اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139113 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پندرہواں سبق:

ولايت فقيہ كا معني

لغوى لحاظ سے ولايت '' و _ ل _ ي'' سے ماخوذ ہے _ واو پر زبر اور زير دونوں پڑھے جاتے ہيں _ اس كے ہم مادہ ديگر كلمات يہ ہيں _ توليت ، موالات ، تولّى ، وليّ، متولّي، استيلائ، ولائ، مولا، والى _

لغوى لحاظ سے ولايت كے متعدد معانى ہيں مثلاً نصرت ، مدد، امور غيركا متصدى ہونا اور سرپرستى وغيرہ_البتہ ان معانى ميں سے سرپرستى او رغير كے امور ميں تصرف ولايت فقيہ سے زيادہ مناسبت ركھتے ہيں_جو شخص كسى منصب يا امر كا حامل ہو اسے اس امر كا سرپرست، مولى اورولى كہا جاتاہے، بنابريں لفظ ولايت اور اس كے ہم مادہ الفاظ يعنى ولي، توليت ، متولى اور والى سرپرستى اور تصرف كے معنى پر دلالت كرتے ہيں اس قسم كے كلمات كسى دوسرے كى سرپرستى اور اس كے امور كى ديكھ بھال كيلئے استعمال ہوتے ہيں اور بتلاتے ہيں كہ ولى اور مولا دوسروں كى نسبت اس تصرف اور سرپرستى كے زيادہ سزاوار ہيںاور ولى و مولا كى ولايت كے ہوتے ہوئے دوسرے افراد اس شخص كى سرپرستى اور اس كے امور ميں تصرف كا حق نہيں ركھتے(۱)

____________________

۱) مولى اور ولى كے معانى كى مزيد تفصيل كيلئے كتاب الغدير ، جلد۱، صفحہ ۶۰۹ ، ۶۴۹ اور فيض القدير ،صفحہ ۳۷۵_ ۴۴۸ كى طرف رجوع كيجئے _

۱۴۱

قرآن كريم ميں جو الفاظ ان معانى ميں استعمال ہوئے ہيں _ وہ اللہ تعالى ، رسول -(ص) اور امام كيلئے استعمال ہوئے ہيں _

( '' إنَّمَا وَليُّكُمُ الله ُ وَرَسُولُهُ وَالَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم رَاكعُونَ'' ) (۱)

سواے اس كے نہيں كہ تمہارا ولى خدا ، اس كا رسول اور وہ مومن ہيں جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوة ديتے ہيں _

و ، ل ، ى كے مشتقات كے معانى اور قرآن و روايات ميں ان كے استعمال كى تفصيلى بحث ہميں ہمارى اصلى بحث سے دور كردے گى ، كيونكہ ولايت اور اس سے ملتے جلتے الفاظ يعنى والى اور ولى و غيرہ كا اصطلاحى معنى واضح اور روشن ہے_

جب ہم كہتے ہيں : كيا رسول خدا (ص) نے كسى كو مسلمانوں كى ولايت كيلئے منصوب كيا ہے ؟ يا پوچھتے ہيں : كيا زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل و لايت ركھتا ہے ؟ واضح ہے كہ اس سے ہمارى مراد دوستي، محبت اور نصرت وغيرہ نہيں ہوتي_ بلكہ اس سے مراد اسلامى معاشرہ كے امور كى سرپرستى ہوتى ہے _ ولايت فقيہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ عادل اسلامى معاشرہ كى سرپرستى اور حاكميت كا حقدار ہے اور اس شرعى اور اجتماعى منصب كيلئے منتخبكيا گيا ہے _

ولايت كى حقيقت اور ماہيت

ولايت فقيہ كى ادلہ كے ذريعہ فقيہ عادل كيلئے جو ولايت ثابت كى جاتى ہے وہ شرعى اعتبارات اور مجعولات ميں سے ہے _ فقاہت ، عدالت اور شجاعت جيسى صفات تكوينى ہيں جبكہ رياست اور ملكيت جيسے امور اعتباري

____________________

۱) سورہ مائدہ آيت ۵۵_

۱۴۲

اور وضعى ہيں _ اعتبارى اور وضعى امور ان امور كو كہتے ہيں جو جعل اور قرار دينے سے وجود ميں آتے ہيں يعنى بذات خود خارج ميں ان كااپنا وجود نہيں ہوتا_ بلكہ بنانے والے كے بنانے اور قرار دينے والے كے قرار دينے سے وجود ميں آتے ہيں _ لہذا اگر قرار دينے والا شارع مقدس ہو تو انہيں ''اعتبارات شرعي''كہتے ہيں اورا گر عقلاء اور عرف عام ہوں تو پھر انہيں ''اعتبارات عقلائي ''كہا جاتاہے_ (۱)

جو شخص فقيہ بنتاہے يا وہ شخص جو ملكہ عدالت اور تقوى كو حاصل كرليتاہے وہ ايك حقيقت اور ''تكوينى صفت'' كا حامل ہوجاتاہے _ليكن اگر كسى شخص كو كسى منصب پر فائز كيا گيا ہے اوراس كے لئے ايك حاكميت قرار دى گئي ہے تو يہ ايك حقيقى اور تكوينى صفت نہيں ہے بلكہ ايك قرار داد اور ''عقلائي اعتبار'' ہے ''امر اعتبارى ''اور'' امر تكوينى ''ميں يہ فرق ہے كہ '' امر اعتبارى '' كا وجود واضع اور قرار دادكرنے والوں كے ہاتھ ميں ہوتاہے_ ليكن ''تكوينى حقائق '' كسى بنانے والے يا قرار دينے والے كے ہاتھ ميں نہيں ہوتے كہ قرار كے بدلنے سے ان كا وجود ختم ہوجائے_

ولايت دو طرح كى ہوتى ہے _ تكوينى اور اعتبارى _ وہ ولايت جو فقيہ كو حاصل ہے اور ولايت فقيہ كى ادلہ سے جس كا اثبات ہوتاہے _'' ولايت اعتبارى ''ہے _ولايت تكوينى ايك فضيلت اور معنوى و روحانى كمال ہے _رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كو دونوں قسم كى ولايت حاصل ہے آپ عصمت، عبوديت اور علم الہى كے اعلى مراتب پر فائز ہونے اور خليفہ خدا ہونے كى وجہ سے ولايت تكوينيہ اور الہيہ كے حامل محسوب ہوتے ہيں جبكہ مسلمانوں كى رہبرى اور قيادت كى وجہ سے سياسى ولايت ركھتے ہيں جو كہ ''ولايت اعتباري''ہے _ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں :

____________________

۱) وہ حاكميت جس كا ايك قوم وقبيلہ اپنے سردار كيلئے اور ايك معاشرہ اپنے حاكم كيلئے قائل ہوتاہے ''اعتبارات عقلائي'' كے نمونے ہيں _ اسى طرح ٹريفك كے قوانين كہ سرخ لائٹ پر ركنا ہے يا يہ سڑك يك طرفہ ہے يہ تمام اعتبارات و مجعولات عقلائي كى مثاليں ہيں_

۱۴۳

جب ہم يہ كہتے ہيں كہ وہ ولايت جس كے رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين حامل تھے وہى ولايت زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل كو حاصل ہے تو كوئي ہرگز يہ نہ سمجھے كہ فقہاء كو وہى مقام حاصل ہے جو رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كو حاصل تھا، كيونكہ يہاں بات مقام كى نہيں ہے بلكہ فريضے اور ذمہ دارى كى ہے_ ولايت يعنى ''حكومت اورملك ميں شرعى قوانين كا اجرا'' ايك سنگين اور اہم ذمہ دارى ہے _ نہ يہ كہ كسى شخص كو ايك عام انسان سے ہٹ كر كوئي اعلى و ارفع مقام ديا جارہا ہے_ دوسرے لفظوں ميں مورد بحث ولايت يعنى حكومت اور اس كا انتظام بہت سے افراد كے تصور كے برعكس كوئي مقام نہيں ہے بلكہ ايك بھارى اور عظيم ذمہ دارى ہے ''ولايت فقيہ '' ايك ''امر اعتبارى عقلائي'' ہے _ لہذا جعل كے سوا كچھ بھى نہيں ہے (۱) _

ياد رہے كہ اس اعتبار سے كہ ولايت فقيہہ ، منصب حكومت اور معاشرتى نظام كے چلانے كو فقيہ كى طرف منسوب كرتى ہے_ ولايت فقيہ ايك'' اعتبار عقلائي ''ہے كيونكہ تمام معاشروں ميں ايسى قرارداد ہوتى ہے اور كچھ افراد كيلئے يہ منصب وضع كيا جاتاہے_ دوسرى طرف چونكہ يہ منصب اور اعتبار روايات معصومين اور شرعى ادلّہ سے فقيہ كو حاصل ہے اس لئے يہ ايك شرعى اعتبار اور منصب بھى ہے _ پس اصل ولايت ايك ''اعتبار عقلائي''ہے اور فقيہ كيلئے شارع مقدس كى طرف اس كى تائيد ايك ''اعتبار شرعى ''ہے _

اسلامى فقہ ميں دوطرح كى ولايت

ولايت كے متعلق آيات اور روايات كو كلى طور پر دو قسموں ميں تقسيم كيا جاسكتاہے يا دقيق تعبير كے مطابق فقہ ميں دو قسم كى ولايت پائي جاتى ہے_ ايك ولايت كا تعلق مومنين كے امور كى سرپرستى سے ہے يہ وہى ولايت ہے جو رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومينكى طرف سے ''زمانہ غيبت'' ميں'' فقيہ عادل '' كو حاصل

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۴۰ ، ۴۱_

۱۴۴

ہے _ اس سبق كى ابتدا ء ميں جو آيت ذكر كى گئي ہے _ وہ اسى ولايت كى طرف اشارہ كرتى ہے _ دوسرى ولايت وہ ہے جس ميں ان افراد كى سرپرستى كى جاتى ہے جو فہم و شعور نہيں ركھتے يا اپنے امور انجام دينے سے قاصر ہيں يا موجود نہ ہونے كى وجہ سے اپنے حق سے فائدہ نہيں اٹھاسكتے _ لہذا ضرورى ہے كہ ان كى طرف سے ايك ولى اپنى صواب ديد كے تحت انمحجور، غائب اور بے بس افراد كے امور كى سرپرستى كرے _

باپ اور دادا كى اپنے كم سن، كم عقل اور ديوانے بچوں پر ولايت، مقتول كے اولياء كى ولايت اورميت كے ورثا كى ولايت تمام ا سى ولايت كى قسميں ہيں _ درج ذيل آيات اسى ولايت كى اقسام كى طرف اشارہ كررہى ہيں_

( ''و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا فلا يُسرف فى القتل'' ) (سورہ اسراء آيت۳۳)

جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس كے وارث كو ( قصاص كا) حق ديا ہے پس اسے چاہيے كہ قتل ميں زيادتى نہ كرے_

( ''فان كان الذى عليه الحق سفيهاً او ضعيفا او لا يستطيع ان يملّ هو فليملل وليه بالعدل'' ) (سورہ بقرہ آيت ۲۸۲)

اور اگر قرض لينے والا كم عقل يا معذور يا خود لكھوا نہ سكتا ہو تو اس كا سرپرست انصاف سے لكھوادے_

ان دو قسم كى ولايت كے درميان بنيادى فرق سے غفلت اور ان دونوں كو ايك ہى سمجھنے كى وجہ سے ولايت فقيہ كے بعض مخالفين ايك بڑى اور واضح غلطى كے مرتكب ہوئے ہيں _ وہ يہ سمجھنے لگے ہيں كہ ولايت فقيہ وہى محجور و قاصر افراد پر ولايت ہے اور ولايت فقيہ كا معنى يہ ہے كہ لوگ مجنون، بچے ، كم عقل اور محجور افراد كى طرح ايك سرپرست كے محتاج ہيں اور ان كيلئے ايك سرپرست كى ضرورت ہے_ لہذا ولايت فقيہ كا لازمہ لوگوں اور ان كے رشد و ارتكاء كى اہانت ہے _ آنے والے سبق ميں ہم اس غلط فہمى كا جواب ديں گے_

۱۴۵

خلاصہ

۱)ولايت كے متعدد معانى ہيں _ ولايت فقيہ سے جو معنى مراد ليا جاتاہے وہ ايك لغوى معنى يعنى سرپرستى اور تصرف كے ساتھ مطابقت ركھتاہے _

۲)ولايت فقيہ ''اعتبارات شرعى ''ميں سے ہے _

۳) معصومين '' ولايت اعتبارى ''كے علاوہ '' ولايت تكوينى ''كے بھى حامل ہيں جو كہ ايك كمال اور معنوى فضيلت ہے _

۴) فقہ ميں دو قسم كى ولايت پائي جاتى ہے_

الف:محجور و عاجز افراد پر ولايتب : مومنين كے اجتماعى امور كى سرپرستي

۵) وہ ولايت جو قرآن كريم ميں رسول خدا (ص) اور اولى الامر كيلئے ثابت ہے اور ان كى پيروى ميں فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے ولايت كى يہى دوسرى قسم ہے_

۶) ان دو قسم كى ولايت كے درميان اشتباہ اور دوسرى قسم كى ولايت كے وجود سے غفلت سبب بنى ہے كہ بعض افراد نے ولايت فقيہ كو اس ولايت كى قسم سمجھا ہے جو محجور اوربے بس افراد پر ہوتى ہے_

۱۴۶

سوالات:

۱) ولايت فقيہ كا اصطلاحى معنى ولايت كے كونسے لغوى معنى كے ساتھ مناسبت ركھتاہے ؟

۲)اس سے كيا مراد ہے كہ فقيہ عادل كى ولايت ايك'' امر اعتبارى ''ہے ؟

۳) ولايت تكوينى سے كيا مراد ہے ؟

۴) ولايت فقيہ اور ائمہ معصومين كى ولايت ميں كيا فرق ہے ؟

۵) محجور افراد پر ولايت سے كيا مراد ہے؟

۱۴۷

سولہواں سبق :

فقيہ كى وكالت اور نظارت كے مقابلہ ميں ولايت انتصابي

اس سبق كا مقصد اس امر كى مزيد وضاحت كرنا ہے كہ'' فقيہ كى ولايت انتصابى سے كيا مراد ہے''؟ اوران لوگوں كے اس نظريہ كے ساتھ اس كا كيا فرق ہے جو ''ولايت فقيہ'' كى بجائے ''وكالت فقيہ ''كے قا ئل ہيں يعنى فقيہ لوگوں كا وكيل ياوہ حكومتى امور پرنظارت كھنے والا ہے _ اس سے ولايت فقيہ كى بحث ميں محل نزاع كے واضح ہونے ميں مدد ملے گى ليكن اس بحث ميں داخل ہونے سے پہلےان غلط فہميوںكى طرف اشارہ كرديا جائے جو ولايت فقيہ كے معنى كے متعلق پائي جاتى ہيں _وہى غلط فہمى جس كى طرف گذشتہ سبق كے آخر ميں ہم اشارہ كرچكے ہيں _ فقيہ كى سياسى ولايت كے بعض مخالفين اس بات پر مصرہيں كہ ولايت فقيہ ميں ''ولايت'' كاوہ معنى كيا جائے جو دوسرے سياسى نظاموں ميں موجود سياسى اقتدار اور قانونى حاكميت سے بالكل مختلف ہے_ گويا اس نظام ميں سياسى اقتدار كى حقيقت مكمل طور پر دوسرے نظاموں كے سياسى اقتدار كى حقيقت سے مختلف ہے _اس فكر اور نظريہ كا منشاو سرچشمہ فقيہ كى ولايت سياسى اور اُس ولايت كو ايك ہى طرح كا قرار دينا ہے جو محجور اور بے بس افراد پرہوتى ہے _وہ يہ سمجھتے ہيں كہ مختلف فقہى ابواب ميں جس ولايت كا ذكر كيا جاتا

۱۴۸

ہے وہ ان موارد ميں ہوتى ہے جن ميں '' مولّى عليہ'' (جس پر ولايت ہو)محجور ،بے بس اور عاجز ہو پس ان لوگوں نے سياسى ولايت كو بھى اسى قسم كى ولايت خيال كيا ہے اور اس بات كے قائل ہوئے ہيں كہ فقيہ كى ولايت عامہ كا معنى يہ ہوا كہ معاشرہ كے افراد محجور وبے بس ہيں اور انھيں ايك ولى اور سرپرست كى ضرورت ہے_ لوگ رشد وتشخيص دينے سے قاصر ہيں اور اپنے امور ميں ايك سرپرست كے محتاج ہيں اس نظريہ كے حاميوں ميں سے ايك كہتے ہيں -:

ولايت بمعنى ''سرپرستي'' مفہوم اور ماہيت كے لحاظ سے حكومت اور سياسى حاكميت سے مختلف ہے كيونكہ ''ولايت'' وہ حق تصرف ہے جو ولى امر ''مولّى عليہ '' كے مخصوص مال اور حقوق ميں ركھتا ہے _وہ تصرفات جو ''مولّى عليہ '' عدم بلوغ و رشد اورشعور و عقل كى كمى يا ديوانگى كى وجہ سے اپنے حقوق اور اموال ميں نہيں كرسكتا _جبكہ حكومت يا سياسى حاكميت كا معنى ايك مملكت كوچلانا ہے _

اس قسم كے مطالب دوبنيادى نكات سے غفلت كى وجہ سے بيان كئے جاتے ہيں _

پہلا نكتہ يہ كہ فقہ ميں دو طرح كى ولايت پائي جاتى ہے _ايك وہ ولايت جو معاشرتى امور كى سرپرستى ہے كہ جس كا تعلق حكومت اور انتظامى امور سے ہے اور يہ ولايت اُس ولايت سے بالكل مختلف ہے جو محجور وقاصر افراد پر ہوتى ہے _ولايت كى يہ قسم قرآن كى رو سے رسولخدا (ص) اور اولى الامركيلئے ثابت ہے _كيا رسولخدا (ص) كا مسلمانوں كے ولى امر ہونے كا مطلب يہ ہے كہ صدر اسلام كے مسلمان محجوروعاجز تھے؟ اور اس دور كى ممتازاور سركردہ شخصيات ناقص تھيں ؟جيسا كہ كئي بار وضاحت كى گئي ہے كہ ولايت فقيہ وہى ائمہ معصومين كى ولايت كى ايك قسم ہے البتہ اس فرق كے ساتھ كہ ائمہ معصومين كى ولايت اس اعتبارى ولايت ميں منحصر نہيں ہے- بلكہ ائمہ معصومين مقامات معنوى اور تمام ترولايت و خلافت الہيہ كے بھى حامل

۱۴۹

ہيں _

دوسرانكتہ يہ كہ روايات كى روسے امام قيّم و سرپرست ہو تا ہے _ولايت اور امامت كے عظيم عہدہ كے فلسفہ كے متعلق فضل ابن شاذان امام رضا سے روايت نقل كرتے ہيں جس ميں امام كو دين خدا كے نگران اور قيّم،احكام الہى كے محافظ اور بدعتى و مفسد افراد كا مقابلہ كرنے والے كے طور پر متعارف كرواياگيا ہے _روايت كے الفاظ يہ ہيں :

''انه لولم يجعل لهم اماماً قيمّاً اميناً حافظاً مستودعاً ،لدرست الملّة وذهبت الدين وغيّرت السّنن ...فلولم يجعل لهم قيّماحافظاً لما جاء به الرسول (ص) لفسدوا'' (۱)

اگر خداوند متعال لوگوں كيلئے سرپرست، دين كا امين ، حفاظت كرنے والااور امانتوں كا نگران امام قرار نہ ديتا تو ملت كا نشان تك باقى نہ رہتا، دين ختم ہوجاتا اور سنتيں تبديل ہوجاتيں پس اگر خدا ،رسول اكرم (ص) كے لائے ہوئے دين كيلئے كسى كو سرپرست اور محافظ نہ بناتا تو لوگ اس دين كو تباہ كرديتے_

اس قسم كى روايات ميں موجود لفظ ''قيّم ''سے مراد وہ سرپرستى نہيں لى جا سكتى جو باپ اور ولى كو چھوٹے بچے يا كم شعور پر حاصل ہوتى ہے _كيونكہ قرآن اور روايات كى اصطلاح ميں'' قيّم ''اس چيز يا اس شخص كو كہتے ہيں جو خود بھى قائم ہو اور دوسروں كے قوام كا ذريعہ ہو_اسى لئے قرآن كريم ميں دين اور كتاب خدا كو اس صفت كے ساتھ متصف كيا گيا ہے _سورہ توبہ كى آيت ۳۶ ميں ارشاد ہو تاہے:

( ''ذلك الدين القيم '' ) يہى دين قيم ہے_

____________________

۱) بحارالانوار ج۶ ، صفحہ ۶۰ ، حديث ۱_

۱۵۰

سورہ روم كى آيت ۴۳ ميں ہے:

( ''فاقم وجهك للدّين القيّم ) ''

آپ اپنے رخ كو دين قيم كى طرف ركھيں_

سورہ بينہ كى آيت ۲ اور ۳ ميں ہے:

( ''رسولٌ من الله يتلوا صحفاً مطهّرة *فيها كتب قيّمة'' )

اللہ كى طرف سے رسول ہے جو پاكيزہ صحيفوں كى تلاوت كرتا ہے _ جن ميں كتب قيمة ہيں_

امام اور اسلامى معاشرہ كا سرپرست اس معنى ميں لوگوں كا قيّم ہے كہ وہ ان كيلئے مايہ انسجام اور زندگى كا سہارا ہو تا ہے _قرآن اور روايت ميں استعمال ہونے والے لفظ ''قيّم ''كو اس معنى ميں نہيں لياجاسكتا جو فقہى كتب ميں محجور وبے كس افراد كى سرپرستى كيلئے استعمال ہو تا ہے _بنابريں ولايت فقيہ كے منكرين كے اس گروہ كويہى غلط فہمى ہوئي ہے كہ انہوں نے فقيہ كى ولايت كو اسى قسم كى سرپرستى سمجھاہے جو محجور و قاصر افراد پرہو تى ہے(۱) _

ولايت انتصابى اور وكالت ونظارت ميں فرق

ولايت فقيہ كى بحث كا بنيادى اور اصلى محور يہ ہے كہ كيا ائمہ معصومين كى طرف سے فقيہہ عادل كو امت پر ولى نصب كيا گيا ہے ؟مسلم معاشرے كے سياسى اور اجتماعى امور كى ديكھ بھال، احكام كے اجرا اور امام معصوم كى نيابت كا اہم ترين فريضہ ادا كرنے كيلئے فقيہ كا امام كى طرف سے مقام ولايت پر منصوب ہونا درحقيقت ولايت فقيہ كى اصلى و بنيادى مباحث ميں سے ہے _''ولايت انتصابي'' كے معنى كى مزيد وضاحت كيلئے ضرورى ہے كہ ''ولايت انتخابي'' يا ''وكالت فقيہ'' سے اس كے فرق كى تحقيق كى جائے _جس طرح اس بات كى وضاحت بھى ضرورى ہے كہ'' ولايت فقيہ'' اور''نظارت فقيہ'' ميں كيا فرق ہے _

____________________

۱) مزيدتفصيل كيلئے كتاب'' حكومت ديني'' صفحہ۱۷۷تا۱۸۵كى طرف رجوع كيجئے_

۱۵۱

زمانہ غيبت ميں عادل اور جامع الشرائط فقيہ امام زمانہ(عجل اللہ فرجہ الشريف) كا نائب اور آپ كى طرف سے اسلامى معاشرہ كا منتظم و نگران ہو تا ہے _فقيہ عادل آپ كى طرف سے لوگوں پر ولايت ركھتا ہے يہ ''ولايت''،'' وكالت'' سے جدا ايك عہدہ ہے _فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' اور ''ولايت انتخابى ''ميں بنيادى فرق اسى نكتہ ميں پوشيدہ ہے _''ولايت انتخابي'' كے نظريہ كى بنياد پر لوگ انتخاب اور بيعت كے ذريعہ فقيہ كو ''ولايت'' عطا كرتے ہيںگويا كہ لوگوں كا منتخب شدہ شخص ان كا وكيل اور مملكت كے انتظامى امور كا سرپرست ہو تا ہے_ ليكن فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كے نظريہ كى بنياد پر فقيہ عادل لوگوں كا وكيل نہيں ہوتابلكہ اسے يہ منصب شرعى دليلوں اور امام كے منصوب كرنے سے حاصل ہو تا ہے _اور لوگوں كا اسے تسليم كرنا اور اسكى مدد كرنا،اسكے ''منصب اور ولايت'' ميں كوئي بنيادى كردار ادا نہيں كرتا_بلكہ ولايت كو بروئے كار لانے اور اس كے اختيارات كے عملى ہونے ميں مددگار ثابت ہو تا ہے دوسرے لفظوں ميں لوگوں كا فقيہ كى ولايت كو قبول كرلينا اسكى ولايت كے شرعى ہونے كا باعث نہيں بنتا_بلكہ لوگوں كى طرف سے حمايت اور ساتھ دينے سے اس كى مقبوليت اور خارجى وجود كا اظہار ہوتاہے _

''ولايت انتصابى ''كى حقيقت مكمل طورپر''حقيقت وكالت ''سے بھى مختلف ہے _وكالت ميں ايك مخصوص شخص يعنى وكيل ايك خاص مورد ميں ايك دوسرے شخص يعنى ''موكل'' كى جگہ پر قرار پاتا ہے اور اس كى طرف سے عمل انجام ديتا ہے _اصل اختيار موكل كے ہاتھ ميں ہوتا ہے وكيل انہى اختيارات كى بنياد پر كام كرتا ہے جو ايك يا چند موكل اسے ديتے ہيں _جبكہ ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا _حتى كہ اگر امام معصوم بھى ايك شخص كو وكيل اور دوسرے كو ولايت كے مقام پر منصوب فرمائيںتو ان دونوں كى حقيقت وحيثيت بھى ايك جيسى نہيں ہوتي_آيت الله جوادى آملى اس بار ے ميں كہتے ہيں :

۱۵۲

''ولايت'' اور'' وكالت'' ميں فرق ہے_ كيونكہ وكالت ''موكل'' كے مرنے سے ختم ہوجاتى ہے ليكن ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا يعنى اگر امام معصوم كسى كو كسى امر ميں اپنا وكيل قرار ديتے ہيں تو امام كى شہادت يا رحلت كے بعد اس شخص كى وكالت ختم ہوجاتى ہے_ مگر يہ كہ بعد والے امام اس كى وكالت كى تائيد كر ديں_ ليكن ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا مثلا اگر امام كسى كو منصوب كرتے ہيں اور وہ آپ (ع) كى طرف سے كسى موقوفہ پر ولايت ركھتا ہو تو امام كى شہادت يا رحلت كے بعد اس شخص كى ولايت ختم نہيں ہوگى _ مگر يہ كہ بعد والے امام اس كو ولايت سے معزول كرديں_ (۱)

دوسرا نكتہ يہ ہے كہ'' ولايت فقيہ ''،''نظارت فقيہ ''سے مختلف ہے _ ولايت كا تعلق نظام كے چلانے اور اجراسے ہے_ ولايت اسلامى معاشرہ كے اہم ترين اور مختلف مسائل اور انتظامى امور كو اسلامى موازين اور قواعد كے مطابق حل كرنے كو كہتے ہيں_ جبكہ نظارت ايك قسم كى نگرانى ہے اور اجرائي عنصركى حامل نہيں ہوتى _ زمانہ غيبت ميں سياسى تفكر ميں محل نزاع ''فقيہ عادل كيلئے ولايت كا اثبات'' ہے جبكہ'' نظارت فقيہ'' موافقين اور مخالفين كے درميان محل نزاع و بحث نہيں ہے اصلى نزاع اور جھگڑا اس ميں ہے كہ كيا فقيہ عادل كو شريعت كى طرف سے ولايت پر منصوب كيا گيا ہے يا نہيں؟ لہذا اس باب ميں فقہى بحث كا محور ہميشہ ''ولايت فقيہ'' رہا ہے نہ كہ ''نظارت فقيہ''_

فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كے نظريہ كى بنياد پر يہ سوال سامنے آتا ہے كہ جامع الشرائط فقيہ كيلئے يہ ولايت كس طرح محقق ہوتى ہے؟

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۳۹۵_

۱۵۳

كيا ہر عادل اور جامع الشرائط فقيہ ''شان ولايت'' ركھتا ہے يا ''بالفعل'' اس منصب پر فائزہے ؟

حق يہ ہے كہ اگر'' ولايت فقيہ ''پر روايات كى دلالت صحيح ہو تو پھر ہر ''جامع الشرائط فقيہ '' كيلئے منصب ''ولايت'' ثابت ہے_ اور يہ عہدہ '' اہل حل و عقد ''كے انتخاب يا رائے عامہ جيسے كسى اور امر پر موقوف نہيں ہے_ پس ولايت فقيہ كى ادلّہ كى روسے فقيہ عادل بالفعل ولايت كا حامل ہے _ جس طرح ہر فقيہ عادل بالفعل منصب قضا كا حامل ہوتا ہے اور جھگڑوں كا فيصلہ كر سكتا ہے_

ياد رہے كہ تمام ''و اجدالشرائط فقہاء ''جو كہ'' منصب ولايت ''كے حامل ہيں براہ راست معاشرے كے امور كى نگرانى كے عہدہ پر فائز نہيں ہوسكتے _ جس طرح ايك كيس كے سلسلہ ميں تمام قاضى فيصلہ نہيں دے سكتے _ واضح سى بات ہے كہ جب ايك ''جامع الشرائط فقيہ'' امور كى سرپرستى اپنے ذمہ لے ليتا ہے تو باقى فقہا سے يہ ذمہ دارى ساقط ہوجاتى ہے _ بنابريں ايك فقيہ عادل كو اہل حل و عقد كا منتخب كرنا يا عوام كا اسے تسليم كر لينا دوسرے فقہاء سے منصب ولايت كو سلب نہيں كرتا بلكہ جب تك ايك فقيہ عادل امور كى سرپرستى كر رہا ہے تو دوسروں سے يہ ذمہ دارى ساقط ہے_

۱۵۴

خلاصہ :

۱) جوافراد ولايت فقيہ كو اس ولايت كى قسم سمجھتے ہيں جو محجور و بے كس افراد پر ہوتى ہے وہ ولايت كى قانونى حقيقت و ماہيت كو دوسرے سياسى اقتدار كى قانونى حقيقت سے مختلف قرار ديتے ہيں_

۲) اس نظريہ كے قائلين ''فقيہ كى ولايت عامہ ''كو لوگوں كے كم شعور اور بے بس ہونے كا لازمہ سمجھتے ہيں_

۳) اس نظريہ كے قائلين اس سے غافل رہے ہيں كہ اسلامى معارف ميں لفظ ولايت كے مختلف استعمال ہيں_

۴) روايات ميں امام كومعاشرہ كا قيّم كہا گيا ہے_ اور ان روايات ميں ''قيم''،'' ذريعہ حيات و قوام '' كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_ جس معنى ميں قرآن نے دين اور آسمانى صحيفوں كو'' قيّم ''كہا ہے_

۵) ''ولايت انتصابى ''مكمل طور پرلوگوں كى طرف سے ''ولايت انتخابي'' اور ''وكالت فقيہ '' كے نظريہ سے مختلف ہے_

۶) ولايت انتصابى ايك قانونى حقيقت ہونے كے لحاظ سے وكالت كى ماہيت سے مختلف ہے_

۷)'' ولايت فقيہ ''حاكميت اور امور كى سرپرستى كے معنى ميںہے لہذا'' نظارت فقيہ '' سے واضح فرق ركھتى ہے_

۸) ولايت فقيہ كى ادلّہ كى رو سے يہ ولايت بالفعل ہر جامع الشرائط فقيہ كو حاصل ہے _ يعنى ہر فقيہ عادل امام كى طرف سے منصوب ہوتا ہے اور اس كى ولايت شرعى ہوتى ہے_

۱۵۵

سوالات :

۱) كيا ولايت فقيہ كى قانونى حقيقت دوسرى حكومتوں كے سياسى اقتدار سے مختلف ہوتى ہے؟

۲) وہ افراد جو ولايت فقيہ كو وہ ولايت سمجھتے ہيں جو محجور افراد پر ہوتى ہيں_ انہوں نے كن نكات سے غفلت كى ہے؟

۳) فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''،''وكالت فقيہ ''سے كيا فرق ركھتى ہے؟

۴) كيا ولايت فقيہ اور نظارت فقيہ ايك ہى چيز ہے؟

۵) ولايت فقيہ كى ادلّہ كى روسے جامع الشرائط فقيہ كيلئے كس قسم كى ولايت ثابت كى جاسكتى ہے؟

۱۵۶

ستر ہواں سبق :

ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ -۱-

ولايت فقيہ كى ابتداء آغاز فقہ سے ہى ہوتى ہے_ فقہ اور اجتہاد كى ابتدائ تاريخ سے ہى فقيہ كى بعض امور ميں ولايت كا اعتقاد پايا جاتا ہے _ اس وجہ سے اسے'' فقہ شيعہ'' كے مسلّمات ميں سے سمجھا جاسكتا ہے_ ولايت فقيہ كے متعلق جو شيعہ علماء ميں اختلاف پاياجاتا ہے_ وہ اس كى حدود وقيود اور اختيارات ميں ہے نہ كہ اصل ولايت فقيہ ميں_

قضاوت اور امور حسبيّہ(۱) جيسے امور ميں فقيہ عادل كى ولايت پر سب متفق ہيں_جبكہ اس سے وسيع تر امورميں اختلاف ہے_ يعنى معاشرہ كے سياسى اور انتظامى امور ميں فقيہ ولايت ركھتا ہے يا نہيں ؟ اسے

____________________

۱) امور حسبيّہ سے مراد وہ امور ہيں جن كے چھوڑ دينے پر شارع مقدس كسى صورت ميں بھى راضى نہيں ہے مثلاً بچوں ، ديوانوں اور بے شعور افراد كى سرپرستى _لفظ ''حسبہ' كے معنى اجر اور ثواب كے ہيں _ عام طور پر اس كا اطلاق ان امور پر ہوتا ہے جو اخروى اجر و ثواب كيلئے انجام ديئے جاتے ہيںاور كبھى قربت كے معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے _وہ كام امور حسبيّہ ميں شمار ہوتے ہيں جنہيں قربت خدا كيلئے انجام ديا جاتا ہے يا در ہے كہ امور حسبيّہ واجبات كفائي نہيں ہيں _ كيونكہ واجبات كفائي ان امور كو كہتے ہيں جنہيں ہر شخص انجام دے سكتا ہے اور بعض كے انجام دينے سے دوسروں سے ساقط ہوجاتے ہيں جبكہ امور حسبيّہ ميں تصرف كا حق يا تو صرف فقيہ عادل كے ساتھ مخصوص ہے يا پھر كم از كم فقيہ عادل كے ہوتے ہوئے دوسرے حق تصرف نہيں ركھتے _

۱۵۷

''ولايت عامہ فقيہ'' يا ''معصومين كى نيابت عامہ'' سے بھى تعبير كيا جاتا ہے_ فقيہ كى ولايت عامہ سے مراد يہ ہے كہ فقيہ عادل نہ صرف اجرائے احكام ، قضاوت اور امور حسبيّہ ميں امام معصوم كا نائب ہے بلكہ امام كى تمام قابل نيابت خصوصيات كا بھى حامل ہو تا ہے_

ولايت فقيہ كے بعض مخالفين يہ باور كرانا چاہتے ہيں كہ شيعہ فقہ كى تاريخ ميں ولايت عامہ فقيہ كى بحث ايك نئي بحث ہے جو آخرى دو صديوں ميں منظر عام پر آئي ہے جبكہ شيعہ فقہ كى طويل تاريخ ميں اس سے پہلے اس كا كوئي وجود نہيں ملتا حالانكہ فقاہت تشيع كے تمام ادوار ميں اس نظريہ كے قابل اعتبار قائلين موجود رہے ہيں بلكہ بعض بڑے بڑے شيعہ علماء و فقہاء نے اس كے متعلق فتوے بھى ديئے ہيں اور بعض علماء نے اس كے متعلق اجماع كادعوى بھى كيا ہے_ يہاں ہم صرف تين بزرگ فقہاء كے كلام كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

دسويں صدى كے عظيم شيعہ فقيہ جناب محقق كر كى جامع الشرائط فقيہ كيلئے امام كى نيابت عامہ كو اجماعى اور متفق عليہ سمجھتے ہيں اور كہتے ہيں : اس ولايت كا نہ ہونا شيعوں كے امور كے معطل ہونے كا باعث بنتا ہے_(۱)

عظيم كتاب ''جواہر الكلام'' كے مصنف اور نامور شيعہ فقيہ شيخ محمد حسن نجفى امر بالمعروف كى بحث كے دوران امام معصوم كے تمام مناصب ميں فقيہ عادل كى نيابت كو شيعہ علماء كے نزديك ايك مسلّم حقيقت سمجھتے ہيں _ ان كا كہنا ہے كہ فقيہ كى ولايت عامہ سے انكار شيعوں كے بہت سے امور كے معطل ہونے كا باعث بنتا ہے_ اور جنہوں نے فقيہ كى ولايت عامہ كا انكار يا اس ميں شك كيا ہے انہوں نے نہ تو فقہ كے مزہ كو چكھا ہے اور نہ ہى معصومين كے كلام كے رموز كو سمجھا ہے(۲) _آپ فرماتے ہيں:

____________________

۱) رسائل محقق كركى جلد ۱ ، صفحہ ۱۴۲، ۱۴۳_ رسالة فى صلاة الجمعة_

۲) آپ كى آنے والى عبارت كا ترجمہ بھى تقريبا يہى ہے ( مترجم)

۱۵۸

ثبوت النيابة لهم فى كثير من المواضع على وجه يظهر منه عدم الفرق بين مناصب الامام اجمع ، بل يمكن دعوى المفروغية منه بين الاصحاب، فانّ كتبهم مملوء ة بالرجوع الى الحاكم ، المراد منه نائب الغيبة فى سائر المواضع لو لا عموم الولاية لبقى كثير من الامور المتعلّقة بشيعتهم معطّلة _ فمن الغريب وسوسة بعض الناس فى ذلك بل كانّه ما ذاق من طعم الفقه شيئاً، و لا فهم من لَحن قولهم و رموزهم امراً (۱)

فقيہ متبحر آقا رضا ہمدانى فقيہ عادل كيلئے امام كى نيابت اور جانشينى كے مسلّمہ ہونے كے متعلق يوں فرماتے ہيں:

زمانہ غيبت ميں اس قسم كے امور (وہ امور عامہ جن ميں ہر قوم اپنے رئيس كى طرف رجوع كرتى ہے) ميں جامع الشرائط فقيہ كے امام كے جانشين ہونے ميں شك و ترديد معقول نہيں ہے جبكہ علماء كے اقوال بھى اس بات كى تائيد كرتے ہيں كيونكہ ان كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ يہ بات امور مسلّمہ ميں سے ہے اور يہ بات اس قدر واضح تھى كہ بعض علماء نے تو امام كى طرف سے فقيہ كى نيابت عامہ كى دليل ''اجماع'' كو قرار ديا ہے_(۲)

ہم اشارہ كر چكے ہيں كہ فقہ شيعہ كے طول تاريخ ميں زمانہ قدماء سے ليكر آج تك علمائ'' فقيہ كى ولايت

____________________

۱) جواہر الكلام فى شرح شرائع الاسلام جلد ۲۱، صفحہ ۳۹۶، ۳۹۷_

۲) مصباح الفقيہ جلد ۱۴، صفحہ ۲۹۱ كتاب الخمس _

۱۵۹

عامہ'' كے معتقد رہے ہيں اور عظيم فقہاء نے اسى كے مطابق فتوے ديئے ہيں_ بہتر ہے كہ ہم يہاں مختلف ادوار كے علماء كے اقوال ذكر كر ديں_

محمد ابن نعمان بغدادى متوفى ۴۱۳ھ جو كہ شيخ مفيدرحمة الله عليہ كے نام سے مشہور ہيں اور شيعوں كے بہت بڑے فقيہ شمار ہوتے ہيں_ مخالفين كے اس ادعا كو نقل كرنے كے بعد كہ اگر امام زمانہ عجل الله فرجہ الشريف كى غيبت اسى طرح جا رى رہى تو حدود الہى كا اجرا كسى پر واجب نہيں ہے_ كہتے ہيں:

فأما إقامة الحدود فهو إلى سلطان الاسلام المنصوب من قبَل الله تعالى و هم ائمة الهُدى من آل محمد(ص) و من نصبوه لذلك من الاُمراء والحكام ، و قد فَوَّضوا النظرَ فيه إلى فقهاء شيعتهم مع الامكان (۱)

حدود الہى كا اجرا حاكم شرعى كا كام ہے _ وہ حاكم شرعى جسے خدا كى طرف سے مقرر كيا گيا ہو اور وہ ائمہ اہلبيت ہيںيا وہ افراد جنہيں ائمہ معصومين حاكم مقرر كرديں اور ممكنہ صورت ميں انہوں نے يہ كام اپنے شيعہ فقہا كے سپرد كر ركھا ہے_

اس عبارت ميں شيخ مفيد حدود الہى كا اجرا اسلام كے حاكم كى ذمہ دارى قرار ديتے ہيں نہ كہ قاضى كى لہذا ان كا اس بات كى تاكيد كر نا كہ يہ كام جامع الشرائط فقيہ كى خصوصيات ميں سے ہے فقيہ كى ولايت عامہ كى دليل ہے _ كيونكہ صرف حاكم شرع ہى حدود الہى كو جارى كرسكتا ہے_ يہ بات درج ذيل دو روايات كے ساتھ مطابقت ركھتى ہے_

''عن حفص بن غياث قال : سألت اباعبدالله (عليه السلام)

____________________

۱) المقنعہ صفحہ ۸۱۰، كتاب الامر بالمعروف و النہى عن المنكر _

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

كيونكہ جملہ''ان تضل'' علت كو بيان كر رہا ہے لہذا اپنے مورد (عورتوں كى گواہي) كے غير كو بھى شامل ہو سكتا ہے _

٢٨_ اگر ايك گواہ بھول جائے يا غلطى كرے تو دوسرے پر اسے ياد دلانا واجب ہے_ان تضل احديهما فتذكر احديهما الاخري

٢٩_ جب گواہوں كو گواہى كيلئے بلايا جائے تو ان پر واجب ہے كہ گواہى ديں _ولايأب الشهداء اذا ما دعوا

يہ اس صورت ميں ہے كہ''اذا ما دعوا'' كا مطلب گواہى دينے كى دعوت ہو يعني''اذا ما دعوا الى اداء الشهادة'' _

٣٠_ جب مومنين كو گواہ بننے كيلئے كہا جائے تو ان پر اس كا قبول كرنا واجب ہے_ولايأب الشهداء اذا ما دعوا

يہ اس صورت ميں ہے كہ''اذا ما دعوا''سے مراد گواہ بننے كى دعوت ہو يعنى''اذا ما دعوا الى تحمل الشهادة''

٣١_ خودبخود گواہ بننا اور گواہى دينا واجب نہيں جب تك بلايا نہ جائے_ولايأب الشهداء اذا ما دعوا

كيونكہ گواہ بننے اور گواہى دينے كے وجوب كو دعوت دينے كے ساتھ مشروط كيا گياہے پس جملہ شرطيہ كا مفہوم يہ ہوگا كہ اگر گواہى كيلئے دعوت نہ دى جائے تو گواہ بننا اور گواہى دينا واجب نہيں ہے_

٣٢_ گواہى دينے كيلئے گواہوں كو حاضر كرنا جائز ہے_ ولاياب الشهداء اذا ما دعوا

٣٣_ معاملے كا چھوٹا يا بڑا ہونا لكھنے والے كيلئے ، قرضوں اور حقوق كى دستاويز تيار كرنے اور ان كى مدت كے لكھنے كے فريضہ سے اكتاہٹ كا موجب نہيں ہونا چاہئے_ولاتسئموا ان تكتبوه صغيرا او كبيرا الى اجله

٣٤_ مبادلات و معاملات كى دستاويز مرتب كرنے اور لكھنے كى خاص اہميت_ولاتسئموا ان تكتبوه صغيرا او كبيرا الى اجله

قرضے كى دستاويز لكھنے ميں اكتاہٹ برتنے سے نہى كرنا اگرچہ معاملہ چھوٹا ہى ہو، قرضوں اور معاملات كى دستاويز تيار كرنے كى اہميت سے حكايت كرتا ہے_

٣٥_ قرضوں ، ان كى مدت اور حقوق كا ثبت كرلينا

۳۴۱

معاملہ چھوٹا ہو يا بڑا خداوندعالم كے نزديك بڑا عادلانہ عمل اور گواہى قائم كرنے كيلئے بہت زيادہ ممد و معاون اور مضبوط و ٹھوس بنياد ہے_ذلكم اقسط عند الله و اقوم للشهادة

٣٦_ دستاويز تيار كرنے ميں الہى احكام پر عمل كرنا اور ان كا خيال ركھنا لوگوں كے حقوق كو عدل و انصاف كے ساتھ ادا كرنے كا سبب ہے_ذلكم اقسط عند الله

٣٧_ تيار شدہ دستاويز كو آئينى و حقوقى حيثيت حاصل ہے_ولاتسئموا ان تكتبوه ذلكم اقسط عند الله و اقوم للشهادة

٣٨_ عدل و انصاف قائم كرنا اور اس كو عام كرنا ،گواہى قائم كرنے اور ادا كرنے ميں ٹھوس بنياد كا فراہم كرنا اور شكوك و شبہات كے پيدا ہونے كى روك تھام كرنا معاملات كى دستاويز تيار كرنے كے لازم ہونے كا فلسفہ ہے_

ذلكم اقسط عند الله و ادنى الا ترتابوا

٣٩_ معاشرہ كے افراد كے حقوق كے سلسلہ ميں عدل و انصاف كى رعايت نہ كرنا اور اقتصادى روابط كے حدود كى تعيين ميں متزلزل رہنا، اقتصادى تعلقات كى بربادى كا سبب ہے_ذلكم اقسط عندالله و اقوم للشهادة و ادنى الا ترتابوا

كيونكہ''ذلكم اقسط ''مذكورہ احكام كى علت ہے لہذا يہ ايك قاعدہ كليہ ہے كہ سماجى انصاف اور اقتصادى روابط كى حدود مشخص كرنے ميں ثابت قدمى ايك ايسا قانون اور اصول ہے كہ اگر اس كى رعايت اور پابندى نہ كى جائے تو معاشرہ فتنہ و فساد كا شكار ہوجاتاہے_

٤٠_ معاشرہ كے اقتصادى تعلقات منظم و مرتب كرنے ميں بہت ٹھوس اقدامات اور سوچ بچار كى ضرورت ہے_

اذا تداينتم بدين فاكتبوه فليكتب و ليملل فليملل وليه بالعدل و استشهدوا شهيدين ولايأب الشهداء الا ترتابوا

٤١_ احكام كوانجام دينے كى ترغيب دلانے كيلئے قرآن كريم كا ايك طريقہ يہ ہے كہ ان احكام كا فلسفہ بيان كرتاہے_

ان تضل احديهما ذلكم اقسط عندالله و اقوم للشهادة و ادنى الا ترتابوا

۳۴۲

٤٢_ نقد معاملات ميں دستاويز تيار كرنا ضرورى نہيں ہے_

الا ان تكون تجارة حاضرة تديرونها بينكم فليس عليكم جناح الا تكتبوها

٤٣_نقد معاملات كى دستاويز تيار كرنا بھى اچھا اقدام ہے_*فليس عليكم جناح الا تكتبوها

٤٤_ معاملہ اگرچہ نقد ہو خريد و فروخت كے وقت گواہ بنانا لازمى ہے_واشهدوا اذا تبايعتم

٤٥_ لكھنے والوں اور گواہوں پر حرام ہے كہ وہ طرفين كو نقصان پہنچائيں يا ان كے ساتھ خيانت كريں _

ولايضار كاتب و لاشهيد يہ اس صورت ميں ہے كہ''لايضار'' فعل معلوم ہو نہ مجہول ايسى صورت ميں اس كا تعلق طرفين معاملہ سے ہوگا يعنى كاتب اور گواہ طرفين معاملہ كو نقصان نہ پہنچائيں _

٤٦_ لكھنے والے اور گواہ كو تحفظ فراہم كرنا ضرورى ہے_ولايضار كاتب و لاشهيد

يہ اس صورت ميں كہ''لايضار'' مجہول ہو اور''كاتب'' اور''شہيد''نائب فاعل ہو_

٤٧_ لكھنے اور گواہى دينے كى وجہ سے لكھنے والے يا گواہ كو پہنچنے والے نقصان كا تدارك كرنا ضرورى ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد يہ اس صورت ميں ہے كہ''لايضار'' فعل مجہول ہو اور ضرر سے مراد گواہى اور كتابت كے نتيجے ميں ہونے والا نقصان ہو يعنى كاتب اور گواہ پر كسى قسم كى خسارت نہ ڈالى جائے اس كا لازمہ يہ ہے كہ اگر انہيں ضرر پہنچے تو اس كا ازالہ ضرورى ہے مثلاً اپنے كام سے بيكار ہونا يا آنے جانے كا كرايہ وغيرہ_

٤٨_ گواہ اور معاملات لكھنے والے كو نقصان پہنچانا فسق اور حق سے انحراف و روگردانى ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد و ان تفعلوا فانه فسوق بكم يہ تب ہے كہ''لايضار'' فعل مجہول ہو_

٤٩_ گواہ اور لكھنے والے كا خيانت كرنا فسق اور حق سے انحراف ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد و ان تفعلوا فانه فسوق بكم يہ اس صورت ميں ہے كہ ''لايضار'' فعل معلوم ہو نہ مجہول _

۳۴۳

٥٠_ جو خسارہ كاتب اور گواہ كو كتابت اور گواہى كى وجہ سے اٹھا ناپڑے اس كا ازالہ نہ كرنا فسق اور حق سے انحراف كا موجب ہے_ولايضار كاتب و لاشهيد و ان تفعلوا فانه فسوق بكم اگر''لايضار'' مجہول ہو تو ''ضرر''سے مراد كتابت اور گواہى كے نتيجے ميں ہونے والے نقصانات ہيں يعنى كاتب اور شاہد كو پہنچنے والے نقصان كا پورا نہ كرنا فسق و فجور اور انحراف ہے_

٥١_ اقتصادى معاملات اور لين دين ميں الہى احكام پر عمل پيرا ہونے كيلئے تقوي اور خوف خدا، ممد و معاون ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد واتقوا الله

٥٢_ قرض كى دستاويز لكھنے والا طرفين كے علاوہ ايك تيسرا شخص ہونا چاہئے_*

وليكتب بينكم كاتب بالعدل ولايأب كاتب ولايضار كاتب

٥٣_ لين دين كرنے والوں ، گواہوں اور دستاويز تيار كرنے والوں كيلئے تقوي كى رعايت لازمى ہے_

اذا تدانيتم ولايأب كاتب و استشهدوا شهيدين واتقوا الله

گواہ، كاتب اور معاملہ كرنے والے''واتقوا الله ''كے خطاب ميں شامل ہيں _

٥٤_اسلام ميں اخلاقيات اور اقتصاديات ہم آہنگى ركھتے ہيں _اذا تداينتم ولا يأب كاتب واستشهدوا ولاتسئموا واتقوا الله

٥٥_ ايسے قوانين كى تعليم دينے والا خداوند عالم ہے جو معاشرتى اور اقتصادى روابط پر حاكم ہوں _

اذا تداينتم و يعلمكم الله

٥٦_ تقوي اپنانے كا طريقہ، خدا تعالي تعليم ديتا ہے_*واتقوا الله و يعلمكم الله

''واتقوا الله ''كے قرينہ كو ديكھتے ہوئے احتمال ديا جاسكتا ہے كہ''يعلمكم الله '' كا مفعول محذوف تقوي كا طريقہ ہو يعنى''يعلمكم الله طريقة التقوي'' _

٥٧_ معاشرہ كے افراد كى قانونى ملكيت كا احترام اور اس كے حدود كى رعايت كرنا ضرورى ہے_

اذا تداينتم ذلكم اقسط واتقوا الله احكام و مسائل كہ جن ميں اشخاص كى اپنے اموال پر ملكيت بھى ہے ، كو بيان كرنے نيز ان اموال كے دوسروں كى طرف نقل و انتقال كى

۳۴۴

شرائط كو بيان كرنے كے بعد تقوي كا حكم دينا بتلاتا ہے كہ ان مسائل كا احترام و رعايت كرنا ضرورى ہے_

٥٨_ خداوند عالم كا تمام موجودات عالم كے بارے ميں وسيع علم (خدا كا مطلق علم)_والله بكل شى عليم

٥٩_ خداوند عالم، عليم ہے_والله بكل شى عليم

٦٠_ الہى قوانين خدا وند عالم كے وسيع اور آفاقى علم سے نشأت پاتے ہيں _فاكتبوه ولايأب كاتب و ليملل واستشهدوا والله بكل شى عليم

٦١_ معاشرہ كے اندر مؤمنين ايك دوسرے كے سامنے جوابدہ ہيں اور سب كے سب ايك دوسرے كے ساتھ جڑے ہوئے ہيں _يا ايها الذين امنوا ولاياب كاتب ولاياب الشهداء و اشهدوا ولايضار كاتب و لاشهيد

اس آيت شريفہ نے لين دين كرنے والوں ، لكھنے والے اور گواہوں كے كچھ حقوق و فرائض معين كيئے ہيں جو كہ ان كے ايك دوسرے كے سامنے ذمہ دارى اور جواب دہى كو بيان كرتے ہيں _

٦٢_ لين دين كرنے والوں ، گواہوں اور لكھنے والوں كے اعمال و كردار خدا وند متعال كے وسيع علم كے احاطے ميں ہيں _اذا تداينتم وليكتب بينكم كاتب بالعدل ولاياب كاتب ولايأب الشهداء والله بكل شى عليم

احكام: ٢، ٣، ٤،٦، ٨، ١١، ١٢، ١٤، ١٦، ١٨، ١٩، ٢١، ٢٢، ٢٤، ٢٦، ٢٧، ٢٨، ٢٩، ٣٠، ٣١، ٣٢، ٣٧، ٤٢، ٤٤، ٤٥، ٤٧، ٥٢ احكام كا فلسفہ ٢٦، ٢٧، ٣٦، ٣٨، ٤١ احكام كى تشريع ٦٠

اسماء و صفات: عليم ٥٩

اقتصاد: اقتصاداور اخلاق ٥٤

اقتصادى نظام: ٤٠، ٥٤، ٥٥، ٥٧

اقرار: اقرار كے احكام ١٤

۳۴۵

انتخاب كرنا: انتخاب كرنے كى شرائط ٥

ايمان: ايمان كے آثار ا

تحريك: تحريك كے عوامل ١

تربيت: تربيت كا طريقہ ٤١

تقوي: تقوي كى اہميت ١٢، ٥٣، ٥٦ ;تقوي كے اثرات ١٥، ٥١

حقوق: حقوق كى لكھائي ٣٥

حقوق كا نظام: ١٩

خدا تعالي: خداتعالي كا علم ٥٨، ٦٠، ٦٢ خدا تعالي كى نعمتيں ٩

خوف: خوف كے اثرات ٥١

دستاويز: دستاويز تيار كرنا٢، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ١١، ١٢، ١٣، ١٦، ٢١، ٣٣، ٣٤، ٣٦، ٤٣ ;دستاويز كى اہميت ٧; دستاويز كى شرائط ٨، ١١

دينى نظام تعليم: ٥١

سفيہہ: سفيہہ كا كفيل ١٦ ; سفيہہ كى كفالت ١٨ ; سفيہہ كے حقوق ١٧

سماجى روابط: ٥٥ سماجى نظام: ١٨، ٥٥، ٦١

شرعى فريضہ: اس پر عمل كرنا ١، ٥١

عدل وانصاف : اسكى اہميت ١٩، ٢٠، ٣٥، ٣٨، ٣٩

علم: علم اور شرعى فريضہ ١٠; علم كے اثرات ١٠

علماء: علماء كى ذمہ دارى ١٠

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ا٤;عمل كا پيش خيمہ ١، ٥١

۳۴۶

عورت: عورت كى گواہى ٢٣، ٢٦ ; عورت كى لغزش ٢٥

فساد: فساد كا پيش خيمہ٣٩ ; فساد كے عوامل ٥٠; فساد كے موارد ٤٨، ٤٩

فقہى قاعدہ: ١٤ قانون سازي: قانون سازى كى شرائط ١٧

قرض: قرض كا لكھنا ٣٥ ;قرض كى دستاويز ٢، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ١٦، ٣٣، ٥٢; قرض كے احكام ٢، ٣، ٤، ٦، ٨، ١١، ١٢، ١٦، ٢١، ٢٢، ٢٥ قرض ميں گواہى ٢٤

كاتب: اسكى خيانت ٤٥، ٤٩ ;اسكى ذمہ دارى ٥٣; اس كى شرائط ٥٣

كفالت: كفالت كے احكام ١٩; كفالت ميں عدل و عدالت ١٩، ٢٠

كمزور و ناتوان: كمزور و ناتو ان كى كفالت ١٨ ;كمزور و ناتوان كے حقوق ١٧ ;كمزور و ناتوان كے كفيل ١٦

گمراہي: گمراہى كے عوامل ٥٠;گمراہى كے موارد ٤٨، ٤٩

گواہ: گواہ كو نقصان ٤٨ ;گواہ كى خيانت ٤٥، ٤٩ ; گواہى كى ذمہ دارى ٥٣; گواہ كى شرائط ٢٢، ٢٤

گواہي: گواہى دينا ٣٥ ، ٣٨;گواہى كا واجب ہونا ٢٩، ٣٠ ; گواہى كى اہميت ٤٦ ; گواہى كے احكام ٢١، ٢٢، ٢٤، ٢٦، ٢٧، ٢٨، ٢٩، ٣٠، ٣١، ٣٢، ٤٤، ٤٧، ٥٠; گواہى ميں بالغ ہونا ٢٢

لكھائي: لكھائي كى اہميت ٤٦ ; لكھائي كى نعمت ٩ ; لكھائي كے احكام ٤٧، ٥٠; لكھائي ميں عدل و عدالت ٥

لوگ: لوگوں كے حقوق ١٥، ٣٦، ٣٩

مالكيت: مالكيت كى اہميت ٥٧

محرمات: ٤٥

مرد: مرد كى گواہى ٢٣، ٢٦

معاشرہ:

۳۴۷

اسكے انحطاط كے اسباب و عوامل ٣٩ معاشرہ كى ذمہ دارى ا٦ ; معاشرے ميں مؤمنين ٦١

معاملہ: اس ميں گواہ ٤٨، ٤٩ ;اس ميں گواہى ٤٤ ; نقد معاملہ٤٢،٤٣

وَإِن كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُواْ كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (٢٨٣)

اور اگر تم سفر ميں ہو اور كوئي كاتب نہيں مل رہا ہے تو كوئي رہن ركھ دو اور ايك كو دوسرے پر اعتبار ہو تو جس پر اعتبار ہے اس كو چاہئے كہ امانت كو واپس كردے اور خدا سے ڈرتا رہے_ اور خبردار گواہى كو چھپانا نہيں كہ جو ايسا كرے گا اس كا دل گنہگار ہو گا اور الله تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے _

١_ اگر كاتب نہ مل سكے تو قرض و بقاياجات كى دستاويزكى بجائے كوئي چيز گروى ركھنا (رہن) كافى ہے_

و ان كنتم على سفر و لم تجدوا كاتبا

معاہدہ: اسكے احكام ٣٧

مقروض: اسكى ذمہ دارى ١٢

واجبات: ٢، ٣، ٤، ١٢، ١٦، ٢١، ٢٩، ٣٠، ٤٤

فرھان مقبوضة ظاہرى طور پر جملہ''و لم تجدوا كاتبا'' بيان ہے''على سفر'' كا يعنى مسافر ہونا خصوصيت نہيں ركھتا بلكہ سفر صرف وہ مورد

۳۴۸

ہے كہ جس ميں عموماً لكھنے والا نہيں ملتا پس اصل چيز كاتب كا نہ ملنا ہے سفر ميں ہو يا حضر ميں _

٢_ اگر مقروض پر اعتماد ہو تو كوئي چيز گروى ركھنا ضرورى نہيں ہے_فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته

جملہ''فان امن '' گروى ركھنے كا فلسفہ بيان كر رہا ہے يعنى قرض كے ضائع ہونے كے خوف كو ختم كرنا لہذا اگر يہ پريشانى مقروض پر اعتماد كے ذريعے دور ہوجائے تو رہن لينے كى ضرورت نہيں ہے البتہ يہ معني تب درست ہے كہ جملہ''فان امن ...'' رہن لينے كے لزوم سے استثنا ہو اور امانت سے مراد قرض ہو_

٣_ امانت كو اس كے مالك كو لوٹانا واجب ہے_فليؤد الذى اؤتمن امانته

٤_ گروى ركھى جانے والى چيز امانت ہے_فرهان مقبوضة فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته

يہ اس صورت ميں ہے كہ امانت سے مراد گروى ركھى جانے والى چيز ہونہ كہ قرض جو طرفين ميں سے كسى كے ذمے رہتا ہے_

٥_ گروى ركھى جانے والى چيز كا اس كے مالك كو لوٹانا واجب ہے_فرهان مقبوضة فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته

٦_ امانت ميں خيانت حرام ہے_فليؤد الذى اؤتمن امانته و ليتق الله ربه

٧_ اقتصادى و تجارتى لين دين كے آسان ہونے ميں اعتماد و امانت كى تاثير_فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته گذشتہ ايك احتمال كى بناپر قرض دينے والے پر مقروض سے رہن لينا لازمى نہيں ہے اور يہ چيز اقتصادى معاملات ميں آسانى ہے_

٨_ اسلام ميں اقتصادى روابط كا اخلاقيات سے ہم آہنگ ہونا_فرهان مقبوضة فان امن بعضكم بعضا

٩_ خوف خدا اور تقوي امانتيں لوٹانے اور الہى احكام پر عمل كرنے كا موجب بنتے ہيں _فليؤد الذى اؤتمن امانته و ليتق الله ربه

١٠_ گواہى كا كتمان كرنا حرام ہے_ولاتكتموا الشهادة

۳۴۹

١١_ گناہگار دل كتمان شہادت كا (گواہى نہ دينے كا ) سرچشمہ ہيں _و من يكتمها فانه اثم قلبه

١٢_ گواہى چھپانا قلبى گناہ ہے_و من يكتمها فانه اثم قلبه

١٣_ خدا تعالي كا انسان كے اعمال كے بارے ميں ہر لحاظ سے مكمل آگاہ ہونا_والله بما تعملون عليم

١٤_ خدا تعالي كى طرف سے امانت ميں خيانت كرنے والوں اور گواہى چھپانے والوں كو تنبيہ _

فليؤد الذى اؤتمن امانته ولاتكتموا الشهادة والله بما تعملون عليم

١٥_ انسان كے اعمال سے خداوند عالم كى مكمل آگاہى كى طرف متوجہ رہنا الہى احكام پر عمل اور خداتعالي كى نافرمانى سے اجتناب كا پيش خيمہ ہے_والله بما تعملون عليم

٦ا_ رہن كى شرط يہ ہے كہ جو چيز رہن ميں دى جارہى ہے اس قبضہ كرليا جائے _

فرهان مقبوضة اس مطلب كى مؤيّد امام باقر(ع) سے يہ روايت ہے كہ فرمايا لارھن الا مقبوضا (١) رہن تب ہوتاہے جب قبضہ كرلياجائے_

١٧_ گواہى كا چھپانا، چھپانے والے كے باطنى كفركى حكايت كرتا ہے_ولاتكتموا الشهادة و من يكتمها فانه آثم قلبه امام باقر(ع) آيت''فانہ آثم قلبہ''كے بارے ميں فرماتے ہيں _ كافر قلبہ (٢) اس كا دل كافر ہے_

احكام: ١، ٢، ٣،٤، ٥، ٦، ١٠، ١٦

اعتماد: اعتماد كى اہميت ٧

اقتصاد: اقتصاد اور اخلاق ٨

اقتصادى نظام: ٧، ٨

____________________

١) تہذيب شيخ طوسي ج ٧ ص ١٧٦ حديث٣٦ ، نورالثقلين ج ١ ص ٣٠١ حديث ٢٠٤ا_

٢) من لايحضرہ الفقيہ ج ٣ ص ٣٥ حديث ٥، نورالثقلين ج ١ ص ٣٠١ حديث ١٢٠٧_

۳۵۰

امانت: امانت كا لوٹانا ٩ امانت كى اہميت ٧; امانت كے احكام ٣، ٤، ٦ ; امانت ميں خيانت ٦، ١٤

انسان: انسان كا عمل ١٣

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ٥ا;تقوي كے اثرات ٩

خداتعالي: خداتعالي كا علم ١٣، ١٥ خداتعالي كى تنبيہ١٤

دستاويز: دستاويز تيار كرنا ا

دل: دل كا كفر ١٧; دل كا گناہ ١٢

روايت : ١٦، ١٧

رہن: احكام رہن ١، ٢، ٤، ٥، ١٦

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل ٩، ١٥

قرض: قرض كے احكام ١، ٢

گواہي: گواہى كے احكام ١٠ گواہى كا چھپانا ١٠، ١١، ١٢، ١٤، ١٧

مالى روابط: ٧

محرمات: ٦، ١٠

واجبات: ٣، ٥

۳۵۱

لِلَّهِ ما فِي السَّمَاواتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَإِن تُبْدُواْ مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللّهُ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاء وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاء وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (٢٨٤)

الله ہى كے لئے زمين و آسمان كى كل كا ئنات ہے _تم اپنے دل كى باتوں كا اظہار كرو يا ان پر پردہ ڈالو وہ سب كا محاسبہ كرے گا _ وہ جس كو چاہے گا بخش دے گا اور جس پر چاہے گا عذاب كرے گا وہ ہر شے پر قدرت و اختيار ركھنے والا ہے _

١_ آسمانوں اور زمين كى تمام موجودات كا تنہا مالك خداوند عالم ہے_لله ما فى السماوات و ما فى الارض

٢_ خدا وند متعال كى مطلق مالكيت پر توجہ مالى و اقتصادى روابط ميں عدل و انصاف اور ا حكام الہى پر عمل كرنے كا پيش خيمہ ہے_اذا تداينتم بدين و ان كنتم على سفر لله ما فى السماوات و ما فى الارض

٣_ خدا وند متعال اس كا حساب لے گا جو آدمى كے دل ميں ہے چاہے اسے ظاہر كرے يا چھپائے ركھے_

وان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

٤_ گواہى چھپانے والوں كو خداتعالي كى تنبيہہ اور ان كے گناہ كا محاسبہ_و من يكتمها فانه اثم قلبه و ان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

٥_ خداوند عالم، انسان كى نفسيانى صفات و صلاحيتوں اور نيتوں كا حساب بھى لے گا_و ان تبدوا ما فى انفسكم يحاسبكم به الله

۳۵۲

''ما فى انفسكم'' نيتوں كے علاوہ نفسيانى صفات (جيسے شجاعت، بزدلي، بخل وغيرہ) كو بھى شامل ہوسكتا ہے ليكن اگر''فى انفسكم'' جار و مجرور استقرار كے متعلق ہونہ صرف وجودكے تو نفس ميں يہى صفات مستقر ہيں _

٦_ انسان كا نفس اور باطن اس كے اعمال كا سرچشمہ ہے_و ان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه

جملہ''و ان تبدوا '' كا مطلب يہ ہے كہ انسان سے مقام عمل ميں وہى اعمال صادر ہوتے ہيں جو اس كے دل ميں ہوتے ہيں يعنى مقام عمل ميں اعمال ،انسان كے باطن اور نفس كا مظہر ہيں _

٧_ انسان كے اعمال اور اس كى نيتوں كا مالك خداوند متعال ہے_ لله مافى السماوات و ما فى الارض وان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

٨_ خداتعالي كى مطلق مالكيت انسان كے اعمال ،اس كى نيتوں اور ان كے حساب پر حكمرانى كى علت ہے_

لله ما فى السماوات و ما فى الارض و ان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

جملہ''لله ما فى السماوات ''،''ان تبدوا ''كيلئے تمہيد كے طور پر ہے يعنى خداوندعالم سب چيزوں كا حقيقى مالك ہے كہ جن ميں سے انسان كے اعمال اور اس كى نيتيں بھى ہيں _ اور چونكہ وہ حقيقى مالك ہے لہذا انسان كے اعمال اور نيتوں كا حساب لينے پر قدرت ركھتا ہے_

٩_ خداوند عالم، انسان كے اعمال اور نيتوں كا حساب لينے كے بعد يا اسے معاف كردے گا يا عذاب كرے گا_

و ان تبدوا فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

١٠_ انسان كے گناہوں كى بخشش يا ان پر عذاب كرنا خداوند متعال كى مشيت سے و ابستہ ہے_

فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

١١_ خداوند متعال كى رحمت و مغفرت اس كے عذاب ، قہر اور غضب پر مقدم ہے_ *فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء يہ نكتہ عذاب سے پہلے مغفرت كے ذكر سے حاصل كيا گيا ہے_

١٢_ انسانوں كو سزا دينا ان كے اپنے اعمال كا نتيجہ اور انجام ہے_

۳۵۳

و ان تبدوا ما فى انفسكم يحاسبكم به الله و يعذب من يشاء

١٣_ قرآن كريم كا انسانوں كى تربيت ميں خوف و رجاء (خوف و اميد) كى روش سے استفادہ كرنا_

يحاسبكم به الله فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

١٤_ خدا تعالي انسان كے اعمال اور اس كى نيتوں كا حساب لينے اور اسے بخشنے يا عذاب كرنے پر قادر ہے_

و ان تبدوا يحاسبكم به الله فيغفر و يعذب والله على كل شى قدير

١٥_ خدا وند عالم كى قدرت، مطلقہ ہے _و الله على كل شى قدير

١٦_ خداوند متعال، قدير ہے_و الله على كل شى قدير

آسمان: آسمان كا مالك ١

اسماء و صفات: قدير ١٦

انسان: انسان كا عمل ٧، ٨، ٩، ١٤ انسان كا مالك ٧، انسان كى نيت ٣، ٥، ٧، ٨، ٩، ١٤

تربيت: تربيت كا طريقہ ١٣

خداتعالي: خدا تعالي كا حساب لينا ٣، ٤، ٥، ٨، ٩، ١٤ ;خدا تعالي كا عذاب ١١، ١٤;خداتعالي كا معاف كرنا ٩; خداتعالي كى تنبيہہ٤; خدا تعالي كى رحمت ١١ خداتعالي كى طرف سے سزا ٩; خداتعالي كى قدرت ١٥، ١٦ ;خداتعالي كى مالكيت ١، ٢، ٧، ٨ ;خدا تعالي كى مشيت ١٠; خداتعالي كى مغفرت ١١، ١٤

خوف: خوف اور اميد ١٣

راہ و روش: راہ و روش كى بنياديں ٦

زمين: زمين كا مالك ١

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل ٢

عدل و انصاف: عدل و انصاف قائم كرنا ٢

علم: علم كے اثرات ٢

۳۵۴

عمل: عمل كا پيش خيمہ ٢; عمل كى سزا ١٢ ;عمل كے اثرات ١٢

گناہ: گناہ كى بخشش ١٠ ; گناہ كى سزا ١٠

مالى روابط: ٢

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (٢٨٥)

رسول ان تمام باتوں پر ايمان ركھتا ہے جو اس كى طرف نازل كى گئي ہيں اور مومنين بھى سب الله اور ملائكہ اور مرسلين پر ايمان ركھتے ہيں ان كا كہنا ہے كہ ہم رسولوں كے در ميان تفريق نہيں كرتے _ ہم نے پيغام الہى كو سنا اور اس كى اطاعت كى _ پروردگار اب تيرى مغفرت در كار ہے اور تيرى ہى طرف پلٹ كرآنا ہے _

١_ پيغمبر اكرم (ص) كا اس چيز پر ايمان جو پروردگار كى طرف سے ان پر نازل ہوئي _آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

٢_ دين كى تبليغ و ترويج كرنے والوں كا دين پر يقين ہونا چاہئے_آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

خداوند متعال كا اس نكتہ پر توجہ كرنا كہ آنحضرت(ص) خود قرآن اور اپنے اوپر نازل كئے جانے والے احكام پر ايمان ركھتے تھے مذكورہ بالا نكتے كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے_

٣_ قرآن كريم اور وحى كا نازل ہونا خداوند عالم كى

۳۵۵

ربوبيت سے نشأة پاتا ہے_آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

٤_ خداوند متعال كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كا عظيم المرتبہ ہونا_آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

كلمہ'' رب ''كى ضمير كى طرف اضافت تشريفيہ ہے كہ جس سے آنحضرت(ص) كے مقام كى عظمت كاپتہ چلتاہے_

٥_ پيغمبر اكرم(ص) كے ايمان كا دوسرے مومنين كے ايمان پر افضل و برتر ہونا_ *آمن الرسول بما انزل اليه من ربه و المؤمنون كل آمن رسول خدا (ص) كا ايمان ''والمؤمنون كلّ ... ''ميں بيان كيا جاسكتا تھا اسے جدا ذكر كرنے كى ضرورت نہ تھى ليكن آنحضرت (ص) كے ايمان كى امتيازى حيثيت اور برترى كو واضح كرنے كى خاطر عليحدہ ذكر كيا گيا ہے_

٦_ ايمان كے كئي مراتب ہيں _ *آمن الرسول و المؤمنون كل امن بالله ''آمن الرسول'' اور ''والمؤمنون كل آمن''ميں ايمان كا تكرار كرنا اس كے مختلف مراتب كى حكايت كرتا ہے_

٧_ پيغمبر اسلام (ص) اور مومنين كا ملائكہ، آسمانى كتابوں اور انبياء (ع) پر ايمان_آمن الرسول و المؤمنون كل آمن بالله و ملائكته و كتبه و رسله كلمہ''كل'' مومنين كے علاوہ پيغمبر اكرم (ص) كو بھى شامل ہے يعنى پيغمبر اكرم (ص) اور مؤمنين سب كے سب خدااور پر ايمان ركھتے ہيں _

٨_ مومنين كا اس چيزپر ايمان جو آنحضرت(ص) پر خداتعالي كى طرف سے نازل كيا گيا ہے _آمن الرسول بما انزل اليه من ربه و المؤمنون يہ اس صورت ميں ہے كہ كلمہ ''المومنون'' كا ''الرسول'' پر عطف ہو نہ كہ يہ مبتدا ہو يعنى آنحضرت (ص) اور مومنين اس پر ايمان ركھتے ہيں جوآپ(ص) پر نازل ہوا ہے_

٩_ رسول اكرم (ص) اور مومنين ہر ايك پيغمبر پر ايمان ركھتے ہيں اور كسى ايك كا بھى انكار نہيں كرتے_

لانفرق بين احد من رسله

١٠_ مومنين كى نظر ميں تمام انبيائے (ع) الہى كا عقيدہ اور ہدف ايك تھا_

و المومنون كل آمن بالله و كتبه و

۳۵۶

رسله لانفرق بين احد من رسله

١١_ تمام انبياء اور آسمانى كتابوں ميں سے ہر ايك پر ايمان ضرورى ہے_كل آمن و كتبه و رسله لانفرق بين احد من رسله

١٢_ آنحضرت (ص) كا تمام سابقہ انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں پر ايمان_كل آمن لانفرق بين احد من رسله

يہ اس صورت ميں ہے كہ كلمہ''كل'' تمام مومنين كے علاوہ پيغمبر اكرم (ص) كو بھى شامل ہو اس كا نتيجہ يہ ہوگا كہ جملہ''لانفرق '' پيغمبر اكرم(ص) كا قول بھى بن جائے گا_

١٣_ ايمان كا لازمہ قبول كرنا، اطاعت كرنا اور سرتسليم خم كرنا ہے_لانفرق بين احد من رسله و قالوا سمعنا و اطعنا

''سمعنا''(سمع سے سننے كے معنى ميں ) قبول كرنے سے كنايہ ہے_

١٤_ مؤمنين خداوندعالم كى مغفرت كے طلبگار ہيں _غفرانك ربنا

١٥_ خدا اور انبياء (ع) كى اطاعت كرنا اور مغفرت طلب كرنا مؤمنين كى خصوصيات ميں سے ہے_و قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا

١٦_ خداوند عالم كے احكام كى اطاعت كرنا اور انہيں قبول كرنا اللہ تعالي كى بخشش كا ذريعہ ہے_و قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا پيغمبر اكرم (ص) اور مؤمنين جو كہ تمام انسانوں كيلئے نمونہ كے طور پر ذكر كئے گئے ہيں ، اطاعت اور قبول كرنے كے بعد خداتعالي كى مغفرت كى اميد كو پيش كرتے ہيں _

١٧_ خدا وند متعال كى بخشش اس كى ربوبيت كا تقاضا ہے_غفرانك ربنا

١٨_ خداوند عالم كے سامنے اپنے فرائض انجام دينے كے بارے ميں مومنين كا عاجزى كا اظہار و احساس_

قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا مومنين كا خداوند عالم كے احكام كو قبول كر كے ان كى اطاعت كرنے كے باوجود مغفرت طلب كرنا دلالت كرتا ہے كہ وہ خداوند متعال كے حضور اپنے فرائض كى انجام دہى سے عاجز ہيں _

١٩_ خداوند متعال كے انبياء (ع) ،اس كى مغفرت كے محتاج اور طالب ہيں _قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا

۳۵۷

يہ اس صورت ميں ہے كہ''قالوا''كى ضمير مؤمنين كے علاوہ رسل كى طرف بھى لوٹے_

٢٠_ مؤمنين كا معاد اور خداتعالي كى طرف لوٹنے پر اعتقاد و يقين_و اليك المصير

٢١_ كائنات كى حركت صرف خدا كى طرف ہے_و اليك المصير المصيرميں ''ال''جنس كا ہے يعنى ہر قسم كى حركت و تحول خداتعالي كى طرف ہے اور تمام كائنات ميں تغير و تبدل اور حركت پائي جاتى ہے_

آنحضرت (ص) : آپ (ص) كا ايمان ١، ٥، ٧، ٩، ١٢ ;_آپ(ص) كے فضائل ٤

اطاعت: اطاعت كى اہميت ١٣ ; اطاعت كے اثرات ١٦; انبياء (ع) كى اطاعت ١٥ ;خدا كى اطاعت ١٣، ١٥، ١٦

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا عقيدہ ١٠ ; انبياء (ع) كى دعا ١٩ ;انبياء (ع) كى ہم آہنگى ١٠ ; انبياء (ع) كے اہداف ١٠

ايمان: آسمانى كتابوں پر ايمان ٧، ١١، ١٢ ;انبياء (ع) پر ايمان ٧، ٩، ١١، ١٢;ايمان كے اثرات ١٣; ايمان كے مراتب ٥، ٦;خدا پر ايمان ٧ ;خدا كے مبعوث كيئے گئے پرايمان ١، ٨; قيامت پر ايمان ٢٠ ;ملائكہ پر ايمان ٧

خداتعالي: خداتعالي كى ربوبيت ٣، ١٧ ;خداتعالي كى مغفرت ١٤، ١٧، ١٩

سرتسليم خم كرنا: اسكى اہميت ١٣

عالم خلقت : اس كا انجام ٢١ ;اسكى حركت ٢١

قرآن كريم : قرآن كريم كا نزول ٣

مغفرت: مغفرت كا پيش خيمہ ١٦

مقربين: ٤

مومنين: مومنين كا استغفار ١٥; مومنين كا ايمان ٧، ٨، ٩، ٢٠ ; مومنين كا عقيدہ ١٠;مومنين كى دعا ١٤ مومنين كى صفات ١٥، ١٨

وحي: اس كا نزول ٣

۳۵۸

لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَآ أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (٢٨٦)

الله كسى نفس كو اس كى وسعت سے زيادہ تكليف نہيں ديتا _ ہر نفس كے لئے اس كى حاصل كى ہوئي نيكيوں كا فائدہ بھى ہے اور اس كى كمائي ہوئي برائيوں كا مظلمہ بھى _ پروردگار ہم جو كچھ بھول جائيں يا ہم سے غلطى ہو جائے اس كا ہم سے مواخذہ نہ كرنا _ خدايا ہم پر ويسا بوجھ نہ ڈالنا جيسا پہلے والى امتوں پر ڈالا گيا ہے _ پروردگار ہم پر وہ بار نہ ڈالنا جس كى ہم ميں طاقت نہ ہو _ ہميں معاف كر دينا ہميں بخش دينا ہم پر رحم كرنا تو ہمار امولا اور مالك ہے اب كا فروں كے مقابلہ ميں ہمارى مدد فرما _

١_ خداوند متعال ہر انسان پر اس كى عادى توان و استعداد سے زيادہ بوجھ نہيں ڈالتا_لايكلف الله نفسا الا وسعها

اس نكتے ميں ''عادي''كى قيد كلمہ''وسع''سے سمجھى گئي ہے كہ جس كے معني''مايسھل عليہ من المقدور''كے ہيں يعنى جو اس كى توان كے لحاظ سے اس پر آسان ہو_

٢_ عادى توان شرعى ذمہ دارى كى شرط ہے_لايكلف الله نفسا الا وسعها

٣_ خداوند عالم كى جانب سے عائدكردہ فرائض و تكاليف ہر انسان كى ظرفيت اور صلاحيت كے مطابق ہيں _

۳۵۹

لايكلف الله نفسا الا وسعها

٤_ الہى فرائض كے تحمل و برداشت كرنے ميں انسانوں كى توان و ظرفيت فرق كرتى ہے_لايكلف الله نفسا الا وسعها

كلمہ''نفسا''كو مفرد لانا كہ جو ہرہر انسان كى طرف اشارہ ہے اور''وسعہا''كى ضمير كو''نفسا''كى طرف لوٹانا، ممكن ہے اس حقيقت كے بيان كرنے كى خاطر ہو كہ ہر انسان مخصوص قدرت اور قوت برداشت كا حامل ہے_

٥_ انسان كے اچھے ، برے اعمال كے نتائج خود اس كى طرف پلٹتے ہيں _لها ما كسبت و عليها ما اكتسبت

٦_ اعمال اور ان كے نتائج ايك نظام اور قانون كے تحت ہيں _لها ما كسبت و عليها ما اكتسبت

٧_ مومنين كى خداوند عالم سے يہ درخواست كہ شرعى فرائض ميں ان كى خطا اور فراموشى پر انہيں عذاب نہ كرے_

لايكلف الله نفسا الا وسعها ...ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطا نا

٨_ مومنين اگر غلطى كى وجہ سے يا بھول كر خداوند متعال كے احكام كو انجام نہ دے سكيں تو اپنے آپ كو عذاب كا مستحق سمجھتے ہيں _ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطانا عذاب كے معاف كرنے كى درخواست ضمنا ً استحقاق عذاب كا اعتراف ہے_

٩_ خداوند متعال كے احكام ميں خطا اور نسيان سے بچنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے_*ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطا نا خطا اور نسيان پر عذاب نہ كرنے كى درخواست سے پتہ چلتا ہے كہ بھول كر يا غلطى سے احكام الہى كو چھوڑ نے والے كو بھى عذاب كا احتمال ہے پس الہى احكام ميں حتى الامكان خطا اور نسيان سے بچنے كى كوشش كرنى چاہيئے_

١٠_ مؤمنين گناہوں كے ترك اور احكام پر عمل كرنے كے پابند ہوتے ہيں _و قالوا سمعنا و اطعنا ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطا نا خدا تعالي كے احكام ميں خطا اور نسيان كے نتائج پر توجہ اور ان كے مورد ميں مغفرت كى درخواست مومنين كى اپنے اعمال و كردار پر خاص توجہ ركھنے كا غماز ہے_

١١_ خطا اور نسيان انسان كى ترقى كے موانع ميں سے

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367