امت کی رہبری

امت کی رہبری0%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

امت کی رہبری

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17198
ڈاؤنلوڈ: 3717

تبصرے:

امت کی رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17198 / ڈاؤنلوڈ: 3717
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

دوسری فصل

امامت کے سلسلہ میں دو نظر یئے

خلافت ،علمائے اہل سنت کی نظر میں ،ایک ایسا اجتماعی و سماجی عھدہ و منصب ہے جس کے لئے اس سے مخصوص مقاصد کی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کوئی اور شرط نہیں ہے۔جب کہ شیعی نقطہ نظر سے امامت ایک الٰہی منصب ہے جس کا تعین خدا کی طرف سے ضروری ہے اور وہ بھت سے حالات اور ذمہ داریوںمیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر و یکساں ہے۔

لھٰذا امامت کی حقیقت کے سلسلے میں علماء کے یہاں دو نظر یئے پائے جاتے ہیں ایک نظریہ اہل سنت کے علماء کا ہے اور دوسرا شیعہ علماء کا نظریہ ہے :

الف۔ علمائے اہل سنت کا نظریہ -:

علمائے اہل سنت کی عقائد و کلام کی کتابیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ امامت ان کی نظرمیں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کے دینی و دنیوی امور کی سر پرستی ہے اور خود ”امام “اور ان کی اصطلاح میں ”خلیفہ“ وہ شخص ہے جو پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس منصب کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کے دینی و دنیاوی امور سے مربوط ہر گرہ اسی کے ذریعہ کھلتی ہے۔

یہ علماء ،امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں :

”الامامة رئاسة عامة فی امور الدین و الدنیا خلافة عن النبی(ص ) (۵)

اہل سنت کے نظر یہ کے مطابق یہ عظیم دینی و اجتماعی عھدہ و منصب ایک سماجی بخشش ہے جو لوگوں کی طرف سے خلیفہ کو عطا ہوئی ہے اور خلیفہ انتخاب کے ذریعہ اس مرتبہ پر فائز ہوا ہے ۔ خلیفہ کی ذمہ داریوںکا دائرہ بھی مذکورہ تعریف میں پورے طور سے مشخص کر دیا گیا ہے۔

الف:۔دینی امور کی سرپرستی : اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کے دینی مشکلات خلیفہ کے ھاتھوں حل ہوتے ہیں مثلا پوری دنیا میں جھاد کے ذریعہ اسلام کی توسیع ایک دینی امر ہے جس کا عھدہ دار امام کو ہونا چاہئے ۔

ب: ۔ دنیاوی امور کی سرپرستی : امام و خلیفہ کو چاہئے کہ طاقت کے ذریعہ عمومی امن و امان قائم کرے اور لوگوں کے اموال ان کی ناموس اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔

اس تعریف اورخلیفہ کے سپرد کی گئی ذمہ داریوں پر غور کرنے سے ایک حقیقت سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ امام یا خلیفہ ان کے نقطہ نظر سے ایک فرعی اور ایک سماجی حاکم ہے جو ملکی قوانین کا اجراء کرنے عمومی امن و امان قائم کرنے اور سماجی عدل وانصاف برقرار کرنے کے لئے منتخب ہوا ہے اور اس طرح کی حاکمیت کے لئے لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی اور چیز کی شرط نہیں ہے (نہ اسلامی احکام کے کلی و وسیع علم کی ضرورت ہے اور نہ سھو وخطا سے معصوم ہونے کی ضرورت ہے)

دوسرے لفظوں میں کوئی بھی معاشرہ چاہے جتنا بھی گناہ اور فسادسے پاک ہو پھر بھی برائی پورے طور سے اس سے دور نہیں ہوتی اور کھیں نہ کھیں گوشہ و کنار میں ایسے شر یر افراد ضرور نظر آتے ہیں جو جوا وشراب کی طرف ھاتھ بڑھاتے نظر آتے ہیں یا لوگوں کے عمومی اموال و جائداد پر زبردستی ڈاکاڈالتے ہیں اور ان پر قابض ہو جاتے ہیں یا لوگوں کی عزت و ناموس پر حملے کی فکر میں رہتے ہیں۔

اس لئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد ایک ایسے شائستہ و لائق شخص کی ضرورت ہے جو گناہ گاروں اور فسادیوں کی الٰہی قانون کی روشنی میں تنبیہ کرکے اس طرح کی برائیوں اور آلودگیوں کو روکے ۔یہ اور اسی طرح کے امور وہ ہیں جو انسان کی دنیا سے مربوط ہیں، جن کی سرپرستی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امام کے حوالے کی گئی ہے۔

مذکورہ امور کے مقابل کچہ دوسرے امور بھی ہیں جو دنیا میں اسلام کی ترقی اور پھیلاؤ سے مربوط ہیں اور جن کا تعلق انسان کے دین سے ہے ۔ مثلاً امام کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اسلحوں سے لیس ایک منظم اور مضبوط فوج تیار کرے جو نہ صرف اسلامی سرحدوں کو ہر طرح کے باہری حملوں سے محفوظ رکھے بلکہ اگر ممکن ہو تو جھاد کے ذریعہ توحید کا پیغام پوری دنیا میں پھیلاسکے۔

اب یہاں آپ یہ کھیں گے کہ پھر لوگ اپنے حرام و حلال اور دینی و علمی مسائل کس سے دریافت کریں گے، اور اس عھدہ کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ تو اس کے جواب میں علمائے اہل سنت کھیں گے کہ اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جنھوں نے آنحضرت سے حرام و حلال کے احکام سیکھے ہیں اس طرح کے مسائل میں امت کے مرجع ہیں ۔

اگر امام کی ذمہ داری ان ہی امور کی دیکہ بھال میں منحصر ہو ،جنہیں ہم نے اہل سنت کی زبانی نقل کیاہے ، تو ظاہر ہے کہ ایسے امام کے لئے صرف تھوڑی سی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی بھی اخلاقی فضیلت اور انسانی کمال کی ضرورت نہیں ہے ، چہ جائیکہ اس کے بارے میں وسیع علم اور خطا و گناہ سے بچانے والی عصمت کی شرط رکھی جائے۔

افسوس کہ امام کا معنوی و روحانی مرتبہ و منصب اہل سنت کی نظر میں رفتھ رفتھ اس قدر گر گیا کہ قاضی باقلانی جیسا شخص پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتاہے کہ خلیفہ و امام پست ترین اخلاقی خصلتوں کی غلاظت اور اپنے کالے سیاسی کارناموں کے باوجود امت کی قیادت و رہبری کے منصب پر باقی رہ سکتا ہے !وہ کھتا ہے :

لا یخلع الامام بفسقه و ظلمه بغصب الاموال و تناول النفوس المحترمة و تضییع الحقوق و تعطیل الحدود(۶)

یعنی امام اپنے فسق وفجور اور ظلم کے ذریعہ ،لوگوں کے اموال غصب کرکے ، محترم افراد کو قتل کرکے ،حقوق کو ضائع کرکے اور الٰہی حدود و قوانین کو معطل کرکے بھی اپنے منصب سے معزول نہیں ہوتا بلکہ یہ امت پر ہے کہ اس کی برائیوں کو درست کریں اور اس کی و ہدایت کریں!

اور ہمیں مزید تعجب نہ ہوگا اگر ہم محقق تفتازانی جیسے عالم کو خلیفہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بارہ میں ایسے خیالات کا اظھار کرتے ہوئے دیکھیں،وہ لکھتے ہیں:

یہ ہرگز ضروری نہیں کہ امام لغزش اور گناہ سے پاک ہو یاامت کی سب سے اعلیٰ فرد شمار ہو۔ امام کی نافرمانی اور الٰہی احکام سے اس کی جھالت منصب خلافت سے اس کی معزولی کا سبب ہرگز نہیں ہوسکتی(۷)

خلیفہ اسلام کے بارے میں اس طرح کے فیصلوں اور نظریوں کی بنیاد یہ ہے کہ ان لوگوں نے امام کو ایک عرفی اور انتخابی حاکم سمجہ لیا ہے ۔کیونکہ ایک عرفی حاکم کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ نظام کو چلانے اور معاشرہ میں آرام و سکون برقرار کرنے کی لازمی صلاحیت رکھتا ہو اور فسادیوں کو کنٹرول کرسکے ۔خود اس کا گناہ سے آلودہ ہونا یا اس کی غلطیاںاس منصب کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں جس کے لئے وہ منتخب ہواہے ۔

ب۔ شیعہ علماء کا نظریہ :

مذکورہ بالا نظریہ کے مقابل ایک دوسرا نظریہ بھی ہے جس پر شیعہ علماء تکیہ کرتے ہیں ۔یہ نظریہ کھتاہے کہ :امامت ایک طرح کی الٰہی ولایت ہے جو خداوند عالم کی جانب سے بندہ کو دی جاتی ہے۔ واضح الفاظ میں یوں کھیں کہ : امامت ،نبوت کی طرح ایک انتصابی منصب ہے اور اس کا عھدہ دار خود خدا کی طرف سے ،معین و منصوب ہوتا ہے ۔

اس بنیاد پر امام رسالت ہی کا سلسلہ ہے فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت کی بنیاد رکھنے والا اورآسمانی پیام لانے والاہے اور امام شریعت کو بیان کرنے والا اور اس کا محافظ و نگھبان ہے ۔امام ، نزول وحی کے علاوہ تمام مراتب میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر اور قدم بقدم ہے اور وہ تمام شرائط جوپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے ضروری و لازم قرار دیے گئے ہیں (مثلاً اسلام کے معارف،اس کے اصول و فروع اور احکام کا علم اور ہر طرح کی خطاو گناہ سے اس کا محفوظ ہونا) بعینہ امام کے لئے بھی لازم و ضروری ہیں۔

یہ نظریہ رکھنے والے معتقد ہیں کھ: صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)لوگوں کے لئے مکمل دستور حیات لائے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات اور دین حق کے تمام کلیات لوگوں کے حوالے کردئیے لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات کے بعد کوئی تو ایسا شخص ہونا چاہئے جو ان کلیات سے جزئی احکام کو استنباط کرے اورنکالے اور یہ کام علم (اور وہ بھی وسیع اور خدا داد علم )کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

صحیح ہے کہ اسلام کے تمام احکام کی تشریح پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانہ میں ہوئی ہے اور یہ احکام وحی الٰہی کے ذریعہ انہیں بتائے گئے ہیں۔لیکن مساعدحالات نہ ہونے یا روزانہ پیش آنے والے نئے مسائل کے حل کے لئے احکام کا بیان امام کے ذمہ بھی کیا گیا ہے ،اور اس منصب کا سنبھالنا اللہ سے وابستہ اور مستند علم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اسی لئے شیعوں کا اعتقاد ہے کہ امام کو شریعت کے تمام امور سے واقف و آگاہ ہونا چاہئے۔(۸)

لیکن امام معصوم کیوںھو؟تو جواب یہ ہے کہ شیعہ امام کو امت کا معلم و مربی جانتے ہیں اور تربیت سب سے زیادہ عملی پہلو رکھتی ہے اور مربی کے عمل کے ذریعہ انجام پانی چاہئے۔اگر مربی خود قانون توڑنے والا اور حدود کو پھچاننے والا نہ ہوتو لوگوںپر مثبت اثر کیسے ڈال سکے گا؟لھٰذا یہ نظریہ کھتا ہے کہ امت کے لئے ایسے شخص کی شناخت وسیع و خداداد علم اور ہمہ جھت عصمت کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور امام کو خدا کی جانب سے منصوب ہونا چاہئے۔

یہ دو نظریے ہیں جو ان دونوں گروہوں کے علماء کے ذریعہ بیان ہوئے ہیں۔اب ہم دیکھیں کہ ان میں سے کون سا نظریہ صحیح و استوا ر نیز قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی معتبر حدیث سے سازگار ہے ۔

____________________

(۵) شرح تجرید ،علاء الدین قوشجی ص/۴۷۲۔ اس کے علاوہ اور بھی تعریفیں علماء اہل سنت نے بیان کی ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم ان سے گریز کرتے ہیں۔

(۶)التمھید ص/۱۸۶

(۷)شرح مقاصد ،ج/۲،ص/۲۷۱

(۸)چونکہ شیعہ علماء اہل سنت کے نظریہ کے برخلاف ،امامت کو ایک الٰہی منصب سمجھتے ہیں لھذا وہ امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں ”الامامة رئاسة عامة الٰھیة فی امور الدین و الدنیا و خلافة عن النبی “امامت لوگوں کے دینی و دنیاوی امور میں ایک عام الٰہی سرپرستی اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشینی ہے۔

تیسری فصل

شیعہ نظریہ کی صحت کی دلیلیں

عقلی اور نقلی دلائل گواہی دیتے ہیں کہ امامت کا منصب نبوت کے مانند ایک الٰہی منصب ہے اور امام کو خدا کی جانب سے معین ہونا چاہئے اور جو شرائط پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لئے (وحی اور بانی شریعت ہونے کے علاوہ ) معتبر ہیں وہ امام میں ہونے چاہئے۔

اب ہم دلائل کا جائزہ لیتے ہیں:

پیش آنے والے نئے مسائل :

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی حیات طیبہ میں اسلام کے اصول و فروع کے تمام کلیات بیان کردئیے تھے اور اسلام اسی طریقہ سے خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ھاتھوں تکمیل پایا۔لیکن کیا یہ اصول و کلیات امت کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے والی کسی مرکزی علمی شخصیت کے بغیر کافی ہیں؟یہ طے شدہ بات ہے کہ کافی نہیں ہیں۔بلکہ آنحضرت کے بعد ایسے معصوم پیشواوں کی ضرورت ہے جو اپنے وسیع و بے پایان عظیم علم کے ذریعہ کلیات قرآن و اصول اورسنت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی روشنی میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں امت کی علمی ضرورت کی تکمیل کریں۔خصوصاً ایسے مسائل میں جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نہیں آئے تھے اور نہ حضرت کے زمانہ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی بعثت کے بعد رسالت کے تیرہ سال مکہ میں بت برستوں کے خلاف جدو جھد میں بسر کئے۔اور اس عرصہ میں حالات اور ماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ سے آپ الٰہی شریعت کے احکام بیان کرتے ہیں کامیاب نہ ہوئے بلکہ آپ نے اپنی پوری توجہ اسلامی اصول و مبدا اور معاد یعنی توحید و قیامت کے سلسلہ میں لوگوں کا ذھن ہموار کرنے میں صرف کی،اور چونکہ حرام و حلال اور الٰہی فرائض و سنن بیان کرنے کے حالات نہیں تھے،لھٰذا آپ نے احکام کے اس حصہ کو بعد کے لئے اٹھار کھا۔

جب آنحضرت مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے سامنے مسائل ومشکلات کا ایک لشکر تھا۔ مدینہ میں آپ کی زندگی دس سال سے زیادہ نہ رہی لیکن آپ نے اسی مدت میں ستائیس مرتبہ خود بت پرستوں نیز مدینہ اور خیبر کے یھودیوں کے خلاف جنگوں میں شرکت فرمائی ۔دوسری طرف منافقوں کی ساز شوں نیز اہل کتاب سے مناظرہ و مجادلہ میں بھی آپ کا بڑا قیمتی وقت صرف ہوا۔

یہ حادثات و واقعات سبب بنے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کے دوران زیادہ تر اسلام کے فروع و احکام کے کلیات بیان کریں اور ان کلیات سے دوسرے احکام کے استنباط و استخراج کا کام دوسرے شخص کے حوالے کیا جائے۔

اگر قرآن یہ فرماتا ہے کہ( الیوم اکملت لکم دینکم ) (۹) تو اس سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور اسلام کی اس وقت کی حالت و کیفیت کو دیکھتے ہوئے آیت کے نزول یعنی دس ہجری کے وقت مراد یہ ہے کہ توحید و قیامت سے متعلق معارف و عقائد اور فروع و احکام کے تمام اصول و کلیات آیت کے نزول کے وقت خو د پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ھاتھوں تکمیل ہوگئے اور اس اعتبار سے دین کے ارکان میں کوئی نقص باقی نہیں رہا اور یھی کلیات صبح قیامت تک امت کوپیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے میں بنیاد و اساس کا کام کریں گے۔

اب یہ دیکھنا چاہئے کہ کون سا شخص ان اصول و کلیات کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی تمام ضرورتوں اور مسائل کا جواب دے سکتا ہے۔احکام سے متعلق قرآن میں ذکر شدہ آیات اور پیغمبر اکرم کی محدود احادیث کے ذریعہ صبح قیامت تک پیش آنے والے بے شمار مسائل کا حل اور احکام کا استنباط کرنا بھت ہی دشوار اور پیچیدہ کام ہے جو عام افراد کے بس کا نہیں ہے ۔کیونکہ قرآن مجید میں فقھی و شرعی احکام سے متعلق آیات کی تعداد تین سو سے زیادہ نہیں ہے۔اسی طرح سے حلال و حرام اور فرائض سے متعلق آنحضرت کی احادیث کی تعداد چارسو سے زیادہ نہیں ہے اور ایک عام انسان اپنے محدود علم کے ذریعہ ان محدود مدارک سے مسلمانوں کے روز افزوں مسائل و مشکلات کا حل نکال نہیں سکتا ۔بلکہ اس کے لئے ایک ایسے لائق اور شائستہ شخص کی ضرورت ہے جو اپنے الٰہی اور غیبی علم کے ذریعہ ان محدود دلائل سے الٰہی احکام نکال کر امت کے حوالے کرسکتا ہو۔

ساتھ ہی ساتھ ایساشخص اپنے اس وسیع و لا محدو دعلم کی وجہ سے گناہ و خطا سے محفوظ بھی ہونا چاہئے تاکہ لوگ اس پر اعتماد کرسکیں اور ایسے شخص کو خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا لھٰذا وھی اسے معین بھی فرمائے گا۔

تکمیل دین کی دوسری نوعیت

یہاں ایک دوسری بات بھی کھی جاسکتی ہے ،اور وہ یہ ہے کہ آیت اکمال جو اسلام کی تکمیل سے متعلق ہے اسلام کی بقا دوام کو بیان کررہی ہے ۔کیونکہ یہ آیت کریمہ اسلامی محدثین کی متعدد و متواتر روایات کے مطابق غدیر کے دن حضرت علی ںکی ولایت و خلافت کے اعلان کے بعد نازل ہوئی ہے ۔اب رہی فرائض و محرمات اور دوسرے احکام سے متعلق تکمیل دین کی بات تو یہ اس آیت کے مقصد سے باہر کی چیز ہے ۔اس حصہ میں اسلام کے مسلمات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جانا چاہئے کہ اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اب کوئی امین وحی کسی اسلامی حکم کو لےکر نہیں آئے گا ،بلکہ انسان کو صبح قیامت تک جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب جبرئیل امین رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس لا چکے ۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیںکہ دنیا کے تمام ہونے تک اسلامی معاشرہ کو پیش آنے والے مسائل کا حکم بیان کرنے کے لئے فقھی دلائل ہمارے پاس کافی نہیں ہیں بلکہ بھت سے احکام قرآن و حدیث میں بیان ہی نہیں کئے گئے ہیں۔

ان دو باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کھنے پر مجبور ہیں کہ تمام الٰہی احکام خود پیغمبر اکرم کے زمانہ میں آچکے تھے اور آپ کو ان کی تعلیم دی جا چکی تھی ۔اب چوں کہ رسالت کی مدت بھت ہی مختصر تھی،ساتھ ہی ہر روز کے مسائل اور دشواریاں ،نتیجہ میں آپ ان تمام احکام کی تبلیغ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے لھٰذا آپ نے وہ تمام تعلیمات الٰہی اور جو کچہ بھی آپ نے وحی کے ذریعہ الٰہی احکام اور اسلامی اصول و فروع کی شکل میں حاصل کیا تھا سب کچہ اپنے اس وصی و جانشین کے حوالے کردیا اور اسے سکھا دیا ،جو خود آنحضرت کی طرح خطا و غلطی سے بری اور محفوظ تھا ۔تاکہ وہ آپ کے بعد یہ تعلیمات اور احکام رفتھ رفتھ امت کو بتائے ۔ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی شناخت جو اس قدر وسیع علم رکھتا ہو اور ہر طرح کی خطا و لغزش سے پاک ہو صرف پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے تعارف اور اللہ کی جانب سے نصب و تعیین کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔امت انتخابات کے ذریعہ ایسے کسی شخص کو نہیں پھچان سکتی۔

یہ بھی عرض کردوں کہ ہم جو یہ کھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو کچہ امت سے بیان نہ کرسکے وہ انھوں نے اپنے وصی و جانشین کو تعلیم دے دیا تو اس سے مراد وہ معمولی تعلیم نہیں ہے جو ایک شاگرد اپنے استاد سے چند پرسوں میں حاصل کرتا ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ایک شخص کو اس طرح کی تربیت دینے کے بجائے ایک گروہ یا بھت سے لوگوں کی تعلیم و تربیت فرماتے ۔جب کہ یہ تعلیم ایک غیر معمولی تعلیم تھی جس میں آنحضرت نے اپنے وصی کی روح و قلب پر تصرف فرما کر تھوڑی ہی دیر میں اسلام کے تمام حقائق و تعلیمات سے انہیں آگاہ کر دیا اور کوئی چیز پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین سے مخفی و پوشیدہ نہیں رہ گئی ۔

آخر میں یہ یاد دھانی بھی کرادوں کہ جب اسلام دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلا تو مسلمان نئے نئے حالات سے دو چار ہوئے جن سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے عھد میں سابقہ نہیں پڑا تھا اور آنحضرت نے ان نئے حالات اور حادثات کے سلسلہ میں کوئی بات نہیں بتائی تھی۔

قرآن وحدیث کے اصول وکلیات سے اس طرح کے نئے حالات و مسائل کا حکم کشف کرنا اور نکالنا بھت ہی پیچیدہ اور اختلاف انگیز ہے ۔اس سلسلہ میں تکمیل شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ خاندان وحی سے وابستہ کوئی فرد ان نئے مسائل کا حکم قرآن و حدیث سے استنباط کرے یا ان کا حکم اس وھبی علم کے ذریعہ بیان کرے جو آنحضرت نے اس کے حوالے کیا ہے۔

اہل سنت معاشرہ کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ احکام سے متعلق قرآن کریم کی محدود آیات اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی چار سو حدیثوں سے ہی اسلام کے تمام احکام کا استنباط و استخراج کرنا چاہتے ہیں لیکن جونکہ بھت سے مواقع پر ناتوانی کا احساس کرتے ہیں اور مذکورہ بالا دلیلوں کو کافی نہیں پاتے لھٰذا قیاس و استحسان جن کی کوئی محکم اساس و بنیاد نہیں ہے ،کا سھارا لے کر امت کی ضرورتوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ خود جانتے ہیں کہ ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس یا فقھی استحسان کے ذریعہ کسی مسئلہ کا حکم بیان کرنا کوئی صحیح بنیاد نہیں رکھتا ۔لیکن اگر امت میں کوئی ایسا شائستہ ولائق شخص ہو جو اپنے وسیع علم کے ساتھ اس قسم کے مسائل کا حکم ایک خاص طریقہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے حاصل کرکے امت کے حوالے کرے اور گمان و شک پر عمل کی اس بے سرو سامانی کا خاتمہ کردے تو یہ روش شریعت کی تکمیل اور لوگوں کے حقیقت تک پھچنے کی راہ میں زیادہ موثر ثابت ہوگی ۔

پھر بھی گنتی کے چند نادر موارد میں قیاس و استحسان کی ضرورت پیش آئی تو ہم یہ کھہ سکتے ہیں کہ ان جزئی موارد میں اسلام نے آسانی کے لئے ان پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ لیکن اگر شریعت کے پورے پیکر کو ظن و گمان پر استوار کریں اور ایسے قوانین دنیا کے حوالے کریں جن کی بنیاد حدس و گمان اور استحسان اور ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس ہو تو ایسی صورت میں ہم نے ایسے اسلامی احکام اور اسلام کا ایسا حقوقی و جزائی مکتب فکر اور اخلاقی نظام دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس کی اساس و بنیاد ہی ناہموار اور پھس پھسی ہے کیا ایسی صورت میں ہم یہ توقع رکہ سکتے ہیں کہ دنیا کے لوگ ایسے اسلام کے حقوقی و جزائی احکام پر عمل کریں گے جس کے بیشتر احکام وحی الھٰی سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے۔

خلفاء امت کی لا علمی

تاریخ اسلامی امت کے حکام و خلفاء کی اسلامی اصول و فروع سے لا علمی کے بھت سے واقعات اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔علمی محاسبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ امت کے درمیان ایک عالم وآگاہ امام و پیشوا کا وجود ضروری ہے جو اسلامی احکام کا محافظ اور ان کا خزانہ دار ہو اور مستقل الٰہی تعلیمات کولوگوں تک پھنچاتارہے۔ھم یہاں پر خلفا کی لاعلمی اور اسلام کے بنیادی احکام سے ان کی جھالت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

۱۔حضرت عمر نے اصحاب کے مجمع میں ایک شوھر دار حاملہ عورت کو جو زنا کی مرتکب ہوئی تھی سنگسار کرنے کا حکم دیا لیکن آخر کار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی راہنمائی کے ذریعہ یہ حکم تبدیل کیا گیا۔کیونکہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ماں نے گناہ کیا ہے تو وہ قصور وار ہے لیکن بچہ نے کیا قصور کیا ہے جو ابھی اس کے رحم میں ہے؟

۲۔خلیفہ نے ایک ایسے شادی شدہ شوھرکو جس کی بیوی دوسرے شھر میں رہتی تھی زنا کے جرم میں سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔جبکہ ایسے شخص کے لئے جس کی بیوی اس سے دور ہو اللہ کا حکم سو تازیانہ (کوڑے) کی سزاہے ،سنگسار نہیں ہے ۔چنانچہ یہ حکم بھی حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تبدیل کیا گیا۔

۳۔پانچ بدکار مردوں کو خلیفہ کے پاس لایا گیا اور گواہی دی گئی کہ یہ لوگ زنا کے مرتکب ہوئے ہیں ۔خلیفہ نے حکم دیا کے سب کو ایک طرف سے سو سو کوڑے لگائے جائیں۔امام علی علیہ السلام اس جگہ موجود تھے آپ نے فرمایا:ان میں سے ہر ایک کی سزا جدا جدا ہے۔ایک کافر ذمی ہے،اس نے اپنے شرائط پر عمل نہیں کیاہے۔وہ قتل کیاجائے گا۔دوسرا شادی شدہ مرد ہے جسے سنگسار کیا جائے گا ۔ تیسرا جوان آزاد ہے اور غیر شادی شدہ ہے، اسے سو کوڑے لگائے جائیںگے ۔ چوتھا غیر شادی شدہ غلام ہے ،اسے آزادکی آدھی سزا یعنی پچاس کوڑے لگائے جائیں گے، اور پانچواںشخص دیوانہ ہے، اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

۴۔حضرت ابوبکر کے زمانہ میں ایک مسلمان نے شراب پی لی تھی لیکن اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ایسے لوگوں میں زندگی بسر کرتا رہا ہے جو سب کے سب شراب پیتے تھے اور وہ نہیں جانتا تھا کہ اسلام میں شراب پینا حرام ہے ۔ خلیفہ اور ان کے وزیر حضرت عمر نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور اس مشکل کو حل کرنے میں ناکام رہے آخرکار مجبور ہوکر انھوںنے حضرت علی علیہ السلام سے رجوع کیا۔ آپ(ۡع)نے فرمایا: اس شخص کو مھاجرین و انصار کے مجمع میں پھراواگر ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی یہ کھہ دیا کہ اس نے تحریم شراب کی آیت اسے سنائی ہے تو اس پر حجت تمام ہے اور اس پر حد جاری ہوگی ورنہ اسے معذور سمجہ کر چھوڑ دیا جائے گا۔

۵۔ایک شادی شدہ عورت کو زنا کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور اسے سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا:اس عورت سے مزید تحقیق کی جائے،شاید اس کے پاس اس جرم کا کوئی عذر موجود ہو۔عورت کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا۔اس نے اس جرم کے ارتکاب کی وجہ یوں بیان کی کہ میں اپنے شوھر کے اونٹوں کو چرا نے صحرا لے گئی تھی ۔ اس بیابان میں مجہ پر پیاس کا غلبہ ہوا میں نے وھاں موجود شخص سے بھت منت سماجت کی اور اس سے پانی مانگا لیکن وہ ہر بار یہ کھتا تھا کہ تم میرے آگے تسلیم ہوجاوتو میں تمھیں پانی دوںگا۔جب میں نے محسوس کیا کہ پیاس سے مرجاوںگی تو میں مجبوراًاس کی شیطانی ہوس کے آگے تسلیم ہوگئی۔

اس وقت حضرت علی ںنے تکبیر بلند کی اور فرمایا:”اللہ اکبر فمن الضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ “یعنی اگر کوئی اضطرار اور مجبوری کی حالت میں کوئی غلط کام کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

اس طرح کے واقعات خلفاء کی تاریخ میں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان پر ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ ان تمام حوادث کا حکم بیان کرنے کا ذمہ دار کون ہے ۔اس طرح کے حوادث

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نہیں آئے تھے کہ امت ان کاحکم مرکز وحی یعنی خود آنحضرت سے حاصل کرلیتی۔ پھر آنحضرت کی رحلت کے بعد اس قسم کے احکام بیان کرنے والا اور الٰہی احکام کا محافظ و خزانہ دار کسے ہونا چاہئے ۔کیا یہ کھنا درست ہوگا کہ خداوند عالم نے ایسے حالات میں امت کو خود اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور اپنے معنوی فیضان کو امت سے دورکرلیا ہے ۔چاہے امت کی نادانی و جھالت کی وجہ سے لوگوں کی ناموس خطرے میں پڑجائے اور احکام حق کی جگہ باطل احکام لے لیں۔(۱۰)

____________________

(۹)مائدہ /۳ ۔ یعنی آج میں نے تمھارا دین مکمل کردیا

(۱۰)اسلام کے فروعی احکام سے متعلق امت کے حکام اور خلفاء کی لاعلمی کی ان رودادوں کی وضاحت کی ہمیں ضرورت نہیں ہے ان قضیوں کی تشریح تاریخ حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں موجود ہے۔علامہ امینی نے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی،ساتویں،اور آٹھویں جلد میں خلفاء کی عملی لیاقت کے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔شائقین مزید معلومات کے لئے اس کتاب کی طرف رجوع کریں۔