پندرہویں فصل
اسلامی احکام سے خلفاء کا ناآشنا ہونا
گزشتہ گفتگو سے یہ پوری طرح ثابت ہوا کہ ایک مکمل مذہبی قیادت کےلئے دین کے اصول و فروع سے متعلق وسیع علم اور اسلامی معاشرہ کی ضرورتوں سے مکمل آگاہی ضروری ہے اور اس طرح کی مکمل آگاہی کے بغیر مذہبی قیادت ممکن نہیں ہے ۔
کیونکہ بشر کی تخلیق کا مقصد یھی ہے کہ وہ شریعت الٰہی پر عمل کرتے ہوئے اور ارتقاء و کمال تک پھنچنے اورپیغمبروں کے بھیجے جانے اور شرعی وقوانین کے نفاذ کا مقصد بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان کو گمراہیوں سے بچا لیا جائے اور اسے کمالات و فضائل کی طرف رہنمائی کی جائے۔ الٰہی قوانین پر عمل کرتے ہوئے ترقی کی منزلیں طے کرنا اس صورت میں ممکن ہے جب الٰہی فرائض و احکام بندوں کی دسترس میں ہوں تا کہ کمال کی راہ طے کرنے والوں کےلئے کوئی عذرو بھانہ باقی نہ رہے یا ان کی راہ سے رکاوٹیں دور کی جائیں۔
تمام احکام تک رسائی حاصل کرنے کےلئے شرط ہے کہ پیغمبر کے بعد لوگوں میں کوئی ایسا شخص موجود ہو جو سماج کی دینی ضرورتوں سے پوری طرح آگاہ ہو۔ تا کہ لوگوں کو ارتقاء و کمال کا راستہ اور صراط مستقیم دکھائے اور تخلیق کے مقاصد کو صحیح ثابت کرنے میں ذرا بھی غفلت سے کام نہ لے ۔
خلفائے ثلاثہ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان خصوصیات کا حامل نہ تھا اور احکام و لوگوں کی دینی ضروریات کے بار ے میں ان کے معلومات بھت ضعیف تھے۔
قرآن مجید کے بعد اسلامی معاشرہ کو ارتقاء بخشنے کا واحد راستہ سنن و احادیث پیغمبر سے آگاہی ہے کہ ان کا اعتبار اور حجیت تمام مسلمانوں کی نظر میں مسلّم ہے ۔ قرآن مجید نے بھی بھت سی آیات میں سنّت اور احادیث پیغمبر پر عمل کو ضروری قرار دیا ہے مثال کے طور پر درج ذیل آیہ شریفہ ملاحظہ ہو:
(
مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوه وَ مَا نَهَاکُمْ عَنْه فَانْتَهُوا
)
” جو رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ“
لیکن مذکورہ خلفاء اسلامی احکام کے بارے میں کوئی نمایاں آگاہی نہیں رکھتے تھے اور ان ناقص اور معمولی معلومات کے ذریعہ انسانی قافلہ کو ہرگز کمال کی منزل تک نہیں پھنچایا جاسکتا ہے ، جس کےلئے خود اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونا لازم ہے۔
احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں جو روایتیں حضرت ابو بکر سے نقل کی ہیں ان کی کل تعداد ۸۰ احادیث سے زیادہ نہیں ہے
جلال الدین سیوطی نے انتھائی کوشش کرکے ان کی تعداد ۱۰۴ تک پھنچائی ہے
سر انجام حضرت ابوبکر سے نقل کی گئی روایتوں کی آخری تعداد ۱۴۲ بتائی گئی ہے
ان میں سے بھی بعض روایتیں نہیں ہیں بلکہ یہ باتیں ہیں جو ان سے نقل کی گئی ہیں مثلا ایک حدیث جو ان سے نقل کی گئی ہے اور انھی ۱۴۲ احادیث میں شمار ہوتی ہے یہ جملہ ہے :
”ان رسول اللّٰه اهدی جملاً لابی جهل
“
یعنی پیغمبر نے ابو جھل کو ایک اونٹ ھدیہ کے طور پر دیا “
اس کے علاوہ ان سے نقل کی گئی کئی احادیث قرآن مجید اور عقل کے منافی ہیں مثلاً درج ذیل دو حدیثیں ملاحظہ ہوں:
۱۔ ”ان المیت ینضح علیہ حمیم ببکاء الحی “
یعنی ، زندہ لوگوں کے رونے سے مردے پر گرم پانی ڈالا جاتا ہے ۔
واضح ہے کہ اس حدیث کا مضمون چند لحاظ سے مردود ہے :
اولاً: میت پر معقول رونا ، انسانی جذبات کی علامت ہے اور پیغمبر اکرم نے اپنے بیٹے حضرت ابراہیم (ع)کے سوگ میں شدت سے آنسو بھائے تھے اور فرماتے تھے :
” پیارے ابراہیم ! ہم تیرے لئے کچھ نہیں کرسکتے ، تقدیر الٰہی ٹالی نہیں جاسکتی ، تیری موت پر تیرے باپ کی آنکھیں اشک بار ہیں اور اس کا دل محزون ہے ، لیکن میں ہرگز ایسی بات زبان پر جاری نہیں کروں گا قھر خدا کا سبب بنے ۔
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ”جنگ مؤتہ “ میں ” جعفر ابن ابو طالب “ کی شھادت کی خبر سے آگاہ ہوئے ، تو آپ اس قدر روئے کہ آپ کی ریش مبارک پر آنسو جاری ہوگئے تھے
دوسرے یہ کہ ہم فرض بھی کرلیں کہ اس قسم کا رونا صحیح نہ ہوگا، تو آخر کسی ایک کے عمل سے دوسرا کیوں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔ قرآن مجید فرماتا ہے :
(
وَ لاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وَزْرَ اُخْرَیٰ
)
اور کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجہ نہ اٹھائے گا ۔
پھر ابو بکر کے نقل کے مطابق پیغمبر اکرم نے یہ کیسے فرما دیا کہ کسی کے رونے سے ، ایک بے بس مردہ عذاب میں مبتلا ہوگا؟!
۲۔ ”انما حرّ جھنمّ علی امتی مثل الحمّام“
یعنی ، میری امت کےلئے جھنم کی گرمی حمام کی گرمی کے مانند ہے۔
یہ بیان گناہگاروں کے گستاخ ہونے کا سبب بننے کے علاوہ ، جھنم کے بارے میں قرآن مجید میں بیان شدہ نصوص کے بالکل خلاف ہے ۔ جیسے ” وقودھا الناس و الحجارة “ اس کا ایندھن پتھر اور انسان ہیں اور اس آگ کے کوہ پیکر شعلے بیدار دلوں کو پگھلادیتے ہیں
بھر حال جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ، جو احادیث حضرت ابو بکر سے نقل ہوئی ہیں وہ یا ان کے معمولی بیانات ہیں یا وہ چیزیںھیں جو عقل و قرآن مجید سے ٹکراؤ رکھتی ہیں ۔ اور جسے حدیث کا نام دیا جائے ان میں بھت کم ملتی ہے۔
ظاہر ہے کہ ایسا شخص ، ان ضعیف اور ناچیز معلومات کے ساتھ اسلامی معاشرے کو ارتقا اور کمال کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتا اور امت کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا ۔
خلیفہ ، خود اپنے ایک بیان میں اپنی معلومات سے پردہ اٹھاتے ہوئے کھتے ہیں :
”انّی ولیت و لست بخیرکم و ان رایتمونی علی الحق فاعینونی و ان رایتمونی علی الباطل فسدونی
اے لوگو ! تمھارے امور کی باگ ڈور میرے ھاتہ میں دیدی گئی ہے ، جبکہ میں تم میں سے بھترین فرد نہیں ہوں ، اگر تم لوگ مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر مجھے باطل پر دیکھو تو میری مخالفت کرو اور مجھے اس کام سے روکو“
دین و مذہب کے قائد کو جس کے نقش قدم پر اسلامی معاشرے کو چلنا ہے دینی مسائل میں امت سے مدد کا محتاج نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ دینی قائد بجائے اس کے کہ امت کو تخلیق کے مقصد کی طرف راہنمائی کرے اپنی غلطیاں اور گمراہیاں سدھارنے کےلئے امت سے مدد مانگے ۔
خلیفہ اول کی لاعلمی کے چند نمونے
یہاں پر ہم خلیفہ کے معلومات سے متعلق چند نمونے پیش کرتے ہیں جو بذات خود دینی مسائل کے بارے میں ان کے معلومات کی سطح کے گواہ ہیں ۔ یہ نمونے اس امر کی حکایت کرتے ہیں کہ وہ بھت سے روز مرہ کے مسائل کے جواب سے بھی ناواقف تھے:
۱۔ ”دادی“ کی وراثت کا مسئلہ عام مسائل میں سے ہے خلیفہ اس کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے تھے ۔ ایک عورت کا پوتا فوت ہوگیا تھا اور اس نے اس سلسلے میں ان سے حکم خدا پوچھا ، انھوں نے جواب دیا کہ : کتاب خدا اور پیغمبر کے ارشادات میں اس بارے میں کچھ بیان نہیں ہوا ہے ۔ اس کے بعد اس عورت سے کھا: تم جاؤ ، میں رسول خدا کے صحابیوں سے پوچھوں گا کہ کیا انھوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس سلسلے میں کچھ سنا ہے ؟! مغیرة بن شعبہ جو اسی مجلس میں موجود تھا ، اس نے کہا : میں پیغمبر خدا کی خدمت میں تھا، آپ نے دادی کےلئے میرا ث میں سے ۳/۱ حصہ مقرر فرمایاتھا ۔
خلیفہ کی لاعلمی زیادہ تعجب خیز نہیں ہے بلکہ تعجب اس بات پر ہے کہ اس نے مغیرہ جیسے آلودہ اور بد کردار شخص سے حکم الھی سیکھا ۔
۲۔ ایک ایسا چور خلیفہ کے پاس لایا گیا جس کا ایک ھاتہ اور ایک پاؤں کاٹا جاچکا تھا ، انھوں نے حکم دیا اس کا پاؤں کاٹ دیا جائے ، خلیفہ دوم نے اشارہ کیا کہ ایسے موقع پر سنت پیغمبر یہ ہے کہ ھاتہ کاٹا جائے ، اس پرخلیفہ نے اپنا نظریہ بدل دیا اور خلیفہ دوم کے نظریہ کی پیروی کی
ان دونمونوں سے فقہ اسلامی کے بارے میں خلیفہ کی معلومات کے کمی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے اور واضح ہے کہ اس قدر معلومات کے فقدان اور مغیرہ جیسے افراد سے رجوع کرنے والے شخص کے ھاتھوں میں معاشرے کی معنوی قیادت کی باگ ڈور ہرگز نہیں دی جاسکتی ہے جس کی بنیادی شرط اسلامی احکام سے متعلق وسیع معلومات کا حامل ہونا ہے۔
خلیفہ دوم کی معلومات کا معیار
حضرت عمر نے جن احادیث کو پیغمبر سے نقل کیا ہے ان کی تعداد پچاس سے زیادہ نہیں ہے ۔ درج ذیل داستان خلیفہ دوم کے فقھی معلومات کی سطح کی صاف گواہ ہے :
۱۔ ایک شخص نے حضرت عمر کے پاس آکر ان سے دریافت کیا: مجنب ہوں اور پانی تک رسائی نہیں حاصل کرسکا۔ ایسے میں میرا فریضہ کیا ہے ؟
حضرت عمر نے جواب دیا: تم سے نماز ساقط ہے ، خوشبختی سے ” عمار “ اس جگہ موجود تھے انھوںنے خلیفہ کی طرف رخ کرکے کھا: یاد ہے کہ ایک جنگ میں ہم دونوں مجنب ہوئے تھے اور پانی نہ ہونے کی وجہ سے ، میں نے مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھی تھی ، لیکن تم نے نماز نہیں پڑھی تھی ؟ جب پیغمبر سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کافی تھا اپنے ھاتھوں کو زمین پر مارکر چھرے پر ملتے یعنی تیمم کرتے ۔
خلیفہ نے عمار کی طرف رخ کرکے کھا: خدا سے ڈرو ؟ (یعنی اب اس بات کو بیان نہ کرنا )
عمار نے کھا: اگر آپ نہیں چاہتے تو میں اس واقعہ کو کھیں بیان نہیں کروں گا
یہ واقعہ اہل سنت کی کتابوں میں مختلف صورتوں میں نقل ہوا ہے اور یہ تمام صورتیںاس امر کی حکایت کرتی ہیں کہ خلیفہ دوم مجنب کے بارے میں جس کے پاس پانی نہ تھا حکم الٰہی سے بے خبر تھے۔
قرآن مجید نے دو سوروں
میں ایسے شخص کا فریضہ بیان کیا ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ دو آیتیں خلیفہ کے کانوں تک نہیں پھنچی تھیں !
ایسا شخص جو بارہ سال تک کوشش کے بعد صرف سورہ بقرہ یاد کر سکے اور اس کے شکرانہ کے طور پر قربانی کرے
، بھلا وہ کس طرح ان آیات تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ہے ؟!
۲۔ شکیات نماز کے احکام ایسے احکام ہیں جن کی ہر مسلمان کو ضرورت ہوتی ہے ، بھت کم ایسے متدین افراد پیدا ہوں گے جو ان احکام سے آشنائی نہ رکھتے ہوں اب ذرا دیکھئے کہ اس سلسلے میں خلیفہ کی معلومات کس سطح کی تھی ؟
ابن عباس کھتے ہیں : ایک دن حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا: اگر ایک شخص اپنی نماز کی تعداد کے بارے میں شک کرے تو اس کا فریضہ کیا ہے ؟ میں نے خلیفہ کو جواب دیا کہ : میں بھی اس مسئلہ کے حکم سے واقف نہیں ہوں ، اسی اثنا میں عبد الرحمان بن عوف آئے اور انھوں نے اس سلسلے میں رسول خدا کی ایک حدیث بیان کی
شاید اس سلسلے میں ابن عباس کاجواب سنجیدہ نہ تھا ، اور اگر رہا بھی ہو تو بھی خلیفہ کی ایسے موضوع کے سلسلہ میں نا آگاہی واقعاً حیرت انگیزھے !!
۳۔مستحب ہے کہ عورتوں کا مھر چار سو دینار سے زیادہ نہ ہو ، حتی حدیث کی اصطلاح میں فقھا اسے ” مھر السنة“ کھتے ہیں ، لیکن اس کے باوجو د ہر فرد اپنی شریک حیات کی رضا مندی حاصل کرنے کےلئے اس سے زیادہ مھر مقرر کرسکتا ہے۔
ایک دن خلیفہ نے منبر سے مَھر زیادہ ہونے کے خلاف تنقید کی اور اس مخالفت کا اس حد تک اظھار کیا کہ اعلان کردیا کہ مھر کی زیادتی منع ہے ۔ جب خلیفہ منبر سے نیچے اترے تو ایک عورت نے سامنے آکر ان سے سوال کیا : آپ نے عورتوں کے مھر میں اضافہ پر پابندی کیوں لگا دی ، کیا خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ نہیں فرمایا ہے :
(
وَ آتَیْتُمْ اِحْدیٰهُنَّ قِنطَاراً
)
اگر عورتوں میں سے ایک کو زیادہ مال دیدیا ہے تو حرج نہیں ہے “
اس وقت خلیفہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور بارگاہ الٰہی میں رخ کرکے کہا : ” خدا یا ! مجھے بخش دے اور اس کے بعد کھا: تمام لوگ احکام الٰہی کے بارے میں عمر سے زیادہ واقف ہیں
اس کے بعد دوبارہ منبر پر جا کر اپنی بات کی تردید کردی
۴۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو یہ نہ جانتا ہو کہ الٰہی فرائض کی انجام دھی کےلئے عقل ، طاقت اور بلوغ شرط ہے ۔ اس کے باوجود ، حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں ایک پاگل عورت کو بد۰ کاری کے جرم میں خلیفہ کے حضور میں لایا گیا اور انھوں نے حکم صادر کردیا کہ اسے سنگسار کیا جائے ۔ خوشبختی سے جب مامور اسے سنگسار کرنے کےلئے لے جارہے تھے ،حضرت علی(ع)سے ملاقات ہوگئی ۔ امام جب حقیقت سے آگا ہ ہوئے تو انہیں واپس لوٹنے کا حکم دیا ۔ جب خلفیہ کے پاس پھنچے تو ان کی طرف رخ کرکے فرمایا: کیا تمھیں یاد نہیں ہے پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے : نابالغ ، پاگل اور پر سے فرائض معاف کردیے گئے ہیں ؟
اس پر حضرت عمر نے ایک تکبیر کھی اور اپنا حکم واپس لے لیا ۔
اس قسم کے ناحق فیصلے خلیفہ دوم کی زندگی کی تاریخ میں بھت ملتے ہیں ۔ مرحوم علامہ امینی نے الغدیر کی چھٹی جلد میں احکام اسلام کے بارے میں خلیفہ کی نا آگاہی کے سو واقعات مستند حوالوں کے ساتھ ذکر کئے ہیں اور ان کا نام ” نوادر الاثر فی علم عمر “ رکھا ہے ۔
ان امور کے جائزہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کی قیادت ہرگز ایسے فرد کے ھاتھوں میں نہیں دی جا سکتی ہے جو کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کے سلسلے میں اتنا بھی نہیں جانتا ہو کہ دیوانہ اور پاگل پر کوئی فریضہ عائد نہیں ہوتا۔
کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ لوگوں کی ناموس اور اسلامی سماج کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ھاتھوں میں دے دی جائے جو عاقل اور دیوانہ میں فرق نہ کرسکتا ہو؟
کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ خدائے عادل لوگوں کی جان و مال کو ایک ایسے شخص کے سپرد کردے جو یہ بھی نہ جانتا ہو کہ عورت چہ ماہ میں بچے کو جنم دے سکتی ہے اور ایسی عورت پر بدکاری کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی اور نہ اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا جا سکتا ہے ؟
خلیفہ سوم کے معلومات کا معیار
الٰہی احکام کے بارے میں تیسرے خلیفہ کے معلومات بھی گزشتہ دو خلفاء سے زیادہ نہیں تھے ۔ ان کے ذریعہ پیغمبر سے نقل کی گئی احادیث کی کل تعداد ۱۴۶ سے زیادہ نہیں ہے
اسلام کے اصول و فروع کے سلسلے میں حضرت عثمان کی آگاہی بھت کم اور ناچیز تھی قارئین کرام کی آگاہی کےلئے اسلامی تعلیمات سے ان کی بے خبری کے سلسلہ میں صرف ایک اشارہ پر اکتفا کی جاتی ہے :
اسلام کے واضح احکام میں سے ایک حکم یہ ہے کہ مسلمان اور کافر کا خون برابر نہیں ہے اور پیغمبر اسلام نے اس سلسلے میں فرمایا ہے :
”لا یقتل مسلم بکافرٍ
“
کافر کو قتل کرنے پر مسلمان کو قتل نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ قاتل دیت ادا کرے گا ۔
لیکن افسوس ہے کہ خلیفہ سوم کی خلافت کے دوران جب ایک ایسا واقعہ پیش آیا تو خلیفہ نے قاتل کو قتل کرنے کا حکم صادر کردیا پھر بعض اصحاب رسول کی یاد دھانی پر اپنے حکم کو بد لا
خلیفہ سوم کی زندگی میں ایسے بھت سے نمونے ملتے ہیں ۔ بیان کو مختصر کرنے کیلئے ہم ان کی تفصیلات سے صرف نظر کرتے ہیں اور ایک بار پھر بحث کے نتیجہ کی طرف آتے ہیں:
امت اسلامیہ کی مذہبی قیادت کےلئے الٰہی احکام سے متعلق وسیع علم اور معلومات کا مالک ہونا شرط ہے اور ایسا علم عصمت یعنی گناہوں سے محفوظ رہے بغیر ممکن نہیں ہے اور افسوس ہے کہ پہلے تینوں خلفاء اس لطف الٰہی سے محروم تھے۔
____________________