اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139083 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

٢۔ وضو کو قصد قربت کے ساتھ انجام دینا چاہئے یعنی خدائے تعالیٰ کے حکم کو بجالانے کے لئے وضو انجام دے۔(١)

٣۔ضروری نہیں کہ نیت کو زبان پر لا ئے ،یا اپنے دل ہی دل میں (کلمات نیت) دہرائے،بلکہ اسی قدر کافی ہے کہ جانتاہو کہ وضو انجام دے رہا ہے، اس طرح کہ اگر اس سے پوچھا جائے کہ کیا کررہا ہے؟ تو جواب میں کہے کہ وضو کررہا ہوں ۔(٢)

مسئلہ: اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہوچکا ہوکہ و ضو کرنے کی صورت میں پوری نماز یا نماز کا ایک حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھا جائے گا تو اس صورت میں تیمم کرنا چاہئے(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل،ص ٣١شرط ہشتم.

(٢)توضیح المسائل،م ٢٨٢.

(٣) توضیح المسائل، م ٠ ٢٨.

۶۱

سبق: ٨ کا خلاصہ

١۔وضو کاپانی پاک ، مطلق اور مباح ہونا چاہئے ، لہٰذا نجس ومضاف پانی سے وضو کرنا ہر حالت میں باطل ہے، چاہے پانی کے مضاف یا نجس ہونے کے بارے میں علم رکھتا ہویانہیں۔

٢۔ غصبی پانی سے وضو کرنا باطل ہے، البتہ اگر جانتا ہو کہ پانی غصبی ہے۔

٣۔ اگر وضو کے اعضا نجس ہوں تو وضو باطل ہے ،اسی طرح اگر وضو کے اعضاپر کوئی مانع ہوکہ پانی اعضا تک نہ پہنچ پائے تو وضو باطل ہے۔

٤۔ اگر وضو میں ترتیب وموالات کا لحاظ نہ رکھا جائے تو وضو باطل ہے۔

٥۔ جو خود وضو کرسکتا ہو اسے دھونے یا مسح کرنے میں کسی دوسرے کی مدد نہیں لینی چاہئے

٦۔ وضو کو خدائے تعالیٰ کا حکم بجالانے کی نیت سے انجام دینا چاہئے۔

٧۔ اگر انسان وضو کرنے کی صورت میں اسکی پوری نماز یا نماز کا ایک حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھا جائے گا تو اس صورت میں تیمم کرنا چاہئے۔

۶۲

سوالات:

١۔ مختلف اداروں کے وضوخانوں میں وہاں کے ملازموں کے علاوہ دوسرے لوگوں کا وضو کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟

٢۔ پانی کے ان منابع یا پانی سرد کرنے کی مشینوںسے جو پینے کے پانی کے لئے مخصوص ہوں، وضو کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟

٣۔ جوخود وضو انجام دینے سے معذور ہو، اس کا فرض کیا ہے؟

٤۔ وضو میں قصد قربت کی وضاحت کیجئے۔

٥۔ وضوکی ترتیب وموالات میں کیا فرق ہے؟

۶۳

سبق نمبر٩

وضوء جبیرہ

'' جبیرہ'' کی تعریف:جودوائی زخم پر لگائی جاتی ہے یا جوچیز مرہم پٹی کے عنوان سے زخم پر باندھی جاتی ہے، اسے'' جبیرہ'' کہتے ہیں ۔

١۔ اگر کسی کے اعضائے وضو پر زخم یا شکستگی ہو اور معمول کے مطابق وضو کرسکتاہو، تواسے معمول کے مطابق وضو کرنا چاہئے،(١)

مثلاً:

الف۔ زخم کھلاہے اور پانی اس کے لئے مضرنہیں ہے۔

ب۔ زخم پر مرہم پٹی لگی ہے لیکن کھولنا ممکن ہے اور پانی مضر نہیں ہے ۔

٢*خم چہرے پر یا ہاتھوں میں ہواور کھلا ہو تو اس پر پانی ڈالنا مضر ہو*، اگر اس کے اطراف کو دھویا جائے تو کافی ہے۔(٢)

____________________

(١)توضیح المسائل م ٣٢٤۔ ٣٢٥

(٢) توضیح المسائل م ٤ ٣٢۔ ٥ ٣٢.

*(اراکی) اگر تر ہاتھ اس پر کھینچنا مضر نہ ہوتو ہاتھ اس پر کھینچ لیں اور اگر ممکن نہ ہو تو ایک پاک کپڑا اس پر رکھ کر ترہاتھ اس پر کھنچ لیں اور اگر اس قدربھی مضر ہو یازخم نجس ہو اور پانی نہیں ڈال سکتا ہو تو اس صورت میں زخم کے اطراف کو اوپرسے نیچے کی طرف دھولیں اور احتیاط کے طور پر ایک تیمم بھی انجام دے (گلپائیگانی) تر ہاتھ کو اس پر کھینچ لے اور اگر یہ بھی مضر ہوتو یا زخم نجس ہواور پانی ڈال نہ سکتے ہوں تو اس صورت میں زخم کے ا طراف کو اوپرسے نیچے کی طرف دھولیں تو کافی ہے. (مسئلہ ٣٣١)

۶۴

٣۔ اگر زخم یا شکستگی سرکے اگلے حصے یا پائوں کے اوپروالے حصہ (مسح کی جگہ) میں ہو، اور زخم کھلا ہو، اگر مسح نہ کرسکے ، تو ایک کپڑا اس پر رکھ کر ہاتھ میں موجود وضو کی باقی ماندہ رطوبت سے کپڑے پر مسح کریںز۔(١)

وضوء جبیرہ انجام دینے کا طریقہ:

وضوء جبیرہ میں وضو کی وہ جگہیں جن کو دھونا یا مسح کرنا ممکن ہو، معمول کے مطابق دھویا یامسح کیا جائے، اور جن مواقع پر یہ ممکن نہ ہو، تو ترہاتھ کو جبیرہ پر کھنچ لیں۔

چندمسائل:

١۔ اگر جبیرہ نے حد معمول سے بیشتر زخم کے اطراف کو ڈھانپ لیا ہو اور اسے ہٹانا ممکن نہ ہو٭٭ تو وضو جبیرہ کرنے کے بعد ایک تیمم بھی انجام دینا چاہئے۔(٢)

٢۔ جو شخص یہ نہ جانتاہوکہ اس کا فریضہ وضوء جبیرہ ہے یا تیمم احتیاط واجب کی بناپر اسے دونوں (یعنی وضوء جبیرہ وتیمم)انجام دینا چاہئے۔(٣)

٣۔ اگر جبیرہ نے پورے چہرے یا ایک ہاتھ کو پورے طور پرڈھانپ لیا ہوتو وضوء جبیرہ کافی ہے۔٭٭٭

____________________

(١) توضیح المسائل ، م ٣٢٦

(٢)توضیح المسائل۔م ٣٣٥.

(٣) توضیح المسائل۔م ٣٤٣

*(گلپائیگانی) احتیاط کی بناپر لازم ہے کہ تیمم بھی کریں ( خوئی) تیمم کرنا چاہئے، اور احتیاط کے طور پر وضوجبیرہ بھی کرے. (مسئلہ ٣٣٢)

٭٭(خوئی) تیمم کرنا چاہئے، مگریہ کہ جبیرہ تیمم کے مواقع پر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو کرے اور پھر تیمم بھی کرے (مسئلہ ٣٤١).

٭٭٭ (خوئی) احتیاط کی بناء پر تیمم کرے اور وضوء جبیرہ بھی کرے، (گلپائیگانی) وضوء جبیرہ کرے اور احتیاط واجب کی بناء پر اگرتمام یا بعض تیمم کے مواقع پوشیدہ نہ ہوں تو تیمم بھی کرے.(مسئلہ ٣٣٦)

۶۵

٤۔ جس شخص کی ہتھیلی اور انگلیوں پر جبیرہ (مرہم پٹی)ہو اور وضو کے وقت اس پر ترہاتھ کھینچاہو، تو سراور پا ئوں کو بھی اسی رطوبت سے مسح کرسکتا ہے (ز)یا وضو کی دوسری جگہوں سے رطوبت لے سکتا ہے۔(١)

٥۔اگر چہرہ اور ہاتھ پر چند جبیرہ ہوں،تو ان کی درمیان والی جگہ کو دھونا چاہئے، یا اگر (چند) جبیرہ سر اور پائوں کے اوپر والے حصے میں ہوں تو ان کے درمیان والی جگہوں پر مسح کرنا چاہئے، اور جن جگہوں پرجبیرہ ہے ان پر جبیرہ کے حکم پر عمل کرے۔(٢)

جن چیزوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے

١۔ نماز پڑھنے کے لئے(نماز میت کے علاوہ)

٢۔ طواف خانہ کعبہ کے لئے ۔

٣۔بدن کے کسی بھی حصے کی کسی جگہ سے قرآن مجید کی لکھائی اور خدا کے نام کو مس کرنے کے لئے۔(٣) ٭٭

چند مسائل:

١۔اگر نماز اور طواف وضو کے بغیر انجام دے جائیں تو باطل ہیں۔

٢۔ بے وضو شخص، اپنے بدن کے کسی حصے کو درج ذیل تحریروں سے مس نہیں کرسکتاہے:

* قرآن مجید کی تحریر، لیکن اس کے ترجمہ کے بارے میں کوئی حرج نہیں ۔

*خدا کا نام، جس زبان میں بھی لکھا گیا، جیسے: اللہ، '' خدا'' '' God ''۔

*پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا اسم گرامی(احتیاط واجب کی بناء پر)

*ائمہ اطہار علیہم السلام کے اسماء گرامی (احتیاط واجب کی بناء پر)

____________________

(١)توضیح المسائل م٣٣٢.

(٢)توضیح المسائل م٣٣٤.

(٣)توضیح المسائل م٣١٦.

*(خوئی ، گلپائیگانی) سر اور پائوں کو اسی رطوبت سے مسح کرے (مسئلہ ٣٣٨)

٭٭اس مسئلہ کی تفصیل ٤٤ویں سبق میں آئے گی۔

۶۶

*حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اسم گرامی(١) (احتیاط واجب کی بناء پر)

درج ذیل کاموں کے لئے وضو کرنا مستحب ہے:

*مسجد اور ائمہ (ع) کے حرم جانے کے لئے۔

*قرآن پڑھنے کے لئے۔

*قرآن مجید کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے۔

*قرآن مجید کی جلد یا حاشیہ کو بدن کے کسی حصے سے مس کرنے کے لئے۔

*اہل قبور کی زیارت کے لئے(٢)

وضو کیسے باطل ہوتا ہے؟

١۔انسان سے پیشاب،یا پاخانہ یا ریح خارج ہونا۔

٢۔نیند،جب کان نہ سن سکیں اور آنکھیں نہ دیکھ سکیں۔

٣۔وہ چیزیں جو عقل کو ختم کردیتی ہیں،جیسے:دیوانگی،مستی اور بیہوشی۔

٤۔عورتوں کا استحاضہ وغیرہ۔*

٥۔جوچیز غسل کا سبب بن جاتی ہے،جیسے جنابت،حیض، مس میت وغیرہ۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل م٣١٧، ٣١٩.

(٢)توضیح المسائل م٣٢٢.

(٣)توضیح المسائل م ٢٢٣

*یہ مسئلہ خواتین سے مربوط ہے، اس کی تفصیلات کے لئے توضیح المسائل مسئلہ ٣٣٩ تا ٥٢٠ دیکھئے.

۶۷

سبق ٩ کا خلاصہ

١۔جس شخص کے اعضائے وضو پر زخم،پھوڑا یا شکستگی ہو لیکن معمول کے مطابق وضو کرسکتا ہے تو اسے معمول کے مطابق وضو کرنا چاہئے۔

٢۔جو شخص اعضائے وضو کو نہ دھو سکے یا پانی کو ان پر نہ ڈال سکتا ہو تو اس کے لئے زخم کے اطراف کو دھونا ہی کافی ہے ، اور تیمم ضروری نہیں ہے۔

٣۔اگر زخم یا چوٹ پر پٹی بندھی ہو،لیکن اس کو کھولنا ممکن ہو(مشکل نہ ہو)تو جبیرہ کو کھول کر معمول کے مطابق وضو کرے۔

٤۔جب زخم بندھا ہو اور پانی اس کے لئے مضر ہو تو اسے کھولنے کی ضرورت نہیں اگر چہ کھولنا ممکن بھی ہو۔

٥۔نماز،طواف کعبہ،بدن کے کسی حصہ کو قرآن مجید کے خطوط اور خدا کے نام سے مس کرنے کے لئے وضو کرنا ضروری ہے۔

٦۔بدن کے کسی حصے کو وضو کے بغیر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ اطہار اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی سے مس کرنا احتیاط واجب کی بناء پر جائز نہیں ہے۔

٧۔پیشاب اور پاخانہ کا نکلنا وضو کو باطل کردیتا ہے۔

٨۔نیند،دیوانگی،بیہوشی،مستی،جنابت،حیض اور مس میت وضو کو باطل کردیتے ہیں۔

۶۸

سوالات:

١۔جس شخص کے پائوں کی تین انگلیوں پر جبیرہ (مرہم پٹی)ہو تو وضو کے سلسلے میں اس کا کیا فریضہ ہے؟

٢۔وضوء جبیرہ انجام دینے کا طریقہ مثال کے ساتھ بیان کیجئے؟

٤۔کیا جبیرہ پر موجود رطوبت سے مسح کیا جاسکتا ہے؟

٤۔اگر جبیرہ نجس ہو اور اسے ہٹانا بھی ممکن نہ ہو تو فریضہ کیا ہے؟

٥۔کیا اونگھنا وضو کو باطل کردیتا ہے؟

٦۔ایک شخص نے میت کو ہاتھ لگادیا تو کیا اس کا وضو باطل ہوجائے گا؟

۶۹

سبق نمبر١٠

غسل

بعض اوقات نماز (اور ہر وہ کام،جس کے لئے وضو لازمی ہے)کے لئے غسل کرنا چاہئے، یعنی حکم خدا کو بجالانے کے لئے تمام بدن کو دھونا، اب ہم غسل کے مواقع اور اس کے طریقے کو بیان کرتے ہیں:

واجب غسلوں کی قسمیں:

مردوںاور عورتوں کے درمیان مشترک

١۔جنابت

٢۔مس میت

٣۔میت

عورتوں سے مخصوص

١۔حیض

٢۔استحاضہ

٣۔نفاس

غسل کی تعریف وتقسیم کے بعد ذیل میں واجب غسل کے مسائل بیان کریں گے:

غسل جنابت:

١۔انسان کیسے مجنب ہوتا ہے؟

جنابت کے اسباب:

١۔منی کا نکلنا

کم ہو یا زیادہ

سوتے میں ہو یا جاگتے میں

۷۰

٢۔جماع

حلال طریقہ سے ہو یا حرام منی نکل آئے یا نہ نکلے(١)

٢۔اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن باہر نہ آئے تو جنابت کا سبب نہیں ہوتا۔(٢)

٣۔جو شخص یہ جانتا ہو کہ منی اس سے نکلی ہے یا یہ جانتا ہو کہ جو چیز باہر آئی ہے وہ منی ہے، تو وہ مجنب سمجھا جائے گااور اسے ایسی صورت میں غسل کرنا چاہئے۔(٣)

٤۔جو شخص یہ نہیں جانتا کہ جو چیز اس سے نکلی ہے،وہ منی ہے یا نہیں، تومنی کی علامت ہونے کی صورت میں مجنب ہے ورنہ حکم جنابت نہیں ہے۔(٤)

٥۔منی کی علامتیں:(٥)

*شہوت کے ساتھ نکلے ۔

*دبائو اور اچھل کر نکلے۔

____________________

(١)تحریر الوسیلہج١ص٣٦.

(٢)تحریر الوسیلہ ج١ص٣٦ ، م ١.

(٣)تحریر الوسیلہ ج١ص١٣٦۔العروة الوثقیٰ ج١ص٣٧٨.

(٤)تحریر الوسیلہ ج١ص١٣٦۔ العروة الوثقیٰ ج١ص٣٧٨.

(٥)تحریر الوسیلہ ج١ص١٣٦۔العروة الوثقیٰ ج١ص٣٧٨.

۷۱

*باہر آنے کے بعد بدن سست پڑے۔ *

اس لحاظ سے اگر کسی سے کوئی رطوبت نکلے اور نہ جانتا ہو کہ یہ منی ہے یا نہ،تو مذکورہ تما م علامتوں کے موجود ہونے کی صورت میں وہ مجنب مانا جائے گا، ورنہ مجنب نہیں ہے، چنانچہ اگر ان علامتوںمیں سے کوئی ایک علامت نہ پائی جاتی ہو اور بقیہ تمام علامتیں موجود ہوں تب بھی وہ مجنب نہیں مانا جائے گا،غیر از عورت اور بیمار کے،ان کے لئے صرف شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا کافی ہے۔ ٭٭

٦۔مستحب ہے انسان منی کے نکلنے کے بعد پیشاب کرے اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد کوئی رطوبت اس سے نکلے،اور نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا نہیں تو وہ منی کے حکم میں ہے۔(١)

وہ کام جو مجنب پر حرام ہیں:(٢)

*قرآن مجید کی لکھائی،خداوندعالم کے نام،احتیاط واجب کے طور پر پیغمبروں،ائمہ اطہار اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی کو بدن کے کسی حصہ سے چھونا ۔ ٭٭٭

مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں داخل ہونا،اگر چہ ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل بھی جائے۔

*مسجد میں ٹھہرنا۔

*مسجد میں کسی چیز کو رکھنا اگر چہ باہر سے ہی ہو۔ ٭٭٭*

____________________

(١)توضیح المسائل م٣٤٨.

(٢)تحریر الوسیلہ ج١ص٣٩٣٨.

*گلپائیگانی:اگر شہوت کے ساتھ اچھل کر باہر آئے یا اچھل کر باہر آنے کے بعد بدن سست پڑے،تو یہ رطوبت حکم منی میں ہے۔

٭٭خوئی اگر شہوت کے ساتھ باہر آئے اور بدن سست پڑے، تو منی کے حکم میں ہے(مسئلہ٣٥٢)

٭٭٭(خوئی)پیغمبروں اور ائمہ علیہم السلام کے نام کو چھونا بھی حرام ہے۔

٭٭٭*(اراکی)اگر توقف نہ ہو تو کوئی چیز مسجد میں رکھنے میں حرج نہیں ہے۔(خوئی)کسی چیز کو اٹھانے کے لئے داخل ہونا بھی حرام ہے۔(مسئلہ٣٥٢)۔

۷۲

*قرآن مجید کے ان سوروں کا پڑھنا،جن میں واجب سجدہ ہے،حتی ایک کلمہ بھی پڑھنا حرام ہے۔ *

*ائمہ علیہم السلام کے حرم میں توقف کرنا۔(احتیاط واجب کی بنا پر)۔ ٭٭

قرآن مجید کے وہ سورے جن میں واجب سجدہ ہیں:

(١)٣٢واں سورہ۔سجدہ۔

(٢)٤١واں سورہ۔فصلت۔

(٣)٥٣واں سورہ۔نجم۔

(٤)٩٦واں سورہ۔ علق۔

چند مسائل:

*اگر شخص مجنب مسجد کے ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے سے خارج ہوجائے(عبور توقف کے بغیر)تو کوئی حرج نہیں ہے، البتہ مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کیونکہ ان کے درمیان سے گزرنا بھی جائز نہیں(١)

اگر کسی کے گھر میں نماز کے لئے ایک کمرہ یا جگہ معین ہو(اسی طرح دفتروں اور اداروں میں)تو وہ جگہ حکم مسجد میں شمار نہیں ہوگی۔(٢)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ ج ١ص٣٩٣٨.

(٢)العروة الوثقیٰ ج١ص٢٨٨م٣.

*گلپائیگانی،خوئی)صرف آیات سجدہ کا پڑھنا حرام ہے (مسئلہ٣٦١).

٭٭(اراکی)اماموں کے حرم میں بھی جنابت کی حالت میں توقف کرنا حرام ہے. (مسئلہ ٣٥٢)

۷۳

سبق ١٠ کا خلاصہ:

١۔ واجب غسل دو قسم کے ہیں:

الف:مر د اور عورتوں میں مشترک ۔

ب:عورتوں سے مخصوص

٢۔اگر انسان کی منی نکل آئے یا ہمبستری کرے تو مجنب ہوجاتا ہے۔

٣۔جو شخص جانتا ہوکہ مجنب ہوگیا ہے تو اس کو چاہئے کہ غسل بجالائے ،اور جو نہیں جانتا کہ مجنب ہوا ہے یا نہیں؟تواس پر غسل واجب نہیں ہے۔

٤۔منی کے علامتیں حسب ذیل ہیں:

*شہوت کے ساتھ نکلتی ہے۔

*دبائو اور اچھل کر نکلتی ہے۔

*اس کے بعد بدن سست پڑجاتا ہے ۔

٥۔مجنب پر حسب ذیل امور حرام ہیں:

*قرآن کی لکھائی،خدا، پیغمبروں،اور ائمہ اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہم اجمعین کے ناموں کو مس کرنا۔

*مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں داخل ہونا نیز دیگر مساجد میں توقف۔

*کوئی چیز مسجد میں رکھنا۔

*قرآن مجید کے ان سوروں کا پڑھنا جن میں واجب سجدے ہیں ۔

٦۔مساجد سے عبور کرنا،اگر توقف نہ کریں بلکہ ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل آئیں تو کوئی حرج نہیں ،صرف مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں عبور بھی جائز نہیں ہے۔

۷۴

سوالات:

١۔ مرد اور عورتوں کے درمیان مشترک غسلوں کو بیان کیجئے؟

٢۔ایک شخص نیند سے بیدار ہونے کے بعد اپنے لباس میں ایک رطوبت مشاہدہ کرتا ہے لیکن جتنی بھی فکر کی، منی کی علامتیں نہیں پاتا ہے، تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٣۔شخص مجنب کا امام زادوں کے حرم میں داخل ہونے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

٤۔کیا شخص مجنب،فوجی چھاؤنیوں، دفتروں اور اداروں کے نماز خانوں میں توقف کرسکتا ہے؟

۷۵

سبق نمبر١١

غسل کرنے کا طریقہ

غسل میں پورا بدن اور سروگردن دھونا چاہئے،خواہ غسل واجب ہو مثل جنابت یا مستحب مثل غسل جمعہ،دوسرے لفظوں میں تمام غسل کرنے میں آپس میں کسی قسم کا فرق نہیں رکھتے، صرف نیت میں فرق ہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل م٣٦٨٣٦٧٣٦١.

۷۶

وضاحت:

غسل دوطریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے:

''ترتیبی''اور ''ارتماسی''۔

غسل ترتیبی میں پہلے سروگردن کو دھویاجاتا ہے،پھر بدن کا دایاں نصف حصہ اور اس کے بعد بدن کا بایاں نصف حصہ دھویا جاتا ہے۔

ارتماسی غسل میں،پورے بدن کو ایک دفعہ پانی میں ڈبو دیا جاتا ہے، لہٰذا غسل ارتماسی اسی صورت میں ممکن ہے جب اتنا پانی موجود ہو جس میں پورا بدن پانی کے نیچے ڈوب سکے۔

غسل صحیح ہونے کے شرائط:

١۔موالات کے علاوہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے بارے میں بیان ہوئے،غسل کے صحیح ہونے میں بھی شرط ہیں،اور ضروری نہیں ہے کہ بدن کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے۔(١)

٢۔جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں تو وہ تمام غسلوں کی نیت سے صرف ایک غسل بجالاسکتا ہے۔(٢)

٣۔جو شخص غسل جنابت بجالائے،اسے نماز کے لئے وضو نہیں کرنا چاہئے، لیکن دوسرے غسلوں سے نماز نہیں پڑھی جاسکتی بلکہ وضو کرنا ضروری ہے۔(٣) *

____________________

(١)توضیح المسائلم٣٨٠.

(٢)توضیح المسائلم٣٨٩.

(٣)توضیح المسائلم٣٩١.

*(خوئی)غسل استحاضۂ متوسطہ اور مستحب غسلوں کے علاوہ دوسرے واجب غسلوں کے بعد بھی وضو کے بغیر نماز پڑھی جاسکتی ہے،اگر چہ احتیاط مستحب ہے کہ وضو بھی کیا جائے(مسئلہ٣٩٧)۔

۷۷

٤۔غسل ارتماسی میں پورا بدن پاک ہونا چاہئے،لیکن غسل ترتیبی میں پورے بدن کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے،اور اگر ہر حصہ کو غسل سے پہلے پاک کیا جائے تو کافی ہے۔(١) *

٥۔غسل جبیرہ،وضو ء جبیرہ کی مانند ہے،لیکن احتیاط واجب کی بناء پر اسے ترتیبی صورت میں بجالانا چاہئے۔(٢) ٭٭

٦۔واجب روزے رکھنے والے،روزے کی حالت میں غسل ارتماسی نہیں کرسکتا،کیونکہ روزہ دار کو پورا سر پانی کے نیچے نہیں ڈبوناچاہئے،لیکن بھولے سے غسل ارتماسی انجام دیدے تو صحیح ہے۔(٣)

٧۔غسل میں ضروری نہیں کہ پورے بدن کو ہاتھ سے دھویا جائے،بلکہ غسل کی نیت سے پورے بدن تک پانی پہنچ جائے تو کافی ہے۔(٤)

غسل مس میت :

١۔اگر کوئی شخص اپنے بدن کے کسی ایکحصہ کو ایسے مردہ انسان سے مس کرے جو سرد ہوچکا ہو اور اسے ابھی غسل نہ دیا گیا ہو،تو اسے غسل مس میت کرنا چاہئے۔(٥)

٢۔درج ذیل مواقع پر مردہ انسان کے بدن کو مس کرنا غسل مس میت کا سبب نہیں بنتا:

*انسان میدان جہاد میں درجہ شہادت پر فائز ہوچکاہو اور میدان جہاد میں ہی جان دے چکا ہو۔* * *

____________________

(١)توضیح المسائلم٢٧٢.(٢)توضیح المسائل م٣٣٩.

(٣)توضیح المسائل م٣٧١. (٤)استفتاآت ج١ص٥٦س١١٧.(٥)توضیح المسائلم٥٢١.

*(خوئی)غسل ارتماسی یا ترتیبی میں قبل از غسل تمام بدن کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر پانی میں ڈبکی لگانے یا غسل کی نیت سے پانی ڈالنے سے بدن پاک ہوجائے تو غسل انجام پاجائے گا۔

* *(اراکی) احتیاط مستحب ہے کہ ترتیبی بجالائیں نہ ارتماسی، (خوئی) اسے ترتیبی بجالائیں (مسئلہ ٣٣٧) (گلپائیگانی) ترتیبی انجام دیں تو بہتر ہے، اگر چہ ارتماسی بھی صحیح ہے۔ (مسئلہ ٣٤٥)

* * * (خوئی)شہید کے بدن سے مس کرنے کی صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر غسل لازم ہے (العروة الوثقیٰ ج١، ص٣٩٠، م١١)

۷۸

*وہ مردہ انسان جس کا بدن گرم ہو اور ابھی سرد نہ ہوا ہو۔

*وہ مردہ انسان جسے غسل دیا گیا ہو۔(١)

٣۔غسل مس میت کو غسل جنابت کی طرح انجام دینا چاہئے،لیکن جس نے غسل مس میت کیا ہو،اور نماز پڑھنا چاہے تو اسے وضو بھی کرنا چاہئے۔(٢)

غسل میت:

١۔اگر کوئی مومن زاس دنیا سے چلا جائے،تو تمام مکلفین پر واجب ہے کہ اسے غسل دیں،کفن دیں،اس پر نماز پڑھیں اور پھر اسے دفن کریں، لیکن اگر اس کام کو بعض افراد انجام دے دیں تو دوسروں سے ساقط ہوجاتا ہے۔(٣)

٢۔میت کو درج ذیل تین غسل دینا واجب ہیں:

اول:سدر (بیری ) کے پانی سے۔

دوم:کافور کے پانی سے۔

سوم:خالص پانی سے۔(٤)

٣۔غسل میت،غسل جنابت کی طرح ہے،احتیاط واجب ہے کہ جب تک غسل ترتیبی ممکن ہو،میت کو غسل ارتماسی نہ دیں۔(٥)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ ج١ ص٦٣۔ توضیح المسائل م٥٢٢ و ٥٢٦۔ استفتاآتص٧٩. العروة الوثقیٰج١ص٣٩٠م١١.

(٢)توضیح المسائلم٥٣٠.

(٣)توضیح المسائلم٥٤٢.

(٤)توضیح المسائلم٥٥٠.

(٥)توضیح المسائلم٥٦٥.

*(تمام مراجع)کوئی مسلمان (مسئلہ٥٤٨).

۷۹

عورتوں کے مخصوص غسل:(حیض،نفاس و استحاضہ):

١۔عورت،بچے کی پیدائش پر جو خون دیکھتی ہے،اسے خون نفاس کہتے ہیں۔(١)

٢۔عورت،اپنی ماہانہ عادت کے دنوں میں جو خون دیکھتی ہے،اسے خون حیض کہتے ہیں۔(٢)

٣۔جب عورت خون حیض اور نفاس سے پاک ہوجائے تو نماز اور جن امور میں طہارت شرط ہے ان کے لئے غسل کرے۔(٣)

٤۔ایک اور خون جسے عورتیں دیکھتی ہیں،استحاضہ ہے اور بعض مواقع پر اس کے لئے بھی نماز اور جن امور میں طہارت شرط ہے اُن کے لئے غسل کرنا چاہئے۔(٤)

____________________

(١)توضیح المسائلم٥٠٨.

(٢)توضیح المسائلم٥٥.

(٣)توضیح المسائلم٤٤٦٥١٥.

(٤)توضیح المسائلم٣٩٦٣٩٥.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پندرہواں سبق:

ولايت فقيہ كا معني

لغوى لحاظ سے ولايت '' و _ ل _ ي'' سے ماخوذ ہے _ واو پر زبر اور زير دونوں پڑھے جاتے ہيں _ اس كے ہم مادہ ديگر كلمات يہ ہيں _ توليت ، موالات ، تولّى ، وليّ، متولّي، استيلائ، ولائ، مولا، والى _

لغوى لحاظ سے ولايت كے متعدد معانى ہيں مثلاً نصرت ، مدد، امور غيركا متصدى ہونا اور سرپرستى وغيرہ_البتہ ان معانى ميں سے سرپرستى او رغير كے امور ميں تصرف ولايت فقيہ سے زيادہ مناسبت ركھتے ہيں_جو شخص كسى منصب يا امر كا حامل ہو اسے اس امر كا سرپرست، مولى اورولى كہا جاتاہے، بنابريں لفظ ولايت اور اس كے ہم مادہ الفاظ يعنى ولي، توليت ، متولى اور والى سرپرستى اور تصرف كے معنى پر دلالت كرتے ہيں اس قسم كے كلمات كسى دوسرے كى سرپرستى اور اس كے امور كى ديكھ بھال كيلئے استعمال ہوتے ہيں اور بتلاتے ہيں كہ ولى اور مولا دوسروں كى نسبت اس تصرف اور سرپرستى كے زيادہ سزاوار ہيںاور ولى و مولا كى ولايت كے ہوتے ہوئے دوسرے افراد اس شخص كى سرپرستى اور اس كے امور ميں تصرف كا حق نہيں ركھتے(۱)

____________________

۱) مولى اور ولى كے معانى كى مزيد تفصيل كيلئے كتاب الغدير ، جلد۱، صفحہ ۶۰۹ ، ۶۴۹ اور فيض القدير ،صفحہ ۳۷۵_ ۴۴۸ كى طرف رجوع كيجئے _

۱۴۱

قرآن كريم ميں جو الفاظ ان معانى ميں استعمال ہوئے ہيں _ وہ اللہ تعالى ، رسول -(ص) اور امام كيلئے استعمال ہوئے ہيں _

( '' إنَّمَا وَليُّكُمُ الله ُ وَرَسُولُهُ وَالَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم رَاكعُونَ'' ) (۱)

سواے اس كے نہيں كہ تمہارا ولى خدا ، اس كا رسول اور وہ مومن ہيں جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوة ديتے ہيں _

و ، ل ، ى كے مشتقات كے معانى اور قرآن و روايات ميں ان كے استعمال كى تفصيلى بحث ہميں ہمارى اصلى بحث سے دور كردے گى ، كيونكہ ولايت اور اس سے ملتے جلتے الفاظ يعنى والى اور ولى و غيرہ كا اصطلاحى معنى واضح اور روشن ہے_

جب ہم كہتے ہيں : كيا رسول خدا (ص) نے كسى كو مسلمانوں كى ولايت كيلئے منصوب كيا ہے ؟ يا پوچھتے ہيں : كيا زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل و لايت ركھتا ہے ؟ واضح ہے كہ اس سے ہمارى مراد دوستي، محبت اور نصرت وغيرہ نہيں ہوتي_ بلكہ اس سے مراد اسلامى معاشرہ كے امور كى سرپرستى ہوتى ہے _ ولايت فقيہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ عادل اسلامى معاشرہ كى سرپرستى اور حاكميت كا حقدار ہے اور اس شرعى اور اجتماعى منصب كيلئے منتخبكيا گيا ہے _

ولايت كى حقيقت اور ماہيت

ولايت فقيہ كى ادلہ كے ذريعہ فقيہ عادل كيلئے جو ولايت ثابت كى جاتى ہے وہ شرعى اعتبارات اور مجعولات ميں سے ہے _ فقاہت ، عدالت اور شجاعت جيسى صفات تكوينى ہيں جبكہ رياست اور ملكيت جيسے امور اعتباري

____________________

۱) سورہ مائدہ آيت ۵۵_

۱۴۲

اور وضعى ہيں _ اعتبارى اور وضعى امور ان امور كو كہتے ہيں جو جعل اور قرار دينے سے وجود ميں آتے ہيں يعنى بذات خود خارج ميں ان كااپنا وجود نہيں ہوتا_ بلكہ بنانے والے كے بنانے اور قرار دينے والے كے قرار دينے سے وجود ميں آتے ہيں _ لہذا اگر قرار دينے والا شارع مقدس ہو تو انہيں ''اعتبارات شرعي''كہتے ہيں اورا گر عقلاء اور عرف عام ہوں تو پھر انہيں ''اعتبارات عقلائي ''كہا جاتاہے_ (۱)

جو شخص فقيہ بنتاہے يا وہ شخص جو ملكہ عدالت اور تقوى كو حاصل كرليتاہے وہ ايك حقيقت اور ''تكوينى صفت'' كا حامل ہوجاتاہے _ليكن اگر كسى شخص كو كسى منصب پر فائز كيا گيا ہے اوراس كے لئے ايك حاكميت قرار دى گئي ہے تو يہ ايك حقيقى اور تكوينى صفت نہيں ہے بلكہ ايك قرار داد اور ''عقلائي اعتبار'' ہے ''امر اعتبارى ''اور'' امر تكوينى ''ميں يہ فرق ہے كہ '' امر اعتبارى '' كا وجود واضع اور قرار دادكرنے والوں كے ہاتھ ميں ہوتاہے_ ليكن ''تكوينى حقائق '' كسى بنانے والے يا قرار دينے والے كے ہاتھ ميں نہيں ہوتے كہ قرار كے بدلنے سے ان كا وجود ختم ہوجائے_

ولايت دو طرح كى ہوتى ہے _ تكوينى اور اعتبارى _ وہ ولايت جو فقيہ كو حاصل ہے اور ولايت فقيہ كى ادلہ سے جس كا اثبات ہوتاہے _'' ولايت اعتبارى ''ہے _ولايت تكوينى ايك فضيلت اور معنوى و روحانى كمال ہے _رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كو دونوں قسم كى ولايت حاصل ہے آپ عصمت، عبوديت اور علم الہى كے اعلى مراتب پر فائز ہونے اور خليفہ خدا ہونے كى وجہ سے ولايت تكوينيہ اور الہيہ كے حامل محسوب ہوتے ہيں جبكہ مسلمانوں كى رہبرى اور قيادت كى وجہ سے سياسى ولايت ركھتے ہيں جو كہ ''ولايت اعتباري''ہے _ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں :

____________________

۱) وہ حاكميت جس كا ايك قوم وقبيلہ اپنے سردار كيلئے اور ايك معاشرہ اپنے حاكم كيلئے قائل ہوتاہے ''اعتبارات عقلائي'' كے نمونے ہيں _ اسى طرح ٹريفك كے قوانين كہ سرخ لائٹ پر ركنا ہے يا يہ سڑك يك طرفہ ہے يہ تمام اعتبارات و مجعولات عقلائي كى مثاليں ہيں_

۱۴۳

جب ہم يہ كہتے ہيں كہ وہ ولايت جس كے رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين حامل تھے وہى ولايت زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل كو حاصل ہے تو كوئي ہرگز يہ نہ سمجھے كہ فقہاء كو وہى مقام حاصل ہے جو رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كو حاصل تھا، كيونكہ يہاں بات مقام كى نہيں ہے بلكہ فريضے اور ذمہ دارى كى ہے_ ولايت يعنى ''حكومت اورملك ميں شرعى قوانين كا اجرا'' ايك سنگين اور اہم ذمہ دارى ہے _ نہ يہ كہ كسى شخص كو ايك عام انسان سے ہٹ كر كوئي اعلى و ارفع مقام ديا جارہا ہے_ دوسرے لفظوں ميں مورد بحث ولايت يعنى حكومت اور اس كا انتظام بہت سے افراد كے تصور كے برعكس كوئي مقام نہيں ہے بلكہ ايك بھارى اور عظيم ذمہ دارى ہے ''ولايت فقيہ '' ايك ''امر اعتبارى عقلائي'' ہے _ لہذا جعل كے سوا كچھ بھى نہيں ہے (۱) _

ياد رہے كہ اس اعتبار سے كہ ولايت فقيہہ ، منصب حكومت اور معاشرتى نظام كے چلانے كو فقيہ كى طرف منسوب كرتى ہے_ ولايت فقيہ ايك'' اعتبار عقلائي ''ہے كيونكہ تمام معاشروں ميں ايسى قرارداد ہوتى ہے اور كچھ افراد كيلئے يہ منصب وضع كيا جاتاہے_ دوسرى طرف چونكہ يہ منصب اور اعتبار روايات معصومين اور شرعى ادلّہ سے فقيہ كو حاصل ہے اس لئے يہ ايك شرعى اعتبار اور منصب بھى ہے _ پس اصل ولايت ايك ''اعتبار عقلائي''ہے اور فقيہ كيلئے شارع مقدس كى طرف اس كى تائيد ايك ''اعتبار شرعى ''ہے _

اسلامى فقہ ميں دوطرح كى ولايت

ولايت كے متعلق آيات اور روايات كو كلى طور پر دو قسموں ميں تقسيم كيا جاسكتاہے يا دقيق تعبير كے مطابق فقہ ميں دو قسم كى ولايت پائي جاتى ہے_ ايك ولايت كا تعلق مومنين كے امور كى سرپرستى سے ہے يہ وہى ولايت ہے جو رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومينكى طرف سے ''زمانہ غيبت'' ميں'' فقيہ عادل '' كو حاصل

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۴۰ ، ۴۱_

۱۴۴

ہے _ اس سبق كى ابتدا ء ميں جو آيت ذكر كى گئي ہے _ وہ اسى ولايت كى طرف اشارہ كرتى ہے _ دوسرى ولايت وہ ہے جس ميں ان افراد كى سرپرستى كى جاتى ہے جو فہم و شعور نہيں ركھتے يا اپنے امور انجام دينے سے قاصر ہيں يا موجود نہ ہونے كى وجہ سے اپنے حق سے فائدہ نہيں اٹھاسكتے _ لہذا ضرورى ہے كہ ان كى طرف سے ايك ولى اپنى صواب ديد كے تحت انمحجور، غائب اور بے بس افراد كے امور كى سرپرستى كرے _

باپ اور دادا كى اپنے كم سن، كم عقل اور ديوانے بچوں پر ولايت، مقتول كے اولياء كى ولايت اورميت كے ورثا كى ولايت تمام ا سى ولايت كى قسميں ہيں _ درج ذيل آيات اسى ولايت كى اقسام كى طرف اشارہ كررہى ہيں_

( ''و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا فلا يُسرف فى القتل'' ) (سورہ اسراء آيت۳۳)

جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس كے وارث كو ( قصاص كا) حق ديا ہے پس اسے چاہيے كہ قتل ميں زيادتى نہ كرے_

( ''فان كان الذى عليه الحق سفيهاً او ضعيفا او لا يستطيع ان يملّ هو فليملل وليه بالعدل'' ) (سورہ بقرہ آيت ۲۸۲)

اور اگر قرض لينے والا كم عقل يا معذور يا خود لكھوا نہ سكتا ہو تو اس كا سرپرست انصاف سے لكھوادے_

ان دو قسم كى ولايت كے درميان بنيادى فرق سے غفلت اور ان دونوں كو ايك ہى سمجھنے كى وجہ سے ولايت فقيہ كے بعض مخالفين ايك بڑى اور واضح غلطى كے مرتكب ہوئے ہيں _ وہ يہ سمجھنے لگے ہيں كہ ولايت فقيہ وہى محجور و قاصر افراد پر ولايت ہے اور ولايت فقيہ كا معنى يہ ہے كہ لوگ مجنون، بچے ، كم عقل اور محجور افراد كى طرح ايك سرپرست كے محتاج ہيں اور ان كيلئے ايك سرپرست كى ضرورت ہے_ لہذا ولايت فقيہ كا لازمہ لوگوں اور ان كے رشد و ارتكاء كى اہانت ہے _ آنے والے سبق ميں ہم اس غلط فہمى كا جواب ديں گے_

۱۴۵

خلاصہ

۱)ولايت كے متعدد معانى ہيں _ ولايت فقيہ سے جو معنى مراد ليا جاتاہے وہ ايك لغوى معنى يعنى سرپرستى اور تصرف كے ساتھ مطابقت ركھتاہے _

۲)ولايت فقيہ ''اعتبارات شرعى ''ميں سے ہے _

۳) معصومين '' ولايت اعتبارى ''كے علاوہ '' ولايت تكوينى ''كے بھى حامل ہيں جو كہ ايك كمال اور معنوى فضيلت ہے _

۴) فقہ ميں دو قسم كى ولايت پائي جاتى ہے_

الف:محجور و عاجز افراد پر ولايتب : مومنين كے اجتماعى امور كى سرپرستي

۵) وہ ولايت جو قرآن كريم ميں رسول خدا (ص) اور اولى الامر كيلئے ثابت ہے اور ان كى پيروى ميں فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے ولايت كى يہى دوسرى قسم ہے_

۶) ان دو قسم كى ولايت كے درميان اشتباہ اور دوسرى قسم كى ولايت كے وجود سے غفلت سبب بنى ہے كہ بعض افراد نے ولايت فقيہ كو اس ولايت كى قسم سمجھا ہے جو محجور اوربے بس افراد پر ہوتى ہے_

۱۴۶

سوالات:

۱) ولايت فقيہ كا اصطلاحى معنى ولايت كے كونسے لغوى معنى كے ساتھ مناسبت ركھتاہے ؟

۲)اس سے كيا مراد ہے كہ فقيہ عادل كى ولايت ايك'' امر اعتبارى ''ہے ؟

۳) ولايت تكوينى سے كيا مراد ہے ؟

۴) ولايت فقيہ اور ائمہ معصومين كى ولايت ميں كيا فرق ہے ؟

۵) محجور افراد پر ولايت سے كيا مراد ہے؟

۱۴۷

سولہواں سبق :

فقيہ كى وكالت اور نظارت كے مقابلہ ميں ولايت انتصابي

اس سبق كا مقصد اس امر كى مزيد وضاحت كرنا ہے كہ'' فقيہ كى ولايت انتصابى سے كيا مراد ہے''؟ اوران لوگوں كے اس نظريہ كے ساتھ اس كا كيا فرق ہے جو ''ولايت فقيہ'' كى بجائے ''وكالت فقيہ ''كے قا ئل ہيں يعنى فقيہ لوگوں كا وكيل ياوہ حكومتى امور پرنظارت كھنے والا ہے _ اس سے ولايت فقيہ كى بحث ميں محل نزاع كے واضح ہونے ميں مدد ملے گى ليكن اس بحث ميں داخل ہونے سے پہلےان غلط فہميوںكى طرف اشارہ كرديا جائے جو ولايت فقيہ كے معنى كے متعلق پائي جاتى ہيں _وہى غلط فہمى جس كى طرف گذشتہ سبق كے آخر ميں ہم اشارہ كرچكے ہيں _ فقيہ كى سياسى ولايت كے بعض مخالفين اس بات پر مصرہيں كہ ولايت فقيہ ميں ''ولايت'' كاوہ معنى كيا جائے جو دوسرے سياسى نظاموں ميں موجود سياسى اقتدار اور قانونى حاكميت سے بالكل مختلف ہے_ گويا اس نظام ميں سياسى اقتدار كى حقيقت مكمل طور پر دوسرے نظاموں كے سياسى اقتدار كى حقيقت سے مختلف ہے _اس فكر اور نظريہ كا منشاو سرچشمہ فقيہ كى ولايت سياسى اور اُس ولايت كو ايك ہى طرح كا قرار دينا ہے جو محجور اور بے بس افراد پرہوتى ہے _وہ يہ سمجھتے ہيں كہ مختلف فقہى ابواب ميں جس ولايت كا ذكر كيا جاتا

۱۴۸

ہے وہ ان موارد ميں ہوتى ہے جن ميں '' مولّى عليہ'' (جس پر ولايت ہو)محجور ،بے بس اور عاجز ہو پس ان لوگوں نے سياسى ولايت كو بھى اسى قسم كى ولايت خيال كيا ہے اور اس بات كے قائل ہوئے ہيں كہ فقيہ كى ولايت عامہ كا معنى يہ ہوا كہ معاشرہ كے افراد محجور وبے بس ہيں اور انھيں ايك ولى اور سرپرست كى ضرورت ہے_ لوگ رشد وتشخيص دينے سے قاصر ہيں اور اپنے امور ميں ايك سرپرست كے محتاج ہيں اس نظريہ كے حاميوں ميں سے ايك كہتے ہيں -:

ولايت بمعنى ''سرپرستي'' مفہوم اور ماہيت كے لحاظ سے حكومت اور سياسى حاكميت سے مختلف ہے كيونكہ ''ولايت'' وہ حق تصرف ہے جو ولى امر ''مولّى عليہ '' كے مخصوص مال اور حقوق ميں ركھتا ہے _وہ تصرفات جو ''مولّى عليہ '' عدم بلوغ و رشد اورشعور و عقل كى كمى يا ديوانگى كى وجہ سے اپنے حقوق اور اموال ميں نہيں كرسكتا _جبكہ حكومت يا سياسى حاكميت كا معنى ايك مملكت كوچلانا ہے _

اس قسم كے مطالب دوبنيادى نكات سے غفلت كى وجہ سے بيان كئے جاتے ہيں _

پہلا نكتہ يہ كہ فقہ ميں دو طرح كى ولايت پائي جاتى ہے _ايك وہ ولايت جو معاشرتى امور كى سرپرستى ہے كہ جس كا تعلق حكومت اور انتظامى امور سے ہے اور يہ ولايت اُس ولايت سے بالكل مختلف ہے جو محجور وقاصر افراد پر ہوتى ہے _ولايت كى يہ قسم قرآن كى رو سے رسولخدا (ص) اور اولى الامركيلئے ثابت ہے _كيا رسولخدا (ص) كا مسلمانوں كے ولى امر ہونے كا مطلب يہ ہے كہ صدر اسلام كے مسلمان محجوروعاجز تھے؟ اور اس دور كى ممتازاور سركردہ شخصيات ناقص تھيں ؟جيسا كہ كئي بار وضاحت كى گئي ہے كہ ولايت فقيہ وہى ائمہ معصومين كى ولايت كى ايك قسم ہے البتہ اس فرق كے ساتھ كہ ائمہ معصومين كى ولايت اس اعتبارى ولايت ميں منحصر نہيں ہے- بلكہ ائمہ معصومين مقامات معنوى اور تمام ترولايت و خلافت الہيہ كے بھى حامل

۱۴۹

ہيں _

دوسرانكتہ يہ كہ روايات كى روسے امام قيّم و سرپرست ہو تا ہے _ولايت اور امامت كے عظيم عہدہ كے فلسفہ كے متعلق فضل ابن شاذان امام رضا سے روايت نقل كرتے ہيں جس ميں امام كو دين خدا كے نگران اور قيّم،احكام الہى كے محافظ اور بدعتى و مفسد افراد كا مقابلہ كرنے والے كے طور پر متعارف كرواياگيا ہے _روايت كے الفاظ يہ ہيں :

''انه لولم يجعل لهم اماماً قيمّاً اميناً حافظاً مستودعاً ،لدرست الملّة وذهبت الدين وغيّرت السّنن ...فلولم يجعل لهم قيّماحافظاً لما جاء به الرسول (ص) لفسدوا'' (۱)

اگر خداوند متعال لوگوں كيلئے سرپرست، دين كا امين ، حفاظت كرنے والااور امانتوں كا نگران امام قرار نہ ديتا تو ملت كا نشان تك باقى نہ رہتا، دين ختم ہوجاتا اور سنتيں تبديل ہوجاتيں پس اگر خدا ،رسول اكرم (ص) كے لائے ہوئے دين كيلئے كسى كو سرپرست اور محافظ نہ بناتا تو لوگ اس دين كو تباہ كرديتے_

اس قسم كى روايات ميں موجود لفظ ''قيّم ''سے مراد وہ سرپرستى نہيں لى جا سكتى جو باپ اور ولى كو چھوٹے بچے يا كم شعور پر حاصل ہوتى ہے _كيونكہ قرآن اور روايات كى اصطلاح ميں'' قيّم ''اس چيز يا اس شخص كو كہتے ہيں جو خود بھى قائم ہو اور دوسروں كے قوام كا ذريعہ ہو_اسى لئے قرآن كريم ميں دين اور كتاب خدا كو اس صفت كے ساتھ متصف كيا گيا ہے _سورہ توبہ كى آيت ۳۶ ميں ارشاد ہو تاہے:

( ''ذلك الدين القيم '' ) يہى دين قيم ہے_

____________________

۱) بحارالانوار ج۶ ، صفحہ ۶۰ ، حديث ۱_

۱۵۰

سورہ روم كى آيت ۴۳ ميں ہے:

( ''فاقم وجهك للدّين القيّم ) ''

آپ اپنے رخ كو دين قيم كى طرف ركھيں_

سورہ بينہ كى آيت ۲ اور ۳ ميں ہے:

( ''رسولٌ من الله يتلوا صحفاً مطهّرة *فيها كتب قيّمة'' )

اللہ كى طرف سے رسول ہے جو پاكيزہ صحيفوں كى تلاوت كرتا ہے _ جن ميں كتب قيمة ہيں_

امام اور اسلامى معاشرہ كا سرپرست اس معنى ميں لوگوں كا قيّم ہے كہ وہ ان كيلئے مايہ انسجام اور زندگى كا سہارا ہو تا ہے _قرآن اور روايت ميں استعمال ہونے والے لفظ ''قيّم ''كو اس معنى ميں نہيں لياجاسكتا جو فقہى كتب ميں محجور وبے كس افراد كى سرپرستى كيلئے استعمال ہو تا ہے _بنابريں ولايت فقيہ كے منكرين كے اس گروہ كويہى غلط فہمى ہوئي ہے كہ انہوں نے فقيہ كى ولايت كو اسى قسم كى سرپرستى سمجھاہے جو محجور و قاصر افراد پرہو تى ہے(۱) _

ولايت انتصابى اور وكالت ونظارت ميں فرق

ولايت فقيہ كى بحث كا بنيادى اور اصلى محور يہ ہے كہ كيا ائمہ معصومين كى طرف سے فقيہہ عادل كو امت پر ولى نصب كيا گيا ہے ؟مسلم معاشرے كے سياسى اور اجتماعى امور كى ديكھ بھال، احكام كے اجرا اور امام معصوم كى نيابت كا اہم ترين فريضہ ادا كرنے كيلئے فقيہ كا امام كى طرف سے مقام ولايت پر منصوب ہونا درحقيقت ولايت فقيہ كى اصلى و بنيادى مباحث ميں سے ہے _''ولايت انتصابي'' كے معنى كى مزيد وضاحت كيلئے ضرورى ہے كہ ''ولايت انتخابي'' يا ''وكالت فقيہ'' سے اس كے فرق كى تحقيق كى جائے _جس طرح اس بات كى وضاحت بھى ضرورى ہے كہ'' ولايت فقيہ'' اور''نظارت فقيہ'' ميں كيا فرق ہے _

____________________

۱) مزيدتفصيل كيلئے كتاب'' حكومت ديني'' صفحہ۱۷۷تا۱۸۵كى طرف رجوع كيجئے_

۱۵۱

زمانہ غيبت ميں عادل اور جامع الشرائط فقيہ امام زمانہ(عجل اللہ فرجہ الشريف) كا نائب اور آپ كى طرف سے اسلامى معاشرہ كا منتظم و نگران ہو تا ہے _فقيہ عادل آپ كى طرف سے لوگوں پر ولايت ركھتا ہے يہ ''ولايت''،'' وكالت'' سے جدا ايك عہدہ ہے _فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' اور ''ولايت انتخابى ''ميں بنيادى فرق اسى نكتہ ميں پوشيدہ ہے _''ولايت انتخابي'' كے نظريہ كى بنياد پر لوگ انتخاب اور بيعت كے ذريعہ فقيہ كو ''ولايت'' عطا كرتے ہيںگويا كہ لوگوں كا منتخب شدہ شخص ان كا وكيل اور مملكت كے انتظامى امور كا سرپرست ہو تا ہے_ ليكن فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كے نظريہ كى بنياد پر فقيہ عادل لوگوں كا وكيل نہيں ہوتابلكہ اسے يہ منصب شرعى دليلوں اور امام كے منصوب كرنے سے حاصل ہو تا ہے _اور لوگوں كا اسے تسليم كرنا اور اسكى مدد كرنا،اسكے ''منصب اور ولايت'' ميں كوئي بنيادى كردار ادا نہيں كرتا_بلكہ ولايت كو بروئے كار لانے اور اس كے اختيارات كے عملى ہونے ميں مددگار ثابت ہو تا ہے دوسرے لفظوں ميں لوگوں كا فقيہ كى ولايت كو قبول كرلينا اسكى ولايت كے شرعى ہونے كا باعث نہيں بنتا_بلكہ لوگوں كى طرف سے حمايت اور ساتھ دينے سے اس كى مقبوليت اور خارجى وجود كا اظہار ہوتاہے _

''ولايت انتصابى ''كى حقيقت مكمل طورپر''حقيقت وكالت ''سے بھى مختلف ہے _وكالت ميں ايك مخصوص شخص يعنى وكيل ايك خاص مورد ميں ايك دوسرے شخص يعنى ''موكل'' كى جگہ پر قرار پاتا ہے اور اس كى طرف سے عمل انجام ديتا ہے _اصل اختيار موكل كے ہاتھ ميں ہوتا ہے وكيل انہى اختيارات كى بنياد پر كام كرتا ہے جو ايك يا چند موكل اسے ديتے ہيں _جبكہ ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا _حتى كہ اگر امام معصوم بھى ايك شخص كو وكيل اور دوسرے كو ولايت كے مقام پر منصوب فرمائيںتو ان دونوں كى حقيقت وحيثيت بھى ايك جيسى نہيں ہوتي_آيت الله جوادى آملى اس بار ے ميں كہتے ہيں :

۱۵۲

''ولايت'' اور'' وكالت'' ميں فرق ہے_ كيونكہ وكالت ''موكل'' كے مرنے سے ختم ہوجاتى ہے ليكن ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا يعنى اگر امام معصوم كسى كو كسى امر ميں اپنا وكيل قرار ديتے ہيں تو امام كى شہادت يا رحلت كے بعد اس شخص كى وكالت ختم ہوجاتى ہے_ مگر يہ كہ بعد والے امام اس كى وكالت كى تائيد كر ديں_ ليكن ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا مثلا اگر امام كسى كو منصوب كرتے ہيں اور وہ آپ (ع) كى طرف سے كسى موقوفہ پر ولايت ركھتا ہو تو امام كى شہادت يا رحلت كے بعد اس شخص كى ولايت ختم نہيں ہوگى _ مگر يہ كہ بعد والے امام اس كو ولايت سے معزول كرديں_ (۱)

دوسرا نكتہ يہ ہے كہ'' ولايت فقيہ ''،''نظارت فقيہ ''سے مختلف ہے _ ولايت كا تعلق نظام كے چلانے اور اجراسے ہے_ ولايت اسلامى معاشرہ كے اہم ترين اور مختلف مسائل اور انتظامى امور كو اسلامى موازين اور قواعد كے مطابق حل كرنے كو كہتے ہيں_ جبكہ نظارت ايك قسم كى نگرانى ہے اور اجرائي عنصركى حامل نہيں ہوتى _ زمانہ غيبت ميں سياسى تفكر ميں محل نزاع ''فقيہ عادل كيلئے ولايت كا اثبات'' ہے جبكہ'' نظارت فقيہ'' موافقين اور مخالفين كے درميان محل نزاع و بحث نہيں ہے اصلى نزاع اور جھگڑا اس ميں ہے كہ كيا فقيہ عادل كو شريعت كى طرف سے ولايت پر منصوب كيا گيا ہے يا نہيں؟ لہذا اس باب ميں فقہى بحث كا محور ہميشہ ''ولايت فقيہ'' رہا ہے نہ كہ ''نظارت فقيہ''_

فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كے نظريہ كى بنياد پر يہ سوال سامنے آتا ہے كہ جامع الشرائط فقيہ كيلئے يہ ولايت كس طرح محقق ہوتى ہے؟

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۳۹۵_

۱۵۳

كيا ہر عادل اور جامع الشرائط فقيہ ''شان ولايت'' ركھتا ہے يا ''بالفعل'' اس منصب پر فائزہے ؟

حق يہ ہے كہ اگر'' ولايت فقيہ ''پر روايات كى دلالت صحيح ہو تو پھر ہر ''جامع الشرائط فقيہ '' كيلئے منصب ''ولايت'' ثابت ہے_ اور يہ عہدہ '' اہل حل و عقد ''كے انتخاب يا رائے عامہ جيسے كسى اور امر پر موقوف نہيں ہے_ پس ولايت فقيہ كى ادلّہ كى روسے فقيہ عادل بالفعل ولايت كا حامل ہے _ جس طرح ہر فقيہ عادل بالفعل منصب قضا كا حامل ہوتا ہے اور جھگڑوں كا فيصلہ كر سكتا ہے_

ياد رہے كہ تمام ''و اجدالشرائط فقہاء ''جو كہ'' منصب ولايت ''كے حامل ہيں براہ راست معاشرے كے امور كى نگرانى كے عہدہ پر فائز نہيں ہوسكتے _ جس طرح ايك كيس كے سلسلہ ميں تمام قاضى فيصلہ نہيں دے سكتے _ واضح سى بات ہے كہ جب ايك ''جامع الشرائط فقيہ'' امور كى سرپرستى اپنے ذمہ لے ليتا ہے تو باقى فقہا سے يہ ذمہ دارى ساقط ہوجاتى ہے _ بنابريں ايك فقيہ عادل كو اہل حل و عقد كا منتخب كرنا يا عوام كا اسے تسليم كر لينا دوسرے فقہاء سے منصب ولايت كو سلب نہيں كرتا بلكہ جب تك ايك فقيہ عادل امور كى سرپرستى كر رہا ہے تو دوسروں سے يہ ذمہ دارى ساقط ہے_

۱۵۴

خلاصہ :

۱) جوافراد ولايت فقيہ كو اس ولايت كى قسم سمجھتے ہيں جو محجور و بے كس افراد پر ہوتى ہے وہ ولايت كى قانونى حقيقت و ماہيت كو دوسرے سياسى اقتدار كى قانونى حقيقت سے مختلف قرار ديتے ہيں_

۲) اس نظريہ كے قائلين ''فقيہ كى ولايت عامہ ''كو لوگوں كے كم شعور اور بے بس ہونے كا لازمہ سمجھتے ہيں_

۳) اس نظريہ كے قائلين اس سے غافل رہے ہيں كہ اسلامى معارف ميں لفظ ولايت كے مختلف استعمال ہيں_

۴) روايات ميں امام كومعاشرہ كا قيّم كہا گيا ہے_ اور ان روايات ميں ''قيم''،'' ذريعہ حيات و قوام '' كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_ جس معنى ميں قرآن نے دين اور آسمانى صحيفوں كو'' قيّم ''كہا ہے_

۵) ''ولايت انتصابى ''مكمل طور پرلوگوں كى طرف سے ''ولايت انتخابي'' اور ''وكالت فقيہ '' كے نظريہ سے مختلف ہے_

۶) ولايت انتصابى ايك قانونى حقيقت ہونے كے لحاظ سے وكالت كى ماہيت سے مختلف ہے_

۷)'' ولايت فقيہ ''حاكميت اور امور كى سرپرستى كے معنى ميںہے لہذا'' نظارت فقيہ '' سے واضح فرق ركھتى ہے_

۸) ولايت فقيہ كى ادلّہ كى رو سے يہ ولايت بالفعل ہر جامع الشرائط فقيہ كو حاصل ہے _ يعنى ہر فقيہ عادل امام كى طرف سے منصوب ہوتا ہے اور اس كى ولايت شرعى ہوتى ہے_

۱۵۵

سوالات :

۱) كيا ولايت فقيہ كى قانونى حقيقت دوسرى حكومتوں كے سياسى اقتدار سے مختلف ہوتى ہے؟

۲) وہ افراد جو ولايت فقيہ كو وہ ولايت سمجھتے ہيں جو محجور افراد پر ہوتى ہيں_ انہوں نے كن نكات سے غفلت كى ہے؟

۳) فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''،''وكالت فقيہ ''سے كيا فرق ركھتى ہے؟

۴) كيا ولايت فقيہ اور نظارت فقيہ ايك ہى چيز ہے؟

۵) ولايت فقيہ كى ادلّہ كى روسے جامع الشرائط فقيہ كيلئے كس قسم كى ولايت ثابت كى جاسكتى ہے؟

۱۵۶

ستر ہواں سبق :

ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ -۱-

ولايت فقيہ كى ابتداء آغاز فقہ سے ہى ہوتى ہے_ فقہ اور اجتہاد كى ابتدائ تاريخ سے ہى فقيہ كى بعض امور ميں ولايت كا اعتقاد پايا جاتا ہے _ اس وجہ سے اسے'' فقہ شيعہ'' كے مسلّمات ميں سے سمجھا جاسكتا ہے_ ولايت فقيہ كے متعلق جو شيعہ علماء ميں اختلاف پاياجاتا ہے_ وہ اس كى حدود وقيود اور اختيارات ميں ہے نہ كہ اصل ولايت فقيہ ميں_

قضاوت اور امور حسبيّہ(۱) جيسے امور ميں فقيہ عادل كى ولايت پر سب متفق ہيں_جبكہ اس سے وسيع تر امورميں اختلاف ہے_ يعنى معاشرہ كے سياسى اور انتظامى امور ميں فقيہ ولايت ركھتا ہے يا نہيں ؟ اسے

____________________

۱) امور حسبيّہ سے مراد وہ امور ہيں جن كے چھوڑ دينے پر شارع مقدس كسى صورت ميں بھى راضى نہيں ہے مثلاً بچوں ، ديوانوں اور بے شعور افراد كى سرپرستى _لفظ ''حسبہ' كے معنى اجر اور ثواب كے ہيں _ عام طور پر اس كا اطلاق ان امور پر ہوتا ہے جو اخروى اجر و ثواب كيلئے انجام ديئے جاتے ہيںاور كبھى قربت كے معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے _وہ كام امور حسبيّہ ميں شمار ہوتے ہيں جنہيں قربت خدا كيلئے انجام ديا جاتا ہے يا در ہے كہ امور حسبيّہ واجبات كفائي نہيں ہيں _ كيونكہ واجبات كفائي ان امور كو كہتے ہيں جنہيں ہر شخص انجام دے سكتا ہے اور بعض كے انجام دينے سے دوسروں سے ساقط ہوجاتے ہيں جبكہ امور حسبيّہ ميں تصرف كا حق يا تو صرف فقيہ عادل كے ساتھ مخصوص ہے يا پھر كم از كم فقيہ عادل كے ہوتے ہوئے دوسرے حق تصرف نہيں ركھتے _

۱۵۷

''ولايت عامہ فقيہ'' يا ''معصومين كى نيابت عامہ'' سے بھى تعبير كيا جاتا ہے_ فقيہ كى ولايت عامہ سے مراد يہ ہے كہ فقيہ عادل نہ صرف اجرائے احكام ، قضاوت اور امور حسبيّہ ميں امام معصوم كا نائب ہے بلكہ امام كى تمام قابل نيابت خصوصيات كا بھى حامل ہو تا ہے_

ولايت فقيہ كے بعض مخالفين يہ باور كرانا چاہتے ہيں كہ شيعہ فقہ كى تاريخ ميں ولايت عامہ فقيہ كى بحث ايك نئي بحث ہے جو آخرى دو صديوں ميں منظر عام پر آئي ہے جبكہ شيعہ فقہ كى طويل تاريخ ميں اس سے پہلے اس كا كوئي وجود نہيں ملتا حالانكہ فقاہت تشيع كے تمام ادوار ميں اس نظريہ كے قابل اعتبار قائلين موجود رہے ہيں بلكہ بعض بڑے بڑے شيعہ علماء و فقہاء نے اس كے متعلق فتوے بھى ديئے ہيں اور بعض علماء نے اس كے متعلق اجماع كادعوى بھى كيا ہے_ يہاں ہم صرف تين بزرگ فقہاء كے كلام كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

دسويں صدى كے عظيم شيعہ فقيہ جناب محقق كر كى جامع الشرائط فقيہ كيلئے امام كى نيابت عامہ كو اجماعى اور متفق عليہ سمجھتے ہيں اور كہتے ہيں : اس ولايت كا نہ ہونا شيعوں كے امور كے معطل ہونے كا باعث بنتا ہے_(۱)

عظيم كتاب ''جواہر الكلام'' كے مصنف اور نامور شيعہ فقيہ شيخ محمد حسن نجفى امر بالمعروف كى بحث كے دوران امام معصوم كے تمام مناصب ميں فقيہ عادل كى نيابت كو شيعہ علماء كے نزديك ايك مسلّم حقيقت سمجھتے ہيں _ ان كا كہنا ہے كہ فقيہ كى ولايت عامہ سے انكار شيعوں كے بہت سے امور كے معطل ہونے كا باعث بنتا ہے_ اور جنہوں نے فقيہ كى ولايت عامہ كا انكار يا اس ميں شك كيا ہے انہوں نے نہ تو فقہ كے مزہ كو چكھا ہے اور نہ ہى معصومين كے كلام كے رموز كو سمجھا ہے(۲) _آپ فرماتے ہيں:

____________________

۱) رسائل محقق كركى جلد ۱ ، صفحہ ۱۴۲، ۱۴۳_ رسالة فى صلاة الجمعة_

۲) آپ كى آنے والى عبارت كا ترجمہ بھى تقريبا يہى ہے ( مترجم)

۱۵۸

ثبوت النيابة لهم فى كثير من المواضع على وجه يظهر منه عدم الفرق بين مناصب الامام اجمع ، بل يمكن دعوى المفروغية منه بين الاصحاب، فانّ كتبهم مملوء ة بالرجوع الى الحاكم ، المراد منه نائب الغيبة فى سائر المواضع لو لا عموم الولاية لبقى كثير من الامور المتعلّقة بشيعتهم معطّلة _ فمن الغريب وسوسة بعض الناس فى ذلك بل كانّه ما ذاق من طعم الفقه شيئاً، و لا فهم من لَحن قولهم و رموزهم امراً (۱)

فقيہ متبحر آقا رضا ہمدانى فقيہ عادل كيلئے امام كى نيابت اور جانشينى كے مسلّمہ ہونے كے متعلق يوں فرماتے ہيں:

زمانہ غيبت ميں اس قسم كے امور (وہ امور عامہ جن ميں ہر قوم اپنے رئيس كى طرف رجوع كرتى ہے) ميں جامع الشرائط فقيہ كے امام كے جانشين ہونے ميں شك و ترديد معقول نہيں ہے جبكہ علماء كے اقوال بھى اس بات كى تائيد كرتے ہيں كيونكہ ان كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ يہ بات امور مسلّمہ ميں سے ہے اور يہ بات اس قدر واضح تھى كہ بعض علماء نے تو امام كى طرف سے فقيہ كى نيابت عامہ كى دليل ''اجماع'' كو قرار ديا ہے_(۲)

ہم اشارہ كر چكے ہيں كہ فقہ شيعہ كے طول تاريخ ميں زمانہ قدماء سے ليكر آج تك علمائ'' فقيہ كى ولايت

____________________

۱) جواہر الكلام فى شرح شرائع الاسلام جلد ۲۱، صفحہ ۳۹۶، ۳۹۷_

۲) مصباح الفقيہ جلد ۱۴، صفحہ ۲۹۱ كتاب الخمس _

۱۵۹

عامہ'' كے معتقد رہے ہيں اور عظيم فقہاء نے اسى كے مطابق فتوے ديئے ہيں_ بہتر ہے كہ ہم يہاں مختلف ادوار كے علماء كے اقوال ذكر كر ديں_

محمد ابن نعمان بغدادى متوفى ۴۱۳ھ جو كہ شيخ مفيدرحمة الله عليہ كے نام سے مشہور ہيں اور شيعوں كے بہت بڑے فقيہ شمار ہوتے ہيں_ مخالفين كے اس ادعا كو نقل كرنے كے بعد كہ اگر امام زمانہ عجل الله فرجہ الشريف كى غيبت اسى طرح جا رى رہى تو حدود الہى كا اجرا كسى پر واجب نہيں ہے_ كہتے ہيں:

فأما إقامة الحدود فهو إلى سلطان الاسلام المنصوب من قبَل الله تعالى و هم ائمة الهُدى من آل محمد(ص) و من نصبوه لذلك من الاُمراء والحكام ، و قد فَوَّضوا النظرَ فيه إلى فقهاء شيعتهم مع الامكان (۱)

حدود الہى كا اجرا حاكم شرعى كا كام ہے _ وہ حاكم شرعى جسے خدا كى طرف سے مقرر كيا گيا ہو اور وہ ائمہ اہلبيت ہيںيا وہ افراد جنہيں ائمہ معصومين حاكم مقرر كرديں اور ممكنہ صورت ميں انہوں نے يہ كام اپنے شيعہ فقہا كے سپرد كر ركھا ہے_

اس عبارت ميں شيخ مفيد حدود الہى كا اجرا اسلام كے حاكم كى ذمہ دارى قرار ديتے ہيں نہ كہ قاضى كى لہذا ان كا اس بات كى تاكيد كر نا كہ يہ كام جامع الشرائط فقيہ كى خصوصيات ميں سے ہے فقيہ كى ولايت عامہ كى دليل ہے _ كيونكہ صرف حاكم شرع ہى حدود الہى كو جارى كرسكتا ہے_ يہ بات درج ذيل دو روايات كے ساتھ مطابقت ركھتى ہے_

''عن حفص بن غياث قال : سألت اباعبدالله (عليه السلام)

____________________

۱) المقنعہ صفحہ ۸۱۰، كتاب الامر بالمعروف و النہى عن المنكر _

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367