اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139535 / ڈاؤنلوڈ: 3501
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ابوسعید کہتے ہیں : میں نے ابن عباس سے کہا : مجھے مہدی کے بارے میں کچھ بتایئے انہوں نے فرمایا: امید ہے کہ عنقریب خدا ہمارے خاندان میں ایک جوان کو مبعوث کرے گا جو فتنوں کو دفن کرے گا _ (۱)

ابن عباس کہا کرتے تھے: مہدی قریش اور فاطمہ (ع) کی نسل سے ہوگا _(۲)

عمار یاسر کہتے ہیں : جب نفس زکیہ شہید ہوجائیں گے اس وقت آسمان سے ایک منادی مذاکرے گا کہ تمہارا قائد فلان شخص ہے _ اس کے بعد مہدی ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _(۳)

ابن عباس نے مہدی کا نام لیا تو ایک شخص نے کہا: کیا معاویہ بن ابی سفیان مہدی نہیں ہے ؟ عبد اللہ نے کہا : نہیں : بلکہ مہدی وہ ہے جس کی عیسی بن مریم اقتدا کریں گے_(۴)

عمربن قیس کہتے ہیں :میں نے مجاہد سے عرض کی : کیا آپ مہدی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں ؟ کیونکہ میں شیعوں کی بات نہیں مانتا ، انہوں نے کہا : رسول (ص) کے ایک صحابی نے مجھے خبر دی ہے کہ مہدی نفس زکیہ کی شہادت کے بعد ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _(۵)

____________________

۱_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص ۱۶۹_

۲_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۱۵۵_

۳_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۴۴_

۴_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۱۵۹_

۵_الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۱۷۱_

۴۱

نفیل کی بیٹی عمیرہ کہتی ہے : میں نے حسین بن علی (ع) کی دختر کو کہتے ہوئے سنا ہے : تم جس چیز کے انتظارمیں ہو وہ واقع نہ ہوگی مگر اس وقت کہ جب تمہارے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے گا اورتم آپس میں ایک دوسرے پرلعنت کروگے _ (۱)

قتادہ کہتے ہیں : میں نے مسیب کے بیٹے سے پوچھا: کیا وجود مہدی برحق ہے ؟ انہوں نے کہا: یقینا مہدی فاطمہ (ع) کی نسل سے ہوں گے _(۲)

طاؤس کہتے ہیں : خدا مجھے زندہ رکھے تا کہ مہدی (ع) کو دیکھ لوں _(۳)

زہری کہتے ہیں : مہدی فاطمہ (ع) کی اولاد سے ہوں گے _(۴)

ابوالفرج لکھتے ہیں : ولید بن محمد نے نقل کیا ہے کہ میں زہری کے ساتھ تھا کہ ایک شور مچاتو انہوں نے مجھ سے کہا: ذرادیکھو کیا قصہ ہے ؟ میں نے تحقیق کے بعد بتایا: زید بن علی قتل کردیئےئے ہیں اور ان کا سرلایا گیا ہے _ زہری نے افسوس کے ساتھ کہا : اس خاندان کے افراد اتنی عجلت کیوں کررہے ہیں؟ عجلت کی وجہ سے ان کے بہت سے افراد ہلاک ہوجاتے ہیں _ میں نے پوچھا کیا انھیں حکومت نصیب ہوگی ؟ انہوں نے کہا ہاں ، کیونکہ علی بن الحسین (ع) نے اپنے پدربزرگوار سے اور انہوں نے حضرت زہرا سے میرے لئے روایت کی ہے کہ رسول (ص) نے فاطمہ سے فرمایا: مہدی موعو د

____________________

۱_ الملاحم و الفتن ص ۱۷۱_

۲_ مقاتل الطالبین مولفہ ابوالفرج طبع نجف ص ۱۶۰_

۳_ الملاحم والفتن ص ۱۷۰_

۴_ الملاحم و الفتن ص ۵۴_

۴۲

تمہاری اولاد سے ہوگا _ (۱)

ابوالفرج نے مسلم بن قتیبہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ایک روز میں منصور کے پاس گیا _ اس نے مجھ سے کہا: محمد بن عبداللہ نے خروج کیا ہے اور خو د کو مہدی سمجھتا ہے ، قسم خدا کی وہ مہدی نہیں ہے لیکن میں تمہیں ایک بات بتادوں جو کہ ابھی تک کسی کو نہیں بتائی ہے اور نہ آئندہ بتاؤں گا اور وہ یہ کہ میرا بیٹا بھی روایتوں میں ذکر ہونے والا مہدی نہیں ہے ، لیکن فال کے طور پر میں نے اس کا نام مہدی رکھدیا ہے _(۲)

ابن سیرین کہتے ہیں : مہدی موعود اسی امت سے ہوگا جو کہ عیسی بن مریم کی امامت کرے گا _(۳)

عبداللہ ابن حارث کہتے ہیں : مہدی چالیس سال کی عمر میں قیام کریں گے وہ بنی اسرائیل کی شبیہ ہوں گے _(۴)

ارطاة کہتے ہیں : مہدی بیس سال کی عمر میں قیام کریں گے _(۵)

کعب کہتے ہیں : مہدی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مخفی امور کی طرف انکی ہدایت ہوتی ہے _(۶)

____________________

۱_ مقاتیل ص ۹۷_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۷_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۱۳۵_

۴_ کتاب الحاوی للفتاوی جلد ۲ ص ۱۴۷_

۵_ کتاب الحاوی للفتاوی جلد ۲ ص ۱۴۸_

۶_ کتاب الحاوی للفتاوی جلد ۲ ص ۱۵۰_

۴۳

عبداللہ بن شریک کہتے ہیں : رسول (ص) خدا کا علم مہدی کے پاس ہے _ (۱)

طاؤس کہتے ہیں کہ مہدی کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے کارندوں کی سخت نگرانی کریں گے اور مال کی بخشش میں سخی ہوں گے اور درماندہ لوگوں پر مہربان ہوں گے _(۲)

زہری کہتے ہیں : '' مہدی اولاد فاطمہ سے ہوگا''(۳)

حکم بن عینیہ کہتے ہیں : میں نے محمد بن علی سے عرض کی : میں نے سنا ہے کہ آپ اہل بیت میں سے ایک شخص خروج کرے گا اور عدل و انصاف قائم کریگا کیا یہ بات صحیح ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہم بھی ان کے انتظار میں زندگی گزاریں _(۴)

سلمہ بن زفر کہتے ہیں کہ ایک روز حذیفہ سے کہا گیا _ مہدی نے ظہور کیا ہے _ حذیفہ نے کہا : اگر مہدی تمہارے زمانہ میں ، جو کہ رسول (ص) کے عہد سے قریب ہے ، قیام کرتے ہیں تو واقعا یہ تمہاری خوش قسمتی ہے ، لیکن ایسا نہیں ہے _ مہدی اس وقت ظہور کریں گے جب لوگ فتنہ وفساد سے تنگ آجائیں گے اور ان کی نگاہوں میں گم شدہ مہدی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہ ہوگی _(۵)

جریر نے عبدالعزیز کے پاس ایک شعر پڑھا کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا وجود

____________________

۱_ کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۱۵۰_

۲_ کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۰_

۳_کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۵_

۴_کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۹_

۵_کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۹_

۴۴

بابرکت ہے اور تمہاری سیرت و رفتار مہدی کی سیرت و رفتار جیسی ہے _ تم خواہشات نفس کی مخالفت کرتے ہو اور راتوں کو تلاوت قرآن میں گزارتے ہو _ (۱)

ام کلثوم بنت وہب کہتی ہیں : روایات میں وارد ہوا ہے کہ دنیا پر ایک شخص کی حکومت ہوگی جس کا نام وہی ہوگا جو رسول کا ہے _(۲)

محمد جعفر کہتے ہیں : میں نے اپنی مشکلیں مالک بن انس کے سامنے بیان کیں تو انہوں نے کہا: صبر کرو یہاں تک کہ آیتو نرید ان نمنّ علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلهم الائمة و نجعلهم الوارثین کی تاویل آشکار ہوجائے(۲) _

فضیل بن زبیر کہتے ہیں : میں نے زید بن علی سے سنا کہ انہوں نے فرمایا: لوگ جس شخص کے انتظار میں ہیں وہ اولاد حسین (ع) سے ہوگا _(۴)

محمد بن عبدالرّحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں : خدا کی قسم مہدی اولاد حسین ہی سے ہوگا _(۵)

لوگ مہدی (عج) کے منتظر تھے

وجود مہدی کا عقیدہ لوگوں میں اتناراسخ ہوگیا تھا کہ وہ صدر اسلام ہی سے

____________________

۱_ کتاب الامامة و السیاسة تالیف ابن قطیبہ ط سوم ج ۲ ص ۱۱۷_

۲_ مقاتل الطالبین طبع دوم ص ۱۶۲_

۳_ مقاتل الطالبین طبع دوم ص ۳۵۹_

۴_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۱۱۵_

۵_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۱۱۵_

۴۵

ان کے انتظار میں تھے اور دن گنا کرتے تھے_ اور حق کی کامیابی وحکومت کو یقینی سمجھتے تھے یہ انتظار ہرج و مرج اور وحشت ناک حوادث و بحرانوں میں اور زیادہ شدید ہوجاتا تھا اور ہر لمحہ انتظار کے مصداق کی تلاش میں رہتے تھے اور کبھی غلطی سے بعض افراد کو مہدی سمجھ بیٹھے تھے :

محمد بن حنفیہ

مثلاً محمد بن حنفیہ بھی رسول (ص) کے ہم نام و ہم کنیت تھے اس لئے مسلمانوں کے ایک گروہ نے انھیں مہدی سمجھ لیا تھا _

طبری لکھتے ہیں کہ جس وقت مختار نے خروج اور قاتلان حسین (ع) سے انتقام لینے کا قصد کیا تو اس وقت انہوں نے محمد حنفیہ کو مہدی اور خود کو ان کے وزیر کے عنوان سے پہچنوایا اور اس سلسلے میں لوگوں کے سامنے کچھ خط بھی پیش کئے _(۱)

محمد بن سعد نے ابوحمزہ سے روایت کی ہے کہ لوگ محمد بن حنفیہ کو '' السلام علیک یا مہدی '' کہکر سلام کرتے تھے _ چنانچہ وہ خود بھی کہتے تھے'' ہاں میں ہی مہدی ہوں میں فلاح و بہبود کی طرف تمہاری راہنمائی کرتاہوں _ میرا وہی نام ہے جو رسول کا تھا اور میری کنیت بھی آنحضرت (ص) ہی کی کنیت ہے _ لہذا تم مجھے سلام علیک یا محمد یا سلام علیک یا اباالقاسم کہکر سلام کیاکرو ''_(۲)

____________________

۱_ تاریخ طبری ج ۴ ص ۴۴۹_ و ص ۴۹۴، تاریخ کامل طبع اول ج ۳ ص ۳۳۹ و ص ۳۵۸_

۲_ طبقات الکبیر طبع لندن ج ۵ ص ۶۶_

۴۶

اس اور ایسی ہی دوسری مثالوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رسول خدا کے نام اور کنیت کا جمع ہونا مہدی موعود کی خصوصیات و علامتوں میں سے ہے _ اسی لئے محمد بن حنفیہ نے اپنی کنیت اور نام کی طرف اشارہ کیا ہے _ لیکن تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن حنفیہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں مہدی ہوں _ بلکہ دوسرے لوگ انھیں مہدی کے عنوان سے پیش کرتے تھے چنانچہ وہ کبھی اس سلسلے میں خاموش اختیار کرتے تھے اور کبھی تائید کرتے تھے _ شاید ان کی خاموشی کی وجہ یہ ہو کہ اس طرح وہ قاتلان امام حسین (ع) سے انتقام اور حکومت کو اس کے اہل تک پہنچانا چاہتے تھے_

محمد بن سعد کہتے ہیں : محمد بن حنفیہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ ، حکومت اہل حق کی ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گی _ جو شخص اس حکومت کو دیکھے گا ، اسے عظیم کامیابی نصیب ہوگی اور جو اس سے قبل ہی مرجائے گا اسے خدا کی بے شمار نعمتیں میسر ہوں گی _(۱)

چنانچہ محمد بن حنفیہ نے اپنے اس خطبہ میںفرمایا جو کے اپنے سات ہزار اصحاب کے درمیان دیا تھا _ اس کام میں تم نے عجلت سے کام لیا ہے _ خدا کی قسم تمہارے اصلاب میں ایسے اشخاص موجود ہیں جو کہ آل محمد کی مدد کیلئے جنگ کریں گے _ آل محمد کی حکومت کسی پر مخفی نہیں ہے لیکن اس کے قائم ہونے میں تاخیر ہوگی _ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے ، حکومت نبوت کے گھر میں لوٹ آئے گی _(۱)

محمد بن عبداللہ بن حسن

مسلمانوں کا ایک گروہ محمد بن عبداللہ بن حسن کو مہدی سمجھتا تھا _ ابوالفرج لکھتے

____________________

۱_ طبقات الکبری ج ۷ ص ۷۱_

۲_ طبقات الکبری ج ۷ ص ۸۰_

۴۷

ہیں کہ حمید بن سعید نے روایت کی ہے کہ محمد بن عبداللہ کی ولادت پر آل محمد نے بہت خوشیاں منائیں اور کہا مہدی کا نام محمد ہے _ وہ محمد کو مہدی موعود سمجتھے تھے _ اس لئے ان کا بہت احترام کرتے تھے اور مجلسوں کا موضوع قراردیتے تھے ، شیعہ ایک دوسرے کو بشارت دیتے تھے _ (۱)

ابوالفرج لکھتے ہیں : جب محمد بن عبداللہ پیدا ہوئے تو ان کے خاندان والو ں نے ان کا نام مہدی رکھا اور انھیں روایات کا مہدی موعود تصور کرنے لگے _ لیکن ابوطالب کی اولاد کے علما انھیں نفس زکیہ کہتے تھے کہ جس کا احجار زیب میں شہید ہونا مقدر تھا _(۲)

ابوالفرج ہی لکھتے ہیں کہ :ابوجعفر منصور کا غلام کہتا ہے کہ منصور نے کہا : تم محمد بن عبداللہ کی تقریر میں شرکت کرو دیکھو کیا کہتے ہیں _ میں نے حکم کے مطابق ان کی تقریر میں شرکت کی وہ فرما رہے تھے : تمہیں یہ تو یقین ہے کہ میں مہدی ہوں اور حقیقت بھی یہی ہے '' _ غلام کہتا ہے کہ میں لوٹ آیا اور ان کی بات منصور سے نقل کی _ منصور نے کہا : محمد جھوٹ کہتے ہیں بلکہ مہدی موعود میرا بیٹا ہے _(۳)

سلمہ بن اسلم نے محمدبن عبداللہ کی شان میں کچھ اشعار کہے کہ جن کا ترجمہ یہ ہے :

جو کچھ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ اس وقت ظاہر ہوگا جب محمد بن عبداللہ ظاہر ہوں گے اور زمام حکومت سنبھالیں گے _ محمد کو خدا نے ایسی انگوٹھی

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۵_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۲_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۲_

۴۸

عطا کی ہے جو کسی دوسرے کو نہیں دی اور اس میں ہدایت و نیکیوں کی علامتیں ہیں _

ہمیں امید ہے کہ محمد ہی وہ امام ہیں کہ جن کے ذریعہ قرآن زندہ ہوگا اور ان کے توسط سے اسلام کو فروغ ملیگا ، اصلاح ہوگی اور یتیم ، عیال دار اور ضرورت مند لوگ خوشحال زندگی گزاریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جب کہ وہ ضلالت و گمراہی سے بھرچکی ہوگی اور اسی وقت ہمارا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا _(۱)

احادیث مہدی اور فقہائے مدینہ

ابوالفرج لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ نے خروج کیا تو مدینہ کے مشہور فقیہ و عالم محمد بن عجلان نے بھی ان کے ساتھ خروج کیا _ جب محمد بن عبداللہ قتل ہوگئے تو حاکم مدینہ نے محمد بن عجلان کو بلایا اور کہا: تم نے اس جھوٹے انسان کے ساتھ کیوں خروج کیا تھا؟ اس کے بعد ان کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم دیا تو مدینہ کے علماء اور سر آوردہ افراد نے کہا : اے امیر

____________________

۱_ ان الذی یروی الرواة لبین اذا ماابن عبدالله فیهم تجردا

له خاتم لم یعطه الله غیره

وفیه علامات من البر و الهدی

انا لنزجوان یکون محمد

اماماً به یحیی الکتاب المنزل

به یصلح الاسلام بعد فساده

و یحیی یتیم باس و معمول

و یملا و عدلا ارضنا بعد ملئها

ضلالا و یأتینا الذی کنت آمل

(مقاتل الطالبین ص ۱۶۴)

۴۹

محمد بن عجلان مدینہ کے فقیہ و عابدہیں انھیں معاف کیا جائے کیونکہ وہ محمد بن عبداللہ کو روایات ہی کا مہدی موعود سمجھتے تھے _(۱)

دوسری جگہ لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ نے خروج کیا تو ان کے ساتھ مدینہ کے دوسرے نمایاں فقیہ و عالم عبداللہ بن جعفر بھی خروج کیا اور محمد بن عبداللہ کے قتل کے بعد فرار کرگئے اور امان ملنے تک مخفی رہے _ ایک روز حاکم مدینہ جعفر بن سلیمان کے پاس گئے تو اس نے کہا : اس علم و فقاہت کے باوجود آپ نے ان کے ساتھ کیوں خروج کیا تھا؟ جواب میں کہا: میں نے اس لئے محمد بن عبداللہ کا تعاون کیا تھا کہ میں یقین کے ساتھ انہیں مہدی موعود سمجھتا تھا کہ جن کا روایات میں تذکرہ ہے _ ان کے مہدی ہونے میں کوئی شک نہیں تھا _ قتل کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مہدی نہیں ہیں _ اس کے بعد میں کسی کے فریب میں نہیں آوں گا _(۲)

ان واقعات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مہدی کا عقیدہ و موضوع صدر اسلام اور پیغمبر (ص) کے عہد سے نزدیک والے زمانہ میں اتنا ہی مسلم تھا کہ لوگ آپ (ع) کے منتظر رہتے تھے اور صاحبان علم و ستم رسیدہ افراد کہ جو مہدی کی علامتوں کو بخوبی نہیں جانتے تھے وہ محمد بن حنفیہ کو اور کبھی محمد بن عبداللہ اور دوسرے اشخاص کو مہدی موعود سمجھ لیتے تھے لیکن علمائے اہل بیت اور صاحبان علم یہاں تک کہ محمد کے والد عبداللہ بھی جانتے تھے کہ وہ مہدی نہیں ہے _

ابوالفرج لکھتے ہیں: ایک شخص نے عبداللہ بن حسن سے عرض کی : محمد کب خروج

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۹۳_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۹۵_

۵۰

کریں گے ؟ انہوں نے جواب دیا : جب تک میں قتل نہیں کیا جاؤنگا اس وقت تک وہ خروج نہیں کریں گے _ لیکن خروج کے بعد قتل کردیئےائیں گے _ اس شخص نے کہا : انّا للہ و انّا الیہ راجعون'' اگر وہ قتل کردیئےائیں گے تو امت ہلاک ہوجائے گی ، عبداللہ نے کہا: ایسا نہیں ہے _ اس شخص نے دوبارہ عرض کی ، ابراہیم کب خروج کریں کے ؟ کہا جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک خروج نہیں کریں گے _ لیکن وہ بھی قتل کردیئےائیں گے اس شخص نے کہا ، انا للہ و انا الیہ راجعوں، امت ہلاک ہوا چاہتی ہے _ عبداللہ نے جواب دیا : ایسا نہیں ہے بلکہ ان کام امام مہدی موعود ایک پچیس سال کی عمر کا جوان ہے جو دشمنوں کو تہہ تیغ کرے گا _ (۱)

ابوالفرج ہی تحریر فرماتے ہیں : ابوالعباس نے نقل کیا ہے کہ میں نے مروان سے کہا: محمد خود کو مہدی کہتے ہیں _ اس نے کہا :نہ وہ مہدی موعود ہیں نہ ان کے باپ کی نسل سے ہوگا بلکہ وہ ایک کنیز کا بیٹا ہے _(۲)

پھر لکھتے ہیں : جعفر بن محمد جب بھی محمد بن عبداللہ کو دیکھتے گریہ کرتے اور فرماتے تھے: ان (مہدی) پر میری جان فدا ہو لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ شخص مہدی موعود ہے جبکہ یہ قتل کردیا جائے گا اور کتاب علی میں اس امت کے خلفاء کی فہرست میں اس کا نام نہیں ہے _(۳)

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۷_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۶_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۲_

۵۱

محمد بن عبداللہ بن حسن کے پاس ایک جماعت بیٹھی تھی کہ جعفر بن محمد تشریف لائے سب نے ان کا احترام کیا _ آپ نے دریافت کیا ، کیا بات ہے ؟ حاضرین نے جواب دیا ہم محمد بن عبداللہ جو کہ مہدی موعودہیں کی بیعت کرنا چاہتے ہیں _ آپ نے فرمایا : اس ارادہ سے دست کش ہوجاؤ کیونکہ ابھی ظہور کا وقت نہیں آیا ہے اور محمد بن عبداللہ بھی مہدی نہیں ہے _ (۱)

مہدی اور دعبل کے اشعار

دعبل نے جب امام رضا (ع) کو اپنا مشہور قصیدہ سنا یا تو اس کے خاتمہ پر درج ذیل شعر پڑھا:

خروج امام لامحالة واقع

یقوم علی اسم الله والبرکات

یعنی ایک امام کا انقلاب لانا ضروری ہے وہ خدا کے نام اور برکت سے انقلاب لائے گا _

امام رضا(ع) نے یہ شعر سن کر بہت گریہ کیا اور فرمایا: روح القدس نے تمہاری زبان سے یہ بات کہلوائی ہے _ کیا تم اس امام کو پہچانتے ہو ؟ عرض کی نہیں : لیکن سنا ہے ، آپ (ع) میں سے ایک اما م قیا م کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریگا امام (ع) نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا محمد (ع) امام ہے اور ان کے بعد ان کے فرزند علی (ع) امام ہوں گے اور ان کے بعد ان کے بیٹے حسن (ع) امام ہوں گے اور ان کے بعد ان کہ لخت جگر حجت قائم امام ہوں گے _ ان کی غیبت کے زمانہ میں انتظار کرنا اور ظہور کے بعد ان کی اطاعت

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۱_

۵۲

کرنی چاہئے وہی زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ لیکن ان کے ظہور کا وقت معین نہیں ہوا ہے بلکہ وہ اچانک و ناگہان ظہور کریں گے _ (۱)

ان اور ایسے ہی دیگر واقعات سے تاریخ بھر پڑی ہے اگر اشتیاق ہے تو تاریخ کا مطالعہ فرمائیں _

چونکہ کافی وقت گزر چکا تھا لہذا یہیں پر جلسہ کو ختم کردیا گیا اور آنے والے ہفتہ کی شب پر موقوف کردیا گیا _

____________________

۱_ ینابیع المودة جلد ۲ ص ۱۹۷_

۵۳

جعلی مہدی

مقررہ شب میں جناب ڈاکٹر صاحب کے گھر میں احباب جمع ہوئے اور رسمی مدارات کے بعد ہوشیار صاحب نے اپنی گفتگو سے جلسہ کا آغاز کیا _ :

صدر اسلام میں مہدویت کے مسلّم اور رائج العقیدہ ہونے پر جھوٹے و جعلی مہدی افراد کی داستان بھی شاہد ہے جو کہ ماضی میں پیدا ہوئی ہیں اور تاریخ میں ان کی داستان ثبت ہے _ برادران کی آگہی کے لئے میں ان کے ناموں کی فہرست بیان کرتا ہوں _

مسلمانوں کی ایک جماعت محمد بن حنفیہ کو امام مہدی تصور کرتی تھی اور کہتی تھی وہ مرے نہیں ہیں بلکہ رضوی نامی پہاڑ میں چلے گئے ہیں بعد میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھریں گے _(۱)

فرقہ جارودیہ کے بعض افراد عبداللہ بن حسن کو مہدی غائب خیال کرتے تھے اور ان کے ظہور کے انتظار میں زندگی بسر کرتے تھے _(۲)

____________________

۱_ ملل و نحل مولفہ شہرستانی طبع اول ج ۱ ص۲۴۲ ، فرق الشیعہ مولفہ نور بخشی طبع نجف سال ۱۳۵۵ ھ ص ۲۷_

۲_ ملل و نحل ج۱ ص ۲۵۶ فرق الشیعہ ص ۶۲

۵۴

فرقہ ناؤسیہ امام صادق (ع) کو مہدی اور زندہ غائب سمجھتا تھا _(۱)

واقفی لوگ حضرت موسی کاظم کو زندہ و غائب اما م خیال کرتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ امام بعد میں ظہور کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھریں گے _(۲)

فرقہ اسماعیلیہ کا عقیدہ ہے کہ اسماعیل نہیں مرے ہیں بلکہ تقیہ کے طور پر کہا جاتا ہے کہ مرگئے ہیں _(۳)

فرقہ باقریہ امام باقر (ع) کو زندہ اور مہدی موعود سمجھتا ہے _

فرقہ محمدیہ کا عقیدہ ہے کہ امام علی نقی (ع) کے بعد ان کے بیٹے محمد بن علی امام ہیں اور ان ہی کو زندہ اور مہدی موعود تصور کرتے ہیں جبکہ وہ اپنے والد کی حین حیات ہی انتقال کرگئے تھے_

جوازیہ کہتے ہیں : حجت بن الحسن (ع) کے ایک فرزند تھے اور وہی مہدی موعود ہیں _(۴)

فرقہ ہاشمیہ میں سے بعض افراد عبداللہ بن حرب کندی کو زندہ و غائب امام تصور کرتے تھے اور ان کے انتظار میں زندگی بسر کرتے تھے _(۵)

مبارکیہ کی ایک جماعت کا خیال تھا کہ محمد بن اسماعیل زندہ و غائب امام ہیں(۶)

____________________

۱_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۳ فرق الشیعہ ص ۶۷_

۲_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۸ فرق الشیعہ ص ۸۰ و ص ۸۳_

۳_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۹ فرق الشیعہ ص ۶۷_

۴_ تنبیہات الجلیہ فی کشف الاسرار الباطنیہ ص ۴۰ و ص ۴۲_

۵_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۴۵

۶_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۹_

۵۵

یزیدیوں کا عقیدہ تھا کہ یزید آسمان پر چلاگیا ہے _ دوبارہ زمین پر لوٹے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھرے گا _ (۱)

اسماعیلیہ کہتے تھے روایات میں جس مہدی کا ذکر ہے وہ محمد بن عبداللہ الملقب بہ مہدی ہیں کہ جن کی مصر و مغرب پر حکومت ہوگی ، روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا: ۳۰۰ ھ میں سورج مغرب سے طلوع کرے گا _(۲)

امامیہ کی ایک جماعت کا خیال تھا کہ امام حسن عسکری زندہ ہیں وہی قائم ہیں اور غیبت کی زندگی گزاررہے ہیں ، بعد میں وہی ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھریں گے_ ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ امام حسن عسکری کا انتقال ہوگیا ہے لیکن وہ دوبارہ زندہ ہوں گے اور قیام کریں گے کیونکہ قائم کے معنی مرنے کے بعد زندہ ہونے کے ہیں _(۲)

قرامطہ محمد بن اسمعیل کو مہدی موعود جانتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ وہ زندہ ہیں اور روم کے کسی شہر میں رہتے ہیں _(۲)

فرقہ ابی مسلمیہ ابومسلم خراسانی کو زندہ و غائب امام سمجھتا ہے _(۵)

ایک گروہ امام حسن عسکری (ع) کو مہدی خیال کرتا اور کہتا تھا: وہ مرنے کے بعد

____________________

۱_ کتاب الیزیدیہ مولفہ صدوق الدملوجی موصل ص ۱۶۴_

۲_ روضة الصّفا ج ۴ ص ۱۸۱_

۳_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۸۴_ فرق الشیعہ ص ۹۶و ص ۹۷_

۴_ الہدیہ فی الاسلام ص ۱۷۰ فرق الشیعہ ص ۷۲_

۵_ فرق الشیعہ ص ۴۷_

۵۶

زندہ ہوگئے ہیں اور اب غیبت کی زندگی بسرکررہے ہیں (۱) بعد میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھریں گے _ (۲)

غلط فائدہ

یہ تھے ان افراد کے نام جنھیں جاہل لوگ صدر اسلام اور عہد پیغمبر (ص) سے نزدیک زمانہ میں مہدی سمجھتے تھے مگر ان میں سے اکثر جماعتیں مٹ گئی ہیں اور اب تاریخ کے صفحات کے علاوہ کہیں ان کا نام و نشان نہیں ملتا ہے _ اس وقت سے آج تک مختلف ملکوں میں بنی ہاشم او رغیر بنی ہاشم میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے اپنے مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے _ تاریخ میں اس عنوان سے کتنی ہی جنگیں اور خونریزیاں ہوئی ہیں اور کتنے ہی انقلاب آئے اور ناخوشگوار حوادث رونما ہوئے ہیں _(۳)

ان واقعات و حوادث سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ داستان مہدویت اور مصلح غیبی کا ظہور مسلمانوں کے در میان ایک مسلّم عقیدہ تھا اور مسلمان ان کے انتظار میں دن گناکرتے تھے اور ان کی نصرت و غلبہ کو ضروری سمجھتے تھے چنانچہ یہ چیز اس بات کا سبب بنی کہ بعض ذہین اور موقع کے متلاشی افراد لوگوں کے اس پاک و صاف عقیدہ سے کہ جس کا سرچشمہ مصدر وحی تھا ، غلط فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہوگئے اور خود کو مہدی

____________________

۱_ فرق الشیعہ ص ۹۷_

۲_ تفصیل کیلئے مہدی از صدر اسلام تا قرن سیزدہم ، مولف خاور شناسی ملاحظہ فرمائیں نیز المہدیة فی الاسلام کا مطالعہ فرمائیں _

۳_ فصول المہمہ ص ۲۷۴ مقاتل الطالبین ص ۱۶۴ ، ذخائر العقبی ص ۲۰۶، صواعق المحرقہ ص ۲۳۵_

۵۷

موعود کے عنوان سے پیش کریں _ ممکن ہے ان میں سے بعض اس سے غلط فائدہ نہ اٹھانا چاہتے ہو بلکہ ظالم و ستمگاروں سے انتقام لینا اور قوم و ملّت کی اصلاح کرنا چاہتے تھے_ اگر چہ ان میں سے بعض نے اپنے مہدی ہونے کادعوی نہیں کیا تھا لیکن نادانی ، مصائب کی شدتوں اور عجلت پسند گروہ انھیں اسلام کا مہدی موعود سمجھتا تھا _

جعلی حدیثیں

افسوس کہ ان حوادث کی وجہ سے لوگوں میں حضرت مہدی کی تعریف و توصیف اور ظہو رکی علامتوں کے سلسلے میں جعلی حدیثوں کو شہرت دی گئی اور وہ بغیر تحقیق کے کتب احادیث میں درج کی گئیں _

۵۸

اہل بیت رسول (ص) اور گیارہ ائمہ (ع) نہ مہدی (عج) کی خبر دی ہے

ڈاکٹر : مہدی کے بارے میں اہل بیت رسول (ص) اور ائمہ اطہار کا کیا عقیدہ تھا؟

ہوشیار: رسول(ص) اکرم کی وفات کے بعد بھی مہدویت کا عقیدہ اصحاب اور ائمہ اطہار (ع) کے درمیان مشہور اور موضوع بحث تھا _ پیغمبر کی احادیث و اخبار کو سب سے بہتر سمجھنے والے اہل بیت (ع) رسول اور علوم و اسرار نبوت کے حامل مہدی کے بارے میں گفتگو کرتے تھے اور لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے از باب مثال :

حضرت علی (ع) نے مہدی (ع) کی خبر دی

حضرت علی بن ابیطالب (ع) نے فرمایا : مہدی موعود ہم میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں ظہور کرے گا اس کے علاوہ کسی قوم میں مہدی منتظر نہیں ہے _(۱) اس سلسلے میں حضرت علی (ع) سے اور پچاس حدیثیں ہیں _(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۴۸_

۲_ یہ تعداد منتخب الاثر میں تحقیق کے بعد درج ہوئی ہے ، ظاہر ہے اگراس سے زیادہ کوئی تفصیل کتاب لکھی جاتی اور تحقیق کو مزید وسعت دی جاتی تو اس سے کہیں زیادہ حدیثیں فراہم ہوجاتیں _

۵۹

حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے امام حسین (ع) سے فرمایا: تمہاری ولادت کے بعد رسول (ص) خدا میرے پاس تشریف لائے _ تمہیں گودمیں لیا _ اور فرمایا : اپنے حسین کولے لو اور جان لو کہ یہ نو ائمہ کے باپ ہیں اور ان کی نسل سے صالح امام پیدا ہوں گے اور ان میں کانواں مہدی ہے تین حدیثیں او رہیں _(۱)

حضرت حسن (ع) بن علی (ع) نے مہدی(عج) کی خبر دی

حضرت امام حسن بن علی نے فرمایا: رسول کے بعد امام بارہ ہیں _ ان میں سے نو(۹) میرے بھائی حسین کی نسل سے ہوں گے اور اس امت کا مہدی ان ہی کی نسل سے ہے چار حدیثیں اور ہیں _(۲)

امام حسین (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت امام حسین (ع) نے فرمایا: بارہ اما م ہم میں سے ہیں _ ان میں سے پہلے علی بن ابی طالب ہیں اور نویں میرے بیٹے قائم برحق ہیں _ خداان کے وجود کی برکت سے مردہ زمین کو زندہ اور غیرآباد کو آباد کرے گا اور دین حق کوتمام ادیان پر کامیابی عطا کرے گا خواہ مشرکین کو یہ

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۵۲_

۲_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۵۵_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

تجربہ كيا ہے _ ليكن رسول خدا(ص) اور امير المؤمنين (ع) كى مختصر دورانيہ كى حكومت كے سوااس نے اپنے بنيادى اہداف اور منطقى آرزؤوں كو ان حكومتوں سے حاصل نہيں كيا _ جبكہ اسلامى نظام نظرياتى لحاظ سے اور تھيورى كى حد تك مكمل تھا اور زمانہ كى پيشرفت اور ارتقاء كے ساتھ مكمل طور پر ہم آہنگ تھا _ ليكن كيوں عملى نہ ہوا _ يہ ايك سربستہ راز ہے جس كى وضاحت كسى اور وقت پر اٹھا ركھتے ہيں_

لفظ '' ولايت فقيہ'' قديم زمانہ سے شيعہ فقہ اور كلام ميں ايك جانا پہچانا كلمہ ہے كہ جوايران ميں اسلامى جمہورى نظام كے نفاذ كے ذريعے مرحلہ عمل ميں آيا _ اور وہ نام ہے '' كائنات اور انسان پر اللہ تعالى كى حاكميت مطلقہ كى بنياد پر زمانہ غيبت ميں وسيع اسلامى سرزمين ميں امت مسلمہ كے دينى اور دنياوى امور ميں ايك زمانہ شناس ' بہادر'اور مدبر فقيہ عادل كى مكمل اور بھر پور حاكميت ''(۱)

امام خمينى فرماتے ہيں : حاكميت كى شرائط براہ راست اسلامى حكومت كى حقيقت سے پھوٹتى ہيں_ عام شرائط يعنى عقل اور تدبر كے علاوہ اس كى دوبنيادى شرطيں اور ہيں _ ايك '' قانون كا علم '' اور دوسرى ''عدالت'' اگر كسى شخص ميں يہ دو شرطيں پائي جاتى ہوں اور وہ قيام كرے وہ حكومت تشكيل دے سكتاہے اور اسے وہى ولايت حاصل ہوگى جو آنحضرت(ص) معاشرتى امور ميں ركھتے تھے اور تمام افراد پر واجب ہے كہ وہ اس كى اطاعت كريں(۲) اس وضاحت كے ساتھ شيعہ نكتہ نظر سے زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ در حقيقت امام معصوم (ع) كى حكومت كا تسلسل ہے اور اس وقت ولى فقيہ امام معصوم (ع) كا نائب سمجھا جاتاہے اس لحاظ سے خدا كى حاكميت، رسول خدا(ص) اور ائمہ معصومين ( عليہم السلام)كى حكومت اور زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ بالترتيب ايك ہى سلسلہ كى كڑياں ہے جو آپس ميں جڑى ہوئي ہيں(۳)

____________________

۱) عباس كعبى '' بررسى تطبيقى مفہوم ولايت فقيہ '' قم ، مؤسسہ انتشاراتى ظفر۰ ۱۳۸ ، ص ۴۱ _ قانون اساسى جمہورى اسلامى ايران اصل پنجم_

۲) '' ولايت فقيہ'' امام خمينى ، مؤسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى ۱۳۷۳ ص ۳۷_

۳) ايضاً ص ۴۰_

۳۴۱

اہلسنت كے نظريہ كے مطابق خلافت نام ہے جانشينى رسول (ص) كے عنوان سے دينى اور دنياوى امور ميں مكمل حاكميت كا _

ابن خلدون كہتے ہيں : خلافت نام ہے دين كى حفاظت اور سياست دنيا كيلئے صاحب شريعت كى طرف سے جانشين ہونا(۱)

ماوردى (متوفى ۴۵۰ ھ ) كہتے ہيں :

الامامة موضوعة لخلافة النبوة فى حراسة الدين و سياسة الدنيا (۲)

خلافت نام ہے دين كى حفاظت اور سياست دنيا كيلئے رسول خدا(ص) كى طرف سے جانشين ہونے كا _

اخوان الصفا كہتے ہيں : بادشاہ زمين پر خدا كے جانشين ہيں _اور دين كے پاسبان ہيں(۳) ماوردى خلافت كى تعريف كرنے كے بعد كہتے ہيں ' ' اصم'' كے علاوہ تمام علماء اسلام متفق ہيں كہ امام كى بيعت واجب ہے _البتہ اس كے وجوب كے مدرك اور دليل ميں اختلاف ہے كہ كيا وہ عقل ہے يا شرع؟ ليكن شريعت نے ''حاكميت'' ولى خدا كے حوالے كى ہے _

اللہ تعالى قرآن ميں فرماتاہے:

( يا ايها الذين آمنوا اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولى الامر منكم ) (۴)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۱۶۶_

۲ _ '' الاحكام السلطانيہ'' على بن محمد الماوردى ، بيروت لبنان، دار الكتب الاسلاميہ ۱۹۸۵ ، ۱۴۰۵ ق ص ۵_

۳_ ''نظام حكومتى و ادارى در اسلام'' باقر شريف قرشى ترجمہ عباس على سلطانى مشہد ،بنياد پوہش ہاى اسلامى ۱۳۷۹ ص ۲۴۰_

۴_ سورہ نساء ۵۹_

۳۴۲

اے ايمان والو خدا كى اطاعت كرو اور رسول او ر اپنے ميں سے صاحبان امر كى اطاعت كرو_

اس طرح خدا نے '' اولى الامر'' جو كہ معاشرے كے رہبر ہيں كى اطاعت ہم پر واجب قرار دى ہے _

ہشام بن عروة، ابوہريرہ سے روايت كرتے ہيں : رسول خدا(ص) نے فرمايا : ميرے بعد تم پر رہبر حكومت كريں گے _ نيك حاكم نيكى كےساتھ اور بدكردار حاكم برائي كےساتھ _ پس جو حق كے مطابق ہو اس كى اطاعت كرو _ كيونكہ اگر نيك كام كريں گے تو تمہارے اور ان كے فائدے ميں ہوں گے اور اگر برے كام انجام ديں گے تو تمہارے فائدے اور خود ان كے نقصان ميں ہوں گے(۱)

علمائے اہلسنت نے اصل خلافت كو آيت '' اولى الامر'' سے ليا ہے(۲) جبكہ تمام شيعہ علماء اور مفسرين اس بات پر متفق ہيں كہ اس آيت ميں اولى الامر سے مراد ائمہ معصومين (ع) (ع) ہيں جو كہ مادى اور معنوى رہبر ہيں _ اس كى دليل يہ ہے كہ اس آيت ميں اطاعت كو بغير كسى قيد اور شرط كے اور خدا و رسول (ص) كى اطاعت كے رديف ميں ذكر كيا گيا ہے _ لہذا ايسى اطاعت صرف معصومين(ع) كيلئے قابل تصور ہے _ جبكہ دوسرے افراد جن كى اطاعت واجب ہوتى ہے وہ محدود اور قيود و شرائط كے ساتھ ہوسكتى ہے(۳) بہر حال رہبر يا خليفہ كى شرائط بھى متفق عليہ نہيں ہيں _ ماوردى امامت كيلئے درج ذيل شرائط كو معتبر قرار ديتے ہيں _

عدالت اپنى تمام شرائط كےساتھ مرتبہ اجتہاد پر فائز ہونا

____________________

۱ _ الماوردى ص ۵_

۲_ تفسير كبير فخر الدين رازى بيروت دار الكتب العلمية ۱۴۱۱ ق ۱۹۹۰ م ج ۹ ، ۱۰ ص ۱۱۶ ، ۱۱۷، جامع البيان فى تفسير القرآن طبرى ج ۵ ص ۲۴۱ ، ۲۴۲ تفسير المنار ج۵ ص ۱۸۱_

۳ _ '' ترجمہ تفسير الميزان'' محمد حسين طباطبائي ج ۴ ص ۶۳۶_۶۶۳ سورہ بقرہ ذيل آيت ۵۹ پيام قرآن ، ناصر مكارم شيرازى و ہمكاران ج۹ ص ۵۴_

۳۴۳

ناقص الاعضاء نہ ہو

صاحب را ے ہونا

شجاعت و بہادري

نسب يعنى امام كا تعلق قبيلہ قريش سے ہو(۱)

البتہ اكثر علمائے اہلسنت عدالت كو شرط نہيں سمجھتے(۲) چنانچہ كہتے ہيں : اولو الامر سے مراد حكام، امراء اور بادشاہ ہيں اور ہر حاكم جو حكومت حاصل كرلے اس كى اطاعت واجب ہے چاہے وہ عادل ہو يا ظالم_

تفسير المنار ميں اشارةً كہا ہے كہ بعض كا نظريہ ہے كہ آيت تمام حاكموں كى اطاعت كے متعلق ہے اور اسے واجب قرار ديتى ہے(۳) اور اس بارے ميں انہوں نے روايات بھى نقل كى ہيں(۴)

مختصر طور پر يوں كہاجاسكتاہے كہ ہمارے عقيدہ كے مطابق خلافت ''الاحكام السلطانيہ'' ميں مذكور تعريف اور خصوصيات كے پيش نظر حيات اسلامى كى ضروريات ميں سے ہے_ ليكن قابل غور نكتہ يہ ہے كہ وہ خلافت جو اموى اور عباسى دور يا حتى رحلت رسول (ص) كے بعد سامنے آئي ، حقيقى اسلامى حكومت كے ساتھ اس كا كوئي تعلق نہيں تھا_ اس دن سے خلافت ابہام كا شكار ہے _ ليكن پہلا سوال يہ ہے كہ رسول خدا(ص) كى طرف سے مقرر كردہ خليفہ كون ہے ؟ تاريخ بتاتى ہے كہ رسول خدا(ص) نے ''يوم الدار''(۵) ميں لفظ خليفہ ، نيابت اور جانشينى كے معنى ميں حضرت على (ع) كيلئے استعمال كيا تھا_

حضرت ابوبكر كى خلافت كے بارے ميں ابن خلدون كہتے ہيں : رسول خدا(ص) كى وفات كے وقت صحابہ نے پيش قدمى كى اور ان كى بيعت كرلى(۶) لہذا وہ آنحضرت(ص) كے مقرر كردہ نہيں ہيں_

____________________

۱) الماوردى ايضاًص ۶_

۲) الاردشاد ،امام الحرمين جوينى ص ۴۲۶ ، ۴۲۷ _ايضاً باقر شريف قرشى ص ۲۵۶ ، ۲۶۰ _

۳) تفسير المنار ج۵ ص ۱۸۱_

۴) صحيح مسلم ج ۳ ، كتاب الامارہ باب اطاعة الامراء و ان منعوا الحق ص ۴۷۴ ، ۴۶۷_

۵) يوم الدار وہ دن ہے جس دن رسول خدا (ص) نے حكم خدا سے اپنے رشتہ داروں كو اسلام كى دعوت دى تھى _

۶) باقر شريف القرشى ص ۲۴۶_

۳۴۴

علاوہ برايں '' الاحكام السلطانيہ'' ميں اسلامى حاكم كى جو خصوصيات بيان كى گئي ہيں اگر انكا مصداق خارجى وجود ميں آجائے تو يہ ان صفات كے بہت قريب ہيں جو علماء شيعہ نے ولى فقيہ كے متعلق بيان كى ہيں _ سوائے قريشى ہونے كے كہ جو خالصةً اہلسنت كا نظريہ ہے _البتہ اہلسنت كے چار مذاہب كے بعض فقہاء معتقد ہيں كہ ممكن ہے خلافت اور حكومت طاقت كے زور پر حاصل كى جائے _ اور جو طاقت كے زور پر حاكم بن جائے اسكى اطاعت واجب ہے (۱) احمد ابن حنبل'' علم اور عدالت ''كو شرط نہيں سمجھتے _ اور ايك حديث نقل كرتے ہيں جس كے مطابق ہر وہ شخص جو تلوار (طاقت ) كے زور پر بر سر اقتدار آجائے وہ خليفہ اور امير المؤمنين ہے _ كسى كيلئے جائز نہيں ہے كہ اس كى امامت كا انكار كرے چاہے وہ نيك ہو يا فاسق و فاجر(۲)

ان تمام تنازعات اور اختلافات سے صرف نظر كرتے ہوئے شيعہ اور اہلسنت كے نظريات كے درميان بنيادى فرق يہ ہے كہ شيعہ معتقدہيں زمانہ غيبت ميں صرف وہى افراد حق حكومت ركھتے ہيں جو بطور خاص يا عام اس ذمہ دارى كيلئے آنحضرت(ص) كى طرف سے مقرر كئے گئے ہوں_ اصطلاح ميں اسے ولايت فقيہ كہتے ہيں يعنى اس نظريہ كے مطابق حكومت كا تعين اوپر سے ہوتاہے حتى كہ جو حق عوام كو حاصل ہے وہ خدا كى جانب سے ہے_ايك خدا پرست انسان كبھى بھى حكومت كى بنياد كے طور پر مخلوق كے ارادہ كو قبول نہيں كرسكتا جب تك وہ خالق كے ارادہ سے منسلك نہ ہو _

ليكن اہلسنت كے نظريہ كے مطابق ايسا نہيں ہے _ جيسا كہ خليفہ اول كى خلافت بھى رسول خدا (ص) كے تقرر سے نہيں تھي_ بلكہ بعض صحابہ كى بيعت كے نتيجہ ميں وجود ميں آئي تھي_ اور اسى طرز سے آگے بڑھي_

____________________

۱) ''الفقہ الاسلامى و ادلتہ ''ج ۶ ص ۶۸۲_

۲) ''الماوردي'' ص ۲۰_

۳۴۵

باسمہ تعالى

ضميمہ نمبر ۲

سوال:ايسا معاشرہ جس ميں شيعہ ، غير شيعہ، مسلم اور غير مسلم افراد بستے ہيں اس ميں ولى فقيہ كے حكم كى حد ودكيا ہيں ؟

مختصر جواب:

حكومتى مسائل كے سلسلہ ميں وہ ولايت مطلقہ جو اللہ تعالى كى طرف سے رسول خدا (ص) كو عطا كى گئي ہے وہى حكومتى اختيارات ائمہ معصومين (ع) اور ان كے بعد فقيہ عادل كو ديئے گئے ہيں _ اور اس ميں كوئي فرق نہيں ہے_

قرآن مجيد اور شيعہ و سنى احاديث ميں غور كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ايسا دين نہيں ہے جو فقط عبادات اور انفرادى آداب و رسوم ميں منحصر ہو_ اور سياسى ، اجتماعى اور اقتصادى مسائل پراس كى نگاہ نہ ہو _ فقيہ كا حكم بھى خدا و رسول كا حكم ہے _ اسلام ايك عالمگير دين ہے _ فقط مسلمانوں كےساتھ مخصوص نہيں ہے _ بلكہ آيات و روايات نے صراحت كے ساتھ اس حقيقت كو بيان كيا ہے _اور اسلامى احكام دنيا كے تمام افراد كيلئے ہيں _

تفصيلى جواب:

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين (ع) كى ولايت ، اس حكومت و ولايت كے واضح ترين مصاديق ميں سے ہے جو ہر دور و زمانہ ميں معاشرے كى ضرورت رہى ہے _ يہ ولايت اورخلافت

۳۴۶

خداوند كريم كى طرف سے معصومين (ع) اور زمانہ غيبت ميں '' جامع الشرائط فقيہ '' كو تفويض كى گئي ہے (۱)

ولايت چاہے تكوينى ہو يا تشريعى ، اللہ تعالى كى ذات ميں منحصر ہے _اور اس حاكميت ميں كوئي بھى اس كا شريك نہيں ہے _

عقل نے ہميشہ انسان كو خدا كى اطاعت كا پابند قرار ديا ہے _اور الہى قوانين كى مخالفت كو اس كيلئے حرام قرار ديا ہے _اور يہ ولايت مطلقہ اور اطاعت ہميشہ خدا كى ذات واحدہ ميں منحصر ہے _ مگر يہ كہ خداند متعال مقام تشريع ميں ولايت كا كوئي مرتبہ كسى دوسرے كو تفويض كردے كتاب و سنت كى رو سے اللہ تعالى نے يہ ولايت انبياء اور ائمہ معصومين عليہم السلام كو عطا فرمائي ہے _

مذكورہ سوال كى وضاحت كيلئے ضرورى ہے كہ پہلے فتوى اور حكم كے دقيق معانى بيان كئے جائيں _ نيز حكم اور فتوى كے درميان موجود فرق كو واضح كيا جائے _پھر ولى فقيہ كے حكم كى حدود اور شيعہ و سنى اور مسلم غير مسلم تمام افراد كيلئے اس كى اطاعت كے لازم ہونے كى تحقيق كى جائے_ جناب عميد زنجانى كہتے ہيں لغت ميں حكم: استقرار ، ثبوت اور استحكام كو كہتے ہيں _ ليكن قرآنى اصطلاحى ميں حق كو باطل سے ممتاز كرنے ، اختلاف كو ختم كرنے اور فيصلہ كرنے كو '' حكم'' كہتے ہيں _ جبكہ فقہى اصطلاح ميں ''حكم'' كا اطلاق عام طور پر قانون الہى پر ہوتاہے _ اس كى تعريف بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں حكم نام ہے اس خطاب شرعى كا جو مكلفين كے افعال كے ساتھ مربوط ہو_ اور اس كى دو قسميں ہيں تكليفى اور وضعى(۲)

حكم اور فتوى ميں فرق

اگر حاكم يا جامع الشرائط مجتہد كسى خاص موضوع كے متعلق كوئي حكم صادر كرے تو دوسرے مجتہدين اس

____________________

۱)قال الامام حسن العسكرى (ع) فانى قد جعلته عليكم حاكما فاذا حكم بحكمنا فلم يقبله منه فانما استخف بحكم الله و علينا رد و الراد علينا الراد على الله و هو على حد الشرك بالله _ بحار الانوار ج ۲ ص ۲۲۱ ح۱_

۲) عميد زنجانى ، عباس على '' فقہ سياسي'' ج۲ ص ۱۴۸ انتشارات ۱۳۷۷_

۳۴۷

حكم كى مخالفت نہيں كرسكتے اور تمام افراد پر چاہے وہ دوسرے مجتہدين كے مقلد ہوں اس حكم كا اتباع كرنا واجب ہوتاہے _ بلكہ يہ حكم حاكم اور دوسرے مجتہديں پر بھى حجت ہوتاہے _ جبكہ فتوى ميں اگر كوئي مجتہد كسى مسئلہ كے متعلق ايك فتوى ديتاہے تو ممكن ہے بعض ديگر مجتہدين كا فتوى اس كے خلاف ہو (۱)

ولى فقيہ كے حكم كى حدود

''مسئلہ ولايت فقيہ '' كى ايك اہم ترين بحث '' ولى فقيہ كے اختيارات كى حدود'' كے بارے ميں ہے _ كيا يہ اختيارات محدود اور نسبى ہيں ؟ يا ولى فقيہ رسول خدا(ص) كے تمام حكومتى اختيارات كا حامل ہوتاہے ؟ دوسرے لفظوں ميں حكومتى امور ميں فقيہ عادل كى ولايت رسول خدا(ص) كى ولايت كى طرح ہے ؟ يا نہ ؟ اگر چہ بعض افراد فقيہ كے اختيارات كو امور حسبيہ اورمال مجہول المالك ميں تصرف جيسے امور ميں محدود قرار ديتے ہيں _ اور فقيہ عادل كے مكمل اور مطلق اختيارات كے قائل نہيں ہيں _ بلكہ اسے نسبى سمجھتے ہيں _ ليكن اس بات كو ديكھتے ہوئے كہ فقيہ عادل ايك اسلامى حكومت كا سربراہ ہے _ لہذاضرورى ہے كہ وہ اسے بہترين طريقہ سے چلاسكتاہو_ لہذا عوام كے مصالح ، قوانين الہى اور اسلامى موازين و ضوابط كى حدود كے علاوہ ولى فقيہ كے اختيارات كى كوئي حد نہيں ہے _اسى لئے ولايت فقيہ كو ولايت مطلقہ فقيہ سے تعبير كرتے ہيں حكومتى مسائل كے سلسلہ ميں خداوند كريم كى طرف سے رسول خدا كو جو ولايت مطلقہ تفويض ہوئي ہے _ بالكل وہى حكومتى اختيارات ائمہ معصومين (ع) اور ان كے بعد فقيہ عادل كو ديئے گئے ہيں _ اور اس سلسلہ ميں كسى قسم كا كوئي فرق نہيں ہے(۲)

اسى بارے ميں امام خمينى فرماتے ہيں : يہ خيال بالكل غلط ہے كہ رسول خدا (ص) كے حكومتى اختيارات امير المؤمنين (ع) سے زيادہ تھے يا امير المؤمنين كے اختيارات كا دائرہ فقيہ كے اختيارات سے وسيع تر ہے_ البتہ رسول خدا(ص) كے فضائل تمام كائنات سے بڑھ كر ہيں_ اور ان كے بعد حضرت امير المؤمنين كے فضائل

____________________

۱) احكام تقليد و اجتہاد ، موگہى عبدالرحيم ص ۱۶۴ ، سال ۱۳۷۵_

۲) ودموكراسى در نظام ولايت فقيہ كواكبيان ، مصطفى ص ۱۲۶ انتشارات عروج سال ۱۳۷۰_

۳۴۸

سب سے زيادہ ہيں _ ليكن معنوى فضائل كى زيادتى حكومتى اختيارات ميں اضافہ كا باعث نہيں بنتى (۱)

قرآن كريم ، شيعہ و سنى احاديث اور مختلف ابواب ميں فقہاء كے فتاوى ميں غور كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ايك ايسا دين نہيں ہے جو فقط عبادات اور انفرادى آداب و رسوم ميں محدود و منحصر ہو_ اور سياسى ، اجتماعى اور اقتصادى مسائل پر اس كى نگاہ نہ ہو_ خدا ، حكومت ، خاندان ، امت مسلمہ اور غير مسلم امتوں كے متعلق انسان كو اپنى پيدائشے سے ليكر زندگى كے آخرى مراحل تك جو كچھ انجام دينا ہے اس كيلئے اسلام كے پاس قوانين و ضوابط ہيں _ جيسا كہ پہلے كہا جاچكاہے كہ فقيہ كا حكم خدا اور رسول (ص) كا حكم ہے _ اور اسلام ايك عالمگير دين ہے _ فقط مسلمانوں كے ساتھ مربوط نہيں ہے _ جس طرح آيات اور روايات اس حقيقت كى وضاحت كرتى ہيں _ ہم بطور نمونہ بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

( و ما ارسلناك الا كافة للناس بشيراً و نذيراً و لكن اكثر الناس لا يعلمون ) (۲)

اور ہم نے تمہيں تمام افراد كيلئے بشارت دينے اور ڈرانے والا بناكر بھيجا ہے _ ليكن اكثر لوگ نہيں جانتے_

لفظ '' الناس'' ميں شيعہ ، سنى ، مسلمان اور غير مسلمان سب شامل ہيں _ نيز ارشاد ہوتاہے يا ايہا الناس انى رسول اللہ اليكم جميعا(۳) اے لوگوں ميں تم سب كى طرف خدا كا بھيجا ہوا ہوں _ لفظ ''الناس '' ضمير '' كم'' اور لفظ '' جميعاً'' سے معلوم ہوتاہے كہ خطاب سب لوگوں سے ہے اور سب اس ميں شامل ہيں _ آيت سے معلوم ہوتاہے كہ رسول خدا(ص) كا تعلق كسى ايك قوم ، گروہ يا قبيلہ كے ساتھ نہيں ہے بلكہ آپ (ص) خدا كى طرف سے تمام افراد كيلئے بھيجے گئے ہيں _

____________________

۱) ولايت فقيہ ، امام خمينى ص ۶۴ مؤسسہ نشر آثار امام خمينى چاپ اول ۱۳۷۳_

۲) سورة نساء ۲۸_

۳) سورة اعراف ۱۵۸_

۳۴۹

بسم اللہ الرحمن الرحيم

ضميمہ نمبر ۳

سوال : ولى فقيہ كے ساتھ مسلمانوں كا رابطہ اور تعلق كس طرح كا ہونا چاہيئے؟

مختصر جواب:

۱ _ ولايت فقيہ كے الہى اور عوامى جواز والے نظريے كے مطابق غير مسلم ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر بھى ولى فقيہ كى اطاعت واجب ہے _

۲ _ امام خمينى فرماتے ہيں : ولى فقيہ تمام صورتوں ميں ولايت ركھتاہے_ ليكن مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور حكومت كى تشكيل مسلمانوں كى اكثريت آرا كے ساتھ وابستہ ہے_

۳ _ جب دوسرے ممالك ميں مسلمانوں كى سرپرستى كرنے ميں كوئي مشكل در پيش نہ ہو تو پھر امت مسلمہ پر ولايت كے سلسلہ ميں كوئي ركاوٹ نہيں رہتى _

۴ _ امير المؤمنين (ع) امام اور امت كے رابطے كو مندرجہ ذيل موارد كے قالب ميں بيان فرماتے ہيں امت كے امام پر يہ حقوق ہيں خيرخواہي، حقوق كى ادائيگي، تعليم، آداب سكھانا اور امت پر امام كے حقوق ہيں بيعت پر قائم رہنا، خيرخواہى كا حق ادا كرنا اور مطيع رہنا_

۳۵۰

تفصيلى جواب:

مذكورہ سوال كے جواب كے متعلق سب سے پہلے تو مسئلہ كے تمام مفروضات اور اس كے متعلقہ مسائل پر گفتگو كريں گے _ اور آخر ميں رابطہ كى اقسام كو مورد تحقيق قرار ديں گے_

مفروضات _ ايك اسلامى معاشرہ يا جغرافيايى حدود كے ساتھ متعين ايك اسلامى ملك جو ايك خاص سسٹم اور نظام بنام '' ولايت فقيہ'' كے تحت كام كرتاہو(۱) دوسرے لفظوں ميں ايك ايسى سرزمين جس پر اسلامى حكومت كا مكمل تسلط ہو _ اور ايك خاص حيثيت كى حامل ہو كہ جسے ہم ام القرى كہتے ہيں(۲) ام القرى كى اہم ترين اور اصلى خصوصيت يہ ہے كہ ايك تو اس سرزمين پر اسلامى حكومت قائم ہو اور دوسرا يہ كہ ام القرى كى رہبرى كا دائرہ كار تمام امت مسلمہ كى حد تك ہے _اگر چہ فى الحال سرزمين ام القرى كادائرہ كار محدود حد تك ہے(۳) ان مفروضہ موارد كى طرف ديكھتے ہوئے ولى فقيہ كے ساتھ مسلمانوں كے روابط پر بحث كرتے ہيں_

رابطہ كى اقسام

۱ _ سياسى فقہي۲ _ امت اور امام

رابطہ كى اقسام سے پہلے اسلامى ممالك كى حدود، ولايت فقيہ كے معتبر ہونے كى ادلہ اور ولايت فقيہ كے معتبر ہونے ميں بيعت كے كردار جيسے مسائل كى تحقيق كرتے ہيں از نظر اسلام امت اور اسلامى معاشرہ كى وحدت كا اصلى عامل عقيدہ كى وحدت ہے _ ليكن اس كے باوجود يہ ياد رہے كہ ايك طرف تو طبيعى اور بين الاقوامى جغرافيايى حدود كى حامل سرزمين كلى طور پر فاقد اعتبار نہيں ہے _ چنانچہ ہم ديكھتے ہيں كہ دار الاسلام جو كہ مخصوص حدود كے ساتھ مشخص ہوتاہے اسلامى فقہ ميں اس كے خاص احكام موجود ہيں _

____________________

۱) آيت اللہ مصباح يزدى '' اختيارات ولى فقيہ در خارج از مرزہا'' مجلہ '' حكومت اسلامي'' سال اول ش ۱ ص ۸۱_

۲) محمد جواد لاريجانى '' مقولاتى در استراتى ملى '' تہران مركز ترجمہ و نشر كتاب ۱۳۶۷ ص ۲۵_

۳) محمد جواد لاريجانى '' حكومت اسلامى و مرزہاى سياسي'' مجلہ '' حكومت اسلامى '' سال اول ش ۲ زمستان ۷۵ ص ۴۶ ، ۴۵_

۳۵۱

دوسرى طرف عقيدہ كا مختلف ہونا كلى طور پراختلاف كا يقينى عامل نہيں ہے _ كيونكہ ممكن ہے :اسلامى ممالك ميں موجود غير مسلم افرا دكو اسلامى حكومت كى حمايت حاصل ہو_ اورايك طرح سے اس كے شہرى ہوں (۱) ولايت فقيہ كى مشروعيت والے نظريہ كى بناپر ممكن ہے اس كا سرچشمہ ولايت تشريعى الہى ہو يا عوامى ہو _ دوسرى صورت ميں در حقيقت '' بيعت'' ولايت فقيہ كو مشروعيت عطا كرنے ميں بنيادى كردار ادا كرتى ہے _ ولى فقيہ كے مسلمانوں كےساتھ سياسى فقہى تعلق كے بارے ميںآيت اللہ مصباح يزدى فرماتے ہيں :

اگر ہم ولايت فقيہ كى مشروعيت كے سلسلے ميں پہلے نظريہ كے قائل ہوں _ يعنى ولايت فقيہ كا سرچشمہ الہى ولايت تشريعى كو قرار ديں تو پھر اس كا فرمان ہر مسلمان كيلئے لازم الاجراء ہوگا _ پس غير اسلامى ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر بھى اس كى اطاعت واجب ہوگي_

اور اگر دوسرے نظريہ كے قائل ہوں يعنى ولايت فقيہ كى مشروعيت كا سرچشمہ عوام ہوں _ تو كہہ سكتے ہيں كہ امت كى اكثريت كا انتخاب يا اہل حل و عقد اور شورى كے ممبران كى اكثريت كا انتخاب دوسروں پر بھى حجت ہے_

اس نظريہ كى بنياد پر بھى غير مسلم ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر ولى فقيہ كى اطاعت ضرورى ہے چاہے انہوں نے اس كى بيعت كى ہو يا نہ(۲)

اسى كے متعلق جب امام خمينى سے فتوى پوچھا گيا كہ كونسى صورت ميں جامع الشرائط ولى فقيہ اسلامى معاشرہ پر ولايت ركھتاہے تو آپ نے فرمايا :

بسمہ تعالى _ تمام صورتوں ميں ولايت ركھتاہے _ ليكن مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور حكومت كى تشكيل مسلمانوں كى اكثريت آراء كےساتھ مربوط ہے كہ جس كا ذكر اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون

____________________

۱) سابقہ مصدرآيت اللہ مصباح يزدى ص ۸۴_

۲) آيت اللہ مصباح يزدى _ اختيارات ولى فيہ در خارج از مرزہا حكومت اسلامى سال اول ش ۱ ص ۸۸، ۸۹_

۳۵۲

اساسى ميں موجودہے _ اور جسے صدر اسلام ميں بيعت كے ساتھ تعبير كيا جاتا تھا _ روح اللہ الموسوى الخميني (۱)

اس بارے ميں آيت اللہ جوادى آملى فرماتے ہيں :

يہاں دو باتيں ہيں جو ايك دوسرے سے جدا ہونى چاہيں ايك شرعى جہت كے ساتھ مربوط ہے اور دوسرى بين الاقوامى قانون كے ساتھ _شرعى لحاظ سے كوئي مانع نہيں ہے نہ فقيہ كيلئے كہ وہ سب كاوالى ہواور نہ ہى تمام دنيا كے مسلمانوں كيلئے كہ اس كى ولايت كو تسليم كرليں _ بلكہ ايسى ولايت كا مقتضى موجودہے جس طرح مرجع كى تقليد اور قضاوت كا نافذ ہونا ہے _كيونكہ اگر ايك مرجع تقليد (مجتہد) ايك خاص ملك ميں زندگى بسر كرتاہو اور اسى ملك كا رہنے والا ہو تو اس كا فتوى دنيا ميں رہنے والے اس كے تمام مقلدين كيلئے نافذ العمل ہے _ اسى طرح جامع الشرائط فقيہ اگر كوئي فيصلہ صادر كرتاہے تو تمام مسلمانوں پر اس پر عمل كرنا واجب ہے اور اس كى مخالفت كرنا حرام ہے_

اور دوسرا مطلب يعنى بين الاقوامى قانون كے لحاظ سے جب تك كوئي رسمى تعہد او ر قانونى عہد و پيمان اس ولايت كے نافذ ہونے ميں ركاوٹ نہ بنے اور نہ ولايت فقيہ كيلئے كوئي مانع ہو اور نہ ہى دنيا كے دوسرے ممالك كے رہنے والے مسلمانوں كى سرپرستى كيلئے كوئي ركاوٹ ہو تو پھر تقليد اور فيصلے كى طرح يہ ولايت بھى واجب العمل ہوگى _ ليكن اگر كوئي قانونى اور بين الاقوامى عہد اس ولايت كے نفوذ ميں مانع بن جائے اور مخالفين عملى طور پر اس كيلئے ركاوٹ بن جائيں تو پھر فقيہ اور عوام دونوں مجبور ہيں(۲)

اب ہم رابطہ كى دوسرى قسم يعنى امت اور امام كے رابطہ پر بحث كرتے ہيں _ اور اس كيلئے يہاں ہم نہج البلاغہ سے امير المؤمنين (ع) كے كلام كا ايك ٹكڑا ذكر كرتے ہيں _امير المؤمنين قاسطين (اہل صفين) كے

____________________

۱) مصطفى كواكبيان '' مبانى مشروعيت در نظام ولايت فقيہ '' تہران عروج چاپ اول ۱۳۷۸ ص ۲۵۸ ، ۲۵۷_

۲) عبداللہ جوادى آملى '' ولايت فقيہ'' ولايت فقاہت و عدالت'' اسراء ، چاپ اول ۱۳۷۸ ، ص۴۷۸، ۴۷۹_

۳۵۳

خلاف جنگ پر ابھارتے ہوئے لوگوں سے فرماتے ہيں :

اے لوگو ميرا تم پر ايك حق ہے او رتمہارا بھى مجھ پر ايك حق ہے _ مجھ پر واجب ہے كہ تمہارى خير خواہى سے دريغ نہ كروں_ بيت المال ميں سے جو تمہارا حق ہے اسے ادا كروں _ تمہيں تعليم دوں تا كہ جاہل نہ رہو_ اور تمہيں آداب سكھاؤں تا كہ اہل علم بنو_

اور ميرا تم پر يہ حق ہے كہ ميرى بيعت پر قائم رہو_ پوشيدہ اور علانيہ طور پر ميرى خير خواہى كا حق ادا كرو _ جب تمہيں بلاؤں تو آجاؤ اور جب حكم دوں تو اس پر عمل كرو(۱)

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۳۴_

۳۵۴

اصطلاحات

۱) Rationality

۲) Secular Rationality

۳) Industrial Democracy

۴) Liberalism

۵) Pluralism

۶) Realism

۷) Nazism

۸) fascism

۹) Absolute choiceism

۱۰) Relativism

۱۱) Pluralism

۱۲) Individualism

۱۳) Wholism

۱۴) Political philosophy

۱۵) Strategic Studies

۱۶) Constitutionality

۱۷) Assembly Of Experts

۳۵۵

فہرست

پہلا باب : ۴

دين اور سياست ۴

تمہيد: ۵

پہلا سبق : ۶

سياست اور اس كے بنيادى مسائل ۶

علم سياست اور سياسى فلسفہ(۱) ۸

خلاصہ ۱۳

سوالات : ۱۴

دوسرا سبق : ۱۵

اسلام اور سياست ۱۵

سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كى ادلّہ ۱۹

اسلام كا سياسى فلسفہ اور سياسى فقہ ۲۱

سبق كا خلاصہ : ۲۳

سوالات: ۲۴

تيسرا سبق: ۲۵

دينى حكومت كى تعريف ۲۵

حكومت اور رياست كے معاني ۲۶

دينى حكومت كى مختلف تعريفيں ۲۷

مذكورہ چار تعريفوں كا مختصر تجزيہ ۲۹

۳۵۶

خلاصہ : ۳۱

سؤالات ۳۲

چوتھا سبق: ۳۳

سياست ميں حاكميت دين كى حدود ۳۳

حكومت اور اس كے سياسى پہلو: ۳۴

حاكميت دين كى حدود ۳۶

خلاصہ: ۳۹

سوالات : ۴۰

پانچواں سبق: ۴۱

دينى حكومت كے منكرين ۴۱

سياست سے اسلام كى جدائي ۴۳

دينى حكومت كا تاريخى تجربہ : ۴۶

خلاصہ ۴۹

سوالات : ۵۰

چھٹا سبق: ۵۱

سيكولرازم اور دينى حكومت كا انكار ۵۱

سيكولرازم كى تعريف: ۵۱

دين اور سيكولرازم ۵۵

خلاصہ : ۵۸

سوالات : ۵۹

۳۵۷

ساتواں سبق: ۶۰

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلہ -۱- ۶۰

پہلى دليل: ۶۰

اس پہلي دليل كا جواب ۶۲

خلاصہ : ۶۵

سوالات : ۶۶

آٹھواں سبق : ۶۷

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلّہ -۲- ۶۷

دوسرى دليل : ۶۷

اس دوسرى دليل كاجواب: ۶۸

خلاصہ : ۷۲

سوالات : ۷۳

دوسرا باب : ۷۴

اسلام اور حكومت ۷۴

تمہيد : ۷۵

نواں سبق: ۷۶

آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت -۱- ۷۶

حكومت كے بغير رسالت ۷۷

پہلى دليل كا جواب ۸۰

دوسرى دليل كا جواب : ۸۲

۳۵۸

خلاصہ : ۸۵

سوالات : ۸۶

دسواں سبق: ۸۷

آنحضرت (ص) اور تأسيس حكومت -۲- ۸۷

جابرى كے نظريئےکا جواب : ۸۹

آنحضرت (ص) كى حكومت كا الہى ہونا : ۹۱

خلاصہ : ۹۶

سوالات : ۹۷

گيا رہواں سبق: ۹۸

آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت ۹۸

اہلسنت اور نظريہ خلافت : ۱۰۰

خلاصہ : ۱۰۵

سوالات : ۱۰۶

بارہواں سبق : ۱۰۷

شيعوں كا سياسى تفكر ۱۰۷

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر : ۱۱۲

خلاصہ : ۱۱۵

سوالات : ۱۱۶

تيرہواں سبق: ۱۱۷

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۱- ۱۱۷

۳۵۹

بيعت كا مفہوم اور اس كى اقسام : ۱۱۸

نظريہ انتخاب كى مؤيد روايات ۱۲۰

صدور روايات كا زمانہ اور ماحول: ۱۲۳

خلاصہ: ۱۲۶

سوالات ۱۲۷

چودہواں سبق: ۱۲۸

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۲- ۱۲۸

ان روايات كے جدلى ہونے كى دليليں ۱۲۹

خلاصہ : ۱۳۷

سوالات: ۱۳۸

تيسرا باب: ۱۳۹

ولايت فقيہ كا معنى ، مختصر تاريخ اور ادلّہ ۱۳۹

تمہيد : ۱۴۰

پندرہواں سبق: ۱۴۱

ولايت فقيہ كا معني ۱۴۱

ولايت كى حقيقت اور ماہيت ۱۴۲

اسلامى فقہ ميں دوطرح كى ولايت ۱۴۴

خلاصہ ۱۴۶

سوالات: ۱۴۷

سولہواں سبق : ۱۴۸

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367