آداب معاشرت

آداب معاشرت33%

آداب معاشرت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 108

آداب معاشرت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 108 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 60142 / ڈاؤنلوڈ: 4604
سائز سائز سائز
آداب معاشرت

آداب معاشرت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

رسول خدا (ص) نے فر مايا :

''تم نے اس كى غيبت كى ہي_''۱

(۵)_غيبت كے اسباب:

غيبت ايك قسم كى روحا نى بيمارى ہي،جس ميں غيبت كر نے والا مختلف اسباب و عوامل كى وجہ سے مبتلا ہو جا تا ہے ،حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام نے ايك روايت ميںاس كے دس اسباب ذكر فرمائے ہيں،ملا حظہ كيجئي:

''واصل الغيبة متنوع بعشرة انواع،شفاء غيظ و مسا عدة قوم و تهمة و تصديق بلا خبر كشفه و سو ء ظن و حسد و سخرية و تعجب و تبرم وتزين'' (۲)

غيبت كے سرزد ہونے كے مند رجہ ذيل دس اسبا ب ہيں:

۱) ......غصّہ اور غيظ و غضب جو انسان كے اندر موجود ہو تا ہے ،وہ غيبت كے ذريعہ اسے ٹھنڈا كر كے خود كو تسكين پہنچاتا ہي_

۲) ......غيبت كر نے والوں كے گروہ كے ساتھ تعاون اور انكى مدد كر تا ہي_

۳) ......كسى پر الزام لگانے كے لئے غيبت كا سہارا ليتا ہي_

۴) ......كسى كى با ت كى تحقيق اور چھان بين كئے بغير تصديق كرتا ہے اور اسے سچّا ثا بت كرنے كے لئے غيبت كر تا ہي_

۵) ......دو سروں پر بد گمانى ،اسے غيبت پر اكساتى ہي_

____________________

۱_ جامع السعادات_ ج ۲_ ص ۳۰۳

۲_ مصباح الشريعة _ ص ۲۰۶

۶۱

۶) ......حسد ،اسے غيبت پر بھڑ كا تا ہي_

۷) ......كسى كا مذاق اڑانے كے لئے اس كى غيبت كرتا_

۸) ......اس كا تعجّب كر نا بھى غيبت ہي_

۹) ......كسى سے تنگدل ہو جا تاہي، تو اس كى غيبت كر تا ہي_

۱۰) ......اپنى با ت كو بنا سنوار كر پيش كر نے كے لئے كسى كى غيبت كر تا ہي_

۶)غيبت كا كفا رہ :

چو نكہ غيبت خد اكے حرام كردہ امور ميں سے ايك ہے ،لہذا غيبت كر ناحُّق ُاللہ غصب كر نے كے زمرہ ميں اتى ہي،اور چونكہ كسى انسان كى ابرو كو بر با د كر تى ہے لہذا حق النّاس پر تجا وز _ بھى شما ر ہو تى ہي_پس غيبت كر نے والے كو چاہيئے كہ پہلے تو وہ خدا كى با ر گا ہ ميںتوبہ كر ے اور اور اپنے اس گنا ہ كى معا فى مانگے ،تا كہ خدا وند تعالى اس كے اس گنا ہ كو بخش دے اور اس كى توبہ كو قبول كرے ،پھر وہ اس انسان كے حق كاتدارك كرے جس جس كى اس نے غيبت كى ہي،اگر وہ زندہ ہے اور اس تك رسائي ممكن ہے ،اگر اس كے رنجيدہ خا طر يا غصّے ہو نے كا مو جب نہيں بنتا تو اس سے معا فى ما نگے ،بہر حال ہر طريقے سے اسے راضى كر نے كى كو شش كرے _اور اگر وہ اس دنيا سے رخصت ہو گيا ہے يا زندہ ہي،ليكن اس تك رسا ئي مشكل ہے تو خدا سے اس كے لئے گناہوں كى بخشش كى دعا كرے ، اور اگر اس تك رسائي ممكن ہي،ليكن وہ غيبت سن كر نا را ض يا رنجيدہ خا طر ہو جا تا ہي،يا فتنہ كھڑا ہو نے كا با عث ہو تا ہے تو بھى اس كے لئے استغفار اور گناہوں كى بخشش كى دعا كرے _ ايك

۶۲

حديث ميں ہے كہ رسول صلّى اللہ عليہ و الہ وسّلم سے كسى نے سوال كيا:''غيبت كا كيا كفّارہ ہي''؟تو انحضرت (ص) نے فرمايا:

''تستغفر الله لمن اغتبته كلما ذكرته'' (۱)

''يعنى جب بھى تم اس شخص كو ياد كرتے ہو جس كى غيبت كى ہے ، تو اس كے لئے خدا سے استغفار كرو''_

حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں:

''فان اغتبت فبلغ المغتاب فاستحل منه وان لم تبلغه ولم تلحقه فاستغفر الله له'' (۲)

'' اگر تم نے كسى كى غيبت كى ہے اور وہ اس كے كان تك جا پہنچى ہے تو تم اس سے معافى مانگ كر بخشش طلب كر ليا كرو ، اور اگراس تك نہيں پہنچى ہو تو اس كے لئے خدا سے دعائے مغفرت كرو'' _

قرآن و حديث ميں تہمت كى مذمّت :

جو برائياں ہم نے غيبت كے لئے ذكر كى ہيں وہ سب تہمت كو بھى شامل ہيں، علاوہ بريں تہمت لگانے والا جانتا ہے كہ جو متہَّم كى طرف نسبت دے رہا ہے وہ جھوٹى اور حقيقت كے خلاف ہے _

قران مجيد نے تہمت كو ''اثم مبين''(كھلا گناہ)كے نام سے ياد كيا ہي،اور خبر دار كيا ہے كہ تہمت لگانے والا اچھى طرح جا نتا ہے كہ وہ جو كام كر ر ہا ہے وہ نا جائز

____________________

۱_ اصول كافي_ ج۲ ص ۳۵۷

۲_ مصباح الشريعہ_ ص ۲۰۵

۶۳

اور گناہ ہي،قر ان مجيد كا ارشادہي:

( والذين يو ذون المو منين والمومنات بغير ما اكتسبوا فقد احتملو ابهتانا وا ثما مبينا'' ) (۱)

''جو لوگ مومن مر دوں اور عورتوں كو ان كے نا كر دہ گنا ہوں كى وجہ سے تكليف پہنچاتے ہيں، وہ بھتان اور كھلم كھلّا گناہ كے متحمل ہو تے ہيں_''

حضرت امام جعفر صادق _نے تہمت كو دين و ايمان كے تباہ كر نے والے مادّہ كا نام ديا ہي،فر ماتے ہيں:

''اذا اتهم المومن اخاه انماث الايمان من قبله كما ينماث الملح فى المائ'' (۲)

''جب مو من اپنے كسى بھائي پر تہمت لگاتا ہے تو اس كے دل سے ايمان يوں نيست ونابود ہو جاتا ہے جس طرح نمك پانى ميں گُھل جا تا ہي_''

حضرت امام ر ضا عليہ السّلام فر ما تے ہيں كہ رسول خدا (ص) نے فر مايا:

''من بهت مو منا او مو منة او قال فيه ما ليس فيه ا قامه الله يوم القيامة على تل من نا ر حتى يخرج مما قال فيه'' (۳)

''جو شخص كسى مو من مرد يا عورت پر تہمت لگا تا ہے يا اس كے بارے ميں كوئي ايسى بات كر تا ہے جو اس ميں نہيں ہي، تو خدا وند عالم اسے بروز قيامت آگ كے ايك ٹيلے پر اس وقت تك كھڑ ركھے گا جب تك وہ اس

____________________

۱_ سورہ احزاب _ آيت ۵۸

۲_ اصول كافى _ ج۲ ص ۳۶۱

۳_ بحارالانوار _ ج ۷۲_ ص ۱۹۴

۶۴

كے عہدہ سے بر نہيں ائے گا (اپنى با توں كا ثبوت پيش نہيں كر يگا)_ليكن يہ با ت واضح ہے كہ وہ اس كا ثبوت تو نہيں پيش كر سكے گا ،لہذا عذاب ميں ہميشہ مبتلا رہے گا''

دعا ہے كہ خدا وند عا لم ہميں ان دو نوں گنا ہوں سے ہميشہ محفوظ ركھي_

آمين_

۶۵

چھٹا سبق:

بھائي چارہ اور اتّحاد

۱) تمہيد

۲) ......ا خوّت ،ايك خدا ئي نعمت

۳) ......دينى بھا ئيوں كے حقوق

۴) ......بہترين بھائي

۵) ......ا تحاد ايك قرانى حكم

۶) ......فرقہ بندى كے خطرات

۷) تفرقہ پردازى ايك سا مر اجى شيوہ

۸) ......فرقہ بندي،خدا كا ايك عذاب

۶۶

(۱) _ تمہيد:

رسول خدا (ص) كے مكّہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كے فوراًبعد اور اسلامى حكومت كى تشكيل كے آغاز ہى ميں خدا وند عالم نے مومنين كو آپس ميں بھائي كے نام سے ياد فرمايا ، قرآن مجيد كا ارشاد ہے :

''انما المئومنون اخوة فاصلحو ابين اخويكم ،،(۱)

''يقينا تمام مومنين آپس ميں بھائي ہيں ، الہذا تم اپنے دو بھائيوں كے درميان صلح كرا ديا كرو _ ،،

رسول خدا (ص) نے بھى اسى آيت كى بنياد پر اپنے صحابہ كرام كے درميان اخوّت و بھائي چارہ قائم كيا ، اور حضرت على عليہ السلام كو اپنا بھائي بنايا(۲) _ بھائي چارے كى يہ رسم محض لفظى كاروائي نہيں تھى ، بلكہ اس كے عملى انجام كو پيش نظر ركھا گيا

____________________

۱_ سورہ حجرات _ آيت ۱۰

۲_ يرت ابن ہشام _ ج ۱_ ص ۵۰۵

۶۷

تھا، اس طرح كے رشتے سے مومنين كا ايك دوسرے پر حق پيدا ہو گيا، وہ مشكلات ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹاتے تھے ، كسى مومن كى غير حاضرى كى صورت ميں اس كا مومن بھائي اس كے گھريلو امور اور مال كى نگہداشت كرتا تھا ، اس قسم كا رشتہ ، كسى اور دين ميں نہيں ملتا اور يہ خصوصيت صرف اور صرف اسلام كو ہى حاصل ہے _

اسى طرح مسلمانان عالم خدائي محبت كے رشتہ كے تحت ايك دوسرے سے منسلك ہيں ، اور ان كے دل ايك دوسرے سے اس طرح نزديك ہيں گويا كہ سب كا دل ايك ہى ہے اور صرف خدا ہى كى خوشنودى كے لئے دھڑكتا ہے _

مسلمانوں كے درميان تفرقہ يا جدائي ايك بے معنى سى بات ہے ، وہ سب ايك دوسرے كى خوشى اور غم ميں برابر كے شريك ہيں _ بقول شاعر :

مومنان بى حدولى ايمان يكي --- جسمشان معدود وليكن جان يكي

جان حيوانى ندارد اتحاد ----- تو مجو اين اتحّاد از روح باد

جان گُر گان و سگان از ہم جداست --- متّحد جانہاى شيران خداست

مومنين تو حّد و حساب سے باہر ہيں ، ليكن ان سب كا ايمان ايك ہے _ ان كے جسم زيادئہ ليكن جان ايك ہے _ جانوروں كى جانوں ميں اتّحاد نہيں ہوتا ، تمہيں يہ اتحاد ہوا كى روح ميں تلاش نہيں كرنا چاہيئے بھيڑيوں اور كتّوں كى جانيں ايك

۶۸

دوسرے سے عليحدہ ہيں ، اللہ كے شيروں كى جانيں متّحد اور ايك ہيں _

(۲) _اخّوت ، ايك خدائي نعمت :

د لوں كا ايك دوسر ے سے جو ڑ،دائمى اور اٹوٹ ہي_خدا كى يہ عظيم نعمت ، اسلامى اخوت اور بھا ئي چا رہ كے سا يہ ميں حاصل ہو تى ہي_اللہ تعا لى مسلمانو ں كو اس با ت كى تا كيد فر ما تا ہے كہ ميرى اس نعمت كو ہميشہ يا دركھيں،اس كى قدر جا نيں اور اس كا شكر بجا لا ئيں _ارشاد فر ما تا ہي:

''واذكروا نعمة الله عليكم اذكنتم اعداء فا لف بين قلو بكم فا صبحتم بنعمته ا خوا نا'' (۱)

''خدا كى نعمت كو ياد كرو جو اس نے تمہيں عطا كى ہي،كيو نكہ تم ايك دوسرے كے دشمن تھي_پس خدا نے تمہا رے دلوں كو الفت كے ر شتے ميں منسلك كر ديا اور اس كى نعمت كى وجہ سے تم ايك دوسرے كے بھا ئي بن گئي''_

مو من كے فر ائض ميں شا مل ہے كہ وہ خدا كى بے انتہا نعمتوں كا شكر ادا كر ے ،اور ہر ايك نعمت كا شكر ايك مخصوص طر يقہ سے ادا ہو تا ہي_اخوت اور بھائي چا رہ كى نعمت كا شكر اس طرح ادا ہو تا ہے كہ اسلامى احكام پر صحيح عمل كيا جائے اور اپنے دينى بھا ئيوں كے حقوق كا احترام ركھا جا ئي،ان حقوق ميں سے چند كى طرف ہم ذيل ميں اشارہ كر تے ہيں:

____________________

۱_ آل عمران آيہ ۱۰۳

۶۹

(۳)_دينى بھا ئيوں كے حقوق:

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام مو من كے حق كى ادائيگى كو ايك بہت بڑى عبا دت سے تعبير فر ما تے ہيں،چنا نچہ ارشاد ہي:

''ما عبد اللہ بشيئي افضل من اداء حق المو من ''(۱) ''مو من كے حق كى ادا ئيگى سے بہتر خدا كى كو ئي اور عبا دت نہيںہي_''

ايك اور روايت ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام كى طرف سے مو من كے مند رجہ سا ت حق بتلائے گئے ہيں :

۱) ......جو كچھ تم اپنے لئے پسند كر تے ہو،اپنے مو من بھائي كے لئے بھى و ہى چيز پسند كرو_اور جو اپنے لئے پسند نہيں كر تے اس كے لئے بھى پسند نہ كرو_

۲) ......جو با ت اس كى نا ر ضگى كا سبب ہي،اس سے پر ہيز كرو،اور اس كى خوشنودى حاصل كر نے كى كو شش كرو اور اس كى با تو ں پر عمل كرو _

۳) ......اپنى جان،مال،ہا تھ پا ئوں اور ز بان كے سا تھ اس كى مدد كيا كرو_

۴) ......اس كى انكھ كى مانند بنو اور اس كى راہ نمائي كرو_

۵) ......ايسا نہ ہو كے تم تو سيراب رہو اور وہ بھو كا اور پيا سا رہ جا ئي،تم كپڑے پہنو اور وہ عر يان رہي_

۶) ......ا گر تمہا رے بھائي كى خدمت كر نے والا كو ئي نہيں،تو كسى كو اس كے پاس بھيجو جو اس كے كپڑے دھوئي،اس كے لئے كھا نا تيار كرے اور

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۴۷

۷۰

اس كى زندگى كو سنواري_

۷) ......اس كى قسم كا اعتبار كر و،اس كى دعوت كو قبول كرو،اس كى بيما رى ميں عيادت كرو،اس كے جناز ميں شر كت كرو ،اگر اسے كوئي ضرورت پيش ہو تو اسكے اظہار سے پہلے اسے پورا كرو اگر ايسا كرديا تو يقين كرو كہ تم نے اپنى دو ستى كو مضبوط اور مستحكم كر ديا ہي''(۱) مو من كے حقوق ميں مند رجے ذيل امور كو بھى شا مل كيا جا سكتا ہي:

الف: ......نصيحت اور خير خو اہي_حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں:

''يحب للمومن على المومن ان ينا صحه '' (۲) ''مو من پر وا جب ہے كہ وہ دو سرے مو من كے لئے خير خواہ ہو_''

ب: ......مہر با نى اور احترام_حضرت رسول اكرم صلّى اللہ عليہ وا لہ وسلّم سے روايت ہے كہ:

''ما فى امتى عبد الطف اخاه فى الله بشي من لطف اخدمه الله من خدام الجنته'' (۳) ''ميرى امت ميں كو ئي ايسا بندہ نہيں ہے جو خدا كى رضا كى خاطر اپنے بھائي پر مہر با نى كري،مگر يہ كہ خدا وند عا لم جنت كے خد مت كا روں ميں سے كچھ خد مت گار اس كے لئے بھيج ديتا ہي_''

____________________

۱_ اصول كافي_ (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۴۶

۲_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۹۶

۳_ اصول كافي_ (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۹۴

۷۱

ج: حاجت برآوري، حضرت امام محمد باقر _ سے منقول ہے كہ خداوند عالم نے حضرت موسى عليه السلام كى طرف وحى فرمايا كہ ميرے بندوں ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو ''حسنہ'' يعنى نيكى كے ذريعہ ميرا قرب حاصل كرتے ہيں ' اور ميں انہيں جنت كا حاكم بنائوں گا، موسى عليه السلام نے عرض كيا:' 'خداوندا وہ حسنہ يعنى نيكى كيا ہے ؟''_ خداوند تعالى نے فرمايا: ''كسى مومن كا اپنے بھائي كے لئے اس كى حاجت برآورى كے لئے چل پڑنا ' خواہ وہ حاجت پورى ہو يا نہ ہو ''(۱) د: ......خوش كرنا _ حضرت رسالتمآب (ص) فرماتے ہيں :

''ان الله احبَّ الاعمال الى الله عزوجل ادخال السُّرور على المومنين'' (۲) ''يقينا خدا كے نزديك بہترين عمل ' مومنين كو مسرور كرنا ہے ''_

(۴)_ بہترين بھائي :

ہم يہاں اميرالمومنين على عليه السلام كے فرمان كى روشنى ميں ايك بہترين بھائي كى چند صفات كو بيان كر رہے ہيں :

الف: ''خير اخوانك من دلك على هديً واكسبك تُقيً و صدَّك عن اتباع هويً'' )

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم)_ ج۳_ ص ۲۸۱

۲_ اصول كافى (مترج) _ ج۳ _ ص ۲۸۱

۳_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ ص ۸

۷۲

''تمہارا بہترين بھائي وہ ہے جو تمہيں ہدايت اور راہ راست كى راہنمائي كري' تمہارى پرہيزگارى ميں اضافہ كرے اور تمہيں خواہشات نفسانى كى پيروى سے باز ركھي''_

ب:''خير إخوانك مَن دعاك الى صدق المقال بصدق مقاله وندبك إلى افضل الا عمال بحسن اعماله'' (۱)

''تمہارا بہترين بھائي وہ ہے جو اپنى سچى باتوں كے ذريعہ تمہيں سچ بولنے كى دعوت دي' اوراپنے اچھے كردار كے ذريعہ تمہيں نيك كاموں كى طرف پكاري''_

ج: ''خيرا الإخوان من كانت فى الله مَوَدته'' (۲)

''بہترين بھائي (اور دوست) وہ ہے جس كى دوستى خدا كيلئے ہو''_

۵)_ اتحاد' ايك قرآنى حكم:

اتحاد و اتّفاق ميں برادرى كا راز مضمر ہي، جب اسلامى معاشرہ كے تمام افراد آپس ميں برادرى اور اخوت كا مظاہرہ كريں گے تو ان كے درميان وسيع پيمانے پر اتحاد اور ہم آہنگى پيدا ہوگي_

عزّت و وقار اور سربلندى اور سرفرازى كا جامہ ايسے معاشرہ كے لئے زيبا ہے جس كے افراد كے دل اور افكار ايك ہوں' تفرقہ اور جدائي سے پرہيز كرتے ہوں' آپس ميں مہربان ہوں اور سينوں سے كينوں اور كدورتوں كو اكھاڑ پھنكا ہو''_

____________________

۱_ شرح غررالحكم _ ج ۷_ ص ۸

۲_ شرح غررالحكم _ ج ۷_ ص ۹

۷۳

اتحاد اور اتفاق ايسى چيز ہے جس كے بارے ميں قرآن مجيد نے بڑى تاكيد كى ہي_ ارشاد خداوندى ہے :

( واعتصوا بحبل الله جميعاً وَّ لا تفرقوا'' ) (۱)

''تم سب (ملكر) خداكى رسى كو مضبوطى سے پكڑے رہو اور ايك دوسرے سے تفرقہ وجدائي اختيار نہ كرو ''_

پھر فرماتاہي:

( ولا تكونوا كالذين تفرَّقوا واختلفوا من بعد ما جآئهم البينات ) ''(۲)

''تم لوگ (مسلمان) ان لوگوں كى طرح مت ہوجانا جو اپنے پاس روشن آيات اور نشانيوں كے آجانے كے بعد تفرقہ اور اختلاف ميں پڑگئے تھے ''_

۶)_ فرقہ بندى كے خطرات :_

مسلمانوں كا ايك دوسرے كے خلاف فرقہ بندى اور باہمى اختلاف كے بہت سے نقصانات ہيں' جن ميں سے چند يہاں بيان كئے جاتے ہيں :

الف: صراط مستقيم سے ہٹ جانا ; جب رشتہ وحدت ٹوٹ جاتا ہے تو انسان كو شرك كى طرف كھينچ كر لے جانے كے لئے شيطان كو آسانى ہوجاتى ہے اور انسانى تخليق كا اصل مقصد جو كہ خدا كى عبادت اور اسكے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا ہے اس سے ہٹ كر وہ طاغوت كى

____________________

۱_ سورہ آل عمران _ آيت ۱۰۳

۲_ سورہ آل عمران _ آيت ۱۰۵

۷۴

اطاعت كرنے لگتا ہي_ اس سلسلے ميںقرآن مجيد فرماتا ہي:

( وانَّ هذا صراطى مستقيماً فاتبعوه ولا تتبعوا السُّبُل فتفرق بكم عن سبيله ذلكم وصى كم به لعلَّكم تتقون '' ) (۱) ''اور يہ (دين) ميرا سيدھا راستہ ہے ' لہذا تم اس كى پيروى كرو اور دوسرى راہوں كى پيروى نہ كرو كہ (وہ راہيں) تم كو اس (اللہ) كى راہ سے متفرق اور جدا كرديں گي، اللہ تعالى نے تمہيں اس كا حكم ديا ہے ( كہ اس كے خلاف چلنے سے اجتناب كرو) تاكہ شايد تم پرہيز گار بن جائو''_

ب: عظمت ختم ہوجاتى ہي: عظمت و اقتدار كاراز ' وحد ت اور اتحاد ميں مضمر ہي' جب كہ اس كے برعكس ضعف و ناتواني' اختلاف وانتشار كا نتيجہ ہوتى ہي_ چنانچہ قرآن مجيد مسلمانوں كو باہمى اختلاف سے باز ركھنے كے ساتھ ساتھ اسكے برے انجام سے بھى خبردار كر رہاہي، ارشاد ہي:

( واطيعواالله و رسوله ولا تناز عوا فتفشلوا وتذهب ريحكم'' ) (۲)

''خدا اور اس كے رسول (ص) كى اطاعت كرو ' اور آپس ميں جھگڑا نہ كرو كہ اس طرح تم سست ہوجائو گے اور تمہارى عظمت كى روح تم سے رخصت ہوجائے گي''_

ج: ذلّت; كوئي بھى قوم كہ جو وحدت كى حامل ہوتى ہي' وہ سرى طاقتوں كى يلغار سے محفوظ رہتى ہے اور كسى كو اس كى طرف آنكھ اٹھاكرديكھنے كى جرا ت نہيں ہوتي، ليكن اگر اتحاد كا دامن چھوڑ دے تو

____________________

۱_ سورہ انعام _ آيت ۱۵۳

۲_ سورہ انفال _ آيت ۴۶

۷۵

معاشرہ كى عزت و عظمت اور حشمت و شوكت خاك ميں مل جاتى ہے ' اور وہ اغيار كى يلغار اور يورش كا تختہ مشق بن جاتا ہے ، تاريخ ہمارے اس دعوے كى گواہ ہي_ حضرت اميرالمومنين على عليه السلام نہج البلاغہ كے ايك خطبہ ميں اس چيز كو اس طرح بيان فرماتے ہيں :

''اب ذرا اسماعيل كى اولاد' اسحاق كے فرزندوں اور يعقوب كے بيٹوں كے حالات سے عبرت ونصيحت حاصل كرو_ (اقوام وملل كي) حالات كس قدر ملتے جلتے اور طور طريقے كتنے يكساں ہيں' ان كے منتشر اور پراگندہ ہوجانے كے بعد جو واقعات رونما ہوئے ہيں ان ميں غور وخوض كرو كہ جب كسرى (شاہان عجم) اور قيصر (سلاطين دوم) ان پر حكمران تھي، واقعات نے انہيں اطراف عالم كے سبزہ زاروں ' عراق كے دريائوں اور دنيا كى شادابيوں سے خاردار جھاڑيوں' ہوائوں كے بے روك گذرگاہوں اور معيشت كى دشواريوں كى طرف دھكيل ديا اور آخر كار انہيںفقير و نادار اور زخمى پيٹھ والے اونٹوں كا چرواہا اور بالوں كى جھونپڑيوں كا باشندہ بناكر چھوڑديا_ ' ان كے گھر بار دنيا سے بڑھ كر خستہ و خراب اور ان كے ٹھكانے خشك ساليوں سے تباہ حال تھي، نہ ان كى كوئي آواز تھى جس كے پرو بال كا سہارا ليں ' نہ انس ومحبت كى چھائوں تھى جس كے بل بوتے پر بھروسہ كريں، ان كے حالات پراگندہ' ہاتھ الگ الگ تھي' كثرت وجمعيت بٹى ہوئي تھي' جانگداز مصيبتوں اور جہالت كى تہ بہ تہ تہوں ميں پڑے ہوئے تھي' اور وہ يوں كہ لڑكياں زندہ در گور تھيں' (گھر

۷۶

گھر) مورتى كى پوجاہوتى تھي، رشتے ناتے توڑے جاچكے تھي' اور لوٹ كھسوٹ كى گرم بازارى تھي''(۱)

بقول مولانا روم:

گفت پيغمبر (ص) كہ اندر ساق عرش ---- مُنشى نور اين چنين بنوشتہ نقش

ذلّت اولاد آدم بى خلاف ---- زاختلاف است' اختلاف است اختلاف

حضرت پيغمبر اكرم(ص) نے فر مايا كہ عرش كے ستون پر نور كے كا تب نے يہ لكھ ديا ہے كہ بنى ادم كى ذلّت كے اس راز ميںكسى كو اختلاف نہيں، ہے اور وہ اختلاف اختلاف ہے اور صرف اختلاف ہي_

۷)_تفرقہ پر دازى ايك سامراجى كا شيوہ:

شير و شكر اور اتّحاد كى دولت سے مالامال معا شرے كو منتشر اور پر اگندہ كرنا ايسے سامراجى عناصركا شيوہ ہے جس كے دل و دماغ ميںعالمى سطح پر لوٹ ما ر كر نے كا سودہ سما يا ہوا ہي،اور اقوام عالم كو اپنا محكومم بنانے كى فكر ميں ہي_چو نكہ كسى قوم پر فتح پانا اور اسے زير كر نا پہلے ہى مر حلہ ميں ممكن نہيں ہي،لہذا مر حلے وار اپنے مذموم مقا صد كو حاصل كر نے كے لئے ان كے در ميان فر قہ و اريت كا بيج بو ديتے ہيں،پھر اہستہ

____________________

۱_ نہج البلاغہ _ خطبہ ۱۹۲_ (خطبہ قاصعہ )_

۷۷

اہستہ ان كے جان اور مال پر ڈاكے ڈالنا شروع كر ديتے ہيں 'اور اس طرح ان پر مسّلط ہو جا تے ہيں_فر عون،ہما رے اس دعوے كى روشن دليل ہي،جس كے بارے ميں قران فر ماتا ہي:

( ان فرعون علا فى الارض و جعل اهلها شيعا يستضعف طائفة منهم يذيح ابنا هم و يستحى نسا ئهم انه كان من المفسدين ) (۱) ''بے شك فرعون نے زميں ميں بہت سر اٹھايا تھا،اور اس نے وہاں كے رہنے والو ں كو كئي گرو ہوں ميں با نٹ ديا تھا،اُن ميں سے ايك گر وہ بنى اسرائيل كو عا جز اور كمزور كر ليا تھا اُن كے بيٹوں كو ذبح كر ديتا تھا اور ان كى عورتوں اور بيٹيوں كو زندہ رہنے ديتا تھا،بے شك وہ مفسدين ميں سے تھا_''

اس حقيقت كے پيش نظر،مسلمانوں پر وا جب ہے كہ وہ بيدارى اور ہو شيارى كا ثبوت ديں اور اپنى تقدير اور بھا گ دوڑ تفرقہ پر داز اور مفسدوں كے ہا تھوں ميں نہ ديں_

فرقہ بعدى ، خدا كا ايك عذاب :

قرآن مجيد ، ايسے لوگوں كو مختلف قسم كے عذابوں سے ڈراتا ہے جو خدائي قوانين سے رو گردانى كرتے ہيں، ان مختلف عذابوں ميں سے ايك '' فرقہ بندى ،، ہے ، ارشاد ہوتا ہے :

( قل هوا القادر على ان يبعث عليكم عذابا من فوقكم او من تحت ار جلكم او يلبسكم شيعا و يذيق بعضكم باس بعض انظر كيف

____________________

۱_ سورہ قصص _ آيت ۴

۷۸

نصرف الاى ت لعلهم يفقهون ) ،،(۱)

''اے رسول (ص) ،، تم كہدو وہى ( خدا ) اس پر اچھى طرح قادر ہے كہ تم پر تمہارے سر كے اوپر سے كوئي عذاب نازل كرے يا تمہارے پائوں تلے سے ، يا تمہيں مختلف فرقوں ميں تقسيم كر دے ، اور تم ميں سے بعض كو بعض كے عذاب كا مزہ چكھا دے _ ذرا ديكھو كہ ہم كس طرح اپنے دلائل كو مختلف پہلوئوں سے بيان كرتے ہيں تاكہ شايد وہ سمجھ جا ئيں _''

جى ہاں جس طرح ارضى اور سماوى مصيبتيں اور بلائيں گناہگار قوموں كو نيسّت ونابود كر ديتى ہيں ، اسى طرح فرقہ بندى بھى معاشروں كى سردارى اور سعادت و خوشبختى كو تہس نہيں كر ديتى ہے _

ہميں اميد ہے كہ مسلمانان عالم باہم اتّحاد اور اتّفاق كے ساتھ ايك امّت بن جائيں گے ' اور خدا وند كريم ورحيم كے فضل وكرم سے اپنى عظمت رفتہ كو پاليں گے _ مثل مشہور ہے ، ''آرى بااتّفاق '' جھان را مى تو ان گرفت ،، جى ہاں اتّفاق كى بدولت ،كائنات كو مسّخر كيا جا سكتا ہے _

____________________

۱_ سورہ انعام _ آيت ۶۵

۷۹

ساتواں سبق :

والدين كے حقوق

۱) .........معصومين(ع) كے كلام كى روشنى ميں

۲) اويس قرنى كا سبق آموز كردار

۳) .........باپ كا احترام ' امام زمانہ(ع) كا فرمان

۴) .........والدين كے لئے اولاد كا فريضہ

۵) .........مرنے كے بعد ياد ركھنا

۶) .........والدين سے نيك سلوك كى جزائ

۷) خدا كا فرمان ، يا والدين كى خواہش كى تكميل

۸۰

جو حقوق انسان پر واجب ہيں ان ميں سے ايك والدين كے ساتھ نيك سلوك روا ركھنا ہے ' خواہ وہ زند ہوں يا مر چكے ہوں ' اچھے ہوں يا بُرے ، والدين كا احترام اور ان كى شرعى ضروريات كا پورا كرنا اس قدر اہميّت كا حامل ہے كہ خدا نے قرآن مجيد ميں چھ مقامات پر اس كر ذكر كيا ہے ، حتى كہ بعض مقامات پر تو اللہ تعالى نے اپنى عبادت كے بعد والدين كے ساتھ نيكى كرنے كا حكم ديا ہے _ مثال كے طور پر قرآن مجيد كى مندرجہ ذيل آيتيں ملاحظہ فرمائيں :

(۱)( وقضى ربك الا تعبد وا الا اياه وبالوالدين احساناً ) (۱)

'' اور تيرے پروردگار نے قطعى فيصلہ كر ديا ہے كہ اس كے سوا كسى كى عبادت نہ كرو اور والدين كے ساتھ نيكى كرو ''_

____________________

۱_سورہ بنى اسرائيل _ آيت ۲۳_ ۲۴

۸۱

پھر ان كے ساتھ نيكى كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتا ہے:

(۲)( اما يبلغن عندك الكبر احد هما او كلا هما فلا تقل لهما اُف ) :ّ''

''اگر ان ميں سے ايك ےا دونوں تمہا رى زندگى ميں بڑھاپے كو پہنچ جائيں تو(ان كى خد مت گزارى سے تھك كر )انہيں اُف تك نہ كہو_''

(۳)( ولا تنهر هما ) '' تر جمہ :''اور نہ انہيں جھڑ كو_''

(۴)( و قل لهما قولا كر يما' )

''ان سے ادب اور مہر با نى سے با ت كرو''_

(۵) ......''( وا خفض لهما جناح الذل من الر حمة '' ) _

''اور ان كے سا منے خا كسارى سے شا نے جھكا ئے ركھو_''

(۶)( و قل رب ار حمهما كماربيانى صغيرا'' ) _

''اور ان كے حق ميں دعا كرو،اور كہو بارالہا ان دو نوں پر رحم فرما،جس طرح كہ انہوں بچپن ميں مےرى تر بےت اور پرورش كى ہے''_

اب جب كہ ہم وا لدين كے سا تھ نيك سلوك كى اہميّت سے واقف ہو چكے ہيں تو بہتر معلوم ہو تا ہے كہ خدا كى ان دو نعمتوں كو اچھى طرح پہچا نيں تا كہ ہم ان كى بہتر خدمت كے لئے اچھى طرح كمر بستہ ہو كر صحيح معنوں ميں اپنے فريضے كو ادا كرسكيں،اس بارے ميں حضرت امام زين العا بدين عليه السلام كے ارشا دات ہمارے لئے مشعل راہ ہيں:

روايت:'' تمہا رى ماں كا تم پر يہ حق ہے كہ تمہيں معلوم ہو نا چا ہےئے كہ اس نے تمہيں ايسى جگہ ركھا اور تمہيں اپنے سا تھ اٹھائے پھر تى رہى جہاں پر

۸۲

كوئي دو سر كسى كو نہيں اٹھتا،اس نے تمہيں اپنے دل كے مےوے سے اےسى چےز كھلائي ہے جو كسى كو كوئي نہيں كھلاتا، اس نے اپنے ہاتھ' پائوں،انكھ،كان، حتى كہ اپنے بدن كى جلد اور تمام اعضاء كے ساتھ بڑى خوشى اور خندہ پےشانى كے ساتھ تمہا رى نگہداشت كي،اور اپنے حمل كے دوران تمام نا خوش گوا ر با توں،دردو غم،رنج و الم اور سختےوں كو بر داشت كےا،يہاں تك كہ قدرت خدا نے تجھے ا س سے جدا كر كے دنےاميں بھيج ديا_ اگاہ ہو جائو كے تمہا رے باپ كا تم پر ےہ حق ہے كہ:وہ تمہا رى اصل اور جڑہے،اور تم اس كى فرع اور شا خ ہو،اگروہ نہ ہو تا تو تم بھى نہ ہوتے، تم اپنے اندر جو نعمتيں ديكھ رہے ہو وہ سب اس كے وجود كے بر كت سے ہيں، لہذا خدا كا شكر كرتے ہو ئے اپنے باپ كا شكر ےہ بھى ادا كرو اور اس كى عزّت و تكرےم بھى كرو''(۱) اس جملے ميں حضرت امام زين العا بد ين عليه السلام نے والدين كى اہميّت اور ان كى قدر و قےمت كو بےان فر ما يا ہے،اور سا تھ ہى ہميںان كى قدر دانى اور ان كا شكرےہ ادا كرنے كا حكم ديا ہے_

علاوہ ازيں ہميں با ور كرا يا ہے كہ اگر ہم اپنى سا رى زندگى ان كى خدمت كر تے رہيں پھر بھى ہم ان كى خد ما ت كے ہزارويں حصّے كا بدلہ بھى نہيں چكا سكتے_

____________________

۱_ تحف العقول _ ص ۱۸۹_ رسالة الحقوق_ امام سجاد عليه السلام

۸۳

(۱)_معصومين (ع) كے كلام كى روشنى ميں :

ہم ايك با ر پھر معصومين علےھم السّلام كے ار شا دات كو پےش كر تے ہيں تا كہ اس اہم فر ےضے كى ادا ئےگى ميں وہ ہما رے راہنما قرار پا ئيں _

الف : ......ايك شخص حضرت ختمى مر تبت (ص) كى خد مت ميں حا ضر ہوا اور اپ(ص) سے نصےحت كى درخو است كي،اپ(ص) نے فر ماےا :

''والديك فا طعهما وبر هما حيين كانا او ميتين'' (۱) ''تم اپنے وا لدين كى اطاعت كر واور ان كى ساتھ نيك سلوك كرو ' خواہ وہ زندہ ہوں يا مر چكے ہوں _ ،،

منصوربن جازم كہتے ہيں كہ ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلّام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض كيا : كس عمل كى زيادہ قدر وقيمت ہے ؟

آپ نے فرمايا :

''الصلوة لوقتها وبرَّ الوالدين والجها د فى سبيل الله ''(۲) '' اول وقت ميں نماز كى ادائيگى ، والدين كے ساتھ نيكى اور راہ خدا ميں جہاد _ ''

ج: ايك شخص نے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں عرض كيا كہ ميںاپنے وطن اور علاقے اور والدين سے جدا ہو كر ، آپ(ص) كى خدمت ميں مسلمان ہونے

____________________

۱_ اصول كافى _ ج ۲_ ص ۱۵۸

۲_ اصول كافى ج۲ ص ۱۵۸

۸۴

كى غرض سے حاضر ہوا ہوں ، اور جس وقت ميں رخت سفر باندھ رہا تھا ميرے والدين ميرى جدائي كے صدمہ سے رو رہے تھے _

رسول خدا (ص) نے فرمايا :

'' تم واپس چلے جائو ، پہلے ماں باپ كو راضى كرو پھر ہمارے پاس آئو _ ،، يہ سنكر اس نے آپ (ص) كے فرمان پر عمل كيا ''(۱)

د : رسول خدا(ص) فرماتے ہيں :

''رَضى الرب فى رضى الوالدين وسخط الرب فى سخط الوالدين ''(۲) '' رب كى رضا ، والدين كى رضامندى ميں ہے اور خالق كى ناراضگى والدين كى ناراضگى ميں ہے _''

ھ : رسول خدا(ص) سے مروى ہے كہ حضرت موسى (ع) نے اللہ تعالى سے اپنے ايك شہيد دوست كے انجام كا سوال كيا تو خدا نے فرمايا كہ وہ جہنّم ميں ہے ، انہوں نے عرض كيا كہ كيا تو نے شھداء سے جنّت كا وعدہ نہيں فرمايا ؟ ،ندا آئي : '' كيوں نہيں ؟ ' ليكن وہ اپنے والدين كو ہميشہ ستايا كرتا تھا ، اور ميں والدين كى نافرمانى كرنے والوں سے كوئي بھى عمل قبول نہيں كرتا _ '' ۱

و: حضرت امام محمد باقر عليہ السلّام فرماتے ہيں :

'' انَّ العبد ليكون برابو الديه فى حيا تهما ثم يموتان فلا يقضي عَنهماَ ديونهما وَلاَ يستغفر لهما فيكتبه الله عاقاً '' (۳) ____________________

۱_ مستدرك الوسائل _ ج ۲_ ص ۶۲۷

۲_ مستدرك الوسائل _ ج ۲_ ص۲۷

۳_ اصول كافى ج ۲_ ص ۱۶۳

۸۵

'' بعض اوقات ايسا ہوتا ہے كہ كوئي بندہ ، اپنے والدين كى زندگى ميں ان كے ساتھ نيكى كرتا ہے ، ليكن جب وہ مر جاتے ہيں تو وہ نہ ان كے قرضے ادا كرتا ہے اور نہ ہى خدا سے ان كے گناہوں كى بخشش طلب كرتا ہے ، تو ايسى صورت ميں خدا اسے والدين كا نافرمان اور عاق لكھ ديتا ہے '' _

(۲)_ اويس قرنى كا سبق آموز كردار :

حضرت اويس قرنى رسالتمآب (ص) كے ايك سچے عاشق اور حقيقى پيروكار تھے ، جن كا كام سار بانى تھا ، اور اس سے وہ اپنا اور اپنى والدہ كا خرچ چلاتے تھے ، وہ اپنے اس عشق و محبّت كے باو جود آنحضرت صّلى اللہ عليہ وآلہ وسّلم كى زيارت سے شرفياب نہيں ہو پائے تھے _

ايك دن انہوں نے اپنى والدہ سے حضور(ص) كى زيارت كى اجازت مانگى ، تاكہ مدينہ پہنچ كر آنحضرت(ص) كى زيارت كا شرف حاصل كر سكيں ، ليكن وہ اس شرط پر اجازت دينے پر راضى ہوئي كہ مدينہ ميں آدھے دن سے زيادہ نہيں ٹھہريں گے _

حضرت اويس قرنى نے مدينہ كا سفر اختيار كيا اور بڑے شوق اور بے پناہ مشكلات كے ساتھ سفر طے كر كے حضور(ص) پاك كے در دولت پر حاضرى دى ، ان كا دل محبوب كے ديدار كے لئے تڑپ رہا تھا اور اشك شوق آنكھوں سے رواں تھے ، ليكن انہيں بتايا گيا كہ سر كار دو عالم (ص) تو مدينہ ميں تشريف فرما نہيں ہيں ، اور كہيں سفر پر گئے ہيں، اپنى ماں سے كئے ہوئے وعدے كے پيش نظر صرف آدھے دن تك آنحضرت(ص) كا انتظار كيا ، ليكن حضور(ص) تشريف نہيں لائے ، لہذ وہ ختمى مرتبت(ص) كى زيارت كا شرف

۸۶

حاصل كئے بغير مدينہ سے واپس چلے گئے _

جب حضور(ص) پاك مدينہ تشريف لے آئے اور اپنے گھر پہنچے تو آپ(ص) كو اويس قرنى كے آنے كى خبر دى گئي _ حضور(ص) نے فرمايا :

'' اويس قرنى ہمارے گھر ميں نور چھوڑ گئے ہيں ''_

پھر فرمايا :

''يفوح روائح الجنة من قبل القرن واشو قاه اليك يا اويس القرن ''(۱)

'' نسيم جنّت قرن كى طرف سے آ رہى ہے ، اے اويس قرنى ہم تمہارى ملاقات كے كس قدر خواہشمند ہيں '' _

( ۳) _ باپ كا احترام ، امام زمانہ (ع) كا فرمان :

سيد محمود موسوى نجفى المعروف سيد محمود ہندى كا شمارا اپنے زمانہ كے زاہد لوگوں ميں ہوتا تھا ، اور وہ حضرت امير المومنين عليہ السلام كے حرم مقّدس ميں نماز پڑھايا كرتے تھے، انہوں نے ايك عالم كى زبان سے نقل كيا ہے كہ ان كا ايك دوست تھا جو حمّام ميں كام كيا كرتا تھا،اس نے ذكر كيا ہے كہ ميرے والد نہايت ہى بوڑھے ہو چكے تھے، ميں ان كا بہت ہى احترام كيا كرتا تھا ، اور ان كا ہر كام پورا كيا كرتا تھا ، سوائے بدھ كى رات كے ، كيونكہ اس رات ميں امام زمانہ ( عج) كے شوق زيارت كے پيش نظر مسجد سہلہ جايا كرتا تھا _

____________________

۱_ منتہى الآمال _ ج ۱_ ص ۲۳۹

۸۷

چنانچہ جب چاليس بدھ كى راتيں مكمل ہو گئيں اور آخرى رات كو ميں بڑى آرزوئيں لے كر گيا تھا كہ يقينا آنجناب(ع) كى زيارت ہو گى ، اور جب ميں واپس پلٹ رہا تھا تو راستے ميں ايك نورانى صورت كے شخص كو ديكھا جو گھوڑے پر سوار تھا ، جب ميرے نزديك پہنچا تو ميرے نام سے مجھے پكارا اور تين مرتبہ كہا :'' تم اپنے باپ كا خاص خيال ركھا كرو اور اس كا احترام كيا كرو ، '' يہ كہا اور ميرى نگاہوں سے غائب ہو گيا _ ميں نے لمحہ بھر سوچا كہ يہ شخص كون تھا ؟ ، پھر فو راً خيال آيا كہ يہ تو وہى عظيم الشّان شخصيّت ہيں ، جن كے شوق ديدار كے لئے ميں چاليس بدھ كى راتيں مسجد سہلہ جا چكا ہوں _

ميں نے آنجناب(ع) كى سفارش كو اپنے ذہن ميں محفوظ كر ليا اور والد كى خدمت كے لئے يوں كمر بستہ ہو گيا جيسے كوئي نوكر ہوتا ہے(۱)

۴)_ والدين كيلئے اولاد كا فريضہ :

ہم يہاں والدين كے لئے اولاد كے شرعى فريضے كى طرف اشارہ كريں گے ،بہتر ہے كہ اولاد اپنے والدين كى ضروريات كو پورا كرے ، زندگى كى مشكلات ميں ان كا ہاتھ بٹائے ، جب انہيں كوئي چيز دينا چاہے تو ان كے ہاتھ كے اوپر اپنا ہاتھ نہ لے جائے ، ان كے آگے نہ چلے ، بيٹھتے وقت ان كا سہارا نہ لے _

منقول ہے كہ حضرت امام زين العابدين عليہ السلّام نے ايك شخص كو ديكھا جو كہ اپنے باپ كے ساتھ ٹيك لگائے بيٹھا تھا ، امام نے اس كى اس گستانى كى وجہ سے مرتے دم تك اس سے بات نہيں كى(۲)

____________________

۱_ منتہى الآمال _ ج ۳_ ص ۳۲۴

۲_ اصول كافى _ ج ۲_ ص ۲۶۱

۸۸

اولاد كے لئے مناسب نہيں ہے كہ وہ تند مزاجى اور درشت لہجے كے ساتھ والدين كے ساتھ بات كرے يا ان كے سامنے تيورى چڑھا كر آئے كہ اس طرح سے وہ آزردہ ہوجائيں ' اونچى آواز ميں ان سے بات نہ كريں' ان سے ناراضگى كا اظہار يا ان پر كسى قسم كا اعتراض نہ كرے كہ كھانا كھانے ميں ان سے پہل نہ كرے ' كھانا كھالينے كے بعد خود ہى دسترخوان كو اكٹھا كرے ' انہيں ان كے نام سے نہ پكارے بلكہ بڑے ادب اور احترام كے ساتھ آواز دے' تعظےم اور ادب كے ساتھ ان سے گفتگو كرے ' ان كے حق ميں دعائے خير كرے 'ان كے زحمتوں اور تكليفوں كا شكريہ ادا كرے اور قدر كرے' اور كہے:

''بار الہا ميں انہيں جزا دينے كى طاقت نہيں ركھتا تو خود ہى ان پر رحمت نازل فرما''_

(۵)_مرنے كے بعد ياد ركھنا :

والدين كى موت كے ساتھ اولاد كا فريضہ ختم نہيں ہوتا ہے_ وہ وفات پانے سے ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل ہوجاتے ہيں اور عالم برزخ ميں رہتے ہيں' اور اولاد كى نيكى ان كو مل جاتى ہے_ لہذا اولاد كا فرض ہے كہ والدين كے جو فرائض ان سے چھوٹ گئے ہيں وہ انہيں ادا كرے' ان كے قرض چكائے تاكہ انہيں مشكلات سے چھٹكارا ملے' اس بارے ميں رسول خدا (ص) سے دريافت كيا تو آنحضرت (ص) نے فرمايا :

''مرنے كے بعد ان كے لئے نماز پڑھے ' ان كے گناہوں كى بخشش كى دعا مانگے ان كے كئے ہوئے وعدے پورا كرے' ان كے دوستوں كا احترام

۸۹

كرے اور ان كے رشتہ داروں سے ميل ملاقات ركھے''(۱) آپ (ص) ہى كا ارشاد ہے :

''سيد الابرار يوم القيامة رجل برَّ والديه بعد موتهما'' (۲)

''بروز قيامت نيك لوگوں كا سردار وہ شخص ہوگا جو والدين كے مرنے كے بعد بھى ان كے ساتھ نيكى كرتا ہے''_

(۶)_ والدين سے نيك سلوك كا انجام:

ہم يہاں اس الہى پسنديدہ فعل كے كچھ فوائد قلم بند كررہے ہيں:

الف: جنت ميں پيغمبروں (ص) كے ساتھ ہم نشيني_

حضرت موسى عليه السلام نے خداوند عالم سے درخواست كى كہ انہيں جنت ميں ان كے ہم نشين كا تعارف كرايا جائے، خداوند عالم نے انہيں ايك قصاب كا پتہ بتايا ، حضرت موسى عليه السلام اس جوان كى دوكان پر پہنچ گئے اور غروب آفتاب كے وقت اس كے ہمراہ اس كے گھر گئے، اس نے كھانا تيار كيا پھر چھت سے لٹكى ہوئي ٹوكرى كو نيچے اُتارا ' اس ميںايك نہايت ہى بڈھى فرتوت عورت بيٹھى ہوئي تھي، اس نے اسے اپنے ہاتھ سے كھانا كھلايا اور اسے بنايا سنوارا' پھر دسترخوان بچھا كر حضرت موسى عليه السلام كے ساتھ كھانا كھانے ميں مصروف ہوگيا_

حضرت موسى عليه السلام نے اس سے بڑھيا كے بارے ميں سوال كيا تو اس نے كہا:'' يہ

____________________

۱_ مستدرك الوسائل _ ج ۲_ ص ۶۳۲

۲_ بحارالانوار _ ج ۷۱_ ص ۸۶

۹۰

بڑھيا ميرى والدہ ہے اور چونكہ ميرى مالى حالت كمزور ہے' لہذا اس كے لئے كوئي نوكر چاكر نہيں ركھ سكتا اور خود ہى اس كى خدمت پر كمر بستہ رہتا ہوں، حضرت موسى _ نے اس سے پوچھا كہ اس بڑھيا نے كيا باتيں كيں؟ اس نے كھا كہ ميں جب بھى اسے كھانا كھلاتا اور اسے سنوار تاہوں تو وہ مجھے يہى دعا ديتى ہے كہ خدا تمہارى مغفرت كرے اور قيامت كے دن تمہيں حضرت موسى عليه السلام كا ہمنشين بنائے_

يہ سن كر حضرت موسى عليه السلام نے فرمايا : تمہيں خوشخبرى كہ اس كى دعا تمہارے بارے ميں قبول ہوچكى ہے اور جبرئيل (ع) نے مجھے خبر دى ہے كہ تم جنت ميں ميرے ہم نشين ہوگے(۱)

ب: عمرميں اضافہ كا موجب_

حضرت امام محمد باقر عليه السلام فرماتے ہيں :

''البرُّ و صدقة السّرّ ينفيان الفقر ويزيد ان فى العمر و يدفعان عن سبعين ميئة سوئ'' (۲) ''نيكى كرنا (جن ميں سے والدين كے ساتھ نيكى بھى شامل ہے) اور چھپا كر صدقہ دينا فقر كو دور كرديتے ہيں اور ستر قسم كى برى موت سے بچاتے ہيں اور اس كے برعكس والدين كے ساتھ بدسلوكى عمر كو كم كرديتى ہے''_

ج: رسول خدا (ص) اور ائمہ طاہرين عليہم السلام كى رضا كا سبب ہے_

ايك دن رسول خدا (ص) كى رضاعي(دودھ شريك)بہن ان كے پاس آئيں

____________________

۱_ پند تاريخ_ ج ۱_ ص ۷۰

۲_ بحارالانوار _ ج ۷۱_ ص ۸۱

۹۱

تو حضور (ص) نے ان كے لئے اپنى عبا بچھادى اور بڑى خندہ پيشانى كے ساتھ ان سے ملاقات كي، اتفاق سے اسى دن آپ (ص) كا رضاعى بھائي بھى آگيا ، ليكن حضور (ص) نے بہن كى مانند اس سے سلوك نہيں كيا ، كسى نے آپ(ص) سے اس بارے ميں سوال كيا تو آپ (ص) نے فرمايا :

''چونكہ يہ لڑكى اپنے ماں باپ كے ساتھ بہت محبت كرتى ہے''(۱)

عمادبن حيّان كہتے ہيں كہ ميں نے حضرت امام جعفر صادق عليه السلام كى خدمت ميں عرض كيا كہ ميرا بيٹا اسماعيل مجھ سے بہت محبت كرتا ہے، تو حضرت (ع) نے فرمايا:

''ميں اسے پہلے بھى دوست ركھتا تھا اب ميرى اس سے محبت بڑھ گئي ہے''(۲)

د: حج كا ثواب_

رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :

''جواولاد اپنے والدين كى طرف محبت بھرى نگاہوں سے ديكھتى ہے تو ہر نگاہ كے بدلے ايك مقبول حج كا ثواب ہوتا ہے''_

پھر زوردے كر فرمايا :

''والدين كى طرف محبت بھرى نگاہ سے ديكھنا عبادت ہے''(۳)

ھ: موت كى آساني_

____________________

۱_ اصول كافي_ ج ۲_ ص ۱۲۹

۲_ اصول كافي_ ج ۲_ ص ۱۲۹

۳_ بحارالانوار _ ج ۷۱_ ص ۸۰

۹۲

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں :

''جو شخص اس بات كو پسند كرتا ہے كہ خداوند عالم اس پر موت كى سختى آسان كردے' اسے چاہئے كہ وہ اپنے ماں باپ كے رشتہ داروں كے ساتھ نيك سلوك كرے''(۱)

ذ: اپنى اولاد كى نيكى كا سبب ہے_

مثل مشہور ہے كہ ''جيسى كرنى ويسى بھرني'' اور يہ ضرب المثل ہمارى اس گفتگو پر بخوبى صادق آتى ہے ، اولاد زيادہ تر اپنے والدين سے سيكھتى ہے اگر وہ اپنے والدين كو ان كے ماں باپ كے ساتھ محبت اور اچھا سلوك كرتے ديكھتى ہے تو خود بھى اپنے والدين سے اچھا سلوك كرتى ہيں اور اگر انہيں برا سلوك كرتے ديكھتى ہيں تو وہ بھى ان سے براسلوك كرتى ہيں_ حضرت امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں :

'' برُّوا ابائكم يبركم ابنائوكم'' (۲)

''تم اپنے والدين كے ساتھ نيكى كرو تمہارى اولاد تمہارے ساتھ نيكى كرے گي''_

ي: خدا كا حكم يا والدين كى خواہش ؟

اس كے باوجود كہ خداوند عالم نے ماں باپ كے ساتھ نيكى كرنے اور ان كى رضامندى حاصل كرنے كى بڑى تاكيد ہے_ يہ بات بھى ضرور پيش نظر ركھنى چاہئے كہ اسلام كا يہ حكم اس حد تك قابل عمل ہے جب تك كہ والدين كى خواہشات خدا كے

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۷۱_ ص ۸۱

۲_ بحارالانوار _ ج ۷۱_ ص ۲۱

۹۳

حكم سے نہ ٹكرائيں_ ليكن جس موقع پر ان كى خواہشات اسلام كے واجب احكام سے متصادم ہوتى نظر آئيں تو پھر اسلام كے حكم كو فوقيت حاصل ہوگي، قرآن مجيد اس بارے ميں ہمارى راہنمائي فرماتا ہے:

( وان جاهداك على ان تُشرك بى ماليس لك به علم فلا تطعهما وصاحبهما فى الدُّنيا معروفاً'' ) (۱)

''اور اگر وہ دونوں اس بات كى كوشش كريں كہ تم جس كے بارے ميں علم اور دليل نہيں ركھتے اسے ميرا شريك قرار دو' تو ان كى بات نہ مانو' اور دنيا ميں ان كے ساتھ نيك سلوك كرو''_

حضرت اميرالمومنين على عليه السلام فرماتے ہيں :

''لاطاعة لمخلوق فى معصية الخالق'' (۲) '' خالق كى نافرمانى ميں مخلوق كى اطاعت نہيں كى جاسكتي''_

____________________

۱_ سورہ لقمان_ آيت ۱۵

۲_ بحارالانوار _ ج ۷۱_ ص ۵

۹۴

آٹھواں سبق:

تواضع يا انكساري

۱)_ تواضع كے بارے ميں روايات

۲)_تواضع كے آثار

۳)_ تواضع كن لوگوں كے سامنے ؟

۴)_ رسول اكرم (ص) كى تواضع

۵)_ حضرت عيسى عليه السلام سے ايك سبق

۶)_امام زين العابدين عليه السلام كى انكساري

۷)_ تواضع اپناے سے متعلّق چند نكات

۹۵

''تواضع يا فروتنى '' كے معنى ہيں '' خود كو دوسرں سے چھوٹا ظاہر كرنا ' ،،جسے ''كسرنفسى '' اور '' عاجزى '' بھى كہتے ہيں _ تواضع يا انكسارى ، انسانى روح كے صحيح سالم ہونے كى ايك علامت ہے، انسان دوسروں سے خواہ كتنا ہى بہتر اور برتر ہو ، ليكن پروردگار عالم كى عظمت كا ادراك اسے اس بات پر آمادہ كرتا ہے كہ وہ خدا كے حضور سر جھكا دے اور بندگان خدا كے سامنے انكسارى كا اظہار كرے _

(۱) _تواضع كے بارے ميں روايات :

حضرت امام رضا عليه السلام فرماتے ہيں :

''ان من التواضع ان يجلس الرجل دوں شرفه ''(۱)

'' يہ بات تواضع ميں سے ہے كہ انسان ايسى جگہ پر بيٹھے جو اس كے مقام و

____________________

۱_ اصول كافى _ ج۲ ص۱۲۳ _

۹۶

منزلت سے كمتر ہو _ '' آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے كہ :

''من التواضع ان ترضى بالمجلس دون المجلس وان تسلم على من تلقى وان تترك المراء وان كنت محقاً وان لاتحب ان تحمد على التقوى ''(۱)

'' يہ بھى تواضع ہى ميں سے ہى كہ تم ايسى جگہ پر بيٹھنے پر راضى ہو جائو جو تمہارى شان سے كمتر ہے ، جس سے ملو اس پر سلام كرو ، خواہ تم حق پر ہى ہو پھر بھى لڑائي جھگڑے والى بحث كو ترك كرو اور اس بات كو پسند نہ كرو كہ تمہارے تقوى كى تعريف كى جائے _ ''

حضرت امير المومنين على عليہ السلّام فرماتے ہيں :

'' عليك بالتواضع فانه من اعظم العبادة ''(۲)

'' تم پر تو اضع كرنا واجب ہے ، كيونكہ فروتنى بہت بڑى عبادت ہے _ ''

ايك دن رسالتماب(ص) نے اصحاب سے فرمايا :

''ميںتم ميں عبادت كى مٹھاس كيوں نہيں ديكھ رہا ہوں _ انہوں نے عرض كيا:''حضور(ص) عبادت كى مٹھاس كيا ہوتى ہے؟''فرمايا : ''تواضع_''(۳)

(۲) تواضع كے آثار :

بہت سے اچھے اور نيك كام ايسے ہيں جن كے اخروى اور جنّت كے علاوہ

____________________

۱_ اصول كافى _ ج۲ ص ۱۲۴

۲_ بحارالانوار _ ج ۷۲_ ص ۱۱۹

۳_ جامع السادات _ ج ۱ ص ۳۵۵

۹۷

دنيوى بركتيں اور دوسرے فوائد بھى ہيں ، جيسا كہ كچھ گناہ ايسے ہوتے ہيں جو اخروى عذاب اور سزا كے علاوہ اس دنيا ميں بھى مصيبت اور تباہى كاموجب ہوتے ہيں ، چنانچہ حضرت اميرالمومنين على عليہ السلّام دعائے كميل كے اوائل ميں انہى كى طرف اشارہ فرماتے ہيں :

اللهم اغفرلي الذنوب التى تغيرا لنعم ' ''

'' خداوندا ميرے وہ گناہ معاف كر دے جو تيرى نعمتوں كو الٹ پلٹ كر ديتے ہيں _''

اب ہم يہاں تواضع جيسى محبوب صفت كے فوائد اور آثار كو بيان كرتے ہيں ، اس اميد كے ساتھ كہ اللہ تعالى ہميں بھى تواضع كرنے والوں ميں سے كچھ قرار دے_

الف : تواضع _ انسان كى سربلندى كا سبب ہے ، چنانچہ رسول اكرم(ص) فرماتے ہيں :

'' ان التواضع لايزيد العبد الا رفعة فتو اضعو ار حمكم الله'' (۱) تواضع انسان كى سر بلندى كے علاوہ كسى چيز ميں اضافہ نہيں كرتى ، لہذا تم تواضع كيا كرو ، خدا تم پر رحمت نازل كرے _ ''

حافظ شيراز ى فرماتے ہيں :

در كوے عشق شوكت شاہى نمى خرند

اقرار بندگى كن و اظہار چاكرى

يعنى عشق كے كوچہ و بازار ميں شاہانہ ٹھاٹھ باٹ كا كوئي خريدار نہيں ہے ،

____________________

۱_ وسائل الشيعہ _ ج ۱۱_ص ۲۱۵

۹۸

لہذا (اگرعشق كا سودا كرنا ہے تو )بندگى ، غلامى اور نوكرى چاكرى كا اقرار و اظہار كرنا پڑے گا _ ''

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلّام سے روايت نقل كى گئي ہے كہ :

'' ان فى السمآء ملكين موكلين بالعناد فمن تواضع الله رفعاه ومن تكبر فضعاهُ '' (۱) ''آسمان ميں خدا كى طرف سے بندوں پر دو فرشتے مقرر ہيں ' اگر كوئي شخص خدا كے لئے تواضع اور انكسارى كرے تو وہ اسے بلند كر ديتے ہيں اور اگر كوئي شخص تكبرّ كرے تو وہ اسے پست كر ديتے ہيں _ ''

ب تواضع ترّقى كى زينہ ہے _ حضرت امير المومنين على عليہ السلّام فرماتے ہيں :

'' التواضع سلم الشرف '' (۲)

ج تواضع دوسرے كاموں كے منظّم ہونے كا سبب ہے ، حضرت امير (ع) ہى كا ارشاد ہے :

'' بخفض الجناح تنتظم الا مورُ '' ۳

'' تواضع كے سبب بہت سے امور منظم ہو جاتے ہيں _ ''

د تواضع دلوں ميں محبّت پيدا كرتى ہے ، حضرت على عليہ السلّام فرماتے ہيں كہ :

____________________

۱_ وسائل الشيعہ_ ج ۱۱_ ص ۲۱۵

۲_ شرح غررالحكم_ ج۱_ ص ۲۶۳

۳_ شرح غررالحكم_ ج ۳_ ص ۲۲۹

۹۹

ثمرة التواضع المحبّةَ ''

'' تواضع كا پھل محبت ہے ''

(۳)_ تواضع كن لوگوں كے سامنے ؟

اسلامى نقطہ نظر سے ، تواضع صرف دينى بزرگوں ، علمى شخصتيوں اور خدا كى ذات پر ايمان ركھنے والے افراد ہى كے لئے ہونى چاہيئے ، ليكن ذليل لوگوں ، مغروروں يا دولتمندوں كے سامنے ان كى قدرت ، طاقت اور مال و دولت كى وجہ سے تواضع بہت ہى مذموم فعل ہے، اگر خدا كى خوشنودى اور رضا كے حصول سے ہٹ كر كسى اور مقصد كے لئے تواضع كى جائے تو وہ ''ذلّت ،، ميں بدل جائے گى اور انسان كى حقارت اور اس كى انسانى عظمت كى پستى كا موجب بن جائے گى _

''من اتى غنيا يتواضع له لاجل دنياه ذهب ثلثا دينه '' (۱) ''جو كسى مالدار شخص كے پاس جاكر اس دولت و دنياكى وجہ سے اس كے سامنے تواضع كرتا ہے تو اس كا دوتہائي دين ختم ہو جاتا ہے ''_

(۴) _ رسول اكرم (ص) كى تواضع :

خدا وند عالم كے برگزيدہ لوگوں ميں سے رسول خدا محمّدمصلفى صّلى اللہ عليہ وآلہ وسّلم كى ذات وشخصيت اعلى درجہ كى حامل تھى ، ليكن اس كے باوجود آپ(ع) كے اندر اعلى درجہ كى فروتنى اور انكسارى پائي جاتى تھى _

آپ(ص) تواضع كى بنا پر اپنى بھيڑ بكريوں كو خود ہى چارہ ديتے تھے ،اپنے مقّدس

____________________

۱_ بحارالانوار_ ج ۷۵_ ص ۶۹

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108