اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت21%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139084 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

٢۔ علم و حکمت:

حضرت علی ـاس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''جو شخص حکمت سے آگاہ ہے اس کو نگاہیں ہیبت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہیں ''۔(١)

٣۔ حلم:

حضرت علی ـسے منقول ہے: ''حلم وقا رکا باعث ہے '' ۔(٢)

٤۔سکوت:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''زیادہ خاموشی انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے ''۔(٣) نیز مومنین اور پرہیز گاروں کی خصوصیات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' اے ہمام ! مومن زیادہ سے زیادہ خاموش رہتا ہے اور باوقار ہوتا ہے ''۔(٤)

٥۔ تواضع و فروتنی:

حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''فروتنی تم پر بزرگی اور شان و شوکت کا لباس پہناتی ہے '' ۔(٥) اسی طرح روایات میںدوسرے اسباب جیسے آہستہ گفتگو کرنا(٦) وغیرہ بیان ہوا ہے کہ اختصار کی وجہ سے انھیںہم ذکر نہیں کررہے ہیں۔ آیات و روایات میںاطمینان قلب کے لئے بہت سے اسباب و علل بیان کئے گئے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہے:

١۔ ازدواج:

قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: ''اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑوں کو تمہارے لئے خلق فرمایا تاکہ ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت ورحمت قرار دی۔ ہاں، اس (نعمت ) میں صاحبان عقل و فکر کے لئے یقینا ً نشانیاںہیں''۔(٧) دوسری جگہ فرماتا ہے: ''وہ ایسی ذات ہے جس نے تم کو ایک نفس سے خلق فرمایا اور اس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ اس سے سکون حاصل کرو'' ۔(٨)

٢۔ عدالت:

حضرت فاطمہ زہرا ٭ فرماتی ہیں: ''خداوند عالم نے ایمان کو شرک دور کرنے کا ذریعہ....... اور عدالت کو دلوں کے سکون کا باعث قرار دیا ہے ''۔(٩)

____________________

١ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص ٢٣، ح ٤، اور ملاحظہ ہو : صدوق، علل الشرائع، ج ١، ص ١١٠، ح ٩ ؛ مجلسی، بحار لا نوار، ج ١، ص ١١٧تا ١٢٤۔٢۔ آمدی، غرر الحکم، حکمت ٥٥٣٤۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٢٦، ح ١۔ ٤۔ ایضاً۔٥۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤١٨٤۔ ٦۔ کافی، ج٥، ص٣٩،ح٤۔٧۔ سورئہ روم، آیت ١ ٢۔ ٨۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٩۔ ٩۔ صدوق، من لا یحضر الفقیہ،ج٣، ص٥٦٨،ح٤٩٤٠۔ علل الشرایع، ص٢٤٨، ح٢۔ طبرسی، احتجاج، ج١،ص١٣٤۔

۱۴۱

٣۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی مومن نہیں ہے مگر یہ کہ خداوندعالم اس کے ایمان کے نتیجہ میں اس کے لئے ایک انس قرار دیتا ہے کہ جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے، اس طرح سے کہ اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو تو اپنے مخالفین سے وحشت نہیں رکھتا''۔(١) واضح ہے کہ اس سکون و اطمینان کا درجہ ایمان کے اعتبار سے ہے، جتنا ایمان کا درجہ زیادہ ہوگا اس سے حاصل شدہ سکون بھی زیادہ پایدار ہوگا۔

٤۔ خدا کی یاد:

قرآن کریم میں مذکور ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لا چکے ہیںاور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں آگاہ ہوجائیں کہ یاد الہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔(٢)

٥۔ حق تک پہنچنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:'' انسان کا دل ہمیشہ حق کی تلاش و جستجو میں مضطرب اور پریشان رہتاہے اور جب اسے درک کرلیتا ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے ''۔(٣) اس لحاظ سے شک وتردید کے علائم میں سے ایک اضطراب اور عدم سکون ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا ذہنی درد و الم ہے۔ اُن تمام مذکورہ موارد کا فقدان جو سکون و وقار کے اسباب و علل میں شمار کئے گئے ہیں ان دونوں کے تحقق کے موانع شمار ہوتے ہیں مگر چونکہ بعض دیگر امور روایات میں سکون و وقار کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا ذیل میںان میں سے اہم ترین امور کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

۱۔ لوگوں سے سوال و درخواست کرنا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''لوگوں سے سوال کرنا انسان کی زندگی کو ذلت وخواری سے جوڑ دیتا ہے، حیا کو ختم کردیتا اور وقار کو کم کردیتا ہے ''۔(٤) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''فقیر انسان میں ہیبت و عظمت کا وجود محال ہے

۲۔ حد سے زیادہ ہنسنا اور ہنسی مذاق کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ ہنستا ہے اس کی شان و شوکت کم ہوجاتی ہے ''۔ رسولخدا فرماتے ہیں: ''زیادہ ہنسی مذاق کرنا انسان کی آبرو کو ختم کردیتا ہے''۔(٥)

____________________

١ ۔ مجلسی، بحار لا نوار ج ٦٧، ص ٨ ٤ ١، ح ٤۔ ٢۔ رعد ، ٢٨۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص٤٢١، ح ٥۔ ٤ ۔ مجلسی، بحار لا نوار، ج ٧٨، ص ١٣٦، ح ٣و ج ٧٥، ص ١٠٨۔

٥ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤، اور ملاحظہ ہو حرانی، تحف العقول، ص ٩٦۔

۱۴۲

نیز حضرت علی ـ سے وصیت فرماتے ہیں : ''ہنسی مذاق کرنے سے اجتناب کروکیونکہ تمہاری شان و شوکت اور عظمت ختم ہوجائے گی ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہے وہ کم عقل شمار ہوتا ہے''۔(٢)

٣۔ مال، قدرت،علم، تعریف اور جوانی سے سر مست ہونا:

حضرت علی ـ کی طرف منسوب بیان کے مطابق عاقل انسان کو چاہیے کہ خود کو مال، قدرت، علم، ستائش و جوانی کی سرمستی سے محفوظ رکھے، کیونکہ یہ سر مستی انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے اوراس کے وقارکو ختم کردیتی ہے۔(٣)

٤۔ جلد بازی:

جلد بازی سے مراد کسی کام کو بغیر سونچے سمجھے انجام دینا ہے۔ حضرت علی ـ مالک اشتر کو لکھتے ہیں: ہر گز کسی ایسے کام میں جلد بازی نہ کرو جس کا ابھی وقت نہ ہوا ہو! یا جس کام کا وقت ہوچکا ہو اس کے کرنے میں سستی نہ دکھاؤ! کوشش کروکہ ہر کام کو اس کے موقع و محل اور اس سے مخصوص وقت میں ہی انجام دو''۔(٤) ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: '' کسی کام میں جب تک کہ واضح نہ ہو اس کے کرنے میں جلد بازی نہ کرو''۔(٥) اور فرماتے ہیں: اس چیز میں جس میںخدا نے جلد بازی لازم نہیں قرار دی ہے اس میںجلد بازی نہ کرو ۔ ''(٦)

اسلام کے خلاقی نظام میںجلد بازی ہمیشہ نا پسندنہیں ہے، بلکہ بعض امور میں اس کی تاکید بھی کی گئی ہے، لیکن درج ذیل موارد میں جلد بازی سے روکا گیا ہے جیسے سزادینے، جنگ و خونریزی کرنے، کھانا کھانے، نماز تمام کرنے اور غور خوص کرنے میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکیوں، خدا کی خوشنودی، توبہ، عمل صالح اور تحصیل علم وغیرہ کے لئے جلد بازی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم نیک امور کی جانب سبقت کرنے کی تاکید فرماتا ہے: '' نیک کاموں میںایک دوسرے پر سبقت کرو''۔(٧)

____________________

١۔ صدوق، امالی، ص ٣ ٢٢، ح ٤۔ اختصاص، ص ٢٣٠ ؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٦٦٤، ح ٦، اور ٦٦٥، ح١٦۔

٢۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٦٩۔ ٣۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٩٤٨ ١٠۔

٤۔ نہج البلاغہ، نامہ ٥٣۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٣۔ ٦ْ۔ ایضاً، خطبہ ٠ ١٩۔ ٧۔ سورئہ بقرہ، آیت ٤٨ اور سورئہ مائدہ، آیت ٨ ٤۔

۱۴۳

دو۔ نفس کے لئے خطر ناک شئی

نفس کے لئے خطر ناک شئی اس کا ضعیف ہونا ہے جس کے مضر اثرات ہیں اور یہ نفس کے موانع میںشمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اثرات جیسے عدم ثبات، پست ہمتی، غیرت و حمیت کا نہ ہونا ان مباحث کے ضمن میں جو قوت نفس کے علائم میںبیان ہوئے ہیں، آشکار ہوگئے۔ یہاں پر ایک دوسرا مانع یعنی ''تہاون'' اور ''مداہنہ ''کا ذکر اس کی اہمیت کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔

''مداہنہ'' سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نرمی، کوتاہی اور سستی سے کام لینا ہے''۔(١) امر

با لمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور کوتاہی یا نفس کے ضعیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے یا اس شخص کے مال اور اعتبار میں دنیوی طمع و آرزو کی وجہ سے جس کی نسبت سستی اور کوتاہی کو روا رکھتا ہے۔(٢)

آیات وروایات میں دین میں نرمی اور کوتاہی کرنے کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات بیان کئے گئے ہیں ، جیسا کہ خدا وندعالم کفارو مشرکین کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''وہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی سے کام لو تو وہ بھی نرمی سے کام لیں ''۔(٣) یعنی طرفین میںسے ہر ایک دوسرے کے دین سے متعلق سہل انگاری اور نرمی سے کام لے۔(٤ ) حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' میری جان کی قسم، حق کے مخالفین گمراہی و فساد میں غوطہ لگا نے والوں سے ایک آن بھی مقابلہ و جنگ کرنے میں سستی نہیں کروں گا''۔(٥) حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: '' خداوند سبحان نے حضرت شعیب کو وحی کی کہ تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ افراد پر عذاب نازل کروں گا، ان میں سے ٤٠ ہزار افراد برے ہیں اور ٦٠ ہزار ان کے برگزیدہ ہیں۔ حضرت شعیب نے پوچھا: خدایا ! اخیار اور برگزیدہ افراد کا جرم و گناہ کیاہے ؟ تو خداوند سبحان نے جواب دیا: ان لوگوں نے گناہگاروں کے مقابل سستی اور نرمی سے کام لیا ہے اور میرے ناراض ہونے سے وہ ان پر ناراض نہیں ہوئے ''۔(٦)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٧٣ ؛ طریحی، مجمع البحرین، ج ١، ص ٦٦ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج١٣، ص ٢ ١٦ ؛ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٨٢۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢٣٢ تا٢٤٠۔ ٣۔ قلم ٩۔

٤۔ طباطبائی، المیزان، ج١٩، ص ٣٧١۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٤۔

٦۔ تہذیب، طوسی، ج ٦، ص ١٨١ ،ح ٣٧٢ ؛ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٦، ح ١۔

۱۴۴

دین میں سستی ،سہل انگاری اور کوتاہی سے متعلق روایات میں جو نقصان دہ اور ضرر رساں اثرات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے انسانی سماج کی گراوٹ، فسادو تباہی، گناہ و عصیان کی زیادتی، سزا ودنیوی اور اخروی عذاب اور دنیا وآخرت میں نقصان وخسارہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(١)

٢۔ حلم و برد باری اور غصہ کا پینا

'' حلم '' عربی زبان میں امور میں تامل، غوروفکر، تدبیر کرنے اور جلد بازی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ '' حلیم '' اس انسان کو کہتے ہیں جو حق پر ہونے کے باوجود جاہلوں کو سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے اور مقابل شخص کی جاہلانہ رفتار سے وجود میں آنے والے غیض وغضب سے اپنے کو قابو میں رکھے۔(٢) بعض علماء اخلاق حلم کو اطمینان قلبی اور اعتماد نفس کا ایک درجہ خیال کرتے ہیں کہ اس کا مالک انسان آسانی سے غضبناک نہیں ہوتا اور ناگوار حوادث جلدی اسے پریشان اور مضطرب نہیں کرتے۔ اس وجہ سے حلم کی حقیقی ضد غضب ہے، کیونکہ حلم اصولی طور پر غضب کے وجود میں آنے سے مانع ہوجاتا ہے۔ حلم اور '' کظم غیظ '' ( غصہ کو پینے ) کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کظم غیظ صرف خشم و غضب کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے ضبط کر کے ٹھنڈا کردیتا ہے جب کہ حلم بے جا غیض و غضب کے پیدا ہونے سے مانع ہوتا ہے، پس حلم غیض و غضب کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا ''کظم غیظ '' اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے علائم کے ظاہر ہونے کو روک کر درحقیقت اس کا علاج کرتا ہے۔(٣)

قرآن کریم میں حلم ١٠ بار سے زیادہ خداوندسبحان کے صفات میں شمار کیا گیا ہے کہ ان موارد میں نصف سے زیادہ ''غفور'' اور ''حلیم '' ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔(٤)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٥، ح ٦، اور ج ٨، ص ٤ ٣ ١، ح ١٠٣، اور ص ١٢٨، ح ٩٨ ؛ حرانی، تحف العقول، ص ١٠٥، ٧ ٣ ٢؛ نہج البلاغہ، خ ٨٦، ٢٣٣؛ شیخ مفید، ارشاد، ص ٩٢۔

٢۔ ابن اثیر، نہایہ، ج ١، ص ٣٤ ٤، ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٢، ص ١٤٦ ؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٢٩، مجمع البحرین، ج ١، ص ٥٦٥۔ اور فیض کاشانی، ملا محسن، المحجةالبیضائ، ج ٥، ص ٣١٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٥ ٢٩، ٢٩٦۔

٤۔ عبد الباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص ٢١٦، ٢١٧۔

۱۴۵

اسلام کے اخلاقی نظام میںحلم اور بردباری کی قدر و منزلت اس درجہ بلند ہے کہ لوگوں کی رہبری و امامت کے ایک لوازم میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول خدا فرماتے ہیں: ''امامت اوررہبری تین خصوصیات کے مالک افراد کے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے، ایسا تقویٰ جو اسے خدا کی نافرمانی سے روکے، ایسا حلم وبرد باری جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرے اور لوگوں پر ایسی پسندیدہ حکمرانی کہ ان کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح ہو''۔(١) حضرت علی ـ نے فرمایا: '' حلم ڈھانکنے والا پردہ اور عقل شمشیر براں ہے، لہٰذا اپنی اخلاقی کمی کو برد باری سے چھپاؤ اور اپنی نفسانی خواہشات کو عقل کی شمشیر سے قتل کرڈالو ''۔(٢) یعنی انسان کی اخلاقی کمی کے لئے حلم ایک پردہ ہے۔ دوسری جگہ حلم کو عزت کا بلند ترین مرتبہ(٣) عاقلوں کی سرشت ،(٤) اور قدرت کی علامت(٥) تصور کیا گیا ہے۔ کظم غیظ اور غصہ کو پینا در حقیقت تحلّم اور زحمت و کلفت کے ساتھ حلم اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے کظم غیظ اہمیت کے اعتبار سے حلم سے کم درجہ رکھتا ہے، اگر چہ اپنی جگہ اہم اور قابل تعریف ہے۔ قرآن کریم کظم غیظ کو متقین کی صفت اور ایک قسم کی نیکی اور احسان جانتاہے۔ قرآن فرماتا ہے: ''اپنے پروردگار کی عفو و بخشش اورایسی بہشت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور وہ ان پرہیز گاروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے ۔(٦) وہ لوگ جو فراخی اور تنگی حالتوں میں انفاق کرتے ہیں اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور خدا وند عالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔ پیغمبر اکرم نے غصہ کے پینے کی فضیلت میں فرمایا ہے: ''خدا تک انسان کے پہنچنے کے محبوب ترین راستے دو گھونٹ نوش کرنا ہے،ایک غصّہ کا گھونٹ جو حلم وبردباری کے ساتھ پیاجاتا ہے اور غصّہ بر طرف ہوجاتا ہے، دوسرا مصیبت کا گھونٹ کہ جو صبر وتحمّل سے زائل ہوتا ہے ''(٧)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٠٧، ح ٨۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٢٤۔٣۔ کلینی، کافی ج ٨، ص ١٩، ح ٤۔

٤۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٢٧٤، ح ٨٢٩۔٥۔ صدوق، خصال، ج ١، ص ١١٦، ح ٩٦۔

٦۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ١ ، ١٣٤۔٧۔ کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٩۔

۱۴۶

حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فر مایا ہے: ''جو کوئی ایسے خشم وغضب کو کہ جسے وہ ظاہر کرسکتا ہے پی جائے تو قیامت کے دن خدا وند تعالیٰ اپنی رضا سے اس کے دل کو پرکردے گا ''(١)

الف۔ حلم اور کظم غیظ کے اسباب و موانع:

روایات میں علم، عقل، فقہ، تحلم، بلند ہمتی اور حلیم و برد بار افراد کی ہمنشینی کو حلم اختیار کرنے کے اسباب و علل میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام علی رضا ـ فرماتے ہیں: ''فقاہت کی علامتوں میں سے حلم اور سکوت ہے''۔(٢)

نیز حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اگر تم واقعاً حلیم نہیں ہو تو حلم کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہوجائے''۔(١) اسی طرح آپ نے فرمایا: ''حلم اور صبر دونوں جڑواں ہیں اور دونوں ہی بلند ہمتی کا نتیجہ ہیں ''۔(٢) اس کے مقابل کچھ صفات ایسے ہیں جو حلم و برد باری کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں کہ ان میں سے سفاہت ، بیوقوفی، حماقت ، دُرشت مزاجی، تند خوئی، غیض وغضب، ذلت وخواری اور ترش روئی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(٣)

ب۔حلم و برد باری کے فوائد:

اخروی جزا کے علاوہ آیات و روایات میں دنیوی فوائد بھی حلم و برد باری کے بیان کئے گئے ہیں۔ یہ فوائد خواہ انسان کی انسانی زندگی میں نفسانی صفات اور عملی صفات ہوں خواہ ا نسان کی اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار میںظاہر ہوں، ان میں سب سے اہم فوائد یہ ہیں: سکون قلب، وقار، نجابت، رفق ومدارا، صبر، عفو و بخشش، خاموشی، سزادینے میںجلد بازی نہ کرنا، اور خندہ روئی فردی فائدے کے عنوان سے اور کرامت وبزرگواری، کامیابی ،صلح و آشتی، ریاست و بزرگی، لوگوں کے دلوں میں محبوبیت اور پسندیدہ وخوشگوارزندگی حلم و برد باری کے اجتماعی فوائد ہیں ۔ان میں سے بعض فوائد پر اس کے پہلے بحث ہوچکی ہے اور بعض دیگر ایک قسم کی رفتار (عمل) ہیں کہ عملی صفات کے بیان کے وقت ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔

____________________

١۔کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٦۔ ٢۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح ٤۔٣۔ نہج البلاغہ، حکمت ٧ہ٢؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص١١٢، ح ٦، ص ٢٠، ح ٤ اور تحف ا لعقول، ص ٦٩۔٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٦٠۔٥۔ صدوق، خصال، ج ٢، ص ٤١٦، ح ٧ ؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ١٣، ص ٤٢١، ح ١٥ ؛ غرر الحکم، ح ٢٠٠٩ اور ٣٩٤٠ ؛نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٧٥ اور ٢٩٥ ؛ فیض کاشانی، المحجة البیضائ، ج١٥، ص ٢٨٨، ٣٠٨۔

۱۴۷

٣۔ حیا

حیا نفسانی صفات میںایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس تاثیر کا اہم ترین کردار خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ '' حیا'' لغت میں شرم وندامت کے مفہوم میںہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے۔(١) علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیا ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے۔(٢)

آیات و روایات میں ''حیا '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔ اس مفہوم کو کتاب و سنت میں مذکور حیا کے مسائل اور ابواب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم حیا کی تمام اقسام کے درمیان ایک مشترک مفہوم ہے اس وجہ سے حیا کے تین اصلی رکن ہیں: فاعل، ناظر اور فعل۔ حیا میں فاعل وہ ہے جو نفسانی کرامت و بزرگواری کا مالک ہے۔ ناظروہ ہے کہ جس کی قدرو منزلت فا عل کی نگاہ میںعظیم اور قابل احترام ہے اور فعل جو کہ حیا کے تحقق کا تیسرا رکن ہے، برا اور ناپسنددیدہ فعل ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر ''حیا ''''خوف '' و '' تقویٰ '' کے درمیان فرق کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ حیا میں روکنے والا محور ایک محترم اور بلند مرتبہ ناظر کے حضور کو درک کرنا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا ہے، جبکہ خوف وتقویٰ میں روکنے والا محور، خدا کی قدرت کا درک کرنا اور اس کی سزا کا خوف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حیا کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔ اسی طرح یہ بات قابل توجہ ہے کہ حیا مختلف شعبوںمیںکی جاتی ہے کہ اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی، جیسا کہ عورتوں کی حیا '' اخلاق جنسی'' میں، گھرمیں حیا کی بحث '' اخلاق خانوادہ ''میں اور دوسروں سے حیا '' اخلاق معاشرت '' میں مورد تحقیق قرار دی جائے گی۔ یہاں پر حیا سے متعلق صرف عام اور کلی مباحث ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔

٢۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔

۱۴۸

الف۔ حیا کی اہمیت:

رسول خدا حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا، اور حیا کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو حیا کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا''۔ (٢ ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''حیا اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ حیا کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہو لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوںکے ساتھ سچائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوںکی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوںکے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیا ہے۔(٤) حضرت علی ـ نے حیا کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیا تمام خوبصورتی اور نیکی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے''۔(٥) حیا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جو حیا نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے''۔(٦) رسول اکرم کی سیرت کے بارے میں منقول ہے کہ آنحضرت جب بھی لوگوں سے بات کرتے تھے تو عرق شرم (حیا کا پسینہ ) آپ کی پیشانی پر ہوتا تھا اور کبھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتے تھے۔(٧)

____________________

١۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔

٣۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔٤۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔

٥۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔٦۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔٧۔ کافی ، ج٥ ،ص٥٦٥، ح٤١۔

۱۴۹

کبھی حیا کا منفی رخ سامنے آتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جب اس کا سبب حماقت، جہالت، اور نفس کی کمزوری ہو۔ اسلامی اخلاق میں ایسی شرم و حیا کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اسے اخلاقی فضیلت شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان کے رشد و علو کے لئے رکاوٹ اور مختلف شعبوںمیں اس کے پچھڑنے کا سبب ہوتی ہے۔ روایات میں اس طرح کی شرم کو جہل و حماقت اور ضعف کی حیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔(١)

ب۔ حیا کے اسباب و موانع :

بعض وہ امور جو روایات میں حیا کے اسباب کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:

١۔عقل:

رسول خدا نے ایک عیسائی راہب ( شمعون بن لاوی بن یہودا) کے جواب میں کہ اس نے آپ سے عقل کے علائم وماہیت کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: ''عقل حلم کی پیدائش کا باعث ہے اور حلم سے علم، علم سے رشد، رشدسے عفاف اور پاک دامنی، عفاف سے خوداری، خوداری سے حیا، حیا سے وقار، وقار سے عمل خیر کی پابندی اور شر سے بیزاری اور شر سے تنفرسے نصیحت آمیز اطاعت حاصل ہوتی ہے۔(٢)

٢۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: '' جو حیا نہیں رکھتا وہ ایمان بھی نہیں رکھتا ''۔

اسی طرح روایات میں کچھ امور کو حیا کے موانع بے حیا ئی کے اسباب و علل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں: ایک۔ حرمتوں اور پردوں کو اٹھا دینا: حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: '' شرم وحیا کا پردہ اپنے اور اپنے بھائیوںکے درمیان سے نہ اٹھاؤ اور اس کی کچھ مقدار باقی رکھو، کیونکہ اس کا اٹھانا حیا کے اٹھانے کے مترادف ہے''۔(٣)

۳۔ لوگوںکی طرف دست سوال دراز کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' لوگوں کی طرف دست سوال دراز کرنا عزت چھین لیتا ہے اور حیا کو ختم کردیتا ہے''۔(٤)

____________________

١۔ صدوق، خصال، ج ١، ص٥٥، ح ٧٦ ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٠٦، ح ٦۔ ٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٩، اسی طرح ملاحظہ ہو، ص ٢٧ ؛ صدوق، خصال، ج ٢، ص٤٠٤، ٤٢٧ ؛ کلینی، کافی، ج١، ص ١٠، ح ٢ ۔اور ج ٢، ص ٢٣٠۔ ٣۔ کافی، ج ٢، ص ٦٧٢، ح٥۔٤۔ ایضاً، ج٢، ص ١٤٨، ح ٤۔

۱۵۰

٣۔ زیادہ بات کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ خطا کرتا ہے اور جو زیادہ خطا کرتا ہے اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم کم ہوجاتی ہے اس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اور جس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے''۔(١)

٤۔ شراب خوری:

حضرت امام علی رضا ـ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے شراب کی حرمت کی علت کے بارے میں فرمایا: ''خداوندسبحان نے شراب حرام کی کیونکہ شراب تباہی مچاتی ہے، عقلو ں کو حقائق کی شناخت میں باطل کرتی ہے اورانسان کے چہرہ سے شرم و حیا ختم کردیتی ہے''۔(٢)

ج۔ حیا کے فوائد:

روایت میں حیا کے کثرت سے فوائد پائے جاتے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ خدا کی محبت:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے ''۔(٣)

٢۔عفّت اور پاکدامنی:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''حیا کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے''۔(٤)

٣۔ گناہوں سے پاک ہونا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:'' چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا، کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا، جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو''۔(٥)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔٢۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔٣۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔

٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔ ٥۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔

۱۵۱

٤۔ رسول خدا نے شرم و حیا کے کچھ فوائد کی شرح کے ذیل میں فرمایا ہے:

''جو صفات حیا سے پیدا ہوتے ہیں یہ ہیں: نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میںرکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوںکے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنھیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے''۔(١)

اسلام کی اخلاقی کتابوں میں ''وقاحت '' اور ''بے شرمی'' سے متعلق بہت سے بیانات ہیںکہ ہم اختصار کی خاطر صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ اپنے شاگرد ''مفضل '' سے فرماتے ہیں: ''اے مفضل! اگرحیا نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا''۔(٢)

د۔حیا کے مقامات :

بیان کیا جاچکا ہے کہ ''حیا'' ناظر محترم کے حضوربرے اعمال انجام دینے سے شرم کرنا ہے۔ اس بنا پر پہلے: اسلام کی اخلاقی کتابوں میں خدا، اس کی طرف سے نظارت کرنے والے، اس کے نمایندے، انسان اور دوسروں کی انسانی اور الہی حقیقت کا ذکر ایک ایسے ناظر کے عنوان سے ہوا ہے کہ جن سے شرم وحیا کرنی چاہیے۔(٣)

دوسرے: حیا کے لئے ناپسندیدہ اور امور ہیں اور نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیا کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی۔ بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے مفہوم میں پہلے بیان کئے گئے ضابطہ و قانون کے باوجود یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ انسان ان موارد کی نسبت ایک طرح علمی شبہہ رکھتا

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔٢۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔

٣۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔

۱۵۲

ہے اور ایک حد تک ان موارد میں حیا کرنے کی تائید کے لئے توجیہات گڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اس کے خیالات و تصورات باطل ہیں۔ وہ بعض موارد اور مقامات جہاں حیا نہیں کرنی چاہیے، درج ذیل ہیں:

١۔ حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا: پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیا کی وجہ سے ترک نہ کرو ''۔(١)

٢۔تحصیل علم سے حیاکرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے''۔(٢)

٣۔ حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیا نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا''۔(٣)

٤۔ مہمانوںکی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے''۔(٤)

٥۔دوسروں کا احترام کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے: منجملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے''۔(٥)

٦۔ نہ جاننے کے اعتراف سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں کہ ''میں نہیں جانتا'' شرم نہیں کرنی چاہیے''۔(٦)

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔ ٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔٥۔ غرر الحکم۔

٦۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔

۱۵۳

٧۔ خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا:

امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے، اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو ''۔(١)

٨۔ معمولی بخشش کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی کمتر ہے۔''(٢)

٩۔اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: ''یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو ؟ خدا کی قسم، اگر اہل مدینہ نہ ہوتے (کہ ملامت اور نکتہ چینی کریں) تو میں بھی اس بات کو دوست رکھتا کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں''۔(٣)

٤۔ عفّت

نفسانی صفات میںایک دوسر ی روکنے والی صفت عفّت اور پاکدامنی ہے۔ '' عفّت '' لغت میں نا پسند اور قبیح امر کے انجام دینے سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے۔(٤) علم اخلاق کی اصطلاح میں ''عفت'' نام ہے اس نفسانی صفت کا جو انسان پر شہوت کے غلبہ اور تسلّط سے روکتی ہے۔(٥) شہوت سے مراد اس کا عام مفہوم ہے کہ جو شکم وخوراک کی شہوت، جنسی شہوت، بات کرنے کی شہوت اور نظر کرنے کی شہوت اور تمام غریزوں (شہوتوں) کو شامل ہوتی ہے، حقیقت عفّت یہ ہے کہ شہوتوںاورغریزوں سے استفادہ کی کیفیت میں ہمیشہ شہوتوں کی جگہ عقل و شرع کا غلبہ اور تسّلط ہو۔ اس طرح شہوتوں سے منظّم ومعیّن عقلی وشرعی معیاروں کے مطابق بہرہ مند ہونے میں افراط و تفریط نہیں ہوگی۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔٢۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔٤۔ لسان العرب، ج ٩، ص ٢٥٣ ،٢٥٤ ؛ جوہری ،صحاح اللغة، ج ٤، ص ١٤٠٥، ١٤٠٦ ؛ نہایہ، ج ٣، ص ٢٦٤۔٥۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن ص ٣٥١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٥ ۔

۱۵۴

الف۔ عفّت کے اقسام:

عفّت کے لئے بیان شدہ عام مفہوم کے مطابق عفّت کے مختلف ابعاد وانواع پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

١۔ عفّت شکم:

اہم ترین شہوتوںمیں سے ایک اہم کھانے کی شہوت و خواہش ہے۔ کھانے پینے کے غریزہ سے معقول ومشروع (جائز ) استفادہ کو عفّت شکم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس عفّت کے متعلق قرآن میں اس آیت کی طرف اشارہ کیاجا سکتا ہے کہ فرماتا ہے: ''تم میں جو شخص مالداراور تونگر ہے وہ (یتیموں کا مال لینے سے) پرہیز کرے اور جو محتاج اور تہی دست ہے تو اسے عرف کے مطابق ( بقدر مناسب) کھا نا چاہیے''۔(١) اس عفّت کی تفصیلی بحث اقتصادی اخلاق میںکی جاتی ہے۔

٢۔ دامن کی عفت: جنسی غریزہ قوی ترین شہوتوں میں سے ایک ہے اسے جائز ومشروع استعمال میں محدود کرنا اور محرمات کی حد تک پہونچنے سے روکنا ''عفّت دامن '' یا پاکدامنی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اسی معنی میں عفّت کا استعمال درج ذیل آیت میں ہوا ہے: ''جن لوگوںمیں نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے انھیں چاہیے کہ پاکدامنی اور عفّت سے کام لیں یہاں تک کہ خدا انھیںاپنے فضل سے بے نیاز کردے ''۔(٢)

اس عفّت کی بحث تفصیلی طور پراخلاق جنسی میں بیان کی جائے گی ۔اگر چہ اپنے آپ کو شہوتوںکے مقابل بچانا شکم اور دامن کی شہوت میں منحصر نہیں ہے، بلکہ تمام شہوتوں کو شامل ہے لیکن چونکہ یہ دونوں ان سب کی رئیس ہیں اور اخلاق کی مشہور کتابوں میں صرف انھیںدو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حتیٰ بعض علماء نے ان دو کو عفّت کی تعریف میں بھی شامل کیا ہے،(٣) لہٰذا انھیں دو قسموں کے ذکر پر اکتفا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ان دو قسموں میں سے ہر ایک، ایک خاص عنوان سے مربوط ہے لہٰذا ہر ایک کی اپنے سے متعلق عنوان میں مفصل بحث کی جائے گی، یہا ں پر ان کے بعض کلی اور مشترک احکام کا ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ نسائ، آیت ٦، اسیطرح سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ سورئہ نور، آیت ٣٣؛ اسی طرح ملاحظہ ہو: آیت ٦٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٥۔

۱۵۵

ب۔عفّت کی اہمیت:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' سب سے افضل عبادت عفّت ہے '' ۔(١) اور حضرت امام محمد باقر ـ سے منقول ہے: ''خدا کے نزدیک بطن اور دامن (شرمگاہ) کی عفّت سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے ''۔(٢) اور جب کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نیک اعمال انجام دینے میں ضعیف اور کمزور ہوں اور کثرت سے نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن امید کرتا ہوںکہ صرف مال حلال کھاؤں اور حلال طریقہ سے نکاح کروں تو حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا: '' عفّت بطن ودامن سے افضل کون سا جہاد ہے ؟''(٣) رسول خدا اپنی امت کے سلسلہ میں بے عفتی اور ناپاکی کے بارے میںاپنی پریشانی کا اظہار یوں کرتے ہیں: ''میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیز کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں معرفت کے بعد گمراہی، گمراہ کن فتنے اور شہوت بطن ودامن''۔(٤)

ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''میری امت کے جہنم میں جانے کا زیادہ سبب شہوت شکم ودامن کی پیروی کرناہے'' ۔(٥)

ج۔ عفّت کے اسباب:

شکم اور دامن کی عفّت میں سے ہرایک کے پیدا ہونے کے اسباب اقتصادی اور جنسی اخلاق سے مربوط بحث اور اس کے مانند دوسری بحثوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن روایت میں عام عوامل واسباب جیسے عقل، ایمان، تقویٰ حیا و مروت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اختصار کی رعایت اور ایک حد تک ان کی علت کے واضح ہونے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہیں۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٧٩ ،ح ٣۔

٢۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٨ ۔ ص ٧٩، ح ١۔

٣۔ جامع السعادات، ص ٧٩، ح ٤ ۔

٤۔ جامع السعادات، ح ٦ ۔

٥۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٧۔

۱۵۶

د۔ عفّت کے موانع:

عفّت کے عام موانع میں ''شرارت '' اور ''خمود '' ( سستی اور سہل انگاری ) ہے، ان دونوں کی مختصرتوضیح درج ذیل ہے:

١۔ شرارت:

شرارت سے مراد اپنے عام مفہوم کے لحاظ سے شہوانی قوتوں کی پیروی کرنا ہے اس چیز میں جو وہ طلب کرتی ہیں،(١) خواہ وہ شہوت شکم ہو یا شہوت مال دوستی یا اس کے مانند کسی دوسری چیز کی شہوت ۔ شرارت یعنی جنسی لذتوں میں شدید حرص کا ہونا اور ان میں زیادتی کا پایا جانا۔(٢) حضرت علی ـ نے شرارت کی مذمت میں فرمایا ہے: '' شرارت تمام عیوب کی رئیس ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ کا بیان اس سلسلہ میں یہ ہے: کہیںایسا نہ ہو کہ جو کچھ خدا نے تم پر حرام کیا ہے اس کا تمہارا نفس حریص ہوجائے کیونکہ جو شخص بھی دنیا میں حرام خدا وندی کا مرتکب ہوگا خداوند سبحان اسے جنت سے اور اس کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم کردے گا ''۔(٤)

٢۔ خمود:

''شرارت'' کے مقابل ہے یعنی ضروری خوراک کی فراہمی میں کاہلی اور کوتاہی کرنا اور جنسی غریزہ سے ضروری استفادہ کرنے میں سستی اور کوتاہی کرنا اس طرح سے کہ صحت و سلامتی، خاندان کی تباہی اور نسل کے منقطع ہونے کا سبب بن جائے ۔ یہ واضح ہے کہ یہ حالت غریزوں اور شہوتوں سے استفادہ میں تفریط اور کوتاہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔(٥) ''خمود'' حکمت خلقت کے مخالف اور نسل انسان کے استمرار و دوام نیز اس کی بقا اور مصلحت کے مخالف ہے، اس کے علاوہ اسلامی اخلاق میں غرائز وشہوات سے جائز استفادہ کی جوکثرت سے تاکید پائی جاتی ہے اور جو کچھ رہبانیت اور دنیا سے کنارہ کشی کی مذمت کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے وہ سب '' خمود '' کی قباحت کو بیان کرتے ہیں ۔اس امر کی تفصیلی بحث '' اخلاق جنسی '' میں ہوگی۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٣، ص ٥٠٦۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٤۔ ٣۔ ؛ کلینی، کافی، ج٨، ص ٩ ١، ح٤ ؛ نہج البلاغہ، حکمت، ٣٧١۔٤۔ کلینی، کافی ، ج٨، ص ٤، ح ١۔٥۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٣۔

۱۵۷

ہ۔ عفّت کے فوائد :

روایات میں عفّت کے متعدد دنیوی اور اخروی فوائد بیان کئے گئے ہیں جیسے پستیوں سے نفس کی حفاظت کرنا، شہوتوں کو کمزور بنانا اور عیوب کا پوشیدہ ہونا کہ یہاں اختصار کے پیش نظررسول خدا کے ایک کلام کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کررہے ہیں۔

عفّت کے علائم یہ ہیں: جو کچھ ہے اس پر راضی ہونا، اپنے کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا، نیکیوں سے استفادہ کرنا، آسائش اور راحت میں، اپنے ما تحتوں اور مسکینوں کی دل جوئی، تواضع، یا د آوری ( غفلت کے مقابل )، فکر، جو د و بخشش اور سخاوت کرنا۔(١)

٥۔ صبر

نفسانی صفات میں سب سے عام اور اہم روکنے والی صفت ''صبر '' ہے۔ ''صبر '' کے معنی عربی لغت میں حبس کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے ہیں۔(٢) اور بعض نے اسے بے تابی اور بے قراری سے نفس کو باز رکھنے سے تعبیر کیا ہے۔(٣) اخلاقی اصطلاح میں صبرنام ہے نفس کو اس چیز کے انجام دینے اور آمادہ کرنے جس میں عقل و شرع کا اقتضاء ہونیز اس چیز سے روکنا جسے عقل وشرع منع کرتے ہیں۔(٤) مذکورہ تعریفوں کے پیش نظر ''صبر '' ایک ایسی عام اور روکنے والی نفسانی صفت ہے کہ جس میں دو اہم جہت پائے جاتے ہیں : صبر ایک طرف انسان کی غریزی اور نفسانی خواہش اور میلان کوحبس اور دائرئہ عقل وشرع میںمحدود کرتا ہے۔ دوسری طرف نفس کو عقل وشرع کے مقابل ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے سے روکتا ہے اور اسے اس بات پر ابھارتا ہے کہ اپنے کو فرائض الہی کی پابندی کے لئے زحمت اٹھانے اور دشواریوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے، البتہ اگر یہ حالت انسان میں سہولت و آسانی سے پیدا ہوجائے تو اسے ''صبر'' اور اگر انسان زحمت ومشقت میں خود کو مبتلا کرکے اس پر آمادہ کرے تو اسے '' تصبر '' (زبردستی صبر کرنا )کہتے ہیں۔

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص٢٠۔

٢۔ زبیدی، تاج العروس، ج ٧، ص ٧١ ؛ راغب اصفہانی، مفردات، ٤٧٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٤، ص ٤٣٨۔

٣۔ جوہری، صحاح اللغة، ج ٢، ص ٧٠٦۔ طریحی، مجمع البحرین، ج ٢، ص ١٠٠٤۔

٤۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٤٧٤۔

۱۵۸

الف۔ صبر کی قسمیں:

صبر کے لئے جو عام اور وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق علماء اخلاق نے متعدد جہات سے صبر کے لئے مختلف اقسام و انواع بیان کی ہیں کہ ان میں سے اہم ترین اقسام کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

١۔ مفہوم کے لحاظ سے:

مذکورہ تعریفوں کے مطابق کبھی صبر سے مراد نفسانی جاذبوں اور دافعوں میں ہر قسم کی محدودیت کا ایجاد کرنا ہے کہ جو ایک عام مفہوم ہے اور کبھی اس سے مرادناگوار امور کی نسبت عدم رضایت اور بے تابی کے اظہار سے نفس کو روکنا ہے۔ اس لحاظ سے صبر کے دو مفہوم ہیں کہ کبھی خاص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

٢۔ موضوع کے لحاظ سے:

صبر اپنے عام مفہوم میں موضوع کے اعتبار سے متعدد انواع کا حامل ہے۔

کبھی صبر سختیوں اور مصیبتوںپر ہوتا ہے جو کہ ان سختیوں اور مصیبتوں کے مقابل مضطرب وپریشان نہ ہونا اور سعہ صدر کی حفاظت ہے، اسے '' مکروہات پر صبر '' کہتے ہیں اور اس کے مقابل ''جزع '' اور بے قرار ی ہے صبر کی رائج قسم یہی ہے۔ جنگ کی دشواریوں پر صبر کرنا '' شجاعت'' ہے اور اس کے مقابل '' جبن '' بزدلی اور خوف ہے۔ اور کبھی صبر غیض و غضب کی سرکشی اور طغیانی کے مقابل ہے کہ اسے '' حلم '' اور '' کظم غیظ '' کہتے ہیں۔ کبھی صبر عبادت کے انجام دینے میں ہے کہ اس کے مقابل ''فسق '' ہے جو شرعی عبادت کی پابندی نہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اور کبھی صبر شکم کی شہوت اور جنسی غریزہ کے مقابل ہے کہ جسے '' عفّت ''کہتے ہیں۔ اور دنیا طلبی اور زیادہ طلبی کے مقابل ہے جو کہ ''زہد '' ہے اور اس کے مقابل '' حرص '' ہے۔

۱۵۹

اور کبھی صبر اسرار کے کتمان پر ہوتا ہے کہ جسے راز داری کہتے ہیں۔(١)

٣۔ حکم کے لحاظ سے:

صبر اپنے تکلیفی حکم کے اعتبارسے پانچ قسم میں تقسیم ہوتاہے: واجب صبرجو کہ حرام شہوات ومیلانات کے مقابل ہے۔ اور مستحب صبر مستحبات کے انجام دینے پر ہونے والی دشواریوں کے مقابل ہے۔ حرام صبر جو بعض اذیت و آزار پر ہے جیسے انسان کے مال، جان اور ناموس پر دوسروں کے تجاوز کرنے پر صبر کرنا۔ صبر ناگوار اور مکروہ امور کے مقابل جیسے عاشور کے دن روزہ رکھنے کی سختی پر صبر کہ جو مکروہ ہے ان موارد کے علاوہ مباح ہے، لہٰذا ہمیشہ صبر پسندیدہ اور محبوب شیٔ نہیں ہے، بلکہ کبھی حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوجاتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص٢٨٠، ٢٨١؛ رسول اکرم نے ایک حدیث میں صبر کی تین قسم بیان کی ہے: مصیبت کے وقت صبر، طاعت و بندگی پر صبر، اور معصیت و گناہ پر صبر۔ کلینی، اصو ل کافی، ج ٢، ص ٩١، ح ١٥۔ اسی طرح بعض علماء اخلاق نے صبر کو اس وجہ سے دو قسم پر تقسیم کیا ہے متاع دنیا (سراء ) پر صبر اور بلا (ضراء ) پر صبر۔ ملاحظہ ہو نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٩٣، ٢٩٤۔

٢۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٨٥۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

سورہ نساء كى آيت ۵۸ ميں حكم ہے :

''ان الله يأمركم ا ن تُودّوا الامانات الى اهلها و اذا حكمتم بين الناس ا ن تحكموا بالعدل ''

بے شك خدا تمھيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچادو _اور جب لوگوں كے درميان فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _

ابوحمزہ ثمالى نے امام باقر سے امام اور لوگوں كے باہمى حقوق كے متعلق پوچھا تو امام نے عدل و انصاف كو لوگوں كا امام پر حق قرار ديا _ ابوحمزہ ثمالى كہتے ہيں :

''سألت أبا جعفر (ع) ما حقّ الإمام على الناّس؟ قال: '' حقه عليهم ان يسمعوا له و يطيعوا'' قلت: فما حقّهم عليه ؟ قال: '' يقسّم بينهم بالسوية و يعدل فى الرعية ''(۱)

ميں نے امام باقر سے پوچھا كہ امام كا لوگوں پر كيا حق ہے ؟آپ نے فرمايا امام كا ان پر يہ حق ہے كہ وہ امام كى بات سنيں اور اطاعت كريں _پھر ميں نے پوچھا لوگوں كا امام پر كيا حق ہے ؟آپ نے فرمايا: بيت المال كو ان كے در ميان بطور مساوى تقسيم كرے اور رعيت كے درميان عدل و انصاف كرے

حضرت على فرماتے ہيں : ''امام عادل خيرٌ من مطر وابل''

امام عادل موسلہ دھار بارش سے بہتر ہے _(۲)

امام رضا مخصوص معنوى اورثقافتى اہداف كو امام كے فرائض ميں سے شمار كرتے ہوئے فرماتے ہيں :

والإمام يحلّ حلال الله و يحرّم حرام الله و يقيم حدود الله ويذبّ عن دين الله و يدعوا إلى سبيل ربه بالحكمة و الموعظة

____________________

۱) كافى ،ج ۱، ص ۴۰۵، باب مايجب من حق الامام على الرعية، ح۱_

۲) غررالحكم ،آمدى ج ۱ ، ص ۳۸۶، ح ۱۴۹۱_

۳۰۱

الحسنة و الحجةالبالغة (۱)

امام حلال خدا كو حلال اور حرام خدا كو حرام قرار ديتا ہے ، حدود الہى كو قائم كرتا ہے ، دين خدا كا دفاع كرتا ہے اور(لوگوں كو ) حكمت ، موعظہ حسنہ اور محكم دليل كے ذريعہ راہ خدا كى طرف دعوت ديتا ہے_

حضرت اميرالمومنين خدا سے مناجات كرتے ہيں _ اور اس نكتہ'' كہ مسلمانوں پر حكومت قبول كرنے كاميرامقصد كوئي دنيوى منصب و اقتدار اور بے قيمت دنيوى مال و متاع كا حصول نہيں تھا ''كے ضمن ميں تين اہداف كا ذكر كرتے ہيں جن ميں سے دو معنوى اہداف ہيں :

''اللهمّ إنّك تعلم انّه لم يكن الذى كان منّا منافسة فى سلطان، ولا التماس شي من فضول الحطام ، و لكنّ لنرد المعالم من دينك ، و نُظهر الاصلاح فى بلادك فيأمن المظلومون من عبادك، و تقام المعطّلة من حدودك ''

اے پروردگار تو جانتا ہے كہ ميں نے يہ كام نہ ملك و سلطنت كے حصول كيلئے كيا ہے اور نہ ہى اس دنيا كے پست و بے قيمت مال كو اكھٹا كرنے كيلئے كيا ہے _

ميں نے يہ قدم اس لئے اٹھايا ہے تا كہ تيرے دين كى تعليمات كو واپس لے آؤں، صلح و سلامتى كو تيرے شہروں ميں برقرار كروں تا كہ تيرے مظلوم بندے امن سے رہ سكيں اور تيرے ان قوانين كو زندہ كروں جنہيں معطل كر ديا گيا ہے_(۲)

حق كا قيام اور باطل سے مبارزت بھى دينى حكومت كے اہداف ميں سے ہے سورہ ص كى آيت ۲۶ ميں ارشادہے : ''يا داود انّا جعلناك خليفة فى الارض فاحكم بين الناس بالحق'' اے داود ہم نے تمھيں زمين پر خليفہ مقرركيا ہے _ پس لوگوں كے درميان حق كے ساتھ فيصلہ كرو_

____________________

۱) كافي، ج ۱، ص۲۰۰، باب نادر جامع فى فضل الامام و صفاتہ ،ح ۱_

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۱_

۳۰۲

حضرت على اور ابن عباس كے درميان ''ذى قار'' كے مقام پر جو مكالمہ ہوا تھا اس ميں آپ (ع) نے حكومت كرنے كا مقصد حق كا قيام اور باطل كو روكنا قرار ديا تھا آنحضرت (ص) نے جب معاذ ابن جبل كو يمن كا والى بنا كر بھيجا تو انہيں كچھ اہم نصيحتيں كيں _ جن ميں سے بعض دينى حكومت كے معنوى اہداف كى طرف اشارہ كرتى ہيں آپ نے فرمايا :

''يا معاذ، عَلّمهُم كتابَ الله وأحسن أدبَهم على الأخلاق الصالحة و أنزل النّاس منازلَهم خيرَهم و شرّهم و أمت أمرَ الجاهليّة إلاّ ما سنّه الإسلام و أظهر أمر الإسلام كلَّه، صغيرَه و كبيرَه، و ليكن أكثر همّك الصلاة: فإنّها رأس الإسلام بعد الإقرار بالدين و ذكّر الناس بالله واليوم الآخر و اتّبع الموعظة; فإنّه أقوى لهم على العمل بما يحبّ الله ثمّ بثّ فيهم المعلّمين، و اعبد الله الّذ إليه ترجع، و لا تَخَف فى الله لومة لائم'' (۱)

اے معاذ لوگوں كو قرآن كى تعليم دينا _ اچھے اخلاق سيكھانا ، اچھے اور برے افراد كو ان كے مقام پرركھنا ...جاہليت كى ہر رسم كو فنا كردينا مگر جس كى اسلام نے اجازت دى ہے _ اسلام كے چھوٹے بڑے ہر حكم كو قائم كرنا _ ليكن تيرى زيادہ كوشش نماز كے متعلق ہونى چاہيے _ كيونكہ دين كا اقرار كرنے كے بعد نماز اسلام كا سب سے اہم ركن ہے ، لوگوں كو خدا اور قيامت كى ياد دلانا ، وعظ و نصيحت كو ياد ركھنا ، يہ ان كے لئے خدا كے پسنديدہ امور پر عمل كرنے كيلئے مدد گار ثابت ہوگا _ پھر معلمين كو ان ميں پھيلادينا اور اس خدا كى عبادت كرنا جس كى طرف تجھے پلٹ كرجانا ہے اور خدا كے سلسلہ ميں كسى ملامت كرنے والے كى ملامت سے مت ڈرنا_

____________________

۱) تحف العقول ،ص ۲۶_

۳۰۳

خلاصہ :

۱) دوسرے سياسى نظاموں سے دينى حكومت كو ممتاز كرنے والى ايك چيز اسلامى حكومت كے اہداف اور فرائض ہيں _

۲) موجودہ دور ميں خصوصاً لبرل جمہوريت ميں نظريہ '' حكومت حداقل'' اور حكومت كے اہداف و فرائض كو محدود كرنے كى حمايت كى جاتى ہے _

۳) لبرل جمہورى حكومتيں خير و سعادت اور اخلاق و معنويت جيسے امور كو انفرادى خصوصيات قرار ديتے ہوئے حكومت كے اہداف اور فرائض سے خارج سمجھتى ہے _

۴)دينى حكومت كے اہداف و فرائض كى تحقيق و بررسى ''اسلام كى نگاہ ميں مقام حكومت كى وضاحت ''كے ساتھ مربوط ہے _

۵) اسلام كى نظر ميں حكومت ايك سنگين ذمہ دارى اور عظيم امانت ہے ، اور حكومت كا حاصل كرلينا كسى مقام و منزلت يا كمال پر فائز ہونا نہيں ہے _

۶)حكومت كى اہميت امانت الہى كى ادائيگى ميں ہے اور امانت كا ادا كرنا ان اہداف اور فرائض كے انجام دينے پر موقوف ہے جو حكومت اور حكمرانوں كيلئے مقرر كئے گئے ہيں _

۷) دينى حكومت كے اہداف كو دو بنيادى قسموں يعني'' معنوى اہداف'' اور'' دنيوى اہداف'' ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _

۸) آيات و روايات ميں حكومت كے معنوى اہداف پر بہت زور ديا گيا ہے _

۳۰۴

سوالات :

۱) حكومت كے اہداف اور فرائض كے متعلق لبرل ازم كا كيا نظريہ ہے ؟

۲) لبرل جمہوريت كے معتقدين كے سياسى نظريہ ميں سعادت اور معنويت كا كيا مقام ہے ؟

۳) اسلام كى نگاہ ميں حكومت كى حقيقت كيا ہے ؟

۴) دينى حكومت كے ''معنوى اہداف ''سے كيا مراد ہے ؟

۳۰۵

تيسواں سبق :

دينى حكومت كے اہداف اور فرائض -۲-

گذشتہ سبق ميں ہم نے دينى حكومت كے اہداف كو دو حصوں ميں تقسيم كيا تھا مادى اہداف اور معنوى اہداف ، اور بعض وہ آيات و روايات ذكر كى تھيں جو معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ معنوى اہداف كو درج ذيل امور ميں خلاصہ كيا جاسكتا ہے _

۱)_ امور كے اجرا ميں حق كا قيام اور حق پرستى جبكہ باطل، شرك اور جاہليت كا خاتمہ

۲)_ عدل و انصاف كو عام كرنا _

۳)_ حدود الہى كا اجرا _

۴)_ معارف الہى كى تعليم اور عبادت و عبوديت كو پھيلانے كيلئے كوششيں كرنا_

۵)_ نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _

۶)_ دين الہى كا دفاع اور توحيد الہى كى دعوت كو عام كرنا _

۳۰۶

ب_ دنيوى اہداف

دينى حكومت كے دنيوى اہداف سے مراد وہ اہداف ہيں جن كے بارے ميں عقلى طور پر ہميشہ يہ توقع كى جاتى ہے كہ ايك با صلاحيت عوامى حكومت ان كيلئے خاص اہتمام كرے اور ان كو خصوصى اہميت دے_ يہاں ان اہداف كے ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ ہمارے دينى منابع نے امر معاش ،رفاہ عامہ اور معاشرہ كے امن و امان سے سرد مہرى اور بے توجہى نہيں برتي_ اسلامى تعليمات ميں دنيوى آباد كارى كے ساتھ ساتھ ہميشہ آخرت كى فكر بھى اولياء دين كے پيش نظر رہى ہے _ بنابريں دينى حكومت كے اہداف ميں ان امور كى طرف بھى اشارہ كيا گيا ہے جو معاش اور مختلف دنيوى پہلوؤں كے ساتھ مربوط ہوتے ہيں _ دينى حكومت كے دنيوى اہداف وہى اہداف ہيں جن كا دوسرى سيكولر حكومتيں دعوى كرتى ہيں _ بحث كے آخر ميں ہم ان اہداف كے حصول ميں دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں جو بنيادى فرق ہے اس كى طرف اشارہ كريں گے _

قرآن مجيد ميں حفظ امنيت اور اسلامى معاشرہ كى فوجى قوت پر بڑا زور ديا گيا ہے

سورہ انفال كى آيت ۶۰ ميں ارشاد خداوندى ہے:

''( و اعدوا لهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل ترهبون به عدوّ الله و عدوّكم ) ''

اور تم بھى جہاں تك ممكن ہوسكے قوت اور گھوڑوں كى صف بندى كا انتظام كرو تا كہ تم اس سے خدا اور اپنے دشمن كو خوفزدہ كرو_

امام صادق بھى امن و امان كى برقرارى اور آباد كارى كو لوگوں كى عمومى ضروريات ميں سے قرار ديتے ہيں كہ ہر معاشرہ ميں ان پر خاص توجہ دينا ضرورى ہے _ آپ فرماتے ہيں:

''ثلاثة اشياء يحتاج الناس طرّاً إليها : الامن والعدل والخصب''

۳۰۷

تين چيزوں كى لوگوں كو ضرورت ہوتى ہے _ امن ، انصاف ، اور فراخى و خوشحالي_ (۱)

حضرت على نے مالك اشتر كو جب مصر كا حاكم بناكر بھيجا تو اسے ايك عہد نامہ ديا جس كے شروع ميں چند حكومتى اہداف كى طرف اشارہ كيا گيا ہے _

'' هذا ما أمر به عبدالله عليّ أمير المؤمنين مالك بن الحارث الأشتر فى عهده إليه حين و لاه مصر: جباية خَراجها، و جهاد عدوّها، و استصلاح أهلها و عمارة بلادها (۲)

يہ خدا كے بندے على (ع) اميرالمومنين (ع) كى طرف سے مالك ابن حارث اشتر كو دستور ديا جارہا ہے جب اسے مصر كى ولايت عطا كى كہ: وہ وہاں كا خراج اكھٹا كرے ، اس كے دشمنوں سے جہاد كرے ، اس كے رہنے والوں كى اصلاح اور اس كے شہروں كى آباد كارى كيلئے كوشش كرے_

حضرت اميرالمومنين اپنے ايك خطبہ ميں لوگوں كے حقوق بيان كرتے ہيں كہ جنہيں دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں سے شمار كيا جاسكتاہے _ ان ميں سے بعض يہ ہيں، تعليم و تربيت كا عام كرنا اور ملك كے مالى منابع سے لوگوں كو ان كاحصہ دينا _

''أيّها الناس، إنّ لى عليكم حَقّاً و لكم عليّ حقّ; حقّكُم عليّ، فالنصيحة لكم و توفيرُ فيئكم عليكم و تعليمكم كيلا تجهلوا و تأديبكم كيما تعلموا'' (۳)

____________________

۱) تحف العقول، ص ۲۳۶_

۲) نہج البلاغہ ،مكتوب ۵۳_

۳) نہج البلاغہ ،خطبہ ۳۴_

۳۰۸

اے لوگوں ميرا تم پر ايك حق ہے _ اور تمھارا مجھ پر ايك حق ہے _ تمھارا مجھ پر يہ حق ہے كہ ميں تمھيں نصيحت كروں، تمھارے مال كو تم پر خرچ كروں، تمھيں تعليم دوں تا كہ تم جہالت سے نجات حاصل كرلو، اور تمھارى تربيت كروں تا كہ تم عالم ہوجاؤ _

ان صاحبان قدرت كے مقابلہ ميں جو ظلم و ستم كے ذريعہ اپنى ثروت و طاقت ميں اضافہ كرتے ہيں ظلم كے خلافجنگ و مبارزہ اور مظلوموں كى حمايت ان اہداف ميں سے ہيں جن كى اسلام نے بہت زيادہ تاكيد كى ہے _ حضرت على اس امر كو علماء كيلئے ايك منصب الہى سمجھتے ہيں اور اس عہد كے وفا كرنے كو خلافت كے قبول كرنے كى ادلّہ ميں سے قرار ديتے ہوئے _ فرماتے ہيں:

''لو لا حضورُ الحاضر و قيامُ الحجّة بوجود الناصر و ما أخذَ الله على العلماء أن لا يقارّوا على كظَّة ظالم و لا سَغَب مظلوم، لا لقيتُ حَبلَها على غاربها '' (۱)

اگر بيعت كرنے والوں كى موجود گى اور مدد كرنے والوں كے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئي ہوتى اور وہ عہد نہ ہوتا جو خدا نے علماء سے لے ركھا ہے كہ وہ ظالم كى شكم پرى اور مظلوم كى گرسنگى پر آرام سے نہ بيٹھيں تو ميں خلافت كے اونٹ كى مہار اسى كے كند ہے پر ڈال ديتا_

خوارج جو كہ لاحكم الّالله كا نعرہ لگاتے تھے اور اس طرح حكومت كا انكار كرتے تھے_ حضرت على نے ان كے مقابلہ ميں وجود حكومت كے كچھ فوائد گنوائے ہيں جو در حقيقت وہ اہداف ہيں كہ ہر حكومت كيلئے ان كا حاصل كرنا ضرورى ہے _ ان ميں سے ايك ہدف ظالم اور جابر افراد سے كمزوروں اور مظلوموں كا حق وصول كرنا ہے _ فرماتے ہيں :(و يؤخذ به للضعيف من القوي )(۲)

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۳ _

۲) نہج البلاغہ خطبہ ۴۰_

۳۰۹

اس (حكومت)كے ذريعہ طاقتور سے مظلوم كا حق واپس ليا جاتا ہے _

مختلف معاشرتى امور كى اصلاح بھى دينى حكومت كے اہداف ميں سے ہے _'' إن أريد إلا الإصلاح ما استطعت'' ميں تو فقط اصلاح چاہتاہوں جہاں تك مجھ سے ممكن ہوسكے(۱)

حضرت على شہروں كى اصلاح كو اپنى خلافت كے اہداف ميں سے قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں : ''و نُظہر الإصلاح فى بلادك ، فيأمن المظلومون من عبادك''ہم تيرے شہروں ميں امن و بہبودى كى صورت پيدا كريں گے تا كہ تيرے مظلوم بندے امن سے رہيں _(۲)

گذشتہ مطالب كى روشنى ميں دينى حكومت كے دنيوى اہداف كو درج ذيل امور ميں خلاصہ كيا جاسكتا ہے _

۱_ امن و امان قائم كرنا _

۲_ اسلامى سرحدوں كى حفاظت اور دفاع كو مضبوط بنانا

۳_ رفاہ عامہ اور آباد كارى كيلئے اقدام كرنا _

۴_ مختلف معاشرتى امور كى اصلاح _

۵_ عمومى اموال كى حفاظت اور معاشرہ ميں اس كى عادلانہ تقسيم_

۶_ تعليم و تربيت كو عام كرنا _

۷_ معاشرتى ضروريات پورى كرنااور مظلوم اور آسيب زدہ افراد كى حمايت

دينى حكومت كے دنيوى اہداف وہى عمومى اہداف ہيں كہ جن كى ہر حكومت مدعى ہوسكتى ہے _ يہ اہداف عقلائي پہلو كے حامل ہيں اور ان كا بيان كرنا شريعت اور دين كے ساتھ مخصوص نہيں ہے_ اس كے باوجود ان اہداف كے پورا كرنے ميں دينى حكومت دوسرى غير دينى حكومتوں سے مختلف ہے اور يہ فرق دوجہت سے ہے_

____________________

۱) سورہ ہود آيت ۸۸_

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۱_

۳۱۰

الف: يہ كہ دينى حكومت ان اہداف پر خاص توجہ ديتى ہے_ جبكہ دوسرى حكومتوں ميں اس قسم كا اہتمام ديكھنے كو نہيں ملتا _ بطور نمونہ پانچويں اور ساتويں نمبر شمار كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے _ حكومت كے سلسلہ ميں ائمہ معصومين كى روايات اور آنحضرت (ص) اور اميرالمومنين كى عملى سيرت ميں فقراء ضعفاء اورتہى دست افراد كى مدد كرنے پر بہت زور ديا گيا ہے _ اور دوسرى طرف مختلف معاشرتى امور ميں بيت المال كى عادلانہ تقسيم كى تاكيد بھى كى گئي ہے _

ب: ان اہداف كے حصول كى روش كے لحاظ سے ہے _ دينى حكومت اپنے دنيوى اہداف كو بھى معنوى اہداف كے ساتھ ساتھ ركھتى ہے _ اجتماعى زندگى كے دنيوى اور عقلائي پہلوؤں كو اخلاقيات ، معنويات اور دين كے سايہ ميں آگے بڑھاتى ہے _ مثال كے طور پر معاشرہ كى اصلاح اور آبادكارى اگر چہ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ہيں ليكن انہيں بھى معنوى اہداف كے زير سايہ پورا كيا جاتا ہے _ يعنى عدل و انصاف كى حاكميت ان دنيوى اہداف كے حصول كى راہيں ہموار كرتى ہے _ حضرت على فرماتے ہيں :

''العدلُ يضع الأُمور فى مواضعها'' (۱)

عدل يہ ہے كہ تمام امور كو ان كے مقام پر ركھا جائے _

''ما عُمرت البُلدان بمثل العَدل ''(۲)

شہروں كى آبادكارى عدل سے ہى ممكن ہے_

در حقيقت رفاہ عامہ اور امن و امان اسى وقت پابرجا ہوسكتے ہيں جب انسان كى اجتماعى زندگى اخلاقيات ، معنويات اور الہى اقدار سے سرشار ہو_ اسى وجہ سے دينى حكومت كے معنوى اہداف كا تحقق اس كے دنيوى اہداف كے حصول كيلئے مددگار ثابت ہوتا ہے _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۷۵، ص ۳۵۷، باب احوال الملوك والامرائ، ح ۷۲_

۲) غررالحكم، آمدى ج ۶ ، ص ۶۸،ح ۴۳ ۹۵_

۳۱۱

دينى حكومت كے اہلكاروں كے فرائض

دينى حكومت كے مادى اور معنوى اہداف كا حصول اس كے حكّام اور اہلكاروں كے كندھوں پر سنگين ذمہ دارى ہے_ معنوى اہداف پر اسلام كى تاكيداسلامى حكّام سے ايك خاص انفرادى خصوصيات كى خواہاں ہے _ يہ بھى دينى حكومت كى ان خصوصيات ميں سے ہے ہيں جو اسے دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتى ہيں _ ہم يہاں اجمالى طور پر بعض فرائض كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

۱_ تقوى الہى كى رعايت :

دينى حكومت نے روح ايمان و تقوى كى تقويت ،معارف الہى كے پھيلاؤ اور عدل و انصاف كے قيام كو اپنا ہدف قرار ديا ہے _ اسى لئے ضرورى ہے كہ حكومتى اہل كار تقوى اور عبوديت سے سرشار ہوں آشكار اور پنہان دونوں حالتوں ميں تقوى الہى كو مد نظر ركھيں ، ان كى گفتار اور كردار ايك ہو _ حضرت على اپنے ايك عامل كو خط لكھتے ہوئے فرماتے ہيں _

''آمره بتقوى الله فى سرائر امره و خفيّات عمله، حيث لا شاهد غيره و لا وكيل دونه، و أمره أن لا يعمل بشيء من طاعة الله فيما ظهر; فيخالف الى غيره فيما أسره و مَن لم يختلف سره و علانيته و فعله و مقالته ، فقد أدّى الامانة و أخلص العبادة'' (۱)

ميں انہيں حكم ديتا ہوں كہ وہ اپنے پوشيدہ امور اور مخفى كاموں ميں الله سے ڈرتے رہيں _ جہاں نہ خدا كے سوا كوئي گواہ ہے اور نہ اس كے سوا كوئي نگران ہے _ اور انہيں حكم ديتا ہوں كہ وہ ظاہر ميں الله كا كوئي ايسا فرمان بجانہ لائيں كہ ان كہ چھپے ہوئے اعمال اسكے خلاف ہوں _

____________________

۱) نہج البلاغہ مكتوب ۲۶_

۳۱۲

اور جس شخص كا باطن و ظاہر اور كردار و گفتار مختلف نہ ہو ، اس نے امانتدارى كا فرض انجام ديا اور الله كى عبادت ميں خلوص سے كام ليا _

تقوى كا تقاضا ہے كہ اسلامى مملكت كے حكمران ہر كام ميں الہى فرامين كو مد نظر ركھيں ، اپنى خواہشات نفسانى كو امرخدا پر ترجيح نہ ديں ، امام صادق پيشواؤں كو حق و باطل كى طرف تقسيم كرنے كے بعد اس خصوصيت كو پيشوايان حق كا طرہ امتياز قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

إن الائمة فى كتاب الله عزّوجلّ _ إمامان ; قال الله (تبارك و تعالي): ''و جعلناهم ائمة يهدونَ بأمرنا'' لا بأمر الناس، يقدّمون أمر الله قبل أمرهم، و حكم الله قبل حُكمهم _ قال: ( ( و جعلناهم ائمة يهدون إلى النار ) ) يقدمون أمرهم قبل أمرالله و حُكمهم قبل حكم الله ، و يأخذون بأهوائهم خلاف ما فى كتاب الله (۱)

قرآن مجيد ميں دو قسم كے ائمہ كا ذكر ہے خدا فرماتا ہے '' وجعلناہم أئمة يہدون بأمرنا ...''كہ: ہم نے انہيں پيشوابنايا جو ہمارے حكم كے مطابق راہنمائي كرتے ہيں نہ كہ لوگوں كے امر كے مطابق ، خدا كے امر كو اپنے امر پر اور خدا كے حكم كو اپنے حكم پر ترجيح ديتے ہيں _ دوسرى جگہ خداوند متعال نے فرمايا( ''و جعلنا هم ائمة يهدون الى النار'' ) ''اور ہم نے ان كو ايسے ائمہ قرار ديا جو جہنم كى طرف لے جاتے ہيں '' يہ اپنے امر كو خدا كے امر پر اور اپنے حكم كو خدا كے حكم پر ترجيح ديتے ہيں _ اور كتاب خدا كى ہدايات كے برعكس اپنى خواہشات پر عمل كرتے ہيں _

____________________

۱) كافى ج ۱ ص ۲۱۶ باب ان الائمة فى كتاب اللہ امامان ح ۲ _

۳۱۳

۲_ شائستہ قيادت :

اسلامى حكّام كے لئے پہلے مرتبہ ميں يہ ضرورى ہے كہ وہ خود لائق اور پابند افراد ہوں شائستہ اور مہذب افراد كو عہدے ديں ، اسلام و مسلمين كى مصلحت كو تمام روابط و ضوابط پر ترجيح ديں _ حضرت على نے اپنے عہد نامہ ميں مالك اشتر كو حكومتى اہلكاروں كے انتخاب كے سلسلہ ميں خاص توجہ دينے كا حكم دياہے اور مختلف پہلوؤں كو مد نظر ركھنے پر اصرار كيا ہے _

''ثمّ انظر فى أمور عُمّالك فاستعملهم اختباراً ، و لا تولّهم محاباة و اثرة ; فانّهما جماع من شُعب الجَور والخيانة، و توخّ منهم أهل التجربة و الحياء من أهل البيوتات الصالحة و القدم فى الإسلام المتقدّمة: فانّهم أكرم أخلاقاً و أصحّ أعراضاً و أقلّ فى المطامع إشراقاً و أبلغ فى عواقب الامور نظراً''

''ثم اختر للحكم بين الناس أفضل رعيّتك فى نفسك، ممّن لا تضيق به الأمور و لا تُمحكُمه الخصوم، و لا يتمادى فى الزلّة، و لا يحصر من الفيء إلى الحقّ إذا عرفه''(۱)

پھر اپنے عہدہ داروں كے بارے ميں نظر ركھنا اور انہيں اچھى طرح آزمانے كے بعد منصب دينا ، صرف رعايت اور جانبدارى كى بناپر عہدہ نہ دينا كيونكہ يہ چيزيں نا انصافى اور بے ايمانى كا سرچشمہ ہيں ، ايسے لوگوں كو منتخب كرنا جو تجربہ كار اور غيرت مندہوں ، اچھے گھرانوں سے ان كا تعلق ہو ، اسلام كے سلسلہ ميں پہلے سے ان كى خدمات ہوں ، كيونكہ ايسے لوگ بلند

____________________

۱) نہج البلاغة مكتوب ۵۳_

۳۱۴

اخلاق ،بے داغ عزت والے ہوتے ہيں حرص و طمع كى طرف كم مائل ہوتے ہيں اور عواقب و نتائج پر زيادہ نظر ركھتے ہيں _ پھر يہ كہ لوگوں كے معاملات كا فيصلہ كرنے كيلئے ايسے شخص كو منتخب كرو جو تمھارے نزديك تمھارى رعايا ميں سب سے بہتر ہو، جو واقعات كى پيچيدگيوں سے اكتا نہ جاتا ہو ، اور نہ جھگڑا كرنے والوں كے رويہ سے غصہ ميں آتا ہو ، اور نہ ہى اپنے كسى غلط نقطہ نظر پر اڑتا ہو اور نہ ہى حق كو پہچان كر اس كے اختيار كرنے ميں طبيعت پر بوجھ محسوس كرتا ہو _

۳_زہد اور سادگى :

گذشتہ سبق ميں ہم اشارہ كرچكے ہيں كہ اسلامى نقطہ نظر سے ''حكومت'' ايك سنگين ذمہ داريوں كى حامل الہى امانت ہے اور ہرگز كسى اجتماعى امتياز يا دولت سميٹنے كيلئے كوئي وسيلہ شمار نہيں ہوتى _ دوسرى طرف كمزوروں كى حمايت اور طاقتور افراد سے ستم رسيدہ اور كمزور افراد كے حق كى وصولي،اسلامى نظام كے اہداف ميں سے ہے لہذا ضرورى ہے كہ حكام اور حكومتى اہلكار فقيروں اور مظلوموں كے درد سے آشنا ہوں اور معاشى و اقتصادى لحاظ سے ان سے دور نہ ہوں _ حضرت اميرالمومنين فرماتے ہيں :

''إنّ الله جعلنى إماماً لخلقه، ففرضَ على التقدير فى نفسى و مطعمى و مَشربى و مَلبسى كضعفاء الناس، كى يقتدى الفقير بفقرى و لا يطغى الغنى غناه '' (۱)

خدا نے مجھے لوگوں كا امام بنايا ہے _ اور مجھ پر واجب قرار ديا ہے كہ ميں اپنے نفس ،كھانے پينے اور لباس ميں فقراء كى طرح رہوں تا كہ فقير ميرے فقر ميں ميرى پيروى كرے اور دولتمند اپنى دولت كى بناپر نافرمانى اور سركشى نہ كرے _

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۴۱۰ باب سيرة الامام فى نفسہ ح۱_

۳۱۵

معلى ابن خنيس كہتے ہيں : ميں نے خاندان بنى عباس كى معاشرتى حالت اور شان و شوكت ديكھ كر خواہش كى كہ كاش امام صادق-- كو حكومت مل جاتى تا كہ ہم بھى ان كے زير سايہ ايك خوشحال اور عيش و عشرت سے بھرى زندگى گزارتے امامنے جواب ميں فرمايا :

'' هيهات، يا معلّى أما و الله ان لو كان ذاك ما كان إلا سياسة الليل و سياحة النهار و لُبس الخَشن و أكل الجَشب'' (۱)

ہرگز نہيں اے معلى خدا كى قسم اگر ايسا ہوتا (يعنى ہم حكمران ہوتے) تو تدبر شب ،دن ميں كام كاج ، كھردرے كپڑے اور سادہ كھانے كے سوا كچھ نہ ہو تا_

۴_اجتماعى امور ميں مساوات :

اسلامى معاشرہ كے صاحبان اقتدار كے فرائض ميں سے يہ بھى ہے كہ وہ دوسرے عام افراد سے اپنے آپ كو برتر اور ممتازنہ سمجھيں _قانون كے سامنے اپنے كو دوسروں كے برابر سمجھيں_لہذا اگر كسى حكومتى اہلكار سے كوئي جرم سر زدہو جائے تو دوسرے افراد كى طرح اس پر بھى خدا كى حدودجارى ہو نگى _امام صادق فرماتے ہيں :

قال أمير المؤمنين لعمر بن الخطاب : ''ثلاث ان حفظتهن و عملت بهن كفتك ما سواهن و ان تركتهن لم ينفعك شي سواهن'' قال: و ما هنّ يا أبا الحسن؟ قال: '' إقامة الحدود على القريب والبعيد، والحكم بكتاب الله فى الرضا والسخط، و القسم بالعدل بين الاحمر والاسود'' (۲)

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۴۱۰ باب سيرة الامام فى نفسہ ح۲_

۲) وسائل الشيعہ، ج۲۷،ص ۲۱۲،۲۱۳، باب ۱، از ابواب آداب قاضى ح ۲_

۳۱۶

اميرالمومنين على نے عمر ابن خطاب سے فرمايا اگر تو نے تين چيزوں كا خيال ركھا اور ان پر عمل كيا تو تم دوسرى چيزوں سے بے نياز ہو جائوگے اور اگر ان تين چيزوں كو چھوڑديا تو كوئي دوسر ى شےء تمھيں فائدہ نہيں دے گى _پوچھا اے ابوالحسن وہ كيا ہيں ؟فرمايا :قريبى اور غير قريبى پر حدود الہى كااجرا خوشنودى و ناراضگى ميں قرآن كے مطابق حكم لگانا ،اور سرخ و سياہ كے در ميان عادلانہ تقسيم_

۵_لوگوں سے براہ راست رابطہ :

اسلام نے حكام سے يہ مطالبہ كيا ہے كہ وہ عوام كے ساتھ محبت سے پيش آئيں ،ان كى بات سنيںاور ان سے مشورہ ليں _اس سے عوام كى حوصلہ افزائي ہو گى اور حكاّم بھى ان كے دردسے آشنا ہوں گے اور ان كى مقبوليت ميں اضافہ ہو گا ارشاد خداوندى ہے :

''فبما رحمة: من الله لنْتَ لهم و لو كنت فظّاً غليظ القلب لانفضّوا من حَوْلكَ فاعف عنهم و استغفر لهم و شاورهم فى الامر'' (۱)

(اے رسول )يہ الله كا كرم ہے كہ آپ ان لوگوں كيلئے نرم ہيں _وگرنہ اگر آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو يہ آپ كے پاس سے بھاگ كھڑے ہوتے پس انہيں معاف كردو ، ان كے ليئے استغفار كرو اور معاملات ميں ان سے مشورہ كرلياكرو _

دوسرى جگہ ارشاد ہوتاہے:

''و منهم الذين يُؤذون النبيّ و يقولون هو أذن قل أُذنُ خَير: لَكُم يُؤمن بالله و يُؤمن للمؤمنين و رحمةٌ للّذين آمنوا منكم'' (۲)

____________________

۱) آل عمران آيت ۱۵۹_

۲) سورہ توبہ آيت ۶۱_

۳۱۷

ان ميں سے وہ بھى ہيں جو پيغمبر (ص) كو اذيت ديتے ہيں اور كہتے ہيں: وہ تو صرف كان (كے كچے) ہيں_ آپ كہہ ديجئے تمھارے حق ميں بہترى كے كان ہيں كہ خدا پر ايمان ركھتے ہيں ،مومنين كى تصديق كرتے ہيں اور جو تم ميں سے صاحبان ايمان ہيں ان كيلئے رحمت ہيں_

اميرالمومنين مالك اشتر كو نصيحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ اپنے اور لوگوں كے در ميان كوئي ركاوٹ قائم نہ كرنا _كيونكہ اس سے لوگوں كے بارے ميں حكاّم كى اطلاع كم ہو جاتى ہے ،حق و باطل مخلوط ہو جاتے ہيں اور حقيقت ان پر مشتبہ ہو جاتى ہے :

''فلا تطوّلنَّ احتجابك عن رعيتك فان احتجاب الولاة عن الرعية شعبة من الضيق و قلة علم بالامور ، و الاحتجاب منهم يقطع عنهم علم ما احتجبوا دونه ...'' (۱)

پس رعايا سے لمبى مدت تك روپوشى اختيار نہ كرنا _كيونكہ حكمرانوں كا رعايا سے چھپ كررہنا ايك طرح كى تنگ دلى اور معاملات سے بے خبر رہنے كا سبب ہے اور يہ روپوشى انہيں بھى ان امور پر مطلع ہونے سے روكتى ہے كہ جن سے وہ ناواقف ہيں

۶_فقر كا خاتمہ اور ضروريات زندگى كى فراہمي:

دينى حكومت كا اہم ترين فريضہ غربت كا خاتمہ اور معاشرہ كے كمزور افراد كى مادى ضروريات كا پور ا كرنا ہے_ اس بارے ميں بہت سى روايات موجود ہيں _ہم نمونہ كے طور پر صرف دو روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_ رسولخدا (ص) فرماتے ہيں:

''ما من غريم ذهب بغريمه الى و ال من وُلاة المسلمين و

____________________

۱) نہج البلاغہ، مكتوب نمبر ۵۳_

۳۱۸

استبان للوالى عُسرته، إلاّ بَرأ هذا المعسرمن دينه و صار دينه على و الى المسلمين فيما يديه من أموال المسلمين '' (۱)

قرضوں كے بوجھ تلے دبا ہوا شخص جب اسلامى حاكم كے پاس جائے اور اپنى بدحالى كا ذكر كرے تو وہ اس قرض سے برى ہوجاتاہے_اس كا يہ قرض حاكم پر ہے اور وہ اسے بيت المال سے ادا كرے_

حضرت على نے ايك بوڑھے فقير كو ديكھا جو بھيك مانگ رہاتھا _ آپ نے پو چھا يہ مرد كون ہے ؟ ساتھيوں نے كہا: عيسائي ہے _حضرت نے فرمايا :''استعملتموه،حتّى اذا كبر و عجز منعتموه؟ أنفقوا عليه من بيت المال'' تم نے اس سے كام لياليكن جب يہ بوڑھا اور عاجز ہو گيا تو اسے پوچھا تك نہيں ؟ اسے بيت المال سے نفقہ عطا كرو(۲)

اسلامى حكمرانوں كے فرائض اس سے بہت زيادہ ہيں جو ہم نے يہاں بيان كئے ہيں واضح سى بات ہے كہ دينى حكومت كے معنوى اور دنيوى اہداف ميں سے ہر ايك اسلامى معاشرہ كے حكاّم پر خا ص فرائض اور ذمہ دارياں عائد كرتا ہے _

____________________

۱) مستدرك الوسائل _ ج۱۳،ص ۴۰۰ ح۱۵۷۲۳ _

۲) وسائل الشيعہ ،ج ۱۵ ،ص۶۶باب ۱۹ از ابواب جہاد العدو ،ح۱ _

۳۱۹

خلاصہ :

۱)حق كا قيام ،باطل كا خاتمہ ،عدل و انصاف كى ترويج ،حدودالہى كا اجرا ،نيكى كا حكم د ينااور برائي سے روكنا اور معارف الہى كى تعليم ، دينى حكومت كے اہم ترين اہداف ميں سے ہے _

۲)دينى حكومت كے دنيوى اہداف سے مرادوہ اہداف ہيں جو عقلائي طور پر ہر حكومت كے پيش نظر ہوتے ہيں _

۳)امن وامان كا برقرار كرنا ،سر حدوں كى حفاظت ،رفاہ عامہ كا قيام ،آباد كارى ،تعليم و تربيت كا عام كرنا اور مختلف معاشرتى امور كى اصلاح حكومت كے ا ن اہم ترين اہداف ميں سے ہيں جن كى آيات و روايات ميں بہت تاكيد كى گئي ہے _

۴)دينى حكومت كى يہ خصوصيت ہے كہ وہ اپنے دنيوى اہداف كو بھى معنوى اہداف كے زير سايہ حاصل كرتى ہے_

۵)دينى حكومت كے اہداف خصوصاً معنوى اہداف كا حصول حكومتى اہل كاروں پر سنگين ذمہ دارى لاتا ہے_

۶)تقوى الہى كى رعايت ،شائستہ قيادت ،زہد وسادگى اور قانون كے سامنے سب كا برابر ہونا دينى حكومت كے اہل كاروں كے اہم ترين فرائض ميں سے ہيں _

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367