اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139115 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۸_الله تعالى كى مشيت اور ارادے كے مدمقابل ،پيغمبر (ص) كا كوئي مددگار اور دفاع كرنے والا نہيں ہے_

ثم لا تجدلك به علينا وكيل

۹_حسن بن محمد النوفلى يقول: قال سليمان: إرادته علمه، قال الرضا(ع): ما الدليل على أن إرادته علمه؟ وقد يعلم ما لا يريد ، أبداً وذلك قوله عزّوجلّ : ''أولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك'' قال سليمان: فان الارادة القدرة قال الرضا ( ع ): و هو عزّوجلّ يقدر على ماه يريده أبداً ولا بدّمن ذالك لأنه قال تبارك وتعالى :''ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى اوحينا اليك'' فلو كانت الإرادة هى القدرة كان قد أراد أن يذهب به لقدرته ..._(۱)

حسن بن محمد نوفلى كہتے ہيں : سليمان نے كہا الله تعالى كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے _ امام رضا (ع) نے فرمايا: اس پر كيا دليل ہے كہ اس كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے حالانكہ الله تعالى جس چيز كو جانتاہے اس كا ارادہ ہرگز نہيں كرتا اور يہ الله تعالى كاكلام ہے كہ وہ فرمارہا ہے:''ولئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا اليك'' _ سليمان نے كہا: پس ارادہ وہى قدرت ہے _ تو امام رضا (ع) نے فرمايا : يہ الله تعالى ہے كہ جس چيز پر قادر ہے ہرگز اس كا ارادہ نہيں كرتا _ پس ناچار اس بات كو قبول كرنا چاہئے چونكہ الله تعالى نے فرمايا :'' ولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك '' _ پس اگر ارادہ وہى قدرت ہو تو جو پيغمبر (ص) پر وحى كيا وہ اللہ محو كرديتا چونكہ قادر تھا_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) پر وحى ۱، ۲، ۴;آنحضرت (ص) پر وحى كى محدوديت۵;آنحضرت(ص) كى نبوت۲; آنحضرت(ص) كے علم كى محدوديت ۵; آنحضرت (ص) كے علوم كا محوہونا۱;آنحضرت (ص) كے مقامات ۲; آنحضرت (ص) كے مددگار كا نہ ہونا ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۹;اللہ تعالى كا علم ۵، ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۱، ۹ ;اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۳;اللہ تعالى كى مشيت كا غالب ہونا ۸;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۴;اللہ تعالى كى نعمات ۷;اللہ تعالى كے ارادہ كا حتمى ہونا ۳

انسان :انسانوں كا علم لدنى ۴

خلفت :خلقت كے اسرار۵

ذكر:مادى و سائل كے سرچشمہ كا ذكر ۶

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۱، ص ۱۷۹،۱۸۹ ح۱، ب۱۳_توحید صدوق ص۴۵۱، ، ۴۵۴، ح ۱،ب ۶۶_

۲۴۱

روايت : ۹

شكر :نعمت كا شكر ۷

علم :علم لدنى كا سرچشمہ ۴;علم لدنى كے زوال كا سرچشمہ ۴

مادى وسائل :مادى وسائل كا پائدار نہ ہونا ۶

نعمت :قرآن كا نعمت ہونا ۷

وحي:وحى كا سرچشمہ ۴

آیت ۸۷

( إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيراً )

مگر يہ كہ آپ كے پروردگار كى مہربانى ہوجائے كہ اس كا فضل آپ پر بہت بڑا ہے (۸۷)

۱_الله تعالى كى رحمت ولطف،پيغمبر (ص) سے وحى ( حقائق اور بنيادى معارف) واپس لينے سے مانع ہے_

لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

استثناء ممكن ہے كہ محذوف كلمہ يا كلام سے ہو مثلاً عبارت يوں ہو كہ جو كچھ تمہيں ديا سوائے رحمت كے كچھ نہ تھا _ لہذا ہم محو نہيں كريں گے_ يعنى'' لئن شئنا'' سے استدراك ہو اور عبارت يوں فرض ہوگي''ولكن لانشاء ذلك رحمة'' (ہم نے عطا كئے معارف كو تجھ پر رحمت كى بناء پر زائل نہيں كرنا چاہا )

۲_پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو ثابت اور ہميشہ ركھنا ان پر الہى ربوبيت كا جلوہ ہے_

لئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا إلّا رحمة من ربك

۳_وحى كو ثابت ركھنا اور قرآنى مفاہيم كو باقى ركھنا بندوں پر الہى رحمت كا جلوہ ہے_لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

۴_پيغمبر اكرم(ص) پر الله تعالى كا عظےم و وسيع فضل ورحمت_إن فضله كان عليك كبيرا

۵_الله تعالى كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كى خاص اہميت اور بلند وبالا مقام_أن فضله كان عليك كثيرا

۶_الله تعالى كا پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو استحكام بخشے كے سلسلہ ميں ان پر احسان_

۲۴۲

ولئن شئنا لنذهبن أن فضله كان عليك كبيرا

۷_ پيغمبر اكرم(ص) كے ليے پروردگار عالم كى ربوبيت رحمت سے متصل ہے_الاّ رحمة من ربك

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر احسان ۶;آنحضرت (ص) پر رحمت ۴;آنحضرت (ص) پر فضل ۴،۷;آنحضرت (ص) پر وحي۱، ۲،۶;آنحضرت (ص) كاقرب ۵; آنحضرت (ص) كاقلب ۲، ۶; آنحضرت كا مربى ہونا ۲، ۷; آنحضرت (ص) كے مقامات ۵

الله تعالى :الله تعالى كا احسان ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۲;اللہ تعالى كى رحمت۷;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۳;اللہ تعالى كے لطف كے آثار ۱

الله كا فضل:الله كے فضل كے شامل حال لوگ ۴

رحمت:رحمت كے شامل حال لوگ ۴، ۷

قرآن:قرآن كو ثابت ركھنا ۳

وحي:وحى كو ثابت ركھنا ۲، ۳، ۶;وحى كے محو سے مانع ۱

آیت ۸۸

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا القرآن لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً )

آپ كہہ ديجئے كہ اگر انسان اور جناب سب اس بات پر متفق ہوجائيں كہ اس قرآن كا مثل لے آئيں تو بھى نہيں لاسكتے چاہے سب ايك دوسرے كے مددگار اور پشت پناہ ہى كيوں نہ ہوجائيں (۸۸)

۱_قرآن كى مثل لانے سے جن وانس كى عاجزى كا اعلان كرنے كا پيغمبر (ص) كى ذمہ داري_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲_ تمام مخاطبين قرآن كو (جن وانس) قرآن كے اعجاز كو آزمانے كى دعوت _

قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل

۳_قرآن ايسے حقائق' تعليمات اور معارف پر مشتمل ہے كہ جن پر جن و انس وحى كے بغير كبھى بھى دسترس حاصل نہيں كر سكتے_قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل هذالقرآن لايا تون ظهيرا

انسانوں اور جنوں كى قرآن كى مثل لانے سے عاجزى مطلق ہے يعنى اس كى تعليمات اور معارف كو بھى شامل ہے_

۲۴۳

۴_انسانى اور جنى طاقتيں ايك دوسرے كى پشت پناہى اور مدد كرنے كے باوجود بھى قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہيں _

قل لئن اجتمعت ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

۵_قرآن ،اللہ كا ايسا جاودانى معجزہ ہے جو ہميشہ بے مثل كتاب رہا اور ابد تك بے مثل رہے گا_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

يہ جو آيت تصريح كر رہى ہے كہ كوئي جن وانس قرآن كى مثل لانے كى طاقت نہيں ركھتا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ قرآن ہميشہ بے مثل كتاب كى مانندرہے گا_

۶_ قرآن جيسى بے مثل كتاب كا پيغمبر (ص) كو عطا ہونا ان پر الله تعالى كے عظےم فضل كى نشانى ہے_

أن فضله كان عليك كبيراً _ قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۷_چيلنج او رمقابلہ كى دعوت كے سلسلہ ميں قرآن مجيد كى فتح اس كى بلاشبہ حقانيت كا اعلان ہے _

قل جاء الحق قل لئن اجتمعت الإنس والجن لا يا تون بمثله

۸_انسان كا قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہونا، اس كى الله كے مدّ مقابل كم علمى اور كم طاقت ركھنے پر دلالت كرتا ہے_

وما أوتيتم من العلم إلّا قليلاً قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۹_جن، انسان كى مانند باشعور موجود ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ على يا توا بمثهل

انسان و جن كے مابين، ارتباط اتفاق نظر اور تعاون ممكن ہے_يہ جو الله تعالى نے فرمايا: اگر جن اور انسان ايك دوسرے كا ہاتھ پكڑليں تو بھى قرآن كى مثل نہيں لاسكتے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان اور جن كے درميان رابطہ اور تعاون كا امكان ہے ورنہ يہ چيلنج لغو ہوتا_

۱۱_قرآن كااعجاز تمام جہات اور ابعاد ( لفظي، معنوى ' معرفت وغيرہ كے حوالے سے ...) تھا لہذا يہ چيلنج بھى ان تمام ابعاد ميں ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲۴۴

پورى تاريخ ميں جن وانس كو مخاطب كرنا بتا رہا ہے كہ صرف عرب لوگ اس چيلنج كے مخاطبين نہيں تھے ورنہ يہ چيلنج قرآن كے لفظى اور ادبى بعد ميں ہى رہتا_

۱۲_پيغمبر (ص) كے زمانے كے بعض لوگوں كا قرآن كے بارے ميں يہ عقيدہ كہ وہ سرچشمہ وحى سے نہيں ہے اور خود ساختہ ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

يہ جو قرآن مكمل قاطعيت سے چيلنج كر رہا ہے ہو سكتا ہے اس شبھہ كے جواب ميں ہو كہ قرآن وحى نہيں ہے_

۱۳_قرآن كى مثل كتاب لانے كا ناممكن ہونا خود ہى اس كے الہى ہونے اور بشرى نہ ہونے سے ہے _

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر فضل كى نشانياں ۶;آنحضرت (ص) پر قرآن كا نزول ۶;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كے فضل كى نشانياں ۶

انسان:انسانوں كا عاجز ہونا ۱، ۳، ۴، ۸;انسانوں كو دعوت ۲;انسانوں كے علم كے محدود ہونے كى نشانياں ۸

جن :جن سے روابط ۱۰;جن كا شعور ۹;جن كا عجز ۱، ۳ ، ۴;جن كو دعوت ۲;جن كے ساتھ تعاون ۱۰

قرآن:قرآن پر افتراء ۱۲;قرآن كا اعجاز ۲;قرآن كا چيلنج ۲;قرآن كا وحى سے ہونا ۳; قرآن كى اہميت ۶;قرآن كى جاودانگى ۵;قرآن كى حقانيت كى نشانياں ۷;قرآن كى خصوصيات ۳;قرآن كى مثل بنانا ۱، ۴، ۸، ۱۳;قرآن كے اعجاز كے ابعاد ۱۱;قرآن كے بے نظير ہونا ۳، ۵،۱۳;قرآن كے چيلنج كے آثار ۷; قران كے چيلنج كے ابعاد ۱۱; قرآن كے وحى سے ہونے كے دلائل ۱۳

لوگ:بعثت كے زمانے كے لوگوں كا افتراء ۱۲;بعثت كے زمانے كے لوگوں كا عقيدہ ۱۲

موجودات:باشعور موجودات ۹

۲۴۵

آیت ۸۹

( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا القرآن مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُوراً )

اور ہم نے اس قرآن ميں سارى مثاليں الٹ پلٹ كر بيان كردى ہيں ليكن اس كے بعد پھر اكثر لوگوں نے كفر كے علاوہ ہر بات سے انكار كرديا ہے (۸۹)

۱_مختلف مثالوں اور بيانات سے قرآن ميں الہى حقائق كى وضاحت _ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۲_حقائق اور مفاہيم كى تشريح كے لئے قرآن كے مختلف بيانات اور متنوع انداز ،اس كے ابعاد اعجاز كا ايك جلوہ ہے_

لايا تون بمثله ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۳_قرآن كے مختلف بيانات اور مثاليں ، لوگوں كى فہم اور ان كى ہدايت كے لحاظ سے مناسب ہيں _

ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

''تصريف'' كا لغت ميں معنى ايك چيز كو مختلف جہات سے پھيرنا ہے اور ''تصريف كلام'' سے مراد اس كو مختلف معانى ميں لانا ہے يہ جو قرآن كتاب ہدايت ہے اور وہ فرماتا ہے ہم نے قرآن ميں معانى كو مختلف جہات سے بيان كيا_اس سے معلوم ہوا كہ ان جہات كى رعايت ہوسكتا ہے مندرجہ بالا نكتہ كى بناء پر ہو _

۴_لوگوں كے لئے حقائق كى وضاحت اور ان كى تشريح كے لئے ضرورى تھا كہ مختلف انداز اور بيانات سے فائدہ اٹھايا جائے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل

۵_تمام انسان، مخاطب قرآن ہيں نہ كہ كوئي خاص گروہ_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن

۶_اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا سوائے حق سے دورى كے علاوہ اور كچھ نہيں تھے_

ولقد صرفنا فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۷_قرآن سے منہ پھيرنے كى وجہ اس كا ناقابل فہم ہونا يا اس كے مضامين نہيں ہيں بلكہ اس كى وجہ حق سے

۲۴۶

دورى اختيار كرنا ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۸_قرآن كى حقانيت اور اس كے بے مثل پر دليل ہونے كے باوجود اس كا انكار ايك بہت بڑى اور ناقابل قبول ناشكرى ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس إلّا كفورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''كفور'' سے مراد نعمت كى نا شكرى ہو_

اكثريت:اكثريت كا حق قبول نہ كرنا ۶

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار ۷

حقائق :حقائق كى وضاحت كا انداز ۱، ۴;حقائق كى وضاحت كا متنوع ہونا ۴

قرآن:اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا ۶;قرآن سے منہ پھيرنے كا فلسفہ ۷;قرآن كا انداز بيان ۱، ۲; قرآن كا سارے جہان كے ہونا ۵ ; قرآن كا ہدايت دينا ۳;قرآنى تعليمات كى خصوصيات ۱، ۲;قرآن كى تكذيب ۸; قرآن كى فہم ميں سہولت ۳;قرآن كى مثالوں كا فلسفہ ۱، ۳;قرآن كے اعجاز كى نشانياں ۲; قرآن كے بيان كا متنوع ہونا ۲، ۳;قرآن كے مخاطب ۵

ناشكري:نعمت كى ناشكرى ۸

آیت ۹۰

( وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعاً )

اور ان لوگوں نے كہنا شروع كرديا كہ ہم تم پر ايمان نہ لائيں گے جب تك ہمارے لئے زمين سے چشمہ نہ جارى كردو (۹۰)

۱_مشركين كى طرف سے پيغمبر (ص) پر ايمان لانے سے پہلے مكہ ميں مشركين كے ليے ايك پر جوش پانى كے چشمہ كو ظاہر كرنے كى شرط_وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۲_مكہ ميں مشركين كے لئے چشمہ جارى كرنے كا تقاضا ان كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ ايك معجزہ تھا _و قالوا لن نومن لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۳_مشركين مكہ معجزہ طلب كرنے كے ذريعہ اپنے فوائد حاصل كرنے اور بہانوں كى تلاش ميں تھے نہ كہ وہ پيغمبر (ص) كى حقانيت كشف كرنا چاہتے تھے

۲۴۷

_ولقد صرّفنا للناس فى هذالقرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفوراً_ وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا الأرض ينبوعا چونكہ مشركين، پيغمبراكرم (ص) كى حقانيت كو جاننے كے لئے مختلف راہوں كو نظر انداز كرچكے تھے اور انہوں نے اپنے ايمان كو ايسى چند محدود سى باتوں كے ساتھ مشروط كيا كہ جن سے اكثران كے مادى فائدے پورے ہوتے تھے _ اس سے مذكورہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۴_مشركين نے الله تعالى كى طرح طرح كى نشانياں ديكھنے كے باوجود پيغمبر اكرم (ص) سے معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فابى وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۵_مكہ كے مشركين، قرآن كے بے مثل ہونے كے باوجود اسے معجزہ نہيں مانتے تھے _قل لئن اجتمعت الإنس و الجن وقالوا لن نو من لك

يہ جو الله تعالى قرآن كے بے مثل معجزہ ہونے كى توصيف كرنے كے بعد مشركين كے طلب كردہ جيسى معجزہ كى درخواست نقل كر رہا ہے _ مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے _

۶_پيغمبر (ص) كى بعثت كے آغاز ميں مكہ ميں پانى كى كمى تھى اور اہل مكہ پانى كے دائمى منابع كے محتاج تھے_

تفجر لنا من الأرض ينبوعا

مشركين كى پيغمبر اكرم -(ص) سے چشمہ جارى كرنے كى درخواست ممكن ہے ان كى پانى كے منابع كى شديد ضرورت كے پيش نظر ہو_

۷_انسان كى اجتماعى اور مادى ضروريات، اس كى آراء و نظريات يہاں تك كہ فكرى و معنوى مسائل پر بھى اثر انداز ہوتى ہيں _وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

يہ احتمال كہ مشركين نے منبع آب كى شديد ضرورت كے پيش نظر پيغمبراكرم(ص) سے جارى چشمہ كو بعنوان معجزہ طلب كيا ہو اس مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے پانى كے چشمہ كى درخواست ۱، ۲

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضرورتيں :مادى ضرورتوں كے آثار ۷;پانى كى ضرورت ۶

عقيدہ :عقيدہ ميں مو ثر اسباب ۷

۲۴۸

فكر:فكر كى اساس ۷

قرآن :قرآن كا اعجاز ۵;قرآن كا بے نظير ہونا ۵

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور قرآن ۵;مشركين مكہ كا حسى چيزوں كى طرف پر اعتقاد۴;مشركين مكہ كا نفع پسند ہونا۳;مشركين مكہ كا ہٹ دھرم ہونا ۴;مشركين مكہ كى درخواستيں ۱، ۲، ۴;مشركين مكہ كي

فكر۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱;مشركين مكہ كے بہانے بنانا۳

معجزہ :معجزہ اقتراحى (خود طلب كيا ہوا ) ۱، ۲،۴

معجزہ حسى كى درخواست: ۴

مكہ:اہل مكہ كى ضروريات ۶; مكہ كا جغرافيائي مقام ۶;مكہ كى تاريخ ۶;مكہ ميں پانى كا كم ہونا ۶

آیت ۹۱

( أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيراً )

يا تمھارے پاس كھجنور اور انگور كے باغ ہوں جن كے درميان تم نہريں جارى كردو (۹۱)

۱_مشركين كى پيغمبر اكرم(ص) پر ايمان لانے كے ليے ايك شرط يہ تھى كہ پيغمبراكرم(ص) كے پاس كھجور اور انگور كے درختوں كا ايسا بڑا باغ ہو جس كے درميان بہت سى پانى كى نہريں جارى ہوں _

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

۲_مادى قدرت اور دنياوى وسايل سے سرشار ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں پيغمبرى اور رہبرى كا معيار تھا_

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ مشركين مكہ چاہتے تھے كہ آپ (ص) واقعاً مال ثروت اور باغ كے حامل ہوں نہ كہ معجزہ اقتراحى ان كى خواہش تھى _

۳_مشركين مكہ نے الله كى مختلف آيات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر(ص) سے حسى معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فا بى وقالوا

۲۴۹

لن نومن لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

يہ نكتہ اس آيت ميں اس احتمال كے ساتھ پيدا ہوگا كہ وہ اس قسم كے باغ كو معجزہ كے وسيلہ سے چاہتے تھے_

۴_كھجور اور انگور كا جارى نہروں كے ساتھ بڑا باغ مشركين مكہ كى جانب سے آنحضرت (ص) سے معجزہ اقتراحى (طلب كردہ) تھا_لن نو من لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے باغ كى درخواست ۱، ۴;آنحضرت (ص) سے نخلستان كى درخواست ۱، ۴

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۳، ۴

انبياء :انبياء كا مالدار ہونا ۲

رہبر:رہبروں كا مالدار ہونا ۲

رہبري:رہبرى كا معيار ۲

مشركين مكہ:مشركين كا عقيدہ ۲;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۳;مشركين مكہ كى خواہشات ۳، ۴;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱،۳ ،۴;معجزہ حسى كى درخواست ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۲

آیت ۹۲

( أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفاً أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً )

يا ہمارے اوپر اپنے خيال كے مطابق آسمان كو ٹكڑے ٹكڑے كركے گرادو يا اللہ اور ملائكہ كو ہمارے سامنے لاكر كھڑا كردو (۹۲)

۱_آسمان سے ٹكڑے نازل كروانا،معجزات اقترا حى اور مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواستوں ميں سے ايك ہے_

اوتسقط السماء علينا كسفا

''كسَف'' كسف كى جمع ہے كہ جس سے مرادٹكڑا ہے_ (لسان العرب)

۲_آسمان سے ٹكروں كا نازل ہونا، مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے سے پہلے شرط تھي_

وقالوا لن نومن لك او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۲۵۰

۳_پيغمبر (ص) كا مشركين مكہ كو عذاب نازل ہونے پر آسمان سے ٹكڑوں كے گرنے كے امكان سے خبردار كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۴_مشركين مكہ كا ان پر آسمان سے ستاروں اور ٹكڑوں كے گرنے كے ساتھ عذاب كے نزول پر يقين نہ كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

''الزعم'' سے مراد ايسى بات كى حكايت تھى كہ جہاں جھوٹ كا گمان ہو _(مفردات راغب)

۵_مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) اور ان كى برحق تعليمات كے مدمقابل ھٹ دھرى _

لن نو من لك حتّى تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۶_مشركين مكہ پيغمبر (ص) كى حقانيت پر گواہى كے لئے الله اور ملائكہ كو اپنے آمنے سامنے ديكھنا چاہتے تھے_

اوتا تى باللّه والملئكةقبيلا

''قبيلاً'' سے مراد مقابلہ (آمنے سامنے) ہے _ اس آيت ميں يہ ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرے _

۷_مشركين مكہ نے پيغمبر (ص) پر اپنے ايمان كو الله تعالى اور ملائكہ كو قابل مشاہدہ حالت ميں لانے پر مشروط كرديا _

قالوا لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے مشاہدہ ہو_

۸_الله تعالى اور ملائكہ كو گروہ گروہ كى شكل ميں مشركين مكہ كے پاس لاياجانا، ان كى آنحضرت (ص) سے درخواست (اقتراحي) تھي_لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے ''قبيلاً'' قبيلہ كى جمع ہو_

۹_مشركين مكہ كا الله تعالى اور ملائكہ كے بارے ميں مادى اور جسمانى تصور _تا تى باللّه والملائكة قبيلا

''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے اور مشاہدہ ہے اس ليے اس كا استفادہ ہوتا ہے نكتہ_

۱۰_مشركين مكہ كا اپنے عقائد اور نظريہ كائنات ميں صرف محسوسات اور حسى چيزوں پر اعتماد كرنا_

تا تى باللّه والملائكة قبيلا

آسمان :آسمان كے گرنے كى درخواست ۱، ۲

آنحضرت (ص) :

۲۵۱

آنحضرت (ص) كى حقانيت پر گواہى ۶; آنحضرت (ص) كے ڈراوے ۳;آنحضرت (ص) كے دشمن ۵

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸

الله تعالى :الله تعالى كى گواہى كى درخواست ۶;اللہ كے ديكھنے كى درخواست ۷;اللہ تعالى كے سامنے آنے كى درخواست ۶، ۷، ۸

ڈراوے:عذاب سے ڈراوا ۳

عذاب:عذاب پر يقين نہ ہونا ۴;آسمان كے گرنے كے ساتھ عذاب ۳

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور آنحضرت (ص) ۵;مشركين مكہ كا ايمان نہ لانا ۴;مشركين مكہ كا حسى چيزوں پر يقين ميلان۱۰;مشركين مكہ كا عقيدہ ۱۰ ; مشركين مكہ كا عادى چيزوں پر اعتقاد ۹; مشركين مكہ كى خواہشات ۱، ۶، ۷;مشركين مكہ كى فكر۹;مشركين مكہ كو ڈراوے ۳; مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۷

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱، ۶، ۸

ملائكہ:ملائكہ كى گواہى كى درخواست ۶;ملائكہ كو ديكھنے كى درخواست ۷;ملائكہ كو سامنے لانے كى درخواست ۶، ۷، ۸

آیت ۹۳

( أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً )

يا تمھارے پاس سونے كا كوئي مكان ہو يا تم آسمان كى بلندى پر چڑھ جاؤ اور اس بلندى پر بھى ہم ايمان نہ لائيں گے جب تك كوئي ايسى كتاب نازل نہ كردو جسے ہم پڑھ ليں آپ كہہ ديجئے كہ ہمارا پروردگار بڑا بے نياز ہے اور ميں صرف ايك بشر ہوں جسے رسول بناكر بھيجا گيا ہے (۹۳)

۱_اپنے ليے سونے كا گھربنانا مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواست (معجزہ اقتراحي) _

۲۵۲

ا ويكون لك بيت من زخرف

پچھلى آيات كے سياق وسباق سے معلوم ہوتا ہے كہ جہاں معجزات كى درخواست كى گئي تھي_ يہاں بھى ''اويكون لك بيت من زخرف'' سے مراد سونے كا گھر معجزہ كے ذريعے بنانا ہے_

۲_مشركين مكہ نے آنحضرت (ص) پر اپنے ايمان كو سونے سے بنے گھر كے معجزہ سے مشروط كرديا _

قالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۳_مشركين مكہ قران كے بلند مفاہيم سے غافل تھے اور دنيا كے مال پر آنكھيں لگائے ہوئے تھے_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن من كل مثل فا بى وقالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۴_مشركين مكہ نے الله تعالى كى مختلف نشانيوں كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر (ص) سے معجزہ حسى كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كل مثل فا بى وقالوا لن نومن لك حتّى يكون لك بيت من زخرف أو ترقى فى السماء تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۵_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے پڑھنے كے لائق لكھى ہوئي چيز اور اپنے اوپر جانے كى گواہى لانا مشركين مكہ كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ معجزہ _او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۶_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے اپنى حقانيت پر خط لانا' مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے كى شرط تھي_قالوا لن نو من لك حتّى ...او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۷_الله تعالى كے معجزات كے وجود ميں لانے كے اصلى ارادہ سے مشركين مكہ كى غفلت _

تفجرلنا تسقط السمائ تأتى بالله تنزل علينا كتباً نقرؤه

يہ كہ مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) سے درخواست كہ تمام معجزات ،حتى كہ الله كا آنا مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كر رہا ہے_

۸_الله تعالى كى آيات اور معجزات كى شناخت ميں مشركين مكہ كا صرف مادى اور حسى معياروں پر اعتماد كرنا _

حتى تفجرلنا حتّى تنزل علينا كتباً نقرؤه

۹_مشركين مكہ، قرآن اور آنحضرت (ص) كى رسالت كے آسمانى ہونے پر عقيدہ نہ ركھتے تھے_

او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

يہ كہ وہ پيغمبر (ص) سے ايسے خط اور كتاب كو مانگ رہے تھے كہ جو وہ خود آسمان سے لے كر آئيں _ اس سے واضح ہورہاہے كہ قرآن جو كہ آنحضرت (ص) پر وحى كى صورت ميں نازل ہوا وہ اسے قبول نہيں كرتے تھے_

۲۵۳

۱۰_ پيغمبر (ص) پر مشركين مكہ كے بے جا طلب كردہ معجزات كا جواب دينے اور ان كى ايسى طلب كے پورا كرنے پر الله تعالى كے منزّہ ہونے كو بيان_قالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا ...قل سبحان ربي

۱۱_الله تعالى ، بہانوں كى تلاش ميں پڑے ہوئے لوگوں كى فضول خواہشات كے مطابق اپنے معجزات دينے سے منزہ ہے_

تفجرلنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربي

مشركين مكہ كى اپنے ميلان كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) سے معجزات كى متعدد درخواستوں كے مد مقابل الله تعالى فرما رہا ہے ''ميرا رب منزہ ہے'' اس جواب كا ممكن ہے يہ معنى ہو كہ الله تعالى اسے لوگوں كے ميلان كے مطابق معجزات عطا نہيں كرتا _

۱۲_الله تعالى كسى جگہ محصور ہونے' جسم ركھنے' ديكھے جانے اور دوسرے ايسے مادى اوصاف سے منزہ ہے_اوتاتى بالله قل سبحان ربي چونكہ مشركين كى پيغمبر (ص) سے درخواست :''تا تى باللہ '' الله تعالى كى جسمانيت ' ايك جگہ سے دوسرى جگہ آنا، اور ديكھے جانے كى موجب تھى تو جملہ ''سبحان ربي'' ہوسكتا ہے ايسى غير منطقى درخواست كا جواب ہو_

۱۳_معجزات كا پيش كرنا اور ان كى نوعيت واضح كرنا صرف الله تعالى كا كام ہے نہ كہ انبياء كا_تفجر لنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسول يہ كہ مشركين، پيغمبر (ص) سے معجزات لانے كى درخواست كر رہے تھے اور انہوں نے ان كے جواب ميں فرمايا :''هل كنت الاّ بشراً رسولاً'' اس سے معلوم ہواكہ معجزہ كا سرچشمہ، فقط الله تعالى ہے_ پيغمبر-(ص) كا اس سلسلے ميں كوئي كردار نہيں _

۱۴_پيغمبر(ع) دوسرے انسانوں كى مانند ايك انسان ہے اور اس كى خصوصيت اور امتياز صرف اس كى رسالت اور پيغمبرى ہے_قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسولا

۱۵_پيغمبر(ص) اپنى محدود ذمہ دارى كے اعلان اور مشركين كے طلب كردہ معجزات كو پيش كرنے سے اپنى عاجزى بيان كرنے كے ذمہ دار ہيں _قالوا قل هل كنت الاّ بشراً رسولا

مشركين كى درخواستوں كے مد مقابل ''ہل كنت '' كا جواب ہوسكتا ہے يہ بيان كر رہا ہو كہ ان كى درخواست كا پيغمبر كى رسالت اور ذمہ داريوں سے كوئي ربط نہيں ہے يا يہ اس كى طاقت ميں نہيں ہے_آسمانى خط :آسمانى خط كى درخواست ۵، ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱۵; آنحضرت كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۵آنحضرت (ص) كى رسالت ۱۰;

۲۵۴

آنحضرت (ص) كى نبوت كو جھٹلانے والے ۹; آنحضرت (ص) كے فضائل۱۴; آنحضرت (ص) كى خصوصيات ۱۴;آنحضرت(ص) كابشر ہونا ۱۴; آنحضرت سے آسمان كى طرف جانے كى درخواست ۵، ۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶

اسما ء وصفات:صفات جلال ۱۲

الله تعالى :الله تعالى اور جسمانيت ۱۲; الله تعالى اور مكان ۱۲;اللہ تعالى كى تنزيہ ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲;اللہ تعالى كے اختيارات ۱۳;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۷;اللہ تعالى كے ديكھنے كا ردّ۱۲;اللہ تعالى كے مختصات ۱۳

انبياء :انبياء كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۳

قرآن :قرآن كا وحى ہونا ۹;قرآن كے جھٹلانے والے ۹

گھر:سونے كے گھر كى درخواست ۱، ۲

مشركين مكہ:مشركين مكہ اور الله تعالى كى آيات ۸;مشركين مكہ اور قرآن۳;مشركين مكہ اور معجزہ ۸; مشركين مكہ كا مادى چيزوں پر اعتقاد ۸; مشركين مكہ كا محسوس چيزوں پر اعتقاد۴، ۸; مشركين مكہ كى بے ايماني۹;مشركين مكہ كى دنيا طلبى ۳; مشركين مكہ كى غفلت ۳، ۷;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۴; مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۶ ; مشركين مكہ كے تقاضے درخواستيں ۱، ۴، ۵، ۱۰، ۱۵

معجزہ:حسى معجزہ كى درخواست ۴;معجزہ اقتراحى ۱، ۴، ۵، ۱۵;معجزہ اقتراحى كا رد ہونا ۱۰;معجزہ كا سرچشمہ ۷، ۱۱ ، ۱۳، ۱۵

آیت ۹۴

( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَراً رَّسُولاً )

اور ہدايت كے آجانے كے بعد لوگوں كے لئے ايمان لانے سے كوئي شے مانع نہيں ہوئي مگر يہ كہ كہنے لگے كہ كيا خدا نے كسى بشر كو رسول بنا كر بھيج ديا ہے (۹۴)

۱_مشركين مكہ، نبوت كے لئے نوع بشر كے انتخاب كے منكرتھے اور اسے ناممكن اور محال سمجھتے تھے _

وما منع الناس الاّ أن قالوا ا بعث اللّه بشراً رسولا

''الناس'' ميں الف لام عہدى ہے اور گذشتہ آيات كى طرف توجہ كرتے ہوئے ا س سے مراد، مشركين مكہ ہيں _

۲_الله كے رسولوں كا بشر ہونا، بہانے باز مخالفين يعنى كفار و مشركين كے ايمان نہ لانے كا عمدہ بہانہ تھا_

۲۵۵

وقالوا لن نؤمن لك حتّى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۳_مشركين مكہ كے پاس آنحضرت (ص) پر ايمان نہ لانے كا ايك ہى بہانہ، آپ (ص) كا بشر ہونا تھا_

قالوا أبعث الله بشراً رسولا

۴_زمانہ بعثت كے كفار اور مشركين كے پاس الله كے رسولوں كو پہچاننے كے لئے غلط معيار تھے_

قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۵_پہلے سے ہى غلط معياروں پر كئے گئے فيصلے، انبياء كى صحيح تعليمات كو سمجھنے سے مانع تھے_

ومامنع الناس أن يؤمنوا إذ جاء هم الهدى بشراً رسولا

۶_ انبياء الہى كا پيغام سراسر ہدايت اور راہنمائي ہے_وما منع الناس أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى بشراً رسول

۷_مشركين كا عقيدہ تھا كہ مقام رسالت ،بشر كى شان سے بہت بلند ہے_قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۸_انبياء كا تمام لوگوں كى مانند ہونا ان كى قدرو قيمت اور خصوصى صلاحيتوں كى شناخت سے مانع تھا_

ومامنع الناس الاّ ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

يہ كہ مشركين، بشر كى نبوت كو محال چيز سمجھتے تھے شايد اس لئے ہو كہ وہ پيغمبروں كو اپنے جيسے افراد سمجھتے تھے_ اورانہيں اپنے جيسا ضعيف اور كمزور سمجھتے تھے_

۹_الله كے وجود اور رسالت كى ضرورت كى حقيقت حتّى كہ مشركين كے افكار ميں بھى تسليم شدہ تھى _

ا بعث الله بشراً رسول يہ كہ مشركين اصل رسالت كے انكار كے بجائے بشر كى نبوت كو بعيد شمار كرتے تھے اس سے معلوم ہوا كہ خود رسالت ونبوت جيسى حقيقت ان كى نظر ميں يقينى تھي_

۱۰_وعن أبى عبداللّه (ع) :''قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' قالوا: إن الجن كانوا فى الأرض قبلنا، فبعث الله إليهم ملكاً، فلو اراد الله ان يبعث إلينا لبعث الله ملكاً من الملائكة وهو قول الله ''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى إلّا ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً_'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ: قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً '' وہ(منكرين رسالت محمد (ص) ) كہتے تھے كہ :ہم سے پہلے زمين ميں مخلوق جن موجود تھى الله تعالى نے ان كى طرف ايك فرشتہ

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۳۱۷، ح ۱۶۷ _ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۲۷، ح ۴۴۹_

۲۵۶

مبعوث كيا تو اگر الله نے چاہاہے كہ كسى كو ہمارى طرف بھيجے تو فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ بھيجے_ يہ الله كا كلام كا معنى ہے كہ فرما رہا ہے:''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا بشر ہونا ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷، ۱۰;انبياء كا ہدايت دينا ۶;انبياء كى تعليمات كى خصوصيات ۶;انبياء كى جنس ۱۰;انبياء كى شناخت سے مانع ۸;انبياء كى صلاحيتيں ۸;انبياء كے بشر ہونے كے آثار ۸;جنّات كے انبياء ۱۰;انبياء كے فضائل ۸;انبياء كے مخالفين كا بہانہ كرنا ۲;انبياء كے مخالفين كے كفر كى دليلےں ۲;انبياء كا كے ساتھ برتاؤ۵

پہلے سے فيصلے:پہلے سے فيصلوں كے آثار ۵

تجزيہ:غلط تجزيہ كے آثار ۵

دين :دينى خطرات كى پہچان ۵

روايت :۱۰

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۹

كفار:صدر اسلام كے كفار كى پيغمبر(ص) كے بارے ميں شناخت۴;صدر اسلام كے كفار كے غلط معيار ۴كفار كا بہانے تلاش كرنا ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كى پيغمبر (ص) كے بارے ميں شناخت ۴;صدر اسلام كے مشركين كے غلط معيار ۴; مشركين اور نبوت ۹;مشركين كا بہانے كرنا ۲; مشركين كا عقيدہ ۷;مشركين كا نظريہ ۹;مشركين كى الله كے بارے ميں شناخت ۹

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا بہانے تلاش كرنا ۳;مشركين كا نظريہ ۱;مشركين مكہ كے كفر كے دلائل ۳

نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱;مقام نبوت كى قدروقيمت ۷

۲۵۷

آیت ۹۵

( قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكاً رَّسُولاً )

تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر زمين ميں ملائكہ اطمينان سے ٹہلتے ہوتے تو ہم آسمان سے ملك ہى كو رسول بناكر بھيجتے (۹۵)

۱_پيغمبراكرم(ص) مشركين كے شبھات كا جواب دينے ميں الہى ہدايت پر اعتماد كرتے تھے_

قل لو كان فى الارض

۲_الله تعالى كا انسانوں كى جنس سے ہى ان كى طرف رسول مبعوث كرنے كا طريقہ كار _

قالوا أبعث الله بشراً رسولاً _ قل لو كان لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولاً_

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہ آيت مشركين كے شبھہ كے جواب ميں ہو كہ جو يہ تصور كرتے تھے كہ بشر نبوت كے لائق نہيں ہے_

۳_زمين پر رہنے والے خواہ انسان ہوں يا فرشتے ہم جنس انبياء كے محتاج ہيں _

قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلناعليهم من السماء ملكاً رسولا

۴_مشركين كى نظر ميں صرف ملائكہ ہى رسالت اور نبوت كے لائق تھے_قالوا أبعث الله رسولاً_ قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا مشركين كے تعجب اور ان كى يہ بات ''أبعث الله بشراً رسولاً'' كے جواب الہى سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس انتظار ميں تھے كہ پيغمبر (ص) ملائكہ ميں سے ہو، نہ كہ جنس بشر سے_

۵_زمين پر ھر باشعور موجود مخلوق الہى وحى اور آسمانى ہدايت كى ضرورت مند ہے _

قل لوكان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا

۶_زمين پر رہنے والوں كے لئے نزول وحى اور پيغام الہى كے لانے ميں فرشتے فقط واسطہ ہيں _

لنزلنا عليهم ملكاً رسولا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''ملكاًرسولاً'' سے مراد فرشتہ وحى ہو نہ كہ پيغمبر_

۲۵۸

۷_مشركين كا بشر كو رسول بعيد شمار كرنے كى وجہ ،اللہ اور پيغمبروں ميں فرشتوں كے وسيلہ ہونے كى طرف توجہ نہ كرنا ہے_

قل لو كان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا

مندرجہ بالا آيت ممكن ہے كہ مشركين كے جواب ميں ہو كيوں كہ مشركين بشر ميں سے كسى فرد كے جہان كے مالك الله سے رابطہ كو بعيد شمار كرتے تھے_ آيت جواب دے رہى ہے كہ پيغمبر كسى واسطہ كے بغير وحى نہيں ليتے تھے بلكہ اصولى طور پر الله اور زمين پر رہنے والوں كے درميان فرشتہ وحى كا واسطہ ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين كے اعتراضات ۱; آنحضرت(ص) كى ہدايت ۱

الله تعالى :الله تعالى كى سنتيں ۲;اللہ تعالى كى ہدايتيں ۱

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷;انبياء كا ہم جنس سے ہونا ۲، ۳

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۳;وحى كى ضرورت ۵; ہدايت كى ضرورت ۵

غفلت :ملائكہ كے كردار سے غفلت ۷

مشركين :مشركين كا نظريہ ۴;مشركين كى غفلت كے آثار ۷ ; مشركين كے اعترضات كے جواب كا سرچشمہ ۱

ملائكہ:ملائكہ كا كردار ۶;ملائكہ كى نبوت ۴

موجودات:باشعور موجودات كى معنوى ضروريات ۵ موجودات كى ضروريات ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۴;نبوت كى اہميت ۳

وحي:وحى كا واسطہ ۶

آیت ۹۴

( قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

كہہ ديجئے كہ ہمارے اور تمھارے درميان گواہ بننے كے لئے خدا كافى ہے كہ وہى اپنے بندوں كے حالات سے باخبر ہے اور ان كے كيفيات كا ديكھنے والا ہے (۹۶)

۱_مشركين، اس لائق نہيں ہيں كہ الله تعالى ان سے مخاطبهو_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

مشركين كو پيغام پہنچانے كے لئے پيغمبر(ص) كو مخاطب قرار دينا اگر چہ يہ اعلان بغير ''قل'' كے بھى ممكن ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۲۵۹

۲_پيغمبر (ص) اور مشركين كے درميان الله تعالى كا گواہ اور ناظرہونا كافى ہے _كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۳_پيغمبر (ص) اپنى رسالت كے منكرين كے مد مقابل الله كى ہدايات پر عمل كرتے تھے_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۴_حق كے منكر اور بہانے باز مشركين وكفار كو الله كا خبردار كرنا _

قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً _ قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

الله تعالى كا پيغمبر (ص) اور حق كے منكرين و مشركين كے درميان گواہ ہونے كى تنبيہ، كا تذكرہ ممكن ہے ان كو خبردار كرنے كے لئے ہو_

۵_الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور جو كچھ كہنا تھا وہ كہہ ديا ہے _قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

''كفى باللہ شہيداً'' كى تعبير، مشركين كے شبھات كا جواب دينے كے بعدقول فصل اور اتمام حجت كى جگہ ہے_

۶_بہانے باز اور حق كے منكرين كے ساتھ بحث و گفتگو كے بارے ميں فيصلہ كرنے كى ضرورت ہے_

قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۷_الله تعالى كا بہانے باز مشركين كے مدمقابل پيغمبر (ص) كو حوصلہ دينا_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

يہ آيت جس طرح كہ حق كے دشمن، مشركين كے لئے خبردار ہو پيغمبر (ص) كے لئے ايك قسم كى تسلى اور حوصلہ افزائي بھى ہوسكتى ہے _

۸_الله تعالى ، اپنے بندوں كے امور پر خبير( آگاہ) اور بصير ( نظر ركھنے والا) ہے_إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۹_الله تعالى كى بندوں كے اعمال پر گواہي، اس كے ان كے حالات پر وسيع علم كى بناء پر ہے_

كفى بالله شهيداً بينى وبينكم إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۱۰_الله تعالى كا بندوں پر علمى احاطہ كى طرف توجہ ،ان كے حق كے انكار اور بہانے بازى سے پرہيز كرنے كا پيش خيمہ ہے_

قل كفى بالله شهيداً إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

يہ كہ الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور اس وقت يہ فرمايا : وہ بندوں كے حالات سے آگاہ اور ان پر نظر ركھے ہوئے ہے ' ہوسكتا ہے كہ مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين ۲،۳، ;آنحضرت (ص) كو حوصلہ دينا ۷;آنحضرت (ص) كى ہدايت ۳; آنحضرت (ص) كے گواہ ۲

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

سوالات :

۱) دينى حكومت كے معنوى اہداف كے پانچ موارد بيان كيجئے ؟

۲)دينى حكومت كے دنيوى اہداف سے كيا مراد ہے ؟

۳)حكومت كے وہ كونسے دنيوى اہداف ہيں جن پر آيات و روايات ميں تاكيد كى گئي ہے ؟

۴)دنيوى اہداف كے حصول كے سلسلہ ميں دينى حكومت كا دوسرى حكومتوں سے كيا فرق ہے ؟

۵)حكومتى عہدے داروںكے انتخاب كے سلسلہ ميں اميرالمومنين نے مالك اشتر كو كونسى نصيحتيں كى ہيں ؟

۶)حكومتى اہل كاروں كے كچھ فرائض بيان كيجئے ؟

۳۲۱

اكتيسواں سبق :

دينى حكومت اور جمہوريت -۱-

اسلام كے سياسى فلسفہ كى اہم ترين بحثوں ميں سے ايك ''دين اور جمہوريت'' كے در ميان تعلق كى تحقيق و بررسى ہے _اس بحث ميں بہت سے سوالات اور شبہات پائے جاتے ہيں _ ان ميں سے بعض شبہات كا سرچشمہ اسلام كے اصول ومبانى اور جمہوريت كے اصول و مبانى كے درميان ناقابل حل عدم مطابقت وعدم ہم آہنگى كا تصور ہے _ دينى حكومت اور جمہوريت كى ہم آہنگى كے بعض منكرين اس سرچشمہ كو نظريہ ولايت فقيہ ميں تلاش كرتے ہيں _ان كے خيال ميں اسلام جمہوريت سے ذاتى مخالفت نہيں ركھتا _ليكن ولائي نظام جو كہ ولايت فقيہ پر مبتنى ہے جمہوريت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا _ بنابريں ايك كلى تقسيم بندى كے لحاظ سے ہميں تين اساسى نظريات كاسامنا ہے _

الف_ ايك نظريہ يہ ہے كہ دينى حكومت اور جمہوريت كى تركيب ممكن ہے اس نظريہ كے مطابق اسلام اور

۳۲۲

اس كى تعليمات كى پابندى جمہوريت اورمعاشرہ كے سياسى و انتظامى امور ميں لوگوں كى مداخلت سے مانع نہيں ہے _ جمہورى اسلامى كا نظام اور اس كا اساسى قانون اسى سياسى نظريہ پر قائم ہے _

ب_ وہ نظريہ جو اسلام اور -جمہوريت كے درميان ذاتى تضاد كا قائل ہے يہ نظريہ اس بنياد پر قائم ہے كہ اسلام بنيادى طور پر عوامى قيادت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا _ اسى لئے نہ صرف'' حكومت ولائي'' اور ولايت فقيہ كا سياسى نظريہ ، بلكہ ہر وہ دينى حكومت جو اسلام كى حاكميت كو تسليم كرتى ہے اور اس كى تعليمات اور احكام كى پابند ہے وہ ايك جمہورى اور عوامى حكومت نہيں ہوسكتى _

ج _ تيسرا نظريہ وہ ہے جو بنيادى طور پر دين اور جمہوريت كى تركيب كے امكان كا منكر نہيں ہے _ بلكہ اسے اس نظام ميں مشكل پيش آرہى ہے جو ولايت فقيہ پر مبتنى ہے _ اس نظريہ كى بنياد پر ولايت فقيہ كے اعتقاد اور جمہوريت كى باہمى تركيب ممكن نہيں ہے _ جمہوريت اور ولائي حكومت كبھى بھى ہم آہنگ نہيں ہوسكتے وہ حكومت جو ولايت فقيہ كى بنياد پر قائم ہوكبھى بھى جمہورى اور عوامى نہيں كہلاسكتى _ جمہوريت پر اعتقاد اور ولايت فقيہ پر اعتقاد، دو متضاد چيزيں ہيں _

ان تين نظريات كے متعلق فيصلہ كرنے اور دينى حكومت كے مخالفين كے نظريہ كے متعلق تفصيلى بحث سے پہلے بہتر ہے : جمہوريت كى حقيقت كے متعلق مزيدآشنائي حاصل كرليں _

جمہوريت كى حقيقت :

جمہوريت ايك يونانى اصطلاح ہے جو دو الفاظ'' demo '' يعنى عوام اور '' cracy '' يعنى حكومت سے مركب ہے _ عوامى حكومت يا عوامى قيادت اپنے دقيق معنى كے ساتھ تو ايك ايسا خواب ہے جو كبھى بھى شرمندہ تعبير نہيں ہوسكتا _ كيونكہ آج كے پيچيدہ معاشرے ميں كہ جہاں روزانہ دسيوں بڑے بڑے معاشرتى فيصلے

۳۲۳

كئے جاتے ہيں اور مختلف حكومتى اداروں ميں مختلف قوانين وضع ہوتے ہيں ممكن ہى نہيں ہے كہ يہ فيصلے اور قوانين براہ راست لوگوں كے ذريعے انجام پائيں _ پس ناچار جمہورى حكومتوں ميں كچھ افراد لوگوں كى اكثريت رائے سے ان كى نمائندگى كرتے ہوئے عنان حكومت اپنے ہاتھ ميں لے ليتے ہيں اور در حقيقت عملى طور پر يہى افراد حكومت كرتے ہيں نہ كہ عوام_ البتہ قديم يونان كے شہروں كى حكومتوں ميں بہت سارے فيصلے شہر كے چوك ميں كھلے عام اور لوگوں كى رائے سے انجام ديئے جاتے تھے ليكن وہاں بھى تمام لوگوں كو راے دہى كا حق نہيں تھا كيونكہ خواتين اور غلام رائے نہيں دے سكتے تھے-_

ڈيمو كريسى يعنى جمہوريت ايك ايسا كلمہ ہے جس كى مختلف تفسيريں اور معانى كئے گئے ہيں _ اس مدعى كى دليل يہ ہے كہ مختلف مكاتب فكر نے بالكل متضاد نظريات كے باوجود جمہوريت كى حمايت كى ہے _ لبرل ازم اور فاشزم كے حامى اور قدامت پسند سبھى خود كو جمہوريت نواز كہتے ہيں اور اپنے آپ كو حقيقى جمہوريت قائم كرنے والا قرار ديتے ہيں _ اشتراكى جمہوريت ، لبرل ازم ، آزاد جمہوريت ، صنعتى جمہوريت اور كثيرالراے جمہوريت(۱) جيسى مختلف اصطلاحيں حقيقت ميں اس بات كى نشاندہى كرتى ہيں كہ جمہوريت سے مراد كوئي مخصوص معنى اور اصطلاح نہيں ہے _

جمہوريت كا كوئي ثابت معنى نہيںہے _ دنيا كے بيشتر ممالك ميں مختلف جمہورى حكومتيں قائم ہيں اور جمہوريت مختلف سياسى نظريات كے ساتھ ہم ساز و ہم آہنگ ہے يہ اس بات كى دليل ہے كہ جمہوريت كا كوئي ايسا معنى موجود نہيں ہے كہ جس پر سبھى متفق ہوں_ اس نے مختلف معاشروں كے اجتماعى تحولات اور تغيرات كے ساتھ ساتھ مختلف روپ ڈھالے ہيں _

____________________

۱) Social democracy - Liberal democracy - Industrial democracy

۳۲۴

آج چونكہ جمہوريت ايك مثبت معنى ركھتى ہے لہذابہت سے سياسى نظام خود كو جمہوريت نواز كہتے ہيں اگرچہ ان كى حكومتوں ميں عوام كا عمل دخل بہت ہى كم ہو_

بنيادى طور پر جمہوريت كو دو لحاظ سے ديكھا جاتاہے_ از لحاظ قدر و قيمت اور از لحاظ ايك روش _ جمہوريت از لحاظ قدر و قيمت سے مراد يہ ہے كہ اكثريت كا انتخاب ہميشہ معاشرہ كى بھلائي اور حق كے انتخاب كے ہمراہ ہے _ جن موارد ميں عمومى آراء كا لحاظ كيا جاتا ہے وہاں حق باطل سے ممتازہوجاتا ہے _ بنابريں جمہوريت اجتماعى زندگى گزارنے كيلئے مناسب اور صحيح راہ حل دے سكتى ہے _ معاشرہ كى سعادت اور خوشبختى اكثريت كے انتخاب كى مرہون منت ہے _ كلاسيكل جمہوريت يعنى اٹھار ہويں صدى كى جمہوريت اسى نظريہ پر استوار تھى اور آج بھى كچھ گروہ اسى زاويہ نگاہ سے جمہوريت كو ديكھتے ہيں اور اكثريت كى رائے كو حق و باطل كى تشخيص كا معيار قرار ديتے ہيں _ اكثريت كى رائے كو قدر كى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور حق و حقيقت كو اسى ميں تلاش كرتے ہيں _

اس نظريہ كا نقطہ استدلال يہ ہے _

واضح سى بات ہے كہ ہر شخص اپنى انفرادى زندگى ميں اپنى ذاتى منفعت اور سعاد ت و خوشبختى كا خواہان ہے_ اور زندگى كے مختلف شعبوں ميں بہترين اور صحيح امور كا انتخاب كرتا ہے _ دوسرے لفظوں ميں لوگ اپنى انفرادى زندگى ميں منافع پر نظر ركھتے ہيں اور اپنى ذاتى خيرو بھلائي كى تلاش ميں رہتے ہيں_ لہذا اجتماعى زندگى ميں بھى اكثريت كا انتخاب ايك صحيح ترين انتخاب ہوگا _ چونكہ لوگ اپنے منافع كا صحيح اور بہترين ادراك ركھتے ہيں اور عمومى منافع و مصالح بھى اسى انفرادى تشخيص پر موقوف ہيں _ ہر فرد نے اجتماعى امور اور معاشرہ كے منافع و مصالح كو اپنى ذاتى تشخيص سے متعين كيا ہے اور اكثريت كى رائے معاشرہ كى خيرو منفعت

۳۲۵

كى تعيين و تشخيص ميں عمومى رائے كى نشاندہى كرتى ہے بنابريں ہر اجتماعى واقعہ و مسئلہ آسانى سے خوب و بد اور نافع و مضر ميں تقسيم ہوسكتا ہے _ اور ارادہ عمومى جو كہ اكثريت رائے سے حاصل ہوا ہے اس خوب و بد اور مفيدو مضر كى آسانى سے شناخت كرسكتا ہے _

''جمہوريت از لحاظ ايك روش ''سے مراد يہ ہے كہ جمہوريت صرف اجتماعى تنازعات كا حل اور سياسى اقتدار كى تبديلى كا ايك ذريعہ ہے _ طول تاريخ كے عقلانے تجربہ سے يہ نتيجہ حاصل كيا ہے كہ جمہوريت، حكّام اور صاحبان اقتدار كے تعيّن كا بہترين طريقہ ہے بجائے اس كے كہ مختلف سياسى جماعتيں ، سياسى ليڈر اور اقتدار كے خواہشمند افراد جنگ، قتل و غارت ،دہشت گردى اور اختلافى مسائل كے ذريعہ اقتدار كو اپنے درميان تقسيم كرليں_ اس كيلئے ايك معقول اور بہترين راہ موجود ہے اور وہ حكمران يا پارليمنٹ كے ممبران كى تشخيص اور انتخاب كيلئے رائے عامہ كى طرف رجوع كرنا ہے _ اس لحاظ سے جمہوريت اور اكثريت كى رائے خوب و بد اور صحيح و غلط كا معيار نہيں ہے -ہوسكتا ہے لوگوں كى منتخب شدہ جماعت كہ جس كے متعلق اكثريت نے راے دى ہے عملى طور پر معاشرہ كى فلاح و بہبود كيلئے كوئي قدم نہ اٹھائے _ اكثريت كا انتخاب حق و حقانيت كے انتخاب كى دليل نہيں ہے _

موجودہ دور كے صاحبان نظرجمہوريت كو از لحاظ قدر و قيمت نہيں ديكھتے كوئي بھى يہ تصور نہيں كرتا كہ اكثريت كى رائے حتمى طور پر معاشرہ كى فلاح و بہبود كا پيغام ہے _ جرمن نازى ، اٹالوى فاشسٹ ، اور روسى اور مشرقى بلاك كے كيمونسٹ ،اكثريت كى رائے سے انقلاب لائے اور اقتدار حاصل كرنے ميں كامياب ہوئے _ ليكن عملى طور پر ان كے دور اقتدار انسانى الميوں سے بھرے ہوئے ہيں _

اجمالى طور پر جمہوريت كى حقيقت كے واضح ہونے كے بعد اس نظريہ كى تحقيق كى بارى آتى ہے كہ اسلام اور جمہوريت كے اصولوں ميں توافق اور ہم آہنگى ممكن نہيں ہے _

۳۲۶

اسلام اور جمہوريت كے در ميان ذاتى عدم توافق

بعض افراد معتقد ہيں كہ جمہوريت كچھ خاص اصولوں پر مبتنى ہے _ انسان ، معاشرہ اور سياست پر اس كى ايك خاص نگاہ ہے اور مخصوص اہداف كى حامل ہے _ يہ اصول و اہداف ،اسلامى تعليمات اور ان پر حاكم اصولوں كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتے _

اسلام اور جمہوريت كے درميان توافق نہيں ہوسكتا اور اسكى ادلة ہم ذكر كريں گے_ اصلاً اسلام اور جمہوريت كے درميان توافق ممكن نہيں ہے مگر يہ كہ اسلام مكمل طور پر سيكولر ہوجائے _ جمہوريت كے نظرى اصول ميں سے ايك يہ بھى ہے كہ انسان سے خطا اور غلطى كا سرزد ہونا ممكن ہے يہ اصول خود ايك دوسرے اصول پر مبنى ہے كہ انسان ايك صاحب اختيار وجود ہے اور اسے انتخاب كا حق ہے _ خطا اور غلطى اس كے اختيار اور انتخاب كا لازمہ ہے انسان كے انتخاب كا بہترين مورد، فكر اور عقائد كى دنيا ہے _ انسان كيلئے يہ امكان ہونا چاہيئے كہ وہ آزادانہ طور پر مختلف آراء و نظريات كے متعلق غور و فكر كرسكے اور آزادانہ طور پر اپنا انتخاب كرسكے _ وہ اديان ميں سے كسى دين يا بے دينى كو اختيار كرنے ميں آزاد ہے _ جمہوريت كا ايك اصول يہ ہے كہ حقيقت واضح نہيں ہے اور وہ سب انسانوں كے درميان منتشر ہے لہذا ہر انتخاب حقيقت اور غير حقيقت كى ايك تركيب ہے_ليكن اگر كو ئي مكتب يا دين خود كو حق و حقيقت كا مظہر سمجھتا ہے اور دوسرے اديان كو كفر ، شرك اور ضلالت كا مجموعہ قرار ديتا ہے تو پھر كسى جمہورى حكومت كى كوئي جگہ نہيں بنتى _ اسلام قرآنى آيات كى روسے فقط خود كو دين بر حق سمجھتا ہے _ درج ذيل آيات صريحاً جمہوريت كى نفى كرتى ہيں _ سورہ يونس كى آيت ۳۲ ميں ارشاد ہوتاہے:

''( ماذا بعدالحق الاالضلال ) ''

اور حق ( كو ترك كرنے) كے بعد ضلالت و گمراہى كے سوا كچھ نہيں _

۳۲۷

سورہ آل عمران كى آيت ۸۵ ميں ہے :

( ''من يبتغ غير الاسلام ديناً فلن يقبل منه'' )

اور جو شخص اسلام كے علاوہ كسى اور دين كا خواہاں ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہيں كيا جائے گا_

سورہ توبہ كى ابتدائي آيات بھى انسانى انتخاب كى نفى كرتى ہيں _

اس استدلال ميں واضح طور پر جمہوريت كے دو بنيادى اصولوںكو مد نظر ركھا گيا ہے _ پہلا يہ كہ'' كثرت رائے معرفت شناختي''ہے _ نسبى گرائي(۱) اور ''تكثر گرائي(۲) معرفت شنا ختي'' سے مراد يہ ہے كہ لوگوں كے پاس حقيقت كو كشف كرنے كا كوئي راستہ نہيں ہے اور حق كو باطل سے صحيح طور پر تشخيص نہيں ديا جاسكتا ،كوئي شخص بھى يہ دعوى نہيں كرسكتا كہ اس كى فكر ،سوچ ،اعتقاد اور دين ،حق ہے اور دوسرے افكار باطل ہيں _ حق و باطل دونسبى چيزيں ہيں اور ممكن ہے ہردين ، اعتقاد اور فكر حقانيت ركھتا ہو _ خالص باطل اور خالص حق كا كوئي وجود نہيں ہے_ يہ شكاكيت اور نسبى گرائي معرفتي، تمام افكار و عقائد اور نظريات كو ايك ہى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور سب كو قابل اعتبار سمجھتے ہيں لہذا يہ ايك قسم كا پلورل ازم(۳) ہے اور اس كا لازمہ يہ ہے كہ كسى فكر ، نظريئےور مذہب كو منطق اور استدلال كے ذريعہ ثابت نہيں كيا جاسكتا بلكہ يہ انسان ہيں -جو مختلف آراء و افكار اور مذاہب ميں سے ايك كا انتخاب كرليتے ہيں _ پس حق كو باطل پر اور صحيح كو غلط پر ترجيح دينے كى دعوت دينے كى بجائے آزاد انتخاب كى راہيں ہموار كى جائيں كيونكہ حق كو باطل سے اور صحيح كو غلط سے تميز دى ہى نہيںجاسكتى _

____________________

۱) Relativism

۲) pluralism

۳) pluralism

۳۲۸

اسى اصول پر ايك دوسرا اصول مبتنى ہے _ يعنى فكر و بيان اور عقائد و افكار كے انتخاب كى آزادى كا سرچشمہ يہى ''تكثير گرائي معرفتي'' ہے _ كيونكہ اگر ہميں حق كو باطل سے تميز دينے كے امكان كا يقين ہو جائے تو پھر كلى طور پر''آزادى انتخاب'' كا كوئي معنى نہيں رہتا _ كوئي صاحب عقل يہ تصور نہيں كر سكتا كہ حق و باطل كے در ميان تشخيص كا امكان ہوتے ہو ئے ہم اسے حق وباطل كے درميان انتخاب كى دعوت ديں _ كيونكہ معقول اور فطرى بات يہى ہے كہ حق كى تشخيص كے بعد اس كا اتباع كيا جائے _

اس استدلال كى بنا پر دين اور جمہوريت ميں توافق ممكن نہيں ہے _كيونكہ دينى حكومت اسلام كى پابند ہے_ اور فقط اسلام كى حقانيت كو تسليم كرتى ہے بلكہ قوانين كے بنانے اور دوسرے معاشرتى امور ميں اسى اسلام كو اپنا مرجع قرار ديتى ہے _پس كيسے ممكن ہے كہ دينى حكومت اسلام كى پابند ہونے كے ساتھ ساتھ جمہوريت كى بھى پابند رہے _جمہوريت اپنے دو بنيادى اصولوںكے لحاظ سے اسلام اور دوسرے مذاہب كے در ميان كسى فرق كى قائل نہيں ہے اور اسى پريقين ركھتى ہے كہ حقانيت كے اعتبار سے اسلام دوسرے مذاہب سے كوئي امتياز نہيں ركھتا_-

آنے والے سبق ميں ہم اس نظريہ پر بحث كريں گے_

۳۲۹

خلاصہ:

۱) دينى حكومت اور جمہوريت كے درميان توافق ممكن ہے_ اس نظريہ كے مقابلہ ميں ايك نظريہ يہ ہے كہ اسلام اور جمہوريت كے درميان ذاتاً ''عدم توافق'' ہے_ اور بعض ''ولايت فقيہ اور جمہوريت ''كے درميان عدم توافق كے قائل ہيں_

۲-) جمہوريت اپنے حقيقى معنى يعنى (عوامى حكومت ) كے لحاظ سے ايسا خواب ہے جو كبھى شرمندہ تعبير نہيں ہوسكتا_

۳-) جمہوريت كى مختلف تفسيريں كى گئي ہيں اور بنيادى طور پر يہ كلمہ لچكدار ہے_

۴) جمہوريت كى مختلف تفاسير كو دو كلى نظريوں ميں تقسيم كيا جاسكتاہے_ ايك وہ نظريہ ہے جو جمہوريت كو اجتماعى امور كے نظم و نسق كا ذريعہ اور روش سمجھتاہے_ اور دوسرا نظريہ اسے قابل قدر و قيمت سمجھتاہے_

۵) دوسرا نظريہ جو كہ جمہوريت كى قدر كا قائل ہے اكثريت كے انتخاب كو معاشرہ كى فلاح و بہبود كے انتخاب كے مترادف قرار ديتاہے_ بنابريں زندگى گزارنے كى كيفيت اكثريت كے انتخاب كى بنياد پر ہونى چاہيے_

۶) موجودہ دور ميں جمہويت كے متعلق ''نگاہ قدر ''كے نظريہ كى اہميت كم ہوچكى ہے اور اس كے حاميوں كى تعداد بہت كم رہ گئي ہے _

۷) بعض افراد يہ سمجھتے ہيں كہ اسلام اور جمہوريت كے درميان عدم توافق كى وجہ جمہوريت كے دو بنيادى اصول ہيں _

۸)''تكثر گرائي معرفت شنا ختي''اور'' مطلق آزادى انتخاب كا حق'' جمہوريت كے دو بنيادى اصول ہيں _

۹) اسلام اپنى تعليمات كى حقانيت پر تاكيد كرتاہے_ لہذا تكثّر حقيقت اور حق و باطل كى تركيب كا معتقد نہيں ہے اور اس كے نزديك حق كو باطل سے تشخيص دى جاسكتى ہے _

۳۳۰

سوالات:

۱) دينى حكومت كے جمہوريت كے ساتھ تعلق كے بارے ميں كونسے تين بنيادى نظر يات ہيں؟

۲) جمہوريت اپنے حقيقى مفہوم كے ساتھ قابل وجود كيوں نہيں ہے؟

۳) جمہوريت كے متعلق ''نگاہَ قدر 'سے كيا مراد ہے؟

۴) جمہوريت كو ايك روش سمجھنے سے كيا مراد ہے ؟

۵) اسلام اور جمہوريت كے درميان ''ذاتى تضاد'' كى كيادليل ہے ؟

۶)'' تكثر گرائي معرفت شنا ختي'' سے كيا مراد ہے ؟

۳۳۱

بتيسواں سبق:

دينى حكومت اور جمہور يت – ۲-

گذشتہ سبق ميں ہم اس نظريہ كو تفصيل كے ساتھ بيان كرچكے ہيں كہ اسلام اور جمہوريت كے درميان عدم توافق ''ذاتي'' ہے _ اب ہم اس نظريہ كى تحقيق كرتے ہيں_

دين اور جمہوريت كے درميان توافق كا امكان

پہلے اشارہ كرچكے ہيں كہ جمہوريت كى كوئي ايك تفسير يا تعريف نہيں ہے_ جمہوريت كے متعلق مختلف نظريات بيان كئے جاسكتے ہيں_اسلام اور جمہوريت كے درميان ذاتى عدم توافق كى جو وجہ بيان كى گئي ہے وہ جمہوريت كے متعلق ايك خاص نظريہ يعنى جمہوريت تكثر گرا(كثرت رائے) پر مبنى ہے _ البتہ جمہوريت كى يہ تفسير اسلام اور ہر اس مكتب كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتى جو بعض امور كو حق اور صحيح سمجھتاہے_ اور ان كے نسبى ہونے كو نہيں مانتا_ جمہوريت كى مختلف تفسيريں ہيں_ اور ان ميں سے بعض مذكورہ بالا استدلال ميں بيان كئے گئے دو بنيادى اصولوں پر مبنى نہيں ہيں _ مثال كے طور پر وہ نظريہ جو جمہوريت كو سياسى اقتدار كى تقسيم كى ايك روش اور معاشرتى امور كے منظم كرنے كا ايك كارآمد وسيلہ سمجھتاہے وہ تكثر گرائي معرفتى اور مطلق

۳۳۲

آزادى انتخاب پر موقوف نہيں ہے_

جمہوريت از لحاظ ايك روش كو محدود كيا جاسكتاہے يعنى كچھ مخصوص اصولوں كو حق اور صحيح تسليم كيا جاسكتاہے اس وقت جمہوريت كو ان اصولوں اور اقدار كى حفاظت كے لئے كام ميں لايا جاسكتاہے_ جمہوريت كے اس تصور ميں ايك تو ''نسبيت'' اورتكثرگرائي معرفتى كو ہٹاديا گياہے كيونكہ حقانيت كا اعتقاد پيدا كرچكے ہيں _ دوسرا يہ كہ لوگوں كا انتخاب ،مطلق اور آزاد نہيںہے بلكہ مقيد ہے كيونكہ اس نظريہ كے قائل افراد ان طے شدہ اصولوں كے خلاف كسى اور چيز كا انتخاب نہيں كرسكتے_ پس جمہوريت كا يہ تصور ان دو اصولوں يعني'' تكثر گرائي معرفتى ''اور'' مطلق آزادى انتخاب ''پر موقوف نہيں ہے_

''لبرل جمہوريت'' جمہوريت كے اسى تصور كى بنياد پر تشكيل پائي ہے_ ابتداء ميں لبرل ازم كے حاميوں نے جمہوريت كے سلسلہ ميں اكثريت كے انتخاب كو كوئي خاص اہميت نہيں دى كيونكہ وہ اس سے خوفزدہ تھے كہ كہيں اكثريت رائے ان كے لبرل اصولوں اور اقدار كو پامال نہ كردے_ يہ اپنے لبرل اصولوں مثلاً ذاتى مالكيت كا احترام ، آزاد تجارت، آزادى بازار اقتصاد، مذہبى آزادى اور فكر و بيان كى آزادى پر يقين ركھتے تھے _ لہذا وہ چا ہتے تھے كہ جمہوريت كو ان اصولوں ميں اس طرح پابند كرديں كہ اكثريت رائے ان اصولوں كو پامال نہ كرسكے_ بنابريں لبرل ازم كى حقانيت اور اس كے اصولوں اور اقدار كے صحيح ہونے كے اعتقاد اور جمہوريت ميں ناہم آہنگى نہيں ہے_ لہذا جمہوريت كو لبرل اصولوں اور اقدار ميں مقيد ايك روش تصور كرتے ہوئے اسے'' لبرل جمہوريت'' كہہ سكتے ہيں_

جب ايسا ہے تو پھر كيا مشكل ہے كہ ہم جمہوريت از لحاظ ايك روش كو اسلامى اصول و ضوابط ميں منحصركر د يں اور كہيں: سياسى حكام كے تعيّن كيلئے عوام كى طرف رجوع كريں گے اور لوگ اپنى آراء سے پارليمنٹ كے ممبران

۳۳۳

كاانتخاب كريں گے_ ليكن منتخب شدہ ممبران حق نہيں ركھتے كہ اسلامى تعليمات كے منافى قوانين بنائيں_ اكثريت كا انتخاب اور لوگوں كى آراء اس وقت تك قابل احترام ہيں جب تك قبول كئے گئے عقائد كے مخالف نہ ہوں بنابريں جس طرح لبرل عقيدہ كے حامى ''جمہوريت'' كو اپنے اصولوں كے زير سايہ ركھتے ہيں اسى طرح اسلام بھى جمہوريت كو اپنے اصولوں كے زير سايہ ركھتاہے_ پس جمہوريت اور اسلام كے درميان توافق قائم كيا جاسكتاہے_ اسلامى جمہوريہ ايران كا سياسى نظام اس كا عملى نمونہ ہے_ ايران كا اساسى قانون اگر چہ جمہورى نظام كے تحت بنايا گيا ہے اور اس ميں عوام كى آراء شامل ہيں_ ليكن اس كے ساتھ ساتھ خدا كى حاكميت اور اسلامى تعليمات كو بھى مدنظر ركھا گيا ہے اور قومى حاكميت كو الہى حاكميت كے زير سايہ قرار ديا گيا ہے_

ولايت فقيہ اور جمہوريت ميں عدم توافق

گذشتہ سبق ميں اشارہ ہوچكاہے كہ بعض افراد'' ولايت فقيہ اور جمہوريت ''كے درميان عدم توافق كے نظريہ كے قائل ہيں در اصل اس نظريہ كى بنياد ولايت فقيہ كى ايك خاص تحليل و تفسير پرہے-_ وہ يہ كہ يہ افراد ولايت فقيہ كو بے بس ومحجور افراد كى سرپرستى كے باب سے قرار ديتے ہيں_اس نظريہ كى بناپر نظام ولايت فقيہ اورجمہوريت كى تركيب دو متضاد چيزوں كى تركيب كے مترادف ہے_ اور جس اساسى قانون ميں جمہوريت اور ولايت فقيہ كو جمع كيا گيا ہے وہ ناقبل حل مشكل سے دوچار ہے _ كيونكہ اس قانون ميں دو متضاد چيزوں كو جمع كياگيا ہے _

اسلامى جمہوريہ ايران ميں'' مجلس خبرگان رہبري''(۱) كے انتخاب كيلئے عوامى آراء كى طرف رجوع كيا جاتاہے_ اكثريت كى آراء كى طرف رجوع كرنے كا معنى يہ ہے كہ در حقيقت يہ عوام ہى ہيں جو رہبر اور ولي

____________________

۱) Assembly Of experts .

۳۳۴

امر كا انتخاب كرتے ہے _ فقہى اصطلاح ميں وہ افراد جو ولايت فقيہ كے نظام ميں'' مولّى عليہ'' فرض كئے جاتے ہيں مثلاً ، بچے اور پاگل و غيرہ _ اگر مولّى عليہ شرعى يا قانونى طور پر اپنے ولى امر كا انتخاب خود كرے تو وہ خود بالغ اور عاقل ہے اور طبيعى طور پر وہ مولّى عليہ نہيں ہے كہ اسے ولى امر كى احتياج و ضرورت ہو _ اور اگر حقيقتاً مولّى عليہ ہے اور اسے ولى امر كى احتياج ہے تو پھر وہ خود كيسے اپنے لئے ولى امر كا انتخاب كرسكتاہے؟

جيسا كہ اس استدلال كى اصلى بنياد اس پر ہے كہ اسلامى جمہوريہ كے اساسى قانون ميں عوام كے بارے ميں تضاد پايا جاتاہے _ كيونكہ ايك طرف جمہوريت ميں يہ فرض ہے كہ عوام سمجھ بوجھ ركھتے ہيں ، صاحب اختيار ہيں اور اپنى سياسى سرنوشت كا تعين كرسكتے ہيں اور ان كى آراء اور انتخاب قابل اعتبار ہيں _ جبكہ دوسرى طرف ولايت فقيہ ميں فرض يہ ہے كہ لوگ مولى عليہ ہيں ، سمجھ بوجھ نہيں ركھتے اور انہيں اپنے امورسنبھالنے كيلئے ايك سرپرست اور ولى كى ضرورت ہے _ بنابريں عوام كے بارے ميں يہ دو فرض جمع نہيں ہوسكتے_ كيونكہ ممكن نہيں ہے كہ لوگ جس وقت رشيد اور مختار شمار كئے جارہے ہيں اسى وقت مولّى عليہ اور غير رشيد بھى ہوں_ پس اس تحليل كى بناپر اساسى قانون ميں جمہوريت اور ولايت فقيہ كى تركيب دو متضاد باتوں كا جمع كرنا ہے _

مذكورہ شبہہ كا جواب:

ولايت فقيہ اور جمہوريت ميں عدم توافق كے شبہ كا منشاء اور سبب در حقيقت ولايت فقيہ كى غلط تفسير ہے _ پندرہويں اورسولہويں سبق ميں اس نكتہ كى وضاحت ہوچكى ہے كہ ولايت فقيہ محجورو بے بس افراد پر ولايت كے باب سے نہيں ہے _ بلكہ اس ولايت كى قسم سے ہے جو رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كو امت پر حاصل تھى _ بنابريں ولايت فقيہ كى اس صحيح تفسير كى مدد سے يہ نكتہ واضح ہو جاتاہے كہ ولايت فقيہ ميں يہ فرض

۳۳۵

نہيں كياگيا كہ لوگ ناسمجھ اور محجورہيں پس اس لحاظ سے جمہوريت اور رائے عامہ كا احترام كرنے ميں كوئي مشكل پيش نہيں آتي_

دينى حكومت اور جمہوريت كى بحث كے آخر ميں اس بات كى وضاحت ضرورى ہے كہ اگر چہ سياسى اور اجتماعى زندگى ميں جمہوريت ايك مقبول روش ہے _ ليكن فوائدكے لحاظ سے اسكے بارے ميں مبالغہ آرائي نہيں كرنى چاہے كيونكہ يہ نئي چيز بہت سى آفات اور نقصانات كى حامل ہے _ جن ميں سے بعض كى طرف يہاں مختصر طور پر اشارہ كيا جاتاہے_

جمہوريت كى آفات

جمہوريت كى روح اور اساس يہ ہے كہ مختلف معاشرتى امور ميں لوگوں كى شركت اور رائے عامہ سے استفادہ كيا جائے_ليكن متعدد وجوہات كى بنياد پر آج جو حكومتيں جمہورى كہلاتى ہيں اس روح سے خالى ہيں_ بہت سى حكومتيں فقط نام كى حد تك جمہورى ہيں اور وہ جمہوريت فقط اس معنى ميں ہے كہ اپنے پر حكومت كرنے والوں كو يا انتخاب كرليں ياردّ كرديں_ در حقيقت يہ سياستدان ہيں جو حكومت كرتے ہيں _

جمہوريت كى ايك اور اہم مصيبت اور مشكل جو كہ اس كى تمام شكلوں ميں موجود ہے اس ميں عوام كا كردار ہے _ عوام عام طور پر سياسى اور اجتماعى مسائل كے بارے ميں غير ذمہ دارانہ رويہ ركھتے ہيں _ اپنے ذاتى امور مثلاً شادي، گھر يا گاڑى كے خريدنے ميں بہت زيادہ غور و فكر اور دقت سے كام ليتے ہيں ان كى پورى كوشش ہوتى ہے كہ مفيد ترين اور بہترين كا انتخاب كريں ليكن اجتماعى اور سياسى امور ميں كاہلى اور تساہل سے كام ليتے ہيں _اس وجہ سے جذباتى نعروں اور پروپيگنڈے كى زد ميں آجاتے ہيں اور داخلى و خارجى عوامل سے متاثر ہوجاتے ہيں_

ايك اور آفت يہ ہے كہ سياسى جماعتيں اور سياستدان جديدترين پروپيگنڈا مشينرى اور حربوں كو بروئے

۳۳۶

كار لاكر سياسى طاقت كى تقسيم اورحكومتوں اور صاحبان قدرت پر عوامى نظارت كے سلسلے ميں رائے عامہ كى تاثير كو مشكوك بناديتے ہيں_ عالم سياست ميں رائے عامہ كم ہوتى ہے اكثر بناوٹ اور دھوكا بازى سے كام ليا جاتاہے _ موجودہ جمہوريت ميں بجائے اس كے كہ رائے عامہ ايك اساسى عامل اور متحرك قوت ہو يہ پروپيگنڈا اور مخصوص سياسى جماعتوں كى فعاليت كا نتيجہ ہوتى ہے_ ہر برٹ ماركو زہ كے بقول:

ميڈيا اور پروپيگنڈا لوگوں ميں غلط شعور پيدا كرديتے ہيں _ يعنى ايسے حالات پيدا كرديئے جاتے ہيں كہ لوگ اپنے حقيقى منافع كا اداراك نہيں كرپاتے(۱)

جديد جمہوريت كى بنيادى اور اصلى ترين مشكل يہ ہے كہ تجارت پر حاوى بڑے بڑے افراد معاشرے كے ايك چيدہ گروہ كے عنوان سے معاشروں كى اقتصاديات پر غير مرئي كنٹرول ركھنے كے علاوہ سياست كے كليدى امور پر بھى كنٹرول ركھتے ہيں_ تمام سياسى جماعتيں ان كے زير اثر ہوتى ہيں اوربہت سے موارد ميں موجود ہ لبرل جمہوريت ميں حكومتى منصوبوں ميں لوگوں كا براہ راست عمل دخل بہت كم ہے فقط نمائندوں كے ذريعہ سے ہے اور نمائندے لوگوں كے دقيق انتخاب كے بجائے پروپيگنڈے كے زير اثر اور اقتصادى طاقتوں كى غير مرئي راہنمائي پر منتخب ہوتے ہيں _ واضح سى بات ہے كہ ايسے نمائندے سب سے پہلے تجارتى پارٹيوں كے مفادات كا خيال ركھيں گے_

____________________

۱) مدلہاى دموكراسى ڈيوڈ ہلڈ، ترجمہ بزبان فارسي، عباس مخبر ، صفحہ ۳۴۷_

۳۳۷

خلاصہ :

۱) اسلام اور جمہوريت ميں توافق و مفاہمت ممكن ہے _

۲) وہ افراد جو اسلام اور جمہوريت ميں ذاتى عدم توافق كے قائل ہيں در حقيقت ان كے پيش نظر جمہوريت كى ايك خاص تعريف ہے اور وہ'' جمہوريت اكثريت رائے ''كى حمايت كرتے ہيں_

۳) بغير كسى شرط و قيد كے'' مطلق جمہوريت''كا كوئي وجود نہيں ہے _ موجودہ دور ميں بہت سے ممالك لبرل اصولوں اور اقدار كے زير اثر جمہوريت كو تسليم كرتے ہيں _

۴) لبرل جمہوريت كے مقابلے ميں ہم اسلام كے اصولوں كے مطابق جمہوريت كو قائم كرسكتے ہيں_

۵) اسلامى جمہوريہ ايران كا نظريہ عوامى حاكميت كو الہى حاكميت كے زير اثر قبول كرنے كى ايك مثال ہے_

۶) وہ نظريہ جو ولايت فقيہ اور جمہوريت كے درميان عدم توافق كا قائل ہے اس كے پيش نظر ولايت فقيہ كى ايك خاص تعريف ہے _

۷) اگر كوئي غلط طور پر'' ولايت فقيہ كو بے بس اور محجور افراد پر ولايت ''كے باب سے قرار ديتاہے تو اسے ولايت فقيہ اورجمہوريت ميں توافق قائم كرنے ميں مشكل پيش آتى ہے _

۸)'' ولايت فقيہ ''امت پر رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كى ولايت كے باب سے ہے_

۹) جمہوريت بہت سى مصيبتوں اور آفات سے دوچار ہے_

۱۰) جديد دور ميں جمہوريت كى عظيم ترين آفت يہ ہے كہ لوگوں كے انتخاب كے پيچھے تجارتى يونينز اور پروپيگنڈے كا ہاتھ ہوتاہے _

۳۳۸

سوالات:

۱) اسلام اور جمہوريت كے درميان'' ذاتى عدم توافق ''كے نظريہ كا كيا جواب ہے ؟

۲) دينى حكومت جمہوريت كى كونسى تعريف كے ساتھ مطابقت ركھتى ہے ؟

۳) لبرل جمہوريت سے كيامراد ہے؟

۴) حكومت ولائي اور جمہوريت كے درميان عدم توافق كى دليل كيا ہے؟

۵) ولايت فقيہ اور عوامى قيادت كے درميان تضاد والے شبہ كا جواب كيا ہے ؟

۶) جمہوريت كو كن آفات و مشكلات كا سامناہے؟

۳۳۹

ضميمہ جات

باسمہ تعالى

ضميمہ نمبر۱

سوال : كيا اہلسنت كے نزديك بھى ''ولايت فقيہ'' نام كى كوئي چيز ہے؟

مختصر جواب:

اہلسنت كے نزديك خود'' خلافت'' در حقيقت '' ولايت فقيہ '' كى مثل ايك چيز ہے _ ليكن كيفيت اور شرائط كے لحاظ سے مختلف ہے _ اہم ترين فرق يہ ہے كہ شيعوں كے اعتقاد كے مطابق زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين (ع) كى حكومت كا تسلسل ہے_ ولى فقيہ بطور عام يا خاص آنحضرت(ص) كى جانب سے منصوب ہونا چاہيے_ ليكن جس خلافت كے اہلسنت قائل ہيں وہ اس طرح نہيں ہے _ تاريخ گواہ ہے كہ خود ان كے اعتقاد كے مطابق خليفہ اول كا تقرر بھى آنحضرت(ص) كى طرف سے نہيں تھا_ بلكہ ان كا تقرر بعض صحابہ كى بيعت كے نتيجہ ميں ہوا تھا_اموى اور عباسى دور ميں جو خلافت تھى اسلامى حكومت سے ذرا بھى مشابہت نہيں ركھتى تھي_

تفصيلى جواب:

انسان نے طول تاريخ ميں معاشرتى انصاف اور اپنى سياسى زندگى كيلئے مختلف نظاموں اور حكومتوں كا

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367