اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139105 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

خلاصہ :

۱) امام (ع) نے بعض روايات ميں فقيہ كو منصب عطا كيا ہے _ اور امام (ع) كے زمانہ حضور اور غيبت دونوں ميں يہ منصب ان كے پاس ہے_

۲) امام كا ولايت كليہ كا حامل ہونا ،بعض امور ميں شيعوں كو فقہاء كى طرف رجوع كرنے كا حكم دينے سے مانع نہيں ہے _

۳) امام صادق نے اس دور ميں فقہاء كو ولايت پر منصوب كيا جب آپ اپنے اختيارات استعمال كرنے ميں بے بس تھے _ اور اس سے كوئي مشكل پيدا نہيں ہوتى كيونكہ نصب ولايت اور ولايت كو بروئے كار لانا ،دو الگ الگ چيزيں ہيں _

۴)فقيہ كى ولايت انتصابى كى ادلّہ پر بعض افراد كا اعتراض يہ ہے كہ امام كى طرف سے فقہا كو ولايت كا حاصل ہونا معاشرتى نظام كے مختل ہونے اور خرابى كا باعث بنتا ہے _

۵) ايك ہى واقعہ ميں مختلف فقہا كا ولايت كو بروئے كار لانا اختلال نظام كا موجب بنتا ہے نہ ان كامنصب ولايت _

۶) بعض روايات ضعف سند يا عدم وضاحت كى وجہ سے ولايت فقيہ كے مؤيّدات كے زمرہ ميں آتى ہيں_

۷) وہ روايات جو علماء اور فقہاء كو انبياء (ع) كا وارث اور رسول خدا (ص) كا خليفہ قرار ديتى ہيں فقيہ كى ولايت كى دليل ہيں كيونكہ معاشرے كے امور كى تدبير اور ولايت بھى انبياء كى صفات ميں سے ہيں_

۲۲۱

سوالات :

۱) ''فقيہ كى ولايت انتصابى ''كا نظريہ كن اعتراضات اور ابہامات سے دوچار ہے ؟

۲) اگر ہر فقيہ عادل ''منصب ولايت'' كا حامل ہو تو كيا اختلال نظام كا باعث بنتا ہے ؟

۳) كيا وہ امام معصوم جو خود بے بس ہو وہ كسى اور كو ولايت عامہ پر منصوب كرسكتا ہے ؟

۴) روايت''اللهم ارحم خلفائي ''سے فقيہ كى ولايت پر استدلال كيجيئے _

۵) روايت ''العلماء ورثة الانبياء '' كس طرح فقيہ كى ولايت پر دلالت كرتى ہے ؟

۲۲۲

تيئيسواں سبق :

ولايت فقيہ پر عقلى دليل

ہم گذشتہ چند اسباق ميں ولايت فقيہ كى اصلى ترين ادلّہ روائي پر نظر ڈال چكے ہيں اب ولايت فقيہ پر قائم عقلى ادلّہ كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں _

ہمارے علماء نے ہميشہ نبوت اور امامت كى بحث ميں عقلى ادلّہ سے استدلال كيا ہے '' برہان عقلى '' عقلى اور يقينى مقدمات سے تشكيل پاتا ہے _ يہ مقدمات چار خصوصيات يعنى كليت ، ذاتيت، دوام اور ضرورت كے حامل ہونے چاہي ں_

اسى وجہ سے ان سے جو نتيجہ حاصل ہوتا ہے وہ بھى كلى ، دائمى ، ضرورى اور ذاتى ہوتا ہے اور كبھى بھى جزئي يا افراد سے متعلق نہيں ہوتا_ اسى وجہ سے نبوت اور امامت كے متعلق جو برہان قائم كئے جاتے ہيں وہ كسى خاص شخص كى نبوت يا امامت كے متعلق نہيں ہوتے _ اور نہ ہى كسى خاص فرد كى نبوت يا امامت كو ثابت كرتے ہيں _ بنابريں ولايت فقيہ كے مسئلہ ميں بھى وہ عقلى دليل جو خالصةً عقلى مقدمات سے تشكيل پاتى ہے جامع الشرائط

۲۲۳

فقيہ كى اصل ولايت كو ثابت كرتى ہے _اور يہ كہ كونسا ''فقيہ جامع الشرائط ''اس ولايت كا حامل ہو ؟يہ ايك جزئي اور فردى امر ہے لہذا اس كا تعيّن عقلى دليل سے نہيں ہوگا _ (۱)

دليل عقلى كى دو قسميں ہيں _

الف: عقلى محض ب: عقلى ملفّق

دليل عقلى محض وہ دليل ہے جس كے تمام مقدمات خالصةً عقلى ہوں اور ان ميں كسى شرعى مقدمہ سے استفادہ نہ كيا گيا ہو _

دليل عقلى ملّفق يا مركب وہ دليل عقلى ہے جس كے بعض مقدمات شرعى ہوں مثلاً آيات يا روايات يا كسى شرعى حكم سے مدد لى گئي ہو اور اس برہان كے تمام مقدمات خالصةً عقلى نہ ہوں _ولايت فقيہ كے باب ميں ان دونوں قسم كى عقلى ادلّہ سے استدلال كيا گيا ہے _ ہم بھى اس سبق ميں بطور نمونہ دونوں قسموں سے ايك ايك نمونہ ذكر كريں گے _

ولايت فقيہ كى عقلى ادلّہ كے بيان كرنے سے پہلے دو نكات كا ذكر كرنا ضرورى ہے _

اس ميں كوئي مانع نہيں ہے كہ عقلى دليل كا نتيجہ ايك شرعى حكم ہو _كيونكہ عقل بھى شرعى احكام كے منابع ميں سے ہے اور شارع مقدس كى نظر كو كشف كرسكتى ہے _ علم اصول ميں مستقلات عقليہ اور غير مستقلات عقليہ پر تفصيلى بحث كى گئي ہے اور علماء علم اصول نے بتايا ہے كہ كن شرائط پر عقل شرعى حكم كو كشف كرسكتى ہے _ شرعى حكم كے استنباط ميں عقلى دليل كا بھى وہى كردار ہے جو دوسرى شرعى ادلّہ كا ہے شارع مقدس كى نظر كو كشف كرنے

____________________

۱) ولايت فقيہ، عبدالله جوادى آملى ،صفحہ ۱۵۱_

۲۲۴

ميں عقلى دليل كا قابل اعتبار ہونا اپنى جگہ پر ثابت ہوچكا ہے بنابريں ولايت فقيہ پر '' دليل عقلى محض'' مستقلات عقليہ كى قسم سے ہے اور مستقلات عقليہ ميںكسى نقلى دليل سے مدد نہيں لى جاتى _

دوسرا نكتہ: يہ ہے كہ امامت اور نبوت پر قائم عقليدليل كى تاريخ بہت پرانى ہے _ ليكن ولايت فقيہ پر عقلى دليلبعد والے ادوار ميں قائم كى گئي ہے _ محقق نراقى پہلے شخص ہيں جنہوں نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے عقلى دليل كا سہارا ليا ہے پھر ان كے بعد آنے والے فقہاء نے اسے آگے بڑھايا ہے _ مختلف طرز كى عقلى ادلّہ كى وجہ ان كے مقدمات كا مختلف ہونا ہے اور بہت سے موارد ميں ايك مشترك كبرى مثلاً ''قاعدہ لطف ''يا ''حكمت الہى ''سے مدد لى گئي ہے _

ولايت فقيہ پر دليل عقلى محض

نبوت عامہ كى ضرورت پرفلاسفہ كى مشہور برہان كو اس طرح بيان كيا جاسكتا ہے كہ جس كا نتيجہ نہ صرف ''ضرورت نبوت ''بلكہ ''ضرورت امامت'' نيز ''ضرورت نصب فقيہ عادل ''كى صورت ميں سامنے آئے _ يہ برہان جو كہ ''معاشرہ ميں ضرورت نظم ''كى بنياد پر قائم ہے قانون خدا اور اسكے مجرى كے ضرورى ہونے كو ثابت كرتى ہے _ قانون كو جارى كرنے والا پہلے مرحلہ ميں نبى ہوتا ہے اس كے بعد اسكا معصوم وصى اور جب نبى اور امام معصوم نہ ہوں تو پھر ''قانون شناس فقيہ عادل'' كى بار ى آتى ہے _ بوعلى سينا جيسے فلاسفر كہ جنہوں نے اس برہان سے تمسك كيا ہے نے اسے اس طرح بيان كيا ہے كہ وہ صرف ''اثبات نبوت'' اور ''بعثت انبياء كے ضرورى ہونے'' كيلئے كار آمد ہے _(۱)

____________________

۱) الالہيات من الشفاء ،صفحہ ۴۸۷، ۴۸۸_ المقالة العاشرہ، الفصل الثانى _

۲۲۵

ليكن ہمارا مدعا يہ ہے كہ اسے اس طرح بيان كيا جاسكتا ہے كہ امام معصوم كى امامت اور فقيہ عادل كى ولايت كے اثبات كيلئے بھى سودمند ثابت ہو _ اس برہان كے مقدمات درج ذيل ہيں :

۱_ انسان ايك اجتماعى موجود ہے اور طبيعى سى بات ہے كہ ہر اجتماع ميں تنازعات اور اختلافات رونما ہوتے ہيں _ اسى لئے انسانى معاشرہ نظم و ضبط كا محتاج ہے _

۲_ انسان كى اجتماعى زندگى كا نظم و ضبط اس طرح ہونا چاہيے كہ وہ انسانوں كى انفرادى اور اجتماعى سعادت اور كمال كا حامل ہو _

۳_ اجتماعى زندگى كا ايسا نظم و ضبط جو ناروا اختلافات اور تنازعات سے مبرّا اور انسان كى معنوى سعادت كا ضامن ہو وہ مناسب قوانين اور شايستہ مجرى قانون ( قانون جارى كرنے والا) كے بغير ناممكن ہے _

۴_ خدا تعالى كى مداخلت كے بغيرتنہا انسان اجتماعى زندگى كے مطلوبہ نظم و ضبط كے قائم كرنے كى قدرت نہيں ركھتا _

۵_ خدائي قوانين اور معارف الہى كے كسى نقص و تصرف كے بغير مكمل طور پر انسان تك پہنچنے كيلئے ضرورى ہے كہ اس كولانے اور حفاظت كرنے والا'' معصوم ''ہو _

۶_ دين كامل كى تبيين اور اس كے اجرا كيلئے وصى اور امام معصوم كى ضرورت ہے _

۷_ اور جب نبى اور امام معصوم نہ ہوں تو پھر مذكورہ ہدف( مطلوبہ اجتماعى زندگى اور قوانين الہى كا نفاذ ) وحى شناس اور اس پر عمل كرنے والے رہبر كے بغير حاصل كرنا ممكن نہيں ہے _

اس برہان كا چھٹا مقدمہ'' تقرر امام'' كى ضرورت كيلئے سود مند ہے جبكہ ساتواں مقدمہ زمانہ غيبت ميں رہبر كے تقرركى ضرورت كو ثابت كرتا ہے _

۲۲۶

اسى برہان كو آيت ا لله جوادى آملى نے يوں بيان كيا ہے :

انسان كى اجتماعى زندگى اور اس كا انفرادى اور معنوى كمال ايك طرف تو ايسے الہى قانون كا محتاج ہے جو انفرادى اور اجتماعى لحاظ سے ہر قسم كے ضعف و نقص اور خطا و نسيان سے محفوظ ہو اور دوسرى طرف اس قانون كامل كے نفاذ كيلئے ايك دينى حكومت اور عالم و عادل حكمران كى ضرورت ہے _ انسان كى انفرادى يا اجتماعى زندگى ان دو كے بغير يا ان ميں سے ايك كے ساتھ متحقق نہيں ہو سكتى _ اجتماعى زندگى ميں ان دو كا فقدان معاشرہ كى تباہى و بربادى اور فساد و خرابى كا باعث بنتا ہے جس پر كوئي بھى عقلمند انسان راضى نہيں ہوسكتا يہ عقلى برہان كسى خاص زمانہ يا مقام كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _ زمانہ انبيائ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ضرورت نبوت ہے اور آنحضرت (ص) كى نبوت كے بعد والا زمانہ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ضرورت امامت ہے اسى طرح امام معصوم كى غيبت كا زمانہ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ''ضرورت ولايت فقيہ ''ہے _(۱)

''دليل عقلى محض ''صرف مذكورہ دليل ميں محدود نہيں ہے بلكہ اس كے علاوہ بھى براہين موجود ہيں جو خالصةً عقلى مقدمات سے تشكيل پاتى ہيں اور زمانہ غيبت ميں نصب ولى كى ضرورت كو ثابت كرتى ہيں _

دليل عقلى ملفق

ولايت فقيہ كى عقلى دليل كو بعض شرعى دلائل اور مقدمات عقليہ كى مدد سے بھى قائم كيا جاسكتا ہے _ يہاں ہم اس طرح كے دو براہين كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

استاد الفقہاء آيت الله بروجردى درج ذيل عقلى اور نقلى مقدمات كى مدد سے فقيہ كى ولايت عامہ كو ثابت كرتے ہيں _

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۱۵۱، ۱۵۲_

۲۲۷

۱_ معاشرہ كا رہبر ايسى ضروريات كو پورا كرتا ہے جن پر اجتماعى نظام كى حفاظت موقوف ہوتى ہے _

۲_ اسلام نے ان عمومى ضروريات كے متعلق خاص احكام بيان كئے ہيں اور ان كے اجرا كى ذمہ دارى مسلمانوں كے حاكم اور والى پر عائد كى ہے_

۳_ صدر اسلام ميں مسلمانوں كے قائد اور راہنما رسول خدا (ص) تھے اور ان كے بعد ائمہ معصومين اور معاشرے كے امور كا انتظام ان كا فريضہ تھا _

۴_ سياسى مسائل اور معاشرتى امور كى تدبير و تنظيم اس زمانے كے ساتھ مخصوص نہيں تھى _ بلكہ ان مسائل كا تعلق ہر زمانہ اور ہر جگہ كے مسلمانوں سے ہے _ ائمہ معصومين كے دور ميں شيعوں كے پراگندہ ہونے كى وجہ سے آسانى كے ساتھ ا ئمہ تك ان كى دسترسى ممكن نہيں تھى _ اس كے باوجود ہميںيقين ہے كہ آپ نے ان كے امور كى تدبير و انتظام كيلئے كسى كو ضرور مقرر كيا ہوگا تا كہ شيعوں كے امور مختل نہ ہوں _ ہم يہ تصور بھى نہيں كرسكتے كہ ايك طرف زمانہ غيبت ميں ائمہ معصو مين نے لوگوں كو طاغوت كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا ہو اور دوسرى طرف سياسى مسائل ، تنازعات كے فيصلے اور دوسرى اجتماعى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے كسى كو مقرر بھى نہ كيا ہو _

۵_ ائمہ معصومين كى طرف سے والى اور حاكم كے تقرر كے ضرورى ہونے كو ديكھتے ہوئے فقيہ عادل اس منصب كيلئے متعين ہے _ كيونكہ اس منصب پر غير فقيہ كے تقرر كا كوئي بھى قائل نہيں ہے _ پس صرف دو احتمال ممكن ہيں _

الف : ائمہ معصومين نے اس سلسلہ ميں كسى كو مقرر نہيں كيا صرف انہيں طاغوت كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا ہے _

۲۲۸

ب: اس ذمہ دارى كيلئے فقيہ عادل كو مقرر كيا ہے _

مذكورہ بالا چار مقدمات كى رو سے پہلا احتمال يقينى طور پر باطل ہے _ پس قطعى طور پر فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كيا گيا ہے _(۱)

آيت الله جوادى آملى اس ''دليل عقلى مركب ''كو يوں بيان كرتے ہيں :

دين اسلام كا قيامت تك باقى رہنا ايك قطعى اور واضح سى بات ہے زمانہ غيبت ميں اسلام كا تعطل كا شكار ہوجانا، عقائد ، اخلاق اور اعمال ميں اسلام كى ابديت كے منافى ہے _ اسلامى نظام كى تأسيس ، اس كے احكام اور حدود كانفاذ اور دشمنوں سے اس دين مبين كى حفاظت ايسى چيز نہيں ہے كہ جس كى مطلوبيت اور ضرورى ہونے ميں كسى كو ترديد و شك ہو _ حدود الہى اور لوگوں كى ہتك حرمت ، لوگوں كى ضلالت و گمراہى اور اسلام كا تعطل كا شكار ہوجانا كبھى بھى الله تعالى كيلئے قابل قبول نہيں ہے_ اسلام كے سياسى اور اجتماعى احكام كى تحقيق و بررسى اور نفاذ جامع شرائط فقيہ كى حاكميت كے بغير ممكن نہيں ہے _ ان امور كو ديكھتے ہوئے عقل كہتى ہے : يقينا خداوند كريم نے عصر غيبت ميں اسلام اور مسلمانوں كو بغير سرپرست كے نہيں چھوڑا(۲)

اس دليل كے تمام مقدمات عقلى نہيں ہيں بلكہ اسلام كے اجتماعى اور اقتصادى احكام كے نفاذ ، مثلاًحدود و قصاص ، امر بالمعروف و نہى عن المنكر ، زكات اور خمس سے با صلاحيت حكومت كے وجود پر مدد لى گئي ہے_ لہذا يہ دليل عقلى محض نہيں ہے _

____________________

۱) البدر الزاہر فى صلاة الجمعة و المسافر ۷۳ _ ۷۸

۲) ولايت فقيہہ ص ۱۶۷_ ۱۶۸_

۲۲۹

خلاصہ :

۱) بعض فقہى مسائل ميںعقلى دليل كا سہارا ليا جاتا ہے _ اور دليل عقلى نظر شارع كو كشف كرتى ہے_

۲) دليل عقلى كى دوقسميں ہيں _ ''دليل عقلى محض ''اور'' دليل عقلى ملفق ''دليل عقلى محض مكمل طور پر عقلى اور يقينى مقدمات سے تشكيل پاتى ہے _ جبكہ دليل عقلى ملفق ميں عقلى مقدمات كے علاوہ شرعى مقدمات سے بھى استفادہ كيا جاتا ہے _

۳) بحث امامت اور نبوت ميں دليل عقلى سے استدلال كرنا ايك قديمى اور تاريخى امر ہے _ ليكن ولايت فقيہ كى بحث ميں اس سے استفادہ كرنا بعد كے ادوار ميں شروع ہوا ہے_

۴)وہ دليل جسے فلاسفہ نے نبوت عامہ اور بعثت انبياء كى ضرورت پر پيش كيا ہے اسے اس طرح بھى بيان كيا جاسكتا ہے كہ اس سے امام كى امامت اور فقيہ كى ولايت ثابت ہوجائے _

۵)ولايت فقيہ پر قائم دليل عقلى ملفق كى روح اور جان يہ ہے كہ اسلام ہر دور اور ہر جگہ پر انسان كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ اور جس طرح اسلام كے نفاذ كيلئے امام معصوم كى ضرورت ہے اسى طرح زمانہ غيبت ميں ايك اسلام شناس مجرى قانون كى بھى ضرورت ہے _

۶) دليل عقلى ،امام اور فقيہ كے تقرر كى ضرورت كو ثابت كرتى ہے ليكن كبھى بھى جزئي اور شخصى نتيجہ نہيں ديتى اور اس بات كو مشخص نہيں كرتى كہ امام كون ہوگا _

۲۳۰

سوالات :

۱)'' دليل عقلى محض'' كى تعريف كيجئے_

۲) ''دليل عقلى ملفق يا مركب'' كى تعريف كيجئے _

۳) فقہ ميں دليل عقلى كى كيا حيثيت ہے ؟

۴)ولايت فقيہ پر قائم ايك ''دليل عقلى محض ''كو مختصر طور پر بيان كيجئے_

۵) آيت الله بروجردى نے ولايت فقيہ پر جو دليل عقلى ملفق قائم كى ہے اسے اختصار كے ساتھ بيان كيجئے _

۲۳۱

چوتھا باب:

دينى حكومت كى خصوصيات اور بعض شبہات كا جواب

سبق ۲۴ : فلسفہ ولايت فقيہ

سبق ۲۵:رہبر كى خصوصيات اور شرائط

سبق ۲۶:رہبر كى اطاعت كا دائرہ اور حدود

سبق ۲۷:حكومتى حكم اور مصلحت

سبق ۲۸:حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلق

سبق ۲۹ ، ۳۰ : دينى حكومت كے اہداف اور فرائض

سبق ۳۱، ۳۲ : دينى حكومت اور جمہوريت

۲۳۲

تمہيد:

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر نظريہ ولايت فقيہ كے ساتھ جڑا ہوا ہے _ اور ہمارے سياسى نظام كى بنياد ''ولايت'' پر استورا ہے_گذشتہ باب ميں ہم نے شيعہ فقہا كى كتب سے ولايت كے اثبات اور اس نظرئے كى تاريخى حيثيت پر تفصيلى بحث كى ہے_ اس باب ميں ہم ولائي حكومت كے مختلف پہلووں كى تحقيق، اور اس كى بعض خصوصيات اور اہداف پر روشنى ڈاليں گے حقيقت يہ ہے كہ آج كے دور ميں پورى دنيا ميں سيكولر، اور لبرل جمہورى حكومتيں مقبول عام ہيں جبكہ دينى حكومت اور ولايت فقيہ مختلف قسم كے حملوں كا شكار ہے جسكى وجہ سے ولايت فقيہ اور دينى حاكميت پر مبتنى سياسى نظريہ كے مقابلہ ميں لوگوں كے اذہان سيكولر اور غيردينى سياسى فلسفہ سے زيادہ آشنا اور مانوس ہيں لہذا دينى حكومت اور ولايت فقيہ كے نظريہ كو ثابت كرنے كيلئے ٹھوس اور منطقى ادلہ كى ضرورت ہے_

بعض شبہات اور اعتراضات كى بنيادى وجہ بغض اور كينہ و حسد ہے جبكہ بعض اعتراضات غلط فہمى كى وجہ سے پيدا ہوئے ہيں_ ان دوسرى قسم كے شبہات كے جواب كيلئے استدلالى اور منطقى گفتگو كے علاوہ كوئي چارہ نہيں ہے _ بنابريں اس باب ميں دو بنيادى اہداف ہيں_ ايك طرف ''حكومت ولائي'' كے متعلق پائے جانے والے بعض ابہامات اور شبہات كا جواب ديا جائے گا اور دوسرى طرف دينى حكومت كى بنيادى خصوصيات اور اس كے اہداف كى طرف اشارہ كيا جائے گا_

۲۳۳

چوبيسواں سبق:

فلسفہ ولايت فقيہ

دوسرے معاشروں كى طرف اسلامى معاشرہ بھى سياسى ولايت اور حاكميت كا محتاج ہے جيسا كہ پہلے باب ميں گذرچكاہے كہ انسانى معاشرہ اگرچہ كامل، شائستہ، منظم اور حق شناس افراد سے بھى تشكيل پايا ہو_ تب بھى اسے حكومت اور سياسى ولايت كى ضرورت ہوتى ہے _ كيونكہ اس اجتماع كے امور كى تنظيم و تدبير ايك حكومت كے بغير ناممكن ہے _ وہ شے جو سياسى اقتدار اور ولايت كے وجود كو ضرورى قرار ديتى ہے وہ معاشرے كا نقص اور احتياج ہے_ حكومت اور سياسى اقتدار كے بغير معاشرہ ناقص اور متعدد كمزوريوں كا شكار ہے _ حكومت اور سياسى ولايت كى طرف احتياج اس معاشرہ كے افراد كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہوتي_ بنابريں اگر ہمارے دينى متون ميں فقيہ عادل كيلئے ولايت اور حاكميت قرار دى گئي ہے تو اس كا مقصد فقط اسلامى معاشرہ كے نواقص كا جبران اور تلافى كرنا ہے _ اسلامى معاشرے كى حاكميت، ولايت اور سرپرستى كيلئے فقيہ عادل كے تقرر كا معنى يہ نہيں ہے كہ مسلمان ناقص اوركم فہم ہيں اور انہيں ايك سرپرست كى ضرورت ہے _

۲۳۴

بلكہ يہ انسانى اجتماع اور معاشرے كا نقص ہے كہ جو سياسى اقتدار و ولايت كے تعين سے برطرف ہوجاتاہے_

جيسا كہ تيسرے باب ميں تفصيل سے گذرچكاہے بہت سے شيعہ فقہا زمانہ غيبت ميں اس سياسى ولايت كو جامع الشرائط فقيہ عادل كا حق سمجھتے ہيں، يا اس وجہ سے كہ ادلّہ روائي ميں اس منصب كيلئے فقيہ كا تقرر كيا گيا ہے يا امور حسبيہ كے باب سے كہ ان امور ميں '' فقيہ'' كا حق تصرف قطعى امر ہے اور فقيہ كے ہوتے ہوئے دوسرے افراد ان امور كى سرپرستى نہيں كرسكتے _ حتى كہ وہ افراد جو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كا معيار امت كے انتخاب كو سمجھتے ہيں اور فقيہ كے تقرر كے منكر ہيں وہ بھى معتقد ہيں كہ امت '' فقيہ عادل'' كے علاوہ كسى اور شخص كو حاكميت كيلئے منتخب نہيں كرسكتى _ يعنى فقيہ كى ولايت انتخابى كے قائل ہيں_ پس يہ ادعا كيا جاسكتاہے كہ زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى نظريہ''' فقيہ عادل'' كى سياسى ولايت پر استوار ہے اور فرق نہيں ہے كہ اس زعامت اور حاكميت كا سرچشمہ ادلّہ روائي ہوں جو فقيہ كو منصوب كرتى ہيں يا اسے امور حسبيہ كے باب سے ثابت كريں يا لوگوں كے منتخب شخص كيلئے فقاہت كو شرط قرار ديں _حقيقت ميں اس نكتہ كا راز كيا ہے ؟ كيوں شيعہ علماء مصرّ ہيں كہ اسلامى معاشرہ كے سربراہ كيلئے فقاہت شرط ہے ؟

اس سوال كا جواب اس نكتہ ميں پنہا ن ہے كہ اسلامى معاشرہ ميں حكومت كى ذمہ دارى يہ ہے كہ مسلمانوں كے مختلف امور كو شرعى تعليمات كے مطابق بنائے_ سيكولر حكومتوں كے برعكس _كہ جو صرف امن و امان برقرار كرنے اور رفاہ عامہ جيسے امور كو لبرل يا دوسرے انسانى مكاتب كے اصولوں كے تحت انجام ديتى ہيں_ دينى حكومت كا ہدف ہر صورت ميں فقط ان امور كا انجام دينا نہيں ہے بلكہ اسلامى معاشرہ ميں اجتماعى تعلقات و روابط كو اسلامى موازين اور اصولوں كے مطابق بنانا اور مختلف اقتصادى و معاشى امور ،قانون ، باہمى تعلقات، اور ثقافتى روابط كودين كے ساتھ ہم آہنگ كرنا ہے_ لہذا اسلامى معاشرہ كے رہبر كيلئے اجتماعى امور كى تنظيم

۲۳۵

كى صلاحيت اور توانائي كے ساتھ ساتھ اسلام اور اس كے موازين و اصولوں سے كافى حد تك آشنا ہونا بھى ضرورى ہے_ پس چونكہ مسلمانوں كى سرپرستى اور سياسى ولايت كا بنيادى اور اصلى ركن اسلام شناسى ہے لہذا اسلامى معاشرے كا سرپرست و سربراہ فقيہ ہونا چاہيے_

يہ نكتہ اہلسنت كے بعض روشن فكر علماء كى نظر سے بھى پنہاں نہيں رہا _ اہلسنت اگرچہ ولايت انتصابى كے معتقد نہيں ہيں اور اكثريت اس كى قائل ہے كہ سياسى رہبر كے تقرر كى كيفيت اور طريقہ كار كے متعلق دينى متون خاموش ہيں _ اس كے باوجود بعض نئے مصنفين اس بات پر مصر ہيں كہ سياست اور اجتماع كى اخلاقى اقدار، اجتماعى تعليمات اور بعض اصولوں كا تعين اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اسلامى معاشرے كے انتظام كى مطلوبہ شكل تقاضا كرتى ہے كہ اسلامى معاشرہ كے حكّام'' عالم دين'' ہونے چاہئيں_

قرآن اور احاديث ميں كچھ ايسے امور بھى موجود ہيں جنہيں كم از كم اسلام ميں حكومت كے اخلاقى اصول كہا جاسكتاہے _ مثلاً شورى كى مدح اور حكومت كے سلسلہ ميں مشورہ كرنے كى ترغيب دلانا، عدل و انصاف اور فقراء و مساكين كى رعايت كى دعوت دينا وغيرہ ، واضح ہے كہ حكومت ميں ان اخلاقى اصولوں كے اجرا كيلئے ضرورى ہے كہ حكمران'' عالم دين'' ہو ں_ اور ان اصولوں كو جارى كرنے ميں مخلص ہوں _(۱)

شرط فقاہت ميں تشكيك

اس اكثريتى اور مشہور نظريہ '' كہ امت مسلمہ كے سياسى حاكم ميں فقاہت اور دين شناسى شرط ہے اور فقيہ

____________________

۱) الدين والدولة و تطبيق الشريعة، محمد عابد جابرى صفحہ ۳۴_

۲۳۶

كيلئے ولايت انتصابى ثابت ہے يا كم از كم سياسى ولايت ميں فقاہت شرط ہے'' كے برعكس بعض افراد جو كہ فقيہ كى سرپرستى كے منكر ہيں ان كى نظر ميں اسلامى تعليمات كے نفاذ اور فقيہ كى سرپرستى كے درميان كوئي ملازمہ نہيںہے_ درست ہے كہ اسلام اجتماعى اور سياسى تعليمات ركھتا ہے اور مخصوص اصولوں اور اقدار پر تاكيد كرتاہے_ ليكن اس كا يہ مطلب نہيں ہے كہ معاشرہ كا سياسى اقتدار'' فقيہ'' كے ہاتھ ميں ہو كيونكہ فقيہ كا كام احكام بيان كرنا ہے _ ليكن معاشرہ كے امور كى تنظيم اورسرپرستى كيلئے ان احكام كا اجرا اور اس كيلئے عملى اقدام كرنا فقيہ كى ذمہ دارى نہيں ہے لہذا سياسى اقتدار كيلئے فقاہت كى شرط ضرورى نہيں ہے _اگر اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ كى شركت كو ضرورى سمجھيں تواحكام الہى كے اجرا ميں اس كى نظارت كے قائل ہوں اور واضح سى بات ہے كہ نظارت فقيہ اور ولايت فقيہ دو مختلف چيزيں ہيں اور '' نظارت ''كسى بھى اجرائي ذمہ دارى كو'' فقيہ'' كا منصب قرار نہيں ديتي_

اسلامى معاشرہ كے نظام كے چلانے ميں ''فقاہت'' كى شرط كو قبول نہ كرنے والے بعض لوگ استدلال كرتے وقت سياستدان اور فقيہ كے درميان تفاوت كو مد نظر ركھتے ہيں_ ان كى نظر ميں سياست اور معاشرہ كے امور كا اجرا ايك ايسا فن ہے جس كا تعلق جزئيات سے ہے_ جبكہ فقاہت اور اس سے اعلى تر مناصب يعنى امامت اور نبوت اصول اور كليات سے سروكار ركھتے ہيں_ اصول اور كليات ميں ماہر ہونے كا لازمہ يہ نہيں ہے كہ فقيہ معاشرہ كے نظام كى جزئيات ميں بھى مہارت ركھتا ہو _اصول ، كليات اور احكام ثابت اور نا قابل تغير ہيں جبكہ سياست ہميشہ جزئي اور تبديل ہونے والے امور كے ساتھ سر و كار ركھتى ہے_

جس طرح كوئي فلسفى اپنے عقلى نظريات اورفقيہ اپنے اجتہاد اور دين ميں سمجھ بوجھ كے باوجود بغير كسى تربيت اور تجربہ كے كپڑا نہيں بنا سكتا اور ڈارئيونگ نہيں كرسكتا _ اسى طرح فلسفى اپنى

۲۳۷

عقل نظرى اور فقيہ احكام دين ميں مہارت ركھنے كے باوجو دسياست نہيں كرسكتا _ كيونكہ فلسفہ ايك تھيورى اور نظرى امر ہے _اسى طرح فقاہت يا اخلاقى تھيورى ايك ثابت اور غير متغيّرش ے ہے جبكہ سياست خالصةً ايك متغير شے ہے حكومت اور تدبيرامور مملكت جو كہ لوگوں كے روز مرہ امور كى ديكھ بھال ، امن عامہ كا نظام اور اقتصادى امور سے عبارت ہيں تمام كے تمام عقل عملى كى شاخيں اور جزئي اور قابل تغير چيزيں ہيں كہ جن كا تعلق حسى اور تجرباتى موضوعات سے ہے لہذا لازمى طور پر ان كى وضع و قطع ،الہى فرامين اور وحى سے مختلف ہے _ تجرباتى موضوعات كى صحيح تشخيص صرف لوگوں كى ذمہ دارى ہے اور جب تك وہ صحيح طور پر ان امور كو تشخيص نہ دے ليں شريعت كے كلى احكام عملى طور پر نافذ نہيں ہوسكتے_

اس نظريہ كے بعض دوسرے حامى فقيہ كے كردار كو اصول اور كليات ميں منحصر نہيں سمجھتے _ بلكہ اس كيلئے شان نظارت كے بھى قائل ہيں_ ان كى نظر ميں ايك دينى حكومت كے وجود و تحقق كيلئے ضرورى نہيں ہے كہ اس كى رہبرى فقيہ عادل كے ہاتھ ميں ہو بلكہ فقيہ اگر مشير اور ناظر كے عنوان سے ہو ، اور حكّام شريعت كے نفاذ ميں مخلص ہوں تو دينى حكومت قائم ہوسكتى ہے_

گذشتہ مطالب كى بنا پر سياسى حاكميت ميںفقاہت كى شرط قرار نہ دينے اور نتيجتاً فقيہ كى سياسى ولايت سے انكار كا نظريہ دو امور پر استوارہے_

ايك يہ كہ فقہ ميں مہارت كا حاصل ہونا معاشرہ كے سياسى اور انتظامى امور كى سرپرستى ميں فقيہ عادل كى اولويت پر دلالت نہيں كرتا_

دوسرا يہ كہ دينى حكومت كى تشكيل اور معاشرہ ميں دينى احكام اور اہداف كا حصول فقيہ كى سياسى حاكميت ميں منحصر نہيں ہے بلكہ ايسى دينى حكومتوں كا تصور كيا جاسكتا ہے جن ميں فقيہ كو ولايت حاصل نہ ہواور فقط احكام كى تبيين يا زيادہ سے زيادہ شرعى احكام پر نظارت كرنا اس كى ذمہ دارى ہو_

۲۳۸

فقيہ كى سياسى ولايت كا دفاع:

وہ نظريہ جو اسلامى معاشرہ كے اجتماعى اموركى تدبير كيلئے فقاہت كو شرط قرار نہيں ديتا اور فقيہ كى سياسى ولايت كو ضرورى نہيں سمجھتا درحقيقت بہت سے اہم نكات سے غفلت بر تنے كى وجہ سے وجود ميں آيا ہے_

اس نظريہ كى تحقيق اور تنقيد كيلئے درج ذيل نكات پر سنجيدگى سے غور و فكر كرنے كى ضرورت ہے_

۱_ كيا فقيہ كى سياسى ولايت كے قائلين كى نظرميں اس اجتماعى منصب كے حصول كى واحد علت اور تنہا شرط فقاہت ہے؟ يا اسلامى معاشرہ كى سياسى حاكميت كى ضرورى شروط ميں سے ايك شرط ''فقاہت'' ہے؟ جيسا كہ بعد والے سبق ميں آئے گا كہ دينى منابع ميں مسلمانوں كے امام كے جو اوصاف اور خصوصيات بيان كى گئي ہيں ، ان ميں سے اسلام شناسى اور دين ميں تفقہ و سمجھ بوجھ اہم ترين خصوصيات ميں سے ہے_ عدالت ، شجاعت ، حسن تدبير اور معاشرتى نظام كے چلانے كى صلاحيت اور قدرت بھى مسلمانوں كے امام اور والى كى معتبر شرائط ميں سے ہيں_ اس اجتماعى ذمہ دارى اور منصب ميں مختلف اوصاف كى دخالت سے واضح ہوجاتا ہے كہ اسلامى معاشرہ كے سرپرست كيلئے فقط فقاہت كا ہونا كافى نہيں ہے تا كہ كہا جائے كہ صرف دين ميں تفقہ، معاشرتى نظام كوچلانے كى ضرورى صلاحيت پيدا نہيں كرتااور سياست اورمعاشرتى نظام كو چلانے كيلئے جزئيات كے ادراك كى خاص توانائي كى ضرورت ہے ، جبكہ فقاہت فقط احكام كليہ اور اصول كو درك كرسكتى ہے_

۲_ اگر چہ موجودہ سيكولر حكومتوں ميں سياسى اقتدار كے حاملين اجتماعى امور كى تدبير ، امن عامہ اور رفاہ عامہ جيسے امور كولبرل اصولوں اور انسانى حقوق كى بنياد پر انجام ديتے ہيں ليكن دينى حكومت دين كى پابند ہوتى ہے_ اور مذكورہ بالا اہداف كو شرعى موازين اور اسلامى اصولوں كى بنياد پرتأمين كرتى ہے_ بنابريں سياست اور اسلامى معاشرہ كى تدبير كو كلى طور پر عملى سياست ،عقل عملى اور فن تدبير كے سپرد نہيں كيا جاسكتا كيونكہ ايسى

۲۳۹

حكومت كى تدبيراور سياست كو دينى موازين اور شرعى تعليمات كے مطابق ہونا چاہيے _ پس ايسے معاشرہ كے سرپرست كيلئے ضرورى ہے كہ سياسى صلاحيت اور فن تدبير كے علاوہ فقاہت سے بھى آشنا ہو اور اسلامى تعليمات كى بھى شناخت ركھتا ہو _ اس مدعا كى دليل يہ ہے كہ اسلامى معاشرہ ميں بعض مواردميں نظام اور مسلم معاشرہ كى مصلحت يہ تقاضا كرتى ہے كہ حاكم ايك حكومتى حكم صادر كرے جبكہ بعض موارد ميں يہ حكومتى حكم ،اسلام كے احكام اوّليہ كے منافى ہوتا ہے _ فقيہ عادل كى ولايت عامہ كى ادلّہ كى بنياد پر اس حكومتى حكم كا صادر كرنا'' فقيہ'' كا كام ہے اور اس كے ولائي احكام كى اطاعت كرنا شرعاً واجب ہے_ حالانكہ اگر اسلامى معاشرہ كا حاكم اور سياسى اقتدار كا مالك ''فقاہت'' كا حامل نہ ہو تو نہ ہى وہ ايسے احكام صادر كرنے كا حق ركھتا ہے اور نہ ہى اس كے ان احكام كى پيروى كے لزوم كى كوئي دليل ہے كہ جو ظاہرى طور پر شريعت كے منافى ہيں_

دوسرا شاہد يہ ہے كہ مختلف اجتماعى امور ميں اسلامى تعليمات كے اجرا سے طبيعى طور پر بعض موارد ايسے بھى پيش آجاتے ہيں كہ جن ميں بعض شرعى احكام دوسرے بعض شرعى احكام سے ٹكرا جاتے ہيں اور ان ميں سے ايك پر عمل كرنا دوسرے كے ترك كرنے كا باعث بنتا ہے _ ان موارد ميں حاكم كو تشخيص دينا ہوگى كہ كونسا حكم اہم اور كونسا غير اہم ہے_ اورحاكم اہم كو غير اہم پر ترجيح دے گا_ اہم موارد كو تشخيص دينے اور غير اہم كو چھوڑنے كا حكم دينے كيلئے ضرورى ہے كہ حاكم دينى تعليمات سے گہرى آگاہى ركھتا ہو_

يہ دو دليليں نشاندہى كرتى ہيں كہ اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كيلئے دوسرى حكومتوں ميں رائج تدبيرى مہارت كے ساتھ ساتھ ''فقاہت'' كى صلاحيت بھى ضرورى ہے كسى حكومت كا دينى ہونا معاشرہ كى رہبرى كيلئے ايسى شرط كا تقاضا كرتى ہے_

۳_ وہ افراد جو ولايت فقيہ كى بجائے فقيہ كى مشاورت اور نظارت كى بات كرتے ہيں انہيں يہ ياد ركھنا چاہيے كہ فقہاء كو اقتدار سے دور ركھ كر اور فقط انہيں سياسى نظام پر نظارت دينے سے يہ ضمانت نہيں دى جاسكتى

۲۴۰

كہ دينى حكومت اپنے اہداف كو حاصل كر سكے گى _ يعنى اگر پيراگراف نمبر ۲ سے چشم پوشى كر ليں اور فقہاء كے علاوہ دوسرے افراد كو سياسى اقتدار دے ديں اور فقيہ كے كردار كو فقط نظارت ميں محدود كرديں تو كيسے اس بات كى ضمانت دى جاسكتى ہے كہ اسلامى نظام برقرار رہے گا اور صاحبان اقتدار '' ناظر فقيہ ''كے اصلاحى مشوروں پر عمل كريں گے_ جب تمام اجرائي امور ان افراد كے ہاتھ ميں ہوں جو شناخت اسلام ميں مہارت نہيں ركھتے تو طبيعى طور پر شريعت كے منافى كام بڑھتے جائيں گے _ تو كن اسباب كى رو سے انہيں فقہاء كى نظارت كا نتيجہ قرار ديا جائے گا_

تجربہ سے ثابت ہوچكا ہے كہ قانوں ساز اداروں ميں اساسى قانون ميں فقيہ كو فقط ناظر قرار دينا اس نظام كے شرعى ہونے كيلئے كافى نہيں ہے_ تاريخ گواہ ہے كہ يہ اساسى قانون جلد ہى ختم ہوگيا _ اور عملى طور پر ملك كے سياسى منظر سے فقہاء كى نظارت محو ہوگئي_ اس كى واضح مثال نہضت مشروطہ ہے(۱)

____________________

۱) تيرہويں ہجرى شمسى كے ابتدائي دس عشروں ميں ايران ميں داخلى ظلم و استبداد اور بيرونى استعمار كے خلاف روحانيت (علمائ) كى قيادت ميں ايك تحريك چلى تھى _ يہ قيام قاجار كى ظالمانہ حكومت كے خاتمہ يعنى ۱۳۲۳ سے ۱۳۸۴ تك جارى رہا_ اس تحريك كے راہنماؤں كا يہ اصرار تھا كہ قومى اسمبلى كے تمام قوانين شريعت اور دينى احكام كے ساتھ مشروط ہوں _ اسى لئے اس تحريك كو نہضت مشروطہ كے نام سے شہرت حاصل ہوئي _

اگر چہ يہ قيام علماء كى راہنمائي ميں شروع ہوا اور انہى كے زير سايہ آگے بڑھا_ اور تمام مجاہدين اور كاركنوں كى تمام تر كوشش يہى رہى كہ دين كى حاكميت قائم ہوجائے_ اور بيرونى طاقتوں كے تسلط كا خاتمہ ہوجائے_ ليكن چونكہ اسلامى حكومت كے تحقق اور شريعت كے نفاذ كيلئے ضرورى اقدامات نہيں كئے گئے اور نہ ہى مراجع تقليد كى آراء كا خيال ركھا گيا اسى لئے تھوڑے ہى عرصہ ميں جيسا كہ اوپر اشارہ ہوچكا ہے اس تحريك نے كاميابى حاصل كرنے كے بعد نہ صرف اپنے اسلامى افكار سے چشم پوشى كرلى _ بلكہ آيت اللہ شيخ فضل اللہ نورى جيسے افراد كو جام شہادت نوش كرنا پڑا اور روحانيت كو حكومتى اداروں سے بے دخل ہونا پڑا_

۲۴۱

خلاصہ :

۱) ''فقيہ عادل'' كيلئے ولايت كا عہدہ معاشرہ كے نقص اور ضعف كى تلافى كيلئے ہے_

۲)شيعہ فقہا معاشرتى امور كى سرپرستى كيلئے فقاہت كو ضرورى سمجھتے ہيں حتى كہ وہ فقہاء بھى جو فقيہ كى ولايت انتصابى كے معتقد نہيں ہيں_

۳) سياسى سرپرستى ميں فقاہت كى شرط كا فلسفہ يہ ہے كہ حكومتى اہداف اور امور امن و امان اور رفاہ عامہ ميں منحصر نہيں ہيں بلكہ مختلف اجتماعى روابط كو اسلامى احكام كے ساتھ ہم آہنگ كرنا بھى حكومتى اہداف كا ايك حصہ ہے_

۴) ولايت فقيہ كے بعض مخالفين نفاذ اسلام اور ولايت فقيہ كے درميان ملازمہ كے قائل نہيں ہيں_ ان كى نظر ميں معاشرہ كا انتظام سنبھالنا سياست دانوں كا كام ہے نہ كہ فقيہ كا _ فقيہ اصول اور كليات كا ماہر ہے _ جبكہ معاشرہ كا انتظام ہميشہ جزئيات اور تغيرات كے ساتھ پيوستہ ہے_

۵)ولايت فقيہ كے بعض دوسرے مخالفين دينى حكومت اور ولايت فقيہ كے درميان ملازمہ كے قائل نہيں ہيں _ كيونكہ اسلامى نظام'' فقيہ كى نظارت'' سے بھى ممكن ہے_

۶) ولايت فقيہ كے مخالفين نے چند بنيادى نكات سے غفلت برتى ہے ان ميں سے ايك نكتہ يہ ہے كہ سياسى سرپرستى كى واحد شرط ''فقاہت'' نہيں ہے تا كہ يہ كہا جائے كہ معاشرہ كى تدبير كيلئے كچھ ايسى خصوصيات كى بھى احتياج ہوتى ہے كہ جن ميںاصول اور كليات كا جان لينا كافى نہيں ہے_

۷) تاريخى تجربہ نے ثابت كيا ہے كہ فقط ''نظارت فقيہ '' مختلف معاشرتى امور اور سياست كو اسلام كے ساتھ ہم آہنگ نہيں كرسكتي_

۲۴۲

سوالات :

۱) كيا مختلف فقہى مسالك متفق ہيں كہ اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كيلئے فقاہت شرط ہے؟

۲)سياسى ولايت ميں فقاہت كى شرط كا فلسفہ كيا ہے؟

۳) ان لوگوں كے پاس كيا دليل ہے جو معاشرہ كے سياسى امور كى سرپرستى ''فقيہ ''كا كام نہيں سمجھتے؟

۴)ان افراد كے كلام كا ماحصل كيا ہے جو ''ولايت فقيہ'' كى بجائے ''نظارت فقيہ ''كے قائل ہيں؟

۵)ان افراد كے شبہ كو كيسے رد كيا جاسكتا ہے جو سياسى ولايت كو فقيہ كى شان نہيں سمجھتے؟

۶)ان لوگوں كو كيا جواب ديا جاسكتا ہے جو'' ولايت فقيہ ''كى بجائے ''نظارت فقيہ ''كے قائل ہيں؟

۲۴۳

پچيسواں سبق :

رہبر كى شرائط اور خصوصيات

دوسرے سياسى مكاتب فكركے مقابلہ ميں اسلام كے سياسى تفكر كى امتيازى خصوصيات ميں سے ايك خصوصيت يہ ہے كہ يہ معاشرہ كے سياسى رہبر كيلئے مخصوص شرائط اور اوصاف كا قائل ہے_ آج كے رائج جمہورى نظاموں ميں محبوبيت اورووٹ حاصل كرنے كى صلاحيت كو بہت زيادہ اہميت دى جاتى ہے اورانہيں مكمل طور پر صاحبان اقتدار كے انفرادى كمالات اور خصوصيات پر ترجيح دى جاتى ہے_پروپيگنڈہ ، عوام پسند حركات اور پر كشش نعروں سے لوگوںكے اذہان كو ايك مخصوص سمت متوجہ كرنا اور پھر مقابلہ كے وقت لوگوں كى آراء كو اپنے حق ميں ہموار كرنا رائج جمہورى نظاموں ميں خصوصى اہميت ركھتاہے_

اس كے برعكس اسلام كے مطلوبہ سياسى نظام ميں وہى شخص ولايت كے منصب كا حامل ہوسكتا ہے جو مخصوص انفرادى كمالات اور فضائل كا حامل ہو_ يہاں ہم ان اوصاف ميں سے اہم ترين اوصاف كو ذكر كرتے ہوئے ان آيات و روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں جو ان اوصاف كے ضرورى ہونے كى شرعى ادلّہ ہيں_

۲۴۴

الف : فقاہت

اسلامى معاشرہ كے حاكم كى واضح اور اہم ترين صفت اس كا اسلام اور دين كى اعلى تعليمات سے مكمل طور پر آگاہ ہونا ہے_ گذشتہ سبق ميں ہم اسلامى معاشرہ كے حاكم ميں اس شرط كے وجود كے فلسفہ كى طرف اشارہ كر چكے ہيں_ اس صفت كى اہميت اس نكتہ سے واضح ہوجاتى ہے كہ زمانہ غيبت ميں شيعوں كے سياسى نظام كے تعارف كيلئے اس صفت سے مدد حاصل كى جاتى ہے_ اور اس نظام كو ''ولايت فقيہ'' پر استوار كہا جاتاہے_ حالانكہ اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے اور بھى شرائط ہيں_ ہم اس نظام كو'' ولايت عادل'' ، ''ولايت مدبر'' يا ''ولايت مومن و متقى '' پر استوار بھى كہہ سكتے ہيں كيونكہ يہ تمام اوصاف بھى اسلامى حاكم كيلئے شرط ہيں _ ليكن دوسرے اوصاف كى نسبت اس وصف'' فقاہت '' كى اہميت كى وجہ سے اسے دوسرے اوصاف پر ترجيح ديتے ہيںاور اسلامى معاشرہ كى ولايت كو ''ولايت فقيہ'' كے نام سے موسوم كرتے ہيں_

فقاہت كى شرط كا ''ولايت فقيہ ''كى روائي ادلّہسے واضح ثبوت ملتا ہے_ ہم نمونہ كے طور پر ان روايات كے بعض جملوں كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

مقبولہ عمر ابن حنظلہ ميں ہے:

''من كان منكم ممّن قد روى حديثنا و نظر فى حلالنا و حرامنا و عرف احكامنا فليرضوا به حكما، فانّى قد جعلته عليكم حاكماً'' (۱)

تم ميں سے جس شخص نے ہمارى احاديث كى روايت كى ہو اورہمارے حلال و حرام ميں غور و

____________________

۱) وسائل الشيعہ ج ۲۷، ص ۱۳۶، ۱۳۷، باب ۱۱ ، از ابواب صفات قاضى ح ۱_

۲۴۵

فكر كيا ہو اور ہمارے احكام سے واقف ہو اسے اپنا حَكَم( فيصلہ كرنے والا) قراردو كيونكہ ميں نے اسے تم پر حاكم بنايا ہے_

مشہورہ ابى خديجہ ميں امام صادق فرماتے ہيں:

''ولكن انظروا الى رجل منكم يعلم شيئاً من قضائنا فاجعلوه بينكم'' (۱)

ليكن ديكھو تم ميں سے جو شخص ہمارى قضاوت سے واقف ہو اسے اپنے درميان ( قاضي) قراردو_

حضرت امير المومنين فرماتے ہيں:

قال رسول الله (ص) ''اللهم ارحم خلفائي'' ثلاث مرّات قيل يا رسول الله : و من خلفائك ؟ قال ''الذين ياتون من بعدى يروون حديثى و سنتي'' (۲)

پيغمبر اكرم (ص) نے تين دفعہ فرمايا: خدايا ميرے خلفا پر رحم فرما پوچھا گيا يا رسول اللہ آپكے خلفا كون ہيں ؟ تو فرمايا جو ميرے بعد آئيں گے اور ميرى حديث و سنت كى روايت كريں گے_

توقيع امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف ميںہے:

''اما الحوادث الواقعة فارجعوا فيها الى رواة احاديثنا'' (۳)

پيش آنے والے واقعات ميں ہمارى احاديث كے راويوں كى طرف رجوع كرو_

ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي كى متعلقہ بحث ميں ہم نے ان روايات پر تفصلى بحث كى ہے اور ثابت كرچكے ہيں كہ '' رواة احاديث ''سے يہاں مراد صرف احاديث كو نقل كرنے والے نہيں بلكہ وہ علماء ہيں جو دين ميں

____________________

۱) كافى ج ۷ ، ص ۴۱۲، كتاب القضا و الاحكام باب كراھية الارتفاع الى قضاة الجور ،ح ۴_

۲) كمال الدين ،شيخ صدوق ،ج ۲ ، باب ۴۵ ، ح ۴_

۳) عيون اخبار الرضا ،ج ۲ ، ص ۳۷ ، باب ۳۱ ، ح ۹۴_

۲۴۶

سمجھ بوجھ ركھتے ہيں اور ائمہ معصومين كى احاديث كے مفاہيم اور دقيق اشارات سے آگاہ ہيں _ وگرنہ صرف نقل حديث مرجعيت اور ولايت كيلئے كافى نہيں ہے_

ب : عدالت

سياسى ولايت اور اجتماعى امور كى تدبير سے كم مرتبہ امور مثلاً امامت جماعت اور قضاوت ميں بھى شيعہ فقہا عدالت كو شرط سمجھتے ہيں _ پس اس سے انكار نہيں كيا جاسكتا كہ امت كى امامت جيسے عظيم امر جو كہ لوگوں كى سعادت اور مصالح كے ساتھ مربوط ہے ميں عدالت ايك بنيادى شرط ہے_

بہت سى آيات اور روايات سے استفادہ ہوتا ہے كہ فاسق اور ظالم كا اتباع جائز نہيں ہے_ قرآن مجيد ميں اللہ تعالى ہميں ظالموں كى طرف جھكاؤ سے منع كرتا ہے_

( ''و لا تَركَنوا إلى الّذين ظَلَموا فتمسَّكم النار و ما لَكُم من دون الله من أولياء ثمّ لا تُنصرون'' ) (۱)

اور ظالموں كى طرف جھكاؤ مت اختيار كرو ورنہ جہنم كى آگ تمھيں چھولے گى اور خدا كے علاوہ تمھارا كوئي سر پرست نہيں ہے پھر تمہارى مدد بھى نہيں كى جائے گي_

ظالموں كى طرف تمايل اور ان پر تكيہ كرناان كى دوستى اور اتباع سے وسيع تر ايك مفہوم ہے _ پس غير عادل امام اور رہبر كى نصرت ، مدد اور اطاعت بھى اس ميں شامل ہے _ ظالموں كى طرف جھكاؤ كى وضاحت كے ذيل ميں على بن ابراہيم ايك روايت نقل كرتے ہيں:

''ركون مودّة و نصيحة و طاعة'' (۲)

جھكاؤ سے مراد دوستى ، نصيحت اور اطاعت والا جھكاؤہے _

____________________

۱) سورہ ہود آيت ۱۱۳_

۲) تفسير على ابن ابراہيم قمى ج ۱ ، ص ۳۳۸ ، اسى آيت كے ذيل ميں_

۲۴۷

اللہ تعالى نے بہت سى آيات ميں لوگوں كومسرفين گناہگاروں اور ہوا پرست افراد كى اطاعت سے منع كيا ہے_ يہ تمام امور بے عدالتى كى علامت ہيں_

''و لا تُطيعوا أمرَ المُسرفين* الّذين يُفسدون فى الا رض و لا يُصلحون'' (۱)

اور زيادتى كرنے والوں كى اطاعت نہ كرو_ جو زمين ميں فساد برپا كرتے ہيں اور اصلاح نہيں كرتے_

''و لا تطع من اغفلنا قلبه عن ذكرنا و اتبع هواه و كان امره فرطاً'' (۲)

اور اس كى اطاعت نہ كرو جس كے قلب كو ہم نے اپنى ياد سے غافل كر ديا ہے وہ اپنى خواہشات كا تابع ہے اور اس كا كام سراسر زيادتى كرنا ہے_

بہت سى روايات ميں بھى امام اور رہبر كيلئے عدالت كو شرط قرار ديا گيا ہے_

حضرت امام حسين اہل كوفہ كو لكھتے ہيں:

''فلعمرى ما الامام الاّ الحاكم بالكتاب ، القائم بالقسط والدائن بدين الله'' (۳)

مجھے اپنى جان كى قسم امام وہى ہو سكتا ہے جو قرآن كے مطابق فيصلہ كرے، عدل و انصاف قائم كرے اور دين خدا پر عمل كرے_

____________________

۱) سورہ شعراء آيت ۱۵۱، ۱۵۲_

۲) سورہ كہف آيت ۲۸_

۳) ارشاد مفيد ج ۲ ، ص ۳۹_

۲۴۸

امام باقر محمد ابن مسلم كو مخاطب كر كے فرماتے ہيں:

'' ...والله يا محمّد، مَن اصبح من هذه الا مة لا امامَ له من الله (عزوجل) ظاهر عادل أصبح ضالاً تائهاً ، و ان ماتَ على هذه الحالة مات ميتة كفر و نفاق و اعلم يا محمّد، أنّ أئمة الجور وأتباعهم لمعزولون عن دين الله قد ضلّوا و ا ضلّوا'' (۱)

اے محمد، خدا كى قسم اس امت ميں سے جس شخص نے خدا كى طرف سے مقرر كردہ امام عادل كے بغير صبح كى اس نے گمراہى اور ضلالت كى حالت ميں صبح كى اور اگر وہ اس حالت ميں مرگيا تووہ كفر و نفاق كى موت مرا _ اے محمد، جان لو يقيناً فاسق اور فاجر ائمہ اور ان كا اتباع كرنے والے دين خدا پر نہيں ہيں_ وہ خود بھى گمراہ ہيں اور دوسروں كو بھى گمراہ كرتے ہيں_

معاويہ كے سامنے امام حسن خطبہ ديتے ہوئے فرماتے ہيں: جو شخص ظلم كرے اور عدالت كى راہ سے ہٹ جائے وہ مسلمانوں كا خليفہ نہيں ہوسكتا_

''انما الخليفة مَن سار بكتاب الله و سنة نبيّه (صلى الله عليه وآله و سلم) و ليس الخليفة من سار بالجور'' (۲)

يقيناخليفہ وہى ہے جو كتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل كرے_ جو ظلم و جور كى راہ پر چلے وہ خليفہ نہيں ہے_

يہ آيات و روايات جن كى طرف ہم نے بطور نمونہ اشارہ كيا ہے _ ان سے معلوم ہوتا ہے كہ فاسق و فاجر اور ظالم شخص امت كا شرعى حاكم نہيں ہوسكتا اور غير عادل كى ولايت ولايت طاغوت كى اقسام ميں سے ہے_

____________________

۱) كافى ج ۱، ص ۱۸۴، باب معرفة الامام و الرد عليہ ح ۸_

۲) مقاتل الطالبين، ابو الفرج اصفہانى ص ۴۷_

۲۴۹

ج : عقل ،تدبير ، قدرت ، امانت

مذكورہ بالا شرائط عقلائي پہلو كى حامل ہيں _ يعنى سرپرستى كا طبيعى تقاضا يہ ہے كہ انسان ان خصوصيات و شرائط كا حامل ہو اور لوگ ان صفات كو معاشرے كے منتظم كيلئے ضرورى سمجھتے ہيں_ آيات و روايات ميں بھى تاكيد كى گئي ہے كہ معمولى منصب پرفائز لوگوں كيلئے ان خصوصيات كا ہونا ضرورى ہے_

جبكہ معاشرہ كى امامت و رہبرى تو بہت بڑا منصب ہے_

ارشاد خداوندى ہے:

( ''لا تؤتوا السُفهائَ ا موالكم الّتى جعل الله لكم قياماً ) ''

ناسمجھ لوگوں كو اپنے وہ اموال نہ دو جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگى قائم كرركھاہے_(۱)

جب بادشاہ مصر سے حضرت يوسف نے كہا كہ مجھے وزير خزانہ بنادے تو اپنى دو خصوصيات ''علم اور امانت دارى ''كو ذكر كيا _ يہ اس بات كى دليل ہے كہ معاشرہ كے رہبر كو ان خصوصيات كا حامل ہونا چاہيے_

( '' قال اجعلنى على خزائن الارض انّى حفيظ عليم'' ) (۲)

كہا مجھے زمين كے خزانوں پر مقرر كردو ميں محافظ بھى ہوں اور صاحب علم بھي_

حضرت شعيبكى بيٹى نے جب حضرت شعيب كے اموال كى سرپرستى كيلئے حضرت موسى كا تعارف كروايا تو آپ (ع) كى خصوصيات ميں سے ''قدرت و توانائي ''اور '' امين'' ہونے كا خاص طور پر تذكرہ كيا _ لہذا معاشرہ كے سرپرست كو بطريق اولى ان خصوصيات كا حامل ہونا چاہيے_

'' قَالَت إحدَاهُمَا يَاأَبَت استَأجرهُ إنَّ خَيرَ مَن استَأجَرتَ

____________________

۱) سورہ نساء آيت ۵_

۲) سورہ يوسف آيت ۵۵_

۲۵۰

القَويُّ الأَمينُ'' (۱)

ان ميں سے ايك لڑكى نے كہا اے بابا جان اسے اجير ركھ ليجيئے _ كيونكہ آپ جسے بھى اجير ركھيں گے ان ميں سے سب سے بہتر وہ ہوگا جو صاحب قوت بھى ہو اور امانتدار بھي_

حضرت على تاكيد فرماتے ہيں كہ امت كے امور كى باگ ڈور كم عقل، نالائق اور فاسق افراد كے ہاتھ ميں نہيں ہونى چاہيئے_

''و لكنَّنى آسى أن يليَ أمر هذه الا ُمَّة سُفهاؤُ ها و فُجّارُها ، فيتَّخذوا مالَ الله دُوَلاً و عبادَه خَوَلاً والصالحين حَرباً والفاسقين حزباً'' (۲)

ليكن مجھے يہ غم رہے گا كہ اس امت كى حكومت بيوقوفوں اور فاجروں كے ہاتھ ميں آجائے گى ، وہ بيت المال پر قابض ہوجائيں گے، خدا كے بندوں كو غلام بناليں گے، نيك لوگوں سے لڑيں گے، اور بدكاروں سے دوستى كريںگے_

فضل ابن شاذان امام رضا سے روايت كرتے ہيں كہ ''امين امام'' كے نہ ہونے سے شريعت نابود ہوجاتى ہے_

''انّه لو لم يَجعل لَهُم ، اماماً قَيّماً أميناً حافظاً مستودعاً لَدَرَست الملَّة''

اگر ان كيلئے امين ، حفاظت كرنے والا اور امانتدار امام قرار نہ ديا جائے تو ملت محو ہوجائے_(۳)

____________________

۱) سورہ قصص آيت ۲۶_

۲) نہج البلاغہ ، مكتوب ۶۲_

۳) علل الشرائع شيخ صدوق ،باب ۱۸۲، ح ۹ ، ص ۲۵۳_

۲۵۱

حضرت امير المؤمنين حسن تدبير اور سياست كو اطاعت كى شرط قرار ديتے ہوئے فرماتےہيں :

''من حسنت سياستهُ وجبت طاعتُه''

جس كى سياست صالح ہو اس كى اطاعت واجب ہے_(۱)

''مَن احسن الكفاية استحق الولاية'' (۲)

جو حسن تدبير ركھتا ہو وہ حكومت كا حقدار ہے_

ايك روايت ميں حضرت امير المؤمنين لشكريوں كے امور كى سرپرستى كيلئے علم ، حسن تدبير ، سياست اور حلم و بردبارى جيسى صفات كو ضرورى قرار ديتے ہيں _

''و لّ أمر جنودك أفضلهم فى نفسك حلماً وأجمعهم للعلم و حسن السياسة و صالح الا خلاق'' (۳)

تيرے لشكر كى سرپرستى اور كمانڈ اس شخص كے ہاتھ ميں ہونى چاہيئے جو تيرے نزديك ان سب سے زيادہ بردبار ہو _ علم ، حسن سياست اور اچھے اخلاق كا حامل ہو_

ولايت اور رہبرى كى اہم ترين صفات اور شرائط ہم بيان كرچكے ہيں _ ليكن ايك اہم اور قابل توجہ بحث يہ ہے كہ كيا فقہ ميں اعلميت ( سب سے زيادہ فقہ كو جاننے والاہونا) بھى معاشرہ كى امامت اور ولايت كيلئے شرط ہے؟ اس بحث كو ''فقاہت'' كے شرط ہونے كو ثابت كرنے كے بعد ذكر كيا جاتا ہے_

____________________

۱) غرر الحكم آمدي،ج ۵ ، ص ۲۱۱، ح ۸۰۲۵_

۲) غرر الحكم ، صفحہ ۳۴۹ حديث ۸۶۹۲_

۳) دعائم الاسلام ج ۱ ص ۳۵۸_

۲۵۲

فقہ ميں اعلميت كى شرط

سياسى ولايت اور رہبرى كى شروط كى بحث كا ايك اہم نكتہ ''اعتبار اعلميت ''ہے _ يعنى كيا ضرورى ہے كہ ولى فقيہ شرعى احكام كے استنباط اور قوت اجتہاد ميں دوسرے تمام فقہاء سے زيادہ اعلم ہو؟ جامع الشرائط فقيہ مختلف ولايات كا حامل ہوتا ہے_ شرعى فتاوى دينا اس كى شان ہے ،منصب قضاوت پر فائز ہوتا ہے_ امور حسبيہ پر ولايت ركھتا ہے_ ولايت عامہ اور حاكميت كا حامل ہوتا ہے_ سوال يہ ہے كہ ان تمام ولايات ميں فقہى اعلميت شرط ہے؟ فقيہ كے بعض امور و اوصاف ميں اعلميت كى شرط زيادہ كار آمد ہے_ مثلاً منصب قضاوت كى نسبت فتوى دينے اور مرجعيت كيلئے فقہ ميں اعلميت كى شرط زيادہ مناسبت ركھتى ہے كيونكہ اگر منصب قضاوت كيلئے اعلميت كو شرط قرار ديں تو اس كا لازمہ يہ ہے كہ تمام اسلامى ممالك ميں صرف ايك ہى قاضى ہو_ اور يہ عسر و حرج اور شيعوں كے امور كے مختل ہونے كا باعث بنے گا_ اب بحث اس ميں ہے كہ كيا ''ولايت تدبيرى ''اور '' سياسى حاكميت'' قضاوت كى مثل ہے يا فتوى كى مثل ؟ اور كيا فقہى اعلميت اس ميں شرط ہے؟

اگر ہم روايات كو ان كى سند كے ضعف و قوت سے قطع نظر كركے ديكھيں تو ان سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ '' اعلميت شرط'' ہے _ كتاب سليم ابن قيس ہلالى ميں حضرت اميرالمؤمنين سے روايت كى گئي ہے كہ :

''ا فينبغى أن يكونَ الخليفة على الا ُمّة الاّ اعلمهم بكتاب الله و سنّة نبيّه و قد قال الله : ( ( أفمن يَهدى الى الحقّ أحقّ أن يتّبع أمّن لا يَهدّى إلاّ أن يُهدي ) ) (۱)

____________________

۱) كتاب سليم بن قيس ہلالي، ص ۱۱۸_

۲۵۳

امت پر خليفہ وہى ہو سكتا ہے جو دوسروں كى نسبت كتاب خدا اور سنت رسول (ص) كو زيادہ جانتا ہو _ كيونكہ اللہ تعالى فرماتا ہے : كيا جو شخص حق كى طرف ہدايت كرتا ہے زيادہ حقدار ہے كہ اس كا اتباع كيا جائے يا وہ شخص جو ہدايت كرنے كے قابل نہيں ہے بلكہ يہ كہ خود اس كى ہدايت كى جائے_

برقى اپنى كتاب ''المحاسن'' ميں رسولخدا (ص) سے روايت كرتے ہيں:

''مَن أمّ قوماً و فيهم أعلم منه أو أفقه منه لَم يَزَل أمرهم فى سفال الى يوم القيامة'' (۱)

جب كسى قوم كا حاكم ايسا شخص بن جاتا ہے كہ اس قوم ميں اس سے زيادہ علم ركھنے والا اور اس سے بڑا فقيہ موجودہو تو قيامت تك وہ قوم پستى كى طرف گرتى رہے گے_

معاويہ كے سامنے امام حسن خطبہ ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''قال رسول الله (ص) :'' ما ولّت أُمة أمرها رجلاً قطّ و فيهم من هو أعلم منه الاّ لم يزل أمرهم يذهب سفالاً حتّى يرجعوا الى ما تركوا'' (۲)

رسولخدا (ص) نے فرمايا ہے كہ جب امت اپنى حكومت ايسے شخص كے حوالہ كرديتى ہے جس سے زيادہ علم ركھنے والے موجو د ہوں تو وہ امت ہميشہ پستى اور زوال كى طرف بڑھتى رہتى ہے _ يہاں تك كہ اسكى طرف پلٹ آئيں جسے انہوں نے ترك كيا تھا_

____________________

۱) المحاسن برقى ،ج ۱ ، ص ۹۳ ، ح ۴۹_

۲) غاية المرام ،بحراني، ص ۲۹۸_

۲۵۴

اس مسئلہ كے حل كيلئے درج ذيل نكات پر غور كرنا ضرورى ہے_

۱_ شيعہ فقہاء كے اقوال كا مطالعہ كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ فتوى ، تقليد اور مرجعيت كے علاوہ كسى اور امر ميں اعلميت شرط نہيں ہے_ جنہوں نے اعلميت كو شرط سمجھا ہے انہوں نے اسے مرجعيت اور تقليد ميں منحصر قرار ديا ہے_آيت اللہ سيد كاظم طباطبائي كتاب ''العروة الوثقى '' ''جو كہ بعد والے فقہاء كيلئے ہميشہ سے قابل توجہ رہى ہے '' ميں كہتے ہيں:

لا يعتبر الأعلمية فى ما أمره راجع إلى المجتهد إلاّ فى التقليد ; و أمّا الولاية فلا يعتبر فيها الأعلمية (۱)

مجتہدكے ساتھ مربوط امور ميں سے تقليد كے علاوہ كسى ميں اعلميت شرط نہيں ہے، ولايت ...ميں بھى اعلميت شرط نہيں ہے_

وہ فقہاء جنہوں نے كتاب العروة الوثقى پر حواشى تحرير فرمائے ہيں انہوں نے بھى اس مسئلہ كو قبول كيا ہے_ بنابريں آيت اللہ حائرى ، آيت اللہ نائينى ، آيت اللہ ضياء عراقى ، آيت اللہ كاشف الغطائ، سيد ابوالحسن اصفہانى ، آيت اللہ بروجردى ، سيد احمد خوانسارى ، امام خمينى ، آيت اللہ ميلانى ، آيت اللہ گلپايگانى ، آيت اللہ خوئي ، آيت اللہ محسن حكيم اور آيت اللہ محمود شاہرودى (رحمة اللہ عليہم) بھى حاكم شرعى كيلئے فقہى اعلميت كو شرط قرار نہيں ديتے_

شيخ انصارى (رحمة اللہ عليہ) بھى اختلاف فتوى كے وقت اعلميت كو معتبر سمجھتے ہيں حاكم شرع كى ولايت ميں اسے شرط قرار نہيں ديتے_

____________________

۱) العروة الوثقى ،مسئلہ ۶۸، اجتہاد و تقليد_

۲۵۵

آپ فرماتے ہيں :

''و كذا القول فى سائر مناصب الحكم كالتصرّف فى مال الإمام و تولّى أمر الأيتام و الغيّب و نحو ذلك; فإنّ الاعلمية لا تكون مرجّحاً فى مقام النصب و إنّما هو مع الاختلاف فى الفتوى ''(۱)

اور يہى قول تمام مناصب حكم ميں جارى ہے_ مثلا مال امام ميں تصرف ، يتيموں اور غائب كے امور كى سرپرستى و غيرہ ، كيونكہ ان سب مناصب ميں اعلميت كو ترجيح حاصل نہيں ہے البتہ جب فتاوى ميں اختلاف ہوجائے تو اس وقت اعلميت كو ترجيح دى جائے گى _

صاحب جواہر كہتے ہيں : نصب ولايت كے متعلق جو نصوص اور روايات ہيں ان ميں فقاہت كى شرط ہے نہ كہ اعلميت كى _

''بل لعل اصل تأهل المفضول و كونه منصوباً يجرى على قبضه و ولايته مجرى قبض الافضل من القطعيات التى لاينبغى الوسوسة فيها، خصوصاً بعد ملاحظة نصوص النصب الظاهرة فى نصب الجميع الموصوفين بالوصف المذبور لا الافضل منهم، والا لوجب القول '' انظروا الى الافضل منكم'' لا ''رجل منكم'' كما هو واضح بأدنى تأمّل'' (۲)

____________________

۱) التقليد ،شيخ انصارى ،ص ۶۷_

۲) جواہر الكلام ،ج ۴۰، ص ۴۴، ۴۵_

۲۵۶

۲_اجتماعى امور كى تدبير كيلئے حكم كى شناخت كے علاوہ موضوع كى پہچان اورشناخت بھى ضرورى ہے _ دوسرے لفظوں ميں معاشرے كے امور كے انتظام اورتدبير كيلئے فقط جزئي احكام اور فقہى فروعات كے استنباط كى صلاحيت كافى نہيں ہے _ بنابريں ممكن ہے ان روايات ميں موجود لفظ اعلميت سے مراد يہ ہو كہ حكم اور موضوع كى شناخت سميت ہر لحاظ سے توانائي اور صلاحيت ركھتا ہو، يعنى وہ امت جس ميں ايك ايسا شخص موجود ہو جو انتظامى امور كے سلسلہ ميں اعلم ہو اور علمى اور عملى صلاحيت كے لحاظ سے دوسروں سے آگے ہو، اسے چھوڑ كر اپنے امور اس شخص كے حوالہ كرنا جو اعلم نہيں ہے كبھى بھى سعادت و كاميابى كا باعث نہيں بن سكتا_

۳_فقاہت اور اجتہاد كے مختلف پہلو ہيں; ممكن ہے ايك فقيہ عبادات كے باب ميں اعلم ہو ، دوسرا معاملات ميں اور تيسرا اجتماعى اور سياسى امور ميں اعلم ہو_

حكم اور موضوع كى مناسبت كا تقاضا يہ ہے كہ اگر اعلميت كى شرط پر مصرّ رہيں تو پھر اجتماعى اور سياسى امور ميں اعلميت ''سياسى رہبر اور ولى ''كيلئے معيار ہونى چاہيے كيونكہ صرف عبادات يا معاملات ميں اعلميت'' سياسى ولايت'' كيلئے ترجيح كا باعث نہيں بنتى _بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ معاشرتى اور سياسى امور ميں ''اعلميت'' معيار ہے _ مثلا اس روايت ميں '' فيہ'' كى ضمير اعلميت كو حكومت ميں محدود كر رہى ہے_

''ايها الناس، انّ احق الناس بهذا الامر ا قواهم عليه، و اعلمهم با مر الله فيه'' (۱)

اے لوگو حكومت كرنے كا سب سے زيادہ حقدار وہ ہے جو اس پر سب سے زيادہ قادر ہو اور اس حكومت كے سلسلہ ميں دوسروں كى نسبت امر خدا كو زيادہ جانتا ہو _

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۳_

۲۵۷

خلاصہ :

۱) اسلام كے سياسى نظام كى ايك خصوصيت يہ ہے كہ وہ سياسى اقتدار كيلئے ذاتى اور انفرادى خصوصيات اور كمالات كا بھى قائل ہے_

۲) اسلامى معاشرہ كے حاكم كى اہم ترين صفت ''فقاہت'' اور اسلام كے بارے ميں مكمل اور عميق آگاہى ہے_

۳) ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي سے ''فقاہت كى شرط'' كا صاف پتہ چلتا ہے_

۴)بہت سى نصوص ميں شيعوں كو احاديث كى روايت كرنے والے راويوںكى طرف رجوع كرنے كى ترغيب دلائي گئي ہے كہ جس سے مراد فقہاء ہيں، كيونكہ فقاہت اور تفكر كے بغير فقط احاديث كا نقل كرنا مرجعيت كيلئے كافى نہيں ہے_

۵)اسلامى حاكم كى دوسرى اہم ترين شرط اسكا ''عادل'' ہوناہے_

۶)قرآن مجيد ميں اللہ تعالى نے مختلف آيات كے ذريعہ لوگوں كو ان افراد كى اطاعت كرنے سے منع كيا ہے جن ميں كسى لحاظ سے بے عدالتى ہو_

۷) ادلّہ روائي سے معلوم ہوتا ہے كہ فاسق و فاجر كى ولايت ، ''ولايت طاغوت ''كى قسم ہے_

۸)رہبرى اور حاكميت كى بعض صفات اور شرائط مثلا ً عقل ، حسن تدبير اور صلاحيت، عقلائي پہلو كى حامل ہيں_

۹) شرائط رہبرى كى مباحث ميں سے ايك اہم بحث اعلميت كى شرط كا معتبر ہونا ہے_

۱۰) اكثرفقہا كى نظر ميں اعلميت فتوى كى شرط ہے_ ليكن فقيہ كى دوسرى ذمہ داريوں مثلا قضاوت اور امور حسبيہ كى سرپرستى ايسے امور كيلئے اعلميت شرط نہيں ہے_

۱۱) معاشرتى امور كى تدبير كيلئے حكم كى شناخت كے علاوہ موضوع كى شناخت ، سياسى حالات سے آگاہى اور داخلى و عالمى روابط كے متعلق معلومات بھى ضرورى ہيں لہذا بعض روايات ميں جو اعلميت كو شرط قرار ديا گيا ہے اسے صرف حكم كى شناخت كے استنباط ميں محدود نہيں كيا جاسكتا_

۲۵۸

سوالات :

۱) سياسى ولايت ميں '' فقاہت كى شرط''پر كيا دليل ہے؟

۲) سياسى ولايت ميں عدالت كى شرط كى بعض ادلّہ كو اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۳)استنباط ميں اعلميت ،شرعى ولايت كى كونسى قسم كے ساتھ زيادہ مناسبت ركھتى ہے؟

۴)قضاوت كے منصب كيلئے اعلميت شرط نہيں ہے _كيوں؟

۵)كيا ''سياسى ولايت ''ميں ''اعلميت'' شرط ہے؟

۲۵۹

چھبيسواں سبق:

رہبر كى اطاعت كى حدود

اس سبق كا اصلى موضوع يہ ہے كہ ولايت فقيہ پر مبنى نظام ميں لوگ كن امور ميں رہبر كى اطاعت كرنے كے پابند ہيں اور ولى فقيہ كى اطاعت كا دائرہ كس حد تك ہے؟ كيا بعض امور ميں اس كى مخالفت كى جاسكتى ہے؟ اور كيا اس كے فيصلے يا نظريئے كو رد كرسكتے ہيں؟اس سوال كے جواب سے پہلے دو تمہيدى مطالب كى طرف توجہ دينا ضرورى ہے_ پہلا يہ كہ ولايت فقيہ پر مبتنى سياسى نظام ميں رہبر كا كيا مقام ہے؟ اس كى وضاحت كى جائے_ اس كے بعد مختلف قسم كى مخالفتوں اور عدم اتباع كى تحقيق كى جائے_

نظام ولايت ميں رہبر كا مقام

قرآن كريم ميں اللہ تعالى خود كو ولى يكتا اور يگانہ و بلا اختلاف حاكم قرار ديتا ہے_ وہ انسانوں پر حقيقى ولايت ركھتا ہے، اور قانون گذارى اور امر و نہى كا حق فقط اسى كو حاصل ہے ارشاد خداوندى ہے:

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367