اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت21%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139048 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پانچواں سبق:

دينى حكومت كے منكرين

''دينى حكومت'' ايك سياسى نظريہ ہے ، جو مختلف سياسى و حكومتى امور ميں دين كى حكمرانى كوتسليم كرنے سے وجود ميں آتا ہے _ دينى حكومت وہ حكومت ہے جو دين كے ساتھ سازگار ہوتى ہے اور كوشش كرتى ہے كہ دين كے پيغام پر لبيك كہے جو انتظامى امور ، اجتماعى و سماجى روابط اور ديگر حكومتى امور ميں دين كى باتوں پركان دھرے اور معاشرتى امور كو دينى تعليمات كى روشنى ميں منظم كرے _يہ تمام بحث گذر چكى ہے _

دين اور حكومت كى تركيب اور دينى حكومت كے قيام كے ماضى ميں بھى مخالفين رہے ہيں اور آج بھى موجود ہيں _ اس مخالفت سے ہمارى مراد دين اور حكومت كى تركيب كا نظرياتى انكار ہے اور دينى حكومت كے خلاف سياسى جنگ اور عملى مخالفت ہمارى بحث سے خارج ہے_ دينى حكومت كے منكرين وہ افراد ہيں جو نظريہ'' تركيب دين و حكومت ''اور مختلف سياسى امور ميں دين كى حكمرانى كو منفى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور اس كاانكار كرتے ہيں_ اس انكار كى مختلف ادلّہ ہيں اختلاف ادلّہ كے اعتبار سے دينى حكومت كے مخالفين و منكرين كى ايك مجموعى تقسيم بندى كى جاسكتى ہے _

دينى حكومت كے مخالفين تين گروہوں ميں تقسيم ہوتے ہيں_

۴۱

۱_ وہ مسلمان جو معتقد ہيں كہ اسلام صرف انسان كى معنوى اور اخلاقى ہدايت كيلئے آيا ہے اور فقط انسان كو آداب عبوديت سيكھاتا ہے ان افراد كے بقول اسلام نے سياسى امور ميں كسى قسم كى مداخلت نہيں كى ہے _ دين اور سياست دو الگ الگ چيزيں ہيں اور دينى اہداف سياست ميں دين كى دخالت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتے _

دينى حكومت كے مخالفين كايہ گروہ سياسى امور ميں دين كى حكمرانى كا كلى طور پر انكار نہيں كرتا بلكہ اس كا اصرار يہ ہے كہ اسلامى و دينى تعليمات ميں سياسى پہلو مفقود ہے _ يہ افراد اس بات كو تسليم كرتے ہيں كہ اگر دينى تعليمات ميں تشكيل حكومت كى دعوت دى گئي ہوتى اور دين نے مختلف سياسى شعبوں اور حكومتى امور ميں عملى طور پر راہنمائي كى ہوتى تو دينى حكومت كى تشكيل ميں كوئي ركاوٹ نہ ہوتى _ بنابريں دينى حكومت كے قائلين كے ساتھ ان كاجھگڑا فقہى و كلامى ہے _ نزاع يہ ہے كہ كيا دينى تعليمات ميں ايسے دلائل اور شواہد موجود ہيں جوہميں دينى حكومت كى تشكيل اور دين و سياست كى تركيب كى دعوت ديتے ہيں ؟

۲_ دينى حكومت كے مخالفين كا دوسرا گروہ ان افراد پر مشتمل ہے ، جو تاريخى تجربات اور دينى حكومتوں كے قيام كے منفى نتائج كى وجہ سے دين اور سياست كى جدائي كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں دينى حكومت كى تشكيل كے بعض تاريخى تجربات كچھ زيادہ خوشگوار نہيں تھے _ اس كى واضح مثال قرون وسطى ميں يورپ ميں قائم كليسا كى حكومت ہے كہ جس كے نتائج بہت تلخ تھے _

اس نظريہ كے قائلين كى نظر ميں دين و سياست كى تركيب دين كے چہرہ كو بگاڑ ديتى ہے اور اس سے لوگوں كا دين كو قبول كرنا خطرے ميں پڑجاتاہے_ لہذا بہتر ہے كہ دين كو سياست سے جدا ركھا جائے_ چاہے سياست اور حكومت كے سلسلہ ميں دينى تعليمات موجود ہى كيوں نہ ہوں _ بنابريں اس گروہ كے بقول بحث

۴۲

اس ميں نہيں ہے كہ دين سياسى پہلو كا حامل نہيں ہے بلكہ يہ افراد سياست اور حكومت ميں دينى تعليمات كى دخالت ميں مصلحت نہيں سمجھتے _ ان كا عقيدہ ہے كہ اگر چہ دين سياسى جہات كا حامل ہى كيوں نہ ہو تب بھى دينى حكومت كى تشكيل كے منفى اور تلخ نتائج كى وجہ سے اس قسم كى دينى تعليمات سے ہاتھ كھينچ لينا چاہيے اور سياست كو خالصة ً لوگوں پر چھوڑ ديناچاہيے _

۳_ دينى حكومت كے مخالفين كا تيسرا گروہ وہ ہے جو امور سياست ميں دين كى مداخلت كاكلى طور پرمخالف ہے _ يہ افراد سياسى اور حكومتى امور ميں دين كى حكمرانى كو تسليم نہيں كرتے _ ان كى نظر ميں بات يہ نہيں ہے كہ كيا حكومتى امور او رمعاشرتى نظام كے متعلق دين كے پاس تعليمات ہيں يا نہيں ؟ بلكہ ان كى نظر ميں دين كو اجتماعى اور سياسى امو رسے الگ رہنا چاہيے اگر چہ اجتماعى اور سياسى امور كے متعلق اس كے پاس بہت سے اصول اور تعليمات ہى كيوں نہ ہوں _ اس نظريہ كى بنياد پر اگر دين، سياسى امور ميں اپنے لئے حكمرانى كا قائل ہو اور اس نے دينى حكومت تشكيل دينے كا كہا ہو ،اور مختلف سياسى امور ميں اپنى تعليمات پيش بھى كى ہوں ليكن عملى طور پر سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو تسليم نہيں كيا جا سكتا كيونكہ سياست او رمعاشرتى نظام مكمل طو ر پر انسانى اور عقلى امر ہے او ردين اس ميں مداخلت كى صلاحيت نہيں ركھتا اور اس ميں دين كو دخيل كرنے كا واضح مطلب، انسانى علم و دانش اور تدبر وعقل سے چشم پوشى كرنا ہے_يہ افراد در حقيقت سيكو لر حكومت كى حمايت كرتے ہے اور مكمل طور پر سيكولرازم كے وفادار ہيں _

سياست سے اسلام كى جدائي

جيسا كہ اشارہ ہو چكا ہے : دينى حكومت كے مخالفين كا پہلا گروہ يہ اعتقاد ركھتا ہے كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں مسلمانوں كو دينى حكومت كى تشكيل كى ترغيب نہيں دلائي _ان كا زور اس بات پر ہے كہ

۴۳

آنحضرت (ص) مدينہ ميں كئي سال رہے ليكن كيا آپ (ص) نے وہاں حكومت تشكيل دى ؟اگر مان بھى ليا جائے كہ حكومت قائم كى تھى سوال يہ ہے كہ كيا اس حكومت كے قيام كا سرچشمہ فرمان الہى اور دعوت دينى تھى ؟ يا نہيں بلكہ اس كا سرچشمہ صرف عوام تھے ،اور تشكيل حكومت كے سلسلہ ميں اسلامى تعليمات خاموش تھيں ؟

تاريخى حقيقت يہ ہے كہ ہجرت مدينہ كے بعد آنحضرت (ص) نے اطراف مدينہ كے قبائل كو اسلام كى دعوت دى تھى اورايك اتحاد تشكيل ديا كہ جس كا مركز مدينة النبى تھا_

اس سے مسلمانوں نے ہميشہ يہى سمجھا كہ آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں حكومت بنائي تھي_ نبوت اور ہدايت وراہنمائي كے ساتھ ساتھ مسلمانوں كے سياسى امور كى باگ ڈور بھى آپ (ص) كے ہاتھ ميں تھى آپ (ص) كے اس اقدام كا سرچشمہ وحى اور الہى تعليمات تھيں او رآنحضرت (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ فرمان الہى تھا:

''( النبى اولى بالمؤمنين من انفسهم ) ''

نبى تمام مومنين سے ان كے نفس كى نسبت زيادہ اولى ہے_ (سورہ احزاب آيت۶)

''( انّا انزلنااليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بمااريك الله ) ''

ہم نے آپ پر برحق كتاب نازل كى ہے تاكہ آپ لو گوں كے در ميان حكم خدا كے مطابق فيصلہ كريں_(سورہ نساء آيت ۱۰۵)

ان دو آيات ميں الله تعالى نے مسلمانوں پر آنحضرت (ص) كو ولايت عطا فرمائي ہے اور آپ (ص) كو حكم دياہے كہ قرآن نے آپ كو جو سيكھاياہے اس كے مطابق لوگوں كے در ميان فيصلہ كريں_ اسى طرح دوسرى آيات ميں مسلمانوں كو حكم دياہے كہ وہ آپ (ص) كى اطاعت كريں_

''( اطيعواالله واطيعواالرسول ) ''

خدا اور رسول كى اطاعت كرو (سورہ نساء آيت۵۹)

۴۴

( ''فلا و ربّك لا يؤمنون حتى يحكّموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوافى انفسهم حرجامّما قضيتَ و يسلّمواتسليماً'' )

پس آپ(ص) كے پروردگار كى قسم يہ كبھى بھى صاحب ايمان نہيں بن سكتے جب تك آپ كو اپنے باہمى اختلاف ميں منصف نہ بنائيں اور پھر جب آپ فيصلہ كرديں تو اپنے دل ميں كسى تنگى كا احساس نہ كريں_ اور آپ كے فيصلہ كے سامنے سرا پا تسليم ہوجا ہيں_(سورہ نساء آيت ۶۵)

اس مشہور و معروف تفسير كى بنياد پر صدر اسلام ميں مسلمانوں كے دينى حكومت كے تشكيل دينے كا سرچشمہ دين اور اس كى تعليمات تھيں اور يہ اقدام مكمل طور پر دينى اور مشروع تھا اور در حقيقت يہ دين كے پيغام پر لبيك تھا_ ليكن آخرى عشروں ميںبعض سنى اور بہت كم شيعہ مصنفين نے اس معروف تفسير اور نظريہ كى مخالفت كى ہے_(۱)

مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى اس سياسى حاكميت كى يہ افراد كچھ اور تفسير كرتے ہيں_ بعض تو سرے سے ہى اس كے منكر ہيں اور اس بات پر مصر ہيں كہ آنحضرت (ص) صرف دينى رہبر و قائد تھے اور انہوں نے حكومتى و سياسى امور كبھى بھى اپنے ہاتھ ميں نہيں لئے تھے_ جبكہ اس كے مقابلہ ميں بعض افراد معتقد ہيں كہ آنحضرت (ص) سياسى ولايت بھى ركھتے تھے ليكن يہ ولايت خدا كى طرف سے عطا نہيں ہوئي تھى بلكہ اس كا سرچشمہ رائے عامہ تھي_ اورلوگوںنے ہى حكومت آپ كے سپرد كى تھي_ پس دين نے اپنى تعليمات ميں تشكيل حكومت كى دعوت نہيں دى ہے اور رسولخدا (ص) كى حكومت خالصةًايك تاريخى اور اتفاقى واقعہ تھا لہذا اسے ايك دينى دستور كے طور پر نہيں ليا جاسكتا_

ہم اس كتاب كے دوسرے باب ميں جو اسلام كے سياسى تفكر كى بحث پر مشتمل ہے مذكورہ نظريوں كے

____________________

۱) اس بحث كا آغاز ۱۹۲۵ عيسوى ميں مصرى مصنف على عبدالرزاق كى كتاب '' الاسلام و اصول الحكم'' كے چھپنے كے بعد ہوا_

۴۵

بارے ميں تفصيلى گفتگو كريں گے اور دينى حكومت كے مخالف اس گروہ كى ادلہ كا جواب ديں گے_

دينى حكومت كا تاريخى تجربہ :

پہلے اشارہ كر چكے ہيں كہ دينى حكومت كے مخالفين كا دوسرا گروہ دينى حكومت كى تشكيل كے منفى اور تلخ نتائج پر مصر ہے اور يہ افراد اپنے انكار كى بنياد انہى منفى نتائج كو قرار ديتے ہيں_ ان كى ادلّہ كا محور دينى حكومت كے قيام كے تاريخى تجربات كا تنقيدى جائزہ ہے_

ان افراد كے جواب كے طور پر ہم چند نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱_ انسانى تاريخ مختلف قسم كى دينى حكومتوں كى گواہ ہے_ ان ميں سے بعض اپنى تاريخى آزمائشےوں ميں كامياب نہ ہوسكيں ليكن بعض انبيائ اور اوليا الہى كى حق اور عدل و انصاف پر مبنى حكومتيں دينى حكومت كى تاريخ كا سنہرى ورق ہيں_ مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى دس سالہ قيادت و رہبرى اور حضرت امير المؤمنين كى تقريباً پانچ سالہ حكومت، دينى حكومت كى بہترين مثاليں ہيں_ جن كى جزئيات اور درخشاں دور تاريخ كے ہر محقق اور مورّخ كے سامنے ہے_ اس دور ميں عدل ، تقوى اور فضيلت كى حكمرانى كے روح پرور جلوے ايسے خوشگوار اور مسرت انگيز ہيں كہ نہ صرف مسلمانوں كيلئے بلكہ پورى انسانيت كيلئے قابل فخر و مباہات ہيں_ بنابريں كلى طور پر تمام دينى حكومتوں كو يكسر رد نہيں كيا جاسكتا _ بلكہ علمى انصاف كا تقاضا يہ ہے كہ ہر تاريخى تجربہ كا باريك بينى سے جائزہ ليا جائے_

۲_ دينى حكومت كے بھى مراتب اور درجات ہيں_ عالم اسلام اور عيسائيت كى بعض دينى حكومتيں اگر چہ بہت اعلى اور مطلوب حد تك نہيں تھيں ليكن اپنے دور كى غير دينى حكومتوں سے بہت بہتر تھيں_ عالم اسلام كى

۴۶

ابتدائي سو سالہ اسلامى حكومتيں '' اگر چہ ہمارے نزديك ان ميں سے اكثر حكومتيں غاصب تھيں اور اسلامى اصولوں پر استوار نہيں تھيں'' اس كے باوجود دينى حكومت كے كچھ مراتب كا پاس ضرور ركھتى تھي_ لہذا يہ ادعا كيا جاسكتا ہے كہ يہ حكومتيں اپنے دور كى غير دينى حكومتوں كى نسبت بہت سے بہتر نكات كى حامل تھيں_مفتوحہ علاقوں كے رہنے والوں سے مسلمان فاتحين كے سلوك كو بطور نمونہ پيش كيا جاسكتا ہے كہ جس نے ان كے اسلام لانے ميں اہم كردار ادا كيا_ اس لحاظ سے كشور كشائي كے خواہشمند سلاطين اور دوسرى فاتح حكومتوں كا ان سے مقائسہ نہيں كيا جاسكتا_

۳_ اس حقيقت سے انكار نہيں كيا جاسكتا كہ بہت سے اعلى حقائق ، گرانقدرمفاہيم اور بلند و بالا اہداف سے غلط استفادہ كيا جاسكتا ہے _ كيا نبوت كے جھوٹے دعوے نہيں كئے گئے ؟ كيا آبادكارى اور تعمير و ترقى كے بہانے استعمارى حكومتوں نے كمزور ممالك كو تاراج نہيں كيا؟ موجودہ دور ميں جمہوريت اور آزادى كى علمبردار مغربى حكومتوں نے حقوق بشر اور آزادى كے بہانے عظيم جرائم كا ارتكاب نہيں كيا؟ اور فلسطين جيسى مظلوم قوموں كے حق ميں تجاوز نہيں كيا؟

ان غلط استفادوں اور تحريفات كا كيا كيا جائے؟ كيا نبوت ، امامت ، دين ، آزادى اور حقوق بشر كو ترك كرديا جائے؟ صرف اس دليل كى بنياد پر كہ بعض افراد نے بعض موارد ميں ان گرانقدر اور مقدس امور سے غلط استفادہ كيا ہے؟ بلكہ معقول اور منطقى بات يہ ہے كہ ہوشيارى ، دقت ، آگاہى اور طاقت سے غلط كاريوں اور سوء استفادہ كى روك تھام كى جائے_

دينى حكومت بھى ان مشكلات سے دوچار ہے _ دين كے تقدس اوردينى حكومت سے غلط فائدہ اٹھانے اور دين كى حقيقت اور روح كو پس پشت ڈال دينے كا امكان ہميشہ موجود ہے_ دينى حكومتوں كو راہ راست

۴۷

سے بھٹكنے اور دينى تعليمات سے ہٹنے كا خطرہ ہميشہ موجود رہتا ہے لہذا صاحبان دين كى علمى آگاہى اور نظارت كى ضرورت مزيد بڑھ جاتى ہے_ ليكن كسى صورت ميں بھى يہ بات عقلى و منطقى نہيں ہے كہ ان خطرات كى وجہ سے دين كى اصل حاكميت اور سماج و سياست ميں اس كے كردار سے منہ موڑليا جائے_صاحبان دين كو ہميشہ اس كى طرف متوجہ رہنا چاہيے كہ حقيقى اسلام كا نفاد اور دين مقدس كى گرانقدر تعليمات كى بنياد پر اجتماعى امور كى تدبير لوگوں كيلئے كس قدر شيريں ، گوارا اور پر ثمر ہے_

۴۸

خلاصہ

۱) دين اور سياست كى تركيب كے مخالفين تين قسم كے ہيں_

الف : دينى حكومت كے مخالفين كا ايك گروہ وہ مسلمان ہيں جن كا عقيدہ يہ ہے كہ اسلام نے دينى حكومت كے قيام كى دعوت نہيں دى اور سياست كے متعلق اس كے پاس كوئي خاص اصول اور تعليمات نہيں ہيں_

ب: مخالفين كا دوسرا گروہ دينى حكومت كے انكار كى بنياد ماضى ميں قائم دينى حكومتوں كے تلخ اور ناخوشگوار نتائج كو قرار ديتا ہے_

ج : تيسرا گروہ سرے سے اجتماعى اور سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو تسليم ہى نہيںكرتا_

۲) تاريخى حقيقت يہ ہے كہ آنحضرت (ص) نے دينى حكومت قائم كى تھى اور ان كى سياسى فرمانروائي كا سرچشمہ وحى الہى تھى _

۳) طول تاريخ ميں تمام دينى حكومتيں منفى نہيں تھيں بلكہ ان ميں سے بعض قابل فخر اور درخشاں دور كى حامل تھيں_

۴)مقدس امور سے غلط استفادہ كا امكان صرف دين اور دينى حكومت ميں منحصر نہيں ہے بلكہ دوسرے مقدس الفاظ و مفاہيم سے بھى غلط استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۴۹

سوالات :

۱) دين و سياست كى تركيب كے مخالفين كى مختصر تقسيم بندى كيجئے_

۲) جو افراد دينى حكومت كے انكار كى وجہ تاريخ كے تلخ تجربات كو قرار ديتے ہيں وہ كيا كہتے ہيں؟

۳) رسولخد ا (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ كيا ہے؟

۴) دينى حكومت كے منكرين كے دوسرے گروہ كو ہم نے كيا جواب ديا ہے؟

۵۰

چھٹا سبق:

سيكولرازم اور دينى حكومت كا انكار

گذشتہ سبق ميں اشارہ كرچكے ہيں كہ دينى حكومت كے منكرين كا تيسرا گروہ اجتماعى اور سياسى امور ميں سرے سے ہى دينى حاكميت كى مخالفت كرتا ہے اور سيكولر حكومت كى حمايت كرتا ہے_ اگر چہ اس نظريہ كے قائلين خود كو سيكولر نہيں كہتے ليكن حقيقت ميں سيكولرازم كے بنيادى ترين اصول كے موافق اور سازگار ہيںكيونكہ يہ اجتماعى اور سياسى امور ميں دين سے بے نيازى كے قائل ہيں ان افراد كى ادلّہ كى تحقيق سے پہلے بہتر ہے سيكولرازم اور اس كے نظريات كى مختصر وضاحت كردى جائے_

سيكولرازم كى تعريف:

سيكولرازم(۱) وہ نظريہ ہے جو يورپ ميں عہد '' رنسانس'' كے بعد اقتصادى ، ثقافتى اور سماجى تحولات كے نتيجہ ميں معرض وجود ميں آيا_ اس كا اہم ترين نتيجہ اور اثر سياست سے دين كى عليحد گى كا نظريہ ہے_ سيكولرازم كا فارسى ميں دنيوى ، عرفى اور زمينى جيسے الفاظ سے ترجمہ كيا گيا ہے_ اور عربى ميں اس كيلئے '' العلمانيہ '' اور

____________________

۱) Secularism

۵۱

''العَلَمانية ''كے الفاظ استعمال كئے جاتے ہيں_ جنہوں نے سيكولرازم كيلئے لفظ ''العلمانيہ'' كا انتخاب كيا ہے_ انہوں نے اس كو '' علم '' سے مشتق جانا ہے _ اور اسے علم كى طرف دعوت دينے والا نظريہ قرار ديا ہے اور جنہوں نے اس كيلئے ''العَلمانية'' كے لفظ كا انتخاب كيا ہے _ انہوں نے اسے عالَم ( دنيا ، كائنات) سے مشتق سمجھاہے اور سكولرازم كو آخرت كى بجائے دنيا پر ستى والا نظريہ قرار ديا ہے كہ وحى الہى سے مدد لينے كى بجائے انسان كى دنيوى طاقت مثلا عقل و علم سے مدد لى جائے_

فارسى اور عربى كے اس جيسے ديگر الفاظ اور خود لفظ (سيكولر) اس اصطلاح كے تمام اور ہمہ گير مفہوم كو ادا نہيں كرسكتے _ طول زمان كے ساتھ ساتھ بہت سى تاريخى اصطلاحوں كى طرح لفظ سيكولرازم اور سيكولر بھى مختلف اور متعدد معانى ميں استعمال ہوتے رہے ہيں اور تاريخى تحولات كے ساتھ ساتھ ان كے معانى بدلتے رہے ہيں_ابتدا ميں سيكولر اور لائيك(۱) كى اصطلاحيں غير مذہبى و غير دينى معانى و مفاہيم كيلئے استعمال ہوتى تھيں_قرون وسطى ميں يورپ ميں بہت سى موقوفہ اراضى ( وقف شدہ زمين) تھيں جو مذہبى افراد اور راہبان كليسا كے زير نظر تھيں جبكہ غير موقوفہ اراضى غير مذہبى يعنى سيكولر افراد كے زير نظر تھيں اس لحاظ سے سيكولر غير مذہبى اور غير پادرى افراد كو كہا جاتا تھا_

____________________

۱) آج بہت سى حكو متوں كو لائيك اور سيكولر كہا جاتاہے _ قابل غور ہے كہ سيكولر اور لائيك كے درميان كوئي بنيادى فرق نہيں ہے_ اور دونوں اصطلاحيں ايك ہى مخصوص نظريہ پر دلالت كرتيں ہيں _ وہى نظريہ جو سياست ميں دين كى مداخلت كو قبول نہيں كرتا _ اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ پروٹسٹنٹ t Protestan (دين مسيحيت كے ماننے والوں كا ايك فرقہ) علاقوں ميں سيكولرازم اور سيكولر كى اصطلاحيں رائج ہوئيں_ ليكن كيتھولك ممالك مثلا فرانس و غيرہ ميں لائيك اور لائيسيتہ ( Laicite ) كى اصطلاح مشہور ہوئي _ و گرنہ لائيك اور سيكولر ميں معنى كے لحاظ سے كوئي فرق نہيں ہے_

۵۲

زمانہ كے گزرنے كے ساتھ ساتھ لفظ سيكولر اور لائيك ايك مخصوص معنى ميں استعمال ہونے لگے_ حتى كہ بعض موارد ميں اس سے دين اور صاحبان دين سے دشمنى كى بو آتى ہے _ ليكن اكثر موارد ميں انہيں غير مذہبيت يا كليسا اور مذہبى لوگوں كے تحت نظر نہ ہونے كيلئے استعمال كيا جاتا تھا نہ كہ دين دشمنى كے معنى ميں_ مثلا سيكولر مدارس ان سكولوں كو كہتے ہيں جن ميں دينى تعليم كى بجائے رياضى يا دوسرے علوم كى تعليم دى جاتى ہے اور ان كے اساتذہ مذہبى افراد اور پادرى نہيں ہوتے _

آہستہ آہستہ يہ فكر اور نظريہ رائج ہونے لگا كہ نہ صرف بعض تعليمات اور معارف ، دين اور كليسا كے اثر و نفوذ سے خارج ہيں بلكہ انسانى زندگى كے كئے شعبے دين اور كليسا كے دائرہ كار سے خارج ہيں_

يوں سيكولرازم اور لائيك نے ايك نئي فكرى شكل اختيار كر لى اور سيكولرازم نے كائنات اورانسان كو ايك نيا نظريہ ديايہ نيا نظريہ بہت سے موارد ميں دين كى حاكميت اور اس كى تعليمات كى قدر و قيمت كا منكر ہے_

سيكولر حضرات ابتداء ميں علم اور ايمان كى عليحد گى پر اصرار كرتے تھے_ اس طرح انہوں نے تمام انسانى علوم حتى كہ فلسفى اور ماورائے طبيعت موضوعات كو بھى دينى حاكميت اور دينى تعليمات كے دائرے سے خارج كرديا_البتہ ان لوگوںكى يہ حركت اور فكر كليسا كى سخت گيرى كا نتيجہ اور رد عمل تھا كہ جنہوں نے علم و معرفت كو عيسائيوں كى مقدس كتب كى خو د ساختہ تفسيروں ميں محدود كرديا تھا اور دانشوروں كى تحقيقات اور علمى رائے كى آزادى كو سلب كرليا تھا_ مسيحى كليساؤں نے قرون وسطى كے تمام علمى ، ادبى اور ثقافتى شعبوں ميں مقدس كتب اور اپنى اجارہ دارى قائم كر ركھى تھي_ اس وجہ سے سيكولر حضرات رد عمل كے طور پر'' سيكولر علوم اور وہ علوم جو دين اور كليسا كى دسترس سے خارج تھے'' كے دفاع كيلئے اٹھ كھڑے ہوئے_

علم طبيعيا سے علم فلسفہ ميں بھى يہى بات سرايت كر گئي اور سيكولر فلسفہ كى بنياد پڑي_ پھر آہستہ آہستہ سياسى

۵۳

اور سماجى و اجتماعى امور بھى اس ميں داخل ہوگئے اور علم و فلسفہ كى طرح سياسى ميدان ميں بھى سيكولرازم كى راہ ہموار ہوگئي _ سيكولر افراد كے ہاں سياست سے دين كى جدائي كا نظريہ اور سياسى امور ميں دين اور كليساكى حاكميت كى نفى كا نظريہ شدت اختيار كر گيا لہذا سيكولرازم نہ صرف سياست سے دين كى عليحد گى كا حامى ہے بلكہ علم سے بھى دين كى جدائي كا دفاع كرتا ہے_ بنيادى طور پر سيكولرازم اس كا خواہاں ہے كہ ان تمام امور كو سيكولر اور غير دينى ہوجانا چاہيے جو دين كے بغير قائم رہ سكتے ہيں_ پس سيكولرازم ، سيكولر علم ، سيكولر فلسفہ ، سيكولر قانون اور سيكولر حكومت كا حامى ہے_

سيكولر ازم كى بنياد ايك ايسى چيز پر ہے جسے'' سيكولر عقلانيت''(۱) كہتے ہيں _ اس مخصوص عقلانيت(۲) نے موجودہ مغربى معاشرہ كى تشكيل ميں بہت بڑا كردار ادا كيا ہے_ '' سيكولر عقلانيت '' نے ايك طرف حاكميت دين كى حدودكے متعلق نئے نظريات پيش كئے ہيں تو دوسرى طرف انسانى عقل اور علم كى اہميت پر زور ديا ہے_ سيكولرازم صرف انسان كى انفرادى زندگى اور اس كے خدا كے ساتھ تعلق ميں دين كى حاكميت كا قائل ہے جبكہ انسان كى علمى اور اجتماعى زندگى ميں دين كى حكمرانى كو تسليم نہيں كرتا_ بلكہ ان امور ميں انسانى علم اورعقل كى فرمانروائي پر زور ديتا ہے'' سيكولر عقلانيت'' كے نزديك انسانى علم و عقل ہر قسم كے سرچشمہ معرفت سے مستقل اور بے نياز ہے لہذا اسے اپنے استقلال اور بے نيازى پر باقى رہنا چاہيے _ انسانى عقل اور علم ، دين اور ہر قسم كے سرچشمہ معرفت سے بے نياز اور مستقل رہتے ہوئے انسانى زندگى كى پيچيدگيوں كو حل كرنے كى صلاحيت ركھتے ہيں_ اس طرح سيكولرازم نے سيكولر عقلانيت اور انسانى عقل و علم كے بارے ميں اس خاص

____________________

۱) Secular Rationality

۲) Rationality

۵۴

نظريہ كى بناء پر آہستہ آہستہ مختلف علمى امور سے دين كى حاكميت كو ختم كيااور علمى زندگى اورموجودہ مغربى معاشرہ كے مختلف شعبوں ميں خود انسان اور عقل پر زيادہ زور دينے لگا _ (۱)

دين اور سيكولرازم

سيكولرازم عقل اورا نسانى علم كو وحى اور دينى تعليمات سے بے نياز سمجھتا ہے اور ان تمام امور ميں دين كى طرف رجوع كرنے كى نفى كرتا ہے جن تك انسانى عقل اور علم كى رسائي ہے _ سيكولرازم كى نظر ميں صرف ان امور ميں دين كى حاكميت قبول ہے جن تك انسانى عقل اور علم كى رسائي نہيں ہوتى _دين كے ساتھ سيكولرازم كے اس رويہ كو كيا الحاد اور دين دشمنى كا نام ديا جاسكتا ہے؟

حقيقت يہ ہے كہ حاكميت دين كى حدود سے متعلق سيكولرازم كى تفسير اس تفسير سے بالكل مختلف ہے جو صاحبان دين كرتے ہيں_ صاحبان دين كے نزديك دين كى مشہور، رائج اور قابل قبول تشريح يہ ہے كہ دين كى حاكميت صرف انسان كى خلوت اور خدا كے ساتھ اس كے انفرادى رابطے تك منحصر نہيں ہے بلكہ ايك انسان كا دوسرے انسان سے تعلق ، اور انسان كا كائنات اور فطرت سے تعلق سب دينى ہدايت كے تابع ہيںاور اجتماعى زندگى كے مختلف شعبوں ميں دين نے اپنى تعليمات پيش كى ہيں_ دين كے بارے ميں اس رائج فكر كے ساتھ ''سيكولر عقلانيت'' اتنا فرق نہيں ركھتى كہ ہم سيكولرازم كو ملحد اور دشمن دين سمجھيں _ سيكولرازم كا انسانى عقل و علم كے وحى اور دينى تعليمات سے جدا اور بے نياز ہونے پر اصرار ايمان اور دين كے ساتھ تضاد نہيں ركھتا _ سيكولرازم يقيناً دين كى حاكميت كو محدود كرتا ہے اور وہ امور جو عقل انسانى اور علم بشرى كى دسترس ميں ہيں انہيں ايمان اور دين كى فرمانروائي سے خارج سمجھتا ہے_ اس قسم كے موارد ميںانسانى علم و فہم سے حاصل شدہ

____________________

۱) سيكولرازم كے متعلق مزيد تفصيل كيلئے احمد واعظى كى كتاب حكومت دينى (نشر مرصاد ۱۳۷۸قم ) كى دوسرى فصل كا مطالعہ فرمائيں_

۵۵

ظن و گمان كودينى تعليمات سے حاصل ہونے والے يقين و اعتقاد پر ترجيح ديتاہے اور اس كو شش ميں رہتا ہے كہ دينى اعتقادات كو عقل و علم اور انسانى منطق كى كسوٹى پر پركھے ليكن اس كے باوجود سيكولرازم كو ملحد اور دشمن دين نہيں كہا جاسكتا_

ہمارى نظر ميں سيكولر ہونے كى بنياد'' سيكولر عقلانيت'' كے قبول كرنے پر منحصر ہے يعنى ہر شخص جو خود پر بھروسہ كرتا ہے، انسانى علم و عقل كے مستقل ہونے كا عقيدہ ركھتا ہے ، دين كى حاكميت كو انسان كے عالم غيب كے ساتھ رابطہ ميں منحصر سمجھتا ہے اور جو امور انسانى عقل و علم كى دسترس ميں ہيں، ان ميں دين كى مداخلت كو ممنوع قرار ديتا ہے وہ ايك سيكولر انسان ہے_ چاہے وہ حقيقتاً خدا اور كسى خاص دين كا معتقد ہو يا بالكل منكر دين اور ملحد ہو _

مختصر يہ كہ سيكولرازم صرف ان امور ميں دين كے نفوذ كا قائل ہے جو انسانى عقل كى دسترس سے خارج ہوں _ يہ وہ انفرادى امور ہيں جو انسان اور خدا كے تعلق كے ساتھ مربوط ہيں_ يہ ہر فرد كا حق ہے كہ وہ اس ذاتى تعلق كو ردّ يا قبول كرنے كا فيصلہ كرے _ اس لحاظ سے اس رابطے و تعلق كے انكار يا اقرار پر سيكولرازم زور نہيں ديتا_ اور دينى امور ميں سہل انگارى كا معتقد ہے اور يہ سہل انگارى الحاد يا بے دينى نہيں ہے_ البتہ سيكولر شخص كى دين دارى ايك مخصوص ديندارى ہے جو عقل كى محوريت پر استوار ہے اور دين كى حاكميت كو بہت محدود قرار ديتى ہے_

گذشتہ مطالب كو ديكھتے ہوئے سيكولرازم كا بنيادى نكتہ '' سيكولر عقلانيت'' كو تسليم كرنا ہے_ يہ عقلانيت جو خود پر بھروسہ كرنے اورا نسانى عقل و علم كو وحى اور دينى تعليمات سے بے نياز سمجھتى ہے بہت سے امور ميں دينى مداخلت كيلئے كسى گنجائشے كى قائل نہيں ہے _ دين اور انسان كى علمى طاقت كے متعلق يہ فكر متعدد نتائج كى حامل

۵۶

ہے اور بہت سے امور كو سيكولر اور غير دينى كرديتى ہے _ علم ، فلسفہ ، قانون ، اخلاق اور سياست تمام كے تمام غير دينى اور سيكولر ہو جاتے ہيں_ بنابريں سياست سے دين كى جدائي بھى سيكولرازم كے نتائج و ثمرات ميں سے ايك نتيجہ ہے، نہ كہ صرف يہى اس كا نتيجہ ہے _ لہذا'' سياست سے دين كى جدائي'' سيكولرازم كى دقيق اور مكمل تعريف نہيں ہے_ كيونكہ اس صورت ميں سيكولرازم كى بنياد يعنى سيكولر عقلانيت كے ذريعہ تعريف كى بجائے اس كے ايك نتيجے كے ذريعہ تعريف ہوجائے گى اسى طرح الحاد اور بے دينى كے ساتھ بھى اس كى تعريف كرنا صحيح نہيں ہے كيونكہ ممكن ہے كوئي خدا پر ايمان ركھتا ہو ليكن سيكولر عقلانيت كو تسليم كرتے ہوئے عملى طور پر سيكولرازم كا حامى ہو_

سيكولرازم كے مفہوم كى اجمالى وضاحت اور دين دارى كے ساتھ اس كى نسبت كے بعد دينى حكومت كى نفى پر اور سياست اور معاشرتى نظام ميں دين كى مداخلت كے انكار پر سيكولرازم كى بعض ادلہ ذكر كرنے كى بارى ہے اور آنے والے سبق ميں ہم ان كى دو اصلى دليلوں پر بحث كريں گے_

۵۷

خلاصہ :

۱) دينى حكومت كے مخالفين كا تيسرا گروہ سيكولرازم كى فكر كو قبول كرتا ہے_

۲) '' سيكولرازم '' ايك خاص علمى نظريہ ہے جو '' رنسانس'' كے بعد منظر عام پرآيا_

۳) '' سيكولرازم '' كے تحت اللفظى تراجم اس كے مفہوم كى صحيح عكاسى نہيں كرتے _

۴)''سيكولر'' اور '' لائيك'' دو مترادف اصطلاحيں ہيں_

۵)لفظ '' سيكولر'' كا معنى وقت كے ساتھ ساتھ بدلتارہاہے_

۶) سيكولراز م كى بنياد'' سيكولر عقلانيت ''كے قبول كرنے پر ہے_سيكولر عقلانيت خود پر بھروسہ كرنے اور دين اور دينى تعليمات سے عقل و علم كى بے نيازى كى قائل ہے_

۷) '' سيكولرازم ''بہت سے شعبوں ميں دين كى حاكميت سے انكار كرتا ہے_

۸) سياست سے دين كى جدائي كے ساتھ سيكولرازم كى تعريف كرنا صحيح نہيں ہے_كيونكہ يہ تو اس كا ايك نتيجہ ہے جيسا كہ علم اور فلسفہ سے دين كى جدائي بھى اس كے نتائج ميں سے ہے_

۹) سيكولرازم كا معنى دين دشمنى اور الحاد نہيں ہے_ بلكہ يہ دين كى حاكميت كو محدود كرنا چاہتا ہے_

۱۰) موحد اور ملحد دونوں سيكولر ہوسكتے ہيں، كيونكہ دين دارى اور الحاد ميں سے كوئي بھى اسكى بنياد نہيں ہے بلكہ اس كى بنياد سيكولر عقلانيت كے قبول كرنے پر ہے_

۵۸

سوالات :

۱) لفظ '' سيكولرازم'' كا اردو اور عربى ميںترجمہ كيجئے؟

۲)لفظ ''سيكولر'' اور لفظ'' لائيك'' ميں كيا فرق ہے؟

۳)ابتدا ميں لفظ'' سيكولر ''كن معانى ميں استعمال ہوتا تھا؟

۴)''سيكولر عقلانيت ''سے كيا مراد ہے ؟

۵)سيكولرازم اور دين دارى ميں كيا نسبت ہے؟

۶)دين كى حاكميت كے متعلق سيكولر ازم كا كيا عقيدہ ہے؟

۷) كيا سياست سے دين كى جدائي كے ساتھ سيكولرازم كى تعريف كرنا صحيح ہے؟

۵۹

ساتواں سبق:

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلہ -۱-

پہلى دليل:

سياست ميں دين كى عدم مداخلت پر سيكولرازم نے جو استدلال كئے ہيں ان ميں سے ايك وہ ہے جسے ''مشكل نفاذ شريعت ''كے نام سے ياد كيا جاتاہے _يہ استدلال جو دو اساسى مقدموں پر مشتمل ہے، شريعت كے نفاذ كے ممكن نہ ہونے پر استوار ہے _ دينى حكومت كے قائلين اپنے استدلال اور ادلّہ ميں اس نكتہ پر اصرار كرتے ہيں كہ اسلامى شريعت ميں كچھ ايسے احكام اور قوانين ہيں جن كا اجرا ضرورى ہے _ دوسرى طرف يہ احكام حكومت كى پشت پناہى كے بغير قابل اجرا نہيں ہيں _ لہذا مختلف اجتماعى امور ميں شريعت كے نفاذ كيلئے دينى حكومت كا قيام ضرورى ہے _ سيكولرازم دينى حكومت كى تشكيل كى نفى كيلئے اس نكتہ پر اصرار كرتا ہے كہ اجتماعى اور سماجى امور ميں شريعت كا نفاذ مشكل ہے اور معاشرہ ميں فقہ اور شريعت كو نافذ نہيں كيا جاسكتا_ اس طرح وہ اپنے زعم ناقص ميں دينى حكومت كى تشكيل پر سواليہ نشان لگاتے ہيں_ كيونكہ دينى حكومت كے قيام كى اساس اور بنياد معاشرے ميں دين اور شريعت كے نفاذ كے علاوہ كچھ بھى نہيں ہے_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

آیت ۳۷

( قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ )

جواب ملا كہ تجھع مہلت ديدى گئي ہے _

۱_روز قيامت تك اپنى حيات كے جارى رہنے كے بارے ميں ابليس كى درخواست، خداوندمتعال كى جانب سے قبول كر لى گئي_قال فانك من المنظرين

۲_ابليس كے علاوہ دوسرى مخلوقات كا بھى قيامت تك طولانى حيات كا حامل ہونا _فانك من المنظرين

يہ كہ خدا وند متعال، ابليس كى درخواست كے جواب ميں فرماتا ہے كہ''تو مہلت پانے والوں ميں سے ہے''اس سے مذكورہ بالا نكتہ اخذ ہوتا ہے_

۳_خداوند متعال كے ساتھ ابليس كابغير كسى واسطے كے براہ راست گفتگو كرنا_

قال ربّ فا نظرنى الى يوم يبعثون_قال فانك من المنظرين

۴_كسى بھى شخص كو حتى بارگاہ الہى سے نكالے گئے اشخاص اور لعنت شدہ لوگوں كو بھى رحمت خدا وند متعال سے مايوس نہيں ہونا چاہيے بلكہ اُنہيں اُس سے اپنى حاجات طلب كرنى چاہيں _

وان عليك اللعنة الى يوم الدين _قال ربّ فا نظرنى الى يوم يبعثون_قال فانك من المنظرين

۵_بار گاہ الہى كے مردود اور لعنت شدہ لوگوں كى دعا كے قبول ہونے كا ممكن ہونا _

فاخرج منها ...وان عليك اللعنة ...قال ربّ فا نظرني ...قال فانك من المنظرين

۶_''ومن خطبة له عليه‌السلام سبحانه:اسجدوا لا دم فسجدوا الّا ابليس ...فا عطاه الله النظرة استحقاقاً للسخطة واستتماماً للبلية و انجازاً للعدة فقال:''انك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم'' ...;(۱) حضرت

۲۲۱

امير المؤمنين على عليہ السلام سے منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے ايك خطبے كے دوران فرمايا:خداوند سبحان نے فرمايا:ادمعليه‌السلام كے سامنے سجدہ كرو پس ابليس كے سوا سب ملائكہ نے سجد ہ كيا ...پس خدا نے اُسے مہلت دى تاكہ وہ عذاب كا زيادہ سے زيادہ مستحق ہو جائے اور اُس كى ازمائش كامل ہو جائے او ر خدا اپنے وعدے كو پورا كرے _لہذاخدا وند متعال نے فرمايا:''انك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم'' _

۷_''قال ا بوعبدالله عليه‌السلام : ان على بن الحسين عليه‌السلام قال: ...يامن استجاب لا بغض خلقه اليه اذ قال ا نظرنى الى يوم يبعثون، استجب لي ... ;(۲) امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ امام على بن حسينعليه‌السلام نے فرمايا:اے وہ كہ جس نے اپنى مبغوض ترين مخلوق كى درخواست كو قبول كيا كہ جب اُس نے كہا:''ا نظرنى الى يوم يبعثون'' ميرى درخواست كو بھى قبول فرما_

ابليس :ابليس كو مہلت دينے كا فلسفہ ۶;ابليس كى خدا كے ساتھ گفتگو۳;ابليس كى دعا كا قبول ہونا ۷;ابليس

كى طولانى عمر ۲;ابليس كى مہلت كى دعا كا قبول ہونا ۱

اُميدوارى :رحمت سے اُميدوارى ۴

دعا:دعا كے اداب ۷

روايت :۶،۷

لعن :لعن كے مستحقين كى دعا كى قبوليت ۵

خدا كے مردود لوگ:خدا كے مردود لوگوں كى دعا كى قبوليت ۵

موجودات :موجودات كى طولانى عمر ۲

مايوسى :رحمت خدا سے مايوسى كى ممنوعيت ۴

____________________

۱)نہج البلاغہ ،خطبہ ۱;نور الثقلين ،ج۳،ص۱۳،ح۴۱_

۲)تفسير عياشى ،ج۲،ص۲۴۱،ح ۱۲;نور الثقلين ،ج۳، ص۱۴ ، ح۴۸ _

۲۲۲

آیت ۳۸

( إِلَى يَومِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ )

ايك معلوم اور معين وقت كے لئے _

۱_ابليس كى جانب سے روزحشر تك زندگى كى مہلت كى درخواست فقط ايك معين اور مشخص دن تك قبول كى گئي ہے_

فانك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم

۲_قيامت كا دن اور اُس كے برپا ہونے كا دقيق وقت خداوند متعال كے نزديك مشخص و معين ہے_

فا نظرنى الى يوم يبعثون_قال فانك من المنظرين_الى يوم الوقت المعلوم

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب '' الى يوم الوقت المعلوم ''سے مراد روز حشر اور قيامت ہو اور اس دن كو ''وقت معلوم '' كے نام سے اس لئے ياد كيا جاتا ہے كہ فقط خدا وند متعال ہى اس كے دقيق وقت كو جانتا ہے_

۳_ابليس كى زندگى محدود ہے اور دنيا كى عمر ختم ہو نے سے پہلے اُس كى عمر ختم ہو جائے گي_

قال فانك من المنظرين_الى يوم الوقت المعلوم

ابليس نے خدا وند متعال سے اپنى زندگى كے طولانى ہونے كى درخواست كى تا كہ وہ قيامت تك باقى رہے _خدا نے اُس كى يہ درخواست قبول كر لى ليكن جملہ''الى يوم الوقت المعلوم'' لا كر اُس كى عمر كے قيامت تك طولانى ہونے كو رد كر ديا _بنا بريں ابليس كى زندگى قيامت سے پہلے ختم ہو جائے گي_

۴_''يحيى بن ا بى العلائ ...ان رجلاً دخل على ا بى عبدالله عليه‌السلام فقال: ا خبرنى عن قول الله عزّوجلّ لا بليس '' فانك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم'' قال: ...ويوم الوقت المعلوم يوم ينفخ فى الصور نفخة واحدة فيموت ابليس ما بين النفخة الا ولى والثانية; (۱) يحيى بن ابى العلاء نے روايت كى ہے كہ ايك شخص اما م صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں ايا اور عرض كى :مجھے خداوند

۲۲۳

عزوجل كے اس قول كے بارے ميں بتايئے كہ جس ميں خدا نے ابليس سے فرمايا:''فانك من المنظرين_الى يوم الوقت المعلوم'' _امام عليہ السلام نے فرمايا:''روز وقت معلوم سے وہ دن مراد ہے كہ (جس ميں ابھى فقط) ايك بار صور پھونكا گيا ہے پس ابليس پہلے اور دوسرے صور پھونكے جانے كے درميان مرے گا___''

۵_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله تبارك وتعالى ''فا نظرنى الى يوم يبعثون_قال فانك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم''قال: يوم الوقت المعلوم يذبحه رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم على الصخرة التى فى بيت المقدس ;(۲) امام صادق عليہ السلام سے خداوند تبارك وتعالى كے فرمان:''فا نظرنى الى يوم يبعثون_قال فانك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم'' كے بارے ميں منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:وقت معين كا دن ،وہ دن ہے كہ جس ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابليس كو بيت المقدس ميں موجود ايك چٹان پر ذبح كريں گے_

۶_''عن الحسن بن عطية قال: سمعت ا با عبدالله عليه‌السلام يقول: ان ابليس عبدالله فى السّماء الرابعة فى ركعتين ستة ا لاف سنة وكان من انظار الله ايّاه الى يوم الوقت المعلوم بماسبق من تلك العبادة; (۳) حسن بن عطيہ كا كہنا ہے ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سنا ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:بتحقيق ابليس نے اسمان چہارم ميں دو ركعت (نماز )كے ذريعے خدا كى چھ ہزار سال تك عبادت كى ہے اور اسى عبادت كى وجہ سے خدا نے اُسے وقت معين كے دن تك مہلت دى ہے_

ابليس :ابليس كى درخواست مہلت كا قبول ہونا ۱;ابليس كى عمر كا خاتمہ ۳;ابليس كى موت ۴،۵;ابليس كى مہلت كا فلسفہ ۶

الله تعالى :الله تعالى كا علم ۲

روايت :۴،۵،۶

قيامت :قيامت كے دن صور كا پھونكا جانا ۴;قيامت كا وقت۲

____________________

۱)_علل الشرائع ،ج۲،ص۴۰۲،ح۲;نور الثقلين ،ج۳، ص۱۳ ،ح۴۵_

۲)تفسير قمى ،ج۲،ص۲۴۵;تفسير برہان ،ج۲،ص ۳۴۳، ح۲، ۸_

۳)_تفسير عياشى ،ج۲،ص۲۴۱،ح۱۳;نور الثقلين ،ج۳ ، ص۱۴، ح۴۷ _

۲۲۴

آیت ۳۹

( قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الأَرْضِ وَلأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ )

اس نے كہا كہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ كياہے ميں ان بندوں كے لئے زمين ميں ساز و سامان آراستہ كروں گا اور سب كو اكٹھاگمراہ كروں گا_

۱_ابليس ،خدا وند متعال كى جانب سے اپنے گمراہ ہونے كو تمام انسانوں كو گمراہى كى طرف لے جانے اور بُرائيوں كو اچھا بنا كر دكھانے كا سبب قرار ديتا ہے_قال ربّ بما ا غويتنى لأ زيننّ لهم فى الا رض و لا غوينّهم ا جمعين

''بما '' ميں ''با'' بائے سببيہ ہے_

۲_ابليس، خدا وند متعال كى ربوبيت كا معتقد تھا اور اپنے اپ كو اُس كى ربوبيت كے تحت جانتا تھا_قال ربّ

۳_ابليس ،اپنى گمراہى كا اعتراف كرتاتھا_قال ربّ بما ا غويتني

۴_ابليس ،خدا وند متعال كى جانب سے ادمعليه‌السلام كے سامنے سجدے كے حكم كو اپنى گمراہى كا سبب قرار ديتا تھا_

فسجد الملئكة كلّهم ...الّا ابليس ا بي ...قال فاخرج منها فانك رجيم ...قال ربّ بما ا غويتني

خدا وند متعال كے ذريعے اپنے گمراہ ہونے سے ابليس كى كيا مراد ہے؟ اس بارے ميں چند نظريات ہيں :اُن ميں سے ايك يہ كہ چونكہ خدا نے ادمعليه‌السلام كے سامنے سجدے كا حكم ديكر ابليس كا امتحان ليا تھا اور وہ اس امتحان ميں كامياب نہيں ہو سكا اور اُس كا كامياب نہ ہونا ،اُسكے مردود اور قابل لعن ہونے كا موجب بنا ہے لہذا يہى مردوديت اور لعنت ،ابليس كى نظر ميں ايك قسم كى گمراہى شمار ہوتى ہے_

۵_خداوند متعال كى جانب سے ابليس كا گمراہ ہون

۲۲۵

،فرمان الہى كے سامنے اُس كى نافرمانى كى سزا تھي_قال ربّ بما ا غويتني

بلا شك وترديد،ادمعليه‌السلام كے سامنے سجدہ نہ كرنے كے بعد، خدا كى جانب سے ابليس گمراہ ہوا تھا _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اُس كى يہ گمراہى سزا كى حيثيت ركھتى ہے_

۶_ابليس ،ناپسنديدہ كاموں كو اچھا بنا كر اور اُنہيں زينت ديكر لوگوں كو گمراہى كى طرف لے جاتا ہے_

قال ربّ بما ا غويتنى لأ زيننّ لهم فى الا رض و لا غوينّهم ا جمعين

۷_زمين ،ابليس كى سر گرميوں اور اُس كے بہكانے كا ميدان و مركز ہے_لأ زيننّ لهم فى الا رض

۸_انسانى ميلانات ميں سے ايك اُس كا زيبائي اور خوبصورتى كى طرف ميلان ہے_لأ زيننّ لهم

يہ كہ ابليس اعمال كو زينت ديكر لوگوں كو گمراہى كى جانب لے جاتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ انسان زيبائي اور زينت كو پسند كرتاہے اور انسانوں كى يہ پسنداور ميلان اُن كى رفتار و كردار پر اثر انداز ہوتى ہے_

۹_ابليس،انسانوں كى طرف سے اچھائيوں اور بُرائيوں كى صحيح پہچان كرنے ميں نانع بنتا ہے_لأ زيننّ لهم

۱۰_انسان ،(ہر وقت )ابليس كے بہكاوے كے خطرے سے دوچار رہتے ہيں _لا غوينّهم ا جمعين

۱۱_انسان ،القائات اور پروپيگنڈے سے متاثر ہونے والى مخلوق ہے_لا غوينّهم ا جمعين

ادمعليه‌السلام :ادم كے سامنے سجدہ نہ كرنے كے اثرات ۴

ابليس :ابليس كا اقرار ۳;ابليس كا بہكانا۱۰;ابليس كا عقيدہ ۲; ابليس كا كردار ۹;ابليس كى گمراہى كا پيش خيمہ ۴ ; ابليس كى سزا ۵;ابليس كى گمراہى ۱،۳;ابليس كى گمراہى كے اسباب ۵;ابليس كے بہكانے كا مكان ۷;ابليس كى فكر ۱، ۴; ابليس كے بہكانے كا طريقہ ۶;ابليس كے بہكانے كے اسباب ۱; ابليس كے سجدہ نہ كرنے كے اثرات ۴

اقرار :گمراہى كا اقرار ۳

الله تعالى :الله تعالى كى جانب سے گمراہى كے اثرات ۱،۵

۲۲۶

انسان :انسان كاتاثيرپذير ہونا ۱۱;انسان كا قابل گمراہ ہونا ۱۱; انسانوں كے ميلانات ۸;انسانوں كى خصوصيات ۱۱; انسانوں كى گمراہى كا خطرہ ۱۰; انسانوں كى گمراہى كے عوامل ۱

برائياں :برائيوں كو زينت دينے كے اسباب ۱

شناخت :شناخت كے موانع ۹

عصيان :خدا كے سامنے عصيان كى سزا ۵

عقيدہ :ربوبيت خدا كا عقيدہ ۲

عمل :ناپسنديدہ عمل كى تزئين كے اثرات ۶

گمراہي:گمراہى كے عوامل ۶

ميلانات :زيبائي كى جانب ميلان۸

آیت ۴۰

( إِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ )

علاوہ تيرے ان بندوں كے جنھيں تو نے خالص بنا لياہے _

۱_ابليس نے اُن بندوں كو اپنى گمراہى واضلال سے مستثنى قرار ديا ہے كہ جن كو خداوند متعال نے ہر قسم كى الودگى سے پاك كيا ہوا ہے_لا غوينّهم ا جمعين_الّا عبادك منهم المخلصين

مندرجہ مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''منھم'' عباد كے لئے حال ہو _مخلص صيغہ مفعول ہے اور ايسے شخص كو كہا جاتا ہے كہ جو ہر قسم كى الودگى سے پاك اور منزہ ہو چكا ہو_

۲_ہر قسم كى الودگى سے پاك ہونا اور خدا وند متعال كى بندگى اختيار كرنا ابليس كے بہكاوے سے بچنے كى شرط ہے_

الّا عبادك منهم المخلصين

۳_تمام انسان، حتى خد اكے خالص بندے بھى ابليس كے ذريعے بُرائيوں كى ارائش سے بہك جانے

۲۲۷

اور اُس كے فريب كے خطرے سے دوچارہيں _لا غوينّهم ا جمعين_الّا عبادك منهم المخلصين

جملہ ''لا غوينّهم ا جمعين '' سے جملہ ''الّا عبادك منهم المخلصين '' مستثنى ہوا ہے نہ كہ جملہ ''لأ زيننّ لهم '' يعنى ابليس خدا كے خالص بندوں كو گمراہ كرنے سے عاجز ہے ليكن وہ سب كے پيچھے جاتا ہے اور سب كے دلوں ميں وسوسہ ڈالنے كى كوشش كرتا ہے _قابل ذكر ہے كہ سورہ اعراف كى آيت ۲۰۰ بھى اسى مطلب كى تائيد كر تى ہے كہ جو شيطان كى جانب سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بہكانے كے بارے ميں ہے (واما ينزغنّك من الشيطان نزغ فاستعذ بالله )_

۴_ابليس ،خلقت انسان كے اغاز سے ہى ادمعليه‌السلام و حوا كى نسل كے زيادہ ہونے اور اُن ميں سے اكثر كے اپنے بہكاوے ميں اجانے اور خدا كے خالص بندوں كے اپنے ورغلانے سے متاثر نہ ہونے سے اگا ہ تھا_

لا غوينّهم ا جمعين_الّا عبادك منهم المخلصين

۵_خدا وند متعال كے خالص بندے اقليت ميں ہيں _الّا عبادك منهم المخلصين

چونكہ قاعدے كے مطابق مستثنى ،مستثنى منہ سے كمتر ہوتا ہے ورنہ استثنا ء غلط ہو گا _اس سے مذكورہ نكتہ اخذ ہوتا ہے_

ادمعليه‌السلام :نسل ادمعليه‌السلام كا زيادہ ہونا ۴

ابليس :ابليس كا علم ۴;ابليس كا ورغلانا ۳;ابليس كے ور غلانے سے بچنے كى شرائط ۲;ابليس كے ورغلانے كى حدود ۱

اخلاص:اخلاص كے اثرات ۲

اكثريت :اكثريت كا بہك جانا ۴

الله تعالى كے بندے :الله تعالى كے بندوں كا بہكاوے ميں نہ انا۱، ۲;الله تعالى كے بندوں كى كمى ۵

انسان :انسان كا بہكاوے ميں انا ۴;انسانوں كى گمراہى ۳;انسانوں كى لغزشيں ۴

عبوديت :عبوديت كے اثرات ۲

مخلصين :مخلصين كا بہكاوے ميں نہ انا ۱،۴;مخلصين كا كم ہونا ۵;مخلصين كا محفوظ ہونا ۱;مخلصين كے فضائل ۱

۲۲۸

آیت ۴۱

( قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ )

ارشادہوا كہ يہى ميرا سيدھا راستہ ہے _

۱_عبوديت اور ہر قسم كى الودگى سے پاك ہونا ہى خدا كاسيدھا راستہ ہے_

الّا عبادك منهم المخلصين_قال هذا صرط على مستقيم

۲_ابليس كا لوگوں كى اكثر يت كو بہكانے پر قادر ہونا اور خداوند متعال كے خالص بندوں كو گمراہ كرنے سے عاجز ہونا ،الہى قانون اور سنت ہے_الّا عبادك منهم المخلصين_قال هذا صرط على مستقيم

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال پر مبنى ہے كہ جب ''ھذا '' كا مشار اليہ ابليس كى جانب سے لوگوں كى اكثريت كا بہكاوے ميں انا اور خالص بندوں كا بہكاوے سے محفوظ رہنا ہواوركلمہ ''علّي'' ضمانت اور ذمہ دارى كا معنى ديتا ہے _اور مستقيم وہ چيز ہے كہ جس ميں كجى و انحراف پيدا نہيں ہوتا لہذا ''ھذا صرط عليّ مستقيم '' كا معنى يہ ہو گا: خدا كى جانب سے ايسا امر ايك ناقابل تغيير حكم ہے جسے اصطلاح ميں ''سنت '' كہا جاتا ہے_

۳_ لوگوں كو بہكانے كے لئے ابليس كى تمام كوشش اور قدرت ، خداوند متعال كى حاكميت اور قدرت كے تابع ہے_

هذا صرط عليّ مستقيم

جملہ '' ھذا صرط عليّ مستقيم ''ہو سكتا ہے ابليس كے جواب ميں كہا گيا ہو كہ جو اپنى انانيت كى وجہ سے لوگوں كو بہكانے كے عمل كو اپنے ساتھ منسوب كر رہا ہے ليكن خدا اس كے جواب ميں فرماتا ہے :ايسا نہيں بلكہ اُس كى يہ قدرت، قدرت الہى كے تابع ہے_

۴_''عن سلّام بن المستنير الجعفى قال: دخلت على ا بى جعفر عليه‌السلام ...قال: قلت:ما قول الله عزّوجلّ فى كتابه:''قال هذا صراط عليّ مستقيم'' قال:صراط على بن ا بى طالب عليه‌السلام .. . ;(۱) سلام بن مستنير جعفى سے منقول ہے كہ ميں امام باقرعليه‌السلام كي

____________________

۱)تفسير فرات ،ص۲۲۵، ح۱ ،مسلسل۲ ،۳; بحارالانوار ،ج۳۵، ص۳۷۲، ح۱۸_

۲۲۹

خدمت ميں حاضر ہوا اور ميں نے اما معليه‌السلام سے پوچھا : خداوند عزوجل نے اپنى كتاب ميں يہ جو فرمايا ہےكه''قال هذا صراط على مستقيم'' ،اس سے كيا مراد ہے؟اپعليه‌السلام نے فرمايا:يہ ،على ابن ابى طالبعليه‌السلام كا راستہ ہے ...''

ابليس :ابليس كا بہكانا ۲،۳

اخلاص:اخلاص كى اہميت ۱

اكثريت :اكثريت كا بہكاوے ميں اجانا۲

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت ۳;الله تعالى كى سنن ۲;الله تعالى كى قدرت ۳

الله تعالى كے بندے:الله تعالى كے بندوں كا بہكاوے ميں اجانا۲

امير المؤمنين :عليه‌السلام امير المؤمنينعليه‌السلام كے فضائل ۴

انسان:انسان كا بہكاوے ميں اجانا ۲

روايت :۴

صراط مستقيم :۱صراط مستقيم سے مراد ۴

عبوديت :عبوديت كى اہميت ۱

مخلصين:مخلصين كا بہكاوے ميں نہ انا ۲

آیت ۴۲

( إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ )

ميرے بندوں پر تيرا كوئي اختيار نہيں ہے علاوہ ان كے جو گمراہوں ميں سے تيرى پيروى كرنے لگيں _

۱_خداوند متعال، ابليس كے لوگوں كى اكثريت كو گمراہ كرنے پر مبنى دعوى كے جواب ميں اُس كے تسلط كى حدود كو فقط گمراہى كى پيروى كرنے والوں تك محدود قرار ديتا ہے_

لا غوينّهم ا جمعين_الّا عبادك منهم المخلصين ...ان عبادى ليس لك عليهم سلطان

۲۳۰

۲_ابليس ،خداوند متعال كے بندوں پر كسى قسم كا تسلط نہيں ركھتا اور نہ ہى اُن كو گمراہى پر مجبور كر سكتا ہے_

ان عبادى ليس لك عليهم سلطان

اجبار اور زبر دستى كے ذريعے كسى چيز كے حصول كو''سلطان''كہتے ہيں _

۳_ ابليس كے ورغلانے اور تسلط پانے كے مقابلے ميں انسا ن كا ازاد،مختار اور اُس كى مخالفت كرنے پر قادر ہونا_

ان عبادى ليس لك عليهم سلطان

۴_عبوديت اور بندگي،خداوندمتعال كے تقرب كاموجب اور ابليس كے تسلط سے نجات پانے كا سبب بنتى ہے_

ان عبادى ليس لك عليهم سلطان

ممكن ہے يائے متكلم كى طرف ''عباد'' كے اضافہ ہونے سے بندگان خاص كاذكر مراد ہو_ لہذا مراد كو بيان كرنے والے ہر دوسرے كلمے كى جگہ كلمہ ''عباد'' كا ذكر مذكورہ حقيقت كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے_

۵_ابليس ،خدا كے مقرب اور خالص بندوں پر غلبہ پانے سے عاجز ہے_

الّا عبادك منهم المخلصين ...ان عبادى ليس لك عليهم سلطان

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''عبادي'' سے مراد ''عباد مخلص''ہو كہ جو''الّا عبادك منهم المخلصين '' ميں ايا ہے_جس كے مطابق خدا وند متعال ابليس كے خالص بندوں كو گمراہ نہ كرنے كے دعوى كے جواب ميں فرماتا ہے:''تم ميں اس قسم كا كام كرنے كى طاقت ہى نہيں ''_

۶_ابليس، فقط اُن لوگوں پر تسلط حاصل كر سكتا ہے جو اُس كى پيروى كرتے ہيں اور گمراہى كے قابل ہيں _

ليس لك عليهم سلطان الّامن اتبعك من الغاوين

۷_ابليس كے بہكاوے ميں انا ،اُس كے تسلط كو قبول كرنے كا پيش خيمہ بنتا ہے_

لا غوينّهم ا جمعين_الّا عبادك ليس لك عليهم سلطان الّامن اتبعك

۸_ ابليس كے پيروكار،گمراہ لوگ ہيں _الّامن اتبعك من الغاوين

''من الغاوين '' ،''اتبع'' كى فاعلى ضمير كے لئے حال ہے اور''الغاوين '' ،''غيّ'' ( فاسد عقيدے) كے مصدر سے ہے جو ايسے لوگوں كو كہ

۲۳۱

جاتا ہے جوفاسدعقيدہ ركھتے ہوں _

۹_انسان، خود ابليس كے تسلط اور بہكاوے كا سبب فراہم كرتا ہے_الّامن اتبعك من الغاوين

۱۰_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام فى قوله عزّوجلّ:''ان عبادى ليس لك عليهم سلطان'' ...ليس له على هذه العصابة خاصة سلطان،قال:قلت:وكيف جعلت فداك وفيهم مافيهم؟قال:ليس حيث تذهب،انما قوله:'' ليس لك عليهم سلطان''ا ن يحبب اليهم الكفر ويبغض اليهم الايمان ;(۱) حضرت امام صادق عليہ السلام سے خداوند عزوجل كے كلام ''ان عبادى ليس لك عليھم سلطن''كے بارے ميں منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:ابليس كو فقط اس خاص گروہ (شيعہ) پر كسى قسم كا تسلط حاصل نہيں _راوى كہتا ہے ،ميں نے امامعليه‌السلام سے عرض كى :ابليس كيسے شيعوں پر تسلط نہيں ركھتا جبكہ شيعوں ميں بھى گناہگار پائے جاتے ہيں ؟امامعليه‌السلام نے فرمايا:ايسا نہيں كہ جيسا تم سوچ رہے ہو بلكہ خدا كے فرمان ''ليس لك عليھم سلطن''سے مراد يہ ہے كہ ابليس، كفر كو اُن كى نظروں ميں پسنديدہ اور ايمان كو ناپسنديدہ نہيں بنا سكتا _

۱۱_''عن جابر عن ا بى جعفر عليه‌السلام قال:قلت ا را يت قول الله :''ان عبادى ليس لك عليهم سلطان''ماتفسيرهذا؟قال:قال الله :انك لاتملك ا ن تدخلهم جنة ولاناراً ;(۲) جابر كہتے ہيں ميں نے امام باقر عليہ السلام سے عرض كى :مجھے خدا كے كلام''ان عبادى ليس لك عليهم سلطان'' كے بارے ميں بتايئے كہ اس كى تفسير كيا ہے؟امامعليه‌السلام نے فرمايا:خدا فرماتاہے :بتحقيق تو اُنہيں نہ بہشت ميں داخل كرسكتا ہے نہ جہنم ميں _

ابليس :ابليس سے نجات كے عوامل ۴;ابليس كا ادعا۱ ; ابليس كابہكانا۱;ابليس كاتسلط جن كے شامل حال ہے ۱،۶ ;ابليس كاناتوان ہونا ۲،۵;ابليس كے بہكاوے ميں انے كے اثرات ۷; ابليس كے پيروكا ر ۱; ابليس كے ورغلانے كا پيش خيمہ ۹; ابليس كے پيروكاروں كى گمراہى ۸; ابليس كے تسلط سے محفوظ رہنا۵;ابليس كے تسلط كاپيش خيمہ ۷،۹; ابليس كے تسلط كى نفى ۲،۱۰،۱۱;ابليس كے تسلط كى حدود ۳

الله تعالى كے بندے:اُن كا محفوظ رہنا ۲

____________________

۱)معانى الاخبار ،ص۱۵۸،ح۱;نورالثقلين ،ج۳،ص ۱۵ ، ح۵۴_

۲)تفسير عياشى ،ج۲،ص۲۴۲،ح۱۶ ; نور الثقلين ،ج۲، ص ۱۶،ح۵۶_

۲۳۲

انسان:انسان كااختيار ۲،۳;انسان كا كردار ۹;انسان كى قدرت ۳

تقرب:خدا كے تقرب كے عوامل ۴

جبر واختيار :۲

روايت :۱۰،۱۱

شيعہ :شيعوں كے فضائل ۱۰

عبوديت :عبوديت كے اثرات ۴

گمراہ لوگ :۸

مخلصين :مخلصين كا محفوظ ہونا ۵;مخلصين كا ناقابل گمراہ ہونا ۵

مقربين :مقربين كامحفوظ ہونا۵;مقربين كاناقابل گمراہ ہونا ۵

آیت ۴۳

( وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ )

اور جہنّم ايسے تمام لوگوں كى آخرى وعدہ گاہ ہے _

۱_جہنم ،ابليس كے تمام گمراہ پيروكاروں كى وعدہ گا ہ ہے_وان جهنّم لموعدهم ا جمعين

۲_ابليس كے گمراہ پيروكاروں كو خداوندمتعال كادھمكى اميز طور پر خبردار كرنا_

الّامن اتبعك من الغاوين وان جهنّم لموعدهم ا جمعين

۳_ جہنم ميں گرفتار ہونے كے اسباب ميں سے ابليس كى پيروى كرنا اور گمراہ ہونا ہے_الّامن اتبعك ...وان جهنّم لموعدهم

۴_''عن ا بى جعفر عليه‌السلام فى قوله:''ان جهنّم لموعدهم ا جمعين''فوقوفهم على الصراط (۱) حضرت امام باقر سے خداوند عزوجل كے فرمان:''ان جهنّم لموعدهم اجمعين''

____________________

۱)_تفسير قمى ،ج۱،ص۳۷۶،;نورالثقلين ،ج۳، ص۱۷، ح۶۰_

۲۳۳

كے بارے ميں منقول ہے كہ اس سے مراداُن كا صراط پر توقف كرنا ہے_

ابليس :ابليس كى پيروى كے اثرات۳;ابليس كے پيروكار جہنم ميں ۱;ابليس كے پيروكاروں كى وعدہ گاہ ۱،۴;ابليس كے پيروكاروں كے لئے وعيد ۲

الله تعالى :الله تعالى كى طرف سے وعيد۲

جہنم :جہنم كے موجبات ۳جہنمى لوگ :۱

روايت :۴

گمراہى :گمراہى كے اثرات ۳

آیت ۴۴

( لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ )

اس كے سات دروازے ہيں اور ہر دروازے كے لئے ايك حصّہ تقسيم كرديا گياہے _

۱_جہنم كے سات دروازے ہيں _لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

۲_گمراہوں كے ہر گروہ كے جہنم ميں داخل ہونے كے لئے ايك مخصوص دروازہ ہے_

من الغاوين_وان جهنّم لموعدهم ...لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

۳_سات دروازوں والى جہنم كہ جس كے نچلے طبقات ہيں اور گمراہوں كا ہر گروہ ايك مخصوص طبقے اور مشخص حصے ميں ہوگا_لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''ابواب '' سے اُن كا كنائي معنى مراد ہو ;چونكہ ہر دروازہ عام طور پر ايك خاص مكان كى طرف كھلتا ہے اور كسى مستقل جگہ تك لے جاتا ہے _اس مطلب كى تائيد بعد والى عبارت سے بھى ہوتى ہے كہ جس ميں ہر دروازہ گمراہوں كے ايك گروہ كے لئے معين كيا گيا ہے_

۲۳۴

۴_دنيا ميں سات ايسے غلط راستے اور جرائم ہيں كہ جو جہنم تك لے جاتے ہيں _

ان جهنّم ...لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

۵_جہنم ميں مختلف درجات (طبقات)اورشديد وخفيف قسم كے گوناگوں عذاب موجود ہيں _

لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ايت ميں ''سبعہ '' سے كثرت كے لئے كنايہ مراد ہو اور جہنم كے عذابوں كے مختلف اور شديد وخفيف ہونے كى طرف اشارہ ہونہ كہ ايك مشخص عدد مراد ہو_

۶_ہر گناہ، اپنى متناسب سزااور عذا ب كا حامل ہے_وان جهنّم لموعدهم ا جمعين _لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

يہ جو كہا گيا ہے كہ :''گمراہوں كے ہر گروہ كے لئے جہنم ميں ايك مخصوص دروازہ يا طبقہ ہوتا ہے_''اس سے معلوم ہوتا ہے كہ گناہ بھى مختلف اور اپنى متناسب سزا ركھتے ہيں _

۷_انسان كى عاقبت ميں اُس كا عقيدہ اور عمل اہم كردار ادا كرتے ہيں _

الّامن اتبعك من الغاوين_وان جهنّم لموعدهم ا جمعين _لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

۸_''عن ا ميرالمو منين عليه‌السلام :ان جهنّم لها سبعة ا بواب ا طباق بعضها فوق بعض او وضع احدي، يديه على الاُخرى فقال:هكذا وان الله وضع النيران بعضها فوق بعض فا سفلها جهنّم وفوقها لظى وفوقها الحطمة وفوقها سقر وفوقها الجحيم وفوقها السعير وفوقها الهاوية; (۱) حضرت امير المؤمنينعليه‌السلام سے منقول ہے كہ جہنم كے سات دروازے اور طبقے ہيں _اُن ميں سے ہر ايك دوسرے كے اوپر قائم ہے_ امامعليه‌السلام نے ان طبقات كى كيفيت بتاتے ہوئے اپنا ايك ہاتھ دوسرے ہاتھ پر ركھا اور فرمايا:ايسے اور پھرمزيد فرمايا :بتحقيق خدا نے ...اگ كواگ پر قرار ديا ہے اُس كا نچلا طبقہ'' جہنم ''اوراُس سے اوپر والا طبقہ ''لظى ''اور اسكے بعد والا''حطمہ''اور اس سے بھى اوپر ''سقر'' اسكے بعد ''جحيم''اور اس كے بعد ''سعير'' اور اخر ميں ''ھاويہ '' ہے_

۹_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام عن ا بيه،عن جدّه عليه‌السلام قال:للنار ...باب يدخل منه فرعون وهامان وقارون وباب يدخل منه المشركون والكفار ...وباب يدخل منه بنواّميّه ...وباب يدخل منه مبغضونا ومحاربونا وخاذلونا وانه لا عظم الا بواب وا شدها حرّاً ;(۲) امام سجادعليه‌السلام سے منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:اگ ...كا ايك دروازہ ہے كہ جس سے فرعون ،ھامان اور قارون داخل ہوں گے اور ايك دوسرا دروازہ ہے كہ جس سے مشركين اور

۲۳۵

كفارداخل ہوں گے_اسى طرح ايك دروازے سے بنى اُميہ داخل ہوں گے ايك دروازے سے وہ لوگ داخل ہوں گے جواپنے دل ميں ہمارا بغض ركھتے ہيں اور ہمارے ساتھ جنگ كرتے ہيں اور ہمارى مدد نہيں كرتے اور يہ سب سے بڑا اور سب سے زيادہ جلانے والا دروازہ ہو گا_

۱۰_''عن النبي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فى قوله''لكلّ باب منهم جزء مقسوم''قال:ان من ا هل النار من تا خذه النارالى كعبيه،وان منهم من تا خذه النارالى حجزته، ومنهم من تا خذه الى تراقيه منازل با عمالهم،فذلك قوله:'' ...لكلّ باب منهم جزء مقسوم'' ;(۳) حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خدا كے كلام :''لكلّ باب منهم جزء مقسوم'' كے بارے ميں منقول ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:بعض اہل اتش وہ لوگ ہيں كہ جنہيں ٹخنوں تك اگ جلائے گى _بعض كوكمر تك اور بعض كو گلے تك _يہ وہ منازل اور مراتب ہيں كہ جو اہل اتش كے مختلف اعمال سے تعلق ركھتے ہيں اسى لئے خدا وندمتعال نے فرماياہے:لكلّ باب منهم جزء مقسوم ...'' _

۱۱_''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فى قوله تعالى :''لكلّ باب منهم جزء مقسوم'': جزء ا شركوابالله ،وجزء شكّوا فى الله وجزء غفلوا عن الله ;(۴) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خداوند متعال كے فرمان :''لكلّ باب منهم جزء مقسوم'' كے بارے ميں فرمايا:ايك گروہ نے خدا سے شرك كيا ،ايك گروہ نے خدا ميں شك كيا ہے اور ايك گروہ خدا سے غافل رہا ہے(يہى جہنم كے دروازوں كے لئے تقسيم شدہ گروہ ہيں )_

اعداد:سات كا عدد ۱،۳،۴

جرم :جرم كا انجام ۴;جرم كى اقسام ۴

جہنم :جہنم كى اگ ۱۰;جہنم كے دروازوں كى تعداد ۱ ; جہنم كے عذاب كى مختلف اقسام ۵;جہنم كے دركات ۳،۵، ۸ ;جہنم كے دروازے ۲،۸ ، ۹ ; عذاب جہنم كے مراتب ۵

جہنمى لوگ:ان كى اقسام ۱۰،۱۱;ان كے داخل ہونے كى كيفيت ۹

____________________

۱)مجمع البيان ،ج۶،ص ۵۱۹;نورالثقلين ،ج۳،ص ۱۹، ح۶۴_

۲)خصال صدوق ،ج۲،ص۳۶۱ ،ح۵۱; نور الثقلين ،ج۳، ص۱۸،ح۶۳_

۳)الدرالمنثور ،ج۵،ص۸۲_۴)الدرالمنثور ،ج۵،ص۸۳_

۲۳۶

خطا:خطا كا انجام ۴;خطا كى اقسام ۴

روايت :۸،۹،۱۰،۱۱

سزا:سزا كا گناہ كے ساتھ تناسب ۶;سزا و جزا كا نظام ۶

عاقبت:عاقبت ميں موثر عوامل ۷

عقيدہ :عقيدہ كے اثرات ۷

عمل :عمل كے اثرات ۷

گمراہ لوگ :ان كا جہنم ميں ہونا۳;ان كے جہنم ميں داخل ہونے كى كيفيت ۲

آیت ۴۵

( إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ )

بيشك صاحبان تقوى باغات اور چشموں كے درميان رہيں گے_

۱_بہشت كے باغات اور چشموں سے بھرے مقامات متقين كا ٹھكانہ ہيں _ان المتقين فى جنت وعيون

۲_بہشت كى نعمتوں سے بہرہ مند ى كا سبب، تقوى ہے_ان المتقين فى جنت وعيون

۳_متقين كى بہشت ،مختلف باغات اور گوناگوں چشموں كى حامل ہوگي_ان المتقين فى جنت وعيون

۴_متقين ،خدا كے خالص بندے اور ابليس كے وسواس اور تسلط سے نجات يافتہ(لوگ) ہيں _

ان المتقين فى جنت وعيون

گذشتہ ايات ميں لوگوں كو دو گروہوں ميں تقسيم كيا گيا ہے:۱_ابليس كے گمراہ پيروكار ;۲_خدا كے خالص بندے _اس كے بعد پہلے گروہ كا قيامت ميں مقام واضح كياگياہے _اس ايت ميں دوسرے گروہ كا انجام بيان كيا گيا ہے اور اُن كے

۲۳۷

لئے ''مخلصين ''كے بجائے ''متقين '' كى تعبير استعمال ہوئي ہے جس سے مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۵_متقين كے سعادت مندانہ انجام كے ساتھ ساتھ گمراہوں كے بُرے انجام كا تذكرہ ،قران كے ہدايت كرنے كے اسلوب ميں سے ايك طريقہ ہے_الغاوين_وان جهنّم لموعدهم ا جمعين___ان المتقين فى جنت وعيون

الله تعالى كے بندے:۴

اہل بہشت :۱

بہشت:بہشت كے باغات ۱;بہشت كے باغات ميں تنوع ۳;بہشت كے چشموں ميں تنوع ۳;بہشتى چشمے ۱;موجبات بہشت۲;نعمات بہشت۲،۳

تقوى :تقوى كے اثرات ۲

قران :قرانى تعليمات كا طريقہ ۵;قرانى ہدايت كا طريقہ ۵

گمراہ لوگ :ان كے انجام كا بيان ۵

متقين :متقين كى بہشت كى خصوصيات ۳;متقين كا اخلاص ۴;متقين بہشت ميں ۱;متقين كا محفوظ ہونا ۴ ;متقين كے انجام كا بيان ۵; متقين كے فضائل ۴

مخلصين :۴

ہدايت:ہدايت كا طريقہ۵

آیت ۴۶

( ادْخُلُوهَا بِسَلاَمٍ آمِنِينَ )

انھيں حكم ہوگا كہ تم ان باغات ميں سلامتى اور حفاظت كے ساتھ داخل ہوجائو _

۱_متقين كوسلامتى ،مكمل امنيت اور ہر قسم كے دكھ درد اور ناامنى و ناراحتى كے بغير بہشت ميں داخل ہوجانے كى دعوت_

ادخلوها بسلم ء امنين

''بسلام'' ميں ''با'' بمعنى ''مصاحبت ''استعمال ہوئي ہے_

۲_متقين كوبہشتى باغات كے ہر حصے ميں داخل ہونے كى اجازت ہے_ادخلوها بسلم ء امنين

۲۳۸

يہ كہنے كے بعد كہ ''متقين بہشت ميں رہيں گے '' جملہ ''ادخلوھا''كو شايد اس لئے ذكر كيا گيا ہے كہ وہ بہشت كے مختلف حصوں ميں ازادى كے ساتھ رہنے كے بارے ميں شك وترديد ميں مبتلا ہوں گے لہذا اُنہيں كہا جائے گا كہ ''تم سلامتى اور امنيت كے ساتھ بہشت كے ہر حصے ميں داخل ہو سكتے ہو''_

۳_متقين ،سلام و تحيت اور خوش امديد كے ساتھ بہشت ميں داخل ہوں گے_ادخلوها بسلم ء امنين

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''سلام '' سے وہى سلام اور درود مراد ہو كہ جو عام طور پر مسلمانوں كى ثقافت كا حصہ ہے_

۴_تقوى ،اخرت ميں مكمل سلامتى اور امنيت كے ساتھ سعادتمندانہ انجام كا پيغام ديتا ہے_

ان المتقين فى جنت ...ادخلوها بسلم ء امنين

۵_انسانوں كے نزديك سلامتى اور امنيت كى بہت زيادہ اہميت اور قدرو منزلت ہے_يہ كہ خداوند عالم نے متقين كى بہشت ميں پہلى پاداش سلامتى اور امن كو قرار ديا ہے او انسانوں كو اس كى نويد دى ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_ادخلوها بسلم ء امنين

۶_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام :ان ا ميرالمو منين عليه‌السلام لمّابويع ...صعد المنبر فقال: ا يّها الناس ا لا وان التقوى مطاياذلل حمل عليهاا هلهاواعطوا ا زمتّها فا وردتهم الجنة وفتحت لهم ا بوابها و وجدوا ريحها و طيبها وقيل لهم:''ادخلوهابسلام امنين'' ;(۱) امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ جب امير المؤمنينعليه‌السلام كى بيعت ہو گئي تو اس كے بعد اپعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا:اے لوگو اگاہ رہو كہ تقوى ايسى مطيع سواريوں كى مانند ہے جن پر اُن كے اہل انسان سوار ہو جاتے ہيں اور اُن كى زمام اُن كے ہاتھ ميں ہوتى ہے اور وہ سوارياں اپنے سواروں كو بہشت ميں داخل كر ديتى ہيں اور اُس كے دروازے اُن سواروں كے لئے كھول ديئے جاتے ہيں اوروہ بہشت كى ٹھنڈى ہوائوں اور خوشبو ئوں كے جھونكے محسوس كرنے لگتے ہيں اور اُن سے كہا جاتا ہے:ادخلوهابسلام امنين ''

امنيت :

____________________

۱_كافى ،ج۸،ص۶۷،ح۲۳;نور الثقلين ،ج۳ ، ص۱۹ ،ح۶۷_

۲۳۹

اُخروى امنيت كے عوامل ۴;امنيت كى اہميت ۵

بہشت :بہشت كى طرف دعوت ۱

بہشتى لوگ :۱

تقوى :تقوى كے اثرات ۴،۶

روايت :۶

سعادت :اُخروى سعادت كے عوامل ۴

سلامتى :اُخروى سلامتى كے عوامل ۴;سلامتى كى اہميت ۵

متقين :بہشت ميں متقين پر سلام ۳;بہشت ميں متقين كى ازادى ۲;متقين كو دعوت ۱;بہشت ميں متقين كى سلامت ۱;متقين كى بہشت ميں امنيت ۱;متقين كے بہشت ميں داخل ہونے كى كيفيت ۳،۶

آیت ۴۷

( وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَاناً عَلَى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ )

اور ہم نے ان كے سينوں سے ہر طرح كى كدورت نكال لى ہے اور وہ بھائيوں كى طرح آمنے سامنے تخت پر بيٹھے ہوں گے _

۱_خداوند متعال، بہشت ميں متقين كے دلوں سے ہر قسم كا كينہ اور عداوت نكال دے گا _

ادخلوها بسلم ء امنين_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ ''غل'' كا لغوى معنى دشمني، عداوت اور كينہ ہے

۲_متقين، بہشت ميں دوستا نہ اور ہر قسم كى ملاوٹ سے پاك تعلقات ركھيں گے_

ادخلوها بسلم ء امنين_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ ''غل '' كاايك لغوى معنى ملاوٹ اور ناخالصى ہے_

۳_انسان ميں دشمنى اور كينے كا مقام اُس كا سينہ ہے_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ

۴_بہشت ميں انسان ،جسمانى حيثيت سے حاضر ہونگے_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ اخونًاعلى سرر متقبلين

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367