اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139095 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

انشا كم'' پر متفرع ہو اہے_

۲۲_ خداوند متعال، انسانوں سے بہت قريب اور ان كى دعاؤں كو قبول فرماتا ہے_ان ربّى قريب مجيب

۲۳_ خداوندعالم كا اپنے بندوں كے نزديك ہونے كى وجہ سے اس كا تقرب حاصل كرنا ايك آسانى اور سہل امر ہے_

ثم توبوا اليه ان ربّى قريب

خداوند عالم كى طرف سے اور اس كے تقرب كے حصول كے ليے نصيحت كرنے كے بعد اس سے نزديكى كو بيان كرنے كا مقصد عارف لوگوں كو يہ خوشخبرى دينا ہے كہ خداوند عزوجل آپ سے دور نہيں ہے تا كہ اس تك پہنچنے كے ليے بڑى سے بڑى سختيوں كو جھيلنا پڑے بلكہ وہ آپ سے بہت ہى نزديك ہے اور اسكا تقرب حاصل كرنا بہت آسان ہے_

۲۴_ خداوندمتعال، مغفرت طلب كرنے والوں كى دعا كو قبول اور ان كے گناہوں كو معاف فرماتا ہے_

فاستغفروا ان ربى قريب مجيب

جملہ''استغفروہ ''اور ''توبوا اليہ'' سے ربط كى خاطر(قريب)اور (مجيب) كو لف و نشر غيرمرتب كى صورت ميں بيان كيا گيا ہے_

۲۵_''جأ رجل من اهل شام الى على بن الحسين عليه‌السلام فقال : انت على بن الحسين ؟ قال : نعم ، قال : ابوك الذى قتل المؤمنين ؟ فقال : و يلك كيف قطعت على ابى انه قتل المؤمنين ؟قال : قوله : اخواننا قد بغوا علينا فقاتلنا هم على بغيهم _ فقال : و يلك أما تقرا القرآن ؟ قال : بلى ، قال : فقد قال اللّه تعالى (و الى ثمود اخاهم صالحاً) ا فكانوا اخوانهم فى دينهم او فى عشيرتهم ؟ قال له الرجل : لا بل فى عشيرتهم : قال عليه‌السلام فهولاء اخوانهم فى عشيرتهم وليسو اخوانهم فى دينهم (۱)

اہل شام كا ايك شخص حضرت امام زين العابدين على بن الحسينعليه‌السلام كے پاس آيا اور كہا : كيا تم على بن الحسينعليه‌السلام ہو ، تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں _ اس نے كہا كہ تم اس كے فرزند ہو جس نے مومنين كو قتل كيا حضرتعليه‌السلام نے جواب ديا :كہ افسوس ہے تم پر، تو نے كس طرح يقين كے ساتھ يہ كہہ ديا كہ ميرے والد بزرگوار نے مومنين كو قتل كيا؟ اس شخص نے جواب ديا كہ يہ اسكى بات ہے (اميرالمؤمنين) جويہ كہتا ہے كہ ہمارے بھائيوں نے ہمارے خلاف بغاوت كى اور ہم نے بھى انكى بغاوت كى وجہ سے ان سے جنگ كى ہے_

____________________

۱)تفسير عياشى ، ج ۲ ص ۲۰، ح ۵۳، بحار الانوار ج ۳۲ ، ص ۳۴۵، ح ۳۲۹_

۱۸۱

پھر حضرت نے فرمايا افسوس ہے تم نے پر كيا تم نے قرآن ميں نہيں پڑھا كہ خداوند متعال فرماتا ہے:( و الى ثمود اخاہم صالحاً) كيا حضرت صالحعليه‌السلام قوم ثمود كے دينى بھائي تھے يا ان سے رشتہ دارى تھى _ تو اس نے كہا رشتہ دارى تھي_ تو پھر حضرتعليه‌السلام نے جواب ديا كہ وہ بھى ہمارے رشتہ ميں بھائي تھے نہ كہ دينى بھائي_

استغفار :استغفار كى اہميت ۱۷; استغفار كے آثار ۱۹; استغفار كے بارے ميں تاكيد ۲۰; استغفار كے عوامل ۲۱;شرك سے استغفار ۲۰

اسماء و صفات :قريب ۲۲; مجيب ۲۲

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام سے رشتہ دارى ۳

انسان :انسان كا جھكاؤ ۹، ۱۵; انسانوں كا خالق ۱۲;انسان كى توانائيوں كا مركز ۱۵،۱۶;انسانوں كى خلقت كا عنصر ۱۴; زمين كا انسان ۱۴

ايمان :ايمان كے آثار ۲۱; خالقيت خداوند پر ايمان ۲۱; خدا پر ايمان ۷

تقرب :تقرب كا سبب ۱۹;تقرب كى اہميت ۱۸; تقرب كى سہولت ۲۳

توبہ :توبہ كرنے كى تاكيد ۲۰

توحيد :توحيد افعالى ۱۲; توحيد خالقيت۱۲;توحيد عبادى ۱۱; توحيد عبادى كى اہميت ۵;توحيد عبادى كى دعوت ۵; توحيد عملى كا پيش خيمہ۱۰;توحيد نظرى كى اہميت ۱۰

حركت ميں لانا:حركت ميں لانے كے عوامل ۲۱

حضرت صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام اور قوم ثمود ۳، ۴، ۲۰، ۲۵; حضرت صالح كى تعليمات ۵، ۲۰; حضرت صالحعليه‌السلام كى دعوت ۵;حضرت صالح(ع) كى رسالت كا علاقہ ۲; حضرت صالح كى مہربانى ۴; حضرت صالح(ع) كى نبوت ۱; حضرت صالح(ع) كے رشتہ دار ۳; حضرت صالح(ع) كے فضائل ۴; حضرت صالح(ع) كے مقامات ۱; حضرت صالحعليه‌السلام نبوت سے پہلے ۴

خدا :خدااور زمين كى آبادكاري۱۵;خالقيت خدا ۱۲; خدا شناسى كى تاريخ ۷;خداوندكى عنايات ۱۵ ،۱۶ ; خداوند متعال كى بخشش ۲۴; خداوند متعال كے خواص ۱۱،۱۲،۲۱;قرب خداوند ى ۲۲ ;قرب

۱۸۲

خداوند ى كے آثار ۲۳

خدا كى طرف لوٹنا ۱۸،۲۰:خدا كى طرف لوٹنے كى اہميت ۱۸

دعا :دعا كى اجابت ۲۲

رسل الہى : ۱

روايت : ۲۵

شرك :شرك سے اجتناب كے عوامل ۲۱;شرك كے آثار سے اجتناب ۱۹

عبادت :عبادت خدا كے آثار ۱۹; عبادت خدا كے دلائل ۱۶; عبادت خدا كے عوامل ۲۱

عقيدہ:عقيدہ كى تاريخ ۶،۷

كائنات كى شناخت:كائنات كى توحيدى شناخت ۱۱،۱۲; كائنات كى شناخت كا نظريہ۲۱

قوم ثمود :قوم ثمود كا باطل عقيدہ ۸; قوم ثمود كا شرك ۸; قوم ثمود كا عقيدہ۶;قوم ثمود كو دعوت حق دينا ۵; قوم ثمودكى خدا كى پہچان ۶;قوم ثمود كے انبياء ۲، ۶ ; قوم ثمود كے باطل خدا ۸

گناہ :ترك گناہ كے عوامل ۲۱

گناہگار :گناہگاروں كى اجابت دعا ۲۴; گناہگاروں كى بخشش ۲۴

مشركين :۸

معبود :معبود كى خالقيت ۱۳

معبوديت :معبوديت كا ملاك ۱۳

ميلان:زمين كى آبادكارى كا ميلان۱۵; عبادت كى طرف ميلان ۹; معبود كى طرف ميلان۹

۱۸۳

آیت ۶۲

( قَالُواْ يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوّاً قَبْلَ هَـذَا أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ )

ان لوگوں نے كہا كہ اے صالح اس سے پہلے تم سے بڑى اميديں وابستہ تھيں كيا تم اس بات سے روكتے ہو كہ ہم اپنے بزرگوں كے معبودوں كى پرستش كريں _ ہم يقينا تمھارى دعوت كى طرف سے شك اور شبہ ميں ہيں (۶۲)

۱_حضرت صالح(ع) ، قوم ثمود ميں اپنى نبوت سے پہلے ہى عاقل اورايك خاص استعداد كے مالك انسان تھے_

قالوا يا صالح قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذ

مذكورہ بالا معنى دو چيزوں پر موقوف ہے ( الف) ''يہ جملہ كہ قوم ثمود كى تم پر اميديں تھيں '' جو جملہ (قد كنت ...) كے مضمون سے حاصل ہوتا ہے يہ حضرت صالحعليه‌السلام كے نابغہ اور استعداد خاص ركھنے اور نيك سيرت انسان سے حكايت كررہا ہے_

(ب) (ہذا) كے لفظ كا اشارہ، حضرت صالحعليه‌السلام كى نبوت كے دعوى اور انكے اعلان توحيد اوروحدہ لا شريك كى پرستش كے لازمى ہونے كى طرف ہے_

۲_ قوم ثمود ، حضرت صالحعليه‌السلام كى خاص استعداد اور انكى مثبت خصوصيات كى معترف تھى _قالوا يا صالح قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذا

۳_ قوم ثمود، حضرت صالحعليه‌السلام كى خصوصيات اور مخصوص استعداد كى وجہ سے انہيں اپنى قوم كے ليے مايہ ناز اور ترقى سمجھتے تھے_قد كنت فينا مرجواّ

۴_ خداوند متعال، انبياء كو ان انسانوں ميں سے كہ جو نيك نام اور نيك سيرت مشہور ہوتے ہيں انتخاب كرتا ہے_

قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذا

۵_ حضرت صالحعليه‌السلام كى قوم اور ان كے آباو اجداد ، مشرك اورغير الله كى پرستش كرتے تھے_

أتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۶_ حضرت صالح(ع) لوگوں كو غير الله كى عبادت سے منع فرماتے تھے اور قوم ثمود كى شرك پرستى سے نبرد آزما ہوتے تھے_اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۱۸۴

۷_ قوم كو يكتا پرستى كى دعوت اور جھوٹے خداؤں كى تكذيب باعث بنى كہ قوم ثمود، حضرت صالح(ع) كى سرزنش اور ان پر اعتراض كرتى تھي_اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

جملہ ( اتنہنا ان نعبد ) ميں استفہام توبيخى ہے_

۸_ قوم ثمود، حضرت صالح(ع) كے شرك كے خلاف جہاد كى خاطر ان سے وابستہ اپنى اميدوں پر پانى پھر تا ہوا ديكھ رہى تھى _قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذا اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

(قبل ہذا) اس پر دلالت كرتا ہے كہ قوم ثمود ، حضرت صالح سے اميديں لگا بيٹھے تھے اور (أتنہنا ) كا جملہ اس كے ليے دليل و علت كو بيان كررہا ہے_

۹_قوم ثمود كا اپنے اجداد كے آداب و رسوم پر كار بند ہونا، حضرت صالحعليه‌السلام اورانكى تعليمات كى مخالفت كا سبب بنا _

اتنهنا ان نعبد ما يعبدءُ اباؤنا

لفظ (ما ) سے آيت ميں مراد مشركين كے خيالى معبود ہيں اوران كوجملہ (يعبد ء اباؤنا ) سے توصيف كرنا، (نعبد)سے پہلے حكم كى علت كى طرف اشارہ ہے يعنى ہم بتوں كى عبادت كرتے ہيں كيونكہ ہمارے ا با و اجداد انكى عبادت كرتے تھے_

۱۰_ حضرت صالح(ع) كى دعوت توحيداور يكتا پرستى كے بنيادى مخاطب، قوم ثمود كے نوجوان اور در ميانى عمر كے افراد تھے_اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

فعل مضارع (يعبد )كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ حضرت صالحعليه‌السلام كے مخاطب وہ لوگ تھے جنكے والدين زندہ تھے اور وہ اپنے خداؤں كى عبادت ميں مشغول تھے_

۱۱_ معاشروں كى قوم و قبائل كے باطل افكار ونظريات سے وفاداري، ركاوٹ بنتى ہے كہجديد و بر حق نظريات اپنا مقام پيدا كريں _اتنهنا ا ن نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۱۲_ خاندانى تعصبات، اندھى تقليد و پيروى كا سبب ہيں _اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۱۸۵

۱۳_حضرت صالح(ع) اپنى رسالت كى انجام دہيكے سلسلہ ميں انتھك اور مسلسلكوشش ميں مشغول تھے_مما تدعونا اليه

(تدعو) فعل مضارع ہے جو استمرار پر دلالت كرتا ہے جس سے انتھك اور مسلسل كوشش سے تعبيركى گئي ہے_

۱۴_قوم ثمود ، خدا كى وحدانيت اور يكتا پرستيكى ضرورت كو شك كى نگاہ سے ديكھتے تھے _و انّنا لفى شك مما تدعونا اليه مريب

۱۵_ حضرت صالحعليه‌السلام كى توحيد اور يكتا پرستى كى طرف دعوت،اس چيز كا باعث بنى كہ قوم ثمود ،حضرت صالح(ع) كى ہوشيارى اور عقل مندى ميں شك و ترديد كرنے لگے_و انّنا لفى شك مما تدعونا اليه مريب

لفظ ( مريب)(ترديد ميں ڈالنا) (شك) كے ليے صفت واقع ہوا ہے اور اسكا متعلق ،حضرت صالحعليه‌السلام كى ہوشيارى اور عقلمندى ہے جيسا كہجملہ (قد كنت فينا مرجواً) كے قرينے سے ظاہر ہوتا ہے لہذا جملہ ( انّنا لفى ...) كا معنى يہ ہے كہ ہميں تمہارى ان تعليمات كے صحيح ہونے ميں شكہے اور يہ شك سبب بنا ہے كہ ہم تمہارى ہوشيارى اور عقلمندى ميں بھى شك كريں _

۱۶_عن ابى جعفر عليه‌السلام قال: ان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سأل جبرئيل : كيف كان مهلك قوم صالح عليه‌السلام ؟ فقال: يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان صالحاً بعث الى قومه و هو ابن ستة عشر سنة و كان لهم سبعون صنماً يعبدونها من دون اللّه (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہآپ(ع) نے فرمايا : جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئيل(ع) سے سوال كيا كہ قوم صالحكى ہلاكت كيسے ہوئي تو حضرت جبرئيل نے جواب ديا : اے رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب حضرت صالحعليه‌السلام اپنى قوم ميں معبوث ہوئے تو ۱۶ سال كے تھے اور انكى قوم كے ستر ۷۰ بت تھے كہ خدا كے علاوہ جنكى وہ پوجا كرتے تھے_

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كا انتخاب ۴; انبياءعليه‌السلام كا خوشنام ہونا ۴; انبياءعليه‌السلام كى خصوصيات ۴; گذشتہ انبياء

تقليد :اندھى تقليد كا زمينہ ۱۲;نيك افراد كى تقليد ۹

توحيد :توحيد عبادى كى طرف دعوت ۷،۱۰،۱۵

حق :حق كو قبول كرنے كے موانع ۱۱

____________________

۱) كافى ، ج ۸ ; ص ۱۸۵، ح ۲۱۳; بحار الانوار ج ۱۱ ، ص ۳۷۷، ح ۳_

۱۸۶

رشد :فكرى رشد كے موانع ۱۱

روايت : ۱۶

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كا اپنى ذمہ دارى پر عمل پيدا ہونا ۱۳; حضرت صالح(ع) كا شرك كے خلاف جہاد ۶،۷ ، ۸ ;حضرت صالحعليه‌السلام كا قصہ ۶، ۱۳; حضرت صالحعليه‌السلام كا نابغہ ہونا ۱;حضرت صالح(ع) كى تبليغ ۶; حضرت صالح(ع) كى دعوت۷، ۱۰، ۱۳، ۱۵; حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت ۱۳; حضرت صالحعليه‌السلام كى سرزنش ۱۷; حضرت صالحعليه‌السلام كى صلاحتيں ۲; حضرت صالح(ع) كى كوشش ۱۳;حضرت صالح(ع) كى ہوشيارى ۱۵ ; حضرت صالح(ع) كے انذاز ۶; حضرت صالح(ع) كے فضائل ۱، ۲; حضرت صالح(ع) كے مخاطبين ۱۰; حضرت صالح(ع) كے نابغہ ہونے كے آثار ۳; حضرت صالحعليه‌السلام نبوت سے پہلے ۱

قومى تعصب :قومى تعصب كے آثار ۱۱، ۱۲

قوم ثمود :قوم ثمود اورتوحيد عبادى ۱۴; قوم ثمود اور حضرت صالحعليه‌السلام ۱، ۲، ۳، ۷، ۸، ۹، ۱۵; قوم ثمود اور درميانى عمر كے لوگ ۱۰; قوم ثمود اور نيك لوگ ۵; قوم ثمود كا اقرار ۲; قوم ثمود كا شرك ۵،۶;قوم ثمود كا شك ۱۴، ۱۵; قوم ثمود كا عقيدہ ۱۴;قوم ثمود كو حق كى دعوت ۷; قوم ثمود كى اميديں ۸;قوم ثمود كى بت پرستى ۱۶;قوم ثمود كى تاريخ ۳،۵، ۷، ۹، ۱۴، ۱۵; قوم ثمود كى ترقى كے عوامل ۳;قوم ثمود كى فكر ۳;قوم ثمود كى مخالفت كاسبب ۹;قوم ثمود كى مخالفتيں ۷;قوم ثمود كى نااميدى ۸; قوم ثمود كى ہلاكت ۱۶;قوم ثمود كے جوان ۱۰

متحرك كرنا:متحرك كرنے كے اسباب۹

مشركين : ۵

۱۸۷

آیت ۶۳

( قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَى بَيِّنَةً مِّن رَّبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَن يَنصُرُنِي مِنَ اللّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ )

انھوں نے كہا كہ اے قوم تمھارا كيا خيال ہے كہ اگر ميں اپنے پروردگار كى طرف سے دليل ركھتا ہوں اور اس نے مجھے رحمت عطا كى ہے تو اگر ميں اس كى نافرمانى كروں گا تو اس كے مقابلہ ميں كون ميرى مدد كرسكے گا تم تو گھاٹے ميں اضافہ كے علاوہ كچھ نہيں كرسكتے ہو(۶۳)

۱_ حضرت صالح(ع) ، كے پاس اپنى رسالت كے ليے معجزہ اورواضح دليل تھي_قال يا قوم ارأيتم ان كنت على بيّنة

۲_ خداوند متعال، پيغمبروں كو معجزہ اور روشن دليليں عطا كرتا ہے_ان كنت على بينة من ربّي

۳_ خداوند متعال، پيغمبروں كى تربيت اور ان كے امور كى تدبير كرنے والا ہے_ان كنت على بينة من ربّي

مذكورہ بالا معني، لفظ (ربّ) سے استفادہ كيا گيا ہے جو مربى اور مدّبر كا معنى ديتا ہے_

۴_ پيغمبروں كو معجزہ اور روشن دليليں عطا كرنے كا مقصد ، نبوت كے امور كى تدبير اور رسالت كے مقاصد ميں پيش قدمى ہے_ان كنت على بيّنة من ربّي

۵_ حضرت صالح(ع) ،ہمدرداور كفار سے شفقت اور رحم دلّى سے پيش آتے تھے_يا قوم ارايتم

''يا قوم'' (انے ميرى قوم) كى تعبير حضرت صالح(ع) كى شفقت اور رحم دلّى سے حكايت ہے_

۶_ خداوند عالم نے حضرت صالح(ع) كو اپنى خصوصى رحمت

۱۸۸

سے بہرہ مند فرمايا اور انہيں نبوت عطا فرمائي و آتانى منہ رحمةً مقام كى مناسبت سے يہاں ''رحمة'' سے مر اد مقام نبوت و رسالت ہے_

۷_ خداوند متعال كى نبوت اور رحمت خاص اس كے پيغمبروں كے ليے ہے_و اتانى منه رحمة

لفظ (رحمة) كا نكرہ لانا ، اسكى عظمت كى دليل ہے جسے يہاں رحمت خاص سے تعبير كيا گيا ہے_

۸_ حضرت صالحعليه‌السلام كى ذمہ داري، توحيد كى تبليغ اور شرك و بت پرستى سے مقابلہ تھا_ان كنت على بيّنة من ربّى فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته

جملہ ( ان عصيتہ ) جسكا معنى يہ ہے كہ ( اگر ميں خداوند متعال كى نافرمانى كروں )يہ بتا تا ہے (و ا مرنى بابلاغ رسالاتہ) جيسا جملہ (فمن ينصرنى ) سے پہلے تقدير ميں ہے_ اسى بناء پر حاصل معنييہ ہوگا ( ان كنت ...) تم خود اسكا فيصلہ كرو كہ اگر ميں خدا كا رسول ہوں اور وہ مجھے رسالت كے پہنچا نے كا حكم فرمائے_اور اگر اسميں ميں كوشش نہ كروں تو كون ہے جو مجھے خدا كے عذاب سے بچالے گا _

۹_ حضرت صالحعليه‌السلام نے اپنى قوم ميں اعلان كيا: اگرميں نے تمھارى بات كو قبول كرليا ( يعنى توحيد پرستى كى دعوت كوترك كردوں ) توگنہگار اور مستحق عذاب ٹھہرايا جاؤں گا_فمن ينصرنى من الله ان عصيته

۱۰_ پيغمبر بھى اگر رسالت اور توحيد كى تبليغ كے سلسلہ ميں سہل انگارى كريں تو گنہگار ہيں _

فمن ينصرنى من الله ان عصيته

۱۱_ فرمان الہى سے سرپيچى كرنے والے اگر چہ انبياء ہى كيوں نہ ہوں خدائي عذاب و سزا سے دوچار ہونے كے خطر ے ميں ہيں _فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته

(من اللّہ ) كا معنى (من عذاب اللّہ ) ہے_

۱۲_ تمام مخلوق، خداوند متعال كے عذاب كو دور كرنے اور عذاب الہى ميں گرفتار لوگوں كو بچانے ميں ناتواں ہے_

فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته

(ينصر ) كا فعل چونكہ(من) سے متعدى ہوا ہے لہذا (ينجي) (نجات دے گا) كا معنى اس ميں متضمن ہے _

۱۳_ خداوند متعال كى قدرت، تمام طاقتوں سے بالاتر ہے_فمن ينصرنى من اللّه

۱۴_ قوم ثمود كے كفار، حضرت صالح(ع) سے يہ چاہتے تھے كہ وہ اپنے مدعى سے دستبرد ار ہو جائيں اور توحيد

۱۸۹

پرستى كى طرف لوگوں كو دعوت دينے سے گريز كريں _فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته فما تزيدوننى غير تخسير

(فماتزيدونى )ميں حرف فأ، فأ فصيحہ ہے اور ايك مقدر جملے سے حكايت كررہى ہے جس پر اور گذشتہ آيت ميں (اتنھنا ...) كے قرينے كى بناء پر آيت كا معنى يوں ہوگا _ اگر ميں تمہارے كہنے ميں آكر ( توحيد كى تبليغ سے) ہاتھ بھى اٹھالوں توتم مجھے گھا ٹے اور نقصان كے كچھ نہيں دے سكتے_

۱۵_ حضرت صالح(ع) اپنى قوم كے كفار كى درخواست (جو توحيد كى تبليغ كو ترك كرنا تھا) كيطرف توجہ كرنے كو بھى اپنے ليے تباہى اور خسارت كا موجب سمجھتے تھے_فما تزيدوننى غير تخسير

(تخسير) خسارت ڈالنے كےمعنى ميں ہے _ اور اسكا فاعل قوم ثمود ہے_

۱۶_ اپنے كافر رشتہ داروں كى خاطر خدائي ذمہ داريوں كو ترك كردينا ،خسارت اور تباہى كا موجب ہے_

فما تزيدوننى غير تخسير

۱۷_حضرت صالح(ع) كى قوم كا آپ(ع) كو دعوت توحيد سے دسبتردار ہونے پر اصرارسبب بنا كہ انہيں اپنى قوم كى خسارت و بتاہى كا بہت زيادہ يقين ہوگيا_فما تزيدوننى غير تخسير

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں حاصل ہوگا جب (تخسير ) كا معنى خسارت اور تباہى كى طرف نسبت دينا ہو جسطرح ( تكفير و تفسيق ) كا معنى كفر و فسق كى طرف نسبت دينا ہے _ اس بناء پر فعل تخسير كا فاعل حضرت صالحعليه‌السلام ہيں _اور جملہ (فما تزيدوننى ) كا معنى يوں ہوگا كہ تم مجھے توحيد پرستى كى دعوت سے منع كرنے پر جو اصرار كر رہے ہو اسكا نتيجہ فقط يہ ہے كہ ميں تمھيں تباہى و بر بادى ميں ديكھوں _

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام اور عذاب ۱۱; انبياءعليه‌السلام اور گناہ ۱۰; انبياء ء اور معصيت ۱۱;ابنياءعليه‌السلام پر رحمت الہى ۷;انبياءعليه‌السلام كا مدبر ہونا ۳;انبياءعليه‌السلام كا مربى ۳;انبياءعليه‌السلام كى رسالت كى اہميت ۴;انبياءعليه‌السلام كى نبوت كى اہميت ۴; انبياءعليه‌السلام كے اہداف كى تكميل كا زمينہ ۴;انبياءعليه‌السلام كے روشن دلائل ۲; انبياءعليه‌السلام كے ليے روشن دلائل كا فلسفہ ۴; انبياءعليه‌السلام كے معجزہ كا فلسفہ ۴;انبياءعليه‌السلام كے مقامات ۷

انسان :انسانوں كا عاجز ہونا ۱۲/بت پرستى :بت پرستى سے مقابلے كى اہميت ۸

توحيد :توحيد كى تبليغ كى اہميت ۸; توحيد كى دعوت كو ترك كرنا ۱۴، ۱۷; توحيد كى دعوت كو ترك كرنے كا گناہ

۱۹۰

ہے ۹، ۱۰

خدا :افعال خداوندى ۳; خداوند متعال كى ربوبيت ۳; خداوند متعال كى رحمت خاصہ۶، ۷; خداوند متعال كے خصائص ۱۳ ;خدا وند متعال كے عذاب سے مقابلہ ۱۲;خداوند متعال كے عطايا ۲; قدرت الہى كى خصوصيات ۱۳ ;قدرت خداوند كى بالادستى ۱۳; خدا كے عذابوں كاحتمى ہونا ۱۲

رحمت :رحمت كے شامل حال افراد۶، ۷

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى كو ترك كرنے كے آثار ۱۶; شرعى ذمہ دارى ميں سہل انگارى كے آثار ۱۰

شرك:شرك سے مقابلہ كى اہميت ۸

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام اور قوم ثمود ۵; حضرت صالحعليه‌السلام اور قوم ثمود كى خواہشات ۹، ۱۵; حضرت صالحعليه‌السلام اور كفّار ۵; حضرت صالحعليه‌السلام اور گناہ ۹; حضرت صالحعليه‌السلام اور مشركين ۵; حضرت صالحعليه‌السلام پر رحمت ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كا اطمينان ۱۷; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصہ ۹، ۱۴، ۱۵; حضرت صالحعليه‌السلام كا معجزہ ۱;حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت ۸; حضرت صالحعليه‌السلام سوچ ۹، ۱۵ ; حضرت صالحعليه‌السلام كى گفتگو كا طريقہ ۵; حضرت صالح(ع) كى نبوت ۶;حضرت صالحعليه‌السلام كى مہرباني۵; حضرت صالحعليه‌السلام كى نبوت كے دلائل ۱; حضرت صالحعليه‌السلام كے درجات ۶;حضرت صالح(ع) كے روشن دلائل ۱

عذاب :اہل عذاب كى امداد ۱۲;عذاب سے نجات ۱۲; عذاب كے اسباب ۹

قوم ثمود :اصرار قوم ثمود كے آثار ۱۷; قوم ثمود اور حضرت صالحعليه‌السلام ۱۴;قوم ثمود كا نقصان و خسارت ۱۴

كفار :كفار كو خوش كرنے كا بے اہميت ہونا ۱۶

گنہگار :۱۰///معجزہ :معجزہ كا سبب ۲

معصيت كار :معصيت كاروں كى سزا ۱۱

نبوت :مقام نبوت ۷

نقصان :نقصان كے اسباب ۱۵، ۱۶

۱۹۱

آیت ۶۴

( وَيَا قَوْمِ هَـذِهِ نَاقَةُ اللّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللّهِ وَلاَ تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ )

اے قوم يہ ناقہ اللہ كى طرف سے ايك نشانى ہے اسے آزاد چھوڑدوتا كہ زمين خدا ميں چين سے كھائے اور اسے كسى طرح كى تكليف نہ دينا كہ تمھيں جلد ہى كوئي عذاب اپنى گرفت ميں لے لے (۶۴)

۱_ اونٹى كا ارادہ الہى سے عادى اسباب و علل كے بغير پيدا ہونا، حضرت صالح(ع) كى اپنى رسالت كو ثابت كرنے كے ليے معجزہ تھا_و يا قوم هَذه نَاقَةُ الله لكم آية

۲_ حضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ ، بڑا معجزہ و نشانى اور ايك خاص اہميت كى حامل تھى _و يَا قوم هَذه نَاقَةُ الله لكم آية

لفظ (ناقة ) كا (الله ) كيطرف مضاف ہونا ، جہاں ناقہ صالح(ع) كى عادى اسباب كے بغير خلقت كى طرف اشارہ كررہا ہے وہاں اس اونٹى كى بزرگى و عظمت كو بھى بيان كررہا ہے _

۳_ حضرت صالحعليه‌السلام ،اپنى قوم كو گفتگو كى لطافت سے معجزہ كى خصوصيات سے روشناس كروايا _و يا قوم هذه ناقة الله

تعبير ( يا قوم ) يعنى اے ميرى قوم عطوفت اور مہربانى كو بتاتى ہے _

۴_ حضرت صالحعليه‌السلام نے اپنى قوم سے درخواست كى كہ اس اونٹنى كو چرنے كيلئے آزاد چھوڑ ديں _

فذروها تأكل فى ارض الله

۵_ حضرت صالحعليه‌السلام نے قوم ثمود كو خبردار كيا كہ اس اونٹنى كو كسى قسم كى تكليف اور اذيت نہ ديں _ولاتمسوها بسوء

۶_ حضرت صالح(ع) نے اپنى قوم كو متنبہ كيا كہ اگر انہوں نے اونٹنى كو چرنے سے منع كيا اوراسے اذيت دى تو جلدہى عذاب نازل ہوجائے گا _

ولا تمسوها بسوء فيأخذكم عذاب قريب

۷_ زمين اور جو اس پر اگتا ہے وہ خداوند متعال كى ملكيت ہے _فذروها تأكل فى ارض الله

مذكورہ بالا معنى لفظ ( ارض) كو (الله ) كى طرف اضافت دينے سے حاصل ہوا ہے _

۸_ چراگاہوں كا خدا كى ملكيت ہونا،يہ حضرت صالحعليه‌السلام كى دليل تھى كہ ناقہ كو زمين پر كہيں بھى چرنے سے منع نہ كيا جائے _هذه ناقة الله ...فذروها تأكل فى ارض الله

۱۹۲

''ناقہ خدا'' اور'' زمين خدا'' كى تعبيرات كا استعمال يہ حقيقت ميں حضرت صالحعليه‌السلام كا اپنى قوم كے ليے استدلال تھا كہ اس ناقہ كو كہيں بھى چرنے سے منع نہ كيا جائے كيونكہ يہ ناقة الله ہے اور زمين بھى الله تعالى كى ہے اور يہ مناسب نہيں ہے كہ اسكو چرنے سے روكا جائے _

۹_ حضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ كو چرنے ميں آزاد ركھنا، قوم ثمود كے منافع كے خلاف تھا_

فذروها تأكل فى ارض الله و لا تمسوها بسوء

قوم ثمود كو خبردار كيا جاناكہ اگر انہوں نے ناقہ كو چرنے سے منع كيا تو عذاب ميں گرفتار ہوجائيں گے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ اونٹنى كى سلامتى ان كى طرف سے خطرے ميں تھى اور وہ لوگ اونٹنى كے آزاد چرنے كو اپنے فائدے ميں نہيں ديكھ رہے تھے _

۱۰_عن ابى جعفر عليه‌السلام : قال : ان رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سأل جبرئيل عليه‌السلام ... فقال : يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان صالحاً بعث الى قومه قالوا : يا صالح(ع) ادع لنا ربك يخرج لنا من هذا الجبل الساعة ناقة حمراء شقراء و براء عشراء بين جنبيها مبل فسا ل الله تعالى صالح عليه‌السلام ذلك فانصدع الجبل صدعاً ، ثم اضطرب ذلك الجبل ثم لم يفجأهم الَّا را سها ثم خرج سائر جسدها ثم استوت قائمة على الأرض (۱)

ترجمہ : امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قوم صالح كے بارے ميں جبرائيلعليه‌السلام سے سوال كيا_ جبرائيل(ع) نے عرض كي: صالحعليه‌السلام اپنى قوم كى طرف مبعوث ہوئے تو ان سے انہوں نے كہا كہ اے صالحعليه‌السلام اپنے خدا سے درخواست كرو كہ ابھى اس پہاڑسے اونٹى پيدا كرے _ جو گہرے سرخ رنگ كى ہو اور اسكو حمل سے آزاد ہوئے دس مہينے گذر چكے ہوں اور اس كے دونوں پہلووں كے درميان ايك ميل ( چار ہزار ہاتھ) فاصلہ ہو اس وقت حضرت صالحعليه‌السلام نے خدا سے دعا كى ، تو پہاڑ ميں بہت بڑا شگاف ہوا پھر ايك لرزہ آيا اچانك ايك ناقہ كا سر پہاڑ سے باہر آيا ...پھر باقى جسم باہر نكلا اور وہ زمين پر كھڑى ہوگئي_

____________________

۱)كافى ، ج۸ ، ص ۱۸۵ج ۲۱۳ ; تفسير برہان ج۲ ص ۲۲۵; ح ۳_

۱۹۳

جڑى بوٹياں :جڑى بوٹيوں كا مالك ۷

خدا :ارادہ خداوندى ۱; خدا كى مالكيت ۷، ۸

روايت : ۱۰

زمين :زمين كا مالك ۷

صالحعليه‌السلام :حضرت صالح(ع) ا ور قوم ثمود۳،۴،۵،۸; حضرت صالح(ع) كا استدلال۸; حضرت صالح(ع) كا اونٹنى كو اذيت دينے سے منع كرنا۵; حضرت صالح(ع) كا ڈرانا ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصّہ ۴، ۵، ۶، ۸; حضرت صالحعليه‌السلام كا معجزہ ۱، ۱۰;حضرت صالحعليه‌السلام كي اونٹى كو اذيت دينے كے آثار ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كى آزادى ۹ ; حضرت صالح(ع) كى اونٹى كى آزادى پر دلائل ۸; حضرت صالح(ع) كى اونٹى كى چراگاہ ۴، ۸ ;حضرت صالح(ع) كى تبليغ كا طريقہ ۳;حضرت صالح(ع) كى خواہشات ۴; حضرت صالح(ع) كى عطوفت ۳; حضرت صالح(ع) كى نبوت پر دلائل ۱; حضرت صالح(ع) كے معجزے كى اہميت ۲; حضرت صالحعليه‌السلام كے نواہي۵

عذاب :عذاب سے خبردار كرنا ۶

قوم ثمود :قوم ثمود سے احتجاج ۸; قوم ثمود كو ڈرانا ۶; قوم ثمود كے منافع ۹

معجزہ :حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كا معجزہ ۱، ۲

آیت ۶۵

( فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُواْ فِي دَارِكُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ )

اس كے بعد بھى ان لوگوں نے اس كى كونچيں كاٹ ديں تو صالح نے كہا كہ اب اپنے گھروں ميں تين دن تك اور آرام كرو كہ يہ وعدہ الہى ہے جو غلط نہيں ہوسكتا ہے (۶۵)

۱_ قوم ثمود كے كافروں نے حضرت صالحعليه‌السلام كے خوف دلانے كى پروا نہ كرتے ہوئے ناقہ كا پيچھا كركے

۱۹۴

اسكو ہلاك كرديا _فعقروه

''عقرٌ'' (عقروا) كا مصدر ہے_ عربى زبان ميں اسكا معنى اونٹ كا پيچھا كرنا اور اس كے پاؤں كو تلوار سے قلم كرنے كو كہتے ہيں اور اونٹ كو نحر اور ذبح كرنے كو بھى ( عقر ٌ ) كہتے ہيں _

۲_ قوم ثمود، نے حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹنى كا پيچھا كركے ان كى رسالت كى نشانى كو مٹا كراپنے ليے عذاب الہى كو يقينى قرار ديا _فعقرواها فقال تمتعوا فى داركم ثلاثة ايام _

۳_ قوم ثمود، كوحضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ كے قتل كے بعد دنيا ميں تين دن سے زيادہ رہنے اور اس كے مال و متاع سے استفادہ كرنے كى مہلت نہ مل سكي_فقال تمتعوا فى داركم ثلاثة ايّام

۴_ قوم ثمود كے لوگ دنيا اور اسكى لذّات سے بہت دل لگائے ہوئے تھے _فقال تمتعوا فى داركم ثلاثة ايّام

حضرت صالح كے فرمان (تمتعوا ) سے مراد يہ نہيں تھى كہ وہ انہيں دنيا كى لذتوں سے بہرہ مند ہونے كيلئے كہہ رہے تھے بلكہ بعد والے جملہ كے قرينہ كى بناء پر تين دن كى مہلت كا اعلان كررہے تھے تين دن دنيا كے مال و متاع سے استفادہ كرنے كيلئے مہلت دينا قوم ثمود كى طرز فكر كى طرف اشارہ ہے يعنى تم جس دنيا سے دل لگائے ہوئے ہو اور اسے چاہتے ہو اور اس كى خاطر تم نے آئين الہى كو پس پشت ڈال ديا ہے اب فقط تمھيں اس دنيا سے لذت وفائدہ اٹھانے كى تين دن كى مہلت ہے_

۵_ قوم ثمود پر نزول عذاب الہى كا وعدہ، سچا اور تخلف ناپذير تھا _ذلك وعد غير مكذوب

۶_ قوم ثمود پر عذاب الہى كے نزول كا وعدہ، خداوند متعال كى طرف سے حضرت صالحعليه‌السلام كو تھا _

ذلك وعد غير مكذوب

۷_(عن ابى عبدالله عليه‌السلام (فى حديث قوم صالح ) قالوا اعقروا هذه الناقة ثم قالوا : من الذى يلى قتلها و نجعل له جعلاً ما احب ، فجائهم رجل شقى من الأشقياء فجعلوا له جعلاً فقعد لها فى طريقها فضربهابالسيف ضربة فلم تعمل شيئا فضربها ضربةٌ اخرى فقتلها و اقبل قوم صالح فلم يبق احد منهم الَّا شركه فى ضربته فأوحى الله تبارك و تعالى الى صالح عليه‌السلام ... قل لهم: انى مرسل عليكم عذابى الى ثلاثة ايام فان هم تابوا و رجعوا قبلت

۱۹۵

توبتهم وصددت عنهم فا تاهم صالح عليه‌السلام فقال لهم يا قوم انكم تصبحون غداً و وجوهكم مصفرّة و اليوم الثانى وجوهكم محمّرة و اليوم الثالث وجوهكم مسودّة (۱)

امام جعفر صادق عليہ سے ( حضرت صالحعليه‌السلام كے قصے ميں ) روايت ہے كہ انكى قوم نے كہا : اس ناقہكو راستے سے ہٹا دو پھر اس كے بعد انہوں نے كہا : كون ہے جو اسكو ہلاك كرنے كا كام انجام دے گا ہم اس كے ليے اسكى مرضى كى اجرت مقرر كريں گے تو اسوقت ايك شقى شخص آگے بڑھا اس كے اس كام كى اجرت مقرر ہوئي _ پھراس شخص نے ناقہ كے راستے ميں كمين لگائي اور جب اونٹنى آئي تو اس نے پہلا وار كيا جو كارساز نہ ہوا پھر دوسرے وار ميں اس نے اونٹى كو قتل كرديا پھر حضرت صالح(ع) كى قوم آئي اور اسكو اجرت ادا كرنے ميں سب شريك ہوئے پھر حضرت صالحعليه‌السلام كو وحى ہوئي كہ ان كو كہہ دو كہ ميں تين دن تك تم پر عذاب نازل كروں گا اگر وہ ان تين دنوں ميں توبہ كرليں اور ( خدا كى طرف) لوٹ آئيں تو ميں انكى توبہ قبول كرلوں گا اور ان سے عذاب كوٹال دوں گا پھر حضرت صالح(ع) اپنى قوم كے پاس تشريف لائے اور فرمايا كل كے دن تمہارى صورتيں زرد اور اس كے بعد والے دن سرخ پھر تيسرے دن سياہ ہوجائيں گى

اعداد :تين كا عدد ۳، ۷

خدا :خداوند متعال كے وعدے ۶

روايت :روايت ۷

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كا ڈرانا ۱; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصہ ۲، ۳، ۷; حضرت صالحعليه‌السلام كو وعدہ دينا ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كا قتل ۱، ۷;حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كو قتل كرنے كے آثار ۲، ۳

عذاب :عذاب كے اسباب ۲

قوم ثمود :قوم ثمود اور حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى ۱، ۲;قوم ثمود سے توبہ كى درخواست ۷; قوم ثمود كو خوف دلوانا ۵، ۶; قوم ثمود كو مہلت ۳;قوم ثمود كى دنيا طلبى ۴;قوم ثمود كى صفات ۴;قوم ثمود كى تاريخ ۳،۵،۶;قوم ثمود كے عذاب كا حتمى ہونا ۲، ۵

____________________

۱) كافى ،ج ۸، ص ۱۸۷، ح ۲۱۴; بحارالانوار ، ج ۱۱; ص ۳۸۸ح ۱۴_

۱۹۶

آیت ۶۶

( فَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَالِحاً وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِئِذٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ )

اس كے بعد جب ہمارا حكم عذاب آپہنچا تو ہم نے صالح اور ان كے ساتھ كے صاحبان ايمان كو اپنى رحمت سے اپنے عذاب اور اس دن كى رسوائي سے بچاليا كہ تمھارا پروردگار صاحب قوت اور سب پر غالب ہے (۶۶)

۱_ قوم ثمود نے تين دن كى مہلت سے كچھ فائدہ نہ اٹھايا اور ناقہ كے قتل پر پشيمان نہ ہوئے نيزاپنے شرك اور حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت كے انكار پر مصّر رہے _فلما جاء امرنا

۲_ خداوند متعال نے قوم ثمود كے شرك اختيار كرنے پر اصرار اور حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت كے انكار كى وجہ سے ان پر سخت عذاب نازل كيا _فلما جاء امرنا

(امر) سے مراد قوم ثمود پرنازل ہونے والا عذاب ہے (نا) ضمير كى طرف مضاف ہونا، عذاب كے عظيم ہونے سے حكايت ہے_

۳_ قوم ثمود پر نازل شدہ عذاب، ذليل اور خوار كرنے والا عذاب تھا_نجّينا صالحاً و من خزى يؤمئذ

۴_ كائنات ميں خداوند متعال كا حكم بغير كسى كمى وزيادتى كے متحقق ہوتا ہے_فلمّا جاء امرنا

عذاب كو لفظ ( امر ) كہ جس كا معنى فرمان ہے سے تعبير كرنے كا مقصد اس نكتہ كى طرف اشارہ كرنا ہے كہ خداوند متعال جس چيز كا حكم ديتا ہے وہ بغير كسى كمى و زيادتى كے متحقق ہوتا ہے اس طرح كہ گويا موردحكم فقط وہى حكم ہے _

۵_ قوم ثمودكے كچھ لوگوں نے توحيد كو قبول كيا اور

۱۹۷

حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت پر ايمان لائےنجّينا صالحاً و الذين ء امنوا معه

۶_ خداوند متعال نے حضرت صالحعليه‌السلام اور ان پر ايمان لانے والوں كو قوم ثمود پر نازل شدہ عذاب سے بچاليا اور ان كو انجام كى ذلت سے محفوظ ركھا_نجّينا صالحاً و الذين ء امنوا ومن خزى يومئذ:

۷_ حضرت صالحعليه‌السلام اور انكے پيرو كاروں كونازل شدہ عذاب سے نجات دينا، خداوند متعال كى ان پر رحمت كا جلوہ تھا _

معه برحمة منّا

۸_اہل ايمان اس كے لائق ہيں كہ رحمت الہى ان كے شامل حال رہے _نجّينا صالحاً و الذين ء امنو معه برحمة منّ

۹_ خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كو ذليل و خوار كرنے والے عذاب سے ڈرايا _

و من خزى يومئذ ان ربّك هوالقويُّ العزيز

قوم ثمود كے كفار پر نزول عذاب كے بيان كے بعد( ان ربّك ...) كے جملے ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب قرار دے كر يہ بتايا جارہا ہے كہ قوم ثمود كے كفار پر جس طرح عذاب الہى نازل ہوسكتا ہے اسى طرح رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين بھى عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كے خطرہ سے دوچارہيں _

۱۰_ كفر اختيار كرنے اور معارف دين كى مخالفت كرنے والے الہى عذاب سے دو چار ہونے كے خطرہ ميں ہيں _

فلمّا جاء امرنا نجّينا صالحاً و من خزى يومئذ انّ ربك هوالقوى العزيز

۱۱_ خداوند متعال ،قوى ( طاقتور ) اور عزيز ( ناقابل شكست ) ہے _انّ ربّك هوالقوى العزيز

۱۲_ خداوند متعال كے عذاب و عقوبت كو كوئي نہيں ٹال سكتا _ان ربّك هوالقوى العزيز

حصرپرمشتمل جملہ كے ذريعہ خداوند متعال كى حكومت اور ناقابل شكست ہونے كو بيان كرنا او ر دوسروں سے قدرت و طاقت كى نفى كرنا، اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ ارادہ خداوندى كے مقابلے ميں كسى ميں استقامت كى طاقت نہيں ہے_

۱۳_ خداوند متعال، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مربيّ اور ان كے امور كا مدبرّ ہے_ان ربّك

۱۴_ خداوندعالم كى قدرت كا ناقابل شكست ہونا، اہداف رسالت كى پيش قدمى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كے امور كى تدبير كے سلسلہ ميں معاون و مددگار ہے_ان ربك هوالقوى العزيز

۱۹۸

اسما و صفات :عزيز ۱۱; قوى ،۱۱

اعداد :تين كا عدد ۱

انسان :انسانوں كا عجز ۱۲

خدا :اوامرالہى كى خصوصيات ۸;خدا كا عذاب سے ڈرانا۹; خدا كى ربوبيت ۱،۱۴; خدا كى قدرت كے آثار۱۴; خدا كے احكام كا حتمى ہونا ۴; خدا كے عذاب۲،۱۰; خدا كے عذابوں كا حتمى ہونا۱۲; رحمت الہى كى نشانياں ۷

دين :دشمنان دين كا عذاب ۱۰;دين كى مخالفت كے آثار ۱۰

رحمت :رحمت الہى كے حق دار ۸

صالح(ع) :حضرت صالحعليه‌السلام پر ايمان لانے والے ۵; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصّہ ۲، ۳، ۵، ۶;حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كا قتل ۱;حضرت صالحعليه‌السلام كى نجات ۶، ۷;حضرت صالحعليه‌السلام كے پيروكاروں كى نجات ۶،۷; حضرت صالحعليه‌السلام كے جھٹلائے جانے كے آثار ۲

عذاب :ذلت بار عذاب سے ڈرانا ۹;سخت عذاب ۲;عذاب سے نجات ۶، ۷; طلب كيا ہوا عذاب ۷; عذاب كے اسباب ۱۰; عذاب كے مراتب ۲، ۳، ۹

قوم ثمود :قوم ثمود اور حضرت صالح(ع) كى اونٹى ۱;قوم ثمود اور حضرت صالح(ع) كى تكذيب۱;قوم ثمود اور ذلّت بار عذاب ۳; قوم ثمود اور معاشرتى گروہ ۵; قوم ثمود كا شرك پراصرار ۱; قوم ثمود كى تاريخ ۱،۲،۵،۶;قوم ثمود كى لجاجت ۱; قوم ثمود كى لجاجت كے آثار ۲;قوم ثمود كى مہلت ۱;قوم ثمود كے آثار شرك ۲;قوم ثمود كے عذاب كے اسباب ۲; قوم ثمود كے موحدين ۵;قوم ثمود كے مومنين ۵

كفار:كافروں كا عذاب ۱۰

كفر :كفر كے آثار ۱۰

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مدبر ۱۳، ۱۴; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، كا مربى ۱۳ ، ۱۴ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كينبوت كى اہميت : ۱۴; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حامى ۱۴;۱۳، ۱۴;حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كو ڈرانا ۹

مؤمنين :مؤمنين كے فضائل ۸

۱۹۹

آیت ۶۷

( وَأَخَذَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ )

اور ظلم كرنے والوں كو ايك چنگھاڑنے اپنى لپيٹ ميں لے ليا تو وہ اپنے ديار ميں ادندھے پڑے رہ گئے (۶۷)

۱_ قوم ثمود كے كفار ،چيخ اور ڈرؤنى آواز كے ذريعہ ہلاكت كوپہنچ گئے_و أخذ الذين ظلموا الصيحة

۲_ قوم ثمود كے لوگ ستم كرنے والے تھے _و اخذ الذين ظلموا الصيحة

۳_ قوم ثمود كى ستمكاري، ان كے عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كا سبب بني_و اخذ الذين ظلموا الصيحة

۴_ قوم ثمود كا حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹنى كو قتل كرنا، ان كى ستم ظريفيوں ميں سے ايك تھى _و اخذ الذين ظلموا الصيحة

اس وجہ سے كہ حضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ كو قتل كرنا بھى عذاب الہى كے نزول ميں دخيل تھا _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جملہ (الذين ظلموا ...)ميں ظلم سے ناقہ كے قتل كى طرف اشارہ ہے_

۵_ شرك ،اور پيغمبروں كى رسالت سے انكار كرنا ستمگرى ہے _و اخذ الذين ظلموا الصيحة

( الذين ظلموا ) سے مراد، مشركين اور حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت كے منكرين ہيں ان كو سمتگروں سے ياد كرنا ،مذكورہ بالا تفسير كى طرف اشارہ ہے_

۶_ ستم كرنے والے مشركين اور كفار، دنياوى عذاب (عذاب استيصال) ميں گرفتار ہونے والے ہيں _

واخذ الذين ظلموا الصيحة

۷_ قوم ثمود كے كفار، عذاب الہى كے سبب زمين پر اوندھے گر كرہلاك ہوگئے _فأصبحوا فى ديارهم جاثمين

( جثوم ) جاثمين كا مصدر ہے جو زمين سے چمٹ جانے اور حركت نہ كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ ليكن بعض افراد نے زمين پر سينے كے بل گرنے كا معنى كيا ہے _(لسان العرب)

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

خلاصہ :

۱) امام (ع) نے بعض روايات ميں فقيہ كو منصب عطا كيا ہے _ اور امام (ع) كے زمانہ حضور اور غيبت دونوں ميں يہ منصب ان كے پاس ہے_

۲) امام كا ولايت كليہ كا حامل ہونا ،بعض امور ميں شيعوں كو فقہاء كى طرف رجوع كرنے كا حكم دينے سے مانع نہيں ہے _

۳) امام صادق نے اس دور ميں فقہاء كو ولايت پر منصوب كيا جب آپ اپنے اختيارات استعمال كرنے ميں بے بس تھے _ اور اس سے كوئي مشكل پيدا نہيں ہوتى كيونكہ نصب ولايت اور ولايت كو بروئے كار لانا ،دو الگ الگ چيزيں ہيں _

۴)فقيہ كى ولايت انتصابى كى ادلّہ پر بعض افراد كا اعتراض يہ ہے كہ امام كى طرف سے فقہا كو ولايت كا حاصل ہونا معاشرتى نظام كے مختل ہونے اور خرابى كا باعث بنتا ہے _

۵) ايك ہى واقعہ ميں مختلف فقہا كا ولايت كو بروئے كار لانا اختلال نظام كا موجب بنتا ہے نہ ان كامنصب ولايت _

۶) بعض روايات ضعف سند يا عدم وضاحت كى وجہ سے ولايت فقيہ كے مؤيّدات كے زمرہ ميں آتى ہيں_

۷) وہ روايات جو علماء اور فقہاء كو انبياء (ع) كا وارث اور رسول خدا (ص) كا خليفہ قرار ديتى ہيں فقيہ كى ولايت كى دليل ہيں كيونكہ معاشرے كے امور كى تدبير اور ولايت بھى انبياء كى صفات ميں سے ہيں_

۲۲۱

سوالات :

۱) ''فقيہ كى ولايت انتصابى ''كا نظريہ كن اعتراضات اور ابہامات سے دوچار ہے ؟

۲) اگر ہر فقيہ عادل ''منصب ولايت'' كا حامل ہو تو كيا اختلال نظام كا باعث بنتا ہے ؟

۳) كيا وہ امام معصوم جو خود بے بس ہو وہ كسى اور كو ولايت عامہ پر منصوب كرسكتا ہے ؟

۴) روايت''اللهم ارحم خلفائي ''سے فقيہ كى ولايت پر استدلال كيجيئے _

۵) روايت ''العلماء ورثة الانبياء '' كس طرح فقيہ كى ولايت پر دلالت كرتى ہے ؟

۲۲۲

تيئيسواں سبق :

ولايت فقيہ پر عقلى دليل

ہم گذشتہ چند اسباق ميں ولايت فقيہ كى اصلى ترين ادلّہ روائي پر نظر ڈال چكے ہيں اب ولايت فقيہ پر قائم عقلى ادلّہ كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں _

ہمارے علماء نے ہميشہ نبوت اور امامت كى بحث ميں عقلى ادلّہ سے استدلال كيا ہے '' برہان عقلى '' عقلى اور يقينى مقدمات سے تشكيل پاتا ہے _ يہ مقدمات چار خصوصيات يعنى كليت ، ذاتيت، دوام اور ضرورت كے حامل ہونے چاہي ں_

اسى وجہ سے ان سے جو نتيجہ حاصل ہوتا ہے وہ بھى كلى ، دائمى ، ضرورى اور ذاتى ہوتا ہے اور كبھى بھى جزئي يا افراد سے متعلق نہيں ہوتا_ اسى وجہ سے نبوت اور امامت كے متعلق جو برہان قائم كئے جاتے ہيں وہ كسى خاص شخص كى نبوت يا امامت كے متعلق نہيں ہوتے _ اور نہ ہى كسى خاص فرد كى نبوت يا امامت كو ثابت كرتے ہيں _ بنابريں ولايت فقيہ كے مسئلہ ميں بھى وہ عقلى دليل جو خالصةً عقلى مقدمات سے تشكيل پاتى ہے جامع الشرائط

۲۲۳

فقيہ كى اصل ولايت كو ثابت كرتى ہے _اور يہ كہ كونسا ''فقيہ جامع الشرائط ''اس ولايت كا حامل ہو ؟يہ ايك جزئي اور فردى امر ہے لہذا اس كا تعيّن عقلى دليل سے نہيں ہوگا _ (۱)

دليل عقلى كى دو قسميں ہيں _

الف: عقلى محض ب: عقلى ملفّق

دليل عقلى محض وہ دليل ہے جس كے تمام مقدمات خالصةً عقلى ہوں اور ان ميں كسى شرعى مقدمہ سے استفادہ نہ كيا گيا ہو _

دليل عقلى ملّفق يا مركب وہ دليل عقلى ہے جس كے بعض مقدمات شرعى ہوں مثلاً آيات يا روايات يا كسى شرعى حكم سے مدد لى گئي ہو اور اس برہان كے تمام مقدمات خالصةً عقلى نہ ہوں _ولايت فقيہ كے باب ميں ان دونوں قسم كى عقلى ادلّہ سے استدلال كيا گيا ہے _ ہم بھى اس سبق ميں بطور نمونہ دونوں قسموں سے ايك ايك نمونہ ذكر كريں گے _

ولايت فقيہ كى عقلى ادلّہ كے بيان كرنے سے پہلے دو نكات كا ذكر كرنا ضرورى ہے _

اس ميں كوئي مانع نہيں ہے كہ عقلى دليل كا نتيجہ ايك شرعى حكم ہو _كيونكہ عقل بھى شرعى احكام كے منابع ميں سے ہے اور شارع مقدس كى نظر كو كشف كرسكتى ہے _ علم اصول ميں مستقلات عقليہ اور غير مستقلات عقليہ پر تفصيلى بحث كى گئي ہے اور علماء علم اصول نے بتايا ہے كہ كن شرائط پر عقل شرعى حكم كو كشف كرسكتى ہے _ شرعى حكم كے استنباط ميں عقلى دليل كا بھى وہى كردار ہے جو دوسرى شرعى ادلّہ كا ہے شارع مقدس كى نظر كو كشف كرنے

____________________

۱) ولايت فقيہ، عبدالله جوادى آملى ،صفحہ ۱۵۱_

۲۲۴

ميں عقلى دليل كا قابل اعتبار ہونا اپنى جگہ پر ثابت ہوچكا ہے بنابريں ولايت فقيہ پر '' دليل عقلى محض'' مستقلات عقليہ كى قسم سے ہے اور مستقلات عقليہ ميںكسى نقلى دليل سے مدد نہيں لى جاتى _

دوسرا نكتہ: يہ ہے كہ امامت اور نبوت پر قائم عقليدليل كى تاريخ بہت پرانى ہے _ ليكن ولايت فقيہ پر عقلى دليلبعد والے ادوار ميں قائم كى گئي ہے _ محقق نراقى پہلے شخص ہيں جنہوں نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے عقلى دليل كا سہارا ليا ہے پھر ان كے بعد آنے والے فقہاء نے اسے آگے بڑھايا ہے _ مختلف طرز كى عقلى ادلّہ كى وجہ ان كے مقدمات كا مختلف ہونا ہے اور بہت سے موارد ميں ايك مشترك كبرى مثلاً ''قاعدہ لطف ''يا ''حكمت الہى ''سے مدد لى گئي ہے _

ولايت فقيہ پر دليل عقلى محض

نبوت عامہ كى ضرورت پرفلاسفہ كى مشہور برہان كو اس طرح بيان كيا جاسكتا ہے كہ جس كا نتيجہ نہ صرف ''ضرورت نبوت ''بلكہ ''ضرورت امامت'' نيز ''ضرورت نصب فقيہ عادل ''كى صورت ميں سامنے آئے _ يہ برہان جو كہ ''معاشرہ ميں ضرورت نظم ''كى بنياد پر قائم ہے قانون خدا اور اسكے مجرى كے ضرورى ہونے كو ثابت كرتى ہے _ قانون كو جارى كرنے والا پہلے مرحلہ ميں نبى ہوتا ہے اس كے بعد اسكا معصوم وصى اور جب نبى اور امام معصوم نہ ہوں تو پھر ''قانون شناس فقيہ عادل'' كى بار ى آتى ہے _ بوعلى سينا جيسے فلاسفر كہ جنہوں نے اس برہان سے تمسك كيا ہے نے اسے اس طرح بيان كيا ہے كہ وہ صرف ''اثبات نبوت'' اور ''بعثت انبياء كے ضرورى ہونے'' كيلئے كار آمد ہے _(۱)

____________________

۱) الالہيات من الشفاء ،صفحہ ۴۸۷، ۴۸۸_ المقالة العاشرہ، الفصل الثانى _

۲۲۵

ليكن ہمارا مدعا يہ ہے كہ اسے اس طرح بيان كيا جاسكتا ہے كہ امام معصوم كى امامت اور فقيہ عادل كى ولايت كے اثبات كيلئے بھى سودمند ثابت ہو _ اس برہان كے مقدمات درج ذيل ہيں :

۱_ انسان ايك اجتماعى موجود ہے اور طبيعى سى بات ہے كہ ہر اجتماع ميں تنازعات اور اختلافات رونما ہوتے ہيں _ اسى لئے انسانى معاشرہ نظم و ضبط كا محتاج ہے _

۲_ انسان كى اجتماعى زندگى كا نظم و ضبط اس طرح ہونا چاہيے كہ وہ انسانوں كى انفرادى اور اجتماعى سعادت اور كمال كا حامل ہو _

۳_ اجتماعى زندگى كا ايسا نظم و ضبط جو ناروا اختلافات اور تنازعات سے مبرّا اور انسان كى معنوى سعادت كا ضامن ہو وہ مناسب قوانين اور شايستہ مجرى قانون ( قانون جارى كرنے والا) كے بغير ناممكن ہے _

۴_ خدا تعالى كى مداخلت كے بغيرتنہا انسان اجتماعى زندگى كے مطلوبہ نظم و ضبط كے قائم كرنے كى قدرت نہيں ركھتا _

۵_ خدائي قوانين اور معارف الہى كے كسى نقص و تصرف كے بغير مكمل طور پر انسان تك پہنچنے كيلئے ضرورى ہے كہ اس كولانے اور حفاظت كرنے والا'' معصوم ''ہو _

۶_ دين كامل كى تبيين اور اس كے اجرا كيلئے وصى اور امام معصوم كى ضرورت ہے _

۷_ اور جب نبى اور امام معصوم نہ ہوں تو پھر مذكورہ ہدف( مطلوبہ اجتماعى زندگى اور قوانين الہى كا نفاذ ) وحى شناس اور اس پر عمل كرنے والے رہبر كے بغير حاصل كرنا ممكن نہيں ہے _

اس برہان كا چھٹا مقدمہ'' تقرر امام'' كى ضرورت كيلئے سود مند ہے جبكہ ساتواں مقدمہ زمانہ غيبت ميں رہبر كے تقرركى ضرورت كو ثابت كرتا ہے _

۲۲۶

اسى برہان كو آيت ا لله جوادى آملى نے يوں بيان كيا ہے :

انسان كى اجتماعى زندگى اور اس كا انفرادى اور معنوى كمال ايك طرف تو ايسے الہى قانون كا محتاج ہے جو انفرادى اور اجتماعى لحاظ سے ہر قسم كے ضعف و نقص اور خطا و نسيان سے محفوظ ہو اور دوسرى طرف اس قانون كامل كے نفاذ كيلئے ايك دينى حكومت اور عالم و عادل حكمران كى ضرورت ہے _ انسان كى انفرادى يا اجتماعى زندگى ان دو كے بغير يا ان ميں سے ايك كے ساتھ متحقق نہيں ہو سكتى _ اجتماعى زندگى ميں ان دو كا فقدان معاشرہ كى تباہى و بربادى اور فساد و خرابى كا باعث بنتا ہے جس پر كوئي بھى عقلمند انسان راضى نہيں ہوسكتا يہ عقلى برہان كسى خاص زمانہ يا مقام كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _ زمانہ انبيائ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ضرورت نبوت ہے اور آنحضرت (ص) كى نبوت كے بعد والا زمانہ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ضرورت امامت ہے اسى طرح امام معصوم كى غيبت كا زمانہ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ''ضرورت ولايت فقيہ ''ہے _(۱)

''دليل عقلى محض ''صرف مذكورہ دليل ميں محدود نہيں ہے بلكہ اس كے علاوہ بھى براہين موجود ہيں جو خالصةً عقلى مقدمات سے تشكيل پاتى ہيں اور زمانہ غيبت ميں نصب ولى كى ضرورت كو ثابت كرتى ہيں _

دليل عقلى ملفق

ولايت فقيہ كى عقلى دليل كو بعض شرعى دلائل اور مقدمات عقليہ كى مدد سے بھى قائم كيا جاسكتا ہے _ يہاں ہم اس طرح كے دو براہين كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

استاد الفقہاء آيت الله بروجردى درج ذيل عقلى اور نقلى مقدمات كى مدد سے فقيہ كى ولايت عامہ كو ثابت كرتے ہيں _

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۱۵۱، ۱۵۲_

۲۲۷

۱_ معاشرہ كا رہبر ايسى ضروريات كو پورا كرتا ہے جن پر اجتماعى نظام كى حفاظت موقوف ہوتى ہے _

۲_ اسلام نے ان عمومى ضروريات كے متعلق خاص احكام بيان كئے ہيں اور ان كے اجرا كى ذمہ دارى مسلمانوں كے حاكم اور والى پر عائد كى ہے_

۳_ صدر اسلام ميں مسلمانوں كے قائد اور راہنما رسول خدا (ص) تھے اور ان كے بعد ائمہ معصومين اور معاشرے كے امور كا انتظام ان كا فريضہ تھا _

۴_ سياسى مسائل اور معاشرتى امور كى تدبير و تنظيم اس زمانے كے ساتھ مخصوص نہيں تھى _ بلكہ ان مسائل كا تعلق ہر زمانہ اور ہر جگہ كے مسلمانوں سے ہے _ ائمہ معصومين كے دور ميں شيعوں كے پراگندہ ہونے كى وجہ سے آسانى كے ساتھ ا ئمہ تك ان كى دسترسى ممكن نہيں تھى _ اس كے باوجود ہميںيقين ہے كہ آپ نے ان كے امور كى تدبير و انتظام كيلئے كسى كو ضرور مقرر كيا ہوگا تا كہ شيعوں كے امور مختل نہ ہوں _ ہم يہ تصور بھى نہيں كرسكتے كہ ايك طرف زمانہ غيبت ميں ائمہ معصو مين نے لوگوں كو طاغوت كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا ہو اور دوسرى طرف سياسى مسائل ، تنازعات كے فيصلے اور دوسرى اجتماعى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے كسى كو مقرر بھى نہ كيا ہو _

۵_ ائمہ معصومين كى طرف سے والى اور حاكم كے تقرر كے ضرورى ہونے كو ديكھتے ہوئے فقيہ عادل اس منصب كيلئے متعين ہے _ كيونكہ اس منصب پر غير فقيہ كے تقرر كا كوئي بھى قائل نہيں ہے _ پس صرف دو احتمال ممكن ہيں _

الف : ائمہ معصومين نے اس سلسلہ ميں كسى كو مقرر نہيں كيا صرف انہيں طاغوت كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا ہے _

۲۲۸

ب: اس ذمہ دارى كيلئے فقيہ عادل كو مقرر كيا ہے _

مذكورہ بالا چار مقدمات كى رو سے پہلا احتمال يقينى طور پر باطل ہے _ پس قطعى طور پر فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كيا گيا ہے _(۱)

آيت الله جوادى آملى اس ''دليل عقلى مركب ''كو يوں بيان كرتے ہيں :

دين اسلام كا قيامت تك باقى رہنا ايك قطعى اور واضح سى بات ہے زمانہ غيبت ميں اسلام كا تعطل كا شكار ہوجانا، عقائد ، اخلاق اور اعمال ميں اسلام كى ابديت كے منافى ہے _ اسلامى نظام كى تأسيس ، اس كے احكام اور حدود كانفاذ اور دشمنوں سے اس دين مبين كى حفاظت ايسى چيز نہيں ہے كہ جس كى مطلوبيت اور ضرورى ہونے ميں كسى كو ترديد و شك ہو _ حدود الہى اور لوگوں كى ہتك حرمت ، لوگوں كى ضلالت و گمراہى اور اسلام كا تعطل كا شكار ہوجانا كبھى بھى الله تعالى كيلئے قابل قبول نہيں ہے_ اسلام كے سياسى اور اجتماعى احكام كى تحقيق و بررسى اور نفاذ جامع شرائط فقيہ كى حاكميت كے بغير ممكن نہيں ہے _ ان امور كو ديكھتے ہوئے عقل كہتى ہے : يقينا خداوند كريم نے عصر غيبت ميں اسلام اور مسلمانوں كو بغير سرپرست كے نہيں چھوڑا(۲)

اس دليل كے تمام مقدمات عقلى نہيں ہيں بلكہ اسلام كے اجتماعى اور اقتصادى احكام كے نفاذ ، مثلاًحدود و قصاص ، امر بالمعروف و نہى عن المنكر ، زكات اور خمس سے با صلاحيت حكومت كے وجود پر مدد لى گئي ہے_ لہذا يہ دليل عقلى محض نہيں ہے _

____________________

۱) البدر الزاہر فى صلاة الجمعة و المسافر ۷۳ _ ۷۸

۲) ولايت فقيہہ ص ۱۶۷_ ۱۶۸_

۲۲۹

خلاصہ :

۱) بعض فقہى مسائل ميںعقلى دليل كا سہارا ليا جاتا ہے _ اور دليل عقلى نظر شارع كو كشف كرتى ہے_

۲) دليل عقلى كى دوقسميں ہيں _ ''دليل عقلى محض ''اور'' دليل عقلى ملفق ''دليل عقلى محض مكمل طور پر عقلى اور يقينى مقدمات سے تشكيل پاتى ہے _ جبكہ دليل عقلى ملفق ميں عقلى مقدمات كے علاوہ شرعى مقدمات سے بھى استفادہ كيا جاتا ہے _

۳) بحث امامت اور نبوت ميں دليل عقلى سے استدلال كرنا ايك قديمى اور تاريخى امر ہے _ ليكن ولايت فقيہ كى بحث ميں اس سے استفادہ كرنا بعد كے ادوار ميں شروع ہوا ہے_

۴)وہ دليل جسے فلاسفہ نے نبوت عامہ اور بعثت انبياء كى ضرورت پر پيش كيا ہے اسے اس طرح بھى بيان كيا جاسكتا ہے كہ اس سے امام كى امامت اور فقيہ كى ولايت ثابت ہوجائے _

۵)ولايت فقيہ پر قائم دليل عقلى ملفق كى روح اور جان يہ ہے كہ اسلام ہر دور اور ہر جگہ پر انسان كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ اور جس طرح اسلام كے نفاذ كيلئے امام معصوم كى ضرورت ہے اسى طرح زمانہ غيبت ميں ايك اسلام شناس مجرى قانون كى بھى ضرورت ہے _

۶) دليل عقلى ،امام اور فقيہ كے تقرر كى ضرورت كو ثابت كرتى ہے ليكن كبھى بھى جزئي اور شخصى نتيجہ نہيں ديتى اور اس بات كو مشخص نہيں كرتى كہ امام كون ہوگا _

۲۳۰

سوالات :

۱)'' دليل عقلى محض'' كى تعريف كيجئے_

۲) ''دليل عقلى ملفق يا مركب'' كى تعريف كيجئے _

۳) فقہ ميں دليل عقلى كى كيا حيثيت ہے ؟

۴)ولايت فقيہ پر قائم ايك ''دليل عقلى محض ''كو مختصر طور پر بيان كيجئے_

۵) آيت الله بروجردى نے ولايت فقيہ پر جو دليل عقلى ملفق قائم كى ہے اسے اختصار كے ساتھ بيان كيجئے _

۲۳۱

چوتھا باب:

دينى حكومت كى خصوصيات اور بعض شبہات كا جواب

سبق ۲۴ : فلسفہ ولايت فقيہ

سبق ۲۵:رہبر كى خصوصيات اور شرائط

سبق ۲۶:رہبر كى اطاعت كا دائرہ اور حدود

سبق ۲۷:حكومتى حكم اور مصلحت

سبق ۲۸:حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلق

سبق ۲۹ ، ۳۰ : دينى حكومت كے اہداف اور فرائض

سبق ۳۱، ۳۲ : دينى حكومت اور جمہوريت

۲۳۲

تمہيد:

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر نظريہ ولايت فقيہ كے ساتھ جڑا ہوا ہے _ اور ہمارے سياسى نظام كى بنياد ''ولايت'' پر استورا ہے_گذشتہ باب ميں ہم نے شيعہ فقہا كى كتب سے ولايت كے اثبات اور اس نظرئے كى تاريخى حيثيت پر تفصيلى بحث كى ہے_ اس باب ميں ہم ولائي حكومت كے مختلف پہلووں كى تحقيق، اور اس كى بعض خصوصيات اور اہداف پر روشنى ڈاليں گے حقيقت يہ ہے كہ آج كے دور ميں پورى دنيا ميں سيكولر، اور لبرل جمہورى حكومتيں مقبول عام ہيں جبكہ دينى حكومت اور ولايت فقيہ مختلف قسم كے حملوں كا شكار ہے جسكى وجہ سے ولايت فقيہ اور دينى حاكميت پر مبتنى سياسى نظريہ كے مقابلہ ميں لوگوں كے اذہان سيكولر اور غيردينى سياسى فلسفہ سے زيادہ آشنا اور مانوس ہيں لہذا دينى حكومت اور ولايت فقيہ كے نظريہ كو ثابت كرنے كيلئے ٹھوس اور منطقى ادلہ كى ضرورت ہے_

بعض شبہات اور اعتراضات كى بنيادى وجہ بغض اور كينہ و حسد ہے جبكہ بعض اعتراضات غلط فہمى كى وجہ سے پيدا ہوئے ہيں_ ان دوسرى قسم كے شبہات كے جواب كيلئے استدلالى اور منطقى گفتگو كے علاوہ كوئي چارہ نہيں ہے _ بنابريں اس باب ميں دو بنيادى اہداف ہيں_ ايك طرف ''حكومت ولائي'' كے متعلق پائے جانے والے بعض ابہامات اور شبہات كا جواب ديا جائے گا اور دوسرى طرف دينى حكومت كى بنيادى خصوصيات اور اس كے اہداف كى طرف اشارہ كيا جائے گا_

۲۳۳

چوبيسواں سبق:

فلسفہ ولايت فقيہ

دوسرے معاشروں كى طرف اسلامى معاشرہ بھى سياسى ولايت اور حاكميت كا محتاج ہے جيسا كہ پہلے باب ميں گذرچكاہے كہ انسانى معاشرہ اگرچہ كامل، شائستہ، منظم اور حق شناس افراد سے بھى تشكيل پايا ہو_ تب بھى اسے حكومت اور سياسى ولايت كى ضرورت ہوتى ہے _ كيونكہ اس اجتماع كے امور كى تنظيم و تدبير ايك حكومت كے بغير ناممكن ہے _ وہ شے جو سياسى اقتدار اور ولايت كے وجود كو ضرورى قرار ديتى ہے وہ معاشرے كا نقص اور احتياج ہے_ حكومت اور سياسى اقتدار كے بغير معاشرہ ناقص اور متعدد كمزوريوں كا شكار ہے _ حكومت اور سياسى ولايت كى طرف احتياج اس معاشرہ كے افراد كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہوتي_ بنابريں اگر ہمارے دينى متون ميں فقيہ عادل كيلئے ولايت اور حاكميت قرار دى گئي ہے تو اس كا مقصد فقط اسلامى معاشرہ كے نواقص كا جبران اور تلافى كرنا ہے _ اسلامى معاشرے كى حاكميت، ولايت اور سرپرستى كيلئے فقيہ عادل كے تقرر كا معنى يہ نہيں ہے كہ مسلمان ناقص اوركم فہم ہيں اور انہيں ايك سرپرست كى ضرورت ہے _

۲۳۴

بلكہ يہ انسانى اجتماع اور معاشرے كا نقص ہے كہ جو سياسى اقتدار و ولايت كے تعين سے برطرف ہوجاتاہے_

جيسا كہ تيسرے باب ميں تفصيل سے گذرچكاہے بہت سے شيعہ فقہا زمانہ غيبت ميں اس سياسى ولايت كو جامع الشرائط فقيہ عادل كا حق سمجھتے ہيں، يا اس وجہ سے كہ ادلّہ روائي ميں اس منصب كيلئے فقيہ كا تقرر كيا گيا ہے يا امور حسبيہ كے باب سے كہ ان امور ميں '' فقيہ'' كا حق تصرف قطعى امر ہے اور فقيہ كے ہوتے ہوئے دوسرے افراد ان امور كى سرپرستى نہيں كرسكتے _ حتى كہ وہ افراد جو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كا معيار امت كے انتخاب كو سمجھتے ہيں اور فقيہ كے تقرر كے منكر ہيں وہ بھى معتقد ہيں كہ امت '' فقيہ عادل'' كے علاوہ كسى اور شخص كو حاكميت كيلئے منتخب نہيں كرسكتى _ يعنى فقيہ كى ولايت انتخابى كے قائل ہيں_ پس يہ ادعا كيا جاسكتاہے كہ زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى نظريہ''' فقيہ عادل'' كى سياسى ولايت پر استوار ہے اور فرق نہيں ہے كہ اس زعامت اور حاكميت كا سرچشمہ ادلّہ روائي ہوں جو فقيہ كو منصوب كرتى ہيں يا اسے امور حسبيہ كے باب سے ثابت كريں يا لوگوں كے منتخب شخص كيلئے فقاہت كو شرط قرار ديں _حقيقت ميں اس نكتہ كا راز كيا ہے ؟ كيوں شيعہ علماء مصرّ ہيں كہ اسلامى معاشرہ كے سربراہ كيلئے فقاہت شرط ہے ؟

اس سوال كا جواب اس نكتہ ميں پنہا ن ہے كہ اسلامى معاشرہ ميں حكومت كى ذمہ دارى يہ ہے كہ مسلمانوں كے مختلف امور كو شرعى تعليمات كے مطابق بنائے_ سيكولر حكومتوں كے برعكس _كہ جو صرف امن و امان برقرار كرنے اور رفاہ عامہ جيسے امور كو لبرل يا دوسرے انسانى مكاتب كے اصولوں كے تحت انجام ديتى ہيں_ دينى حكومت كا ہدف ہر صورت ميں فقط ان امور كا انجام دينا نہيں ہے بلكہ اسلامى معاشرہ ميں اجتماعى تعلقات و روابط كو اسلامى موازين اور اصولوں كے مطابق بنانا اور مختلف اقتصادى و معاشى امور ،قانون ، باہمى تعلقات، اور ثقافتى روابط كودين كے ساتھ ہم آہنگ كرنا ہے_ لہذا اسلامى معاشرہ كے رہبر كيلئے اجتماعى امور كى تنظيم

۲۳۵

كى صلاحيت اور توانائي كے ساتھ ساتھ اسلام اور اس كے موازين و اصولوں سے كافى حد تك آشنا ہونا بھى ضرورى ہے_ پس چونكہ مسلمانوں كى سرپرستى اور سياسى ولايت كا بنيادى اور اصلى ركن اسلام شناسى ہے لہذا اسلامى معاشرے كا سرپرست و سربراہ فقيہ ہونا چاہيے_

يہ نكتہ اہلسنت كے بعض روشن فكر علماء كى نظر سے بھى پنہاں نہيں رہا _ اہلسنت اگرچہ ولايت انتصابى كے معتقد نہيں ہيں اور اكثريت اس كى قائل ہے كہ سياسى رہبر كے تقرر كى كيفيت اور طريقہ كار كے متعلق دينى متون خاموش ہيں _ اس كے باوجود بعض نئے مصنفين اس بات پر مصر ہيں كہ سياست اور اجتماع كى اخلاقى اقدار، اجتماعى تعليمات اور بعض اصولوں كا تعين اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اسلامى معاشرے كے انتظام كى مطلوبہ شكل تقاضا كرتى ہے كہ اسلامى معاشرہ كے حكّام'' عالم دين'' ہونے چاہئيں_

قرآن اور احاديث ميں كچھ ايسے امور بھى موجود ہيں جنہيں كم از كم اسلام ميں حكومت كے اخلاقى اصول كہا جاسكتاہے _ مثلاً شورى كى مدح اور حكومت كے سلسلہ ميں مشورہ كرنے كى ترغيب دلانا، عدل و انصاف اور فقراء و مساكين كى رعايت كى دعوت دينا وغيرہ ، واضح ہے كہ حكومت ميں ان اخلاقى اصولوں كے اجرا كيلئے ضرورى ہے كہ حكمران'' عالم دين'' ہو ں_ اور ان اصولوں كو جارى كرنے ميں مخلص ہوں _(۱)

شرط فقاہت ميں تشكيك

اس اكثريتى اور مشہور نظريہ '' كہ امت مسلمہ كے سياسى حاكم ميں فقاہت اور دين شناسى شرط ہے اور فقيہ

____________________

۱) الدين والدولة و تطبيق الشريعة، محمد عابد جابرى صفحہ ۳۴_

۲۳۶

كيلئے ولايت انتصابى ثابت ہے يا كم از كم سياسى ولايت ميں فقاہت شرط ہے'' كے برعكس بعض افراد جو كہ فقيہ كى سرپرستى كے منكر ہيں ان كى نظر ميں اسلامى تعليمات كے نفاذ اور فقيہ كى سرپرستى كے درميان كوئي ملازمہ نہيںہے_ درست ہے كہ اسلام اجتماعى اور سياسى تعليمات ركھتا ہے اور مخصوص اصولوں اور اقدار پر تاكيد كرتاہے_ ليكن اس كا يہ مطلب نہيں ہے كہ معاشرہ كا سياسى اقتدار'' فقيہ'' كے ہاتھ ميں ہو كيونكہ فقيہ كا كام احكام بيان كرنا ہے _ ليكن معاشرہ كے امور كى تنظيم اورسرپرستى كيلئے ان احكام كا اجرا اور اس كيلئے عملى اقدام كرنا فقيہ كى ذمہ دارى نہيں ہے لہذا سياسى اقتدار كيلئے فقاہت كى شرط ضرورى نہيں ہے _اگر اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ كى شركت كو ضرورى سمجھيں تواحكام الہى كے اجرا ميں اس كى نظارت كے قائل ہوں اور واضح سى بات ہے كہ نظارت فقيہ اور ولايت فقيہ دو مختلف چيزيں ہيں اور '' نظارت ''كسى بھى اجرائي ذمہ دارى كو'' فقيہ'' كا منصب قرار نہيں ديتي_

اسلامى معاشرہ كے نظام كے چلانے ميں ''فقاہت'' كى شرط كو قبول نہ كرنے والے بعض لوگ استدلال كرتے وقت سياستدان اور فقيہ كے درميان تفاوت كو مد نظر ركھتے ہيں_ ان كى نظر ميں سياست اور معاشرہ كے امور كا اجرا ايك ايسا فن ہے جس كا تعلق جزئيات سے ہے_ جبكہ فقاہت اور اس سے اعلى تر مناصب يعنى امامت اور نبوت اصول اور كليات سے سروكار ركھتے ہيں_ اصول اور كليات ميں ماہر ہونے كا لازمہ يہ نہيں ہے كہ فقيہ معاشرہ كے نظام كى جزئيات ميں بھى مہارت ركھتا ہو _اصول ، كليات اور احكام ثابت اور نا قابل تغير ہيں جبكہ سياست ہميشہ جزئي اور تبديل ہونے والے امور كے ساتھ سر و كار ركھتى ہے_

جس طرح كوئي فلسفى اپنے عقلى نظريات اورفقيہ اپنے اجتہاد اور دين ميں سمجھ بوجھ كے باوجود بغير كسى تربيت اور تجربہ كے كپڑا نہيں بنا سكتا اور ڈارئيونگ نہيں كرسكتا _ اسى طرح فلسفى اپنى

۲۳۷

عقل نظرى اور فقيہ احكام دين ميں مہارت ركھنے كے باوجو دسياست نہيں كرسكتا _ كيونكہ فلسفہ ايك تھيورى اور نظرى امر ہے _اسى طرح فقاہت يا اخلاقى تھيورى ايك ثابت اور غير متغيّرش ے ہے جبكہ سياست خالصةً ايك متغير شے ہے حكومت اور تدبيرامور مملكت جو كہ لوگوں كے روز مرہ امور كى ديكھ بھال ، امن عامہ كا نظام اور اقتصادى امور سے عبارت ہيں تمام كے تمام عقل عملى كى شاخيں اور جزئي اور قابل تغير چيزيں ہيں كہ جن كا تعلق حسى اور تجرباتى موضوعات سے ہے لہذا لازمى طور پر ان كى وضع و قطع ،الہى فرامين اور وحى سے مختلف ہے _ تجرباتى موضوعات كى صحيح تشخيص صرف لوگوں كى ذمہ دارى ہے اور جب تك وہ صحيح طور پر ان امور كو تشخيص نہ دے ليں شريعت كے كلى احكام عملى طور پر نافذ نہيں ہوسكتے_

اس نظريہ كے بعض دوسرے حامى فقيہ كے كردار كو اصول اور كليات ميں منحصر نہيں سمجھتے _ بلكہ اس كيلئے شان نظارت كے بھى قائل ہيں_ ان كى نظر ميں ايك دينى حكومت كے وجود و تحقق كيلئے ضرورى نہيں ہے كہ اس كى رہبرى فقيہ عادل كے ہاتھ ميں ہو بلكہ فقيہ اگر مشير اور ناظر كے عنوان سے ہو ، اور حكّام شريعت كے نفاذ ميں مخلص ہوں تو دينى حكومت قائم ہوسكتى ہے_

گذشتہ مطالب كى بنا پر سياسى حاكميت ميںفقاہت كى شرط قرار نہ دينے اور نتيجتاً فقيہ كى سياسى ولايت سے انكار كا نظريہ دو امور پر استوارہے_

ايك يہ كہ فقہ ميں مہارت كا حاصل ہونا معاشرہ كے سياسى اور انتظامى امور كى سرپرستى ميں فقيہ عادل كى اولويت پر دلالت نہيں كرتا_

دوسرا يہ كہ دينى حكومت كى تشكيل اور معاشرہ ميں دينى احكام اور اہداف كا حصول فقيہ كى سياسى حاكميت ميں منحصر نہيں ہے بلكہ ايسى دينى حكومتوں كا تصور كيا جاسكتا ہے جن ميں فقيہ كو ولايت حاصل نہ ہواور فقط احكام كى تبيين يا زيادہ سے زيادہ شرعى احكام پر نظارت كرنا اس كى ذمہ دارى ہو_

۲۳۸

فقيہ كى سياسى ولايت كا دفاع:

وہ نظريہ جو اسلامى معاشرہ كے اجتماعى اموركى تدبير كيلئے فقاہت كو شرط قرار نہيں ديتا اور فقيہ كى سياسى ولايت كو ضرورى نہيں سمجھتا درحقيقت بہت سے اہم نكات سے غفلت بر تنے كى وجہ سے وجود ميں آيا ہے_

اس نظريہ كى تحقيق اور تنقيد كيلئے درج ذيل نكات پر سنجيدگى سے غور و فكر كرنے كى ضرورت ہے_

۱_ كيا فقيہ كى سياسى ولايت كے قائلين كى نظرميں اس اجتماعى منصب كے حصول كى واحد علت اور تنہا شرط فقاہت ہے؟ يا اسلامى معاشرہ كى سياسى حاكميت كى ضرورى شروط ميں سے ايك شرط ''فقاہت'' ہے؟ جيسا كہ بعد والے سبق ميں آئے گا كہ دينى منابع ميں مسلمانوں كے امام كے جو اوصاف اور خصوصيات بيان كى گئي ہيں ، ان ميں سے اسلام شناسى اور دين ميں تفقہ و سمجھ بوجھ اہم ترين خصوصيات ميں سے ہے_ عدالت ، شجاعت ، حسن تدبير اور معاشرتى نظام كے چلانے كى صلاحيت اور قدرت بھى مسلمانوں كے امام اور والى كى معتبر شرائط ميں سے ہيں_ اس اجتماعى ذمہ دارى اور منصب ميں مختلف اوصاف كى دخالت سے واضح ہوجاتا ہے كہ اسلامى معاشرہ كے سرپرست كيلئے فقط فقاہت كا ہونا كافى نہيں ہے تا كہ كہا جائے كہ صرف دين ميں تفقہ، معاشرتى نظام كوچلانے كى ضرورى صلاحيت پيدا نہيں كرتااور سياست اورمعاشرتى نظام كو چلانے كيلئے جزئيات كے ادراك كى خاص توانائي كى ضرورت ہے ، جبكہ فقاہت فقط احكام كليہ اور اصول كو درك كرسكتى ہے_

۲_ اگر چہ موجودہ سيكولر حكومتوں ميں سياسى اقتدار كے حاملين اجتماعى امور كى تدبير ، امن عامہ اور رفاہ عامہ جيسے امور كولبرل اصولوں اور انسانى حقوق كى بنياد پر انجام ديتے ہيں ليكن دينى حكومت دين كى پابند ہوتى ہے_ اور مذكورہ بالا اہداف كو شرعى موازين اور اسلامى اصولوں كى بنياد پرتأمين كرتى ہے_ بنابريں سياست اور اسلامى معاشرہ كى تدبير كو كلى طور پر عملى سياست ،عقل عملى اور فن تدبير كے سپرد نہيں كيا جاسكتا كيونكہ ايسى

۲۳۹

حكومت كى تدبيراور سياست كو دينى موازين اور شرعى تعليمات كے مطابق ہونا چاہيے _ پس ايسے معاشرہ كے سرپرست كيلئے ضرورى ہے كہ سياسى صلاحيت اور فن تدبير كے علاوہ فقاہت سے بھى آشنا ہو اور اسلامى تعليمات كى بھى شناخت ركھتا ہو _ اس مدعا كى دليل يہ ہے كہ اسلامى معاشرہ ميں بعض مواردميں نظام اور مسلم معاشرہ كى مصلحت يہ تقاضا كرتى ہے كہ حاكم ايك حكومتى حكم صادر كرے جبكہ بعض موارد ميں يہ حكومتى حكم ،اسلام كے احكام اوّليہ كے منافى ہوتا ہے _ فقيہ عادل كى ولايت عامہ كى ادلّہ كى بنياد پر اس حكومتى حكم كا صادر كرنا'' فقيہ'' كا كام ہے اور اس كے ولائي احكام كى اطاعت كرنا شرعاً واجب ہے_ حالانكہ اگر اسلامى معاشرہ كا حاكم اور سياسى اقتدار كا مالك ''فقاہت'' كا حامل نہ ہو تو نہ ہى وہ ايسے احكام صادر كرنے كا حق ركھتا ہے اور نہ ہى اس كے ان احكام كى پيروى كے لزوم كى كوئي دليل ہے كہ جو ظاہرى طور پر شريعت كے منافى ہيں_

دوسرا شاہد يہ ہے كہ مختلف اجتماعى امور ميں اسلامى تعليمات كے اجرا سے طبيعى طور پر بعض موارد ايسے بھى پيش آجاتے ہيں كہ جن ميں بعض شرعى احكام دوسرے بعض شرعى احكام سے ٹكرا جاتے ہيں اور ان ميں سے ايك پر عمل كرنا دوسرے كے ترك كرنے كا باعث بنتا ہے _ ان موارد ميں حاكم كو تشخيص دينا ہوگى كہ كونسا حكم اہم اور كونسا غير اہم ہے_ اورحاكم اہم كو غير اہم پر ترجيح دے گا_ اہم موارد كو تشخيص دينے اور غير اہم كو چھوڑنے كا حكم دينے كيلئے ضرورى ہے كہ حاكم دينى تعليمات سے گہرى آگاہى ركھتا ہو_

يہ دو دليليں نشاندہى كرتى ہيں كہ اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كيلئے دوسرى حكومتوں ميں رائج تدبيرى مہارت كے ساتھ ساتھ ''فقاہت'' كى صلاحيت بھى ضرورى ہے كسى حكومت كا دينى ہونا معاشرہ كى رہبرى كيلئے ايسى شرط كا تقاضا كرتى ہے_

۳_ وہ افراد جو ولايت فقيہ كى بجائے فقيہ كى مشاورت اور نظارت كى بات كرتے ہيں انہيں يہ ياد ركھنا چاہيے كہ فقہاء كو اقتدار سے دور ركھ كر اور فقط انہيں سياسى نظام پر نظارت دينے سے يہ ضمانت نہيں دى جاسكتى

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367