اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139069 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قلت: من يقيم الحدود؟ السلطان او القاضي؟ فقال:'' اقامة الحدود الى من اليه الحكم _''(۱)

حفص ابن غياث كہتے ہيں : ميں نے امام صادق سے پوچھا : حدود الہى كون جارى كرے گا؟ سلطان يا قاضي؟ فرمايا حدود كا اجرا حاكم كا كام ہے_

انّ عليّاً (ع) قال :'' لا يصلح الحكم و لا الحدود و لا الجمعة الا ّ بامام'' (۲)

اميرالمؤمنين نے فرمايا حكومت ، حدود اور جمعہ كى ادائيگى امام كے بغير صحيح نہيں ہيں_

حمزہ ابن عبدالعزير ديلمى (متوفى ۴۴۸_۴۶۳)جو كہ سلار كے لقب سے مشہور ہيں كہتے ہيں:

قد فوّضوا إلى الفقهاء إقامة الحدود والاحكام بين الناس بعد أن لا يتعدّوا واجباً و لا يتجاوزوا حداً و امروا عامة الشيعة بمعاونة الفقهاء على ذلك (۳)

يہ كام فقہاء كو سونپا گيا ہے كہ وہ حدود الہى كو قائم كريں اور لوگوں كے درميان فيصلہ كريں_ وہ نہ واجب سے آگے بڑھيں اور نہ حد سے تجاوز كريں اور عام شيعوں كو اس سلسلہ ميں فقہاء كى مدد كرنے كا حكم ديا گيا ہے_

اس فتوى كے مطابق حدود اور احكام الہى كا اجرا جو كہ'' سياسى ولايت'' كى خصوصيات ميں سے ہے اور ''ولايت قضائي'' سے وسيع تر ايك امر ہے_ شيعہ فقہا كے سپرد كيا گيا ہے اور ائمہ معصومين لوگوں سے يہ چاہتے ہيں كہ وہ اس سلسلہ ميں فقہاء كى مدد كريں_

____________________

۱) وسائل الشيعہ جلد ۱۸ص۲۲۰_

۲) المستدرك جلد ۳ صفحہ ۲۲۰_

۳) المراسم النبويةص ۲۶۱_

۱۶۱

عظيم فقيہ ابن ادريس حلّى (متوفى ۵۹۸ھ ق) معتقد ہيں كہ جامع الشرائط فقيہ كو احكام الہى اور شرعى حدود كے اجرا كى ذمہ دارى لينى چاہيے يہ ولايت ''امر بالمعروف اور نہى عن المنكر'' كى ايك قسم ہے اور يہ ہر ''جامع الشرائط'' كى ذمہ داريہے_ حتى كہ اگر اسے فاسق و فاجر حاكم كى طرف سے بھى مقرر كيا جائےتب بھى وہ در حقيقت'' امام معصوم اور ولى امر ''كى طرف سے مقرر كردہ ہے_ حدود الہى كا اجرا صرف امام معصوم كى ذمہ دارى نہيں ہے بلكہ ہر حاكم كا وظيفہ ہے _پس مختلف شہروں ميں امام كے نائبين بھى اس حكم ميں شامل ہيں (۱) _

ابن ادريس حلّي، سيد مرتضى ، شيخ طوسى اور دوسرے بہت سے علماء كو اپنا ہم خيال قرار ديتے ہيں_

''و عليه ( العالم الجامع للشرائط)متى عرض لذلك ا ن يتولّاه (الحدود)لكون هذه الولاية امراً بمعروف و نهياً عن منكر، تعيّن غرضهما بالتعريض للولاية عليه و هو ان كان فى الظاهر من قبل المتغلّب ،فهو فى الحقيقة نائب عن ولى الامر (عج) فى الحكم فلا يحلّ له القعود عنه و اخوانه فى الدين مامورون بالتحاكم و حمل حقوق الاموال اليه و التمكن من انفسهم لحدّ او تاديب تعيّن عليهم ...''

''و ما اخترناه اوّلا هو الذى تقتضيه الادلّة ،و هو اختيار السيد المرتضى فى انتصاره و اختيار شيخنا ابوجعفر فى مسائل خلافه

____________________

۱) آپكى آنے والى عبارت كا ترجمہ تقريبا يہى ہے ( مترجم)

۱۶۲

و غيرهما من الجلّة المشيخة الشائع المتواتر ان للحكام اقامة الحدود فى البلد الذى كل واحد منهم نائب فيه من غير توقف فى ذلك'' (۱)

دسويں صدى كے عظيم فقيہ محقق كركى (متوفى ۹۴۰ق )فقيہ عادل كے امام معصوم كے تمام قابل نيابت امور ميں امام كے نائب ہونے پر اصرار كرتے ہيں اور اسے تمام علماء كا متفق الرا ے حكم قرار ديتے ہوئے كہتے ہيں:

اتَّفَقَ أصحابنا (رضوان الله عليهم) على أنّ الفقيه العدل الإمامى الجامع لشرائط الفتوى المعبّر عنه بالمجتهد فى الأحكام الشرعية نائب من قبَل ائمة الهُدى (صلوات الله عليهم) فى حال الغَيْبة فى جميع ما للنّيابة فيه مدخل والمقصود من هذا الحديث هنا أنّ الفقيه الموصوف بالأوصاف المعيّنة منصوب من قبَل أئمّتنا نائب عنهم فى جميع ما للنّيابة فيه مدخل بمقتضى قوله (ع) : '' فإنّى قد جعلته عليكم حاكماً'' و هذه استنابة على وجه كلّي''

ہمارے تمام علماء اس بات پر متفق ہيں كہ وہ شيعہ عادل فقيہ جو فتوى دينے كى صلاحيت ركھتا ہو كہ جسے احكام شرعيہ ميں مجتہد سے تعبير كيا جاتا ہے، زمانہ غيبت ميں ان تمام امور ميں ائمہ ہدى كا نائب ہوتا ہے جو نيابت كے قابل ہيں

حديث معصوم (كہ ميں نے اسے تم پر حاكم قرار ديا ہے) سے مراد يہ ہے كہ وہ فقيہ جو

____________________

۱) السرائر، جلد ۳ ، صفحہ ۵۳۸، ۵۳۹و۵۴۶_

۱۶۳

مذكورہ صفات كا حامل ہو _ ائمہ كا مقرر كردہ نائب ہے ان تمام امور ميں جو قابل نيابت ہيں اور يہ نيابت كلى اور عام ہے_ (۱)

شيخ جعفر كاشف الغطاء كے فرزند شيخ حسن كاشف الغطا (متوفى ۱۲۶۲ھ ق)اپنى كتاب ''انوار الفقاہہ'' (جو كہ خطى نسخہ ہے )ميں فقيہ كى '' ولايت عامہ'' كو صراحتاً ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں : فقيہ كى ولايت صرف قضاوت تك محدود نہيں ہے اور اس بات كى نسبت فقہا كيطرف ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''ولاية الحاكم عامّة لكلّ ما للإمام ولاية فيه لقوله (ع) : '' حجّتى عليكم'' و قوله (ع) : '' فاجعلوه حاكماً'' حيث فهم الفقهاء منه انّه بمعنى الوليّ المتصرّف لا مجرّد أنّه يحكم فى القضائ''

حاكم ( فقيہ جامع الشرائط) كو ان تمام امور ميں ولايت حاصل ہے جن ميں امام (ع) كو ولايت حاصل ہوتى ہے كيونكہ امام (ع) فرماتے ہيں: ''يہ تم پر ميرى طرف سے حجت ہيں''_ نيز فرمايا: ''اسے ( فقيہ كو )حاكم قرار دو'' _ اس سے فقہا نے يہى سمجھا ہے كہ يہاں مراد'' ولى متصرف ''ہے نہ كہ صرف قضاوت كرنے والا_

انوار الفقاہہ كے مصنف كى ولايت عامہ پر ايك دليل يہ ہے كہ ولايت كے سلسلہ ميں نائب خاص اور نائب عام ميں كوئي فرق نہيں ہے _ يعنى اگر امام معصوم كسى شہر ميں ايك نائب خاص مقرر كرتے ہيں مثلا مالك اشتر كو مصر كيلئے ،يا غيبت صغرى ميں نوّاب اربعہ كو، تو ان كى ولايت صرف قضاوت ميں منحصر نہيں ہوتى بلكہ حدود الہى كا اجراء ،شرعى ماليات كى وصولى ، جھگڑوں كا فيصلہ ، امورحسبيّہ كى سرپرستى ، اور مجرموں كو سزا دينا، سب اس ميں شامل ہيں_ پس غيبت كبرى كے زمانہ ميں بھى امام معصوم كى نيابت عمومى ہوگى اور ان تمام امور كى ذمہ دارى فقيہ عادل پر ہوگى _

____________________

۱) ر سائل محقق كركي، جلد ۱ ،ص ۱۴۲، ۱۴۳ (رسالة صلوة الجمعہ)_

۱۶۴

خلاصہ:

۱) اصل '' ولايت فقيہ'' شيعہ فقہ كے مسلّمات ميں سے ہے اگر چہ اس ولايت كے دائرہ اختيار ميں اختلاف ہے _

۲)بڑے بڑے شيعہ فقہا نے فقيہ كى ولايت عامہ پر اجماع كا دعوى كيا ہے_ جبكہ بعض مخالفين اسے ايك نيا اور جديد مطلب سمجھتے ہيں_

۳) بعض فقہا كا اس پر اصرار كہ حدود الہى كا اجرا فقيہ عادل كا كام ہے_ ''فقيہ كى ولايت عامہ ''كى دليل ہے_

۴)بعض روايات حدود الہى كے اجرا كو سلطان اور حاكم كى خصوصيات قرار ديتى ہيں نہ قاضى كى _

۵)بعض فقہا صريحاً كہتے ہيں : نائب عام ( زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل)اور نائب خاص (مثلا مالك اشتر اور محمد ابن ابى بكر) كى ولايت كے دائرہ اختيار ميں كوئي فرق نہيں ہے_

۱۶۵

سوالات :

۱)ولايت فقيہ ميں محور اختلاف كيا ہے؟

۲)ان تين فقہاء كے نام بتايئےنہوں نے فقيہ كى ولايت عامہ پر اجماع كا دعوى كيا ہے؟

۳)فقيہ كى ولايت عامہ پر محقق كركى نے كس طرح استدلال كيا ہے؟

۴)حدود الہى كا اجرا فقيہ عادل كے ہاتھ ميں ہے_ يہ نظريہ كس طرح ''فقيہ كى ولايت عامہ ''كى دليل ہے؟

۵)ولايت فقيہ كے متعلق ابن ادريس حلّى كى كيا را ے ہے؟

۶)انوار الفقاہہ كے مصنف ولايت فقيہ كے متعلق كيا نظريہ ركھتے ہيں؟

۱۶۶

اٹھارہواں سبق :

ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ-۲-

ہمارے فقہا كے كلمات ميں حاكم كے جو فرائض اور مختلف اختيارات بيان كئے گئے ہيں وہ قضاوت سے وسيع تر ہيں _ پہلے ہم نمونہ كے طور پر وہ كلمات يہاں ذكر كرتے ہيں_ پھر اس كى وضاحت كريں گے كہ يہاں حاكم سے مراد كيا ہے_

جو شخص اپنے واجب نفقہ كو ادا نہيں كرتا اس كے متعلق محقق حلّى كہتے ہيں:

''إذا دافع بالنفقة الواجبة أجبره الحاكم، فإن امتنع حبسه ...''(۱)

جب كوئي شخص نفقہ واجبہ كو ادا نہ كرے تو حاكم اسے مجبور كرے_ اگر پھر بھى وہ انكار كرے تو اسے قيد كردے

محقق حلى ''خيانت كرنے والے وصى كو معزول كرنا''حاكم كى ذمہ دارى قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''و لو ظهر من الوصيّ عجز ضُمَّ اليه مساعد، وإن ظهر منه خيانة وجب على الحاكم عزله و يقيم مقامه أميناً'' (۲)

____________________

۱) شرائع الاسلام جلد ۲ ،ص ۲۹۷_ ۲۹۸،كتاب النكاح _

۲) شرائع الاسلام جلد ۲، صفحہ ۲۰۳، كتاب الوصية_

۱۶۷

اگر معلوم ہوجائے كہ وصى عاجز ہے تو اس كيلئے مددگار معين كيا جائيگا اور اگر معلوم ہوجائے كہ وصى نے خيانت كى ہے تو حاكم كيلئے ضرورى ہے كہ اسے معزول كركے اس كى جگہ كسى امانتدار آدمى كو وصى مقرر كرے_

شيخ مفيد ''ديوانوں اور كم عقل افراد كيلئے وكيل معيّن كرنا ''حاكم كى ذمہ دارى قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

لحاكم المسلمين ا ن يوكّل لسْفهائهم مَن يطالب بحقوقهم و يحتج عنهم و لهم (۱)

مسلمان حاكم كيلئے ضرورى ہے كہ وہ سفيہ افرادپر اس شخص كو وكيل مقرر كرے جو ان كے حقوق كا مطالبہ كرتا ہو اور ان كى طرف سے اور ان كے حق ميں استدلال كرے_

شيخ مفيد حاكم كو'' سلطان'' اور'' ناظر'' جيسے الفاظ سے بھى تعبير كرتے ہيں_ مثلا ًكتاب وصيت ميں فرماتے ہيں:

''فإن ظهر من الوصى خيانة كان للناظر فى أُمور المسلمين أن يعزله'' (۲)

پس اگر وصى خيانت كرے تو امور مسلمين كے ناظر كيلئے ضرورى ہے كہ اسے معزول كردے_

ذخيرہ اندوز كے متعلق حاكم كى ذمہ دارى كو بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

''وللسلطان أن يكره المحتكر على إخراج غلّته و بيعها فى أسواق المسلمين'' (۳)

____________________

۱) المقنعہ، صفحہ ۸۱۶،كتاب الوكالة_

۲) المقنعہ، صفحہ ۶۶۹_

۳) المقنعہ ،صفحہ ۶۱۶_

۱۶۸

سلطان كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ذخيرہ اندوز كو غلّہ باہر لانے اور اسے مسلمانوں كے بازار ميں فروخت كرنے پر مجبور كرے_

قطب الدين راوندى مرحوم متاجركى بحث ميں فرماتے ہيں كہ حاكم كو حق حاصل ہے كہ وہ ذخيرہ اندوز كو غلّہ جات فروخت كرنے پر مجبور كرے_

فإذا ضاق الطعام و لا يوجد إلّا عند مَن احتكره ، كان للسلطان أن يْجبره على بيعه (۱)

پس جب غلّہ كى كمى ہو جائے اور ذخيرہ اندوز كے سوا كہيں نہ پاياجاتا ہو تو سلطان كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اسے بيچنے پر مجبور كرے_

شيخ حسن كاشف الغطاء كتاب انوار الفقاہہ باب قضا ميں لكھتے ہيں : حاكم شرع امام زمانہ -عجل الله فرجہ الشريف كى طرف سے تمام انفال اور اموال ميں وكيل او ر نائب ہے _ اور اس فتوى پر اجماع كا دعوى كرتے ہيں_ ان كى عبارت يہ ہے_

''و كذا الحاكم الشرعى وكيل عن الصاحب عجل الله فرجه الشريف فيما يعود اليه من انفاله و امواله و قبضه قبضه لمكان الضرورة و الاجماع و ظواهر اخبار النيابة و الولاية''

يہ كلمات اگر چہ حاكم كے فرائض كے متعلق بعض فقہاء شيعہ كى آرا اور فتاوى ہيں_ ليكن اس بات كى بھى نشاندہى كرتے ہيں كہ سلطان اور حاكم كے اختيارات قاضى كى قضاوت سے وسيع تر ہيں_حاكم قيد كرسكتا ہے

____________________

۱ ) فقہ القرآن جلد ۲، صفحہ ۵۲_

۱۶۹

حدود الہى كو جارى كرتا ہے ، كم شعور اور عاجز افراد كے امور كى ذمہ دارى ليتا ہے، اور حاكم ہر اس شخص كا ولى ہوتا ہے جس كا كوئي ولى نہ ہو _ اسى لئے ان موقوفات عامہ پر بھى اسے ولايت حاصل ہوتى ہے جن كا كوئي ولّى نہ ہو _ اس كا مال قبض كرناگويا امام معصوم (ع) كا مال قبض كرنا ہے_اس لئے امام معصوم (ع) كے زمانہ ميں جن اموال ميں تصرف كرنا امامت كى خصوصيات ميں سے ہے وہ تصرف زمانہ غيبت ميں حاكم كے ہاتھ ميں ہوتا ہے_

اب ديكھنا يہ ہے كہ حاكم ، سلطان يا امور مسلمين كے ناظر سے كيا مراد ہے؟ ہمارا دعوى يہ ہے كہ ان اوصاف كے مالك پہلے مرحلہ ميں خلفاء الہى يعنى محمد وآل محمد ہيں _ ان كے بعد ان كے خاص نائبين اور ان كے بعد يعنى زمانہ غيبت ميں ان كے نائبين عام يعنى جامع الشرائط عادل فقہاء ان اوصاف كے مالك ہيںاور يہ بات بڑے بڑے علماء كے اقوال ميں وضاحت كے ساتھ بيان كى گئي ہے_

شيخ مفيد اسلام كے حاكم اور سلطان كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

''فأمّا اقامة الحدود فهو إلى سلطان الإسلام المنصوب من قبَل الله تعالى و هُم ائمّة الهُدى من آل محمّد(ع) أو مَن نَصَبُوهُ لذلك من الأُمراء والحُكّام وقد فوّضوا النظر فيه إلى فقهاء شيعتهم مع الإمكان'' (۱)

حدود الہى كا اجرا اس اسلامى حاكم كا كام ہے جو خدا كى طرف سے مقرر كيا گيا ہو _ اور وہ ائمہ اہلبيتہيں_ يا وہ افراد جنہيں يہ حاكم اور والى مقرر كريں اور ممكنہ صورت ميں يہ كام انہوں نے اپنے شيعہ فقہاء كے سپرد كيا ہے_

فخر المحققين محمد بن حسن حلى بھى حاكم كى اسى طرح تعريف كرتے ہيں اور اس كى نسبت اپنے والد حسن بن

____________________

۱) المقنعہ، صفحہ ۸۱۰_

۱۷۰

يوسف المعروف علامہ حلّيَ اور ابن ادريس كى طرف ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

المراد بالحاكم هنا السلطان العادل الا صلى أو نائبه فإن تعذ ّر فالفقيه الجامع لشرائط الفتوي، فقوله:'' فإن لم يكن حاكم'' المراد به فقد هؤلاء الثلاثة، و هو اختيار والدى المصنّف و ابن ادريس (۱)

يہاں پر حاكم سے مراد ''خود سلطان عادل ''يا اس كا نائب ہے اور اگر يہ نہ ہوں تو پھر فتوى كى شرائط كا حامل فقيہ _ پس مصنف كا يہ قول كہ اگر حاكم نہ ہو اس سے مراد يہ ہے كہ يہ تينوں نہ ہوں اور اس قول كو ميرے والد ( يعنى مصنف )اور ابن ادريس نے اختيار كيا ہے_

محقق كركى بھى لفظ ''حاكم ''كى يہى تفسير كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

''والمراد به (الحاكم) الإمام المعصوم أو نائبه الخاصّ، و فى زمان الغيبة النائب العامّ_ و هو المستجمع لشرائط الفتوى و الحكم و لا يخفى أنّ الحاكم حيث أُطلق لا يراد به إلاّ الفقيه الجامع للشرائط'' (۲)

حاكم سے مراد امام معصوم يا ان كا'' نائب خاص ''ہے_ اور زمانہ غيبت ميں ''نائب عام''اورنائب عام سے مراد وہ شخص ہے جو فتوى اورفيصلہ كرنے كى تمام شرائط كا حامل ہو مخفى نہيں رہنا چاہيے كہ جب كسى قيد وشرط كے بغير ''حاكم'' كا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد ''جامع الشرائط فقيہ'' ہى ہوتا ہے_

آخر بحث ميں ہم چند مفيد نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں:

____________________

۱) ايضاح الفوائد جلد ۲ ، صفحہ ۶۲۴ كتاب الوصايا_

۲) جا مع المقاصد جلد ۱۱، صفحہ ۲۶۶، ۲۶۷كتاب الوصايا_

۱۷۱

۱_ آخرى دو اسباق ميں ہمارى يہى كوشش رہى ہے كہ'' ولايت فقيہ'' كى تائيد كيلئے زيادہ تر فقہا ء كے اقوال پيش كئے جائيں _ كيونكہ اصلى ہدف اس نكتہ كى وضاحت كرنا ہے كہ'' ولايت فقيہ ''كا اعتقاد ايك قديمى بحث ہے نہ كہ ايك نيا مطلب _اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ بعد والے فقہاء كے اقوال ميں مسئلہ'' ولايت فقيہ'' كو بالكل شفاف اور واضح صورت ميں بيان كيا گيا ہے_ دور حاضر كے عظيم فقہاء جو ''فقيہ كى ولايت عامہ'' كے قائل ہيں ان ميں سے آيت اللہ بروجردى ، آيت اللہ گلپايگانى اور اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى امام خمينى قابل ذكر ہيں_ (۱)

۲_اہلسنت نے ''الاحكام السلطانية ''كے عنوان سے فقہ سياسى كے متعلق مستقل بحث كى ہے_ اور فقہ الحكومت اور اس كى جزئيات پر تفصيلى نظر ڈالى ہے_ جبكہ شيعوں نے سياسى فقہ كے بارے ميں اس قدر تفصيلى بحث نہيں كى ہے _ اور اس كى وجہ شيعوں كے خاص سياسى اور اجتماعى حالات ہيں_فاسق و فاجر حكومتوں كى مخالفت كى وجہ سے شيعوں پر جو سياسى دباؤ تھا_ اس كى وجہ سے وہ سياسى فقہ كے متعلق مستقل اور تفصيلى بحث نہيں كر پائے اور نہ ہى گذشتہ فقہا حاكم ، والى امر كا دائرہ اختيارات اور سياسى فقہ سے مربوط اس قسم كى دوسرى مباحث مستقل اور براہ راست كرپائے_ جيسا كہ اس مختصر سى تاريخ ميں گذر چكا ہے كہ اس قسم كى مباحث پراگندہ طور پر حدود و ديات ، قضا ، امر بالمعروف و نہى عن المنكر ، نكاح ، وصيت اور مزارعہ كے ابواب ميں كى گئي ہيں _ حتى كہ محقق كركى اور صاحب الجواہر جيسے فقہاء جنہوں نے كھل كر فقيہ كى ولايت عامہ كى حمايت كى ہے_

____________________

۱) ان تين فقہاء كى آراء درج ذيل كتب ميں ملاحظہ كى جاسكتى ہيں _

الف: البدر الزاہر فى صلاة الجمعة و المسافر ، تقريرات دروس آيت الله حاج آقا حسين بروجردي

ب : الہداية الى من لہ الولاية ، تقريرات دروس آيت الله سيد محمد رضاگلپايگاني

ج : كتاب البيع جلد ۲ اور ولايت فقيہ ، امام خميني

۱۷۲

انہوں نے بھى اس ولايت عامہ اور اس كى جزئيات كے متعلق تفصيلى اور مستقل بحث نہيں كى ''ولايت فقيہ ''كے متعلق مستقل بحث آخرى دو صديوں ميں كى گئي ہے_پہلى دفعہ ملا احمد نراقى (متوفى ۱۲۴۵) نے اپنى كتاب ''عوائد الايام ''ميں ''ولايت فقيہ ''كے متعلق اچھے خاصے صفحات مختص كئے ہيں_

يہ نكتہ اس حقيقت كى نشاندہى كرتا ہے كہ فقيہ عادل كے محدود اختيارات كا ذكر اور حدود كا اجرا، امور حسبيّہ پر ولايت اور معصومين كے ساتھ مخصوص مالى امور مثلا انفال ، خمس اور سہم امام و غيرہ جيسے خاص مواردميں فقيہ كے نائب امام ہونے پر اصرار كا يہ معنى نہيں ہے كہ فقيہ كى ولايت عامہ پر اعتقاد نہيں ہے_ كيونكہ فقيہ كى ولايت عامہ كے سخت ترين حاميوں نے بھى چند مخصوص موارد كو اپنے مختلف فتاوى كے ذيل ميں حاكم كى ذمہ داريوں كے عنوان سے ذكر كيا ہے_پس محدود موارد كا ذكر كرنا فقيہ كى ولايت عامہ كى مخالفت يا عدم موافقت كى دليل نہيں ہے_ہاں اگر خود فقيہ نے مورد نظر بحث ميں ولايت فقيہ كى محدوديت يا عدم ولايت عامہ كى تصريح كى ہو تو پھر اس فقيہ كو اس نظريہ كا مخالف شمار كيا جاسكتا ہے _

۳_دوسرے علوم و معارف كى طرح فقہ نے بھى امتداد زمانہ كے ساتھ ساتھ ترقى كى ہے_ سياسى فقہ نے بھى دوسرے فقہى ابواب كى طرح ارتكائي مراحل طے كئے ہيں_

قديم علماء كى كتب ميں جو معاملات كى فقہى بحث ہے_ وہ بعد والے علماء كى تصانيف سے قابل موازنہ نہيں ہے_ مثلا دقت بحث كے لحاظ سے شيخ انصارى كى كتاب ''مكاسب'' سے علامہ ، محقق حلى اور شہيدين كى بحث تجارت قابل مقائيسہ نہيں ہيں-_ اسى طرح بعد والے علمائ اصول نے اصول عمليہ اور دليل عقلى كے متعلق جس طرح دقيق اور علمى بحثيں كى ہيںپہلے والے علماء نے نہيں كى _لہذا بالكل واضح سى بات ہے متاخرين علماء شيعہ كے دور ميں سياسى فقہ پر جو بحث كى گئي ہے وہ سابقہ علماء كى بحث كى نسبت تفصيلى اور زيادہ مفيد ہے_

۱۷۳

لہذا اس تفصيل كو اس بحث كے جديد ہونے كى دليل قرارنہيں ديا جاسكتا_

۴_فقيہ كي'' ولايت عامہ'' كا انكار اجتماعى امور ميں فقيہ كى سرپرستى كے انكار كے مترادف نہيں ہے_ اس مطلب كى وضاحت كيلئے درج ذيل نكات پر توجہ دينا ضرورى ہے_

الف _اصل ولايت فقيہ كا كوئي فقيہ بھى منكر نہيں ہے_ ولايت فقيہ شيعہ فقہ كے مسلّمات ميں سے ہے_ اختلاف ولايت كے قلمرو اور دائرہ اختيار ميں ہے_

ب _ بعض موارد ميں'' ولايت فقيہ ''سے انكار كا معنى يہ ہے كہ ان موارد ميں شرعى ادلّہ كى روسے ''فقيہ كى ولايت ''ثابت نہيں ہوئي _ مثلا فقيہ كى سياسى ولايت كے منكرين معتقد ہيں كہ ادلّہ روائي كے لحاظ سے امر بالمعروف ، نہى عن المنكر يا حكومت ميں فقيہ كى ولايت ثابت نہيں ہے_

ج_ ممكن ہے كسى كام پر از ''باب ولايت ''فقيہ كو منصوب نہ كيا گيا ہو ليكن اس كام كى سرپرستى فقيہ كى شان ہو نمونہ كے طور پر بعض شيعہ فقہاء كے فتاوى سے استناد كيا جاسكتا ہے كہ وہ امور جو محجور و بے بس افراد كے ساتھ مربوط ہيں_ ان ميں فقيہ عادل كى سرپرستى اور تصرف ''نصب ولايت'' كے باب سے نہيں ہے_ بلكہ'' قدرمتقين'' كے باب سے ہے_ يعنى دوسروں كى نسبت جواز تصرف كا ''فقيہ'' زيادہ حق ركھتا ہے_(۱)

فقيہ كى سياسى ولايت ( حكومت اور امر و نہى ميں ولايت)كے متعلق ممكن ہے كوئي فقيہ، فقيہ كى ''انتصابى ولايت'' كا معتقد نہ ہو ليكن امور حسبيّہ كے عنوان سے حكومت اور اسلامى معاشرہ كے انتظامى امور ميں فقيہ عادل كى سرپرستى كو جائز بلكہ واجب سمجھتا ہو_ آيت اللہ ميرزا جواد تبريزى دامت بركاتہ اس بارے ميں فرماتے ہيں:

____________________

۱) ان فقہا ميں سے ايك آيت اللہ خوئي بھى ہيں: التنقيح فى شرح العروة الوثقى ، تقريرات آيت الله خوئي ، بقلم مرزا على غروى تبريزى _ باب الاجتہاد و التقليد ص ۴۹ _ ۵۰

۱۷۴

ولايت فقيہ كے متعلق دو بنيادى نظريے ہيں_ ايك وہ جسے امام خمينى نے اختيا كيا ہے_كہ آپ قرآن و حديث كے ذريعہ ولايت امر و نہي_ كہ جس سے مراد وہى حكومت و مملكت قائم كرنا ہے_ كو فقيہ كيلئے ثابت كرتے ہيں_

دوسرانظر يہ حسبيّہ ہے جسے آيت اللہ خوئي تسليم كرتے ہيں_ اس كى بنا پر'' فقيہ كى ولايت عامہ'' پر ادلّہ عقلى و نقلى كامل نہيں ہيں ليكن معاشرہ ميں كچھ امور ايسے ہوتے ہيں_ جنہيں بے لگام و معطل چھوڑ دينے پر شارع مقدس راضى نہيں ہے_ اور اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ صرف فقيہ ہى ان امور كى سرپرستى كرسكتا ہے يتيموں كى سرپرستى ، بچوں كى سرپرستى و كفالت اور مسلم سرحدوں كى حفاظت امور حسبيّہ ميں سے ہيں_ يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ اسلامى نظام كى حفاظت ان سب ميں سے اہم ترين امر ہے_ اسى لئے مومنوں كى جان و مال كى حفاظت كيلئے فوج تيار كرنا اور ان كے امور كى انجام دہى كيلئے ادارے قائم كرنا بہت ضرورى ہے_(۱)

____________________

۱) انديشہ حكومت ، شمارہ ۲، مرداد ۱۳۷۸ ، صفحہ ۴_

۱۷۵

خلاصہ :

۱)شيعہ فقہا نے فقہى كتب ميں حاكم كے بہت سے فرائض گنوائے ہيں_ اور كبھى اسے ''ناظر'' اور ''سلطان'' كے عنوان سے بھى ياد كيا ہے_

۲)علماء كے كلمات ميں حاكم كے اختيارات قاضى كے اختيارات اور فرائض سے وسيع تر ہيں_

۳)شيخ مفيد پہلے مرحلہ ميں سلطان اور حاكم سے مراد امام معصوم ليتے ہيںاور زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل_ فخر المحققين نے بھى يہى تعريف كى ہے اور اس تعريف كو علامہ حلّى اور ابن ادريس سے منسوب كيا ہے_

۴)ولايت فقيہ كى بحث ہمارى فقہ كى تاريخ كے ساتھ ہى شروع ہوتى ہے_ اگر چہ متاخرين كے ادوار ميں اس پر تفصيلى بحث ہوئي ہے_

۵)ولايت فقيہ كى مستقل اور جداگانہ بحث محقق نراقى كى كتاب عوائد الايام سے شروع ہوئي ہے اور اس سے پہلے حتى كہ ولايت فقيہ كے سخت حاميوں نے بھى مستقل بحث نہيں كى تھي_

۶)ولايت فقيہ كى بحث كا ارتكاء كوئي نئي بات نہيں ہے_ كيونكہ بہت سى اصولى اور فقہى ابحاث نے زمانہ كے ساتھ ساتھ ترقى كى ہے_

۷)فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' كا انكار مسلمانوں كے اجتماعى امور ميںفقيہ كى سرپرستى كے انكار كے مترادف نہيں ہے_

۱۷۶

سوالات :

۱) علماء كے اقوال ميں حاكم اور قاضى كے در ميان كيا فرق ہے؟

۲) شيخ مفيد نے حاكم يا سلطان كى كيا تعريف كى ہے؟

۳) كس دور ميں فقہى كتب ميں ولايت فقيہ كى مستقل بحث شردع ہوئي ؟

۴) متقدمين علماء كے اقوال ميں ولايت فقيہ پر مستقل بحث كا نہ ہونا اور اس كى تمام جزئيات كى وضاحت نہ كرنا كيوں اسے غير معتبر قرار نہيں ديتا؟

۵) فقيہ كي'' ولايت انتصابى ''كا انكار، اجتماعى امور ميں فقيہ كى سرپرستى كے منافى نہيں ہے_ كيوں؟

۱۷۷

انيسواں سبق :

ولايت فقيہ، كلامى مسئلہ ہے يا فقہى ؟

دوسرے باب ميں گزر چكاہے كہ'' امامت ''اہلسنت كے نزديك ايك فقہى مسئلہ ہےجبكہ اہل تشيع كے نزديك كلامى مسئلہہے _ اگر اہلسنت كى كلامى كتب ميںيہ مسئلہ مورد بحث قرار پايا ہے تو اس كا سبب يہ ہے كہ شيعوں نے اس مسئلہ كو بہت زيادہ اہميت دى ہے اور اسے كلامى مباحث ميں ذكر كيا ہے_ اس سبق كا اصلى محور اس بات كى تحقيق كرنا ہے كہ كيا ائمہ معصومين كى ولايت اور امامت كى طرح ''ولايت فقيہ ''بھى ايك كلامى مسئلہ ہے يا فقہى بحث ہے اور اعتقادى و كلامى مباحث سے اس كا كوئي تعلق نہيں ہے؟

ہر قسم كا فيصلہ كرنے سے پہلے ضرورى ہے كہ كلامى مسئلہكى واضح تعريف اورفقہى مسئلہ سے اس كے فرق كى وضاحت كى جائے_ كلامى اور فقہى ہونے كا معيار كيا ہے؟ اسے پہچانا جائے تا كہ ولايت فقيہ كے كلامى يا فقہى مسئلہ ہونے كا نتيجہ اور ثمرہ ظاہر ہوسكے_

كسى مسئلہ كے كلامى يا فقہى ہونے كا معيار :

ابتدائے امر ميں ممكن ہے يہ بات ذہن ميں آئے كہ ايك مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس كا

۱۷۸

اثبات عقلى دليل سے ہو_ اور مسئلہ فقہى وہ ہے جس كا اثبات شرعى اور نقلى ادلّہ سے ہو _ اس لئے علم كلام كو علوم عقليہ اور علم فقہ كو علوم نقليہ ميں سے شمار كيا جاتا ہے_

ليكن يہ معيار مكمل طور پر غلط ہے_ كيونكہ علم فقہ ميں بھى ادلّہ عقليہ كو بروئے كار لايا جاتا ہے جس طرح كہ بعض كلامى مباحث ادلّہ نقليہ كى مدد سے آشكار ہوتى ہيں_ دليل عقلي، علم فقہ ميں دو طرح سے فقہى استنباط ميں مدد ديتى ہے_

الف _ مستقلات عقليہ : مثلا اطاعت خدا كا وجوب ايك فقہى مسئلہ ہے_ اور اس كى دليل عقل كا حكم ہے_ اور عقل اس حكم ميں مستقل ہے _ اور كسى نقلى (شرعي)دليل كى دخالت كے بغير يہ حكم لگاتى ہے_

ب _ غير مستقلات عقليہ يا ملازمات عقليہ، غير مستقلات عقليہ سے مراد وہ قضايا عقليہ ہيں جو دو شرعى حكموں كے درميان ملازمہ كے ادراك كى بنياد پر صادر ہوتے ہيں_ عقل ايك شرعى حكم كے معلوم ہونے كے بعد اس حكم اور دوسرے حكم كے درميان ملازمہ كو ديكھتى ہے_ اس طرح ايك شرعى حكم سے دوسرے شرعى حكم كى طرف جاتى ہے_ اوريوں عقل اس شرعى حكمكے استنباط ميں فقيہ كى مدد كرتى ہے_

لہذا يہ دعوى نہيں كيا جاسكتا كہ علم فقہ ايسا علم ہے جس كے مسائل ادلّہ نقليہ سے حل ہوتے ہيں اور اس ميں دليل عقلى كى كوئي مدد شامل نہيں ہوتى _ اسى طرح يہ دعوى بھى نہيں كيا جاسكتا كہ علم كلام ادلّہ نقليہ سے مدد نہيں ليتااور اس كے تمام مسائل ادلّہ عقليہ كى بنياد پر حل ہوتے ہيںكيونكہ بعض كلامى مباحث جو كہ مبدا ومعاد سے مربوط ہيں ميں ادلّہ نقليہ يعنى قرآن اور روايات سے مدد لى جاتى ہے معاد (قيامت) ايك كلامى بحث ہے _ ليكن اس كى بعض تفصيلات صرف عقلى ادلّہ سے قابل شناخت نہيں ہيں بلكہ ان كيلئے ادلّہ نقليہ سے استفادہ كرنا بھى ناگزير ہوتا ہے_

۱۷۹

حقيقت يہ ہے كہ علم فقہ ،مكلفين كے افعال كے متعلق بحث كرتا ہے_ ان كے اعمال كے احكام كى تحقيق و بررسى كرتا ہے_ علم فقہ بحث كرتا ہے كہ كونسے افعال واجب ہيں اور كونسے حرام ،كونسے اعمال جائز ہيں اور كونسے ناجائز _ ليكن علم كلام، مبدا و معاد كے احوال كے متعلق بحث كرتا ہے_ علم كلام كا مكلفين كے افعال سے كوئي تعلق نہيں ہوتا_ جائز و ناجائز پر بحث نہيں كرتا_ علم كلام ميں افعال خدا كے متعلق بحث كى جاتى ہے مثلا علم كلام ميں يہ بحث كى جاتى ہے كہ كيا خدا پر رسولوں كا بھيجنا واجب ہے؟ كيا خدا سے قبيح افعال سرزد ہو سكتے ہيں؟ كيا نيكى كرنے والوں كو اجر دينا خدا پر واجب ہے؟ (۱)

بعثت انبياء اور ارسال رُسُل كا وجوب ايك كلامى بحث ہے_ كيونكہ يہ ايك اعتقادى بحث ہے جو خدا كے مبدا اور فعل كے ساتھ مربوط ہے _ ليكن انبياء كى اطاعت كا واجب ہونا اور ان كى دعوت پر لبيك كہنا ايك فقہى بحث ہے _كيونكہ اس حكم كا تعلق مكلف كے عمل سے ہے_ اس كا موضوع فعل انسان ہے _ اور كرنا يا نہ كرنا انسان كے ساتھ مربوط ہے_

اسى معيار كو ديكھتے ہوئے ولايت فقيہ كى بحث كو شروع كرتے ہيں_ بے شك يہ بحث فقہى پہلووں كى بھى حامل ہے_ مسئلہ ولايت فقيہ ميں كچھ ايسى جہات بھى ہيں جن كا تعلق مكلفين كے عمل سے ہے_ اور ان كا شرعى حكم فقہى تحقيق كے قابل ہے_ مثلا درج ذيل مسائل فقہى مسائل ہيں جو كہ ولايت فقيہ كے ساتھ مربوط ہيں_

مسلمانوں كے اجتماعى اور عمومى امور ميں فقيہ كى سرپرستى اور حاكميت جائز ہے يا نہيں؟ كيا اجتماعى اور سياسي

____________________

۱ ) ياد رہے كہ افعال خدا ميں جس'' وجوب'' كاذكر كيا جاتا ہے_ وہ وجوب تكليفى كى قسم سے نہيں ہے_ بلكہ اس كا معنى ''ضرورت ''كے ہيں_ يعنى خدا يہ كام ضرور انجام دے گا_ كوئي فعل اس پر واجب نہيں ہو تا _ وہ تمام ضرورتوں كا سرچشمہ ہے_ دوسرے لفظوں ميں جس وجوب كا ذكر علم كلام ميں ہوتا ہے وہ وجوب عن اللہ ہوتا ہے نہ كہ وجوب على اللہ _

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367