اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139094 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

سوالات :

۱) دينى حكومت كے معنوى اہداف كے پانچ موارد بيان كيجئے ؟

۲)دينى حكومت كے دنيوى اہداف سے كيا مراد ہے ؟

۳)حكومت كے وہ كونسے دنيوى اہداف ہيں جن پر آيات و روايات ميں تاكيد كى گئي ہے ؟

۴)دنيوى اہداف كے حصول كے سلسلہ ميں دينى حكومت كا دوسرى حكومتوں سے كيا فرق ہے ؟

۵)حكومتى عہدے داروںكے انتخاب كے سلسلہ ميں اميرالمومنين نے مالك اشتر كو كونسى نصيحتيں كى ہيں ؟

۶)حكومتى اہل كاروں كے كچھ فرائض بيان كيجئے ؟

۳۲۱

اكتيسواں سبق :

دينى حكومت اور جمہوريت -۱-

اسلام كے سياسى فلسفہ كى اہم ترين بحثوں ميں سے ايك ''دين اور جمہوريت'' كے در ميان تعلق كى تحقيق و بررسى ہے _اس بحث ميں بہت سے سوالات اور شبہات پائے جاتے ہيں _ ان ميں سے بعض شبہات كا سرچشمہ اسلام كے اصول ومبانى اور جمہوريت كے اصول و مبانى كے درميان ناقابل حل عدم مطابقت وعدم ہم آہنگى كا تصور ہے _ دينى حكومت اور جمہوريت كى ہم آہنگى كے بعض منكرين اس سرچشمہ كو نظريہ ولايت فقيہ ميں تلاش كرتے ہيں _ان كے خيال ميں اسلام جمہوريت سے ذاتى مخالفت نہيں ركھتا _ليكن ولائي نظام جو كہ ولايت فقيہ پر مبتنى ہے جمہوريت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا _ بنابريں ايك كلى تقسيم بندى كے لحاظ سے ہميں تين اساسى نظريات كاسامنا ہے _

الف_ ايك نظريہ يہ ہے كہ دينى حكومت اور جمہوريت كى تركيب ممكن ہے اس نظريہ كے مطابق اسلام اور

۳۲۲

اس كى تعليمات كى پابندى جمہوريت اورمعاشرہ كے سياسى و انتظامى امور ميں لوگوں كى مداخلت سے مانع نہيں ہے _ جمہورى اسلامى كا نظام اور اس كا اساسى قانون اسى سياسى نظريہ پر قائم ہے _

ب_ وہ نظريہ جو اسلام اور -جمہوريت كے درميان ذاتى تضاد كا قائل ہے يہ نظريہ اس بنياد پر قائم ہے كہ اسلام بنيادى طور پر عوامى قيادت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا _ اسى لئے نہ صرف'' حكومت ولائي'' اور ولايت فقيہ كا سياسى نظريہ ، بلكہ ہر وہ دينى حكومت جو اسلام كى حاكميت كو تسليم كرتى ہے اور اس كى تعليمات اور احكام كى پابند ہے وہ ايك جمہورى اور عوامى حكومت نہيں ہوسكتى _

ج _ تيسرا نظريہ وہ ہے جو بنيادى طور پر دين اور جمہوريت كى تركيب كے امكان كا منكر نہيں ہے _ بلكہ اسے اس نظام ميں مشكل پيش آرہى ہے جو ولايت فقيہ پر مبتنى ہے _ اس نظريہ كى بنياد پر ولايت فقيہ كے اعتقاد اور جمہوريت كى باہمى تركيب ممكن نہيں ہے _ جمہوريت اور ولائي حكومت كبھى بھى ہم آہنگ نہيں ہوسكتے وہ حكومت جو ولايت فقيہ كى بنياد پر قائم ہوكبھى بھى جمہورى اور عوامى نہيں كہلاسكتى _ جمہوريت پر اعتقاد اور ولايت فقيہ پر اعتقاد، دو متضاد چيزيں ہيں _

ان تين نظريات كے متعلق فيصلہ كرنے اور دينى حكومت كے مخالفين كے نظريہ كے متعلق تفصيلى بحث سے پہلے بہتر ہے : جمہوريت كى حقيقت كے متعلق مزيدآشنائي حاصل كرليں _

جمہوريت كى حقيقت :

جمہوريت ايك يونانى اصطلاح ہے جو دو الفاظ'' demo '' يعنى عوام اور '' cracy '' يعنى حكومت سے مركب ہے _ عوامى حكومت يا عوامى قيادت اپنے دقيق معنى كے ساتھ تو ايك ايسا خواب ہے جو كبھى بھى شرمندہ تعبير نہيں ہوسكتا _ كيونكہ آج كے پيچيدہ معاشرے ميں كہ جہاں روزانہ دسيوں بڑے بڑے معاشرتى فيصلے

۳۲۳

كئے جاتے ہيں اور مختلف حكومتى اداروں ميں مختلف قوانين وضع ہوتے ہيں ممكن ہى نہيں ہے كہ يہ فيصلے اور قوانين براہ راست لوگوں كے ذريعے انجام پائيں _ پس ناچار جمہورى حكومتوں ميں كچھ افراد لوگوں كى اكثريت رائے سے ان كى نمائندگى كرتے ہوئے عنان حكومت اپنے ہاتھ ميں لے ليتے ہيں اور در حقيقت عملى طور پر يہى افراد حكومت كرتے ہيں نہ كہ عوام_ البتہ قديم يونان كے شہروں كى حكومتوں ميں بہت سارے فيصلے شہر كے چوك ميں كھلے عام اور لوگوں كى رائے سے انجام ديئے جاتے تھے ليكن وہاں بھى تمام لوگوں كو راے دہى كا حق نہيں تھا كيونكہ خواتين اور غلام رائے نہيں دے سكتے تھے-_

ڈيمو كريسى يعنى جمہوريت ايك ايسا كلمہ ہے جس كى مختلف تفسيريں اور معانى كئے گئے ہيں _ اس مدعى كى دليل يہ ہے كہ مختلف مكاتب فكر نے بالكل متضاد نظريات كے باوجود جمہوريت كى حمايت كى ہے _ لبرل ازم اور فاشزم كے حامى اور قدامت پسند سبھى خود كو جمہوريت نواز كہتے ہيں اور اپنے آپ كو حقيقى جمہوريت قائم كرنے والا قرار ديتے ہيں _ اشتراكى جمہوريت ، لبرل ازم ، آزاد جمہوريت ، صنعتى جمہوريت اور كثيرالراے جمہوريت(۱) جيسى مختلف اصطلاحيں حقيقت ميں اس بات كى نشاندہى كرتى ہيں كہ جمہوريت سے مراد كوئي مخصوص معنى اور اصطلاح نہيں ہے _

جمہوريت كا كوئي ثابت معنى نہيںہے _ دنيا كے بيشتر ممالك ميں مختلف جمہورى حكومتيں قائم ہيں اور جمہوريت مختلف سياسى نظريات كے ساتھ ہم ساز و ہم آہنگ ہے يہ اس بات كى دليل ہے كہ جمہوريت كا كوئي ايسا معنى موجود نہيں ہے كہ جس پر سبھى متفق ہوں_ اس نے مختلف معاشروں كے اجتماعى تحولات اور تغيرات كے ساتھ ساتھ مختلف روپ ڈھالے ہيں _

____________________

۱) Social democracy - Liberal democracy - Industrial democracy

۳۲۴

آج چونكہ جمہوريت ايك مثبت معنى ركھتى ہے لہذابہت سے سياسى نظام خود كو جمہوريت نواز كہتے ہيں اگرچہ ان كى حكومتوں ميں عوام كا عمل دخل بہت ہى كم ہو_

بنيادى طور پر جمہوريت كو دو لحاظ سے ديكھا جاتاہے_ از لحاظ قدر و قيمت اور از لحاظ ايك روش _ جمہوريت از لحاظ قدر و قيمت سے مراد يہ ہے كہ اكثريت كا انتخاب ہميشہ معاشرہ كى بھلائي اور حق كے انتخاب كے ہمراہ ہے _ جن موارد ميں عمومى آراء كا لحاظ كيا جاتا ہے وہاں حق باطل سے ممتازہوجاتا ہے _ بنابريں جمہوريت اجتماعى زندگى گزارنے كيلئے مناسب اور صحيح راہ حل دے سكتى ہے _ معاشرہ كى سعادت اور خوشبختى اكثريت كے انتخاب كى مرہون منت ہے _ كلاسيكل جمہوريت يعنى اٹھار ہويں صدى كى جمہوريت اسى نظريہ پر استوار تھى اور آج بھى كچھ گروہ اسى زاويہ نگاہ سے جمہوريت كو ديكھتے ہيں اور اكثريت كى رائے كو حق و باطل كى تشخيص كا معيار قرار ديتے ہيں _ اكثريت كى رائے كو قدر كى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور حق و حقيقت كو اسى ميں تلاش كرتے ہيں _

اس نظريہ كا نقطہ استدلال يہ ہے _

واضح سى بات ہے كہ ہر شخص اپنى انفرادى زندگى ميں اپنى ذاتى منفعت اور سعاد ت و خوشبختى كا خواہان ہے_ اور زندگى كے مختلف شعبوں ميں بہترين اور صحيح امور كا انتخاب كرتا ہے _ دوسرے لفظوں ميں لوگ اپنى انفرادى زندگى ميں منافع پر نظر ركھتے ہيں اور اپنى ذاتى خيرو بھلائي كى تلاش ميں رہتے ہيں_ لہذا اجتماعى زندگى ميں بھى اكثريت كا انتخاب ايك صحيح ترين انتخاب ہوگا _ چونكہ لوگ اپنے منافع كا صحيح اور بہترين ادراك ركھتے ہيں اور عمومى منافع و مصالح بھى اسى انفرادى تشخيص پر موقوف ہيں _ ہر فرد نے اجتماعى امور اور معاشرہ كے منافع و مصالح كو اپنى ذاتى تشخيص سے متعين كيا ہے اور اكثريت كى رائے معاشرہ كى خيرو منفعت

۳۲۵

كى تعيين و تشخيص ميں عمومى رائے كى نشاندہى كرتى ہے بنابريں ہر اجتماعى واقعہ و مسئلہ آسانى سے خوب و بد اور نافع و مضر ميں تقسيم ہوسكتا ہے _ اور ارادہ عمومى جو كہ اكثريت رائے سے حاصل ہوا ہے اس خوب و بد اور مفيدو مضر كى آسانى سے شناخت كرسكتا ہے _

''جمہوريت از لحاظ ايك روش ''سے مراد يہ ہے كہ جمہوريت صرف اجتماعى تنازعات كا حل اور سياسى اقتدار كى تبديلى كا ايك ذريعہ ہے _ طول تاريخ كے عقلانے تجربہ سے يہ نتيجہ حاصل كيا ہے كہ جمہوريت، حكّام اور صاحبان اقتدار كے تعيّن كا بہترين طريقہ ہے بجائے اس كے كہ مختلف سياسى جماعتيں ، سياسى ليڈر اور اقتدار كے خواہشمند افراد جنگ، قتل و غارت ،دہشت گردى اور اختلافى مسائل كے ذريعہ اقتدار كو اپنے درميان تقسيم كرليں_ اس كيلئے ايك معقول اور بہترين راہ موجود ہے اور وہ حكمران يا پارليمنٹ كے ممبران كى تشخيص اور انتخاب كيلئے رائے عامہ كى طرف رجوع كرنا ہے _ اس لحاظ سے جمہوريت اور اكثريت كى رائے خوب و بد اور صحيح و غلط كا معيار نہيں ہے -ہوسكتا ہے لوگوں كى منتخب شدہ جماعت كہ جس كے متعلق اكثريت نے راے دى ہے عملى طور پر معاشرہ كى فلاح و بہبود كيلئے كوئي قدم نہ اٹھائے _ اكثريت كا انتخاب حق و حقانيت كے انتخاب كى دليل نہيں ہے _

موجودہ دور كے صاحبان نظرجمہوريت كو از لحاظ قدر و قيمت نہيں ديكھتے كوئي بھى يہ تصور نہيں كرتا كہ اكثريت كى رائے حتمى طور پر معاشرہ كى فلاح و بہبود كا پيغام ہے _ جرمن نازى ، اٹالوى فاشسٹ ، اور روسى اور مشرقى بلاك كے كيمونسٹ ،اكثريت كى رائے سے انقلاب لائے اور اقتدار حاصل كرنے ميں كامياب ہوئے _ ليكن عملى طور پر ان كے دور اقتدار انسانى الميوں سے بھرے ہوئے ہيں _

اجمالى طور پر جمہوريت كى حقيقت كے واضح ہونے كے بعد اس نظريہ كى تحقيق كى بارى آتى ہے كہ اسلام اور جمہوريت كے اصولوں ميں توافق اور ہم آہنگى ممكن نہيں ہے _

۳۲۶

اسلام اور جمہوريت كے در ميان ذاتى عدم توافق

بعض افراد معتقد ہيں كہ جمہوريت كچھ خاص اصولوں پر مبتنى ہے _ انسان ، معاشرہ اور سياست پر اس كى ايك خاص نگاہ ہے اور مخصوص اہداف كى حامل ہے _ يہ اصول و اہداف ،اسلامى تعليمات اور ان پر حاكم اصولوں كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتے _

اسلام اور جمہوريت كے درميان توافق نہيں ہوسكتا اور اسكى ادلة ہم ذكر كريں گے_ اصلاً اسلام اور جمہوريت كے درميان توافق ممكن نہيں ہے مگر يہ كہ اسلام مكمل طور پر سيكولر ہوجائے _ جمہوريت كے نظرى اصول ميں سے ايك يہ بھى ہے كہ انسان سے خطا اور غلطى كا سرزد ہونا ممكن ہے يہ اصول خود ايك دوسرے اصول پر مبنى ہے كہ انسان ايك صاحب اختيار وجود ہے اور اسے انتخاب كا حق ہے _ خطا اور غلطى اس كے اختيار اور انتخاب كا لازمہ ہے انسان كے انتخاب كا بہترين مورد، فكر اور عقائد كى دنيا ہے _ انسان كيلئے يہ امكان ہونا چاہيئے كہ وہ آزادانہ طور پر مختلف آراء و نظريات كے متعلق غور و فكر كرسكے اور آزادانہ طور پر اپنا انتخاب كرسكے _ وہ اديان ميں سے كسى دين يا بے دينى كو اختيار كرنے ميں آزاد ہے _ جمہوريت كا ايك اصول يہ ہے كہ حقيقت واضح نہيں ہے اور وہ سب انسانوں كے درميان منتشر ہے لہذا ہر انتخاب حقيقت اور غير حقيقت كى ايك تركيب ہے_ليكن اگر كو ئي مكتب يا دين خود كو حق و حقيقت كا مظہر سمجھتا ہے اور دوسرے اديان كو كفر ، شرك اور ضلالت كا مجموعہ قرار ديتا ہے تو پھر كسى جمہورى حكومت كى كوئي جگہ نہيں بنتى _ اسلام قرآنى آيات كى روسے فقط خود كو دين بر حق سمجھتا ہے _ درج ذيل آيات صريحاً جمہوريت كى نفى كرتى ہيں _ سورہ يونس كى آيت ۳۲ ميں ارشاد ہوتاہے:

''( ماذا بعدالحق الاالضلال ) ''

اور حق ( كو ترك كرنے) كے بعد ضلالت و گمراہى كے سوا كچھ نہيں _

۳۲۷

سورہ آل عمران كى آيت ۸۵ ميں ہے :

( ''من يبتغ غير الاسلام ديناً فلن يقبل منه'' )

اور جو شخص اسلام كے علاوہ كسى اور دين كا خواہاں ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہيں كيا جائے گا_

سورہ توبہ كى ابتدائي آيات بھى انسانى انتخاب كى نفى كرتى ہيں _

اس استدلال ميں واضح طور پر جمہوريت كے دو بنيادى اصولوںكو مد نظر ركھا گيا ہے _ پہلا يہ كہ'' كثرت رائے معرفت شناختي''ہے _ نسبى گرائي(۱) اور ''تكثر گرائي(۲) معرفت شنا ختي'' سے مراد يہ ہے كہ لوگوں كے پاس حقيقت كو كشف كرنے كا كوئي راستہ نہيں ہے اور حق كو باطل سے صحيح طور پر تشخيص نہيں ديا جاسكتا ،كوئي شخص بھى يہ دعوى نہيں كرسكتا كہ اس كى فكر ،سوچ ،اعتقاد اور دين ،حق ہے اور دوسرے افكار باطل ہيں _ حق و باطل دونسبى چيزيں ہيں اور ممكن ہے ہردين ، اعتقاد اور فكر حقانيت ركھتا ہو _ خالص باطل اور خالص حق كا كوئي وجود نہيں ہے_ يہ شكاكيت اور نسبى گرائي معرفتي، تمام افكار و عقائد اور نظريات كو ايك ہى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور سب كو قابل اعتبار سمجھتے ہيں لہذا يہ ايك قسم كا پلورل ازم(۳) ہے اور اس كا لازمہ يہ ہے كہ كسى فكر ، نظريئےور مذہب كو منطق اور استدلال كے ذريعہ ثابت نہيں كيا جاسكتا بلكہ يہ انسان ہيں -جو مختلف آراء و افكار اور مذاہب ميں سے ايك كا انتخاب كرليتے ہيں _ پس حق كو باطل پر اور صحيح كو غلط پر ترجيح دينے كى دعوت دينے كى بجائے آزاد انتخاب كى راہيں ہموار كى جائيں كيونكہ حق كو باطل سے اور صحيح كو غلط سے تميز دى ہى نہيںجاسكتى _

____________________

۱) Relativism

۲) pluralism

۳) pluralism

۳۲۸

اسى اصول پر ايك دوسرا اصول مبتنى ہے _ يعنى فكر و بيان اور عقائد و افكار كے انتخاب كى آزادى كا سرچشمہ يہى ''تكثير گرائي معرفتي'' ہے _ كيونكہ اگر ہميں حق كو باطل سے تميز دينے كے امكان كا يقين ہو جائے تو پھر كلى طور پر''آزادى انتخاب'' كا كوئي معنى نہيں رہتا _ كوئي صاحب عقل يہ تصور نہيں كر سكتا كہ حق و باطل كے در ميان تشخيص كا امكان ہوتے ہو ئے ہم اسے حق وباطل كے درميان انتخاب كى دعوت ديں _ كيونكہ معقول اور فطرى بات يہى ہے كہ حق كى تشخيص كے بعد اس كا اتباع كيا جائے _

اس استدلال كى بنا پر دين اور جمہوريت ميں توافق ممكن نہيں ہے _كيونكہ دينى حكومت اسلام كى پابند ہے_ اور فقط اسلام كى حقانيت كو تسليم كرتى ہے بلكہ قوانين كے بنانے اور دوسرے معاشرتى امور ميں اسى اسلام كو اپنا مرجع قرار ديتى ہے _پس كيسے ممكن ہے كہ دينى حكومت اسلام كى پابند ہونے كے ساتھ ساتھ جمہوريت كى بھى پابند رہے _جمہوريت اپنے دو بنيادى اصولوںكے لحاظ سے اسلام اور دوسرے مذاہب كے در ميان كسى فرق كى قائل نہيں ہے اور اسى پريقين ركھتى ہے كہ حقانيت كے اعتبار سے اسلام دوسرے مذاہب سے كوئي امتياز نہيں ركھتا_-

آنے والے سبق ميں ہم اس نظريہ پر بحث كريں گے_

۳۲۹

خلاصہ:

۱) دينى حكومت اور جمہوريت كے درميان توافق ممكن ہے_ اس نظريہ كے مقابلہ ميں ايك نظريہ يہ ہے كہ اسلام اور جمہوريت كے درميان ذاتاً ''عدم توافق'' ہے_ اور بعض ''ولايت فقيہ اور جمہوريت ''كے درميان عدم توافق كے قائل ہيں_

۲-) جمہوريت اپنے حقيقى معنى يعنى (عوامى حكومت ) كے لحاظ سے ايسا خواب ہے جو كبھى شرمندہ تعبير نہيں ہوسكتا_

۳-) جمہوريت كى مختلف تفسيريں كى گئي ہيں اور بنيادى طور پر يہ كلمہ لچكدار ہے_

۴) جمہوريت كى مختلف تفاسير كو دو كلى نظريوں ميں تقسيم كيا جاسكتاہے_ ايك وہ نظريہ ہے جو جمہوريت كو اجتماعى امور كے نظم و نسق كا ذريعہ اور روش سمجھتاہے_ اور دوسرا نظريہ اسے قابل قدر و قيمت سمجھتاہے_

۵) دوسرا نظريہ جو كہ جمہوريت كى قدر كا قائل ہے اكثريت كے انتخاب كو معاشرہ كى فلاح و بہبود كے انتخاب كے مترادف قرار ديتاہے_ بنابريں زندگى گزارنے كى كيفيت اكثريت كے انتخاب كى بنياد پر ہونى چاہيے_

۶) موجودہ دور ميں جمہويت كے متعلق ''نگاہ قدر ''كے نظريہ كى اہميت كم ہوچكى ہے اور اس كے حاميوں كى تعداد بہت كم رہ گئي ہے _

۷) بعض افراد يہ سمجھتے ہيں كہ اسلام اور جمہوريت كے درميان عدم توافق كى وجہ جمہوريت كے دو بنيادى اصول ہيں _

۸)''تكثر گرائي معرفت شنا ختي''اور'' مطلق آزادى انتخاب كا حق'' جمہوريت كے دو بنيادى اصول ہيں _

۹) اسلام اپنى تعليمات كى حقانيت پر تاكيد كرتاہے_ لہذا تكثّر حقيقت اور حق و باطل كى تركيب كا معتقد نہيں ہے اور اس كے نزديك حق كو باطل سے تشخيص دى جاسكتى ہے _

۳۳۰

سوالات:

۱) دينى حكومت كے جمہوريت كے ساتھ تعلق كے بارے ميں كونسے تين بنيادى نظر يات ہيں؟

۲) جمہوريت اپنے حقيقى مفہوم كے ساتھ قابل وجود كيوں نہيں ہے؟

۳) جمہوريت كے متعلق ''نگاہَ قدر 'سے كيا مراد ہے؟

۴) جمہوريت كو ايك روش سمجھنے سے كيا مراد ہے ؟

۵) اسلام اور جمہوريت كے درميان ''ذاتى تضاد'' كى كيادليل ہے ؟

۶)'' تكثر گرائي معرفت شنا ختي'' سے كيا مراد ہے ؟

۳۳۱

بتيسواں سبق:

دينى حكومت اور جمہور يت – ۲-

گذشتہ سبق ميں ہم اس نظريہ كو تفصيل كے ساتھ بيان كرچكے ہيں كہ اسلام اور جمہوريت كے درميان عدم توافق ''ذاتي'' ہے _ اب ہم اس نظريہ كى تحقيق كرتے ہيں_

دين اور جمہوريت كے درميان توافق كا امكان

پہلے اشارہ كرچكے ہيں كہ جمہوريت كى كوئي ايك تفسير يا تعريف نہيں ہے_ جمہوريت كے متعلق مختلف نظريات بيان كئے جاسكتے ہيں_اسلام اور جمہوريت كے درميان ذاتى عدم توافق كى جو وجہ بيان كى گئي ہے وہ جمہوريت كے متعلق ايك خاص نظريہ يعنى جمہوريت تكثر گرا(كثرت رائے) پر مبنى ہے _ البتہ جمہوريت كى يہ تفسير اسلام اور ہر اس مكتب كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتى جو بعض امور كو حق اور صحيح سمجھتاہے_ اور ان كے نسبى ہونے كو نہيں مانتا_ جمہوريت كى مختلف تفسيريں ہيں_ اور ان ميں سے بعض مذكورہ بالا استدلال ميں بيان كئے گئے دو بنيادى اصولوں پر مبنى نہيں ہيں _ مثال كے طور پر وہ نظريہ جو جمہوريت كو سياسى اقتدار كى تقسيم كى ايك روش اور معاشرتى امور كے منظم كرنے كا ايك كارآمد وسيلہ سمجھتاہے وہ تكثر گرائي معرفتى اور مطلق

۳۳۲

آزادى انتخاب پر موقوف نہيں ہے_

جمہوريت از لحاظ ايك روش كو محدود كيا جاسكتاہے يعنى كچھ مخصوص اصولوں كو حق اور صحيح تسليم كيا جاسكتاہے اس وقت جمہوريت كو ان اصولوں اور اقدار كى حفاظت كے لئے كام ميں لايا جاسكتاہے_ جمہوريت كے اس تصور ميں ايك تو ''نسبيت'' اورتكثرگرائي معرفتى كو ہٹاديا گياہے كيونكہ حقانيت كا اعتقاد پيدا كرچكے ہيں _ دوسرا يہ كہ لوگوں كا انتخاب ،مطلق اور آزاد نہيںہے بلكہ مقيد ہے كيونكہ اس نظريہ كے قائل افراد ان طے شدہ اصولوں كے خلاف كسى اور چيز كا انتخاب نہيں كرسكتے_ پس جمہوريت كا يہ تصور ان دو اصولوں يعني'' تكثر گرائي معرفتى ''اور'' مطلق آزادى انتخاب ''پر موقوف نہيں ہے_

''لبرل جمہوريت'' جمہوريت كے اسى تصور كى بنياد پر تشكيل پائي ہے_ ابتداء ميں لبرل ازم كے حاميوں نے جمہوريت كے سلسلہ ميں اكثريت كے انتخاب كو كوئي خاص اہميت نہيں دى كيونكہ وہ اس سے خوفزدہ تھے كہ كہيں اكثريت رائے ان كے لبرل اصولوں اور اقدار كو پامال نہ كردے_ يہ اپنے لبرل اصولوں مثلاً ذاتى مالكيت كا احترام ، آزاد تجارت، آزادى بازار اقتصاد، مذہبى آزادى اور فكر و بيان كى آزادى پر يقين ركھتے تھے _ لہذا وہ چا ہتے تھے كہ جمہوريت كو ان اصولوں ميں اس طرح پابند كرديں كہ اكثريت رائے ان اصولوں كو پامال نہ كرسكے_ بنابريں لبرل ازم كى حقانيت اور اس كے اصولوں اور اقدار كے صحيح ہونے كے اعتقاد اور جمہوريت ميں ناہم آہنگى نہيں ہے_ لہذا جمہوريت كو لبرل اصولوں اور اقدار ميں مقيد ايك روش تصور كرتے ہوئے اسے'' لبرل جمہوريت'' كہہ سكتے ہيں_

جب ايسا ہے تو پھر كيا مشكل ہے كہ ہم جمہوريت از لحاظ ايك روش كو اسلامى اصول و ضوابط ميں منحصركر د يں اور كہيں: سياسى حكام كے تعيّن كيلئے عوام كى طرف رجوع كريں گے اور لوگ اپنى آراء سے پارليمنٹ كے ممبران

۳۳۳

كاانتخاب كريں گے_ ليكن منتخب شدہ ممبران حق نہيں ركھتے كہ اسلامى تعليمات كے منافى قوانين بنائيں_ اكثريت كا انتخاب اور لوگوں كى آراء اس وقت تك قابل احترام ہيں جب تك قبول كئے گئے عقائد كے مخالف نہ ہوں بنابريں جس طرح لبرل عقيدہ كے حامى ''جمہوريت'' كو اپنے اصولوں كے زير سايہ ركھتے ہيں اسى طرح اسلام بھى جمہوريت كو اپنے اصولوں كے زير سايہ ركھتاہے_ پس جمہوريت اور اسلام كے درميان توافق قائم كيا جاسكتاہے_ اسلامى جمہوريہ ايران كا سياسى نظام اس كا عملى نمونہ ہے_ ايران كا اساسى قانون اگر چہ جمہورى نظام كے تحت بنايا گيا ہے اور اس ميں عوام كى آراء شامل ہيں_ ليكن اس كے ساتھ ساتھ خدا كى حاكميت اور اسلامى تعليمات كو بھى مدنظر ركھا گيا ہے اور قومى حاكميت كو الہى حاكميت كے زير سايہ قرار ديا گيا ہے_

ولايت فقيہ اور جمہوريت ميں عدم توافق

گذشتہ سبق ميں اشارہ ہوچكاہے كہ بعض افراد'' ولايت فقيہ اور جمہوريت ''كے درميان عدم توافق كے نظريہ كے قائل ہيں در اصل اس نظريہ كى بنياد ولايت فقيہ كى ايك خاص تحليل و تفسير پرہے-_ وہ يہ كہ يہ افراد ولايت فقيہ كو بے بس ومحجور افراد كى سرپرستى كے باب سے قرار ديتے ہيں_اس نظريہ كى بناپر نظام ولايت فقيہ اورجمہوريت كى تركيب دو متضاد چيزوں كى تركيب كے مترادف ہے_ اور جس اساسى قانون ميں جمہوريت اور ولايت فقيہ كو جمع كيا گيا ہے وہ ناقبل حل مشكل سے دوچار ہے _ كيونكہ اس قانون ميں دو متضاد چيزوں كو جمع كياگيا ہے _

اسلامى جمہوريہ ايران ميں'' مجلس خبرگان رہبري''(۱) كے انتخاب كيلئے عوامى آراء كى طرف رجوع كيا جاتاہے_ اكثريت كى آراء كى طرف رجوع كرنے كا معنى يہ ہے كہ در حقيقت يہ عوام ہى ہيں جو رہبر اور ولي

____________________

۱) Assembly Of experts .

۳۳۴

امر كا انتخاب كرتے ہے _ فقہى اصطلاح ميں وہ افراد جو ولايت فقيہ كے نظام ميں'' مولّى عليہ'' فرض كئے جاتے ہيں مثلاً ، بچے اور پاگل و غيرہ _ اگر مولّى عليہ شرعى يا قانونى طور پر اپنے ولى امر كا انتخاب خود كرے تو وہ خود بالغ اور عاقل ہے اور طبيعى طور پر وہ مولّى عليہ نہيں ہے كہ اسے ولى امر كى احتياج و ضرورت ہو _ اور اگر حقيقتاً مولّى عليہ ہے اور اسے ولى امر كى احتياج ہے تو پھر وہ خود كيسے اپنے لئے ولى امر كا انتخاب كرسكتاہے؟

جيسا كہ اس استدلال كى اصلى بنياد اس پر ہے كہ اسلامى جمہوريہ كے اساسى قانون ميں عوام كے بارے ميں تضاد پايا جاتاہے _ كيونكہ ايك طرف جمہوريت ميں يہ فرض ہے كہ عوام سمجھ بوجھ ركھتے ہيں ، صاحب اختيار ہيں اور اپنى سياسى سرنوشت كا تعين كرسكتے ہيں اور ان كى آراء اور انتخاب قابل اعتبار ہيں _ جبكہ دوسرى طرف ولايت فقيہ ميں فرض يہ ہے كہ لوگ مولى عليہ ہيں ، سمجھ بوجھ نہيں ركھتے اور انہيں اپنے امورسنبھالنے كيلئے ايك سرپرست اور ولى كى ضرورت ہے _ بنابريں عوام كے بارے ميں يہ دو فرض جمع نہيں ہوسكتے_ كيونكہ ممكن نہيں ہے كہ لوگ جس وقت رشيد اور مختار شمار كئے جارہے ہيں اسى وقت مولّى عليہ اور غير رشيد بھى ہوں_ پس اس تحليل كى بناپر اساسى قانون ميں جمہوريت اور ولايت فقيہ كى تركيب دو متضاد باتوں كا جمع كرنا ہے _

مذكورہ شبہہ كا جواب:

ولايت فقيہ اور جمہوريت ميں عدم توافق كے شبہ كا منشاء اور سبب در حقيقت ولايت فقيہ كى غلط تفسير ہے _ پندرہويں اورسولہويں سبق ميں اس نكتہ كى وضاحت ہوچكى ہے كہ ولايت فقيہ محجورو بے بس افراد پر ولايت كے باب سے نہيں ہے _ بلكہ اس ولايت كى قسم سے ہے جو رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كو امت پر حاصل تھى _ بنابريں ولايت فقيہ كى اس صحيح تفسير كى مدد سے يہ نكتہ واضح ہو جاتاہے كہ ولايت فقيہ ميں يہ فرض

۳۳۵

نہيں كياگيا كہ لوگ ناسمجھ اور محجورہيں پس اس لحاظ سے جمہوريت اور رائے عامہ كا احترام كرنے ميں كوئي مشكل پيش نہيں آتي_

دينى حكومت اور جمہوريت كى بحث كے آخر ميں اس بات كى وضاحت ضرورى ہے كہ اگر چہ سياسى اور اجتماعى زندگى ميں جمہوريت ايك مقبول روش ہے _ ليكن فوائدكے لحاظ سے اسكے بارے ميں مبالغہ آرائي نہيں كرنى چاہے كيونكہ يہ نئي چيز بہت سى آفات اور نقصانات كى حامل ہے _ جن ميں سے بعض كى طرف يہاں مختصر طور پر اشارہ كيا جاتاہے_

جمہوريت كى آفات

جمہوريت كى روح اور اساس يہ ہے كہ مختلف معاشرتى امور ميں لوگوں كى شركت اور رائے عامہ سے استفادہ كيا جائے_ليكن متعدد وجوہات كى بنياد پر آج جو حكومتيں جمہورى كہلاتى ہيں اس روح سے خالى ہيں_ بہت سى حكومتيں فقط نام كى حد تك جمہورى ہيں اور وہ جمہوريت فقط اس معنى ميں ہے كہ اپنے پر حكومت كرنے والوں كو يا انتخاب كرليں ياردّ كرديں_ در حقيقت يہ سياستدان ہيں جو حكومت كرتے ہيں _

جمہوريت كى ايك اور اہم مصيبت اور مشكل جو كہ اس كى تمام شكلوں ميں موجود ہے اس ميں عوام كا كردار ہے _ عوام عام طور پر سياسى اور اجتماعى مسائل كے بارے ميں غير ذمہ دارانہ رويہ ركھتے ہيں _ اپنے ذاتى امور مثلاً شادي، گھر يا گاڑى كے خريدنے ميں بہت زيادہ غور و فكر اور دقت سے كام ليتے ہيں ان كى پورى كوشش ہوتى ہے كہ مفيد ترين اور بہترين كا انتخاب كريں ليكن اجتماعى اور سياسى امور ميں كاہلى اور تساہل سے كام ليتے ہيں _اس وجہ سے جذباتى نعروں اور پروپيگنڈے كى زد ميں آجاتے ہيں اور داخلى و خارجى عوامل سے متاثر ہوجاتے ہيں_

ايك اور آفت يہ ہے كہ سياسى جماعتيں اور سياستدان جديدترين پروپيگنڈا مشينرى اور حربوں كو بروئے

۳۳۶

كار لاكر سياسى طاقت كى تقسيم اورحكومتوں اور صاحبان قدرت پر عوامى نظارت كے سلسلے ميں رائے عامہ كى تاثير كو مشكوك بناديتے ہيں_ عالم سياست ميں رائے عامہ كم ہوتى ہے اكثر بناوٹ اور دھوكا بازى سے كام ليا جاتاہے _ موجودہ جمہوريت ميں بجائے اس كے كہ رائے عامہ ايك اساسى عامل اور متحرك قوت ہو يہ پروپيگنڈا اور مخصوص سياسى جماعتوں كى فعاليت كا نتيجہ ہوتى ہے_ ہر برٹ ماركو زہ كے بقول:

ميڈيا اور پروپيگنڈا لوگوں ميں غلط شعور پيدا كرديتے ہيں _ يعنى ايسے حالات پيدا كرديئے جاتے ہيں كہ لوگ اپنے حقيقى منافع كا اداراك نہيں كرپاتے(۱)

جديد جمہوريت كى بنيادى اور اصلى ترين مشكل يہ ہے كہ تجارت پر حاوى بڑے بڑے افراد معاشرے كے ايك چيدہ گروہ كے عنوان سے معاشروں كى اقتصاديات پر غير مرئي كنٹرول ركھنے كے علاوہ سياست كے كليدى امور پر بھى كنٹرول ركھتے ہيں_ تمام سياسى جماعتيں ان كے زير اثر ہوتى ہيں اوربہت سے موارد ميں موجود ہ لبرل جمہوريت ميں حكومتى منصوبوں ميں لوگوں كا براہ راست عمل دخل بہت كم ہے فقط نمائندوں كے ذريعہ سے ہے اور نمائندے لوگوں كے دقيق انتخاب كے بجائے پروپيگنڈے كے زير اثر اور اقتصادى طاقتوں كى غير مرئي راہنمائي پر منتخب ہوتے ہيں _ واضح سى بات ہے كہ ايسے نمائندے سب سے پہلے تجارتى پارٹيوں كے مفادات كا خيال ركھيں گے_

____________________

۱) مدلہاى دموكراسى ڈيوڈ ہلڈ، ترجمہ بزبان فارسي، عباس مخبر ، صفحہ ۳۴۷_

۳۳۷

خلاصہ :

۱) اسلام اور جمہوريت ميں توافق و مفاہمت ممكن ہے _

۲) وہ افراد جو اسلام اور جمہوريت ميں ذاتى عدم توافق كے قائل ہيں در حقيقت ان كے پيش نظر جمہوريت كى ايك خاص تعريف ہے اور وہ'' جمہوريت اكثريت رائے ''كى حمايت كرتے ہيں_

۳) بغير كسى شرط و قيد كے'' مطلق جمہوريت''كا كوئي وجود نہيں ہے _ موجودہ دور ميں بہت سے ممالك لبرل اصولوں اور اقدار كے زير اثر جمہوريت كو تسليم كرتے ہيں _

۴) لبرل جمہوريت كے مقابلے ميں ہم اسلام كے اصولوں كے مطابق جمہوريت كو قائم كرسكتے ہيں_

۵) اسلامى جمہوريہ ايران كا نظريہ عوامى حاكميت كو الہى حاكميت كے زير اثر قبول كرنے كى ايك مثال ہے_

۶) وہ نظريہ جو ولايت فقيہ اور جمہوريت كے درميان عدم توافق كا قائل ہے اس كے پيش نظر ولايت فقيہ كى ايك خاص تعريف ہے _

۷) اگر كوئي غلط طور پر'' ولايت فقيہ كو بے بس اور محجور افراد پر ولايت ''كے باب سے قرار ديتاہے تو اسے ولايت فقيہ اورجمہوريت ميں توافق قائم كرنے ميں مشكل پيش آتى ہے _

۸)'' ولايت فقيہ ''امت پر رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كى ولايت كے باب سے ہے_

۹) جمہوريت بہت سى مصيبتوں اور آفات سے دوچار ہے_

۱۰) جديد دور ميں جمہوريت كى عظيم ترين آفت يہ ہے كہ لوگوں كے انتخاب كے پيچھے تجارتى يونينز اور پروپيگنڈے كا ہاتھ ہوتاہے _

۳۳۸

سوالات:

۱) اسلام اور جمہوريت كے درميان'' ذاتى عدم توافق ''كے نظريہ كا كيا جواب ہے ؟

۲) دينى حكومت جمہوريت كى كونسى تعريف كے ساتھ مطابقت ركھتى ہے ؟

۳) لبرل جمہوريت سے كيامراد ہے؟

۴) حكومت ولائي اور جمہوريت كے درميان عدم توافق كى دليل كيا ہے؟

۵) ولايت فقيہ اور عوامى قيادت كے درميان تضاد والے شبہ كا جواب كيا ہے ؟

۶) جمہوريت كو كن آفات و مشكلات كا سامناہے؟

۳۳۹

ضميمہ جات

باسمہ تعالى

ضميمہ نمبر۱

سوال : كيا اہلسنت كے نزديك بھى ''ولايت فقيہ'' نام كى كوئي چيز ہے؟

مختصر جواب:

اہلسنت كے نزديك خود'' خلافت'' در حقيقت '' ولايت فقيہ '' كى مثل ايك چيز ہے _ ليكن كيفيت اور شرائط كے لحاظ سے مختلف ہے _ اہم ترين فرق يہ ہے كہ شيعوں كے اعتقاد كے مطابق زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين (ع) كى حكومت كا تسلسل ہے_ ولى فقيہ بطور عام يا خاص آنحضرت(ص) كى جانب سے منصوب ہونا چاہيے_ ليكن جس خلافت كے اہلسنت قائل ہيں وہ اس طرح نہيں ہے _ تاريخ گواہ ہے كہ خود ان كے اعتقاد كے مطابق خليفہ اول كا تقرر بھى آنحضرت(ص) كى طرف سے نہيں تھا_ بلكہ ان كا تقرر بعض صحابہ كى بيعت كے نتيجہ ميں ہوا تھا_اموى اور عباسى دور ميں جو خلافت تھى اسلامى حكومت سے ذرا بھى مشابہت نہيں ركھتى تھي_

تفصيلى جواب:

انسان نے طول تاريخ ميں معاشرتى انصاف اور اپنى سياسى زندگى كيلئے مختلف نظاموں اور حكومتوں كا

۳۴۰

تجربہ كيا ہے _ ليكن رسول خدا(ص) اور امير المؤمنين (ع) كى مختصر دورانيہ كى حكومت كے سوااس نے اپنے بنيادى اہداف اور منطقى آرزؤوں كو ان حكومتوں سے حاصل نہيں كيا _ جبكہ اسلامى نظام نظرياتى لحاظ سے اور تھيورى كى حد تك مكمل تھا اور زمانہ كى پيشرفت اور ارتقاء كے ساتھ مكمل طور پر ہم آہنگ تھا _ ليكن كيوں عملى نہ ہوا _ يہ ايك سربستہ راز ہے جس كى وضاحت كسى اور وقت پر اٹھا ركھتے ہيں_

لفظ '' ولايت فقيہ'' قديم زمانہ سے شيعہ فقہ اور كلام ميں ايك جانا پہچانا كلمہ ہے كہ جوايران ميں اسلامى جمہورى نظام كے نفاذ كے ذريعے مرحلہ عمل ميں آيا _ اور وہ نام ہے '' كائنات اور انسان پر اللہ تعالى كى حاكميت مطلقہ كى بنياد پر زمانہ غيبت ميں وسيع اسلامى سرزمين ميں امت مسلمہ كے دينى اور دنياوى امور ميں ايك زمانہ شناس ' بہادر'اور مدبر فقيہ عادل كى مكمل اور بھر پور حاكميت ''(۱)

امام خمينى فرماتے ہيں : حاكميت كى شرائط براہ راست اسلامى حكومت كى حقيقت سے پھوٹتى ہيں_ عام شرائط يعنى عقل اور تدبر كے علاوہ اس كى دوبنيادى شرطيں اور ہيں _ ايك '' قانون كا علم '' اور دوسرى ''عدالت'' اگر كسى شخص ميں يہ دو شرطيں پائي جاتى ہوں اور وہ قيام كرے وہ حكومت تشكيل دے سكتاہے اور اسے وہى ولايت حاصل ہوگى جو آنحضرت(ص) معاشرتى امور ميں ركھتے تھے اور تمام افراد پر واجب ہے كہ وہ اس كى اطاعت كريں(۲) اس وضاحت كے ساتھ شيعہ نكتہ نظر سے زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ در حقيقت امام معصوم (ع) كى حكومت كا تسلسل ہے اور اس وقت ولى فقيہ امام معصوم (ع) كا نائب سمجھا جاتاہے اس لحاظ سے خدا كى حاكميت، رسول خدا(ص) اور ائمہ معصومين ( عليہم السلام)كى حكومت اور زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ بالترتيب ايك ہى سلسلہ كى كڑياں ہے جو آپس ميں جڑى ہوئي ہيں(۳)

____________________

۱) عباس كعبى '' بررسى تطبيقى مفہوم ولايت فقيہ '' قم ، مؤسسہ انتشاراتى ظفر۰ ۱۳۸ ، ص ۴۱ _ قانون اساسى جمہورى اسلامى ايران اصل پنجم_

۲) '' ولايت فقيہ'' امام خمينى ، مؤسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى ۱۳۷۳ ص ۳۷_

۳) ايضاً ص ۴۰_

۳۴۱

اہلسنت كے نظريہ كے مطابق خلافت نام ہے جانشينى رسول (ص) كے عنوان سے دينى اور دنياوى امور ميں مكمل حاكميت كا _

ابن خلدون كہتے ہيں : خلافت نام ہے دين كى حفاظت اور سياست دنيا كيلئے صاحب شريعت كى طرف سے جانشين ہونا(۱)

ماوردى (متوفى ۴۵۰ ھ ) كہتے ہيں :

الامامة موضوعة لخلافة النبوة فى حراسة الدين و سياسة الدنيا (۲)

خلافت نام ہے دين كى حفاظت اور سياست دنيا كيلئے رسول خدا(ص) كى طرف سے جانشين ہونے كا _

اخوان الصفا كہتے ہيں : بادشاہ زمين پر خدا كے جانشين ہيں _اور دين كے پاسبان ہيں(۳) ماوردى خلافت كى تعريف كرنے كے بعد كہتے ہيں ' ' اصم'' كے علاوہ تمام علماء اسلام متفق ہيں كہ امام كى بيعت واجب ہے _البتہ اس كے وجوب كے مدرك اور دليل ميں اختلاف ہے كہ كيا وہ عقل ہے يا شرع؟ ليكن شريعت نے ''حاكميت'' ولى خدا كے حوالے كى ہے _

اللہ تعالى قرآن ميں فرماتاہے:

( يا ايها الذين آمنوا اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولى الامر منكم ) (۴)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۱۶۶_

۲ _ '' الاحكام السلطانيہ'' على بن محمد الماوردى ، بيروت لبنان، دار الكتب الاسلاميہ ۱۹۸۵ ، ۱۴۰۵ ق ص ۵_

۳_ ''نظام حكومتى و ادارى در اسلام'' باقر شريف قرشى ترجمہ عباس على سلطانى مشہد ،بنياد پوہش ہاى اسلامى ۱۳۷۹ ص ۲۴۰_

۴_ سورہ نساء ۵۹_

۳۴۲

اے ايمان والو خدا كى اطاعت كرو اور رسول او ر اپنے ميں سے صاحبان امر كى اطاعت كرو_

اس طرح خدا نے '' اولى الامر'' جو كہ معاشرے كے رہبر ہيں كى اطاعت ہم پر واجب قرار دى ہے _

ہشام بن عروة، ابوہريرہ سے روايت كرتے ہيں : رسول خدا(ص) نے فرمايا : ميرے بعد تم پر رہبر حكومت كريں گے _ نيك حاكم نيكى كےساتھ اور بدكردار حاكم برائي كےساتھ _ پس جو حق كے مطابق ہو اس كى اطاعت كرو _ كيونكہ اگر نيك كام كريں گے تو تمہارے اور ان كے فائدے ميں ہوں گے اور اگر برے كام انجام ديں گے تو تمہارے فائدے اور خود ان كے نقصان ميں ہوں گے(۱)

علمائے اہلسنت نے اصل خلافت كو آيت '' اولى الامر'' سے ليا ہے(۲) جبكہ تمام شيعہ علماء اور مفسرين اس بات پر متفق ہيں كہ اس آيت ميں اولى الامر سے مراد ائمہ معصومين (ع) (ع) ہيں جو كہ مادى اور معنوى رہبر ہيں _ اس كى دليل يہ ہے كہ اس آيت ميں اطاعت كو بغير كسى قيد اور شرط كے اور خدا و رسول (ص) كى اطاعت كے رديف ميں ذكر كيا گيا ہے _ لہذا ايسى اطاعت صرف معصومين(ع) كيلئے قابل تصور ہے _ جبكہ دوسرے افراد جن كى اطاعت واجب ہوتى ہے وہ محدود اور قيود و شرائط كے ساتھ ہوسكتى ہے(۳) بہر حال رہبر يا خليفہ كى شرائط بھى متفق عليہ نہيں ہيں _ ماوردى امامت كيلئے درج ذيل شرائط كو معتبر قرار ديتے ہيں _

عدالت اپنى تمام شرائط كےساتھ مرتبہ اجتہاد پر فائز ہونا

____________________

۱ _ الماوردى ص ۵_

۲_ تفسير كبير فخر الدين رازى بيروت دار الكتب العلمية ۱۴۱۱ ق ۱۹۹۰ م ج ۹ ، ۱۰ ص ۱۱۶ ، ۱۱۷، جامع البيان فى تفسير القرآن طبرى ج ۵ ص ۲۴۱ ، ۲۴۲ تفسير المنار ج۵ ص ۱۸۱_

۳ _ '' ترجمہ تفسير الميزان'' محمد حسين طباطبائي ج ۴ ص ۶۳۶_۶۶۳ سورہ بقرہ ذيل آيت ۵۹ پيام قرآن ، ناصر مكارم شيرازى و ہمكاران ج۹ ص ۵۴_

۳۴۳

ناقص الاعضاء نہ ہو

صاحب را ے ہونا

شجاعت و بہادري

نسب يعنى امام كا تعلق قبيلہ قريش سے ہو(۱)

البتہ اكثر علمائے اہلسنت عدالت كو شرط نہيں سمجھتے(۲) چنانچہ كہتے ہيں : اولو الامر سے مراد حكام، امراء اور بادشاہ ہيں اور ہر حاكم جو حكومت حاصل كرلے اس كى اطاعت واجب ہے چاہے وہ عادل ہو يا ظالم_

تفسير المنار ميں اشارةً كہا ہے كہ بعض كا نظريہ ہے كہ آيت تمام حاكموں كى اطاعت كے متعلق ہے اور اسے واجب قرار ديتى ہے(۳) اور اس بارے ميں انہوں نے روايات بھى نقل كى ہيں(۴)

مختصر طور پر يوں كہاجاسكتاہے كہ ہمارے عقيدہ كے مطابق خلافت ''الاحكام السلطانيہ'' ميں مذكور تعريف اور خصوصيات كے پيش نظر حيات اسلامى كى ضروريات ميں سے ہے_ ليكن قابل غور نكتہ يہ ہے كہ وہ خلافت جو اموى اور عباسى دور يا حتى رحلت رسول (ص) كے بعد سامنے آئي ، حقيقى اسلامى حكومت كے ساتھ اس كا كوئي تعلق نہيں تھا_ اس دن سے خلافت ابہام كا شكار ہے _ ليكن پہلا سوال يہ ہے كہ رسول خدا(ص) كى طرف سے مقرر كردہ خليفہ كون ہے ؟ تاريخ بتاتى ہے كہ رسول خدا(ص) نے ''يوم الدار''(۵) ميں لفظ خليفہ ، نيابت اور جانشينى كے معنى ميں حضرت على (ع) كيلئے استعمال كيا تھا_

حضرت ابوبكر كى خلافت كے بارے ميں ابن خلدون كہتے ہيں : رسول خدا(ص) كى وفات كے وقت صحابہ نے پيش قدمى كى اور ان كى بيعت كرلى(۶) لہذا وہ آنحضرت(ص) كے مقرر كردہ نہيں ہيں_

____________________

۱) الماوردى ايضاًص ۶_

۲) الاردشاد ،امام الحرمين جوينى ص ۴۲۶ ، ۴۲۷ _ايضاً باقر شريف قرشى ص ۲۵۶ ، ۲۶۰ _

۳) تفسير المنار ج۵ ص ۱۸۱_

۴) صحيح مسلم ج ۳ ، كتاب الامارہ باب اطاعة الامراء و ان منعوا الحق ص ۴۷۴ ، ۴۶۷_

۵) يوم الدار وہ دن ہے جس دن رسول خدا (ص) نے حكم خدا سے اپنے رشتہ داروں كو اسلام كى دعوت دى تھى _

۶) باقر شريف القرشى ص ۲۴۶_

۳۴۴

علاوہ برايں '' الاحكام السلطانيہ'' ميں اسلامى حاكم كى جو خصوصيات بيان كى گئي ہيں اگر انكا مصداق خارجى وجود ميں آجائے تو يہ ان صفات كے بہت قريب ہيں جو علماء شيعہ نے ولى فقيہ كے متعلق بيان كى ہيں _ سوائے قريشى ہونے كے كہ جو خالصةً اہلسنت كا نظريہ ہے _البتہ اہلسنت كے چار مذاہب كے بعض فقہاء معتقد ہيں كہ ممكن ہے خلافت اور حكومت طاقت كے زور پر حاصل كى جائے _ اور جو طاقت كے زور پر حاكم بن جائے اسكى اطاعت واجب ہے (۱) احمد ابن حنبل'' علم اور عدالت ''كو شرط نہيں سمجھتے _ اور ايك حديث نقل كرتے ہيں جس كے مطابق ہر وہ شخص جو تلوار (طاقت ) كے زور پر بر سر اقتدار آجائے وہ خليفہ اور امير المؤمنين ہے _ كسى كيلئے جائز نہيں ہے كہ اس كى امامت كا انكار كرے چاہے وہ نيك ہو يا فاسق و فاجر(۲)

ان تمام تنازعات اور اختلافات سے صرف نظر كرتے ہوئے شيعہ اور اہلسنت كے نظريات كے درميان بنيادى فرق يہ ہے كہ شيعہ معتقدہيں زمانہ غيبت ميں صرف وہى افراد حق حكومت ركھتے ہيں جو بطور خاص يا عام اس ذمہ دارى كيلئے آنحضرت(ص) كى طرف سے مقرر كئے گئے ہوں_ اصطلاح ميں اسے ولايت فقيہ كہتے ہيں يعنى اس نظريہ كے مطابق حكومت كا تعين اوپر سے ہوتاہے حتى كہ جو حق عوام كو حاصل ہے وہ خدا كى جانب سے ہے_ايك خدا پرست انسان كبھى بھى حكومت كى بنياد كے طور پر مخلوق كے ارادہ كو قبول نہيں كرسكتا جب تك وہ خالق كے ارادہ سے منسلك نہ ہو _

ليكن اہلسنت كے نظريہ كے مطابق ايسا نہيں ہے _ جيسا كہ خليفہ اول كى خلافت بھى رسول خدا (ص) كے تقرر سے نہيں تھي_ بلكہ بعض صحابہ كى بيعت كے نتيجہ ميں وجود ميں آئي تھي_ اور اسى طرز سے آگے بڑھي_

____________________

۱) ''الفقہ الاسلامى و ادلتہ ''ج ۶ ص ۶۸۲_

۲) ''الماوردي'' ص ۲۰_

۳۴۵

باسمہ تعالى

ضميمہ نمبر ۲

سوال:ايسا معاشرہ جس ميں شيعہ ، غير شيعہ، مسلم اور غير مسلم افراد بستے ہيں اس ميں ولى فقيہ كے حكم كى حد ودكيا ہيں ؟

مختصر جواب:

حكومتى مسائل كے سلسلہ ميں وہ ولايت مطلقہ جو اللہ تعالى كى طرف سے رسول خدا (ص) كو عطا كى گئي ہے وہى حكومتى اختيارات ائمہ معصومين (ع) اور ان كے بعد فقيہ عادل كو ديئے گئے ہيں _ اور اس ميں كوئي فرق نہيں ہے_

قرآن مجيد اور شيعہ و سنى احاديث ميں غور كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ايسا دين نہيں ہے جو فقط عبادات اور انفرادى آداب و رسوم ميں منحصر ہو_ اور سياسى ، اجتماعى اور اقتصادى مسائل پراس كى نگاہ نہ ہو _ فقيہ كا حكم بھى خدا و رسول كا حكم ہے _ اسلام ايك عالمگير دين ہے _ فقط مسلمانوں كےساتھ مخصوص نہيں ہے _ بلكہ آيات و روايات نے صراحت كے ساتھ اس حقيقت كو بيان كيا ہے _اور اسلامى احكام دنيا كے تمام افراد كيلئے ہيں _

تفصيلى جواب:

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين (ع) كى ولايت ، اس حكومت و ولايت كے واضح ترين مصاديق ميں سے ہے جو ہر دور و زمانہ ميں معاشرے كى ضرورت رہى ہے _ يہ ولايت اورخلافت

۳۴۶

خداوند كريم كى طرف سے معصومين (ع) اور زمانہ غيبت ميں '' جامع الشرائط فقيہ '' كو تفويض كى گئي ہے (۱)

ولايت چاہے تكوينى ہو يا تشريعى ، اللہ تعالى كى ذات ميں منحصر ہے _اور اس حاكميت ميں كوئي بھى اس كا شريك نہيں ہے _

عقل نے ہميشہ انسان كو خدا كى اطاعت كا پابند قرار ديا ہے _اور الہى قوانين كى مخالفت كو اس كيلئے حرام قرار ديا ہے _اور يہ ولايت مطلقہ اور اطاعت ہميشہ خدا كى ذات واحدہ ميں منحصر ہے _ مگر يہ كہ خداند متعال مقام تشريع ميں ولايت كا كوئي مرتبہ كسى دوسرے كو تفويض كردے كتاب و سنت كى رو سے اللہ تعالى نے يہ ولايت انبياء اور ائمہ معصومين عليہم السلام كو عطا فرمائي ہے _

مذكورہ سوال كى وضاحت كيلئے ضرورى ہے كہ پہلے فتوى اور حكم كے دقيق معانى بيان كئے جائيں _ نيز حكم اور فتوى كے درميان موجود فرق كو واضح كيا جائے _پھر ولى فقيہ كے حكم كى حدود اور شيعہ و سنى اور مسلم غير مسلم تمام افراد كيلئے اس كى اطاعت كے لازم ہونے كى تحقيق كى جائے_ جناب عميد زنجانى كہتے ہيں لغت ميں حكم: استقرار ، ثبوت اور استحكام كو كہتے ہيں _ ليكن قرآنى اصطلاحى ميں حق كو باطل سے ممتاز كرنے ، اختلاف كو ختم كرنے اور فيصلہ كرنے كو '' حكم'' كہتے ہيں _ جبكہ فقہى اصطلاح ميں ''حكم'' كا اطلاق عام طور پر قانون الہى پر ہوتاہے _ اس كى تعريف بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں حكم نام ہے اس خطاب شرعى كا جو مكلفين كے افعال كے ساتھ مربوط ہو_ اور اس كى دو قسميں ہيں تكليفى اور وضعى(۲)

حكم اور فتوى ميں فرق

اگر حاكم يا جامع الشرائط مجتہد كسى خاص موضوع كے متعلق كوئي حكم صادر كرے تو دوسرے مجتہدين اس

____________________

۱)قال الامام حسن العسكرى (ع) فانى قد جعلته عليكم حاكما فاذا حكم بحكمنا فلم يقبله منه فانما استخف بحكم الله و علينا رد و الراد علينا الراد على الله و هو على حد الشرك بالله _ بحار الانوار ج ۲ ص ۲۲۱ ح۱_

۲) عميد زنجانى ، عباس على '' فقہ سياسي'' ج۲ ص ۱۴۸ انتشارات ۱۳۷۷_

۳۴۷

حكم كى مخالفت نہيں كرسكتے اور تمام افراد پر چاہے وہ دوسرے مجتہدين كے مقلد ہوں اس حكم كا اتباع كرنا واجب ہوتاہے _ بلكہ يہ حكم حاكم اور دوسرے مجتہديں پر بھى حجت ہوتاہے _ جبكہ فتوى ميں اگر كوئي مجتہد كسى مسئلہ كے متعلق ايك فتوى ديتاہے تو ممكن ہے بعض ديگر مجتہدين كا فتوى اس كے خلاف ہو (۱)

ولى فقيہ كے حكم كى حدود

''مسئلہ ولايت فقيہ '' كى ايك اہم ترين بحث '' ولى فقيہ كے اختيارات كى حدود'' كے بارے ميں ہے _ كيا يہ اختيارات محدود اور نسبى ہيں ؟ يا ولى فقيہ رسول خدا(ص) كے تمام حكومتى اختيارات كا حامل ہوتاہے ؟ دوسرے لفظوں ميں حكومتى امور ميں فقيہ عادل كى ولايت رسول خدا(ص) كى ولايت كى طرح ہے ؟ يا نہ ؟ اگر چہ بعض افراد فقيہ كے اختيارات كو امور حسبيہ اورمال مجہول المالك ميں تصرف جيسے امور ميں محدود قرار ديتے ہيں _ اور فقيہ عادل كے مكمل اور مطلق اختيارات كے قائل نہيں ہيں _ بلكہ اسے نسبى سمجھتے ہيں _ ليكن اس بات كو ديكھتے ہوئے كہ فقيہ عادل ايك اسلامى حكومت كا سربراہ ہے _ لہذاضرورى ہے كہ وہ اسے بہترين طريقہ سے چلاسكتاہو_ لہذا عوام كے مصالح ، قوانين الہى اور اسلامى موازين و ضوابط كى حدود كے علاوہ ولى فقيہ كے اختيارات كى كوئي حد نہيں ہے _اسى لئے ولايت فقيہ كو ولايت مطلقہ فقيہ سے تعبير كرتے ہيں حكومتى مسائل كے سلسلہ ميں خداوند كريم كى طرف سے رسول خدا كو جو ولايت مطلقہ تفويض ہوئي ہے _ بالكل وہى حكومتى اختيارات ائمہ معصومين (ع) اور ان كے بعد فقيہ عادل كو ديئے گئے ہيں _ اور اس سلسلہ ميں كسى قسم كا كوئي فرق نہيں ہے(۲)

اسى بارے ميں امام خمينى فرماتے ہيں : يہ خيال بالكل غلط ہے كہ رسول خدا (ص) كے حكومتى اختيارات امير المؤمنين (ع) سے زيادہ تھے يا امير المؤمنين كے اختيارات كا دائرہ فقيہ كے اختيارات سے وسيع تر ہے_ البتہ رسول خدا(ص) كے فضائل تمام كائنات سے بڑھ كر ہيں_ اور ان كے بعد حضرت امير المؤمنين كے فضائل

____________________

۱) احكام تقليد و اجتہاد ، موگہى عبدالرحيم ص ۱۶۴ ، سال ۱۳۷۵_

۲) ودموكراسى در نظام ولايت فقيہ كواكبيان ، مصطفى ص ۱۲۶ انتشارات عروج سال ۱۳۷۰_

۳۴۸

سب سے زيادہ ہيں _ ليكن معنوى فضائل كى زيادتى حكومتى اختيارات ميں اضافہ كا باعث نہيں بنتى (۱)

قرآن كريم ، شيعہ و سنى احاديث اور مختلف ابواب ميں فقہاء كے فتاوى ميں غور كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ايك ايسا دين نہيں ہے جو فقط عبادات اور انفرادى آداب و رسوم ميں محدود و منحصر ہو_ اور سياسى ، اجتماعى اور اقتصادى مسائل پر اس كى نگاہ نہ ہو_ خدا ، حكومت ، خاندان ، امت مسلمہ اور غير مسلم امتوں كے متعلق انسان كو اپنى پيدائشے سے ليكر زندگى كے آخرى مراحل تك جو كچھ انجام دينا ہے اس كيلئے اسلام كے پاس قوانين و ضوابط ہيں _ جيسا كہ پہلے كہا جاچكاہے كہ فقيہ كا حكم خدا اور رسول (ص) كا حكم ہے _ اور اسلام ايك عالمگير دين ہے _ فقط مسلمانوں كے ساتھ مربوط نہيں ہے _ جس طرح آيات اور روايات اس حقيقت كى وضاحت كرتى ہيں _ ہم بطور نمونہ بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

( و ما ارسلناك الا كافة للناس بشيراً و نذيراً و لكن اكثر الناس لا يعلمون ) (۲)

اور ہم نے تمہيں تمام افراد كيلئے بشارت دينے اور ڈرانے والا بناكر بھيجا ہے _ ليكن اكثر لوگ نہيں جانتے_

لفظ '' الناس'' ميں شيعہ ، سنى ، مسلمان اور غير مسلمان سب شامل ہيں _ نيز ارشاد ہوتاہے يا ايہا الناس انى رسول اللہ اليكم جميعا(۳) اے لوگوں ميں تم سب كى طرف خدا كا بھيجا ہوا ہوں _ لفظ ''الناس '' ضمير '' كم'' اور لفظ '' جميعاً'' سے معلوم ہوتاہے كہ خطاب سب لوگوں سے ہے اور سب اس ميں شامل ہيں _ آيت سے معلوم ہوتاہے كہ رسول خدا(ص) كا تعلق كسى ايك قوم ، گروہ يا قبيلہ كے ساتھ نہيں ہے بلكہ آپ (ص) خدا كى طرف سے تمام افراد كيلئے بھيجے گئے ہيں _

____________________

۱) ولايت فقيہ ، امام خمينى ص ۶۴ مؤسسہ نشر آثار امام خمينى چاپ اول ۱۳۷۳_

۲) سورة نساء ۲۸_

۳) سورة اعراف ۱۵۸_

۳۴۹

بسم اللہ الرحمن الرحيم

ضميمہ نمبر ۳

سوال : ولى فقيہ كے ساتھ مسلمانوں كا رابطہ اور تعلق كس طرح كا ہونا چاہيئے؟

مختصر جواب:

۱ _ ولايت فقيہ كے الہى اور عوامى جواز والے نظريے كے مطابق غير مسلم ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر بھى ولى فقيہ كى اطاعت واجب ہے _

۲ _ امام خمينى فرماتے ہيں : ولى فقيہ تمام صورتوں ميں ولايت ركھتاہے_ ليكن مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور حكومت كى تشكيل مسلمانوں كى اكثريت آرا كے ساتھ وابستہ ہے_

۳ _ جب دوسرے ممالك ميں مسلمانوں كى سرپرستى كرنے ميں كوئي مشكل در پيش نہ ہو تو پھر امت مسلمہ پر ولايت كے سلسلہ ميں كوئي ركاوٹ نہيں رہتى _

۴ _ امير المؤمنين (ع) امام اور امت كے رابطے كو مندرجہ ذيل موارد كے قالب ميں بيان فرماتے ہيں امت كے امام پر يہ حقوق ہيں خيرخواہي، حقوق كى ادائيگي، تعليم، آداب سكھانا اور امت پر امام كے حقوق ہيں بيعت پر قائم رہنا، خيرخواہى كا حق ادا كرنا اور مطيع رہنا_

۳۵۰

تفصيلى جواب:

مذكورہ سوال كے جواب كے متعلق سب سے پہلے تو مسئلہ كے تمام مفروضات اور اس كے متعلقہ مسائل پر گفتگو كريں گے _ اور آخر ميں رابطہ كى اقسام كو مورد تحقيق قرار ديں گے_

مفروضات _ ايك اسلامى معاشرہ يا جغرافيايى حدود كے ساتھ متعين ايك اسلامى ملك جو ايك خاص سسٹم اور نظام بنام '' ولايت فقيہ'' كے تحت كام كرتاہو(۱) دوسرے لفظوں ميں ايك ايسى سرزمين جس پر اسلامى حكومت كا مكمل تسلط ہو _ اور ايك خاص حيثيت كى حامل ہو كہ جسے ہم ام القرى كہتے ہيں(۲) ام القرى كى اہم ترين اور اصلى خصوصيت يہ ہے كہ ايك تو اس سرزمين پر اسلامى حكومت قائم ہو اور دوسرا يہ كہ ام القرى كى رہبرى كا دائرہ كار تمام امت مسلمہ كى حد تك ہے _اگر چہ فى الحال سرزمين ام القرى كادائرہ كار محدود حد تك ہے(۳) ان مفروضہ موارد كى طرف ديكھتے ہوئے ولى فقيہ كے ساتھ مسلمانوں كے روابط پر بحث كرتے ہيں_

رابطہ كى اقسام

۱ _ سياسى فقہي۲ _ امت اور امام

رابطہ كى اقسام سے پہلے اسلامى ممالك كى حدود، ولايت فقيہ كے معتبر ہونے كى ادلہ اور ولايت فقيہ كے معتبر ہونے ميں بيعت كے كردار جيسے مسائل كى تحقيق كرتے ہيں از نظر اسلام امت اور اسلامى معاشرہ كى وحدت كا اصلى عامل عقيدہ كى وحدت ہے _ ليكن اس كے باوجود يہ ياد رہے كہ ايك طرف تو طبيعى اور بين الاقوامى جغرافيايى حدود كى حامل سرزمين كلى طور پر فاقد اعتبار نہيں ہے _ چنانچہ ہم ديكھتے ہيں كہ دار الاسلام جو كہ مخصوص حدود كے ساتھ مشخص ہوتاہے اسلامى فقہ ميں اس كے خاص احكام موجود ہيں _

____________________

۱) آيت اللہ مصباح يزدى '' اختيارات ولى فقيہ در خارج از مرزہا'' مجلہ '' حكومت اسلامي'' سال اول ش ۱ ص ۸۱_

۲) محمد جواد لاريجانى '' مقولاتى در استراتى ملى '' تہران مركز ترجمہ و نشر كتاب ۱۳۶۷ ص ۲۵_

۳) محمد جواد لاريجانى '' حكومت اسلامى و مرزہاى سياسي'' مجلہ '' حكومت اسلامى '' سال اول ش ۲ زمستان ۷۵ ص ۴۶ ، ۴۵_

۳۵۱

دوسرى طرف عقيدہ كا مختلف ہونا كلى طور پراختلاف كا يقينى عامل نہيں ہے _ كيونكہ ممكن ہے :اسلامى ممالك ميں موجود غير مسلم افرا دكو اسلامى حكومت كى حمايت حاصل ہو_ اورايك طرح سے اس كے شہرى ہوں (۱) ولايت فقيہ كى مشروعيت والے نظريہ كى بناپر ممكن ہے اس كا سرچشمہ ولايت تشريعى الہى ہو يا عوامى ہو _ دوسرى صورت ميں در حقيقت '' بيعت'' ولايت فقيہ كو مشروعيت عطا كرنے ميں بنيادى كردار ادا كرتى ہے _ ولى فقيہ كے مسلمانوں كےساتھ سياسى فقہى تعلق كے بارے ميںآيت اللہ مصباح يزدى فرماتے ہيں :

اگر ہم ولايت فقيہ كى مشروعيت كے سلسلے ميں پہلے نظريہ كے قائل ہوں _ يعنى ولايت فقيہ كا سرچشمہ الہى ولايت تشريعى كو قرار ديں تو پھر اس كا فرمان ہر مسلمان كيلئے لازم الاجراء ہوگا _ پس غير اسلامى ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر بھى اس كى اطاعت واجب ہوگي_

اور اگر دوسرے نظريہ كے قائل ہوں يعنى ولايت فقيہ كى مشروعيت كا سرچشمہ عوام ہوں _ تو كہہ سكتے ہيں كہ امت كى اكثريت كا انتخاب يا اہل حل و عقد اور شورى كے ممبران كى اكثريت كا انتخاب دوسروں پر بھى حجت ہے_

اس نظريہ كى بنياد پر بھى غير مسلم ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر ولى فقيہ كى اطاعت ضرورى ہے چاہے انہوں نے اس كى بيعت كى ہو يا نہ(۲)

اسى كے متعلق جب امام خمينى سے فتوى پوچھا گيا كہ كونسى صورت ميں جامع الشرائط ولى فقيہ اسلامى معاشرہ پر ولايت ركھتاہے تو آپ نے فرمايا :

بسمہ تعالى _ تمام صورتوں ميں ولايت ركھتاہے _ ليكن مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور حكومت كى تشكيل مسلمانوں كى اكثريت آراء كےساتھ مربوط ہے كہ جس كا ذكر اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون

____________________

۱) سابقہ مصدرآيت اللہ مصباح يزدى ص ۸۴_

۲) آيت اللہ مصباح يزدى _ اختيارات ولى فيہ در خارج از مرزہا حكومت اسلامى سال اول ش ۱ ص ۸۸، ۸۹_

۳۵۲

اساسى ميں موجودہے _ اور جسے صدر اسلام ميں بيعت كے ساتھ تعبير كيا جاتا تھا _ روح اللہ الموسوى الخميني (۱)

اس بارے ميں آيت اللہ جوادى آملى فرماتے ہيں :

يہاں دو باتيں ہيں جو ايك دوسرے سے جدا ہونى چاہيں ايك شرعى جہت كے ساتھ مربوط ہے اور دوسرى بين الاقوامى قانون كے ساتھ _شرعى لحاظ سے كوئي مانع نہيں ہے نہ فقيہ كيلئے كہ وہ سب كاوالى ہواور نہ ہى تمام دنيا كے مسلمانوں كيلئے كہ اس كى ولايت كو تسليم كرليں _ بلكہ ايسى ولايت كا مقتضى موجودہے جس طرح مرجع كى تقليد اور قضاوت كا نافذ ہونا ہے _كيونكہ اگر ايك مرجع تقليد (مجتہد) ايك خاص ملك ميں زندگى بسر كرتاہو اور اسى ملك كا رہنے والا ہو تو اس كا فتوى دنيا ميں رہنے والے اس كے تمام مقلدين كيلئے نافذ العمل ہے _ اسى طرح جامع الشرائط فقيہ اگر كوئي فيصلہ صادر كرتاہے تو تمام مسلمانوں پر اس پر عمل كرنا واجب ہے اور اس كى مخالفت كرنا حرام ہے_

اور دوسرا مطلب يعنى بين الاقوامى قانون كے لحاظ سے جب تك كوئي رسمى تعہد او ر قانونى عہد و پيمان اس ولايت كے نافذ ہونے ميں ركاوٹ نہ بنے اور نہ ولايت فقيہ كيلئے كوئي مانع ہو اور نہ ہى دنيا كے دوسرے ممالك كے رہنے والے مسلمانوں كى سرپرستى كيلئے كوئي ركاوٹ ہو تو پھر تقليد اور فيصلے كى طرح يہ ولايت بھى واجب العمل ہوگى _ ليكن اگر كوئي قانونى اور بين الاقوامى عہد اس ولايت كے نفوذ ميں مانع بن جائے اور مخالفين عملى طور پر اس كيلئے ركاوٹ بن جائيں تو پھر فقيہ اور عوام دونوں مجبور ہيں(۲)

اب ہم رابطہ كى دوسرى قسم يعنى امت اور امام كے رابطہ پر بحث كرتے ہيں _ اور اس كيلئے يہاں ہم نہج البلاغہ سے امير المؤمنين (ع) كے كلام كا ايك ٹكڑا ذكر كرتے ہيں _امير المؤمنين قاسطين (اہل صفين) كے

____________________

۱) مصطفى كواكبيان '' مبانى مشروعيت در نظام ولايت فقيہ '' تہران عروج چاپ اول ۱۳۷۸ ص ۲۵۸ ، ۲۵۷_

۲) عبداللہ جوادى آملى '' ولايت فقيہ'' ولايت فقاہت و عدالت'' اسراء ، چاپ اول ۱۳۷۸ ، ص۴۷۸، ۴۷۹_

۳۵۳

خلاف جنگ پر ابھارتے ہوئے لوگوں سے فرماتے ہيں :

اے لوگو ميرا تم پر ايك حق ہے او رتمہارا بھى مجھ پر ايك حق ہے _ مجھ پر واجب ہے كہ تمہارى خير خواہى سے دريغ نہ كروں_ بيت المال ميں سے جو تمہارا حق ہے اسے ادا كروں _ تمہيں تعليم دوں تا كہ جاہل نہ رہو_ اور تمہيں آداب سكھاؤں تا كہ اہل علم بنو_

اور ميرا تم پر يہ حق ہے كہ ميرى بيعت پر قائم رہو_ پوشيدہ اور علانيہ طور پر ميرى خير خواہى كا حق ادا كرو _ جب تمہيں بلاؤں تو آجاؤ اور جب حكم دوں تو اس پر عمل كرو(۱)

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۳۴_

۳۵۴

اصطلاحات

۱) Rationality

۲) Secular Rationality

۳) Industrial Democracy

۴) Liberalism

۵) Pluralism

۶) Realism

۷) Nazism

۸) fascism

۹) Absolute choiceism

۱۰) Relativism

۱۱) Pluralism

۱۲) Individualism

۱۳) Wholism

۱۴) Political philosophy

۱۵) Strategic Studies

۱۶) Constitutionality

۱۷) Assembly Of Experts

۳۵۵

فہرست

پہلا باب : ۴

دين اور سياست ۴

تمہيد: ۵

پہلا سبق : ۶

سياست اور اس كے بنيادى مسائل ۶

علم سياست اور سياسى فلسفہ(۱) ۸

خلاصہ ۱۳

سوالات : ۱۴

دوسرا سبق : ۱۵

اسلام اور سياست ۱۵

سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كى ادلّہ ۱۹

اسلام كا سياسى فلسفہ اور سياسى فقہ ۲۱

سبق كا خلاصہ : ۲۳

سوالات: ۲۴

تيسرا سبق: ۲۵

دينى حكومت كى تعريف ۲۵

حكومت اور رياست كے معاني ۲۶

دينى حكومت كى مختلف تعريفيں ۲۷

مذكورہ چار تعريفوں كا مختصر تجزيہ ۲۹

۳۵۶

خلاصہ : ۳۱

سؤالات ۳۲

چوتھا سبق: ۳۳

سياست ميں حاكميت دين كى حدود ۳۳

حكومت اور اس كے سياسى پہلو: ۳۴

حاكميت دين كى حدود ۳۶

خلاصہ: ۳۹

سوالات : ۴۰

پانچواں سبق: ۴۱

دينى حكومت كے منكرين ۴۱

سياست سے اسلام كى جدائي ۴۳

دينى حكومت كا تاريخى تجربہ : ۴۶

خلاصہ ۴۹

سوالات : ۵۰

چھٹا سبق: ۵۱

سيكولرازم اور دينى حكومت كا انكار ۵۱

سيكولرازم كى تعريف: ۵۱

دين اور سيكولرازم ۵۵

خلاصہ : ۵۸

سوالات : ۵۹

۳۵۷

ساتواں سبق: ۶۰

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلہ -۱- ۶۰

پہلى دليل: ۶۰

اس پہلي دليل كا جواب ۶۲

خلاصہ : ۶۵

سوالات : ۶۶

آٹھواں سبق : ۶۷

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلّہ -۲- ۶۷

دوسرى دليل : ۶۷

اس دوسرى دليل كاجواب: ۶۸

خلاصہ : ۷۲

سوالات : ۷۳

دوسرا باب : ۷۴

اسلام اور حكومت ۷۴

تمہيد : ۷۵

نواں سبق: ۷۶

آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت -۱- ۷۶

حكومت كے بغير رسالت ۷۷

پہلى دليل كا جواب ۸۰

دوسرى دليل كا جواب : ۸۲

۳۵۸

خلاصہ : ۸۵

سوالات : ۸۶

دسواں سبق: ۸۷

آنحضرت (ص) اور تأسيس حكومت -۲- ۸۷

جابرى كے نظريئےکا جواب : ۸۹

آنحضرت (ص) كى حكومت كا الہى ہونا : ۹۱

خلاصہ : ۹۶

سوالات : ۹۷

گيا رہواں سبق: ۹۸

آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت ۹۸

اہلسنت اور نظريہ خلافت : ۱۰۰

خلاصہ : ۱۰۵

سوالات : ۱۰۶

بارہواں سبق : ۱۰۷

شيعوں كا سياسى تفكر ۱۰۷

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر : ۱۱۲

خلاصہ : ۱۱۵

سوالات : ۱۱۶

تيرہواں سبق: ۱۱۷

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۱- ۱۱۷

۳۵۹

بيعت كا مفہوم اور اس كى اقسام : ۱۱۸

نظريہ انتخاب كى مؤيد روايات ۱۲۰

صدور روايات كا زمانہ اور ماحول: ۱۲۳

خلاصہ: ۱۲۶

سوالات ۱۲۷

چودہواں سبق: ۱۲۸

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۲- ۱۲۸

ان روايات كے جدلى ہونے كى دليليں ۱۲۹

خلاصہ : ۱۳۷

سوالات: ۱۳۸

تيسرا باب: ۱۳۹

ولايت فقيہ كا معنى ، مختصر تاريخ اور ادلّہ ۱۳۹

تمہيد : ۱۴۰

پندرہواں سبق: ۱۴۱

ولايت فقيہ كا معني ۱۴۱

ولايت كى حقيقت اور ماہيت ۱۴۲

اسلامى فقہ ميں دوطرح كى ولايت ۱۴۴

خلاصہ ۱۴۶

سوالات: ۱۴۷

سولہواں سبق : ۱۴۸

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367