اخلا ق و معنویت

اخلا ق و معنویت40%

اخلا ق و معنویت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

اخلا ق و معنویت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7769 / ڈاؤنلوڈ: 4904
سائز سائز سائز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اخلا ق و معنویت

آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ

کي نگاہ ميں

ناشر :

نشر ولایت پاکستان

مرکز حفظ و نشر آثار ولایت

فصل اول:

تقوي ٰ

تقوي کے معني

تقوي کے معني يہ ہيں کہ خدا وند عالم نے انسان پر جن امور کو فرض کيا ہے انسان انھيں انجام دے يعني واجبات کو ادا کرے اور محرمات سے پرہيز کرے ۔ يہ تقوي کا پہلا مرتبہ ہے ۔تقوي ايک ايسي صفت ہے کہ اگر کسي قوم کے دل ميں گھر کر لے تو اس صورت ميں وہ قوم اس مضبوط قلعے کي مانند ہو جاتي ہے جس ميں کوئي داخل نہيں ہو سکتا ۔

عام طور پر جب تقوي کا تصور ذہن ميں آتا ہے تو ساتھ ساتھ نماز ، روزہ ، عبادت ، دعا وغيرہ کي تصوير بھي ابھر آتي ہے ۔ صحيح ہے کہ يہ تمام مذکورہ امور تقوي کے دائرے ميں آتے ہيں ليکن انہي کوتقوي سمجھنا صحیح نہيں ہے۔ تقوي يعني اپنے امور کي نگہداري کرنا يعني اگر انسان کوئي فعل انجام دے رہا ہو تو جانتا ہو کہ کيا کر رہا ہے ۔ اگر کسي فعل کو انجام دے تو اپنے ارادے ، فکر اور حسن انتخاب سے انجام دے ۔ بالکل اس طرح جس طرح کوئي گھوڑ سوار گھوڑے پر سواري کرتے وقت اپني منزل اور مقصد سے آگاہ ہوتا ہے ۔

تقوي کيا ہے اور اس کو زندگي کے مختلف گوشوں ميں کس طرح رچايا ۔ بسايا جا سکتا ہے ؟ تقوي سے مراد يہ ہے کہ گناہ ، خطا ، صراط مستقيم سے انحراف ، ہوي و ہوس سے اجتناب کيا جائے اور خدا کي طرف سے عائد شدہ احکام پر عمل پيرا رہا جائے ۔ زندگي کے تمام مختلف شعبوں ميں اسي وقت کامياب اور سرفراز ہو اجا سکتا ہے جب باتقوي زندگي گذاري جائے۔ تقوي ہر کاميابي کا راستہ اور ضمانت ہے ۔ تقوي فقط دين سے مربوط نہيں ہے ليکن اتنا ضرور ہے کہ ديني تقوي ، واضح اور روشن ہے ۔

اس بچے سے لے کر جو ابھي تحصيل علم کر رہا ہے ، اس خاتون تک جو امور خانہ داري انجام دے رہي ہے ، سبھي کو باتقوي ہونا چاہيے تاکہ سب راہ مستقيم اختيار کر سکيں اور اپني منزل مقصود تک پہنچ سکيں ۔ ايک نوجوان اپنے آس پاس کے مخصوص ماحول اور معاشرے ميں تقوي کے بغير اپنے تحصيل علم کے ہدف تک رسائي حاصل نہيں کر سکتا ۔ اس نوجوان کو چاہيے کہ غلطيوں اور ہوي و ہوس اور ان تمام سرگرميوں سے اجتناب کرے جو اس کو اس کے ہدف تک پہنچنے سے روکتي ہوں ۔ يہي اس کا تقوي ہے ۔ اس طرح گمراہي ميں ڈوبے ہوئے ايک عورت اور گھر کے باہر ايک مرد پر بھي يہي کليہ اور قانون جاري ہے ۔

ايک مومن اگر چاہتا ہے کہ راہ خدا اور صراط مستقيم کا سفر طے کرے تو اس کے لئے لازم ہے کہ تقوي اختيار کرے ۔ يہي وہ راستہ ہے جس پر چل کر وہ خوشنودي خدا اور نورانيت الہي سے مستفيد ہو سکتا ہے اور ساتھ ہي ساتھ معنويت کے اعلي مراحل بھي طے کر سکتا ہے نیز دين خدا کي سر براہي تک رسائي بھي حاصل کر سکتا ہے ۔

متقين کي عاقبت

’’اتقوا ‘‘ قرآن کريم کا حکم ہے ۔ يہي وہ تقوي ہے جس کے ذريعے تمام امور تک دسترسي حاصل کي جا سکتي ہے ۔ اگر قرآن کريم کے اس مذکورہ حکم پر غور کيا جائے تو تمام عقلي استدلال اور براہين کو عام فہم زبان ميں بيان کيا جا سکتا ہے حتي مسائل غيبي اور ماورائے فطرت و طبيعت امور کو بھي عوام کے لئے واضح کيا جا سکتا ہے ۔

تقوي کا ماحصل يہ ہے کہ کوئي بھي شخص يا معاشرہ اگر تقوي اختيار کر لے تو پھر بھي ميدان ميں داخل ہو جانے پر اس ميدان کو سر کر لے گا ۔ ’’والعاقبة للمتقين ‘‘۔ اس عظيم تاريخي اور کائناتي سفر کا سر انجام متقين پر ہونے والا ہے ۔ دنيا و آخرت دونوں متقين سے متعلق ہيں ۔ امام خميني ۲ اگر متقي نہ ہوتے تو کسي بھي قيمت پر اپني شخصيت کو ہزارہا دوسرے افراد کے لئے محور قرار نہيں دے سکتے تھے اور نہ ہي انقلاب لا سکتے تھے ۔ يہ تقوي ہي تھا جس نے انھيں ہميشہ ہميشہ کے لئے زندہ جاويد بنا ديا ہے ۔

تقوي ،زندگي کے تمام شعبوں ميں موثرہے

تقوي کي خصوصيت يہ ہے کہ يہ زندگي کے تمام شعبوں ميں موثر ہوتا ہے ۔ قرآن مجيد ميں بارہا تقوي سے متعلق تذکرہ ہوا ہے ۔ يہ سب اس لئے نہيں ہے کہ انسان اس دنيا سے چلا جائے تو خدا وند عالم اجر و ثواب عنايت کرے گا ، بلکہ تقوي اس دنيا کے لئے نعمت شمار کيا گيا ہے ۔ اگر ہماري موجودہ زندگي کا انجام بخير و خوبي ہو گيا تو اس پر ہماري آخرت کا بھي انحصار ہے ۔ تقوي کا نہ ہونا اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان غفلت اور کوتاہي کا شکار ہو جائے اور يہ غفلت و کوتاہي انسان کو اوندھے منہ زمين پر پٹخ ديتي ہے ۔

تقوي کے ذريعے انسان صراط مستقيم پر باقي رہ سکتا ہے

حضرت علي فرماتے ہيں ’’اوصيکم عباد ا بتقوي ا ‘‘ اے بندگان خدا ! ميں تمہيں تقوائے الہي کي وصيت کرتا ہوں۔ ’’ و اغتنام طاعتہ ‘‘ اور وصيت کرتا ہوں کہ اطاعت خدا کو غنيمت شمار کرو ۔ ’’ما استطعتم ‘‘ جس حد تک کہ تمہارے اندر قدرت و توانائي ہو ۔ ’’في هذه الايام الخالية الفانية ‘‘ اس جلدي گزرنے والي فاني دنيا ميں جتنا ممکن ہو اطاعت خدا کرو ۔ ’’ و اعداد العمل الصالح الجليل يشفي بہ عليکم الموت ‘‘ اور عمل صالح کے ذريعہ ان تمام مشکلات و مصائب کا سد باب کرو کہ جنھيں موت تمہارے اوپر طاري کردے گي ۔

موت کي سختيوں اور مشکلات کا اندازہ صرف اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ اوليائے خدا اور بزرگان دين موت سے مقابلے کے خوف سے لرزہ بر اندام ہو جاتے تھے ۔ موت کے بعد عالم برزخ کے حوادث علمائ اور اوليائ کہ جو کسي حد تک ان حوادث و مصائب کي سختيوں کا آشنا ہوتے ہيں کو لرزا کر رکھ ديتے تھے ۔ ان مشکلات اور سختيوں سے مقابلے کي فقط ايک ہي راہ ہے اور وہ ہے عمل صالح ۔ ’’ و امر کم بالرفض لھذہ الدنيا التارکۃ لکم ‘‘ فرماتے ہيں کہ ميں تمہيں حکم ديتا ہوں کہ اس دنيا کي رنگينياں اور آتي جاتي خوشياں جو تمہيں ايک دن چھوڑ جائيں گي ،کو ابھي سے خير بار کہہ دو ۔ حد سے بڑھ کر ماديات دنيا کي طرف مت بھاگو کيونکہ ’’ الزائلۃ عنکم ‘‘ يہ سب چلي جانے والي ہيں ۔ ’’ و ان لم تکونوا تحبون ترکھا ‘‘ در حاليکہ تم نہيں چاہتے کہ يہ مال اور عيش و عشرت تمہيں چھوڑ کر کہيں اور چلا جائے حالانکہ يہ ہو کر رہے گا ۔ ’’ والمبيلۃ لاجسادکم و ان احببتم تجديدھا ‘‘ يہ دنيا تمہارے جسموں کو خاک ميں ملا کر نيست و نابود کر دے گي اگر چہ تم يہي چاہتے ہو کہ دوبارہ زندہ ہو جائيں ۔ ’’ فانما مثلکم کرکب سلکوا سبيلاً فکانھم قد قطعوا و افضوا الي علم فکانھم قد بلغوہ ‘‘ تم ايک راستہ پر تيزي کے ساتھ آگے بڑھے جا رہے ہو کہ تمہيں دور کسي ايک نشانے تک پہنچنا ہے ليکن تم اس نشانے کو ابھي واضح اور روشن طور پر نہيں ديکھ پا رہے ہو ۔ ايک وقت وہ بھي آئے گا کہ جب تم خواہ نخواہ اس تک پہنچ جاو گے ۔ يہ راستہ ، يہي فاني دنيا ہے ۔ اور وہ نشانہ اور منزل وہي موت اور اجل ہے جس کو آنا ہي آنا ہے ’’ فلا تنافسوا في عز الدنيا و فخرھا ‘‘ اس دنيا کي ظاہري عزت اور جاہ و جلال کے لئے ايک دوسرے سے حسد نہ کرو اور جھگڑا نہ کرو ۔’’ ولا تجزعوا من ضراعھا و بووسھا ‘‘ دنيا کي ان مختصر سي سختيوں وار پريشانيوں سے تھکان اور خستگي محسوس نہ کرو ۔ ’’ فان عز الدنيا و فخرھا الي انقطاع ‘‘ دنيا کي عزت اور فخر و حشمت ختم ہو جانے والا ہے ۔ ’’ و ان زينتھا و نعيمھا اليارتجاع ‘‘ زيبائي و خوبصورتي اور يہ نعمتيں گذر جانے والي ہيں ۔ يہ جواني ، حسن اور خوبصورتي بڑھاپے اور بد صورتي ميں تبديل ہو جائيں گي ۔ ’’ و ان ضراعھا و بوسھا الي نفاذ ‘‘ اور يہ سختياں اور پريشانياں بھي ختم ہو جائيں گي ۔ ’’ و کل مد ۃ منھا الي منتھا ‘‘ اس کائنات کا يہ زمان و مکان روبہ زوال اور ختم ہو جانے والا ہے ۔ ’’ و کل حي فنيھا الي بلي ‘‘ تمام جانداران موت کي آغوش ميں سو جانے والے ہيں ۔

يہ جملے اس ذات با برکت کي زبان مبارک سے جاري ہوئے ہيں جس کانام علي ہے۔ وہي علي جو اپنے ہاتھوں سے کھيتي کرتے تھے اور کنويں کھودتے تھے ۔ يہ جملے اس وقت کے ہيں جب آپ حکومت فرما رہے تھے ۔ دنيا کے ايک بڑے حصے پر آپ کي حکومت تھي ۔ آپ نے جنگيں بھي لڑي ہيں ، صلح بھي کي ہے ، سياست بھي کي ہے ، بيت المال بھي آپ کي نگراني ميں تقسيم ہوتا تھا ۔ ان سب کے باوجود بھي آپ متقي تھے ۔ لہذا تقوي کا مطلب يہ نہيں ہے کہ دنيا سے قطع تعلق کردیا جائے ۔ تقوي سے مراد يہ ہے کہ انسان اپني ذات کو تمام دنياوي اور مادي امور کا محور قرار نہ دے ، اپني خاطر اپني تمام قوتوں اور صلاحيتوں کو صرف نہ کر ے ، اپني زندگي کے لئے دنيا کو جہنم نہ بنا ئے، مال ، عيش و عشرت اور آرام و سکون کي خاطر دوسرے ہزارہا افراد کي زندگيوں کا سودا نہ کر ے ۔

تقوي يعني يہ کہ اپني ذات سے صادر ہونے والے تمام امور پر سخت نظر رکھي جائے ۔ کوئي بھي قدم اٹھايا يا فيصلہ ليا جائے تو يہ خيال مد نظر رہے کہ کہيں اس سے خود يا دوسرے افراد يا معاشرے کو نقصان تو نہيں پہنچ رہا ہے ۔

تقوي تمام برکات کا سر چشمہ ہے

اگر کوئي فرد يا قوم با تقوي ہو جائے تو تمام خیروبرکات دنيا و آخرت اس فرد يا قوم کا خاصہ ہو جائيں گي ۔ تقوي کا ماحصل فقط يہ نہيں ہے کہ رضائے خدا حاصل کر لي جائے يا جنت کا دروازہ اپنے اوپر کھول ليا جائے بلکہ تقوي کا فائدہ اس دنيا ميں بھي حاصل کيا جا سکتا ہے ۔با تقوي معاشرہ اس دنيا ميں بھي خدا کي نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ۔ تقوي کے ذريعے دنياوي عزت کے ساتھ ساتھ امور دنيا سے متعلق علم بھي خدا وند عالم کي جانب سے عنايت کر ديا جاتا ہے ۔ با تقوي معاشرہ کي خاصيت يہ ہوتي ہے کہ ايسے معاشرے کي فضا سالم ، محبت آميز اور حسد و نفاق و تعصاب سے پاک ہوتي ہے ۔

تقوي کے ذريعے ہي قدرت خدا کاحصول ہوسکتاہے

ايمان، تقوي اور عمل صالح اس بات کي ضمانت ہيں کہ تمام قدرت خدا ، نعمات الہي اور ساري کائنات پر دسترسي حاصل کي جا سکتي ہے ۔ دشمن کسي بھي ميدان سے ، کسي بھي صورت ميں حملہ کر دے ، ايک با تقوي قوم کا بال بھي بیکانہيں کر سکتا ۔ خدا وند عالم نے بڑے سادہ الفاظ ميں اس گفتگو کا ما حصل صرف ايک آيت ميں بيان فرمايا ہے: ’’و لا تهنوا ‘‘ سستي نہ کرو ۔ ’’و لا تحزنوا ‘‘ غمگين مت ہو ۔ ’’و انتم الاعلون ان کنتم مومنين ‘‘ تم کو برتري حاصل ہے ليکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر تم مومن ہو ۔ دوسري جگہ پر ارشاد فرمايا : ’’و لا تهنوا و تدعوا الي السلم ‘‘ يعني سستي نہ کرو اور نہ ہي دشمن کي سازشانہ دعوت کو قبول کرو ۔

ايران کے اسلامي انقلاب کے بعد اگرجمہوري اسلامي پر ايک غائرانہ نظر ڈالي جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ جن جن شعبہ ہائے حيات ميں اقدار اسلامي کي حفاظت کي گئي ہے وہاں وہاں رشد و ترقي ہوئي ہے اور جن جن شعبو ں ميں اسلامي احکام و اقدار و اخلاق اسلامي سے چشم پوشي کي گئي ہے ان ان شعبوں ميں پسماندگي آج بھي موجود ہے ۔

دنيا کے دوسرے ممالک ميں بھي يہي صورت حال ہے ۔ جہاں جہاں معنويت ، انسانيت اور الہي اقدار سے منہ موڑ ليا گيا ہے وہاں وہاں ديکھا جا سکتا ہے کہ زندگي کس قدر دشوار ہے ، کس قدر نا امني اور بے چيني ہے ۔ ايسے معاشروں ميں قتل و غارت گري اور دہشت گردي زيادہ ہے ۔ ہر چند يہ لوگ اناجتماعي مشکلات و مسائل کے اسباب تلاش کرنے کي کوشش کرتے ہيں ليکن کسي بھي طرح اصلي اور حقيقي علت اور سبب کو تلاش نہيں کر سکے ہيں ۔ ايک ماں اپنے بچے کو قتل کر ديتي ہے ، فوراً ہي لوگوں کا وجدان تڑپ اٹھتا ہے ، صدائيں بلند ہونے لگتي ہيں کہ ايسي ماں کو سولي پر چڑھا ديا جائے ۔ يہ لوگ اس بات سے غافل ہيں کہ ان کي بنياد خراب ہو چکي ہے ۔ ان معاشروں کي بد بختي يہ ہے کہ يہ خدا ، معنويت اور اخلاق سے پشت پھير کر فساد و قتل و غارت گري کے عادي ہو گئے ہيں ۔

مادي اور مالي فساد کسي بھي قيمت پر خوشحالي کا ضامن نہيں بن سکتا۔ جس کي واضح مثال امريکہ ہے۔ ہر چند کہ امريکہ ميں زندگي کے تقريباً تمام شعبوں ميں ہمہ جہت ترقي ہوئي ہے ليکن اس کے باوجود امريکي عوام جن اخلاقي اور معنوي مشکلات کا شکار ہيں ان سے ساري دنيا واقف ہے ۔ انھيں اخلاقي اور معنوي اقدار کي قلت کي بنا پر امريکہ موجودہ صورت حال سے دوچار ہے ۔ وہ صورت حال کہ جس ميں ايک ماں اپني تسکين شہوت اور ذاتي مفاد کي خاطر اپنے ہاتھوں سے اپنے بيٹے کا قتل کر ديتي ہے ۔

بوسنيا اور ہرزيگوونيا ميں کيا نہيں ہوا ؟ مغلوں کے انداز ميں افواج ’’ سر بريسٹيا ‘‘ ميں گھس کر وحشيانہ انداز ميں قتل و غارت گري کرتي رہيں اور نام نہاد متمدن اقوام و ملل کے کان پر جوں تک نہيں رينگي ۔ اس پر ستم يہ کہ يہي لوگ حقوق بشر کے علمبردار ہونے کا دعوي کرتے ہيں ! کيا ايک شہر ميں ہزاروں معصوم مرد ، عورت اور بچوں کا وحشيانہ قتل عام حقوق بشر کي خلاف ورزي نہيں ہے ؟ جمہوري اسلامي اخلاق اور اسلامي احکام و شريعت کي محافظت کي بنا پر آج ساري دنيا ميں ايک باعزت مقام حاصل کر سکا ہے ۔ آج جب کہ دنيا کي بڑي بڑي طاقتيں ، دنيا کے دوسرے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے سربراہان مملکت اور وزرائے اعظم سے اپني غلامي کرانا اپنا پيدائشي حق سمجھتي ہيں ، ايران ايک مستقل اور آزاد ملک کي حيثيت سے آزاد زندگي گذار رہا ہے ۔ کسي کي اتني مجال نہيں ہے کہ ايران سے غير عادلانہ طور پر ايک حرف يا ايک کلمہ کو قبول کرا لے ۔ يہ سب فقط اور فقط اسلام اور اسلامي اخلاق و معنويات اور اسلامي احکامات اور شريعت کي برکتيں ہيں اور بس ۔

فصل دوم:

اخلاص

اخلاص کے معني

اخلاص سے مراد يہ ہے کہ انسان اپنے کام کو خدا کے لئے اور اپني ذمہ داري و تکاليف کي انجام دہي کي خاطر انجام دے ۔ جس کا نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ انسان نفساني خواہشات ، مال و دولت کے حصول ، شہرت و عزت ، لالچ و حرص وغيرہ کے لئے کوئي کام نہيں کرتا ۔ اخلاص ايک ايسي صفت ہے کہ اگر اس کي بنياد پر اقدام کيا جائے تو يہ تلوار کي طرح اپنے سامنے آنے والے ہر مانع کو دور کرتي جاتي ہے ۔

امام خميني کے اندر يہ صفت کمال کي حد تک تھي ۔ آپ اکثر فرماتے تھے کہ اگر ميرا کوئي عزيز ترين فرد بھي عدل و انصاف کے خلاف کوئي قدم اٹھائے گا تو ميں اس سے بھي چشم پوشي نہيں کروں گا اور ايسا کيا بھي ۔ حساس موقعوں پر وظيفہ کي انجام دہي کے ذريعہ دوسرے لوگوں کو بھي احساس دلايا ۔ خلوت ميں ، جلوت ميں ، چھوٹا کام ہو يا بڑا ، آپ نے ہميشہ اخلاص کو اپني ذاتي زندگي ميں اپنايا ۔ اور يہي وہ درس تھا جس کي بنا پر آپ کے شاگرد ، آپ کے چاہنے والے جوق در جوق سرحد پر دشمن سے جنگ کرنے دوڑے چلے جاتے تھے ۔ يہي وہ درس تھا جس کي بنياد پر ايران ميں معجز نما اسلامي انقلاب نمودار ہوا ۔

ايک بزرگ اہل عرفان و سلوک اپنے ايک مکتوب ميں تحرير فرماتے ہيں : اگر فرض کريں (بہ فرض محال )کہ رسول اکرم اپنے تمام امور کو ايک معين ہدف کے تحت انجام ديتے تھے اور آپ کا ہدف يہي ہوتا تھا کہ اپنے ان امور کو انجام کے مراحل تک پہنچا ديں اور پہنچا بھي ديا کرتے تھے مگر کسي اور شخص کي طرف سے يعني کسي اور کے نام سے ۔ کيا اس صورت ميں کہا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم اپنے اس فعل سے راضي نہيں ہوتے تھے ؟ کيا يہ فرماتے تھے کہ يہ فعل چونکہ دوسرے کي طرف سے انجام دے رہا ہوں لہذا انجام نہيں دوں گا ؟ يا نہيں ، بلکہ آپ کا ہدف اپنے امور کي انجام دہي تھي اور بس ۔

قطع نظر اس سے کہ وہ فعل کس کے نام سے يا کس کي طرف سے انجام ديا جا رہا ہے ۔ حقيقت يہي ہے کہ لکھنے والا صحيح ہے کيونکہ ايک مخلص شخص کي نگاہ ميں کسي فعل کي انجام دہي اہم ہوتي ہے۔ اس کا ذہن ’’ من و تو ‘‘ سے ماورائ ہوتا ہے ۔ وہ اس بات سے بے پرواہ ہوتا ہے کہ اس فعل کا سہرا کس کے سر بندھے گا ۔ ايسا شخص با اخلاص ہوتا ہے اور خدا پر کامل يقين رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا وند متعال يقينا اس کے فعل کا صلہ اس کو دے کر رہے گا کيونکہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے: ?ان جندنا لهم الغالبون ? خدا کے اس لشکر ميں اکثر و بيشتر ميدان جنگ ميں شہيد ہو جاتے ہيں اور ظاہري اعتبار سے ختم ہو جاتے ہيں ليکن خدا وند عالم فرماتا ہے ’’ان جندنا لهم الغالبون ‘‘ يعني يہ لوگ مرنے کے بعد بھي غالب ہيں ۔

اخلاص: اہم ترين اسلحہ

اسلام ميں اصلاح دنیا کے لئے اصل و اصيل ، خود نفس انسان کي اصلاح کو بتايا گيا ہے ۔ ہر مسئلے کي شروعات يہيں سے ہوتي ہے ۔ قرآن کريم اپنے قوي اور محکم بازوں سے اوراق تاريخ پلٹنے والي قوم سے فرماتا ہے: ’’( قوا انفسکم ) ‘‘ ( سورہ تحريم ٦ ) ’( ’ عليکم انفسکم ) ‘‘ ( سورہ مائدہ ١٠٥ ) يعني اپنا تزکيہ نفس کرو ،اپنے نفس کي اصلاح کرو ۔ ’’( قد افلح من زکاها ) ‘‘ ( سورہ شمس ٩ ) اگر صدر اسلام ميں اسلامي معاشرہ انساني نفوس کے تزکيہ سے شروع نہ ہوا ہوتا اور اس ميں مناسب حد تک با اخلاص اور متقي افراد پيدا نہ ہو گئے ہوتے تو اسلام قطعاً اپني بنياديں مستحکم نہيں کر سکتا تھا ۔ يہي مخلص اور متقي اور سچے مسلمان تھے جن کي بنياد پر اسلام دوسرے شرکائے مذاہب اور ممالک پر فاتح ہو کر تاريخ عالم ميں اپنا نام ثبت کر سکا ہے ۔

ہمارا اسلامي انقلاب بھي اس اخلاص ، تقوي اور اپنے ذاتي اور مادي مفادات سے اوپر اٹھ کر الہي اہداف کي انجام دہي جيسے وظيفے اور ذمہ داري کے احساس کي وجہ سے ہي رونما ہوا تھا ۔ ايران عراق جنگ کے دوران ہمارا يہي اسلحہ ہمارے لئے کار گر ثابت ہوا تھا ۔ ہمارے شہيد ، ہمارے جنگي مجروحين اور ان کے شہادت کے عميق جذبے نے ہي آج ہميں اتني بلندياں اور مراتب عطا کئے ہيں ۔ ساري دنيا ميں آج ہماري عزت اور شرف انھيں خدا دوست شہدائ اور مجروحين کي بنياد پر ہے اور بس ۔

اسلامي انقلاب کي بقائ اور دوام کا سر چشمہ صرف اور صرف اخلاص ہے

ہمارے اندر ہمارے سب سے بڑے دشمن نے بسيرا کر ليا ہے اور وہ دشمن نفس امارہ ، شہوات نفساني ، ہوي و ہوس اور خود پرستي ہے ۔ جس لمحے بھي ، خواہ وقتي طور پر ، ہم نے اس زہريلے سانپ اور خطر ناک دشمن کو قابو ميں کر ليا اسي لمحے ہم کامياب اور مجاہد في سبيل ا? ہو جائيں گے اور جب کبھي بھي ہمارا يہ دشمن ہماري عقل اور معنوي و روحاني قوتوں پر حاوي ہو گيا ہم مغلوب اور شکست خوردہ ہو کر رہ جائيں گے ۔

ہميں ہدايت بشر اور نجات انسان کي خاطر خلق کيا گيا ہے۔ لہذا ہمارا فريضہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے نفوس کي اصلاح اور تزکيہ کريں ۔ خدا وند عالم نے بے حد و بے حساب معنوي اور روحاني طاقتوں اور صلاحتيوں کو ہمارے اندر وديعت کيا ہے ۔ ہماري ذمہ داري ہے کہ ان قوتوں کو خود پرستي ، خود خواہي ، ہوي و ہوس نفساني جيسي صفات رذيلہ سے نجات ديں ۔

اخلاص اورایثار ہي اسلامي انقلاب کے موجد ہيں

اسلامي انقلاب اس انقلاب کا نام ہے جس نے ساري دنيا کو ہلا کر رکھ ديا تھا ۔ مشرق سے لے کر مغرب تک ہر زبان پر ايک ہي انقلاب تھا ، اسلامي انقلاب ۔ يہ سب کس نے کيا ؟ يہ انقلاب کون لے کر آيا ؟ کيا کوئي ايراني کہہ سکتا ہے کہ ہاں ! ميں يہ انقلاب لايا ہوں ۔ يقينا کوئي يہ دعوي نہيں کر سکتا ۔ يہ انقلاب صرف اور صرف الہي انقلاب ہے اور اس کا لانے والا اور موجد بھي خدا وند عالم ہے ۔ يہي وجہ ہے کہ کوئي بھي فرد اس انقلاب کو اپني طرف منسوب نہيں کرتا ہے حتي امام خميني ۲ بھي اپني تمام تر عظمتوں اور بے نظير قربانيوں کے با وجود اس انقلاب کو اپني طرف منسوب نہيں کرتے تھے ۔ ہميشہ يہي کہاکہ يہ انقلاب ايراني عوام کي مخلصانہ اور مجاہدانہ کوششوں کا نتيجہ ہے ۔ اگر تجزيہ کريں تو نتيجہ يہي نکلتا ہے کہ امام خميني ۲ صحيح فرماتے تھے ۔ حقيقتاً امام خمیني ۲ عوام کے لئے صرف ايک الہي ذريعہ اور وسيلہ تھے ورنہ اسلامي انقلاب کا اصل محرک خدا وند متعال ہے کيونکہ ايراني عوام نے مخلصانہ اور في سبيل ا? اسلامي انقلاب کے لئے اقدام کئے تھے لہذا مرضي خدا اور عنايت خدا بھي ان کے ساتھ تھي ۔ يہ عوام کا خلوص ہي تھا جس کي بنا پر خدا وند عالم نے اس اسلامي انقلاب کي تائيد کي ہے ۔

ارادہ اور ايمان ہر طرح کے اسلحہ اور طاقت پر غالب ہوتے ہيں

لبنان کے مومن مسلمانوں نے يہ ثابت کر ديا ہے کہ انسان کا ارادہ اور ايمان دنيا کے ہر مادي اسلحے اور طاقت پر غالب ہے ۔ يہي وہ مومن جوان تھے جنھوں نے بيروت کي سرحدوں تک آجانے والي اسرائيلي فوجوں کو کھديڑ کر اپني حدود سے باہر کر ديا تھا ۔

يہي وہ لبناني عوام تھے جنھوں نے امريکہ اور فرانس کي ان فوجوں کو ذليل و خوار کر کے لبنان سے باہر کر ديا تھا جو اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ لبنان ميں داخل ہو گئي تھيں ۔ لبناني عوام نے يہ کام اسلحوں اور مادي قوتوں اور طاقتوں کے بل بوتے پر نہيں کيا تھا کہ يہ لوگ مادي اسلحے کے لحاظ سے توبالکل تہي دست تھے ۔ بلکہ صرف اور صرف ايماني طاقت کے دم پر انجام ديا تھا ۔ يہ ايک ايسي قوت و طاقت ہے جو ايک مختصر سي اور مظلوم قوم ( وہ قوم جو ايک طويل عرصے سے اسرائيل اور اس کي ہمنوا سفاک طاقتوں کي تختہ مشق بني ہوئي ہے ) کو اتنا قوي اور مستحکم کر ديتي ہے کہ امريکہ ، فرانس اور اسرائيل شرمندہ اور ذليل ہو کر رہ جاتے ہيں ۔

آج بھي يہي ايمان اور اخلاص ، لبنان کے مومن جوانوں ميں ٹھاٹھيں مار رہا ہے ۔ يہ واقعي قابل تعريف اور ستائش ہے کيونکہ يہي وہ قوت ہے جس کے بل پر لبنان ، امريکہ اور يورپ کو يہ باور کرانے سے روکتا رہے گا کہ امريکہ اور اس کي حليف جماعتيں لبنان ميں اس کے آئندہ پر حاوي ہو سکتي ہيں ۔

اخلاص اور قرب خدا : امام خميني ۲ کي کاميابي کا راز

امام خميني ۲ کي کاميابي کا راز اخلاص اور قرب الہي تھا ۔ آپ اپني اس کوشش ميں بحسن ِخوبي کامياب ہو گئے تھے کہ ’’ اياک نستعين ‘‘ کو اپنے ميں مجسم کر ليں اور لا متناہي اور لا محدود الہي قدرت سے متصل ہو جائيں ۔

اگر ننھا سا قطرہ اپنے محدود اور چھوٹے سے وجود کے ساتھ ٹھاٹھيں مارتے ہوئے وسيع و عريض سمندر ميں غرق ہو جائے تو کوئي طاقت اسے ختم نہيں کر سکتي ۔ اگر ہر شخص امام خميني ۲ کي روش پر عمل پيرا ہو جائے تو امام خميني ۲ کي طرح ہو جائے گا ۔ البتہ يہ کوئي آسان کام نہيں ہے ۔ امام خميني ۲ نے اس مشکل اور نادر روزگار کو انجام ديا اور زندہ جاويد ہو گئے ۔ ہم ہر چند اس بلندي تک نہيں پہنچ سکتے ليکن بہر حال ہميں اپني توانائي بھر کوشش کرني چاہيے تاکہ اپني ذمہ داري اور وظيفے کي انجام دہي کسي نہ کسي حد تک ادا کر سکيں ۔

ہميں چاہيے کہ حضرت علي سے اخلاص کا درس حاصل کریں

امام خميني ۲ نے اس دور ميں جو عظيم کارنامہ انجام ديا وہ يہ تھا کہ ساري دنيا کو اسلام کے مقابل خاضع و خاشع بنا ديا اور دشمنان اسلام کو پيچھے ہٹنے پر مجبور کر ديا تھا ۔ نہج البلاغہ ميں حضرت علي فرماتے ہيں :و لقد کنا مع رسول ...........( نہج البلاغہ خطبہ ٥٦ )۔ہم خالصانہ اور مخلصانہ ميدان جنگ ميں ثابت قدم رہتے تھے ۔ ہمارے اعزائ قتل ہوتے رہتے تھے اور يہ سب ہمارے ايمان ميں اضافے کا سبب بنتا رہتا تھا ۔ خدا نے جب ہمارے اس خلوص اور صداقت کو ديکھا تو ہميں فاتح اور ہمارے دشمن کو مغلوب کر ديا ۔ اگر خدا نے ہماري مدد نہ کي ہوتي تو ہم موجودہ حالات تک نہ پہنچ پاتے ۔ ’’ما قام للدين عمود و لا اخضر للايمان عو د ‘‘ دين کا ايک بھي ستون قائم نہ رہ پاتا اور ايمان کي ايک بھي شاخ سرسبز نہ رہ پاتي ۔

يہ سب اس زمانے کے مسلمانوں کے خلوص اور صداقت کي ہي دين ہے کہ آج اسلام اس اعلي مقام تک رسائي حاصل کر سکا ہے اور ساري دنيا ميں اپنے جھنڈے گاڑ چکا ہے ۔ يہ اس زمانے کے با اخلاص مسلمانوں کا ہي کرشمہ ہے کہ موجودہ اسلامي معاشرہ وجود ميں آيا اور آج تک وہي اسلامي تمدن اور اسلامي تحريک ہم تک پہنچي ہے ۔ آج جہاں کہيں بھي مسلمان موجود ہيں ان کو حضرت علي کي حيات طيبہ سے اس عظيم درس کو حاصل کرنا چاہيے ۔

فصل سوم:

ذکر و نماز

انسان کیلئے تاريکي اور جہالت سے نکلنے کا واحد راستہ نماز ہے

عبادات اور ان ميں بھي بالخصوص نماز کو ايک خاص اہميت حاصل ہے ۔ نماز کو دين کا ستون کہا جاتا ہے ۔ نماز اگر مکمل توجہ اور اپني تمام شرائط کے ساتھ انجام دي جائے تو نہ فقط نماز گزار کے قلب و روح کو بلکہ اس کے آس پاس سارے ماحول کو نوراني اور معطر کر ديتي ہے ۔

نماز گزار جس قدر خضوع و خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے گا اتنا ہي خود پرستي ، خود خواہي ، خود غرضي ، حسد ، بغض ، کينہ وغيرہ جيسي صفات رذيلہ کي قيد سے آزاد ہوتا چلا جائے گا اور اتنا ہي اس کے چہرے کي نورانيت ميں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ موجودہ بشر کي تمام تر مشکلات و پريشانيوں کا سبب خدا سے دوري اور ذاتي مفاد سے وابستگي ميں اضافہ اور شدت ہے ۔ نماز انسان کو ظلمتوں اور تاريکيوں سے آزاد کراتي ہے ۔اس کے غيض و غضب اور شہوات و ہوا و ہوس کو مغلوب کر کے اسے تقرب الہي اور امور خيريہ کي طرف راغب کرتي ہے ۔

نماز سکون قلب کي باعث ہے

خدا کي طرف سے انسان پر عائد کردہ وظائف اور عبادات ميں سے نماز کو قرآن کريم نے سر فہرست قرار ديا ہے ۔ ’’( الذين ان مکناهم في الارض اقاموا الصلاة ) ‘‘۔ اگر نماز ميں سے اہداف نظام اسلامي کي مہک نہ آرہي ہوتي تو ايک اہم مقام نہ رکھتي اور اس کے متعدد و مختلف بنيادي فائدے نہ ہوتے تو قطعاً اسلام ميں نماز سے متعلق اس حد تک تاکيدات موجود نہ ہوتيں ۔

حقيقت يہ ہے کہ نماز اپني تمام افاديت اور فوائد کے ساتھ فقط ايک وظيفہ شخصي نہيں ہے بلکہ يہ فرد کے ساتھ ساتھ سارے معاشرے کو رشد و ارتقائ بخشنے ميں ايک اہم رول ادا کرتي ہے ۔ تمام واجبات ميں جس قدر تاکيد اس واجب کے لئے کي گئي ہے وہ بے مثال ہے حتي والدين پر واجب ہے کہ اپنے بچوں کو بچپنے سے ہي نماز سے آشنا و مانو س کريں ۔ يہ تمام تاکيدات صرف اور صرف اسي لئے ہيں کہ نماز فرد کے ساتھ ساتھ سارے معاشرے کو اس قابل بناتي ہے کہ معاشرہ دوسرے تمام وظائف کا بار بھي اپنے کاندھوں پر اٹھا سکے ۔ ان تمام پہلووں کے پيش نظر نماز کو اعلي ترين عمل فرض کرنا چاہيے اور صدائے حي علي خير العمل کو ايک حکمت آميز صدا تصور کرنا چاہيے ۔

نماز ہي ہے جو ايثار ، اخلاص ، توکل بر خدا اور تعبد جيسي صفات انسان کے اندر پيدا کرتي ہے اور اس کو اس لائق بنا تي ہے کہ انسان دوسرے دشوار ترين واجبي امور مثلاً جہاد ، امر بالمعروف و زکات وغيرہ کي انجام دہي پورے جوش و خروش سے انجام دے سکے اور شجاعانہ طور پر اس الہي وادي ميں داخل ہو ئے ۔

آج کا زمانہ الیکڑونک زمانہ ہے ۔جس کا اثر يہ ہے کہ انسان مختلف مسائل و مشکلات کا شکار ہو گيا ہے نتیجتاً بشريت کي کوشش يہ ہے کہ فردي اور اجتماعي زندگي کو مشيني حرکتوں سے ہم آہنگ کيا جا ئے ۔ صلہ رحم ، مروت ، ايثار ، محبت اور نہ جانے کتني دوسري اخلاقي صفات و اقدار اس مشيني نظام زندگي کيبھينٹ چڑھتي جا رہي ہيں ۔ گھروں ميں محبت آميز فضا آہستہ آہستہ اپني رنگت چھوڑتي جا رہي ہے ۔

گذشتہ چند برسوں سے انسانيت کا درد رکھنے والے بعض افراد اس سمت ميں متوجہ کرتے رہے ہيں ليکن افسوس ناک بات يہ ہے کہ ابھي تک کروڑوں افراد مخصوصاً جو اس جہنم ميں خود کو جلا رہے ہيں، انھيں اس سے باہر نکلنے کا کوئي راستہ نظر نہيں آرہا ہے ۔

اسي وجہ سے آج گذشتہ زمانوں سے کہيں زيادہ خدا وند کريم سے معنوي رابطہ قائم کرنے کي ضرورت ہے اور اس سلسلے ميں نماز آسان ترين اور موثر ترين ذريعہ ہے جو ہميں ان اخلاقي اور سماجي مشکلات سے باہر نکال سکتي ہے ۔

اہتمام نماز

اہتمام نماز سے مراد فقط يہ نہيں ہے کہ مومنين و صالحين حضرات نماز بجا لائيں اور بس ۔ يہ کوئي ايسا فعل نہيں ہے کہ جس پر حکومت اسلامي کي تشکيل منحصر ہو بلکہ اس سے مراد يہ ہے کہ نماز کو معاشرہ کا ايک حصہ بنا ديا جائے جہاں ہر شخص نماز کے اسرار و رموز سے واقفيت رکھتا ہو ۔ معنويت اور الہي ذکر و عبادت کي روشني و نورانيت سارے معاشرے کو روشن و منور کرے اور نماز کا وقت نزديک آتے ہي سارے مرد و زن نماز کي طرف ذوق و شوق کے ساتھ دوڑ جائيں اور دامن نماز ميں ايک طرح کا قلبي و روحي سکون حاصل کريں ۔

نماز: دين کا ستون

نماز دين کا حقيقي ستو ن ہے ۔لہذا ضروري ہے کہ ہماري زندگي ميں نمازکو اس کا حقيقي مقام و مرتبہ ديا جائے ۔ دين کے سائے ميں انسان کو حيات طيبہ صرف اسي صورت ميں حاصل ہو سکتي ہے جب وہ اپنے قلب کو ياد خدا سے زندہ اور روشن رکھے کيونکہ انسان صرف اسي ذريعہ سے تمام اقسام کے فساد و شر سے مقابلہ کر سکتا ہے نیز ظاہري اور باطني شيطانوں کو مغلوب کر سکتا ہے اور يہ دائمي ذکر اور خضوع و خشوع فقط نماز کي برکت ہي سے حاصل ہو سکتا ہے ۔ نماز ايک ايسي حقيقت ہے جو انسان کو اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرنے ميں نہايت قوت و قدرت عطا کرتي ہے ۔

نماز سے بڑھ کر ايسا کوئي ذريعہ يا وسيلہ نہيں ہے جو انسان و خدا کے درميان رابطے کو مستحکم تر يا قوي تر کر سکے ۔ ايک عام انسان بھي اگر خدا کے ساتھ اپنے رابطے کو استوار کرنا چاہتا ہے تو نماز ہي سے شروعات کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہي ساتھ خدا کا ايک مقرب ترين بندہ بھي اس نماز کے ذريعہ ہي تنہائيوں اور خلوتوں ميں اپنے خدا ، اپنے محبوب سے راز و نياز کر کے دل کي دنيا کو روشن و جاويداني بناتا ہے ۔ يہ ذکر و نماز ايک ايسا خزانہ ہے جس کا کوئي خاتمہ نہيں ہے ۔ جس قدر اس سے انسيت و قربت بڑھتي جائے گي اتني ہي اس کي نور افشانيوں ميں اضافہ ہوتا جائے گا ۔

نماز کے مختلف جملے اور اذکار خود اپنے آپ ميں معارف و تعليمات دين کي طرف اشارہ کرتے ہيں اور دن ميں کئي کئي بار نماز گزار کو ان تعليمات کي ياد آوري کرائي جاتي ہے ۔ نماز کو اگر اس کي تمام شرائط اور نقائص کے بغير ادا کيا جائے تو يہ نماز انسان کو روز بروز معارف و تعليمات الہي سے قريب اور آشنا کراتي ہے ۔

انسان کو ہميشہ نماز کي ضرورت

ايسي نماز جو اپني تمام تر شرائط کے ساتھ بجالائي جائے، انسان کو صراط مستقیم کي طرف ہدایت کرتي ہے، اس کے پژمردہ قلب کو جلا بخشتي ہے، اس کي نااميديوں کو يقين ميں تبدیل کرتي ہے ساتھ ہي اس کي زندگي کو باہدف بھي بناتي ہے۔ يہي وجہ ہے کہ نماز تمام حالتوںخواہ جنگ کا ميدان ہو يا گھر کا عيش و آرام، ميں واجب ہے۔ انسان ہميشہ نماز کا محتاج ہے مخصوصاًمسائل و مشکلات سے دچارہوتے وقت۔

حقيقت يہ ہے کہ ابھي تک ہمارے سامنے نماز کي اہميت و منزلت صحيح و حقيقي طور پر بيان ہي نہيں ہو سکي ہے اور اسي لئے ہمارے يہاں نماز کو جو مقام ملنا چاہئے تھا نہيں مل سکا۔ علمائ کي ذمہ داري ہے کہ وہ مخصوصاً جوانوں کے سامنے نماز کے اسرار و رموز کو بيان کریں۔ انہيں نماز کي منزلت و فوائد بتائیں۔ يہ نماز ہي کا خاصہ ہے کہ ايک بچے سے لیکر ايک عالم تک نماز کي ضرورت محسوس کرتا ہے۔ حتي عرفائ بھي نماز کي ضرورت کا احساس کرتے ہيں۔ تب ہي تو ’’اسرار الصلوۃ‘‘ جيسي کتابيں لکھي گئي ہيں۔ نماز ايک ايسا سمندر ہے جسکي گہرائي کا اندازہ ابھي تک نہيں لگايا جاسکا ہے۔ اگر چہ نماز کے بارے ميں ائمہ طاہرين سے متعدد روايات اور علمائے دين کے بے شمار اقوال موجود ہيں ليکن اس کے باوجود نماز کي منزلت بہت سے افراد سے ابھي تک پوشيدہ ہے حتي کہ وہ لوگ بھي جو نماز کو واجب سمجھ کر انجام ديتے ہيں ان کے لئے بھي ابھي تک نماز صحيح طور پر بيان نہيں ہو سکي ہے۔

بہر حال، نمازراہ سیر و سلوک کي طرف پہلا قدم ہے جسکو الٰہي اديان نے انسان کے حقيقي ہدف يعني کمال و خوشبختي دنيا و آخرت کي خاطر بشر کے حوالے کيا ہے۔ نماز خدا کي طرف پہلا قدم ہے۔ نماز کي اہمیت کا اندازہ اسي بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم فرماتے تھے نمازميري آنکھوں کا نور ہے اور جب وقت نماز ہوتا تھا تو بلال سے کہتے تھے کہ اذان کے ذريعے ميري روح کے اطمينان و سکون کا انتظام کرو۔ انسان کے تکامل معنوي ميں جسقدر نماز موثر ہے اتني دوسري کوئي عبادت نہيں ہے۔ نماز جہاں معاشرے کو اخلاقي و معنوي صفات و کمالات عطاکرتي ہے وہيں اپني خاص شکل و شرائط کي بنا پر نماز گزار کو نظم و ضبط کا پابند بھي بناتي ہے۔

عبادت رسول اسلام

رسول اکرم اپني تمام تر عظمت و منزلت کے باوجود ہرگزعبادت سے غافل نہيں رہتے تھے۔ رات کے پچھلے پہر ميں گريہ و زاري اور مناجات و استغفار آپکا دائمي شيوہ تھا۔ ا م سلمہ نے ايک رات ديکھا کہ پيغمبر موجودنہيںہيں۔ باہر نکليں تو ديکھا کہ آنحضرت خدا کي بارگاہ ميں دعا کرنے ميں مشغول ہيں۔ اشک جاري ہيں اور استغفار کر رہے ہيں۔ زبان مبارک پر يہ جملہ جاري ہے:’’اللّهم ولا تکلني الي نفسي طرفةعينٍ ‘‘۔ ام سلمہ بے ساختہ روپڑيں۔ رسول اکرم ام سلمہ کي طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے فرمايا: ام سلمہ تم يہاں کيا کررہي ہو؟ ام سلمہ نے کہا کہ يا رسول اللہ ! آپ کو تو خدا بے حد دوست رکھتا ہے اور آپ کو بخش ديا ہے: ’’ليغفرلک اللہ ما تقدّم من ذنبک و ما تآخر۔‘‘ (سورہ فتح۔٢) پھر آپ کيوں گريہ کر رہے ہيںاور کہہ رہے ہيں کہ خدایا ! ہميں ہمارے حال پر مت چھوڑ؟ فرمايا: ’’و ما يومنني‘‘ اگر خدا سے غافل ہوجاؤں تو کون ميري حفاظت کریگا؟

يہ ہمارے لئے ايک درس ہے۔ ہر حال ميں خواہ مصائب کا سامنا ہو يا خوشيوں کا، اچھے حالات ہوں يا برے ، خدا ہي پر بھروسہ کرنا چاہئے اور اسي سے مدد مانگنا چاہئے نيز اسي پر توکل کرنا چاہئے۔ يہي وہ اہم درس ہے جو رسول خدا ہميں دے گئے ہيں۔


3

4

5