امت کی رہبری

امت کی رہبری0%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

امت کی رہبری

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17191
ڈاؤنلوڈ: 3716

تبصرے:

امت کی رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17191 / ڈاؤنلوڈ: 3716
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

تیئیسویں فصل

ایک شخص کا معصوم ہونا کیسے ممکن ہے

کیا انسانی معاشرہ کی قیادت و رہبری سے بڑھکر کوئی منصب تصور کیا جا سکتا ہے؟کیا کوئی شخص روحی و جسمی امتیازات کے بغیر زندگی کے کسی ایک پہلو میں بھی معاشرہ کی قیادت کا بوجہ سنبھال سکتا ہے ؟ چہ جائیکہ زندگی کے تمام مادی ومعنوی پہلو ؤں میں !! جو صرف الٰہی رہبروں یعنی انبیاء وغیرہ سے مخصوص ہے؟

سیاسی لیڈران جو ملک و مملکت کے صرف سیاسی مسائل میں قیادت کرتے ہیں یا اقتصادی مسائل کے ماہرین جو ملک کی اقتصادکی باگڈور ھاتہ میں رکھتے ہیں ان میدانوں سے متعلق خاص شرائط و صفات کے بغیر -----جو انہیں دوسروںسے ممتاز و بر تر ثابت کرتے ہیں -----ملک کے اس اعلیٰ سیاسی یا اقتصادی منصب کو حاصل ہی نہیں کر سکتے ۔

اگر ایسا ہی ہے تو یہ بات بدرجہ اولی تسلیم کرنی چاہئے کہ انبیائے الٰہی اور ان کے حقیقی جانشینوں ----- جو انسانی معاشرہ کے تمام میدانوں میں رہبر ہیں -----میں بھی وہ عالی اور با عظمت صفات و کمالات ہونے چاہئےںجو ان کی رہبری کی حیثیت کو ثابت کریں ۔ کیوں کہ در حقیقت ان صفات اور امتیازات کی بنا پر ہی ان افراد کو یہ عظیم منصب عطا کیا گیا ہے۔

آپ ان عظیم افراد کے امتیازات کو حسب ذیل دو عنوانوں میں خلاصہ کر سکتے ہیں:

۱)۔ گناہ اور خدا کی نا فرمانی سے محفوظ رہنا۔

۲)۔ خدا سے احکام حاصل کرنے اور لوگوں کو ان احکام کی تبلیغ کرنے میں خطا و غلطی سے محفوظ رہنا ۔ اس سے پہلے کہ الٰہی رہبروں کے لئے عصمت کے لازم ہونے کے دلائل بیان کئے جائیں ،بھتر ہے کہ خود عصمت کے بارے میں اجمال کے ساتھ یہ گفتگو کی جائے کہ کس طرح ایک شخص گناہ سے محفوط رہتا ہے۔

عصمت کیا ہے؟

عصمت ایک نفسانی صفت اور ایک باطنی طاقت ہے جو اپنے حامل کو گناہ ہی سے نہیں بلکہ گناہ انجام دینے کی فکر یا خیال سے بھی دور رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کا باطنی خوف ہے جو انسان کو گناہ سے حتٰی گناہ کے ارادہ سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص تمام گناہوں سے محفوظ رہے اور وہ نہ صرف گناہ نہ کرے بلکہ گناہ اور نافرمانی کے ارادہ سے بھی دور رہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ گناہ کی برائیوں کے علم کا لازمہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے ۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گناہ کی برائیوں کے سلسلہ میں ہر درجہ کا علم انسان کو گناہ سے محفوظ و معصوم بنا دیتا ہے ،بلکہ علم کی حقیقت نمائی اس قدر قوی ہو جو گناہ کے برے آثار کوانسان کی نگاہ میں اس قدر مجسم کر دے کہ انسان ان برے کاموں کے انجام کو اپنی آنکھوں میں مجسم ہوتے ہوئے دیکھے ۔ اس صورت میں گناہ اس کے لئے ”محال عادی “ ہو جائے گا ۔ ذھن کو اور قریب کرنے کے لئے حسب ذیل مطلب پر توجہ دیں۔

ھم میں سے ہر ایک شخص بعض ایسے اعمال سے جن سے ہماری جان جانے کا خطرہ ہوتاہے ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ہیں ۔اس طرح کا تحفظ اس علم کی پیدا وار ہے جوان اعمال کے نتائج کے طور پر ہمیں حاصل ہے مثال کے طور پر ایک دوسرے کے دشمن دو ملک جن کی سرحدیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور ہر طرف کے فوجی تھوڑے فاصلہ سے بلند برجوں پر قوی دوربینوں،تیز لائٹوں اور سدھے ہوئے کتوں کے ذریعہ سرحد کی نگرانی کررہے ہیں اور خاص طور سے کسی کے سرحد پار کرنے پر گھری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی سرحد سے ایک قسم بھی آگے بڑھا گولوں سے بھون دیا جائے گا ایسی صورت میں کوئی عقل مند انسان سرحد پار کرنے کا خیال بھی اپنے ذھن میں نہیں لاسکتا چہ جائےکہ عملا بہ اقدام کرے ۔ایسا انسان اس عمل کے سلسلہ میں ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ہے۔

زیادہ دور نہ جائےں ،ھرعاقل انسان جسے اپنی زندگی سے پیار ہے ،قاتل زھر کے مقابل جس کا کھانا اس کے لئے جان لیوا ہوگایابجلی کے ننگے تار کے مقابل جس کا لمس کرنا اسے جلاکر سیاہ کردے گایا اس بیمار کی بچی ہوئی غذا کے مقابل-- جسے ”جذام“یا”برص“کی شدید بیماری ہوئی ہو-- جس کے کھانے سے اس کے اندر یہ مرض سرایت کرجائے گا،ایک طرح کا تحفظ اور عصمت رکھتاہے۔یعنی وہ ہرگز اور کسی بھی قیمت پر یہ اعمال انجام نہیں دیتا اور اس سے ان اعمال کا ہونا ایک”محال عادی“ھے۔ اس کااس طرح سے محفوظ ومعصوم رہنے کا سبب بھی ان اعمال کے برے نتائج کا اس کی نظر میں مجسم ہونا ہے۔عمل کے خطرناک آچار اس کی نظر میں اس قدر مجسم اور اس کے دل کی نگاہ میں اتنے نمایاں ہوجاتے ہیں کہ ان کی روشنی میں کوئی بھی انسان اپنے ذھن میں ان کاموں کے انجام دینے کا خیال تک نہیں لاتا،چہ جائے کہ وہ یہ عمل انجام دے ڈالے۔

ھم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص یتیم وبےنوا کا مال ھضم کرجانے میں کوئی باک نہیں رکھتا جبکہ اس کے مقابل دوسرا شخص ایک پیسے حرام کھانے سے بھی پرہیز کرتا ہے ۔پہلا شخص پوری بے باکی کے ساتھ ےتیموں کا مال کیوں کہا جاتاہے لیکن دوسرا شخص حرا م کے ایک پیسہ سے بھی کیوں پرہیز کرتاہے؟

اس کاسبب یہ ہے کہ پہلا شخص سرے سے اس قسم کی نافرمانی کے برے انجام کا اعتقادھی نہیں رکھتا اور اگر قیامت کا تھوڑا بھیت ایمان رکھتا بھی ہے جب بھی تیزی سے تمام ہوجانے والی مادی لذتیں اس کے دل کی آنکھوں پر اس کے برے انجام کی طرف سے ایسا پردہ ڈال دیتی ہےں کہ ان کے برے آثار کا ایک ھلکا ساسایہ اس کی عقل کی نگاہوں کے سامنے سے گذر کر رہ جاتاہے اور اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ لیکن دوسراشخص اس گناہ کے برے انجام پر اتنا یقین رکھتا ہے کہ مال یتیم کا ہر ٹکڑا اس کی نظر میں جھنم کی آگ کے ٹکڑے کے برابر ہوتا ہے اور کوئی عقلمند انسان آگ کھانے کا اقدام نہیں کرتا ،کیونکہ وہ علم وبصیرت کی نگاہ سے دیکہ لیتا ہے کہ یہ مال کس طرح جھنم کی آگ میں بدل جاتاہے ۔لھٰذا وہ اس عمل کے مقابل محفوظ ومعصوم رہتاہے۔

اگر پہلے شخص کو بھی ایسا ہی علم اور ایسی ہی آگاہی حاصل ہوجائے تو وہ بھی دوسرے شخص کی طرح یتیم کا مال ظالمانہ طریقہ سے ھڑپ نہ کرے گا۔جو لوگ سونے اور چاندی کادھیر اکٹھا کرلیتے ہیں اور خدا کی طرف سے واجب حقوق کو ادا نہیں کرتے قرآن مجید ان کے سلسلہ میں فرماتا ہے :یھی سونا چاندی قیامت کے دن آگ میں بدل جائے گا اور اس سے ان کی پیشانی پہلو وں اور پشت کو داغا جائے گا۔(۱۷۷)

اب اگر ایسا خزانہ رکھنے والے اس منظر کو خود اپنی آنکھوں سے دیکہ لیں اوریہ دیکہ لیں کہ ان جیسے افراد کاکیا انجام ہوا،اس کے بعد انہیں تنبیہ کی جائے کہ اگر تم بھی اپنی دولت کو جمع کرکے رکھوگے اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کروگے تو تمھارا بھی یھی انجام ہوگا تو وہ بھی فوراً اپنی چھپائی ہوئی دولت کو نکال کر خدا کی راہ میں خرچ کر ڈالیں گے۔

اکثر بعض افراد اسی دنیا میں الٰہی سزا وعذاب کے اس منظر کو دیکھے بغیر اس آیت کے مفھوم پر اس قدر ایمان رکھتے ہیں جو دیکھی ہوئی چیز پر ایمان سے کم نہیں ہوتا ۔یہاں تک کہ اگر دنیا وی و مادی پردے ان کی نگاہوں سے ھٹا دیئے جائیں جب بھی ان کے ایمان میں کوئی فرق نہیں آتا ۔ایسی صورت میں یہ شخص اس (خزانہ جمع کرنے کے ) گناہ سے محفوظ رہتا ہے ،یعنی ہر گز سونا چاندی اکٹھا نہیں کرتا ۔

اب اگر ایک شخص یا ایک گروہ کائنات کے حقائق کے سلسلہ میں کامل اور حقیقی آگاہی و معرفت رکھنے کی وجہ سے تمام گناہوں کے انجام کے سلسلہ میں ایسی ہی حالت رکھتا ہو اور گناہوں کی سزا ان پر اس قدر نمایاں اور واضح ہو کہ مادی حجاب نگاہوں سے اٹھنے یا زمان و مکان کے فاصلوں کے باوجود ان کے ایمان و اعتقاد میں کوئی فرق نہیں آتا تو اس صورت میں یہ شخص یا وہ گروہ ان تمام گناہوں کے مقابل سو فی صدی تحفظ اور عصمت رکھتا ہے ۔نتیجہ میں ان سے نہ صرف گناہ سرزد نہیں ہوتے بلکہ انہیں گناہ کا خیال بھی نہیں آتا۔

لھٰذا یہ کھنا چاہئے کہ عصمت کسی ایک چیز یا تمام چیزوں میں اعمال کے انجام و نتائج کے قطعی علم اور شدید ایمان کے اثر سے پیدا ہوتی ہے ْاور ہر انسان بعض امور کے سلسلہ میں ایک طرح کی عصمت رکھتا ہے مگر انبیائے الٰہی اعمال کے انجام سے مکمل آگاہی اور خدا کی عظمت کی کامل معرفت کی وجہ سے تمام گناہوں کے مقابل مکمل عصمت رکھتے ہیں اور اسی علم و یقین کی بنا پر گناہ کے تمام اسباب، خواہشوں اور شھوتوں پر قابو رکھتے ہیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کے معین کردہ حدود سے سرکشی نہیں کرتے ۔

آخر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضرور ی ہے کہ یہ صحیح ہے کہ انبیائے کرام گناہ اور ہر طرح کی نافرمانی سے محفوظ ہیں ، لیکن اس تحفظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ گناہ کے کام انجام دینے کی توانائی نہیں رکھتے اور خدا کا حکم بجا لانے پر مجبور ہیں ۔ بلکہ یہ حضرات بھی تمام انسانوں کی طرح عمل کی آزادی اور اختیار رکھتے ہیں اور اطاعت یا نافرمانی دونوں پر انہیں قدرت حاصل ہے لیکن یہ لوگ اپنی باطنی آنکھوں سے -- جو کائنات کے حقائق سے متعلق ان کے وسیع علم کی وجہ سے انہیں حاصل ہوئی ہیں -- اعمال کے نتائج و انجام کا مشاہدہ کرلیتے ہیں اور ان نتائج سے جنہیں شریعت کی زبان میں عذاب کہا جاتا ہے ،واقف و آگاہ رہتے ہیں، لھٰذا ہر طرح کے گناہ اور نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں ۔اسے سمجھنے کے لئے حسب ذیل عبارت پر غور کیجئے :

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خدا وند عالم ہر طرح کے برے اور قبیح کا م انجام دینے پر قادر ہے لیکن اس سے کبھی اس طرح کام صادر نہیں ہوتا جو اس کے عدل اور اس کی حکمت کے خلاف ہو اس کے باوجود ہم یہ نہیں کھہ سکتے کہ وہ ان کاموں کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا ۔ بلکہ وہ ہر شئے پر قادر ہے ۔ معصوم افراد بھی گناہ کے سلسلہ میں یھی کیفیت رکھتے ہیں وہ لوگ بھی گناہ کرنے کی قدرت و توانائی رکھنے کے باوجود معصیت و گناہ کی طرف نہیں جاتے۔

____________________

۱۷۷۔ ”یوم یحمیٰ علیها فی نار جهنم فتکویٰ بها جباههم و ظهورهم هذا ما کنزتم لا نفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون “ سورہ توبہ /۳۵

چوبیسویں فصل

رہبران الٰہی کے لئے عصمت کی دلیلیں

علمائے عقائد نے الٰہی رہبروں خصوصاً انبیاء کرام کی عصمت کے بارے میں متعدد دلائل بیان کئے ہیں ہم یہاں ان میں سے دو دلیلیں بیان کرتے ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ ان علماء نے یہ دلیلیں انبیاء کی عصمت کے لئے بیان کی ہیں لیکن یھی دلیلیں جس طرح انبیاء کی عصمت کو ثابت کرتی ہیں اسی طرح اماموں کی عصمت کو بھی ثابت کرتی ہےں ۔کیونکہ امامت شیعی نقطہ نظر سے رسالت اور نبوت کاہی تسلسل ہے ۔فرق یہ ہے کہ انبیاء منصب نبوت رکھتے ہیں اور ان کا رابطہ وحی الٰہی سے ہے اور امام کے یہاں یہ دوصفتیں نہیں ہےں ۔لیکن اگر ان دو خصوصیتوں سے صرف نظر کریں تو انبیاء اور اماموں کے در میان کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔

اب یہ دونوں دلیلیں ملاحظہ ہوں :

۱۔تربیت عمل کے سایہ میں :

اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کامقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راہنمائی ہے اور تربیت کے موثر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ مربی میں ایسے صفات پائے جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ہوجائےں ۔مثال کی طور پر اگر کوئی مربی خوش گفتار ،فصیح اور نپی تلی بات کرنے والا ہو لیکن بعض ایسے نفرت انگیز صفات اس میں پائے جائیں جس کے سبب لوگ اس سے دور ہوجائےں تو ایسی صورت میں انبیاء کی بعثت کامقصد ہی پورا نہیں ہوگا۔

ایک مربی ورہبر سے لوگوں کی دوری اور نفرت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد اور دورنگی پائی جاتی ہو۔اس صورت میں نہ صرف اس کی راہنمائیاں بے قدر اور بیکار ہوجائےں گی بلکہ اس کی نبوت کی اساس وبنیاد ہی متزلزل ہوجائے گی ۔

شیعوں کے مشھور اور بزرگ عالم سید مرتضی علم الھدیٰ نے اس دلیل کو یوں بیان کیا ہے:اگر ہم کسی کے فعل کے بارہ میں اطمینان نہیں رکھتے یعنی اگر ہمیں یہ شبہ ہے کہ وہ کوئی گناہ انجام دیتاہے تو ہم اطمینان قلب کے ساتھ اس کی بات پر دھیان نہیں دیتے ۔اور ایسے شخص کی باتےں ہم پر اثر نہیں کرسکتیں جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ خود اپنی بات پر عمل نہیں کرتا ۔جس طرح مربی یارہبرکا گناہ کرنالوگوںکی نظر میں اسے کم عقل ،بے حیا اور لاابالی ثابت کرتاہے اور لوگوں کو اس سے دور کردیتاہے اسی طرح مربی یا رہبر کے قول وفعل کی دو رنگی بھی لوگوں پر اس کے خلاف منفی اثر ڈالتی ہے ۔

اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کتاب لکھے یاکوئی متاثر کرنے والی فلم دکھائے لیکن خود لوگوں کے مجمع میں اس قدر شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے ۔ایسی صورت میں شراب کے خلاف اس کی تمام تحریریں ،تقریریں اور زحمتیں خاک میں مل جائیں گی۔

فرض کیجئے کہ کسی گروہ کارہبر کرسی پر بیٹہ کر عدل وانصاف اور مساوات کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے زبردست تقریرکرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا مال ھڑپ کرتارہے تو اس کاعمل اس کی کھی ہوئی باتوں کو بے اثر بنادے گا۔

خداوند عالم اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم وایمان اور صبر وحوصلہ عطا کرتاہے تاکہ وہ تمام گناہوں سے خود کو محفوظ رکھیں ۔

اس بیان کی روشنی میں انبیائے الٰہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پہلے اپنی پوری زندگی میں گناہوں اور غلطیوں سے دور رہیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول وفعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے درخشاں رہنا چاہئے ۔کیونکہ اگر کسی شخص نے اپنی عمر کاتھوڑا سا حصہ بھی لوگوں کے درمیان گناہ اور معصیت کے ساتھ گزارا ہو اور اس کی زندگی کانامہ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھرا ہو تو ایسا شخص بعد میں لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتا اور لوگوں کو اپنے اقوال وکردار سے متاثر نہیں کرسکتا۔

خداوند عالم کی حکمت کاتقاضا ہے کہ وہ اپنے نبی ورسول میں ایسے اسباب وصفات پیدا کرے کہ وہ ہر دل عزیز بن جائےں۔اور ایسے اسباب سے انہیں دور رکھے جن سے لوگوںکے نبی یارسول سے دور ہونے کا خدشہ ہو ۔ظاہر ہے کہ انسان کے گزشتہ برے اعمال اور اس کاتاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ہر دلعزیزی کو انتھائی کم کردے گا اور لوگ یہ کھیں گے کہ کل تک تو وہ خود بد عمل تھا، آج ہمیں ہدایت کرنے چلاہے؟!

۲۔اعتماد جذب کرنا:

تعلیم وتربیت کے شرائط میں سے ایک شرط ،جو انبیاء یاالٰہی رہبروں کے اہم مقاصد میں سے ہے ،یہ ہے کہ انسان اپنے مربی کی بات کی سچائی پر ایمان رکھتاہوکیونکہ کسی چیز کی طرف ایک انسان کی کشش اسی قدر ہوتی ہے جس قدر وہ اس چیز پر اعتماد وایمان رکھتاہے۔ایک اقتصادی یا صحی پروگرام کا پر جوش استقبال عوام اسی وقت کرتے ہیں جب کوئی اعلیٰ علمی کمیٹی اس کی تائید کردیتی ہے ۔کیونکہ بھت سے ماہروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کاامکان بھت کم پایا جاتا ہے ۔ اب اگر مذہبی پیشواوں کے بارے میں یہ امکان ہو کہ وہ گناہ کرتے ہوں گے تو قطعی طور سے جھوٹ یا حقائق کی تحریف کا امکان بھی پایا جاتا ہوگا ۔اس امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ہماراا طمینان اٹہ جائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی تربیت اور ہدایت ہے ھاتہ نہ آئے گا۔

ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اعتماد واطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ دینی پیشوا جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ جائےں تا کہ انہیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو ۔بقیہ سارے گناہوں سے ان کا پرہیز کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ دوسرے گناہوں کے کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ اعتماد واطمینان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

جواب یہ ہے کہ اس بات کی حقیقت ظاہر ہے ،کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ ہو لیکن دوسرے گناہوں مثلاً آدم کشی ،خیانت اور بے عفتی وبے حیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی باک نہ ہو؟اصولاً جو شخص دنیا کی لمحاتی لذتوں کے حصول کے لئے ہر طرح کے گناہ انجام دینے پر آمادہ ہو وہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ کیسے نہیں بول سکتا۔؟!(۱۷۸)

اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک باطنی قوت یعنی خوف خدا اور نفس پر قابو پاناہے ۔جس کے ذریعہ انسان گناہوں سے دور رہتا ہے ۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جھوٹ کے سلسلہ میں تو یہ قوت کام کرے لیکن دوسرے گناہوں کے سلسلہ میں جو عموماً بھت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ہوں ،یہ قوت کام نہ کرے ؟!

اور اگر ہم اس جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کربھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عملاً عوام اسے قبول نہیں کرےں گے۔کیونکہ لوگ اس طرح کی جدائی کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے۔

اس کے علاوہ گناہ جس طرح گناہ گار کو لوگوں کی نظر میں قابل نفرت بنادیتے ہیں اسی طرح لوگ اس کی باتوں پر بھی اعتماد واطمینان نہیں رکھتے اور”انظر الیٰ ما قال ولاتنظر من الیٰ قال “یعنی یہ دکھو کیا کھہ رہاہے یہ نہ دیکھو کون کھہ رہاہے کا فلسفہ فقط ان لوگوں کے لئے موثر ہے جو شخصیت اور اس کی بات کے در میان فرق کرنا چاہتے ہیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو بات کی قدرقیمت کو کھنے والے کی شخصیت اور اس کی طھارت وتقدس کے آئینہ میں دیکھتے ہیں یہ فلسفہ کارگر نہیں ہوتا۔

یہ بیان جس طرح رہبری وقیادت کے منصب پر آنے کے بعد صاحب منصب کے لئے عصمت کو ضروری جانتاہے،اسی طرح صاحب منصب ہونے سے پہلے اس کے لئے عصمت کو لازم وضروری سمجھتاہے ۔کیونکہ جو شخص ایک عرصہ تک گناہ گارو لاابالی رہاہواور اس نے ایک عمر جرائم وخیانت اور فحشا وفساد میں گزاری ہو، چاہے وہ بعد میں توبہ بھی کرلے ،اس کی روح میں روحی ومعنوی انقلاب بھی پیدا ہوجائے اور وہ متقی وپرہیزگاراور نیک انسان بھی ہوجائے لیکن چونکہ لوگوں کے ذھنوں میں اس کے برے اعمال کی یادیں محفوظ ہیں لھٰذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بد بینی کی نگاہ سے دیکھیںگے اور بسا اوقات یہ تصور بھی کرسکتے ہیں کہ یہ سب اس کی ریاکاریاں ہیں وہ اس راہ سے لوگوں کو فریب دینا اور شکار کرنا چاہتاہے۔اور یہ ذھنی کیفیت خاص طورسے تعبدی مسائل میں جھاں عقلی استدلال اور تجزیہ کی گنجائش نہیں ہوتی ،زیادہ شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔

مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدلال و تجربہ پر نہیں ہوتی کہ الٰہی رہبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی بات استدلال کے ذریعہ ثابت کرے ،بلکہ شریعت کی بنیاد وحی الٰہی اور ایسی تعلیمات پر ہے کہ انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ہوتا ہے اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ لوگ الٰہی رہبر کے اوپر سو فی صد ی اعتماد کرتے ہوں کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں اسے وحی الٰہی اور عین حقیقت تصور کریں ، اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ایسے رہبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ہر گز پیدا نہیں ہو سکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتھا تک روشن و درخشاں اور پاک و پاکیزہ نہ ہو۔(۱۷۹)

یہ دو دلیلیں نہ صرف انبیائے کرام کے لئے عصمت کی ضرورت کو ثابت کرتی ہیں ،بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ انبیاء کے جانشینوں کو بھی انبیاء کی طرح معصوم ہونا چاہئے ، کیوں کہ امامت کا منصب اہل سنت کے نظر یہ کے برخلاف کوئی حکومتی اور معمولی منصب نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں امامت کا منصب ایک الٰہی منصب ہے اور امام پیغمبر کے ساتھ (نبوت اور وحی کے علاوہ ) تمام منصبوں میں شریک ہے ۔ امام ،دین کا محافظ و نگھبان اور قرآن کے مجمل مطالب کی تشریح کرنے والا ہے نیز ایسے بھت سے احکام کو بیان کرنے والا ہے جنہیں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیان کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے ۔

اس لئے امام مسلمانوں کا حاکم اور ان کی جان و مال و ناموس کا نگھبان بھی ہے اور شریعت کو بیان کرنے والا اور الٰہی معلم و مربی بھی ہے اور ایک مربی کو معصوم ہونا چاہئے ، کیوں کہ اگر اس سے کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گناہ سرزد ہوا تو اس کی تربیت بے اثر ہو جائے گی ۔ اور اس کی گفتار و کردار کی صحت و درستگی پر سے لوگوں کا اعتماد اٹہ جائے گا۔

____________________

۱۷۸۔اس کے علاوہ گناہ کرنے والے اگر جھوٹ نہ بولیں گے تو اس کالازمہ یہ ہوگا کہ وہ سچائی کے ساتھ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور جب لوگ ان کی برائیوں سے آگاہ ہوجائےں گے تو فطری طور سے ان کا وقار اور ان کی عزت خاک میں مل جائے گی اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں گے۔نتیجہ میں دوبارہ وھی مشکل پیش آئے گی کہ مربی اپنے عملی گناہ کے سبب لوگوں میں اپنی عزت گنوادے گا۔

۱۷۹۔ لوگوں کا اعتماد جزب کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنی زندگی کے تمام ادوار میں چاہے وہ رہبری سے پہلے کی زندگی ہو یا اس کے بعد والی زندگی ہر طرح کے گناہ لغزش اور الودگی سے پاک و پاکیزہ ہو ۔ کیوں کہ یہ بے دھڑک اور سو فی صدی اعتماد اسی وقت ممکن ہے جب اس شخص سے کبھی کوئی گناہ ہوتے ہوئے نہ دیکھا جائے ۔ جو لوگ اپنی زندگی کا کچھ حصہ گناہ اور آلودگی میں بسر کرتے ہیں ،اسکے بعد توبہ کرتے ہیں ،ممکن ہے کہ ایک حد تک لوگوں کا اعتماد جذب کرلیں لیکن سو فی صد ی اعتماد تو بھر حال جذب نہیں کر سکتے ۔

ساتھ ہی اس بات سے یہ نتیجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے کہ رہبروں کو عمدی گناہ کے ساتھ ساتھ سھو اور بھو ل سے کئے گئے گناہ سے بھی محفوظ ہونا چاہئے ،کیوں کہ عمدی گناہ اعتماد کو سلب کر لیتا ہے اور سھوی گناہ اگر چہ بعض موارد میں اعتماد سلب کرنے کاباعث نہیں ہوتا لیکن انسان کی شخصیت کو نا قابل تلافی نقصان پھنچاتا اور اس کی شخصیت کو بری طرح مجروح کر دیتا ہے اگر چہ سھوی گناہ کی سزا نہیں ہے اور انسان ،دین و عقل کی نگاہ سے معذور سمجھا جاتا ہے لیکن رائے عامہ پر اس کابرا اثر پڑتا ہے اور لوگ ایسے شخص سے دور ہو جاتے یا میں خاص طور سے اگر گناہ بھول سے کسی کو قتل کرنے کا یا اسی جیسا ہو ۔

پچیسویں فصل

جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا

. یہ طے ہے کہ اہم اور بڑی ذمہ داریوں کی انجام دھی کے لئے حالات و شرائط بھی سنگین ہوتے ہیں۔ذمہ داری جتنی بڑی اور جتنی سنگین ہوتی ہے ،شرائط بھی اسی لحاظ سے سنگین اور سخت ہوتے ہیں ۔ایک امام جماعت کے شرائط عدالت کے اس قاضی کے برابر نہیں ہیں جس کے اختیار میں لوگوں کی جان و مال ہوتے ہیں۔

نبوت اور امامت عظیم ترین منصب ہے جو خدا کی طرف سے انسانوں کو عطا ہوا ہے ، جو افراد اس منصب پر فائز ہوتے ہیں وہ خدا وند عالم کی طرف سے لوگوں کی جان و مال وناموس پر مکمل تسلط و اختیار رکھتے ہیں اور ان کاارادہ لوگوں کی زندگی کے تمام پہلو ؤں پر نافذ ہوتا ہے۔قرآن مجید پیغمبر اکرم کے بارے میں فرماتا ہے :” النبی اولیٰ بالمونین من انفسھم“(۱۸۰) یعنی پیغمبر باایمان لوگوں کی جانوں پر ان سے زیادہ حق رکھتا ہے۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حدیث غدیر کے خطبہ میں خود کو اور حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کی جانوں پر ان سے زیادہ اولیٰ اور صاحب اختیار بتایا ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ حکمت و تدبیر ولا خدا ایسے عظیم اور اہم منصب کی باگڈور ایک غیر معصوم شخص کے ھاتہ میں دےدے ”اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالتہ"

قرآن کی راہنمائی

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور صاحبان امر (اولی الامر)(۱۸۱) قرآن کے صاف حکم کے مطابق واجب الاطاعت ہیں اور جس طرح ہم خداکے فرمان کی اطاعت کرتے ہیں یوں ہی ان کے حکم کی اطاعت بھی ہم پر واجب ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ”( اطیعوا اللّٰه و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم ) یعنی خدا کی اطاعت کرو ،اس کے رسول کی اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔(۱۸۲)

یہ آیت باکل واضح طور سے صاحبان امر کی بلا قید و شرط اطاعت کا حکم دیتی ہے ۔ اگر یہ افراد سو فی صد ی گناہ و خطا سے محفوظ ہوں گے جب ہی خدا وند عالم کی طرف سے ان کی بلا قید و شرط اطاعت کا واجب کیا جانا صحیح ہوگا ۔ کیوں کہ اگر ہم ان کی عصمت کو تسلیم کرلیں تومعصوم کی بے قید و شرط اطاعت پر کوئی اعتراض نہ ہوگا ،لیکن اگر ہم یہ فرض کرلیں کھ(اولی الامر) یعنی صاحبان امر کا گروہ جن کی اطاعت ہم پر واجب کی گئی ہے ۔ معصوم نہ ہوں بلکہ گناہ گار و خطا کار افراد ہوں تو ایسی صورت میں خدا وند عالم یہ کیسے حکم دے گا کہ ہم ان لوگوں کی بلاقید و شرط پیروی کریں ؟!

لھٰذا اگرہم پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشینوں کے لئے عصمت کو شرط نہ جانیں اور فرض کریں کہ کسی جانشین نے کسی مظلوم کے قتل یا کسی بے گناہ کا مال و جائداد ضبط کئے جانے کا حکم دے دیا اور ہم جانتے ہوں کہ وہ شخص مظلوم یا بے گناہ تھا تو ایسی صورت میں ہمیں قرآن کے حکم کے مطابق اس جانشین کے فرمان پر موبموعمل کرنا ہوگا یعنی اس مظلوم کو قتل یا بے گناہ کا مال ضبط کرنا ہوگا۔

لیکن اگر ہم یہ کھیں کہ قرآن کریم نے ”اولی الامر “ کی پیروی کو خدا اور رسول کی اطاعت کے ساتھ قرار دیا ہے اور ان تینوں اطاعتوں کو بلا قید و شرط شمار کیا ہے تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ” اولی الامر “ رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ہی طرح گناہ و خطا سے معصوم ہیں ۔ لھٰذا اب ہم یہ کھیں گے کہ کبھی کوئی معصوم ” اولی الامر “ کسی مظلوم کے قتل یا کسی بے گناہ کا مال ضبط کرنے کا حکم نہیں دیتا۔

ایک سوال کا جواب:

ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اولی الامر کی اطاعت اسی صورت میں واجب ہے جب وہ شریعت اور خدا و رسول کے صاف حکم کے مطابق عمل کرے ۔ور نہ دوسری صورت میں نہ صرف ان کی اطاعت واجب نہیں ہے بلکہ ان کی مخالفت کرنی چاہئے۔

اس سوال کا جواب واضح ہے ۔کیوں کہ یہ بات اسی وقت عملی ہے جب اول یہ کہ تمام لوگ الٰہی احکام اور فروع دین سے مکمل آگاہی رکھتے ہوں اور حرام و حلال کی تشخیص دے سکتے ہوں ۔ دوسرے یہ کہ اس قدر جرات و شجاعت رکھتے ہوں کہ حاکم کے قھر و غضب سے خوف زدہ نہ ہوں جب ہی یہ ممکن ہے کہ وہ حاکم کا حکم شریعت سے مطابق ہونے کی صورت میں بجالائیں ورنہ دوسری صورت میں اس سے مقابلہ کے لئے اٹہ کھڑے ہوں ۔ لیکن افسوس کہ عام طور سے لوگ الٰہی احکام سے پوری آگاہی نہیں رکھتے کہ ”اولی الامر “ کے فرمان کو تشخیص دے سکیں بلکہ لوگوں کی اکثریت اس بات کی توقع رکھتی ہے کہ" اولی الامر“کے ذریعہ الٰہی احکام سے آگاہ ہوں اسی طرح جو طاقت سب پر مسلط ہے اس کی مخالفت بھی کوئی آسان بات نہیں ہے اور ہر ایک اس کے انجام کو برداشت نہیں کرسکتا ۔

اس کے علاوہ اگر قوم کو ایسے اختیارات حاصل ہو جائیں تو لوگوں کے دلوں میں سر کشی کا جذبہ پیدا ہو گا اور نظام درہم و برہم ہو جائے گا اور ہر شخص کسی نہ کسی بھانہ سے ” اولی الامر “ کی اطاعت سے انکار کرے گا اور قیادت کی مشینری میں خلل پیدا ہو جائے گا ،

یھی وجہ ہے کہ اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ ”اولی الامر “ کا منصب ان لوگوں کے لئے ہے جن کی اطاعت بلا قید و شرط واجب کی گئی ہے اور یہ افراد معصوم شخصیتوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہیں جن کا دامن ہر طرح کے گناہ ،خطا ، یا لغزش سے پاک ہے۔

قرآن کی دوسری راہنمائی

قرآن کریم میں ایک دوسری آیت جو امامت سے متعلق گفتگو کرتی ہے پوری بلاغت کے ساتھ ظلم وستم سے پرہیز کو امامت کے لئے شرط قرار دیتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( اذ ابتلیٰ ابراهیم ربه بکلمات فاتمهن قال انی جاعلک للناس اماماً قال و من ذریتی قال لا ینال عهد ی ) ( الظالمین“ )

” یعنی جب ابراہیم (ع) کو ان کے پروردگار نے بعض امور کے لئے آزمایا اور وہ تمام امتحانوں میں کامیاب ہوئے تو ان سے ارشاد ہوا کہ میں نے تم کو لوگوں کا پیشوا و امام قرار دیا ۔(جناب ابراہیم (ع)نے) عرض کیا: میری ذریت اور میری اولاد کو بھی یہ منصب نصیب ہوگا تو جواب ملا کہ میراعھد ستم گاروں تک نہیں پھنچے گا“(۱۸۳)

امامت ،نبوت کے مانند الٰہی منصب ہے جو صرف صالح اور شائستہ افراد کو ہی ملتاہے اس آیت میں جناب ابراہیم (ع)نے خدا سے یہ تقاضا کیا کہ میری اولاد کے حصہ میں بھی یہ منصب آئے لیکن فوراً خدا وند عالم کا خطاب ہوا کہ ظالم و ستمگر افراد تک یہ منصب نہیں پھنچے گا۔

مسلّم طور سے اس آیت میں ظالم سے مراد وہ افراد ہیں جو گناہوں سے آلودہ ہیں ، کیوں کہ ہر طرح کا گناہ اپنے آپ پر ایک ظلم اور خدا کی بارگاہ میں نافرمانی کی جسارت ہے ۔ اب یہ دیکھنا چاہئے کہ کون سے ظالم لوگ اس آیت کے حکم کے مطابق منصب قیادت و امامت سے محروم ہیں۔ اصولی طور سے جو شخصیتیں لوگوں کی پیشوائی اور حاکمیت کی باگڈور سنبھالتی ہیں وہ چار ہی طرح کی ہوتی ہیں :

۱۔یا وہ زندگی بھر ظالم رہے ہیں چاہے منصب حاصل کرنے سے پہلے یا اس کے بعد ۔

۲۔یاانھوں نے پوری عمر میں کبھی گناہ نہیں کیا۔

۳۔حاکم ہونے سے پہلے ظالم وستمگر تھے لیکن قیادت وپیشوائی حاصل کرنے کے بعد پاک صاف ہوگئے۔

۴۔ یہ تیسری قسم کے برعکس ہے یعنی حکومت ملتے ہی ظلم وستم شروع کردیا اس سے پہلے گناہ نہیں کرتے تھے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جناب ابراہیم (ع)نے ان چار گروہوں میں سے کس کے لئے اس منصب کی آرزو کی تھی؟یہ تو ہرگز سو چا نہیں جاسکتا کہ جناب ابراہیم (ع) نے پہلے اور جو تھے گروہ کے لئے اس عظیم منصب کی آرزو کی ہوگی ۔کیونکہ جو لوگ حاکمیت کے دوران ظالم وستمگر میں کسی بھی صاحب عقل اور صائب رائے رکھنے والے کی نظر میں اس منصب کے لائق نہیں ہوتے ہیں ،چہ جائیکہ ابراہیم (ع)خلیل کی نگاہ میں ۔ جنھوں نے خود کتنے سنگیں امتحانات دینے،ساری زندگی پاکیزگی کے ساتھ بسر کرنے اور گناہ وظلم سے مسلسل لڑنے کے بعد یہ عظیم منصب حاصل کیا ہے وہ ہرگز مذکورہ دوگروہوں کے لئے تمام انسانوں پر امامت کی آرزو نہیں کرسکتے ۔ظاہر ہے کہ جناب ابراہیم (ع)کا مقصود دوسری دو قسم کی شخصیتیں تھیں ۔اس صورت میں جملہ ”لاینال “کی شرط کے ذریعہ تیسرا گروہ بھی نکل جاتاہے اور منصب امامت کے لئے صرف وھی گروہ رہ جاتا ہے جس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہیں کیاہے۔

____________________

۱۸۰۔ احزاب /۳۲

۱۸۱۔ یہ وھی صاحبان امر ہیں جو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد مسلمانوں کے امور کے ذمہ دار ہیں ۔یا کم از کم مصداق ”اولی الامر“ھیں۔

۱۸۲۔ نساء /۵۹

۱۸۳۔ بقرہ /۱۲۴