امت کی رہبری

امت کی رہبری0%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

امت کی رہبری

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17200
ڈاؤنلوڈ: 3717

تبصرے:

امت کی رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17200 / ڈاؤنلوڈ: 3717
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

امت کی رہبری

تالیف: آیة اللہ جعفر سبحانی

عرض ناشر

عالم اسلام کی موجودہ صورت حال ، مسلمان حکومتوں اور ملکوں کا باہم متحد نہ ہونا اسلامی اخوت و مساوات کا فقدان، اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بجائے غیر اسلامی تعلیمات کی طرف رجحان اور الٰہی طاقت و قوت پر اعتماد کے بجائے ان کا غیر الٰہی اور کھوکھلی طاقتوں پر ایمان۔ نتیجہ میں استعماری طاقتوں اور عالمی صھیونزم کا ان پر تسلط مسلمانوں کا بے مھابا قتل عام اور ان کے طبیعی و زمینی ذخائر کی اندھا دھند لوٹ کھسوٹ اور ساتھ ہی کلمہ لا الہ الا الله پڑھنے والوں کی بے بسی و بیکسی ایک صائب اور صحیح فکر رکھنے والے مسلمان کو بھت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

ھم چودہ سو سال سے آج تک متفرق کیوں ہیں ۔ مسلمانوں کے درمیان صدیوں سے اس فرقہ واریت کے اسباب کیا ہیں ، مسلمانون میں کلام الٰہی کی یہ عملی تصویر کیوں نظر نہیں آتی جس میں وہ ارشاد فرماتا ہے < اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً> بلکہ مسلمان خود ایک دوسرے کے جانی دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں کیا ہم عملاً کھہ سکتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات عالم انساںیت کی فلاح کےلئے بھترین تعلیمات ہیں ۔قرآن کے آئیڈیل مسلمان جو <اشداء علی الکفار رحماء بینھم>کی عملی تصویر ہیں پوری اسلامی تاریخ میں انگلیوں پر گننے کے قابل کیوں ہیں۔

اس کا صاف جواب یہ ہے کہ ہمارے پاس آنحضرت کی رحلت کے بعد سے کوئی عملی قرآنی لیڈر شب نہیں رہی مسلمانوں نے ابتدا ہی سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد نہ قرآنی تعلیمات پر سنجیدگی سے عمل کیا اور نہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارشادات پر کان دھرے اور خدا پسند مسلمان بننے کے بجائے خود پسند مسلمان بنے۔ قرآن کریم کے معلم اول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعد قرآن کے جن معلموں کو ” حدیث ثقلین“ کی روشنی میں ہمارے درمیان چھوڑ گئے تھے مسلمانوں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں محفوظ ہے اور کسی باہوش مسلمانوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔

لھذا ان حالات کی روشنی میں آج بھی یہ بحث تازہ اور گرما گرم ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو خدا کی جانب سے بھیجے گئے تھے اور الٰہی تعلیمات اور قرآنی دستور العمل ہماری حیات کےلئے لئے آئے تھے۔ ان کی رحلت کے بعد کیا مسلمان تمام الٰہی تعلیمات اور قرآنی دستور حیات سے اتنے آگاہ ہوچکے تھے کہ انہیں پھر کسی الٰہی معلم قرآن کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی اور وہ اپنی مرضی سے الٰہی نظام حیات کو چلا سکتے تھے؟ دوسرے لفظوں میں کیا وہ خدا سے زیادہ اپنے حالات و معاملات سے آگاہ ہوگئے تھے؟

یا ” عدول“ کا لقب پانے والے آنحضرت کے اصحاب نے خدا ، قرآن اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دستورات کے خلاف خدا و رسول کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی کو عملی جامہ پھنایا اور ” امت کی رہبری“ اپنے ھاتھوں میں لے لی۔ انجام کار سامنے ہے کہ مسلمان آج چودہ سو برسوں سے ترقی کے بجائے زوال کی طرف مائل ہیں اور خدا کی جانب سے ” مغضوب“ اور ” ضالین“ شمار کی جانے والی قومیں ان پر غالب ہیں ۔

یہ کتاب ” امت کی رہبری“ جو آپ کے ھاتھوں میں ہیں اسی موضوع پر آیة اللہ شیخ جعفر سبحانی مد ظلہ کی ایک بھترین کاوش ہے جسے موجودہ افکار و خیالات کی روشنی میں نئے رخ سے پیش کیا گیا ہے امید ہے کہ خداوند عالم اس کے ذریعہ حق کے جویا افراد کی ہدایت فرمائے ۔

آمین یا رب العالمین

ناشر

مقدمہ

اس کتاب کی تحریر کامقصد

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امت کی قیادت ورہبری کامسئلہ اسلام کے ان اہم مسائل میں سے ہے جس کی تحقیق ہر طرح کے تعصب وغرض و مرض سے دور پر سکون ماحول میں کی جانی چاہئے۔

سب سے پہلا مسئلہ جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد زبانوںپر آیا اور بحث کا موضوع بنا اور آج بھی اس پر بحث وتحقیق جاری ہے وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی سیاسی وسماجی قیادت ورہبری کا مسئلہ تھا کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ھر جھت سے مسلمانوں کے س رپرست ورہبر تھے ۔ قرآن کی متعدد آیتیں آنحضرت کی وسیع قیادت ورہبری کی گواہی دیتی ہیں جن میں سے بعض آیتیں ہم یہاں ذکر کرتے ہیں :

۱۔( اطیعواالله واطیعواالرسول واولی الامر منکم ) (۱)

اللہ ،رسول اور اپنے حاکموںکی اطاعت کرو

۲۔( النبی اولیٰ بالمومنین من انفسهم ) (۲)

پیغمبر مومنوں (کی جان ومال )پر ان سے زیادہ سزاوار ہے۔

اس وسیع وعریض قیادت ورہبری کاایک پہلو اسلامی سماج میں عدالت قائم کرنا ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ میں اپنے قیام کے دوران خود یامدینہ سے باہر دوسروں کے ذریعہ سماج میں عدالت برقرار کرتے تھے ۔قرآن مسلمانوں کو حکم دیتاہے کہ اپنے معاملات اور اختلافات میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلوں کو بے چون وچرا تسلیم کریں:

( فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینهم ثم لایجدوا فی انفسهم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما ) (۳)

(تمھارے پروردگار کی قسم وہ لوگ ہرگز مومن واقعی شمار نہیں ہوں گے جب تک وہ اپنے اختلاف میں تمھیں حَکَم اور قاضی قرار نہ دیں اوراس پر ذرا بھی ملول نہ ہوں اور تمھارے فیصلہ پر مکمل تسلیم ہوں)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی سماجی رہبری کاایک پہلو اسلام کے مالی واقتصادی امور کاادارہ کرناہے کہ ٓانحضرت اپنی حیات میں ان کاموںکوانجام دیتے تھے۔قرآن مجید نے ان الفاظ میں آپ کوخطاب کیاہے:

( خذ من اموالهم صدقة تطهرهم وتزکیهم بها ) (۴)

ان کے اموال میں سے زکوات لو اور اس طرح انہیں پاک کرو۔

دوسری آیات میں زکات اور ٹیکس کی مقدار اور ان کے مصارف کا بھی پوری باریکی کے ساتھ ذکر کیا گیاہے۔

ان آیات کے معانی،ان کی وضاحت کرنے والی روایات اور خود آنحضرت کاطرز عمل یہ بتاتاہے کہ آنحضرت مسلمانوں کے سرپرست ،سماج کے حاکم ،اور ملت وامت کے فرمانروا تھے۔اور جو سماج کامطلق العنان حاکم انجام دیتا ہے وہ انجام دیتے تھے ۔ فرق یہ تھا کہ یہ سرپرستی اور حکومت لطف الٰہی کی شکل میں خدا کی طرف سے آپ کو عطا ہوئی تھی۔لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس منصب کے لئے منتخب نہیں کیاتھا۔نقطہ حساس یہ ہے کہ ہم یہ جانیںکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی رحلت کے بعد امت کی باگ ڈور اور سرپرستی کس کے ذمہ ہے اور اسلامی سماج کی اجتماعی وسیاسی قیادت کس کے ھاتھ میں ہونی چاہئے جو سماج کو ہرج ومرج ،فساد اور پسماندگی سے محفوظ رکھے؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام جیسے عالمی وجاودانی دستور میں اس امر کو فراموش نہیں کیاگیا ہے اور اس کے لئے ایک بنیادی منصوبہ پیش کیاہے اور وہ ہے ”اولی الامر“کی پیروی واطاعت جو ہم پر واجب کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں کوئی بحث نہیں ہے۔پس یہاں جو نکتھ قابل بحث ہے یہ ہے کہ جن حکام کی اطاعت واجب کی گئی ہے مسلمان ان کی شخصیت کو پھچانیں تاکہ خوب اطاعت کریں۔

مسلمانوںکا ایک گروہ یہ کھتاہے کہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خداوند عالم کے حکم سے اسلامی سماج کے سیاسی واجتماعی امور کو ادارہ کرنے کے لئے اپنے بعد حاکم ےا حکام معین کئے ہیں ۔اس گروہ کے مقابل ایک دوسرا گروہ ہے جو یہ کھتا ہے کہ خداوند عالم نے لوگوں کو یہ اختیار دیاہے کہ

پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعداپنے لئے حکام کاانتخاب کریں۔شیعہ پہلے نظریہ کے اوراہل سنت دوسرے نظریہ کے طرفدار ہیں۔

اگر مسلمانوں کی امامت وپیشوائی کامسئلہ اسی حد میں ہو کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم(کی رحلت کے بعد اسلام کے اس سیاسی واجتماعی منصب پر کون فائز ہوا،اس شخص کی تعیین کس شکل میں ہوئی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس منصب پر کسی کو معین کیا یاکوئی شخص عوام کی جانب سے اس منصب کے لئے منتخب ہوا ،تو یہ بحث صرف ایک تاریخی پہلو کی حامل ہوگی اور چودہ صدیوں کے بعد آج کی نسل کے لئے کوئی خاص سازگار اور مفید نہیں ہوگی۔(اگر چہ ان افراد کی شناخت بھی اس عھد کے لوگوں کے لئے ضروری اور اہم شمار ہوتی تھی)لیکن اگر بحث کی شکل تبدیل ہو اور یہ کہا جائے کہ بحث کا موضوع پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اسلامی سماج کی صرف سیاسی و اجتماعی قیادت ہی نہیں ہے بلکہ پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اس منصب کے علاوہ ”دین کے اصول و فروع میں بھی مرجعیت ورہبری کا منصب رکھتے تھے ۔تو اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس پہلو کی قیادت کس کے ذمہ ہے؟ اور کیسے اشخاص کو حلال و حرام اور امر و نھی کا منصب دار ہونا چاہئے تا کہ اسلامی حقائق کے سلسلہ میں ان کے اقوال اور نظریات صبح قیامت تک انسانوں کے لئے حجت ہوں؟اس صورت میں امام کی شناخت اور دینی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں بحث ہر مسلمان کی زندگی کا حصہ قرار پاتی ہے اور کوئی شخص بھی اس معرفت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ۔اب اس مطلب کی و ضاحت پر توجہ دیں:

اسلامی معارف و احکام میں قیادت و مرجعیت:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی قیادت و رہبری صرف سیاسی و سماجی امور میں نہیں تھی بلکہ آپ قرآنی آیات کے مطابق اس الٰہی کتاب کے معلم(۱) ، قرآن کے مشکل مطالب کی تبیین و وضاحت کرنے والے(۲) ،اور الٰہی احکام و سنن کو بیان کرنے والے تھے(۳) ۔اس اعتبار سے پورے اسلامی معاشرہ کا اس پر اتفاق ہے اور قرآنی نصوص بھی گواہی دیتی ہیں کہ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور بندوں کے فرائض میں آنحضرت کا قول و عمل لوگوں کے لئے سند اور حجت ہے۔

اس کتاب کے چوتھے حصہ میں واضح طور سے بیان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ لوگوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت پوری نہیں ہوئی تھی اور ابھی اسلام کی علمی و عملی تحریک اپنے کمال کو نہیں پھنچی تھی کہ پھر سماج کو معصوم رہبروں کی ضرورت نہ رہے۔لھٰذا ضروری ہے کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد کوئی شخص یا جماعت اسلام کے احکام اور اس کے علمی ،فکری وتربیتی اصول کی رہبری و مرجعیت کا عھدہ اس روز تک سنبھالے جب تک اسلام کا یہ انقلاب پوری طرح سے بارور ہوجائے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس منصب و مقام کے لئے کون سے افراد شائستہ ہیں تا کہ اسلامی معاشرہ ہر عھد اور ہر زمانہ میں ان کے افکار و کردار و گفتار سے فائدہ اٹھائے۔اور ان کی ہدایات و رہنمائی میں حلال خدا کو حرام سے اور واجبات کو محرمات سے تشخیص دے سکے ۔نتیجہ میں اپنے دینی فرائض پر عمل کرسکے ۔اس گروہ کی شناخت اور ان کی تعلیمات و ہدایات سے آگاہی حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے۔ اس کتاب میں اسی بات کی کوشش کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم کے شائستہ اور سچے جانشینوں کا تعارف کرایا جاسکے۔

ظاہر ہے کہ (پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد امت کی رہبری )کی بحث کو پیش کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ موجودہ حساس حالات میں مذہبی اختلافات کو بھڑ کایا جائے یا تعصب آمیز اور بے ثمر و غیر مفید بحث کو جاری رکھا جائے۔ کیونکہ ان حساس اور نازک حالات میں نہ صرف حالات کو پھیلنے سے روکا جانا ضروری ہے بلکہ انہیں کم سے کم کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور در حقیقت انسان کی عمر اس سے کھیں زیادہ قیمتی ہے کہ تعصب آمیز بحث چھیڑی جائے اور اپنی اور دوسروں کی عمر تباہ کی جائے۔بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہر طرح کے تعصب و کینہ سے دور رہ کر ایک اہم اور اساسی مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے حقائق کی بنیاد پر اس کی محققانہ اور منطقی تحقیق کی جائے۔تا کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان مزید قربت اور تفاہم پیدا ہو اور وہ زھر افشانیاں ختم ہوجائیں جو ہمارے دانا دشمن اور نادان دوست اس سلسلہ میں کیا کرتے ہیں۔امت کی رہبری سے مربوط بحثوں میں دو بنیادی اصل ہمارے پیش نظر ہیں :

۱۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی جیسے اہم مسئلہ میں حقائق و واقعیات کو پہچانا جائے۔

۲۔مسلمانوں کے درمیان مفاہمت اور قربت پیدا کرنے میں مدد کی جائے اور ان عوامل و اسباب کو بر طرف کیا جائے جو سوء ظن کا باعث ہوتے ہیں اور جن سے دشمن فائدہ اٹھا کر ہم میں اختلاف پیدا کرتا ہے۔

اس کتاب کے مطالب چند برس پہلے تھران میں یونیورسٹی کے طلبہ کے لئے (حسینیہ بنی فاطمہ(ۡع) میں درس کے طور پر بیان کے گئے تھے جو کافی حد تک لوگوں کو مکتب اہل بیت(ۡع)سے آشنا کرنے اور آنحضرت کے شائستہ جانشینوں کی معرفت کا باعث ہوئے تھے۔جنہیں شائقین کے اصرار پر کتابی شکل میں شائع کیا جارہاہے یہ کتاب اس بحث کا پہلا حصہ ہے جو ۲۴چوبیس فصلوں پر مشتمل ہے ۔انشاءاللہ دوسرا حصہ بھی جلد شائع ہوگا۔

وماتوفیقی الا بالله علیه توکلت والیه انیب

جعفر سبحانی

حوزہ علمیہ قم المقدسہ

اسلامی جمھوریہ ایران

____________________

۱۔”یعلمهم الکتاب والحکمة

۲۔”و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما انزل الیهم

۳۔”وما آتاکم الرسول فخذوه و مانهاکم عنه فانتهوا “ (حشر/۷)

پہلی فصل

امام کی شناخت کا فلسفہ

مسلمانوں کا اتحاد و یکجھتی ایک ایسی واضح چیز ہے جس کی ضرورت سے کسی بھی عقلمند کو انکار نہیں ہے،کیونکہ جو لوگ ایک کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور اساسی و اصولی مسائل پراتفاق رائے رکھتے ہیں وہ مختلف فرقوں ،گروہوں دشمن جماعتوں کی شکل میں کیوں رہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہوں؟اگر ماضی میں لوگوں کے اکثر طبقوں کو اس اتحاد کی ضرورت کا احساس نہیں تھا تو آج جب کہ استعماری طاقتیں اسلامی ممالک کے قلب پرحملہ آور ہیں اور ہر روز آگے بڑھتی نظر آتی ہیں ایسے میں ہر عاقل و ہوشیار شخص کو اتحاد کی ضرورت کا بھر پور احساس ہے۔

کون غیرت مند مسلمان ہوگا جو فلسطین،بوسنیہ ،کشمیر ،چچنیہ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی ناقابل بیان حالت کو دیکھے اور خون کے آنسو نہ روئے اور اس بے حسی اور پراکندگی پر گریہ نہ کرے؟!

مسلمان ، دنیا کی ایک چوتھائی جمعیت کو تشکیل دیتے ہیں۔اورانسانی طاقت ،زمینی ذخائر اور اصیل اسلامی ثقافت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ غنی جمعیت ہیں ۔ ایسی مادی اور معنوی طاقتوں سے سرشار مسلمان سیاست کے میدان میں سب سے زیادہ باوزن ہوسکتے ہیں اور دنیا کی سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی قیادت و رہبری اپنے ھاتھ میں لے سکتے ہیں اور استعمار نیز اسلامی اتحاد کے مخالفوں کی بنائی ہوئی بھت سی جغرافیائی حدوں کو نادیدہ قرار دے کر مسلمانوں کی باہمی ضرورتیں پوری کرسکتے ہیں نیز اقتصادی و ثقافتی مبادلات کے ذریعہ اپنے حالات بہتر بنا سکتے ہیں ۔اس طرح اپنی سیادت و سرداری دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن اتحاد کی اس اہمیت کو مد نظر رکھنے کے با وجود امام کی شناخت و معرفت کے موضوع کو اسلامی اتحاد کی راہ کا کا نٹا نہیں سمجھنا چاہئے اور اسے اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھنا چاہئے ،جس کی ضرورت کو سبھی محسوس کرتے ہیں ۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض سادہ لوح یا فریب خوردہ جوان اسلامی اتحاد کو حضرت عثمان کا کرتھ بنا کر طالبان حقیقت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کھتے ہیں:

ابوبکر و علی(ع) کی خلافت کی بحث اور یہ کہ صحیح جانشین کون ہے ایک غیر مفید اور بے ثمر بحث ہے۔اس لئے کہ زمانہ کا پھیا اب پیچھے نہیں گھومے گا اور ہم پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حقیقی جانشین کو زندہ نہیں کر پائیں گے کہ اسے اس کا حق دلائیں اور مسند خلافت پر بٹھائیں اور مخالف کی تنبیہ اور اس کا مواخذہ کریں پس بہتر ہے کہ یہ فائل ہمیشہ کے لئے بند کر دی جائے اور اس کے بجائے کوئی دوسری گفتگو کی جائے!

اس خیال کے حامل افراد اس بحث کے درخشان نتائج سے غافل ہیں لھٰذا انھوں نے اسے غیر اہم ،بے فائدہ اور اسلامی اتحاد کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا ہے ، لیکن ہمارے خیال سے یہ فکر امام شناسی کے فلسفہ سے غفلت اور لا علمی کے علاوہ اور کچہ نہیں ہے کیوں کہ اگر اس بحث کا مقصد جھوٹے دعویداروں کے درمیان صرف پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حقیقی جانشین کا پھچاننا ہو تو اس صورت میں ممکن ہے کہ اس طرح کی بحثوں کو غیر مفید و بے ثمر کھیں اور افراطیوں کی طرح جو ہر طرح کی علمی ومنطقی بحث کو اسلامی اتحاد کے خلاف سمجھتے ہیں ہم بھی اسے اتحاد کی راہ کا کانٹا سمجھیں ۔اس لئے کہ اب کیا فائدہ ہے کہ چودہ صدیوں کے بعد حق کو ناحق سے تشخیص دینے کی کوشش کی جائے اور غاصب کے خلاف ایک غائبانہ حکم صادر کیا جائے جس کی کوئی عملی ضمانت نہیں ہے۔

لیکن یہ اعتراض اس وقت بیجا ہے جب ہم علمائے اہل سنت کی طرح اسلامی امامت و خلافت کو ایک طرح کا عرفی منصب جانیں جس کا فریضہ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنا،دفاعی طاقتوں کو مظبوط کرنا، عدل و انصاف کو رواج دنیا، حدود الٰہی کو قائم کرنا اور مظلوموں کو ان کا حق دلانا وغیرہ ہو ،کیونکہ اس صورت میں اس قسم کی بحثوں کی نوعیت یہ ہو گی کہ ہم بیٹہ کر یہ بحث کریں کہ پندرہویں صدی عیسوی میں برطانیہ پر کس شخص کی حکومت تھی یا لوئی پنجم کے بعد تخت حکومت پر بیٹھنے کا حق کس کو تھا؟!

لیکن شیعی نقطہ نظر سے جو امامت کو رسالت کا سلسلہ اورنبوت کے فیض معنوی کا تتمہ سمجھتے ہیں، اس طرح کی بحث لازمی وضروری ہے کیونکہ اس صورت میں امام کے فرائض صرف مذکورہ بالا امور میں ہی خلاصہ نہیں ہوتے ہیں۔بلکہ ان تمام امور کے علاوہ امام ،حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد احکام الٰہی کو بیان کرنے والا،قرآن کی مشکل آیات کا مفسر اور حرام و حلال کو بتانے والا بھی ہے ۔اس صور ت میں یہ سوال پیش آتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کو احکام الٰہی کی تعلیم دینے اور حرام و حلال بتانے والا کو ن ہے تا کہ پیش آنے والے نئے مسائل میں قرآن کی نص اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی کوئی معتبر حدیث موجود نہ ہونے کی صورت میں مسلمان اس کی طرف رجوع کریں اور اس کا قول ان موارد میں حجت قرار پائے۔(۱)

اصولا اسلامی امت قرآن کے مشکلات اور اختلافی مسائل میں کہ جن کی تعداد محدود بھی نہیں ہے آخر کس صاحب منصب کی طرف رجوع کریں اور کس کے قول و عمل کو اپنی زندگی کے لئے حجت اور چراغ راہ قرار دیں؟(۲)

یھی وہ منزل ہے جھاں ہم رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے علمی جانشین کے بارے میں بحث کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور یہاں یہ مسئلہ مکمل طور سے زندہ صورت اختیار کرلیتا ہے کیونکہ اس نظریہ کی روشنی میں امام ،الٰہی معارف اور اصول و احکام میں امت کا رہنما ہوتا ہے اور جب تک یہ منصب قطعی دلائل کے ذریعہ پہچانا نہ جائے صحیح نتیجہ تک نہیں پھنچاجاسکتا ۔

اگر مسلمان تمام اصو ل و فروع میں اتفاق و اتحاد رکھتے تو امامت کے سلسلہ میں بحث اس قدرضروری نہ ہوتی ،لیکن افسوس کہ ان کے یہاں کم ہی مسائل میں اتحاد پایاجاتا ہے ۔اب ہم جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے چودہ سو سال بعد وجود میں آئے ہیں، ہمارا وظیفہ کیا ہے ؟آیا اس زمانہ میں پیدا ہونے والے مسائل ، مشکلاتِ قرآن اور اختلافی مسائل میں کسی نہ کسی صحابی کی رائے منجملہ (ابوحنیفہ یا شافعی) کی طرف رجوع کریں یا حضرت علی ں اوران کی گرانقدراولاد کی طرف رجوع کریں جن کے لئے شیعوںکا دعویٰ ہے کہ ان کی فضیلت ،عصمت،طھارت، وسیع و عمیق علم اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانب سے ان کے منصب امامت پر فائز کئے جانے کے سلسلہ میں عقلی و نقلی دلیلیں موجود ہیں؟

اس سوال کا جواب اسی ”امام شناسی“ کے موضوع اور ولایت کی بحث میں ملے گا جس میں تحقیق ،انسان کو مذکورہ بالا مشکلات میں حیرت و سرگردانی سے نجات دے دیگی۔حتی اگر ہم مسئلہ خلافت کو بھی چھوڑ دیں اور پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد مسلمانوں کی سرپرستی و حاکمیت جو حقیقت میں ایک معصوم کا حصہ ہے، سے چشم پوشی کرلیں تو صرف اسی مسئلہ کی تحقیق کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کا دینی و علمی مرجع و راہنما کون ہے،بھت سی جھات سے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور مسلمانوںکی مکمل سعادت و خوشبختی بھی اس سے وابستہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ جو باتیں ہم بعد میں وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے یہاں بھت اختصار کے ساتھ ذکر کردیں:

اگر ہم اس وقت خلافت و حاکمیت کے مسئلہ سے صرف نظر کردیں تو پورے اطمینان کے ساتھ کھہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مکرر تصریحات و تاکیدات کی روشنی میں آپ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے پاس قرآن کے علاوہ صرف ایک دینی و علمی مرجع و ملجاہے اور وہ پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اہل بیت علیھم السلام ہیں،کیونکہ آنحضرت نے مختلف موقعوں پر کتاب و عترت کے اٹوٹ رشتہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیاہے :

یا ایها الناس انی یوشک ان ادعی فاجیب و انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی کتاب الله حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اهل بیتی و ان اللطیف اخبرنی ان هما لن یفترقا

”اے لوگو!میں عنقریب خدا کی دعوت پر لبیک کھنے والا ہوں۔میں تمھارے درمیان دو گرانقدر اور سنگین امانتیں چھوڑے جارہاہوں ۔ ایک اللہ کی کتا ب اور دوسری میری عترت ہے ۔اللہ کی کتاب وحی الٰہی اور ریسمان نجات ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور میری عترت اور اہل بیت(ۡع)۔ خدائے لطیف نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوںگے “

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوںحجتوں کی باہم ملاذمت کو دینے آخری حج کے روز عرفہ یا غدیر کے دن منبر سے یا اپنی بیماری کے دوران بستر پر لیٹے ہوئے جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا صراحت سے بیان کیا اور آخر میں فرمایا ہے کھ:

هذا علی مع القرآن و القرآن مع علی لایفترقان(۳)

یہ علی(ۡع) ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ۡع) کے ہمراہ ہے۔یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے ایک دو نہیں ہیں جن کو یہاں ذکر کردیا جائے ۔اس حدیث کے مدارک علامہ میر حامد حسین ھندی نے اپنی گرانقدر کتاب ”عبقات الانوار“ کی بارہویں جلد میں بیان کئے ہیں اور یہ کتا ب ھندوستان میں چھپ چکی ہے اور چند سال پہلے چہ جلدوں میں اصفھان میں بھی دوبارہ چھپی ہے،اور دار التقریب مصر سے بھی اس سلسلہ میں ایک کتاب چھپ چکی ہے جس کی بنیاد پر جامعہ الازھر کے سر براہ شیخ شلتوت نے چار مذاہب کی پیروی کے انحصار کو توڑا اور فتوا دیا کہ فقہ امامیہ کی پیروی بھی صحیح اور مجزی ہے۔شیخ شلتوت سے پوچھا گیا کہ بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنی عبادات اور معاملات صحیح کرنے کے لئے چار مشھور مذاہب (حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی) کی تقلید کرے کہ شیعہ اثنا عشری اور زیدی مذہب ان میں سے نہیں ہیں،کیا جناب عالی بھی اس کلی نظریہ سے اتفاق رکھتے ہیں اور اثنا عشری مذہب کی تقلید و پیروی کو منع فرماتے ہیں ؟ تو انھوں نے جواب میں کھا:

۱۔ اسلام نے اپنے کسی پیروکار پر یہ واجب نہیں کیا ہے کہ (فرعی احکام میں ) کسی معین مذہب کی پیروی کرے۔ھم کھتے ہیں کہ ہر مسلمان کو یہ حق ہے کہ ہر اس مذہب کی پیروی کرے جو صحیح مدارک کے مطابق ہم تک نقل ہواہے اور اس کے احکام کو مخصوص کتابوں میں تدوین کیا گیاہے ۔اسی طرح جن لوگوں نے کسی ایک مذہب کی پیروی کی ہے --- چاہے وہ جوبھی مذہب ہو --- وہ دوسرے مذہب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۲۔جعفری مذہب ،مشھور اثنا عشری امامیہ مذہب ہے اور ان مذہبوں میں سے ہے کہ اہل سنت کے تمام مذہبوں کی طرح اس کی بھی تقلید کی جاسکتی ہے ۔

لھذا بہتر ہے کہ تمام مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہوں اور کسی خاص مذہب سے تعصب کرنے سے پرہیز کریں کیونکہ اللہ کا دین اور اس کا قانون کسی خاص مذہب کے تابع اور کسی معین و مخصوص مذہب میں منحصر نہیں ہے۔(اسلامی مذاہب کے پیشوا) سب مجتھدین اور خداوند عالم کے نزدیک مقبول ہیں اور جو لوگ اہل نظر اور صاحب اجتھادنہیں ہیں ان کے لئے جائز ہے کہ ان حضرات کی تقلید کریں اور جو کچہ انھوں نے فقہ میں مقرر کیا ہے اس پر عمل کریں۔اس سلسلہ میں عبادات و معاملات میں کوئی فرق نہیں ہے ۔(۴)

____________________

۱و۲۔ان مطالب کی تفصیل دوسرے حصہ میں ملاحظہ فرمائیں۔

(۳)۔الصواعق المحرقھ،ابن حجر ،فصل دوم ۔باب نھم ،حدیث ۴۱ص/۵۷

(۴)۔رسالة الاسلام،طبع مصر ،شمارہ سوم،گیارہواںسال