آداب معاشرت

آداب معاشرت33%

آداب معاشرت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 108

آداب معاشرت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 108 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59484 / ڈاؤنلوڈ: 4559
سائز سائز سائز
آداب معاشرت

آداب معاشرت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تدوين : اسلامى تحقيقاتى مركز

ترجمہ: معارف اسلام پبلشرز

نشر: نور مطاف

سنہ اشاعت: شعبان المعظم ۱۴۲۴ ھ_ق

چاپ: دوم

تعداد: ۲۰۰۰

Web : www.maaref-foundation.com

E-mail: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۳

بسم الله الرحمن الرحيم

و صلى الله على سيدنا و مولى نا ابى القاسم

محمد و على اهل بيته الطاهرين و لعنة الله

على اعدائهم اجمعين

قال امير المؤمنين عليه السلام : من اصلح ما بينه و بين الله اصلح الله ما بينه و بين الناس و من اصلح امر آخرته اصلح الله له دنياه

۴

پيش لفظ:

موجودہ دور ميں بشر كے انفرادى اور اجتماعى روابط بظاہر بہت حسين ، خوب صورت و پرلطف دكھائي ديتے ہيں اور بظاہر ايسا لگتاہے كہ معاشرے ميں زندگى كے صحيح اصول اور آداب و رسوم موجود ہيں ليكن كبھى كبھى يہ روابط حسرت كا باعث اور انسانوں كو اس مدينہ فاضلہ كى ياد دلاتے ہيں جس كا ان سے وعدہ كيا گيا ہے _ اگر چہ آج كا انسان مادى وسائل اور اجتماعى آسائشے و رفاہ كے اعتبار سے توقع سے زيادہ اپنى آرزؤں اور اميدوں كو پاچكاہے اور ان تك رسائي حاصل كرچكاہے ليكن اس جذاب اور پرفريب ظاہر كوچھوڑ كر اگر اس كى حقيقى اور باطنى زندگى كى طرف چند قدم آگے بڑھ كر ديكھيں تو ايك عظيم اور ہولناك حالت كا مشاہدہ كريں گے جو بدترين قسم كے انفرادى اور اجتماعى روابط كى عكاس ہے_

۵

يہ نكتہ قابل توجہ ہے كہ معنوى تلخى اور پستى و زبوں حالى كا اصل سبب انسان كى مادى كاميابياں نہيں بلكہ اس غم انگيز اور افسوس ناك صورت حال اور انسانوں كے اجتماعى آداب و رسومات كے آلودہ اور مريض ہونے كى علت ان كا آسمانى و آفاقى اعلى اسلامى اقدار سے دورى اختيار كرناہے_

يہ كتاب جو دوسرى بار طبع كى جارہى ہے ، ان بعض معاشرتى آداب كى بيانگر ہے جنہيں اسلام كى نگاہ ميں اجتماعى امنيت كے فراہم كرنے اور ايك اچھى اور دلپذير زندگى كو حاصل كرنے كيلئے اپنانا ضرورى ہے_

مؤسسہ معارف اسلامى خداوند متعال كا شكر گزار ہے كہ اس نے يہ توفيق عنايت فرمائي كہ اپنى اصل ذمہ دارى يعنى اسلامى معارف اور ثقافت كى نشر و اشاعت، كو پورا كرتے ہوئے اس كتاب كو نظر ثانى كے ساتھ دوسرى مرتبہ طبع كررہے ہيں _

آخر ميں ہم خداوند متعال سے دعا كرتے ہيں كہ مركز تحقيقات اسلامى كے محترم محققين_ جنہوں نے اس مفيد اثر كى تدوين ميں زحمت فرمائي اور ان محترم مترجمين كہ جنہوں نے ترجمہ اور تصحيح ميں زحمت فرمائي_ كو اجر وافر عنايت فرمائے اورہم سب كو اپنے فضل و كرم سے امام زمانہ(عج) كے انصار و اعوان ميں سے قرار دے _

معارف اسلام پبلشرز

۱۵ شعبان المعظم ۱۴۲۴

۶

پہلا سبق:

اخلاق حسنہ

۱)_'' حسن خلق'' كا معني:

''حُسن خلق '' يعنى ''پسنديدہ اور اچھى عادت''، چنانچہ اس شخص كو ''خوش اخلاق'' كہا جاتا ہے كہ اچھى عادتيں اُس كى ذات و فطرت كا جزو بن چكى ہوں اور وہ دوسروں كے ساتھ كھلے چہرے اور اچھے انداز كے ساتھ پيش آنے كے ساتھ ساتھ پسنديدہ ميل جول ركھے_ امام جعفر صادق عليه السلام نے حسن خلق كى تشريح كرتے ہوئے فرمايا :

''تُلين جانبك' وتطيّبُ كلامك وتلقى ا خاك ببشر: حَسَن :''_

''تم اپنى ملاقات كے انداز ميںنرمى پيدا كرو' اپنى گفتگو كو شائستہ بنائو اور اپنے بھائي سے خندہ پيشانى سے ملو''(۱)

عام طور پر اخلاق و حديث كى كتابوں ميں حسن خلق سے يہى معنى مراد ليا جاتاہے_

____________________

۱_ اصول كافى _ ج ۳ ، ص ۱۶۲، (ايمان و كفر :حُسن بشر)_بحارالانوار ج ۷۱ ، ص ۳۸۹(مطبوعة اسلامية)

۷

اسلام ميں اخلاق حسنہ كا مقام:

اسلام ہميشہ اپنى پيروكاروں كو دوسروں كے ساتھ نرمى اور خوش مزاجى سے پيش آنے كى طرف دعوت ديناہے، اسلام نے خوش اخلاق انسان كى اہميت كو صرف مسلمانوں تك محدود نہيں ركھا ہے بلكہ اگر غير مسلمان بھى اس نيك صفت كا حامل ہوں تو وہ بھى اس كے فوائد كو پاسكتاہے_ جيسا كہ تاريخ ميں بيان ہوا ہے كہ : آنحضور (ص) نے حضرت امام على عليه السلام كوايسے تين افراد كے ساتھ جنگ كرنے كا حكم ديا جو آپ (ص) كو شہيد كرنے كى سازش ميں متحد ہوچكے تھے، امام على عليه السلام نے ان ميں سے ايك كوقتل كيا اور باقى دو كو قيدى بنا كر آپ (ص) كے سامنے پيش كيا _ آنحضرت (ص) نے پہلے انہيں دين مبين اسلام كى طرف دعوت دي، ليكن انہوں نے اسے قبول كرنے سے انكار كيا ، پھر آپ (ص) نے قتل كى سازش كے جرم پر ان كے خلاف قتل كا حكم جارى فرمايا ، اسى دوران آپ (ص) پر جبرئيل (ع) نازل ہوئے اور عرض كى : ''اللہ تعالى فرماتا ہے كہ ان دونوں ميں سے ايك شخص كو معاف كريں كيونكہ وہ خوش اخلاق اور سخاوتمند ہے'' _ آپ (ص) نے بھى اس شخص كو معاف فرمايا، جب اس شخص كو معلوم ہو اكہ اللہ تعالى نے اسے ان دو نيك صفات كى خاطر معاف فرمايا ہے تو اس نے اسلام كو تہ دل سے قبول كرليا_ پھر آپ (ص) نے اس شخص كے بارے ميں فرمايا :

'' ان لوگوں ميں سے ہے جو خوش اخلاق اور سخاوتمند ہونے كى بناء پر جنت كا مستحق ہوے''(۱)

اسلامى مقدس نظر يہ ميں حسن خلق كا معنى كبھى يہ نہيں كہ اگر كسى نے كوئي غلط اور ناپسند يدہ فعل انجام ديا تو اس كے سامنے خاموش ہوجائيں يا ہنس ديں بلكہ ايسے موقع پر

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۷۱، ص ۳۹۰

۸

اس بات پر تاكيد كى گئي ہے كہ اس فعل كے خلاف مناسب رد عمل كا اظہار كرنا چاہئے' اگرچہ چند افراد كى ناراضگى كا سبب بن جائے _ كيونكہ ہميں اس وقت تك دوسروں كو ناراض نہيں كرنا چاہئے، جب تك اسلامى احكام اور اس كے اصول كى پامالى نہ ہوپائے_

۲)_معصومين (ع) كے ارشادات:

رسول خدا (ص) اور ا ئمہ معصومين عليہم اسلام اخلاق حسنہ كى اعلى ترين مثاليں ہيں اور يہ بے مثال ''حُسن خلق ''ان كے كردار اور گفتار سے عياں تھا_ ان ہى عظےم شخصيتوں كے ارشادات كى روشنى ميں ہم ''حُسن خلق'' كے اعلى درجہ پر فائز ہوسكتے ہيں_ چنانچہ ہم يہاں اُن كے ارشادات سے چند نمونے پيش كررہے ہيں تاكہ وہ ہمارى زندگى كے لئے مشعل راہ بن جائيں : رسول خدا (ص) نے صحابہ كو مخاطب كركے فرمايا :

''كيا ميں تمہيں وہ چيز نہ بتائوں كہ اخلاق كے لحاظ سے تم ميں سے كون مجھ سے زيادہ مشابہ ہے؟ صحابہ نے عرض كى : ''اے اللہ كے رسول (ص) ضرور بتايئے_'' تو آپ (ص) نے فرمايا :

''جس كا اخلاق بہت اچھا ہے''(۱)

آپ (ص) ہى كا ارشاد گرامى ہے:

''خوش نصيب ہے وہ شخص جو لوگوں سے خوش خلقى سے ملتا ہے ' ان كى مدد كرتا ہے اور اپنى برائي سے انہيں محفوظ ركھتا ہے''(۲)

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم ) ج۲، ص ۸۴يا تحف العقول ص۴۸

۲_ تُحف العقول ، ص۲۸

۹

امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:

''خداوند عالم نے اپنے ايك پيغمبر كو مخاطب كركے فرمايا :

''خوش خلقى گناہوں كو اُسى طرح ختم كرديتى ہے جس طرح سورج برف كو پگھلاديتا ہے''(۱)

آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے:

''بے شك بندہ اپنے حسن اخلاق سے دن كو روزہ ركھنے والے اور رات كو نماز قائم كرنے والے كا درجہ حاصل كرليتا ہے''(۲)

۳)_اخلاق معصومين (ع) كے چند نمونے:

ہمارے معصوم رہبروں (ع) نے جس طرح ''اخلاق حسنہ'' كے بارے ميں نہايت ہى سبق آموز ارشادات فرمائے ہيں ' اسى طرح دوست اور دشمن كے سامنے نيك اخلاق كے بہترين على نمونے بھى پيش كئے ہيں; ملاحظہ كيجئے:

۱_انس (پيغمبر اكرم (ص) كے خادم) سے مروى ہے كہ : ميں نے رسالت مآب (ص) كى نوسال تك خدمت كى 'ليكن اس طويل عرصے ميںحضور (ص) نے مجھے حتى ايك بار بھى يہ نہيں فرمايا: ''تم نے ايسا كيوں كيا؟'' _ ميرے كسى كام ميں كبھى كوئي نقص نہيں نكالا، ميں نے اس مدت ميں آنحضرت (ص) كى خوشبو سے بڑھ كر كوئي اور خوشبو نہيں سونگھي، ايك دن ايك باديہ نشين (ديہاتي) آيا اور آنحضرت (ص) كى عبا كو اتنى زور سے كھينچا كہ عبا كے نشان آپ (ص) كى گردن پر ظاہر

____________________

۱_ تحف العقول _ ص ۲۸_ بحارالانوار ج ۷۱، ص ۳۸۳

۲_ وسائل الشيعہ ج۸، ص ۵۶_ تحف العقول ص ۴۸

۱۰

ہوگئے_ اس كا اصرار تھا كہ حضور اكرم (ص) اسے كوئي چيز عطا فرمائيں_ رسالتمآب (ص) نے بڑى نرمى اور مہربانى سے اُسے ديكھا اور مسكراتے ہوئے فرمايا:

''اسے كوئي چيز دے دو''_

چنانچہ خداوند عالم نے يہ آيت نازل فرمائي:

( انّك لَعلى خُلق: عظيم ) (۱)

''بے شك آپ اخلاق (حسنہ) كے اعلى درجہ پر فائز ہيں''_

۲_حضرت امام زين العابدين _ كے قريبى افراد ميں سے ايك شخص آپ (ع) كے پاس آيا اور بُرا بھلا كہنے لگا ' ليكن آپ (ع) خاموش رہے ، جب وہ شخص چلا گيا تو امام (ع) نے حاضرين كو مخاطب كركے فرمايا:

''آپ لوگوں نے سن ليا ہوگا كہ اس شخص نے مجھ سے كيا كہا ہے اب ميں چاہتا ہوں كہ آپ ميرے ساتھ چليں اور ميرا جواب بھى سن ليں''_

امام عليه السلام راستے ميں اس آيت كى تلاوت فرماتے جارہے تھے:

''( و الكاظمين الغيظ والعافين عن الناس والله يحب المحسنين ) ''(۲) ''جو لوگ غصے كو پى جاتے ہيں اور لوگوں كو معاف اور درگذر كرديتے ہيں اوراللہ تعالى ايسے احسان كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے''_

ساتھيوں نے سمجھ ليا كہ امام (ع) آيت عفو كى تلاوت فرما رہے ہيں، لہذا اسے كوئي تكليف نہيں پہنچائيں گے ،جب اس كے گھر پہنچے تو امام (ع) نے اس كے خادم سے فرمايا

____________________

۱_منتہى الآمال، ج ا ، ص ۳۱_ سورہ قلم ، آيت ۴

۲ _ سورہ آل عمران آيت ۱۳۴

۱۱

كہ اپنے مالك سے كہدو كہ على ابن الحسين عليه السلام تمہيں بلا رہے ہيں_

جب اس شخص نے سنا كہ امام (ع) فوراً ہى اس كے پاس آئے ہيں تو اس نے دل ميں كہا كہ يقينا حضرت (ع) مجھے ميرے كئے كى سزا ديں گے اور اس كا انتقام ليں گے_ چنانچہ اس نے يہ سوچ كر خود كو مقابلہ كے لئے تيار كرليا، ليكن جب باہر آيا تو امام (ع) نے فرمايا :

''ميرے عزيز تم نے اب سے كچھ دير پہلے ميرے متعلق كچھ باتيں كہى تھيں ' اگر يہ باتيں مجھ ميں پائي جاتى ہيں تو خدا مجھے معاف كرے' اور اگر ميں اُن سے پاك اور بَرى ہوں تو خدا تمہيں معاف كرے''_

اُس شخص نے جب يہ سنا تو بہت شرمندہ ہوا ' امام (ع) كى پيشانى پر بوسہ ديا اور معافى مانگنے لگا اور عرض كى :''ميں نے جو كچھ كہا ' غلط كہا' بے شك آپ (ع) ايسى باتوں سے پاك ہيں'ہاں ' ميرے اندر يہ باتيں موجود ہيں ''(۱)

۴)_ حسن خلق كے ثمرات و فوائد:

الف: ... دُنيوى فوائد:

۱_دوستانہ تعلقات مضبوط ہوتے ہيں_

چنانچہ حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں:

____________________

۱_منتہى الآمال، ج۳ ، ص ۵_ مطبوعہ انتشارات جاويدان

۱۲

''حُسن خلق يُثبت المَوَدَّةَ'' (۱)

'' حسن خلق، دوستى اور محبت كو مستحكم كرتا ہے''_

۲_اس سے زمين آباد اور عمريں طولانى ہوتى ہيں_

چنانچہ حضرت امام جعفر صادق _ فرماتے ہيں:

'' انّ البرَّ و حُسن َ الخلق يَعمر ان الدّيارَ و يزيدان فى الاعمار''(۲)

''نيكى اور اچھے اخلاق سے زمينيں آباد اور عمريں طولانى ہوتى ہيں''_

۳_رزق و روزى ميں بركت پيدا ہوتى ہے_

امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:

''حُسن الخلق منَ الدين و ہو يزيدُ فى الّرزق:''(۳)

''حسن خلق دين كا جزو ہے اور روزى ميں اضافہ كا سبب ہے''_

۴_عزّت اور بزرگى كا موجب بنتا ہے_

چنانچہ حضرت اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں:

''كَم من وَضيع: رَفَعہ حُسن خُلقہ''(۴)

''كتنے ہى پست لوگ ايسے ہيں كہ جنہيںاُن كے نيك اخلاق نے بلند كيا ''_

____________________

۱_ تحف العقول، ص ۳۸_ بحارالانوار ج ۷۱، ص ۱۵۰

۲_ اصول كافى ، ج ۳، ص ۱۵۷ _ بحارالانوار ج ۷۱، ص ۳۹۵

۳_ تحف العقول ، ص۳۷(۳) ۴_ شرح غررالحكم، ج ۷، ص ۹۴_

۱۳

۵_كينہ پرورى اور كدورتوں كو دو ر كرتا ہے _

رسالتمآب (ص) كا ارشاد ہے:

''خندہ پيشانى اور كشادہ روئي كينوں كو دور كرديتى ہے''(۱)

ب: ...اُخروى فوائد:

۱_''حُسن خُلق'' كے سبب قيامت كے دن حساب ميں آسانى ہوگى _

حضرت اميرالمومنين على عليه السلام فرماتے ہيں :

''صلہ رحمى كرو كہ يہ تمہارى عمر كو بڑھائے گا ' اپنے اخلاق كو اچھا بنائو كہ خدا تمہارا حساب آسان كرے گا ''(۲)

۲_جنت ميں جانے كا موجب بنتا ہے _

حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :

''ميرى امت ' تقوى اور حسن اخلاق جيسى صفت كے زيادہ ہونے كى وجہ سے جنت ميں جائےگي''(۳)

۳_بلند درجات كا سبب قرار پاتا ہے_

چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) كا ارشاد ہے:

''بے شك حسن اخلاق كى وجہ سے بندہ آخرت كے بلند درجات اور اعلى

____________________

۱_تحف العقول، ص ۳(۸ ) ۲ _ بحارالانوار ج ۷۱، ص ۳۳(۸ ) ۳_اصول كافى ، ج ۲، ص ۱۰۰_ مستدرك الوسايل ج ۲، ص ۸(۲ )

۱۴

مراتب تك جا پہنچتا ہے، اسكا حسن خلق اسكى عبادت كو چار چاند لگا ديتاہے(۱)

۵)_بدخلقي:

بدخُلقي' حُسن خُلق كى متضاد ہے_ جس قدر حُسن خُلق لائق تحسين اور قابل ستائشے ہے ' بدخلقى اسى قدر قابل مذمت اور قابل تنفر ہے_

اسلام نے جہاں اخلاق حسنہ كى بے حد تعريف كى ہے وہاں بدخُلقى كو نفرت كى نگاہ سے ديكھاہے _

رسول اكرم (ص) فرماتے ہيں :

''خَصلَتان لاَ تَجتَمعان فى مسلم:' اَلبُخلُ و سُوئُ الخلق'' (۲)

''كسى مسلمان ميں دو خصلتيں جمع نہيں ہوسكتيں' كنجوسى اور بداخلاقي''_

حضرت على عليه السلام اس بُرى خصلت كو ذلّت اور پستى كى علامت قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''منَ اللوَّم سُوء الخُلق'' (۳)

''بداخلاقى ايك لعنت وپستى ہے ''_

دوسرى جگہ اسے جہالت اور نادانى كا نتيجہ قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''الخلق المذموم من ثمار الجهل'' _

''بدخلقى جہالت كے ثمر ات ميں سے ہے''_

____________________

۱_ اصول كافى ، ج ۳، ص ۱۵(۷) ۲_ ميزان الحكمہ، ج ۳، ص ۱۵۳

۳_ شرح غررالحكم ، ج ۷، ص ۹۵

۱۵

۶_بداخلاقى كا انجام:

بداخلاقى كا انجام بہت برا ہوتا ہے نمونے كے طور پر ملاحظہ فرمائيں :

الف_ انسان كو خدا كے قرب سے دور كرديتى ہے _

جيسا كہ امام محمد باقر عليه السلام كا ارشاد ہے:

''عُبُوس الوجه: وسوئُ البشر مكسَبَة لّلمقت وبعد من الله ''(۱)

''تُرش روئي اور بدخلقى خدا كى ناراضگى اور اس سے دورى كى سبب ہے''_

ب_ بداخلاقى انسان كى روح كو دكھ پہنچاتى ہے_

جيسا كہ حضرت امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں :

''مَن ساء خلقه عذب نفسه'' (۲)

''جو شخص بد اخلاق ہوتا ہے وہ خود ہى كو عذاب ميں مبتلا ركھتا ہے''_

ج_ نيك اعمال كو تباہ وبرباد كرديتى ہے_

رسول خدا (ص) فرماتے ہيں:

''الخلق ُ السَّي يُفسد العمل كَما يُفسد الخَلُّ العَسَل'' (۳)

''بد اخلاقى ' انسان كے عمل كو ايسے ہى تباہ كرديتى ہے جس طرح سركہ شہد كو تباہ كرديتاہے''_

د_ توبہ كے قبول ہونے ميں ركاوٹ بنتى ہے_

جيسا كہ آنحضرت (ص) كا ارشاد ہے:

____________________

۱_تحف العقول ، ص ۲۹(۶) ۲ _ بحارالانوار ، ج۷۸، ص ۲۴(۶) ۳_ميزان الحكمة، ج ۳، ص ۱۵(۲ )

۱۶

''خداوند عالم بداخلاق شخص كى توبہ كوقبول نہيں كرتا''_

لوگوں نے پوچھا: ''يا رسول اللہ (ص) ايسا كيوں ہے؟'' فرمايا :

''اس لئے كہ جب انسان كسى گناہ سے توبہ كرتا ہے ' تو پھر اس سے بڑے گناہ كا مرتكب ہوجاتا ہے''(۱)

ھ_ رزق كو كم كرديتى ہے_

اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں :

''مَن سَآء خلقه ضاقَ رزقه'' (۲) ''بداخلاقى روزى كو كم كرديتى ہے''_

و_ انسان كو جہنمى بناديتى ہے_

جيسا كہ رسول خدا (ص) كى خدمت ميںجب عرض كيا گيا كہ فلاں شخص دن كو روزہ ركھتا ہے' اور رات كو عبادت ميں گزار ديتا ہے' ليكن بداخلاق ہے اور ہمسايوں كو ستاتا ہے ' تو آنحضرت (ص) نے فرمايا :

''اس شخص ميں كوئي اچھائي نہيں' وہ جہنمى ہے''(۳)

____________________

۱_ بحارالانوار ، ج ۷۳، ص ۲۹۹

۲_ميزان الحكمة، ج ۳، ص ۱۵۵

۳ _ ميزان الحكمة ، ج ۳، ص ۱۵۴

۱۷

دوسرا سبق:

نظم و ضبط

۱)_اسلام ميں نظم و ضبط كى اہميت

۲)_نجى زندگى ميں اس كى اہميت

الف) صفائي

ب)ستھرائي

۳)_ معاشرتى زندگى ميں اس كى اہميت

۴)_عہدپيمان ميں اس كى اہميت

۵)_عبادات ميں اس كى اہميت

۶)_اخراجات ميں اس كى اہميت

۷)_محاذ جنگ اور عسكرى امور ميں اس كى اہميت

۱۸

خدا نے ہر ايك چيز كونظم كى بنيا دپر خلق فرمايا ہي، اس بھرى كائنات ميں ہر چيز كا اپنا ايك مقام ہے اور اس كى مخصوص ذمہ دارى ہي_

بقول ايك شاعر كے :

جہان چون خدوخال وچشم وابروست

كہ ہر چيزى بہ جاى خويش نيكوست

يعنى يہ كائنات شكل وصورت اور چشم وابرو كى مانند ہي' جس كى ہر ايك چيز اپنى اپنى جگہ پر نہايت ہى مناسب اور موزوں ہي_

۱_اسلام ميں نظم وضبط كى اہميت:

خدائے عالم وقادر نے اپنى پورى كائنات ميں محيّر العقول نظم كو جارى وسارى فرمايا ہے اور اس بات كو پسند كرتا ہے كہ بنى نوع انسان بھى اپنى نجى اور معاشرتى زندگى ميں نظم وضبط پيدا كريں_

۱۹

اس نے آسمانى مذاہب كے ذريعے خصوصاً دين اسلام كے ذريعہ نظم وضبط كى اہميت بيان فرمائي ہے اور اس كى پابندى كا حكم ديا ہي_

ہم يہاں نظم وضبط سے متعلق كچھ اسلامى احكام بيان كرتے ہيں، اميد ہے كہ قارئين احكام الہى كو پيش نظر ركھ كر اپنى زندگى كو پورى طرح سنوار نے كى كوشش كريں گي_

۲_نجى اور فردى زندگى ميں نظم وضبط كى اہميت:

كسى مسلمان كى فردى زندگى ميں نظم وضبط كا تعلق' صحت وصفائي، لباس كى وضع و قطع ' سر اور چہرے كى اصلاح ' بالوں كو سنوارنا اور مسواك وغيرہ كرنے سے ہوتا ہي_

اختصار كے ساتھ ہم يہاں ان امور سے متعلق گفتگو كريں گي:

الف:___صفائي:

لباس ' بدن اور زندگى كے دوسرے امور ميںپاكيزگى اور صفائي كے حوالے سے اسلام نے بہت زور ديا ہے _ چنانچہ رسالتمآب (ص) كا ارشاد ہي:

''خداوند عالم پاك و پاكيزہ ہے اور پاكيزگى ' طہارت اور صفائي كو دوست ركھتا ہي''(۱)

____________________

۱_ ميزان الحكمة ، ج ۱۰، ص ۹۲

۲۰

دوسرى جگہ فرمايا :

''جہاں تك ہوسكے اور جيسے بھى بن پڑي' پاك و پاكيزہ رہو كيونكہ اللہ تعالى نے اسلام كى بنياد صفائي پر ركھى ہي' اور جنت ميں سوائے صاف ستھرے شخص كے كوئي اور نہيں جا سكے گا''(۱)

امام رضا _ فرماتے ہيں:

''پاكيزگى كا شمار انبياء (ع) كے اخلا ق ميںہوتا ہي''(۲)

ب:___ سنوارنا:

سر' بدن ' لباس اور جوتوں وغيرہ كو آراستہ اور صاف ركھنا' اسلام كا ايك اخلاقى دستور ہے _ اس كا تعلق ايك پكّے اور سچے مومن كى نجى زندگى كے نظم وضبط سے ہي_

اسلامى تعليمات كى رو سے ايك مسلمان كو اپنى وضع و قطع ميں پاكيزگى كا خيال ركھنے كے علاوہ اپنے لباس اور جسمانى وضع و قطع كو بھى سنوارنا چاہئي_ بالوں ميں كنگھى ' دانتوں كى صفائي ' اور وقار اور ادب سے چلنا چاہئے _

ايك دن حضور سرور كائنات (ص) نے ايك بكھرے بالوں والے شخص كو ديكھا تو فرمايا :

''تمہيں كوئي چيز نہيں ملتى تھى كہ بالوں كوسنوار ليتي''(۳)

عباد بن كثير نے ' جو ايك ريا كار زاہد تھا اور كھردرا لباس پہنا كرتا تھا ' ايك دن

____________________

۱_ ميزان الحكمة ، ج ۱۰، ص ۹۲

۲_ بحارالانوار ، ج۷۸، ص ۳۳۵

۳_ ميزان الحكمة، ج ۱۰، ص ۹۲

۲۱

اس نے حضرت امام جعفر صادق عليه السلام پر اعتراض كيا كہ :

''آپ (ع) كے دو جد امجد ''حضرت رسول خدا (ص) اور اميرالمومنين عليه السلام '' تو كھردرا لباس پہنا كرتے تھي''_

تو امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمايا :

'' وائے ہو تم پر كيا تم نے قرآن مجيد كى وہ آيت نہيں پڑھى جس ميں خداوند عالم نے اپنے پيغمبر (ص) كو حكم ديا ہے كہ :

( قُل مَن حَرَمَ زينة الله التى اخرج لعباده والطيّبات من الرزق'' ) (۱)

''اے پيغمبر (ص) ان لوگوں سے پوچھئے كہ خدا كى زينت اور حلال رزق وروزى كو كہ جو اس نے اپنے بندوں كے واسطے بنايا ہے ' كس نے حرام كرديا ہي؟''_

وہ شخص اپنے اس فضول اعتراض پر نادم ہوا او رسرجھكا كر چلاگيا(۲)

آيت :( خُذوا زينتكم عند كلّ مسجد'' ) _''ہر سجدہ كرنے كے وقت زينت كرليا كرو''،اس آيت كى تفسير ميں حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمايا :

''ان زينتوں ميں سے ايك زينت ' نماز كے وقت بالوں ميںكنگھى كرنا ہي''_(۳)

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام دانتوں كى صفائي كے بارے ميں فرماتے ہيں:

''من اخلاق الانبياء (عليهم السلام)السَّواك ''(۴)

____________________

۱_سورہ اعراف ، آيت ۳۲

۲ _ فروع كافي، ج ۶، ص ۴۴۴ سے مفہوم حديث

۳_ فروع كافي، ج ۶، ص ۴۸۹

۴_ اصول كافى ج۶ ص ۴۵۹

۲۲

''مسواك كرنا اخلاق انبياء ميں شامل ہي''_

حضرت على عليه السلام نے مناسب جوتا پہننے كے بارے ميں فرمايا :

''اچھا جوتا پہننا اور بدن كى حفاظت و طہارت نماز كے لئے مددگار ہونے كا ايك ذريعہ ہي''(۱)

رسول خدا (ص) جب بھى گھر سے مسجد يا مسلمانوں كے اجتماع ميں تشريف لے جانا چاہتے تھے تو آئينہ ديكھتي' ريش اور بالوں كو سنوارتي' لباس كو ٹھيك كرتے اور عطر لگايا كرتے تھي' اور فرمايا كرتے تھے :

''خداوند عالم اس بات كو پسند فرماتا ہے كہ جب اس كا كوئي بندہ اپنے دينى بھائيوں كى ملاقات كے لئے گھر سے باہر نكلے تو خود كو بناسنوار كر باہر نكلي''(۲)

لہذا اگر اس حساب سے ديكھاجائے تو پريشان حالت' آلودگى اور بدنظمى دين اسلام كى مقدس نگاہوں ميں نہايت ہى قابل مذمت او رموجب نفرت ہے ' اور رسول خدا (ص) كے ايك پيروكار مسلمان سے يہى توقع ركھى جانى چاہئے كہ وہ ہميشہ بن سنور كر رہے گا اور خود كو معطر اور پاك وپاكيزہ ركھے گا_

۳_ معاشرتى زندگى ميں اس كى اہميت:

سماجى امور اور دوسرے لوگوں كے ساتھ تعلقات قائم ركھنے كے لئے انسان كى كاميابى كا راز اس بات ميںمضمر ہے كہ وہ ايك مقرَّرہ ومرتَّبہ پروگرام كے تحت وقت

____________________

۱_ فروع كافي، ج ۶ _ ص ۴۶۲

۲ _ مكارم اخلاق ، ص ۳۵_

۲۳

سے صحيح فائدہ اٹھائے ' چاہے اس پروگرام كا تعلق اس كے كاموں سے ہو' جيسے مطالعہ كرنا اور كسى جگہ آنا جانا يا كسى سے ملاقات كيلئے جانا، بدنظمى اور بے ترتيبى سے وقت ضائع ہوتا ہے جبكہ ترتيب ونظم وضبط سے انسانى كوششوں كا اچھا نتيجہ نكلتا ہي_

امور زندگى اور كاروبار ميں نظم وضبط كى اس قدر اہميت ہے كہ حضرت اميرالمومنين عليه السلام نے اپنى آخرى وصيت ميں كہ جو بستر شہادت پر ارشاد فرمائي ' اس بات پر زور ديا اور حسنين (ع) سے مخاطب ہوكر فرمايا :

''اُوصيكما وجميع ا هلى وَ ولدى ومَن بَلَغَهُ كتابى بتقوى الله ونظم امركم ''(۱)

''ميں تم دونوں كو اور تمام افراد خاندان كو اور اپنى تمام اولاد كو اور جن لوگوں تك ميرى تحرير پہنچي' سب كو خدا كے تقوى اور امور ميں نظم وضبط كى وصيت كرتا ہوں''_

حضرت امام موسى كاظم عليه السلام فرماتے ہيں كہ اپنے دن رات كے اوقات كو چار حصوں ميں تقسيم كرو:

۱_ايك حصہ خدا كى عبادت اور اس كے ساتھ راز و نيازكے لئي_

۲_ايك حصہ ذاتى كاموں اور ضروريات زندگى كے پورا كرنے كے لئي_

۳_ايك حصہ دوست واحباب اور رشتہ داروں كے ساتھ ملنے جلنے اور ملاقات كے لئے _

۴_اور ايك حصہ آرام و تفريح اور گھر ميں اہل خانہ كے ساتھ رہنے كے لئي(۲)

____________________

۱_ نہج البلاغہ (فيض الاسلام) خطبہ ۱۵۷_ ص ۹۷۷_

۲ _ تحف العقول ص۴۸۱_

۲۴

۴_عہدوپيمان ميں اس كى اہميت:

وہ امور كہ جہاں سختى كے ساتھ نظم وضبط كى رعايت كرنا چاہئي' عہدوپيمان اور اقرار ناموں كى پابندى ہي_ مثلاً قرض دينے ' قرض لينے اور دوسرے لين دين ميں تحريرى سند كا ہونا ضرورى ہي_ تاكہ بعد ميں كسى قسم كى كوئي مشكل پيدا نہ ہونے پائے اور ايسا كرنے سے مشكلات كا راستہ بند اور اختلاف كى راہيں مسدود ہوجائيں_ يہ عہدوپيمان اور لين دين كے بارے ميں ايك طرح كا نظم وضبط ہي_

قرآن مجيد ميں ارشاد ہوا ہے :

''ايے ايمان لانے والو جب تم ايك مقررہ مدت كے لئے قرضہ ليتے يا ديتے ہو تو اسے لكھ ليا كرو' اور يہ تحرير ايك عادل شخص تمہارے لئے لكھي' اور اگر تم سفر كى حالت ميں ہو اور تمہيں كوئي لكھنے والا نہ ملے تو اسے گروى كى صورت لے ليا كرو ''(۱)

ايك اور آيت ميں ارشاد ہوتا ہے :

( اَوفوا بالعَهد انَّ العَهد كانَ مسئولاً'' ) (۲)

''عہد كو پورا كرو 'كيونكہ عہد كے بارے ميں تم سے پوچھا جائے گا''_

پيغمبر اسلام (ص) نے وعدہ كى پابندى كو قيامت كے اوپر عقيدہ ركھنے سے تعبير فرمايا ہي_ چنانچہ ارشاد ہي:

____________________

۱_ سورہ بقرہ آيت ۲۸۲_ ۲۸۳

۲ _ سورہ بنى اسرائيل _ آيت ۳۴

۲۵

''مَن كان يؤمن بالله واليوم الآخرة فليف إذا وَعَدَ'' (۱)

''جو شخص خدا اور قيامت پر ايمان ركھتا ہے اسے اپنا وعدہ پورا كرنا چاہئي''_

ايك واضح پيمان مقررّ كرنے سے بہت سے اختلافات كا سدّ باب ہوسكتا ہي_ اور اس پر صحيح طريقہ سے عملدرآمد لوگوں كى محبت اور اعتماد حاصل كرنے كا موجب بن جاتا ہے _ چنانچہ روايت ہے كہ ايك دن حضرت امام على ابن موسى الرضا عليه السلام نے ديكھا كہ آپ (ع) كے ملازمين ميں ايك اجنبى شخص كام كر رہا ہي' جب آپ (ع) نے اس كے بارے ميں دريافت كيا تو بتا يا گيا كہ اسے اس لئے لے آئے ہيں تاكہ ہمارا ہاتھ بٹاسكي_ امام (ع) نے پوچھا: كيا تم نے اس كى اجرت بھى طے كى تھي؟ كہا گيا كہ نہيں_ امام (ع) سخت ناراض ہوئے اور ان كے اس عمل كو ناپسند فرماتے ہوئے كہا :

''ميں نے بارہا كہا ہے كہ جب تم كسى كو مزدورى كے لئے لاتے ہو تو پہلے اس سے اجرت طے كرليا كرو' ورنہ آخر ميں تم اسے جس قدر بھى مزدورى دوگے وہ خيال كرے گا كہ اسے حق سے كم ملا ہي' ليكن اگر طے كرلوگے اور آخر ميںطے شدہ اجرت سے جتنا بھى زيادہ دوگے خوش ہوجائے گا اور سمجھے گا كہ تم نے اس كے ساتھ محبت كى ہي''(۲)

بات پر قائم رہنا اور وعدہ وفائي انبياء اور اولياء خدا كا شيوہ ہي، ان كے پيروكاروں كو اس سلسلے ميں ان كى اقتدا كرنى چاہئي_

____________________

۱_ كافي_ ج ۲_ ص ۳۶۴

۲_ بحارالانوار _ ج ۴۹_ ص ۱۰۶

۲۶

۵_عبادت ميں اس كى اہميت:

عبادت ميں بھى نظم وضبط كا اہتمام كرنا چاہئے اور وہ يوں كہ ہر عبادت كو بروقت اور بموقع بجالائيں' نماز كو اس كے اول وقت ميں اور جماعت كے ساتھ ادا كريں' ماہ رمضان ميں روزے ركھيں' اگر سفر يا بيمارى كى وجہ سے كوئي روزہ قضا ہوجائے تو اس كى قضا كريں ' خمس وزكوة ادا كريں' اور عبادت ميں افراط وتفريط سے اجتناب كريں بلكہعبادت ميں اعتدال كو ملحوظ ركھنا چاہئي' كيونكہ اعتدال پسندى عبادت ميں مفيد ہي_

عبادت اور مستحب امور ميں افراط سے كام لينے سے بسا اوقات انسان اكتا جاتا ہي' جس كى وجہ سے بعض اوقات وہ اجتماعى سرگرميوں سے محروم رہتا ہے بلكہ كبھى تو اس كا يہ عمل بجائے باعث ثواب كے عذاب كا باعث بن جاتا ہے ' جيسے دعا يا نوحہ خوانى كرنا يا كوئي اور مستحب عمل كہ رات گئے تك لائوڈ اسپيكر پر پڑھتا رہے 'ظاہر ہے اس سے ہمسايوں يا بيماروں كو تكليف ہوتى ہي_

مستحب عبادت اس وقت مفيد اور كار آمد ہوتى ہے جب وہ رضا ورغبت اور شوق و محبت كے ساتھ انجام دى جائے _ اُس مسلمان كى داستان مشہور ہے كہ جس نے اپنے غير مسلم ہمسائے كو اسلام قبول كرنے كى دعوت دى تھى ' جب اس كا وہ ہمسايہ مسلمان ہوگيا تو وہ اسے مسجد لے گيا اور صبح سے ليكر مغرب تك مسجد ميں نماز ودعائيں پڑھتا رہا ' قران كى تلاوت كرتا رہا ، غرض اسے صبح سے شام تك ان امور ميں مصروف ركھا_

۲۷

چنانچہ جب وہ دوسرے دن اس كے پاس گيا كہ اسے عبادت كے لئے اپنے ہمراہ مسجد لے چلے تو اس نے ساتھ چلنے سے صاف انكار كرديا اور كہا :

''ميرے يہاں بيوى بچے بھى ہيں' ان كے اخراجات كے لئے بھى كچھ كرنا ہي' مجھے ايسا دين قبول نہيں جائو اپنى راہ لو_،،

۶_ اخراجات ميںاس كى اہميّت:

روٹي' كپڑے اور زندگى كے دوسرے اخراجات' جو كہ بيت المال يا ديگر اموال سے پورے ہوتے ہيں ان ميں اعتدال سے كام لينا چاہئے نہ افراط سے كام لياجائے اور نہ ہى بخل و مشكلات ميں پڑنا چاہئي_

اخراجات ميں نظم وضبط كا مطلب يہ ہے كہ آمد وخرچ ميں ماشہ، گرام كا حساب ركھاجائي، پيداوار اور اخراجات ميں توازن ركھاجائے اور اخراجات ميں اسراف اور فضول خرچى بد نظمى ہے كہ اس سے انسان مفلس اور نادار ہوجاتا ہي_

قرآن مجيد فضول خرچى اور بے حساب خرچ كرنے كى مذمت كرتا ہے اور فضول خرچ انسان كو شيطان كا بھائي قرار ديتاہے( ان المبذرين كانوا اخوان الشياطين'' ) (۱)

فردى اور نجى زندگى ميں بھى اخراجات ميں تعادل ركھنا چاہئے ،اسى طرح حكومت اور مسلمانوں كے بيت المال ميں بھى ميانہ روى اختيار كرنا چاہئي، معاشرہ ميں وہى حكومت كامياب ہوتى ہے كہ جس كے مال و منصوبے نظم وضبط پر مبنى ہوتے ہيں_ اخراجات ميں اعتدال ، يعنى بجلى ، پانى ، پھل ، لباس اور كھانے پينے كى چيزوں كو

____________________

۱_سورہ بنى اسرائيل _ آيت ۲۷

۲۸

بے مقصد صرف كرنے سے اجتناب كرنا ، تاكہ انسان اپنے آپ اور معاشرہ كو خود كفيل بنا دے اور دوسرں سے بے نياز ہو جائے _

حضرت امير المومنين على ابن ابى طالب (ع) بيت المال سے خرچ كرنے كے بارے ميں اپنے كاركنوں كو ہدايت كرتے ہوئے فرماتے ہيں :

''قلم كى نوك كو باريك اور سطروں كے فاصلے كو كم كرو اضافى آداب والقاب كو حذف كرو ، اپنے مطالب كو خلاصہ كو طور پر تحرير كيا كرو اور فضول خرچى سے دور رہو كہ مسلمانوں كا بيت المال اس قسم كے اخرجات كا متحمل نہيں ہو سكتا _،،(۱)

۷_محاذ جنگ اور عسكرى امور ميں نظم وضبط كى اہميّت :

خاص طور پر جنگ ، جنگى آپريشن ، ميدان جنگ اور عسكرى امور ميں نظم وضبط كو ملحوظ ركھنا خصوصى اہميّت كا حاصل ہے _

واضح رہے ، جنگ ميں مجاہدين كى كاميابى كا دار ومدار اپنے كمانڈروں كى حكمت عملى اور جنگى تدابير پر پختہ يقين اور راستح عقيدہ كے بعد ان كى اطاعت اور عسكرى امور كے نظم وضبط پر ہے _

خدا وند عالم ،قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :

( انَّ الله يحبّ: الذين يقاتلون فى سبيله صفا كانهم بنيان مرصوص ) ،،(۲)

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۴۱_ ص ۱۰۵

۲_ سورہ وصف _ آيت ۴

۲۹

''يقينا خداوند عالم ان لوگوں كو دوست ركھتا ہے جو اس كى راہ ميں يوں منظم طريقہ سے صف باندھ كر لڑتے ہيں جيسے سيسہ پلائي ہوئي ديوار ہوتى ہے _،،

جنگ كے دوران ، حملہ كے وقت ، پيچھے ہٹنے كے موقع پر اور آرام كے وقت نظم وضبط كا مظاہرہ فتح اور كاميابى كى علامت ہے _ جب كہ گربڑ ، سر كشى اور بدنظمى بعض اوقات جيتى ہوئي جنگ كو شكست ميںتبديل كر ديتى ہے _

حضرت رسو ل اكرم (ص) حملہ كا حكم دينے سے پہلے تمام فوجيوں كى صفيں درست كرتے تھے ، ہر شخص كا فريضہ مقرر فرماتے تھے اور نافرمانى پر تنبيہ اور سرزنش فرماتے تھے(۱)

جنگ ميں كمانڈر كى اطاعت اور عسكرى قوانين كى پابندى زبردست اہميّت اور حسّاس ذمہ دارى كى حامل ہوتى ہے _كمانڈر كے احكام كا احترام ،اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے رہنا ، خودرائي اور جذباقى طرز فكر سے اجتناب ، كاميابى كا ضامن ہوتا ہے _

تاريخ ميں بہت سے ايسے واقعات بھى ملتے ہيں كہ بدنظمي، بے ضابطگى اور قوانين كى خلاف ورزى كى وجہ سے جيتى ہوئي جنگيں شكست ميں تبديل ہوئي ہيں اور دشمن كے غالب آجانے كا سبب بن گئيں ہيں _ چنانچہ جنگ اُحُد ميںنبى (ص) نے كچھ مسلمان جنگجووًں كو عبداللہ ابن جبُير كى سر كردگى ميں ايك پہا ڑى درّے پر متعين فرمايا،

جنگ كے شروع ہو جانے كے بعد سپاہ اسلام كى سرفروشانہ جنگ سے دشمن كے پاوّں اكھڑ گئے اور لشكر اسلام آخرى كاميابى كى حدود تك پہنچ گيا اور دشمنان اسلام

____________________

۱_تاريخ پيامبر اسلام (ص) _ ص ۲۳۹(مولف ڈاكٹر آيتي)

۳۰

شكست كھا كر بھاگنے لگے تو درّے پر متعين افراد نے كاميابى كى صورت حال ديكھ كر رسول خدا (ص) كے فرمان كو فراموش كر ديا اوراپنے مورچوں كو چھوڑ كر نيچے اتر آئے اور مال غنيمت جمع كرنے لگے ، اس بدنظمى اور رسول خدا(ص) كے عسكرى فرمان كى خلاف ورزى كى وجہ سے دشمن كے شكست خوردہ لشكر نے مسلمانوں كى غفلت سے فائدہ اٹھايا اور پہاڑ كے حسّاس درّے كو خالى پاكر سپاہ اسلام پر حملہ ور ہو گيا، آخر ميں اس بد نظمى اور كمانڈر كے حكم كى خلاف ورزى كے سبب مسلمانوں كو زبردست شكست كا منہ ديكھنا پڑا اور سنگين جانى نقصان بھى اٹھانا پڑا(۱)

محاذ جنگ ذمّہ دار افسران كے احكام كى پابندے نہايت ضرورى ہے :

محاذ جنگ پر كسى ڈيوٹى پر متعين ہونے ، كسى يونٹ ميں منتقل ہونے ، چھٹى پر جانے ، كسى پروگرام ميں پرجوش شركت ، غرض تمام امور ميں ذمہ دار افسران كے احكام وآرا ء كى پابندى ضرورى ہوتى ہے _

خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے :

'' مومن وہ لوگ ہيں جو خدا اور اس كے رسول(ص) پر ايمان لائے اور جب كسى اہم اور جامع كام( جنگ)ميں پيغمبر اكرم(ص) كے ہمراہ ہوتے ہيں تو ان كى اجازت كے بغير كہيں نہيں جاتے ،اجازت حاصل كرنے والے ہى صيحح معنوں ميں خدا اور اس كے رسول(ص) پر ايمان ركھتے ہيں ، پس جب بھى وہ اپنے بعض كاموں كے لئے آپ(ع) سے اجازت طلب كريں ، تو آپ(ع) جسے

____________________

۱_مزيد تفصيل كے لئے كتاب فروغ ابديت _ ج ۲_ ص ۴۶۶ كا مطالعہ كياجائے_

۳۱

چاہيں اجازت عطا فرمائيں ،،(۱) اس سے يہ بات سامنے آتى ہے كہ چھٹى پر جانا بھى پيغمبر(ع) كى اجازت پر موقوف ہے _

ہمارى دعا ہے كہ راہ خدا ميں مسلسل جّدوجہد كرنے والے اور فى سبيل اللہ جہاد كرنے والے مجاہدين اسلام ايك محكم و مضبوط صف ميں اور مستحكم نظم و ضبط كے تحت متحّدو متّفق ہو كر دشمنان حق اور پيروان شيطان پر غالب آجائيں _آمين،،

____________________

۱_سورہ نور _ آيت ۶۲

۳۲

تيسرا سبق :

سچ اور جھوٹ

۱) .........سچ اور جھوٹ كيا ہيں؟

۲) .........سچائي انبيائ(ص) كے مقاصد ميں سے ايك ہي

۳) .........جھوٹ كى وجوہات

۴) .........جھوٹ كيوں بولاجاتا ہے ؟

۵) جھوٹ كا علاج

۳۳

۱) .........سچ اور جھوٹ كيا ہيں ؟

'' سچ ،،ايك نہايت بہترين اور قابل تعريف صفت ہے كہ جس سے مو من كو آراستہ ہونا چاہئے _ راست گوئي انسان كے عظيم شخصيت ہونے كى علامت ہے _

جب كہ '' جھوٹ بولنا،، اس كے پست ، ذليل اور حقير ہونے كى نشانى ہے ، جس سے ہر مو من كو پرہيز كرنا چاہئے _

احاديث ميں '' سچ ،، اور ''جھوٹ ،،كو كسى انسان كے پہچاننے كا معيار قرار ديا گيا ہے _ حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں :

'' كسى انسان كے اچھّے يا برے ہونے كى پہچان اس كے ركوع اور سجود كو طول دينے سے نہيں ہوتى ، اور نہ ہى تم اس كے ركوع اور سجود كے طولانى ہونے كو ديكھو ،كيونكہ ممكن ہے ايسا كرنا اس كى عادت بن چكا ہو كہ جسكے چھوڑنے سے اسے وحشت ہوتى ہے ، بلكہ تم اس كے سچ بولنے اور امانتوں

۳۴

كے ادا كرنے كو ديكھو ،،(۱) سچّے انسان كا ظاہر پر سكون اور باطن مطمئن ہوتا ہي، جب كہ جھوٹا آدمى ہميشہ ظاہرى طور پرپريشان اور باطنى طور پراضطراب و تشويش ميں مبتلا رہتا ہي_ حضرت اميرالمومنين (ع) فرماتے ہيں :

'' كوئي شخص بھى اپنے دل ميں كوئي راز نہيں چھپاتا ، مگر يہ كہ وہ اس كى بے ربط باتوں اور چہرے كے رنگ سے ظاہر ہو جاتا ہے (جيسے چہرے كى زردى خوف كے علامت اور سرخى شرمندگى كى نشانى ہے ) ،،(۲)

ايك شخص بہت سامان ليكر چند ساتھيوں سے ساتھ سفر پر گيا ہوا تھا ، اس كے ساتھيوں نے اسے قتل كر كے اس كے مال پر قبضہ كر ليا ، جب وہ واپس آئے تو كہنے لگے كہ وہ سفر كے دوران فوت ہو گيا ،انہوں نے آپس ميں يہ طے كر ليا تھا كہ اگر كوئي ان سے اس كى موت كا سبب پوچھے تو سب يہى كہيں گے كہ وہ بيمار ہو گيا تھا اور اس بيمارى ميں وہ فوت ہو گيا _

اس شخص كے ورثاء نے حضرت على عليہ السلّام كى خدمت ميں يہ واقعہ ذكر كيا تو حضرت على عليه السلام نے تفتيش كے دوران سے دريافت فرمايا كہ تمہارے ساتھى كى موت كس دن اور كس وقت واقع ہوئي ؟ ،اسے كس نے غسل ديا ؟ ،كس نے پہنايا؟اور كس نے نماز جنازہ پڑھائي ؟ _ ہر ايك سے بطور جدا گانہ سوالات كئے ، اور ہر ايك نے ايك دوسرے كے برعكس جواب ديا _

____________________

۱_ سفينة البحار_ ج ۲_ ص۱۸

۲_ نہج البلاغہ _ حكمت ۲۵

۳۵

امام _ نے بلند آواز سے تكبير كہى اور تفتيش كو مكمل كر ليا ، اس طرح سے اُن كے جھوٹ كا پردہ فاش ہو گيا اور معلوم ہو گيا كہ ساتھيوں ہى نے اسے قتل كياتھا اور اس كے مال پر قبضہ كر ليا تھا(۱)

۲) ...سچّائي انبياء (ع) كے مقاصد ميں سے ايك ہے :

لوگوں كو سچّائي اور امانت دارى كے راستوں پر ہدايت كرنا، اور جھوٹ اور خيانت سے ان كو باز ركھنا تمام انبياء (ع) الہى كى بعثت كے مقاصد ميں سے ايك مقصد رہا ہے _ جيسا كہ حضرت امام جعفر صاد ق(ع) فرماتے ہيں :

''ان الله لم يبعث نبيا الا بصدق الحد يث وَاَدَائ الاَمَانة ،،(۲) '' خداوند عالم نے كسى نبى كو نہيں بھيجا مگر دو نيك اور پسنديدہ اخلاق كے ساتھ ، ايك تو سچ بولنا اور دوسرے امانتوں كى ادائيگى ہے _،،

حضرت على عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''لايجدُ عبد حقيقة الايمان حتّى يدع الكذبَ جدَّه وهزله'' (۳) ''كوئي بندہ ايمان كى حقيقت كو اس وقت تك نہيں پاسكتا ، جب تك كہ وہ جھوٹ بولنا نہ چھوڑ دے ، چاہے وہ واقعاً جھوٹ ہو يا مذاق سے جھوٹ ہو_،،

____________________

۱_قضاوتہاى حضرت على عليه السلام

۲ _ سفينة البحار_ ج ۶_ ص ۲۱۸

۳_سفينة البحار _ ج ۲_ ص ۴۷۳

۳۶

۳) جھوٹ كے اثرات :

الف: جھوٹ ، انسان كى شرافت اور اس كى شخصيت كے منافى ہے ،

يہ انسان كو ذليل كر ديتا ہے ، جناب اميرالمؤمنين عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''الكذبُ وَالخيانة ليسا من اخلاق الكرام _،،(۱)

ترجمعہ :'' جھوٹ اور خيانت شريف لوگوں كا شيوہ نہيں ہے _،،

::: ب: جھوٹ ، ايمان كو برباد كر ديتا ہے _

حضرت امام محمد باقر عليہ السلّام فرماتے ہے :

''انَّ الكذب هوخراب الايمان ،،(۲) ''جھوٹ ايمان كى تباہى كا موجب بنتا ہے _ ،،

ج: جھوٹ دوسرے گناہوں كا سبب بنتا ہے

_ جبكہ سچّائي بہت سے گناہوں ميں ركاوٹ بنتى ہے _ جھوٹ بولنے والا كسى گناہ كے ارتكاب سے نہيں ہچكتا ، اور ہر قسم كى قيد و بند كو توڑ ڈالتا ہے اور جھوٹ سے ان تمام گناہوں كا انكار كر ديتا ہے _

حضرت امام محمد باقر عليه السلام فرماتے ہيں :

'' خداوند عالم نے تمام برائيوں كو ايك جگہ قرار ديا ہے اور اس كى چابى شراب ہے _ ليكن جھوٹ شراب سے بھى بدتر ہے _،،(۳)

____________________

۱_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ص ۳۴۳

۲_ اصول كافى _ (مترجم)_ ج ۲_ ص ۳۳۹

۳_ سفينة البحار _ ج ۲_ ص ۴۷۳

۳۷

د: جھوٹ ، كفر سے قريب ہے _

ايك شخص نے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہو كر سوال كيا كہ جہنّمى كون سے جرم كى وجہ سے زيادہ جہنّم ميں جائيں گے ؟ ، حضور(ص) نے ارشاد فرمايا :

'' جھوٹ كى وجہ سے ، كيونكہ جھوٹ انسان كو فسق و فجور اور ہتك حرمت كى طرف لے جاتا ہے ، فسق و فجور كفر كى طرف اور كفر جہنّم كى طرف لے جاتا ہے _ ،،(۱)

ھ: ......جھوٹ بولنے والے پر كوئي اعتماد نہيں كرتا ،

جھوٹ بولنے سے انسان كى شخصيّت كا اعتبار ختم ہو جاتا ہے ، اور دروغگوئي كى صفت اس كے بے آبرو ہو جانے كا سبب بن جاتى ہے _ جھوٹے چروا ہے كى داستان آپ نے كتابوں ميں پڑھى ہو گى كہ جس نے دروغ گوئي سے شير آيا ، شير آيا،،چلا چلاكر اپنا اعتماد كھو ديا تھا ، چنانچہ ايك دن وہ ايك واقعى شير كا شكار ہو گيا _

حضرت امير المومنين عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''جو شخص جھوٹا مشہور ہو جائے لوگوں كا اعتماد اس سے اٹھ جاتا ہے _،،(۲)

'' جو جس قدر زيادہ جھوٹا ہو گا ، اسى قدر زيادہ ناقابل اعتماد ہو گا _،،(۳)

ي: '' دروغ گورا حاقطہ نباشد ،، والى ضرب المثل صحيح ہے ،كيونكہ وہ ہميشہ حقيقت كے خلاف بات كرتا ہي، متعدد نشستوں ميں مختلف قسم كے جھوٹ بولتا ہي، جو ايك دوسرے كے برعكس ہوتے ہيں _

____________________

۱_ مستدرك الوسائل ج۲ ص ۱۰۱

۲_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ ص ۲۴۵

۳_ اصول كافى (مترجم ) _ ج ۴ _ ص ۳۸

۳۸

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلّام فرماتے ہيں :

'' نسيان اور بھول چوك ايك ايسى چيز ہے كہ جو خدا جھوٹوں كے دامن ميں ڈال ديتا ہے _،،(۱)

۴) ......جھوٹ كى وجوہات :

ہر ايك گناہ اور برا كام ان اسباب وعلل كى وجہ سے سر زد ہوتا ہے جو كہ انسان كے اندر ہى اندر پروان چڑھتے رہتے ہيں ، لہذا گناہوں كا مقابلہ كر كے ان اسباب و علل كا خاتمہ كر دينا چاہئے _ جھوٹ ايك ايسى برى عادت ہے كہ جس كے كئي اسباب بتائے گئے ہيں ، جنہيں ہم ذيل ميں اختصار كے ساتھ ذكر كر رہے ہيں :

الف: احساس كمتري:

بعض لوگ چونكہ اپنے آپ ميں اپنى اہميت يا كوئي خاص ہنر نہيں پاتي، لہذا كچھ جھوٹى اور بے سروپا باتوں كو جوڑ كر لوگوں كے سامنے اپنى اس كمى كى تلافى كرتے ہيں اور اپنے آپ كومعاشرہ كى ايك اعلى شخصيت ظاہر كرنے كى كوشش كرتے ہيں، يہى وجہ ہے كہ رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :

''جھوٹا شخص ' احساس كمترى كى وجہ سے ہى جھوٹ بولتا ہي''_

ب: سزا اور جرمانہ سے بچنے كيلئے :

كچھ لوگ سزا كے خوف سے جھوٹ كا سہارا ليتے ہيں اور اس طرح وہ يا تو سرے ہى سے جرم كا انكار كرديتے ہيں يا پھر اپنے جرم كى توجيہہ ميں غلط بيانى كرتے ہيں اور اپنے جرم كا اقرار كرنے پر قطعاً آمادہ نہيں ہوتے اور جرم كى سزا بھگتنے يا جرمانہ ادا

۳۹

كرنے كے لئے تيار نہيں ہوتي_

ج: منافقت اور دوغلى پاليسي_

منافق اور دوغلے لوگ خوشامد اور چاپلوسى كے پردے ميں جھوٹ بول بول كر ايسى حركتوں كے مرتكب ہوجاتے ہيں جن كے ذريعے وہ معاشرے كے افراد كى توجہ اپنى طرف مبذول كركے اپنے ناپاك عزائم كو پورا كرليتے ہيں_

خداوند عالم نے سورہ بقرہ كے اوائل ميں اس طريقہ كار كو منافقين كى صفت قرار ديا ہے اور فرمايا ہي:

( واذ القو الذين امنوا قالوا امنا واذا خلوا إلى شياطينهم قالو انا معكم انما نحن مستهزئون'' ) (۱)

''جب منافقين' مومنين سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم ايمان لائے ہيں' اور جب اپنے شيطان صفت لوگوں سے تنہائي ميں ملاقات كرتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم تو تمہارے ساتھ ہيں' ہم تو (مومنين كے ساتھ ) ٹھٹھا مذاق كرتے ہيں''_

د: ايمان كا فقدان:

قران مجيد اور روايات سے پتہ چلتا ہے كہ دروغگوئي كى ايك بنيادى وجہ ايمان كا كلى طور پر فقدان يا ايمان كى كمزورى ہي_ قرآن مجيد ميں ارشاد ہي:

( انما يفترى الكذب الذين لا يومنون بايات الله و اولئك هم الكاذبون'' ) (۱)

____________________

۱_ سورہ بقرہ_ آيت ۱۴

۲_ سورہ نحل _آيت ۱۰۵

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108