اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت0%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

صفحے: 367
مشاہدے: 131743
ڈاؤنلوڈ: 3312

تبصرے:

اسلامی نظریہ حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131743 / ڈاؤنلوڈ: 3312
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

'' ( و انزلنا اليك الذكر لتبين للناس ما نزّل اليهم ) ''(۱)

اور آپ (ص) كى طرف قرآن كو نازل كيا تا كہ لوگوں كيلئے جواحكام آئے ہيں انہيں بيان كرديں_

اس حقيقت كو ديكھتے ہوئے كہ آنحضرت (ص) مختلف مناصب كے حامل تھے معلوم ہوتاہے كہ عبدالرازق كى پيش كردہ آيات ميں موجود '' حصر'' حقيقى نہيں بلكہ ''اضافي'' ہے _ حصر اضافى كا مطلب يہ ہے كہ جب سامنے والا يہ سمجھ رہا ہو كہ موصوف دو صفتوں كے ساتھ متصف ہے تو متكلم تاكيداً مخاطب پر يہ واضح كرتا ہے كہ نہيں موصوف ان ميں سے صرف ايك صفت كے ساتھ متصف ہے _ مثلاً لوگ يہ سمجھتے تھے كہ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى پيام الہى كا پہنچانا بھى اور لوگوں كو زبردستى ہدايت كى طرف لانا بھى ہے_ اس و ہم كو دور كرنے كيلئے آيت نے حصر اضافى كے ذريعہ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كو پيام الہى كے ابلاغ ميں منحصر كر ديا ہے اور فرمايا ہے :( ''و ما على الرسول الا البلاغ'' ) اور رسول كے ذمہ تبليغ كے سوا كچھ نہيں ہے(۲) يعنى پيغمبر اكرم (ص) كا كام لوگوں كو زبردستى ايمان پر مجبور كرنا نہيں ہے بلكہ صرف خدا كا پيغام پہنچانا اور لوگوں كو راہ ہدايت دكھانا ہے_ لوگ خود راہ ہدايت كو طے كريں اور نيك كاموں كى طرف بڑھيں_ پس آنحضرت (ص) لوگوں كى ہدايت كے ذمہ دار نہيں ہيں بلكہ صرف راہ ہدايت دكھانے كے ذمہ دا ر ہيں آنحضرت (ص) صرف ہادى ہيں اور لوگوں كى ہدايت كے ذمہ دار نہيں ہے _ بلكہ لوگ خود ہدايت حاصل كرنے اور نيك اعمال بجا لانے كے ذمہ دار ہيں_ اس حقيقت كو آيت نے حصر اضافى كے قالب ميں يوں بيان فرمايا ہے_(۳)

____________________

۱) سورہ نحل آيت۴۴_

۲) سورہ نورآيت ۵۴_

۳) تفسير ميزان ج ۱۲ ، ص ۲۴۱، ۲۴۲ سورہ نحل آيت ۳۵ كے ذيل ميں _ ج ۱۰ ص ۱۳۳ سورہ يونس آيت نمبر۱۰۸ كے ذيل ميں _

۸۱

( ''فمن اهتدى فانما يهتدى لنفسه و من ضل فانما يضّل عليها و ما انا عليكم بوكيل'' ) (۱)

پس اب جو ہدايت حاصل كرے گا وہ اپنے فائدہ كيلئے كرے گا اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنے آپ كا نقصان كرے گا اور ميں تمہارا ذمہ دار نہيں ہوں _

بنابريں عبدالرازق سے غلطى يہاں ہوئي ہے كہ انہوں نے مذكورہ آيات ميںحصر كو حقيقى سمجھا ہے اور ان آيات ميں مذكورمخصوص صفت كے علاوہ باقى تمام اوصاف كى آنحضرت (ص) سے نفى كى ہے_ حالانكہ ان آيات ميںحصر'' اضافي'' ہے بنيادى طور پريہ آيات دوسرے اوصاف كو بيان نہيں كررہيںبلكہ ہر آيت صرف اس وصف كى نفى كر رہى ہے جس وصف كا وہم پيدا ہوا تھا_

دوسرى دليل كا جواب :

ظہور اسلام سے پہلے كى تاريخ عرب كااگر مطالعہ كيا جائے تو يہ حقيقت واضح ہوجاتى ہے كہ ظہور اسلام سے پہلے جزيرہ نما عرب ميں كوئي منظم حكومت نہيں تھى _ ايسى كوئي حكومت موجود نہيں تھى جو ملك ميں امن و امان برقرار كر سكے اور بيرونى دشمنوں كا مقابلہ كر سكے صرف قبائلى نظام تھا جو اس وقت اس سرزمين پر رائج تھا_ اس دور كى مہذب قوموں ميں جو سياسى ڈھانچہ اور حكومتى نظام موجود تھا جزيرة العرب ميں اس كا نشان تك نظر نہيں آتا _ ہر قبيلے كا ايك مستقل وجود اور رہبر تھا_ ان حالات كے باوجود آنحضرت (ص) نے جزيرة العرب ميں كچھ ايسے بنيادى اقدامات كئے جو سياسى نظم و نسق اور تأسيس حكومت كى حكايت كرتے ہيں حالانكہ اس ماحول ميں كسى مركزى حكومت كا كوئي تصور نہيں تھا_ يہاں ہم آنحضرت (ص) كے ان بعض اقدامات كى طرف اشارہ كرتے ہيں جو آپ (ص) كے ہاتھوں دينى حكومت كے قيام پر دلالت كرتے ہيں_

____________________

۱) سورہ يونس آيت نمبر۱۰۸_

۸۲

الف _ آنحضرت (ص) نے مختلف اور پراگندہ قبائل كے درميان اتحاد قائم كيا _ يہ اتحاد صرف دينى لحاظ سے نہيں تھا بلكہ اعتقادات اور مشتركہ دينى تعليمات كے ساتھ ساتھ سياسى اتحاد بھى اس ميں شامل تھا _ كل كے مستقل اور متخاصم قبائل آج اس سياسى اتحاد كى بركت سے مشتركہ منافع اور تعلقات كے حامل ہوگئے تھے_ اس سياسى اتحاد كا نماياں اثر يہ تھا كہ تمام مسلمان قبائل غير مسلم قبائل كيساتھ جنگ اور صلح كے موقع پر متحد ہوتے تھے_

ب _ آنحضرت (ص) نے مدينہ كو اپنا دارالحكومت قرار ديا اور وہيں سے دوسرے علاقوں ميں والى اور حكمران بھيجے طبرى نے ايسے بعض صحابہ كے نام ذكر كئے ہيں_ اُن ميں سے بعض حكومتى امور كے علاوہ دينى فرائض كى تعليم پر بھى مامور تھے جبكہ بعض صرف اس علاقہ كے مالى اور انتظامى امور سنبھالنے كيلئے بھيجے گئے تھے جبكہ مذہبى امور مثلانماز جماعت كا قيام اور قرآن كريم اور شرعى احكام كى تعليم دوسرے افراد كى ذمہ دارى تھى _

طبرى كے بقول آنحضرت (ص) نے سعيد ابن عاص كو ''رمَعْ و زبيد '' كے درميانى علاقے پر جو نجران كى سرحدوں تك پھيلا ہوا تھا عامر ابن شمر كو ''ہمدان ''اور فيروز ديلمى كو ''صنعا ''كے علاقے كى طرف بھيجا _ اقامہ نماز كيلئے عمرو ابن حزم كو اہل نجران كى طرف بھيجا جبكہ اسى علاقہ سے زكات اور صدقات كى جمع آورى كيلئے ابوسفيان ابن حرب كو مامور فرمايا_ ابو موسى اشعرى كو ''مأرب ''اور يعلى ابن اميہ كو ''الجند ''نامى علاقوں كى طرف روانہ كيا(۱)

ج _ مختلف علاقوں كى طرف آنحضرت (ص) كا اپنے نمائندوںكو خطوط ديكر بھيجنا اس بات كى واضح دليل ہے كہ آپ (ص) نے اپنى قيادت ميں ايك وسيع حكومت قائم كى تھى _ ان ميں سے بعض خطوط اور عہد نامے ايسے ہيں جو دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے ان افراد كو حاكم اور والى كے عنوان سے بھيجا تھا_ عمرو بن حزم

____________________

۱) تاريخ طبرى ( تاريخ الرسل و الملوك ) ج ۳ ص ۳۱۸_

۸۳

كو آپ نے حكم نامہ ديا تھا اس ميں آپ (ص) نے لكھا تھا :لوگوں سے نرمى سے پيش آنا ليكن ظالموں سے سخت رويہ ركھنا _ غنائم سے خمس وصول كرنا اور اموال سے زكات ان ہدايات كے مطابق وصول كرنا جو اس خط ميں لكھى گئي ہيں (۱) واضح سى بات ہے كہ ايسے امور حاكم اور والى ہى انجام دے سكتا ہے_

د _ آنحضرت (ص) كے ہاتھوں حكومت كے قيام كى ايك اور دليل يہ ہے كہ آپ (ص) نے مجرموں اور ان افراد كيلئے سزائيں مقرر كيں جو شرعى حدود كى پائمالى اور قانون شكنى كے مرتكب ہوتے تھے اور آپ (ص) نے صرف اخروى عذاب پر اكتفاء نہيں كيا اورحدود الہى كا نفاذ اور مجرموں كيلئے سزاؤں كا اجراحكو متى ذمہ داريوں ميں سے ہيں_

ہ_ قرآن كريم اور صدر اسلام كے مومنين كى زبان ميں حكومت اور سياسى اقتدار كو لفظ''الامر''سے تعبير كيا جاتا تھا_

''( و شاورهم فى الامر'' ) (۲) اور اس امر ميں ان سے مشورہ كرو _( ''و امرهم شورى بينهم'' ) (۳) اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں _

اگر آنحضرت (ص) كى رہبرى اور قيادت صرف دينى رہبرى ميں منحصر تھى تو پھر رسالت الہى كے ابلاغ ميں آپ (ص) كو مشورہ كرنے كا حكم دينا ناقابل قبول اور بے معنى ہے لہذا ان دو آيات ميں لفظ ''امر'' سياسى فيصلوں اور معاشرتى امور كے معنى ميں ہے_

____________________

۱) اس خط كى عبارت يہ تھى _''امره ان ياخذ بالحق كما امره الله ، يخبر الناس بالذى لهم و الذى عليهم ، يلين للناس فى الحق و يشتدّ عليهم فى الظلم ، امره ان ياخذ من المغانم خمس الله ''

ملاحظہ ہو: نظام الحكم فى الشريعة و التاريخ الاسلامى ، ظافر القاسمي، الكتاب الاول ص ۵۲۹_

۲) سورہ العمران آيت ۱۵۹_

۳) سورہ شورى آيت ۳۸_

۸۴

خلاصہ :

۱) آنحضرت (ص) اپنى امت كے قائد تھے اور تمام مسلمان قائل ہيں كہ آپ نے حكومت تشكيل دى تھى _ موجودہ دور كے بعض مسلمان مصنفين آپ (ص) كى دينى قيادت كے معترف ہيں ليكن تشكيل حكومت كا انكار كرتے ہيں_

۲) آپ (ص) كى حكومت كے بعض منكرين نے ان آيات كا سہارا ليا ہے جو شان پيغمبر كو ابلاغ وحى ، بشارت دينے اور ڈرانے والے ميں منحصر قرار ديتى ہيں اور ان آيات ميں آپ كى حاكميت كاكوئي تذكرہ نہيں ہے_

۳) ان آيات سے'' حصر اضافي'' كا استفادہ ہوتا ہے نہ كہ'' حصر حقيقي'' كا _ لہذايہ آنحضر ت (ص) كے سياسى اقتدار كى نفى كى دليل نہيں ہيں_

۴)بعض منكرين كى دوسرى دليل يہ ہے كہ مسلمانوں پر آپ (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين امور بھى نہيں پائے جاتے جو ايك حكومت كى تشكيل كيلئے انتہائي ضرورى ہوتے ہيں_

۵) تاريخ شاہد ہے كہ آنحضرت (ص) نے اس دور كے اجتماعى ، ثقافتى اور ملكى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے حكومتى انتظامات كئے تھے_

۶) مختلف علاقوں كى طرف صاحب اختيار نمائندوں كا بھيجنا اور مجرموں كيلئے سزائيں اور قوانين مقرر كرنا آنحضرت (ص) كى طرف سے تشكيل حكومت كى دليل ہے_

۸۵

سوالات :

۱) آنحضرت (ص) كى زعامت اور رياست كے متعلق كونسى دو اساسى بحثيں ہيں؟

۲) آنحضرت (ص) كے ہاتھوں تشكيل حكومت كى نفى پر عبدالرازق كى پہلى دليل كونسى ہے؟

۳) عبدالرازق كى پہلى دليل كے جواب كو مختصر طور پر بيان كيجئے_

۴)عبدالرزاق كى دوسرى دليل كيا ہے ؟

۵) آنحضرت (ص) كے ذريعے تشكيل حكومت پر كونسے تاريخى شواہد دلالت كرتے ہيں؟

۸۶

دسواں سبق:

آنحضرت (ص) اور تأسيس حكومت -۲-

محمد عابد الجابرى نامى ايك عرب مصنف آنحضرت (ص) كى دينى حكومت كى نفى كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ آپ (ص) نے كوئي سياسى نظام اور دينى حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہ آپ (ص) كى پورى كوشش ايك ''امت مسلمہ ''كى تاسيس تھى _ آپ (ص) نے كوئي حكومت قائم نہيں كى تھى بلكہ آپ (ص) نے لوگوں ميں ايك خاص اجتماعى اور معنوى طرز زندگى كو رائج كيا اور ايسى امت كو وجود ميں لائے جو ہميشہ دين الہى كى حفاظت كيلئے كوشش كرتى رہى اور اسلام اور بعثت نبوى كى بركت سے ايك منظم معنوى اور اجتماعى راہ كو طے كيا_ اس معنوى و اجتماعى راہ كى توسيعكى كوششوں اور امت مسلمہ كى پرورش كے باوجود آنحضرت (ص) نے اپنے آپ (ص) كو بادشاہ ، حكمران يا سلطان كا نام نہيں ديا _ بنابريںدعوت محمدى سے ابتدا ميں ايك ''امت مسلمہ'' وجود ميں آئي پھر امتداد زمانہ كے ساتھ ايك خاص سياسى ڈھانچہ تشكيل پايا جسے اسلامى حكومت كا نام ديا گيا _ سياسى نظم و نسق اور

۸۷

حكومت كى تشكيل عباسى خلفا كے عہد ميں وقوع پذير ہوئي _ صدر اسلامكےمسلمان اسلام اور دعوت محمدى كو دين خاتم كے عنوان سے ديكھتے تھے نہحكومت كے عنوان سے_ اسى لئے ان كى تمام تر كوشش اس دين كى حفاظت اور اس امت مسلمہ كى بقا كيلئےرہى نہ كہ سياسى نظام اور نوزائيدہ مملكت كى حفاظت كيلئے_ صدر اسلام ميں جو چيز اسلامى معاشرے ميں وجود ميں آئي وہ امت مسلمہ تھى پھر اس دينى پيغام اور الہى رسالت كے تكامل اور ارتقاء سے دينى حكومت نے جنم ليا_

عابد جابرى نے اپنے مدعا كى تائيد كيلئے درج ذيل شواہد كا سہارا ليا ہے_

الف _ زمانہ بعثت ميں عربوںكے پاس كوئي مملكت اور حكومت نہيں تھى _ مكہ اور مدينہ ميں قبائلى نظام رائج تھا جسے حكومت نہيں كہا جا سكتا تھا كيونكہ حكومت كا وجود چند امور سے تشكيل پاتا ہے: اس سرزمين كى جغرافيائي حدود معين ہوں ،لوگ مستقل طور پر وہاں سكونت اختيار كريں_ايك مركزى قيادت ہو جو قوانين كے مطابق ان لوگوں كے مسائل حل كرے _جبكہ عرب ميں اس قسم كى كوئي شئے موجود نہيں تھي_

ب _ آنحضرت (ص) نے اس دينى اور معاشرتى رسم و رواج اور طرز زندگى كى ترويج كى جسے اسلام لايا تھا اور خود كو حكمران يا سلطان كہلو انے سے اجتناب كيا _

ج _ قرآن مجيد نے كہيں بھى اسلامى حكومت كى بات نہيں كى بلكہ ہميشہ امت مسلمہ كا نام ليا ہے ''و كنتم خير امّة ا ُخرجت للناس''تم بہترين امت ہو جسے لوگوں كيلئے لايا گيا ہے_(۱)

د _ حكومت ايك سياسى اصطلاح كے عنوان سے عباسى دور ميں سامنے آئي _ اس سے پہلے صرف'' امت مسلمہ '' كا لفظ استعمال كيا جاتا تھا جب امويوں سے عباسيوں كى طرف اقتدار منتقل ہوا تو ان كى اور ان

____________________

۱) سورہ آل عمران آيت ۱۱۰_

۸۸

كے حاميوں كى زبان پر'' ہذہ دولتنا'' ( يہ ہمارى حكومت ہے) جيسے الفاظ جارى ہوئے جو كہ دين و حكومت كے ارتباط كى حكايت كرتے ہيں اور امت كى بجائے حكومت اور رياست كا لفظ استعمال ہونے لگا _ (۱)

جابرى كے نظريئےکا جواب :

گذشتہ سبق كا وہ حصہ جو عبدالرازق كى دوسرى دليل كے جواب كے ساتھ مربوط ہے جابرى كے اس نظريہ كے رد كى دليل ہے كہ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ يہاں ہم جابرى كے نظريہ كے متعلق چند تكميلى نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱_ اسلام اور ايمان كى بركت سے عرب كے متفرق اور مختلف قبائل كے درميان ايك امت مسلمہ كى تشكيل اور ايك مخصوص اجتماعى اور معنوى طرز زندگى اس سے مانع نہيں ہے كہ يہ امت ايك مركزى حكومت قائم كر لے _كسى كو بھى اس سے انكار نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) مختلف اور متعدد قبائل سے'' امت واحدہ'' كو وجود ميں لائے_ بحث اس ميں ہے كہ يہ امت سياسى اقتداراور قدرت كى حامل تھى _ حكومت كا عنصراس امت ميں موجود تھا اور اس حكومت اور سياسى اقتدار كى قيادت و رہبرى آنحضرت (ص) كے ہاتھ ميں تھى _

گذشتہ سبق كے آخر ميں ہم نے جو شواہد بيان كئے ہيں وہ اس مدعا كو ثابت كرتے ہيں_

۲_ عبدالرازق اور جابرى دونوں اس بنيادى نكتہ سے غافل رہے ہيں: كہ ہر معاشرہ كى حكومت اس معاشرہ كے مخصوص اجتماعى اور تاريخى حالات كى بنياد پر تشكيل پاتى ہے_ ايك سيدھا اور سادہ معاشرہ جو كہ پيچيدہ مسائل كا حامل نہيں ہے اس كى حكومت بھى طويل و عريض اداروں پر مشتمل نہيں ہوگى _جبكہ ايك وسيع معاشرہ جو كہ مختلف اجتماعى روابط اور پيچيدہ مسائل كا حامل ہے واضح سى بات ہے اسے ايك ايسى حكومت

____________________

۱) الدين و الدولہ و تطبيق الشريعة محمد عابد جابرى ص ۱۳_ ۲۴ _

۸۹

كى ضرورت ہے جو وسيع انتظامى امور اور اداروں پر مشتمل ہوتا كہ اس كے مسائل حل كر سكے _ جس غلط فہمى ميں يہ دو افراد مبتلا ہوئے ہيں وہ يہ ہے كہ انہوں نے آنحضرت (ص) كے دور كے اجتماعى حالات پر غور نہيں كيا _ انہوں نے حكومت كے متعلق ايك خاص قسم كا تصور ذہن ميں ركھا ہے لہذا جب آنحضرت (ص) كے دور ميں انہيں حكومت كے متعلق وہ تصور نہيں ملا توكہنے لگے آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى بلكہ عباسيوں كے دور ميں ا سلامى حكومت وجود ميں آئي _

يہ نظريہ كہ جس كا سرچشمہ عبدالرازق كا كلام ہے كى ردّ ميں ڈاكٹر سنہورى كہتے ہيں :

عبد الرازق كى بنيادى دليل يہ ہے كہ ايك حكومت كيلئے جو انتظامى امور اور ادارے ضرورى ہوتے ہيں_ وہ رسولخدا (ص) كے زمانہ ميں نہيںتھے_ ليكن يہ بات عبدالرازق كے اس مدعاكى دليل نہيں بن سكتى كہ آپ (ص) كے دور ميں حكومت كا وجود نہيں تھا_ كيونكہ اس وقت جزيرة العرب پر ايك سادہ سى طرز زندگى حاكم تھى جو اس قسم كے پيچيدہ اور دقيق نظم و نسق كى روادار نہيں تھى لہذا اس زمانہ ميں جو بہترين نظم و نسق ممكن تھا آنحضرت (ص) نے اپنى حكومت كيلئے قائم كيا _ پس اس اعتراض كى كوئي گنجائشے نہيں رہتى كہ ''اگر آپ نے حكومت تشكيل دى تھى تو اس ميں موجود ہ دور كى حكومتوں كى طرح كا نظم و نسق اور انتظامى ادارے كيوں نہيں ملتے_ كيونكہ اس قسم كانظم و نسق اور طرز حكومت آنحضرت (ص) كے زمانہ كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا تھا ليكن اس كے باوجود آپ نے اپنى اسلامى حكومت كيلئے ماليات ، قانون گذارى ، انتظامى امور اور فوجى ادارے قائم كئے_(۱)

۳_ ہمارا مدعا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) سياسى اقتدار اور ايك مركزى حكومت كى ماہيت كو وجود ميں لائے_ ہمارى بحث اس ميں نہيں ہے كہ اس وقت لفظ حكومت استعمال ہوتا تھا يا نہيں يا وہ الفاظ جو كہ عموماً حكمران

____________________

۱) ''فقہ الخلافة و تطورہا ''عبدالرزاق احمد سنہورى ص ۸۲_

۹۰

استعمال كرتے تھے مثلاً امير ، بادشاہ يا سلطان و غيرہ آنحضرت (ص) نے اپنے لئے استعمال كئے يا نہيں؟تاكہ جابرى صرف اس بنا پر كہ آپ (ص) نے خود كو حكمران يا بادشاہ نہيںكہلوايا ياعباسيوں كے دور ميں ''ہمارى حكومت '' جيسے الفاظ رائج ہوئے تشكيل حكومت كو بعد والے ادوار كى پيداوار قرار ديں_

وہ تاريخى حقيقت كہ جس كا انكار نہيں كيا جاسكتا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كے دور ميں مدينہ ميں سياسى اقتدار وجود ميں آچكا تھا _ البتہ يہ حكومت جو كہ اسلامى تعليمات كى بنياد پر قائم تھى شكل و صورت اور لوگوں كے ساتھ تعلقات ميں اس دور كى دوسرى مشہور حكومتوں سے بہت مختلف تھى _

آنحضرت (ص) كى حكومت كا الہى ہونا :

اس نكتہ كى وضاحت كے بعد كہ آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں حكومت تشكيل دى تھى اور آپ كى رسالت اور نبوت سياسى ولايت كے ساتھ ملى ہوئي تھى _ اس اہم بحث كى تحقيق كى بارى آتى ہے كہ آنحضرت (ص) كو يہ حكومت اور سياسى ولايت خداوند كريم كى طرف سے عطا ہوئي تھى يا اس كا منشأ رائے عامہ اور بيعت تھى ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا آ پ (ص) كى سياسى ولايت كا منشأدينى تھا يا عوامى اورمَدني؟

اس سوال كا جواب اسلام اور سياست كے رابطہ كى تعيين ميں اہم كردار ادا كرے گا _ اگر آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اور حكومت كا منشا دينى تھا_ اور يہ منصب آپ (ص) كو خدا كى طرف سے عطا كيا گيا تھا تو پھر اسلام اور سياست كا تعلق'' ذاتي'' ہوگا _ بايں معنى كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں حكومت پر توجہ دى ہے اور مسلمانوں سے دينى حكومت كے قيام كا مطالبہ كيا ہے لہذا آنحضرت (ص) نے اس دينى مطالبہ پر لبيك كہتے ہوئے حكومت كى تشكيل اور مسلمانوں كے اجتماعى اور سياسى امور كے حل كيلئے اقدام كيا ہے_ اور اگر آنحضرت (ص) كى حكومت اور سياسى ولايت كا منشأ و سرچشمہ صرف لوگوں كى خواہش اور مطالبہ تھا تو اس صورت ميں اسلام اور حكومت كے درميان تعلق ايك ''تاريخى تعلق ''كہلائے گا _ اس تاريخى تعلق سے مراد يہ

۹۱

ہے كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں دينى حكومت كى تشكيل كا مطالبہ نہيں كيا اور آنحضرت (ص) كيلئے سياسى ولايت جيسا منصب يا ذمہ دارى قرار نہيں دى بلكہ رسولخدا (ص) كے ہاتھوں دينى حكومت كا قيام ايك تاريخى واقعہ تھا جو اتفاقاً وجود ميں آگيا _ اگر مدينہ كے لوگ آپ(ص) كو سياسى قائد كے طور پر منتخب نہ كرتے اور آپ (ص) كى بيعت نہ كرتے تو اسلام اورحكومت كے درميان اس قسم كا تعلق پيدا نہ ہوتا كيونكہ اس نظريہ كے مطابق اسلام اور سياست كے درميان كوئي ''ذاتى تعلق'' نہيں ہے اور نہ ہى اس دين ميں سياسى ولايت كے متعلق اظہار رائے كياگيا ہے _

اس نظريہ كے حاميوں ميں سے ايك كہتے ہيں :

آسمانى پيغام كو پہنچانے كيلئے رسولخدا (ص) كى اجتماعى ، سياسى اور اخلاقى قيادت سب سے پہلے لوگوں كے منتخب كرنے اور بيعت كے ذريعہ وجود ميں آئي پھر اس بيعت كو خداوند كريم نے پسند فرمايا جيسا كہ سورہ فتح كى آيت'' لقد رضى اللہ عن المومنين اذ يبايعونك تحت الشجرة ''(۱) ''بے شك اللہ تعالى مومنوں سے اس وقت راضى ہو گيا جب وہ درخت كے نيچے تيرى بيعت كر رہے تھے''_ سے معلوم ہوتا ہے ايسا نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) كى سياسى قيادت الہى ماموريت اور رسالت كا ايك حصہ ہو بلكہ آپ كى سياسى قيادت اورفرمانروائي جو كہ لوگوں كى روزمرہ زندگى اور عملى و اجرائي دستورات پر مشتمل تھى لوگوں كے انتخاب اور بيعت كے ذريعہ وجود ميں آئي لہذا يہ رہبرى وحى الہى كے زمرے ميں نہيں آتي_

يہ نظريہ صحيح نہيں ہے كہ دين اور سياست كا تعلق ايك تاريخى تعلق ہے اور آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت ايك مدنى ضرورت تھى _ آپ (ص) كى حكومت اس دور كے تقاضے اور لوگوں كے مطالبہ سے اتفاقاً وجود ميں نہيں

____________________

۱) سورہ فتح آيت نمبر۱۸_

۹۲

آئي تھى _بلكہ اس كا سرچشمہ اسلامى تعليمات تھيں اور جيسا كہ آگے ہم وضاحت كريں گے كہ لوگوں كى خواہش اور بيعت نے درحقيقت اس دينى دعوت كے عملى ہونے كى راہ ہموار كى _ متعدد دلائل سے ثابت كيا جاسكتا ہے كہ آپ (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ اسلام اور وحى الہى تھى ان ميں سے بعض دلائل يہ ہيں_

الف _ اسلام كچھ ايسے قوانين اور شرعى فرائض پر مشتمل ہے كہ جنہيں دينى حكومت كى تشكيل كے بغير اسلامى معاشرہ ميں جارى نہيں كيا جاسكتا _ اسلامى سزاؤں كا نفاذ اور مسلمانوں كے مالى واجبات مثلا ً زكوة ، اور اموال و غنائم كے خمس كى وصولى اور مصرف ايسے امور ہيں كہ دينى حكومت كى تشكيل كے بغير ان كا انجام دينا ممكن نہيں ہے _ بنابريں دينى تعليمات كے اس حصہ كو انجام دينے كيلئے آپ (ص) كيلئے سياسى ولايت ناگزير تھي_ ہاں اگر مسلمان آپ (ص) كا ساتھ نہ ديتے اور بيعت اور حمايت كے ذريعہ آپ (ص) كى پشت پناہى نہ كرتے تو آپ كى سياسى ولايت كو استحكام حاصل نہ ہوتا اور دينى تعليمات كا يہ حصہ نافذ نہ ہوتا _ ليكن اس كا يہ معنى نہيںہے كہ آپ(ع) كى سياسى ولايت كا منشأ عوام تھے اور اسلام سے اس كا كوئي تعلق نہيں تھا_

ب _ قرآنى آيات رسولخدا (ص) كى سياسى ولايت كو ثابت كرتى ہيں اورمؤمنين سے مطالبہ كرتى ہيں كہ وہ آپ (ص) كى طرف سے ديے گئے اوامر اور نواہى كى اطاعت كريں:

( '' النبى اولى بالمومنين من انفسهم '' ) (۱)

بے شك نبى تمام مومنوں سے ان كے نفس كى نسبت اولى ہيں _

( '' انما وليّكم الله و رسوله و الذين آمنوا الذين يقيمون الصلوة و يؤتون الزكوة و هم راكعون'' ) (۲)

____________________

۱) سورہ احزاب آيت ۶_

۲) سورہ مائدہ آيت۵۵_

۹۳

يقينا ً تمہارا ولى خدا ، اس كا رسول اور وہ صاحبان ايمان ہيں جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوة ديتے ہيں _

( '' انا انزلنا اليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بما اريك الله'' ) (۱)

ہم نے تمہارى طرف بر حق كتاب نازل كى تا كہ لوگوں كے درميان حكم خدا كے مطابق فيصلہ كريں_

اس قسم كى آيات سے ثابت ہوتا ہے كہ آنحضرت (ص) مومنين پر ولايت ،اولويت اور حق تقدم ركھتے ہيں_ بحث اس ميں ہے كہ يہ ولايت اور اولويت كن امور ميں ہے _ ان آيات سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ ولايت اور اولويت ان امور ميں ہے جن ميں لوگ معمولاً اپنے رئيس كى طرف رجوع كرتے ہيں يعنى وہ اجتماعى امور جن كے ساتھ معاشرہ اور نظام كى حفاظت كا تعلق ہے _ مثلاً نظم و نسق كا برقرار ركھنا ،لوگوں كے حقوق كى پاسدارى ، ماليات كى جمع آورى ، انكى تقسيم اورمستحقين تك ان كا پہنچانا اور اس طرح كے دوسرے ضرورى مصارف ، مجرموں كو سزا دينا اور غيروں سے جنگ اور صلح جيسے امور _

ج_ وہ افراد جو آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت كو مدنى اور غير الہى سمجھتے ہيں ان كى اہم ترين دليل مختلف موقعوں پر مسلمانوں كا رسولخدا ا(ص) كى بيعت كرنا ہے _ بعثت كے تير ہويں سال اہل يثرب كى بيعت اور بيعت شجرہ( بيعت رضوان) كہ جس كى طرف اسى سبق ميں اشارہ كيا گيا ہے يہ وہ بيعتيں ہيں جن سے ان افراد نے تمسك كرتے ہوئے كہا ہے كہ آنحضرت (ص) كى حكومت كا منشأ دينى نہيں تھا _

بعثت كے تير ہويں سال اعمال حج انجام دينے كے بعد اور رسولخدا (ص) كى مدينہ ہجرت سے پہلے اہل يثرب كے نمائندوں نے آنحضرت (ص) كى بيعت كى تھى _ جسے بيعت عقبہ كہتے ہيں_ اگر اس كا پس منظر ديكھا

____________________

۱) سورہ نساء آيت ۱۰۵_

۹۴

جائے تو بخوبى واضح ہوجاتا ہے كہ اس بيعت كا مقصد مشركين مكہ كى دھمكيوں كے مقابلہ ميں رسولخدا (ص) كى حمايت كرنا تھا _ اس بيعت ميں كوئي ايسى چيز نہيں ہے جو دلالت كرتى ہو كہ انہوں نے آنحضرت (ص) كو سياسى رہبر كے عنوان سے منتخب كيا ہو _ اس بيعت كے وقت آنحضرت (ص) نے فرمايا:

''امّا مالى عليكم فتنصروننى مثل نسائكم و ابنائكم و ان تصبروا على عضّ السّيف و ان يُقتل خياركم ''

بہر حال ميرا تم پر يہ حق ہے كہ تم ميرى اسى طرح مدد كرو جس طرح اپنى عورتوں اور بچوں كى مدد كرتے ہو اور يہ كہ تلواروں كے كاٹنے پر صبر كرو اگر چہ تمہارے بہترين افراد ہى كيوں نہ مارے جائيں_

براء بن معرور نے آنحضرت (ص) كا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليا اور كہا :

''نعم و الذى بعثك بالحق لنمنعنّك ممّا نمنع منه ازرنا ''(۱ )

ہاں اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق كے ساتھ مبعوث كيا ہے ہم ہراس چيز سے آپ كا دفاع كريں گے جس سے اپنى قوت و طاقت كا دفاع كرتے ہيں_

بيعت رضوان كہ جس كى طرف سورہ فتح كى اٹھارويں آيت اشارہ كر رہى ہے سن چھ ہجرى ميں ''حديبيہ'' كے مقام پر ہوئي اس بيعت سے يہ استدلال كرنا كہ آنحضرت(ص) كى حكومت كا منشا مدنى اور عوامى تھا ناقابل فہم بہت عجيب ہے كيونكہ يہ بيعت مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اور اقتدار كے استحكام كے كئي سال بعد ہوئي پھر اس بيعت كا مقصد مشركين كے ساتھ جنگ كى تيارى كا اظہار تھا _ لہذا سياسى رہبر كے انتخاب كے مسئلہ كے ساتھ اس كا كوئي تعلق نہيں تھا _

____________________

۱) مناقب آل ابى طالب ج ۱، ص ۱۸۱_

۹۵

خلاصہ :

۱) عصر حاضر كے بعض مصنفين قائل ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہ ايك امت مسلمہ كى نبياد ركھى تھى _ امت مسلمہ كى تشكيل كے بعد عباسيوں كے دور ميں دينى حكومت قائم ہوئي _

۲) اس مدعا كى دليل يہ ہے كہ رسولخد ا (ص) كے دور ميں جو قبائلى نظام رائج تھا اس پر حكومت كى تعريف صادق نہيں آتى _ دوسرا يہ كہ آنحضرت (ص) نے اپنے آپ كو امير يا حاكم كا نام نہيں ديا نيز قرآن نے بھى مسلمانوں كيلئے ''امت ''كا لفظ استعمال كيا ہے _

۳) اس نظريہ كے حامى اس نكتہ سے غافل رہے ہيں كہ ہر معاشرے اور زمانے كى حكومت اس دور كے اجتماعى حالات كے مطابق ہوتى ہے لہذا دور حاضر ميں حكومت كى جو تعريف كى جاتى ہے اس كا رسولخدا (ص) كے زمانے كى حكومت پر صادق نہ آنا اس بات كى نفى نہيں كرتاكہ مدينہ ميں آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى _

۴) دوسرا نكتہ جس سے غفلت برتى گئي ہے وہ يہ ہے كہ بحث لفظ ''حكومت، رياست اور امارت'' ميں نہيں ہے _ ہمارا مدعا يہ ہے كہ رسولخدا (ص) كے زمانہ ميں حكومت اور سياسى ولايت موجود تھى _

۵) مسلمانوں ميں حكومت كا وجود ان پر لفظ ''امت'' كے اطلاق كے منافى نہيں ہے _

۶) اصلى مدعا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اسلام اور سياست كے در ميان ذاتى تعلق كا نتيجہ ہے نہ كہ ايك اتفاقى اور تاريخى واقعہ _ پس اسلام اور سياست كا تعلق ايك تاريخى تعلق نہيں ہے_

۷) آنحضرت (ص) كى حكومت كے الہى اور غير مدنى ہونے پر بہت سى ادلّہ موجود ہيں _

۹۶

سوالات :

۱) جو لوگ يہ كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حكومت كى بجائے امت مسلمہ كى نبياد ركھى تھى اس سے ان كى مراد كيا ہے ؟

۲) اس مدعا پر انہوں نے كونسى ادلّہ پيش كى ہيں ؟

۳) آنحضرت (ص) كے ہاتھوںتشكيل حكومت كے منكرين كے اس گروہ كو كيا جواب ديا گيا ہے؟

۴) اسلام اور سياست كے درميان ''ذاتى تعلق'' اور ''تاريخى تعلق'' سے كيا مراد ہے ؟

۵)اس بات كى كيا دليل ہے كہ آنحضرت (ص) كى حكومت الہى تھى اور اس كا سرچشمہ دين تھا ؟ اور يہ كہ آپ (ص) كى حكومت مدنى نہ تھي_

۹۷

گيا رہواں سبق:

آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت

گذشتہ سبق ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ كرچكے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت، شرعى نص اور وحى الہى كى بنياد پر تھى اور اس ولايت كى مشروعيت كا سرچشمہ فرمان الہى تھا _ اب سوال يہ ہے كہ كيا رحلت كے بعد مسلمانوں كے سياسى نظام اور امت كے سياسى اقتدار كے متعلق اسلامى تعليمات اور دينى نصوص ميں اظہار رائے كيا گيا ہے ؟ يا اسلام اس بارے ميں خاموش رہا ہے اور امر ولايت اور سياسى اقتدار اور اس كى كيفيت كو خود امت اور اس كے اجتہاد و فكر پر چھوڑ ديا ہے ؟

يہ مسئلہ جو كہ'' كلام اسلامي'' ميں ''مسئلہ امامت'' كے نام سے موسوم ہے طول تاريخ ميں عالم اسلام كى اہم ترين كلامى مباحث ميں رہا ہے اوراسلام كے دو بڑے فرقوں يعنى شيعہ و سنى كے درميان نزاع كا اصلى محور يہى ہے _ اہلسنت كہتے ہيں: آنحضرت(ص) كى رحلت كے بعد امر حكومت كے متعلق دينى نصوص ساكت ہيں اور نظام حكومت ، مسلمانوں كے حكمران كى شرائط اور اس كے طرزانتخاب كے متعلق كوئي واضح فرمان نہيں ديا گيا _ آنحضرت(ص) كے بعد جو كچھ ہوا وہ صدر اسلام كے مسلمانوں كے اجتہاد كى بناپرتھا _ اہل سنت اس اجتہاد كا نتيجہ

۹۸

''نظام خلافت''كے انتخا ب كو قرار ديتے ہيں _

جبكہ اس كے مقابلے ميں اہل تشيع يہ كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى ميں ہى حكم خدا سے متعدد شرعى نصوص كے ذريعہ امت كى سياسى ولايت اور'' نظام امامت'' كى بنياد ركھ دي_

ان دو بنيادى نظريات كى تحقيق سے پہلے جو كہ آپس ميں بالكل متضاد ہيں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اہلسنت نے ''مسئلہ امامت'' كو وہ اہميت اور توجہ نہيں دى جو شيعوں نے دى ہے _ اہلسنت كے نزديك مسئلہ خلافت ، شرائط خليفہ اور اس كى تعيين كا طريقہ ايك فقہى مسئلہ ہے _ جس كا علم كلام اور اعتقاد سے كوئي تعلق نہيں ہے _ اسى لئے انہوں نے اسے اتنى اہميت نہيں دى _ ان كى كلامى كتب ميںاس مسئلہ پر جووسيع بحث كى گئي ہے وہ در حقيقت ضد اور شيعوں كے رد عمل كے طور پر كى گئي ہے _ كيونكہ شيعوں نے اس اہم مسئلہ پر بہت زور ديا ہے اور'' مسئلہ امامت'' كو اپنى اعتقادى مباحث كے زمرہ ميں شمار كرتے ہوئے اسے بہت زيادہ اہميت دى ہے _ لہذا اہلسنت بھى مجبوراً اس فرعى اور فقہى بحث كو علم كلام اور اعتقادات ميں ذكر كرنے لگے بطور مثال ،غزالى مسئلہ امامت كے متعلق كہتے ہيں :

''النظر فى الامامة ليس من المهمات و ليس ايضاً من فنّ المعقولات بل من الفقهيات''

امامت كے بارے ميں غور كرنا اتنا اہم نہيں ہے اور نہ ہى يہ علم كلام كے مسائل ميں سے ہے بلكہ اس كا تعلق فقہ سے ہے(۱)

مسئلہ امامت شيعوں كے نزديك صرف ايك فرعى اور فقہى مسئلہ نہيں ہے اور نہ ہى معاشرتى نظام كے چلانے كى كيفيت اور سياسى ولايت ميں منحصر ہے بلكہ ايك كلامى مسئلہ ہے اور جزء ايمان ہے لہذا ائمہ

____________________

۱) الاقتصاد فى الاعتقاد، ابوحامد غزالى ص ۹۵_

۹۹

معصومين كى امامت پر اعتقاد نہ ركھنا در حقيقت دين كے ايك حصّے كے انكار اور بعض نصوص اور دينى تعليمات سے صرف نظر كرنے كے مترادف ہے ،جس كے نتيجہ ميں ايمان ناقص رہ جاتا ہے _ شيعوں كے نزديك امامت ايك ايسا بلند منصب ہے كہ سياسى ولايت اس كا ايك جزء ہے _ شيعہ ہونے كا اساسى ركن امامت كا معتقد ہونا ہے _ يہى وجہ ہے كہ اہلسنت كے مشہور عالم ''شہرستاني'' '' شيعہ'' كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں: الشيعة ہم الذين شايعوا علياً على الخصوص و قالوا بامامتہ و خلافتہ نصاً و وصيتاً اما جلياً و اما خفيا و اعتقدوا ان امامتہ لا تخرج من اولادہ (۱ ) شيعہ وہ لوگ ہيں جو بالخصوص حضرت على كا اتباع كرتے ہيں اور آنحضرت (ص) كى ظاہرى يا مخفى وصيت اور نص كى روسے انكى امامت اور خلافت كے قائل ہيں اور معتقد ہيں كہ امامت ان كى اولاد سے باہر نہيں جائے گى _

اہلسنت اور نظريہ خلافت :

اگر موجودہ صدى كے بعض روشن فكر عرب مسلمانوں كے سياسى مقاصد اور نظريات سے چشم پوشى كرليں تو اہلسنت كا سياسى تفكر تاريخى لحاظ سے نظام خلافت كے قبول كرنے پر مبتنى ہے _

اہلسنت كے وہ پہلے مشہور عالم ماوردى(۲) كہ جنہوں نے اسلام كى سياسى فقہ كے متعلق ايك مستقل كتاب لكھى ہے كے زمانہ سے ليكر آج تك سياسى تفكر كے بارے ميں انكى سب تحريروں كا محور نظريہ خلافت ہے_

اہلسنت كى فقہ سياسى اور فلسفہ سياسى دينى نصوص كى بجائے صحابہ كے عمل سے متاثر ہے _ اہلسنت سمجھتے ہيں كہ خليفہ كى تعيين كى كيفيت اورشرائط كے متعلق قرآن اور سنت ميں كوئي واضح تعليمات موجو د نہيں ہيں

____________________

۱) الملل و النحل، شہرستانى ج ۲ ص ۱۳۱_

۲) على ابن محمد ابن حبيب ابوالحسن ماوردى ( ۳۶۴ _ م ۴۵۰ ق) شافعى مذہب كے عظيم فقہا ميں سے ہيں فقہ سياسى كے متعلق ''احكام سلطانيہ'' كے علاوہ ديگر كتب كے بھى مؤلف ہيں جيسے ''الحاوي'' اور ''تفسير قرآن'' _

۱۰۰