آداب معاشرت

آداب معاشرت0%

آداب معاشرت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 108

آداب معاشرت

مؤلف: اسلامى تحقيقاتى مركز
زمرہ جات:

صفحے: 108
مشاہدے: 55080
ڈاؤنلوڈ: 3648

تبصرے:

آداب معاشرت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 108 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55080 / ڈاؤنلوڈ: 3648
سائز سائز سائز
آداب معاشرت

آداب معاشرت

مؤلف:
اردو

''جھوٹ تو صرف وہى لوگ گھڑتے ہيں جو خدا كى آيات پر ايمان نہيں ركھتي' اور يہى لوگ ہى جھوٹے ہيں''_

حضرت على عليه السلام فرماتے ہيں :

'' كثرة الكذب تفسدالدين'' (۱)

۵_جھوٹ كا علاج:

اجمالى طور پر جھوٹ كے اسباب كو اوپر بيان كرديا گيا ہے _ اختصار كے ساتھ اس كا علاج بھى قلم بند كرر ہے ہيں:

الف : احساس كمترى كو دور كيا جائي_

ب: شجاعت وجوانمردى كى صفت كو تقويت دى جائے تاكہ بے خوف وخطر اور بغير جھوٹ كا سہارا لئے حقائق اور واقعات كو كسى كم وبيشى كے بغير بيان كرسكي' اور اگر كبھى اس كے نتيجے ميں جرمانہ يا سزا ہوئي تو اسے خندہ پيشانى سے قبو ل كرلياجائے _

ج: دوغلى پاليسى اور منافافقت كا علاج كياجائے جو كہ جھوٹ كى اصلى وجہ ہي_

د: اپنے اندر ايمان اور تقوى كے درجات كو بلند سے بلندتر كياجائے ' كيونكہ ايمان اور تقوى كا درجہ جس قدر بلند تر ہوگا' جھوٹ اور برى عادتوں سے اسى قدر جان چھوٹ جائے گي_

____________________

۱_ شرح غررالحكم _ ج ۷ _ ص ۳۴۴

۴۱

ھ: ......قرآن مجيد كى ان آيات اور احاديث معصومين (ع) كا زيادہ سے زيادہ مطالعہ كياجائے اور ان ميں خوب غور وخوض كياجائے كہ جو جھوٹ كى مذمّت ميں وارد ہوئي ہيں اور اسے ہلاكت اور بدبختى كا موجب قرار ديتى ہيں_

و: اس بات كو مدّنظر ركھاجائے كہ جھوٹے انسان كى قدرو قيمت معاشرے ميں گرجاتى ہي، كوئي شخص اس كى باتوں پر عتماد نہيں كرتا اور نہ ہى اس كا احترام كرتاہي_

ي: ايسى آيات اور روايات ميں خوب غورفكر كياجائے جو صدق و سچّائي كى مدح كرتى ہيں، حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے اپنے ايك صحابى سے فرمايا :

''غور كروكہ حضرت على _ كو كن وجوہات كى بنا پر پيغمبر اكرم (ص) كے ہاںاس قدر قرب اور مقام ومنزلت حاصل ہوئي ' تم بھى وہى كام كرو 'يقينا على _ سچّائي اور ايماندارى كى بناء پر آنحضرت (ص) سے اس قدر قريب ہوئے تھي''(۱)

____________________

۱_ جامع السعادات_ ج ۲_ ص ۳۳۴

۴۲

چوتھا سبق:

ناروا گفتگو اور بدكلامي

۱)__________ تمہيد

۲)_________امام صادق عليه السلام كا بدزبان شخص سے قطع رابطہ

۳)_________بدكلامى كا انجام

۴)_________ معصوم پيشوائوں كے كردار

۵)_________ بدكلامى كا علاج

۴۳

۱) ... تمہيد:

زبان' انسانى جسم كا ايك چھوٹا سا جز و ہي_ اگر اس چھوٹے سے جزو كى تربيت نہ كى جائے تو يہ بڑے بڑے گناہوں كا موجب بنے گا_ علماء علم اخلاق نے زبان كے حوالے سے تقريباً بيس گناہ تحرير كئے ہيں_

حضرت اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں :

''صلاَح الإنسان فى حَبس اللّسان'' (۱)

''انسان كى بہترى اس كى زبان كى حفاظت ميں ہے ''_

زبان انسان كى شخصيت اور اس كے كمال كا آئينہ دار ہي، زيرك اور ذى شعور انسان لوگوں كو چند باتوں كے ذريعہ پہچان ليتے ہيں_ بقول شيخ سعدي:

____________________

۱_ ...ميزان الحكمة ، ج ۸، ص ۴۹۹

۴۴

تا مرد سخن نگفتہ باشد،

عيب وہنرش نہفتہ باشد،

جب تك انسان بات نہ كري' اس كے عيب اور ہنر چھپے رہتے ہيں ''_

اچھى بات اور مفيد گفتگو، متكلم كى پاك طينت اور باطنى پاكيزگى كى علامت ہوتى ہي_ ناشائستہ اور بيہودہ گفتگو متكلم كے آلودہ باطن كى نشانى ہي_ حضرت اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں :

''سنَّة اللَّئام قُبح الكلام'' _

''كمينہ اور پست فطرت لوگوں كا شيوہ بد كلامى ہوتا ہي''_

۲) امام صادق عليه السلام كا بدزبان شخص سے قطع رابطہ :

ايك شخص اكثر اوقات حضرت امام جعفر صادق _ كى خدمت ميں رہتا تھا يہاں تك كہ وہ حضرت (ع) كے ساتھ ہميشہ رہنے كى بنا پر خاصى شہرت حاصل كرچكا تھا، چنانچہ ايك دن وہ آپ (ع) كے ساتھ جوتا فروشوں كى بازار سے گزر رہا تھا اور اس كا غلام بھى اس كے پيچھے پيچھے چل رہا تھا ، اس شخص نے پيچھے مڑ كر غلام كو ديكھا تو وہ اسے نظر نہ آيا ' چند قدم چل كر اس نے پھر اسے ديكھا پھر بھى نظر نہ آيا' تيسرى مرتبہ اسے غلام كى اس حركت پر غصہ آگيا كہ وہ اس قدر پيچھے كيوں رہ گيا ہي' غلام كو پيچھے رہنے كى جرا ت كيسے ہوئي، جب چوتھى مرتبہ اس نے مڑكرديكھا تو وہ نظر آگيا _ وہ شخص اپنے جذبات پر قابو نہ ركھ سكا اور غلام كو ماں كى گالى دے كر كہا كہ : تو كہاں تھا؟

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے اس كى بد زبانى كو ديكھ كر اپنا ہاتھ زور سے

۴۵

پيشانى پر مارا اورفرمايا:

''سبحان اللہ تم اپنے غلام كو گالى دے رہے ہو؟ اور اس كى ماں كو برائي سے ياد كر رہے ہو؟ ميں تو سمجھتا تھا كہ تم متّقى انسان ہو' اب معلوم ہو اكہ تمہارے اندر تقوى نہيں ہي''_

وہ شخص اپنى اس بد زبانى كى توجيہہ كرتے ہوئے عرض كرنے لگا : '' فرزند رسول (ص) ' اس غلام كى ماں سندھى ہے اور آپ (ع) جانتے ہيں كہ وہ مسلمان نہيں ہيں'' _ حضرت (ع) نے فرمايا كہ : اس كى ماں كافرتھي' سوتھى ہر قوم اور ملت كے اپنے قوانين اور اپنے مذہب كے طور طريقے ہوتے ہيں' جن كے تحت وہ ازدواجى امور انجام ديتے ہيں ، اس لحاظ سے ان كا يہ عمل زنا نہيں ہوتا اور ان كى اولاد ''ولدالزّنا'' نہيں كہلاتي'' ، اس كے بعد فرمايا :

''اب تم مجھ سے دور ہوجائو''_

پھر اس شخص كو كسى نے آپ (ع) كے ساتھ كبھى نہ ديكھا(۱)

۳) ... بدكلامى كا انجام:

اب ہم مختصر طور پر بد زبانى كے بُرے انجام كے بارے ميں كچھ باتيں عرض كرتے ہيں:

الف: ... بدزبانى انسان كو خدا كے نزديك بے قدروقيمت بناديتى ہے اور اس كے اور خدا كے درميان جدائي ڈال ديتى ہي_

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم) _ ج ۴، ص ۱۵_

۴۶

حضرت امام محمد باقر عليه السلام فرماتے ہيں :

''انَّ الله يَبغَضُ الفَاحش المتَفحش'' (۱)

''خداوند عالم گالى گلوچ بكنے والے كو دشمن ركھتا ہے ''_

ب: ... بدزبان شخص كى دعا قبول نہيں ہوتي_

امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں كہ بنى اسرائيل ميں ايك شخص جو تين سال تك اللہ كى بارگاہ ميں گڑ گڑا كر دعا مانگا كرتا تھا كہ خدا اسے اولاد نرينہ سے نوازي' ليكن جب اس كى دعا قبول نہ ہوئي تو وہ بہت ہى افسردہ خاطر ہوا_ آخر كار اس نے خواب ديكھا كہ كوئي شخص اسے كہہ رہا ہے كہ تم تين سال سے خدا كو بُرى اور آلودہ زبان سے پكار رہے ہو ' اور پھر اس بات كى توقع ركھتے ہو كہ خدا تمہارى آرزوؤں كو پورا كرے ؟ جائو پہلے زبان كو ان آلودگيوں سے پاك كرو پھر دعا مانگو تاكہ خدا كے نزديك ہوجاؤ اور وہ تمہارى دعائوں كو قبول كري_

امام عليه السلام نے فرمايا :

''اس شخص نے انسان كى راہنمائي پر عمل كيا اور دعا مانگى ' لہذا خدا نے اسے فرزند عطا كيا''(۲)

ج: ... بدزبان شخص پر جنت حرام ہي_ رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :

''خداوند عالم نے جنت كو ہر اُس بدزبان اور بيہودہ بكنے والے شخص پر حرام كرديا ہے جسے اس بات كى پرواہ نہيں ہوتى كہ وہ كيا بك رہا ہے اور

____________________

۱_ ميزان الحكمة ' ج ۸، ص ۱۵

۲_ اصول كافى (مترجم) _ ج ۴، ص ۱۶

۴۷

لوگ اس كے بارے ميں كيا كہتے ہيں''(۱)

د: ... بدزباني' نفاق كى علامت ہي_

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں :

''گالى گلوچ ' بدزبانى اور بيہودہ گوئي نفاق كى ايك علامت ہي''(۲)

ھ: ... بدزبان شخص كا شمار' بدترين لوگوں ميں ہوتا ہي_

رسول اكرم (ص) فرماتے ہيں :

''خدا كى بدترين مخلوق ميںسے ايك ' بد زبان شخص بھى ہي' جس كى بدزبانى كى وجہ سے لوگ اس كے ساتھ ميل جول كو پسند نہيں كرتي''(۳)

و: ... بدزبانى كى وجہ سے انسان كى زندگى سے بركت اٹھ جاتى ہے اور وہ تباہ وبرباد ہوجاتاہي_

امام معصوم عليه السلام فرماتے ہيں :

''مَن فَحشَ على ا خيه المسلم نَزَعَ الله منه بَركةَ رزقه و وَكَلَهُ الى نفسه وَ اَفسَدَ عليه مَعيشته' (۴)

''جو شخض اپنے مسلمان بھائي كو گالى ديتا ہي' خداوند متعال اس كے رزق وروزى سے بركت اٹھاليتاہي' اور اسے اس كے نفس كے سپرد كرديتا ہے اور اس كى زندگى كو تباہ كرديتا ہي''_

____________________

۱_ ميزان الحكمة (مترجم) ، ج ۴، ص ۱۶

۲_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۴، ص ۱۷

۳_ اصول كافى _ ج ۴، ص ۱۷

۴_ وسائل الشيعہ ، ج ۱۱_ص ۳۲۸

۴۸

۴) ... معصوم پيشوائوں (ع) كے كردار:

مسلمانوں كو چاہئے كہ وہ پيغمبر خدا (ص) اور ائمہ اطہار عليہم السلام كے عظيم كردار اور رفتار كو اپنا اخلاقى نمونہ قرار دے _ محمد (ص) وآل محمد (ص) نے اپنى تمام عمر ميںنہ صرف كبھى كسى كو ناسزا نہيں كہا ' بلكہ اپنے بزرگوارانہ طرز عمل زندگى سے نازيبا اور نا مناسب گفتگو كرنے والوں كو شرمندہ كيا اور انہيں نيك راہ كى طرف ہدايت كي_ معصومين (ع) كے كردار كى ايك جھلك دكھانے كے لئے نمونے كے طور پر دو واقعات كو سپرد قلم كرتے ہيں_

الف: ... حضرت اميرالمومنين على عليه السلام فرماتے ہيں :

''كسى يہودى كا رسول خدا (ص) پر قرض تھا ، اس كى مقررَّ مدت جب ختم ہوگئي تو اس نے آنحضرت (ص) كے گھر كا رخ كيا ، مدينہ كى ايك گلى ميں اس كى آنحضرت (ص) سے ملاقات ہوگئي تو اس نے قرض كا مطالبہ كيا _ حضور (ص) نے فرمايا :

'' فى الحال ميرے پاس رقم نہيں ہے جس سے تمہارا قرض ادا كياجاسكي''_

يہودى نے كہا:

'' جب تك آپ (ص) ميرا قرضہ واپس نہيں كريں گے ميں آپ (ص) كو نہيں چھوڑوں گا''_

حضور اكرم (ص) كسى قسم كى ناراضگى يا غصّے كا اظہار كئے بغير اس كے ساتھ وہيں بيٹھ گئي_ نماز ظہر' عصر ' مغرب اور عشاء كو وہيں ادا كيا ' حتى كہ دوسرے دن كى

۴۹

صبح كى نماز بھى وہيں پر ادا كي_ اصحاب نے خواہش كى كہ اسے ڈانٹ ڈپٹ كر بھگا دياجائے ' ليكن رسالت مآب (ص) نے فرمايا :

''خدا نے مجھے اس لئے نہيں بھيجا كہ ميں كسى پر ظلم وستم كروں خواہ كوئي يہودى ہو يا غير يہودي''_

غرض ظہر كى نماز كا وقت قريب آگيا' ليكن كسى كو كچھ معلوم نہيں تھا كہ انجام كار كيا ہوگا 'اچانك يہودى اپنى جگہ سے اٹھا او رمؤدبانہ اندا زميں حضور (ص) كے سامنے كھڑا ہوكر كہنے لگا :

''اشهدان لا اله الاّ الله واشهدان محمد رسول الله '' _

پھر اس نے عرض كيا : ''يارسول اللہ (ص) يہ جو مشكلات ميں نے آپ (ص) كے سامنے كھڑى كى تھيں' يہ اس لئے نہيںتھيں كہ ميں آپ (ص) سے اس ناچيز رقم كو واپس لے لوں' يا آپ (ص) كو كوئي دكھ اور تكليف پہنچائوں' بلكہ ميں آپ (ص) كو آزمانا چاہتا تھا كہ آپ (ص) واقعى خدا كے رسول ہيں يا نہيں ؟ ' كيونكہ ميں نے تورات ميں پڑھا ہے كہ پيغمبر خاتم الانبياء (ص) نہ تو سخت مزاج ہوگا نہ ہى تند خو ،بدزبان اور بيہودہ كلام كرنے والا ہوگا_ بلكہ كبھى بھى كسى كو گالى نہيں دے گا''(۱) ب: ... حضرت امام حسن_ ايك دن گھوڑے پر سوار ہوكر ايك گلى سے گذر رہے تھے كہ ايك شامى سے آپ (ع) كى ملاقات ہوئي' وہ شخص معاويہ كے غلط پروپيگنڈہ كى بناء پر دشمن اہل بيت (ع) بن چكا تھا، اس نے آپ (ص) كو ديكھتے ہى بُرا بھلا كہنا شروع كرديا، آپ (ص) خاموشى كے ساتھ اس كى باتيں

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۱۶_ ص ۲۱۶

۵۰

سنتے رہے ' جب وہ ختم كرچكا تو امام حسن عليه السلام نے خندہ پيشانى كے ساتھ مسكرا كر فرمايا :_

''معلوم ہوتا ہے كہ تم مسافر ہو اور ہمارے دشمنوں كے دھوكے ميں آكر ايسا كہہ رہے ہو_ اگر تمہيں اپنے گھر سے نكال ديا گيا ہے تو ہم تمہيں گھر ديتے ہيں ' اگر بھوكے ہو تو ہم تمہيں كھانا كھلاتے ہيں اور اگر لباس كى ضرورت ہے تو لباس ديتے ہيں_ آئو ہمارے ساتھ ہمارے گھر چلو تاكہ وہاں پر تمہارى خاطر خواہ تواضع كى جائي''_

شامى آپ (ع) كى باتيں سن كر رونے لگا اور كہنے لگا :

''ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ (ع) ہى رسول خدا (ص) كے حقيقى جانشين اور خدا كى زمين ميں خدا كے خليفہ ہيں، اب تك آپ (ع) اور آپ(ع) كے والد ماجد على ابن ابى طالب _ ميرے نزديك دنيا كے بدترين انسان تھي' ليكن اب خدا كى مخلوق ميں سب سے محبوب ترين انسان ہيں ''_

پھر وہ اپنى جگہ سے اٹھا اور حضرت امام حسن عليه السلام كے ہمراہ آپ (ع) كے دولت كدہ پر حاضر ہوااور ايك عرصے تك آپ (ع) كا مہمان رہا ' اور اہل بيت اطہار عليہم السلام كا سچّا اور حقيقى محب بن گيا(۱)

حُسن كلام اور خوش گفتارى انبياء اور اولياء الہى كا شيوہ ہے ا ور دين خدا كى تبليغ اور لوگوں كو خدا كى طرف دعوت دينے كا ايك اہم سبب بھى ہي، اللہ تعالى نے اپنے دو انبياء ' موسى _ اور ہارون _ كو فرعون كى طرف بھيجا تو انہيں تاكيد كردى كہ اس كے

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۴۳_ ص ۳۴۴

۵۱

ساتھ نرمى سے بات كرنا' ہوسكتا ہے كہ وہ ہوش ميں آجائے اور خدا كى عبادت كرنے لگي_ قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہي:

''اذهَبَا إلى فرعون إنّه طَغى فقولاَ لَه قولاً لينّاً لَّعلَّهُ يَتَذكَّرُ اَويَخشى ''(۱)

''تم دونوں (موسى (ع) اور ہارون(ع) ) فرعون كے پاس جائو ' وہ بہت سركش ہوگيا ہي، پھر اس سے نرمى كے ساتھ بات كرنا شايد (برغبت) نصيحت قبول كرلے يا (عذاب الہى سي) ڈرجائے _

۵) ... بدزبانى كا علاج:

اس سلسلے ميں چند نكات بيان كرنا ضرورى ہي:

الف: ... انبياء اور ائمہ عليہم السلام انسانى روح كے طبيب ہوتے ہيں ، چونكہ اخلاقى رذائل اور برى صفات انسانى روح اور جان كے لئے مرض ہيں لہذا ہميں چاہئے كہ ہم ان كے فرامين كو گوش دل سے سنيں اور اپنے روحانى درد اور امراض كاعلاج كريں_

حضرت اميرالمومنين عليه السلام بد زبان سے بچنے كے لئے تنبيہ كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

'' ايّاك وما يستهجن منَ الكلام فإنَّه يَحبس عليك اللئام و ينفرعنك الكرام'' _(۲)

____________________

۱_ سورہ طہ _ آےت ۴۳ اور ۴۴

۲_ ميزان الحكمة _ ج ۸_ ص ۴۳۶ و شرح غرر الحكم ج۲ ص ۳۱۴

۵۲

''بدزبانى اور بے حيائي كى باتوں سے اجتناب كرو' كيونكہ بدزبانى كى وجہ سے پست اور ذليل لوگ تمہارے گرد جمع ہوجائيں گے 'شريف اور معزّز لوگ تم سے دور بھاگيں گي''_

يہ اس امام كا كلام ہے جس نے كبھى بھى كوئي نازيبا بات منہ سے نہيں نكالي، اس فرمان پر اگر غور كياجائے تو بدزبانى كا انجام انسان كے ذہن ميں مجسم ہوكر آجاتا ہے ' يعنى اگر انسان بدزبان بن جائے اور زبان پر كنڑول نہ كرے تو اس كايہى نتيجہ نكلے گا كہ اچھے اور صالح لوگوں كارابطہ اس سے منقطع ہوجائے گا او رلاابالى اور خدا سے بے خبر لوگوںكا اس سے تعلق استوار ہوجائے گا اور وہ اس كے ساتھى بن جائيں گي، اور يہ بات تو اظہر من الشمس ہے كہ بدكار لوگوں كى ہم نشينى كا انجام اچھا نہيں ہوتا اور انسان اس قسم كے لوگوں كى دوستى وہم نشينى سے اس وقت پشيمان ہوتا ہے جب ندامت كوئي فائدہ نہيں ديتى _

قرآن مجيد ايسے لوگوں كے بارے ميں خبردار كر رہا ہے كہ جو بُرے لوگوں كے ساتھ اپنى نشست وبرخاست ركھتے ہيں ' كيونكہ ان كى دوستى نے انہيں اس طرح تباہ وبرباد كرديا ہے كہ آخر كار پشيمان ہو كر اپنى تباہى و بربادى كا ماتم كرتے ہيں _ ملاحظہ فرمايئي:

''ويوم يَعضُّ الظالم على يديه يقول ُ ياليتنى اتَّخذتُ مع الرسول سبيلاً' ى ويلتى ليتنى لم اتخذُ فلاناً خليلاً ''(۱) '' او رجس دن ظالم اپنے ہاتھوں كو كاٹے گا اور كہے گا اے كاش ميں نے

____________________

۱_ سورہ فرقان _ آےت ۲۷اور ۲۸

۵۳

پيغمبر (ص) (كے دين) كا راستہ اختيا ركرلياہوتا ' اے كاش كيا اچھا ہوتا كہ ميں فلاں كو اپنا دوست نہ بناتا''_

لہذا اگر ہم اس قسم كے انجام سے بچنا چاہتے ہيں تو ہميں چاہئے كہ نازيبا اور ناروا باتوں اور بد زبانى سے اپنے آپ كو بچائيں تاكہ اچھے لوگ ہمارے ساتھ دوستى كريں_

ب: ... قرآن مجيد نيك وشائستہ گفتگو كے بارے ميں فرماتا ہي:

''إلَيه يَصعَدُ الكم الطّيب'' (۱)

''پاك وپاكيزہ كلام ہى اسى (اللہ تعالى ) كى طرف جاتا ہي''_

بنابريں اگرانسان نيك اور پاك كلام زبان پر جارى كرے تو خداوند عالم ايسى باتوں كو سنتا ہي' ورنہ ناپسنديدہ اور بيہودہ باتوں كو كوئي سننے كا روا دار نہيں ہي_

اللہ تعالى ناشائستہ باتيں كرنے والوں كو دوست نہيں ركھتا اور كتنى برى بات ہے كہ مومن جس زبان سے اللہ تعالى كا ذكر كرتا ہے ' نماز پڑھتا ہے اور قرآن پاك كى تلاوت كرتا ہي' اسى زبان سے فحش' ناشائستہ' نازيبا اور ناروا الفاظ ادا كري_

ج: ... سكوت او رخاموشى بھى زبان پر كنڑول كرنے كا ايك ذريعہ ہي_ جہاں پر حق بات كے بيان كرنے كا موقع نہيں ہوتا وہاں زبان كو بند ركھنا كس قدر اچھا لگتا ہے كيونكہ زيادہ باتيں كرنا اور زبان كو بے لگام چھوڑدينا 'ناشائستہ گفتگو كرنے كا سبب بن جاتا ہي_

حضرت على عليه السلام فرماتے ہيں :

''ايَّاك وكثرةَ الكلام فإنَّه يكثرُ الزلل ويورثُ الملل'' (۲)

____________________

۱_ سورہ فاطر _ آيت ۱۰

۲_ ميزان الحكمة _ ج ۸_ ص ۴۳۹

۵۴

''زيادہ باتيں كرنے سے پرہيز كرو كيونكہ اس سے لغزشيں زيادہ ہوتى ہيں اور سننے والے كے لئے نفرت كا موجب بن جاتى ہيں''_

ايك اور موقع پر فرماتے ہيں:

''الكلام كالدّوائ قليله ينفع وكثيره قاتل ''(۱)

''گفتگو دواء كى مانند ہے جس كا كم شفا بخش اور كثرت موت ہي''_

____________________

۱_ ميزان الحكمة_ ج ۸ _ ص ۴۴۴

۵۵

ساتواں سبق :

غيبت اور تہمت

۱) .........غيبت اور تہمت كے معني

۲) .........قرآن وحديث ميں غيبت كى مذمت

۳) .........مومن كو غيبت سے بچنا چاہيئي

۴) .........غيبت كے آلات ( غيبت كا سر چشمہ )

۵) .........غيبت كے اسباب

۶) .........غيبت كا كفّارہ

۷) .........قرآن و حديث ميں تہمت كى مذّمت

۵۶

(۱)_غيبت اور تہمت كے معني:

-----غيبت،، اور'' تہمت ،،گناہ كبيرہ اور اخلاقى لحاظ سے برى عادتيںہيں ، اورمومن كو ان كے ارتكاب سے بچنا چاہيے _''غيبت ،،سے مراد يہ ہے كہ دوسروں كے با رے ميں ايسى بات كر نا كے اگر وہ سُن ليں تو انہيں تكليف پہنچي، اور ''تہمت،، كا مطلب يہ ہے كہ دوسروںكى طرف كسى ايسے گناہ يا عيب كى نسبت ديناجو ان ميں نہ پائے جاتے ہوں_

حديث ميں ہے كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے كسى شخص سے پوچھا كيا جانتے ہو كہ''غيبت ''كيا ہوتى ہي؟اس نے جواب ديا:خدا اور اس كے رسول بہتر جانتے ہيں،تو حضور (ص) نے فرمايا :

''ذكرك اخاك بما يكره،،

''تم اپنے بھائي كا ذكر ايسى چيز كے ساتھ كرے جو اسے پسند نہ ہو''_

۵۷

اس نے پو چھا :

''جو بات ميرے مومن بھائي ميںپائي جاتى ہي،اگر ميں اس كا ذكر كروں تو كيا وہ بھى اپ(ص) كى نظر ميں غيبت ہے ؟''فرمايا:

''وان كان فيه ما تقول فقد اغبته وان لم يكن فيه فقد بهته ،،(۱)

''جو اس ميں ہيں اس كا ذكر غيبت 'اور جو اس ميں نہيں ہے اسے بيان كرنا تہمت ہي_''

(۲)_قران اور حديث ميں غيبت كى مذمّت :

قران مجيد نے غيبت كى سخت مذمّت كى ہي'اور اسے مردہ بھائي كے گوشت كھانے كے برابر قرار ديا ہي،اور اس سے سختى سے منع فرمايا ہے _ارشاد ہي:

''ولا يغتب بعضكم بعضا ايحب احدكم ان يا كل لحم اخيه ميتا فكر هتموه'' (۲)

''تم ميں سے كوئي، كسى كى غيبت نہ كرے ،كيا تم ميں سے كوئي اس بات كو پسند كرتا ہے كہ وہ اپنے مردہ بھائي كا گوشت كھائي؟تم لوگ تو اس سے نفرت كرتے ہو''_

رسول خدا صّلى اللہ عليہ والہ وسلم سے منقول ہے كہ:

''الغيبة اسرع فى دين الرجل المسلم من الاكلته فى جو فه'' (۳)

____________________

۱_ جامع السعادات_ ج ۲_ ص ۳۰۳_ مطبوعہ: بيروت_

۲_ سورہ حجرات _ آيت ۱۲

۳_ اصول كافى _ ج ۲_ ص ۳۵۷

۵۸

''مسلمان كى دين (كى تباہي)كے لئے غيبت ،اس كے با طن ميں پيداہونے والى بيمارى سے زيادہ مہلك ہوتى ہي''_

امير المو منين عليہ السّلام فرما تے ہيں -:

''لا تعود نفسك الغيبة فا ن معتادها عظيم الجرم'' (۱)

''خود كو غيبت كا عادى نہ بنائو،كيونكہ غيبت كے عادى شخص كا جرم بہت سنگين ہي''_

خدا وند متعال كى عبادت و اطاعت جہاں بذات خود اچّھى اور نيك چيز ہے اور اپنے دامن ميں اخرت كا ثواب ليے ہوئي ہي، وہاں دوسرے نيك كا موں كى انجام دہى كے لئے بھى راہ ہموار كرتى ہے ،اسى طرح معصيت جہاں بذات خود ايك جرم اور گنا ہ ہے اور اپنے ساتھ اخرت كا عذاب بھى ركھتى ہے ،وہاں بہت سے دوسرے نيك كاموں كى تباہى كا موجب بھى بن جا تى ہي_ چنا نچہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلاّم فرماتے ہيں:

'الغيبته تاكل الحسنات كما تاكل النار الحطب _''(۲) ''غيبت نيك كاموں كو ايسے ہى كھا جاتى ہے جيسے اگ لكڑى كو''_

(۳)مومن كى غيبت سے بچنا چاہيي:

مومنين كے درميان برادرى كا رشتہ اس بات كا تقاضا كرتا ہے كہ ايك مومن اپنے بھائي كى نہ صرف جان و مال اور عزّت وابرو كو نقصان نہ پہنچائي'بلكہ دوسرے لوگوں كى

____________________

۱_ شرح غرر الحكم _ ج ۶_ ص ۲۹۳

۲_ مصباح الشريعہ_ ص ۲۷۶

۵۹

دست درازى كى صورت اس كا دفاع كرے ،اور اس سے اپنے حمايت كا اعلان كري_

اسى بناپر كسى مومن كے لئے مناسب نہيں ہے كہ وہ اپنے بھائي كى عزّت و ابرو كى پامالى كو ديكھتا رہے ،اگر كوئي نا سمجھ انسان اس كى غيبت كے لئے زبان كھولے تو اسے اس بات سے منع كرنا چاہيئي_حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں:

''اگاہ رہو كہ جو شخص كسى محفل ميں اپنے بھائي كى غيبت سني،اسے چاہيے كہ وہ اس پر احسان كر تے ہوئے غيبت كر نے والے كو اس بات سے روكے ،كيو نكہ ايسا كر نے سے خدا وند عالم اس كى پا نچ ہزار برا ئياں دو نوں جہا نوں ميں اس سے دور كرے گا،ليكن اگر قدرت ركھنے كے با وجود ايسا نہ كرے تو غيبت كرنے والے كے گنا ہوں سے ستّر گناہ اور عذاب اس كے حصّے ميں اتے ہيں_''۱

(۴)_غيبت كے الات (غيبت كا سر چشمہ):

صرف زبان كى نوك ہى غيبت نہيں كرتى كہ جس سے سننے والے كو رو حانى دكھ ہو تا ہو ، بلكہ ہر قسم كا اشارہ،كنايہ،سر اور ہاتھ پائوں كى وہ تمام حر كتيں بھى غيبت شمار ہوتى ہيںجن سے كسى كى غيبت كا ارادہ كيا جائي_حضرت عائشيہ كہتى ہي:

''ايك دن ايك عورت ہمارے گھر ائي _جب وہ واپس جارہى تھى تو ميںنے ہا تھ كے اشارہے سے كہا كہ اس كا چھو ٹا قد ہي''

____________________

۱_وسائل الشيعہ_ ج ۸_ ص ۶

۶۰