امت کی رہبری

امت کی رہبری0%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

امت کی رہبری

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17193
ڈاؤنلوڈ: 3716

تبصرے:

امت کی رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17193 / ڈاؤنلوڈ: 3716
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

چوتھی فصل

پیغمبر امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں

اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ امت کی رہبری کا مسئلہ مسلمان معاشرہ کے لئے اساسی اور حیاتی حیثیت رکھتا ہے۔چنانچہ اسی مسئلہ پر اختلاف پیدا ہوا اور اس نے امت کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان گھرا اختلاف پیدا کردیا ۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے تمام چیزوں کے بارے میں واجب، مستحب ،حرام و مکروہ سے متعلق تو ساری باتیں بیان فرمائیں لیکن امت کی قیادت و رہبری اور حاکم کے خصوصیات سے متعلق کوئی بات کیوں بیان نہیں کی؟ کیا انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اتنے اہم موضوع پر کوئی توجہ نہ دی ہوگی بلکہ خاموشی اختیار کی ہوگی اور امت کو بیدار نہ کیا ہوگا؟!

علمائے اہل سنت فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے قیادت وامامت کے طریقہ کے سلسلہ میں نفیاًو اثباتاً کوئی بات نہیں بیان کی اور یہ واضح نہیں کیا کہ قیادت و رہبری کا مسئلہ انتخابی ہے یا تعیینی ہے۔

سچ مچ کیا عقل باور کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اس انتھائی اہم اور حیاتی مسئلہ پر خاموشی اختیار کی ہوگی اور قضیہ کے ان دونوں پہلو ں سے متعلق کوئی اشارہ نہ کیا ہوگا؟

عقل کے فیصلہ سے آگے بڑہ کر تاریخ اسلام کا جائزہ بھی اس نظریہ کے خلاف گواہی دیتا ہے ۔اور یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مختلف موقعوں پر یہ یاد دھانی کی ہے کہ میرے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے اور وہ اس سلسلہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتے ۔یہاں ہم تاریخ اسلام سے چند نمونے پیش کرتے ہیں :

جب مشرکوں کے ایک قبیلہ کے سردار ”اخنس“ نے اس شرط پر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حمایت کا اظھارکیا کہ اپنے کے بعد امت کی قیادت و سرپرستی آپ ہمارے حوالے کر جائیں گے تو پیغمبر اسلام نے اسے جواب دیا کھ” الا مر الیٰ اللہ یضعہ حیث یشاء “یعنی امت کی قیادت کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے وہ جسے بہتر سمجھے اس امر کے لئے منتخب کرے گا ۔قبیلہ کا سردار یہ بات سن کر مایوس ہو گیا اور اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جواب میں کھلایا کہ یہ بات بالکل درست نہیں ہے کہ رنج و زحمت میں اٹھاؤں اور قیادت و رہبری کسی اور کو ملے!(۱۱)

تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بھی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ”یمامھ“ کے حاکم کو خط لکہ کر اسے اسلام کی دعوت دی اس نے بھی ”اخنس “ کے مانند آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے آپ کی جانشینی کا تقاضا کیا تو آنحضرت نے اسے انکار میں جواب دیتے ہوئے فرمایا:”لا ولاکرامة“ یعنی یہ کام عزت نفس اور روح کی بلندی سے بعید ہے۔(۱۲)

امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اس کی اہمیت کو صرف ہم ہی نے محسوس نہیں کیا ہے بلکہ صدر اسلام میں بھی یہ مسئلہ بھت سے لوگوں کی نظر میں بڑی اہمیت رکھتا تھا ۔ مثلا جس وقت خلیفہ دوم ،ابو لو لو کی ضرب سے زخمی ہوئے اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے اپنے باپ کو مرتے ہوئے دیکھا تو اپنے باپ سے کہا جتنی جلدی ہو سکے اپنا ایک جانشین معین کیجئے اور امت محمدی کو بے حاکم وبے سر پرست نہ چھوڑئے ۔

بالکل یھی پیغام ام المومنین عائشہ نے بھی خلیفہ دوم کو کھلایا اور ان سے درخواست کی کہ امت محمدی کے لئے ایک محافظ و نگھبان معین کر جائیں۔اب کیا یہ کھنا صحیح ہوگا کہ ان دو شخصیتوں نے امت کی قیادت و رہبری کے مسئلہ کی اہمیت کو تو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا لیکن رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان دو افراد کے بقدر بھی اس مسئلہ کی اہمیت کو سمجہ نہیں پائے تھے ؟!

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مدینہ کی دس سالہ زندگی کا ایک ھلکا سا جائزہ لینے کے ساتھ ہی یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ آنحضرت جب بھی کھیں جانے کے لئے مدینہ سے نکلتے تھے کسی نہ کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کر جاتے تھے ،تاکہ اس مختصر سی مدت میں بھی جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مدینہ میں تشریف نہیں رکھتے لوگ بے سر پرست اور بے پناہ نہ رہیں ۔ کیا یہ بہتر ہے کہ جو جانشین معین کرنے کی اہمیت سے آگاہ ہو اور یہ جانتا ہو کہ حتّٰی مختصر مدت کے لئے بھی جانشین معین کئے بغیر مدینہ کو ترک نہیں کرنا چاہئے ۔وہ دنیا کو ترک کرے اور اپنا کوئی جانشین معین نہ کرے یا کم از کم قیادت و رہبری کی شکل ونوعیت اور حاکمیت کے طریقہ کار کے بارے میں کچہ نہ کھے ؟!

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب کسی علاقہ کو فتح بھی کرتے تھے تو اسے ترک کرنے سے پہلے وھاں ایک حاکم معین فرماتے تھے پھر ان حالات میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنا جانشین معین کرنے میں غفلت سے کام لیا ہوگا اور اس کے لئے میں کوئی فکر نہ کی ہوگی ،جو ان کے بعد امت کی قیادت و رہبری اپنے ھاتھ میں لے سکے اور اسلام کے نو پا درخت کی نگھبانی و سرپرستی کر سکے؟!

نبوت و امامت باہم ہیں

متواتراحادیث اور اسلام کی قطعی تاریخ صاف گواہی دیتی ہیں کہ نبوت اور امامت دونوں کا اعلان ایک ہی دن ہوا اور جس روز پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خدا کی طرف سے اپنے خاندان والوں کے درمیان اپنی رسالت کا اعلان کرنے پر مامور ہوئے تھے اسی روز آپ نے اپنا خلیفہ و جانشین بھی معین فرمادیاتھا۔

اسلام کے گرانقدر مفسرین و محدثین لکھتے ہیں کہ جب آیت( و انذر عشیرتک الاقربین ) (شعراء /۲۱۴) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو خاندان والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا جنہیں آنحضرت نے م ہمان بلایا تھا۔حضرت علی علیہ السلام نے بھی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے کھانا تیار کیا اور بنی ھاشم کی پینتالیس شخصیتیں اس مجلس میں اکٹھا ہوئیں۔پہلے روز ابو لھب کی بیھودہ باتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کا پیغام سنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔دوسرے روز پھر یہ دعوت کی گئی اور م ہمانوں کے کھانا کھالینے کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی جگہ کھڑے ہوئے اور خداوند عالم کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا:

میں تم لوگوں اور دنیا کے تمام انسانوں کے لئے خدا کا پیغامبر ہوں اور تم لوگوں کے لئے دنیا وآخرت کی بھلائی لایا ہوں۔خدانے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دوں تم میں سے جو شخص اس کام میں میری ا مدد کرے گا وہ میرا وصی اور جانشین ہوگا۔

اس وقت حضرت علی بن ابیطالب ںکے علاوہ کسی نے بھی اٹہ کر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی نصرت و مدد کا اعلان نہیں کیا۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو بیٹہ جانے کا حکم دیا اور دوبارہ اور تیسری بار بھی اپنا جملہ دھرایا اور ہر بار حضرت علی ںکے علاوہ کسی نے آپ کی حمایت اور اس راہ میں آپ کی نصرت و فدا کاری کا اظھار نہیں کیا۔اس وقت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنے خاندان والوں کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”ان هذااخی و وصی و خلیفتی فیکم فاسمعوا و اطیعوا“ یعنی علی(ۡع)میرا بھائی اور تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ہے،پس تم پر لازم ہے کہ اس کا فرمان سنو اور اس کی اطاعت کرو۔(۱۳)

تاریخ کا یہ واقعہ اس قدر مسلّم ہے کہ ابن تیمیہ جس کا خاندان اہل بیت(ۡع)سے عناد سب پر ظاہر ہے ،کے علاوہ کسی نے بھی اس کی صحت سے انکار نہیں کیا ہے۔یہ حدیث حضرت علی ںکی امامت کی دلیل ہونے کے علاوہ اس بات کی سب سے اہم گواہ ہے کہ امامت کا مسئلہ امت کے اختیار میں نہیں ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جانشین کا اعلان اس قدر اہم تھا کہ نبوت و امامت دونوں منصبوں کے مالک افراد کا اعلان ایک ہی دن پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے خاندان والوں کے سامنے کیا گیا ۔

یہ واقعہ تین بعثت کو پیش آیا اور اس وقت تک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی دعوت مخصوص افراد کے ذریعہ لوگوں تک پھنچائی جاتی تھی اور تقریباً ۵۰پچاس افراد اس وقت تک مسلمان ہوئے تھے۔

____________________

(۱۱)۔تاریخ طبری ،ج/۲، ص/۱۷۲

(۱۲)تاریخ کامل، ج/۲،ص/۶۳

(۱۳)۔تاریخ طبری ج/۲،ص/۶۲۔۶۳ تاریخ کامل ج/۲،ص/۴۰۔۴۱ مسند احمد ،ج/۱،ص/۱۱۱ ۔اور دیگرمآخذ

پانچویں فصل

اسلامی قوانین اور کتاب خدامعصوم کی تفسیر سے بے نیاز نہیں

اسلامی قوانین چاہے جتنے بھی روشن و واضح ہوں پھر بھی ان کی توضیح و تفسیر ضروری ہے بالکل یوں ہی جیسے آج ملکوں کے قوانین چاہے جس قدر روز مرہ کی زبان میں تنظیم کئے جائیں پھر بھی ان کی وضاحت کے لئے زبر دست قسم کے ماہروں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے اہم پہلو ؤں کو واضح کر سکیں ۔ اور اسلامی قوانین بھی حتیٰ وہ بھی جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی زبان سے نقل ہوئے ہیں توضیح و تفسیر سے مستثنٰی اور بے نیاز نہیں ہیں ۔اس کے گواہ مسلمانوں کے درمیان وہ سیکڑوں اختلافات ہیں جو قرآنی آیات اور اسلامی احادیث کے سلسلہ میں نظر آتے ہیں۔

کیا اسلام کے ابدی و جاودانی قوانین کو ایسے کسی پیشوا کی ضرورت نہیں ہے جوپیغمبر اکرم کے علوم کا وارث ہو اور اختلاف کے موارد میں سب کے لئے حجت ہو ؟اور کیا اختلافات دور کرنے فاصلوں کو کم کرنے اور اسلامی اتحاد بر قرار کرنے کے لئے ایسے جانشین کا تعین لازم و ضروری نہیں تھا؟

حضرت عمر کی خلافت کے دوران ایک شخص نے اسلامی عدالت میں شکایت کی کہ میری بیوی کے یہاں چہ ہی مھینہ میں بچہ پیدا ہو گیا ہے ۔ قاضی نے حکم دے دیا کہ لے جاؤ اس عورت کو سنگسار کر دو ۔راستہ میں اس عورت کی نگاہ حضرت علی علیہ السلام پر پڑی اس نے چیخ کر کہا :اے ابو الحسن میری فریاد کو پھنچئے ۔ میں ایک پاک دامن عورت ہوں اور میں نے اپنے شوھر کے علاوہ کسی سے قربت نہیں کی ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام جب واقعہ سے آگاہ ہوئے تو انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ قاضی نے فیصلہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ آپ(ۡع) نے ماموروں سے مسجد واپس چلنے کو کہا اور مسجد میں جا کر خلیفہ سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے ؟خلیفہ نے کہا کہ شوھر سے اس عورت کی قربت کو صرف چہ ماہ گزرے ہیں ۔ کیا کھیں چہ مھینے میں بچہ پیدا ہوتا ہے ؟ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا جس میں آیا ہے ” وحملہ و فصالہ ثلاثون شھرا“(۱۴) یعنی اس کا حمل اور دودہ پلانے کا زمانہ تیس ماہ ہے۔خلیفہ نے جواب دیا درست ہے ۔ پھر حضرت علی ںنے فرمایا: کیا قرآن نے دودہ پلانے کا زمانہ دو سال نہیں معین کیا ہے کہ ارشاد ہوتا ہے: ” والولدات یرضعن اولادھن حولین کاملین“(۱۵) یعنی مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودہ پلائیں ۔خلیفہ نے جواب دیا :سچ فرمایا: اس پر حضرت علی ںنے فرمایا : کہ اگر دودہ پلانے کے چوبیس مھینوں کو تیس مھینوں سے کم کرو توچہ ہی ماہ باقی رہتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملگی کی کم سے کم مدت چہ ماہ ہے اور عورت اس مدت میں سالم بچہ پیدا کر سکتی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ںنے دو آیتوں کو باہم ضمیمہ کرکے ایسا قرآنی حکم استنباط کیا جس سے اصحاب واقف نہیں تھے اب کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس الٰہی کتاب قرآن مجید کی وضاحت کے لئے جو ایک جاوید رہنما اور ابدی قانون کی حیثیت رکھتی ہے اپنے بعد کوئی اقدام نہیں فرمایا ہے؟

ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ایسے نادر مسئلہ میں اختلاف سے جو انسانی زندگی میں بھت کم پیش آتا ہے پورے اسلامی معاشرہ کے اتحاد کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا ،تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اختلاف اس طرح کے نادر مسائل سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف مسلمانوں کے روز مرہ اور بنیادی فرائض و وظائف سے بھی تعلق رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر روز کے مسائل میں مسلمانوں کے اختلاف و تفرقہ سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اتنے سارے مسائل میں اختلافات سے مسلمانوں کے اتحاد و یکجھتی پر کوئی ضرب نہیں پڑتی ہے۔

قرآن مجید نے اپنے سورہ مائدہ آیت /۶ میں وضو کرنے کی کیفیت مسلمانوں سے بیان کی ہے اور صدر اسلام میں مسلمان ہر روز اپنی آنکھوں سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو وضو کرتے ہوئے دیکھتے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قرآن مجید دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلا اور علماء کے اوپر قرآنی آیات میں اجتھاد و تفکر کا دروازہ کھلا اور فقھی احکام سے متعلق آیات پر رفتھ رفتھ بحث و تحقیق ہوئی لیکن سر انجام کیفیت وضو سے متعلق آیت کو سمجھنے میں اختلاف پیدا ہوگیا اور آج یہ اختلاف باقی اور رائج ہے کیوں کہ شیعہ علماء اپنے ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں اور پیروں کا مسح کرتے ہیں لیکن علمائے اہل سنت ان کے بالکل بر خلاف عمل کرتے ہیں۔

اگر امت کے درمیان ایک ایسا معصوم اور تمام اصول و فروع سے آگاہ رہبر موجود ہو کہ سب کے سب اس کی بات تسلیم اور اس کی پیروی کرتے ہوں تو ہر گز ایسا اختلاف جو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دے پیش نہیں آئے گا اور پورا اسلامی معاشرہ اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دھی میں یک رنگ و یک شکل ہوگا۔

قرآن کی تفسیر میں اختلاف

اسلام کے جزا و سزا کے قوانین میں ایک چور کے ھاتھ کاٹنے کا قانون ہے جو اپنے شرائط و خصوصیات کے ساتھ فقھی کتابوں میں درج ہے ابھی ابھی دو تین صدی پہلے تک جبکہ اسلام ایک طاقت کی شکل میں حاکم تھا اسلامی حکومتیں اپنے قوانین قرآن سے حاصل کرتی تھیں اور جبکہ مغربی قوانین ابھی اسلامی سرزمینوں تک نہیں پھنچے تھے چور کی تنھا سزا اس کاہاتھ کاٹنا تھی ۔لیکن افسوس کہ یہ ایک چھوٹا سا اور تقریبا روز مرہ کا مورد بھی ان موارد میں سے ہے کہ اسلام کی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی حد معین کرنے کے سلسلہ میں ایک نقطہ پر متحد نہیں ہو سکے

معتصم عباسی کے زمانہ میں جبکہ ہجرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دو سو سال سے زیادہ گزر چکے تھے ،علماء نے اسلام کے درمیان ھاتھ کاٹنے سے متعلق آیت کی تفسیرمیں اختلاف پیدا ہوگیا ۔وہ لوگ یہ طے نہیں کر پارہے تھے کہ چور کا ھاتھ کھاں سے کاٹنا چاہئے ۔ایک کھتا تھا :ھاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ دوسرا کھتا تھا : ھاتھ کھنی سے کاٹا جائے گا ۔تیسرا کھتا تھا : ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ آخر کار خلیفہ وقت نے شیعوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی دریافت کیا۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: چور کے ھاتھ کی صرف چار انگلیاں کاٹی جائیں گی ۔ جب آپ(ع) سے پوچھا گیا کہ اس کی دلیل کیا ہے تو آپ(ۡع)نے فرمایاکہ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ہے:” و ان المساجد اللہ “ سجدہ کی جگھیں خدا کے لئے ہیں اور اس سے متعلق ہیں ۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: ان میں سے ایک ھتھیلی بھی ہے جسے سجدہ کے وقت زمین پر ٹکانا ضروری ہے اور جو چیز خدا سے متعلق ہو اسے کاٹا نہیں جا سکتا ۔

اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن شناس موجود ہو جو قرآن کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہی رکھتا ہو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجاو مرکز قرار پائے اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں تو ظاہر ہے کہ بھت سے اختلافات آسانی سے دور ہو جائیں گے اور امت ایک ہی سمت میں ایک ہی مقصد کے ساتھ قدم بڑھائے گی۔نہ مسلمانوں کاقیمتی وقت ضائع ہوگا اور نہ ان میں خطرناک اور خونریزاختلاف ٹکراؤ پایاجائے گا۔

قرآن مجید ہر طرح کے استنباط اور صحیح اسلام کو سمجھنے کے لئے اساسی و بنیادی ماخذ ہے اور کوئی چیز اس عظیم کتاب کی برابری نہیں کر سکتی ۔اگر دوسرے ماخذ میں باہم اختلاف نظر آئے مثلا اگر پیغمبر اکرم کی دو حدیثیں باہم ٹکراو رکھتی ہوں تو ہم اس حدیث کو اپنائیں گے جو قرآن کے مطابق ہوگی۔

لیکن کیا دلالت اور بیان کے اعتبار سے قرآن کی تمام آئتیں ایک جیسی ہیں اور کیا قرآن میں سرے سے کوئی ایسی آیت ہے ہی نہیں جس کے لئے کسی معصوم مفسر کی ضرورت ہو ؟ یہ دعویٰ وھی کر سکتا ہے جو قرآن سے زیادہ لگاؤ نہیں رکھتا اور اس کی روح و فکر قرآن سے ہم آھنگ نہیں ہے ۔صحیح ہے کہ قرآن کی بھت سی آیتیں دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح ہیں اور اس کی محکم آیات میں شمار ہوتی ہیںاور وہ قرآنی آیات بھی جومبھم ہیں دوسری آیتوں کے ذریعہ روشن و واضح ہو جاتی ہیں ۔(۱۶) اس کے باوجود قرآن میں ایسی آیتیں موجود ہیں جو یا نزول کے وقت سے ہی مبھم ہیں یا زمانہ وحی سے دوری کی وجہ سے مبھم ہوگئی ہیں۔ اس قسم کی آیات چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو کیسے حل کی جا سکتی ہیں؟

کیا امت کے درمیان کوئی ایسی مرکز ی شخصیت موجود نہیں ہونی چاہئے جو اس قسم کی آیات کا ابھام دور کرکے ان کی صحیح تفسیر کر سکے جن میں سے بعض کے نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام نے جب ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کے لئے روانہ کیا تو انہیں یہ حکم دیا تھا کہ :”لاتخا صمهم بالقرآن فان القرآن حمال ذو وجوه تقول و یقولون “ یعنی ان سے ہرگز قرآن سے بحث و مباحثہ نہ کرنا ،کیوں کہ قرآن کی آیاتیں کئی احتمالات اور کئی معانی رکھتی ہیں ۔تم ان سے بعض آیات سے استدلال کروگے اور وہ تمھیں بعض دوسری آیات سے جواب دیں گے۔

یہ مسلم ہے کہ امام کی یہ گفتگو قرآن کی تمام آیات سے متعلق نہیں تھی بلکہ آپ کی گفتگو ان آیات سے متعلق تھی جو دو پہلو والی ہیں ،بظاہرروشن و واضح نہیں ہیں اور ان کا مفھوم و مفاد قطعی نہیں ہے۔

اس اعتبار سے امت کے درمیان ایک امام معصوم کا وجود جو اسلام کے اصول و فروع سے پوری طرح آگاہ ہو ،قرآن کریم کے علوم پر کامل تسلط رکھتا ہو اور امت کے درمیان ایک علمی و فکری پناہگاہ ہو۔ اختلافات دور کرے اور اس کی بات فیصلہ کن ہو، لازم و ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں اختلافات بڑھتے جائیں گے بلکہ بعض احکام اور قرآنی آیات کی تفسیرغلط کی جائے گی جو مسلمانوں کے قرآنی حقائق سے دور ہو جانے کا باعث ہوگی۔

ہشام ابن حکم

ہشام ،امام جعفر صادق کے زبردست شاگرد اور دوسری صدی ہجری میں علم مناظرہ اور علم کلام کے استاد تھے انھوں نے امت کے درمیان اختلاف دور کرنے اور صحیح فیصلہ کے لئے امام کے وجود کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے کہ آپ نے ایک روز فرقہ معتزلہ کے سردار اور بصرہ کے پیشوا عمر وبن عبید سے امت کے درمیان امام معصوم کے وجود کی ضرورت پر بحث کی شروع اور اس سے درخواست کی کہ میرے سوالوں کے جواب دو ۔ عمر و بن عبید نے بھی قبول کیا۔ ہشام نے پوچھا:

تمھارے آنکھ ہے ؟

ہاں

اس سے کیا کام لیتے ہو ؟

اس سے لوگوں اور چیزوں کو دیکھتاہوں اور رنگوں کی تشخیص دیتا ہوں۔

تمھارے کان ہے؟

ہاں؟

اس سے کیا کام لیتے ہو؟

اس سے آواز سنتا ہوں ۔

تمھارے ناک ہے ؟

ہاں۔

اس سے کیا کام لیتے ہو؟

اس سے بو سونگھتا ہوں۔

اس کے بعد ہشام نے دوسرے حواس یعنی قوت ذائقہ و لامسہ اور بدن کے دوسرے اعضاء مثلا انسان کے جسم میں ھاتھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور عمر وبن عبید نے ان سب کا صحیح جواب دیا۔ پھر ہشام نے پوچھا : تمھارے دل ہے ؟ ھاں ۔انسان کے بدن میں اس کا کیا کام ہے ؟ عمرو نے جواب دیا کہ جو کچہ بدن کے تمام اعضاء و جوارح انجام دیتے ہیں قلب کے ذریعہ انہیں تشخیص دیتا ہوں ۔ اور جب بھی انسانی حواس میں سے کوئی خطا کرتا ہے یا بدن کا کوئی حصہ شک میں مبتلا ہوتا ہے تو قلب و دل کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنے شک کو دور کردیتا ہے۔

اس وقت ہشام نے اس بحث سے نتیجہ حاصل کرتے ہوئے کہا کہ جس خدا نے جسم کے حواس اور اعضا ء کی شک و تردید دور کرنے کے لئے بدن میں ایک ایسی پناہگاہ اور مرکزی چیز پیدا کی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انسانی معاشرہ کو یوں ہی اس کے حال پر جھوڑ دے اور اس کے لئے کوئی پیشوا و رہبر معین نہ کرے کہ انسانی معاشرہ اپنے شک ،حیرانی اور خطا کو اس کے ذریعہ دور کرے اور صحیح راہ اختیار کر سکے !(۱۷)

امام جعفر صادق(ع)،جانشین پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کو یوں بیان فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ایسے امام کا وجود لازم و ضروری ہے جو الٰہی احکام کو ہر طرح کی گزند اور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھے اور ان کی حفاظت کرے ۔(۱۸) ہشام ابن حکم نے ایک روز حضرت امام جعفر صادق ںکی موجودگی میں شام کے ایک عالم سے مناظرہ کیا اور اس تفصیلی مناظرہ کے دوران اس سے پوچھا کہ کیا خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کے اختلافات دور کرنے کے لئے کوئی دلیل و حجت ان کے حوالے کی ہے ؟ اس نے کھا: ھاں اور وہ دلیل و حجت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت یعنی ان کی احادیث ہیں ۔ ہشام نے پوچھا : کیا قرآن و احادیث اختلافات دور کرنے کے لئے کافی ہیں ۔اس نے جواب دیا ھاں ۔تو ہشام نے کہا اگر کافی ہیں تو پھر ہم دونوں جو ایک مذہب رکھتے ہیں اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ہیں؟ اور ہم میں سے ہر ایک نے ایسی راہ کیوں اختیار کر رکھی ہے جو دوسرے کے خلاف ہے ؟! اس پر اس شامی عالم کو خاموشی اختیار کرنے اور حقانیت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔(۱۹)

____________________

(۱۴) سورہ احقاف/۱۵

(۱۵) سورہ بقرہ /۲۳۲

(۱۶)۔ حضرت امیر المومنین علی اس قسم کی آیات کے بارے میں فرماتے ہیں :”کتاب اللہ تبصرون بہ ،وتسمعون بہ و ینطق بعضہ ببعض و یشھد بعضہ علی بعض“

(۱۷) اصول کافی ،ج/۱ص/۱۷۰

(۱۸) اصول کافی ،ج/۱ص/۱۷۲

(۱۹) اصول کافی ،ج/۱ص/۱۷۸

چھٹی فصل

خطرناک مثلث

اسلام کے تین دشمن

جس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دنیا سے رحلت فرمائی تو اسلام کے اس نوجوان وجود کو باہر اور اندر سے تین طرح کے دشمن گھیر ے ہوئے تھے اور ہر لمحہ اس کو خطرہ تھا کہ یہ تینوں طاقتیں باہم ایک ہو کرایک مثلث بنائیں اور اسلام پر حملہ آور ہوں ۔

پہلا دشمن :

داخلی دشمن یعنی مدینہ اور اس کے آس پاس کے منافقین تھے جنھوں نے کئی بار پیغمبر اکرم کی جان لینے کی کوشش کی تھیں اور جنگ تبوک سے واپسی کے وقت ایک خاص منصوبہ کے تحت جو پورے طورسے تاریخ میں ذکرہوھے،پیغمبرکرم کے اونٹ کو بھڑکاکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان لینا چاہتے تھے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان لوگوں کی سازش سے آگاہ ہو کر وہ تدبیر اپنائی کہ ان کا منصوبہ نا کام ہو گیا ۔ ساتھ ہی اسلام کی عمومی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آنحضرت نے اپنی زندگی میں ہی ان کے نام بعض خاص افراد مثلا ”حذیفہ یمانی“ کو بتا دیئے تھے۔

اسلام کے یہ دشمن جو بظاہر مسلمانوں کے لباس میں چھپے ہوئے تھے،آنحضرت کی موت کا انتظار کر رہے تھے اور در حقیقت اس آیت کو اپنے دل میں دھرا رہے تھے جسے قرآن پیغمبرکی حیات میں کافروں کی زبانی نقل کرتاہے:( انما نتربص به ریب المنون ) (۲۰) یعنی ہم اس کی موت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ فوت ہوجائے اور اس کی شھرت ختم ہوجائے۔

یہ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ ہی اسلام کی رونق ختم ہوجائے گی،اس کا پھیلاو رک جائے گا۔ کچہ لوگ یہ بھی سوچتے تھے کہ اسلام آنحضرت کے بعد کمزور پڑجائے گا اور وہ دوبارہ زمانہ جاہلیت کے عقائد کی طرف پلٹ جائےں گے۔

آنحضرت کی رحلت کے بعد ”ابوسفیان “ نے چاہا کہ قریش اور بنی ھاشم کے درمیان اختلاف پیدا کردے اور جنگ بھڑکاکر اسلامی اتحاد کے اوپر کاری ضرب لگائے اس مقصد کے پیش نظر وہ بڑے ہمدردانہ انداز میں حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوا اور ان سے بولا :اپنا ھاتھ بڑھایئے کہ میں آپ کی بیعت کروں تاکہ تمیم اور عدی قبیلوںکے لوگ آپ کی مخالفت کی جرات نہ کریں امام نے پوری ہوشیاری کے ساتھ صف اسلام میں اختلاف پیدا کرنے اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے کی اس کی شازش کو سمجہ لیا لھٰذا فورا ًٹکا سا جواب دیا اور خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تجھیز و تکفین میں مشغول ہو گئے۔(۲۱)

مسجد ضرار جو نویں ہجری میں بنائی گئی تھی اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے عمار یاسر کے ھاتھوں منھدم کی گئی تھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیات کے آخر ی دنوں میں منافقوں کی خفیہ سازشوں کا ایک نمونہ تھی اور دشمن خدا (ابن عامر) سے ان کے تعلقات کو ظاہر کرتی تھی ابن عامر وہ شخص ہے جو فتح مکہ کے بعد روم بھاگ گیا اور وھاں سے اپنے گروہ کی ہدایت و رہنمائی کیا کرتا تھا۔ ہجرت کے نویں سال جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جنگ تبوک پر جانے کے لئے مدینہ سے نکلے تو داخلی سطح پر منافقوں کے ممکنہ فساد و سازش کے خطرہ سے بھت زیادہ پریشان تھے ۔اسی لئے آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور آپ کے لئے وہ تاریخی جملہ فرمایا تھا ”انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ(۲۲) یعنی اے علی(ۡع)تم کو مجہ سے وھی نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ(ۡع)سے تھی۔اس کے بعد آپ نے ان سے تاکید کی کہ داخلی سطح پر مدینہ میں سکون و آرام برقرار رکھنے اور فتنہ و فسد کی روک تھام کے لئے مدینہ میں ہی رہو ۔

منافقوں اور ان کی خطرناک سازشوں سے متعلق بھت سی آیتیں قرآن کریم کے مختلف سوروں میں موجود ہیں اور سب کی سب اسلام سے ان کی دیرینہ عداوت کو بیان کرتی ہیں ۔ اور ابھی یہ فسادی مدینہ میں موجود ہی تھے کہ آنحضرت نے دنیا سے رحلت فرمائی۔

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قبائل عرب میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو آپ کے بعد کفر و شرک کی طرف پلٹ گئے اور ماموران زکوٰة کو باہر نکال کر انھوں نے اسلام کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا ۔یہ لوگ اگرچہ منافق نہیں تھے ،لیکن ایمان کے اعتبار سے اتنے کمزور تھے جو پت جھڑ کے پتوں کی طرح ہر رخ کی ہوا پر ادھرادھر ہی اڑنے لگتے تھے ۔اگر انہیں کفر و شرک کا ماحول مناسب لگتا تو اسلام کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کر لیتے تھے۔

ایسے خونخوار دشمنوں کے ہوتے ہوئے جو اسلام کی کمین میں بیٹھے تھے اور اسلام کے خلاف سازش و شورش میں مشغول تھے کیا یہ ممکن تھا کہ ایسے عاقل ،سمجہدار اور دور اندیش پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان ناگوار حوادث کی روک تھام کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر نہ کریں اور امت واسلام کو دشمنوں کے درمیان اس طرح حیران و سر گردان چھوڑ جائیں کہ ہر گروہ یہ کھتا نظر آئے کہ ”منا امیر منا امیر“ یعنی یہ کھے کہ امیر ہم میں سے ہونا چاہئے اور وہ کھے کہ امیر ہم میں سے ہونا چاہئے ؟!

باقی دو دشمن

اس مثلث کے بقیہ دو دشمن اس وقت کی ایران و روم کی دو بڑی طاقتیں تھیں ۔ روم کی فوج سے اسلام کی پہلی جنگ ہجرت کے آٹھویں سال فلسطین میں ہوئی جو لشکر اسلام کے بڑے بڑے سردار وں ”جعفر طیار“ ، ”زید بن حارث“اور ”عبداللہ بن رواحہ “ کے قتل اور لشکر اسلام کی انتھائی سخت شکست پر تمام ہوئی اور لشکر اسلام خالد بن ولید کی سرداری میں مدینہ واپس آیا ۔کفر کی فوج سے لشکر اسلام کی اتنی سخت شکست سے قیصر روم کے حوصلے بلند تھے اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ کھیں وہ لوگ مرکز اسلام پر حملہ نہ کریںاسی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہجرت کے نویں سال ایک بڑا لشکر جس کی تعداد تیس ھزار تھی لیکر شام کی طرف روانہ ہوئے تاکہ فوجی مشق کے علاوہ دشمن کے ممکنہ حملہ کو روک سکیں اور راہ کے بعض قبائل سے تعاون یا غیر جانبداری کا عھد و پیمان لے سکیں ۔ اس سفر میں جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو مسلسل رنج و زحمت اٹھانا پڑی آپ رومیوں سے لڑے بغیر مدینہ واپس آگئے۔

اس کامیابی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو مطمئن نہیں کیا آپ لشکر اسلام کی شکست کے جبران کی کوشش میں لگے رہے ۔اس کے لئے آپ نے اپنی بیماری سے چند روز پہلے ”اسامہ بن زید “ کو لشکر اسلام کا علم دے کر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اسامہ کی سرداری میں شام کی طرف روانہ ہوں اور اس سے پہلے کہ دشمن ان پر حملہ کرے وہ جنگ کے لئے تیار رہیں۔

یہ تمام واقعات اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)شمال یعنی روم کی طرف سے بھت نگراں تھے اور کہا کرتے تھے کہ ممکن ہے قیصر روم کی طرف سے اسلام کو سخت حملہ کا سامنا کرنا پڑے ۔

تیسرا دشمن ایران کی ساسانی شھنشاہی تھی ۔یہاں تک کہ خسرو پرویز نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا خط پھاڑ ڈالا تھا ،سفیر کو قتل کر دیا تھا اور یمن کے گونر کو لکھا تھا کہ (معاذ اللہ ) پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو قتل کرکے ان کا سر میرے پاس مدائن روانہ کرے ۔

حجازاور یمن عرصہ سے حکومت ایران کا حصہ شمار ہوتے تھے لیکن اسلام کے آنے کے بعد حجاج نہ صرف آزاد ہو گیا تھا بلکہ خود مختار ہو گیا تھا اور یہ امکانات بھی پیدا ہو گئے تھے کہ یہ محروم اور کچلی ہوئی قوم اسلام کے سایہ میں پورے ایران پر مسلط ہو جائے۔

اگر چہ خسرو پرویز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات میں گزر گیا تھا لیکن ساسانیوں کی حکومت سے یمن اور حجازکا جدا ہو جانا ان لوگوں کے لئے اتنا بڑا دھکا تھا جو خسرو کے جانشینوں کے ذھن سے دور نہیں ہو ا تھا ۔ساتھ ہی یہ بڑھتی ہوئی نئی طاقت جو ایمان و اخلاص اور فداکاری سے آراستہ تھی ان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔

ایسے طاقتور دشمنوں کے ہوتے ہوئے کیا یہ درست تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس دنیا سے چلے جائیں اور امت اسلام کے لئے اپنا کوئی فکری و سیاسی جانشین معین نہ کریں؟ ظاہر ہے کہ عقل ، ضمیر اور سماجی محاسبات ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اس طرح کی بھول ہوئی ہوگی ۔ اور انھوں نے ان تمام حادثات و مسائل کو نادیدہ قرار دیتے ہوئے اسلام کے گرد کوئی دفاعی حصار نہ بنایا ہوگا اور اپنے بعد کے لئے ایک آگاہ ،مدیر و مدبر اور جھاندیدہ رہبر معین نہ کیا ہوگا۔

____________________

(۲۰)۔سورہ طور/۳۰

(۲۱) الدرجات الرفیعہ ص/۷۷ حضرت علی ںنے اس موقع پر ابو سفیان سے اپنا وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ” ما زلت علی و الاسلام و اہلہ “ تو ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام کا دشمن رہا ہے ۔ الاستیعاب ،ج/۲ص/۶۹۰

(۲۲) یہ حدیث شیعہ و سنی دونوں ماخذ میں تواتر کے ساتھ آئی ہے