امت کی رہبری

امت کی رہبری0%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

امت کی رہبری

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17192
ڈاؤنلوڈ: 3716

تبصرے:

امت کی رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17192 / ڈاؤنلوڈ: 3716
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

بارہویں فصل

انصار اور مھاجرین کی منطق کیا تھی؟

سقیفہ کے واقعہ کے بغور مطالعہ کے بعد اب مناسب ہے کہ اس کے قابل توجہ نکات اور اسے وجود میں لانے والوں کی منطق پر غور کیا جائے ۔ اس ”جلسہ “ کے قابل توجہ نکات کا خلاصہ ذیل کے چند امور میں کیا جا سکتا ہے :

۱۔ قرآن مجید کا حکم ہے کہ مؤمن آپس میں جمع ہو کر اپنے مشکلات کی گتھیوں کو تبادلہ خیال کے ذریعہ سلجھائیں۔ اس کے اس گراں بھا حکم کا مقصد یہ ہے کہ عقلمند اور حق پسند لوگوں کی ایک جماعت ایک پر سکون جگہ پر جمع ہوں اور حقیقت پسندانہ نیز تعصب سے عاری غور و فکر کے ذریعہ زندگی کی راہ کو روشن کریں اور مسائل کو حل کریں۔

کیا سقیفہ کے جلسہ میں ایسا رنگ ڈھنگ پایا جاتا تھا؟ اور کیا حقیقت میں اسلامی معاشرے کے عقلا وھاں پر جمع ہوئے تھے کہ خلافت کی گتھی کو گفتگو کے ذریعہ حل کریں؟ یا مطلب اس کے بالکل بر عکس تھا؟

اس جلسہ میں مھاجرین میں سے صرف تین افراد حاضر تھے اور ان تین افراد نے دیگر مھاجرین کو اس امر سے مطلع نہیں کیا تھا کہ وہ یہ کام انجام دینے جارہے ہیں ۔ کیا ایسے جلسہ کو جس میں عالم اسلام کی عظیم شخصیتیں ، جیسے علی (ع)ابن ابیطالب ، سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، مقداد ، حذیفہ ، ابی بن کعب ، طلحہ و زبیر اور ان جیسی دسیوں شخصیتیں موجود نہ ہوں عالم اسلام کےلئے صلاح و مشورہ اور تبادلہ خیا کا جلسہ کہا جاسکتا ہے ؟

کیا یہ صحیح تھا کہ ایک ایسے اہم موضوع کے لئے ایک چھوٹی سی میٹینگ پر اکتفا کی جاتی جس میں چیخ و پکار اور داد و فریاد بلند کی گئی اور انصار کے امیدوار کو قدموں تلے کچل ڈالا گیا ؟! یا یہ کہ ایسے اہم موضوع کے بارے میں کئی جلسے منعقد کرنا ضروری تھا جن میں عالم اسلام کی اہم مدبر اور شائستہ شخصیتیں بیٹہ کر اس اہم مسئلہ پر صلاح مشورہ کریں اور بالآخر اتفاق نظر یا اکثریت آراء سے مسلمانوں کا خلیفہ منتخب کیا جاتا ؟

اس جلد بازی کے ساتھ حضرت ابو بکر کو خلافت کےلئے منتخب کرنا اس قدر ناپختہ اور خلاف اصول تھا کہ ، بعد میں خود حضرت عمر اس سلسلے میں کھتے تھے:

کانت بیعة ابی فلتة وقی الله شرّها فمن دعاکم الی مثلها فاقتلوه(۵۱)

”یعنی خلافت کےلئے ابو بکر کا انتخاب ایک اتفاق سے زیادہ نہیں تھا او یہ کام صلاح ومشورہ اور تبادلہ خیال کی بنیاد پر انجام نہیں پایا ، اب جو کوئی بھی تم لوگوں کو ایسے کام کی دعوت دے، اسے قتل کرڈالو“

۲۔دوسرا قابل توجہ نکتہ خود اہل سقیفہ کی منطق ہے ۔

گروہ مھاجر کا استدلال غالباً دو چیزوں کے گرد گھوم رہا تھا : ایک ان کا خدا و پیغمبر اسلا م پر ایمان لانے میں پیش قدم ہونا اور دوسرا پیغمبر اسلام سے ان کی قرابت و رشتہ داری! اگر ان کی برتری کا معیار یھی دو چیزیں تھیں تو خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کو حضرت عمر و ابو عبیدہ کا ہی سھارا نہیں لینا چاہئے تھا، کیونکہ مدینہ میں اس وقت ایسے افراد بھی موجود تھے جو ان دو افراد سے بھت پہلے دین اور توحید پر ایمان لا چکے تھے اور پیغمبر اسلام سے نزدیکی قرابت بھی رکھتے تھے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے پہلے شخص تھے اور پیدائش کے دن سے ہی آپ کے دامن مبارک میں تربیت پائے ہوئے تھے اور رشتہ داری کے لحاظ سے بھی آپ کے چچیرے بھائی اور داماد تھے ۔ اس کے باوجود کس طرح ان تین افراد نے خلافت کی گیند کو ایک دوسرے کی طرف پاس دیتے ہوئے بالآخر اسے حضرت ابو بکر کے حوالے کر دیا؟! عمر نے ابو بکر کی برتری کی توجیہ ان کی دولت مندی ،غار ثور میں رسول اللہ کی ہمراہی ، اور پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھنے کے ذریعھکی۔

دولت مند ہونے کے بارے میں کیا کہا جائے ، یہ وھی ایام جاہلیت کی منطق ہے جب دولت اور ثروت کو برتی و فضیلت کا سبب جانتے تھے ۔ مشرکین کا ایک اعتراض یھی تھا کہ یہ قرآن مجید کیوں ایک دولتمند فرد پر نازل نہیں ہوا(۵۲)

اگر رسول خدا کے ساتھ غار ثور میں ہمسفر ہونا خلافت کےلئے شائستگی اور معیار ہوسکتا ہے تو امیرالمؤمنین(ع)کو خلافت کےلئے اس سے بھی زیادہ شائستہ و حقدار ہونا چاہئے۔کیونکہ آپ(ع)شب ہجرت اپنی جان پر کھیل کر پیغمبر اسلام کے بسترہ پر سوئے تھے مفسرین کا اتفاق ہے کہ درج ذیل آیت آپ(ع)کے بارے میں نازل ہوئی ہے :

( وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَه ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰه وَاللهُرَءُ وفٌ بِالْعِباَدِ )

اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مھربان ہے ۔(۵۳)

آنحضرت کی بیماری کے دوران پیغمبر کی جگہ حضرت ابو بکر کا نماز پڑھانا ، بذات خود ایک نامشخص اور مبھم داستان ہے اور یہ بات ثابت ہی نہیں کہ وہ نماز پڑھانے میں کامیاب بھی ہوئے کہ نہیں ؟اور یہ کام پیغمبر کی اجازت سے انجام پایا تھا یا ایک من مانی حرکت تھی اور پیغمبر کی بعض بیویوں کے اشارہ پر نماز میں پیغمبر کی جانشینی پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی ؟! (اس بحث کی تفصیل آیندہ فصلوں میں ملاحظہ فرمائیں)

بھر حال اگر یھی امر امت اسلامیہ کی خلافت کی شائستگی کےلئے دلیل ہو ، تو پیغمبر بارہا مسافرت کے وقت اپنی جانشینی کی ذمہ داری من جملہ نماز کی امامت بعض افراد کو سونپتے رہے ہیں ۔ ایسے افراد کا سراغ حیات پیغمبر کی تاریخ میں ملتا ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سب جانشینوں میں سے صرف ایک آدمی ، وہ بھی صرف ایک نماز پڑھانے کی وجہ سے باقی لوگوں پر پیغمبر کی جانشینی کا حقدار بن جائے ؟

۳۔ شریعت کے اصول و فروع کا علم رکھنا ، اسلامی معاشرے کی تمام ضرورتوں سے باخبر ہونا اور گناہ و خطا سے پاک ہونا ، امامت و رسول خدا کی جانشینی کی دو بنیادی شرطیں ہیں ، جبکہ سقیفہ کے جلسہ میں اگر کسی چیز پر گفتگو نہیں ہوئی تو وہ یھی دو موضوع تھے۔

کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ یہ لوگ قومیت ، رشتہ داری اور دیگر بیھودہ معیاروں پر انحصار کرنے کے بجائے علم و دانش اور عصمت اور پاک دامنی کے موضوع کو معیار قرار دے کر اصحاب پیغمبر میں سے امت کی زعامت کےلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرتے جو دین کے اصول و فروع سے بخوبی واقف ہو اور ابتدائے زندگی سے اس لمحہ تک اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو ؟ اس طرح خود خواہی کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو مد نظر رکھا جاتا ؟

۴۔ ان دونوں گروہوں کے استدال کے طریقے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ پیغمبر کی خلافت و جانشینی سے ظاہری حکومت اور لوگوں پر فرماں روائی کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے پیغمبر اسلام کے دیگر منصبوں سے چشم پوشی کر رکھی تھی اور ان کی طرف کوئی توجہ نہیں رکھتے تھے ۔ یھی وجہ تھی کہ انصار ، افراد کی کثرت اوراپنے قبیلہ کی طاقت پر ناز کرتے ہوئے اپنے کو دوسروں پر فضیلت دیتے اور حقدار سمجھتے تھے۔

یہ صحیح ہے کہ پیغمبر اسلام مسلمانوں کے حاکم اور فرماں روا تھے ، لیکن آپ اس مقام و منزلت کے علاوہ کچھ دوسرے فضائل اور منصبوں کے بھی مالک تھے کہ مھاجر و انصار کے امیدوارں میں ان کا شائبہ تک نہیں ملتا تھا ۔ پیغمبر اسلام شریعت کی تشریح کرنے والے ، اصو ل و فروع کو بیان کرنے والے ، اور گناہ و لغزش کے مقابلے میں معصوم تھے۔ ان افراد نے پیغمبر کی جانشینی کا انتخاب کرتے وقت پیغمبر اسلام کی ان معنوی فضیلتوں کو کیسے نظر انداز کردیا جن کی وجہ سے آپ اسلامی معاشرہ میں برتر اور حکمراں قرار پائے تھے بلکہ اسے ظاہری و سیاسی حکومت کے زاویہ سے دیکھا جو عموماً دولت ، قدرت اور قبائلی قرابت کی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے ۔

اس غفلت یا تغافل کی وجہ واضح ہے ، کیونکہ اگر اسلامی خلافت کو اس زاویہ سے دیکھتے تو انہیں اپنے آپ کو خلافت سے محروم کرنے کے سوا کوئی نتیجہ نہیں ملتا۔ اس لئے کہ دین کے اصول و فروع سے ان کی آگاہی بھت محدود تھی، حتی حضرت ابو بکر کا مجوزہ امیدوار (حضرت عمر) سقیفہ کی میٹینگ سے تھوڑی ہی دیر پہلے پیغمبر اسلام کی وفات کا منکر ہوچکا تھا اور اپنے ایک دوست کی زبانی قرآن مجید کی آیت ۱# سننے کے بعد خاموش ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ حکمرانی کے دوران اور اس سے پہلے بھی ان لوگوں کی بے شمار غلطیاں اور خطائیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک ایسی حکومت کی داغ بیل ڈال سکیں جس کی بنیاد علم و دانش ، تقویٰ و پرہیزگاری ، معنوی کمالات اور عصمت پر مستحکم ہو؟!

اصحاب سقیفہ کی منطق پر امیر المؤمنین کا تجزیہ

امیر المؤمنین علیہ السلام نے سقیفہ میں موجود مھاجرین و انصار کی منطق پر یوں تنقید فرمائی :

جب ایک شخص نے امام(ع)کی خدمت میں آکر سقیفہ کا ماجرا بیان کیا کہ : مھاجر و انصار کے دو گروہ اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھ رہے تھے تو علی علیہ السلام نے فرمایا:

۱۔( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِه الرُّسُلُ افَإِنْ مَاتَ اوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اعْقَٰبِکُمْ ) (آل عمران ۱۴۴)

”تم نے انصارکوجواب کیوںنہ دیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہم سے کہا ہے کہ ہم ان کے نیک افراد کے ساتھ نیکی کریںاور ان کے خطاکاروں کی تقصیر معاف کردیں“۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے پوچھا : قریش کس اصول پر اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے ؟ اس شخص نے جواب دیا : وہ کھتے تھے ہمارا تعلق رسول خدا کے خاندان سے ہے اور ہمارا اور آپ کا قبیلہ ایک ہی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: انھوں نے درخت سے اپنے لئے استدلال کیا اور اس کے پھل اور میوہ کو ضایع و برباد کردیا ۔ اگر وہ اسی لحاظ سے خلافت کے حقدار ہیں تو وہ ایک درخت کی ٹھنیاں ہیں اور میں اس درخت کا پھل اور آنحضرت کا چچیرا بھائی ہوں ، پھرخلا فت کا حقدار میں کیوں نہیں ہوں(۵۴)

امیر المؤمنین کی خلافت کےلئے خود شائستہ ہونے کی منطق

سقیفہ کا ماجر انتھائی ناگفتہ بہ حالت میں اختتام کو پھنچا اور حضرت ابو بکر ایک فاتح کی حیثیت سے جلسہ سے باہر نکلے ، کچھ لوگ انہیں اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھے اور لوگوں سے کھتے تھے : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کی بیعت کرواور بیعت کو عمومی بنانے کےلئے لوگوں کے ھاتہ پکڑ پکڑ کر حضرت ابو بکر کے ھاتہ پر رکھتے تھے۔

ان ناگفتہ بہ حوادث کے تحت کہ یہاں پرہم ان کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں ، حضرت علی کو مسجدمیں لایا گیا تا کہ وہ بھی بیعت کریں ۔

امام علیہ السلام نے خلافت کےلئے اپنی شائستگی اور سنت رسول سے متعلق اپنے وسیع علم اور عدالت کی بنیادوں پر حکومت کرنے کی اپنی روحی توانائی و صلاحیت کے ذریعہ خلافت کےلئے اپنی لیاقت و شائستگی پر استدلال کرتے ہوئے فرمایا:

” اے گروہ مھاجر ! جس حکومت کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنیاد ڈالی ہے ، اسے آنحضرت کے خاندان سے خارج کرکے اپنے گھروں میں نہ لے جاؤ ۔ خدا کی قسم ہم اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔ ہمارے درمیان ایسے افراد موجود ہیں جو قرآن مجید کے مفاہیم کا مکمل علم رکھتے ہیں ۔ دین کے اصول اور فروع کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے اچھی طرح آگاہ ہیں ، اور اسلامی سماج کو بخوبی ادارہ کرسکتے ہیں ۔ برائیوں کی روک تھام کرسکتے ہیں اور غنائم کو عادلانہ تقسیم کرسکتے ہیں ۔

جب تک معاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں دوسروں کی باری نہیں آتی ، ایسا شخص خاندان نبوت سے باہر کھیں نہیں مل سکتا ۔ خبردار ! ہویٰ و ہوس کے غلام نہ بنو کیونکہ اس طرح راہ خدا سے بھٹک جاؤ گے اور حق و حقیقت سے دور ہوجاؤ گے !(۵۵)

شیعہ روایات کے مطابق ، امیر المؤمنین بنی ھاشم کے ایک گروہ کے ہمراہ حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور خلافت کے لئے مذکورہ صورت میں قرآن و سنت سے متعلق اپنے علم ، اسلام میں سبقت اور جھاد میں ثابت قدمی ، بیان میں فصاحت و بلاغت ، شھامت اور شجاعت کو دلائل کے طور پر پیش کرکے اپنی شائستگی کو ثابت کیا اور فرمایا :

” میں پیغمبر اسلام کی حیات اور آپ کی وفات کے بعد منصب خلافت کا مستحق اور سزاوار ہوں ، میں اسرار کا خزانہ اور علوم کا مخزن ہوں ۔ میں صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہوں ۔

میں پہلا شخص ہوں جو پیغمبر پر ایمان لایا اس راہ میں آپ کی تصدیق کی ۔ میں مشرکین کے ساتھ جنگ و جھاد کے دوران سب سے زیادہ ثابت قدم ، کتاب و سنت کےعلم سے سب سے زیادہ آگاہ ، دین کے اصول و فروع سے سب سے زیادہ واقف ، بیان میں سب سے زیادہ فصیح اور ناخوشگوار حالات میں سب سے زیادقوی اور بھادر فرد ہوں ، تم لوگ اس وراثت میں میرے ساتھ جنگ و جدال پر کیوں اتر آئے ہو ۔(۵۶)

اسی طرح امیر المؤمنین اپنے ایک خطبہ میں خلافت کا حقدار ایسے شخص کو سمجھتے ہیں جو امت میں حکومت چلانے کےلئے سب سے بھادر حکم الٰہی کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو :

”ایھا الناس انّ احق الناس بھذا الامر اقواہم علیہ و اعلمھم بامر الله فیہ فان شغب شاغب استعتب فان بی قوتل “(۵۷)

یعنی اے لوگو! حکومت کےلئے سب سے شائستہ فرد وہ ہے جو ، سماج کا نظام چلانے میں سب سے زیادہ طاقت ور اور حکم الھی کو جاننے میں سب سے زیادہ عالم ہو۔ اگر کوئی شخص فساد کو ہوا دے اور وہ حق کے سامنے تسلیم نہ ہو تو اس کی تنبیہ کی جائے گی اور اگر اپنی غلطی کو جاری رکھے تو قتل کیا جائے گا- ۔

یہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی منطق نہیں ہے بلکہ آپ(ع)کے بعض مخالفین بھی جب بیدار ضمیر کے ساتھ بات کرتے ہیں تو خلافت کےلئے حضرت علی(ع)کی شائستگی کا اعتراف کرتے ہیں کہ آپ کا حق چھین لیا گیا ۔

جب ابو عبیدہ جراح حضرت ابو بکر کی بیعت سے حضرت علی علیہ السلام کے انکار کے بارے میں آگاہ ہوئے تو امام علیہ السلام کی طرف رخ کرکے بولے :

” حکمرانی کو ابو بکر کےلئے چھوڑ دیجئے ، اگر آپ زندہ رہے اور طولانی عمر آپ کو نصیب ہوئی تو آپ حکمرانی کےلئے سب سے شائستہ ہیں کیونکہ آپ کی فضیلت ، قوی ایمان ، وسیع علم ، حقیقت پسندی ، اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی اور پیغمبر اسلام کے ساتھ آپ کی قرابت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے(۵۸)

____________________

۵۱۔سیرہ ابن ہشام ، ج۴، ۳۰۸۔ ارشاد شیخ مفید ، ص ۲۶۰

۵۲۔(لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا القُرْء انُ عَلٰی رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ ) (زخرف / ۳۱) و نیز رجوع کریں اسراء /۹۰ ۔۹۱)

۵۳۔ بقرہ / ۲۰۷۔

۵۴۔ ”احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة “(نھج البلاغہ خطبہ ۶۴)

۵۵۔الله الله یا معشر المهاجرین لا تخربوا سلطان محمّد فی العرب عن داره و قعر بیته الی دورکم و قعور بیوتکم و لا تدعوا اهله عن مقامه فی الناس و حقّه ، فو الله یا معشر المهاجرین لنحن احق الناس به ، لانا اهل البیت و نحن احقّ بهذا الامر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله، الفقیه فی دین الله ، العالم بسنن الله، المضطلع بامر الرعیة ، المدافع عنهم الامور السیئّة القسم بینهم با لسویة، و الله انّه لفینا ، فلا تتبعو الهوی فتضلوا عن سبیل الله فتزدادوا من الحقّ بعداً “ (الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ، ج۱ ، ص ۱۲ ، احتجاج طبرسی ، ج۱ ، ص ۹۶)

۵۶۔انا اولی برسول الله حیاً و میّتاً و انا وصیّه و وزیره و مستودع سرّه و علمه ، و انا الصّدیق الاکبر و الفاروق الاعظم، اوّل من آمن به و صدّقه ، واحسنکم بلاءً فی جهاد المشرکین، و اعرفکم بالکتاب و السنة ، افقهکم فی الدین و اعلمکم بعواقب الامور و اذر بکم لساناً و اثبتکم جناناً فعلام تنازعو فی هذا الامر (احتجاج طبرسی ، ج ۱۲ ، ص ۹۵)

۵۷۔ نھج البلاغہ، عبدہ ، خطبہ ۱۶۸۔

۵۸۔لامامة و السیاسة، ج ۱ ص ۱۲

تیرہویں فصل

نماز کی امامت ، خلافت کےلئے دلیل نہیں !

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت کی قیادت کا موضوع گزشتہ چودہ صدیوں سے عقائد اور مذاہب کے علماء اور دانشوروں کے درمیان مسلسل مورد بحث قرار پاتا رہا ہے ، لیکن آج تک ایک محقق بھی ایسا پیدا نہیں ہوا جو یہ توجیہ کرے کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اسلام کی نص کے مطابق عمل میں آئی ہے اور یہ کھے کہ پیغمبر خدا صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں اپنی حیات میں لوگوں کو وصیت کی تھی۔

حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں سنی علماء کے تمام دلائل مھاجرین و انصار کی بیعت اور خلافت پر اتفاق نظر تک محدود ہیں اور یہ امر کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اکرم کی نص کے مطابق نہیں تھی ، یہ بات خود سقیفہ میں حضرت ابو بکر اور ان کے ہمفکروں کے بیانات سے بالکل ظاہر اور واضح ہوجاتی ہے ۔ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں پیغمبر کی طرف سے کوئی نص موجود ہوتی تو وہ خود سقیفہ میں حضرت عمر اور ابو عبیدہ کا ھاتہ پکڑ کر ہر گز یہ نہ کھتے کہ : ” قد رضیت لکم ھذین الرجلین “ میں ان دو افراد کو خلافت کےلئے صالح اور شائستہ جانتا ہوں اور ان دونوں کے انتخاب پرراضی ہوں۔

اس کے علاوہ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے سلسلے میں کوئی الٰہی نص موجود ہوتی ، تو سقیفہ میں قریش کی پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم سے قرابت اور ان کی اسلام میں سبقت کے ذریعہ استدلال نہیں کیا جاتا اور ان کے دوست و ہم فکر کبھی حضرت ابو بکر کے پیغمبر کے ساتھ غار ثور میں ہم سفر ہونے اور نماز میں پیغمبر کی جانشینی جیسے مسائل سے اپنے استدلال کو تقویت نہ بخشتے۔

خود حضرت ابو بکر نے سقیفہ کے دن انصار کے امیدوار کی تنقید کرتے ہوئے کھا:

ان العرب لا تعرف هذا الامر الّا القریش اوسط العرب داراً و نسباً “، عرب معاشرہ قریش کے علاوہ __جو حسب و نسب کے لحاظ سے دوسروں پر برتری رکھتے ہیں __کسی کو خلافت کےلئے شائستہ نہیں جانتا ۔

اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے حق میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک لفظ بھی بیان ہوا ہوتا تو ان کمزور دلائل سے استدلال کرنے کے بجائے اس کا سھارا لیکر خود حضرت ابو بکر کھتے : اے لوگو! پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فلاں سال اور فلاں روز مجھے مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ کے طور پر منتخب کیا ہے۔

یہ کیسے کہا جاسکتا کہ حضرت ابو بکر کی خلافت کو پیغمبر نے معین فرمایا ہے جب کہ وہ خود بیماری کی حالت میں تمنا کرتے تھے، کہ کاش میں نے پیغمبر اسلام سےیہ پوچہ لیا ہوتا کہ ”امت کی قیادت“ کا حقدار کون ہے؟

عالم اسلام کے مشھور مؤرخ ، طبری اس واقعہ کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” جب ابو بکر بیمار ہوئے اور قریش کا ایک معروف سرمایہ دار عبد الرحمان بن عوف ان کی عیادت کیلئے آیا تومقدماتی گفتگو کے بعد ابو بکر نے انتھائی افسوس کے ساتھ لوگوں کی طرف رخ کرکے کھا:

میری تکلیف کی پہلی وجہ وہ تین چیزیں ہیں جن کو میں نے انجام دیا ہے ، کاش میں نے انہیں انجام نہ دیا ہوتا ! اور تین چیزیں اور ہیں کہ کا ش میں نے ان کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا ہوتا ۔

وہ تین چیزں جنہیں کاش میں نے انجام نہ دیا ہوتا حسب ذیل ہیں :

۱۔ کاش فاطمہ کا گھر نہ کھلوایا ہوتا چاہے جنگ و جدال کی نوبت آجاتی ۔

۲۔ کاش میں نے سقیفہ کے دن خلافت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہ لی ہوتی اور اسے عمر یا ابو عبیدہ کے سپرد کرکے خود وزیر و مشیر کے عھدہ پر رہتا ۔

۳۔ کاش ایاس بن عبد الله کو جو راہزنی کرتا تھا ، آگ میں جلانے کے بجائے تلوار سے قتل کرتا۔

اور وہ تین چیزیں جن کے بارے میں کاش میں نے پیغمبر اکرم سے پوچہ لیاہوتا یہ ہیں :

۱۔ کاش میں نے پوچہ لیا ہوتا کہ خلافت و قیادت کا حقدار کون ہے ؟ اور خلافت کا لباس کس کے بدن کے مطابق ہے؟

۲۔ کاش میں سوال کرلیا ہوتا کہ کیا اس سلسلے میں انصار کا کوئی حق بنتا ہے؟

۳ کاش میں نے پھوپھی اور بھن کی بیٹی کی میراث کے بارے میں پیغمبر اسلام سے دریافت کرلیا ہوتا!(۵۹)

نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی

اہل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے دوران نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی کے موضوع کو بڑی شدو مد سے نقل کیاہے اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کھنا چاہا کہ جب پیغمبر نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ہوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ہونا چاہئے جو ایک دنیوی امر ہے ۔

جواب :یہ استدلال کئی جھتوں سے قابل رد ہے :

۱۔ تاریخی لحاظ سے کسی بھی صورت میں ثابت نہیں ہے کہ نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی پیغمبر کی اجازت سے انجام پائی ہو ۔ بعید نہیں ہے کہ انھوں نے خود یا کسی کے اشارہ پر یہ کام انجام دیا ہو۔ اس امر کی تائید اس واقعہ سے ہوتی ہے کہ حضرت ابو بکر نے ایک بار اور پیغمبر کی اجازت کے بغیر آپ کی جگہ کھڑے ہوکر نماز کی امامت خود شروع کردی تھی ۔

اہل سنت کے مشھور محدث امام بخاری اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں : ایک دن پیغمبر قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی طرف گئے تھے ۔ نماز کا وقت ہوگیا ابو بکر پیغمبر کی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور نماز کی امامت شروع کردی جب پیغمبر مسجد میں پھنچے اور دیکھا کہ نماز شروع ہوچکی ہے تو نمازکی صفوں کو چیرتے ہوئے محراب تک پھنچ گئے اور نماز کی امامت خود سنبھال لی اور ابو بکر پیچھے ھٹ کر بعد والی صف میں کھڑے ہوئے۔(۶۰)

۲۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر کے حکم سے آپ کی جگہ پر نماز پڑھائی ہوگی تو نماز میں امامت کرنا ہرگز حکومت اور خلافت جیسی انتھائی اہم ذمہ داری کی صلاحیت کےلئے دلیل نہیں بن سکتا ۔

نماز کی امامت کےلئے قرائت کے صحیح ہونے اور احکام نماز جاننے کے علاوہ کوئی اور چیز معتبر نہیں ہے (اور اہل سنت علماء کی نظر میں عدالت تک کی شرط نہیں ہے ) لیکن خلافت اسلامیہ کے حاکم کےلئے سنگین شرائط ہیں جن میں سے کسی ایک شرط کو نماز کی امامت کےلئے ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے ،جیسے : اصول اور فروع دین پر مکمل دسترس اور کامل آگاہی رکھنا۔

احکام اور حدود الٰہی کے تحت مسلمانوں کے امور کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھنا ۔

گناہ اور خطا سے مبرّا ہونا

اس استدلال سے پتا چلتا ہے کہ استدلال کرنے والے نے امامت کے منصب کو ایک معمولی منصب تصور کرلیا ہے اور اس سے پیغمبر کی جانشینی کوایکعام حکمرانی کے سوا کچھ اور نہیں سمجھا ہے اسی لئے وہ کھتا ہے کہ : جب پیغمبر نے ابو بکر کو دینی امر کےلئے منتخب کرلیا تو لازم اور ضروری ہے کہ ہم ان کی خلافت پر اور بھی زیادہ راضی ہوں ، جو ایک دنیوی امر ہے۔

اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھنے والے نے اسلامی حکمرانی سے وھی معنی مراد لیا ہے جو دنیا کے عام حکمرانوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے ۔ جبکہ پیغمبر کا خلیفہ ظاہری حکومت اور مملکت کے امور کو چلانے کے علاو کچھ ایسے معنوی منصبوں اور اختیارات کا بھی مالک ہوتا ہے جو عام حکمراں میں نہیں پائے جاتے اور ہم اس سلسلے میں اس سے پہلے مختصر طور پر بحث کرچکے ہیں۔

۳۔ اگر نماز کیلئے حضرت ابو بکر کی امامت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے انجام پائی تھی ، تو پیغمبر اکرم بخار اور ضعف کی حالت میں ایک ھاتہ کو حضرت علی(ع)کے شانے پر اور دوسرے ھاتہ کو ” فضل بن عباس “ کے شانے پر رکہ کر مسجد میں کیوں داخل ہوئے اور حضرت ابو بکر کے آگے کھڑے ہوکر نماز کیوں پڑھائی؟ پیغمبر کا یہ عمل امامت کےلئے حضرت ابو بکر کے تعین سے میل نہیں کھاتا۔اگر چہ اہل سنت علماء نماز میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرکت کی اس طرح توجیہ کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر اکرم کی اقتداء کی اور لوگوں نے ابو بکر کی اقتداء کی ۔ اسی صورت میں نما زپڑھی گئی(۶۱)

واضح ہے کہ یہ توجیہ بھت بعید اور ناقابل قبول ہے ، کیونکہ اگر یھی مقصود تھا تو کیا ضرورت تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس ضعف و بخار کی حالت میں اپنے چچیرے بھائیوں کا سھارا لیکر مسجد میں تشریف لا تے اور نماز کےلئے کھڑے ہوتے؟ بلکہ اس واقعہ کا صحیح تجزیہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی اس کاروائی سے حضرت ابو بکر کی امامت کو توڑ کر خود امامت کرنا چاہتے تھے۔

۴۔ بعض روایتوں سے پتا چلتا کہ کہ نماز کےلئے حضرت ابو بکر کی امامت ایک سے زیادہ بار واقع ہوئی ہے اور ان سب کا پیغمبر کی اجازت سے ثابت کرنا بھت مشکل اور دشوار ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے اپنے بیماری کے آغاز میں ہی اسامہ بن زید کے ھاتہ میں پرچم دیکر سب کو رومیوں سے جنگ پر جانے اور مدینہ ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا ۔ اور لوگوں کے جانے پر اس قدر مصر تھے کہ مکرر فرماتے تھے :

جهّزو جیش اسامة “اسامہ کے لشکر کو تیار کرو۔

اورجو افراد اسامہ کے لشکر میں شامل ہونے سے انکار کررہے تھے ، آپ ان پر لعنت بھیج کر خدا کی رحمت سے محروم ہونے کی دعا فرماتے تھے(۶۲)

ان حالات میں پیغمبر ابوبکر کو امامت کے فرائض انجام دینے کی اجازت کیسے دیتے ؟!

۵۔ مؤرخین اور محدثین نے اقرار کیا ہے کہ جس وقت حضرت ابو بکر نماز کی امامت کرنا چاہتے تھے ، پیغمبر اکرم نے حضرت عائشہ ، ابو بکر کی بیٹی سے فرمایا:”فانّکنّ صواحب یوسف“” تم مصر کی عورتوں کے مانند ہو جنھوں نے یوسف(ع)کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا“اب دیکھنا چاہئے کہ اس جملہ کا مفھوم کیا ہے، اور اس سے پیغمبر کا مقصد کیا تھا؟

یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ پیغمبر اکرم کی تنبیہ کے باوجود اسی طرح خیانت کی مرتکب ہوئی تھیں ، جس طرح مصر کی عورتیں خیانت کی مرتکب ہوئیں تھی اور زلیخا کو عزیز مصر سے خیانت کرنے پر آمادہ کرتی تھیں۔

جس خیانت کے بارے میں یہاں پر تصور کیا جاسکتا ہے ، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضرت عائشہ نے پیغمبر اکرم کی اجازت کے بغیر اپنے باپ کو پیغام بھیجا تھا کہ پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھائیں۔

اہل سنت کے علماء ، پیغمبر اسلام کے اس جملہ کی دوسرے انداز میں تفسیر کرتے ہیں اور کھتے ہیں :

پیغمبر اصرار فرماتے تھے کہ حضرت ابو بکر آپ کی جگہ پر نماز پڑھائیں ، لیکن حضرت عائشہ راضی نہیں تھیں ، کیونکہ وہ کھتی تھیں کہ لوگ اس عمل کو فال بد تصور کریں گے اور حضرت ابو بکر کی نما زمیں امامت کو پیغمبر کی موت سے تعبیر کریں گے اور حضرت ابو بکر کو پیغمبر کی موت کا پیغام لانے والا تصور کریں گے “

کیا یہ توجیہ پیغمبر اسلام کے عمل (مسجد میں حاضر ہوکر امامت کو سنبھالنے ) سے میل کھاتی ہے؟!!

یہاں پر میں اپنی بات تمام کرتے ہوئے اس قضیہ کی صحیح نتیجہ گیری کا فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتا ہوں۔

____________________

۵۹۔ تاریخ طبری ،ج۳ ، ص ۲۳۴ ۔

۶۰۔ صحیح بخاری ج ۲، ص ۲۵۔

۶۱۔ صحیح بخاری ، ج ۲، ص ۲۲۔

۶۲۔ شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید ، ج ۶، ص ۵۲ ، نقل از : کتاب السقیفہ ، تالیف ابو بکر احمد بن عبد العزیز جوھری۔