اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139072 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سيكولرازم كے استدلال كا پہلا مقدمہ يہ ہے كہ اجتماعى اورسماجى روابط و تعلقات ہميشہ بدلتے رہتے ہيں_ طول تاريخ ميں انسان كے اجتماعى اور اقتصادى روابط تبديل ہوتے رہے ہيں اور اس تبديلى كا سرچشمہ علمى اور انسانى تجربات كا رشد ہے_ ديہاتى اور قبائلى معاشرہ ميں حاكم سياسى ،ثقافتى اور اقتصادى روابط ،صنعتى اور نيم صنعتى معاشرہ پر حاكم اجتماعى روابط سے بہت مختلف ہيں _ بنابريں اجتماعى زندگى كے تحول و تغير كى بناپر اجتماعى روابط ميں تبديلى ايك ايسى حقيقت ہے جس سے انكار نہيں كيا جاسكتا_

دوسرا مقدمہ يہ ہے كہ دين اور اس كى تعليمات ثابت اور غير قابل تغيير ہيں_كيونكہ دين نے ايك خاص زمانہ جو كہ اس كے ظہور كا دور تھا ميں انسان سے خطاب كيا ہے اور اس زمانے كو ديكھتے ہوئے ايك مخصوص اجتماع كےحالات اور خاص ماحول كے تحت اس سے سروكار ركھاہے_ دين اور شريعت ايسى حقيقت نہيں ہے جو قابل تكرار ہو_ اسلام نے ايك خاص زمانہ ميں ظہور كيا ہے اور اس طرح نہيں ہے كہ سماجى تحولات كے ساتھ ساتھ وحى الہى بھى بدل جائے اور اسلام بھى نيا آجائے _ دين ايك امر ثابت ہے اور سماجى تحولات كے ساتھ اس ميں جدّت پيدا نہيں ہو تى اور اس كے اصول و ضوابط اور تعليمات نئے نہيں ہوجاتے _ ان دو مقدموں كانتيجہ يہ ہے كہ ايك امر ثابت، امر متغير پر قابل انطباق نہيں ہے _ دين جو كہ امر ثابت ہے ہر زمانے كے مختلف اجتماعى اور سماجى روابط كو منظم نہيں كرسكتا_ صرف اُن معاشروں ميں شريعت كا نفاذ مشكل سے دوچار نہيں ہوتا جو اس كے ظہوركے قريب ہوں كيونكہ اس وقت تك ان معاشروں كے اجتماعى روابط ميں كوئي بنيادى تبديلى نہيں ہوئي تھى _ ليكن ان معاشروں ميں شريعت كا نفاذ مشكل ہوتاہے، جن كے اجتماعى مسائل نزول وحى كے زمانہ سے مختلف ہيںپس شريعت كے نفاذ كے غير ممكن ہونے كا نتيجہ يہ ہے كہ سياسى اور اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل كى ضرورت نہيں ہے_

۶۱

اس پہلي دليل كا جواب

اس استدلال اور اس كے دو اساسى مقدموں پر درج ذيل اشكالات ہيں _

۱_ اجتماعى امور اور روابط ميں تبديليوں كا رونما ہونا ايك حقيقت ہے ليكن يہ سب تبديلياںايك جيسى نہيں ہيں اور ان ميں سے بعض شريعت كے نفاذ ميں ركاوٹ نہيں بنتيں _ اس نكتہ كو صحيح طور پر سمجھ لينا چاہيے كہ تمام اجتماعى تغيرات اساسى اور بنيادى نہيں ہيں بلكہ بعض اجتماعى تبديلياں صرف ظاہرى شكل و صورت كے لحاظ سے ہوتى ہيں بايں معنى كہ گذشتہ دور ميں معاشرے ميں لوگوں كے درميان اقتصادى روابط تھے آج بھى ويسے ہى اقتصادى روابط موجود ہيں ليكن ايك نئي شكل ميں نہ كہ نئے روابط نے ان كى جگہ لى ہے_ مختلف اجتماعى روابط ميں شكل و صورت كى يہ تبديلى قابل تصور ہے_ مثلاًتمام معاشروں ميں اقتصادى و تجارتى تعلقات; خريد و فروخت، اجارہ ، صلح اور شراكت جيسے روابط اور معاملات كى صورت ميں موجود رہے ہيں اور آج بھى موجود ہيں _زمانہ كے گزرنے كے ساتھ ساتھ ان كى شكل و صورت ميں تبديلى آجاتى ہے ليكن ان معاملات كى اصل حقيقت نہيں بدلتي_ اگر ماضى ميں خريد و فروخت ،اجارہ اور شراكت كى چند محدود صورتيںتھيں ، تو آج انكى بہت سارى قسميں وجود ميں آچكى ہيں _ مثلاً ماضى ميں حصص كاكا روبار كرنے والي(۱) اور مشتركہ سرمايہ كى(۲) بڑى بڑى كمپنياں نہيں تھيں_ اسلام نے ان معاملات كى اصل حقيقتكے احكام مقرر كر ديئے ہيں _ تجارت ، شراكت اور اجارہ كے متعلق صدر اسلام كے فقہى احكام ان تمام نئي صورتوں اور قسموں كے ساتھ مطابقت ركھتے ہيں كيونكہ يہ احكام اصل حقيقت كے متعلق ہيں نہ كہ ان كى كسى مخصوص شكل و صورت كے متعلق_ لہذا اب بھى باقى ہيں _

____________________

۱) Exchange. Stock

۲) jointstock companis

۶۲

اسى طرح اسلام نے بعض اقتصادى معاملات كو ناجائز قرار ديا ہے _ آج اگر وہ نئي شكل ميں آجائيں تب بھى اسلام كيلئے ناقابل قبول ہيں اور اس نئي شكل پر بھى اسلام كا وہى پہلے والا حكم لاگو ہوتا ہے _ مثلاً سودى معاملات اسلام ميں حرام ہيں _ آج نئے طرز كے سودى معاملات موجود ہيں جو ماضيميں نہيں تھے _ اگر تجزيہ و تحليل كرتے وقت مجتہد كو معلوم ہوجائے كہ يہ سودى معاملہ ہے تو وہ اس كى حرمت اور بطلان كا حكم لگا دے گا _ بنابريں اس نئے مورد ميں بھى سود والا حكم لگانے ميں كوئي دشوارى نہيں ہوگى _ لہذا اقتصادى روابط و معاملات ميں تغير و تبدل شرعى احكام كے منطبق ہونے ميں ركاوٹ نہيں بنتا _

۲_ بعض اجتماعى تحولات، ايسے مسائل كو جنم ديتے ہيں جوحقيقت اور شكل و صورت كے لحاظ سے بالكل نئے ہوتے ہيں كہ جنہيں ''مسائل مستحدثہ'' كہتے ہيں اس قسم كے مسائل كا حل بھى شريعت كے پاس موجود ہے_ پس سيكولرازم كے استدلال كا دوسرا مقدمہ كہ'' دين ثابت ہے اور تغير پذير اشياء پر منطبق ہونے كى صلاحيت نہيں ركھتا'' درست نہيں ہے كيونكہ دين اگر چہ ثابت ہے اور معاشرتى تحولات كے ساتھ ساتھ تبديل نہيں ہوتا ليكن اس كے باوجود دين مبين اسلام ميں ايسے قوانين و اصول موجود ہيں جن كى وجہ سے فقہ اسلامى ہر زمانہ كے مسائل مستحدثہ (نئے مسائل ) پر منطبق ہونے اور ان كو حل كرنے كى قدرت و صلاحيت ركھتى ہے اور اس ميں اسے كوئي مشكل پيش نہيں آتى _ ان ميں سے بعض اصول و قوانين يہ ہيں_

الف_ اسلامى فقہ خصوصاً فقہ اہلبيت ميں اجتہاد كا دروازہ كھلا ہے بايں معنى كہ فقيہ اور مجتہد كا كام صرف يہ نہيں ہے كہ فقہى منابع ميں موجود مسائل كے احكام كا استنباط كرے بلكہ وہ فقہى اصول و مبانى كو مد نظر ركھتے ہوئے جديد مسائل كے احكام كے استخراج كيلئے بھى كوشش كرسكتا ہے _

ب_ شرط كى مشروعيت اور اس كى پابندى كا لازمى ہونا فقہ كے بعض شرائط اور جديد مسائل كے ساتھ

۶۳

مطابقت كى راہ ہموار كرتا ہے كيونكہ بہت سے نئے عقلائي معاملات كو ''شرط اور اس كى پابندى كے لزوم'' كے عنوان سے جواز بخشا جاسكتاہے _ مثلاً عالمى تجارت كے قوانين ،دريائي اور بحرى قوانين، قوانين حق ايجاد ، فضائي راستوںاور خلائي حدود كے قوانين سب نئے امور اور مسائل ہيں كہ جن كے متعلق اسلامى فقہ ميں واضح احكام موجود نہيں ہيں _ ليكن اسلامى نظام ان ميں سے جن ميں مصلحت سمجھتاہے ان كو بين الاقوامى يا بعض انفرادى معاملات كے ضمن ميں قبول كرسكتاہے اور لوگوں كو ان كى پابندى كرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے كيلئے راہنمائي كرسكتا ہے _

ج_ مصلحت كے پيش نظر جامع الشرائط ولى فقيہ كا حكم حكومتى زمانہ كے تقاضوں كے ساتھ فقہ كى مطابقت كے اہم ترين اسباب ميں سے ہے _نئے امور كہ جن كے متعلق مخصوص فقہى حكم موجود نہيں ہے ميں ولى فقيہ حكومتى حكم كے تحت ان كى شرعى حيثيت كا تعين كرسكتا ہے_

مختصر يہ كہ:

اولاً: تو تمام اجتماعى تبديلياں ايسى نہيں ہيں جو نئے شرعى جواب كا مطالبہ كريں اور نفاذ شريعت ميں دين كا ثبات اور استحكام ركاوٹ پيدا كرے كيونكہ صرف شكل وصورت بدلى ہے لہذا شريعت كا حكم آسانى سے اس پر منطبق ہوسكتا ہے _

ثانياً: اگر اجتماعى تحولات كى وجہ سے بالكل نئے مسائل پيدا ہوجائيں تب بھى اسلامى فقہ ميں ايسے اسباب وا صول موجود ہيں جن كى وجہ سے شريعت ان نئے مسائل كيلئے بھى جواب گو ہوسكتى ہے _ بنابريں '' ثبات دين'' كا معنى يہ نہيں ہے كہ دين كا جديد مسائل پر منطبق ہونا ممكن نہيں ہے _ بلكہ دين ثابت ميں ايسےعناصرموجود ہيں كہ جن كى بناپر دين جديد تبديليوںاور مسائل كے قدم بہ قدم چل سكتا ہے _

۶۴

خلاصہ :

۱)'' سيكولرازم'' دينى حكومت كو تطبيق اور نفاذ شريعت كى مشكل سے دوچا ر سمجھتاہے _

۲) دينى حكومت كى مخالفت كے سلسلہ ميں ''سيكولرازم'' كى مشہور دليل يہ ہے كہ فقہ اپنے ثبات كى وجہ سے اجتماعى تحولات پر منطبق نہيں ہوسكتى _

۳)''سيكولرازم'' كے استدلال كا بنيادى نكتہ يہ ہے كہ دين ثابت ہے اور اجتماعى روابط تبديل ہوتے رہتے ہيں اور ثابت چيز متغيّر شےء پر منطبق نہيں ہو سكتى پس دين معاشرے ميں قابل اجرا نہيں ہے _

۴) حقيقت يہ ہے كہ اجتماعى تغيرات ايك جيسے نہيں ہيں _

۵) اجتماعى معاملات كى شكل و صورت ميں تبديلى نفاد شريعت ميں مشكل پيدا نہيں كرتى _

۶) اگر چہ بعض تبديلياں بالكل نئي ہيں ليكن شريعت ميں ان كيلئے راہ حل موجود ہے _

۷) دين اگر چہ ثابت ہے ليكن اس ميں مختلف حالات كے ساتھ سازگار ہونے كے اسباب فراہم ہيں_

۶۵

سوالات :

۱) دينى حكومت كى نفى پر ''سيكولرازم'' كى پہلى دليل بيان كيجيئے _

۲) دو قسم كے اجتماعى تغيرات كى مختصر وضاحت كيجيئے _

۳) كس قسم كے اجتماعى تغيرات ميں شريعت كا اجرازيادہ مشكل ہے ؟

۴)''سيكولرازم'' كے پہلے استدلال كا اختصار كيساتھ جواب بيان كيجئے_

۵) جديد مسائل پر اسلامى فقہ كو قابل انطباق بنانے والے عناصر كى چند مثاليں پيش كيجئے_

۶۶

آٹھواں سبق :

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلّہ -۲-

دوسرى دليل :

سيكولرازم كى پہلى دليل اس زاويہ نگاہ سے بيان كى گئي تھى كہ اجتماعى معاملات اور مسائل ہميشہ بدلتے رہتے ہيں جبكہ دين و شريعت ثابت ہے لہذا فقہ ان معاملات اور مسائل كا جواب دينے سے قاصر ہے _ سياست اور اجتماع كے متعلق فقہ كى ناتوانى پر سيكولرازم كى دوسرى دليل درج ذيل مقدمات پر مشتمل ہے _

۱_ فقہ كے سياسى اہداف ميں سے ايك معاشرتى مشكلات كا حل اور انسان كى دنيوى زندگى كے مختلف پہلوؤں كى تدبير كرنا ہے غير عبادى معاملات مثلاً ارث ، وصيت، تجارت ، حدود اور ديات ميں واضح طور پريہ ہدف قابل فہم ہے _ مثال كے طور پر معاشرتى برائيوں كو روكنے كيلئے حدود و ديات كا باب اور معاشرہ كى اقتصادى مشكلات كے حل كيلئے مختلف تجارتى اور معاملاتى ابواب كارسازہيں _

۲_ گذشتہ ادوار ميں اجتماعى روابط بہت ہى سادہ اور لوگوں كى ضروريات نہايت كم اور غير پيچيدہ تھيں _ فقہ آسانى سے ان اہداف سے عہدہ برا ہو سكتى تھى اور انسان كى اجتماعى ضروريات كو پورا كرنے كى صلاحيت

۶۷

ركھتى تھى بنابريں فقہ اور فقہى نظارت صرف اس معاشرہ كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكتى ہے جو نہايت سادہ اور مختصرہو_

۳_ آج معاشرہ اور اجتماعى زندگى مخصوص پيچيدگيوں كى حامل ہے لہذا اس كى مشكلات كے حل كيلئے علمى منصوبہ بندى(۱) كى ضرورت ہے اور موجودہ دور كى مشكلات كو فقہ اپنى سابقہ قد و قامت كيساتھ حل كرنے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ بنيادى طور پر منصوبہ بندى كے فن كو نہيں كہتے بلكہ فقہ كا كام احكام شريعت كو بيان كرنا ہے فقہ صرف قانونى مشكلات كو حل كرسكتى ہے جبكہ موجودہ دور كى تمام مشكلات قانونى نہيں ہيں _

ان مقدمات كا نتيجہ يہ ہے كہ فقہ موجودہ معاشروں كو چلانے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ صرف قانونى مشكلات كا حل پيش كرتى ہے جبكہ موجود معاشرتى نظام كو ماہرانہ اور فنى منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _ لہذا آج كى ماہرانہ علمى اورسائنٹيفك منصوبہ بنديوں كے ہوتے ہوئے فقہى نظارت كى ضرورت نہيں ہے _

اس دوسرى دليل كاجواب:

مذكورہ دليل ''دينى حكومت'' اور'' اجتماعى زندگى ميں فقہ كى دخالت ''كى صحيح شناخت نہ ہونے كا نتيجہہے _ اس دليل ميں درج ذيل كمزورنكات پائے جاتے ہيں _

۱_ اس دليل كے غلط ہونے كى ايك وجہ فقہى نظارت اور علمى و عقلى نظارت(۲) كے در ميان تضاد قائم كرنا ہے _گويا ان دونوں كے درميان كسى قسم كا توافق اور مطابقت نہيں ہے _ اس قسم كے تصور كا سرچشمہ عقل اور دين كے تعلق كا واضح نہ ہونا اوردينى حكومت اور اس ميں فقہ كے كردار كے صحيح تصور كا فقدان ہے_ اسى ابہام كى وجہ سے سيكولرازم نے يہ سمجھ ليا ہے كہ معاشرے كى تمام تر زمام نظارت يا تو فقہ كے ہاتھ ميں ہو اور تمام تر

____________________

۱) scientific management

۶۸

اجتماعى و سماجى مشكلات كا حل فقہ كے پاس ہو اور علم و عقل كى اس ميں كسى قسم كى دخالت نہ ہو يا فقہ بالكل ايك طرف ہوجائے اور تمام تر نظارت علم و عقل كے پاس ہو_

اس تضاد كى كوئي بنياد اور اساس نہيں ہے دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں يہ فرق نہيں ہے كہ دينى حكومت عقل ، علم اور انسانى تجربات كو بالكل ناديدہ سمجھتى ہے اور معاشرے كے انتظامى امور ميں صرففقہى احكام پر بھروسہ كرتى ہے جبكہ سيكولر حكومت معاشرتى امور ميں مكمل طور پر عقل و علم پر انحصار كرتى ہے _اس قسم كى تقسيم بندى اور فرق كاملاً غير عادلانہ اور غير واقعى ہے_دينى حكومت بھى عقل و فہم اور تدبيرومنصوبہ بندى سے كام ليتى ہے_ دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں فرق يہ ہے كہ دينى حكومت ميں عقل اور منصوبہ بندى كو بالكل بے مہار نہيں چھوڑ اگيا بلكہ عقل دينى تعليمات كے ساتھ ہم آہنگ ہوتى ہے اور دينى حكومت عقل سے بے بہرہ نہيں ہے_ بلكہ اسے وہ عقل چاہيے جو شريعت كے رنگ ميں رنگى ہو اور دينى حكومت ميں نظارت اور عقلى منصوبہ بندى كيلئے ضرورى ہے كہ وہ دينى تعليمات سے آراستہ ہوں اور اسلامى حدودكو مد نظر ركھتے ہوئے معاشرتى امور كو چلائے _ سيكولر حكومت ميںعقلى نظارت ،بے مہار اور دين سے لا تعلق ہوتى ہے _ ايسى عقلينظارت دين سے كوئي مطابقت نہيں ركھتى _

۲_ دينى حكومت ميں دين كى حاكميت اور اسلامى احكام كى رعايت كا يہ معنى نہيں ہے كہ حكومت كے تمام كام مثلاً قانون گذارى ، فيصلے اور منصوبہ بندى جيسے امور بلاواسطہ'' فقہ سے ماخوذ'' ہوں _ دينى حكومت كى اساس اس پر نہيں ہے كہ معاشيات كى جزوى تدابير، بڑے بڑے سياسى اور اقتصادى منصوبے اور اجتماعى پيچيدگيوں كا حل عقل و علم كى دخالت اور مددكے بغير براہ راست فقہ سے اخذ كيا جائے_ يہ بات نا ممكن ہے اور دين نے بھى اس قسم كا كوئي دعوى نہيں كيا _ نہ ماضى ميں اور نہ حال ميں كبھى بھى فقہ تمام مشكلات كا حل نہيں

۶۹

رہى بلكہ ماضى ميں بھى جو مشكلات سيكولر افراد كى نظر ميں صرف فقہ نے حل كى ہيں در حقيقت ان ميں عقل اور انسانى تجربات بھى كار فرما رہے ہيں_ آنحضرت (ص) ،اميرالمؤمنيناور صدر اسلام كے دوسرے خلفاء نے اسلامى معاشرے كے انتظامى امور ميں جس طرح فقہ سے مدد لى ہے اسى طرح عقلى چارہ جوئي، عرفى تدابير اور دوسروں كے مشوروں سے بھى فائدہ اٹھايا ہے _ ايسا ہرگز نہيں ہے كہ فقہ تمام اجتماعى مسائل اور مشكلات كا حل رہى ہو اور اس نے عقل و تدبيركى جگہ بھى لے لى ہو _ پس جس طرح ماضى ميں دينى حكومت نے فقہ اور عقل و عقلى تدابير كو ساتھ ساتھ ركھا ہے اسى طرح آج بھى دينى حكومت ان دونوں كو ساتھ ساتھ ركھ سكتى ہے _ سيكولر حضرات كو يہ غلط فہمى ہے كہ ماضى ميں دينى حكومت صرف فقہ كى محتاج تھى اور آج چونكہ دنيا كو اجتماعى اورناقابل انكار منصوبہ بندى كى ضرورت ہے لہذا دينى حكومت جو كہ صرف فقہى نظارت پر مشتمل ہوتى ہے معاشرتى نظام كو چلانے سے قاصر ہے_

۳_ اجتماعى زندگى ميں فقہ كے دو كام ہيں_ ايك : مختلف پہلوؤں سے قانونى روابط كو منظم كرنا اور ان كى حدود متعين كرنا_ دوسرا : ثقافت ، معيشت اور داخلى و خارجى سياست كے كلى اصول و ضوابط مشخص كرنا_دينى حكومت كا فقہ پر انحصار يا فقہى نظارت كا مطلب يہ ہے كہ وہ حكمراني، خدمتگزاري،كا ركردگى اور قوانين بنانے ميں ان قانونى حدود كا بھى خيال ركھے اور ان اصول و قوانين كے اجرا اور اپنے اہداف كے حصول كيلئے عملى منصوبہ بندى بھى كرے_ فقہى نظارت كا معنى يہ نہيں ہے كہ فقہ صرف افراط زر ، بے روزگارى اور ٹريفك كى مشكلات كو حل كرے بلكہ فقہى نظارت كا معنى يہ ہے كہ اسلامى معاشرے كے حكمران اور منتظمين اقتصادى اور سماجى مشكلات كو حل اوران كى منصوبہ بندى كرتے وقت شرعى حدود كى رعايت كريں _ اور ايسے قوانين كا اجرا كريں جو فقہى موازين كے ساتھ سب سے زيادہ مطابقت ركھتے ہوں _ لہذا دليل كے تيسرے حصّے ميں جو يہ

۷۰

كہا گيا ہے كہ فقہ صرف قانونى پہلو ركھتى ہے اور تمام معاشرتى مسائل قانونى نہيں ہيں وہ اس نكتے پر توجہ نہ دينے كى وجہ سے كہا گيا ہے _ اگرچہ تمام معاشرتى مسائل قانونى نہيں ہيں ليكن ايك دينى معاشرے ميں ان مشكلات اور جديد مسائل كے حل كا طريقہ بہت اہميت ركھتا ہے_ ايك اجتماعى مشكل كے حل كے مختلف طريقوں ميں سے وہ طريقہ اختيار كيا جائے جس ميں اسلامى احكام كى زيادہ رعايت كى گئي ہو اورجو اسلامى اصولوں سے زيادہ مطابقت ركھتا ہو _ پس كسى اجتماعى مشكل كے قانونى نہ ہونے كا مطلب يہ نہيں ہے كہ اس كے حل كيلئے اسلامى احكام كو بالكل نظر انداز كرديا جائے_

يہ دو دليليں جو ان دو سبقوںميں بيان كى گئي ہيں ''سياست اور معاشرتى نظارت ميں دين كى عدم دخالت '' پر سيكولر حضرات كى اہم اور مشہورترين ادلّہ ميں سے ہيں _باقى ادلّہ اتنى اہم نہيں ہيں لہذا انہيں ذكر نہيں كرتے اورانہيں دو پر اكتفاء كرتے ہيں _

۷۱

خلاصہ :

۱) فقہ كے اہداف ميں سے ايك انسانى معاشرے كى اجتماعى مشكلات كو حل كرنا ہے _

۲)سيكولر حضرات كا خيال ہے كہ ماضى ميں ان مشكلات كے حل كرنے ميں اسلامى فقہ كامياب رہى ہے ليكن موجودہ جديد دور ميں وہ اس كى صلاحيت نہيں ركھتي_

۳) موجودہ دور، خاص قسم كى پيچيدگيوں اور مسائل كا حامل ہے پس اس كى تمام مشكلات فقہ سے حل نہيں ہو سكتيں لہذا ان كے حل كيلئے علمى نظارت اور منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _

۴) سيكولر حضرات كا خيال ہے كہ علمى و عقلى نظارت، فقہى نظارت كى جانشين بن چكى ہے_

۵) سيكولر حضرات كى نظر ميں فقہ صرف قانونى مشكلات كو بر طرف كرتى ہے جبكہ موجودہ دور كى مشكلات صرف قانونى نہيں ہيں_

۶) سيكولر حضرات كو فقہى نظارت اور علمى نظارت كے درميان تضاد قرار دينے ميں غلط فہمى ہوئي ہے _

۷) دينى حكومت اور فقہى نظارت نے ماضى سے ليكر آج تك عقل سے فائدہ اٹھايا ہے _

۸) امور حكومت ميں فقہ كو بروئے كار لانا ،عقل سے مدد حاصل كرنے كے منافى نہيں ہے _

۹)دينى حكومت ميں اجتماعى مشكلات كے حل ، منصوبہ بندى اور نظارت ميں فقہى موازين اور دينى اقدار كى رعايت كرنا ضرورى ہے _

۷۲

سوالات :

۱) سيكولرحضرات اجتماعى اور سماجى مشكلات كے حل كرنے ميں فقہ كى توانائي اور صلاحيت كے بارے ميں كيا نظريہ ركھتے ہيں؟

۲) دينى حكومت كى نفى پر سيكولر حضرات كى دوسرى دليل كو مختصر طور پربيان كيجئے ؟

۳) سيكولر حضرات كى نظر ميں موجودہ دور كيلئے كس قسم كى نظارت كى ضرورت ہے ؟

۴) كيا علمى نظارت اور فقہى نظارت ميں تضادہے ؟

۵) اجتماعى زندگى ميں فقہ كا دائرہ كاركيا ہے ؟

۶) ''معاشرے كى نظارت ميں دين كى حاكميت ''سے كيا مراد ہے ؟

۷۳

دوسرا باب :

اسلام اور حكومت

سبق نمبر ۹،۱۰ : آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت

سبق نمبر ۱۱ : آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت

سبق نمبر ۱۲ : شيعوں كا سياسى تفكر

سبق نمبر ۱۳، ۱۴ : سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار

۷۴

تمہيد :

گذشتہ باب ميں ہم نے كہا تھا كہ دينى حكومت كا معنى '' حكومتى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت اور مختلف سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو قبول كرناہے'' _ دينى حكومت كے مخالفين كى ادلّہ پر ايك نگاہ ڈالتے ہوئے ہم يہ ثابت كرچكے ہيں كہ اجتماعى و معاشرتى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے _

اس باب ميں اس نكتہ كى تحقيق كى جائے گى كہ كيا اسلام مسلمانوں كو دينى حكومت كى تشكيل كى دعوت ديتا ہے يانہيں ؟ اور حكومت كى تشكيل، اس كے اہداف و مقاصد اور اس كے فرائض كے متعلق اس كا كوئي خاص نظريہ ہے يا نہيں ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا اسلام نے دين اور حكومت كى تركيب كا فتوى ديا ہے ؟ اور كوئي خاص سياسى نظريہ پيش كيا ہے ؟

واضح سى بات ہے كہ اس تحقيق ميں دينى حكومت كے منكرين كى پہلى قسم كى آراء اور نظريات جو كہ گذشتہ باب ميں بيان ہوچكے ہيں پر تنقيد كى جائے گى _ يہ افراد اس بات كا انكار نہيں كرتے كہ معاشرے اور سياست ميں دين كى دخالت ممكن ہے _ اسى طرح اس كے بھى قائل ہيں كہ اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے بلكہ ان كا كہناہے كہ'' اسلام ميں ايسا ہوانہيں '' _ يعنى ان كى نظر ميں اسلام نے حكومت كى تشكيل ، اس كى كيفيت اور حكومتى ڈھانچہ جيسے امور خود مسلمانوں كے سپرد كئے ہيں اور خود ان كے متعلق كسى قسم كا اظہار رائے نہيں كيا _

۷۵

نواں سبق:

آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت -۱-

كيا اسلام نے دينى حكومت كى دعوت دى ہے؟ كيا مختلف سياسى اور حكومتى امور ميں اپنى تعليماتپيش كى ہيں ؟ اس قسم كے سوالات كے جواب ہميں صدر اسلام اور آنحضرت (ص) كى مدنى زندگى كى طرف متوجہ كرتے ہيں_

آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى كے جو آخرى دس سال مدينہ ميں گزارے تھے اس وقت امت مسلمہ كى قيادت اور رہبرى آپ كے ہاتھ ميں تھى _سوال يہ ہے كہ يہ قيادت اور رہبرى كيا مسلمانوں پر حكومت كے عنوان سے تھي؟ يااصلاً آ پ (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہيہ رہبرى و قيادت صرف مذہبى اور معنوى عنوان سے تھى ؟

گذشتہ زمانے كے تمام مسلمانوں اور موجودہ دور كے اسلامى مفكرين كى اكثريت معتقدہے كہ تاريخى شواہد بتاتے ہيں كہ اس وقت آنحضرت (ص) نے ايك اسلامى حكومت تشكيل دى تھى جس كا دارالحكومت مدينہ تھا _ اس مشہور نظريہ كے مقابلہ ميں قرن اخير ميں مسلمان مصنفينكى ايك قليل تعداد يہ كہتى ہےكہ پيغمبر

۷۶

اكرم (ص) صرف دينى رہبر تھے اور انہوں نے كوئي حكومت تشكيل نہيں دى تھى _

آنحضرت (ص) كى قيادت كے سلسلہ ميں دو بنيادى بحثيں ہيں :

الف_ كيا آپ (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى ؟

ب_ بنابر فرض تشكيل حكومت كيا آنحضر ت (ص) كى يہ رياست اور ولايت ،وحى اور دينى تعليمات كى رو سے تھى يا ايك معاشرتى ضرورت تھى اور لوگوں نے اپنى مرضى سے آپ(ص) كو اپنا سياسى ليڈر منتخب كر ليا تھا؟ پہلے ہم پہلے سوال كى تحقيق كريں گے اور ان افراد كى ادلّہ پر بحث كريں گے جو كہتے ہيں : آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _

حكومت كے بغير رسالت

مصرى مصنف على عبدالرازق اس نظريہ كا دفاع كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى قيادت ورہبرى صرف مذہبى عنوان سے تھى اور اس قيادت كا سرچشمہ آپ كى نبوت اور رسالت تھى اسى وجہ سے آپ كى رحلت كے بعد اس قيادت كا خاتمہ ہوگيا _ اور يہ امر جانشينى اور نيابت كے قابل نہيں تھا _ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد خلفاء نے جو قيادت كى وہ آنحضرت (ص) والى رہبرى نہيں تھى بلكہ خلفاء كى قيادت سياسى تھى اور اپنى اس سياسى حكومت كى تقويت كيلئے خلفاء نے آنحضرت (ص) كى دينى دعوت سے فائدہ اٹھايا_ اس نئي حكومت كے اہلكاروں نے خود كو خليفہ رسول كہلوايا جس كى وجہ سے يہ سمجھ ليا گيا كہ ان كى رہبرى رسول اكرم (ص) كى قيادت كى جانشينى كے طور پر تھى حالانكہ آنحضرت (ص) صرف دينى قيادت كے حامل تھے اور يہ قيادت قابل انتقال نہيں ہے_ پيغمبر اكرم (ص) سياسى قيادت كے حامل نہيں تھے كہ خلفا آپ كے جانشين بن سكتے(۱) _

____________________

۱) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبدالرازق صفحہ ۹۰، ۹۴_

۷۷

عبدالرازق نے اپنے مدعا كے اثبات كيلئے دو دليلوں كا سہارا ليا ہے _

الف _ پہلى دليل ميں انہوں نے بعض قرآنى آيات پيش كى ہيں ان آيات ميں شان پيغمبر (ص) كو رسالت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر قرار ديا گيا ہے _ ان كے عقيدہ كے مطابق ''اگر آنحضرت (ص) رسالت اور نبوت كے علاوہ بھى كسى منصب كے حامل ہوتے يعنى حكومت اور ولايت كے منصب پر بھى فائز ہوتے تو كبھى بھى ان آيات ميں ان كى شان كو نبوت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر نہ كيا جاتا''(۱)

ان ميں سے بعض آيات يہ ہيں_

( ''ان ا نا الّا نذيرو بشير '' ) (۲)

ميں تو صرف ڈرانے اور بشارت دينے والا ہوں _

( ''وَ مَا على الرسول الّا البلاغ المبين '' ) (۳)

اور رسول كے ذمہ واضح تبليغ كے سوا كچھ بھى نہيں ہے _

( ''قل انّما ا نا بشر مثلكم يُوحى الي'' ) (۴)

كہہ ديجيئے ميں تمھارے جيسا بشر ہوں مگر ميرى طرف وحى آتى ہے_

( ''انّما ا نت منذر'' ) (۵)

يقيناً تو صرف ڈرانے والا ہے _

____________________

۱) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبد الرازق صفحہ ۷۳_

۲) سورہ اعراف آيت۱۸۸_

۳) سورہ نور آيت ۵۴_

۴) سورہ كہف آيت۱۱۰_

۵) سورہ رعد آيت ۷_

۷۸

'' ( فان ا عرضوا فما ا رسلناك عليهم حفيظاً ان عليك الا البلاغ'' ) (۱)

اگر يہ روگردانى كريں تو ہم نے آپ كو ان كا نگہبان بنا كر نہيں بھيجا ہے _ آپ كا فرض صرف پيغام پہنچا دينا ہے_

ب_ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ عبدالرازق اس كى دوسرى دليل يہ ديتے ہيں كہ آج كل ہر حكومت بہت سے شعبوں اور اداروں پر مشتمل ہوتى ہيں _ ضرورى نہيں ہے كہ گذشتہ دور كى حكومتيں بھى اسى طرح وسيع تر اداروں پر مشتمل ہوں ليكن جہاں بھى حكومت تشكيل پاتى ہے كم از كم كچھ سركارى محكموں مثلاً انتظاميہ ،داخلى و خارجى اور مالى امور سے متعلقہ اداروںو غيرہ پر مشتمل ہوتى ہے_ يہ وہ كمترين چيز ہے جس كى ہر حكومت كو احتياج ہوتى ہے ليكن اگر ہم آنحضرت (ص) كے دور فرمانروائي كى طرف ديكھيں تو كسى قسم كے انتظامى اداروں كا نشان نہيں ملتا _ يعنى آنحضر ت (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين انتظامى ادارے بھى مفقود ہيں جو ايك حكومت كيلئے ضرورى ہوتے ہيں_

ممكن ہے ذہن ميں يہ خيال آئے كہ چونكہ آنحضرت (ص) ايك سادہ زندگى بسر كرتے تھے لہذا انہوں نے اپنى حكومت كے دوران اس قسم كے اداروں كے قائم كرنے كى ضرورت محسوس نہيں كى ليكن عبدالرازق كے نزديك يہ احتمال صحيح نہيں ہے كيونكہ اس قسم كے ادارے ايك حكومت كيلئے ناگزير ہيں اور سادہ زندگى كے منافى بھى نہيں ہيں _ لہذا ان امور اور اداروں كا نہ ہونا اس بات كى دليل ہے كہ آنحضر ت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى اور يہ كہ اسلام صرف ايك دين ہے اور رسالت پيغمبر اكرم (ص) دينى حكومت كے قيام كو شامل نہيں تھي_(۲)

____________________

۱) سورہ شورى آيت ۴۸_

۲) الاسلام و اصول الحكم صفحہ ۶۲_ ۶۴_

۷۹

پہلى دليل كا جواب

قرآن مجيد كى طرف رجوع كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ آنحضرت (ص) كے مناصب اور ذمہ دارياں پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے ميں منحصر نہيں تھے بلكہ قرآن كريم نے كفار اور منافقين كے ساتھ جہاد، مشركين كے ساتھ جنگ كيلئے مومنين كى تشويق ، عدالتى فيصلے اور معارف الہى كے بيان جيسے امور كو بھى آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى قرار ديا ہے_

اور يہ امور پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے جيسے امور كے علاوہ ہيں _ ان ميں سے ہر منصب كيلئے ہم بطور دليل ايك آيت پيش كرتے ہيں_

''( يا ايها النبى جاهد الكفار و المنافقين و اغلظ عليهم ) ''(۱)

اے پيغمبر (ص) آپ كفار اور منافقين سے جہاد كريں اور ان پر سختى كريں_

''( يا ايها النبى حرّض المومنين على القتال ) ''(۲)

اے پيغمبر مومنين كو جہاد پر آمادہ كريں_

''( وما كان لمومن و لا مومنة اذا قضى الله و رسوله امراً ان يكون لهم الخيرة من امرهم ) ''(۳)

كسى مومن مرد يا عورت كو اختيار نہيں ہے كہ جب خدا اور اس كا رسول كسى امر كے بارے ميں فيصلہ كريں تو وہ بھى اپنے امر كے بارے ميں صاحب اختيار بن جائے_

____________________

۱) سورہ تحريم آيت ۹_

۲) سورہ انفال آيت ۶۵_

۳) سورہ احزاب آيت۳۶_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

اقدار : ۱۱قدروں كا معيار ۱۱

اسلام :اسلام كا ہدايت كرنا ۵;جامعيت اسلام ۵; خاتميت اسلام ۲; خصوصيت اسلام ۲، ۵

اسماء و صفات :سميع ۱۳; عليم ۱۳

انبياءعليه‌السلام :خاتم الانبيا ء ۲

توحيد :كلمہ توحيد ۱۷

خدا تعالى :خدا كى حجت كا اتمام ہونا۵; خدا كى ربوبيت ۷; خدا كى سماعت ۱۴، ۱۵; خدا كى سنتوں كا حتمى ہونا ۳; خدا كى سنتوں كى خصوصيات ۸; علم خدا ۱۴،۱۵; كلام خدا كى خصوصيات ۱۰، ۱۲; كلام خدا كى سچائي ۱۰

دشمنى :انبيا سے دشمنى ۳

دين :اخرى دين ۲; اتمام دين ۷; كمال دين كا منشا ۱۴

روايت : ۱۷

صداقت :اہميت صداقت ۸;صداقت كى قدر و قيمت ۱۱

عدالت :عدالت كى اہميت ۸;عدالت كى قدر و منزلت ۱۱

قرآن :احكام قرآن ۹; اخبار قرآن ۹; اعتدال قرآن ۱; جامعيت قرآن ۱، ۵; خاتميت قرآن ۲: صداقت قرآن ۱، ۹، ۱۰; قرآن كا تبديلى سے محفوظ ہونا ۱۲; قرآن كا كردار ۴; قران كا ہدايت كرنا ۵; قرآن كى خصوصيت ۱، ۲، ۴، ۵،۱۰،۱۲،۱۶; كمال قرآن ۱ ; مخالفين قرآن كى بہانہ جوئي ۱۶; نزول قرآن ۱۶

كفار :كفار كا اندھاپن ۳;كفار كے دلوں پر مہر ۳

كلمات اللہ:۱،۳،۱۶

كلمات اللہ سے مراد ۱۷;كلمات اللہ كا ناقابل تغيير ہونا ۱۴

مشركين :مشركين كے تقاضے ۱۵

معجزہ :معجزہ كا منشا ۳

۳۶۱

آیت ۱۱۶

( وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ )

اور اگر آپ روئے زميں كى اكثر يت كا اتباع كرليں گے تو يہ راہ خدا سے بہكا ديں گے ، يہ صرف گمان كا اتباع كرتے ہيں اور صرف اندازنں سے كام ليتے ہيں

۱_ پيغمبر(ص) كو عقائد و احكام (الھي) ميں لوگوں كى اكثريت كى پيروى نہيں كرنى چاہيئے_

افغير الله ابتغى حكما و هو الذي و ان تطع اكثر من فى الارض

گذشتہ آيات ميں مشركين كى طرف سے جديد معجزات كے مطالبے كى بات تھى اور پچھلى آيت ميں بھى حكم الھى كو قبول كرنے كى تاكيد كى گئي ہے اور اس كے بعد قرآن كو حكم خدا كے مظہر كے طور پر پيش كيا گيا ہے_ اس سے يہ نتيجہ اخذ كيا جا سكتا ہے كہ عقائد اور احكام ميں پيروى كرنے كى ممانعت ان موارد ميں ہے كہ جب قرآن ميں اس مسئلے كا حكم موجود ہو_ نہ تمام امور ميں _ كلمہ ''سبيل اللہ'' كى جانب توجہ سے يہ مسئلہ مزيد واضح ہوجاتاہے_

۲_ انبيائے كرامعليه‌السلام حكم خدا كے تابع ہيں نہ كہ لوگوں كى رائے كے_و ان تطع اكثر من فى الارض

۳_ زمين پر بسنے والے اكثر لوگ، گمراہ اور اپنے عقائد ميں غلط ظنون كے تابع ہيں _

و ان تطع اكثر من فى الارض يضلوك عن سبيل الله

۴_ راہ خدا پر چلنا ضرورى ہے خواہ لوگوں كى رائے كے خلاف ہى كيوں نہ ہو_

و ان تطع اكثر عن سبيل الله

۵_ راہ خدا پر چلنے والوں كى اقليت گمراہ لوگوں كى اكثريت كے مقابلے ميں ، سالكين (راہ الھي) كے

۳۶۲

ڈگمگانے كا باعث نہيں بننى چاہيئے_و ان تطع اكثر من فى الارض يضلوك

۶_ بنيادى اور اصولى مسائل ميں ظن و گمان پر تكيہ كرنا، گمراہى كا سبب بنتاہے_يضلوك عن سبيل الله ان يتبعون الا الظن

۷_ عقائد اور افكار ميں لوگوں كى اكثريت كى ہاں ميں ہاں ملانا راہ حق كے سالكين كے ليے خطرناك لغزش ہے_

و ان تطع اكثر من فى الارض يضلوك

اكثريت كى پيروى سے نہي، ظاہر كرتى ہے كہ اكثريت كے عقائد ميں بڑى كشش پائي جاتى ہے اور وہاں لغزش كا خطرہ زيادہ ہے_

۸_ لوگوں كى اكثريت كى پيروى كرنے كا نتيجہ، گمراہى ہے_و ان تطع اكثر من فى الارض يضلوك عن سبيل الله

۹_ ظن و گمان كے جال ميں پھنسنے اور عقائد و افكار كے انحراف سے بچنے كے ليے بہترين اور كاملترين راہنما، قرآن ہے_و تمت كلمت ربك صدقا و عدلا و ان تطع اكثر من فى الارض يضلوك عن سبيل الله

۱۰_ ظن و گمان سے دور اور عالمانہ رائے ركھنے والے افراد كى پيروى كرنے كا جواز_

و ان تطع اكثر من فى الارض ان يتبعون الا الظن

جملہ ''ان يتبعون ...'' لوگوں كى اكثريت كى پيروى كرنے كى ممانعت كا فلسفہ بيان كررہاہے_ لہذا جہاں اس قسم كى حكمت و فلسفہ موجود نہ ہو توممانعت كا حكم بھى نہيں ہوگا_ بالفاظ ديگر حكم ''منصوص العلة'' ہے جب وہ علت نہ ہو تو حكم بھى نہيں ہوگا_

۱۱_ اللہ تعالى سميع (بہت زياد سننے والا) اور عليم (بہت زيادہ جاننے والا) پيروى كے لائق ہے نہ كہ غلط گمان كى پيروى كرنے والى اكثريت_و هو السميع العليم و ان تطع اكثر من فى الارض ان يتبعون الا الظن

۱۲_ لوگوں كى اكثريت كے عقائد اور آراء ظن و گمان پر مبنى ہونے كى وجہ سے بے اعتبار ہيں _

ان يتبعون الا الظن و ان هم الا يخرصون

۱۳_ عقائد اور الھيات ميں ، ظن و گمان كا بے اعتبار ہونا_ان يتبعون الا الظن و ان هم الا يخرصون

۱۴_ كفار اور مشركين كے عقائد، بے بنياد ظن و گمان پر مبنى ہيں _

۳۶۳

يضلوك عن سبيل الله و ان هم الا يخرصون

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ داري۱

احكام :احكام كا منشا ۱

اطاعت :اكثريت كى اطاعت ۱; خدا كى اطاعت ۲، ۱۱; خدا كى اطاعت كى اہميت ۵ ;علماء كى اطاعت ۱۰; لوگوں كى اطاعت ۲

اكثريت :اكثريت كا فاقد اعتبار ہونا ۱۲; اكثريت كا گواہ ہونا ۳،۵; اكثريت كى اطاعت كے آثار ۷،۸; اكثريت كى پيروى نہ كرنا ۱۱; اكثريت كى مخالفت ۴

انبيا ءعليه‌السلام :انبياء كا حكم خدا كى اتباع كرنا ۲

انحراف :انحراف كے موانع ۹

خدا تعالى :خدا كا سميع ہونا ۱۱; علم خدا ،۱۱

دين :دين كى آفات كاپہچاننا ۶، ۷

سبيل اللہ :سبيل اللہ كى اہميت ۴

ظن :ظن سے بچنا ۹، ظن كا اتباع ۳; ظن كا بے اعتبار ہونا ۱۲، ۱۳; ظن و گمان كے اتباع كے آثار ۶

عقيدہ :دينى عقيدے كا منشا۱

قرآن :قرآن كى خصوصيت ۹; قرآن كا ہدايت كرنا ۹

كفار :عقيدہ كفار كاباطل ہونا ۱۴; عقيدہ كفار كى بنياديں ۱۴

گمراہى :گمراہى كے علل و اسباب، ۶، ۸

لغزش :لغزش كے علل و اسباب ۵، ۷

مشركين :مشركين كے عقيدے كى بنياديں ۱۴;مشركين كے عقيدے كى بے اعتبارى ۱۴

مؤمنين :مؤمنين كو خبردار ۵;مؤمنين كى اقليت ۵

۳۶۴

آیت ۱۱۷

( إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَن يَضِلُّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ )

آپ كے پروردگار كو خوب معلوم ہے كہ كون اسك ے راستے سے بھكنے والا ہے اور كون ہدايت حاصل كرنے والا ہے

۱_ فقط خداوند متعال، گمراہ اور ہدايت يافتہ لوگوں كے بارے ميں سب سے زيادہ آگاہ ہے_

ان ربّك هو اعلم بالمهتدين

ضمير ''ھو'' كہ جو ''إنَّ'' كے اسم اور خبر كے درميان ہے، ضمير فصل ہے اور جملہ ميں اسكا كردار حصر اور تاكيد ہے_

۲_ راہ ہدايت اور ضلالت اور اس پر چلنے والوں كے بارے ميں وسيع و عميق شناخت فقط خدا كى راہنمائي سے ہى ميسرہے_ان ربّك هو اعلم من يضل

۳_ تربيت كرنے كےلئے، وسيع و عميق علم اور آگاہى كى ضرورت ہے_ان ربك هو اعلم

''ربّ'' جيسا مقدس نام انتخاب كرنے اور پھر ضمير خطاب كى طرف اضافہ كرنے كے بعد اسے اعلميت سے متصف كرنا ظاہر كرتاہے كہ علم وربوبيت ميں گہرا رابطہ ہے_

۴_ خدا كا وسيع علم دليل ہے كہ گمراہى و ہدايت كے سلسلے ميں اس كى راہنمائي اور فرامين كوضرور قبول كيا جائے_

و ان تطع ان ربك هو اعلم من يضل

جملہ ''انَّ ربك ھو اعلم'' گذشتہ آيت كے مطالب كى علت ہے_

۵_ رہبرى اور قيادت كى صلاحيت ركھنے كى بنيادى شرائط ميں سے ايك شرط ''علم'' ہے_

و ان تطع اكثر ان ربك هو اعلم من يضل

۶_ اعلم (زيادہ جاننے والے) كا اتباع ايك ضرورى اصول ہے_

و ان تطع اكثر من فى الارض يضلوك ان ربك هو اعلم

جملہ ''ھو اعلم'' اتباع خدا كے ضرورى ہونے

۳۶۵

كى ايك علت ہے_ اسى ليے كسى خاص مورد سے مخصوص نہيں ہے بلكہ ہر مورد ميں (جہاں اعلميت ہو) كار ساز ہے اور اس سے استفادہ كيا جا سكتاہے_

اطاعت :علما كى اطاعت ۶

تربيت :تربيت پر مؤثر عوامل ۳;تربيت ميں آگاہى و علم ۳

خدا تعالى :خدا كا علم ۱، ۴;خدا كيساتھ خاص ،۱; خدا كے فرامين

اور احكام كو قبول كرنا ۴; ہدايت خدا ۲، ۴

رہبرى :شرائط رہبرى ۵; علم رہبرى ۵

علم :علم كى اہميت ۵

گمراہ لوگ : ۱گمراہ لوگوں كى پہچان ۲

ہدايت :راہ ہدايت ۲

ہدايت يافتہ لوگ:ہدايت يافتہ لوگوں كى پہچان۲

آیت ۱۱۸

( فَكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ )

لہذا تم لوگ صرف اس جانور كا گوشت كھاؤ جس پر خدا كا نام ليا گيا ہو اگر تمھار ا ايمان اس كى آيتوں پر ہے

۱_ حيوان ذبح كرتے وقت، خداوندعالم كا نام لينا، اسكے كھانے كے حلال ہونے كى شرط ہے_

فكلوا مما ذكر اسم الله عليه

جملہ ''مما ذكر اسم ...'' اگر چہ اس گوشت كو كھانے كے مباح ہونے كا بيان ہے كہ جس پر ذبح كے وقت نام خدا ليا گيا ہے_ اس كے باوجود ہوسكتاہے يہ ذبح كے وقت ''تسمية'' كے شرط ہونے كى جانب اہنمائي ہو_

۲_ وہ ذبيحہ كھانا جائز ہے، جس پر ذبح كرتے وقت خدا

۳۶۶

كا نام ليا گيا ہو_فكلوا مما ذكر اسم الله عليه ان كنتم بآياته مؤمنين

۳_ خداوندعالم كا، ہدايت اور ضلالت كے راستے سے آگاہ ہونے كى وجہ سے اس كے احكام اور فرامين كو قبول كرنا ضرورى ہے_ان ربك هو اعلم فكلوا مما ذكر اسم الله عليه

جملہء ''فكلوا مما'' گذشتہ آيت كے جملے ''ان ربك ھو اعلم'' پر متفرع ہے_لہذا اس كا مطلب يہ ہوجائے گا چونكہ فقط خدا عالم ہے_ بس

احكام پر عمل (ميں اسكى بات) قبول كى جانى چاہيئے_

۴_ جس چيز كو خداوند عالمنے مباح قرار ديا ہے اسے حلال سمجھنا، ہدايت يافتہ ہونے كى علامت ہے_

و هو اعلم بالمهتدين_ فكلوا مما ذكر اسم الله

۵_ خداوند كے احكام (ہي) سبيل اللہ ہيں _هو اعلم من يضل عن سبيله فكلوا مما ذكر اسم الله عليه

جملہ ''فكلوا ...'' شرط محذوف كا جواب ہے يعنى''ان انتهيتم عن اتباع المضلين فكلوا'' چونكہ آيت ميں ''اضلال عن سبيل اللہ'' كى بات ہورہى تھي، تفريع كا تقاضا يہ ہے كہ اس كا مضمون ''سبيل اللہ'' ہو_ دوسرى جانب ''سبيل اللہ'' فقط احكام ذبيحہ سے مخصوص نہيں لہذا تمام احكام كو شامل ہے_

۶_ آيات خدا پر ايمان ركھنے والے مؤمنين، اس كے قوانين كے آگے سر جھكا ديتے ہيں _

فكلوا مما ذكر اسم الله عليه ان كنتم بآياته مؤمنين

۷_ نام خدا كے ساتھ ذبح كيئے گئے حيوان كے حلال ہونے كے بارے ميں شك كرنا، اسلام اور پيغمبر(ص) كے خلاف مكہ ميں (مخالفين كے) پروپيگنڈے كا اہم محور تھا_و ان تطع اكثر من فى الارض فكلوا مما ذكر اسم الله عليه

۸_ احكام خداوند پرعمل سے وابستگى آيات الہى پر ايمان ركھنے كى علامت ہے_

فكلوا ان كنتم بآياته مؤمنين

۹_ آيات خداوند پر ايمان لانا، خدا كے احكام پر عمل كرنے كا مقدمہ ہے_فكلوا ان كنتم بآياته مؤمنين

۱۰_عن ابى جعفر محمد بن علي عليه‌السلام : انه سئل عن ذبيحة اليهودى والنصرانى و المجوسى فتلا قول الله عزوجل: ''فكلوا مما ذكر اسم الله عليه'' قال :

۳۶۷