اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139062 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات :

۱) حكم شرعى ، حكم تكليفى اور حكم وضعى سے كيا مراد ہے؟

۲) حكم قاضى اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟

۳)حكومتى حكم اور قاضى كے حكم ميں كيا فرق ہے؟

۴)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد كيا ہے؟

۵)حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى بحث كا حكومتى احكام كى بحث ميں كيا كردار ہے؟

۶) احكام ثانويہ كيا ہيں اور احكام اوليہ سے ان كا كيسا تعلق ہے؟

۲۸۱

اٹھائيسواں سبق :

حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلقہ

گذشتہ سبق ميں يہ ثابت ہوچكا ہے كہ فقيہ عادل جس طرح شرعى حكم كو استنباط كرسكتا ہے اسى طرح حكومتى حكم كے صادر كرنے كا بھى اختيار ركھتا ہے_

فتوى ميں فقيہ كا كام شارع مقدس كے حكم سے پردہ اٹھانا ہے _ اب جبكہ حكومتى حكم خود فقيہ صادر كرتا ہے_ حكومتى حكم كے جعل اور صادر كرنے ميں فقيہ عادل، شرعى اصول و مبانى كو بھى نظر ميں ركھتا ہے اور اسلام و مسلمين كى مصلحت كو بھى _ گذشتہ سبق كا آخرى سوال يہ تھا كہ ''حكومتى حكم اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانويہ ميں سے''؟

امام خمينى اس مسئلہ كے جواب كو'' اسلام ميں حكومت كے مقام ''كے ساتھ منسلك كرتے ہيں_ ان كى نظر ميں ولى فقيہ كے اختيارات اور حكومتى حكم كے صدور كا دائرہ اور حد، حكومت اور اسلامى نظام كے احكام اوليہ كے ساتھ رابطے كے تعيّن اور اسلام كى نظر ميں حكومت اور نظام كے مقام كو واضح و مشخص كرنے كے تابع ہے_

۲۸۲

اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى نجف اشرف ميں اپنے فقہ كے دروس خارج ميں اس نكتہ پر اصرار كرتے تھے كہ حكومت اور اسلامى نظام اسلامى فروعات ميں سے ايك فرع يا اجزائے اسلام ميں سے ايك جزء نہيں ہے بلكہ اس كى شان اس سے بہت بلند ہے اس طرح كہ فقہى احكام حكومت اور اسلامى نظام كى حفاظت اور تثبيت كيلئے ہيں _ اسلامى حكومت شريعت كى بقاء اور حفاظت كى ضامن ہے اسى لئے اولياء الہى نے نظام اسلام و مسلمين كى حفاظت اور بقاء كيلئے اپنى جانوں كو خطرات ميں ڈالتے تھے _ ان كى نظر ميں شرعى احكام امور حكومت ميں سے ہيں_ شرعى احكام ذاتاً مقصود اور ہدف نہيں ہيں بلكہ عدل و انصاف قائم كرنے كيلئے اسلامى حكومت كے ذرائع ہيں اسى لئے روايات ميں حاكم اور ولى فقيہ كو اسلام كا قلعہ كہا گيا ہے (۱) _

''الاسلام هو الحكومة بشؤونها، و الاحكام قوانين الاسلام و هى شان من شؤونها ، بل الاحكام مطلوبات بالعرض و امور آلية لاجرائها و بسط العدالة'' (۲)

امام خمينى اس بات پر اصرار كرتے ہيں كہ حكومت اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے_ نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام پر مقدم ہے_ رہبر انقلاب آيت اللہ خامنہ اى كے نام لكھے گئے اپنے ايك خط ميں امام خمينى فرماتے ہيں:

حكومت رسولخدا (ص) كى ولايت مطلقہ كا ايك شعبہ ہے، اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے، اور اس كے تمام احكام فرعيہ ،نماز روزہ اور حج و غيرہ پر مقدم ہے(۳)

____________________

۱) امام خمينى كى درج ذيل عربى عبارت كا مفہوم بھى يہى ہے _(مترجم)

۲) كتاب البيع، ج ۲ ص ۴۷۲_

۳) صحيفہ نور ج ۲۰ ، ص ۱۷۰

۲۸۳

لہذا حكومتى حكم كا صدور اسلام اور نظام مسلمين كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے_ ضرورى نہيں ہے كہ عناوين ثانويہ مثلا عسروحرج ، اضطرار يا اختلال نظام ميں سے كوئي ہو بلكہ اسلامى حكم كى مصلحت حكومتى حكم كى بنياد قرار پاتى ہے اگر چہ مذكورہ عناوين ميں سے كوئي بھى نہ ہو_

اس كے باوجود انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں بعض موارد ميں انہوں نے حكومتى حكم كے صدور اور بظاہر شريعت كے منافى احكام و قوانين بنانے كا حق پارليمنٹ كو ديا ليكن احتياط اور مزيد استحكام كيلئے ايسے قوانين كے وضع كرنے كو اختلال نظام ، ضرورت اور عسرو حرج جيسے ثانوى عناوين كے ساتھ منسلك كرديا_ اگر چہ آپ فقہى لحاظ سے حكومتى حكم كے صدور كو ان عناوين پر موقوف نہيں سمجھتے اور اسے اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں_

مورخہ ۲۰/ ۷/ ۱۳۶۰ ھ ش كو قومى اسمبلى كے اسپيكر كو ايك خط كا جواب ديتے ہوئے لكھتے ہيں:

وہ شئے جو اسلامى نظام كى حفاظت ميں دخالت ركھتى ہے ، جس كا انجام دينا يا ترك كردينا اختلال نظام كا باعث بنے، خرابى و فساد كا باعث بنے يا اس سے حرج و مرج لازم آتا ہو، تو پارليمنٹ كے ممبران كى اكثريت را ے كے ذريعہ موضوع كى تشخيص كے بعد اس وضاحت كے ساتھ قانون بنايا جائے كہ جب تك يہ موضوع ہے يہ قانون ہے_ اور موضوع كے ختم ہونے كے ساتھ ہى يہ قانون لغو ہوجائے گاوہ اس قانون كے بنانے اور جارى كرنے كا اختيار ركھتے ہيں_(۱)

اس اصرار كے ساتھ كہ حكومت ''اسلام كے احكام اوليہ'' ميں سے ہے_ اپنى مبارك زندگى كے آخرى سالوں ميں اس ميں اور شدت آگئي اور انہوں نے صاف الفاظ ميں كہہ ديا كہ حكومتى حكم كا صدور'' مصلحت نظام'' پر مبنى ہے _مصلحت نظام اختلال نظام ، ضرورت اور عسر و حرج جيسے عناوين ثانوى سے قطعى مختلف ہے

____________________

۱) صحيفہ نور، ج ۱۵ ، ص ۱۸۸_

۲۸۴

اسى لئے مصالح كى تشخيص اور حكومتى حكم كے صادر كرنے ميں ولى فقيہ كى مدد كرنے كے لئے '' مجمع تشخيص مصلحت نظام ''كے نام سے ايك ادارہ تشكيل ديا گيااور حكومتى احكام كے مبانى كى تشخيص كا كام اس كے سپرد كيا گيا_

فقيہ كى ولايت مطلقہ

فقيہ كى '' ولايت عامّہ ''، ''نيابت عامہ'' يا ''عمومى ولايت'' جيسے الفاظ سابقہ فقہاء كے كلمات ميں استعمال ہوتے رہے ہيں_ ليكن '' ولايت مطلقہ'' كى تعبير عام نہيں تھى _ امام خمينى كے كلمات ميں رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كى سياسى ولايت كو ''ولايت مطلقہ ''سے تعبير كيا گيا ہے_ اور يہى خصوصيت جامع الشرائط فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے_ ۱۳۶۸ ھ ش ميں جب اساسى قانون پر نظر ثانى كى گئي تو اس ميں لفظ '' ولايت مطلقہ ''استعمال ہونے لگا _

اسلامى جمہوريہ ايران ميں قواى حاكم يہ ہيں: مقننہ ،مجريہ اور عدليہ يہ تينوں ادارے ولايت مطلقہ كے زير نظر اس قانون كے آئندہ طے پانے والے اصولوں كے مطابق عمل كريںگے_(۱)

''ولايت مطلقہ'' ميں لفظ '' مطلقہ'' اور'' فلسفہ سياست'' كى اصطلاح ميں استعمال ہونے والے لفظ ''مطلقہ''كے درميان لفظى شباہت كى وجہ سے بعض لا علم اور مخالفين نے ولايت فقيہ پر اعتراض كيا ہے _

فلسفہ سياست كى رائج اصطلاح ميں'' حكومت مطلقہ'' ڈكٹيٹر شپ اورمطلق العنان آمريت كو كہتے ہيں_ جس ميں حكومت كا سربراہ اپنى مرضى سے حكومت چلا تا ہے ، دل خواہ قوانين وضع كرتا ہے اور معاشرے كا

____________________

۱) قانون اساسى اصل ۵۷_

۲۸۵

خيال نہيں ركھتا_ آنے والے مطالب سے واضح ہوجائے گا كہ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''بنيادى طور پراس ''حكومت مطلقہ''سے بہت مختلف ہے_

ولايت فقيہ كے مفہوم كے صحيح ادارك كيلئے درج ذيل تمہيد پر غور كرنا ضرورى ہے_

فقہى استنباط كى حقيقت ،در اصل شارع كے جعل اور انشاء كو كشف كرنا ہے_فتوى ، كے وقت فقيہ، نہ حكم كو جعل كرتا ہے نہ نافذ كرتا ہے_ فقيہ، ادلّہ كى طرف رجوع كر كے اس مسئلہ سے پردہ اٹھاتا ہے كہ نماز عشاء واجب ہے، اس حكم كا ايك نفاذ ہے _ اور وہ نماز مغرب كے بعد نماز عشاء كا پڑھنا ہے_ نماز عشاء كا پڑھنا فقيہ كے تعين ، را ے اور نافذ كرنے پر موقوف نہيں ہے_ وہ موارد جن ميں شرعى حكم كو متعدد طريقوں سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے ان كے نافذ كرنے كى كيفيت ميں بھى فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا_ مثلا اسلامى شريعت ميں شادى كرنا جائز ہے_ اس حكم جواز (بمعناى اعم)كے متعدد نفاذ ہيں يعنى مرد كو اختيار ہے كہ وہ كسى بھى خاندان، قبيلہ يا قوم سے اپنے لئے زوجہ كا انتخاب كرسكتا ہے_اس جواز كے انشاء اور نفاد كى كيفيت ميں فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا بلكہ فقط اس شرعى حكم كا كشف كرنا فقيہ كى علمى كوشش كے ساتھ و ابستہ ہے_

جبكہ اس كے مقابلہ ميں ''حكومتى حكم ''ميں جعل اور نفاذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _ فقيہ بعض موارد ميں حكم كو جعل كرتا ہے اور بعض موارد ميں نافذ كرتا ہے_ مثلا حدود الہى كے اجراء كے سلسلہ ميں فقيہ عادل كے حكم كے بغير كسى مجرم پر الہى حدود جارى نہيں كى جاسكتيں_ اسى طرح اگر فقيہ كسى مصلحت كى بنياد پر بعض مصنوعات يا اشيا كو ممنوع يا كسى ملك كيساتھ تجارت كرنے كو حرام قرار ديتاہے يا اس كے برعكس ان مصنوعات كى بعض مخصوص ممالك كيساتھ تجارت كو جائز قرار ديتاہے تو اس نے ايك تو حكومتى حكم '' جعل'' كيا ہے اور دوسرا اسے ايك خاص طريقے سے نافذ كرنے كا حكم ديا ہے_ كيونكہ مباح مصنوعات يا اشياء كى تجارت كو متعددطريقوں

۲۸۶

سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے_ اور اسے مختلف طريقوں سے فروخت كيا جاسكتا ہے _ خاص كيفيت اور موردكا تعيّن ايك حكم كى تنفيذ ميں مداخلت ہے_

حاكم شرع كى تنفيذى دخالت كى دوسرى مثال دو شرعى حكموں ميں تزاحم اور تصادم كا مورد ہے_ معاشرے ميںاجرائے احكام كے وقت بعض اوقات دو شرعى حكموں ميں تصادم ہوجاتا ہے_ اس طرح كہ ايك كو ترجيح دينے كا مطلب دوسرے كو ترك كرنا ہوتاہے _ اس وقت ولى فقيہ اہم مورد كو تشخيص دے كر اہم شرعى حكم كو نافذ كرتا ہے اور دوسرے كو ترك كر ديتا ہے_

موردبحث نكتہ يہ ہے كہ كيا ولى فقيہ كسى اہم شرعى حكم كے بغير بھى كسى دوسرے حكم كے نفاذ كو روك سكتاہے؟ يعنى اگر كسى مورد ميں وجوب يا حرمت كا حكم موجود ہے توكيا اس ميں مصلحت كى صورت ميں ولى فقيہ اس حكم كے برخلاف كوئي دوسرا حكم'' جعل'' كرسكتا ہے؟ مثلا عارضى طور پر مسلمانوں كو حج تمتع سے روك دے؟ يہاں دو مختلف بنيادى نظريے ہيں_ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كے حامى اس سوال كا جواب ہاں ميں ديتے ہيں _ ليكن فقيہ كي'' ولايت مقيّدہ '' كے حامى فقيہ عادل كيلئے اس قسم كے كسى حق كے قائل نہيں ہيں_

فقيہ كى ولايت مقيّدہ كے حامى معتقد ہيں كہ حكومتى حكم كى جگہ وہاں ہے جہاں شريعت كا كوئي الزامى حكم نہ ہو اور يہ كہ حكومتى حكم كے صدور ميں'' ولى فقيہ'' شريعت كے تابع ہے كسى تصادم و تزاحم كے بغير صرف كسى مصلحت كى وجہ سے شريعت كے واجب يا حرام كے برعكس كوئي حكم صادر نہيں كرسكتا _ ان كى نظر ميں حكومتى حكم كا دائرہ غير الزامى احكام يا الزامى احكام_ تزاحم كى صورت ميں _اور يا اس موردتك محدود ہے كہ جس كے متعلق شريعت نے كوئي حكم بيان نہيں كيا ولى فقيہ حكومتى حكم كے ذريعہ اس قانونى خلا كو پر كر سكتا ہے_ يہ سكوت يا شريعت كے حكم اوّلى كا نہ ہونا شريعت كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہے بلكہ اس مورد ميں طبعى تقاضا يہ تھا

۲۸۷

كہ كسى الزامى حكم سے سكوت اختياركيا جائے _ شہيد صدر فرماتے ہيں:

واقعات اور انسانى ضروريات كى متغير حقيقت باعث بنتى ہے كہ ان ميں كوئي حكم وضع نہ كيا جائے البتہ شارع نے اسے مہمل اور بے مہار نہيں چھوڑا ، بلكہ اسلامى حكومت كے سربراہ كو حق ديا ہے كہ وہ اس موقع كى مناسبت سے حكم جعل كرے_(۱)

علامہ طباطبائي بھى فقيہ كى ولايت مقيدہ كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں اسلامى قوانين دو قسم كے ہيں متغير اور ثابت _

اسلام كے ثابت قوانين و احكام انسان كى فطرت ،اور ان خصوصيات كو مدنظر ركھتے ہوئے بنائے گئے ہيں جو بدلتى نہيں ہيں اور انہيں اسلامى شريعت كا نام ديا گيا ہے _ احكام كى دوسرى قسم جو كہ قابل تغير ہے اور زمان و مكان كى مصلحت كے مختلف ہونے سے مختلف ہوجاتے ہيں يہ ولايت عامہ كے آثار كے عنوان سے رسولخدا (ص) ،ائمہ معصومين اور ان كے مقرر كردہ جانشينوںكى را ے سے مربوط ہوتے ہيں اور وہ انہيں دين كے ثابت قوانين اور زمان و مكان كى مصلحت كے پيش نظر تشخيص ديتے ہيں اور جارى كرتے ہيں _ البتہ اصطلاحى لحاظ سے اس قسم كے قوانين دينى اور شرعى احكام ميں شمار نہيں ہوتے_ ثقافت اور لوگوں كى معاشرتى زندگى كى پيشرفت اور ارتقاء كے لئے ولى امر جو قوانين وضع كرتا ہے واجب الاجرا ہونے كے باوجود وہ شريعت اور حكم الہى كے زمرہ ميں نہيں آتے اس قسم كے قوانين كا اعتبار اس مصلحت كے تابع ہے جو ان كے وضع كرنے كا باعث بنى ہے_ ليكن احكام الہى جو كہ عين شريعت ہيں ہميشہ ثابت رہتے ہيں اور كوئي بھى حتى كہ ولى امر بھى يہ حق نہيں ركھتا كہ وقتى مصلحت كى وجہ سے انہيں تبديل يا لغو كردے(۲)

____________________

۱) اقتصادنا ،شہيد محمد باقر صدر، ص ۷۲۱_

۲) فرازہاى از اسلام، ص ۷۱ _ ۸۰_

۲۸۸

اس نظريہ كے مقابلہ ميں كہ جو فقيہ كى ولايت عامہ كو شرعى احكام ميں محدود قرار ديتاہے امام خميني، فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كا دفاع كرتے ہيں _

اس نظريہ كے مطابق شريعت كے الزامى احكام بھى حكومتى حكم كے صدور ميں ركاوٹ نہيں بن سكتے _ اورفقيہ كى ولايت شريعت كے حصارميں محدود اور منحصر نہيں ہے_ اگر اسلامى نظام اور مسلمانوں كى مصلحت كا تقاضا ہو، تو جب تك يہ مصلحت ہے _جو كہ سب سے اہم مصلحت ہے_ فقيہ وقتى طور پر حكومتى حكم صادر كرسكتاہے اگر چہ وہ حكم شريعت كے كسى الزامى حكم كے منافى ہى كيوں نہ ہو_

پس شرعى احكام كے لحاظ سے فقيہ كى ولايت محدود اور مقيد نہيں ہے بلكہ مطلق ہے _ اس نظريہ كا سرچشمہ اور بنياد يہ ہے كہ امام خمينى كى نظر ميں'' حكومت'' اسلام كے احكام اوليہ ميں سے ہے اور نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام اوليہ پر مقدم ہے _

حكومت يا ''ولايت مطلقہ'' جو كہ اللہ تعالى كى طرف سے آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي ہے اہم ترين حكم الہى ہے اور خدا كے تمام احكام فرعيہ پر مقدم ہے _ اگر حكومتى اختيارات احكام فرعيہ الہيہ ميں محدودہوجائيں تو آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي حكومت الہى اور ولايت مطلقہ ايك كھوكھلى سى چيز بن كر رہ جائے گى _ حكومت ہر اس عبادى يا غير عبادى امر كو اس وقت تك روك سكتى ہے جب تك اس كا اجرا مصلحت اسلام كے منافى ہو(۱)

حكومتى حكم كا صدور، حفظ نظام كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے _ امام خمينى كى نظر ميں اگر حفظ نظام كى مصلحت اس حد تك پہنچ جائے كہ ولى فقيہ كى نظر ميں وہ شريعت كے كسي'' حكم اولي'' كے ساتھ ٹكرارہى ہے تو ہميشہ حفظ نظام كى مصلحت مقدم رہے گي_ اور اس شرعى حكم كے ملاك اور مصلحت سے اہم قرار پائے گى اورولي

____________________

۱) صحيفہ نور، جلد ۲۰ صفحہ ۱۷۰_

۲۸۹

فقيہ كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اس مصلحت پر عمل كرے او رجب تك وہ مصلحت باقى ہے اہم كو مہم پر ترجيح دے_

آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اگر چہ اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون اساسى كى شق ۱۱۰ ميں ''ولى فقيہ ''كے وظائف اور اختيارات ذكر كئے گئے ہيں ليكن فقيہ كى ''ولايت مطلقہ'' كو ديكھتے ہوئے اس كے اختيارات ان امور ميں محدود نہيں ہيں بلكہ اس كے اختيارات كا دائرہ اسلامى معاشرہ كے مصالح كى بنياد پر ہوگا_

۲۹۰

خلاصہ:

۱) امام خمينى حكومت اور اسلامى نظام كو اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں _

۲) ان كى نظر ميں حكومت ،فقہ كے اجزا ميں سے نہيں ہے_ بلكہ تمام كى تمام فقہ نظام مسلمين كى حفاظت كيلئے ہے_ اسى لئے اسلامى حكومت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے _

۳) اس بناپر حكومتى حكم كا صدور كسى ثانوى عنوان كے محقق ہونے پر موقوف نہيں ہے_

۴) امام خمينى انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں احتياط كى بناپرحكومتى اورظاہر شريعت كے منافى حكم كو ثانوى عناوين كے ساتھ مربوط سمجھتے تھے_

۵) فقيہ كى ولايت مطلقہ كى بحث براہ راست حكومتى حكم كے صدور كى بحث كے ساتھ منسلك ہے _

۶) فقيہ كى ولايت مطلقہ اور سياسى فلسفہ ميں موجود حكومت مطلقہ كو ايك جيسا قرار نہيں ديا جاسكتا_

۷) فتوى كے برعكس حكومتى حكم ميں جعل و انشاء اور تنفيذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _

۸) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا لازمہ يہ ہے كہ اگر مصلحت كا تقاضا ہو تو فقيہ عادل شريعت كے الزامى حكم يعنى وجوب و حرمت كے منافى حكم بھى صادر كرسكتاہے_

۹) فقيہ كى ولايت مقيدہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ، فقط شريعت كے غير الزامى احكام كے مقابلہ ميں حكومتى حكم صادر كرسكتاہے _ اس كى ولايت، شريعت كے الزامى احكام كے عدم وجود كے ساتھ مشروط ہے _

۱۰ ) امام خمينى كى نظر ميں جب حفظ نظام كى مصلحت كسى شرعى حكم كى مصلحت كے ساتھ ٹكرا جائے تو حفظ نظام كى مصلحت اہم اور مقدم ہے _

۲۹۱

سوالات:

۱) حكومت كے مقام اور احكام شريعت كے ساتھ اس كے رابطہ كے متعلق امام خميني كا نظريہ كيا ہے ؟

۲) فقيہ كى ولايت مطلقہ سے كيا مراد ہے ؟

۳) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا حكومت مطلقہ كى بحث سے كيا تعلق ہے ؟

۴) فقيہ كى ولايت مقيدہ سے كيا مراد ہے ؟

۵) جب حفظ نظام كى مصلحت ، شريعت كے احكام اوليہ كے ملاكات سے ٹكرا جائے تو كيا كرنا چاہيے؟

۲۹۲

انتيسواں سبق :

دينى حكومت كے اہداف اور فرائض -۱-

كسى سياسى نظام كے دوسرے سياسى نظاموں سے امتياز كى ايك وجہ وہ فرائض ، اختيارات اور اہداف ہيںجو اس كے پيش نظر ہيں _ مختلف مكا تب اور سياسى نظام اپنى حكومت كيلئے مختلف اہداف اور فرائض قرار ديتے ہيں _ اگر چہ بہت سے اہداف مشترك ہوتے ہيں مثلاً امن عامہ كا برقرار كرنا اور دشمن كے تجاوز اور رخنہ اندازى سے خود كو محفوظ ركھنا ايسے اہداف ہيں كہ جنہيںتمام سياسى نظاموں نے اپنے اپنے ذوق و سليقہ كے مطابق اپنے اوپر فرض قرار دے ركھاہے _

آج سياسى ماہرين اور مفكرين كے در ميان حكومت كے فرائض اور اختيارات كے متعلق بڑى سنجيدہ بحثيں ہو رہى ہيں _ بعض سياسى نظريات'' حكومت حداقل'' كا دفاع كرتے ہيں _ ان سياسى فلسفوںكا عمومى اعتقاد يہ ہے كہ جتنا ممكن ہو سكے حكومت مختلف امور ميں كم سے كم مد اخلت كيا كرے_ انيسويں صدى كے كلاسيكى اور آج كے نيولبرل ازم ( New Liberalism ) اقتصادى لحاظ سے بازار تجارت ميں حكومت كى كمترين مداخلت كے قائل ہيں انكا نظريہ يہ ہے كہ بازار ميں موجود كارو بار و تجارت ميں حكومت كى عدم مداخلت سے

۲۹۳

اقتصادى توازن بر قرار رہے گا _اور حكومت كى مداخلت آزاد تجارت كے نظم و نسق كو در ہم بر ہم كردے گى _ اس كے مقابلہ ميں سو شلزم كى طرف مائل افراديہ چاہتے ہيں كہ حكومت براہ راست اقتصادى امور ميں مداخلت كرے حتى كہ تمام اقتصادى مراكز حكومت كے ہاتھ ميں ہونے چاہئيں_ اس نظريہ كى ہلكى سى جھلك لبرل ازم كى تاريخ كے ايك مختصر دور ميں دكھائي ديتى ہے _جديد لبرل ازم جو كہ بيسويں صدى كے اوائل سے ليكر ۱۹۷۰ تك رہا ہے رفاہى رياست (۱) كا خواہاں ہے _ وہ چاہتاہے كہ حكومت آزاد تجارت ميں مداخلت كرے تا كہ ايك طرف بازار رونق پكڑے اور دوسرى طرف آسيب پذير طبقے كا دفاع ہو اور معاشرتى اور اجتماعى امور پر كوئي زد نہ پڑے _

اقتصاد سے ہٹ كر سياسى فلسفہ كى ايك اہم ترين بحث يہ بھى ہے كہ سعادت ، اخلاقيات اور معنويات ميں حكومت كا كيا كردار ہے _ اور ان كے ارتقاء كے سلسلہ ميں حكومت كے كيا فرائض ہيں ؟كيا عوام كى سعادت اور نجات بھى حكومت كے اہداف اور فرائض ميں سے ہے؟

ماضى ميں بھى بہت سے سياسى فلسفے خير و سعادت پر گہرى نگاہ ركھتے تھے _سياسى ماہرين اپنے سياسى نظاموں كو خير و سعادت كى بنياد پر متعارف كرواتے تھے اورخيرو سعادت كى جو مخصوص تعريف كرتے تھے اسى لحاظ سے اپنے اہداف اور دستور العمل كو متعين كرتے تھے _آخرى دو صديوں ميں ہم نے ايسے ايسے سياسى نظريات ديكھے ہيں جو اس سلسلہ ميں حكومت كے كردار اور فرائض كوبالكل نظر انداز كرتے ہيں ان نئے نظريات كى بنياد پر خير و سعادت جيسے امور حكومت كے فرائض و اہداف سے خارج ہيں_ حكومت كا كام فقط امن وامان اور رفاہ عامہ كے متعلق سو چناہے _ اور اسے چاہيے كہ خيروسعادت ، اور اخلاق و معنويت جيسے امور خود عوام اور معاشرے كے افراد كے حوالہ كردے_

____________________

۱) Welfare State .

۲۹۴

لبرل ازم اس نظريہ كى سخت حمايت كرتا ہے كہ اس قسم كے امور عوام كے ساتھ مربوط ہيں لہذا ان امور ميں حكومت كسى قسم كى مداخلت نہيں كر سكتى ، بلكہ اس قسم كے مسائل ميں مداخلت لوگوں كے ذاتى مسائل ميں مداخلت ہے اور ان كے حقوق اور ان كى شخصى آزادى كو سلب كرنے كے مترادف ہے_ حكومت كو اپنے فرائض عوامى حقوق اور شخصى آزادى كو ملحوظ خاطر ركھ كر انجام دينے چاہيں_ لبرل نظريات كے حامى افراد كى نظر ميں ''حقوق بشر كا عالمى منشور'' جو كہ لبرل نظريات كے اصولوں كى بنياد پر بنايا گياہے، حكومت كے اہداف و فرائض متعين كرنے كيلئے انتہائي مناسب راہنماہے حكومت كو اسى كا دفاع كرنا ہے اور اسے امن وامان برقرار ركھنے ، شخصى مالكيت كى حفاظت، ثقافتى ، مذہبى اور اقتصادى آزادى كيلئے كوشش كر نى چاہيے _ خير و سعادت اور اخلاقيات كو خود عوام كے سپرد كرد ے تا كہ ہر شخص اپنى مرضى كى خير و سعادت كے متعلق اپنے مخصوص نظر يہ كے مطابق زندگى گزار سكے_

ا س تمہيد كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ ديكھنا ہے كہ اسلام كن اہداف اور فرائض كو حكومت كے كندھوں پر ڈالتا ہے _حكومت كے متعلق اسلام كا نظر يہ كيا ہے ،اور اس كيلئے كس مقام كا قائل ہے ؟

ہم اس تحقيق كو تين مرحلوں ميں انجام ديں گے ، پہلے حكومت اور اس كے مقام كے متعلق اسلامى نظر يہ كى تحقيق كريں گے _پھر دينى حكومت كے اہداف پر ايك نگاہ ڈاليں گے اور آخر ميں اسلامى سربراہوں كے جزئي وظائف اور فرائض كى طرف اشارہ كريں گے _

حقيقت حكومت از نظر اسلام

دوسرے باب ميں ''اسلام كى نظر ميں امامت اور سياسى قيادت كے مقام و مرتبہ'' كے متعلق ہم تفصيلى گفتگو كر چكے ہيں _يہاں حقيقت و ماہيت كے متعلق بحث سے ہمارى يہ مراد نہيں ہے كہ ہم نئے سرے سے اس كى

۲۹۵

اہميت كا تذكرہ كرنا چاہتے ہيں _ بلكہ يہاں ہم يہ جاننا چاہتے ہيں كہ حكومت كو اسلام كس نگاہ سے ديكھتاہے اور اس كے نزديك اس كى ماہيت اور حقيقت كيا ہے ؟

آيات و روايات كى طرف رجوع كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلام كى نگاہ ميں حكومت اور دنيوى مقامات و مناصب بذات خود كوئي اہميت و كمال نہيں ركھتے، ''حكومت'' ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كا نام ہے _ اس ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كيلئے اہليت ، صلاحيت اور انفرادى كمالات كى ضرورت ہے -_ اسى وجہ سے اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے مخصوص خصوصيات اور شرائط كا لحاظ ركھا گيا ہے - _اسلام كى نگاہ ميں ہر قسم كا اجتماعى منصب خصوصاًحكومت اور امارت ايك الہى امانت ہے لہذا اسے كوئي كمال شمار نہيں كيا جاتا -_ سورہ نساء كى آيت ۵۸ ميں ارشاد خداوندى ہے:

( ''إنَّ الله َ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمَانَات إلَى أَهلهَا وَإذَا حَكَمتُم بَينَ النَّاس أَن تَحكُمُوا بالعَدل إنَّ الله َ نعمَّا يَعظُكُم به إنَّ الله َ كَانَ سَميعا بَصيرا'' ) (۵۸)

يقينا خدا تمہيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے درميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _ خدا تمھيں بہترين نصيحت كرتا ہے بے شك خدا سننے والا اور ديكھنے والا ہے_

حضرت اميرالمومنين آذربايجان ميں لشكر اسلام كے سپہ سالار اشعث ابن قيس كو ايك خط ميں تاكيد كرتے ہيں كہ حكومت اور امارت تيرے لئے ايك لذيذ لقمہ نہيں ہے كہ تو اس سے لطف اندوز ہو -_ بلكہ ايك بار امانت ہے جسكا تجھے جواب دينا ہے _ بيت المال در حقيقت خدا كا مال ہے _ لہذا اس كيلئے امانتدار محافظ بنو_

۲۹۶

انّ عملك ليس لك بطعمة ، و لكنّه ف عْنقك أمانة ، و أنت مسترعى لمَن فوقك ليس لك أن تفتات ف رعيّة ، و لا تخاطر إلّا بوثيقة ، و ف يديك مال من مال الله (عزّوجلّ) و أنت من خْزّانة حتى تسلّمه إلّ (۱)

يہ امارت تيرے لئے روزى كا وسيلہ نہيں ہے- بلكہ تيرى گردن ميں امانت (كا طوق) ہے تمہارے لئے ضرورى ہے كہ اپنے فرمانروا اور امام كى اطاعت كرو، اور تمہيں يہ حق حاصل نہيں ہے كہ اپنى رعيت كے معاملہ ميں جو چاہو كر گزر و خبردار كسى مضبوط دليل كے بغير كوئي اہم قدم مت اٹھانا اور تيرے ہاتھ ميں خدا كا مال ہے تو اس كا ايك محافظ ہے يہاں تك كہ اسے ميرے پاس پہنچا دے

اپنے ايك اور عامل كے نام لكھے گئے خط ميں مقام و منصب سے غلط اور ناجائز فائدہ اٹھانے كو امانت الہى ميں خيانت كے مترادف قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''فَقَد بلغنى عنك أمر إن كنت فعلته فقد أسخطت ربّك و عصيت إمامك و أخزيتَ أمانتك '' (۲)

تمھارے متعلق مجھے ايك اطلاع ملى ہے _ اگر واقعاً تونے ايسا كيا ہے تو پھر تو نے اپنے رب كو غضبناك كيا ہے، اپنے امام كى نافرمانى كى ہے اور اپنى امانت كو رسوا كيا ہے _

حضرت اميرالمومنين حكومت اور اسكے منصب كو ايك امانت سمجھتے ہيں اور اس ميں خيانت كرنے كو بارگارہ پروردگار ميں ذلت و رسوائي كا باعث قرار ديتے ہيں_ اسلامى نقطہ نظر سے حكومتى اہلكار، خدا كى بارگاہ

____________________

۱) نہج البلاغہ ،مكتوب ۵_

۲) نہج البلاغہ ، مكتوب ۴۰_

۲۹۷

ميں اس امانت الہى كے سلسلہ ميں جوابدہ ہيں جو انہوں نے اپنے كندھوں پر اٹھا ركھى ہے _ اہواز كے قاضى ''رفاعہ'' كو لكھتے ہيں :

''اعلم يا رفاعة انّ هذه الامارة امانة فَمَنْ جعلها خيانة فعليه لعنة الله الى يوم القيامة و من استعمل خائنا فان محمد (ص) برى منه فى الدنيا والاخرة'' (۱)

اے رفاعہ جان لو كہ يہ امارت ايك امانت ہے جس نے اس ميں خيانت كى اس پر قيامت تك خدا كى لعنت ہے _اور جو كسى خائن كو عامل بنائے رسولخدا (ص) دنيا و آخرت ميں اس سے برى الذمہ ہيں_-

جلال الدين سيوطى اپنى تفسير ميں حضرت على سے يوں نقل كرتے ہيں :

''حقّ على الإمام أن يحكم بما أنزل اللّه و أن يؤدّ الأمانة ، فإذا فعل ذلك فحقّ على النّاس أن يسمعوا له و أن يطيعوا ، و أن يجيبوا إذا دعوا'' (۲)

امام كيلئے ضرورى ہے كہ وہ خدا كے احكام كے مطابق فيصلے كرے اور امانت كو ادا كرے _ پس جب وہ ايسا كرے تو لوگوں پر واجب ہے كہ اس كى بات سنيں اس كى اطاعت كريں اور جب وہ بلائے تو لبيك كہيں_

حكومت بذات خود كوئي معنوى حيثيت نہيں ركھتي_ اور نہ ہى حاكم كيلئے كوئي كمال شمار ہوتا ہے_ مگر يہ كہ وہ اس سياسى اقتدار كے ذريعہ اس ذمہ دارى اور امانت الہى كو صحيح طور پر ادا كرے_

عبدالله ابن عباس كہتے ہيں كہ بصرہ كى طرف جا تے ہوئے '' ذى قار'' نامى ايك جگہ پر ميں اميرالمومنين كے پاس گيا _ وہ اپنے جوتے كو ٹانكا لگا رہے تھے _ مجھ سے پوچھتے ہيں اس جوتے كى قيمت كيا ہے ؟ ميں نے جواب ديا: كچھ بھى نہيںتو آپ نے فرمايا :

____________________

۱) دعائم الاسلام، ج ۲ ، ص ۵۳۱_

۲) الدر المنثور ،ج ۲ ، ص ۱۷۵_

۲۹۸

''واللّه له أحبّ إلّ من إمرتكم ، إلّا أن أْقيم حقّا أو أدفع باطلا'' (۱)

خدا كى قسم ميں اسے تم پر حكومت كرنے سے زيادہ پسند كرتا ہوں _ مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كو دور كردوں _

بنابريں حكومت اور قيادت اس وقت اہميت ركھتے ہيں جب اس كے اہداف عملى شكل اختيار كرليں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كى تمام تر كوشش ان اہداف كو پورا كرنے كيلئے ہو _

دينى حكومت كے اہداف :

دينى منابع كى طرف رجوع كرنے سے يہ حقيقت عياں ہوجاتى ہے كہ اسلام ،حكومت كے اہداف كو رفاہ عامہ اور امن وامان برقرار كرنے ميں محدود نہيں كرتا _ بلكہ اسلامى معاشرہ كى خير و سعادت اور معنويات سے مربوط امور كو بھى حاكميت كے دستورالعمل ميں سے قرار ديتا ہے دينى حكومت كيلئے ضرورى ہے كہ وہ معاشرے كو ايمان اور اخلاق سے لبريز زندگى فراہم كرئے اور رفاہ عامہ كے ساتھ ساتھ دينى ثقافت اور الہى پيغامات كے فروغ پر بھى زور دے _ دينى حكومت كے اہداف كو بيان كرنے والى بعض آيات اور روايات كى مدد سے ہم ان اہداف ميں سے بعض كى طرف اشارہ كريں گے _ كلى طور پر ہم ان اہداف كو دو بنيادى حصوں ميں تقسيم كرسكتے ہيں _ ايك حصہ معنوى اہداف پر مشتمل ہے اور دوسرا دنيوى اہداف پر_ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ايسے امور پر مشتمل ہيں جو بڑى حد تك غير دينى حكومتوں كے بھى مورد نظر ہوتے ہيں _ جبكہ دينى حكومت كے معنوى اہداف وہ امور ہيں جو فقط اسلامى حكومت كے ساتھ مخصوص ہيں اوراسلامى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتے ہيں_ دينى حكومت كى خصوصيت وہ عہد و پيمان ہے جو ان اہداف كو پورا كرتا ہے _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳ _ارشاد مفيد ،ج ۱، ص ۲۴۷ميں يہى حديث مختصر سے فرق كے ساتھ بيان كى گئي ہے _

۲۹۹

الف: معنوى اہداف

دينى حكومت كے معنوى اہداف سے مراد وہ كوششيں ہيں جو معاشرے كى فطرت الہى كے مطابق رشد و ترقى كى خاطر سازگار ماحول فراہم كرنے كيلئے كى جاتى ہيں_ ان ميں سے بعض كا تعلق تہذيب و ثقافت اور صحيح مذہبى پروپيگنڈے سے ہے _ اور بعض احكام شريعت اور حدود الہى كے نفاذ اور آلودگى و تباہى سے معاشرہ كو محفوظ ركھنے كے ساتھ تعلق ركھتے ہيں _ يہاں پر ہم ان آيات و روايات كو بطور نمونہ پيش كرتے ہيں جو دينى حكومت كے معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ پھر ان اہداف كى فہرست بندى كريں گے _

جو لوگ زمين پراقتدار حاصل كرليتے ہيں، اللہ تعالى ان كے ليئے كچھ مخصوص فرائض بيان كرتاہے_

مثلا نماز كا قائم كرنا ، نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _سورہ حج كى آيت ۴۱ ميں ارشاد خداوندى ہے_

( ''الذين ان مَكّنا هم فى الارض أقاموا الصلوة و آتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الامور ) _''

يہ وہ لوگ ہيں اگرہم انہيں زمين ميں اختيار ديں تو وہ نماز قائم كريں گے اور زكوة ادا كريں گے ، نيكى كا حكم ديں گے اور برائي سے منع كريں گے _ اور يقينا تمام امور كا انجام خدا كے اختيار ميں ہے_

معاشرتى عدل و انصاف پر اسلام نے بہت زيادہ زور ديا ہے _ يہاں تك كہ اسے دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں شمار كيا ہے _سورہ نحل كى آيت ۹۰ ميں ارشاد ہوتاہے:

( ''ان الله يأمر بالعدل والاحسان'' )

يقينا خدا عدل و انصاف اور نيكى كا حكم ديتا ہے _

سورہ شورى كى آيت ۱۵ ميں ارشاد ہے :

''( اُمرت لاعدل بينكم'' )

مجھے حكم ملاہے كہ تمھارے در ميان انصاف كروں_

۳۰۰

٥_ ظالم و ستمگر ہر قسم كے حامى و ناصر سے محروم ہيں _يا ايها الذين آمنوا لا تبطلوا صدقاتكم بالمن و الاذي و لا تيمموا الخبيث الشيطان يعدكم الفقر و ما للظالمين من انصار _

٦_ انفاق نہ كرنا يا انفاق كو احسان، اذيت و آزار سے آلودہ كرنا يا ناپسنديدہ چيزوں سے انفاق كرنا اور نذر پر عمل نہ كرنا ستم ہے_لا تبطلوا صدقاتكم بالمن والاذى انفقوا من طيبات و ما للظالمين من انصار

٧_ خدا تعالى ، انفاق كرنے والوں اور نذر پر عمل كرنے والوں كا ياورو مددگار ہے_و ما للظالمين من انصار

يہ نكتہ '' و ما للظالمين من انصار''كے مفہوم سے اخذ ہوتاہے كيونكہ صرف انفاق نہ كرنے والے خدا تعالى كى حمايت سے محروم ہيں _

٨_ انفاق اور نذر كو پورا كرنا معاشرے ميں باہمى تعاون كے پيدا ہونے اور اسكى وسعت كا سبب ہے_*

و ما انفقتم من نفقة او نذرتم من نذر و ما للظالمين من انصار لگتاہے انصار و مددگار ميں وہ لوگ بھى شامل ہيں جو انفاق كرنے والوں كے اموال سے بہرہ مند ہوتے ہيں يعنى انفاق كرنے والوں اور نذروں كو پورا كرنے والوں كو عوامى حمايت حاصل ہے_ نيز يہ خود بھى عوام اور معاشرے كے مددگار ہيں پس انفاق باہمى اور معاشرتى تعاون كے عام ہونے كا سبب بنتاہے_

٩_ انفاقات اور نذور كے بارے ميں خدا تعالى كى آگاہى كى طرف متوجہ رہنا انسان كو انفاقات اور نذور كے پورا كرنے كى ترغيب دلاتاہے_و ما انفقتم من نفقة او نذرتم من نذر فان الله يعلمه

احسان جتانا: احسان جتانے كے اثرات ٦

اذيت: اذيت كے اثرات٦

انسان: انسان كا عمل٣

انفاق: انفاق كا پيش خيمہ ٩;انفاق كى تشويق ٤; انفاق كى جزا ٢ ، ٧; انفاق كے آداب ١; انفاق كے انفرادى اثرات ٧;انفاق كے ترك كى مذمت ٦; انفاق كے معاشرتى اثرات ٨; ناپسنديدہ چيزوں سے انفاق ٦

۳۰۱

تحريك: تحريك كے عوامل ٤ ، ٩

تعاون: معاشرے ميں تعاون ٨

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ١ ، ٣ ، ٩;خدا تعالى كى امداد ٧;خدا تعالى كى جزا ٢

ظالمين :٥ ظلم : ظلم كے اثرات ٥;ظلم كے موارد ٦

علم: علم كے اثرات ٩

نذر: نذر پورى كرنے كا پيش خيمہ ٩;نذر پورى كرنے كے اثرات ٧،٨;نذر پورى نہ كرنے كے اثرات ٦;نذر كى تشويق ٤; نذر كى جزا ٢; نذر كے آداب ١

إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاء فَهُوَ خَيْرٌ لُّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (٢٧١)

اگر تم صدقہ كو على الاعلان دوگے تو يہ بھى ٹھيك ہے اور اگر چھپا كر فقراء كے حوالے كرد و گے تو يہ بھى بہت بہتر ہے اور اس كے ذريعہ تمھارے بہت سے گناہ معاف ہو جائيں گے او رخدا تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے _

١_ على الاعلان صدقہ دينا نيك اور قدر و قيمت والا عمل ہے_ان تبدوا الصدقات فنعما هي

٢_انفاق كرنے والے كيلئے آشكار صدقہ دينے كى

۳۰۲

بجائے مخفى طور پر صدقہ دينے كا زيادہ فائدہ ہے_ان تبدوا الصدقات فنعما هى و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم

لگتاہے كلمہ '' لكم'' اس نكتے كو بيان كررہاہے كہ مخفى صدقہ ، صدقہ دينے والے كيلئے زيادہ فائدہ مند ہے كيونكہ اس ميں ريا وغيرہ كا احتمال كم ہے ليكن اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ مخفى صدقہ ہر لحاظ سے آشكار صدقہ كى نسبت زيادہ فائدہ مند ہے_

٣_ پنہانى صدقہ كى قدر و قيمت آشكار صدقہ كى نسبت زيادہ ہے_ان تبدوا و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم

اس بناپر كہ كلمہ '' لكم'' قرينہ كے طور پر صرف پنہان صدقہ كے صدقہ دينے والے كيلئے زيادہ مفيد ہونے كو بيان نہ كررہاہو بلكہ آيت كے اطلاق كو مدنظر ركھا جائے_

٤_ صدقات كے ذريعے حاجتمندوں كى حاجت روائي كرنا انہيں ديگر مصارف ميں خرچ كرنے سے بہتر ہے_

ان تبدوا الصدقات و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم صدقات كے يقيناً بہت سارے مصارف ہيں ليكن ان ميں سے صرف فقراء كے ذكر كرنے سے انكى اولويت ظاہر ہوتى ہے_

٥_ انسان كى شخصيت كى حفاظت كى قدر و قيمت ہے_و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم

لگتاہے پنہاں صدقہ كى برترى كا ايك فلسفہ يہ ہے كہ اس ميں حاجتمندوں كى شخصيت اور آبرو محفوظ رہتى ہے كيونكہ صدقے كا مقصد ضرورت مندوں كى حاجت روائي كرناہے اور انسان اپنى آبرو كى حفاظت كے زيادہ ضرورتمند ہيں _

٦_ قرآن كريم كا لوگوں كو نيكيوں كى طرف راغب كرنے كے لئے ان كى منفعت طلبى كى سرشت سے استفادہ كرنا _

و ان تخفوها و توتوها الفقراء فهو خير لكم

٧_ فقرا ء كو مخفى طور پر صدقہ دينا بعض گناہوں كا كفارہ ہے_و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء و يكفر عنكم من سيّاتكم

٨_ انسان كے اعمال كا خدا تعالى كو پورا پورا علم ہے_و الله بما تعملون بصير

۳۰۳

٩_ انسان كا اس نكتے كى طرف متوجہ رہنا كہ خدا تعالى اسكے اعمال سے مكمل طور پر آگاہ ہے اسے انفاق كرنے كى تشويق دلاتا ہے_ان تبدوا الصدقات ...والله بما تعملون خبير

١٠_ رياكارى ، احسان جتانے اور تكليف پہنچانے سے پرہيز ،پنہانى صدقے كى برترى كا فلسفہ ہے_

لا تبطلوا صدقاتكم بالمن و الاذى كالذى ينفق ما له رئاء الناس و ان تخفوها سابقہ آيات ميں انفاق كى پاداش كا معيار يہ قرار ديا گيا ہے كہ وہ خدا كيلئے ہو اور رياكارى اور احسان وآزار سے خالى ہو اور چونكہ پنہانى صدقہ اس معيار پر پورا اترتاہے اسلئے اسكى قدر و قيمت زيادہ ہے_

١١_واجب صدقات ( زكات) كا آشكارا ًدينا اور مستحب صدقوں كا چھپاكر دينا بہتر ہے_ان تبدوا الصدقات

امام باقر (ع) :آيت ''ان تبدوا ...''كے متعلق فرماتے ہيں : ھى يعنى الزكاة المفروضة '' اس سے مراد واجب زكات ہے''اور پھر ''و ان تخفوہا و تؤتوہا الفقرائ''كے متعلق ايك سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں يعنى النافلة ''اس سے مراد مستحب صدقہ ہے''(١)

احكام: احكام كا فلسفہ ١٠

اقدار:١،٣،٥

انسان : انسان كا عمل ٨;انسان كى منفعت طلبى ٦

انفاق:انفاق كا پيش خيمہ ٩;انفاق كى پاداش ٧; انفاق كى فضيلت ٣;انفاقكےآداب ١ ، ٢ ، ٣ ، ١٠;انفاق ميں اولويت ٤

تحريك: تحريك كے عوامل ٦،٩

تربيت : تربيت كى روش ٦

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ٨ ،٩

روايت:١١

زكات: زكات كى ادائيگى ١١

شخصيت : شخصيت كى قدر و قيمت ٥

____________________

١) كافى ج٤ ص٦٠ ح١ ، نورالثقلين ج ١ ص ٢٨٩ ح ١١٤٥_

۳۰۴

صدقہ : صدقہ پنہانى ٢ ، ٣ ، ٧ ، ١٠ ، ١١; صدقہ كى فضيلت ١ ، ٣ ، ١٠; صدقہ كے آداب ١١;صدقہ كے مصارف ٤;صدقہ واجب ١١

علم : علم كے اثرات ٩

عمل: عمل صالح ١

فقير : فقير كى حاجت روائي ٤ ، ٧;فقير كى حاجت مندى ٤

گناہ : گناہ كا كفارہ ٧

نيكى : نيكى كا سرچشمہ ٦

لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلأنفُسِكُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَاء وَجْهِ اللّهِ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ (٢٧٢)

اے پيغمبر ان كى ہدايت پا جانے كى ذمہ دارى آپ پر نہيں ہے بلكہ خدا جس كو چاہتا ہے ہدايت ديديتا ہے او رلوگو جو مال بھى تم راہ خدا ميں خرچ كرو گے وہ در اصل اپنے ہى لئے ہو گا او رتم تو صرف خوشنودى خدا كے لئے خرچ كرتے ہو او رجو كچھ بھى خرچ كر و گے وہ پورا پورا تمھارى طرف واپس آئے گا اور تم پر كسى طرح كا ظلم نہ ہو گا _

١_ پيغمبر (ص) اسلام كى يہ ذمہ دارى نہيں ہے كہ وہ مسلمانوں كو تكليف دہى ، رياكارى اور احسان جتانے سے پاك انفاق پر مجبور كريں _ليس عليك هديهم چونكہ اس آيت كا گذشتہ آيات كے ساتھ ارتباط ہے اسلئے '' ليس عليك ہداہم '' كا مطلب يہ نكلتاہے كہ تيرے لئے ضرورى نہيں ہے كہ تو مسلمانوں سے زبردستى ايسا

۳۰۵

انفاق كرائے جو رياكارى ، تكليف دہى اور احسان جتانے سے خالى ہو_

٢_ انسانوں كا ہدايت پانا پيغمبر (ص) اسلام كى ذمہ دارى كے دائرے سے باہر ہے اور صرف مشيت الہى كا مرہون منت ہے_ليس عليك هديهم و لكن الله يهدى من يشاء

٣_ بعض مسلمانوں كے احسان، اذيت و آزار اور رياپر مبنى انفاق كى وجہ سے پيغمبر (ص) اسلام كى پريشانى اور اضطراب كو دور كرنے كيلئے خدا تعالى كا ان كى دل جوئي كرنا _ليس عليك هديهم

٤ _ پيغمبر (ص) اسلام كى انتہائي خواہش كہ لوگ ہدايت پاجائيں اور اس كے لئے آپ(ص) كى بھر پور كوششيں _

ليس عليك هديهم

٥_ خدا تعالى جسے چاہتاہے ہدايت كرتاہے_و لكن الله يهدى من يشاء

٦_ ہر اچھى چيز سے انفاق كرنا خود انفاق كرنے والے كے فائدے ميں ہے_و ما تنفقوا من خير فلانفسكم

اس نكتے ميں '' من''كو ابتدائيہ فرض كيا گيا ہے_

٧_ مال، خير ہے_و ما تنفقوا من خير اگر '' من'' '' ما تنفقوا''كے '' ما''كے لئے بيان ہو_

٨_ غير مسلموں پرانفاق كرنا جائز ہے_ليس عليك هديهم و ما تنفقوا من خير فلانفسكم يہ تب ہے كہ '' ہديہم'' كى ضمير سے مراد كفار اور مشركين ہوں اور اسكى تائيد بعض مفسرين كے اس قول سے بھى ہوتى ہے كہ اس آيت مباركہ كے نزول كا سبب مسلمانوں كا غير مسلموں پر انفاق كرنے سے پرہيز تھا_ ( مجمع البيان)

٩_ دين و مذہب كو مدنظرركھے بغير بينواؤں كى حاجت روائي كرنا اسلام كا بنيادى اصول ہے_

ليس عليك هديهم و ما تنفقوا من خير يہ نكتہ اس آيت مباركہ كے شان نزول كے متعلق بعض مفسرين كے اس قول كى بناپر ہے كہ اسكے نزول كا سبب مسلمانوں كا غير مسلموں كو صدقہ دينے سے پرہيز كرنا تھا_

١٠_ اسلامى معاشرے ميں غير مسلموں كى حالت زار

۳۰۶

كا خيال ركھنا قابل تحسين عمل ہے_ليس عليك هديهم و ما تنفقوا من خير

١١_انفاق صرف خدا تعالى كى رضا اور خوشنودى كيلئے جائز ہے_و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله

''و ما تنفقون'' بظاہر جملہ خبريہ ہے ليكن در حقيقت جملہ انشائيہ ہے_ يعنى ''و لا تنفقوا الا ''اور يا جملہ خبريہ ہے اس معنى ميں كہ مسلمان رضائے الہى كے بغير انفاق نہيں كرتے كيونكہ يہ انكى شان كے لائق نہيں ہے_

١٢_ رضائے الہى كے بغير انفاق كرنا مومنين كے ايمان كے ساتھ سازگار نہيں ہے_و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله

اگر ''و ما تنفقون'' جملہ خبريہ ہو يعنى مومنين جب تك با ايمان ہيں رضائے الہى كے بغير انفاق نہيں كريں گے اور اگر غير خدا كو مدنظر ركھيں گے تو روح ايمان سے خالى ہوں گے _

١٣_ انفاق، خدا كى خوشنودى حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله

١٤_ خدا وند متعال كى بارگاہ ميں انفاق كى قبوليت اور ثمر آور ہونا انفاق كرنے والے كى خالص نيت ميں منحصر ہے_

و ما تنفقون من خير فلانفسكم و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله اگر ''و ما تنفقون'' كا جملہ ''و ما تنفقوا فلانفسكم''كيلئے حال ہو يعنى انفاق كا تمہيں اس وقت فائدہ ہے جب خدا تعالى كى خوشنودى كيلئے ہو _

١٥_ خداوند متعال كى خوشنودى تب حاصل ہوتى ہے جب اس كے لئے كوشش اور جد و جہد كى جائے_

و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله كلمہ '' ابتغائ'' كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ جس ميں سعى و كوشش ملحوظ ہے_

١٦_ راہ خدا ميں انفاق كرنے والا اپنے حق ميں كسى قسم كى ناانصافى كے بغير انفاق كى پورى جزاو پاداش سے بہرہ مند ہوگا_و ما تنفقوا من خير يوف اليكم و انتم لا تظلمون

١٧_ خدا وند متعال كى خوشنودى كيلئے كئے جانے والے انفاق كى پاداش ميں كوئي كمى نہيں ہوگى اگرچہ وہ غير مسلم بے نواؤں كيلئے ہى ہو_و ما تنفقوا من خير يوف اليكم و انتم لا تظلمون

۳۰۷

آيت كے اس شان نزول كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ جو غير مسلموں پر انفاق كرنے كے بارے ميں ہے_

١٨ _ قرآن كريم كا لوگوں كو نيك اعمال كى طرف راغب كرنے كيلئے انكى منفعت طلبى كى خصلت سے استفادہ كرنا _

و ما تنفقوا من خير فلانفسكم و ما تنفقوا من خير يوف اليكم

١٩_ نيك اعمال كا فائدہ خود عمل كرنے والے كو ہے_و ما تنفقوا من خير فلانفسكم يوف اليكم

٢٠_ روز قيامت انسان كے اعمال كا مجسم ہونا *_و ما تنفقوا من خير يوف اليكم

''يوف''كى ضمير كا ''و ما تنفقوا''كى طرف پلٹنا ظاہراً اس نكتے كو بيان كررہاہے كہ وہى انفاق كردہ چيز روز قيامت انفاق كرنے والے كو بطور كامل ادا كردى جائيگي_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى خواہش ٤; آنحضرت(ص) كى دلجوئي ٣; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ١; آنحضرت (ص) كى سيرت ٤

احسان جتانا : احسان جتانے كى مذمت ٣

احكام: ٨

اذيت: اذيت كى مذمت ٣

اقتصادى نظام :٩

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى ذمہ دارى كى حدود ١ ، ٢;انبياء (ع) كے اہداف ٤

انسان: انسان كى منفعت طلبى ١٨;انسان كى ہدايت ٢ ، ٤

انفاق: انفاق غير مسلموں پر ٨، ١٧;انفاق كى جزا ٦ ، ١٤ ، ١٦ ، ١٧;انفاق كے آداب ١ ، ٣ ، ١١ ، ١٢;انفاق كے اثرات ٣;انفاق كے احكام ٨;انفاق كے انفرادى اثرات ٦، ١٤;انفاق كے مصارف ٨; راہ خدا ميں انفاق ١٦ ، ١٧;

۳۰۸

ايمان: ايمان كے اثرات ١٢

تحريك : تحريك عوامل ١٨

تربيت: تربيت كى روش ١٨

جزا و سزا كانظام :١٦

خدا تعالى: خدا تعالى كاعدل ١٦;خدا تعالى كى خوشنودى ١١ ، ١٢ ، ١٣ ، ١٥ ، ١٧;خدا تعالى كى مشيت ٢ ، ٥;خدا تعالى كى ہدايت٥

رشد و تكامل: رشد و تكامل كا پيش خيمہ ١٣

عمل: عمل صالح ١٩; عمل صالح كا پيش خيمہ ١٨;عمل صالح كى تشويق ١٨;عمل كا تجسم ٢٠;عمل كى جزا و سزا ١٥ ، ١٩;عمل كى قبوليت ١٤;عمل كے اثرات ١٩

غير مسلم: غير مسلم كے حقوق ١٠

فقير: فقير كى حاجت روائي ٩

قصد قربت :١٤

كوشش : كوشش كے اثرات ١٥

مال: مال كا خير ہونا ٧;مال كى قدر و قيمت ٧

معاشرتى نظام : ١٠ معاشرہ : اسلامى معاشرہ ١٠

نيت : نيت كى تاثير ١٤

وجہ اللہ:١٣،١٥

۳۰۹

لِلْفُقَرَاء الَّذِينَ أُحصِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاء مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ (٢٧٣)

يہ صدقہ ان فقراء كے لئے ہے جو راہ خدا ميں گرفتار ہو گئے ہيں اور كسى طرف جانے كے قابل بھى نہيں ہيں _ نا واقف افراد انھيں ان كى حيا و عفت كى بنا پر مالدا ر سمجھتے ہيں حالانكہ تم آثار سے ان كى غربت كا اندازہ كرسكتے ہو اگر چہ يہ لوگوں سے چمٹ كر سوا ل نہيں كرتے ہيں اور تم لوگ جو كچھ بھى انفاق كرو گے خدا اسے خوب جانتا ہے _

١_ وہ لوگ جو راہ خدا ميں گھرے ہوئے اور روزى كمانے سے عاجز ہيں ليكن آبرومند ہيں اورانكى تنگدستى ان كے چہروں سے عياں ہے ہرگز دوسروں سے كچھ نہيں مانگتے ايسے لوگ انفاق كا بہترين مصرف ہيں _للفقرائ لا يسئلون الناس الحافا

٢_ جو لوگ الہى ذمہ داريوں كى ادائيگى ميں مصروف ہونے كى وجہ سے روزى كمانے سے عاجز ہيں انكى زندگى كے اخراجات اسلامى معاشرہ كے ذمے ہيں _للفقراء الذين احصروا فى سبيل الله لايستطيعون ضربا فى الارض

٣_ انفاق ان بے نواؤں اور تنگدستوں كيلئے ہے جو زندگى كے اخراجات پورے كرنے سے عاجز ہيں نہ ان كيلئے جو اسكى توان ركھتے ہيں _للفقراء الذين احصروا فى سبيل الله لا يستطيعون ضربا فى الارض

٤_ ضروريات زندگى كا پورا كرنا ضرورى ہے اگر چہ

۳۱۰

اس كيلئے كوشش كرنى پڑے اور سختياں جھيلنى پڑيں _لا يستطيعون ضربا فى الارض

'' ضربا فى الارض ''سعى و كوشش سے كنايہ ہے كہ جس ميں طبعى طور پر سختياں برداشت كرنى پڑتى ہيں اور چونكہ '' لا يستطيعون ...''كا تقاضا يہ ہے كہ كمانے كى توان ركھنے والے پر انفاق نہيں كيا جاسكتا اسلئے اسے اپنى زندگى كى گاڑى كو چلانے كيلئے سعى و كوشش كرنا ہوگى اگر چہ اس ميں تكليفيں ہى برداشت كرنى پڑيں _

٥_ جو لوگ روزى كمانے كى توان ركھتے ہيں ان پر انفاق كرنے سے پرہيز ضرورى ہے_للفقراء لا يستطيعون ضرباً فى الارض كيونكہ '' لا يستطيعون''كے ذريعے انفا ق كا مصرف صرف ان فقرا كو قرار ديا گيا ہے جو ضروريات زندگى كے حاصل كرنے كى توان نہيں ركھتے_

٦_ سخت نيازمندى كے باوجود بے نيازى اور آبرومندى كا اظہار كرنا اور عفت نفس كا خيال ركھنا قابل قدر ہے_

يحسبهم الجاهل اغنياء من التعفف لا يسئلون الناس الحافا چونكہ آيت ميں افراد كى مدح كى جارہى ہے اسلئے اس ميں ذكر كى گئي صفات كو صفات حسنہ شمار كيا جائيگا، قابل ذكر ہے كہ الحاف ''اصرار''كے معنى ميں ہے ليكن جملہ ''يحسبہم الجاہل اغنيائ'' اور ''تعفف'' كے قرائن كو مدنظر ركھتے ہوئے جملہ '' لا يسألون'' كا معنى يوں بنتا ہے كہ يہ لوگ سوال ہى نہيں كرتے تا كہ اس پر اصرار كرنا پڑے نہ يہ كہ سوال كرتے ہيں ليكن اس پر اصرار نہيں كرتے_

٧_ فقراء اور تنگ دستوں كى ظاہرى حالت ان كے نامناسب اقتصادى حالات كى منہ بولتى تصوير ہوتى ہے اگر چہ وہ اپنى آبرومندى كى خاطر اپنے فقر كا اظہار نہ ہى كريں _يحسبهم الجاهل اغنياء من التعفف تعرفهم بسيماهم

٨_ آبرومند تنگ دست افراد ہرگز كسى سے اصرار كے ساتھ سوال نہيں كرتے_لا يسئلون الناس الحافا

اس نكتے ميں جملہ''لا يسئلون الناس الحافا ''كا وہى ظاہرى معنى مراد ليا گياہے يعنى اپنے سوال پر اصرارنہيں كرتے _ اس بناپر جملہ''يحسبهم الجاهل ''كا معنى يہ ہوگا كہ انكے سوال كرنے كے انداز سے انكے تہى دست ہونے كا پتہ چل جاتاہے_

۳۱۱

٩_ فقرا اپنى اقتصادى ضروريات كيلئے اصرار اور لجاجت كے بغيرسوال كرسكتے ہيں _لا يسئلون الناس الحافا

اس جملے كے مفہوم سے يہ نكتہ سمجھ ميں آتاہے_

١٠_ گدا گرى ميں اصرار اور لچرين ناپسنديدہ عمل ہے_لا يسئلون الناس الحافا

١١_ خير و نيكى كے انفاق سے خدا تعالى آگاہ ہے_و ما تنفقوا من خير فان الله به عليم

١٢_ مال و دولت خير ہے_و ما تنفقوا من خير كيونكہ مال كو خير كہا گيا ہے_

١٣_ انفاق اور نيك اعمال كے بارے ميں خدا تعالى كے آگاہ ہونے كى طرف متوجہ رہنا انسان كو انكى انجام دہى كى ترغيب دلاتا ہے_و ما تنفقوا من خير فان الله به عليم

١٤ _ اصحاب صفہ ايسے فقرا تھے جو راہ خدا ميں گھر ے ہوئے مگر آبرومند تھے_للفقراء الذين احصروا

امام باقر (ع) فرماتے ہيں '' نزلت الآية فى اصحاب الصفہ ''يہ آيت اصحاب صفہ كے بارے ميں نازل ہوئي (١) قابل ذكر ہے كہ اصحاب صفہ ايسے تنگدست ليكن پاكدامن اور آبرومند لوگ تھے جو خدائي ذمہ داريوں ( جہاد و غيرہ ) كى ادائيگى ميں مصروف ہونے كى وجہ سے كسب معاش سے عاجز تھے ليكن انكے رہنے سہنے كا اندازہ ايسا تھا كہ نا آشنا لوگ نہ صرف انہيں فقير نہيں سمجھتے تھے بلكہ انہيں تونگر اور مالدار شمار كرتے تھے_

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ١٤

اصحاب صفہ: ١٤

انفاق: انفاق كاپيش خيمہ ١٣;انفاق كے مصارف ١ ، ٢، ٣ ، ٥; پسنديدہ چيزوں سے انفاق ١١

بے نيازي: بے نيازى كى قدر و قيمت ٦

پاكدامن : پاكدامنى كى فضيلت ٦

تحريك : تحريك كے عوامل ١٣

____________________

١) مجمع البيان ح ٢ ص ٦٦٦_

۳۱۲

خدا تعال: خدا تعالى كا علم ١١ ، ١٣

راہ و روش : اسكى بنياديں ٧

علم: علم كى فضيلت ١٣

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ١٣

فقير: پاكدامن فقير ١،٧ ، ١٤;فقير كا چہرہ ١ ، ٧; فقير كى حاجت روائي ١ ، ٣ ، ٩ قدر و قيمت ٦

گھر جانا : راہ خدا ميں گھر جانا ١ ، ١٤

لجاجت : لجاجت كا جواز ٩ ;لجاجت كى مذمت ١٠

مال: مال كى كا خير ہونا ١٢;مال كى قدر و قيمت ١٢

معاش: كسب معاش كى اہميت ٤

معاشرہ : معاشرے كى ذمہ دارى ٢

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (٢٧٤)

جو لوگ اپنے اموال كو راہ خدا ميں رات ميں _ دن ميں خاموشى سے او رعلى الاعلان خرچ كرتے ہيں ان كے لئے پيش پروردگار اجر بھى ہے او رانھيں نہ كوئي خوف ہوگا او رنہ حزن _

١_ شب و روز پنہاں اور آشكار انفاق كرنے والے (سب حالات اور اوقات ميں ) خدا تعالى كى خاص پاداش سے بہرہ مند ہيں _الذين ينفقون اموالهم فلهم اجرهم عند ربهم

٢_ رات كے وقت اور پنہاں طور پر انفاق كرنا ، دن

۳۱۳

كے وقت اور ظاہر طور پر انفاق سے زيادہ بہتر ہے*الذين ينفقون سرا و علانية

اگر ذكر ميں تقدم ،رتبے اور فضيلت ميں تقدم سمجھا جائے تو وقت اور حالت كے لحاظ سے انفاق كى چار صورتيں بنتى ہيں كيونكہ ايك طرف سے وقت (شب و روز) حالت ( پنہاں و آشكار) پر مقدم ہے اور دوسرى طرف سے رات ، دن پر مقدم ہے اور پنہانى حالت، آشكار حالت پر مقدم ہے لہذا فضيلت كى ترتيب كے لحاظ سے يہ چار قسميں يوں ہوں گى ١_ رات كے وقت اور پنہاں طور پر ٢_ دن كے وقت اور پنہاں طور پر ٣_ رات كے وقت ليكن آشكارا ٤ _ دن كے وقت اور آشكارا_

٣_انفاق كرنے والوں كو خدا كى پاداش، ان كے نيك عمل كا نتيجہ ہے_فلهم اجرهم عند ربهم

٤_ انفاق كرنے والوں كو خدا تعالى كى طرف سے اجر كا وعدہ انسان كو اس كى تشويق دلاتاہے_فلهم اجرهم عند ربهم

٥_ عمل خير كى طرف راغب كرنے ميں اجر كے وعدے اور ضمانت كا كردار _فلهم اجرهم عند ربهم

٦_ خدا تعالى كى بارگا ہ ميں انفاق كرنے والوں كا بلند مرتبہ _اجرهم عند ربهم

٧_ باطنى سكون، راہ خدا ميں انفاق كرنے كا ايك ثمر_الذين ينفقون و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون

٨_ راہ خدا ميں انفاق كرنے والوں كو روز قيامت كسى قسم كا خوف اور غم نہيں ہوگا_و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون

اگر يہ عدم خوف و حزن صرف آخرت سے متعلق ہو_

٩_ راہ خدا ميں انفاق كرنے والوں كو نہ تو ( مستقبل ميں نادار ہونے كا ) خوف ہوتاہے اور نہ (گذشتہ زمانے ميں ديئے ہوئے مال پر) غم و اندوہ ہوتاہے_و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون يہ اس بناپر ہے كہ دنياوى خوف و حزن كى نفى مقصود ہو _ خوف آئندہ كا اور حزن گذشتہ پر يعنى خدا تعالى انكى زندگى كا اس طريقے سے بند و بست كرديتاہے كہ نہ تو اپنے ديئے پر غمگين ہوتے ہيں اور نہ ہى آئندہ كسى فقر و نادارى كا انہيں احساس ہوتاہے_

۳۱۴

١٠_ خدا تعالى كى طرف سے مومنوں كو غير واجب انفاقات كى ترغيب_الذين ينفقون

امام صادق (ع) اس آيت كے متعلق فرماتے ہيں''ليس من الزكوة '' ''يہ زكات نہيں ہے''(١)

اطمينان: اطمينان كے عوامل ٧

اقدار: ٢

انفاق: انفاق پنہاں ٢;انفاق راہ خدا ميں ٧ ، ٨ ،٩; انفاق كى تشويق ١٠;انفاق كى جزا ١ ، ٣ ، ٤;انفاق كى فضيلت ٢;انفاق كے آداب ١ ، ٢ ; انفاق كے انفرادى اثرات ٧ ، ٨ ،٩

انفاق كرنے والے : انكى فضيلت ٦

تربيت : تربيت كى روش ٥

جذبہ پيدا كرنا : جذبہ پيدا كرنے كے عوامل ٤ ،٥

جزا: جزا كا وعدہ ٥

خدا تعالى : خدا تعالى كى جزا ١ ، ٣;خدا تعالى كے وعدے ٤

خوف: خوف كا مقابلہ ٩

روايت: ١٠

علم : علم كے اثرات ٤

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ٥;عمل صالح كے اثرات ٣ ، ٧

غم و اندوہ : غم و اندوہ كا مقابلہ ٩

قيامت : قيامت كے دن خوف ٨;قيامت كے دن غم و اندوہ ٨

مومنين : مومنين كى تشويق ١٠

____________________

١) كافى ج ٣ ص ٤٩٩ ح ٩، نورالثقلين ج ١ ص ٢٩٠ ح ١١٥٤_

۳۱۵

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىَ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (٢٧٥)

جو لوگ سود كھا تے ہيں و ہ روز قيامت اس شخص كى طرح اٹھيں گے جسے شيطان نے چھو كر مخبوط الحواس بنا ديا ہو _ اس لئے كہ انھوں نے يہ كہہ ديا ہے كہ تجارت بھى سود جيسى ہے جب كہ خدا نے تجارت كو حلال قرار ديا ہے اور سود كو حرام _ اب جس كے پاس خدا كى طرف سے نصيحت آگئي اور اس نے سود كو ترك كرديا تو گذشتہ كا روبار كا معاملہ خدا كے حوالے ہے او رجو اس كے بعد بھى سود لے تو وہ لوگ سب جہنمى ہيں اور وہيں ہميشہ رہنے والے ہيں _

١_ سودخورشيطان زدہ لوگوں كى طرح بدحال، ديوانے اور اضطراب كا شكار ہوتے ہيں _الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس كيونكہ '' تخبط'' كا لغوى معنى ديوانگى اور اضطراب ہے (التخبط المس بالجنون والتخيل) _

٢_ سود ى اقتصادى نظام معاشرے كے توازن كو بگاڑ ديتاہے_الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان

٣_ سودخورى معاشرے كے اقتصادى نظام كے بگاڑ

۳۱۶

اور درہم برہم ہونے كا سبب بنتى ہے_الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان

٤_ حقائق اور احكام دين كو بيان كرنے كيلئے تمثيلات سے استفادہ كرنا قرآن كريم كى ايك روش ہے_الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذي

٥_ نفسياتى اور روحى اضطراب ميں شيطان كى دخل اندازي_كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس

٦_ سودخور اپنى سعادت اور خوشبختى كے مقابلے ميں غلط راستے كا انتخاب كرتاہے_الذين كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس جس طرح شيطان زدہ شخص اپنے مصالح و منافع كے مقابلے ميں صحيح راستہ اختيار كرنے سے عاجز ہوتاہے ايسے ہى سود خور بھى عاجز ہوتاہے_

٧_ سود خوروں كى نظر ميں خريد و فروش اور سود كے ايك جيسا ہونے كا غلط تصور ان كے سود خور ہونے كى وجہ ہے_

الذين ياكلون الربا ذلك بانهم قالوا انما البيع مثل الربوا اس بناپر كہ ''ذلك'' كا اشارہ ''اكل ربا'' كى طرف ہو كہ جو '' ياكلون الربوا''سے سمجھ ميں آتاہے_

٨_ سودخوروں كا خريد و فروش اور سود كے ايك جيسا ہونے كا غلط تصور انكى شخصيت كے غير متوازن ہونے كى علامت ہے_الذين ياكلون ذلك بانهم قالوا انما البيع مثل الربوا كلمہ ''ذلك'' ، '' اكل ربا'' كى طرف اشارہ ہونے كے علاوہ خبطى ہونے اور جنون زدگى كى طرف بھى اشارہ ہوسكتاہے البتہ اس صورت ميں جملہ ''ذلك بانہم'' يعنى علت مقام اثبات ميں ہوگى كہ جسے ہم نے مذكورہ نكتے ميں علامت سے تعبير كيا ہے_

٩_ خدا تعالى كى طرف سے بيع ( غير سودى لين دين) كى حليت اور ربا ( سودى لين دين ) كى حرمت كا حكم_

و احل الله البيع و حرم الربا

١٠_ سودخوروں كيلئے اس وقت تك سود كھانا حلال تھا جب تك ان كے پاس اسكى حرمت كا حكم نہيں پہنچا تھا_

۳۱۷

فمن جائه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف

جملہ'' فلہ ما سلف ''سے مراد يہ ہے كہ گذشتہ منفعت جسے سود كى حرمت كا حكم تم تك پہنچنے سے پہلے تم لوگوں نے سودى معاملات سے حاصل كيا ہے تمہارے لئے ہے اور حلال ہے جيسے كہ طبرى نے كہا ہے '' فلہ ما اخذ و اكل من الربوا قبل النہي''_

١١_ اس وقت تك بندوں كيلئے شرعى فريضہ نہيں ہوتا جب تك كہ حكم الہى ان تك پہنچ نہجائے_

فمن جائه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف

١٢_ اپنے كئے پر توبہ كرلينے والے سود خوروں كا انجام خدا كے حوالے ہے_فمن جاء ه فانتهى و امره الى الله

١٣_ خدا تعالى كى موعظ و نصيحتيں انسان كى تربيت كرتى ہيں _فمن جآء ه موعظة من ربه فانتهي

كلمہ '' رب''جو تدبير و تربيت كرنے والے كے معنى ميں ہے اس نكتے كو بيان كررہاہے كہ خدا تعالى كى نصيحتيں انسان كى تربيت اور اسكے معاملات كى تدبير كيلئے ہيں _

١٤_ خدا تعالى سودخوروں كى ان كے ناپسنديدہ عمل سے توبہ كو قبول كرليتاہے_

فمن جآء ه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف و امره الى الله

١٥_ الہى احكام خدا تعالى كى طرف سے اپنے بندوں كو وعظ و نصيحت ہيں _فمن جآء ه موعظة من ربه فانتهي

خدا تعالى كا اپنے حكم ( سود كى حرمت ) كو موعظت سے تعبير كرنے كا مطلب يہ ہے كہ اسكے احكام بھى مواعظ ہيں _

١٦_ حرمت كو جان لينے كے بعد بھى سودخورى كى طرف پلٹنا ہميشہ ہميشہ كيلئے، آتش جہنم ميں رہنے كا سبب ہے_

فمن جاء ه موعظة و من عاد فاولئك اصحاب النارهم فيها خالدون

'' فمن جآء ہ موعظة''سے مراد يہ ہے كہ اس تك حكم الہى پہنچ جائے يعنى حكم كے بيان كئے جانے كے بعد اسے اس كا علم بھى ہوجائے_ قابل ذكر ہے كہ مذكورہ نكتے ميں ''و من عاد''كو سود خورى كى طرف پلٹنے كے معنى ميں ليا گيا ہے_

١٧_ سوداور اسكے حكم كے بيان كئے جانے كے بعد بھى سوداور خريد و فروش كے ايك جيسا ہو٢نے كا نظريہ ركھنا ٢ہميشہ كيلئے آتش جہنم ميں رہنے كا موجب ہے_

۳۱۸

قالوا انما البيع و من عاد فاولئك اصحاب النارهم فيها خالدون

مذكورہ نكتے ميں '' عاد'' كا متعلق بيع اور سود كے ايك جيسا ہونے والا غلط تصور ليا گيا ہے_ پس '' و من عاد ...''كے جملے كا معنى يہ ہوگا كہ جو شخص خدا كى طرف سے سود كے حكم كے بيان ہونے كے بعد بھى اس تصور پر باقى رہے كہ سود اور خريد و فروش ايك جيسے ہيں وہ ہميشہ كيلئے آتش جہنم ميں رہے گا كيونكہ وہ در حقيقت كافر ہے_

١٨_ سود صرف ناپى جانے والى ( برتن جيسے پيمانے سے نہ گز و غيرہ سے) اور وزن كى جانے والى چيزوں ميں ہے_

احل الله البيع و حرم الربوا امام صادق (ع) فرماتے ہيں''لا يكون الربا الا فيما يكال اويوزن'' سود صرف اس چيز ميں ہوتاہے جسے ناپا جائے يا وزن كيا جائے (١)

١٩_ روز قيامت سود خور ديوانوں كى طرح محشور ہوگا_الذين ياكلون الربوا پيغمبر (ص) اسلام نے فرمايا ''ياتى آكل الربا يوم القيامة مختبلاً ...''قيامت كے دن سودخورجنون كى حالت ميں آئے گا ...(٢)

احكام ٩ ، ١٠ ، ١٨

اقتصاد: اقتصادى جمود٣

اقتصادى نظام: ٢ ، ٣

تبليغ: تبليغ كى روش ٤

تربيت: تربيت ميں مؤثر عوامل ١٣

توبہ: توبہ كى قبوليت ١٤

جہنم: جہنم ميں ہميشہ رہنا ١٦ ، ١٧

خدا تعالى: خدا تعالى كى نصيحتيں ١٣ ، ١٥

دين: دين كى تعليمات ١٥

رشد و ترقي: رشد و ترقى كے موانع ٦

____________________

١) كافى ج٥ ص ١٤٦ ح ١٠ نورالثقلين ج١ ص ٢٩١ ح ١١٥٩_

٢) الدرالمنثور ج٢ ص ١٠٢_

۳۱۹

رفتار و كردار: رفتار و كردار كى بنياديں ٨

روايت : ١٨،١٩

سماجى نظام: ٢

سود: سود كى حرمت ٩;سود كے احكام ٧ ، ٩، ١٠ ، ١٧ ، ١٨

سودخور: سود خور كا انجام ١٢;سود خور كا قياس ٧ ، ٨، ١٧;سود خور كا نظريہ ٧ ، ٨;سود خور كا نفسياتى اضطراب ١٩;سود خور كى توبہ ١٢ ، ١٤

سودخوري: سود خورى كى سزا; ١٦ ، ١٧;سود خورى كے اثرات ١ ، ٢ ، ٣ ، ٦

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ كے شرائط ١١

شيطان: شيطان كا كردار ١ ، ٥

عذاب: عذاب كے اسباب ١٦ ، ١٧

عقيدہ : باطل عقيدہ ٧،٨

قرآن كريم : قرآن كريم كى تشبيہات ١ ، ٤

قيامت: قيامت ميں سود خور ١٩

گمراہي: گمراہى كے عوامل ٣ ، ٧

محرمات: ٩

معاشرتى نظام : ٢

معاشرہ : معاشرہ كے انحطاط كے عوامل ٣

معاملہ : سودى معاملہ ٩،١٠;معاملہ كى حليت ٩

نظريہ: باطل نظريہ ٧،٨

نفسياتى اضطراب: ٨ اسكے عوامل ١ ، ٥

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367