سترہویں فصل
حضرت علی(ع)کی پیشوائی کے نقلی دلائل
گزشتہ بحثوں میں یہ ثابت ہو اکہ خد ا کی طرف سے امام کا تعین دنیاوی” مطلق العنان “ نظام سے بالکل مختلف ہے ، لوگوں میں قوانین الٰہی کی روشنی میں حکم کرنے اور انصاف قائم کرنے کےلئے جو حاکم خدا کی طرف سے معین ہوتا ہے ، اس کی حکومت روئے زمین پر قابل تصور حکومتوں میں سب سے زیادہ عادل اور مستحکم حکومت ہے ۔
اس قسم کی حکومت میں ، حاکم و فرماں روا خدا کی طرف سے منتخب ہوتا ہے ۔ خدا بھی اپنے حکیمانہ ارادہ سے ہمیشہ بھترین وشائستہ ترین فرد کو رہبر کے عنوان سے منتخب کرتا ہے اور خدا کے علم و تشخیص میں کسی بھی قسم کی غلطی و خطا یا غیر منطقی میلان کا امکان نہیں پایا جاتا ۔
خدائے تعالیٰ انسان کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتا ہے اور اپنے بندوں کے بارے میں ان کی مصلحتوں اور ضرورتوں سے ان سے زیادہ واقف ہے ۔ جس طرح خدا کے قوانین اور احکام بھترین اور عالی ترین قوانین و احکام ہیں اور کوئی بھی قانون خدا کے قانون کے برابر نہیں ہے ، اسی طرح خدا کی طرف سے معین شدہ پیشوا اور رہبر بھی بھترین پیشوا اور شائستہ ترین و رہبر ہوگا ایک ایسا قائد و فرمان روا جس کی زندگی دسیوں سھو و خطا اور نفسانی خواہشات سے آلودہ ہو وہ خدا کی طرف سے منتخب شدہ رہبر وقائد کا ہم پلہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔
گزشتہ بحثوں میں یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلامی معاشرہ ہمیشہ ایک ایسے معصوم امام کا محتاج ہے جو الٰہی قوانین اور احکام سے آگاہ ہوتا ہے،کہ امت کےلئے فکری اور علمی پناہ گاہ بن سکے ۔
اصولی طور پر اسلامی معاشرہ فکری اور علمی لحاظ سے ارتقا ء کی اس حد تک نہیں پھنچا تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اپنا نظم و نسق خود سنبھال سکے اور اس قسم کے ایک الٰہی رہبر سے بے نیا ہوجائے۔
اب ہم غور کریں اور دیکھیں کہ ان تمام حالات کے تناظر میں پیغمبر الٰہی نے اسلامی امت کی قیادت کےلئے کس کو معین فرمایا تھا اور اس مسئلہ کو ہمیشہ کےلئے حل کردیا تھا ۔
یہاں پر ہم ایسے نقلی دلائل کا سھارا لیتے ہیں وہ دلائل جو قطعی طور سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صادر ہوئے اور اصطلاحاً متواتر ہیں اور ان میں جھوٹ اور جعل سازی کا ہرگز امکان نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ایسی روایتوں کا مفاد یہ ہے کہ ان ، کی دلالت کسی خاص فرد یا افراد کی امامت و پیشوائی کے بارے میں اتنی واضح اور روشن ہو کہ ہر قسم، کے شک و شبھہ کو دلوں سے نکال دے اور کسی بھی انصاف پسند انسان کےلئے سوال اور تذبذب کی گنجائش باقی نہ رہے۔
لھذا ہم یہاں پر چند ایسے نقلی دلائل کی طرف اشارہ کریں گے جن کی روایت پیغمبرا کرم سے قطعی اور مقصود کے بارے میں ان کی دلالت بھی واضح ہے۔ کتاب کے صفحات اور قارئین کرام کے وقت کی کمی کے پیش نظر ہم یہاں لوگوں پر امیر المؤمنین(ع)کی پیشوائی و ولایت کے سلسلے میں نقل ہوئے دلائل کی ایک بڑی تعداد میں سے حسب ذیل کا انتخاب کرتے ہیں :
۱۔ حدیث منزلت
شام کی طرف سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلہ نے حجاز میں داخل ہونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررہی ہے کسی حادثہ کے بارے میں حفظ ، ماتقدم اس کے مقابلے سے بہتر ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں فوجی آمادگی کا اعلان ہوا ۔ مدینہ منورہ میں سخت گرمی کا عالم تھا ، پھل پکنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا، اس کے باوجود تیس ھزار شمشیر زن اسلام کی چھاؤنی میں جمع ہوگئے اور اس عظیم جھاد میں شرکت پر آمادگی کا اعلان کیا۔
چند مخبروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ مدینہ کے منافق منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ آپ کی عدم موجودگی میں مدینہ میں بغاوت کرکے خون کی ہولی کھیلیں گے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہر قسم کے حادثہ کی روک تھام کے لئے حضرت علی(ع)کو اپنا جانشین مقرر فرما کر انہیں حکم دیا کہ آپ مدینہ میں ہی رہیں اور میری واپسی تک حالات پر نظر رکھیں اور لوگوں کے دینی و دنیاوی مسائل کو حل کریں۔
جب منافقین حضرت علی علیہ السلام کے مدینہ میں رہنے کی خبر سے آگاہ ہوئے ، تو انہیں اپنی سازشیں ناکام ہوتی نظر آئیں ۔ وہ کسی اور تدبیر میں لگ گئے وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے حضرت علی علیہ السلام مدینہ سے باہر چلے جائیں ۔ لھذا انھوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ حضرت علی(ع)اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان رنجش پیدا ہوگئی ہے اسی لئے پیغمبر نے علی(ع)کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے کہ انہیں اس اسلامی جھاد میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی!
مدینہ میں حضرت علی(ع)کے بارے میں __جو روز پیدائش سے ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مھر و محبت کے سائے میں پلے بڑھے__اس قسم کی افواہ کا پھیلنا ، حضرت علی(ع)اور آپ(ع)کے دوستوں کےلئے شدید تکلیف کا سبب بنا ۔ لھذا حضرت علی(ع)اس افواہ کی تردید کےلئے مدینہ سے باہر نکلے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پھنچے ،جو ابھی مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر تھے آپ (ع)نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ سے آگاہ فرمایا۔ یہاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے تئیں اپنے بے پایاں جذبات اور محبت کا اظھار کرتے ہوئے آپ کے مقام و منزلت کو درج ذیل تاریخی جملہ میں بیان فرمایا:
” اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسیٰ ، الّا انه لا نبیّ بعدی، انّه لا ینبغی ان اذهب الّا و انت خلیفتی “
” یعنی کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تمھیں مجھ سے وھی نسبت ہے جیسی ھارون(ع)کو موسی(ع)سے تھی ، بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا؟ میرے اس دنیا سے جانے کے بعد تم ہی میرے جانشین اور خلیفہ ہوگے “
یہ حدیث جو اسلامی محدثین کی اصطلاح میں حدیث ”منزلت“ کے نام سے مشھور ہے متواتر اور قطعی احادیث میں سے ہے۔
مرحوم محدث بحرانی نے کتاب ” غایة المرام“ میں ان افراد کا نام ذکر کیا ہے ، جنھوں نے اس حدث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ایک دقیق و صحیح تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ اسلامی محدثین نے اس حدیث کو ۱۵۰ طریقوں سے نقل کیا ہے جن میں ۱۰۰ طریقے اہل سنت علماء و محدثین تک منتھی ہوتے ہیں
مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی کتاب ” المراجعات “ میں اس حدیث کے اسناد کو اہل سنت محدثین کی کتابوں سے نقل کیا ہے اور ثابت کیاہے کہ یہ حدیث ان کی دس حدیث اور رجال کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے “
اس حدیث کے صحیح ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اہل سنّت کے صحا ح لکھنے والوں ”بخاری“ اور ” مسلم “ نے بھی اسے اپنی صحاح میں ذکر کیا ہے
اس حدیث کے محکم ہونے کے بارے میں یھی کافی ہے کہ امیر المؤمنین کے دشمن ” سعد و وقاص “ نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کی تین نمایاں فضیلتوں میں سے ایک فضیلت شمار کیا ہے ۔
جب معاویہ اپنے بیٹے ” یزید“ کے حق میں بیعت لینے کےلئے مکہ میں داخل ہوا ، اور ” الندوة“ کے مقام پر ایک انجمن تشکیل دی جس میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے بعض شخصیتیں جمع ہوئیں۔ معاویہ نے اپنی تقریر کا آغاز ہی حضرت علی(ع)کو بر ابھلا کھنے سے کیا، اسے امید تھی ، کہ ” سعد و وقاص“ بھی اس کی ھاں میں ھاں ملائے گا ۔ لیکن سعد نے معاویہ کی طرف رخ کرکے کھا: جب بھی مجھے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے تین درخشان کارنامے یاد آتے ہیں تو صدق دل سے کھتا ہوں کہ کاش ! ان تین فضیلتوں کا مالک میں ہوتا! اور یہ تین فضیلتیں حسب ذیل ہیں :
۱۔ جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے کھا:
” تمھیں مجھ سے وہ نسبت ہے جو ھاون کو موسیٰ(ع)سے تھی ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا“
۲۔ (پیغمبر اکرم نے ) جنگ خیبر کے دوران ایک دن فرمایا:
” کل میں علم ایسے شخص کے ھاتہ میں دوںگا جسے خدا و رسول دوست رکھتے ہیں اور وہ فاتح خیبر ہے ۔ فرار کرنے والا نہیں ہے“ (اس کے بعد آنحضرت نے علم علی(ع)کے ھاتہ میں دیدیا )۔
۳۔ ” نجران“ کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے دن پیغمبر اکرم نے علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع)، و حسین(ع)کو اپنے گرد جمع کیا اور فرمایا:
”پروردگارا ! یہ میرے اہل بیت(ع)ھیں “
لھذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑہ کر اس حدیث کی دلالت ، مفھوم اور مقصد کے بارے میں قدرے غور کرنا چاہئے ۔
پہلے مرحلہ میں جملہ ” الاّ انہ لا نبی بعدی“ قابل غور ہے کہ اصطلاح میں اسے ” جملہ استثنائی “ کہا جاتا ہے ، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اورکھا جاتا ہے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ہم پلہ ہیں ، تو اہل زبان اس جملہ سے اس کے سوا کچھ اور نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شان و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ہیں ۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء ، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ دو افراد اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ہر لحاظ سے ایک دوسرے کے ہم رتبہ ہیں ۔
اس حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ذات سے حضرت علی علیہ السلام کی نسبت کو حضرت ھارون (ع)کو ، حضرت موسی(ع)سے نسبت کے مانند بیان فرمایا ہے، اور صرف ایک منصب کو استثناء قرار دیا ہے ، وہ یہ ہے کہ حضرت ھارون(ع)پیغمبر تھے لیکن پیغمبر اسلام چونکہ خاتم النبیین ہیں لھذا آپ (ع)کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا ۔ اور علی(ع)پیغمبری کے مقام پر فائز نہیں ہوں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق حضرت ھارون(ع)کے پاس وہ کون سے منصب تھے کہ حضرت علی(ع)(بجز نبوت کے کہ خود پیغمبر نے اس حدیث کے ضمن میں اسے استثناء قرار دیا ہے ) ان کے مالک تھے ۔
قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے خدائے تعالی سے حضرت ھارون کےلئے درج ذیل منصب چاہے تھے اور خد ا نے حضرت موسی(ع) کی درخواست منظور فرما کر وہ تمام منصب حضرت ھارون(ع)کو عطا فرمائے تھے:
۱۔ وزارت کا عھدہ : حضرت موسیٰ بن عمران(ع) نے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی کہ حضرت ھارون(ع)کو ان کا وزیر قراردے :
(
وَاجْعَلْ لِی وَزِیراً مِنْ اهْلِی ، هَا-ٰرُون اخِی
)
” پروردگارا! میرے اہل بیت میں سے میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر قرار دیدے “
۲۔ تقویت و تائید: حضرت موسیٰ (ع)نے خدا سے درخواست کی کہ ان کے بھائی حضرت ھارون(ع)کے ذریعہ ان کی تائید و تقویت فرمائے :
(
اُشْدُدْ بِه ازْرِی
)
اس سے میری پشت کو مضبوط کردے
۳۔ رسالت کا عھدہ : حضرت موسی (ع)بن عمران نے خدائے تعالی سے درخواست کی کہ حضرت ھارون(ع)کو امر رسالت میں ان کا شریک قرار دے :
(
وَ اَشْرِکه فِی امْرِی
)
اسے امر رسالت میں میرا شریک قرار دیدے ۔
قرآن مجید اشارہ فرماتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت موسی(ع) کی تمام درخواستوں کا مثبت جواب دیکر یہ تمام عھدے حضرت ھارون (ع)کو عطا کئے :
(
قَدْ اُوتِیتَ رسُوْلَکَ یَٰمُوسَیٰ
)
یعنی اے موسی (ع)! بیشک تمھارے تمام مطالبات تمھیں عطا کردیے گئے اس کے علاوہ حضرت موسیٰ (ع)نے اپنی غیبت کے دوران بنی اسرائیل میں حضرت ھارون(ع)کو اپنا جانشین مقرر کرتے ہوئے فرمایا:
(
وَ قَالَ مُوسیٰ لِاخِیه هَٰرُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی
)
یعنی ، موسی نے ھارون سے کھا: تم قوم میں میرے خلیفہ و جانشین ہو۔
مذکورہ آیات کا مطالعہ کرنے پر ھارون(ع)کے منصب اور عھدے بخوبی معلوم ہوتے ہیں اور حدیث منزلت کی رو سے مقام نبوت کے علاوہ یہ سب منصب اور عھدے حضرت علی علیہ السلام کےلئے ثابت ہونے چاہئیں۔
اس صورت میں حضرت علی(ع)، امام ، وزیر ،ناصر و مدد گاراور رسول خدا(ع)کے خلیفہ تھے اورپیغمبر کی عدم موجودگی میں لوگوں کی رہبری و قیادت کے عھدہ دار تھے۔
ایک سوال کا جواب :
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ حضرت علی علیہ السلام کےلئے پیغمبر اکرم کی جانشینی انہیں ایام سے مخصوص تھی جب آپ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت علی(ع)پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد آپ کے مطلق خلیفہ اور جانشین تھے۔
لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا ایک سرسری مطالعہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے۔
ایک : حضرت علی علیہ السلام پہلے اور آخری شخص نہیں تھے۔ جنہیں پیغمبر اکرم نے اپنی عدم موجودگی میں مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا ہو ۔ بلکہ پیغمبر اکرم مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران ، جب کبھی مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو کسی نہ کسی شخص کو اپنی جگہ پر جانشین مقرر کرکے ذمہ داریاں اسے سونپتے تھے اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جملہ کے ذریعہ امام(ع)کو ھارون سے تشبیہ دینے کا مقصد صرف آپ(ع)کے مدینہ میں عدم موجودگی کے دوران امام(ع)کی جانشینی تھا ، تو پیغمبر اسلام نے یہ جملہ اپنے دیگر جانشینوں کےلئے کیوں نہیں فرمایا ، جبکہ وہ لوگ بھی جب پیغمبر جھاد یا حج خانہ خدا کےلئے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے ، آپ کے جانشین ہوا کرتے تھے ؟پھر اس فرق کا سبب کیا تھا؟
دو: ایک مختصر مدت کےلئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کرنے کی صورت میں پیغمبر کو اس طرح تفصیلی جملہ بیان کرکے منصب رسالت کو اس سے مستثنیٰ قرار دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی!
اس کے علاوہ اس قسم کی جا نشینی کسی خاص فخر کا سبب نہ ہوتی اور اگر فرض کرلیں کہ یہ ایک اعزاز تھا تو اس صورت میں یہ چیز حضرت علی(ع)کے خاص فضائل میں شمار نہیں ہوتی کہ برسوں کے بعد سعد و قاص اس فضیلت کو سیکڑوں سرخ اونٹوں کے عوض خریدنے کی تمنا کرتا ! اور خو د حضرت علی(ع)کے انتھائی اہم فضائل (فاتح خیبر اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں نفس پیغمبر اور آپ کے اہل بیت(ع)
کے مقام تک پھنچنے کی آرزو کرتا !!
تین : اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف جنگ تبوک کےلئے جانے کے موقع پر اس تاریخی جملہ کو بیان فرمایا ہوتا تو کسی کے ذھن میں ایسا سوال پیدا ہونا بجا تھا ۔ لیکن پیغمبر اسلام نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ اہم جملہ دیگر مواقع پر بھی فرمایا ہے اورتاریخ اور حدیث کے صفحات میں یہ واقعات ثبت و ضبط ہوچکے ہیں ۔ ہم یہاں پر اس کے صرف دو نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں(
وَجَعَلْنَا مَعَه اَخَاه هَٰرُونَ وَزِیراً
)
ھم نے موسی کے بھائی ھارون کو ان کا ویزر قرار دیا“
۱۔ ایک دن حضرت ابو بکر ، عمر اور ابو عبیدة بن جراح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضرت علی علیہ السلام کے شانہ پر رکہ کر فرمایا:
” یا علی انت اول المؤمنین ایماناً و اوّلهم اسلاماً ، و انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ
“
” اے علی ! تم وہ پہلے شخص ہو جو مجھ پر ایمان لائے اور دین اسلام کو قبول کیا اور تم کو مجھ سے وھی نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی“
۲۔ ہجرت کے ابتدائی ایام میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار کو جمع کیا اور انہیں آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنایا صرف حضرت علی علیہ السلام کو کسی کا بھائی قرار نہ دیا۔ حضرت علی(ع)کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، آپ(ع)نے پیغمبر سے عرض کی: یا رسول اللہ ! کیا مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے کہ آپ نے ہر فرد کےلئے ایک بھائی معین فرمایا، اور میرے لئے کسی کا انتخاب نہیں کیا؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہاں پر صحابیوں کے مجمع میں اپنا وھی تاریخی جملہ دھرایا:
” وَ الَّذی بعثنی بالحق ما اخرتک الا لنفسی و انت منی بمنزلة هارون من موسی غیر انه لا نبیّ بعدی و انت اخی و وارثی
“
” قسم اس خدا کی جس نے مجھے حق پر مبعوث فرمایا ہے ، میں نے تمھیں صرف اپنا بھائی بنانے بنانے کیلئے یہ تاخیر کی ہے ، اور تم کو مجھ سے وھی نسبت ہے جو ھارون (ع)کو موسی(ع)سے تھی ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا ، تم میرے بھائی اور میرے وارث ہو“
حضرت علی(ع)ان تمام عھدوں اور منصبوں کے مالک تھے جو حضرت ھارون (ع)کو ملے تھے اس بات کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام خدا کے حکم سے مختلف طریقوں سے کوشش فرماتے تھے کہ لوگ اس سے آگاہ ہوجائیں کہ حضرت علی(ع)کی حیثیت آپ کی نسبت وھی ہے جو ھارون (ع)کی موسی (ع)کی بنسبت تھی اور نبوت کے علاوہ اس میں کسی اور قسم کی کمی نہیں ہے۔
لھذا جب حضرت زھرا علیھا السلام سے حضرت علی علیہ السلام کے دو بیٹے پیدا ہوئے ، تو پیغمبر نے علی(ع)کو حکم دیا کہ ان کے نام ” حسن (ع)و حسین (ع)
رکھیں جیسا کہ ھارون(ع)کے بیٹوں کے نام ” شبر وشبیر “ تھے کہ عربی زبان میں ان کا مطلب حسن و حسین ہوتا ہے ۔
ان دو جانشینوں (یعنی حضرت علی (ع)اور حضرت ھارون (ع)
کے بارے میں تحقیق و جستجو سے چند دیگر مشابھتوں کا سراغ بھی ملتا ہے ہم یہاں پر ان کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہیں ، مرحوم شرف الدین نے کتاب ” المراجعات “ میں اس سلسلے میں مفصل بحث کی ہے۔
____________________