چوبیسویں فصل
رہبران الٰہی کے لئے عصمت کی دلیلیں
علمائے عقائد نے الٰہی رہبروں خصوصاً انبیاء کرام کی عصمت کے بارے میں متعدد دلائل بیان کئے ہیں ہم یہاں ان میں سے دو دلیلیں بیان کرتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ان علماء نے یہ دلیلیں انبیاء کی عصمت کے لئے بیان کی ہیں لیکن یھی دلیلیں جس طرح انبیاء کی عصمت کو ثابت کرتی ہیں اسی طرح اماموں کی عصمت کو بھی ثابت کرتی ہےں ۔کیونکہ امامت شیعی نقطہ نظر سے رسالت اور نبوت کاہی تسلسل ہے ۔فرق یہ ہے کہ انبیاء منصب نبوت رکھتے ہیں اور ان کا رابطہ وحی الٰہی سے ہے اور امام کے یہاں یہ دوصفتیں نہیں ہےں ۔لیکن اگر ان دو خصوصیتوں سے صرف نظر کریں تو انبیاء اور اماموں کے در میان کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔
اب یہ دونوں دلیلیں ملاحظہ ہوں :
۱۔تربیت عمل کے سایہ میں :
اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کامقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راہنمائی ہے اور تربیت کے موثر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ مربی میں ایسے صفات پائے جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ہوجائےں ۔مثال کی طور پر اگر کوئی مربی خوش گفتار ،فصیح اور نپی تلی بات کرنے والا ہو لیکن بعض ایسے نفرت انگیز صفات اس میں پائے جائیں جس کے سبب لوگ اس سے دور ہوجائےں تو ایسی صورت میں انبیاء کی بعثت کامقصد ہی پورا نہیں ہوگا۔
ایک مربی ورہبر سے لوگوں کی دوری اور نفرت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد اور دورنگی پائی جاتی ہو۔اس صورت میں نہ صرف اس کی راہنمائیاں بے قدر اور بیکار ہوجائےں گی بلکہ اس کی نبوت کی اساس وبنیاد ہی متزلزل ہوجائے گی ۔
شیعوں کے مشھور اور بزرگ عالم سید مرتضی علم الھدیٰ نے اس دلیل کو یوں بیان کیا ہے:اگر ہم کسی کے فعل کے بارہ میں اطمینان نہیں رکھتے یعنی اگر ہمیں یہ شبہ ہے کہ وہ کوئی گناہ انجام دیتاہے تو ہم اطمینان قلب کے ساتھ اس کی بات پر دھیان نہیں دیتے ۔اور ایسے شخص کی باتےں ہم پر اثر نہیں کرسکتیں جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ خود اپنی بات پر عمل نہیں کرتا ۔جس طرح مربی یارہبرکا گناہ کرنالوگوںکی نظر میں اسے کم عقل ،بے حیا اور لاابالی ثابت کرتاہے اور لوگوں کو اس سے دور کردیتاہے اسی طرح مربی یا رہبر کے قول وفعل کی دو رنگی بھی لوگوں پر اس کے خلاف منفی اثر ڈالتی ہے ۔
اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کتاب لکھے یاکوئی متاثر کرنے والی فلم دکھائے لیکن خود لوگوں کے مجمع میں اس قدر شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے ۔ایسی صورت میں شراب کے خلاف اس کی تمام تحریریں ،تقریریں اور زحمتیں خاک میں مل جائیں گی۔
فرض کیجئے کہ کسی گروہ کارہبر کرسی پر بیٹہ کر عدل وانصاف اور مساوات کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے زبردست تقریرکرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا مال ھڑپ کرتارہے تو اس کاعمل اس کی کھی ہوئی باتوں کو بے اثر بنادے گا۔
خداوند عالم اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم وایمان اور صبر وحوصلہ عطا کرتاہے تاکہ وہ تمام گناہوں سے خود کو محفوظ رکھیں ۔
اس بیان کی روشنی میں انبیائے الٰہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پہلے اپنی پوری زندگی میں گناہوں اور غلطیوں سے دور رہیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول وفعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے درخشاں رہنا چاہئے ۔کیونکہ اگر کسی شخص نے اپنی عمر کاتھوڑا سا حصہ بھی لوگوں کے درمیان گناہ اور معصیت کے ساتھ گزارا ہو اور اس کی زندگی کانامہ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھرا ہو تو ایسا شخص بعد میں لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتا اور لوگوں کو اپنے اقوال وکردار سے متاثر نہیں کرسکتا۔
خداوند عالم کی حکمت کاتقاضا ہے کہ وہ اپنے نبی ورسول میں ایسے اسباب وصفات پیدا کرے کہ وہ ہر دل عزیز بن جائےں۔اور ایسے اسباب سے انہیں دور رکھے جن سے لوگوںکے نبی یارسول سے دور ہونے کا خدشہ ہو ۔ظاہر ہے کہ انسان کے گزشتہ برے اعمال اور اس کاتاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ہر دلعزیزی کو انتھائی کم کردے گا اور لوگ یہ کھیں گے کہ کل تک تو وہ خود بد عمل تھا، آج ہمیں ہدایت کرنے چلاہے؟!
۲۔اعتماد جذب کرنا:
تعلیم وتربیت کے شرائط میں سے ایک شرط ،جو انبیاء یاالٰہی رہبروں کے اہم مقاصد میں سے ہے ،یہ ہے کہ انسان اپنے مربی کی بات کی سچائی پر ایمان رکھتاہوکیونکہ کسی چیز کی طرف ایک انسان کی کشش اسی قدر ہوتی ہے جس قدر وہ اس چیز پر اعتماد وایمان رکھتاہے۔ایک اقتصادی یا صحی پروگرام کا پر جوش استقبال عوام اسی وقت کرتے ہیں جب کوئی اعلیٰ علمی کمیٹی اس کی تائید کردیتی ہے ۔کیونکہ بھت سے ماہروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کاامکان بھت کم پایا جاتا ہے ۔ اب اگر مذہبی پیشواوں کے بارے میں یہ امکان ہو کہ وہ گناہ کرتے ہوں گے تو قطعی طور سے جھوٹ یا حقائق کی تحریف کا امکان بھی پایا جاتا ہوگا ۔اس امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ہماراا طمینان اٹہ جائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی تربیت اور ہدایت ہے ھاتہ نہ آئے گا۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اعتماد واطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ دینی پیشوا جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ جائےں تا کہ انہیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو ۔بقیہ سارے گناہوں سے ان کا پرہیز کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ دوسرے گناہوں کے کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ اعتماد واطمینان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جواب یہ ہے کہ اس بات کی حقیقت ظاہر ہے ،کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ ہو لیکن دوسرے گناہوں مثلاً آدم کشی ،خیانت اور بے عفتی وبے حیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی باک نہ ہو؟اصولاً جو شخص دنیا کی لمحاتی لذتوں کے حصول کے لئے ہر طرح کے گناہ انجام دینے پر آمادہ ہو وہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ کیسے نہیں بول سکتا۔؟!
اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک باطنی قوت یعنی خوف خدا اور نفس پر قابو پاناہے ۔جس کے ذریعہ انسان گناہوں سے دور رہتا ہے ۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جھوٹ کے سلسلہ میں تو یہ قوت کام کرے لیکن دوسرے گناہوں کے سلسلہ میں جو عموماً بھت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ہوں ،یہ قوت کام نہ کرے ؟!
اور اگر ہم اس جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کربھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عملاً عوام اسے قبول نہیں کرےں گے۔کیونکہ لوگ اس طرح کی جدائی کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے۔
اس کے علاوہ گناہ جس طرح گناہ گار کو لوگوں کی نظر میں قابل نفرت بنادیتے ہیں اسی طرح لوگ اس کی باتوں پر بھی اعتماد واطمینان نہیں رکھتے اور”انظر الیٰ ما قال ولاتنظر من الیٰ قال
“یعنی یہ دکھو کیا کھہ رہاہے یہ نہ دیکھو کون کھہ رہاہے کا فلسفہ فقط ان لوگوں کے لئے موثر ہے جو شخصیت اور اس کی بات کے در میان فرق کرنا چاہتے ہیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو بات کی قدرقیمت کو کھنے والے کی شخصیت اور اس کی طھارت وتقدس کے آئینہ میں دیکھتے ہیں یہ فلسفہ کارگر نہیں ہوتا۔
یہ بیان جس طرح رہبری وقیادت کے منصب پر آنے کے بعد صاحب منصب کے لئے عصمت کو ضروری جانتاہے،اسی طرح صاحب منصب ہونے سے پہلے اس کے لئے عصمت کو لازم وضروری سمجھتاہے ۔کیونکہ جو شخص ایک عرصہ تک گناہ گارو لاابالی رہاہواور اس نے ایک عمر جرائم وخیانت اور فحشا وفساد میں گزاری ہو، چاہے وہ بعد میں توبہ بھی کرلے ،اس کی روح میں روحی ومعنوی انقلاب بھی پیدا ہوجائے اور وہ متقی وپرہیزگاراور نیک انسان بھی ہوجائے لیکن چونکہ لوگوں کے ذھنوں میں اس کے برے اعمال کی یادیں محفوظ ہیں لھٰذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بد بینی کی نگاہ سے دیکھیںگے اور بسا اوقات یہ تصور بھی کرسکتے ہیں کہ یہ سب اس کی ریاکاریاں ہیں وہ اس راہ سے لوگوں کو فریب دینا اور شکار کرنا چاہتاہے۔اور یہ ذھنی کیفیت خاص طورسے تعبدی مسائل میں جھاں عقلی استدلال اور تجزیہ کی گنجائش نہیں ہوتی ،زیادہ شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدلال و تجربہ پر نہیں ہوتی کہ الٰہی رہبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی بات استدلال کے ذریعہ ثابت کرے ،بلکہ شریعت کی بنیاد وحی الٰہی اور ایسی تعلیمات پر ہے کہ انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ہوتا ہے اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ لوگ الٰہی رہبر کے اوپر سو فی صد ی اعتماد کرتے ہوں کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں اسے وحی الٰہی اور عین حقیقت تصور کریں ، اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ایسے رہبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ہر گز پیدا نہیں ہو سکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتھا تک روشن و درخشاں اور پاک و پاکیزہ نہ ہو۔
یہ دو دلیلیں نہ صرف انبیائے کرام کے لئے عصمت کی ضرورت کو ثابت کرتی ہیں ،بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ انبیاء کے جانشینوں کو بھی انبیاء کی طرح معصوم ہونا چاہئے ، کیوں کہ امامت کا منصب اہل سنت کے نظر یہ کے برخلاف کوئی حکومتی اور معمولی منصب نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں امامت کا منصب ایک الٰہی منصب ہے اور امام پیغمبر کے ساتھ (نبوت اور وحی کے علاوہ ) تمام منصبوں میں شریک ہے ۔ امام ،دین کا محافظ و نگھبان اور قرآن کے مجمل مطالب کی تشریح کرنے والا ہے نیز ایسے بھت سے احکام کو بیان کرنے والا ہے جنہیں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیان کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے ۔
اس لئے امام مسلمانوں کا حاکم اور ان کی جان و مال و ناموس کا نگھبان بھی ہے اور شریعت کو بیان کرنے والا اور الٰہی معلم و مربی بھی ہے اور ایک مربی کو معصوم ہونا چاہئے ، کیوں کہ اگر اس سے کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گناہ سرزد ہوا تو اس کی تربیت بے اثر ہو جائے گی ۔ اور اس کی گفتار و کردار کی صحت و درستگی پر سے لوگوں کا اعتماد اٹہ جائے گا۔
____________________