اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139114 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

( ''فالله هو الولي'' ) (۱)

پس خدا ہى ولى ہے_

( ''ان الحكم الا لله'' ) (۲)

حكم فقط خدا كى طرف سے ہے_

( ''ما لكم من دون الله من وليّ'' ) (۳)

اللہ كے سواتمہارا كوئي ولى نہيں ہے_

( ''انما وليكم الله'' ) (۴)

تمھارا ولى فقط خدا ہے_

( ''الا له الخلق و الامر'' ) (۵)

خبرداراسى كيلئے خلق اور امرہے_

ان مطالب كو اگر ''اصل عدم ولايت ''كے ساتھ ملا كر ديكھيں تو يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ كوئي شخص بھى كسى دوسرے پر ولايت نہيں ركھتا ، اور اسے حكم دينے يا اس كيلئے قانون بنانے كا حق نہيں ركھتا_ يہ مقام و منزلت فقط خدا كو حاصل ہے_ ہاںاگر حقيقى ولايت كا مالك يعنى خدا ايك يا چند افراد كو يہ ولايت بخش دے اور حق اطاعت عطا كردے تو پھر ان مقرر كردہ افراد كى ولايت بھى معتبر اور مشروع ہوگى _ قرآن و احاديث كى رو سے اللہ تعالى نے يہ ولايت معصومين كو عطا كى ہے_ اور ''ولايت انتصابي'' كى ادلّہ كے لحاظ سے ائمہ معصومين كى طرف سے عادل فقہا اس ولايت كے حامل ہيں_لہذا زمانہ غيبت ميں علماء كے اوامر و نواہى قابل اعتبار و قابل اطاعت ہيں_ اس لحاظ سے فقيہ كى ولايت رسولخدا (ص) اور ائمہ اہلبيت كى ولايت كى ايك كڑى ہے_ اور رسولخدا (ص) اور ائمہ كى ولايت كا سرچشمہ خداوند كريم كى ولايت و حاكميت ہے_

____________________

۱) (سورہ شورى آيت ۹)_

۲) (سورہ انعام آيت ۵۷)_

۳) (سورہ بقرہ آيت ۱۰۷)_

۴) (سورہ مائدہ آيت ۵۵)_

۵) (سورہ اعراف آيت۵۴)_

۲۶۱

ولايت فقيہ كى نصوص اور ادلّہ كا نتيجہ يہ ہے كہ '' فقيہ عادل ''حكومت كرنے كا حق ركھتا ہے اور سياسى ولايت كا حامل ہونے اور ائمہ معصومين كى طرف سے منصوب ہونے كى وجہ سے امر و نہى اور مسلم معاشرہ كے اجتماعى اورعمومى قوانين بنانے كا حق ركھتا ہے اور اس كے فرامين كى اطاعت واجب ہے_

فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' كى بنياد پر باقى حكومتى اداروں كى مشروعيت بھي'' ولى فقيہ'' كے حكم كى بنا پر ہوگي_ فقيہ كى سياسى ولايت كى مشروعيت حكومتى ڈھانچے كے باقى اداروں كى مشروعيت كا سرچشمہ ہے كيونكہ اگر ولى فقيہ كا نفوذ نہ ہو تو باقى تمام حكومتى اداروں اور وزارتوں كى '' مشروعيت'' بحران كا شكار ہوجائے گى _ مثال كے طور پر كچھ وزراء كا بينہ ميں كوئي قرار داد منظور كرتے ہيں، پارليمينٹ ميں كوئي قانون پاس كرتے ہيں، يا كسى معاملہ ميں اپنے اختيارات استعمال كرتے ہيںتو سوال يہ ہے كہ پارليمينٹ ميں منظور شدہ قانون كے ہم كيوں پابند ہوں ؟ كيوں حكومتى فرامين پر عمل كريں؟ كس بنياد پر ملك كے انتظامى اور قضائي قوانين كا احترام كريں؟ اور كس دليل كى رو سے ان كى اطاعت كريں؟

قرآنى آيات كى روسے قانون بنانے اور فرمان دينے كا حق خدا اور ان افراد كو حاصل ہے جو اس كى طرف سے ولايت ركھتے ہوں_

سورہ نساء كى آيت ۵۹ ميں ارشاد خداوندى ہے_

''اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولى الامر منكم ''

اللہ كى اطاعت كرو اور رسول اور جو تم ميں سے صاحبان امر ہيں ان كى اطاعت كرو_

لہذا ان كے علاوہ كوئي شخص امر و نہى كرنے اور قانون بنانے كا حق نہيں ركھتا_مگر جب اس كى ولايت اور اختيار ان امور ميں ثابت ہوجائے تو پھر اسے يہ اختيار حاصل ہوجائے گا_

۲۶۲

پس كچھ لوگوں كا بعض افراد كى را ے سے پارليمينٹ ميں پہنچ جانا ان كے قانون وضع كرنے اور امر و نہى كرنے كو شرعى جواز عطا نہيں كرتا _ را ے دينے اور نہ دينے والوں كيلئے ان كى اطاعت اور ان كے بنائے ہوئے قوانين كو تسليم كرنے كيلئے كوئي شرعى وجوب نہيں ہے_ كيونكہ لوگوں كى را ے اس شخص كو حكمرانى كے امور ميں شرعى ولايت كے منصب كا حامل قرار نہيں ديتي_ مگريہ كہ شرعى ولايت كا حامل شخص كسى كو قانون گذارى اور امر و نہى كا حق دے دے_

يہ بحث سياسى اقتدار كے سب اركان ميں جارى ہے_ مثلا عدليہ ميں اگر قاضى اس شخص كى طرف سے مقرر كيا گيا ہے جس كى ولايت مشروع ہے تو پھر اس قاضى كا فيصلہ بھى شرعى حيثيت ركھتا ہے_ اسى وجہ سے ہمارى روايات ميں اُن افراد كى حكومت اور ولايت كو'' ولايت جور اور ولايت طاغوت'' سے تعبير كيا گيا ہے جو اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كى شرائط كے حامل نہيں ہيں اور ان كے حكّام اور عمّال كو ظالم اور طاغوت كے كارندے كہا گيا ہے_

بنابريں شيعوں كے سياسى نظام ميں ولايت فقيہ كو بہت بڑى اہميت حاصل ہے_ كيونكہ سياسى نظام كے تمام اركان كى مشروعيت كا سرچشمہ يہى ہے_ اسى نظريہ كى بناپر اسلامى جمہوريہ كے اساسى قانون ميں جو كہ ولايت فقيہ پر مبتنى ہے بنيادى قانون كى تصويب اور عوام كى را ے سے منتخب ہونے والے صدر كيلئے رہبر كى تائيد حاصل كرنا ضرورى ہے_ صرف يہ كہ كچھ افراد نے مل كر قانون بناديا اور لوگوں نے بھى اس كے متعلق مثبت را ے دے دى اس سے شرعى طور پر اس كى اطاعت كا لازم ہونا ثابت نہيں ہوتا _ مگر يہ كہ '' صاحب ولايت شرعي'' اس كى تائيد كردے اور اس كے شرعى ہونے كى گواہى دے دے_ اسى طرح صدر كے اوامر و نواہى كى مشروعيت رہبر كى تائيد سے مربوط ہے كيونكہ صدر كيلئے لوگوں كى را ے اسے شرعى ولايت عطا نہيں كرتي_

۲۶۳

مخالفت كى اقسام

اسلام كے سياسى نظام ميں رہبرى اور ولايت كے اعلى مقام كى وضاحت كے بعد اس نكتہ كى تحقيق ضرورى ہے كہ كونسے موارد ميں رہبر كى اطاعت واجب ہے؟ اور كونسے موارد ميں ولى فقيہ كى مخالفت كى جاسكتى ہے؟ اس سے پہلے يہ جان لينا ضرورى ہے كہ مخالفت دو طرح كى ہوتى ہے :

الف : مخالفت عملى ب : مخالفت نظري

مخالفت عملي: سے مراد يہ ہے كہ حكومت كے فرامين اور قوانين پر عمل نہ كرنا _ جو شخص كسى حكومت كى عملا مخالفت كرتا ہے وہ در حقيقت ملكى مجرم ہے اور عملاً اس حكومت كے سياسى اقتدار كے ساتھ بر سر پيكار ہے_

مخالفت نظرى :كا تعلق اعتقاد ، را ے اور نظر و فكر سے ہے_ وہ شخص جسے حكومت كے بعض قوانين اور منصوبوں پر اعتراض ہے اورانہيں صحيح نہيں سمجھتا ليكن عملى طور پر مخالفت بھى نہيں كرتا اسے نظرى مخالف كہا جاتا ہے_ ايسے شخص كوقانون شكن يا ملكى مجرم نہيں كہتے بلكہ بعض منصوبوں كے متعلق اس كى را ے حكومت كى را ے سے مختلف ہوتى ہے_

ولى فقيہ كى مخالفت كا امكان

ان دو تمہيدى نكات يعنى رہبرى اور ولايت كا مقام اور اس كى مخالفت كى اقسام كے ذكر كرنے كے بعد اس سبق كے اصلى سوال كے جواب كى بارى آتى ہے_سوال يہ تھا كہ نظام ولايت ميں ولى فقيہ كى اطاعت واجب محض ہے يعنى كسى بھى صورت ميں اسكى مخالفت نہيں كى جاسكتى نہ عملى نہ نظرى يا شرعاً اس كى مخالفت ممكن ہے؟

وہ احكام يا فرامين جوولى فقيہ صادر كرتا ہے دوسرے سياسى نظاموں كے صاحبان اقتدار كے فرامين كى

۲۶۴

طرح دو اركان پر مشتمل ہوتے ہيں_

الف: موضوع كى شناخت _

ب : اس موضوع كے مناسب حل كى تشخيص يعنى حكم كى شناخت _

حالات اور موضوع كى دقيق اور گہرى شناخت ہر قسم كے فيصلے اور حكم كيلئے ضرورى ہے_ مخصوصاً وہ موضوعات جن كا تعلق ملك كے اجتماعى مسائل سے ہو اور جو عوام كى تقدير پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہوں مثلا وہ مسائل جن كا تعلق ملك كے امن و امان ، ثقافت اور اقتصاد سے ہے_ اس قسم كے اہم اور بنيادى موضوعات ميں بہت كم ايسے موارد ملتے ہيں جن ميں تمام صاحبان نظر كى آراء مكمل طور پر ايك دوسرے سے ملتى ہوں _ اس قسم كے كسى مسئلہ ميں اگر ولى فقيہ كوئيحكم صادر كرے توممكن ہے اس نے جو موضوعات كى تشخيص دى ہے وہ دوسرے صاحبان نظر كى رائے كے مخالف ہو _ كيا اس بات پر كوئي دليل ہے كہ ولى فقيہ كى تشخيص ،كلى طور پر تمام موارد ميں دوسرے موضوع شناس افراد كى تشخيص پر ترجيح ركھتى ہے ؟ اور نتيجتاً اس موضوع كى شناخت كا قبول كرنا تمام افراد پر واجب ہے _ اور وہ اس كى مخالفت ميں اپنى را ے كے اظہار كا حق نہيں ركھتے؟

اگر ولى فقيہ نے صدور حكم اور اپنے فيصلہ كو آخر ى شكل نہيں دى تو پھر اس موضوع كے سلسلہ ميں صاحبان نظر كيلئے نقد و تنقيد اور تحقيق و بررسى كا دروازہ كھلا ہے_ اور ولى فقيہ كے نظريہ كامعلوم ہوجانا اس بحث و تحقيق ميں ركاوٹ نہيں بن سكتا _اولياء دين كى عملى سيرت گواہ ہے كہ انہوں نے اپنے دوستوں كو اجازت دے ركھى تھى كہ وہ ان موضوعات و مسائل ميں اپنى را ے دے سكتے ہيں ، چاہے وہ ان كى را ے كے مخالف ہى كيوں نہ ہو _ ان كا مسلمانوں اور اپنے دوستوں سے مشورہ لينا اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ '' شناخت موضوع'' ميں ان كى اطاعت ضرورى نہيں ہے_

۲۶۵

ليكن جس وقت ولى فقيہ اور اسلامى معاشرہ كا حاكم كسى موضوع كو آخرى شكل دے دے اور ايك حكم صادر كردے تو تمام افراد پر اس حكم كا اتباع كرنا واجب ہے اور كسى كو حق نہيں پہنچتا كہ وہ شناخت موضوع ميں اختلاف نظر كے بہانے اس الزامى حكم كى مخالفت كرے اور ملكى مجرم بنے_ بنابريں ولى فقيہ كے احكام اور فرامين كى عملى اطاعت ضرورى ہے اگر چہ شناخت موضوع ميں ايسا نہيں ہے_

ولى فقيہ كے احكام كى اطاعت كے وجوب كى فقہى دليل مقبولہ عمر ابن حنظلہ جيسى بعض روايات ہيں كہ جن ميں حاكم كے حكم كى مخالفت كو حكم خدا كے خفيف سمجھنے،مخالفت اہلبيت اور خدا كے حكم سے روگردانى كرنے كے مترادف قرار ديا گيا ہے_

''فاذا حكم بحكمنا فلم يقبل منه فانّما استخف بحكم الله و علينا ردّ و الرادّ علينا الراد على الله '' (۱)

ممكن ہے كوئي يہ تصور كرے كہ اس روايت ميں انكار اور عدم جواز ردّ سے مراد حكم قاضى كا رد كرنا ہے اور حاكم شرع اور ولى فقيہ كا حكومتى حكم اس ميں شامل نہيں ہے _ يہ تصور اس غفلت كا نتيجہ ہے كہ قضاوت بھى جامع الشرائط فقيہ كى ولايت كا ايك شعبہ ہے_ جب ايك مخصوص جزئي نزاع ميں فقيہ كے حكم كى مخالفت نہيں كى جاسكتى تو فقيہ كے اس سے بڑے منصب ميںجو كہ اسلامى معاشرہ كا نظام چلانا ہے، اور حكومتى احكام صادر كرنا ہے ميں يقيناً اس كے فرامين كى مخالفت جائز نہيں ہے_ علاوہ ازيں امام صادق نے يہ جملہ فقيہ كو منصب حكومت پر فائز كرنے كے بعد فرمايا ہے پس يہ حديث حاكم كى مخالفت كے متعلق ہے اورصرف قاضى كى مخالفت ميں منحصر نہيں ہے_

____________________

۱) وسائل الشيعہ، ج ۲۷، ص ۱۳۶، ۱۳۷_ باب ۱۱، ابواب صفات قاضى ح ۱_ ترجمہ پہلے گزر چكا ہے_

۲۶۶

حاكم اور ولى امر كى عملى مخالفت جائز نہيں ہے ليكن نظر اور را ے ميں اس كا ساتھ دينا ضرورى نہيں ہے_ يعنى مومنوں پر واجب نہيں ہے كہ وہ اعتقاد اور نظر ميں بھى حاكم كے ہم را ے اور ہم خيال ہوں بلكہ ان سے فقط يہ كہا گيا ہے كہ عملاًاس كے مطيع ہوں اور اختلال نظام كے اسباب پيدا نہ كريں اسى وجہ سے بعض فقہاء نے اگر چہ حكم حاكم كى مخالفت اور ردّ كرنے كو حرام قرار ديا ہے ، ليكن اس كے متعلق بحث كو حرام قرار نہيں ديا_ (۱)

ولى فقيہ كى اطاعت كا دائرہ حكومتى احكام تك محدود ہے _ اگر ولى فقيہ كسى مورد ميں حكم نہيں ديتا بلكہ فقط ايك چيز كو ترجيح ديتا ہے يا مشورے كے طور پر اپنى رائے كا اظہار كرتا ہے ہے ،تو اس وقت اس كى اطاعت شرعاً واجب نہيں ہے_ اسى طرح ولى فقيہ كے حكومتى حكم كى اطاعت اس كے مقلدين كے ساتھ مخصوص نہيں ہے بلكہ ہر مسلمان مكلف حتى كہ صاحب فتوى مجتہد پر بھى اس حكومتى حكم كى اطاعت واجب ہے_(۲)

آنے والے سبق ميں ہم حكومتى حكم كى حقيقت و ماہيت اور اس سے متعلقہ مباحث پر تفصيلى گفتگو كريں گے_ اسلامى معاشرہ كے رہبر كے حكم كے نفوذ اور اس كى عملى مخالفت كے عدم جواز پر اسلام كى تاكيد اور اصرار اس وجہ سے ہے كہ اسلامى حاكم امت مسلمہ كى عزت و اقتدار كا محور ہے، امت كى وحدت اور اس كى صفوںميں اتحاد عادل ، فقيہ، امين اور متقى رہبر كى عملى اطاعت اور ہمراہى ميں مضمر ہے _ اس كى عزت، امت مسلمہ كى حفظ حرمت اور احترام كا باعث بنتى ہے_ محمد ابن سنان نے جب امام رضا سے جنگ سے فرار ہونے كى حرمت

____________________

۱) جو اہر الكلام ،ج ۴۰ ، ص ۱۰۵_

۲) فقہاء نے صريحاً كہا ہے كہ ولى فقيہ كى اطاعت شرعى كا دائرہ حكومتى حكم تك محدود ہے_ اور يہ اطاعت باقى تمام فقہاء پر واجب ہے_ العروة الوثقى كے باب اجتہاد و تقليد كے مسئلہ ۵۷ ميں آيا ہے كہ جامع الشرائط حاكم كے حكم كى مخالفت جائز نہيں ہے _ حتى كہ دوسرے مجتہد كيلئے بھى ،مگر يہ كہ اس كا غلط ہونا ثابت ہوجائے _ آيت اللہ سيد كاظم حائرى اس سوال كا جواب ديتے ہوئے كہ جب ايك جامع الشرائط فقيہ( ولى فقيہ) كوئي حكم دے تو كيا اس شہر كے دوسرے فقہاء پر اس حكم كى اطاعت واجب ہے جواب ديتے ہيں ''ہاں''نيز اس سوال _ كہ كيا ان افراد پر ولى فقيہ كے اوامر كى اطاعت واجب ہے جو اس كے مقلد نہيں ہيں _كا جواب ديتے ہوئے كہتے ہيں كہ راہبر ولى امر ہونے كى حيثيت سے جو حكم ديتے ہيں سب پر اس كى اطاعت واجب ہے چاہے وہ اس كے مقلد نہ بھى ہوں _

ملاحظہ ہو: الفتاوى المنتخبہ ج ۱ ، كتاب الاجتہاد و التقليد ،مسئلہ ۳۶، ۴۷_

۲۶۷

كى وجہ پوچھى تو آپ نے فرمايا:

اللہ تعالى نے جنگ سے فرار كو اسلئے حرام قرار ديا ہے چونكہ يہ فرار دين كے ضعف و كمزورى اور انبياء كرام (ع) اورعادل ائمہ كو خفيف سمجھنے كا باعث بنتا ہے اور دشمن كے مقابلہ ميں ان كى نصرت كے ترك كرنے كا موجب بنتا ہے_ اور يہ كام مسلمانوں كے خلاف دشمن كى جرا ت ميں اضافہ كرتا ہے_(۱)

امام صادق رسولخدا (ص) سے نقل كرتے ہيں : مسلمان كيلئے جائز نہيں ہے كہ وہ ايسى مجلس ميں حاضر ہو جس ميں امام كو برا بھلا كہا جاتا ہو _ حديث يہ ہے:

''قال رسول الله (ص) من كان يؤمن بالله و اليوم الاخر فلا يجلس فى مجلس يسبّ فيه امام ''(۲)

آنحضرت فرماتے ہيں جو خدا اور روز قيامت پر ايمان ركھتا ہے اس كيلئے جائز نہيں ہے كہ ايسى مجلس ميں حاضر ہو جس ميں امام كو برا بھلا كہا جاتا ہو_

آخر ميں اس نكتہ كا بيان كرنا ضرورى ہے كہ ہمارى بحث اس ميں تھى كہ شرعاً ولى امر كى اطاعت كا دائرہ كہاں تك ہے _ اور قانونى اطاعت ہمارى بحث سے خارج ہے_ كيونكہ ہر حكومت كے مختلف اداروں كے كچھ قوانين و ضوابط ہوتے ہيں كہ جن كا قانونى لحاظ سے اتباع واجب ہو تا ہے_اور ان كى خلاف ورزى كرنے والے كا محاكمہ ہوتا ہے_ ولايت فقيہ والے نظام ميں حكومتى احكام و فرامين كى قانونى اطاعت كے علاوہ شرعى اطاعت بھى واجب ہے _

____________________

۱) وسائل الشيعہ، ج ۱۵، ص ۸۷ باب ۲۹، ابواب جہاد العدو ح ۲_

۲) وسائل الشيعہ ج ۱۶ ص ۲۶۶ باب ۳۸ ،ابواب امر و نہى ح ۲۱_

نوٹ: وہ ممالك جو ولى فقيہ كے زير سايہ ہيں اس ميں رہنے والے مسلم و غير مسلم اسى طرح وہ ممالك جن پر ولى فقيہ كا كنٹرول نہيں ہے ميں بسنے والوں كيلئے ولى فقيہ كے حكم كى اطاعت كہاں تك واجب ہے _ اس كيلئے ضميمہ ۲ و ۳ كى طرف رجوع كريں_

۲۶۸

خلاصہ :

۱) اصل عدم ولايت اور اس كو ديكھتے ہوئے كہ ولى حقيقى فقط خدوند كريم كى ذات ہے_ ہر قسم كى ولايت كى مشروعيت كا سرچشمہ براہ راست يا بابلواسط تقرّر الہى ہے_

۲)فقيہ كى ولايت انتصابى كى بنياد پر سياسى نظام كے تمام اركان اپنى مشروعيت اور جواز ''ولايت فقيہ''سے اخذ كرتے ہيں _ يہ امر اس منصب كے اعلى مقام كى نشاندہى كرتا ہے_

۳)صرف عوام كى را ے كسى شخص كو قانون گذارى اور امر و نہى كے منصب كا حامل قرار نہيں ديتى _

۴)سياسى صاحبان اقتدار كى مخالفت كى دو قسميں ہيں ، مخالفت عملى اور مخالفت نظري_

۵) جرم عملى مخالفت كے ذريعہ ہوتا ہے_ البتہ كسى فرمان يا قانون كے صحيح نہ ہونے كااعتقاد ركھنا ملكى جرم كا باعث نہيں بنتا_

۶) ولى فقيہ كے احكام اور فرامين كى عملى مخالفت جائز نہيں ہے _ جبكہ اس كى نظرى موافقت ضرورى نہيں ہے_

۷) دوسرے نظاموں كے مقابلہ ميں نظام ولايت فقيہ كو يہ امتياز حاصل ہے كہ اس نظام ميں حكومتى قوانين كى عملى مخالفت جرم كے ساتھ ساتھ شرعى مخالفت بھى شمار ہوتى ہے_

۸)فقيہ عادل كے حكومتى احكام كى اطاعت كا وجوب مقبولہ عمر ابن حنظلہ جيسى روايات سے ثابت ہوتا ہے_

۹)ولى فقيہ كے حكومتى احكام كى اطاعت صرف اس كے مقلدين كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _ بلكہ ہر مكلف چاہے وہ مجتہد و فقيہ ہى كيوں نہ ہو اس پر ان احكام كى اطاعت واجب ہے_

۲۶۹

سوالات :

۱) اسلام كے سياسى نظام ميں'' فقيہ عادل ''كے مقام كو كيوں خاص اہميت حاصل ہے؟

۲) تمام حكومتى اداروں كى مشروعيت كا سرچشمہ ''ولى فقيہ ''كيوں ہے؟

۳) مخالفت عملى اور مخالفت نظرى سے كيا مراد ہے؟

۴)ولى فقيہ كى كونسى مخالفت جائز ہے؟

۵)ولائي نظام ميں اطاعت كا دوسرے سياسى نظاموں كے ساتھ كيا فرق ہے؟

۶) اسلام، رہبر كے حكم كے نفوذ اور اس كى اطاعت كے وجوب پركيوں اصراركرتا ہے؟

۷) فقيہ عادل كے حكومتى احكام كى اطاعت كن افراد پر واجب ہے؟

۲۷۰

ستائيسواں سبق :

حكومتى حكم اور مصلحت

پہلے گذر چكا ہے كہ ''فقيہ عادل'' ولايت عامہ كا حامل ہوتا ہے اور اس كا حكومتى فرمان نہ صرف اس كے مقلدين كيلئے بلكہ دوسرے فقہاء اور ان كے مقلدين كيلئے بھى واجب الاطاعت ہوتا ہے _ يہاں چند سوال ہيں_ حكومتى حكم سے كيا مراد ہے؟ حكومتى حكم اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟ حكومتى حكم كن مبانى كى بنياد پر صادر ہوتا ہے؟ كيا حكومتى حكم، قاضى كے حكم كى قسم سے ہے يا اس سے مختلف ہے؟ كيا حكومتى حكم ''فقہ كے احكام ثانويہ'' كى قسم سے ہے؟ كيا حكومتى احكام كے صدور كى كوئي مخصوص حد ہے؟ اس قسم كے سوالات، حكومتى حكم كى حقيقت و ماہيت ، مبنى اور اس كى حد ،كے متعلق بحث كے ضرورى ہونے كو آشكار كرتے ہيں_ اس لئے ضرورى ہے كہ پہلے حكم كى اقسام كى تحقيق و بررسى كى جائے_ تا كہ حكم حاكم اور دوسرے شرعى احكام اور فتوى كے درميان فرق واضح ہوجائے_

۲۷۱

حكم كى اقسام

الف : شرعى حكم

حكم كى مشہورترين قسم، شرعى حكم ہے_ شرعى حكم سے مراد يہ ہے كہ اسے شارع مقدس نے ''وضع'' كياہو_ قوانين الہي، شرعى حكم كى واضح مثاليں ہيں_ شرعى حكم كو شارع مقدس صادر كرتا ہے_ اور اسى كے وضع كرنے سے وجود ميں آتا ہے_ شرعى حكم كى دو قسميں ہيں_حكم تكليفى اورحكم وضعي_ ''احكام تكليفي'' سے مراد وہ شرعى قوانين ہيں جو مكلفين كے افعال كے جائز يا ناجائز ہونے كے متعلق اظہار نظر كرتے ہيں_ اس قسم كے احكام اس بات كو واضح اور روشن كرتے ہيں كہ كونسے كام انجام دينا ضرورى ہيں ، اور كن كاموں سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_ كونسے كاموں كو انجام دينا بہتر ہے_ اور كونسے كاموں كو ترك كرنا بہتر ہے احكام تكليفى كى پانچ قسميں ہيں_ واجب ، حرام ، مستحب ، مكروہ اور مباح _

شرعى احكام كى دوسرى قسم'' احكام وضعي'' ہے_احكام وضعى بھى شارع مقدس كے وضع كردہ ہيں_ يہ احكام براہ راست مكلف كے فعل كے جائز يا ناجائز ہونے كے متعلق اظہار نظر نہيں كرتے_ احكام وضعى ميں شارع مقدس كے جعل كى وجہ سے شرعى معانى وجود ہيں آجائے ہيں جو'' مخصوص احكام تكليفى ''كا موضوع قرار پاتے ہيں_ مثلا طہارت ، نجاست ،مالكيت اور زوجيت و غيرہ وضعى احكام كے مصاديق ہيں_ نجاست كوئي تكليفى حكم نہيں ہے _ ليكن وہ امور جو شارع كے جعل كردہ اس حكم وضعى كے تحت نجس قرار ديئے گئے ہيں حكم تكليفى كا موضوع قرار پاتے ہيں _ ان كا كھانا پينا اور بعض موارد ميں ان كى خريد و فروخت، حرام ہوجاتى ہے_'' شرعى حكم'' كى اور بھى اقسام ہيں مثلا حكم ظاہرى ، حكم واقعي، حكم اوّلى اور حكم ثانوى و غيرہ كہ دوران بحث ان ميں سے بعض پر ايك نظر ڈاليں گے_

۲۷۲

فقہاء كے اجتہاد كا معنى يہ ہے كہ منابع و مصادر سے شرعى حكم كو كشف كرنے كى كوشش كى جائے_ بنابريں مجتہد كافقہى فتوى در حقيقت شارع مقدس كے ''شرعى حكم كا بيان'' ہے_ فقيہ اپنے فتوى سے شرعى حكم جعل نہيں كرتا بلكہ شارع مقدس كے بنائے ہوئے حكم كو بيان كرتا ہے_ مقام استنباط ميں فقيہ اور مجتہد كا فريضہ شارع مقدس كے بنائے ہوئے شرعى حكم كو كشف كرنا ہے_

ب: قاضى كا حكم

تنازعات اور لڑائي جھگڑوں كى تحقيق كے بعد قاضى جو حكم صادر كرتا ہے وہ خود قاضى كا جعل كردہ حكم ہے_ فتوى كى قسم سے نہيں ہے_ كيونكہ فتوى جعل شارع كا بيان كرنا ہے جبكہ مقام قضاوت ميں قاضى حكم كوجعل كرتا ہے_اگر چہ قاضى كا حكم شرعى احكام سے غير مربوط نہيں ہوتا اور قاضى شرعى موازين كے مطابق حكم صادر كرتا ہے جھگڑوں كا فيصلہ كرتا ہے ليكن اس كا كام شرعى حكم كا بيان كرنا نہيں ہوتا بلكہ شرعى احكام كو مد نظر ركھتے ہوئے حكم صادر كرنا ہوتا ہے_ قاضى دونوں طرف كے دلائل سنتا ہے ، پھر ايك طرف'' قرائن و شواہد'' اور دوسرى طرف ''شرعى احكام اور قوانين'' كو مد نظر ركھتے ہوئے حكم صادر كرتا ہے_ پس قاضى كا حكم'' شرعى حكم'' كے علاوہ ايك الگ حكم ہے_

ج: حكومتى حكم

اب تك يہ معلوم ہو چكا ہے كہ فقيہ فتوى دينے كے علاوہ بھى حكم جعل كرسكتا ہے _ اور يہ جعل حكم ''مقام قضاوت'' ميں ہوتا ہے_ سوال يہ ہے كہ فقيہ عادل كا جعل كردہ حكم، فقط تنازعات كے حل اور جھگڑوں كے ختم كرنے تك محدود ہے؟ يقينى طور پر ايسے موارد آتے ہيں جہاں فقہاء نے يہ تسليم كيا ہے كہ ''فقيہ عادل'' تنازعات كے حل كے علاوہ دوسرے مقامات پر بھى حكم ''جعل'' كرسكتا ہے_

۲۷۳

اس قسم كے احكام كے دو مشہور مورد ،''رؤيت ہلال ''اور ''حدود الہى كا اجرا'' ہيں_ شيعہ فقہاء نے صراحت سے كہا ہے كہ حدود الہى كا اجرا ،جامع الشرائط فقيہ كى خصوصيات ميں سے ہے اور ان حدود كا اجرا، حاكم شرعى كے حكم كا محتاج ہے _ حدود الہى كا اجرا، تنازعات كى قسم سے نہيں ہے تا كہ اسے قضاوت كے موارد ميں سے قرار ديا جائے_

اس بات كو تسليم كرنے كے بعد كہ فقيہ ''ولايت عام ''ركھتا ہے ، اور جامع الشرائط فقيہ كى ''ولايت '' فتوى دينے ، قضاوت اور بے بس افراد كى سرپرستى كرنے تك محدو دنہيں ہے_ وہ ولايت تدبيرى (سياسى ولايت) كا بھى حامل ہوتا ہے اور جانشينى كے قابل ، تمام امور ميں امام معصوم كا نائب ہوتا ہے_ حكومتى حكم كے صدور كو فقط ''رؤيت ہلال'' اور '' حدود الہى كے اجرا ''ميں منحصر نہيں كيا جاسكتا _ جواہر الكلام كے مصنف فقيہ كى ولايت عامہ كے حامى كے عنوان سے مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے جملہ ''انى جعلتہ حاكماً'' كے اطلاق كے پيش نظر ''فقيہ عادل كے حكم كو قضاوت ميں منحصر نہيں سمجھتے'' بلكہ اس سے وسيع اور عام سمجھتے ہيں_ وہ اس مطلب كو حكم حاكم اور فتوى كے درميان فرق كى وجہ بيان كرنے كے ضمن ميں يوں ذكر كرتے ہيں_

''الظاهر أنّ المراد بالاولى الفتوي الإخبار عن الله تعالى بحكم شرعى متعلق بكلى ، كالقول بنجاسة ملا قى البول أو الخمر وأمّا الحكم فهو انشاء إنفاذ من الحاكم لا منه تعالى لحكم شرعى أو وضعى أو موضوعهما فى شيء مخصوص_ و لكن هل يشترط فيه مقارنته لفصل خصومة كما هو المتيقّن من أدلّته؟ لا أقل من الشك والاصل عدم ترتّب الآثار على غيره، أو لا يشترط; لظهور قوله(ع) : '' إنّى جعلتُه حاكماً'' فى أنّ له الانفاذ

۲۷۴

والإلزام مطلقاً و يندرج فيه قطع الخصومة التى هى مورد السؤال، و من هنالم يكن إشكال عندهم فى تعلّق الحكم بالهلال والحدود التى لا مخاصمة فيها'' (۱)

ظاہراً فتوى سے مراد اللہ تعالى كے اس شرعى حكم كا بيان كرنا اور اسكى خبر ديناہے جو ايك كلى كے ساتھ مربوط ہوتا ہے، مثلا پيشاب يا شراب كے ساتھ لگنے والى شئے كا نجس ہونا جبكہ ''حكم'' خود حاكم كى طرف سے جعل كردہ ہے نہ كہ اللہ تعالى كى طرف سے كسى شرعى يا وضعى حكم كيلئے يا كسى مخصوص شئے كے موضوع كيلئے_ ليكن كيا اس جعل كردہ حكم ميں شرط ہے كہ صرف تنازعات كے متعلق ہو؟جيسا كہ ادلّہ سے بھى يقينى مقدار يہى معلوم ہوتى ہے يا كم از كم اگر يقينى مقدار نہ بھى ہو تو اس بات كا گمان ہے كہ ادلہ كى دلالت يہى ہے _ اور اصل يہ ہے كہ اس كے علاوہ كسى اور چيز پر يہ آثار مرتب نہيں ہوں گے، يا شرط نہيں ہے؟ كيونكہ معصوم كے قول '' ميں نے اسے تم پر حاكم قرار ديا ہے'' سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ اس كا حكم ہر لحاظ سے نافذ ہے _ اور تنازعات كے فيصلے بھى اسى حكم ميں آجاتے ہيں كہ جس كے متعلق خصوصى طور پر سوال كيا گيا ہے _ اسى لئے علماء اس بات كو تسليم كرتے ہيں كہ رؤيت ہلال اور اجرائے حدود، ميں حاكم كا حكم نافذ العمل ہے _ حالانكہ ان كا تعلق تنازعات سے نہيں ہے_

حكم كى يہ دوسرى اور تيسرى قسم اس لحاظ سے مشترك ہيں كہ دونوں فقيہ كے جعل اور انشاء ہيں اور شارع كے جعل كو كشف كرنے يا بيان كرنے كى قسم سے نہيں ہيں_ البتہ ان دونوں ميں فرق يہ ہے كہ قاضى كا حكم، تنازعات اور جھگڑوں كے فيصلہ كرنے ميں منحصر ہے جبكہ حكومتى حكم تنازعات ميں محدود نہيں ہے_

____________________

۱) جواہر الكلام، ج ۴۰ ، ص ۱۰۰_

۲۷۵

حكومتى حكم كے صدور كى بنياد:

حاكم شرع اور فقيہ عادل كے حكم كى چند قسميں ہيں_ جيسا كہ پہلے گزر چكا ہے كہ ماہ مبارك رمضان، شوال اور دوسرے مہينوں كے آغاز كا اعلان، حاكم شرعى كے اختيارات ميں سے ہے_ اگر فقيہ عادل چاند ثابت ہونے كا اعلان كردے تو اس كى اطاعت واجب ہے _ اسى طرح حدود الہى كا اجرا بھى حكم حاكم كى اقسام ميں سے ہے _ اگر چہ شريعت ميں زانى ، محارب ( خدا و رسول سے جنگ كرنے والا)اور شارب الخمر كى حدود بيان كى گئي ہيں _ ليكن ان كے اجرا كيلئے فقيہ عادل كے حكم كى احتياج ہوتى ہے_ حاكم شرع كے احكام كى ايك اور قسم معاشرتى امور اور اسلامى معاشرہ كے اجتماعى مسائل كے ساتھ مربوط ہے حكومتى احكام كى يہى قسم اس وقت ہمارے زير بحث ہے_

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ ہر سياسى اقتدار كا اہم ترين فريضہ شہريوں كو بعض امور كے انجام دينے اور بعض سے اجتناب كرنے كا پابند كرنا ہوتا ہے_ اجتماعى امور كا انتظام انہى پابنديوں اور امر و نہى كے سايہ ميں پروان چڑھتا ہے_ ولايت فقيہ پر مبتنى سياسى نظام ميں فقيہ عادل جو كہ حاكم شرع ہے عوام كو ان امور پر پابند كرنے كا حق ركھتا ہے اور اس كى حكومتى پابنديوں كى اطاعت شرعاً واجب ہے_

حكومتى احكام كے صدور كى بنياد مسلمانوں اور اسلامى نظام كى مصلحت ہے _ ولى فقيہ مسلمانوں كے مختلف امور كى مصلحت اور رعايت كى بنا پر اسلامى معاشرہ كے اموال ميں تصرف كرتا ہے اور مختلف امور كے انتظام كيلئے احكام صادر كرتا ہے _ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں :

''فللفقيه العادل جميع ما للرسول و الا ئمة (ع) مما يرجع الى الحكومة و السياسة و لا يعقل الفرق، لانّ الوالى _ آيّ شخص كان هو مجرى ا حكام الشريعة والمقيم للحدود الإلهية والآخذ للخراج و سائر الماليات والمتصرّف فيها بما هو صلاح المسلمين _

۲۷۶

فالنبيّ (ص) يضرب الزانى ما ة جلدة والإمام (ع) كذلك والفقيه كذلك و يا خذون الصدقات بمنوال واحد و مع اقتضاء المصالح يا مرون الناس بالا وامر التى للوالي، و يجب إطاعتهم ''(۱)

حكومت اور سياست سے متعلقہ تمام اختيارات جو رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كو حاصل ہيں فقيہ عادل كو بھى حاصل ہيں_ ان ميں تفريق كرنا معقول نہيں ہے كيونكہ والى جو بھى ہو وہى شرعى احكام كو نافذ كرتا ہے، حدود الہيہ كو قائم كرتا ہے ، خراج اور دوسرے ماليات كو وصول كرتا ہے، اور انہيں مسلمانوں كے رفاہ عامہ كے امور ميں خرچ كرتا ہے_ رسولخدا (ص) زانى كو سو كوڑے مارسكتے ہيں_ امام بھى اسى طرح ہيں اور فقيہ بھى _ يہ سب ايك ہى ضابطہ كے مطابق صدقات وصول كرتے ہيں اور مصالح كى بنياد پر لوگوں كو ان اوامر كا حكم ديتے ہيں جو والى كے اختيار ميں ہيں اور لوگوں پر ان احكام كى اطاعت واجب ہے_

يہاں ايك اہم سوال پيش آتا ہے اور وہ يہ كہ وہ مصلحت جو حكومتى حكم كے صدور كى بنياد ہے، اسے اہميت كے لحاظ سے كس درجہ پر ہونا چاہيے كہ حاكم اس حكومتى حكم كے صادر كرنے پر مجبور ہوجائے؟ كيا ہر قسم كى مصلحت ايسے الزامى حكم كے صدور كيلئے كافى ہے؟ يا مصلحت كو اس قدر اہم ہونا چاہيے كہ اسے نظر انداز كرنے سے عسرو حرج اور اختلال نظام لازم آتا ہو؟

اس سوال كو دوسرے انداز سے بھى بيان كيا جاسكتا ہے _ ہم نے علم فقہ اور كلام سے يہ سمجھا ہے كہ ہر فعل كا شارع مقدس كے نزديك ايك'' حكم واقعي'' ہے اور افعال مكلفين ميں سے كوئي بھى فعل پنجگانہ احكام تكليفيہ سے خالى نہيں ہے_ بنابريں حكومتى احكام طبيعى طور پر اس فعل كے حكم واقعى كے مخالف ہوں گے_ بطور مثال تحريم تمباكوكے سلسلہ ميں ميرزا شيرازى كے حكومتى حكم كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_ شريعت اسلام ميں تمباكو كا استعمال اور اس كى خريد و فروخت مباح ہے_ ليكن اس فقيہ كے حكومتى حكم كى وجہ سے وقتى طور پر اور ان

____________________

۱) البيع ،امام خمينى ج ۲ ص ۴۶۷_

۲۷۷

خاص حالات ميں تمباكو كا استعمال اور اس كى خريد و فروخت حرام ہوجاتى ہے _ اب سوال يہ ہے كہ كن موارد ميں مصلحت اور حالات كا تقاضا حكم واقعى كے ملاك( ہمارى مثال ميں اباحت كا ملاك ) پر مقدم ہوجاتے ہيں؟ كيا صرف اسى صورت ميں ہے كہ جب حكومتى حكم كے صدور كى مصلحت كو نظر انداز كرنے سے مومنين كيلئے عسرو حرج لازم آتا ہو اور نظام مسلمين كے اختلال كا باعث بنتا ہو تو فقيہ اس حكم واقعى كے مقابلہ ميں حكومتى حكم صادر كرسكتا ہے؟ يا صرف اگر اسلام اور مسلمين كى مصلحت ،احكام واقعى كے ملاك پر ترجيح ركھتى ہو تويہى ترجيح حكومتى حكم كے صدور كيلئے كافى ہے_ اگر چہ اضطرار ، عسر و حرج اور اختلال نظام كى حد تك نہ بھى پہنچے؟ اس سوال كا جواب اس نكتہ كى وضاحت پر موقوف ہے كہ كيا حكومتى حكم اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانوية ميں سے؟ اگر حكومتى حكم احكام ثانويہ ميں سے ہے تو اس كا صدور، اضطرار ، عسرو حرج يا اختلال نظام پر موقوف ہے_ دوسرے لفظوں ميں اگر ہم حكومتى حكم كو احكام ثانويہ ميں سے شمار كريں تو اس كا لازمہ يہ ہے كہ وہ مصلحت جو حكومتى حكم كے صدور كى بنياد ہے اسے اس قدر قابل اہميت ہونا چاہيے كہ اسے نظر انداز كرنے سے اختلال نظام مسلمين يا عسرو حرج لازم آتا ہو _ اس مجبورى ميں جب تك ايسے حالات ہيں فقيہ احكام اوليہ كے خلاف وقتى طور پر حكومتى حكم صادر كرے گا_

احكام اوّليہ اور ثانويہ:

پہلے گذر چكاہے كہ انسان كے تمام اختيارى افعال پنجگانہ احكام تكليفيہ ميں سے كسى ايك حكم كے حامل ہوتے ہيں_ بنابريں مكلفين كا ہر فعل ايك حكم اولى ركھتا ہے _ شارع مقدس نے ہر واقعہ اور فعل كے حكم اولى كو مصالح و مفاسد اور اس كے ذاتى اور واقعى ملاكات كے مطابق وضع كيا ہے _ افعال اور اشياء كے احكام اوّليہ ''ذات موضوع'' كو مد نظر ركھتے ہوئے وضع كيئےجاتے ہيں اور اس ميں كسى قسم كے خاص حالات كو پيش نظر نہيں ركھا جاتا _ مردار كا حكم اوّلى ''حرمت'' ہے ، حكم اولى يہ ہے كہ ماہ رمضان كا روزہ ہر مسلمان مكلف پر

۲۷۸

واجب ہے ، حكم اولى يہ ہے كہ ہر مسلمان مكلف پر واجب ہے كہ وہ نمازپنجگانہ كيلئے وضو كرے_

كبھى خاص حالات پيش آجاتے ہيں كہ جن كى وجہ سے ''افعال كے حكم اولى ''كو بجا لاناممكن نہيںہوتا_ يہ حالات مكلف كو ايسے دوراہے پرلے آتے ہيں كہ اس كا'' احكام اوليہ'' پر عمل كرنا بہت مشكل ہوجاتا ہے اس صورت ميں شارع مقدس نے مكلف كيلئے ''احكام ثانويہ'' وضع كئے ہيں مثلا اگر چہ مردار كا كھانا حرام ہے، ليكن اگر مكلف اپنى جان بچانے كيلئے اس كے كھانے پر مجبور ہے تو اس صورت ميں اس كيلئے مردار حلال ہے_

( '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا أثم عليه '' ) (۱)

اگر كوئي مضطر ہوجائے اور بغاوت كرنے والا اور ضرورت سے تجاوز كرنے والا نہ ہو تو اس پر كوئي گناہ نہيں ہے_

بنابريں اضطرار ايك عارضى عنوان ہے جو كہ مكلف كو ايك خاص حالت ميں عارض ہوكر سبب بنتا ہے كہ جب تك مكلف اس حالت ميں گرفتار ہے اس پر حكم اولى كى بجائےحكم ثانوى لاگو ہوگا _

حكم ثانوى اضطرار ، ضرر،اكراہ ، عسرو حرج اور اختلال نظام جيسے خاص عناوين كے ساتھ مربوط ہوتا ہے_ البتہ احكام اوّليہ اور ثانويہ دونوں حكم واقعى كى قسميں ہيں_ دونوں شارع مقدس كے جعل كردہ ہيں_ البتہ اتنا فرق ہے كہ حكم ثانوى كا مرتبہ حكم اولى كے بعد ہے_ يعنى حكم ثانوى كى بارى اس وقت آئے گى جب كوئي مخصوص عنوان اس پر عارض ہوجائے اور حكم اولى پر عمل كرنا ممكن نہ ہو_ دوسرا يہ كہ حكم ثانوى عارضى ہوتا ہے_

حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى وضاحت كے بعد اب يہ ديكھنا ہے كہ حكومتى حكم احكام ثانويہ ميں سے ہے يا اوّليہ ميں سے؟

____________________

۱) سورہ بقرہ آيت ۱۷۳_

۲۷۹

خلاصہ :

۱) حكم كے تين مشہور معانى ہيں_ شرعى حكم ، قاضى كا حكم ، حكومتى حكم_

۲) شرعى حكم سے مراد يہ ہے كہ اسے شارع مقدس نے وضع و جعل كيا ہے_

۳)مجتہد كا فتوى شرعى حكم كا كشف و استنباط ہوتا ہے_ يعنى فقيہ مقام فتوى و استنباط ميں شرعى حكم كے بارے ميں خبر ديتا ہے_ اپنى طرف سے حكم جعل نہيں كرتا _

۴) قاضى فيصلہ كے وقت اپنا حكم صادر كرتا ہے اور اس كا حكم فتوى كى قسم سے نہيں ہے_

۵)فقيہ عادل كے اختيارات كو صرف ''مقام قضاوت ميں جعل حكم ''ميں منحصر نہيں كيا جاسكتا _

۶)فقيہ كى ولايت عامہ كى بنياد پر ''حاكم شرع اور فقيہ عادل كے جعل حكم ''كو رؤيت ہلال اور حدود الہى كے نفاذ و اجرا ميں منحصر نہيں كيا جاسكتا _

۷)حكومتى حكم اور حكم قاضى دونوں انشاء اور جعل ہيں_

۸)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد مسلمانوں اور اسلامى نظام كى مصلحت ہے_

۹) كيا ہر قسم كى مصلحت حكومتى حكم كے صدور كى بنياد بن سكتى ہے؟ يا اسے اس قدر قابل اہميت ہونا چاہيے كہ اس كے نظر اندازكرنے سے عسروحرج اور اختلال نظام لازم آتا ہو؟

۱۰) اس سوال كا جواب اس نكتہ كى وضاحت پر موقوف ہے كہ حكومتى حكم ،اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانويہ ميں سے_

۱۱)احكام ثانويہ كا مرتبہ احكام اوّليہ كے بعد ہے_

۲۸۰

سوالات :

۱) حكم شرعى ، حكم تكليفى اور حكم وضعى سے كيا مراد ہے؟

۲) حكم قاضى اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟

۳)حكومتى حكم اور قاضى كے حكم ميں كيا فرق ہے؟

۴)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد كيا ہے؟

۵)حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى بحث كا حكومتى احكام كى بحث ميں كيا كردار ہے؟

۶) احكام ثانويہ كيا ہيں اور احكام اوليہ سے ان كا كيسا تعلق ہے؟

۲۸۱

اٹھائيسواں سبق :

حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلقہ

گذشتہ سبق ميں يہ ثابت ہوچكا ہے كہ فقيہ عادل جس طرح شرعى حكم كو استنباط كرسكتا ہے اسى طرح حكومتى حكم كے صادر كرنے كا بھى اختيار ركھتا ہے_

فتوى ميں فقيہ كا كام شارع مقدس كے حكم سے پردہ اٹھانا ہے _ اب جبكہ حكومتى حكم خود فقيہ صادر كرتا ہے_ حكومتى حكم كے جعل اور صادر كرنے ميں فقيہ عادل، شرعى اصول و مبانى كو بھى نظر ميں ركھتا ہے اور اسلام و مسلمين كى مصلحت كو بھى _ گذشتہ سبق كا آخرى سوال يہ تھا كہ ''حكومتى حكم اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانويہ ميں سے''؟

امام خمينى اس مسئلہ كے جواب كو'' اسلام ميں حكومت كے مقام ''كے ساتھ منسلك كرتے ہيں_ ان كى نظر ميں ولى فقيہ كے اختيارات اور حكومتى حكم كے صدور كا دائرہ اور حد، حكومت اور اسلامى نظام كے احكام اوليہ كے ساتھ رابطے كے تعيّن اور اسلام كى نظر ميں حكومت اور نظام كے مقام كو واضح و مشخص كرنے كے تابع ہے_

۲۸۲

اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى نجف اشرف ميں اپنے فقہ كے دروس خارج ميں اس نكتہ پر اصرار كرتے تھے كہ حكومت اور اسلامى نظام اسلامى فروعات ميں سے ايك فرع يا اجزائے اسلام ميں سے ايك جزء نہيں ہے بلكہ اس كى شان اس سے بہت بلند ہے اس طرح كہ فقہى احكام حكومت اور اسلامى نظام كى حفاظت اور تثبيت كيلئے ہيں _ اسلامى حكومت شريعت كى بقاء اور حفاظت كى ضامن ہے اسى لئے اولياء الہى نے نظام اسلام و مسلمين كى حفاظت اور بقاء كيلئے اپنى جانوں كو خطرات ميں ڈالتے تھے _ ان كى نظر ميں شرعى احكام امور حكومت ميں سے ہيں_ شرعى احكام ذاتاً مقصود اور ہدف نہيں ہيں بلكہ عدل و انصاف قائم كرنے كيلئے اسلامى حكومت كے ذرائع ہيں اسى لئے روايات ميں حاكم اور ولى فقيہ كو اسلام كا قلعہ كہا گيا ہے (۱) _

''الاسلام هو الحكومة بشؤونها، و الاحكام قوانين الاسلام و هى شان من شؤونها ، بل الاحكام مطلوبات بالعرض و امور آلية لاجرائها و بسط العدالة'' (۲)

امام خمينى اس بات پر اصرار كرتے ہيں كہ حكومت اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے_ نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام پر مقدم ہے_ رہبر انقلاب آيت اللہ خامنہ اى كے نام لكھے گئے اپنے ايك خط ميں امام خمينى فرماتے ہيں:

حكومت رسولخدا (ص) كى ولايت مطلقہ كا ايك شعبہ ہے، اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے، اور اس كے تمام احكام فرعيہ ،نماز روزہ اور حج و غيرہ پر مقدم ہے(۳)

____________________

۱) امام خمينى كى درج ذيل عربى عبارت كا مفہوم بھى يہى ہے _(مترجم)

۲) كتاب البيع، ج ۲ ص ۴۷۲_

۳) صحيفہ نور ج ۲۰ ، ص ۱۷۰

۲۸۳

لہذا حكومتى حكم كا صدور اسلام اور نظام مسلمين كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے_ ضرورى نہيں ہے كہ عناوين ثانويہ مثلا عسروحرج ، اضطرار يا اختلال نظام ميں سے كوئي ہو بلكہ اسلامى حكم كى مصلحت حكومتى حكم كى بنياد قرار پاتى ہے اگر چہ مذكورہ عناوين ميں سے كوئي بھى نہ ہو_

اس كے باوجود انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں بعض موارد ميں انہوں نے حكومتى حكم كے صدور اور بظاہر شريعت كے منافى احكام و قوانين بنانے كا حق پارليمنٹ كو ديا ليكن احتياط اور مزيد استحكام كيلئے ايسے قوانين كے وضع كرنے كو اختلال نظام ، ضرورت اور عسرو حرج جيسے ثانوى عناوين كے ساتھ منسلك كرديا_ اگر چہ آپ فقہى لحاظ سے حكومتى حكم كے صدور كو ان عناوين پر موقوف نہيں سمجھتے اور اسے اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں_

مورخہ ۲۰/ ۷/ ۱۳۶۰ ھ ش كو قومى اسمبلى كے اسپيكر كو ايك خط كا جواب ديتے ہوئے لكھتے ہيں:

وہ شئے جو اسلامى نظام كى حفاظت ميں دخالت ركھتى ہے ، جس كا انجام دينا يا ترك كردينا اختلال نظام كا باعث بنے، خرابى و فساد كا باعث بنے يا اس سے حرج و مرج لازم آتا ہو، تو پارليمنٹ كے ممبران كى اكثريت را ے كے ذريعہ موضوع كى تشخيص كے بعد اس وضاحت كے ساتھ قانون بنايا جائے كہ جب تك يہ موضوع ہے يہ قانون ہے_ اور موضوع كے ختم ہونے كے ساتھ ہى يہ قانون لغو ہوجائے گاوہ اس قانون كے بنانے اور جارى كرنے كا اختيار ركھتے ہيں_(۱)

اس اصرار كے ساتھ كہ حكومت ''اسلام كے احكام اوليہ'' ميں سے ہے_ اپنى مبارك زندگى كے آخرى سالوں ميں اس ميں اور شدت آگئي اور انہوں نے صاف الفاظ ميں كہہ ديا كہ حكومتى حكم كا صدور'' مصلحت نظام'' پر مبنى ہے _مصلحت نظام اختلال نظام ، ضرورت اور عسر و حرج جيسے عناوين ثانوى سے قطعى مختلف ہے

____________________

۱) صحيفہ نور، ج ۱۵ ، ص ۱۸۸_

۲۸۴

اسى لئے مصالح كى تشخيص اور حكومتى حكم كے صادر كرنے ميں ولى فقيہ كى مدد كرنے كے لئے '' مجمع تشخيص مصلحت نظام ''كے نام سے ايك ادارہ تشكيل ديا گيااور حكومتى احكام كے مبانى كى تشخيص كا كام اس كے سپرد كيا گيا_

فقيہ كى ولايت مطلقہ

فقيہ كى '' ولايت عامّہ ''، ''نيابت عامہ'' يا ''عمومى ولايت'' جيسے الفاظ سابقہ فقہاء كے كلمات ميں استعمال ہوتے رہے ہيں_ ليكن '' ولايت مطلقہ'' كى تعبير عام نہيں تھى _ امام خمينى كے كلمات ميں رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كى سياسى ولايت كو ''ولايت مطلقہ ''سے تعبير كيا گيا ہے_ اور يہى خصوصيت جامع الشرائط فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے_ ۱۳۶۸ ھ ش ميں جب اساسى قانون پر نظر ثانى كى گئي تو اس ميں لفظ '' ولايت مطلقہ ''استعمال ہونے لگا _

اسلامى جمہوريہ ايران ميں قواى حاكم يہ ہيں: مقننہ ،مجريہ اور عدليہ يہ تينوں ادارے ولايت مطلقہ كے زير نظر اس قانون كے آئندہ طے پانے والے اصولوں كے مطابق عمل كريںگے_(۱)

''ولايت مطلقہ'' ميں لفظ '' مطلقہ'' اور'' فلسفہ سياست'' كى اصطلاح ميں استعمال ہونے والے لفظ ''مطلقہ''كے درميان لفظى شباہت كى وجہ سے بعض لا علم اور مخالفين نے ولايت فقيہ پر اعتراض كيا ہے _

فلسفہ سياست كى رائج اصطلاح ميں'' حكومت مطلقہ'' ڈكٹيٹر شپ اورمطلق العنان آمريت كو كہتے ہيں_ جس ميں حكومت كا سربراہ اپنى مرضى سے حكومت چلا تا ہے ، دل خواہ قوانين وضع كرتا ہے اور معاشرے كا

____________________

۱) قانون اساسى اصل ۵۷_

۲۸۵

خيال نہيں ركھتا_ آنے والے مطالب سے واضح ہوجائے گا كہ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''بنيادى طور پراس ''حكومت مطلقہ''سے بہت مختلف ہے_

ولايت فقيہ كے مفہوم كے صحيح ادارك كيلئے درج ذيل تمہيد پر غور كرنا ضرورى ہے_

فقہى استنباط كى حقيقت ،در اصل شارع كے جعل اور انشاء كو كشف كرنا ہے_فتوى ، كے وقت فقيہ، نہ حكم كو جعل كرتا ہے نہ نافذ كرتا ہے_ فقيہ، ادلّہ كى طرف رجوع كر كے اس مسئلہ سے پردہ اٹھاتا ہے كہ نماز عشاء واجب ہے، اس حكم كا ايك نفاذ ہے _ اور وہ نماز مغرب كے بعد نماز عشاء كا پڑھنا ہے_ نماز عشاء كا پڑھنا فقيہ كے تعين ، را ے اور نافذ كرنے پر موقوف نہيں ہے_ وہ موارد جن ميں شرعى حكم كو متعدد طريقوں سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے ان كے نافذ كرنے كى كيفيت ميں بھى فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا_ مثلا اسلامى شريعت ميں شادى كرنا جائز ہے_ اس حكم جواز (بمعناى اعم)كے متعدد نفاذ ہيں يعنى مرد كو اختيار ہے كہ وہ كسى بھى خاندان، قبيلہ يا قوم سے اپنے لئے زوجہ كا انتخاب كرسكتا ہے_اس جواز كے انشاء اور نفاد كى كيفيت ميں فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا بلكہ فقط اس شرعى حكم كا كشف كرنا فقيہ كى علمى كوشش كے ساتھ و ابستہ ہے_

جبكہ اس كے مقابلہ ميں ''حكومتى حكم ''ميں جعل اور نفاذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _ فقيہ بعض موارد ميں حكم كو جعل كرتا ہے اور بعض موارد ميں نافذ كرتا ہے_ مثلا حدود الہى كے اجراء كے سلسلہ ميں فقيہ عادل كے حكم كے بغير كسى مجرم پر الہى حدود جارى نہيں كى جاسكتيں_ اسى طرح اگر فقيہ كسى مصلحت كى بنياد پر بعض مصنوعات يا اشيا كو ممنوع يا كسى ملك كيساتھ تجارت كرنے كو حرام قرار ديتاہے يا اس كے برعكس ان مصنوعات كى بعض مخصوص ممالك كيساتھ تجارت كو جائز قرار ديتاہے تو اس نے ايك تو حكومتى حكم '' جعل'' كيا ہے اور دوسرا اسے ايك خاص طريقے سے نافذ كرنے كا حكم ديا ہے_ كيونكہ مباح مصنوعات يا اشياء كى تجارت كو متعددطريقوں

۲۸۶

سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے_ اور اسے مختلف طريقوں سے فروخت كيا جاسكتا ہے _ خاص كيفيت اور موردكا تعيّن ايك حكم كى تنفيذ ميں مداخلت ہے_

حاكم شرع كى تنفيذى دخالت كى دوسرى مثال دو شرعى حكموں ميں تزاحم اور تصادم كا مورد ہے_ معاشرے ميںاجرائے احكام كے وقت بعض اوقات دو شرعى حكموں ميں تصادم ہوجاتا ہے_ اس طرح كہ ايك كو ترجيح دينے كا مطلب دوسرے كو ترك كرنا ہوتاہے _ اس وقت ولى فقيہ اہم مورد كو تشخيص دے كر اہم شرعى حكم كو نافذ كرتا ہے اور دوسرے كو ترك كر ديتا ہے_

موردبحث نكتہ يہ ہے كہ كيا ولى فقيہ كسى اہم شرعى حكم كے بغير بھى كسى دوسرے حكم كے نفاذ كو روك سكتاہے؟ يعنى اگر كسى مورد ميں وجوب يا حرمت كا حكم موجود ہے توكيا اس ميں مصلحت كى صورت ميں ولى فقيہ اس حكم كے برخلاف كوئي دوسرا حكم'' جعل'' كرسكتا ہے؟ مثلا عارضى طور پر مسلمانوں كو حج تمتع سے روك دے؟ يہاں دو مختلف بنيادى نظريے ہيں_ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كے حامى اس سوال كا جواب ہاں ميں ديتے ہيں _ ليكن فقيہ كي'' ولايت مقيّدہ '' كے حامى فقيہ عادل كيلئے اس قسم كے كسى حق كے قائل نہيں ہيں_

فقيہ كى ولايت مقيّدہ كے حامى معتقد ہيں كہ حكومتى حكم كى جگہ وہاں ہے جہاں شريعت كا كوئي الزامى حكم نہ ہو اور يہ كہ حكومتى حكم كے صدور ميں'' ولى فقيہ'' شريعت كے تابع ہے كسى تصادم و تزاحم كے بغير صرف كسى مصلحت كى وجہ سے شريعت كے واجب يا حرام كے برعكس كوئي حكم صادر نہيں كرسكتا _ ان كى نظر ميں حكومتى حكم كا دائرہ غير الزامى احكام يا الزامى احكام_ تزاحم كى صورت ميں _اور يا اس موردتك محدود ہے كہ جس كے متعلق شريعت نے كوئي حكم بيان نہيں كيا ولى فقيہ حكومتى حكم كے ذريعہ اس قانونى خلا كو پر كر سكتا ہے_ يہ سكوت يا شريعت كے حكم اوّلى كا نہ ہونا شريعت كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہے بلكہ اس مورد ميں طبعى تقاضا يہ تھا

۲۸۷

كہ كسى الزامى حكم سے سكوت اختياركيا جائے _ شہيد صدر فرماتے ہيں:

واقعات اور انسانى ضروريات كى متغير حقيقت باعث بنتى ہے كہ ان ميں كوئي حكم وضع نہ كيا جائے البتہ شارع نے اسے مہمل اور بے مہار نہيں چھوڑا ، بلكہ اسلامى حكومت كے سربراہ كو حق ديا ہے كہ وہ اس موقع كى مناسبت سے حكم جعل كرے_(۱)

علامہ طباطبائي بھى فقيہ كى ولايت مقيدہ كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں اسلامى قوانين دو قسم كے ہيں متغير اور ثابت _

اسلام كے ثابت قوانين و احكام انسان كى فطرت ،اور ان خصوصيات كو مدنظر ركھتے ہوئے بنائے گئے ہيں جو بدلتى نہيں ہيں اور انہيں اسلامى شريعت كا نام ديا گيا ہے _ احكام كى دوسرى قسم جو كہ قابل تغير ہے اور زمان و مكان كى مصلحت كے مختلف ہونے سے مختلف ہوجاتے ہيں يہ ولايت عامہ كے آثار كے عنوان سے رسولخدا (ص) ،ائمہ معصومين اور ان كے مقرر كردہ جانشينوںكى را ے سے مربوط ہوتے ہيں اور وہ انہيں دين كے ثابت قوانين اور زمان و مكان كى مصلحت كے پيش نظر تشخيص ديتے ہيں اور جارى كرتے ہيں _ البتہ اصطلاحى لحاظ سے اس قسم كے قوانين دينى اور شرعى احكام ميں شمار نہيں ہوتے_ ثقافت اور لوگوں كى معاشرتى زندگى كى پيشرفت اور ارتقاء كے لئے ولى امر جو قوانين وضع كرتا ہے واجب الاجرا ہونے كے باوجود وہ شريعت اور حكم الہى كے زمرہ ميں نہيں آتے اس قسم كے قوانين كا اعتبار اس مصلحت كے تابع ہے جو ان كے وضع كرنے كا باعث بنى ہے_ ليكن احكام الہى جو كہ عين شريعت ہيں ہميشہ ثابت رہتے ہيں اور كوئي بھى حتى كہ ولى امر بھى يہ حق نہيں ركھتا كہ وقتى مصلحت كى وجہ سے انہيں تبديل يا لغو كردے(۲)

____________________

۱) اقتصادنا ،شہيد محمد باقر صدر، ص ۷۲۱_

۲) فرازہاى از اسلام، ص ۷۱ _ ۸۰_

۲۸۸

اس نظريہ كے مقابلہ ميں كہ جو فقيہ كى ولايت عامہ كو شرعى احكام ميں محدود قرار ديتاہے امام خميني، فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كا دفاع كرتے ہيں _

اس نظريہ كے مطابق شريعت كے الزامى احكام بھى حكومتى حكم كے صدور ميں ركاوٹ نہيں بن سكتے _ اورفقيہ كى ولايت شريعت كے حصارميں محدود اور منحصر نہيں ہے_ اگر اسلامى نظام اور مسلمانوں كى مصلحت كا تقاضا ہو، تو جب تك يہ مصلحت ہے _جو كہ سب سے اہم مصلحت ہے_ فقيہ وقتى طور پر حكومتى حكم صادر كرسكتاہے اگر چہ وہ حكم شريعت كے كسى الزامى حكم كے منافى ہى كيوں نہ ہو_

پس شرعى احكام كے لحاظ سے فقيہ كى ولايت محدود اور مقيد نہيں ہے بلكہ مطلق ہے _ اس نظريہ كا سرچشمہ اور بنياد يہ ہے كہ امام خمينى كى نظر ميں'' حكومت'' اسلام كے احكام اوليہ ميں سے ہے اور نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام اوليہ پر مقدم ہے _

حكومت يا ''ولايت مطلقہ'' جو كہ اللہ تعالى كى طرف سے آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي ہے اہم ترين حكم الہى ہے اور خدا كے تمام احكام فرعيہ پر مقدم ہے _ اگر حكومتى اختيارات احكام فرعيہ الہيہ ميں محدودہوجائيں تو آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي حكومت الہى اور ولايت مطلقہ ايك كھوكھلى سى چيز بن كر رہ جائے گى _ حكومت ہر اس عبادى يا غير عبادى امر كو اس وقت تك روك سكتى ہے جب تك اس كا اجرا مصلحت اسلام كے منافى ہو(۱)

حكومتى حكم كا صدور، حفظ نظام كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے _ امام خمينى كى نظر ميں اگر حفظ نظام كى مصلحت اس حد تك پہنچ جائے كہ ولى فقيہ كى نظر ميں وہ شريعت كے كسي'' حكم اولي'' كے ساتھ ٹكرارہى ہے تو ہميشہ حفظ نظام كى مصلحت مقدم رہے گي_ اور اس شرعى حكم كے ملاك اور مصلحت سے اہم قرار پائے گى اورولي

____________________

۱) صحيفہ نور، جلد ۲۰ صفحہ ۱۷۰_

۲۸۹

فقيہ كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اس مصلحت پر عمل كرے او رجب تك وہ مصلحت باقى ہے اہم كو مہم پر ترجيح دے_

آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اگر چہ اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون اساسى كى شق ۱۱۰ ميں ''ولى فقيہ ''كے وظائف اور اختيارات ذكر كئے گئے ہيں ليكن فقيہ كى ''ولايت مطلقہ'' كو ديكھتے ہوئے اس كے اختيارات ان امور ميں محدود نہيں ہيں بلكہ اس كے اختيارات كا دائرہ اسلامى معاشرہ كے مصالح كى بنياد پر ہوگا_

۲۹۰

خلاصہ:

۱) امام خمينى حكومت اور اسلامى نظام كو اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں _

۲) ان كى نظر ميں حكومت ،فقہ كے اجزا ميں سے نہيں ہے_ بلكہ تمام كى تمام فقہ نظام مسلمين كى حفاظت كيلئے ہے_ اسى لئے اسلامى حكومت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے _

۳) اس بناپر حكومتى حكم كا صدور كسى ثانوى عنوان كے محقق ہونے پر موقوف نہيں ہے_

۴) امام خمينى انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں احتياط كى بناپرحكومتى اورظاہر شريعت كے منافى حكم كو ثانوى عناوين كے ساتھ مربوط سمجھتے تھے_

۵) فقيہ كى ولايت مطلقہ كى بحث براہ راست حكومتى حكم كے صدور كى بحث كے ساتھ منسلك ہے _

۶) فقيہ كى ولايت مطلقہ اور سياسى فلسفہ ميں موجود حكومت مطلقہ كو ايك جيسا قرار نہيں ديا جاسكتا_

۷) فتوى كے برعكس حكومتى حكم ميں جعل و انشاء اور تنفيذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _

۸) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا لازمہ يہ ہے كہ اگر مصلحت كا تقاضا ہو تو فقيہ عادل شريعت كے الزامى حكم يعنى وجوب و حرمت كے منافى حكم بھى صادر كرسكتاہے_

۹) فقيہ كى ولايت مقيدہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ، فقط شريعت كے غير الزامى احكام كے مقابلہ ميں حكومتى حكم صادر كرسكتاہے _ اس كى ولايت، شريعت كے الزامى احكام كے عدم وجود كے ساتھ مشروط ہے _

۱۰ ) امام خمينى كى نظر ميں جب حفظ نظام كى مصلحت كسى شرعى حكم كى مصلحت كے ساتھ ٹكرا جائے تو حفظ نظام كى مصلحت اہم اور مقدم ہے _

۲۹۱

سوالات:

۱) حكومت كے مقام اور احكام شريعت كے ساتھ اس كے رابطہ كے متعلق امام خميني كا نظريہ كيا ہے ؟

۲) فقيہ كى ولايت مطلقہ سے كيا مراد ہے ؟

۳) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا حكومت مطلقہ كى بحث سے كيا تعلق ہے ؟

۴) فقيہ كى ولايت مقيدہ سے كيا مراد ہے ؟

۵) جب حفظ نظام كى مصلحت ، شريعت كے احكام اوليہ كے ملاكات سے ٹكرا جائے تو كيا كرنا چاہيے؟

۲۹۲

انتيسواں سبق :

دينى حكومت كے اہداف اور فرائض -۱-

كسى سياسى نظام كے دوسرے سياسى نظاموں سے امتياز كى ايك وجہ وہ فرائض ، اختيارات اور اہداف ہيںجو اس كے پيش نظر ہيں _ مختلف مكا تب اور سياسى نظام اپنى حكومت كيلئے مختلف اہداف اور فرائض قرار ديتے ہيں _ اگر چہ بہت سے اہداف مشترك ہوتے ہيں مثلاً امن عامہ كا برقرار كرنا اور دشمن كے تجاوز اور رخنہ اندازى سے خود كو محفوظ ركھنا ايسے اہداف ہيں كہ جنہيںتمام سياسى نظاموں نے اپنے اپنے ذوق و سليقہ كے مطابق اپنے اوپر فرض قرار دے ركھاہے _

آج سياسى ماہرين اور مفكرين كے در ميان حكومت كے فرائض اور اختيارات كے متعلق بڑى سنجيدہ بحثيں ہو رہى ہيں _ بعض سياسى نظريات'' حكومت حداقل'' كا دفاع كرتے ہيں _ ان سياسى فلسفوںكا عمومى اعتقاد يہ ہے كہ جتنا ممكن ہو سكے حكومت مختلف امور ميں كم سے كم مد اخلت كيا كرے_ انيسويں صدى كے كلاسيكى اور آج كے نيولبرل ازم ( New Liberalism ) اقتصادى لحاظ سے بازار تجارت ميں حكومت كى كمترين مداخلت كے قائل ہيں انكا نظريہ يہ ہے كہ بازار ميں موجود كارو بار و تجارت ميں حكومت كى عدم مداخلت سے

۲۹۳

اقتصادى توازن بر قرار رہے گا _اور حكومت كى مداخلت آزاد تجارت كے نظم و نسق كو در ہم بر ہم كردے گى _ اس كے مقابلہ ميں سو شلزم كى طرف مائل افراديہ چاہتے ہيں كہ حكومت براہ راست اقتصادى امور ميں مداخلت كرے حتى كہ تمام اقتصادى مراكز حكومت كے ہاتھ ميں ہونے چاہئيں_ اس نظريہ كى ہلكى سى جھلك لبرل ازم كى تاريخ كے ايك مختصر دور ميں دكھائي ديتى ہے _جديد لبرل ازم جو كہ بيسويں صدى كے اوائل سے ليكر ۱۹۷۰ تك رہا ہے رفاہى رياست (۱) كا خواہاں ہے _ وہ چاہتاہے كہ حكومت آزاد تجارت ميں مداخلت كرے تا كہ ايك طرف بازار رونق پكڑے اور دوسرى طرف آسيب پذير طبقے كا دفاع ہو اور معاشرتى اور اجتماعى امور پر كوئي زد نہ پڑے _

اقتصاد سے ہٹ كر سياسى فلسفہ كى ايك اہم ترين بحث يہ بھى ہے كہ سعادت ، اخلاقيات اور معنويات ميں حكومت كا كيا كردار ہے _ اور ان كے ارتقاء كے سلسلہ ميں حكومت كے كيا فرائض ہيں ؟كيا عوام كى سعادت اور نجات بھى حكومت كے اہداف اور فرائض ميں سے ہے؟

ماضى ميں بھى بہت سے سياسى فلسفے خير و سعادت پر گہرى نگاہ ركھتے تھے _سياسى ماہرين اپنے سياسى نظاموں كو خير و سعادت كى بنياد پر متعارف كرواتے تھے اورخيرو سعادت كى جو مخصوص تعريف كرتے تھے اسى لحاظ سے اپنے اہداف اور دستور العمل كو متعين كرتے تھے _آخرى دو صديوں ميں ہم نے ايسے ايسے سياسى نظريات ديكھے ہيں جو اس سلسلہ ميں حكومت كے كردار اور فرائض كوبالكل نظر انداز كرتے ہيں ان نئے نظريات كى بنياد پر خير و سعادت جيسے امور حكومت كے فرائض و اہداف سے خارج ہيں_ حكومت كا كام فقط امن وامان اور رفاہ عامہ كے متعلق سو چناہے _ اور اسے چاہيے كہ خيروسعادت ، اور اخلاق و معنويت جيسے امور خود عوام اور معاشرے كے افراد كے حوالہ كردے_

____________________

۱) Welfare State .

۲۹۴

لبرل ازم اس نظريہ كى سخت حمايت كرتا ہے كہ اس قسم كے امور عوام كے ساتھ مربوط ہيں لہذا ان امور ميں حكومت كسى قسم كى مداخلت نہيں كر سكتى ، بلكہ اس قسم كے مسائل ميں مداخلت لوگوں كے ذاتى مسائل ميں مداخلت ہے اور ان كے حقوق اور ان كى شخصى آزادى كو سلب كرنے كے مترادف ہے_ حكومت كو اپنے فرائض عوامى حقوق اور شخصى آزادى كو ملحوظ خاطر ركھ كر انجام دينے چاہيں_ لبرل نظريات كے حامى افراد كى نظر ميں ''حقوق بشر كا عالمى منشور'' جو كہ لبرل نظريات كے اصولوں كى بنياد پر بنايا گياہے، حكومت كے اہداف و فرائض متعين كرنے كيلئے انتہائي مناسب راہنماہے حكومت كو اسى كا دفاع كرنا ہے اور اسے امن وامان برقرار ركھنے ، شخصى مالكيت كى حفاظت، ثقافتى ، مذہبى اور اقتصادى آزادى كيلئے كوشش كر نى چاہيے _ خير و سعادت اور اخلاقيات كو خود عوام كے سپرد كرد ے تا كہ ہر شخص اپنى مرضى كى خير و سعادت كے متعلق اپنے مخصوص نظر يہ كے مطابق زندگى گزار سكے_

ا س تمہيد كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ ديكھنا ہے كہ اسلام كن اہداف اور فرائض كو حكومت كے كندھوں پر ڈالتا ہے _حكومت كے متعلق اسلام كا نظر يہ كيا ہے ،اور اس كيلئے كس مقام كا قائل ہے ؟

ہم اس تحقيق كو تين مرحلوں ميں انجام ديں گے ، پہلے حكومت اور اس كے مقام كے متعلق اسلامى نظر يہ كى تحقيق كريں گے _پھر دينى حكومت كے اہداف پر ايك نگاہ ڈاليں گے اور آخر ميں اسلامى سربراہوں كے جزئي وظائف اور فرائض كى طرف اشارہ كريں گے _

حقيقت حكومت از نظر اسلام

دوسرے باب ميں ''اسلام كى نظر ميں امامت اور سياسى قيادت كے مقام و مرتبہ'' كے متعلق ہم تفصيلى گفتگو كر چكے ہيں _يہاں حقيقت و ماہيت كے متعلق بحث سے ہمارى يہ مراد نہيں ہے كہ ہم نئے سرے سے اس كى

۲۹۵

اہميت كا تذكرہ كرنا چاہتے ہيں _ بلكہ يہاں ہم يہ جاننا چاہتے ہيں كہ حكومت كو اسلام كس نگاہ سے ديكھتاہے اور اس كے نزديك اس كى ماہيت اور حقيقت كيا ہے ؟

آيات و روايات كى طرف رجوع كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلام كى نگاہ ميں حكومت اور دنيوى مقامات و مناصب بذات خود كوئي اہميت و كمال نہيں ركھتے، ''حكومت'' ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كا نام ہے _ اس ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كيلئے اہليت ، صلاحيت اور انفرادى كمالات كى ضرورت ہے -_ اسى وجہ سے اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے مخصوص خصوصيات اور شرائط كا لحاظ ركھا گيا ہے - _اسلام كى نگاہ ميں ہر قسم كا اجتماعى منصب خصوصاًحكومت اور امارت ايك الہى امانت ہے لہذا اسے كوئي كمال شمار نہيں كيا جاتا -_ سورہ نساء كى آيت ۵۸ ميں ارشاد خداوندى ہے:

( ''إنَّ الله َ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمَانَات إلَى أَهلهَا وَإذَا حَكَمتُم بَينَ النَّاس أَن تَحكُمُوا بالعَدل إنَّ الله َ نعمَّا يَعظُكُم به إنَّ الله َ كَانَ سَميعا بَصيرا'' ) (۵۸)

يقينا خدا تمہيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے درميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _ خدا تمھيں بہترين نصيحت كرتا ہے بے شك خدا سننے والا اور ديكھنے والا ہے_

حضرت اميرالمومنين آذربايجان ميں لشكر اسلام كے سپہ سالار اشعث ابن قيس كو ايك خط ميں تاكيد كرتے ہيں كہ حكومت اور امارت تيرے لئے ايك لذيذ لقمہ نہيں ہے كہ تو اس سے لطف اندوز ہو -_ بلكہ ايك بار امانت ہے جسكا تجھے جواب دينا ہے _ بيت المال در حقيقت خدا كا مال ہے _ لہذا اس كيلئے امانتدار محافظ بنو_

۲۹۶

انّ عملك ليس لك بطعمة ، و لكنّه ف عْنقك أمانة ، و أنت مسترعى لمَن فوقك ليس لك أن تفتات ف رعيّة ، و لا تخاطر إلّا بوثيقة ، و ف يديك مال من مال الله (عزّوجلّ) و أنت من خْزّانة حتى تسلّمه إلّ (۱)

يہ امارت تيرے لئے روزى كا وسيلہ نہيں ہے- بلكہ تيرى گردن ميں امانت (كا طوق) ہے تمہارے لئے ضرورى ہے كہ اپنے فرمانروا اور امام كى اطاعت كرو، اور تمہيں يہ حق حاصل نہيں ہے كہ اپنى رعيت كے معاملہ ميں جو چاہو كر گزر و خبردار كسى مضبوط دليل كے بغير كوئي اہم قدم مت اٹھانا اور تيرے ہاتھ ميں خدا كا مال ہے تو اس كا ايك محافظ ہے يہاں تك كہ اسے ميرے پاس پہنچا دے

اپنے ايك اور عامل كے نام لكھے گئے خط ميں مقام و منصب سے غلط اور ناجائز فائدہ اٹھانے كو امانت الہى ميں خيانت كے مترادف قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''فَقَد بلغنى عنك أمر إن كنت فعلته فقد أسخطت ربّك و عصيت إمامك و أخزيتَ أمانتك '' (۲)

تمھارے متعلق مجھے ايك اطلاع ملى ہے _ اگر واقعاً تونے ايسا كيا ہے تو پھر تو نے اپنے رب كو غضبناك كيا ہے، اپنے امام كى نافرمانى كى ہے اور اپنى امانت كو رسوا كيا ہے _

حضرت اميرالمومنين حكومت اور اسكے منصب كو ايك امانت سمجھتے ہيں اور اس ميں خيانت كرنے كو بارگارہ پروردگار ميں ذلت و رسوائي كا باعث قرار ديتے ہيں_ اسلامى نقطہ نظر سے حكومتى اہلكار، خدا كى بارگاہ

____________________

۱) نہج البلاغہ ،مكتوب ۵_

۲) نہج البلاغہ ، مكتوب ۴۰_

۲۹۷

ميں اس امانت الہى كے سلسلہ ميں جوابدہ ہيں جو انہوں نے اپنے كندھوں پر اٹھا ركھى ہے _ اہواز كے قاضى ''رفاعہ'' كو لكھتے ہيں :

''اعلم يا رفاعة انّ هذه الامارة امانة فَمَنْ جعلها خيانة فعليه لعنة الله الى يوم القيامة و من استعمل خائنا فان محمد (ص) برى منه فى الدنيا والاخرة'' (۱)

اے رفاعہ جان لو كہ يہ امارت ايك امانت ہے جس نے اس ميں خيانت كى اس پر قيامت تك خدا كى لعنت ہے _اور جو كسى خائن كو عامل بنائے رسولخدا (ص) دنيا و آخرت ميں اس سے برى الذمہ ہيں_-

جلال الدين سيوطى اپنى تفسير ميں حضرت على سے يوں نقل كرتے ہيں :

''حقّ على الإمام أن يحكم بما أنزل اللّه و أن يؤدّ الأمانة ، فإذا فعل ذلك فحقّ على النّاس أن يسمعوا له و أن يطيعوا ، و أن يجيبوا إذا دعوا'' (۲)

امام كيلئے ضرورى ہے كہ وہ خدا كے احكام كے مطابق فيصلے كرے اور امانت كو ادا كرے _ پس جب وہ ايسا كرے تو لوگوں پر واجب ہے كہ اس كى بات سنيں اس كى اطاعت كريں اور جب وہ بلائے تو لبيك كہيں_

حكومت بذات خود كوئي معنوى حيثيت نہيں ركھتي_ اور نہ ہى حاكم كيلئے كوئي كمال شمار ہوتا ہے_ مگر يہ كہ وہ اس سياسى اقتدار كے ذريعہ اس ذمہ دارى اور امانت الہى كو صحيح طور پر ادا كرے_

عبدالله ابن عباس كہتے ہيں كہ بصرہ كى طرف جا تے ہوئے '' ذى قار'' نامى ايك جگہ پر ميں اميرالمومنين كے پاس گيا _ وہ اپنے جوتے كو ٹانكا لگا رہے تھے _ مجھ سے پوچھتے ہيں اس جوتے كى قيمت كيا ہے ؟ ميں نے جواب ديا: كچھ بھى نہيںتو آپ نے فرمايا :

____________________

۱) دعائم الاسلام، ج ۲ ، ص ۵۳۱_

۲) الدر المنثور ،ج ۲ ، ص ۱۷۵_

۲۹۸

''واللّه له أحبّ إلّ من إمرتكم ، إلّا أن أْقيم حقّا أو أدفع باطلا'' (۱)

خدا كى قسم ميں اسے تم پر حكومت كرنے سے زيادہ پسند كرتا ہوں _ مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كو دور كردوں _

بنابريں حكومت اور قيادت اس وقت اہميت ركھتے ہيں جب اس كے اہداف عملى شكل اختيار كرليں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كى تمام تر كوشش ان اہداف كو پورا كرنے كيلئے ہو _

دينى حكومت كے اہداف :

دينى منابع كى طرف رجوع كرنے سے يہ حقيقت عياں ہوجاتى ہے كہ اسلام ،حكومت كے اہداف كو رفاہ عامہ اور امن وامان برقرار كرنے ميں محدود نہيں كرتا _ بلكہ اسلامى معاشرہ كى خير و سعادت اور معنويات سے مربوط امور كو بھى حاكميت كے دستورالعمل ميں سے قرار ديتا ہے دينى حكومت كيلئے ضرورى ہے كہ وہ معاشرے كو ايمان اور اخلاق سے لبريز زندگى فراہم كرئے اور رفاہ عامہ كے ساتھ ساتھ دينى ثقافت اور الہى پيغامات كے فروغ پر بھى زور دے _ دينى حكومت كے اہداف كو بيان كرنے والى بعض آيات اور روايات كى مدد سے ہم ان اہداف ميں سے بعض كى طرف اشارہ كريں گے _ كلى طور پر ہم ان اہداف كو دو بنيادى حصوں ميں تقسيم كرسكتے ہيں _ ايك حصہ معنوى اہداف پر مشتمل ہے اور دوسرا دنيوى اہداف پر_ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ايسے امور پر مشتمل ہيں جو بڑى حد تك غير دينى حكومتوں كے بھى مورد نظر ہوتے ہيں _ جبكہ دينى حكومت كے معنوى اہداف وہ امور ہيں جو فقط اسلامى حكومت كے ساتھ مخصوص ہيں اوراسلامى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتے ہيں_ دينى حكومت كى خصوصيت وہ عہد و پيمان ہے جو ان اہداف كو پورا كرتا ہے _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳ _ارشاد مفيد ،ج ۱، ص ۲۴۷ميں يہى حديث مختصر سے فرق كے ساتھ بيان كى گئي ہے _

۲۹۹

الف: معنوى اہداف

دينى حكومت كے معنوى اہداف سے مراد وہ كوششيں ہيں جو معاشرے كى فطرت الہى كے مطابق رشد و ترقى كى خاطر سازگار ماحول فراہم كرنے كيلئے كى جاتى ہيں_ ان ميں سے بعض كا تعلق تہذيب و ثقافت اور صحيح مذہبى پروپيگنڈے سے ہے _ اور بعض احكام شريعت اور حدود الہى كے نفاذ اور آلودگى و تباہى سے معاشرہ كو محفوظ ركھنے كے ساتھ تعلق ركھتے ہيں _ يہاں پر ہم ان آيات و روايات كو بطور نمونہ پيش كرتے ہيں جو دينى حكومت كے معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ پھر ان اہداف كى فہرست بندى كريں گے _

جو لوگ زمين پراقتدار حاصل كرليتے ہيں، اللہ تعالى ان كے ليئے كچھ مخصوص فرائض بيان كرتاہے_

مثلا نماز كا قائم كرنا ، نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _سورہ حج كى آيت ۴۱ ميں ارشاد خداوندى ہے_

( ''الذين ان مَكّنا هم فى الارض أقاموا الصلوة و آتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الامور ) _''

يہ وہ لوگ ہيں اگرہم انہيں زمين ميں اختيار ديں تو وہ نماز قائم كريں گے اور زكوة ادا كريں گے ، نيكى كا حكم ديں گے اور برائي سے منع كريں گے _ اور يقينا تمام امور كا انجام خدا كے اختيار ميں ہے_

معاشرتى عدل و انصاف پر اسلام نے بہت زيادہ زور ديا ہے _ يہاں تك كہ اسے دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں شمار كيا ہے _سورہ نحل كى آيت ۹۰ ميں ارشاد ہوتاہے:

( ''ان الله يأمر بالعدل والاحسان'' )

يقينا خدا عدل و انصاف اور نيكى كا حكم ديتا ہے _

سورہ شورى كى آيت ۱۵ ميں ارشاد ہے :

''( اُمرت لاعدل بينكم'' )

مجھے حكم ملاہے كہ تمھارے در ميان انصاف كروں_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367