اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت0%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

صفحے: 367
مشاہدے: 131695
ڈاؤنلوڈ: 3312

تبصرے:

اسلامی نظریہ حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131695 / ڈاؤنلوڈ: 3312
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

بايعوهم عليه ، فلم يكن للشّاهد أن يختار و لا للغائب أن يردّ ، و إنّما الشورى للمهاجرين والانصار، فإن اجتمعوا على رجل سمّوه إماماً كان ذلك لله رضي'' (۱)

جن لوگوں نے ابوبكر ، عمر اور عثمان كى بيعت كى تھى انہى لوگوں نے انہى شرائط پر ميرى بھى بيعت كى ہے لہذا جو بيعت كے وقت حاضرتھا اسے نئے انتخاب كا اختيار نہيں اور جو غائب تھا اسے ردّ كرنے كا حق حاصل نہيں يقينا شورى مہاجرين اور انصار كيلئے ہے پس اگر وہ كسى شخص پر متفق ہو جائيں اور اسے امام منتخب كرليں تو خدا اس پر راضى ہے _

ايك اور مقام پر فرمايا :

''و لعمرى لئن كانت الإمامة لا تنعقد حتّى يحضرها عامّة الناس فما إلى ذلك سبيل، و لكن أهلها يحكمون على من غاب عنها ثمّ ليس للشّاهد أن يرجع و لا للغائب أن يختار'' (۲)

مجھے اپنى جان كى قسم اگر امامت كے انتخاب كيلئے تما م لوگوں كا حاضر ہونا شرط ہوتا تو امام كا انتخاب كبھى بھى نہ ہوتا ليكن اہل حل و عقد غائب افراد پر حجت ہوتے ہيں پھر حاضر كيلئے پلٹنے كا اختيار نہيں اور غائب كو نئے انتخاب كا حق حاصل نہيں _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، مكتوب ۶ _

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۷۳_

۱۲۱

شيخ مفيد كہتے ہيں :جب عبدالله ابن عمر، سعد ابن ابى وقاص ، محمد بن مسلمہ ، حسان ابن ثابت اور اسامہ ابن زيد نے حضرت على كى بيعت سے انكار كيا ، تو آپ نے خطبہ ديتے ہوئے فرمايا :

''أيّها الناس، إنّكم بايعتمونى على ما بويع عليه من كان قبلي، و إنّما الخيار إلى الناس قبل أنْ يبايعوا ، فإذا بايَعوا فلا خيار لهم، وإنّ على الإمام الاستقامة، و على الرعية التسليم و هذه بيعة عامّة و من رغب عنها رغب عن دين الاسلام ، و اتّبع غير سبيل أهله ...''(۱)

اے لوگوں تم نے انہى شرائط پر ميرى بيعت كى ہے كہ جن شرائط پر مجھ سے پہلے والوں كى بيعت كى تھي_ لوگوں كو بيعت كرنے سے پہلے اختيار حاصل ہے ليكن جب وہ بيعت كرليں تو پھر اختيار نہيں ہے _ امام كيلئے استقامت و پائيدارى اور رعيت كيلئے اطاعت اور پيروى ہے _ يہ بيعت عامہ ہے جس نے اس سے روگردانى كى اس نے دين سے منہ پھيرا اور اہل دين كے راستہ سے ہٹ گيا

قتل عثمان كے بعد جب لوگوں نے بيعت كرنا چاہى اور خلافت كى درخواست كى توآپ (ع) نے فرمايا :

بيعت تمھارے ساتھ مربوط نہيں ہے بيعت كا تعلق اصحاب بدر سے ہے جسے وہ خليفہ منتخب كرليں وہى مسلمانوں كا خليفہ ہوگا _(۲)

____________________

۱) ارشاد جلد ۱، صفحہ ۲۴۳ _ نہج البلاغہ مكتوب ۶ _

۲) ا نساب الاشراف، بلاذرى جلد۴، صفحہ ۵۵۹_

۱۲۲

اس قسم كى روايات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ خليفة المسلمين كے انتخاب كا اختيار مسلمانوں كے ہاتھ ميں ہے وہ افراد جو انتخاب كى صلاحيت ركھتے ہيں اور'' اہل حل و عقد'' شمار ہوتے ہيں، اگر كسى كى بيعت كرليںتو وہى مسلمانوں كا امام اور خليفہ ہے اور اس كى اطاعت واجب ہے اور دوسروں كو اس كى مخالفت كا حق حاصل نہيں ہے _ آخرى روايت صريحاً جبكہ بعض ديگر روايات ظاہرى طور پر يہ كہہ رہى ہے كہ حاكم اور خليفة المسلمين كے تعيّن ميں تمام افراد كى رائے اور بيعت كى اہميت ايك جيسى نہيں ہے بلكہ ايمان، جہاد اور شہادت ميں سبقت حاصل كرنے والے اس انتخاب كى اہليت ركھتے ہيں _ بہر حال يہ روايات صراحتاً اس قول كے متضاد ہيں كہ امام '' منصوب من الله '' ہوتا ہے _ كيونكہ ان روايات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ امت كى سياسى ولايت انتخابى ہے اور اس كے انتخاب كا حق امت كے اہل حل و عقد كو حاصل ہے _ (۱)

صدور روايات كا زمانہ اور ماحول:

سوائے ان مختصر كلمات كے جو بيعت سقيفہ اور حضرت عمر كى مقرر كردہ چھ نفرى شورى كے متعلق ہيں _ بيعت اور شورى كے متعلق حضرت على سے جو اقوال منقول ہيں آپ كى خلافت كے مختصر عرصہ اور لوگوں كے بيعت كرنے كے بعد صادر ہوئے ہيں _

بيعت اور شورى كے متعلق اپنى خلافت كے دوران آپ نے جو بيانات ديئے ہيں انہيں تين حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ان ميں سے بعض اپنى بيعت كى توصيف اور وضاحت كے بارے ميں ہيں اور يہ كہ كونسى شرائط پر بيعت ہوئي اور پہلے تين خلفاء كى بيعت كى نسبت يہ بيعت كونسى خصوصيات كى حامل تھى _ نمونہ

____________________

۱) مذكورہ بحث ان روايات كى سند كى تحقيق سے صرف نظر كرتے ہوئے اور انہيں صحيح فرض كرتے ہوئے كى جارہى ہے_ وگرنہ اگر روايات كے مصادر پر غور كيا جائے تو اكثر روايات سند كے اعتبار سےضعيف ہيں_

۱۲۳

كے طور پرہم اس قسم كے بعض بيانات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _ حضرت اميرالمؤمنين فرماتے ہيں:

''بايَعَنى الناس غَير مُستكرهين و لا مُجبرين ، بل طائعين مُخيَّرين'' (۱)

لوگوں نے ميرى بيعت اكراہ اور مجبورى كے عالم ميں نہيں كى بلكہ رضا و رغبت كے ساتھ كى ہے _

مزيد فرماتے ہيں:

''لم تكن بيعتكم ايّاى فَلتة ، و ليس أمرى و أمركم واحد، إنّى أريدكم لله و أنتم تريدوننى لانفسكم'' (۳)

تمھارا ميرى بيعت كرنا اچانك پيش آنے والا واقعہ نہيں تھا، اور ميرا اور تمھارا معاملہ بھى ايك جيسا نہيں ہے ، ميں تمھيں خدا كيلئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے لئے چاہتے ہو _

جب بعض افراد نے بيعت پر اصرار كيا تو آپ (ع) نے انہيں فرمايا: ميرى بيعت مخفى طور پر نہيں ہونى چاہيے_

''ففى المسجد، فإنّ بيعتى لا تكون خفيّاً و لا تكون إلاّ عن رضا المسلمين '' (۳)

ميرى بيعت مسجد ميں ہوگى مخفى نہيں ہوگى بلكہ تمام مسلمانوں كى رضا مندى سے ہوگى _

____________________

۱) نہج البلاغہ مكتوب ۱_

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۶_

۳) تاريخ طبرى ج ۴ ، ص۴۲۷_

۱۲۴

اس قسم كى روايات ہمارى بحث سے خارج ہيں جو حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كى كيفيت كو بيان كرتى ہيں _

دوسرى قسم كے بيانات وہ ہيں جو آپ نے بيعت نہ كرنے والے عبدالله ابن عمر ، اسامہ ابن زيد اور سعد ابن ابى وقاص اور بيعت توڑنے والے طلحہ و زبير جيسے افراد كو مخاطب كر كے فرمائے ہيں _

حضرت اميرالمؤمنين سے منقول اس قسم كى روايات دونكتوں پر اصرار كرتى ہيں پہلا نكتہ يہ ہے كہ جن افراد نے رضا و رغبت كے ساتھ بيعت كى ہے ان پراطاعت واجب ہے دوسرا يہ كہ لوگوں كا آپ كى بيعت كرنا بيعت عمومى اور اختيارى تھى لہذا بيعت توڑنے اور نہ كرنے والے پيمان شكن اور مسلمانوں كى مخالفت كرنے والے شمار ہوں گے _

تيسرى قسم كے كلمات جو كہ سب سے اہم ہيں، وہ ہيں جو معاويہ اور اہل شام كے دعووں كے مقابلے ميں بيان كئے گئے ہيں _ انہوں نے حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كے صحيح ہونے پر اعتراض كيا تھا اور ان كا كہنا تھا كہ معاويہ ، عمرو ابن عاص اور دوسرے قريش شام كا خليفہ كو منتخب كرنے والى شورى ميں شامل نہ ہونا آپ كى خلافت كو غير معتبر قرار ديتا ہيں _آپ (ع) سے صادر ہونے والے بہت سے كلمات كا تعلق اسى تيسرى قسم سے ہے _آنے والے سبق ميں ہم ان كلمات كا تجزيہ و تحليل اور يہ بحث كريں گے كہ كيا يہ كلمات سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كى تائيد كرتے ہيں يا نہيں _

۱۲۵

خلاصہ:

۱) بعض لوگ اس نظريہ كے حامى ہيں كہ بعض روايات كى رو سے سياسى ولايت كے سلسلہ ميں بيعت اور شورى پر اعتبار كيا جاسكتاہے_بنابريں زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت خود لوگوں كے سپرد كى گئي ہے اور انتصابى نہيں ہے_

۲) بيعت ايك ايسا عہد و پيمان ہے جو ظہور اسلام سے پہلے موجود تھا اور رسول خدا (ص) نے اس كى تائيد فرمائي ہے_

۳)بيعت كى مختلف قسميں ہيںلہذا يہ صرف ''سياسى ولايت'' كے انتخاب ميں منحصر نہيں ہے_

۴) اسلامى معاشرہ كے حاكم كى تعيين كيلئے بيعت اور شورى كے معتبر ہونے كے سلسلہ ميں حضرت اميرالمؤمنين سے روايات نقل ہوئي ہيں_

۵) يہ روايات كچھ خاص سياسى حالات كے پيش نظر صادر ہوئي ہيں _ اور يہ روايات ان لوگوں كے مقابلہ ميں بيعت اور شورى كى تائيد كرتى ہيں جنہوں نے حضرت امير المؤمنين كى بيعت پر اعتراض كيا تھا يابيعت سے انكار كيا تھا يا طلحہ و زبير كى طرح بيعت شكنى كى تھي_

۱۲۶

سوالات

۱) وہ افراد جو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كو انتخابى سمجھتے ہيں ان كى دليل كيا ہے ؟

۲) بيعت كيا ہے اور اس كى كتنى قسميں ہيں ؟

۳) كيا ''بيعت رضوان'' رسول خدا (ص) كو سياسى ولايت سونپنے كيلئے تھي؟

۴) حضرت امير المؤمنين سے منقول بعض روايات سے بيعت اور شورى كے متعلق كس نكتہ كى طرف اشارہ ملتاہے؟

۵) اس قسم كى روايات كے صادر ہونے ميں كونسے حالات كار فرما تھے؟

۱۲۷

چودہواں سبق:

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۲-

پہلے گذر چكا ہے كہ سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كے قائلين نے اپنے اس نظريہ كے اثبات كيلئے حضرت امير المؤمنين سے منسوب بعض كلمات و روايات كو بطور دليل پيش كيا ہے _ وہ يہ سمجھتے ہيں كہ ان كلمات سے يہى ظاہر ہوتاہے كہ اسلامى معاشرہ كے حاكم اور خليفہ كے انتخاب كا حق خود امت كو ديا گيا ہے _ بنابريں كم از كم زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كى سياسى ولايت انتخابى امر ہے نہ كہ انتصابى اور يہ اعتقاد صحيح نہيں ہے كہ امت كيلئے فقيہ عادل نصب كوكيا گيا ہے بلكہ يہ امر'' شورى مسلمين'' اور ''بيعت امت'' كے سپرد كيا گيا ہے _

ہمارى نظر ميں ان روايات سے مذكورہ بالا مطلب اخذ كرنا صحيح نہيں ہے _ كيونكہ يہ تمام روايات '' جدال احسن''(۱)

____________________

۱) سورہ نحل كى آيت ۱۲۵ ميں ارشاد ہوتاہے: ''ادع الى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة و جادلهم بالتى هى احسن '' اللہ تعالى نے رسول خدا (ص) سے فرمايا ہے كہ وہ حق اور سعادت كى طرف دعوت دينے كيلئے برہان، خطابہ اور جدل تينوں كو بروئے كار لائيں _ تفسير الميزان ج ۱۲ ص ۳۷۱ ، ۳۷۲ _

جدل استدلال كى وہ قسم ہے جس ميں استدلال كرنے والا اپنے مدعا كے اثبات كيلئے مخاطب كے نزديك مقبول اور مسلمہ قضايا سے كام ليتاہے _ اسے اس دعوى كے قبول كرنے پر مجبور كرتاہے _ ہميشہ يہ ہوتاہے كہ استدلال كرنے والے كے نزديك ان مقدمات كى صحت مشكوك ہوتى ہے يا بالكل ناقابل قبول ہوتى ہے اور اپنے مدعا كے اثبات كيلئے اس كے پاس اور ادلّہ ہوتى ہيں _ ليكن طرف مقابل كو منوانے اور اپنے مقصد تك پہنچنے كيلئے ان صحيح اور يقينى مقدمات كى بجائے ان مقدمات سے استفادہ كرتاہے جو طرف مقابل كيلئے قابل قبول ہوں دوسرے لفظوں ميں برہان كى بجائے جدل سے استفادہ كرتاہے كيونكہ طرف مقابل برہانى مقدمات كو تسليم نہيں كرتا جبكہ جدلى مقدمات كو مانتاہے_

۱۲۸

كے زمرے ميں آتى ہيں _ لہذا ان روايات كو جدل سے ہٹ كر كسى اور مورد ميں استدلال كے طور پر پيش نہيں كيا جاسكتا_

وہ مقدمات جنہيں استدلال جدلى ميں بروئے كار لايا جاتاہے انہيں استدلال برہانى كے مقذمات كى طرح صحيح اور حق قرار نہيں ديا جاسكتا_كيونكہ جدلى استدلال كے مقدمات سے صرف اس ليئے استفادہ كيا جاتاہے چونكہ وہ مخاطب كے نزديك مسلّم اور قابل قبول ہوتے ہيں _ ليكن اس كا معنى يہ نہيں ہے كہ وہ مقدمات بذات خود بھى قابل قبول اور مسلم ہوں _ ہمارا مدعا يہ ہے كہ حضرت امير المؤمنين نے يہ استدلال ان لوگوں كے سامنے كيا ہے جو آپ (ع) كى خلافت و امامت كو تسليم كرنے سے انكار كررہے تھے_ يعنى بجائے ان اموركے جو آپ (ع) كى امامت اور ولايت كى حقيقى ادلہ ہيں كہ آپ ''منصوب من اللہ'' ہيں ان امور سے استدلال كيا ہے جو مخالفين كے نزديك قابل قبول ہيں اور جن كى بناپر پہلے تين خلفاء كى خلافت قائم ہوئي ہے_ آپ كے استدلال كا بنيادى نكتہ يہ تھا كہ جس دليل كى بناپر تم لوگوں نے پہلے تين خلفاء كى خلافت قبول كى ہے اسى دليل كى بناپر ميرى خلافت تسليم كرو كيونكہ ميرى امامت '' بيعت امت ''اور ''شورى كے اتفاق و اجماع ''سے بالاتر درجات كى حامل ہے _

ان روايات كے جدلى ہونے كى دليليں

حضرت امير المؤمنين نے اپنى خلافت كے ابتدائي ايام ميں معاويہ كو خط لكھا جس ميں اسے قتل عثمان اوراپنے ساتھ لوگوں كى بيعت كى اطلاع دى اور اسے كہا كہ وہ بھى شام كے سركردہ افراد كو لے آئے اور بيعت كرے آپ (ع) نے فرمايا:

۱۲۹

''أمّا بعد ، فإنّ الناس قَتَلوا عثمان من غَير مشورة منّي، و بايَعونى عن مشورة منهم و اجتماع، فإذا أتاك كتابى فبايع لى و أوفد إليّ أشراف أهل الشام قبلك'' (۱)

اما بعد، لوگوں نے ميرے مشورے كے بغير عثمان كو قتل كرديا ہے اور اپنى رائے اور اجماع سے ميرى بيعت كرلى ہے _ جب ميرا خط تجھ تك پہنچے تو تم بھى ميرى بيعت كرلينا اور شام كے سركردہ افراد كو ميرى طرف بھيجنا _

معاويہ نے امام كے خط كا مثبت جواب نہيں ديا اور بيعت كى بجائے آپ (ع) كے خلاف جنگ كى تيارى كرنے لگا _ جنگ كيلئے اسے ايك بہانے كى ضرورت تھى لہذا امام كے مضبوط استدلال كے سامنے يہ بہانہ پيش كيا اولاً: حضرت على اور سابقہ خلفاء كے درميان فرق ہے _ اس طرح آپ كى امامت اور خلافت كى مخالفت كي_

ثانياً: يہ بہانہ كيا كہ حضرت عثمان كے قاتل حضرت على كے زير حمايت ہيں لہذا امام سے يہ كہا كہ قاتلين كو شام روانہ كريںتا كہ انہيں سزا دى جاسكے اور ان سے قصاص لينے كے بعد خليفہ كے انتخاب كيلئے مسلمانوں كى شورى تشكيل دى جائے گى _ در حقيقت معاويہ يہ كہنا چاہتا تھا كہ بيعت اور شورى حضرت على كى خلافت كو اہل شام كيلئے لازم قرار نہيں ديتى كيونكہ مدينہ اور بصرہ كے اشراف كے برعكس شام كے سركردہ افراد شورى ميں شامل نہيں تھے_ معاويہ كے گستاخانہ جواب كو مبرد نے يوں نقل كيا ہے _

''أما بعد، فَلَعَمرى لو بايعك القوم الَّذين بايعوك و أنت بري من دَم عثمان ، كنتَ كأبى بكر و عمر و عثمان، و لكنّك

____________________

۱) شرح نہج البلاغہ، ابن ابى الحديد جلد ۱ ص ۲۳۰_

۱۳۰

أغريت بعثمان المهاجرين و خذّلت عنه الأنصار ، فأطاعك الجاهل و قوى بك الضعيف، و قد أبى أهل الشام إلا قتالك حتّى تدفع اليهم قتلة عثمان، فإن فعلت كانت شورى بين المسلمين ''(۱)

اما بعد: مجھے اپنى جان كى قسم اگر لوگوں نے تيرى بيعت اس حالت ميں كى ہوتى كہ تو خون عثمان سے برى ہوتا تو پھر تو تم ابوبكر، عمر اور عثمان كى طرح ہوتے_ ليكن تم نے مہاجرين كو قتل عثمان اور انصار كو ان كى مدد نہ كرنے پراكسايا ہے _ پس جاہل نے تيرى اطاعت كى ہے اوركمزور تيرى وجہ سے مضبوط ہوگيا اوراہل شام كو تو تيرے ساتھ صرف جنگ كرنا ہے مگر يہ كہ تو عثمان كے قاتلوں كو ان كى طرف بھيج دے _ اگر تو نے ايسا كيا تو پھر خليفہ كے انتخاب كيلئے مسلمانوں كى شورى قائم ہوگي_

جنگ صفين كے دوران معاويہ نے ايك اور خط لكھا جس ميں اس نے شورى اور حضرت امير المؤمنين كى بيعت كو غير معتبر قرار ديا _ اس دليل كى بناپر كہ اہل شام نہ اس ميں حاضر تھے اور نہ اس پر راضى تھے

''فَلَعَمرى لو صحَّت خلافتك لكنت قريباً من أن تعذر فى حرب المسلمين ، و لكنّها ما صحت لك، أنّى بصحّتها و أهل الشام لن يدخلوا فيها و لم يرتضوا بها'' (۲)

مجھے اپنى جان كى قسم اگر تيرى خلافت صحيح ہوتى تو تيرا مسلمانوں كى جنگ ميں صاحب عذر ہونا قريب تھا ليكن وہ صحيح نہيں ہے كيونكہ اہل شام اس ميں داخل نہيںتھے اور اس پر راضى نہيں ہيں_

____________________

۱) الكامل، مبرد جلد۱ صفحہ ۴۲۳ _ شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۸۸_

۲) بحارالانوار جلد۳۳ صفحہ ۸۰ ، شرح نہج البلاغہ جلد۱۴ صفحہ ۴۲_

۱۳۱

معاويہ اہل شام كو يہ تأثر دينے ميں كامياب ہوگيا كہ خون عثمان كے قصاص سے بڑھ كر كوئي شئے اہم نہيں ہے اور خلافت على كيلئے جو بيعت اور شورى منعقدہوئي ہے وہ قابل اعتبار نہيں ہے لہذا ضرورى ہے كہ قاتلوں كو سزا دينے كے بعد شورى تشكيل پائے_ جنگ صفين ميں معاويہ كى طرف سے بھيجے گئے نمائندہ گروہ ميں سے ايك حبيب ابن مسلمہ نے حضرت على سے مخاطب ہوكر كہا _

''فَادفع إلينا قَتَلة عثمان إن زعمتَ أنّك لم تقتله_ نقتلهم به ، ثمّ اعتزل أمر الناس، فيكون أمرهم شورى بينهم ، يولّى الناس أمرهم من أجمع عليه رَأيهم'' (۱)

اگر تم سمجھتے ہو كہ تم نے عثمان كو قتل نہيں كيا تو پھر ان كے قاتل ہمارے حوالے كردو تا كہ ہم انہيں قتل كرديں_ پھر امر خلافت لوگوں كے سپرد كردو_ ايك شورى تشكيل پائے گى اور لوگ اپنے لئے جسے چاہيں گے اسے اتفاق را ے سے خليفہ منتخب كرليں گے _

اس قسم كى سركشى ، مخالفت اور ادلّہ كے سامنے حضرت امير المؤمنين نے ان امور سے استدلال كيا جو اُن كيلئے قابل قبول تھے حتى كہ دشمن بھى ان سے انكار نہيں كرسكتا تھا_ تمام مسلمان ، اہل شام اور حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كى مخالفت كرنے والے ، حتى كہ معاويہ بھى پہلے تين خلفاء كے طريقہ انتخاب كو مانتے تھے_ لہذا حضرت امير المؤمنين نے استدلال كے مقام پر ان افراد كے سامنے مہاجرين اور انصار كى بيعت اور شورى كے صحيح اور قابل اعتبار ہونے كو پيش كيا اور اپنى امامت كيلئے انہى مطالب سے استدلال كيا جو مخالفين كے نزديك مسلم اور قابل قبول تھے_

امام نے بيعت سے روگردانى كرنے والوں كو مخاطب كركے فرمايا:

____________________

۱) تاريخ طبرى جلد۵ صفحہ ۷ ، البدايہ والنہايہ جلد۷ صفحہ ۲۵۹_

۱۳۲

''أيّها الناس، إنّكم بايعتمونى على ما بويعَ عليه مَن كان قبلي، و انّما الخيارُ إلى الناس قبل أن يُبايعوا'' (۱)

اے لوگو تم نے ميرى بيعت انہى شرائط پر كى ہے جن پر تم نے مجھ سے پہلے والوں كى بيعت كى تھى اور لوگوں كو بيعت كرنے سے پہلے اختيار ہوتاہے _

معاويہ اور اہل شام كے مقابلہ ميں بھى اسى طرح استدلال كرتے ہوئے فرمايا:

كہ جن لوگوں نے مجھ سے پہلے والے خلفاء كو منتخب كيا تھا انہى لوگوں نے اصرار اور اپنى رضا و رغبت كے ساتھ ميرى بيعت كى ہے _ پس تم پر ميرى اطاعت اسى طرح واجب ہے جس طرح مجھ سے پہلے والے خلفاء كى اطاعت كرتے تھے _(۲)

حضرت امير المؤمنين ، معاويہ كو تنبيہ كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ اطاعت كيلئے تيرا بيعت كے وقت موجود ہونا ضرورى نہيں ہے كيونكہ پہلے تمام خلفا كى بيعت اور شورى ميں بھى تو موجود نہيں تھا_ فرمايا:

''لأنّ بيعتى فى المدينة لزمتك و أنت بالشام كما لزمتك بيعة عثمان بالمدينة و أنت أمير لعمر على الشام، و كما لزمت يزيد أخاك بيعة عمر و هو أمير لابى بكر على الشام'' (۳)

مدينہ ميں ميرى بيعت كا ہونا تجھ پر اطاعت كو واجب قرار ديتاہے چاہے تو شام ميں ہو جس طرح عثمان كى مدينہ ميں بيعت تيرے لئے لازم ہوگئي تھى جب كہ تو عمر كى طرف سے شام پر

____________________

۱) ارشاد شيخ مفيد جلد۱ صفحہ ۲۴۳_

۲) شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ۷۵_

۳) شرح نہج البلاغہ جلد۱۴ صفحہ ۴۴_

۱۳۳

حاكم تھا_ اور جس طرح تيرے بھائي يزيد كيلئے عمر كى بيعت لازم ہوگئي تھى جبكہ وہ ابوبكر كى طرف سے شام كا والى تھا_

مزيد فرمايا كہ معاويہ اور قريش طلقا ( آزاد كردہ ) ميں سے ہيں اور خليفہ كو مقرر كرنے والى شورى ميں شموليت كى اہليت نہيں ركھتے فرمايا :

( ''وَ اعلَم أنّك من الطُلَقاء الَّذين لا تَحلُّ لَهُم الخلافة و لا تعرض فيهم الشوري'' ) (۱)

اور جان لوكہ تم طلقا ميں سے ہو ، جو كہ خلافت كے حقدار نہيں ہيں اور شورى ميں بھى شموليت كى اہليت نہيں ركھتے_

''أما قولك إنّ أهل الشام هم الحُكّام على أهل الحجاز فهات رجلاً من قريش الشام يقبل فى الشورى أو تحلّ له الخلافة، فإن زعمتَ ذلك كذبك المهاجرون والانصار'' (۲)

اور تيرا يہ كہنا كہ اہل شام اہل حجاز پر حاكم ہيں تو يہ كيسے ممكن ہے كہ شام كے قريش كا ايك فرد شورى ميں قابل قبول ہو يا اس كيلئے خلافت جائز ہو _ اگر تو ايسا سمجھتاہے تو مہاجرين اور انصار تجھے جھٹلا ديںگے _

اسكے پيش نظر اور ان ادلّہ كو ديكھتے ہوئے جو امام كى امامت كے'' منصوب من اللہ ''ہونے پر دلالت كرتى ہيں كوئي شك و شبہہ باقى نہيں رہتا كہ امام كا تعيين خليفہ ميں بيعت اور شورى كے معتبر ہونے پر

____________________

۱) وقعة صفين صفحہ ۲۹_

۲) بحارالانوار جلد۳۲ ، صفحہ ۳۷۹ ، شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۸۹_

۱۳۴

تاكيد كرنا، اور يہ كہنا كہ خليفہ كا تقرر مہاجرين اور انصار كے ہاتھ ميں ہے از ''باب جدل'' تھا_ جس طرح آپ(ع) نے اسى ''جدال احسن'' كے ذريعہ اس وقت استدلال كيا تھا جب سقيفہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت ہوئي تھي_ انصار كے مقابلہ ميں قريش نے ابوبكر اور عمر كى رہبرى ميں آنحضرت (ص) - سے اپنى قرابت كو دليل قرار ديا تھا اور انصار نے اسى دليل كى بناپر خلافت، مہاجرين قريش كے سپرد كردى تھي_

حضرت على نے بھى اسى استدلال سے استفادہ كرتے ہوئے فرمايا: اگر خلافت كا معيار قرابت رسول (ص) ہے تو ميں سب سے زيادہ آنحضرت (ص) كے قريب ہوں _ تعيين امامت كيلئے اس قسم كے تمام استدلال ''جدلي'' ہيں كيونكہ آپ (ع) كى امامت كى دليل خدا كا آپ كو امام مقرر كرنا ہے آنحضرت (ص) سے قرابت آپ كى امامت كى دليل نہيں ہے _ امام نے معاويہ كو جو خط لكھا اس ميں اسى استدلال ''جدلي'' كا سہارا ليا_

''قالَت قريش مّنّا أمير و قالت الأنصار منّا أمير; فقالت قريش: منّا محمّد رسول الله (ص) فنحن أحقّ بذلك الأمر ، فعرفت ذلك الأنصار فسلمت لهم الولاية و السلطان فاذا استحقوها بمحمد (ص) دون الانصار فإنّ أولَى الناس بمحمّد أحقّ بها منهم'' (۱)

قريش نے كہا كہ امير ہم ميں سے ہوگا اور انصار نے كہا ہم ميں سے_ پھر قريش نے كہا كہ رسول خد ا (ص) ہم ميں سے تھے لہذا خلافت ہمارا حق ہے _ انصار نے اسے تسليم كرليا اور خلافت و ولايت ان كے سپرد كردى _لہذا جب محمد (ص) سے قرابت كى وجہ سے وہ خلافت كے مستحق قرار پائے ہيںنہ كہ انصار تو جو قرابت كے لحاظ سے محمد (ص) كے زيادہ قريب ہے وہ خلافت كا ان سے زيادہ حق ركھتاہے_

____________________

۱) وقعة صفين صفحہ ۹۱_

۱۳۵

ممكن ہے كوئي يہ كہے كہ ہم اسے تسليم كرتے ہيں كہ ائمہ معصومين كى ولايت كے اثبات كيلئے بيعت اور شورى كو معتبر قرار دينا استدلال جدلى ہے ليكن زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كے حاكم كے تعين كيلئے بيعت اور شورى كو معتبر قرار ديا جاسكتاہے _ پس بنيادى لحاظ سے بيعت اور شورى ناقابل اعتبار نہيں ہيں بلكہ امام معصوم كے زمانہ ميں ائمہ معصومين كى امامت كى ادلّہ كو ديكھتے ہوئے ناقابل اعتبار ہيں ليكن زمانہ غيبت ميں قابل اعتبار ہيں _ دوسرے لفظوں ميں امام كا ''استدلال جدلي'' غلط مقدمات پر مشتمل نہيں تھا بلكہ يہ مقدمہ (بيعت اور شورى كا معتبر ہونا) صرف امام معصوم كے حضور كے زمانہ ميں ناقابل اعتبارہے وگرنہ بذات خود يہ معتبر ہے _ جو لوگ اس نظريہ كے حامى ہيں وہ لوگ امامكے استدلال جدلى كو زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كے حاكم كے تقرر كيلئے بيعت اور شورى سے تمسك كى راہ ميں مانع نہيں سمجھتے _ اگر فقيہ عادل كى ولايت عامہ كى ادلّہ صحيح اور كامل ہيں تو پھر اس بحث كى گنجائشے نہيں رہتى يعنى جس طرح امام معصوم كى امامت كى ادلّہ سياسى ولايت كے تقرر ميں بيعت اور شورى كے كردار كو كالعدم قرار ديتى ہيں اسى طرح ولايت فقيہ كى ادلّہ بھى بيعت اور شورى كو كالعدم قرار ديتى ہيں _

بحثكے آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ ہمارى بحث اس ميں ہے كہ يہ تحقيق كى جائے كہ سياسى تسلط كے جواز ميں بيعت اور شورى كا كيا كردار ہے _وگرنہ اس سے كسى كو انكار نہيں ہے كہ سياسى ولايت كا عينى اور خارجى وجود لوگوں كى رائے اور بيعت كے تابع ہے _ اكثر ائمہ معصومين اسى وجہ سے اپنى شرعى اور الہى ولايت كو لوگوں ميں عملى نہيں كروا سكے ، چونكہ لوگوں نے آپ كى اعلانيہ بيعت نہيں كى تھي_

۱۳۶

خلاصہ :

۱) خليفہ كے تقرر كے سلسلہ ميں بيعت اور شورى كے معت۱بر ہونے كے متعلق حضرت على سے منقول روايات ''جدل'' كے باب سے ہيں _اور ولايت كو انتخابى قرار دينے ميں ان ادلہ سے استدلال نہيں كيا جاسكتا_

۲) حضرت على كى امامت كى مخالفت كيلئے معاويہ كا ہدف بيعت اور شورى كو غير معتبر قرار دينا تھا تا كہ اس طرح آپ (ع) كى خلافت پر سوا ليہ نشان لگايا جاسكے_

۳) معاويہ يہ چاہتا تھا كہ حضرت عثمان كے قاتلوں كو سزا دينے كے بعد حاكم اور امام كے انتخاب كيلئے شورى تشكيل دى جائے جس ميں خود اس جيسے افراد بھى موجود ہوں _

۴ )اپنى خلافت كيلئے ہونے والى بيعت كى حقانيت ثابت كرنے كيلئے، حضرت امير المؤمنين نے ان امور كا سہارا ليا جو مسلمانوں كے نزديك مسلم اور قابل قبول تھے اور جن كامعاويہ اور اہل شام بھى انكار نہيں كرسكتے تھے_ پس آپ كا استدلال ''جدال احسن ''كے زمرے ميں آتاہے _

۵) حضرت اميرالمومنين كى امامت پر ادلّہ كا موجود ہونا ، اورآپ (ع) كا ان نصوص سے تمسك نہ كرنا اس بات كى دليل ہے كہ آپ كے يہ كلمات جدل كے باب سے تھے_

۶) اگر ولايت فقيہ كى ادلّہ صحيح اور مكمل ہوں تو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كے متعلق'' نظريہ انتخابي''كيلئے ان روايات سے تائيد لانے كى نوبت نہيں آتى _

۱۳۷

سوالات:

۱)بيعت اور شورى كے متعلق حضرت امير المؤمنين سے منقول روايات سے سياسى ولايت كے انتخابى ہونے پر كيوں استدلال نہيں كيا جاسكتا؟

۲)حضرت على كے ساتھ سياسى تنازعہ ميں معاويہ كا استدلال كيا تھا؟

۳) حضرت امير المومنين نے معاويہ اور اہل شام كے استدلال كا كيا جواب ديا؟

۴) حضرت اميرالمومنين كے استدلال كے جدلى ہونے كے شواہد بيان كيجئے ؟

۵) كيا زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كيلئے اس قسم كى روايات سے تمسك كيا جاسكتاہے؟

۱۳۸

تيسرا باب:

ولايت فقيہ كا معنى ، مختصر تاريخ اور ادلّہ

سبق ۱۵ : ولايت فقيہ كا معني

سبق۱۶: وكالت و نظارت فقيہ كے مقابلہ ميں انتصابى ولايت

سبق ۱۷ _۱۸: ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ

سبق ۱۹ : ولايت فقيہ ايك كلامى مسئلہ ہے يا فقہي؟

سبق ۲۰،۲۱،۲۲ : ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ

سبق ۲۳ : ولايت فقيہ پر عقلى دليل

۱۳۹

تمہيد :

پہلے گذرچكاہے كہ شيعوں كا سياسى تفكر'' نظريہ انتصاب ''پر استوار ہے اور شيعہ معتقدہيں كہ ائمہ معصومين كى امامت اور ولايت خدا كى طرف سے ہے اور اس كا اعلان خود رسول خدا (ص) نے فرمايا ہے _ اہم سوال جو زير بحث ہے وہ يہ ہے كہ كيا زمانہ غيبت ميں فقہاء عادل كو ولايت عامہ اور ائمہ معصومين كى نيابت حاصل ہے ؟ مذكورہ باب اسى اساسى سوال كى تحقيق كے متعلق ہے _

اس باب ميں ابتداً ولايت فقيہ كا معنى واضح كيا جائے گا اور محل نزاع پر عميق نظر ڈالى جائے گى _ تا كہ اس كے متعلق جو غلط فہمياں ہيں انہيں دور كيا جاسكے_

اس كے بعد علمائ شيعہ كے اقوال اور ولايت فقيہ كى تاريخ پر ايك نگاہ ڈاليں گے _ ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ كى تحقيق اس باب كى اہم ترين بحث ہے اور اس سے پہلے يہ واضح كريں گے كہ مسئلہ ولايت فقيہ ايك كلامى بحث ہے يا فقہي؟ اس مسئلہ كا جواب براہ راست ان ادلّہ پر اثر انداز ہوتاہے جو ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے قائم كى گئي ہيں _ مسئلہ ولايت فقيہ كو كلامى سمجھنا يا كم از كم يہ اعتقاد ركھنا كہ مسئلہ فقہى ہونے كے ساتھ ساتھ اس ميں كلامى پہلو بھى ہے اس سے ولايت فقيہ پر عقلى ادلہ پيش كرنے كى راہ ہموار ہوجائے گي_

۱۴۰