آداب معاشرت

آداب معاشرت33%

آداب معاشرت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 108

آداب معاشرت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 108 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59860 / ڈاؤنلوڈ: 4597
سائز سائز سائز
آداب معاشرت

آداب معاشرت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دوسرى جگہ فرمايا :

''جہاں تك ہوسكے اور جيسے بھى بن پڑي' پاك و پاكيزہ رہو كيونكہ اللہ تعالى نے اسلام كى بنياد صفائي پر ركھى ہي' اور جنت ميں سوائے صاف ستھرے شخص كے كوئي اور نہيں جا سكے گا''(۱)

امام رضا _ فرماتے ہيں:

''پاكيزگى كا شمار انبياء (ع) كے اخلا ق ميںہوتا ہي''(۲)

ب:___ سنوارنا:

سر' بدن ' لباس اور جوتوں وغيرہ كو آراستہ اور صاف ركھنا' اسلام كا ايك اخلاقى دستور ہے _ اس كا تعلق ايك پكّے اور سچے مومن كى نجى زندگى كے نظم وضبط سے ہي_

اسلامى تعليمات كى رو سے ايك مسلمان كو اپنى وضع و قطع ميں پاكيزگى كا خيال ركھنے كے علاوہ اپنے لباس اور جسمانى وضع و قطع كو بھى سنوارنا چاہئي_ بالوں ميں كنگھى ' دانتوں كى صفائي ' اور وقار اور ادب سے چلنا چاہئے _

ايك دن حضور سرور كائنات (ص) نے ايك بكھرے بالوں والے شخص كو ديكھا تو فرمايا :

''تمہيں كوئي چيز نہيں ملتى تھى كہ بالوں كوسنوار ليتي''(۳)

عباد بن كثير نے ' جو ايك ريا كار زاہد تھا اور كھردرا لباس پہنا كرتا تھا ' ايك دن

____________________

۱_ ميزان الحكمة ، ج ۱۰، ص ۹۲

۲_ بحارالانوار ، ج۷۸، ص ۳۳۵

۳_ ميزان الحكمة، ج ۱۰، ص ۹۲

۲۱

اس نے حضرت امام جعفر صادق عليه السلام پر اعتراض كيا كہ :

''آپ (ع) كے دو جد امجد ''حضرت رسول خدا (ص) اور اميرالمومنين عليه السلام '' تو كھردرا لباس پہنا كرتے تھي''_

تو امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمايا :

'' وائے ہو تم پر كيا تم نے قرآن مجيد كى وہ آيت نہيں پڑھى جس ميں خداوند عالم نے اپنے پيغمبر (ص) كو حكم ديا ہے كہ :

( قُل مَن حَرَمَ زينة الله التى اخرج لعباده والطيّبات من الرزق'' ) (۱)

''اے پيغمبر (ص) ان لوگوں سے پوچھئے كہ خدا كى زينت اور حلال رزق وروزى كو كہ جو اس نے اپنے بندوں كے واسطے بنايا ہے ' كس نے حرام كرديا ہي؟''_

وہ شخص اپنے اس فضول اعتراض پر نادم ہوا او رسرجھكا كر چلاگيا(۲)

آيت :( خُذوا زينتكم عند كلّ مسجد'' ) _''ہر سجدہ كرنے كے وقت زينت كرليا كرو''،اس آيت كى تفسير ميں حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمايا :

''ان زينتوں ميں سے ايك زينت ' نماز كے وقت بالوں ميںكنگھى كرنا ہي''_(۳)

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام دانتوں كى صفائي كے بارے ميں فرماتے ہيں:

''من اخلاق الانبياء (عليهم السلام)السَّواك ''(۴)

____________________

۱_سورہ اعراف ، آيت ۳۲

۲ _ فروع كافي، ج ۶، ص ۴۴۴ سے مفہوم حديث

۳_ فروع كافي، ج ۶، ص ۴۸۹

۴_ اصول كافى ج۶ ص ۴۵۹

۲۲

''مسواك كرنا اخلاق انبياء ميں شامل ہي''_

حضرت على عليه السلام نے مناسب جوتا پہننے كے بارے ميں فرمايا :

''اچھا جوتا پہننا اور بدن كى حفاظت و طہارت نماز كے لئے مددگار ہونے كا ايك ذريعہ ہي''(۱)

رسول خدا (ص) جب بھى گھر سے مسجد يا مسلمانوں كے اجتماع ميں تشريف لے جانا چاہتے تھے تو آئينہ ديكھتي' ريش اور بالوں كو سنوارتي' لباس كو ٹھيك كرتے اور عطر لگايا كرتے تھي' اور فرمايا كرتے تھے :

''خداوند عالم اس بات كو پسند فرماتا ہے كہ جب اس كا كوئي بندہ اپنے دينى بھائيوں كى ملاقات كے لئے گھر سے باہر نكلے تو خود كو بناسنوار كر باہر نكلي''(۲)

لہذا اگر اس حساب سے ديكھاجائے تو پريشان حالت' آلودگى اور بدنظمى دين اسلام كى مقدس نگاہوں ميں نہايت ہى قابل مذمت او رموجب نفرت ہے ' اور رسول خدا (ص) كے ايك پيروكار مسلمان سے يہى توقع ركھى جانى چاہئے كہ وہ ہميشہ بن سنور كر رہے گا اور خود كو معطر اور پاك وپاكيزہ ركھے گا_

۳_ معاشرتى زندگى ميں اس كى اہميت:

سماجى امور اور دوسرے لوگوں كے ساتھ تعلقات قائم ركھنے كے لئے انسان كى كاميابى كا راز اس بات ميںمضمر ہے كہ وہ ايك مقرَّرہ ومرتَّبہ پروگرام كے تحت وقت

____________________

۱_ فروع كافي، ج ۶ _ ص ۴۶۲

۲ _ مكارم اخلاق ، ص ۳۵_

۲۳

سے صحيح فائدہ اٹھائے ' چاہے اس پروگرام كا تعلق اس كے كاموں سے ہو' جيسے مطالعہ كرنا اور كسى جگہ آنا جانا يا كسى سے ملاقات كيلئے جانا، بدنظمى اور بے ترتيبى سے وقت ضائع ہوتا ہے جبكہ ترتيب ونظم وضبط سے انسانى كوششوں كا اچھا نتيجہ نكلتا ہي_

امور زندگى اور كاروبار ميں نظم وضبط كى اس قدر اہميت ہے كہ حضرت اميرالمومنين عليه السلام نے اپنى آخرى وصيت ميں كہ جو بستر شہادت پر ارشاد فرمائي ' اس بات پر زور ديا اور حسنين (ع) سے مخاطب ہوكر فرمايا :

''اُوصيكما وجميع ا هلى وَ ولدى ومَن بَلَغَهُ كتابى بتقوى الله ونظم امركم ''(۱)

''ميں تم دونوں كو اور تمام افراد خاندان كو اور اپنى تمام اولاد كو اور جن لوگوں تك ميرى تحرير پہنچي' سب كو خدا كے تقوى اور امور ميں نظم وضبط كى وصيت كرتا ہوں''_

حضرت امام موسى كاظم عليه السلام فرماتے ہيں كہ اپنے دن رات كے اوقات كو چار حصوں ميں تقسيم كرو:

۱_ايك حصہ خدا كى عبادت اور اس كے ساتھ راز و نيازكے لئي_

۲_ايك حصہ ذاتى كاموں اور ضروريات زندگى كے پورا كرنے كے لئي_

۳_ايك حصہ دوست واحباب اور رشتہ داروں كے ساتھ ملنے جلنے اور ملاقات كے لئے _

۴_اور ايك حصہ آرام و تفريح اور گھر ميں اہل خانہ كے ساتھ رہنے كے لئي(۲)

____________________

۱_ نہج البلاغہ (فيض الاسلام) خطبہ ۱۵۷_ ص ۹۷۷_

۲ _ تحف العقول ص۴۸۱_

۲۴

۴_عہدوپيمان ميں اس كى اہميت:

وہ امور كہ جہاں سختى كے ساتھ نظم وضبط كى رعايت كرنا چاہئي' عہدوپيمان اور اقرار ناموں كى پابندى ہي_ مثلاً قرض دينے ' قرض لينے اور دوسرے لين دين ميں تحريرى سند كا ہونا ضرورى ہي_ تاكہ بعد ميں كسى قسم كى كوئي مشكل پيدا نہ ہونے پائے اور ايسا كرنے سے مشكلات كا راستہ بند اور اختلاف كى راہيں مسدود ہوجائيں_ يہ عہدوپيمان اور لين دين كے بارے ميں ايك طرح كا نظم وضبط ہي_

قرآن مجيد ميں ارشاد ہوا ہے :

''ايے ايمان لانے والو جب تم ايك مقررہ مدت كے لئے قرضہ ليتے يا ديتے ہو تو اسے لكھ ليا كرو' اور يہ تحرير ايك عادل شخص تمہارے لئے لكھي' اور اگر تم سفر كى حالت ميں ہو اور تمہيں كوئي لكھنے والا نہ ملے تو اسے گروى كى صورت لے ليا كرو ''(۱)

ايك اور آيت ميں ارشاد ہوتا ہے :

( اَوفوا بالعَهد انَّ العَهد كانَ مسئولاً'' ) (۲)

''عہد كو پورا كرو 'كيونكہ عہد كے بارے ميں تم سے پوچھا جائے گا''_

پيغمبر اسلام (ص) نے وعدہ كى پابندى كو قيامت كے اوپر عقيدہ ركھنے سے تعبير فرمايا ہي_ چنانچہ ارشاد ہي:

____________________

۱_ سورہ بقرہ آيت ۲۸۲_ ۲۸۳

۲ _ سورہ بنى اسرائيل _ آيت ۳۴

۲۵

''مَن كان يؤمن بالله واليوم الآخرة فليف إذا وَعَدَ'' (۱)

''جو شخص خدا اور قيامت پر ايمان ركھتا ہے اسے اپنا وعدہ پورا كرنا چاہئي''_

ايك واضح پيمان مقررّ كرنے سے بہت سے اختلافات كا سدّ باب ہوسكتا ہي_ اور اس پر صحيح طريقہ سے عملدرآمد لوگوں كى محبت اور اعتماد حاصل كرنے كا موجب بن جاتا ہے _ چنانچہ روايت ہے كہ ايك دن حضرت امام على ابن موسى الرضا عليه السلام نے ديكھا كہ آپ (ع) كے ملازمين ميں ايك اجنبى شخص كام كر رہا ہي' جب آپ (ع) نے اس كے بارے ميں دريافت كيا تو بتا يا گيا كہ اسے اس لئے لے آئے ہيں تاكہ ہمارا ہاتھ بٹاسكي_ امام (ع) نے پوچھا: كيا تم نے اس كى اجرت بھى طے كى تھي؟ كہا گيا كہ نہيں_ امام (ع) سخت ناراض ہوئے اور ان كے اس عمل كو ناپسند فرماتے ہوئے كہا :

''ميں نے بارہا كہا ہے كہ جب تم كسى كو مزدورى كے لئے لاتے ہو تو پہلے اس سے اجرت طے كرليا كرو' ورنہ آخر ميں تم اسے جس قدر بھى مزدورى دوگے وہ خيال كرے گا كہ اسے حق سے كم ملا ہي' ليكن اگر طے كرلوگے اور آخر ميںطے شدہ اجرت سے جتنا بھى زيادہ دوگے خوش ہوجائے گا اور سمجھے گا كہ تم نے اس كے ساتھ محبت كى ہي''(۲)

بات پر قائم رہنا اور وعدہ وفائي انبياء اور اولياء خدا كا شيوہ ہي، ان كے پيروكاروں كو اس سلسلے ميں ان كى اقتدا كرنى چاہئي_

____________________

۱_ كافي_ ج ۲_ ص ۳۶۴

۲_ بحارالانوار _ ج ۴۹_ ص ۱۰۶

۲۶

۵_عبادت ميں اس كى اہميت:

عبادت ميں بھى نظم وضبط كا اہتمام كرنا چاہئے اور وہ يوں كہ ہر عبادت كو بروقت اور بموقع بجالائيں' نماز كو اس كے اول وقت ميں اور جماعت كے ساتھ ادا كريں' ماہ رمضان ميں روزے ركھيں' اگر سفر يا بيمارى كى وجہ سے كوئي روزہ قضا ہوجائے تو اس كى قضا كريں ' خمس وزكوة ادا كريں' اور عبادت ميں افراط وتفريط سے اجتناب كريں بلكہعبادت ميں اعتدال كو ملحوظ ركھنا چاہئي' كيونكہ اعتدال پسندى عبادت ميں مفيد ہي_

عبادت اور مستحب امور ميں افراط سے كام لينے سے بسا اوقات انسان اكتا جاتا ہي' جس كى وجہ سے بعض اوقات وہ اجتماعى سرگرميوں سے محروم رہتا ہے بلكہ كبھى تو اس كا يہ عمل بجائے باعث ثواب كے عذاب كا باعث بن جاتا ہے ' جيسے دعا يا نوحہ خوانى كرنا يا كوئي اور مستحب عمل كہ رات گئے تك لائوڈ اسپيكر پر پڑھتا رہے 'ظاہر ہے اس سے ہمسايوں يا بيماروں كو تكليف ہوتى ہي_

مستحب عبادت اس وقت مفيد اور كار آمد ہوتى ہے جب وہ رضا ورغبت اور شوق و محبت كے ساتھ انجام دى جائے _ اُس مسلمان كى داستان مشہور ہے كہ جس نے اپنے غير مسلم ہمسائے كو اسلام قبول كرنے كى دعوت دى تھى ' جب اس كا وہ ہمسايہ مسلمان ہوگيا تو وہ اسے مسجد لے گيا اور صبح سے ليكر مغرب تك مسجد ميں نماز ودعائيں پڑھتا رہا ' قران كى تلاوت كرتا رہا ، غرض اسے صبح سے شام تك ان امور ميں مصروف ركھا_

۲۷

چنانچہ جب وہ دوسرے دن اس كے پاس گيا كہ اسے عبادت كے لئے اپنے ہمراہ مسجد لے چلے تو اس نے ساتھ چلنے سے صاف انكار كرديا اور كہا :

''ميرے يہاں بيوى بچے بھى ہيں' ان كے اخراجات كے لئے بھى كچھ كرنا ہي' مجھے ايسا دين قبول نہيں جائو اپنى راہ لو_،،

۶_ اخراجات ميںاس كى اہميّت:

روٹي' كپڑے اور زندگى كے دوسرے اخراجات' جو كہ بيت المال يا ديگر اموال سے پورے ہوتے ہيں ان ميں اعتدال سے كام لينا چاہئے نہ افراط سے كام لياجائے اور نہ ہى بخل و مشكلات ميں پڑنا چاہئي_

اخراجات ميں نظم وضبط كا مطلب يہ ہے كہ آمد وخرچ ميں ماشہ، گرام كا حساب ركھاجائي، پيداوار اور اخراجات ميں توازن ركھاجائے اور اخراجات ميں اسراف اور فضول خرچى بد نظمى ہے كہ اس سے انسان مفلس اور نادار ہوجاتا ہي_

قرآن مجيد فضول خرچى اور بے حساب خرچ كرنے كى مذمت كرتا ہے اور فضول خرچ انسان كو شيطان كا بھائي قرار ديتاہے( ان المبذرين كانوا اخوان الشياطين'' ) (۱)

فردى اور نجى زندگى ميں بھى اخراجات ميں تعادل ركھنا چاہئے ،اسى طرح حكومت اور مسلمانوں كے بيت المال ميں بھى ميانہ روى اختيار كرنا چاہئي، معاشرہ ميں وہى حكومت كامياب ہوتى ہے كہ جس كے مال و منصوبے نظم وضبط پر مبنى ہوتے ہيں_ اخراجات ميں اعتدال ، يعنى بجلى ، پانى ، پھل ، لباس اور كھانے پينے كى چيزوں كو

____________________

۱_سورہ بنى اسرائيل _ آيت ۲۷

۲۸

بے مقصد صرف كرنے سے اجتناب كرنا ، تاكہ انسان اپنے آپ اور معاشرہ كو خود كفيل بنا دے اور دوسرں سے بے نياز ہو جائے _

حضرت امير المومنين على ابن ابى طالب (ع) بيت المال سے خرچ كرنے كے بارے ميں اپنے كاركنوں كو ہدايت كرتے ہوئے فرماتے ہيں :

''قلم كى نوك كو باريك اور سطروں كے فاصلے كو كم كرو اضافى آداب والقاب كو حذف كرو ، اپنے مطالب كو خلاصہ كو طور پر تحرير كيا كرو اور فضول خرچى سے دور رہو كہ مسلمانوں كا بيت المال اس قسم كے اخرجات كا متحمل نہيں ہو سكتا _،،(۱)

۷_محاذ جنگ اور عسكرى امور ميں نظم وضبط كى اہميّت :

خاص طور پر جنگ ، جنگى آپريشن ، ميدان جنگ اور عسكرى امور ميں نظم وضبط كو ملحوظ ركھنا خصوصى اہميّت كا حاصل ہے _

واضح رہے ، جنگ ميں مجاہدين كى كاميابى كا دار ومدار اپنے كمانڈروں كى حكمت عملى اور جنگى تدابير پر پختہ يقين اور راستح عقيدہ كے بعد ان كى اطاعت اور عسكرى امور كے نظم وضبط پر ہے _

خدا وند عالم ،قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :

( انَّ الله يحبّ: الذين يقاتلون فى سبيله صفا كانهم بنيان مرصوص ) ،،(۲)

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۴۱_ ص ۱۰۵

۲_ سورہ وصف _ آيت ۴

۲۹

''يقينا خداوند عالم ان لوگوں كو دوست ركھتا ہے جو اس كى راہ ميں يوں منظم طريقہ سے صف باندھ كر لڑتے ہيں جيسے سيسہ پلائي ہوئي ديوار ہوتى ہے _،،

جنگ كے دوران ، حملہ كے وقت ، پيچھے ہٹنے كے موقع پر اور آرام كے وقت نظم وضبط كا مظاہرہ فتح اور كاميابى كى علامت ہے _ جب كہ گربڑ ، سر كشى اور بدنظمى بعض اوقات جيتى ہوئي جنگ كو شكست ميںتبديل كر ديتى ہے _

حضرت رسو ل اكرم (ص) حملہ كا حكم دينے سے پہلے تمام فوجيوں كى صفيں درست كرتے تھے ، ہر شخص كا فريضہ مقرر فرماتے تھے اور نافرمانى پر تنبيہ اور سرزنش فرماتے تھے(۱)

جنگ ميں كمانڈر كى اطاعت اور عسكرى قوانين كى پابندى زبردست اہميّت اور حسّاس ذمہ دارى كى حامل ہوتى ہے _كمانڈر كے احكام كا احترام ،اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے رہنا ، خودرائي اور جذباقى طرز فكر سے اجتناب ، كاميابى كا ضامن ہوتا ہے _

تاريخ ميں بہت سے ايسے واقعات بھى ملتے ہيں كہ بدنظمي، بے ضابطگى اور قوانين كى خلاف ورزى كى وجہ سے جيتى ہوئي جنگيں شكست ميں تبديل ہوئي ہيں اور دشمن كے غالب آجانے كا سبب بن گئيں ہيں _ چنانچہ جنگ اُحُد ميںنبى (ص) نے كچھ مسلمان جنگجووًں كو عبداللہ ابن جبُير كى سر كردگى ميں ايك پہا ڑى درّے پر متعين فرمايا،

جنگ كے شروع ہو جانے كے بعد سپاہ اسلام كى سرفروشانہ جنگ سے دشمن كے پاوّں اكھڑ گئے اور لشكر اسلام آخرى كاميابى كى حدود تك پہنچ گيا اور دشمنان اسلام

____________________

۱_تاريخ پيامبر اسلام (ص) _ ص ۲۳۹(مولف ڈاكٹر آيتي)

۳۰

شكست كھا كر بھاگنے لگے تو درّے پر متعين افراد نے كاميابى كى صورت حال ديكھ كر رسول خدا (ص) كے فرمان كو فراموش كر ديا اوراپنے مورچوں كو چھوڑ كر نيچے اتر آئے اور مال غنيمت جمع كرنے لگے ، اس بدنظمى اور رسول خدا(ص) كے عسكرى فرمان كى خلاف ورزى كى وجہ سے دشمن كے شكست خوردہ لشكر نے مسلمانوں كى غفلت سے فائدہ اٹھايا اور پہاڑ كے حسّاس درّے كو خالى پاكر سپاہ اسلام پر حملہ ور ہو گيا، آخر ميں اس بد نظمى اور كمانڈر كے حكم كى خلاف ورزى كے سبب مسلمانوں كو زبردست شكست كا منہ ديكھنا پڑا اور سنگين جانى نقصان بھى اٹھانا پڑا(۱)

محاذ جنگ ذمّہ دار افسران كے احكام كى پابندے نہايت ضرورى ہے :

محاذ جنگ پر كسى ڈيوٹى پر متعين ہونے ، كسى يونٹ ميں منتقل ہونے ، چھٹى پر جانے ، كسى پروگرام ميں پرجوش شركت ، غرض تمام امور ميں ذمہ دار افسران كے احكام وآرا ء كى پابندى ضرورى ہوتى ہے _

خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے :

'' مومن وہ لوگ ہيں جو خدا اور اس كے رسول(ص) پر ايمان لائے اور جب كسى اہم اور جامع كام( جنگ)ميں پيغمبر اكرم(ص) كے ہمراہ ہوتے ہيں تو ان كى اجازت كے بغير كہيں نہيں جاتے ،اجازت حاصل كرنے والے ہى صيحح معنوں ميں خدا اور اس كے رسول(ص) پر ايمان ركھتے ہيں ، پس جب بھى وہ اپنے بعض كاموں كے لئے آپ(ع) سے اجازت طلب كريں ، تو آپ(ع) جسے

____________________

۱_مزيد تفصيل كے لئے كتاب فروغ ابديت _ ج ۲_ ص ۴۶۶ كا مطالعہ كياجائے_

۳۱

چاہيں اجازت عطا فرمائيں ،،(۱) اس سے يہ بات سامنے آتى ہے كہ چھٹى پر جانا بھى پيغمبر(ع) كى اجازت پر موقوف ہے _

ہمارى دعا ہے كہ راہ خدا ميں مسلسل جّدوجہد كرنے والے اور فى سبيل اللہ جہاد كرنے والے مجاہدين اسلام ايك محكم و مضبوط صف ميں اور مستحكم نظم و ضبط كے تحت متحّدو متّفق ہو كر دشمنان حق اور پيروان شيطان پر غالب آجائيں _آمين،،

____________________

۱_سورہ نور _ آيت ۶۲

۳۲

تيسرا سبق :

سچ اور جھوٹ

۱) .........سچ اور جھوٹ كيا ہيں؟

۲) .........سچائي انبيائ(ص) كے مقاصد ميں سے ايك ہي

۳) .........جھوٹ كى وجوہات

۴) .........جھوٹ كيوں بولاجاتا ہے ؟

۵) جھوٹ كا علاج

۳۳

۱) .........سچ اور جھوٹ كيا ہيں ؟

'' سچ ،،ايك نہايت بہترين اور قابل تعريف صفت ہے كہ جس سے مو من كو آراستہ ہونا چاہئے _ راست گوئي انسان كے عظيم شخصيت ہونے كى علامت ہے _

جب كہ '' جھوٹ بولنا،، اس كے پست ، ذليل اور حقير ہونے كى نشانى ہے ، جس سے ہر مو من كو پرہيز كرنا چاہئے _

احاديث ميں '' سچ ،، اور ''جھوٹ ،،كو كسى انسان كے پہچاننے كا معيار قرار ديا گيا ہے _ حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں :

'' كسى انسان كے اچھّے يا برے ہونے كى پہچان اس كے ركوع اور سجود كو طول دينے سے نہيں ہوتى ، اور نہ ہى تم اس كے ركوع اور سجود كے طولانى ہونے كو ديكھو ،كيونكہ ممكن ہے ايسا كرنا اس كى عادت بن چكا ہو كہ جسكے چھوڑنے سے اسے وحشت ہوتى ہے ، بلكہ تم اس كے سچ بولنے اور امانتوں

۳۴

كے ادا كرنے كو ديكھو ،،(۱) سچّے انسان كا ظاہر پر سكون اور باطن مطمئن ہوتا ہي، جب كہ جھوٹا آدمى ہميشہ ظاہرى طور پرپريشان اور باطنى طور پراضطراب و تشويش ميں مبتلا رہتا ہي_ حضرت اميرالمومنين (ع) فرماتے ہيں :

'' كوئي شخص بھى اپنے دل ميں كوئي راز نہيں چھپاتا ، مگر يہ كہ وہ اس كى بے ربط باتوں اور چہرے كے رنگ سے ظاہر ہو جاتا ہے (جيسے چہرے كى زردى خوف كے علامت اور سرخى شرمندگى كى نشانى ہے ) ،،(۲)

ايك شخص بہت سامان ليكر چند ساتھيوں سے ساتھ سفر پر گيا ہوا تھا ، اس كے ساتھيوں نے اسے قتل كر كے اس كے مال پر قبضہ كر ليا ، جب وہ واپس آئے تو كہنے لگے كہ وہ سفر كے دوران فوت ہو گيا ،انہوں نے آپس ميں يہ طے كر ليا تھا كہ اگر كوئي ان سے اس كى موت كا سبب پوچھے تو سب يہى كہيں گے كہ وہ بيمار ہو گيا تھا اور اس بيمارى ميں وہ فوت ہو گيا _

اس شخص كے ورثاء نے حضرت على عليہ السلّام كى خدمت ميں يہ واقعہ ذكر كيا تو حضرت على عليه السلام نے تفتيش كے دوران سے دريافت فرمايا كہ تمہارے ساتھى كى موت كس دن اور كس وقت واقع ہوئي ؟ ،اسے كس نے غسل ديا ؟ ،كس نے پہنايا؟اور كس نے نماز جنازہ پڑھائي ؟ _ ہر ايك سے بطور جدا گانہ سوالات كئے ، اور ہر ايك نے ايك دوسرے كے برعكس جواب ديا _

____________________

۱_ سفينة البحار_ ج ۲_ ص۱۸

۲_ نہج البلاغہ _ حكمت ۲۵

۳۵

امام _ نے بلند آواز سے تكبير كہى اور تفتيش كو مكمل كر ليا ، اس طرح سے اُن كے جھوٹ كا پردہ فاش ہو گيا اور معلوم ہو گيا كہ ساتھيوں ہى نے اسے قتل كياتھا اور اس كے مال پر قبضہ كر ليا تھا(۱)

۲) ...سچّائي انبياء (ع) كے مقاصد ميں سے ايك ہے :

لوگوں كو سچّائي اور امانت دارى كے راستوں پر ہدايت كرنا، اور جھوٹ اور خيانت سے ان كو باز ركھنا تمام انبياء (ع) الہى كى بعثت كے مقاصد ميں سے ايك مقصد رہا ہے _ جيسا كہ حضرت امام جعفر صاد ق(ع) فرماتے ہيں :

''ان الله لم يبعث نبيا الا بصدق الحد يث وَاَدَائ الاَمَانة ،،(۲) '' خداوند عالم نے كسى نبى كو نہيں بھيجا مگر دو نيك اور پسنديدہ اخلاق كے ساتھ ، ايك تو سچ بولنا اور دوسرے امانتوں كى ادائيگى ہے _،،

حضرت على عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''لايجدُ عبد حقيقة الايمان حتّى يدع الكذبَ جدَّه وهزله'' (۳) ''كوئي بندہ ايمان كى حقيقت كو اس وقت تك نہيں پاسكتا ، جب تك كہ وہ جھوٹ بولنا نہ چھوڑ دے ، چاہے وہ واقعاً جھوٹ ہو يا مذاق سے جھوٹ ہو_،،

____________________

۱_قضاوتہاى حضرت على عليه السلام

۲ _ سفينة البحار_ ج ۶_ ص ۲۱۸

۳_سفينة البحار _ ج ۲_ ص ۴۷۳

۳۶

۳) جھوٹ كے اثرات :

الف: جھوٹ ، انسان كى شرافت اور اس كى شخصيت كے منافى ہے ،

يہ انسان كو ذليل كر ديتا ہے ، جناب اميرالمؤمنين عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''الكذبُ وَالخيانة ليسا من اخلاق الكرام _،،(۱)

ترجمعہ :'' جھوٹ اور خيانت شريف لوگوں كا شيوہ نہيں ہے _،،

::: ب: جھوٹ ، ايمان كو برباد كر ديتا ہے _

حضرت امام محمد باقر عليہ السلّام فرماتے ہے :

''انَّ الكذب هوخراب الايمان ،،(۲) ''جھوٹ ايمان كى تباہى كا موجب بنتا ہے _ ،،

ج: جھوٹ دوسرے گناہوں كا سبب بنتا ہے

_ جبكہ سچّائي بہت سے گناہوں ميں ركاوٹ بنتى ہے _ جھوٹ بولنے والا كسى گناہ كے ارتكاب سے نہيں ہچكتا ، اور ہر قسم كى قيد و بند كو توڑ ڈالتا ہے اور جھوٹ سے ان تمام گناہوں كا انكار كر ديتا ہے _

حضرت امام محمد باقر عليه السلام فرماتے ہيں :

'' خداوند عالم نے تمام برائيوں كو ايك جگہ قرار ديا ہے اور اس كى چابى شراب ہے _ ليكن جھوٹ شراب سے بھى بدتر ہے _،،(۳)

____________________

۱_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ص ۳۴۳

۲_ اصول كافى _ (مترجم)_ ج ۲_ ص ۳۳۹

۳_ سفينة البحار _ ج ۲_ ص ۴۷۳

۳۷

د: جھوٹ ، كفر سے قريب ہے _

ايك شخص نے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہو كر سوال كيا كہ جہنّمى كون سے جرم كى وجہ سے زيادہ جہنّم ميں جائيں گے ؟ ، حضور(ص) نے ارشاد فرمايا :

'' جھوٹ كى وجہ سے ، كيونكہ جھوٹ انسان كو فسق و فجور اور ہتك حرمت كى طرف لے جاتا ہے ، فسق و فجور كفر كى طرف اور كفر جہنّم كى طرف لے جاتا ہے _ ،،(۱)

ھ: ......جھوٹ بولنے والے پر كوئي اعتماد نہيں كرتا ،

جھوٹ بولنے سے انسان كى شخصيّت كا اعتبار ختم ہو جاتا ہے ، اور دروغگوئي كى صفت اس كے بے آبرو ہو جانے كا سبب بن جاتى ہے _ جھوٹے چروا ہے كى داستان آپ نے كتابوں ميں پڑھى ہو گى كہ جس نے دروغ گوئي سے شير آيا ، شير آيا،،چلا چلاكر اپنا اعتماد كھو ديا تھا ، چنانچہ ايك دن وہ ايك واقعى شير كا شكار ہو گيا _

حضرت امير المومنين عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''جو شخص جھوٹا مشہور ہو جائے لوگوں كا اعتماد اس سے اٹھ جاتا ہے _،،(۲)

'' جو جس قدر زيادہ جھوٹا ہو گا ، اسى قدر زيادہ ناقابل اعتماد ہو گا _،،(۳)

ي: '' دروغ گورا حاقطہ نباشد ،، والى ضرب المثل صحيح ہے ،كيونكہ وہ ہميشہ حقيقت كے خلاف بات كرتا ہي، متعدد نشستوں ميں مختلف قسم كے جھوٹ بولتا ہي، جو ايك دوسرے كے برعكس ہوتے ہيں _

____________________

۱_ مستدرك الوسائل ج۲ ص ۱۰۱

۲_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ ص ۲۴۵

۳_ اصول كافى (مترجم ) _ ج ۴ _ ص ۳۸

۳۸

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلّام فرماتے ہيں :

'' نسيان اور بھول چوك ايك ايسى چيز ہے كہ جو خدا جھوٹوں كے دامن ميں ڈال ديتا ہے _،،(۱)

۴) ......جھوٹ كى وجوہات :

ہر ايك گناہ اور برا كام ان اسباب وعلل كى وجہ سے سر زد ہوتا ہے جو كہ انسان كے اندر ہى اندر پروان چڑھتے رہتے ہيں ، لہذا گناہوں كا مقابلہ كر كے ان اسباب و علل كا خاتمہ كر دينا چاہئے _ جھوٹ ايك ايسى برى عادت ہے كہ جس كے كئي اسباب بتائے گئے ہيں ، جنہيں ہم ذيل ميں اختصار كے ساتھ ذكر كر رہے ہيں :

الف: احساس كمتري:

بعض لوگ چونكہ اپنے آپ ميں اپنى اہميت يا كوئي خاص ہنر نہيں پاتي، لہذا كچھ جھوٹى اور بے سروپا باتوں كو جوڑ كر لوگوں كے سامنے اپنى اس كمى كى تلافى كرتے ہيں اور اپنے آپ كومعاشرہ كى ايك اعلى شخصيت ظاہر كرنے كى كوشش كرتے ہيں، يہى وجہ ہے كہ رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :

''جھوٹا شخص ' احساس كمترى كى وجہ سے ہى جھوٹ بولتا ہي''_

ب: سزا اور جرمانہ سے بچنے كيلئے :

كچھ لوگ سزا كے خوف سے جھوٹ كا سہارا ليتے ہيں اور اس طرح وہ يا تو سرے ہى سے جرم كا انكار كرديتے ہيں يا پھر اپنے جرم كى توجيہہ ميں غلط بيانى كرتے ہيں اور اپنے جرم كا اقرار كرنے پر قطعاً آمادہ نہيں ہوتے اور جرم كى سزا بھگتنے يا جرمانہ ادا

۳۹

كرنے كے لئے تيار نہيں ہوتي_

ج: منافقت اور دوغلى پاليسي_

منافق اور دوغلے لوگ خوشامد اور چاپلوسى كے پردے ميں جھوٹ بول بول كر ايسى حركتوں كے مرتكب ہوجاتے ہيں جن كے ذريعے وہ معاشرے كے افراد كى توجہ اپنى طرف مبذول كركے اپنے ناپاك عزائم كو پورا كرليتے ہيں_

خداوند عالم نے سورہ بقرہ كے اوائل ميں اس طريقہ كار كو منافقين كى صفت قرار ديا ہے اور فرمايا ہي:

( واذ القو الذين امنوا قالوا امنا واذا خلوا إلى شياطينهم قالو انا معكم انما نحن مستهزئون'' ) (۱)

''جب منافقين' مومنين سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم ايمان لائے ہيں' اور جب اپنے شيطان صفت لوگوں سے تنہائي ميں ملاقات كرتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم تو تمہارے ساتھ ہيں' ہم تو (مومنين كے ساتھ ) ٹھٹھا مذاق كرتے ہيں''_

د: ايمان كا فقدان:

قران مجيد اور روايات سے پتہ چلتا ہے كہ دروغگوئي كى ايك بنيادى وجہ ايمان كا كلى طور پر فقدان يا ايمان كى كمزورى ہي_ قرآن مجيد ميں ارشاد ہي:

( انما يفترى الكذب الذين لا يومنون بايات الله و اولئك هم الكاذبون'' ) (۱)

____________________

۱_ سورہ بقرہ_ آيت ۱۴

۲_ سورہ نحل _آيت ۱۰۵

۴۰

''جھوٹ تو صرف وہى لوگ گھڑتے ہيں جو خدا كى آيات پر ايمان نہيں ركھتي' اور يہى لوگ ہى جھوٹے ہيں''_

حضرت على عليه السلام فرماتے ہيں :

'' كثرة الكذب تفسدالدين'' (۱)

۵_جھوٹ كا علاج:

اجمالى طور پر جھوٹ كے اسباب كو اوپر بيان كرديا گيا ہے _ اختصار كے ساتھ اس كا علاج بھى قلم بند كرر ہے ہيں:

الف : احساس كمترى كو دور كيا جائي_

ب: شجاعت وجوانمردى كى صفت كو تقويت دى جائے تاكہ بے خوف وخطر اور بغير جھوٹ كا سہارا لئے حقائق اور واقعات كو كسى كم وبيشى كے بغير بيان كرسكي' اور اگر كبھى اس كے نتيجے ميں جرمانہ يا سزا ہوئي تو اسے خندہ پيشانى سے قبو ل كرلياجائے _

ج: دوغلى پاليسى اور منافافقت كا علاج كياجائے جو كہ جھوٹ كى اصلى وجہ ہي_

د: اپنے اندر ايمان اور تقوى كے درجات كو بلند سے بلندتر كياجائے ' كيونكہ ايمان اور تقوى كا درجہ جس قدر بلند تر ہوگا' جھوٹ اور برى عادتوں سے اسى قدر جان چھوٹ جائے گي_

____________________

۱_ شرح غررالحكم _ ج ۷ _ ص ۳۴۴

۴۱

ھ: ......قرآن مجيد كى ان آيات اور احاديث معصومين (ع) كا زيادہ سے زيادہ مطالعہ كياجائے اور ان ميں خوب غور وخوض كياجائے كہ جو جھوٹ كى مذمّت ميں وارد ہوئي ہيں اور اسے ہلاكت اور بدبختى كا موجب قرار ديتى ہيں_

و: اس بات كو مدّنظر ركھاجائے كہ جھوٹے انسان كى قدرو قيمت معاشرے ميں گرجاتى ہي، كوئي شخص اس كى باتوں پر عتماد نہيں كرتا اور نہ ہى اس كا احترام كرتاہي_

ي: ايسى آيات اور روايات ميں خوب غورفكر كياجائے جو صدق و سچّائي كى مدح كرتى ہيں، حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے اپنے ايك صحابى سے فرمايا :

''غور كروكہ حضرت على _ كو كن وجوہات كى بنا پر پيغمبر اكرم (ص) كے ہاںاس قدر قرب اور مقام ومنزلت حاصل ہوئي ' تم بھى وہى كام كرو 'يقينا على _ سچّائي اور ايماندارى كى بناء پر آنحضرت (ص) سے اس قدر قريب ہوئے تھي''(۱)

____________________

۱_ جامع السعادات_ ج ۲_ ص ۳۳۴

۴۲

چوتھا سبق:

ناروا گفتگو اور بدكلامي

۱)__________ تمہيد

۲)_________امام صادق عليه السلام كا بدزبان شخص سے قطع رابطہ

۳)_________بدكلامى كا انجام

۴)_________ معصوم پيشوائوں كے كردار

۵)_________ بدكلامى كا علاج

۴۳

۱) ... تمہيد:

زبان' انسانى جسم كا ايك چھوٹا سا جز و ہي_ اگر اس چھوٹے سے جزو كى تربيت نہ كى جائے تو يہ بڑے بڑے گناہوں كا موجب بنے گا_ علماء علم اخلاق نے زبان كے حوالے سے تقريباً بيس گناہ تحرير كئے ہيں_

حضرت اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں :

''صلاَح الإنسان فى حَبس اللّسان'' (۱)

''انسان كى بہترى اس كى زبان كى حفاظت ميں ہے ''_

زبان انسان كى شخصيت اور اس كے كمال كا آئينہ دار ہي، زيرك اور ذى شعور انسان لوگوں كو چند باتوں كے ذريعہ پہچان ليتے ہيں_ بقول شيخ سعدي:

____________________

۱_ ...ميزان الحكمة ، ج ۸، ص ۴۹۹

۴۴

تا مرد سخن نگفتہ باشد،

عيب وہنرش نہفتہ باشد،

جب تك انسان بات نہ كري' اس كے عيب اور ہنر چھپے رہتے ہيں ''_

اچھى بات اور مفيد گفتگو، متكلم كى پاك طينت اور باطنى پاكيزگى كى علامت ہوتى ہي_ ناشائستہ اور بيہودہ گفتگو متكلم كے آلودہ باطن كى نشانى ہي_ حضرت اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں :

''سنَّة اللَّئام قُبح الكلام'' _

''كمينہ اور پست فطرت لوگوں كا شيوہ بد كلامى ہوتا ہي''_

۲) امام صادق عليه السلام كا بدزبان شخص سے قطع رابطہ :

ايك شخص اكثر اوقات حضرت امام جعفر صادق _ كى خدمت ميں رہتا تھا يہاں تك كہ وہ حضرت (ع) كے ساتھ ہميشہ رہنے كى بنا پر خاصى شہرت حاصل كرچكا تھا، چنانچہ ايك دن وہ آپ (ع) كے ساتھ جوتا فروشوں كى بازار سے گزر رہا تھا اور اس كا غلام بھى اس كے پيچھے پيچھے چل رہا تھا ، اس شخص نے پيچھے مڑ كر غلام كو ديكھا تو وہ اسے نظر نہ آيا ' چند قدم چل كر اس نے پھر اسے ديكھا پھر بھى نظر نہ آيا' تيسرى مرتبہ اسے غلام كى اس حركت پر غصہ آگيا كہ وہ اس قدر پيچھے كيوں رہ گيا ہي' غلام كو پيچھے رہنے كى جرا ت كيسے ہوئي، جب چوتھى مرتبہ اس نے مڑكرديكھا تو وہ نظر آگيا _ وہ شخص اپنے جذبات پر قابو نہ ركھ سكا اور غلام كو ماں كى گالى دے كر كہا كہ : تو كہاں تھا؟

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے اس كى بد زبانى كو ديكھ كر اپنا ہاتھ زور سے

۴۵

پيشانى پر مارا اورفرمايا:

''سبحان اللہ تم اپنے غلام كو گالى دے رہے ہو؟ اور اس كى ماں كو برائي سے ياد كر رہے ہو؟ ميں تو سمجھتا تھا كہ تم متّقى انسان ہو' اب معلوم ہو اكہ تمہارے اندر تقوى نہيں ہي''_

وہ شخص اپنى اس بد زبانى كى توجيہہ كرتے ہوئے عرض كرنے لگا : '' فرزند رسول (ص) ' اس غلام كى ماں سندھى ہے اور آپ (ع) جانتے ہيں كہ وہ مسلمان نہيں ہيں'' _ حضرت (ع) نے فرمايا كہ : اس كى ماں كافرتھي' سوتھى ہر قوم اور ملت كے اپنے قوانين اور اپنے مذہب كے طور طريقے ہوتے ہيں' جن كے تحت وہ ازدواجى امور انجام ديتے ہيں ، اس لحاظ سے ان كا يہ عمل زنا نہيں ہوتا اور ان كى اولاد ''ولدالزّنا'' نہيں كہلاتي'' ، اس كے بعد فرمايا :

''اب تم مجھ سے دور ہوجائو''_

پھر اس شخص كو كسى نے آپ (ع) كے ساتھ كبھى نہ ديكھا(۱)

۳) ... بدكلامى كا انجام:

اب ہم مختصر طور پر بد زبانى كے بُرے انجام كے بارے ميں كچھ باتيں عرض كرتے ہيں:

الف: ... بدزبانى انسان كو خدا كے نزديك بے قدروقيمت بناديتى ہے اور اس كے اور خدا كے درميان جدائي ڈال ديتى ہي_

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم) _ ج ۴، ص ۱۵_

۴۶

حضرت امام محمد باقر عليه السلام فرماتے ہيں :

''انَّ الله يَبغَضُ الفَاحش المتَفحش'' (۱)

''خداوند عالم گالى گلوچ بكنے والے كو دشمن ركھتا ہے ''_

ب: ... بدزبان شخص كى دعا قبول نہيں ہوتي_

امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں كہ بنى اسرائيل ميں ايك شخص جو تين سال تك اللہ كى بارگاہ ميں گڑ گڑا كر دعا مانگا كرتا تھا كہ خدا اسے اولاد نرينہ سے نوازي' ليكن جب اس كى دعا قبول نہ ہوئي تو وہ بہت ہى افسردہ خاطر ہوا_ آخر كار اس نے خواب ديكھا كہ كوئي شخص اسے كہہ رہا ہے كہ تم تين سال سے خدا كو بُرى اور آلودہ زبان سے پكار رہے ہو ' اور پھر اس بات كى توقع ركھتے ہو كہ خدا تمہارى آرزوؤں كو پورا كرے ؟ جائو پہلے زبان كو ان آلودگيوں سے پاك كرو پھر دعا مانگو تاكہ خدا كے نزديك ہوجاؤ اور وہ تمہارى دعائوں كو قبول كري_

امام عليه السلام نے فرمايا :

''اس شخص نے انسان كى راہنمائي پر عمل كيا اور دعا مانگى ' لہذا خدا نے اسے فرزند عطا كيا''(۲)

ج: ... بدزبان شخص پر جنت حرام ہي_ رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :

''خداوند عالم نے جنت كو ہر اُس بدزبان اور بيہودہ بكنے والے شخص پر حرام كرديا ہے جسے اس بات كى پرواہ نہيں ہوتى كہ وہ كيا بك رہا ہے اور

____________________

۱_ ميزان الحكمة ' ج ۸، ص ۱۵

۲_ اصول كافى (مترجم) _ ج ۴، ص ۱۶

۴۷

لوگ اس كے بارے ميں كيا كہتے ہيں''(۱)

د: ... بدزباني' نفاق كى علامت ہي_

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں :

''گالى گلوچ ' بدزبانى اور بيہودہ گوئي نفاق كى ايك علامت ہي''(۲)

ھ: ... بدزبان شخص كا شمار' بدترين لوگوں ميں ہوتا ہي_

رسول اكرم (ص) فرماتے ہيں :

''خدا كى بدترين مخلوق ميںسے ايك ' بد زبان شخص بھى ہي' جس كى بدزبانى كى وجہ سے لوگ اس كے ساتھ ميل جول كو پسند نہيں كرتي''(۳)

و: ... بدزبانى كى وجہ سے انسان كى زندگى سے بركت اٹھ جاتى ہے اور وہ تباہ وبرباد ہوجاتاہي_

امام معصوم عليه السلام فرماتے ہيں :

''مَن فَحشَ على ا خيه المسلم نَزَعَ الله منه بَركةَ رزقه و وَكَلَهُ الى نفسه وَ اَفسَدَ عليه مَعيشته' (۴)

''جو شخض اپنے مسلمان بھائي كو گالى ديتا ہي' خداوند متعال اس كے رزق وروزى سے بركت اٹھاليتاہي' اور اسے اس كے نفس كے سپرد كرديتا ہے اور اس كى زندگى كو تباہ كرديتا ہي''_

____________________

۱_ ميزان الحكمة (مترجم) ، ج ۴، ص ۱۶

۲_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۴، ص ۱۷

۳_ اصول كافى _ ج ۴، ص ۱۷

۴_ وسائل الشيعہ ، ج ۱۱_ص ۳۲۸

۴۸

۴) ... معصوم پيشوائوں (ع) كے كردار:

مسلمانوں كو چاہئے كہ وہ پيغمبر خدا (ص) اور ائمہ اطہار عليہم السلام كے عظيم كردار اور رفتار كو اپنا اخلاقى نمونہ قرار دے _ محمد (ص) وآل محمد (ص) نے اپنى تمام عمر ميںنہ صرف كبھى كسى كو ناسزا نہيں كہا ' بلكہ اپنے بزرگوارانہ طرز عمل زندگى سے نازيبا اور نا مناسب گفتگو كرنے والوں كو شرمندہ كيا اور انہيں نيك راہ كى طرف ہدايت كي_ معصومين (ع) كے كردار كى ايك جھلك دكھانے كے لئے نمونے كے طور پر دو واقعات كو سپرد قلم كرتے ہيں_

الف: ... حضرت اميرالمومنين على عليه السلام فرماتے ہيں :

''كسى يہودى كا رسول خدا (ص) پر قرض تھا ، اس كى مقررَّ مدت جب ختم ہوگئي تو اس نے آنحضرت (ص) كے گھر كا رخ كيا ، مدينہ كى ايك گلى ميں اس كى آنحضرت (ص) سے ملاقات ہوگئي تو اس نے قرض كا مطالبہ كيا _ حضور (ص) نے فرمايا :

'' فى الحال ميرے پاس رقم نہيں ہے جس سے تمہارا قرض ادا كياجاسكي''_

يہودى نے كہا:

'' جب تك آپ (ص) ميرا قرضہ واپس نہيں كريں گے ميں آپ (ص) كو نہيں چھوڑوں گا''_

حضور اكرم (ص) كسى قسم كى ناراضگى يا غصّے كا اظہار كئے بغير اس كے ساتھ وہيں بيٹھ گئي_ نماز ظہر' عصر ' مغرب اور عشاء كو وہيں ادا كيا ' حتى كہ دوسرے دن كى

۴۹

صبح كى نماز بھى وہيں پر ادا كي_ اصحاب نے خواہش كى كہ اسے ڈانٹ ڈپٹ كر بھگا دياجائے ' ليكن رسالت مآب (ص) نے فرمايا :

''خدا نے مجھے اس لئے نہيں بھيجا كہ ميں كسى پر ظلم وستم كروں خواہ كوئي يہودى ہو يا غير يہودي''_

غرض ظہر كى نماز كا وقت قريب آگيا' ليكن كسى كو كچھ معلوم نہيں تھا كہ انجام كار كيا ہوگا 'اچانك يہودى اپنى جگہ سے اٹھا او رمؤدبانہ اندا زميں حضور (ص) كے سامنے كھڑا ہوكر كہنے لگا :

''اشهدان لا اله الاّ الله واشهدان محمد رسول الله '' _

پھر اس نے عرض كيا : ''يارسول اللہ (ص) يہ جو مشكلات ميں نے آپ (ص) كے سامنے كھڑى كى تھيں' يہ اس لئے نہيںتھيں كہ ميں آپ (ص) سے اس ناچيز رقم كو واپس لے لوں' يا آپ (ص) كو كوئي دكھ اور تكليف پہنچائوں' بلكہ ميں آپ (ص) كو آزمانا چاہتا تھا كہ آپ (ص) واقعى خدا كے رسول ہيں يا نہيں ؟ ' كيونكہ ميں نے تورات ميں پڑھا ہے كہ پيغمبر خاتم الانبياء (ص) نہ تو سخت مزاج ہوگا نہ ہى تند خو ،بدزبان اور بيہودہ كلام كرنے والا ہوگا_ بلكہ كبھى بھى كسى كو گالى نہيں دے گا''(۱) ب: ... حضرت امام حسن_ ايك دن گھوڑے پر سوار ہوكر ايك گلى سے گذر رہے تھے كہ ايك شامى سے آپ (ع) كى ملاقات ہوئي' وہ شخص معاويہ كے غلط پروپيگنڈہ كى بناء پر دشمن اہل بيت (ع) بن چكا تھا، اس نے آپ (ص) كو ديكھتے ہى بُرا بھلا كہنا شروع كرديا، آپ (ص) خاموشى كے ساتھ اس كى باتيں

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۱۶_ ص ۲۱۶

۵۰

سنتے رہے ' جب وہ ختم كرچكا تو امام حسن عليه السلام نے خندہ پيشانى كے ساتھ مسكرا كر فرمايا :_

''معلوم ہوتا ہے كہ تم مسافر ہو اور ہمارے دشمنوں كے دھوكے ميں آكر ايسا كہہ رہے ہو_ اگر تمہيں اپنے گھر سے نكال ديا گيا ہے تو ہم تمہيں گھر ديتے ہيں ' اگر بھوكے ہو تو ہم تمہيں كھانا كھلاتے ہيں اور اگر لباس كى ضرورت ہے تو لباس ديتے ہيں_ آئو ہمارے ساتھ ہمارے گھر چلو تاكہ وہاں پر تمہارى خاطر خواہ تواضع كى جائي''_

شامى آپ (ع) كى باتيں سن كر رونے لگا اور كہنے لگا :

''ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ (ع) ہى رسول خدا (ص) كے حقيقى جانشين اور خدا كى زمين ميں خدا كے خليفہ ہيں، اب تك آپ (ع) اور آپ(ع) كے والد ماجد على ابن ابى طالب _ ميرے نزديك دنيا كے بدترين انسان تھي' ليكن اب خدا كى مخلوق ميں سب سے محبوب ترين انسان ہيں ''_

پھر وہ اپنى جگہ سے اٹھا اور حضرت امام حسن عليه السلام كے ہمراہ آپ (ع) كے دولت كدہ پر حاضر ہوااور ايك عرصے تك آپ (ع) كا مہمان رہا ' اور اہل بيت اطہار عليہم السلام كا سچّا اور حقيقى محب بن گيا(۱)

حُسن كلام اور خوش گفتارى انبياء اور اولياء الہى كا شيوہ ہے ا ور دين خدا كى تبليغ اور لوگوں كو خدا كى طرف دعوت دينے كا ايك اہم سبب بھى ہي، اللہ تعالى نے اپنے دو انبياء ' موسى _ اور ہارون _ كو فرعون كى طرف بھيجا تو انہيں تاكيد كردى كہ اس كے

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۴۳_ ص ۳۴۴

۵۱

ساتھ نرمى سے بات كرنا' ہوسكتا ہے كہ وہ ہوش ميں آجائے اور خدا كى عبادت كرنے لگي_ قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہي:

''اذهَبَا إلى فرعون إنّه طَغى فقولاَ لَه قولاً لينّاً لَّعلَّهُ يَتَذكَّرُ اَويَخشى ''(۱)

''تم دونوں (موسى (ع) اور ہارون(ع) ) فرعون كے پاس جائو ' وہ بہت سركش ہوگيا ہي، پھر اس سے نرمى كے ساتھ بات كرنا شايد (برغبت) نصيحت قبول كرلے يا (عذاب الہى سي) ڈرجائے _

۵) ... بدزبانى كا علاج:

اس سلسلے ميں چند نكات بيان كرنا ضرورى ہي:

الف: ... انبياء اور ائمہ عليہم السلام انسانى روح كے طبيب ہوتے ہيں ، چونكہ اخلاقى رذائل اور برى صفات انسانى روح اور جان كے لئے مرض ہيں لہذا ہميں چاہئے كہ ہم ان كے فرامين كو گوش دل سے سنيں اور اپنے روحانى درد اور امراض كاعلاج كريں_

حضرت اميرالمومنين عليه السلام بد زبان سے بچنے كے لئے تنبيہ كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

'' ايّاك وما يستهجن منَ الكلام فإنَّه يَحبس عليك اللئام و ينفرعنك الكرام'' _(۲)

____________________

۱_ سورہ طہ _ آےت ۴۳ اور ۴۴

۲_ ميزان الحكمة _ ج ۸_ ص ۴۳۶ و شرح غرر الحكم ج۲ ص ۳۱۴

۵۲

''بدزبانى اور بے حيائي كى باتوں سے اجتناب كرو' كيونكہ بدزبانى كى وجہ سے پست اور ذليل لوگ تمہارے گرد جمع ہوجائيں گے 'شريف اور معزّز لوگ تم سے دور بھاگيں گي''_

يہ اس امام كا كلام ہے جس نے كبھى بھى كوئي نازيبا بات منہ سے نہيں نكالي، اس فرمان پر اگر غور كياجائے تو بدزبانى كا انجام انسان كے ذہن ميں مجسم ہوكر آجاتا ہے ' يعنى اگر انسان بدزبان بن جائے اور زبان پر كنڑول نہ كرے تو اس كايہى نتيجہ نكلے گا كہ اچھے اور صالح لوگوں كارابطہ اس سے منقطع ہوجائے گا او رلاابالى اور خدا سے بے خبر لوگوںكا اس سے تعلق استوار ہوجائے گا اور وہ اس كے ساتھى بن جائيں گي، اور يہ بات تو اظہر من الشمس ہے كہ بدكار لوگوں كى ہم نشينى كا انجام اچھا نہيں ہوتا اور انسان اس قسم كے لوگوں كى دوستى وہم نشينى سے اس وقت پشيمان ہوتا ہے جب ندامت كوئي فائدہ نہيں ديتى _

قرآن مجيد ايسے لوگوں كے بارے ميں خبردار كر رہا ہے كہ جو بُرے لوگوں كے ساتھ اپنى نشست وبرخاست ركھتے ہيں ' كيونكہ ان كى دوستى نے انہيں اس طرح تباہ وبرباد كرديا ہے كہ آخر كار پشيمان ہو كر اپنى تباہى و بربادى كا ماتم كرتے ہيں _ ملاحظہ فرمايئي:

''ويوم يَعضُّ الظالم على يديه يقول ُ ياليتنى اتَّخذتُ مع الرسول سبيلاً' ى ويلتى ليتنى لم اتخذُ فلاناً خليلاً ''(۱) '' او رجس دن ظالم اپنے ہاتھوں كو كاٹے گا اور كہے گا اے كاش ميں نے

____________________

۱_ سورہ فرقان _ آےت ۲۷اور ۲۸

۵۳

پيغمبر (ص) (كے دين) كا راستہ اختيا ركرلياہوتا ' اے كاش كيا اچھا ہوتا كہ ميں فلاں كو اپنا دوست نہ بناتا''_

لہذا اگر ہم اس قسم كے انجام سے بچنا چاہتے ہيں تو ہميں چاہئے كہ نازيبا اور ناروا باتوں اور بد زبانى سے اپنے آپ كو بچائيں تاكہ اچھے لوگ ہمارے ساتھ دوستى كريں_

ب: ... قرآن مجيد نيك وشائستہ گفتگو كے بارے ميں فرماتا ہي:

''إلَيه يَصعَدُ الكم الطّيب'' (۱)

''پاك وپاكيزہ كلام ہى اسى (اللہ تعالى ) كى طرف جاتا ہي''_

بنابريں اگرانسان نيك اور پاك كلام زبان پر جارى كرے تو خداوند عالم ايسى باتوں كو سنتا ہي' ورنہ ناپسنديدہ اور بيہودہ باتوں كو كوئي سننے كا روا دار نہيں ہي_

اللہ تعالى ناشائستہ باتيں كرنے والوں كو دوست نہيں ركھتا اور كتنى برى بات ہے كہ مومن جس زبان سے اللہ تعالى كا ذكر كرتا ہے ' نماز پڑھتا ہے اور قرآن پاك كى تلاوت كرتا ہي' اسى زبان سے فحش' ناشائستہ' نازيبا اور ناروا الفاظ ادا كري_

ج: ... سكوت او رخاموشى بھى زبان پر كنڑول كرنے كا ايك ذريعہ ہي_ جہاں پر حق بات كے بيان كرنے كا موقع نہيں ہوتا وہاں زبان كو بند ركھنا كس قدر اچھا لگتا ہے كيونكہ زيادہ باتيں كرنا اور زبان كو بے لگام چھوڑدينا 'ناشائستہ گفتگو كرنے كا سبب بن جاتا ہي_

حضرت على عليه السلام فرماتے ہيں :

''ايَّاك وكثرةَ الكلام فإنَّه يكثرُ الزلل ويورثُ الملل'' (۲)

____________________

۱_ سورہ فاطر _ آيت ۱۰

۲_ ميزان الحكمة _ ج ۸_ ص ۴۳۹

۵۴

''زيادہ باتيں كرنے سے پرہيز كرو كيونكہ اس سے لغزشيں زيادہ ہوتى ہيں اور سننے والے كے لئے نفرت كا موجب بن جاتى ہيں''_

ايك اور موقع پر فرماتے ہيں:

''الكلام كالدّوائ قليله ينفع وكثيره قاتل ''(۱)

''گفتگو دواء كى مانند ہے جس كا كم شفا بخش اور كثرت موت ہي''_

____________________

۱_ ميزان الحكمة_ ج ۸ _ ص ۴۴۴

۵۵

ساتواں سبق :

غيبت اور تہمت

۱) .........غيبت اور تہمت كے معني

۲) .........قرآن وحديث ميں غيبت كى مذمت

۳) .........مومن كو غيبت سے بچنا چاہيئي

۴) .........غيبت كے آلات ( غيبت كا سر چشمہ )

۵) .........غيبت كے اسباب

۶) .........غيبت كا كفّارہ

۷) .........قرآن و حديث ميں تہمت كى مذّمت

۵۶

(۱)_غيبت اور تہمت كے معني:

-----غيبت،، اور'' تہمت ،،گناہ كبيرہ اور اخلاقى لحاظ سے برى عادتيںہيں ، اورمومن كو ان كے ارتكاب سے بچنا چاہيے _''غيبت ،،سے مراد يہ ہے كہ دوسروں كے با رے ميں ايسى بات كر نا كے اگر وہ سُن ليں تو انہيں تكليف پہنچي، اور ''تہمت،، كا مطلب يہ ہے كہ دوسروںكى طرف كسى ايسے گناہ يا عيب كى نسبت ديناجو ان ميں نہ پائے جاتے ہوں_

حديث ميں ہے كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے كسى شخص سے پوچھا كيا جانتے ہو كہ''غيبت ''كيا ہوتى ہي؟اس نے جواب ديا:خدا اور اس كے رسول بہتر جانتے ہيں،تو حضور (ص) نے فرمايا :

''ذكرك اخاك بما يكره،،

''تم اپنے بھائي كا ذكر ايسى چيز كے ساتھ كرے جو اسے پسند نہ ہو''_

۵۷

اس نے پو چھا :

''جو بات ميرے مومن بھائي ميںپائي جاتى ہي،اگر ميں اس كا ذكر كروں تو كيا وہ بھى اپ(ص) كى نظر ميں غيبت ہے ؟''فرمايا:

''وان كان فيه ما تقول فقد اغبته وان لم يكن فيه فقد بهته ،،(۱)

''جو اس ميں ہيں اس كا ذكر غيبت 'اور جو اس ميں نہيں ہے اسے بيان كرنا تہمت ہي_''

(۲)_قران اور حديث ميں غيبت كى مذمّت :

قران مجيد نے غيبت كى سخت مذمّت كى ہي'اور اسے مردہ بھائي كے گوشت كھانے كے برابر قرار ديا ہي،اور اس سے سختى سے منع فرمايا ہے _ارشاد ہي:

''ولا يغتب بعضكم بعضا ايحب احدكم ان يا كل لحم اخيه ميتا فكر هتموه'' (۲)

''تم ميں سے كوئي، كسى كى غيبت نہ كرے ،كيا تم ميں سے كوئي اس بات كو پسند كرتا ہے كہ وہ اپنے مردہ بھائي كا گوشت كھائي؟تم لوگ تو اس سے نفرت كرتے ہو''_

رسول خدا صّلى اللہ عليہ والہ وسلم سے منقول ہے كہ:

''الغيبة اسرع فى دين الرجل المسلم من الاكلته فى جو فه'' (۳)

____________________

۱_ جامع السعادات_ ج ۲_ ص ۳۰۳_ مطبوعہ: بيروت_

۲_ سورہ حجرات _ آيت ۱۲

۳_ اصول كافى _ ج ۲_ ص ۳۵۷

۵۸

''مسلمان كى دين (كى تباہي)كے لئے غيبت ،اس كے با طن ميں پيداہونے والى بيمارى سے زيادہ مہلك ہوتى ہي''_

امير المو منين عليہ السّلام فرما تے ہيں -:

''لا تعود نفسك الغيبة فا ن معتادها عظيم الجرم'' (۱)

''خود كو غيبت كا عادى نہ بنائو،كيونكہ غيبت كے عادى شخص كا جرم بہت سنگين ہي''_

خدا وند متعال كى عبادت و اطاعت جہاں بذات خود اچّھى اور نيك چيز ہے اور اپنے دامن ميں اخرت كا ثواب ليے ہوئي ہي، وہاں دوسرے نيك كا موں كى انجام دہى كے لئے بھى راہ ہموار كرتى ہے ،اسى طرح معصيت جہاں بذات خود ايك جرم اور گنا ہ ہے اور اپنے ساتھ اخرت كا عذاب بھى ركھتى ہے ،وہاں بہت سے دوسرے نيك كاموں كى تباہى كا موجب بھى بن جا تى ہي_ چنا نچہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلاّم فرماتے ہيں:

'الغيبته تاكل الحسنات كما تاكل النار الحطب _''(۲) ''غيبت نيك كاموں كو ايسے ہى كھا جاتى ہے جيسے اگ لكڑى كو''_

(۳)مومن كى غيبت سے بچنا چاہيي:

مومنين كے درميان برادرى كا رشتہ اس بات كا تقاضا كرتا ہے كہ ايك مومن اپنے بھائي كى نہ صرف جان و مال اور عزّت وابرو كو نقصان نہ پہنچائي'بلكہ دوسرے لوگوں كى

____________________

۱_ شرح غرر الحكم _ ج ۶_ ص ۲۹۳

۲_ مصباح الشريعہ_ ص ۲۷۶

۵۹

دست درازى كى صورت اس كا دفاع كرے ،اور اس سے اپنے حمايت كا اعلان كري_

اسى بناپر كسى مومن كے لئے مناسب نہيں ہے كہ وہ اپنے بھائي كى عزّت و ابرو كى پامالى كو ديكھتا رہے ،اگر كوئي نا سمجھ انسان اس كى غيبت كے لئے زبان كھولے تو اسے اس بات سے منع كرنا چاہيئي_حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں:

''اگاہ رہو كہ جو شخص كسى محفل ميں اپنے بھائي كى غيبت سني،اسے چاہيے كہ وہ اس پر احسان كر تے ہوئے غيبت كر نے والے كو اس بات سے روكے ،كيو نكہ ايسا كر نے سے خدا وند عالم اس كى پا نچ ہزار برا ئياں دو نوں جہا نوں ميں اس سے دور كرے گا،ليكن اگر قدرت ركھنے كے با وجود ايسا نہ كرے تو غيبت كرنے والے كے گنا ہوں سے ستّر گناہ اور عذاب اس كے حصّے ميں اتے ہيں_''۱

(۴)_غيبت كے الات (غيبت كا سر چشمہ):

صرف زبان كى نوك ہى غيبت نہيں كرتى كہ جس سے سننے والے كو رو حانى دكھ ہو تا ہو ، بلكہ ہر قسم كا اشارہ،كنايہ،سر اور ہاتھ پائوں كى وہ تمام حر كتيں بھى غيبت شمار ہوتى ہيںجن سے كسى كى غيبت كا ارادہ كيا جائي_حضرت عائشيہ كہتى ہي:

''ايك دن ايك عورت ہمارے گھر ائي _جب وہ واپس جارہى تھى تو ميںنے ہا تھ كے اشارہے سے كہا كہ اس كا چھو ٹا قد ہي''

____________________

۱_وسائل الشيعہ_ ج ۸_ ص ۶

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108