اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139065 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سيكولرازم كے استدلال كا پہلا مقدمہ يہ ہے كہ اجتماعى اورسماجى روابط و تعلقات ہميشہ بدلتے رہتے ہيں_ طول تاريخ ميں انسان كے اجتماعى اور اقتصادى روابط تبديل ہوتے رہے ہيں اور اس تبديلى كا سرچشمہ علمى اور انسانى تجربات كا رشد ہے_ ديہاتى اور قبائلى معاشرہ ميں حاكم سياسى ،ثقافتى اور اقتصادى روابط ،صنعتى اور نيم صنعتى معاشرہ پر حاكم اجتماعى روابط سے بہت مختلف ہيں _ بنابريں اجتماعى زندگى كے تحول و تغير كى بناپر اجتماعى روابط ميں تبديلى ايك ايسى حقيقت ہے جس سے انكار نہيں كيا جاسكتا_

دوسرا مقدمہ يہ ہے كہ دين اور اس كى تعليمات ثابت اور غير قابل تغيير ہيں_كيونكہ دين نے ايك خاص زمانہ جو كہ اس كے ظہور كا دور تھا ميں انسان سے خطاب كيا ہے اور اس زمانے كو ديكھتے ہوئے ايك مخصوص اجتماع كےحالات اور خاص ماحول كے تحت اس سے سروكار ركھاہے_ دين اور شريعت ايسى حقيقت نہيں ہے جو قابل تكرار ہو_ اسلام نے ايك خاص زمانہ ميں ظہور كيا ہے اور اس طرح نہيں ہے كہ سماجى تحولات كے ساتھ ساتھ وحى الہى بھى بدل جائے اور اسلام بھى نيا آجائے _ دين ايك امر ثابت ہے اور سماجى تحولات كے ساتھ اس ميں جدّت پيدا نہيں ہو تى اور اس كے اصول و ضوابط اور تعليمات نئے نہيں ہوجاتے _ ان دو مقدموں كانتيجہ يہ ہے كہ ايك امر ثابت، امر متغير پر قابل انطباق نہيں ہے _ دين جو كہ امر ثابت ہے ہر زمانے كے مختلف اجتماعى اور سماجى روابط كو منظم نہيں كرسكتا_ صرف اُن معاشروں ميں شريعت كا نفاذ مشكل سے دوچار نہيں ہوتا جو اس كے ظہوركے قريب ہوں كيونكہ اس وقت تك ان معاشروں كے اجتماعى روابط ميں كوئي بنيادى تبديلى نہيں ہوئي تھى _ ليكن ان معاشروں ميں شريعت كا نفاذ مشكل ہوتاہے، جن كے اجتماعى مسائل نزول وحى كے زمانہ سے مختلف ہيںپس شريعت كے نفاذ كے غير ممكن ہونے كا نتيجہ يہ ہے كہ سياسى اور اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل كى ضرورت نہيں ہے_

۶۱

اس پہلي دليل كا جواب

اس استدلال اور اس كے دو اساسى مقدموں پر درج ذيل اشكالات ہيں _

۱_ اجتماعى امور اور روابط ميں تبديليوں كا رونما ہونا ايك حقيقت ہے ليكن يہ سب تبديلياںايك جيسى نہيں ہيں اور ان ميں سے بعض شريعت كے نفاذ ميں ركاوٹ نہيں بنتيں _ اس نكتہ كو صحيح طور پر سمجھ لينا چاہيے كہ تمام اجتماعى تغيرات اساسى اور بنيادى نہيں ہيں بلكہ بعض اجتماعى تبديلياں صرف ظاہرى شكل و صورت كے لحاظ سے ہوتى ہيں بايں معنى كہ گذشتہ دور ميں معاشرے ميں لوگوں كے درميان اقتصادى روابط تھے آج بھى ويسے ہى اقتصادى روابط موجود ہيں ليكن ايك نئي شكل ميں نہ كہ نئے روابط نے ان كى جگہ لى ہے_ مختلف اجتماعى روابط ميں شكل و صورت كى يہ تبديلى قابل تصور ہے_ مثلاًتمام معاشروں ميں اقتصادى و تجارتى تعلقات; خريد و فروخت، اجارہ ، صلح اور شراكت جيسے روابط اور معاملات كى صورت ميں موجود رہے ہيں اور آج بھى موجود ہيں _زمانہ كے گزرنے كے ساتھ ساتھ ان كى شكل و صورت ميں تبديلى آجاتى ہے ليكن ان معاملات كى اصل حقيقت نہيں بدلتي_ اگر ماضى ميں خريد و فروخت ،اجارہ اور شراكت كى چند محدود صورتيںتھيں ، تو آج انكى بہت سارى قسميں وجود ميں آچكى ہيں _ مثلاً ماضى ميں حصص كاكا روبار كرنے والي(۱) اور مشتركہ سرمايہ كى(۲) بڑى بڑى كمپنياں نہيں تھيں_ اسلام نے ان معاملات كى اصل حقيقتكے احكام مقرر كر ديئے ہيں _ تجارت ، شراكت اور اجارہ كے متعلق صدر اسلام كے فقہى احكام ان تمام نئي صورتوں اور قسموں كے ساتھ مطابقت ركھتے ہيں كيونكہ يہ احكام اصل حقيقت كے متعلق ہيں نہ كہ ان كى كسى مخصوص شكل و صورت كے متعلق_ لہذا اب بھى باقى ہيں _

____________________

۱) Exchange. Stock

۲) jointstock companis

۶۲

اسى طرح اسلام نے بعض اقتصادى معاملات كو ناجائز قرار ديا ہے _ آج اگر وہ نئي شكل ميں آجائيں تب بھى اسلام كيلئے ناقابل قبول ہيں اور اس نئي شكل پر بھى اسلام كا وہى پہلے والا حكم لاگو ہوتا ہے _ مثلاً سودى معاملات اسلام ميں حرام ہيں _ آج نئے طرز كے سودى معاملات موجود ہيں جو ماضيميں نہيں تھے _ اگر تجزيہ و تحليل كرتے وقت مجتہد كو معلوم ہوجائے كہ يہ سودى معاملہ ہے تو وہ اس كى حرمت اور بطلان كا حكم لگا دے گا _ بنابريں اس نئے مورد ميں بھى سود والا حكم لگانے ميں كوئي دشوارى نہيں ہوگى _ لہذا اقتصادى روابط و معاملات ميں تغير و تبدل شرعى احكام كے منطبق ہونے ميں ركاوٹ نہيں بنتا _

۲_ بعض اجتماعى تحولات، ايسے مسائل كو جنم ديتے ہيں جوحقيقت اور شكل و صورت كے لحاظ سے بالكل نئے ہوتے ہيں كہ جنہيں ''مسائل مستحدثہ'' كہتے ہيں اس قسم كے مسائل كا حل بھى شريعت كے پاس موجود ہے_ پس سيكولرازم كے استدلال كا دوسرا مقدمہ كہ'' دين ثابت ہے اور تغير پذير اشياء پر منطبق ہونے كى صلاحيت نہيں ركھتا'' درست نہيں ہے كيونكہ دين اگر چہ ثابت ہے اور معاشرتى تحولات كے ساتھ ساتھ تبديل نہيں ہوتا ليكن اس كے باوجود دين مبين اسلام ميں ايسے قوانين و اصول موجود ہيں جن كى وجہ سے فقہ اسلامى ہر زمانہ كے مسائل مستحدثہ (نئے مسائل ) پر منطبق ہونے اور ان كو حل كرنے كى قدرت و صلاحيت ركھتى ہے اور اس ميں اسے كوئي مشكل پيش نہيں آتى _ ان ميں سے بعض اصول و قوانين يہ ہيں_

الف_ اسلامى فقہ خصوصاً فقہ اہلبيت ميں اجتہاد كا دروازہ كھلا ہے بايں معنى كہ فقيہ اور مجتہد كا كام صرف يہ نہيں ہے كہ فقہى منابع ميں موجود مسائل كے احكام كا استنباط كرے بلكہ وہ فقہى اصول و مبانى كو مد نظر ركھتے ہوئے جديد مسائل كے احكام كے استخراج كيلئے بھى كوشش كرسكتا ہے _

ب_ شرط كى مشروعيت اور اس كى پابندى كا لازمى ہونا فقہ كے بعض شرائط اور جديد مسائل كے ساتھ

۶۳

مطابقت كى راہ ہموار كرتا ہے كيونكہ بہت سے نئے عقلائي معاملات كو ''شرط اور اس كى پابندى كے لزوم'' كے عنوان سے جواز بخشا جاسكتاہے _ مثلاً عالمى تجارت كے قوانين ،دريائي اور بحرى قوانين، قوانين حق ايجاد ، فضائي راستوںاور خلائي حدود كے قوانين سب نئے امور اور مسائل ہيں كہ جن كے متعلق اسلامى فقہ ميں واضح احكام موجود نہيں ہيں _ ليكن اسلامى نظام ان ميں سے جن ميں مصلحت سمجھتاہے ان كو بين الاقوامى يا بعض انفرادى معاملات كے ضمن ميں قبول كرسكتاہے اور لوگوں كو ان كى پابندى كرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے كيلئے راہنمائي كرسكتا ہے _

ج_ مصلحت كے پيش نظر جامع الشرائط ولى فقيہ كا حكم حكومتى زمانہ كے تقاضوں كے ساتھ فقہ كى مطابقت كے اہم ترين اسباب ميں سے ہے _نئے امور كہ جن كے متعلق مخصوص فقہى حكم موجود نہيں ہے ميں ولى فقيہ حكومتى حكم كے تحت ان كى شرعى حيثيت كا تعين كرسكتا ہے_

مختصر يہ كہ:

اولاً: تو تمام اجتماعى تبديلياں ايسى نہيں ہيں جو نئے شرعى جواب كا مطالبہ كريں اور نفاذ شريعت ميں دين كا ثبات اور استحكام ركاوٹ پيدا كرے كيونكہ صرف شكل وصورت بدلى ہے لہذا شريعت كا حكم آسانى سے اس پر منطبق ہوسكتا ہے _

ثانياً: اگر اجتماعى تحولات كى وجہ سے بالكل نئے مسائل پيدا ہوجائيں تب بھى اسلامى فقہ ميں ايسے اسباب وا صول موجود ہيں جن كى وجہ سے شريعت ان نئے مسائل كيلئے بھى جواب گو ہوسكتى ہے _ بنابريں '' ثبات دين'' كا معنى يہ نہيں ہے كہ دين كا جديد مسائل پر منطبق ہونا ممكن نہيں ہے _ بلكہ دين ثابت ميں ايسےعناصرموجود ہيں كہ جن كى بناپر دين جديد تبديليوںاور مسائل كے قدم بہ قدم چل سكتا ہے _

۶۴

خلاصہ :

۱)'' سيكولرازم'' دينى حكومت كو تطبيق اور نفاذ شريعت كى مشكل سے دوچا ر سمجھتاہے _

۲) دينى حكومت كى مخالفت كے سلسلہ ميں ''سيكولرازم'' كى مشہور دليل يہ ہے كہ فقہ اپنے ثبات كى وجہ سے اجتماعى تحولات پر منطبق نہيں ہوسكتى _

۳)''سيكولرازم'' كے استدلال كا بنيادى نكتہ يہ ہے كہ دين ثابت ہے اور اجتماعى روابط تبديل ہوتے رہتے ہيں اور ثابت چيز متغيّر شےء پر منطبق نہيں ہو سكتى پس دين معاشرے ميں قابل اجرا نہيں ہے _

۴) حقيقت يہ ہے كہ اجتماعى تغيرات ايك جيسے نہيں ہيں _

۵) اجتماعى معاملات كى شكل و صورت ميں تبديلى نفاد شريعت ميں مشكل پيدا نہيں كرتى _

۶) اگر چہ بعض تبديلياں بالكل نئي ہيں ليكن شريعت ميں ان كيلئے راہ حل موجود ہے _

۷) دين اگر چہ ثابت ہے ليكن اس ميں مختلف حالات كے ساتھ سازگار ہونے كے اسباب فراہم ہيں_

۶۵

سوالات :

۱) دينى حكومت كى نفى پر ''سيكولرازم'' كى پہلى دليل بيان كيجيئے _

۲) دو قسم كے اجتماعى تغيرات كى مختصر وضاحت كيجيئے _

۳) كس قسم كے اجتماعى تغيرات ميں شريعت كا اجرازيادہ مشكل ہے ؟

۴)''سيكولرازم'' كے پہلے استدلال كا اختصار كيساتھ جواب بيان كيجئے_

۵) جديد مسائل پر اسلامى فقہ كو قابل انطباق بنانے والے عناصر كى چند مثاليں پيش كيجئے_

۶۶

آٹھواں سبق :

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلّہ -۲-

دوسرى دليل :

سيكولرازم كى پہلى دليل اس زاويہ نگاہ سے بيان كى گئي تھى كہ اجتماعى معاملات اور مسائل ہميشہ بدلتے رہتے ہيں جبكہ دين و شريعت ثابت ہے لہذا فقہ ان معاملات اور مسائل كا جواب دينے سے قاصر ہے _ سياست اور اجتماع كے متعلق فقہ كى ناتوانى پر سيكولرازم كى دوسرى دليل درج ذيل مقدمات پر مشتمل ہے _

۱_ فقہ كے سياسى اہداف ميں سے ايك معاشرتى مشكلات كا حل اور انسان كى دنيوى زندگى كے مختلف پہلوؤں كى تدبير كرنا ہے غير عبادى معاملات مثلاً ارث ، وصيت، تجارت ، حدود اور ديات ميں واضح طور پريہ ہدف قابل فہم ہے _ مثال كے طور پر معاشرتى برائيوں كو روكنے كيلئے حدود و ديات كا باب اور معاشرہ كى اقتصادى مشكلات كے حل كيلئے مختلف تجارتى اور معاملاتى ابواب كارسازہيں _

۲_ گذشتہ ادوار ميں اجتماعى روابط بہت ہى سادہ اور لوگوں كى ضروريات نہايت كم اور غير پيچيدہ تھيں _ فقہ آسانى سے ان اہداف سے عہدہ برا ہو سكتى تھى اور انسان كى اجتماعى ضروريات كو پورا كرنے كى صلاحيت

۶۷

ركھتى تھى بنابريں فقہ اور فقہى نظارت صرف اس معاشرہ كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكتى ہے جو نہايت سادہ اور مختصرہو_

۳_ آج معاشرہ اور اجتماعى زندگى مخصوص پيچيدگيوں كى حامل ہے لہذا اس كى مشكلات كے حل كيلئے علمى منصوبہ بندى(۱) كى ضرورت ہے اور موجودہ دور كى مشكلات كو فقہ اپنى سابقہ قد و قامت كيساتھ حل كرنے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ بنيادى طور پر منصوبہ بندى كے فن كو نہيں كہتے بلكہ فقہ كا كام احكام شريعت كو بيان كرنا ہے فقہ صرف قانونى مشكلات كو حل كرسكتى ہے جبكہ موجودہ دور كى تمام مشكلات قانونى نہيں ہيں _

ان مقدمات كا نتيجہ يہ ہے كہ فقہ موجودہ معاشروں كو چلانے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ صرف قانونى مشكلات كا حل پيش كرتى ہے جبكہ موجود معاشرتى نظام كو ماہرانہ اور فنى منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _ لہذا آج كى ماہرانہ علمى اورسائنٹيفك منصوبہ بنديوں كے ہوتے ہوئے فقہى نظارت كى ضرورت نہيں ہے _

اس دوسرى دليل كاجواب:

مذكورہ دليل ''دينى حكومت'' اور'' اجتماعى زندگى ميں فقہ كى دخالت ''كى صحيح شناخت نہ ہونے كا نتيجہہے _ اس دليل ميں درج ذيل كمزورنكات پائے جاتے ہيں _

۱_ اس دليل كے غلط ہونے كى ايك وجہ فقہى نظارت اور علمى و عقلى نظارت(۲) كے در ميان تضاد قائم كرنا ہے _گويا ان دونوں كے درميان كسى قسم كا توافق اور مطابقت نہيں ہے _ اس قسم كے تصور كا سرچشمہ عقل اور دين كے تعلق كا واضح نہ ہونا اوردينى حكومت اور اس ميں فقہ كے كردار كے صحيح تصور كا فقدان ہے_ اسى ابہام كى وجہ سے سيكولرازم نے يہ سمجھ ليا ہے كہ معاشرے كى تمام تر زمام نظارت يا تو فقہ كے ہاتھ ميں ہو اور تمام تر

____________________

۱) scientific management

۶۸

اجتماعى و سماجى مشكلات كا حل فقہ كے پاس ہو اور علم و عقل كى اس ميں كسى قسم كى دخالت نہ ہو يا فقہ بالكل ايك طرف ہوجائے اور تمام تر نظارت علم و عقل كے پاس ہو_

اس تضاد كى كوئي بنياد اور اساس نہيں ہے دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں يہ فرق نہيں ہے كہ دينى حكومت عقل ، علم اور انسانى تجربات كو بالكل ناديدہ سمجھتى ہے اور معاشرے كے انتظامى امور ميں صرففقہى احكام پر بھروسہ كرتى ہے جبكہ سيكولر حكومت معاشرتى امور ميں مكمل طور پر عقل و علم پر انحصار كرتى ہے _اس قسم كى تقسيم بندى اور فرق كاملاً غير عادلانہ اور غير واقعى ہے_دينى حكومت بھى عقل و فہم اور تدبيرومنصوبہ بندى سے كام ليتى ہے_ دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں فرق يہ ہے كہ دينى حكومت ميں عقل اور منصوبہ بندى كو بالكل بے مہار نہيں چھوڑ اگيا بلكہ عقل دينى تعليمات كے ساتھ ہم آہنگ ہوتى ہے اور دينى حكومت عقل سے بے بہرہ نہيں ہے_ بلكہ اسے وہ عقل چاہيے جو شريعت كے رنگ ميں رنگى ہو اور دينى حكومت ميں نظارت اور عقلى منصوبہ بندى كيلئے ضرورى ہے كہ وہ دينى تعليمات سے آراستہ ہوں اور اسلامى حدودكو مد نظر ركھتے ہوئے معاشرتى امور كو چلائے _ سيكولر حكومت ميںعقلى نظارت ،بے مہار اور دين سے لا تعلق ہوتى ہے _ ايسى عقلينظارت دين سے كوئي مطابقت نہيں ركھتى _

۲_ دينى حكومت ميں دين كى حاكميت اور اسلامى احكام كى رعايت كا يہ معنى نہيں ہے كہ حكومت كے تمام كام مثلاً قانون گذارى ، فيصلے اور منصوبہ بندى جيسے امور بلاواسطہ'' فقہ سے ماخوذ'' ہوں _ دينى حكومت كى اساس اس پر نہيں ہے كہ معاشيات كى جزوى تدابير، بڑے بڑے سياسى اور اقتصادى منصوبے اور اجتماعى پيچيدگيوں كا حل عقل و علم كى دخالت اور مددكے بغير براہ راست فقہ سے اخذ كيا جائے_ يہ بات نا ممكن ہے اور دين نے بھى اس قسم كا كوئي دعوى نہيں كيا _ نہ ماضى ميں اور نہ حال ميں كبھى بھى فقہ تمام مشكلات كا حل نہيں

۶۹

رہى بلكہ ماضى ميں بھى جو مشكلات سيكولر افراد كى نظر ميں صرف فقہ نے حل كى ہيں در حقيقت ان ميں عقل اور انسانى تجربات بھى كار فرما رہے ہيں_ آنحضرت (ص) ،اميرالمؤمنيناور صدر اسلام كے دوسرے خلفاء نے اسلامى معاشرے كے انتظامى امور ميں جس طرح فقہ سے مدد لى ہے اسى طرح عقلى چارہ جوئي، عرفى تدابير اور دوسروں كے مشوروں سے بھى فائدہ اٹھايا ہے _ ايسا ہرگز نہيں ہے كہ فقہ تمام اجتماعى مسائل اور مشكلات كا حل رہى ہو اور اس نے عقل و تدبيركى جگہ بھى لے لى ہو _ پس جس طرح ماضى ميں دينى حكومت نے فقہ اور عقل و عقلى تدابير كو ساتھ ساتھ ركھا ہے اسى طرح آج بھى دينى حكومت ان دونوں كو ساتھ ساتھ ركھ سكتى ہے _ سيكولر حضرات كو يہ غلط فہمى ہے كہ ماضى ميں دينى حكومت صرف فقہ كى محتاج تھى اور آج چونكہ دنيا كو اجتماعى اورناقابل انكار منصوبہ بندى كى ضرورت ہے لہذا دينى حكومت جو كہ صرف فقہى نظارت پر مشتمل ہوتى ہے معاشرتى نظام كو چلانے سے قاصر ہے_

۳_ اجتماعى زندگى ميں فقہ كے دو كام ہيں_ ايك : مختلف پہلوؤں سے قانونى روابط كو منظم كرنا اور ان كى حدود متعين كرنا_ دوسرا : ثقافت ، معيشت اور داخلى و خارجى سياست كے كلى اصول و ضوابط مشخص كرنا_دينى حكومت كا فقہ پر انحصار يا فقہى نظارت كا مطلب يہ ہے كہ وہ حكمراني، خدمتگزاري،كا ركردگى اور قوانين بنانے ميں ان قانونى حدود كا بھى خيال ركھے اور ان اصول و قوانين كے اجرا اور اپنے اہداف كے حصول كيلئے عملى منصوبہ بندى بھى كرے_ فقہى نظارت كا معنى يہ نہيں ہے كہ فقہ صرف افراط زر ، بے روزگارى اور ٹريفك كى مشكلات كو حل كرے بلكہ فقہى نظارت كا معنى يہ ہے كہ اسلامى معاشرے كے حكمران اور منتظمين اقتصادى اور سماجى مشكلات كو حل اوران كى منصوبہ بندى كرتے وقت شرعى حدود كى رعايت كريں _ اور ايسے قوانين كا اجرا كريں جو فقہى موازين كے ساتھ سب سے زيادہ مطابقت ركھتے ہوں _ لہذا دليل كے تيسرے حصّے ميں جو يہ

۷۰

كہا گيا ہے كہ فقہ صرف قانونى پہلو ركھتى ہے اور تمام معاشرتى مسائل قانونى نہيں ہيں وہ اس نكتے پر توجہ نہ دينے كى وجہ سے كہا گيا ہے _ اگرچہ تمام معاشرتى مسائل قانونى نہيں ہيں ليكن ايك دينى معاشرے ميں ان مشكلات اور جديد مسائل كے حل كا طريقہ بہت اہميت ركھتا ہے_ ايك اجتماعى مشكل كے حل كے مختلف طريقوں ميں سے وہ طريقہ اختيار كيا جائے جس ميں اسلامى احكام كى زيادہ رعايت كى گئي ہو اورجو اسلامى اصولوں سے زيادہ مطابقت ركھتا ہو _ پس كسى اجتماعى مشكل كے قانونى نہ ہونے كا مطلب يہ نہيں ہے كہ اس كے حل كيلئے اسلامى احكام كو بالكل نظر انداز كرديا جائے_

يہ دو دليليں جو ان دو سبقوںميں بيان كى گئي ہيں ''سياست اور معاشرتى نظارت ميں دين كى عدم دخالت '' پر سيكولر حضرات كى اہم اور مشہورترين ادلّہ ميں سے ہيں _باقى ادلّہ اتنى اہم نہيں ہيں لہذا انہيں ذكر نہيں كرتے اورانہيں دو پر اكتفاء كرتے ہيں _

۷۱

خلاصہ :

۱) فقہ كے اہداف ميں سے ايك انسانى معاشرے كى اجتماعى مشكلات كو حل كرنا ہے _

۲)سيكولر حضرات كا خيال ہے كہ ماضى ميں ان مشكلات كے حل كرنے ميں اسلامى فقہ كامياب رہى ہے ليكن موجودہ جديد دور ميں وہ اس كى صلاحيت نہيں ركھتي_

۳) موجودہ دور، خاص قسم كى پيچيدگيوں اور مسائل كا حامل ہے پس اس كى تمام مشكلات فقہ سے حل نہيں ہو سكتيں لہذا ان كے حل كيلئے علمى نظارت اور منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _

۴) سيكولر حضرات كا خيال ہے كہ علمى و عقلى نظارت، فقہى نظارت كى جانشين بن چكى ہے_

۵) سيكولر حضرات كى نظر ميں فقہ صرف قانونى مشكلات كو بر طرف كرتى ہے جبكہ موجودہ دور كى مشكلات صرف قانونى نہيں ہيں_

۶) سيكولر حضرات كو فقہى نظارت اور علمى نظارت كے درميان تضاد قرار دينے ميں غلط فہمى ہوئي ہے _

۷) دينى حكومت اور فقہى نظارت نے ماضى سے ليكر آج تك عقل سے فائدہ اٹھايا ہے _

۸) امور حكومت ميں فقہ كو بروئے كار لانا ،عقل سے مدد حاصل كرنے كے منافى نہيں ہے _

۹)دينى حكومت ميں اجتماعى مشكلات كے حل ، منصوبہ بندى اور نظارت ميں فقہى موازين اور دينى اقدار كى رعايت كرنا ضرورى ہے _

۷۲

سوالات :

۱) سيكولرحضرات اجتماعى اور سماجى مشكلات كے حل كرنے ميں فقہ كى توانائي اور صلاحيت كے بارے ميں كيا نظريہ ركھتے ہيں؟

۲) دينى حكومت كى نفى پر سيكولر حضرات كى دوسرى دليل كو مختصر طور پربيان كيجئے ؟

۳) سيكولر حضرات كى نظر ميں موجودہ دور كيلئے كس قسم كى نظارت كى ضرورت ہے ؟

۴) كيا علمى نظارت اور فقہى نظارت ميں تضادہے ؟

۵) اجتماعى زندگى ميں فقہ كا دائرہ كاركيا ہے ؟

۶) ''معاشرے كى نظارت ميں دين كى حاكميت ''سے كيا مراد ہے ؟

۷۳

دوسرا باب :

اسلام اور حكومت

سبق نمبر ۹،۱۰ : آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت

سبق نمبر ۱۱ : آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت

سبق نمبر ۱۲ : شيعوں كا سياسى تفكر

سبق نمبر ۱۳، ۱۴ : سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار

۷۴

تمہيد :

گذشتہ باب ميں ہم نے كہا تھا كہ دينى حكومت كا معنى '' حكومتى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت اور مختلف سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو قبول كرناہے'' _ دينى حكومت كے مخالفين كى ادلّہ پر ايك نگاہ ڈالتے ہوئے ہم يہ ثابت كرچكے ہيں كہ اجتماعى و معاشرتى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے _

اس باب ميں اس نكتہ كى تحقيق كى جائے گى كہ كيا اسلام مسلمانوں كو دينى حكومت كى تشكيل كى دعوت ديتا ہے يانہيں ؟ اور حكومت كى تشكيل، اس كے اہداف و مقاصد اور اس كے فرائض كے متعلق اس كا كوئي خاص نظريہ ہے يا نہيں ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا اسلام نے دين اور حكومت كى تركيب كا فتوى ديا ہے ؟ اور كوئي خاص سياسى نظريہ پيش كيا ہے ؟

واضح سى بات ہے كہ اس تحقيق ميں دينى حكومت كے منكرين كى پہلى قسم كى آراء اور نظريات جو كہ گذشتہ باب ميں بيان ہوچكے ہيں پر تنقيد كى جائے گى _ يہ افراد اس بات كا انكار نہيں كرتے كہ معاشرے اور سياست ميں دين كى دخالت ممكن ہے _ اسى طرح اس كے بھى قائل ہيں كہ اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے بلكہ ان كا كہناہے كہ'' اسلام ميں ايسا ہوانہيں '' _ يعنى ان كى نظر ميں اسلام نے حكومت كى تشكيل ، اس كى كيفيت اور حكومتى ڈھانچہ جيسے امور خود مسلمانوں كے سپرد كئے ہيں اور خود ان كے متعلق كسى قسم كا اظہار رائے نہيں كيا _

۷۵

نواں سبق:

آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت -۱-

كيا اسلام نے دينى حكومت كى دعوت دى ہے؟ كيا مختلف سياسى اور حكومتى امور ميں اپنى تعليماتپيش كى ہيں ؟ اس قسم كے سوالات كے جواب ہميں صدر اسلام اور آنحضرت (ص) كى مدنى زندگى كى طرف متوجہ كرتے ہيں_

آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى كے جو آخرى دس سال مدينہ ميں گزارے تھے اس وقت امت مسلمہ كى قيادت اور رہبرى آپ كے ہاتھ ميں تھى _سوال يہ ہے كہ يہ قيادت اور رہبرى كيا مسلمانوں پر حكومت كے عنوان سے تھي؟ يااصلاً آ پ (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہيہ رہبرى و قيادت صرف مذہبى اور معنوى عنوان سے تھى ؟

گذشتہ زمانے كے تمام مسلمانوں اور موجودہ دور كے اسلامى مفكرين كى اكثريت معتقدہے كہ تاريخى شواہد بتاتے ہيں كہ اس وقت آنحضرت (ص) نے ايك اسلامى حكومت تشكيل دى تھى جس كا دارالحكومت مدينہ تھا _ اس مشہور نظريہ كے مقابلہ ميں قرن اخير ميں مسلمان مصنفينكى ايك قليل تعداد يہ كہتى ہےكہ پيغمبر

۷۶

اكرم (ص) صرف دينى رہبر تھے اور انہوں نے كوئي حكومت تشكيل نہيں دى تھى _

آنحضرت (ص) كى قيادت كے سلسلہ ميں دو بنيادى بحثيں ہيں :

الف_ كيا آپ (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى ؟

ب_ بنابر فرض تشكيل حكومت كيا آنحضر ت (ص) كى يہ رياست اور ولايت ،وحى اور دينى تعليمات كى رو سے تھى يا ايك معاشرتى ضرورت تھى اور لوگوں نے اپنى مرضى سے آپ(ص) كو اپنا سياسى ليڈر منتخب كر ليا تھا؟ پہلے ہم پہلے سوال كى تحقيق كريں گے اور ان افراد كى ادلّہ پر بحث كريں گے جو كہتے ہيں : آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _

حكومت كے بغير رسالت

مصرى مصنف على عبدالرازق اس نظريہ كا دفاع كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى قيادت ورہبرى صرف مذہبى عنوان سے تھى اور اس قيادت كا سرچشمہ آپ كى نبوت اور رسالت تھى اسى وجہ سے آپ كى رحلت كے بعد اس قيادت كا خاتمہ ہوگيا _ اور يہ امر جانشينى اور نيابت كے قابل نہيں تھا _ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد خلفاء نے جو قيادت كى وہ آنحضرت (ص) والى رہبرى نہيں تھى بلكہ خلفاء كى قيادت سياسى تھى اور اپنى اس سياسى حكومت كى تقويت كيلئے خلفاء نے آنحضرت (ص) كى دينى دعوت سے فائدہ اٹھايا_ اس نئي حكومت كے اہلكاروں نے خود كو خليفہ رسول كہلوايا جس كى وجہ سے يہ سمجھ ليا گيا كہ ان كى رہبرى رسول اكرم (ص) كى قيادت كى جانشينى كے طور پر تھى حالانكہ آنحضرت (ص) صرف دينى قيادت كے حامل تھے اور يہ قيادت قابل انتقال نہيں ہے_ پيغمبر اكرم (ص) سياسى قيادت كے حامل نہيں تھے كہ خلفا آپ كے جانشين بن سكتے(۱) _

____________________

۱) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبدالرازق صفحہ ۹۰، ۹۴_

۷۷

عبدالرازق نے اپنے مدعا كے اثبات كيلئے دو دليلوں كا سہارا ليا ہے _

الف _ پہلى دليل ميں انہوں نے بعض قرآنى آيات پيش كى ہيں ان آيات ميں شان پيغمبر (ص) كو رسالت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر قرار ديا گيا ہے _ ان كے عقيدہ كے مطابق ''اگر آنحضرت (ص) رسالت اور نبوت كے علاوہ بھى كسى منصب كے حامل ہوتے يعنى حكومت اور ولايت كے منصب پر بھى فائز ہوتے تو كبھى بھى ان آيات ميں ان كى شان كو نبوت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر نہ كيا جاتا''(۱)

ان ميں سے بعض آيات يہ ہيں_

( ''ان ا نا الّا نذيرو بشير '' ) (۲)

ميں تو صرف ڈرانے اور بشارت دينے والا ہوں _

( ''وَ مَا على الرسول الّا البلاغ المبين '' ) (۳)

اور رسول كے ذمہ واضح تبليغ كے سوا كچھ بھى نہيں ہے _

( ''قل انّما ا نا بشر مثلكم يُوحى الي'' ) (۴)

كہہ ديجيئے ميں تمھارے جيسا بشر ہوں مگر ميرى طرف وحى آتى ہے_

( ''انّما ا نت منذر'' ) (۵)

يقيناً تو صرف ڈرانے والا ہے _

____________________

۱) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبد الرازق صفحہ ۷۳_

۲) سورہ اعراف آيت۱۸۸_

۳) سورہ نور آيت ۵۴_

۴) سورہ كہف آيت۱۱۰_

۵) سورہ رعد آيت ۷_

۷۸

'' ( فان ا عرضوا فما ا رسلناك عليهم حفيظاً ان عليك الا البلاغ'' ) (۱)

اگر يہ روگردانى كريں تو ہم نے آپ كو ان كا نگہبان بنا كر نہيں بھيجا ہے _ آپ كا فرض صرف پيغام پہنچا دينا ہے_

ب_ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ عبدالرازق اس كى دوسرى دليل يہ ديتے ہيں كہ آج كل ہر حكومت بہت سے شعبوں اور اداروں پر مشتمل ہوتى ہيں _ ضرورى نہيں ہے كہ گذشتہ دور كى حكومتيں بھى اسى طرح وسيع تر اداروں پر مشتمل ہوں ليكن جہاں بھى حكومت تشكيل پاتى ہے كم از كم كچھ سركارى محكموں مثلاً انتظاميہ ،داخلى و خارجى اور مالى امور سے متعلقہ اداروںو غيرہ پر مشتمل ہوتى ہے_ يہ وہ كمترين چيز ہے جس كى ہر حكومت كو احتياج ہوتى ہے ليكن اگر ہم آنحضرت (ص) كے دور فرمانروائي كى طرف ديكھيں تو كسى قسم كے انتظامى اداروں كا نشان نہيں ملتا _ يعنى آنحضر ت (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين انتظامى ادارے بھى مفقود ہيں جو ايك حكومت كيلئے ضرورى ہوتے ہيں_

ممكن ہے ذہن ميں يہ خيال آئے كہ چونكہ آنحضرت (ص) ايك سادہ زندگى بسر كرتے تھے لہذا انہوں نے اپنى حكومت كے دوران اس قسم كے اداروں كے قائم كرنے كى ضرورت محسوس نہيں كى ليكن عبدالرازق كے نزديك يہ احتمال صحيح نہيں ہے كيونكہ اس قسم كے ادارے ايك حكومت كيلئے ناگزير ہيں اور سادہ زندگى كے منافى بھى نہيں ہيں _ لہذا ان امور اور اداروں كا نہ ہونا اس بات كى دليل ہے كہ آنحضر ت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى اور يہ كہ اسلام صرف ايك دين ہے اور رسالت پيغمبر اكرم (ص) دينى حكومت كے قيام كو شامل نہيں تھي_(۲)

____________________

۱) سورہ شورى آيت ۴۸_

۲) الاسلام و اصول الحكم صفحہ ۶۲_ ۶۴_

۷۹

پہلى دليل كا جواب

قرآن مجيد كى طرف رجوع كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ آنحضرت (ص) كے مناصب اور ذمہ دارياں پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے ميں منحصر نہيں تھے بلكہ قرآن كريم نے كفار اور منافقين كے ساتھ جہاد، مشركين كے ساتھ جنگ كيلئے مومنين كى تشويق ، عدالتى فيصلے اور معارف الہى كے بيان جيسے امور كو بھى آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى قرار ديا ہے_

اور يہ امور پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے جيسے امور كے علاوہ ہيں _ ان ميں سے ہر منصب كيلئے ہم بطور دليل ايك آيت پيش كرتے ہيں_

''( يا ايها النبى جاهد الكفار و المنافقين و اغلظ عليهم ) ''(۱)

اے پيغمبر (ص) آپ كفار اور منافقين سے جہاد كريں اور ان پر سختى كريں_

''( يا ايها النبى حرّض المومنين على القتال ) ''(۲)

اے پيغمبر مومنين كو جہاد پر آمادہ كريں_

''( وما كان لمومن و لا مومنة اذا قضى الله و رسوله امراً ان يكون لهم الخيرة من امرهم ) ''(۳)

كسى مومن مرد يا عورت كو اختيار نہيں ہے كہ جب خدا اور اس كا رسول كسى امر كے بارے ميں فيصلہ كريں تو وہ بھى اپنے امر كے بارے ميں صاحب اختيار بن جائے_

____________________

۱) سورہ تحريم آيت ۹_

۲) سورہ انفال آيت ۶۵_

۳) سورہ احزاب آيت۳۶_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

٥_ ظالم و ستمگر ہر قسم كے حامى و ناصر سے محروم ہيں _يا ايها الذين آمنوا لا تبطلوا صدقاتكم بالمن و الاذي و لا تيمموا الخبيث الشيطان يعدكم الفقر و ما للظالمين من انصار _

٦_ انفاق نہ كرنا يا انفاق كو احسان، اذيت و آزار سے آلودہ كرنا يا ناپسنديدہ چيزوں سے انفاق كرنا اور نذر پر عمل نہ كرنا ستم ہے_لا تبطلوا صدقاتكم بالمن والاذى انفقوا من طيبات و ما للظالمين من انصار

٧_ خدا تعالى ، انفاق كرنے والوں اور نذر پر عمل كرنے والوں كا ياورو مددگار ہے_و ما للظالمين من انصار

يہ نكتہ '' و ما للظالمين من انصار''كے مفہوم سے اخذ ہوتاہے كيونكہ صرف انفاق نہ كرنے والے خدا تعالى كى حمايت سے محروم ہيں _

٨_ انفاق اور نذر كو پورا كرنا معاشرے ميں باہمى تعاون كے پيدا ہونے اور اسكى وسعت كا سبب ہے_*

و ما انفقتم من نفقة او نذرتم من نذر و ما للظالمين من انصار لگتاہے انصار و مددگار ميں وہ لوگ بھى شامل ہيں جو انفاق كرنے والوں كے اموال سے بہرہ مند ہوتے ہيں يعنى انفاق كرنے والوں اور نذروں كو پورا كرنے والوں كو عوامى حمايت حاصل ہے_ نيز يہ خود بھى عوام اور معاشرے كے مددگار ہيں پس انفاق باہمى اور معاشرتى تعاون كے عام ہونے كا سبب بنتاہے_

٩_ انفاقات اور نذور كے بارے ميں خدا تعالى كى آگاہى كى طرف متوجہ رہنا انسان كو انفاقات اور نذور كے پورا كرنے كى ترغيب دلاتاہے_و ما انفقتم من نفقة او نذرتم من نذر فان الله يعلمه

احسان جتانا: احسان جتانے كے اثرات ٦

اذيت: اذيت كے اثرات٦

انسان: انسان كا عمل٣

انفاق: انفاق كا پيش خيمہ ٩;انفاق كى تشويق ٤; انفاق كى جزا ٢ ، ٧; انفاق كے آداب ١; انفاق كے انفرادى اثرات ٧;انفاق كے ترك كى مذمت ٦; انفاق كے معاشرتى اثرات ٨; ناپسنديدہ چيزوں سے انفاق ٦

۳۰۱

تحريك: تحريك كے عوامل ٤ ، ٩

تعاون: معاشرے ميں تعاون ٨

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ١ ، ٣ ، ٩;خدا تعالى كى امداد ٧;خدا تعالى كى جزا ٢

ظالمين :٥ ظلم : ظلم كے اثرات ٥;ظلم كے موارد ٦

علم: علم كے اثرات ٩

نذر: نذر پورى كرنے كا پيش خيمہ ٩;نذر پورى كرنے كے اثرات ٧،٨;نذر پورى نہ كرنے كے اثرات ٦;نذر كى تشويق ٤; نذر كى جزا ٢; نذر كے آداب ١

إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاء فَهُوَ خَيْرٌ لُّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (٢٧١)

اگر تم صدقہ كو على الاعلان دوگے تو يہ بھى ٹھيك ہے اور اگر چھپا كر فقراء كے حوالے كرد و گے تو يہ بھى بہت بہتر ہے اور اس كے ذريعہ تمھارے بہت سے گناہ معاف ہو جائيں گے او رخدا تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے _

١_ على الاعلان صدقہ دينا نيك اور قدر و قيمت والا عمل ہے_ان تبدوا الصدقات فنعما هي

٢_انفاق كرنے والے كيلئے آشكار صدقہ دينے كى

۳۰۲

بجائے مخفى طور پر صدقہ دينے كا زيادہ فائدہ ہے_ان تبدوا الصدقات فنعما هى و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم

لگتاہے كلمہ '' لكم'' اس نكتے كو بيان كررہاہے كہ مخفى صدقہ ، صدقہ دينے والے كيلئے زيادہ فائدہ مند ہے كيونكہ اس ميں ريا وغيرہ كا احتمال كم ہے ليكن اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ مخفى صدقہ ہر لحاظ سے آشكار صدقہ كى نسبت زيادہ فائدہ مند ہے_

٣_ پنہانى صدقہ كى قدر و قيمت آشكار صدقہ كى نسبت زيادہ ہے_ان تبدوا و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم

اس بناپر كہ كلمہ '' لكم'' قرينہ كے طور پر صرف پنہان صدقہ كے صدقہ دينے والے كيلئے زيادہ مفيد ہونے كو بيان نہ كررہاہو بلكہ آيت كے اطلاق كو مدنظر ركھا جائے_

٤_ صدقات كے ذريعے حاجتمندوں كى حاجت روائي كرنا انہيں ديگر مصارف ميں خرچ كرنے سے بہتر ہے_

ان تبدوا الصدقات و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم صدقات كے يقيناً بہت سارے مصارف ہيں ليكن ان ميں سے صرف فقراء كے ذكر كرنے سے انكى اولويت ظاہر ہوتى ہے_

٥_ انسان كى شخصيت كى حفاظت كى قدر و قيمت ہے_و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم

لگتاہے پنہاں صدقہ كى برترى كا ايك فلسفہ يہ ہے كہ اس ميں حاجتمندوں كى شخصيت اور آبرو محفوظ رہتى ہے كيونكہ صدقے كا مقصد ضرورت مندوں كى حاجت روائي كرناہے اور انسان اپنى آبرو كى حفاظت كے زيادہ ضرورتمند ہيں _

٦_ قرآن كريم كا لوگوں كو نيكيوں كى طرف راغب كرنے كے لئے ان كى منفعت طلبى كى سرشت سے استفادہ كرنا _

و ان تخفوها و توتوها الفقراء فهو خير لكم

٧_ فقرا ء كو مخفى طور پر صدقہ دينا بعض گناہوں كا كفارہ ہے_و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء و يكفر عنكم من سيّاتكم

٨_ انسان كے اعمال كا خدا تعالى كو پورا پورا علم ہے_و الله بما تعملون بصير

۳۰۳

٩_ انسان كا اس نكتے كى طرف متوجہ رہنا كہ خدا تعالى اسكے اعمال سے مكمل طور پر آگاہ ہے اسے انفاق كرنے كى تشويق دلاتا ہے_ان تبدوا الصدقات ...والله بما تعملون خبير

١٠_ رياكارى ، احسان جتانے اور تكليف پہنچانے سے پرہيز ،پنہانى صدقے كى برترى كا فلسفہ ہے_

لا تبطلوا صدقاتكم بالمن و الاذى كالذى ينفق ما له رئاء الناس و ان تخفوها سابقہ آيات ميں انفاق كى پاداش كا معيار يہ قرار ديا گيا ہے كہ وہ خدا كيلئے ہو اور رياكارى اور احسان وآزار سے خالى ہو اور چونكہ پنہانى صدقہ اس معيار پر پورا اترتاہے اسلئے اسكى قدر و قيمت زيادہ ہے_

١١_واجب صدقات ( زكات) كا آشكارا ًدينا اور مستحب صدقوں كا چھپاكر دينا بہتر ہے_ان تبدوا الصدقات

امام باقر (ع) :آيت ''ان تبدوا ...''كے متعلق فرماتے ہيں : ھى يعنى الزكاة المفروضة '' اس سے مراد واجب زكات ہے''اور پھر ''و ان تخفوہا و تؤتوہا الفقرائ''كے متعلق ايك سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں يعنى النافلة ''اس سے مراد مستحب صدقہ ہے''(١)

احكام: احكام كا فلسفہ ١٠

اقدار:١،٣،٥

انسان : انسان كا عمل ٨;انسان كى منفعت طلبى ٦

انفاق:انفاق كا پيش خيمہ ٩;انفاق كى پاداش ٧; انفاق كى فضيلت ٣;انفاقكےآداب ١ ، ٢ ، ٣ ، ١٠;انفاق ميں اولويت ٤

تحريك: تحريك كے عوامل ٦،٩

تربيت : تربيت كى روش ٦

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ٨ ،٩

روايت:١١

زكات: زكات كى ادائيگى ١١

شخصيت : شخصيت كى قدر و قيمت ٥

____________________

١) كافى ج٤ ص٦٠ ح١ ، نورالثقلين ج ١ ص ٢٨٩ ح ١١٤٥_

۳۰۴

صدقہ : صدقہ پنہانى ٢ ، ٣ ، ٧ ، ١٠ ، ١١; صدقہ كى فضيلت ١ ، ٣ ، ١٠; صدقہ كے آداب ١١;صدقہ كے مصارف ٤;صدقہ واجب ١١

علم : علم كے اثرات ٩

عمل: عمل صالح ١

فقير : فقير كى حاجت روائي ٤ ، ٧;فقير كى حاجت مندى ٤

گناہ : گناہ كا كفارہ ٧

نيكى : نيكى كا سرچشمہ ٦

لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلأنفُسِكُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَاء وَجْهِ اللّهِ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ (٢٧٢)

اے پيغمبر ان كى ہدايت پا جانے كى ذمہ دارى آپ پر نہيں ہے بلكہ خدا جس كو چاہتا ہے ہدايت ديديتا ہے او رلوگو جو مال بھى تم راہ خدا ميں خرچ كرو گے وہ در اصل اپنے ہى لئے ہو گا او رتم تو صرف خوشنودى خدا كے لئے خرچ كرتے ہو او رجو كچھ بھى خرچ كر و گے وہ پورا پورا تمھارى طرف واپس آئے گا اور تم پر كسى طرح كا ظلم نہ ہو گا _

١_ پيغمبر (ص) اسلام كى يہ ذمہ دارى نہيں ہے كہ وہ مسلمانوں كو تكليف دہى ، رياكارى اور احسان جتانے سے پاك انفاق پر مجبور كريں _ليس عليك هديهم چونكہ اس آيت كا گذشتہ آيات كے ساتھ ارتباط ہے اسلئے '' ليس عليك ہداہم '' كا مطلب يہ نكلتاہے كہ تيرے لئے ضرورى نہيں ہے كہ تو مسلمانوں سے زبردستى ايسا

۳۰۵

انفاق كرائے جو رياكارى ، تكليف دہى اور احسان جتانے سے خالى ہو_

٢_ انسانوں كا ہدايت پانا پيغمبر (ص) اسلام كى ذمہ دارى كے دائرے سے باہر ہے اور صرف مشيت الہى كا مرہون منت ہے_ليس عليك هديهم و لكن الله يهدى من يشاء

٣_ بعض مسلمانوں كے احسان، اذيت و آزار اور رياپر مبنى انفاق كى وجہ سے پيغمبر (ص) اسلام كى پريشانى اور اضطراب كو دور كرنے كيلئے خدا تعالى كا ان كى دل جوئي كرنا _ليس عليك هديهم

٤ _ پيغمبر (ص) اسلام كى انتہائي خواہش كہ لوگ ہدايت پاجائيں اور اس كے لئے آپ(ص) كى بھر پور كوششيں _

ليس عليك هديهم

٥_ خدا تعالى جسے چاہتاہے ہدايت كرتاہے_و لكن الله يهدى من يشاء

٦_ ہر اچھى چيز سے انفاق كرنا خود انفاق كرنے والے كے فائدے ميں ہے_و ما تنفقوا من خير فلانفسكم

اس نكتے ميں '' من''كو ابتدائيہ فرض كيا گيا ہے_

٧_ مال، خير ہے_و ما تنفقوا من خير اگر '' من'' '' ما تنفقوا''كے '' ما''كے لئے بيان ہو_

٨_ غير مسلموں پرانفاق كرنا جائز ہے_ليس عليك هديهم و ما تنفقوا من خير فلانفسكم يہ تب ہے كہ '' ہديہم'' كى ضمير سے مراد كفار اور مشركين ہوں اور اسكى تائيد بعض مفسرين كے اس قول سے بھى ہوتى ہے كہ اس آيت مباركہ كے نزول كا سبب مسلمانوں كا غير مسلموں پر انفاق كرنے سے پرہيز تھا_ ( مجمع البيان)

٩_ دين و مذہب كو مدنظرركھے بغير بينواؤں كى حاجت روائي كرنا اسلام كا بنيادى اصول ہے_

ليس عليك هديهم و ما تنفقوا من خير يہ نكتہ اس آيت مباركہ كے شان نزول كے متعلق بعض مفسرين كے اس قول كى بناپر ہے كہ اسكے نزول كا سبب مسلمانوں كا غير مسلموں كو صدقہ دينے سے پرہيز كرنا تھا_

١٠_ اسلامى معاشرے ميں غير مسلموں كى حالت زار

۳۰۶

كا خيال ركھنا قابل تحسين عمل ہے_ليس عليك هديهم و ما تنفقوا من خير

١١_انفاق صرف خدا تعالى كى رضا اور خوشنودى كيلئے جائز ہے_و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله

''و ما تنفقون'' بظاہر جملہ خبريہ ہے ليكن در حقيقت جملہ انشائيہ ہے_ يعنى ''و لا تنفقوا الا ''اور يا جملہ خبريہ ہے اس معنى ميں كہ مسلمان رضائے الہى كے بغير انفاق نہيں كرتے كيونكہ يہ انكى شان كے لائق نہيں ہے_

١٢_ رضائے الہى كے بغير انفاق كرنا مومنين كے ايمان كے ساتھ سازگار نہيں ہے_و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله

اگر ''و ما تنفقون'' جملہ خبريہ ہو يعنى مومنين جب تك با ايمان ہيں رضائے الہى كے بغير انفاق نہيں كريں گے اور اگر غير خدا كو مدنظر ركھيں گے تو روح ايمان سے خالى ہوں گے _

١٣_ انفاق، خدا كى خوشنودى حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله

١٤_ خدا وند متعال كى بارگاہ ميں انفاق كى قبوليت اور ثمر آور ہونا انفاق كرنے والے كى خالص نيت ميں منحصر ہے_

و ما تنفقون من خير فلانفسكم و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله اگر ''و ما تنفقون'' كا جملہ ''و ما تنفقوا فلانفسكم''كيلئے حال ہو يعنى انفاق كا تمہيں اس وقت فائدہ ہے جب خدا تعالى كى خوشنودى كيلئے ہو _

١٥_ خداوند متعال كى خوشنودى تب حاصل ہوتى ہے جب اس كے لئے كوشش اور جد و جہد كى جائے_

و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله كلمہ '' ابتغائ'' كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ جس ميں سعى و كوشش ملحوظ ہے_

١٦_ راہ خدا ميں انفاق كرنے والا اپنے حق ميں كسى قسم كى ناانصافى كے بغير انفاق كى پورى جزاو پاداش سے بہرہ مند ہوگا_و ما تنفقوا من خير يوف اليكم و انتم لا تظلمون

١٧_ خدا وند متعال كى خوشنودى كيلئے كئے جانے والے انفاق كى پاداش ميں كوئي كمى نہيں ہوگى اگرچہ وہ غير مسلم بے نواؤں كيلئے ہى ہو_و ما تنفقوا من خير يوف اليكم و انتم لا تظلمون

۳۰۷

آيت كے اس شان نزول كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ جو غير مسلموں پر انفاق كرنے كے بارے ميں ہے_

١٨ _ قرآن كريم كا لوگوں كو نيك اعمال كى طرف راغب كرنے كيلئے انكى منفعت طلبى كى خصلت سے استفادہ كرنا _

و ما تنفقوا من خير فلانفسكم و ما تنفقوا من خير يوف اليكم

١٩_ نيك اعمال كا فائدہ خود عمل كرنے والے كو ہے_و ما تنفقوا من خير فلانفسكم يوف اليكم

٢٠_ روز قيامت انسان كے اعمال كا مجسم ہونا *_و ما تنفقوا من خير يوف اليكم

''يوف''كى ضمير كا ''و ما تنفقوا''كى طرف پلٹنا ظاہراً اس نكتے كو بيان كررہاہے كہ وہى انفاق كردہ چيز روز قيامت انفاق كرنے والے كو بطور كامل ادا كردى جائيگي_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى خواہش ٤; آنحضرت(ص) كى دلجوئي ٣; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ١; آنحضرت (ص) كى سيرت ٤

احسان جتانا : احسان جتانے كى مذمت ٣

احكام: ٨

اذيت: اذيت كى مذمت ٣

اقتصادى نظام :٩

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى ذمہ دارى كى حدود ١ ، ٢;انبياء (ع) كے اہداف ٤

انسان: انسان كى منفعت طلبى ١٨;انسان كى ہدايت ٢ ، ٤

انفاق: انفاق غير مسلموں پر ٨، ١٧;انفاق كى جزا ٦ ، ١٤ ، ١٦ ، ١٧;انفاق كے آداب ١ ، ٣ ، ١١ ، ١٢;انفاق كے اثرات ٣;انفاق كے احكام ٨;انفاق كے انفرادى اثرات ٦، ١٤;انفاق كے مصارف ٨; راہ خدا ميں انفاق ١٦ ، ١٧;

۳۰۸

ايمان: ايمان كے اثرات ١٢

تحريك : تحريك عوامل ١٨

تربيت: تربيت كى روش ١٨

جزا و سزا كانظام :١٦

خدا تعالى: خدا تعالى كاعدل ١٦;خدا تعالى كى خوشنودى ١١ ، ١٢ ، ١٣ ، ١٥ ، ١٧;خدا تعالى كى مشيت ٢ ، ٥;خدا تعالى كى ہدايت٥

رشد و تكامل: رشد و تكامل كا پيش خيمہ ١٣

عمل: عمل صالح ١٩; عمل صالح كا پيش خيمہ ١٨;عمل صالح كى تشويق ١٨;عمل كا تجسم ٢٠;عمل كى جزا و سزا ١٥ ، ١٩;عمل كى قبوليت ١٤;عمل كے اثرات ١٩

غير مسلم: غير مسلم كے حقوق ١٠

فقير: فقير كى حاجت روائي ٩

قصد قربت :١٤

كوشش : كوشش كے اثرات ١٥

مال: مال كا خير ہونا ٧;مال كى قدر و قيمت ٧

معاشرتى نظام : ١٠ معاشرہ : اسلامى معاشرہ ١٠

نيت : نيت كى تاثير ١٤

وجہ اللہ:١٣،١٥

۳۰۹

لِلْفُقَرَاء الَّذِينَ أُحصِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاء مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ (٢٧٣)

يہ صدقہ ان فقراء كے لئے ہے جو راہ خدا ميں گرفتار ہو گئے ہيں اور كسى طرف جانے كے قابل بھى نہيں ہيں _ نا واقف افراد انھيں ان كى حيا و عفت كى بنا پر مالدا ر سمجھتے ہيں حالانكہ تم آثار سے ان كى غربت كا اندازہ كرسكتے ہو اگر چہ يہ لوگوں سے چمٹ كر سوا ل نہيں كرتے ہيں اور تم لوگ جو كچھ بھى انفاق كرو گے خدا اسے خوب جانتا ہے _

١_ وہ لوگ جو راہ خدا ميں گھرے ہوئے اور روزى كمانے سے عاجز ہيں ليكن آبرومند ہيں اورانكى تنگدستى ان كے چہروں سے عياں ہے ہرگز دوسروں سے كچھ نہيں مانگتے ايسے لوگ انفاق كا بہترين مصرف ہيں _للفقرائ لا يسئلون الناس الحافا

٢_ جو لوگ الہى ذمہ داريوں كى ادائيگى ميں مصروف ہونے كى وجہ سے روزى كمانے سے عاجز ہيں انكى زندگى كے اخراجات اسلامى معاشرہ كے ذمے ہيں _للفقراء الذين احصروا فى سبيل الله لايستطيعون ضربا فى الارض

٣_ انفاق ان بے نواؤں اور تنگدستوں كيلئے ہے جو زندگى كے اخراجات پورے كرنے سے عاجز ہيں نہ ان كيلئے جو اسكى توان ركھتے ہيں _للفقراء الذين احصروا فى سبيل الله لا يستطيعون ضربا فى الارض

٤_ ضروريات زندگى كا پورا كرنا ضرورى ہے اگر چہ

۳۱۰

اس كيلئے كوشش كرنى پڑے اور سختياں جھيلنى پڑيں _لا يستطيعون ضربا فى الارض

'' ضربا فى الارض ''سعى و كوشش سے كنايہ ہے كہ جس ميں طبعى طور پر سختياں برداشت كرنى پڑتى ہيں اور چونكہ '' لا يستطيعون ...''كا تقاضا يہ ہے كہ كمانے كى توان ركھنے والے پر انفاق نہيں كيا جاسكتا اسلئے اسے اپنى زندگى كى گاڑى كو چلانے كيلئے سعى و كوشش كرنا ہوگى اگر چہ اس ميں تكليفيں ہى برداشت كرنى پڑيں _

٥_ جو لوگ روزى كمانے كى توان ركھتے ہيں ان پر انفاق كرنے سے پرہيز ضرورى ہے_للفقراء لا يستطيعون ضرباً فى الارض كيونكہ '' لا يستطيعون''كے ذريعے انفا ق كا مصرف صرف ان فقرا كو قرار ديا گيا ہے جو ضروريات زندگى كے حاصل كرنے كى توان نہيں ركھتے_

٦_ سخت نيازمندى كے باوجود بے نيازى اور آبرومندى كا اظہار كرنا اور عفت نفس كا خيال ركھنا قابل قدر ہے_

يحسبهم الجاهل اغنياء من التعفف لا يسئلون الناس الحافا چونكہ آيت ميں افراد كى مدح كى جارہى ہے اسلئے اس ميں ذكر كى گئي صفات كو صفات حسنہ شمار كيا جائيگا، قابل ذكر ہے كہ الحاف ''اصرار''كے معنى ميں ہے ليكن جملہ ''يحسبہم الجاہل اغنيائ'' اور ''تعفف'' كے قرائن كو مدنظر ركھتے ہوئے جملہ '' لا يسألون'' كا معنى يوں بنتا ہے كہ يہ لوگ سوال ہى نہيں كرتے تا كہ اس پر اصرار كرنا پڑے نہ يہ كہ سوال كرتے ہيں ليكن اس پر اصرار نہيں كرتے_

٧_ فقراء اور تنگ دستوں كى ظاہرى حالت ان كے نامناسب اقتصادى حالات كى منہ بولتى تصوير ہوتى ہے اگر چہ وہ اپنى آبرومندى كى خاطر اپنے فقر كا اظہار نہ ہى كريں _يحسبهم الجاهل اغنياء من التعفف تعرفهم بسيماهم

٨_ آبرومند تنگ دست افراد ہرگز كسى سے اصرار كے ساتھ سوال نہيں كرتے_لا يسئلون الناس الحافا

اس نكتے ميں جملہ''لا يسئلون الناس الحافا ''كا وہى ظاہرى معنى مراد ليا گياہے يعنى اپنے سوال پر اصرارنہيں كرتے _ اس بناپر جملہ''يحسبهم الجاهل ''كا معنى يہ ہوگا كہ انكے سوال كرنے كے انداز سے انكے تہى دست ہونے كا پتہ چل جاتاہے_

۳۱۱

٩_ فقرا اپنى اقتصادى ضروريات كيلئے اصرار اور لجاجت كے بغيرسوال كرسكتے ہيں _لا يسئلون الناس الحافا

اس جملے كے مفہوم سے يہ نكتہ سمجھ ميں آتاہے_

١٠_ گدا گرى ميں اصرار اور لچرين ناپسنديدہ عمل ہے_لا يسئلون الناس الحافا

١١_ خير و نيكى كے انفاق سے خدا تعالى آگاہ ہے_و ما تنفقوا من خير فان الله به عليم

١٢_ مال و دولت خير ہے_و ما تنفقوا من خير كيونكہ مال كو خير كہا گيا ہے_

١٣_ انفاق اور نيك اعمال كے بارے ميں خدا تعالى كے آگاہ ہونے كى طرف متوجہ رہنا انسان كو انكى انجام دہى كى ترغيب دلاتا ہے_و ما تنفقوا من خير فان الله به عليم

١٤ _ اصحاب صفہ ايسے فقرا تھے جو راہ خدا ميں گھر ے ہوئے مگر آبرومند تھے_للفقراء الذين احصروا

امام باقر (ع) فرماتے ہيں '' نزلت الآية فى اصحاب الصفہ ''يہ آيت اصحاب صفہ كے بارے ميں نازل ہوئي (١) قابل ذكر ہے كہ اصحاب صفہ ايسے تنگدست ليكن پاكدامن اور آبرومند لوگ تھے جو خدائي ذمہ داريوں ( جہاد و غيرہ ) كى ادائيگى ميں مصروف ہونے كى وجہ سے كسب معاش سے عاجز تھے ليكن انكے رہنے سہنے كا اندازہ ايسا تھا كہ نا آشنا لوگ نہ صرف انہيں فقير نہيں سمجھتے تھے بلكہ انہيں تونگر اور مالدار شمار كرتے تھے_

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ١٤

اصحاب صفہ: ١٤

انفاق: انفاق كاپيش خيمہ ١٣;انفاق كے مصارف ١ ، ٢، ٣ ، ٥; پسنديدہ چيزوں سے انفاق ١١

بے نيازي: بے نيازى كى قدر و قيمت ٦

پاكدامن : پاكدامنى كى فضيلت ٦

تحريك : تحريك كے عوامل ١٣

____________________

١) مجمع البيان ح ٢ ص ٦٦٦_

۳۱۲

خدا تعال: خدا تعالى كا علم ١١ ، ١٣

راہ و روش : اسكى بنياديں ٧

علم: علم كى فضيلت ١٣

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ١٣

فقير: پاكدامن فقير ١،٧ ، ١٤;فقير كا چہرہ ١ ، ٧; فقير كى حاجت روائي ١ ، ٣ ، ٩ قدر و قيمت ٦

گھر جانا : راہ خدا ميں گھر جانا ١ ، ١٤

لجاجت : لجاجت كا جواز ٩ ;لجاجت كى مذمت ١٠

مال: مال كى كا خير ہونا ١٢;مال كى قدر و قيمت ١٢

معاش: كسب معاش كى اہميت ٤

معاشرہ : معاشرے كى ذمہ دارى ٢

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (٢٧٤)

جو لوگ اپنے اموال كو راہ خدا ميں رات ميں _ دن ميں خاموشى سے او رعلى الاعلان خرچ كرتے ہيں ان كے لئے پيش پروردگار اجر بھى ہے او رانھيں نہ كوئي خوف ہوگا او رنہ حزن _

١_ شب و روز پنہاں اور آشكار انفاق كرنے والے (سب حالات اور اوقات ميں ) خدا تعالى كى خاص پاداش سے بہرہ مند ہيں _الذين ينفقون اموالهم فلهم اجرهم عند ربهم

٢_ رات كے وقت اور پنہاں طور پر انفاق كرنا ، دن

۳۱۳

كے وقت اور ظاہر طور پر انفاق سے زيادہ بہتر ہے*الذين ينفقون سرا و علانية

اگر ذكر ميں تقدم ،رتبے اور فضيلت ميں تقدم سمجھا جائے تو وقت اور حالت كے لحاظ سے انفاق كى چار صورتيں بنتى ہيں كيونكہ ايك طرف سے وقت (شب و روز) حالت ( پنہاں و آشكار) پر مقدم ہے اور دوسرى طرف سے رات ، دن پر مقدم ہے اور پنہانى حالت، آشكار حالت پر مقدم ہے لہذا فضيلت كى ترتيب كے لحاظ سے يہ چار قسميں يوں ہوں گى ١_ رات كے وقت اور پنہاں طور پر ٢_ دن كے وقت اور پنہاں طور پر ٣_ رات كے وقت ليكن آشكارا ٤ _ دن كے وقت اور آشكارا_

٣_انفاق كرنے والوں كو خدا كى پاداش، ان كے نيك عمل كا نتيجہ ہے_فلهم اجرهم عند ربهم

٤_ انفاق كرنے والوں كو خدا تعالى كى طرف سے اجر كا وعدہ انسان كو اس كى تشويق دلاتاہے_فلهم اجرهم عند ربهم

٥_ عمل خير كى طرف راغب كرنے ميں اجر كے وعدے اور ضمانت كا كردار _فلهم اجرهم عند ربهم

٦_ خدا تعالى كى بارگا ہ ميں انفاق كرنے والوں كا بلند مرتبہ _اجرهم عند ربهم

٧_ باطنى سكون، راہ خدا ميں انفاق كرنے كا ايك ثمر_الذين ينفقون و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون

٨_ راہ خدا ميں انفاق كرنے والوں كو روز قيامت كسى قسم كا خوف اور غم نہيں ہوگا_و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون

اگر يہ عدم خوف و حزن صرف آخرت سے متعلق ہو_

٩_ راہ خدا ميں انفاق كرنے والوں كو نہ تو ( مستقبل ميں نادار ہونے كا ) خوف ہوتاہے اور نہ (گذشتہ زمانے ميں ديئے ہوئے مال پر) غم و اندوہ ہوتاہے_و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون يہ اس بناپر ہے كہ دنياوى خوف و حزن كى نفى مقصود ہو _ خوف آئندہ كا اور حزن گذشتہ پر يعنى خدا تعالى انكى زندگى كا اس طريقے سے بند و بست كرديتاہے كہ نہ تو اپنے ديئے پر غمگين ہوتے ہيں اور نہ ہى آئندہ كسى فقر و نادارى كا انہيں احساس ہوتاہے_

۳۱۴

١٠_ خدا تعالى كى طرف سے مومنوں كو غير واجب انفاقات كى ترغيب_الذين ينفقون

امام صادق (ع) اس آيت كے متعلق فرماتے ہيں''ليس من الزكوة '' ''يہ زكات نہيں ہے''(١)

اطمينان: اطمينان كے عوامل ٧

اقدار: ٢

انفاق: انفاق پنہاں ٢;انفاق راہ خدا ميں ٧ ، ٨ ،٩; انفاق كى تشويق ١٠;انفاق كى جزا ١ ، ٣ ، ٤;انفاق كى فضيلت ٢;انفاق كے آداب ١ ، ٢ ; انفاق كے انفرادى اثرات ٧ ، ٨ ،٩

انفاق كرنے والے : انكى فضيلت ٦

تربيت : تربيت كى روش ٥

جذبہ پيدا كرنا : جذبہ پيدا كرنے كے عوامل ٤ ،٥

جزا: جزا كا وعدہ ٥

خدا تعالى : خدا تعالى كى جزا ١ ، ٣;خدا تعالى كے وعدے ٤

خوف: خوف كا مقابلہ ٩

روايت: ١٠

علم : علم كے اثرات ٤

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ٥;عمل صالح كے اثرات ٣ ، ٧

غم و اندوہ : غم و اندوہ كا مقابلہ ٩

قيامت : قيامت كے دن خوف ٨;قيامت كے دن غم و اندوہ ٨

مومنين : مومنين كى تشويق ١٠

____________________

١) كافى ج ٣ ص ٤٩٩ ح ٩، نورالثقلين ج ١ ص ٢٩٠ ح ١١٥٤_

۳۱۵

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىَ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (٢٧٥)

جو لوگ سود كھا تے ہيں و ہ روز قيامت اس شخص كى طرح اٹھيں گے جسے شيطان نے چھو كر مخبوط الحواس بنا ديا ہو _ اس لئے كہ انھوں نے يہ كہہ ديا ہے كہ تجارت بھى سود جيسى ہے جب كہ خدا نے تجارت كو حلال قرار ديا ہے اور سود كو حرام _ اب جس كے پاس خدا كى طرف سے نصيحت آگئي اور اس نے سود كو ترك كرديا تو گذشتہ كا روبار كا معاملہ خدا كے حوالے ہے او رجو اس كے بعد بھى سود لے تو وہ لوگ سب جہنمى ہيں اور وہيں ہميشہ رہنے والے ہيں _

١_ سودخورشيطان زدہ لوگوں كى طرح بدحال، ديوانے اور اضطراب كا شكار ہوتے ہيں _الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس كيونكہ '' تخبط'' كا لغوى معنى ديوانگى اور اضطراب ہے (التخبط المس بالجنون والتخيل) _

٢_ سود ى اقتصادى نظام معاشرے كے توازن كو بگاڑ ديتاہے_الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان

٣_ سودخورى معاشرے كے اقتصادى نظام كے بگاڑ

۳۱۶

اور درہم برہم ہونے كا سبب بنتى ہے_الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان

٤_ حقائق اور احكام دين كو بيان كرنے كيلئے تمثيلات سے استفادہ كرنا قرآن كريم كى ايك روش ہے_الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذي

٥_ نفسياتى اور روحى اضطراب ميں شيطان كى دخل اندازي_كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس

٦_ سودخور اپنى سعادت اور خوشبختى كے مقابلے ميں غلط راستے كا انتخاب كرتاہے_الذين كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس جس طرح شيطان زدہ شخص اپنے مصالح و منافع كے مقابلے ميں صحيح راستہ اختيار كرنے سے عاجز ہوتاہے ايسے ہى سود خور بھى عاجز ہوتاہے_

٧_ سود خوروں كى نظر ميں خريد و فروش اور سود كے ايك جيسا ہونے كا غلط تصور ان كے سود خور ہونے كى وجہ ہے_

الذين ياكلون الربا ذلك بانهم قالوا انما البيع مثل الربوا اس بناپر كہ ''ذلك'' كا اشارہ ''اكل ربا'' كى طرف ہو كہ جو '' ياكلون الربوا''سے سمجھ ميں آتاہے_

٨_ سودخوروں كا خريد و فروش اور سود كے ايك جيسا ہونے كا غلط تصور انكى شخصيت كے غير متوازن ہونے كى علامت ہے_الذين ياكلون ذلك بانهم قالوا انما البيع مثل الربوا كلمہ ''ذلك'' ، '' اكل ربا'' كى طرف اشارہ ہونے كے علاوہ خبطى ہونے اور جنون زدگى كى طرف بھى اشارہ ہوسكتاہے البتہ اس صورت ميں جملہ ''ذلك بانہم'' يعنى علت مقام اثبات ميں ہوگى كہ جسے ہم نے مذكورہ نكتے ميں علامت سے تعبير كيا ہے_

٩_ خدا تعالى كى طرف سے بيع ( غير سودى لين دين) كى حليت اور ربا ( سودى لين دين ) كى حرمت كا حكم_

و احل الله البيع و حرم الربا

١٠_ سودخوروں كيلئے اس وقت تك سود كھانا حلال تھا جب تك ان كے پاس اسكى حرمت كا حكم نہيں پہنچا تھا_

۳۱۷

فمن جائه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف

جملہ'' فلہ ما سلف ''سے مراد يہ ہے كہ گذشتہ منفعت جسے سود كى حرمت كا حكم تم تك پہنچنے سے پہلے تم لوگوں نے سودى معاملات سے حاصل كيا ہے تمہارے لئے ہے اور حلال ہے جيسے كہ طبرى نے كہا ہے '' فلہ ما اخذ و اكل من الربوا قبل النہي''_

١١_ اس وقت تك بندوں كيلئے شرعى فريضہ نہيں ہوتا جب تك كہ حكم الہى ان تك پہنچ نہجائے_

فمن جائه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف

١٢_ اپنے كئے پر توبہ كرلينے والے سود خوروں كا انجام خدا كے حوالے ہے_فمن جاء ه فانتهى و امره الى الله

١٣_ خدا تعالى كى موعظ و نصيحتيں انسان كى تربيت كرتى ہيں _فمن جآء ه موعظة من ربه فانتهي

كلمہ '' رب''جو تدبير و تربيت كرنے والے كے معنى ميں ہے اس نكتے كو بيان كررہاہے كہ خدا تعالى كى نصيحتيں انسان كى تربيت اور اسكے معاملات كى تدبير كيلئے ہيں _

١٤_ خدا تعالى سودخوروں كى ان كے ناپسنديدہ عمل سے توبہ كو قبول كرليتاہے_

فمن جآء ه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف و امره الى الله

١٥_ الہى احكام خدا تعالى كى طرف سے اپنے بندوں كو وعظ و نصيحت ہيں _فمن جآء ه موعظة من ربه فانتهي

خدا تعالى كا اپنے حكم ( سود كى حرمت ) كو موعظت سے تعبير كرنے كا مطلب يہ ہے كہ اسكے احكام بھى مواعظ ہيں _

١٦_ حرمت كو جان لينے كے بعد بھى سودخورى كى طرف پلٹنا ہميشہ ہميشہ كيلئے، آتش جہنم ميں رہنے كا سبب ہے_

فمن جاء ه موعظة و من عاد فاولئك اصحاب النارهم فيها خالدون

'' فمن جآء ہ موعظة''سے مراد يہ ہے كہ اس تك حكم الہى پہنچ جائے يعنى حكم كے بيان كئے جانے كے بعد اسے اس كا علم بھى ہوجائے_ قابل ذكر ہے كہ مذكورہ نكتے ميں ''و من عاد''كو سود خورى كى طرف پلٹنے كے معنى ميں ليا گيا ہے_

١٧_ سوداور اسكے حكم كے بيان كئے جانے كے بعد بھى سوداور خريد و فروش كے ايك جيسا ہو٢نے كا نظريہ ركھنا ٢ہميشہ كيلئے آتش جہنم ميں رہنے كا موجب ہے_

۳۱۸

قالوا انما البيع و من عاد فاولئك اصحاب النارهم فيها خالدون

مذكورہ نكتے ميں '' عاد'' كا متعلق بيع اور سود كے ايك جيسا ہونے والا غلط تصور ليا گيا ہے_ پس '' و من عاد ...''كے جملے كا معنى يہ ہوگا كہ جو شخص خدا كى طرف سے سود كے حكم كے بيان ہونے كے بعد بھى اس تصور پر باقى رہے كہ سود اور خريد و فروش ايك جيسے ہيں وہ ہميشہ كيلئے آتش جہنم ميں رہے گا كيونكہ وہ در حقيقت كافر ہے_

١٨_ سود صرف ناپى جانے والى ( برتن جيسے پيمانے سے نہ گز و غيرہ سے) اور وزن كى جانے والى چيزوں ميں ہے_

احل الله البيع و حرم الربوا امام صادق (ع) فرماتے ہيں''لا يكون الربا الا فيما يكال اويوزن'' سود صرف اس چيز ميں ہوتاہے جسے ناپا جائے يا وزن كيا جائے (١)

١٩_ روز قيامت سود خور ديوانوں كى طرح محشور ہوگا_الذين ياكلون الربوا پيغمبر (ص) اسلام نے فرمايا ''ياتى آكل الربا يوم القيامة مختبلاً ...''قيامت كے دن سودخورجنون كى حالت ميں آئے گا ...(٢)

احكام ٩ ، ١٠ ، ١٨

اقتصاد: اقتصادى جمود٣

اقتصادى نظام: ٢ ، ٣

تبليغ: تبليغ كى روش ٤

تربيت: تربيت ميں مؤثر عوامل ١٣

توبہ: توبہ كى قبوليت ١٤

جہنم: جہنم ميں ہميشہ رہنا ١٦ ، ١٧

خدا تعالى: خدا تعالى كى نصيحتيں ١٣ ، ١٥

دين: دين كى تعليمات ١٥

رشد و ترقي: رشد و ترقى كے موانع ٦

____________________

١) كافى ج٥ ص ١٤٦ ح ١٠ نورالثقلين ج١ ص ٢٩١ ح ١١٥٩_

٢) الدرالمنثور ج٢ ص ١٠٢_

۳۱۹

رفتار و كردار: رفتار و كردار كى بنياديں ٨

روايت : ١٨،١٩

سماجى نظام: ٢

سود: سود كى حرمت ٩;سود كے احكام ٧ ، ٩، ١٠ ، ١٧ ، ١٨

سودخور: سود خور كا انجام ١٢;سود خور كا قياس ٧ ، ٨، ١٧;سود خور كا نظريہ ٧ ، ٨;سود خور كا نفسياتى اضطراب ١٩;سود خور كى توبہ ١٢ ، ١٤

سودخوري: سود خورى كى سزا; ١٦ ، ١٧;سود خورى كے اثرات ١ ، ٢ ، ٣ ، ٦

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ كے شرائط ١١

شيطان: شيطان كا كردار ١ ، ٥

عذاب: عذاب كے اسباب ١٦ ، ١٧

عقيدہ : باطل عقيدہ ٧،٨

قرآن كريم : قرآن كريم كى تشبيہات ١ ، ٤

قيامت: قيامت ميں سود خور ١٩

گمراہي: گمراہى كے عوامل ٣ ، ٧

محرمات: ٩

معاشرتى نظام : ٢

معاشرہ : معاشرہ كے انحطاط كے عوامل ٣

معاملہ : سودى معاملہ ٩،١٠;معاملہ كى حليت ٩

نظريہ: باطل نظريہ ٧،٨

نفسياتى اضطراب: ٨ اسكے عوامل ١ ، ٥

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367