ميں ہندوستان ميں ايک يونيورسٹي کے طالب علم کے گھر مہمان تھا۔ ہم دوپہر کے کھانے کے بعد استراحت کرنا چاہتے تھے تو اچانک باہر سے کسي چيز کو توڑنے کي آواز آنے لگي۔ ميں نے کھڑکي سے ديکھا کہ ايک بڑا سا صحن نما ميدان ہے کہ جس ميں مختلف پتھر پڑے تھے اور ايک چاليس پچاس سالہ مزدور عورت ہتھوڑي ہاتھ ميں ليے بڑے پتھروں کو توڑ رہي تھي ۔ وہ عورت فربہ بدن کي مالک اور کالي تھي اور اُس نے خاص قسم کا لباس پہنا ہوا تھا کہ جب خواتين يہ لباس (جمپر) پہنتي ہيں تو اپنے بدن کا ايک حصہ _ سينہ کا اوپري حصہ_ کھلا رہنے ديتي ہيں۔ يہ وہاں کے لباس کا انداز ہے کہ لباس ميں سينے کا اوپري حصہ کھلا رہتا ہے اور يہ فيشن سے تعلق رکھتا ہے۔ يہ مزدور عورت بھي اسي حليے ميں تھي اور محنت مزدوري کے دوران اُس نے اپنے فيشن کو فراموش نہيں کيا تھا ! وہ سخت محنت کرتے ہوئے مسلسل پتھروں کو توڑ رہي تھي۔ ميں نے پوچھا کہ يہ عورت يہ کام کيوں کررہي ہے؟اُس نے جواب ديا کہ ’’يہ مزدور ہے‘‘ ۔ميں نے دوبارہ سوال کيا کہ ’’يہ روزانہ کتني اجرت ليتي ہے؟‘‘ اُس نے کہا کہ ’’روزانہ کے چار يا پانچ روپے‘‘۔ اس وقت ہندوستاني ايک روپيہ شايد ہمارے پندرہ ريال کے برابر تھا۔ يعني سالانہ تقريباً انسٹھ يا ساٹھ روپے! يعني وہ تقريباً دس تومان روزانہ کي اجرت ليتي تھي اور اس کيلئے روزانہ چودہ يا بارہ گھنٹے محنت و مشقت کرتي اور پتھروں کو توڑتي تھي!
ايسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلامي ماحول ميں ايک عورت کو اس طرح کا کام نہيں ديا جاتا ہے
اور يہ بات خود باعث افتخار ہے ۔ البتہ عورت اپنے کھيتوں ميں اپنے ليے کام کرتي ہے ليکن وہ دوسروں کي مزدور نہيں بنتي ہے۔ ايسے وقت ايک انسان آئے اور بڑي جدوجہد کے بعد فرض کيجئے کہ عورت کے ٹرک ڈرائيور ہونے کے امکانات فراہم کرے! ان باتون کي قطعاً کوئي قدرو قيمت نہيں ہے۔
____________________