آداب معاشرت

آداب معاشرت33%

آداب معاشرت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 108

آداب معاشرت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 108 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59954 / ڈاؤنلوڈ: 4602
سائز سائز سائز
آداب معاشرت

آداب معاشرت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

''جھوٹ تو صرف وہى لوگ گھڑتے ہيں جو خدا كى آيات پر ايمان نہيں ركھتي' اور يہى لوگ ہى جھوٹے ہيں''_

حضرت على عليه السلام فرماتے ہيں :

'' كثرة الكذب تفسدالدين'' (۱)

۵_جھوٹ كا علاج:

اجمالى طور پر جھوٹ كے اسباب كو اوپر بيان كرديا گيا ہے _ اختصار كے ساتھ اس كا علاج بھى قلم بند كرر ہے ہيں:

الف : احساس كمترى كو دور كيا جائي_

ب: شجاعت وجوانمردى كى صفت كو تقويت دى جائے تاكہ بے خوف وخطر اور بغير جھوٹ كا سہارا لئے حقائق اور واقعات كو كسى كم وبيشى كے بغير بيان كرسكي' اور اگر كبھى اس كے نتيجے ميں جرمانہ يا سزا ہوئي تو اسے خندہ پيشانى سے قبو ل كرلياجائے _

ج: دوغلى پاليسى اور منافافقت كا علاج كياجائے جو كہ جھوٹ كى اصلى وجہ ہي_

د: اپنے اندر ايمان اور تقوى كے درجات كو بلند سے بلندتر كياجائے ' كيونكہ ايمان اور تقوى كا درجہ جس قدر بلند تر ہوگا' جھوٹ اور برى عادتوں سے اسى قدر جان چھوٹ جائے گي_

____________________

۱_ شرح غررالحكم _ ج ۷ _ ص ۳۴۴

۴۱

ھ: ......قرآن مجيد كى ان آيات اور احاديث معصومين (ع) كا زيادہ سے زيادہ مطالعہ كياجائے اور ان ميں خوب غور وخوض كياجائے كہ جو جھوٹ كى مذمّت ميں وارد ہوئي ہيں اور اسے ہلاكت اور بدبختى كا موجب قرار ديتى ہيں_

و: اس بات كو مدّنظر ركھاجائے كہ جھوٹے انسان كى قدرو قيمت معاشرے ميں گرجاتى ہي، كوئي شخص اس كى باتوں پر عتماد نہيں كرتا اور نہ ہى اس كا احترام كرتاہي_

ي: ايسى آيات اور روايات ميں خوب غورفكر كياجائے جو صدق و سچّائي كى مدح كرتى ہيں، حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے اپنے ايك صحابى سے فرمايا :

''غور كروكہ حضرت على _ كو كن وجوہات كى بنا پر پيغمبر اكرم (ص) كے ہاںاس قدر قرب اور مقام ومنزلت حاصل ہوئي ' تم بھى وہى كام كرو 'يقينا على _ سچّائي اور ايماندارى كى بناء پر آنحضرت (ص) سے اس قدر قريب ہوئے تھي''(۱)

____________________

۱_ جامع السعادات_ ج ۲_ ص ۳۳۴

۴۲

چوتھا سبق:

ناروا گفتگو اور بدكلامي

۱)__________ تمہيد

۲)_________امام صادق عليه السلام كا بدزبان شخص سے قطع رابطہ

۳)_________بدكلامى كا انجام

۴)_________ معصوم پيشوائوں كے كردار

۵)_________ بدكلامى كا علاج

۴۳

۱) ... تمہيد:

زبان' انسانى جسم كا ايك چھوٹا سا جز و ہي_ اگر اس چھوٹے سے جزو كى تربيت نہ كى جائے تو يہ بڑے بڑے گناہوں كا موجب بنے گا_ علماء علم اخلاق نے زبان كے حوالے سے تقريباً بيس گناہ تحرير كئے ہيں_

حضرت اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں :

''صلاَح الإنسان فى حَبس اللّسان'' (۱)

''انسان كى بہترى اس كى زبان كى حفاظت ميں ہے ''_

زبان انسان كى شخصيت اور اس كے كمال كا آئينہ دار ہي، زيرك اور ذى شعور انسان لوگوں كو چند باتوں كے ذريعہ پہچان ليتے ہيں_ بقول شيخ سعدي:

____________________

۱_ ...ميزان الحكمة ، ج ۸، ص ۴۹۹

۴۴

تا مرد سخن نگفتہ باشد،

عيب وہنرش نہفتہ باشد،

جب تك انسان بات نہ كري' اس كے عيب اور ہنر چھپے رہتے ہيں ''_

اچھى بات اور مفيد گفتگو، متكلم كى پاك طينت اور باطنى پاكيزگى كى علامت ہوتى ہي_ ناشائستہ اور بيہودہ گفتگو متكلم كے آلودہ باطن كى نشانى ہي_ حضرت اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں :

''سنَّة اللَّئام قُبح الكلام'' _

''كمينہ اور پست فطرت لوگوں كا شيوہ بد كلامى ہوتا ہي''_

۲) امام صادق عليه السلام كا بدزبان شخص سے قطع رابطہ :

ايك شخص اكثر اوقات حضرت امام جعفر صادق _ كى خدمت ميں رہتا تھا يہاں تك كہ وہ حضرت (ع) كے ساتھ ہميشہ رہنے كى بنا پر خاصى شہرت حاصل كرچكا تھا، چنانچہ ايك دن وہ آپ (ع) كے ساتھ جوتا فروشوں كى بازار سے گزر رہا تھا اور اس كا غلام بھى اس كے پيچھے پيچھے چل رہا تھا ، اس شخص نے پيچھے مڑ كر غلام كو ديكھا تو وہ اسے نظر نہ آيا ' چند قدم چل كر اس نے پھر اسے ديكھا پھر بھى نظر نہ آيا' تيسرى مرتبہ اسے غلام كى اس حركت پر غصہ آگيا كہ وہ اس قدر پيچھے كيوں رہ گيا ہي' غلام كو پيچھے رہنے كى جرا ت كيسے ہوئي، جب چوتھى مرتبہ اس نے مڑكرديكھا تو وہ نظر آگيا _ وہ شخص اپنے جذبات پر قابو نہ ركھ سكا اور غلام كو ماں كى گالى دے كر كہا كہ : تو كہاں تھا؟

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے اس كى بد زبانى كو ديكھ كر اپنا ہاتھ زور سے

۴۵

پيشانى پر مارا اورفرمايا:

''سبحان اللہ تم اپنے غلام كو گالى دے رہے ہو؟ اور اس كى ماں كو برائي سے ياد كر رہے ہو؟ ميں تو سمجھتا تھا كہ تم متّقى انسان ہو' اب معلوم ہو اكہ تمہارے اندر تقوى نہيں ہي''_

وہ شخص اپنى اس بد زبانى كى توجيہہ كرتے ہوئے عرض كرنے لگا : '' فرزند رسول (ص) ' اس غلام كى ماں سندھى ہے اور آپ (ع) جانتے ہيں كہ وہ مسلمان نہيں ہيں'' _ حضرت (ع) نے فرمايا كہ : اس كى ماں كافرتھي' سوتھى ہر قوم اور ملت كے اپنے قوانين اور اپنے مذہب كے طور طريقے ہوتے ہيں' جن كے تحت وہ ازدواجى امور انجام ديتے ہيں ، اس لحاظ سے ان كا يہ عمل زنا نہيں ہوتا اور ان كى اولاد ''ولدالزّنا'' نہيں كہلاتي'' ، اس كے بعد فرمايا :

''اب تم مجھ سے دور ہوجائو''_

پھر اس شخص كو كسى نے آپ (ع) كے ساتھ كبھى نہ ديكھا(۱)

۳) ... بدكلامى كا انجام:

اب ہم مختصر طور پر بد زبانى كے بُرے انجام كے بارے ميں كچھ باتيں عرض كرتے ہيں:

الف: ... بدزبانى انسان كو خدا كے نزديك بے قدروقيمت بناديتى ہے اور اس كے اور خدا كے درميان جدائي ڈال ديتى ہي_

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم) _ ج ۴، ص ۱۵_

۴۶

حضرت امام محمد باقر عليه السلام فرماتے ہيں :

''انَّ الله يَبغَضُ الفَاحش المتَفحش'' (۱)

''خداوند عالم گالى گلوچ بكنے والے كو دشمن ركھتا ہے ''_

ب: ... بدزبان شخص كى دعا قبول نہيں ہوتي_

امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں كہ بنى اسرائيل ميں ايك شخص جو تين سال تك اللہ كى بارگاہ ميں گڑ گڑا كر دعا مانگا كرتا تھا كہ خدا اسے اولاد نرينہ سے نوازي' ليكن جب اس كى دعا قبول نہ ہوئي تو وہ بہت ہى افسردہ خاطر ہوا_ آخر كار اس نے خواب ديكھا كہ كوئي شخص اسے كہہ رہا ہے كہ تم تين سال سے خدا كو بُرى اور آلودہ زبان سے پكار رہے ہو ' اور پھر اس بات كى توقع ركھتے ہو كہ خدا تمہارى آرزوؤں كو پورا كرے ؟ جائو پہلے زبان كو ان آلودگيوں سے پاك كرو پھر دعا مانگو تاكہ خدا كے نزديك ہوجاؤ اور وہ تمہارى دعائوں كو قبول كري_

امام عليه السلام نے فرمايا :

''اس شخص نے انسان كى راہنمائي پر عمل كيا اور دعا مانگى ' لہذا خدا نے اسے فرزند عطا كيا''(۲)

ج: ... بدزبان شخص پر جنت حرام ہي_ رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :

''خداوند عالم نے جنت كو ہر اُس بدزبان اور بيہودہ بكنے والے شخص پر حرام كرديا ہے جسے اس بات كى پرواہ نہيں ہوتى كہ وہ كيا بك رہا ہے اور

____________________

۱_ ميزان الحكمة ' ج ۸، ص ۱۵

۲_ اصول كافى (مترجم) _ ج ۴، ص ۱۶

۴۷

لوگ اس كے بارے ميں كيا كہتے ہيں''(۱)

د: ... بدزباني' نفاق كى علامت ہي_

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں :

''گالى گلوچ ' بدزبانى اور بيہودہ گوئي نفاق كى ايك علامت ہي''(۲)

ھ: ... بدزبان شخص كا شمار' بدترين لوگوں ميں ہوتا ہي_

رسول اكرم (ص) فرماتے ہيں :

''خدا كى بدترين مخلوق ميںسے ايك ' بد زبان شخص بھى ہي' جس كى بدزبانى كى وجہ سے لوگ اس كے ساتھ ميل جول كو پسند نہيں كرتي''(۳)

و: ... بدزبانى كى وجہ سے انسان كى زندگى سے بركت اٹھ جاتى ہے اور وہ تباہ وبرباد ہوجاتاہي_

امام معصوم عليه السلام فرماتے ہيں :

''مَن فَحشَ على ا خيه المسلم نَزَعَ الله منه بَركةَ رزقه و وَكَلَهُ الى نفسه وَ اَفسَدَ عليه مَعيشته' (۴)

''جو شخض اپنے مسلمان بھائي كو گالى ديتا ہي' خداوند متعال اس كے رزق وروزى سے بركت اٹھاليتاہي' اور اسے اس كے نفس كے سپرد كرديتا ہے اور اس كى زندگى كو تباہ كرديتا ہي''_

____________________

۱_ ميزان الحكمة (مترجم) ، ج ۴، ص ۱۶

۲_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۴، ص ۱۷

۳_ اصول كافى _ ج ۴، ص ۱۷

۴_ وسائل الشيعہ ، ج ۱۱_ص ۳۲۸

۴۸

۴) ... معصوم پيشوائوں (ع) كے كردار:

مسلمانوں كو چاہئے كہ وہ پيغمبر خدا (ص) اور ائمہ اطہار عليہم السلام كے عظيم كردار اور رفتار كو اپنا اخلاقى نمونہ قرار دے _ محمد (ص) وآل محمد (ص) نے اپنى تمام عمر ميںنہ صرف كبھى كسى كو ناسزا نہيں كہا ' بلكہ اپنے بزرگوارانہ طرز عمل زندگى سے نازيبا اور نا مناسب گفتگو كرنے والوں كو شرمندہ كيا اور انہيں نيك راہ كى طرف ہدايت كي_ معصومين (ع) كے كردار كى ايك جھلك دكھانے كے لئے نمونے كے طور پر دو واقعات كو سپرد قلم كرتے ہيں_

الف: ... حضرت اميرالمومنين على عليه السلام فرماتے ہيں :

''كسى يہودى كا رسول خدا (ص) پر قرض تھا ، اس كى مقررَّ مدت جب ختم ہوگئي تو اس نے آنحضرت (ص) كے گھر كا رخ كيا ، مدينہ كى ايك گلى ميں اس كى آنحضرت (ص) سے ملاقات ہوگئي تو اس نے قرض كا مطالبہ كيا _ حضور (ص) نے فرمايا :

'' فى الحال ميرے پاس رقم نہيں ہے جس سے تمہارا قرض ادا كياجاسكي''_

يہودى نے كہا:

'' جب تك آپ (ص) ميرا قرضہ واپس نہيں كريں گے ميں آپ (ص) كو نہيں چھوڑوں گا''_

حضور اكرم (ص) كسى قسم كى ناراضگى يا غصّے كا اظہار كئے بغير اس كے ساتھ وہيں بيٹھ گئي_ نماز ظہر' عصر ' مغرب اور عشاء كو وہيں ادا كيا ' حتى كہ دوسرے دن كى

۴۹

صبح كى نماز بھى وہيں پر ادا كي_ اصحاب نے خواہش كى كہ اسے ڈانٹ ڈپٹ كر بھگا دياجائے ' ليكن رسالت مآب (ص) نے فرمايا :

''خدا نے مجھے اس لئے نہيں بھيجا كہ ميں كسى پر ظلم وستم كروں خواہ كوئي يہودى ہو يا غير يہودي''_

غرض ظہر كى نماز كا وقت قريب آگيا' ليكن كسى كو كچھ معلوم نہيں تھا كہ انجام كار كيا ہوگا 'اچانك يہودى اپنى جگہ سے اٹھا او رمؤدبانہ اندا زميں حضور (ص) كے سامنے كھڑا ہوكر كہنے لگا :

''اشهدان لا اله الاّ الله واشهدان محمد رسول الله '' _

پھر اس نے عرض كيا : ''يارسول اللہ (ص) يہ جو مشكلات ميں نے آپ (ص) كے سامنے كھڑى كى تھيں' يہ اس لئے نہيںتھيں كہ ميں آپ (ص) سے اس ناچيز رقم كو واپس لے لوں' يا آپ (ص) كو كوئي دكھ اور تكليف پہنچائوں' بلكہ ميں آپ (ص) كو آزمانا چاہتا تھا كہ آپ (ص) واقعى خدا كے رسول ہيں يا نہيں ؟ ' كيونكہ ميں نے تورات ميں پڑھا ہے كہ پيغمبر خاتم الانبياء (ص) نہ تو سخت مزاج ہوگا نہ ہى تند خو ،بدزبان اور بيہودہ كلام كرنے والا ہوگا_ بلكہ كبھى بھى كسى كو گالى نہيں دے گا''(۱) ب: ... حضرت امام حسن_ ايك دن گھوڑے پر سوار ہوكر ايك گلى سے گذر رہے تھے كہ ايك شامى سے آپ (ع) كى ملاقات ہوئي' وہ شخص معاويہ كے غلط پروپيگنڈہ كى بناء پر دشمن اہل بيت (ع) بن چكا تھا، اس نے آپ (ص) كو ديكھتے ہى بُرا بھلا كہنا شروع كرديا، آپ (ص) خاموشى كے ساتھ اس كى باتيں

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۱۶_ ص ۲۱۶

۵۰

سنتے رہے ' جب وہ ختم كرچكا تو امام حسن عليه السلام نے خندہ پيشانى كے ساتھ مسكرا كر فرمايا :_

''معلوم ہوتا ہے كہ تم مسافر ہو اور ہمارے دشمنوں كے دھوكے ميں آكر ايسا كہہ رہے ہو_ اگر تمہيں اپنے گھر سے نكال ديا گيا ہے تو ہم تمہيں گھر ديتے ہيں ' اگر بھوكے ہو تو ہم تمہيں كھانا كھلاتے ہيں اور اگر لباس كى ضرورت ہے تو لباس ديتے ہيں_ آئو ہمارے ساتھ ہمارے گھر چلو تاكہ وہاں پر تمہارى خاطر خواہ تواضع كى جائي''_

شامى آپ (ع) كى باتيں سن كر رونے لگا اور كہنے لگا :

''ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ (ع) ہى رسول خدا (ص) كے حقيقى جانشين اور خدا كى زمين ميں خدا كے خليفہ ہيں، اب تك آپ (ع) اور آپ(ع) كے والد ماجد على ابن ابى طالب _ ميرے نزديك دنيا كے بدترين انسان تھي' ليكن اب خدا كى مخلوق ميں سب سے محبوب ترين انسان ہيں ''_

پھر وہ اپنى جگہ سے اٹھا اور حضرت امام حسن عليه السلام كے ہمراہ آپ (ع) كے دولت كدہ پر حاضر ہوااور ايك عرصے تك آپ (ع) كا مہمان رہا ' اور اہل بيت اطہار عليہم السلام كا سچّا اور حقيقى محب بن گيا(۱)

حُسن كلام اور خوش گفتارى انبياء اور اولياء الہى كا شيوہ ہے ا ور دين خدا كى تبليغ اور لوگوں كو خدا كى طرف دعوت دينے كا ايك اہم سبب بھى ہي، اللہ تعالى نے اپنے دو انبياء ' موسى _ اور ہارون _ كو فرعون كى طرف بھيجا تو انہيں تاكيد كردى كہ اس كے

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۴۳_ ص ۳۴۴

۵۱

ساتھ نرمى سے بات كرنا' ہوسكتا ہے كہ وہ ہوش ميں آجائے اور خدا كى عبادت كرنے لگي_ قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہي:

''اذهَبَا إلى فرعون إنّه طَغى فقولاَ لَه قولاً لينّاً لَّعلَّهُ يَتَذكَّرُ اَويَخشى ''(۱)

''تم دونوں (موسى (ع) اور ہارون(ع) ) فرعون كے پاس جائو ' وہ بہت سركش ہوگيا ہي، پھر اس سے نرمى كے ساتھ بات كرنا شايد (برغبت) نصيحت قبول كرلے يا (عذاب الہى سي) ڈرجائے _

۵) ... بدزبانى كا علاج:

اس سلسلے ميں چند نكات بيان كرنا ضرورى ہي:

الف: ... انبياء اور ائمہ عليہم السلام انسانى روح كے طبيب ہوتے ہيں ، چونكہ اخلاقى رذائل اور برى صفات انسانى روح اور جان كے لئے مرض ہيں لہذا ہميں چاہئے كہ ہم ان كے فرامين كو گوش دل سے سنيں اور اپنے روحانى درد اور امراض كاعلاج كريں_

حضرت اميرالمومنين عليه السلام بد زبان سے بچنے كے لئے تنبيہ كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

'' ايّاك وما يستهجن منَ الكلام فإنَّه يَحبس عليك اللئام و ينفرعنك الكرام'' _(۲)

____________________

۱_ سورہ طہ _ آےت ۴۳ اور ۴۴

۲_ ميزان الحكمة _ ج ۸_ ص ۴۳۶ و شرح غرر الحكم ج۲ ص ۳۱۴

۵۲

''بدزبانى اور بے حيائي كى باتوں سے اجتناب كرو' كيونكہ بدزبانى كى وجہ سے پست اور ذليل لوگ تمہارے گرد جمع ہوجائيں گے 'شريف اور معزّز لوگ تم سے دور بھاگيں گي''_

يہ اس امام كا كلام ہے جس نے كبھى بھى كوئي نازيبا بات منہ سے نہيں نكالي، اس فرمان پر اگر غور كياجائے تو بدزبانى كا انجام انسان كے ذہن ميں مجسم ہوكر آجاتا ہے ' يعنى اگر انسان بدزبان بن جائے اور زبان پر كنڑول نہ كرے تو اس كايہى نتيجہ نكلے گا كہ اچھے اور صالح لوگوں كارابطہ اس سے منقطع ہوجائے گا او رلاابالى اور خدا سے بے خبر لوگوںكا اس سے تعلق استوار ہوجائے گا اور وہ اس كے ساتھى بن جائيں گي، اور يہ بات تو اظہر من الشمس ہے كہ بدكار لوگوں كى ہم نشينى كا انجام اچھا نہيں ہوتا اور انسان اس قسم كے لوگوں كى دوستى وہم نشينى سے اس وقت پشيمان ہوتا ہے جب ندامت كوئي فائدہ نہيں ديتى _

قرآن مجيد ايسے لوگوں كے بارے ميں خبردار كر رہا ہے كہ جو بُرے لوگوں كے ساتھ اپنى نشست وبرخاست ركھتے ہيں ' كيونكہ ان كى دوستى نے انہيں اس طرح تباہ وبرباد كرديا ہے كہ آخر كار پشيمان ہو كر اپنى تباہى و بربادى كا ماتم كرتے ہيں _ ملاحظہ فرمايئي:

''ويوم يَعضُّ الظالم على يديه يقول ُ ياليتنى اتَّخذتُ مع الرسول سبيلاً' ى ويلتى ليتنى لم اتخذُ فلاناً خليلاً ''(۱) '' او رجس دن ظالم اپنے ہاتھوں كو كاٹے گا اور كہے گا اے كاش ميں نے

____________________

۱_ سورہ فرقان _ آےت ۲۷اور ۲۸

۵۳

پيغمبر (ص) (كے دين) كا راستہ اختيا ركرلياہوتا ' اے كاش كيا اچھا ہوتا كہ ميں فلاں كو اپنا دوست نہ بناتا''_

لہذا اگر ہم اس قسم كے انجام سے بچنا چاہتے ہيں تو ہميں چاہئے كہ نازيبا اور ناروا باتوں اور بد زبانى سے اپنے آپ كو بچائيں تاكہ اچھے لوگ ہمارے ساتھ دوستى كريں_

ب: ... قرآن مجيد نيك وشائستہ گفتگو كے بارے ميں فرماتا ہي:

''إلَيه يَصعَدُ الكم الطّيب'' (۱)

''پاك وپاكيزہ كلام ہى اسى (اللہ تعالى ) كى طرف جاتا ہي''_

بنابريں اگرانسان نيك اور پاك كلام زبان پر جارى كرے تو خداوند عالم ايسى باتوں كو سنتا ہي' ورنہ ناپسنديدہ اور بيہودہ باتوں كو كوئي سننے كا روا دار نہيں ہي_

اللہ تعالى ناشائستہ باتيں كرنے والوں كو دوست نہيں ركھتا اور كتنى برى بات ہے كہ مومن جس زبان سے اللہ تعالى كا ذكر كرتا ہے ' نماز پڑھتا ہے اور قرآن پاك كى تلاوت كرتا ہي' اسى زبان سے فحش' ناشائستہ' نازيبا اور ناروا الفاظ ادا كري_

ج: ... سكوت او رخاموشى بھى زبان پر كنڑول كرنے كا ايك ذريعہ ہي_ جہاں پر حق بات كے بيان كرنے كا موقع نہيں ہوتا وہاں زبان كو بند ركھنا كس قدر اچھا لگتا ہے كيونكہ زيادہ باتيں كرنا اور زبان كو بے لگام چھوڑدينا 'ناشائستہ گفتگو كرنے كا سبب بن جاتا ہي_

حضرت على عليه السلام فرماتے ہيں :

''ايَّاك وكثرةَ الكلام فإنَّه يكثرُ الزلل ويورثُ الملل'' (۲)

____________________

۱_ سورہ فاطر _ آيت ۱۰

۲_ ميزان الحكمة _ ج ۸_ ص ۴۳۹

۵۴

''زيادہ باتيں كرنے سے پرہيز كرو كيونكہ اس سے لغزشيں زيادہ ہوتى ہيں اور سننے والے كے لئے نفرت كا موجب بن جاتى ہيں''_

ايك اور موقع پر فرماتے ہيں:

''الكلام كالدّوائ قليله ينفع وكثيره قاتل ''(۱)

''گفتگو دواء كى مانند ہے جس كا كم شفا بخش اور كثرت موت ہي''_

____________________

۱_ ميزان الحكمة_ ج ۸ _ ص ۴۴۴

۵۵

ساتواں سبق :

غيبت اور تہمت

۱) .........غيبت اور تہمت كے معني

۲) .........قرآن وحديث ميں غيبت كى مذمت

۳) .........مومن كو غيبت سے بچنا چاہيئي

۴) .........غيبت كے آلات ( غيبت كا سر چشمہ )

۵) .........غيبت كے اسباب

۶) .........غيبت كا كفّارہ

۷) .........قرآن و حديث ميں تہمت كى مذّمت

۵۶

(۱)_غيبت اور تہمت كے معني:

-----غيبت،، اور'' تہمت ،،گناہ كبيرہ اور اخلاقى لحاظ سے برى عادتيںہيں ، اورمومن كو ان كے ارتكاب سے بچنا چاہيے _''غيبت ،،سے مراد يہ ہے كہ دوسروں كے با رے ميں ايسى بات كر نا كے اگر وہ سُن ليں تو انہيں تكليف پہنچي، اور ''تہمت،، كا مطلب يہ ہے كہ دوسروںكى طرف كسى ايسے گناہ يا عيب كى نسبت ديناجو ان ميں نہ پائے جاتے ہوں_

حديث ميں ہے كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے كسى شخص سے پوچھا كيا جانتے ہو كہ''غيبت ''كيا ہوتى ہي؟اس نے جواب ديا:خدا اور اس كے رسول بہتر جانتے ہيں،تو حضور (ص) نے فرمايا :

''ذكرك اخاك بما يكره،،

''تم اپنے بھائي كا ذكر ايسى چيز كے ساتھ كرے جو اسے پسند نہ ہو''_

۵۷

اس نے پو چھا :

''جو بات ميرے مومن بھائي ميںپائي جاتى ہي،اگر ميں اس كا ذكر كروں تو كيا وہ بھى اپ(ص) كى نظر ميں غيبت ہے ؟''فرمايا:

''وان كان فيه ما تقول فقد اغبته وان لم يكن فيه فقد بهته ،،(۱)

''جو اس ميں ہيں اس كا ذكر غيبت 'اور جو اس ميں نہيں ہے اسے بيان كرنا تہمت ہي_''

(۲)_قران اور حديث ميں غيبت كى مذمّت :

قران مجيد نے غيبت كى سخت مذمّت كى ہي'اور اسے مردہ بھائي كے گوشت كھانے كے برابر قرار ديا ہي،اور اس سے سختى سے منع فرمايا ہے _ارشاد ہي:

''ولا يغتب بعضكم بعضا ايحب احدكم ان يا كل لحم اخيه ميتا فكر هتموه'' (۲)

''تم ميں سے كوئي، كسى كى غيبت نہ كرے ،كيا تم ميں سے كوئي اس بات كو پسند كرتا ہے كہ وہ اپنے مردہ بھائي كا گوشت كھائي؟تم لوگ تو اس سے نفرت كرتے ہو''_

رسول خدا صّلى اللہ عليہ والہ وسلم سے منقول ہے كہ:

''الغيبة اسرع فى دين الرجل المسلم من الاكلته فى جو فه'' (۳)

____________________

۱_ جامع السعادات_ ج ۲_ ص ۳۰۳_ مطبوعہ: بيروت_

۲_ سورہ حجرات _ آيت ۱۲

۳_ اصول كافى _ ج ۲_ ص ۳۵۷

۵۸

''مسلمان كى دين (كى تباہي)كے لئے غيبت ،اس كے با طن ميں پيداہونے والى بيمارى سے زيادہ مہلك ہوتى ہي''_

امير المو منين عليہ السّلام فرما تے ہيں -:

''لا تعود نفسك الغيبة فا ن معتادها عظيم الجرم'' (۱)

''خود كو غيبت كا عادى نہ بنائو،كيونكہ غيبت كے عادى شخص كا جرم بہت سنگين ہي''_

خدا وند متعال كى عبادت و اطاعت جہاں بذات خود اچّھى اور نيك چيز ہے اور اپنے دامن ميں اخرت كا ثواب ليے ہوئي ہي، وہاں دوسرے نيك كا موں كى انجام دہى كے لئے بھى راہ ہموار كرتى ہے ،اسى طرح معصيت جہاں بذات خود ايك جرم اور گنا ہ ہے اور اپنے ساتھ اخرت كا عذاب بھى ركھتى ہے ،وہاں بہت سے دوسرے نيك كاموں كى تباہى كا موجب بھى بن جا تى ہي_ چنا نچہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلاّم فرماتے ہيں:

'الغيبته تاكل الحسنات كما تاكل النار الحطب _''(۲) ''غيبت نيك كاموں كو ايسے ہى كھا جاتى ہے جيسے اگ لكڑى كو''_

(۳)مومن كى غيبت سے بچنا چاہيي:

مومنين كے درميان برادرى كا رشتہ اس بات كا تقاضا كرتا ہے كہ ايك مومن اپنے بھائي كى نہ صرف جان و مال اور عزّت وابرو كو نقصان نہ پہنچائي'بلكہ دوسرے لوگوں كى

____________________

۱_ شرح غرر الحكم _ ج ۶_ ص ۲۹۳

۲_ مصباح الشريعہ_ ص ۲۷۶

۵۹

دست درازى كى صورت اس كا دفاع كرے ،اور اس سے اپنے حمايت كا اعلان كري_

اسى بناپر كسى مومن كے لئے مناسب نہيں ہے كہ وہ اپنے بھائي كى عزّت و ابرو كى پامالى كو ديكھتا رہے ،اگر كوئي نا سمجھ انسان اس كى غيبت كے لئے زبان كھولے تو اسے اس بات سے منع كرنا چاہيئي_حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں:

''اگاہ رہو كہ جو شخص كسى محفل ميں اپنے بھائي كى غيبت سني،اسے چاہيے كہ وہ اس پر احسان كر تے ہوئے غيبت كر نے والے كو اس بات سے روكے ،كيو نكہ ايسا كر نے سے خدا وند عالم اس كى پا نچ ہزار برا ئياں دو نوں جہا نوں ميں اس سے دور كرے گا،ليكن اگر قدرت ركھنے كے با وجود ايسا نہ كرے تو غيبت كرنے والے كے گنا ہوں سے ستّر گناہ اور عذاب اس كے حصّے ميں اتے ہيں_''۱

(۴)_غيبت كے الات (غيبت كا سر چشمہ):

صرف زبان كى نوك ہى غيبت نہيں كرتى كہ جس سے سننے والے كو رو حانى دكھ ہو تا ہو ، بلكہ ہر قسم كا اشارہ،كنايہ،سر اور ہاتھ پائوں كى وہ تمام حر كتيں بھى غيبت شمار ہوتى ہيںجن سے كسى كى غيبت كا ارادہ كيا جائي_حضرت عائشيہ كہتى ہي:

''ايك دن ايك عورت ہمارے گھر ائي _جب وہ واپس جارہى تھى تو ميںنے ہا تھ كے اشارہے سے كہا كہ اس كا چھو ٹا قد ہي''

____________________

۱_وسائل الشيعہ_ ج ۸_ ص ۶

۶۰

رسول خدا (ص) نے فر مايا :

''تم نے اس كى غيبت كى ہي_''۱

(۵)_غيبت كے اسباب:

غيبت ايك قسم كى روحا نى بيمارى ہي،جس ميں غيبت كر نے والا مختلف اسباب و عوامل كى وجہ سے مبتلا ہو جا تا ہے ،حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام نے ايك روايت ميںاس كے دس اسباب ذكر فرمائے ہيں،ملا حظہ كيجئي:

''واصل الغيبة متنوع بعشرة انواع،شفاء غيظ و مسا عدة قوم و تهمة و تصديق بلا خبر كشفه و سو ء ظن و حسد و سخرية و تعجب و تبرم وتزين'' (۲)

غيبت كے سرزد ہونے كے مند رجہ ذيل دس اسبا ب ہيں:

۱) ......غصّہ اور غيظ و غضب جو انسان كے اندر موجود ہو تا ہے ،وہ غيبت كے ذريعہ اسے ٹھنڈا كر كے خود كو تسكين پہنچاتا ہي_

۲) ......غيبت كر نے والوں كے گروہ كے ساتھ تعاون اور انكى مدد كر تا ہي_

۳) ......كسى پر الزام لگانے كے لئے غيبت كا سہارا ليتا ہي_

۴) ......كسى كى با ت كى تحقيق اور چھان بين كئے بغير تصديق كرتا ہے اور اسے سچّا ثا بت كرنے كے لئے غيبت كر تا ہي_

۵) ......دو سروں پر بد گمانى ،اسے غيبت پر اكساتى ہي_

____________________

۱_ جامع السعادات_ ج ۲_ ص ۳۰۳

۲_ مصباح الشريعة _ ص ۲۰۶

۶۱

۶) ......حسد ،اسے غيبت پر بھڑ كا تا ہي_

۷) ......كسى كا مذاق اڑانے كے لئے اس كى غيبت كرتا_

۸) ......اس كا تعجّب كر نا بھى غيبت ہي_

۹) ......كسى سے تنگدل ہو جا تاہي، تو اس كى غيبت كر تا ہي_

۱۰) ......اپنى با ت كو بنا سنوار كر پيش كر نے كے لئے كسى كى غيبت كر تا ہي_

۶)غيبت كا كفا رہ :

چو نكہ غيبت خد اكے حرام كردہ امور ميں سے ايك ہے ،لہذا غيبت كر ناحُّق ُاللہ غصب كر نے كے زمرہ ميں اتى ہي،اور چونكہ كسى انسان كى ابرو كو بر با د كر تى ہے لہذا حق النّاس پر تجا وز _ بھى شما ر ہو تى ہي_پس غيبت كر نے والے كو چاہيئے كہ پہلے تو وہ خدا كى با ر گا ہ ميںتوبہ كر ے اور اور اپنے اس گنا ہ كى معا فى مانگے ،تا كہ خدا وند تعالى اس كے اس گنا ہ كو بخش دے اور اس كى توبہ كو قبول كرے ،پھر وہ اس انسان كے حق كاتدارك كرے جس جس كى اس نے غيبت كى ہي،اگر وہ زندہ ہے اور اس تك رسائي ممكن ہے ،اگر اس كے رنجيدہ خا طر يا غصّے ہو نے كا مو جب نہيں بنتا تو اس سے معا فى ما نگے ،بہر حال ہر طريقے سے اسے راضى كر نے كى كو شش كرے _اور اگر وہ اس دنيا سے رخصت ہو گيا ہے يا زندہ ہي،ليكن اس تك رسا ئي مشكل ہے تو خدا سے اس كے لئے گناہوں كى بخشش كى دعا كرے ، اور اگر اس تك رسائي ممكن ہي،ليكن وہ غيبت سن كر نا را ض يا رنجيدہ خا طر ہو جا تا ہي،يا فتنہ كھڑا ہو نے كا با عث ہو تا ہے تو بھى اس كے لئے استغفار اور گناہوں كى بخشش كى دعا كرے _ ايك

۶۲

حديث ميں ہے كہ رسول صلّى اللہ عليہ و الہ وسّلم سے كسى نے سوال كيا:''غيبت كا كيا كفّارہ ہي''؟تو انحضرت (ص) نے فرمايا:

''تستغفر الله لمن اغتبته كلما ذكرته'' (۱)

''يعنى جب بھى تم اس شخص كو ياد كرتے ہو جس كى غيبت كى ہے ، تو اس كے لئے خدا سے استغفار كرو''_

حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں:

''فان اغتبت فبلغ المغتاب فاستحل منه وان لم تبلغه ولم تلحقه فاستغفر الله له'' (۲)

'' اگر تم نے كسى كى غيبت كى ہے اور وہ اس كے كان تك جا پہنچى ہے تو تم اس سے معافى مانگ كر بخشش طلب كر ليا كرو ، اور اگراس تك نہيں پہنچى ہو تو اس كے لئے خدا سے دعائے مغفرت كرو'' _

قرآن و حديث ميں تہمت كى مذمّت :

جو برائياں ہم نے غيبت كے لئے ذكر كى ہيں وہ سب تہمت كو بھى شامل ہيں، علاوہ بريں تہمت لگانے والا جانتا ہے كہ جو متہَّم كى طرف نسبت دے رہا ہے وہ جھوٹى اور حقيقت كے خلاف ہے _

قران مجيد نے تہمت كو ''اثم مبين''(كھلا گناہ)كے نام سے ياد كيا ہي،اور خبر دار كيا ہے كہ تہمت لگانے والا اچھى طرح جا نتا ہے كہ وہ جو كام كر ر ہا ہے وہ نا جائز

____________________

۱_ اصول كافي_ ج۲ ص ۳۵۷

۲_ مصباح الشريعہ_ ص ۲۰۵

۶۳

اور گناہ ہي،قر ان مجيد كا ارشادہي:

( والذين يو ذون المو منين والمومنات بغير ما اكتسبوا فقد احتملو ابهتانا وا ثما مبينا'' ) (۱)

''جو لوگ مومن مر دوں اور عورتوں كو ان كے نا كر دہ گنا ہوں كى وجہ سے تكليف پہنچاتے ہيں، وہ بھتان اور كھلم كھلّا گناہ كے متحمل ہو تے ہيں_''

حضرت امام جعفر صادق _نے تہمت كو دين و ايمان كے تباہ كر نے والے مادّہ كا نام ديا ہي،فر ماتے ہيں:

''اذا اتهم المومن اخاه انماث الايمان من قبله كما ينماث الملح فى المائ'' (۲)

''جب مو من اپنے كسى بھائي پر تہمت لگاتا ہے تو اس كے دل سے ايمان يوں نيست ونابود ہو جاتا ہے جس طرح نمك پانى ميں گُھل جا تا ہي_''

حضرت امام ر ضا عليہ السّلام فر ما تے ہيں كہ رسول خدا (ص) نے فر مايا:

''من بهت مو منا او مو منة او قال فيه ما ليس فيه ا قامه الله يوم القيامة على تل من نا ر حتى يخرج مما قال فيه'' (۳)

''جو شخص كسى مو من مرد يا عورت پر تہمت لگا تا ہے يا اس كے بارے ميں كوئي ايسى بات كر تا ہے جو اس ميں نہيں ہي، تو خدا وند عالم اسے بروز قيامت آگ كے ايك ٹيلے پر اس وقت تك كھڑ ركھے گا جب تك وہ اس

____________________

۱_ سورہ احزاب _ آيت ۵۸

۲_ اصول كافى _ ج۲ ص ۳۶۱

۳_ بحارالانوار _ ج ۷۲_ ص ۱۹۴

۶۴

كے عہدہ سے بر نہيں ائے گا (اپنى با توں كا ثبوت پيش نہيں كر يگا)_ليكن يہ با ت واضح ہے كہ وہ اس كا ثبوت تو نہيں پيش كر سكے گا ،لہذا عذاب ميں ہميشہ مبتلا رہے گا''

دعا ہے كہ خدا وند عا لم ہميں ان دو نوں گنا ہوں سے ہميشہ محفوظ ركھي_

آمين_

۶۵

چھٹا سبق:

بھائي چارہ اور اتّحاد

۱) تمہيد

۲) ......ا خوّت ،ايك خدا ئي نعمت

۳) ......دينى بھا ئيوں كے حقوق

۴) ......بہترين بھائي

۵) ......ا تحاد ايك قرانى حكم

۶) ......فرقہ بندى كے خطرات

۷) تفرقہ پردازى ايك سا مر اجى شيوہ

۸) ......فرقہ بندي،خدا كا ايك عذاب

۶۶

(۱) _ تمہيد:

رسول خدا (ص) كے مكّہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كے فوراًبعد اور اسلامى حكومت كى تشكيل كے آغاز ہى ميں خدا وند عالم نے مومنين كو آپس ميں بھائي كے نام سے ياد فرمايا ، قرآن مجيد كا ارشاد ہے :

''انما المئومنون اخوة فاصلحو ابين اخويكم ،،(۱)

''يقينا تمام مومنين آپس ميں بھائي ہيں ، الہذا تم اپنے دو بھائيوں كے درميان صلح كرا ديا كرو _ ،،

رسول خدا (ص) نے بھى اسى آيت كى بنياد پر اپنے صحابہ كرام كے درميان اخوّت و بھائي چارہ قائم كيا ، اور حضرت على عليہ السلام كو اپنا بھائي بنايا(۲) _ بھائي چارے كى يہ رسم محض لفظى كاروائي نہيں تھى ، بلكہ اس كے عملى انجام كو پيش نظر ركھا گيا

____________________

۱_ سورہ حجرات _ آيت ۱۰

۲_ يرت ابن ہشام _ ج ۱_ ص ۵۰۵

۶۷

تھا، اس طرح كے رشتے سے مومنين كا ايك دوسرے پر حق پيدا ہو گيا، وہ مشكلات ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹاتے تھے ، كسى مومن كى غير حاضرى كى صورت ميں اس كا مومن بھائي اس كے گھريلو امور اور مال كى نگہداشت كرتا تھا ، اس قسم كا رشتہ ، كسى اور دين ميں نہيں ملتا اور يہ خصوصيت صرف اور صرف اسلام كو ہى حاصل ہے _

اسى طرح مسلمانان عالم خدائي محبت كے رشتہ كے تحت ايك دوسرے سے منسلك ہيں ، اور ان كے دل ايك دوسرے سے اس طرح نزديك ہيں گويا كہ سب كا دل ايك ہى ہے اور صرف خدا ہى كى خوشنودى كے لئے دھڑكتا ہے _

مسلمانوں كے درميان تفرقہ يا جدائي ايك بے معنى سى بات ہے ، وہ سب ايك دوسرے كى خوشى اور غم ميں برابر كے شريك ہيں _ بقول شاعر :

مومنان بى حدولى ايمان يكي --- جسمشان معدود وليكن جان يكي

جان حيوانى ندارد اتحاد ----- تو مجو اين اتحّاد از روح باد

جان گُر گان و سگان از ہم جداست --- متّحد جانہاى شيران خداست

مومنين تو حّد و حساب سے باہر ہيں ، ليكن ان سب كا ايمان ايك ہے _ ان كے جسم زيادئہ ليكن جان ايك ہے _ جانوروں كى جانوں ميں اتّحاد نہيں ہوتا ، تمہيں يہ اتحاد ہوا كى روح ميں تلاش نہيں كرنا چاہيئے بھيڑيوں اور كتّوں كى جانيں ايك

۶۸

دوسرے سے عليحدہ ہيں ، اللہ كے شيروں كى جانيں متّحد اور ايك ہيں _

(۲) _اخّوت ، ايك خدائي نعمت :

د لوں كا ايك دوسر ے سے جو ڑ،دائمى اور اٹوٹ ہي_خدا كى يہ عظيم نعمت ، اسلامى اخوت اور بھا ئي چا رہ كے سا يہ ميں حاصل ہو تى ہي_اللہ تعا لى مسلمانو ں كو اس با ت كى تا كيد فر ما تا ہے كہ ميرى اس نعمت كو ہميشہ يا دركھيں،اس كى قدر جا نيں اور اس كا شكر بجا لا ئيں _ارشاد فر ما تا ہي:

''واذكروا نعمة الله عليكم اذكنتم اعداء فا لف بين قلو بكم فا صبحتم بنعمته ا خوا نا'' (۱)

''خدا كى نعمت كو ياد كرو جو اس نے تمہيں عطا كى ہي،كيو نكہ تم ايك دوسرے كے دشمن تھي_پس خدا نے تمہا رے دلوں كو الفت كے ر شتے ميں منسلك كر ديا اور اس كى نعمت كى وجہ سے تم ايك دوسرے كے بھا ئي بن گئي''_

مو من كے فر ائض ميں شا مل ہے كہ وہ خدا كى بے انتہا نعمتوں كا شكر ادا كر ے ،اور ہر ايك نعمت كا شكر ايك مخصوص طر يقہ سے ادا ہو تا ہي_اخوت اور بھائي چا رہ كى نعمت كا شكر اس طرح ادا ہو تا ہے كہ اسلامى احكام پر صحيح عمل كيا جائے اور اپنے دينى بھا ئيوں كے حقوق كا احترام ركھا جا ئي،ان حقوق ميں سے چند كى طرف ہم ذيل ميں اشارہ كر تے ہيں:

____________________

۱_ آل عمران آيہ ۱۰۳

۶۹

(۳)_دينى بھا ئيوں كے حقوق:

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام مو من كے حق كى ادائيگى كو ايك بہت بڑى عبا دت سے تعبير فر ما تے ہيں،چنا نچہ ارشاد ہي:

''ما عبد اللہ بشيئي افضل من اداء حق المو من ''(۱) ''مو من كے حق كى ادا ئيگى سے بہتر خدا كى كو ئي اور عبا دت نہيںہي_''

ايك اور روايت ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام كى طرف سے مو من كے مند رجہ سا ت حق بتلائے گئے ہيں :

۱) ......جو كچھ تم اپنے لئے پسند كر تے ہو،اپنے مو من بھائي كے لئے بھى و ہى چيز پسند كرو_اور جو اپنے لئے پسند نہيں كر تے اس كے لئے بھى پسند نہ كرو_

۲) ......جو با ت اس كى نا ر ضگى كا سبب ہي،اس سے پر ہيز كرو،اور اس كى خوشنودى حاصل كر نے كى كو شش كرو اور اس كى با تو ں پر عمل كرو _

۳) ......اپنى جان،مال،ہا تھ پا ئوں اور ز بان كے سا تھ اس كى مدد كيا كرو_

۴) ......اس كى انكھ كى مانند بنو اور اس كى راہ نمائي كرو_

۵) ......ايسا نہ ہو كے تم تو سيراب رہو اور وہ بھو كا اور پيا سا رہ جا ئي،تم كپڑے پہنو اور وہ عر يان رہي_

۶) ......ا گر تمہا رے بھائي كى خدمت كر نے والا كو ئي نہيں،تو كسى كو اس كے پاس بھيجو جو اس كے كپڑے دھوئي،اس كے لئے كھا نا تيار كرے اور

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۴۷

۷۰

اس كى زندگى كو سنواري_

۷) ......اس كى قسم كا اعتبار كر و،اس كى دعوت كو قبول كرو،اس كى بيما رى ميں عيادت كرو،اس كے جناز ميں شر كت كرو ،اگر اسے كوئي ضرورت پيش ہو تو اسكے اظہار سے پہلے اسے پورا كرو اگر ايسا كرديا تو يقين كرو كہ تم نے اپنى دو ستى كو مضبوط اور مستحكم كر ديا ہي''(۱) مو من كے حقوق ميں مند رجے ذيل امور كو بھى شا مل كيا جا سكتا ہي:

الف: ......نصيحت اور خير خو اہي_حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں:

''يحب للمومن على المومن ان ينا صحه '' (۲) ''مو من پر وا جب ہے كہ وہ دو سرے مو من كے لئے خير خواہ ہو_''

ب: ......مہر با نى اور احترام_حضرت رسول اكرم صلّى اللہ عليہ وا لہ وسلّم سے روايت ہے كہ:

''ما فى امتى عبد الطف اخاه فى الله بشي من لطف اخدمه الله من خدام الجنته'' (۳) ''ميرى امت ميں كو ئي ايسا بندہ نہيں ہے جو خدا كى رضا كى خاطر اپنے بھائي پر مہر با نى كري،مگر يہ كہ خدا وند عا لم جنت كے خد مت كا روں ميں سے كچھ خد مت گار اس كے لئے بھيج ديتا ہي_''

____________________

۱_ اصول كافي_ (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۴۶

۲_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۹۶

۳_ اصول كافي_ (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۹۴

۷۱

ج: حاجت برآوري، حضرت امام محمد باقر _ سے منقول ہے كہ خداوند عالم نے حضرت موسى عليه السلام كى طرف وحى فرمايا كہ ميرے بندوں ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو ''حسنہ'' يعنى نيكى كے ذريعہ ميرا قرب حاصل كرتے ہيں ' اور ميں انہيں جنت كا حاكم بنائوں گا، موسى عليه السلام نے عرض كيا:' 'خداوندا وہ حسنہ يعنى نيكى كيا ہے ؟''_ خداوند تعالى نے فرمايا: ''كسى مومن كا اپنے بھائي كے لئے اس كى حاجت برآورى كے لئے چل پڑنا ' خواہ وہ حاجت پورى ہو يا نہ ہو ''(۱) د: ......خوش كرنا _ حضرت رسالتمآب (ص) فرماتے ہيں :

''ان الله احبَّ الاعمال الى الله عزوجل ادخال السُّرور على المومنين'' (۲) ''يقينا خدا كے نزديك بہترين عمل ' مومنين كو مسرور كرنا ہے ''_

(۴)_ بہترين بھائي :

ہم يہاں اميرالمومنين على عليه السلام كے فرمان كى روشنى ميں ايك بہترين بھائي كى چند صفات كو بيان كر رہے ہيں :

الف: ''خير اخوانك من دلك على هديً واكسبك تُقيً و صدَّك عن اتباع هويً'' )

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم)_ ج۳_ ص ۲۸۱

۲_ اصول كافى (مترج) _ ج۳ _ ص ۲۸۱

۳_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ ص ۸

۷۲

''تمہارا بہترين بھائي وہ ہے جو تمہيں ہدايت اور راہ راست كى راہنمائي كري' تمہارى پرہيزگارى ميں اضافہ كرے اور تمہيں خواہشات نفسانى كى پيروى سے باز ركھي''_

ب:''خير إخوانك مَن دعاك الى صدق المقال بصدق مقاله وندبك إلى افضل الا عمال بحسن اعماله'' (۱)

''تمہارا بہترين بھائي وہ ہے جو اپنى سچى باتوں كے ذريعہ تمہيں سچ بولنے كى دعوت دي' اوراپنے اچھے كردار كے ذريعہ تمہيں نيك كاموں كى طرف پكاري''_

ج: ''خيرا الإخوان من كانت فى الله مَوَدته'' (۲)

''بہترين بھائي (اور دوست) وہ ہے جس كى دوستى خدا كيلئے ہو''_

۵)_ اتحاد' ايك قرآنى حكم:

اتحاد و اتّفاق ميں برادرى كا راز مضمر ہي، جب اسلامى معاشرہ كے تمام افراد آپس ميں برادرى اور اخوت كا مظاہرہ كريں گے تو ان كے درميان وسيع پيمانے پر اتحاد اور ہم آہنگى پيدا ہوگي_

عزّت و وقار اور سربلندى اور سرفرازى كا جامہ ايسے معاشرہ كے لئے زيبا ہے جس كے افراد كے دل اور افكار ايك ہوں' تفرقہ اور جدائي سے پرہيز كرتے ہوں' آپس ميں مہربان ہوں اور سينوں سے كينوں اور كدورتوں كو اكھاڑ پھنكا ہو''_

____________________

۱_ شرح غررالحكم _ ج ۷_ ص ۸

۲_ شرح غررالحكم _ ج ۷_ ص ۹

۷۳

اتحاد اور اتفاق ايسى چيز ہے جس كے بارے ميں قرآن مجيد نے بڑى تاكيد كى ہي_ ارشاد خداوندى ہے :

( واعتصوا بحبل الله جميعاً وَّ لا تفرقوا'' ) (۱)

''تم سب (ملكر) خداكى رسى كو مضبوطى سے پكڑے رہو اور ايك دوسرے سے تفرقہ وجدائي اختيار نہ كرو ''_

پھر فرماتاہي:

( ولا تكونوا كالذين تفرَّقوا واختلفوا من بعد ما جآئهم البينات ) ''(۲)

''تم لوگ (مسلمان) ان لوگوں كى طرح مت ہوجانا جو اپنے پاس روشن آيات اور نشانيوں كے آجانے كے بعد تفرقہ اور اختلاف ميں پڑگئے تھے ''_

۶)_ فرقہ بندى كے خطرات :_

مسلمانوں كا ايك دوسرے كے خلاف فرقہ بندى اور باہمى اختلاف كے بہت سے نقصانات ہيں' جن ميں سے چند يہاں بيان كئے جاتے ہيں :

الف: صراط مستقيم سے ہٹ جانا ; جب رشتہ وحدت ٹوٹ جاتا ہے تو انسان كو شرك كى طرف كھينچ كر لے جانے كے لئے شيطان كو آسانى ہوجاتى ہے اور انسانى تخليق كا اصل مقصد جو كہ خدا كى عبادت اور اسكے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا ہے اس سے ہٹ كر وہ طاغوت كى

____________________

۱_ سورہ آل عمران _ آيت ۱۰۳

۲_ سورہ آل عمران _ آيت ۱۰۵

۷۴

اطاعت كرنے لگتا ہي_ اس سلسلے ميںقرآن مجيد فرماتا ہي:

( وانَّ هذا صراطى مستقيماً فاتبعوه ولا تتبعوا السُّبُل فتفرق بكم عن سبيله ذلكم وصى كم به لعلَّكم تتقون '' ) (۱) ''اور يہ (دين) ميرا سيدھا راستہ ہے ' لہذا تم اس كى پيروى كرو اور دوسرى راہوں كى پيروى نہ كرو كہ (وہ راہيں) تم كو اس (اللہ) كى راہ سے متفرق اور جدا كرديں گي، اللہ تعالى نے تمہيں اس كا حكم ديا ہے ( كہ اس كے خلاف چلنے سے اجتناب كرو) تاكہ شايد تم پرہيز گار بن جائو''_

ب: عظمت ختم ہوجاتى ہي: عظمت و اقتدار كاراز ' وحد ت اور اتحاد ميں مضمر ہي' جب كہ اس كے برعكس ضعف و ناتواني' اختلاف وانتشار كا نتيجہ ہوتى ہي_ چنانچہ قرآن مجيد مسلمانوں كو باہمى اختلاف سے باز ركھنے كے ساتھ ساتھ اسكے برے انجام سے بھى خبردار كر رہاہي، ارشاد ہي:

( واطيعواالله و رسوله ولا تناز عوا فتفشلوا وتذهب ريحكم'' ) (۲)

''خدا اور اس كے رسول (ص) كى اطاعت كرو ' اور آپس ميں جھگڑا نہ كرو كہ اس طرح تم سست ہوجائو گے اور تمہارى عظمت كى روح تم سے رخصت ہوجائے گي''_

ج: ذلّت; كوئي بھى قوم كہ جو وحدت كى حامل ہوتى ہي' وہ سرى طاقتوں كى يلغار سے محفوظ رہتى ہے اور كسى كو اس كى طرف آنكھ اٹھاكرديكھنے كى جرا ت نہيں ہوتي، ليكن اگر اتحاد كا دامن چھوڑ دے تو

____________________

۱_ سورہ انعام _ آيت ۱۵۳

۲_ سورہ انفال _ آيت ۴۶

۷۵

معاشرہ كى عزت و عظمت اور حشمت و شوكت خاك ميں مل جاتى ہے ' اور وہ اغيار كى يلغار اور يورش كا تختہ مشق بن جاتا ہے ، تاريخ ہمارے اس دعوے كى گواہ ہي_ حضرت اميرالمومنين على عليه السلام نہج البلاغہ كے ايك خطبہ ميں اس چيز كو اس طرح بيان فرماتے ہيں :

''اب ذرا اسماعيل كى اولاد' اسحاق كے فرزندوں اور يعقوب كے بيٹوں كے حالات سے عبرت ونصيحت حاصل كرو_ (اقوام وملل كي) حالات كس قدر ملتے جلتے اور طور طريقے كتنے يكساں ہيں' ان كے منتشر اور پراگندہ ہوجانے كے بعد جو واقعات رونما ہوئے ہيں ان ميں غور وخوض كرو كہ جب كسرى (شاہان عجم) اور قيصر (سلاطين دوم) ان پر حكمران تھي، واقعات نے انہيں اطراف عالم كے سبزہ زاروں ' عراق كے دريائوں اور دنيا كى شادابيوں سے خاردار جھاڑيوں' ہوائوں كے بے روك گذرگاہوں اور معيشت كى دشواريوں كى طرف دھكيل ديا اور آخر كار انہيںفقير و نادار اور زخمى پيٹھ والے اونٹوں كا چرواہا اور بالوں كى جھونپڑيوں كا باشندہ بناكر چھوڑديا_ ' ان كے گھر بار دنيا سے بڑھ كر خستہ و خراب اور ان كے ٹھكانے خشك ساليوں سے تباہ حال تھي، نہ ان كى كوئي آواز تھى جس كے پرو بال كا سہارا ليں ' نہ انس ومحبت كى چھائوں تھى جس كے بل بوتے پر بھروسہ كريں، ان كے حالات پراگندہ' ہاتھ الگ الگ تھي' كثرت وجمعيت بٹى ہوئي تھي' جانگداز مصيبتوں اور جہالت كى تہ بہ تہ تہوں ميں پڑے ہوئے تھي' اور وہ يوں كہ لڑكياں زندہ در گور تھيں' (گھر

۷۶

گھر) مورتى كى پوجاہوتى تھي، رشتے ناتے توڑے جاچكے تھي' اور لوٹ كھسوٹ كى گرم بازارى تھي''(۱)

بقول مولانا روم:

گفت پيغمبر (ص) كہ اندر ساق عرش ---- مُنشى نور اين چنين بنوشتہ نقش

ذلّت اولاد آدم بى خلاف ---- زاختلاف است' اختلاف است اختلاف

حضرت پيغمبر اكرم(ص) نے فر مايا كہ عرش كے ستون پر نور كے كا تب نے يہ لكھ ديا ہے كہ بنى ادم كى ذلّت كے اس راز ميںكسى كو اختلاف نہيں، ہے اور وہ اختلاف اختلاف ہے اور صرف اختلاف ہي_

۷)_تفرقہ پر دازى ايك سامراجى كا شيوہ:

شير و شكر اور اتّحاد كى دولت سے مالامال معا شرے كو منتشر اور پر اگندہ كرنا ايسے سامراجى عناصركا شيوہ ہے جس كے دل و دماغ ميںعالمى سطح پر لوٹ ما ر كر نے كا سودہ سما يا ہوا ہي،اور اقوام عالم كو اپنا محكومم بنانے كى فكر ميں ہي_چو نكہ كسى قوم پر فتح پانا اور اسے زير كر نا پہلے ہى مر حلہ ميں ممكن نہيں ہي،لہذا مر حلے وار اپنے مذموم مقا صد كو حاصل كر نے كے لئے ان كے در ميان فر قہ و اريت كا بيج بو ديتے ہيں،پھر اہستہ

____________________

۱_ نہج البلاغہ _ خطبہ ۱۹۲_ (خطبہ قاصعہ )_

۷۷

اہستہ ان كے جان اور مال پر ڈاكے ڈالنا شروع كر ديتے ہيں 'اور اس طرح ان پر مسّلط ہو جا تے ہيں_فر عون،ہما رے اس دعوے كى روشن دليل ہي،جس كے بارے ميں قران فر ماتا ہي:

( ان فرعون علا فى الارض و جعل اهلها شيعا يستضعف طائفة منهم يذيح ابنا هم و يستحى نسا ئهم انه كان من المفسدين ) (۱) ''بے شك فرعون نے زميں ميں بہت سر اٹھايا تھا،اور اس نے وہاں كے رہنے والو ں كو كئي گرو ہوں ميں با نٹ ديا تھا،اُن ميں سے ايك گر وہ بنى اسرائيل كو عا جز اور كمزور كر ليا تھا اُن كے بيٹوں كو ذبح كر ديتا تھا اور ان كى عورتوں اور بيٹيوں كو زندہ رہنے ديتا تھا،بے شك وہ مفسدين ميں سے تھا_''

اس حقيقت كے پيش نظر،مسلمانوں پر وا جب ہے كہ وہ بيدارى اور ہو شيارى كا ثبوت ديں اور اپنى تقدير اور بھا گ دوڑ تفرقہ پر داز اور مفسدوں كے ہا تھوں ميں نہ ديں_

فرقہ بعدى ، خدا كا ايك عذاب :

قرآن مجيد ، ايسے لوگوں كو مختلف قسم كے عذابوں سے ڈراتا ہے جو خدائي قوانين سے رو گردانى كرتے ہيں، ان مختلف عذابوں ميں سے ايك '' فرقہ بندى ،، ہے ، ارشاد ہوتا ہے :

( قل هوا القادر على ان يبعث عليكم عذابا من فوقكم او من تحت ار جلكم او يلبسكم شيعا و يذيق بعضكم باس بعض انظر كيف

____________________

۱_ سورہ قصص _ آيت ۴

۷۸

نصرف الاى ت لعلهم يفقهون ) ،،(۱)

''اے رسول (ص) ،، تم كہدو وہى ( خدا ) اس پر اچھى طرح قادر ہے كہ تم پر تمہارے سر كے اوپر سے كوئي عذاب نازل كرے يا تمہارے پائوں تلے سے ، يا تمہيں مختلف فرقوں ميں تقسيم كر دے ، اور تم ميں سے بعض كو بعض كے عذاب كا مزہ چكھا دے _ ذرا ديكھو كہ ہم كس طرح اپنے دلائل كو مختلف پہلوئوں سے بيان كرتے ہيں تاكہ شايد وہ سمجھ جا ئيں _''

جى ہاں جس طرح ارضى اور سماوى مصيبتيں اور بلائيں گناہگار قوموں كو نيسّت ونابود كر ديتى ہيں ، اسى طرح فرقہ بندى بھى معاشروں كى سردارى اور سعادت و خوشبختى كو تہس نہيں كر ديتى ہے _

ہميں اميد ہے كہ مسلمانان عالم باہم اتّحاد اور اتّفاق كے ساتھ ايك امّت بن جائيں گے ' اور خدا وند كريم ورحيم كے فضل وكرم سے اپنى عظمت رفتہ كو پاليں گے _ مثل مشہور ہے ، ''آرى بااتّفاق '' جھان را مى تو ان گرفت ،، جى ہاں اتّفاق كى بدولت ،كائنات كو مسّخر كيا جا سكتا ہے _

____________________

۱_ سورہ انعام _ آيت ۶۵

۷۹

ساتواں سبق :

والدين كے حقوق

۱) .........معصومين(ع) كے كلام كى روشنى ميں

۲) اويس قرنى كا سبق آموز كردار

۳) .........باپ كا احترام ' امام زمانہ(ع) كا فرمان

۴) .........والدين كے لئے اولاد كا فريضہ

۵) .........مرنے كے بعد ياد ركھنا

۶) .........والدين سے نيك سلوك كى جزائ

۷) خدا كا فرمان ، يا والدين كى خواہش كى تكميل

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108