اخلا ق و معنویت

اخلا ق و معنویت0%

اخلا ق و معنویت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

اخلا ق و معنویت

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 7061
ڈاؤنلوڈ: 4218

تبصرے:

اخلا ق و معنویت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7061 / ڈاؤنلوڈ: 4218
سائز سائز سائز
اخلا ق و معنویت

اخلا ق و معنویت

مؤلف:
اردو

فصل پنجم:

ایمان

ايمان کي علامتیں

ايمان کي علامتيں گناہ انجام نہ دينا ، خدا سے ڈرنا ، بندگان خدا کے ساتھ اچھا برتاو کرنا ، دشمنان خدا کے ساتھ سختي اور دشمني سے پیش آنا ، مومنوں کے چھوٹے موٹے اختلافات کو نظر انداز کر دينا وغيرہ ہيں ۔

در حقيقت ، ايمان اگر محبت و خلوص جيسے رابطوں سے عاري ہو تو اس کي کوئي حيثيت نہيں ہے ۔يہ محبت ہي ہے جو ميدان عمل ميں ايمان کو اہميت و ارزش بخشتي ہے ۔ محبت و خلوص کے بغير کسي تحريک کو آگے نہيں بڑھايا جا سکتا ۔ اسلامي نقطہ نظر سے عشق و محبت کا عالي ترين عنوان ’’ محبت اہلبيت ‘‘ ہمارے پاس ہے ۔ اس محبت کا عروج ہميں کربلا ميں روز عاشورا ديکھنے کو ملا کہ چند افراد پر مشتمل ايک گروہ نے تاريخ و تمدن تشيع کي ايک ايسي بنياد ڈالي کہ آج بھي اس تاريخ و تمدن کے نقوش روز بروز روشن ہوتے جا رہے ہيں ۔

دنيا ميں رونما ہونے والے انقلاب ، حکومتيں ، ادارے وغيرہ اس وقت منحرف ہوتے ہيں جب ان کے اندر معنويت ، ايمان ، خدا سے رابطہ وغيرہ کا فقدان ہو جاتا ہے ۔ انقلاب جمہوري اسلامي سے متعلق بھي اگر غور کيا جائے تو ہميں انھيں مقامات پر خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں مذکورہ بالا صفات کا فقدان پايا گيا ۔

ہمارے اور خدا وند عالم کے درميان تعلق و ارتباط کو غير اہم شمار نہيں کيا جانا چاہيے ہماري زندگي کا انحصار ہي اس رابطہ اور تعلق پر ہے ۔ يہي رابطہ ہے جو دشمن سے مقابلہ کرتے وقت ہمارے دل کي ڈھارس بنا رہتا ہے ۔ يہي رابطہ ہے جو ہميں مومنوںسے محبت کرنے پر اکساتا ہے تاکہ ہم آپسي کے اختلافات کو نظر انداز کر سکيں ۔ يہي رابطہ ہے جو ہم سے کہتا ہے کہ اپني خواہشات کي بنا پر ہم حقائق کو نظر انداز نہ کريں ، اپني ذاتي غرض کي خاطر خدائي مصلحتوں کو فراموش نہ کريں ۔ يہي رابطہ ہے جو ہميں صراط مستقيم سے منحرف ہونے سے بچنے اور اس راہ ميں پيش آنے والي مشکلات و مسائل کو ہمارے لئے آسان کرتا ہے ۔ يہ ايک ايسا رابطہ و تعلق ہے جو ہميشہ اور ہر حال ميں ہمارے لئے ممکن ہے ۔

جمہوري اسلامي کي اسلامي تحريک ، اسلامي انقلاب اور اس کي برکت سے دوسري اسلامي اقوام و ملتوں کے پاس آج جو کچھ بھي ہے وہ خدا پر توکل ، خدا پر بھروسہ اور ذکر خدا کي وجہ سے ہے ۔ اس طرف سے ہميں کسي لمحے بھي غافل نہيں رہنا چاہيے ۔ اگر خدا پر بھروسہ اور توکل نہ ہوتا تو مشکل سے ہي تصور کيا جا سکتا تھا کہ ايران ميں کبھي اسلامي انقلاب آسکے گا ۔ اس اسلامي انقلاب کي اساس اور بنياد انسان سازي پر رکھي گئي ہے ۔ پہلے مرحلے ميں انسان سازي يعني دل کي تعمير اور روح کا آباد کرنا ہے ۔ دنيا اگر نعمتوں اور لذتوں سے پر ہو ليکن انسان اخلاق ، انسانيت اور دينداري سے عاري ہو تو يہ دنيا اہل دنيا کو کچھ نہيں دے سکتي ، بشريت کو آسائش اور تسکين نہيں بخش سکتي ۔ انسان کي آسائش کي تسکين کا سامان اس اخلاق سے فراہم کيا جا سکتا جس کا سر چشمہ دين ہے ۔ دنيا ميں اگر اخلاق و معنويت اور دين نہ پايا جائے تو وہي ہوگا جس کا ہم آج اس دنيا مين مشاہدہ کر رہے ہيں کہ چند استکباري قوتيں اور طاقتيں دنيا کي ايک بڑي مظلوم آبادي پر اپنے مظالم کا منھ کھولے ہوئے ہيں ۔

اسلامي انقلاب کے عوامل

اسلامي انقلاب کن عوامل کي بنياد پر عالم وجود ميں آيا ہے ؟ اسلامي انقلاب کسي ايک وجہ سے نہيں بلکہ متعدد و مختلف عوامل کي بنا پر رونما ہوا ہے ۔ اسلامي انقلاب کو سمجھنے کے لئے علمي ، تاريخي،جامعہ شناس اور عميق و دقيق نگاہ کي ضرورت ہے کہ انسان آئے اور غور و فکر کرے ۔ البتہ يہ انقلاب کن عوامل کي بنا پر رونما ہوا ، ايک طويل علمي بحث ہے ليکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ چيز جس کے ذريعہ اس انقلاب کي روح اور گہرائي تک پہنچا جا سکتا ہے ،وہ حُبِ خدا ، الہي تکاليف کي انجام دہي اور قيام ? یعني خدا کے لئے اٹھ کھڑا رہنا ہے ۔ يہ بھي ممکن ہے کہ بعض افراد کے اذہان ميں دوسرے عوامل مثلاً جنگ وغيرہ بھي آئيں ليکن يہ بھي صحيح ہيں اور يہ بھي اس انقلاب کي علتوں ميں شامل ہيں ۔

اسي طرح کي علتيں انقلاب سے پہلے بھي اذہان ميں پائي جاتي تھيں اور يہ انقلاب کے رونما ہونے ميں موثر تھيں ليکن ان تمام عوامل کے پس پشت بھي ايک طاقت کار فرما تھي اور وہ تھي روح ديني اور ذمہ داري و وظیفہ کي انجام دہي کے احساس کي طاقت کيونکہ ظلم و ستم سے مقابلہ ، فساد سے مبارزہ ، پسماندگي ، فقر وغيرہ سے جنگ ان موارد ميں سے ہيں جو رضائے الہي کا باعث بنتے ہيں ۔ خدا وند عالم نے بھي انسان کیلئے مختلف مقامات پر اس طرح کے احکامات بیان فرمائے ہيں ۔

اگر عنصر ديني نہ پايا جائے تو اس طرح کے عوامل سماج کے ہر طبقے ميں عميق و وسيع صورت ميں سامنے آتے ہيں ۔ يہي وجہ ہے کہ يہ انقلاب ايک ختم نہ ہونے والا انقلاب ہے ۔ اگر عنصر ديني نہ پايا جائے تو کوئي بھي تحريک ہو مختصر سے عرصے کے بعد دم توڑ ديتي ہے ۔

چند معین شدہ افراد ايک سمت ميں آگے بڑھتے ہيں اور پھر آہستہ آہستہ اپني اپني جگہ خاموش بيٹھ جاتے ہيں يا چند افراد اپنے اہداف تک رسائي حاصل کر ليتے ہيں اور چند ديگر حکومت و جاہ و حشم ميں پھنس کر رہ جاتے ہيںايک گروہ عيش و عشرت کا شکار ہو جاتا ہے اور دوسرا فقر و فاقہ کا ۔

اس طرح آہستہ آہستہ يہ قصہ يہيں ختم ہو جاتا ہے ۔

اس کي مثال دنيا کي مختلف تحريکوں اور انقلابوں ميں بطور عياں ديکھي جا سکتي ہے کيونکہ ان تحريکوں ميں اسم خدا ، نام خدا ، ياد خدا ، عنصر عبادت و اخلاص نہيں پايا جاتا تھا ، امام خميني ۲ کے جيسا کوئي الہي معنوي رہبر موجود نہيں تھا ، لہذا يہ تحريکيں اپنا ذرا سا بھي اثر چھوڑ ے بغير مختصر سے عرصے ميں ختم ہو گئيں ليکن اسلامي انقلاب ميں معاشرے کے سارے افراد ، مرد و زن ، بوڑھے ، بچے شريک تھے حتي ايسے افراد بھي اس انقلاب ميں پيش پيش تھے جو اجتماعي امور ميں کبھي دخيل نہيں رہے تھے ۔ اس کے علاوہ ايسے افراد کو بھي ديکھا گيا کہ جنھوں نے اپني پوري زندگي ميں خود اپني خاطر کبھي کوئي بڑا اور خطرناک کام انجام نہيں ديا تھا ۔

يہ تھا اسلامي انقلاب اور ايسا انقلاب کہ ساري اسلامي تاريخ پہلي اسلامي حکومت کے بعد سے ہمارے زمانے تک ايسا انقلاب نہيں دکھا سکتي ۔ آخر يہ کيسا انقلاب تھا ؟ اس انقلاب کے پس منظر ميں کون سي طاقت کار فرما تھي ؟

يہ طاقت تھي اسلامي طاقت ، قرآني طاقت ، ديني طاقت ۔اس انقلاب کي بنياد اس نکتہ پر رکھي گئي تھي کہ آئندہ آنے والي حکومت ایک اسلامي حکومت ہوگي ، قوانين ، اسلامي قوانين ہوں گے ۔ آپ تاريخ اٹھا کر ديکھ ليں ايسا آپ کو کہيں نہيں ملے گا ۔

البتہ يہ بھي ايک حقيقت ہے کہ آج کچھ افراد ناشکري کر رہے ہيں ۔ خدا کي نعمتوں کو حقير شمار کرتے ہيں ۔ بطور مثال اگر کسي عدالت نے ايسا کوئي حکم صادر کر ديا ہے ، کسي سرکاري افسر نے کہيں کوئي ايسي بات کہہ دي ہے جو ان لوگوں کے مزاج اور مرضي کے خلاف ہوتي ہے تو ايک واويلا مچ جاتا ہے ۔ انقلاب ، حکومت ، جمہوري اسلامي ، ولايت یعني اس عظيم تحريک کے تمام جوانب پر ايک سواليہ نشان لگا ديتے ہيں ۔ ہر چيز کي مخالفت شروع کر ديتے ہيں جب کہ يہ لوگ اصل حقیقت آشنا بھي نہيں ہوتے ۔

حقيقت يہ ہے کہ آج انقلاب کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھي دنيا کے کونے کونے سے ہمارے پاس مسلمان دانشمند و علمائ حضرات تشريف لاتے ہيں اور ہم سے يہ کہتے ہيں کہ آپ ايران ميں زندگي گزارتے ہيں ، آپ نے اپنے ہاتھوں سے انقلاب کي آبياري کي ہے ، آپ کو احساس نہيں ہے کہ آپ کا برپا کيا ہوا يہ انقلاب کتنا عظيم انقلاب ہے ۔ يہ انقلاب تاريخ کا منفرد انقلاب ہے ۔

ايک ايسا ملک جو امريکہ کي پناہ گاہ تھا ، جس کے وزرائ دنيا کي استکباري طاقتوں کے آگے جبہ سائي کرتے تھے ، جس ملک کي حکومت حاکموں کے گھروں (خاندانوں)ميں تقسيم ہوتي تھي ، روز بروز معاشرے کو دين سے جدا کيا جا رہا تھا ، عوام کو زبردست اخلاقي پسماندگي ، جنسي بے راہ و روي کي طرف مائل کيا جا رہاتھا ، اگر ايسے ملک ميں کوئي آئے اور ايک مستقل، آزاد و عوامي حکومت کي بنياد رکھے تو يہ کوئي معمولي بات نہيں ہے ۔ عوام کے عام طبقے سے خواص تک سبھي انسان ، پارليمينٹ کے اراکين ، قوہ قضائيہ و مجريہ اور فوج وغيرہ کے ذمہ دار افراد سبھي مومن و متدين ہيں ۔ ان ميں سے بعض نافلہ خوان اور نماز شب کے پابند بھي ہيں ۔ ايران کوئي عام ملک نہيں ہے بلکہ ايک ايسا ملک ہے جو امريکہ جيسي طاقت سے بھي بغير کسي خوف و خطر کے ٹکرا جاتا ہے ۔

يہ معمولي نکات نہيں ہيں بلکہ قابل غور و اہم ہيں ۔ بہر حال اگر اسلامي حکومت کے تحت کچھ موارد ايسے مل جائيں جن پر اعتراض کيا جا سکے تو کيا حضرت علي کے دور حکومت ميں ايسے موارد نہيں تھے ؟ کيا اس وقت بد اخلاقي نہيں تھي ؟ حد شرعي جاري نہيں ہوتي تھي ؟ کيا اس زمانے ميں چورياں نہيں ہوتي تھيں ؟ يقينا تاريخ کي روشني ميں کہا جاسکتا ہے کہ يہ سب کچھ تھا ليکن يہ بھي حقيقت ہے کہ جہاں چورياں ہوتي تھيں وہيں حدود شرعي بھي جاري ہوتي تھي ۔ قابل اعتراض يہ نہيں کہ چوري ہو اور حد شرعي بھي جاري ہو بلکہ قابل اعتراض يہ ہے کہ چوراور فاسد افراد کے خلاف حدود شرعي جاري نہ ہوں اور ان کو دين کي طرف مائل نہ کيا جائے ۔

ايک معاشرے ميں، ايک قوم کي تعليم و تربيت ايک مختصر عرصے ميں يعني چند برسوں ميں تو نہيں کي جا سکتي ۔ اس کے لئے ايک طويل زمانہ چاہيے ۔ جمہوري اسلامي ایران کا اسلامي انقلاب ، اتنا عظيم واقعہ ! دوسرے افراد بھي اس بات کي تائيد کرتے ہيں اور ہم بھي اس بارے ميں غور و فکر کرتے ہيں کہ ايک دن آئے گا کہ يہي اسلامي انقلاب ايک بڑي اور عالمي تحريک ميں تبديل ہو جائے گا ۔ اس انقلاب کو ايک عظيم انقلاب کہا جا رہا ہے ۔ اس کي وجہ بھي واضح ہے اور وہ يہ کہ امريکہ ، اسرائيل ، استکباري طاقتيں اور عالمي قوتيں اس اسلامي نظام کو کسي بھي صورت ميں قبول نہيں کر پا رہي ہيں يہي وجہ ہے کہ اس عظيم تحريک کي ساري دنيا مخالفت کر رہي ہے ۔ ايک ايسي قوم کو جو اتنا عظيم انقلاب برپا کر دے اور پھر اس انقلاب کے خاطر خواہ نتائج بھي ظاہر ہو جائيں ، اسي پر اکتفا نہيں کرنا چاہيے بلکہ روز بروز ترقي کي طرف مائل رہنا چاہيے ۔

امريکہ اور اس وقت کي روس جيسي عالمي طاقتيں موجودہ اسلامي نظام کي از اول مخالف تھيں ۔ بحمد ? روس ختم ہو گيا ليکن امريکہ ابھي تک اپني تمام تر پليدگيوں کے ساتھ باقي ہے ۔ امريکہ نے ايران کے سلسلے ميں اپني مخالفت اس طرح ظاہر کي کہ عراق کے پس پردہ ايران کے ساتھ آٹھ سال تک جنگ لڑي ليکن يہ اس انقلاب کي برکت تھي کہ ہماري قوم نے ان تمام مشکلات کا سامنا کيا اور دشمن کو منھ کي کھاني پڑي ۔

مذکورہ عالمي استکباري طاقتوں ميں سے ہر طاقت ميں اتني صلاحيت ہے کہ ايک نظام يا حکومت کو تہہ و بالا کر دے ليکن ايران کے خلاف اقتصادي پابندياں ، جديد ترين اسلحہ جات کے ذريعہ طويل جنگ اس پر مستزاد عالمي پروپيگنڈہ بھي ايران کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔آٹھ سال تک طويل جنگ لڑنے کے باوجود بھي ايران کي ايک انچ زمين حاصل نہ کي جا سکي ۔ يہ کوئي معمولي کارنامہ نہيں ہے بلکہ يہ ايک عظيم کارنامہ ہے ۔

يہ عظيم کارنامہ اس انقلاب اور اس نظام حکومت کي ہي برکت تھي کہ ايران و عراق کے مابين ٨ سالہ جنگ ختم ہوئي اور ايک مرتبہ پھر ملک کي ترقي اور فلاح و بہبود کے لئے کوششيں شروع کر دي گئيں ۔ آج آپ ملک کے کسي بھي گوشے ميں چلے جائيں آپ کو ايسے افراد مل جائيں گے جو ملک کي آئندہ خوشحالي کے لئے کوشاں ہيں۔ ملت ، قوم ، افسران بالا وغيرہ سبھي اس سمت ميں جد و جہد کر رہے ہيں ۔ يہ اس انقلاب کا اثر ہے اور يہ آئندہ بھي دوام حاصل کرے گا ۔ ملک کي خوشحالي ، رفاہ اور فلاح و بہبود کے لئے شروع کي گئي يہ تحريک مستقبل ميں بھي باقي رہے گي ۔ ہماري قوم کسي بھي صورت ميں ميدان چھوڑ کر فرار اختيار نہيں کر سکتي ۔

يہ سب دين کي برکتيں ہيں ۔ يہ انقلاب ، دين و مذہب سے جدا انقلاب نہيں ہے ۔ يہ سياسي پارٹيوں اور مختلف اشخاص کے نظريات پر مبني انقلاب نہيں ہے بلکہ ايک ايسا انقلاب ہے جو ايک متدين اور مذہبي قوم کے ذريعہ عالم وجود ميں لايا گيا ہے ۔ لہذا اس انقلاب کا اصل عنصر بھي يہي ہے ۔

ہمارے معاشرے کي سعادت کا راز خدا پر ايمان

ملت ايران بنام اسلام رو بہ ترقي ہے اور اسلام ہي کي خاطر جد و جہد کر رہي ہے اسي بنا پر يہ عظيم واقعہ بھي رونما ہوا کہ عصر حاضر ميں دين خدا اور اسلامي تعليمات کي اساس پر ايک نظام حکومت و معاشرہ کي بنياد پڑي ۔مادي وسائل کے ذريعہ کسي بھي قيمت پر يہ چيز ممکن نہيں تھي ۔ اسلامي اقوام ، ايران کي اس اسلامي تحريک کي طرف شدت سے مائل ہيں ۔ يہ مبالغہ نہيں ہے بلکہ ايک حقيقت ہے ۔ اس اسلامي مملکت کے خلاف وسيع پيمانے پر پروپيگنڈہ کے با و جود ہم ديکھ رہے ہيں کہ مسلمان قوميں ايران کے اسلامي انقلاب کے متعلق پر اميد ہيں اور اسي لئے اس سمت ميں حرکت بھي کر رہي ہيں ۔ آج دنيا ميں شايد ہي کوئي مسلمان قوم ہو جو اس اسلامي تحريک سے متاثر نہ ہو ۔

مسلمان قوموں ميں اس انقلاب سے متعلق يہ اميد و تمائل اسي صورت ميں باقي رہ سکتا ہے جب ہم دين خدا پر ايمان رکھتے ہوئے ذرہ برابر انحراف کا شکار نہ ہوں۔ عالمي طاقتوں ، عالمي مسائل ، ملکي سياست ، خارجي و داخلي سياست سے بھي ہم مذکورہ صورت ميں ہي مقابلہ کر سکتے ہيں ۔

ہميں چاہيے کہ معاشرے سے اس راز سعادت یعني ايمان بہ خدا کو اپني زندگي اور معاشرے ميں لمحہ بہ لمحہ قوي اور مستحکم کريں ۔ ملک و ملت کو اسلامي تعليمات کي طرف بيشتر راغب کريں ۔ معاشرے کے جوان طبقے کو اسلامي تعليم و تربيت پر عمل پيرا ہونے کي عملي دعوت ديں ۔ ہماري دانشگاہوں کا فريضہ ہے کہ وہ جوانوں کو نہ فقط عالم بلکہ مسلمان عالم با عمل بنا کر معاشرے ميں پيش کريں اور يہي اسکول وکالج وغيرہ کي بھي ذمہ داري ہے ۔ غير ازيں يہ بھي ہماري ذمہ داري ہے کہ معاشرے ميں اسلامي تعليمات کو اس قدر رائج کريں کہ دوسري تمام تعليمات و افکار ماند پڑ جائيں ۔

خدا پرايمان اسلامي فوج کا امتياز

اگر چہ فوج کے لئے اسلحہ وغيرہ بنيادي ضرروتوں ميں سے ہے ليکن وہ چيز جو ہماري اسلامي فوج کو دوسري افواج سے متمائز کرتي ہے وہ خدا پر ایمان ، فرمان الہي کي انجام دہي اور جہاد في سبيل ا? کا احساس ہے ۔ يہ وہ اصل عنصر ہے کہ اگر اس کو جدا کر ديا جائے تو ہماري اسلامي فوج بھي دوسرے ممالک کي افواج کي طرح فقط افراد پر مبني فوج ہو کر رہ جائے گي يعني اگر اسلحہ جات ، افراد ، استعداد وغيرہ پر تسلط حاصل ہو گيا تو ممکن ہے کہ استقامت پيدا ہو جائے ليکن اگر دشمن کي طاقت ہم سے ذرا سي زيادہ ہو گئي تو ممکن نہيں ہے کہ ہم مقابلہ کر سکيں ۔

آج ہم سب پر واضح ہے کہ اسلام دشمن طاقتيں تعداد اور افراد يعني ماديات کے لحاظ سے اسلامي مملکت اور افواج سے قوي تر ہیں ۔ قوي تر اس صورت ميں ہيں جب ہم ايمان کو اسلامي افواج سے خارج کر ديں ليکن اگر ايمان کو مد نظر رکھ کر ديکھا جائے تو دنيا کي بڑي سے بڑي طاقت اسلامي لشکر کا مقابلہ نہيں کر سکتي ۔ يہي وہ عنصر ہے جس کو ہميں اپني فوج ميں راسخ کرنا ہے ورنہ ظاہري قدرت و طاقت کوئي ايسي چيز نہيں ہے جس ميں ہم ان کا مقابلہ نہيں کر سکتے کيونکہ صرف اتنا ہي توہے کہ يہ طاقتيں ہم سے اس ميدان ميں آگے ہيں۔ اگر ہم کوشش کريں تو اس ميدان ميں ہم بھي ان کا مقابلہ کر سکتے ہيں ۔ ايمان ايک ايسا عامل اور ايک ايسا عنصر ہے جو ہمارے قبضہ قدرت ميں ہے ۔ہميں چاہيے کہ ہم اسے اپني دفاعي افواج کي رگ رگ ميں داخل کر ديں ۔

ہمارے انقلاب کي تاريخ ہے کہ ہم جب بھي فاتح ہوئے اسي ايماني قوت کي بنا پر اور جب بھي ہم نے دشمن کے ہاتھوں شکست کھائي اسي ايمان کے نہ ہونے کي بنا پر ۔ اگر عراق کے خلاف ہماري دفاعي جنگ ميں کئے گئے ہمارے مختلف فوجي آپريشن کا تجزيہ کيا جائے تو نتيجہ وہي بر آمد ہو گا جو ذکر کيا جا چکا ہے ۔ جہاں جہاں ہمارے قلوب حرارت ايماني سے شعلہ ور تھے وہاں وہاں ہم نے تمام رکاوٹوں کو جڑ سے اکھاڑ پھينکا تھا اور جس جس مقام پر ہم نے ماديات اور ظاہري فتوحات کي طرف مائل ہو کر فرمان الہي اور احکام شرعي کو پس پشت ڈال ديا تھا اس اس مقام پر مغلوب ہو گئے تھے ۔

خدا کے ساتھ رابطے کي برقراري ہم سب کي ذمہ داري ہے

اس مقام پر ہمارے لئے ضروري ہے کہ ہم اپني ذمہ داريوں کي شناخت حاصل کريں ۔ ہم ميں سے ہر فرد کي ذمہ داري ہے کہ خدا پر ايمان اور خدا کے ساتھ رابطہ کو برقرار رکھے اور کسي بھي قيمت پر اس کو منقطع نہ ہونے دے ۔ خدا کے ساتھ ارتباط و رابطہ سے مراد يہ ہے کہ ہم اپنے قلب ، عمل ، اخلاق ، رفتار و گفتار کو رضائے الہي کے مطابق قرار ديں ۔ خود پرستي ، دروغ گوئي ، تہمت ، فريب ، نفس پرستي و خواہشات نفساني سے پرہيز کريں ۔ ياد خدا ، ذکر خدا ، توجہ بہ خدا ، نفس امارہ کي مخالفت اور عبادت حقيقي کو روز بروز اپنے اندر قوي سے قوي تر کريں ۔ يہي ہم سب کي ذمہ داري ہے ۔

گذشتہ ٢٠ ،٢٥ برسوں ميں ہماري ملت کے اسلامي مجاہدين کي شجاعت ، قدرت توانائي ، ايثار ، روحي استقلال ، خود اعتمادي اور خدا پر توکل وغيرہ کے متعلق جو کچھ گزرا ہے وہ کسي بھي طرح قابل تعريف نہيں ہے ۔ ہماري ملت کے شجاع مردوں اور غيور عورتوں نے دور حاضر کي عالمي طاقتوں کے جديد ترين اسلحوں کا مقابلہ کيا ہے اور انہيں ناکارہ بنا ديا ہے ۔ ان واقعات کا بيان آخر کس طرح کيا جا سکتا ہے ! ان واقعات کو قلم و کاغذ کے ذريعہ مقيد نہيں کيا جا سکتا بلکہ يہ ان سے بھي ماورائ چیزیں ہيں ۔

ايماني قوت کے مقابل استکباري قوت کي کوئي حیثیت نہيں ہے

دور حاضر کے عالمي استکبار کے پاس کيا ہے ؟ آخر امريکہ کے پاس کيا ہے کہ مختلف ممالک اور حکومتوں پر اپنا حکم چلاتا ہے ؟ مادي اسلحہ ، پيسہ ، ايٹم بم ، جنگي جہاز ، جديد ٹيکنالوجي اور کيا ہے ؟ ليکن يہ کہا جا سکتا ہے کہ ظاہري قدرت کے لحاظ سے يہ چيزيں يقينا اہميت کي حامل ہيں ليکن ايمان کے مقابلے ميں ان کے پاس کيا ہے ؟ ايمان ايک ايسي طاقت ہے کہ امريکہ کي ساري ظاہري توانائي و طاقت بھي اس طاقت کے مقابلے ميںصفر ہے ۔

بحمدہ تعالي ہماري ملت اس ايماني قوت سے مالا مال ہے اور يہي وجہ ہے کہ ساري دنيا ميں ظاہري طاقتيں مل کر بھي ايران کے اسلامي انقلاب کو مغلوب نہيں کر سکتيں ۔ ملت ايران اس عميق ايمان کي بنا پر ايک مغلوب نہ ہونے والي ملت ہے ۔ کوئي طاقت اس ملت کو شکست نہيں دے سکتي ۔ نہ خارجي دشمن اور نہ داخلي دشمن ۔

نصرت خدا اور مومنين پر اعتماد

اہم امور کے سلسلے ميں فقط خدا کي نصرت اور عوام الناس کے ايمان پر تکيہ کرنا چاہيے ۔ ظاہري طاقت و قوت ، اسلحہ ، پيسہ وغيرہ کسي خاص اہميت کے حامل نہيں ہيں ۔ البتہ اس بات کا بھي خيال رکھنا چاہيے کہ نصرت الہي اور عوام الناس کا ایمان ايک دوسرے کے مساوي نہيں ہيں يعني جب ہم خدا اور نصرت خدا پر بھروسہ کريں گے تو خود بخود لوگوں کے قلوب خدا وند عالم کي طرف مائل ہو جائيں گے ۔

خدا وند تبارک و تعالي نے رسول گرامي کو عظيم ترين ذمہ دارياں عطا کرنے کے بعد فرمايا ?( هو الذي ايدک بنصره و بالمومنين ) ( سورہ انفال ٦٢ ) يعني اسي نصرت خدا اور مومنين کي امداد نے تمہيں آگے بڑھنے ميں مدد کي ہے ۔ يہي وجہ ہے کہ ہميں يقين ہے کہ جب ظاہري طاقتيں حق کے مقابل آتي ہيں تو ہيچ ہوجاتي ہیں ۔ اگر باطل سے بے اعتنائي برتي جائے اور اپنے ارادے اور نصرت خدا کے سہارے اس کا مقابلہ کيا جائے تو باطل کچھ نہيں کر سکتا ۔ جب کبھي بھي عوامي طاقت کے ذريعہ مقابلہ کيا جائے گا باطل خود بخود عقب نشيني اختيار کرنے پر مجبور ہو جائے گا ۔

اس ايمان کو قوي اور مستحکم ہونا چاہيے اور ملت کو اپني ايماني طاقت کے سہارے پيش قدمي کرنا چاہيے يعني نصرت الہي پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہيے۔ مشکلات و مسائل سے خوفزدہ نہيں ہونا چاہيے تاکہ دشمن ہمارے اندر خود کو نافذ نہ کر سکے ۔ ماضي ميں ايسے افراد تھے جو نہايت سطحي افکار کے حامل تھے اور فقط ظاہر کو ديکھ کر فيصلہ کر ليا کرتے تھے البتہ ان افراد کو متہم نہيں کيا جا سکتا ليکن اتنا ضرور ہے کہ يہ افراد باور نہيں کر پاتے تھے کہ ہماري قوم بھي دشمن کاخاطر خواہ مقابلہ کر سکتي ہے ليکن وہ شخص جو تاريخ اور سنت الہي سے آشنا ہے وہ مقاومت کرتا ہے اور اپنے ارادے کو قوي و مستحکم بنائے رکھتا ہے ۔

اسلام پر ايمان

اسلامي دنيا ميں جو اہم ترين حادثات و واقعات رونما ہوئے ہيں ان ميں کليدي کردار اسلام پر ايمان ہے ۔ چونکہ ہم اسلام کي خاطر فداکاري اور ایثار کرتے ہيں لہذا خدا وند عالم بھي ہماري نصرت کرتا ہے ۔ جمہوري اسلامي ایران چونکہ خدا ، اسلام اور قرآن کي پيرو ہے لہذا دنيا کي دوسري اقوام بھي ايراني قوم کو احترام کي نگاہ سے ديکھتي ہیں ۔

امام خميني ۲ چونکہ صادقانہ اور مخلصانہ طور پر اپني تحريک کو لے کر آگے بڑھے تھے اسي لئے دنيا ميں اُنکا ايک اہم اور محترم مقام بنا اور اسي لئے دنيا کو متاثر کر سکے تھے ۔ يہي وجہ تھي کہ خداوند عالم نے بھي ان کي مدد فرمائي اور دور حاضر کا اتنا بڑا کارنامہ انجام دے ديا ۔

اسلامي انقلاب کي کاميابي کا راز اب تک جو ہم کشف کر سکے ہيں وہ ايمان ہے اور يہي وہ راز ہے جس کي تہہ تک ہمارے دشمن يعني دنيا بھر کي استکباري طاقتيں پہنچ گئي ہيں ۔ اوائل اسلام اور رسول اکرم کے زمانے کي طرح ايک بار پھر دشمن اپني تمام تر قوت و طاقت کے ساتھ ہمارے اس ايمان سے نبرد آزما ہے ۔ لہذا دشمني کي اصل وجہ ايمان ہے ۔ آج دنيا سمجھ گئي ہے کہ ايران اسي ايمان کي بنا پر متحد رہے گا اور اپنے رہبر کا انتخاب کرے گا ۔ يہي ايماني قوت ہے جس کي بنا پر ايران کسي بھي طاقت سے زيادہ خوف زدہ نہيں رہتا ہے ۔ ايران کي ترقي ، عروج ، فلاح و بہبود سب کچھ اس ايمان کي وجہ سے ہے ۔ لہذا آج دنيا ہمارے ايمان ، ہمارے مذہب کي وجہ سے ہماري مخالف ہو گئي ہے اور چاہتي ہے کہ کسي نہ کسي طرح اسلام و اسلامي انقلاب کو مخدوش کر ديا جائے ۔ اپنے خيا ل ميں وہ لوگ ہميں برا بھلا کہتے ہيں ، ہميں قدامت پسند کہتے ہيں در حاليکہ اس صورت ميں وہ ہماري تعريف ہي کرتے ہيں ۔

ہميں فخر ہے کہ ہم اسلامي اصول و تعليمات کي طرف پلٹ آئے ہيں ۔ يہي ہماري بلندي و قدرت کاراز ہے ۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران دنيا بھر نے ہمارے خلاف پروپيگنڈہ کيا ہے ۔ ہماري ملت ايسے افراد کو کسي بھي صورت ميں معاف نہيں کر سکتي جو کسي نہ کسي صورت ميں اسلام کي اہانت کرتے رہے ہيں ۔ اسلام و ايمان ہماري عزت اور ہماري نصرت ہے ۔ يہي اسلام و ايمان ہماري دنيا و آخرت کا ضامن ہے ۔

اسلامي انقلاب اور خدا پر ايمان

دنيا کے دوسرے انقلابوں کے بر خلاف ہمارا اسلامي انقلاب ايمان الہي کي بنا پر عالم وجود ميں آيا ہے ۔ يہي وجہ ہے کہ انقلاب کے حامي اور پيرو دنيا کي کسي بھي مادي طاقت کے آگے سر خم نہيں کرتے ?( و يستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم الا خوف عليهم و لا هم يحزنون ) ( سورہ آل عمران ١٧٠ )

اسلامي ، الہي اور معنوي ايمان کي خصوصيت ، خدا پر کامل ايمان ہے ۔ يہ ايمان اولاً اس بات کا موجب ہوتا ہے کہ انسان دشمن سے خوف زدہ نہ ہو اور ثانياً ايسا انسان جو خدا کا معتقد ہے ، اپني تکليف اور ذمہ داري انجام ديتا ہے اور نتيجے کي پرواہ نہيں کرتا يعني اگر قتل کر ديا تب بھي فاتح اور اگر زندہ بچ گيا تب بھي فاتح ۔ ايسا شخص چونکہ مخلصانہ کام کرتا ہے لہذا خدا وند عالم اس کي کوشش رائگاں نہيں جانے ديتا۔ ايک نہ ايک دن اس کا خون رنگ لاتا ہے اور نتيجہ ظاہر ہو جاتا ہے ۔

ايک مومن اس طرح سوچتا ہے ۔ امام خميني ۲ ، اس انقلاب کے باني ، اسي نظريے کے معتقد تھے ۔ اسي لئے آپ جنگ ، سياست ، اقتصاد يات ، سماجیات وغيرہ کسي بھي ميدان ميں کبھي بھي تذبذب کا شکار نہيں ہوتے تھے ۔

امام خميني ۲ کا راستہ اور منزل واضح تھي ۔ لہذا بغير کسي ترديد و تذبذب کے استقامت کے ساتھ انقلاب کو اس کي منزل مقصود تک پہنچا ديا ۔

قربت خدا اور ہماري اسلامي حکومت

ہم سب ہي کي سعي و کوشش يہ ہوني چاہيے کہ خدا کو اپنے سے راضي کر سکيں ۔ ہماري اور ہمارے انقلاب کي کاميابي کا راز بھي يہي ہے ۔ ايک ايسا نظام کہ ساري دنيا کي مادي طاقتيں جس کي مخالفت کر رہي ہيں اور چاہتي ہيں کہ اس کو نيست و نابود کر ديں ، بحمد ا? روز بروز مستحکم اور قوي ہو رہا ہے ۔ اگر ايران ميں اسلامي نظام کے علاوہ اور کوئي دوسرا نظام ہوتا تو نہ جانے کب کا گزشتہ تاریخ ہوگیا ۔

ہم نے گذشتہ ٢٠ ، ٢٥بر سوں ميں کبھي بھي اپنے اصولوں کي پامالي نہيں کي ہے ۔ ہمارے جو اصول اوائل انقلاب ميں تھے ، آج بھي وہي ہيں اور انشائ ا... ہميشہ رہيں گے ۔ موجودہ اسلامي نظام حکومت کي استقامت اسي قربت خدا کي بنا پر رہي ہے ۔

آج دنيا کے مختلف ممالک ميں ايران کے اسلامي انقلاب کے نام پر نعرے لگائے جا رہے ہيں ۔ ہم يورپ ، افريقہ ، ايشيا وغيرہ کے مسلمانوں سے ايسے کون سے رابطے مستحکم کر سکے ہيں کہ امام خميني ۲ کي تاسف آور رحلت کے بعد ان مسلمانوں نے ہم سے اظہار ہمدردي کيا تھا ؟ امام خميني ۲ کي رحلت کے بعد ايک ايراني وفدکسي دوسرے ملک گيا ہوا تھا ۔ وہاں کي عوام نے اس گروپ کا استقبال اس طرح کيا کہ ان کے ہاتھ پشت گردن پر تھے اور وہ سب گريہ و زاري کر رہے تھے ۔ ہم ميں اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں ميں يہ رابطہ کس نے ايجاد کيا ؟ ہم نے ؟ قطعاً نہيں ، ہمارے اور ان کے درميان يہ روحي و قلبي رابطہ خدا وند عالم نے خلق کيا ہے ۔

قرآن کريم ميں خدا وند عالم نبي کريم سے فرما رہا ہے( لو انفقت ما في الارض جميعاً ما الفت بين قلوبهم ) ( سورہ انفال ٦٣ ) يعني اے رسول ! اگر تم دنيا کي ساري دولت خرچ کر ديتے تب بھي تم لوگوں کے قلوب کو نزديک نہيں لا سکتے تھے ۔ اسي طرح اگر دور حاضر ميں ہم بھي اپني ساري دولت خرچ کرديں تب بھي ہمارے اندر اتني صلاحيت نہيں ہے کہ لوگوں کے درميان روحي و قلبي ارتباط قائم کرسکيں ۔ چونکہ فقط خدا ئے تبارک و تعالي سے قرب ہي لوگوں کے درميان رابطہ ومحبت کا باعث بنتا ہے ۔

اسلام دين توحيد ہے توحيد يعني خدا ئے بزرگ کے ماسوا کسي کي عبادت نہ کرنا ، کسي کے آگے سر تسليم خم نہ کرنا يعني نظام و حکومت بشري کا گريباں چاک کردينا اور شيطاني و مادي طاقتوں کے طلسم کو ختم کر دينا ۔

توحيد يعني خدا کے ذريعہ دئیے گئے مظلوم کي ظالم پر فتح کے سلسلے ميں وعدے پر يقين کامل رکھنا ، رحمت خدا سے پر اميد ہونا اور شکست کے احتمال سے نہ گھبرانا۔ توحيد يعني خدا ئے عز و جل پر اعتماد ، يقين اور بھروسہ ۔

حيات طيبہ اور اسلام

آپ جس وقت عبادت خدا انجام ديتے ہيں ، نماز پڑھتے ہيں ، کسي غريب کي مدد کرتے ہيں يا کوئي دوسرا نيک عمل انجام ديتے ہيں تو آپ کو اندروني لذت حاصل ہوتي ہے۔ يقينا آپ نے اس روحاني لذت کا احساس کيا ہو گا۔ يہ احساس کسي مادي فعل کي انجام دہي کے ذريعہ حاصل نہيں کيا جا سکتا ۔ اس احساس کا مشاہدہ فقط وہي افراد کر سکتے ہيں جو خدا پر اعتقاد رکھتے ہيں ۔ ہر مومن کي زندگي ميں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہيں ،کسي کي زندگي ميں کم اور کسي کي زندگي ميں زيادہ ۔ بعض اوقات انسان ايسي حالت ميں پہنچ جاتا ہے کہ اپني اس حالت کو برقرار رکھنے کے لئے وہ اپنا سب کچھ قربان کر سکتا ہے۔ البتہ انسان کي مادي زندگي اس کو اس روحاني حالت سے باہر نکال ديتي ہے اور اسي لئے يہ روحاني حالت شاذ و نادر ہي حاصل ہو پاتي ہے ۔

وہ افراد جو خدا پر ايمان کامل نہيں رکھتے ہيں اس طرح کي روحاني کيفيات سے لطف اندوز نہيں ہو سکتے ۔ ايسے نہ جانے کتنے افراد ہوں گے کہ مادي زندگي گذارنے کي بنا پر انھوں نے اپني ساري زندگي ميں ايک دفعہ بھي اس لذت بخش کيفيت کا احساس نہيں کيا ہوگا ۔

اسلام اسي ہدف کے تحت نازل کيا گيا تھا کہ انسان کو اس عظیم مقام کي طرف لے جائے جو اس کي منزل مقصود ہے ۔ اسلام قلوب کو منور و روشن کرنے آيا تھا ، برائيوں کي جگہ نيکيوں کو رائج کرنے آيا تھا کہ ان راہوں سے ہم مذکورہ روحاني و معنوي لذت کا احساس کر سکيں اور نہ فقط محراب عبادت ميں بلکہ اپني روز مرہ زندگي ميں بھي يعني ہر طرح کے امور ميں ياد خدا کو فراموش نہ کريں ۔

اگر دنيا ميں ايسے افراد پيدا ہو جائيں کہ جن کا سارا ہم و غم ياد خدا ہو تو ہر طرح کا ظلم و جور ، ناانصافي ، جنگ ، فساد وغيرہ خود بخود ختم ہو جائيں گے ۔ اگر ايسے افراد پيدا ہو گئے تو ان کي حيات کو بھي حيات طيبہ کہا جاسکتا ہے ۔ ليکن حيات طيبہ سے مراد يہ نہيں ہے کہ انسان فقط عبادت گذار ہو ، نماز بجا لاتا ہو ، روزہ رکھتا ہو وغيرہ وغيرہ اور بقيہ امور زندگي سے قطع نظر کر لے بلکہ حيات طيبہ سے مراد يہ ہے کہ دنيا و آخرت ميں باہمي امتزاج پايا جاتا ہو ۔

حيات طيبہ سے مراد يہ ہے کہ اگر ايک ملت اپني ترقي و فلاح و بہبود کے لئے کوشش کر رہي ہے ، معاشيات ، سماجیات ، تعليم ، ٹيکنالوجي وغيرہ جيسے ميدانوں ميں کام کر رہي ہے تو ضروري ہے کہ ساتھ ہي ساتھ اس ملت کے قلوب ياد خدا سے مملو بھي ہوں یعني دنياوي و اخروي امور کے ساتھ ساتھ خدا سے رابطہ بھي برقرار رہے ۔ يہي اسلامي حکومت کا ہدف ہے ۔ يہي وہ ہدف ہے کہ جس کے لئے انبيائے کرام کي طويل فہرست نازل کي گئي ، اسلام نازل کيا گيا ، قرآن نازل کيا گيا ، مصلحان عالم نے بھي اسي ہدف کو بيان کيا ۔ گذشتہ ١٠٠ ، ١٥٠ برسوں ميں مختلف اسلامي شخصيات نے بھي اسي جانب توجہ دلائي ہے۔

اسلام اور حيات طيبہ

ہمارے تمام مشخص اہداف فقط ايک لفظ، اسلام ميں سمٹے ہوئے ہيں ۔ اسلام فقط ايک عقيدہ کا نام نہيں ہے بلکہ اسلام يعني حيات طيبہ ۔ جس وقت نظام اسلامي اور حيات اسلامي کا ذکر آتا ہے تو اس وقت مراد يہي ہوتي ہے کہ يہ ايک ايسا نظام ہے جس ميں بشري ضرورتوں اور اس کے کمال کے لئے تمام احکامات بيان کر دئے گئے ہيں يعني يہ ايسا نظام ہے جس ميں مادي اور معنوي و روحي تمام ضروريات کا لحاظ رکھا گيا ہے ۔ اسلام نے اس کو ثابت بھي کر ديا ہے کہ اگر معاشرہ اسلامي عقائد کا تابع ہو اور اسلامي تعليمات پر عمل پيرا ہو تو اسلام ہر موقع پر اس معاشرہ کا دفاع کر سکتا ہے ۔

آج ساري دنيا فقط اسي وجہ سے ہماري دشمن ہے کہ ہم تابع اسلام ہيں( و ما نقموا منهم الا ان يومنوا با? العزيز الحکيم ) ( سورہ بروج ٨ ) ليکن يہ بھي حقيقت ہے کہ اس پر آشوب دور ميں اگر ہم کو کوئي پناہ گاہ حاصل ہو سکتي ہے تو وہ فقط اسلام ہے ۔ اسي اسلام کے دائرے ميں رہ کر ہم اپني شخصيت ، کردار اور حيات طيبہ کي حفاظت کر سکتے ہيں ۔

اسلام ميں انساني رشد و کمال کے تمام عناصر کا وجود

اسلام کي اہم ترين خصوصيت يہ ہے کہ اس مين انسان کے رشد و کمال کے تمام تر عناصر خواہ مادي ہو ںيا معنوي ، موجود ہيں يعني اسلام ميں( خلق لکم ما في الارض جميعاً ) اور( قل من حرم زينة الله اخرج لعباده ) کے علاوہ رسول اکرم کے ذريعہ ايک کاريگر کا ہاتھ چومنا اور خود امير المومنين کا کسب معاش کرنا پايا جاتا ہے ۔ اسلام نے يہ بھي کہا ہے کہ اگر کوئي شخص کسب معاش نہ کرے تو اس کي دعائيں مستجاب نہيں ہوتي ہيں ۔ رسول اکرم کے زمانے ميں کچھ لوگ ? و من يتوکل علي ا? فھو حسبہ ? پر تکيہ کرتے ہوئے خانہ نشين ہو گئے تو آپ نے فرمايا : خدا تم لوگوں کي کوئي دعا مستجاب نہيں کرے گا ۔ آخر تم لوگ يہ کيا کر رہے ہو ؟

رسول اکرم نے ايسا کيوں فرمايا ؟ اس لئے تاکہ معاشرہ معاشي اعتبار سے بھي وسعت پيدا کرے ۔ اگر اوائل اسلام ( جب اصحاب صفہ مسجد ميں زندگي بسر کر رہے تھے )اور اسلام کے پچاس سال کے بعد کي اجتماعي زندگي کا تقابل کيا جائے تو واضح فرق نظر آتا ہے ۔ يہ بعد کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب معاشرہ ہر طرح کي معاشرتي ۔ اقتصادي نعمتوں سے پر تھا ۔ ہر طرف خوشحالي تھي ، ہر طرف ترقي و رشد تھا۔ يہ ترقي و رشد اسي بنا پر تھا کہ اسلام نے زندگي کے ہر شعبے پر نظر رکھي ہے ۔ مادي زندگي کے علاوہ روحاني اور معنوي زندگي کا بھي خيال رکھا ہے ۔ قرآن فرماتا ہے (( قل ما يعبوا بکم ربي لولا دعائکم يا و قال ربکم ادعوبي استجب لکم ) ‘‘) يعني دعا کرو تاکہ خدا تمہاري دعاوں کو مستجاب کرے گا۔

روحاني و معنوي زندگي فقط اور فقط قرب خدا کے ذريعہ حاصل کي جا سکتي ہے۔ جس لمحے انسان خدا سے غافل رہے گا اس لمحے اس کا قلب مردہ ہوجائے گا اور روح مردہ ہو جائے گي اسي طرح جس لمحے قرب خدا حاصل ہو جائے گا اس لمحے قلب و روح بھي زندہ ہو جائيں گے ۔ ورنہ قلب ہميشہ ہميشہ کے لئے مر جائے گا اور ايک وقت وہ بھي آئے گا جب قلب ، پتھر کي شکل اختيار کر لے گا ۔قرآن کريم فرماتا ہے( آ لم يان للذين آمنوا ان تخشع قلوبهم لذکر ا ) ( سورہ رعد ٢٨ )

اسلام جہاں مادي اور معاشي رشد و ترقي کي طرف ترغيب دلاتا ہے وہيں يہ بھي کہا جا سکتا ہے کہ يہ معاشي اور مادي رشد و ترقي قرب خدا اور رضائے خدا حاصل کرنے کے لئے کي جانا چاہيے ۔ انسان کوئي بھي فعل انجام دے اس کے پيش نظر خدا اور ياد خدا ہوني چاہيے ۔ اسلام مادي ، معنوي و روحاني زندگي کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے ۔

اسلام کسي ايک زمانے سے مختص نہيں

قرآن مجيد ميں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے( هو الذي بعث في الاميين رسولاً منهم يتلو عليهم آياته و يزکيهم و يعلمهم الکتاب و الحکمة ) ( سورہ جمعہ ٢ ) اس آيت سے مراد يہ نہيں ہے کہ دين خاتم اور رسول خاتم کے آنے سے بشر مکمل طور پر تزکيہ نفس حاصل کر لے گا يا حاصل کر ليا ہے ۔ اس سے مراد يہ نہيں ہے کہ نزول قرآن کے بعد بشر ظلم ، شقاوت ، ناانصافي کو يکسرے خدا حافظ کہہ دے گا بلکہ حقيقت اس کے برخلاف ہے۔ تاريخ شاہد ہے کہ طلوع اسلام کے بعد دنيا ميں حتي اسلامي معاشرہ ميں دو تين دہائياں گذرنے کے بعد بشريت پر ظلم ہوا ، بشر منحرف ہو گيا ، باطل غلبہ پا گيا وغيرہ وغيرہ ۔

لہذا اس آيت سے مراد يہ نہيں ہے کہ رسول کي بعثت کا ہدف نجات انسان ہے ، بلکہ مراد يہ ہے کہ رسول اور اسلام نے جو کچھ بھي بشريت کو عطا فرمايا ، وہ ايک ايسا شفا بخش نسخہ ہے جو ہر زمانے کے مريض کي دوا ہے ۔ ايک ايسا نسخہ ہے جو جہالت ، ظلم يا ناانصافي ، بد اخلاقي جيسے تمام امراض کا علاج ہے ۔

دوسرے تمام نسخوں کي طرح ، اگر اس نسخے پر بھي عمل ہو گيا تو بشريت نجات پا سکتي ہے ورنہ وہي ہو گا جو کسي ڈاکٹر کے تشخيص دادہ نسخہ پر عمل نہ کرنے کي بنا پر ہوتا ہے ۔ کسي اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے بہترين نسخے تجويز کرنے کے بعد اگر اس نسخے پر عمل پيرا نہ ہوا جائے اور مرض سے افاقہ نہ ہو تو اس ميں ڈاکٹر کي کيا خطا ہے ؟

صدياں گذر چکي ہيں ، مسلمان قرآن مجيد کو فراموش کر چکے ہيں ، زندگي ميں قرآن کے لئے کوئي مقام نہيں ہے ، قرآن پر عمل نہيں ہو رہا ہے يا قرآن کو تحريف کر ديا گيا یا غلط تفسير کر دي گئي ہے ، قرآن کو اگر سمجھ بھي ليا گيا ہے تو اقدام کرنے کي جرآت نہيں ہے ۔ اگر رسول اکرم کے زمانے ميں بھي رسول کے فرامين پر عمل نہ کيا جاتا تو کسي بھي صورت ميں معاشرہ کي حالت تبديل نہيں ہو سکتي تھي ۔

اسلام اور عالم اسلام کے مسائل

عرب کے جاہل معاشرہ ميں پائے جانے والے اکثر مسائل آج دوبارہ عالم اسلام ميں اپني جگہ بنا چکے ہيں يا بنا رہے ہيں ۔ غربت ، جہالت ، پسماندگي ، بد اخلاقي ، باہمي اختلافات آج کے مسلم ممالک کا خاصہ ہيں ۔ آج دنيا ميں ايک ارب سے زيادہ مسلمان موجود ہيں۔ يہ ايک اتني بڑي تعداد ہے کہ موجودہ دنيا ميں اپنا تشخص قائم کر سکتي ہے ، اپني بات منوا سکتي ہے ليکن حقيقت اس کے برخلاف ہے ۔ مسلمانوں کے باہمي مسائل خود ہي اتنے زيادہ ہيں کہ وہ انھیں ميں الجھے رہتے ہيں جب کہ اس ايک ارب آبادي ميں علمائ بھي ہيں اور دانشمند بھي ۔ يہ افراد کيا کچھ نہيں کر سکتے ؟ بہت کچھ کر سکتے ہيں ليکن شرط يہي ہے کہ تعليمات رسول اکرم اور قرآن پر عمل کيا جائے ۔

اسلام باعث عزت و افتخار

اسلام انسان کو عزت بخشتا ہے ۔ انسان جب اپنے وجود ميں عزت کا احساس کرتا ہے تو کسي بھي قيمت پر دوسروں کے آگے دست درازي نہيں کرتا ، دشمن کے آگے سر تسليم خم نہيں کرتا ۔ آج ہم مشاہدہ کر رہے ہيں کہ دنيا کي مختلف اسکتباري طاقتيں مخصوصاً امريکہ مختلف ممالک اور اقوام کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں اس کي وجہ فقط اور فقط ان محکوم ممالک اور اقوام ميں عزت نفس کا نہ ہونا ہے ۔ سب سے پہلے ان قوموں کو اسلام اور ان کي تاريخ و تہذيب سے دور کيا جاتا ہے اور پھر ان کو باطل افکار و عقائد کا تابع بنا ديا جاتا ہے ۔ يہ ايک ايسي روش ہے جس پر ساري دنيا سے عمل کر وایاجارہا ہے ليکن ايک ايسي قوم جس ميں قلبي اور حقيقي ايمان پايا جاتا ہے کسي بھي قيمت پر ان شيطاني طاقتوں کي پيروي نہيں کرتي اور اپنے معاملات و مسائل کو استقلالي طور پر خود حل کرتي ہے ۔

اسلام محمدي اور امريکي اسلام

بحمد ا? ہماري راہ و منزل اسلامي ہے ۔ ہمارا راستہ وہ اسلامي راستہ ہے جس سے دشمن ہميشہ خوف زدہ رہتا ہے اور اس کے برعکس مظلوم و کمزور افراد پر اميد اور خوش رہتے ہيں ۔ اسلام اگر فقط ظاہري اسلام رہ جائے تو دشمن کا آلہ کار بن جاتا ہے ۔ يہي وہ اسلام ہے جس کے بارے ميں امام خميني ۲ نے بارہا کہا

تھا کہ يہ امريکي اسلام ہے ۔ہم اس ظاہري اسلام يعني امريکي اسلام کو قطعاً قبول نہيں کرتے ہيں ۔

اسلام محمدي وہ اسلام ہے کہ ساري دنيا ميں ابو جہلانہ طاقتيں اس سے خوف زدہ رہتي ہيں ۔ اگر کسي جگہ اسلام سے ابو جہل اور ابو سفيان کي موجودہ طاقتیں خوف زدہ نہ ہوتي ہوں تو ہميں ايسے اسلام کي طرف شک کي نگاہ سے ديکھنا چاہيے ۔ اگر کہيں مظلوم اور ناتواں افراد اسلام کي طرف پر اميد نگاہوں سے نہ ديکھتے ہوں تو بھي ايسے اسلام کو اسلام نہيں کہا جا سکتا ۔

موجودہ متمدن بشريت ايک مصلح اور عالم مہدي کے انتظار ميں ہے ۔ امام مہدي کے بارے ميں مسلمانوں کا نظريہ يہ ہے کہ( يملآ الله به الارض قسطاً و عدلاً کما ملئت ظلماً و جوراً ) ( بحار الانوار ج ٥١ ، ص ١٢ ) يعني خدا وند عالم امام مہدي کے توسط سے دنيا کو عدل و انصاف سے اسي طرح پر کر دے گا جس طرح ظلم و جور سے پر ہوگي ۔ لہذا وہ اسلام جس ميں عدل و انصاف کا مادہ نہ پايا جاتا ہو کس طرح بشريت کا منظور نظر بن سکتا ہے ؟ بشريت اسي اسلام کي جانب قدم بڑھا سکتي ہے جس ميں ظلم و جور و ناانصافي وغيرہ کا وجود نہ ہو اور ايسا اسلام وہي اسلام ہے جس ميں مہدي موعود کا تصور موجود ہو ۔

يہي وہ راستہ ہے جس کي طرف امام خميني ۲ نے بارہا اشارہ کيا تھا ۔ ايسا راستہ کہ جس ميں اطمينان بھي پايا جاتا ہے اور اميد بھي ۔ ليکن يہ راستہ با آساني ہاتھ نہيں آسکتا۔ اس کے لئے سعي و کوشش کي ضرورت ہے ۔ اس راستہ کو حاصل کرنے کے لئے ضروري ہے کہ قرب خدا حاصل کيا جائے ۔

اسلام کي عادلانہ حاکميت

حکومت اسلامي يعني حکومت عدل و انصاف۔ ایک ايسي حکومت جو انساني جسم کے ساتھ ساتھ روح ، جذبات ، اخلاق اور معنويات کے مواقع بھي فراہم کرتي ہو اس معني ميں کہ دنيا و آخرت کو باہم لے کر چلے ۔

حکومت اسلامي ، ظلم کے مقابلے ميں ہے ، طاغوت کے مقابلے ميں ہے ۔ حکومت طاغوت يعني حکومت فساد و بد اخلاقي ، حکومت ظلم ۔ اس حکومت ميں دين و دنيا کا ضياع ہوتا ہے ۔

انسانیت کو اسلام محمد ي کي ضرورت

اگر چہ آج دنيا بھر کے تمدن و فرہنگ اسلام سے بہرہ ور ہيں اور بیشک بشر کے درميان موجود تمام صفات و عالي مفاہيم اديان الہي اور انبيائے کرام و آسماني وحي سے مستفاد ہيں ليکن پھر بھي بشر کو معنويت ، تعاليم و معارف اسلامي کي ضرورت ہے اور اسي وجہ سے روز بروز دنيا کے مختلف خطوں کے افراد اسلام کي دعوت کو قبول کر رہے ہيں ۔

اسلامي انقلاب اور دنيا کي بيدار ي

موجودہ اسلامي انقلاب چونکہ خدا کے نام پر عالم وجود ميں آيا ہے لہذا ہميشہ مختلف شيطاني طاقتوں سے جنگ آزما ہے ، چونکہ مظلوم اور ناتواں افراد کا حامي ہے لہذا ظالم و استکباري طاقتوں سے نبرد آزما ہے ، چونکہ انساني اقدار کے لئے ميدان عمل ميں آيا ہے لہذا ہميشہ ان افراد کي مخالفت کا سامنا کر رہا ہے جو انساني اقدار کے مخالف ہيں ۔

اسلامي انقلاب دور حاضر کا ايک ايسا انقلاب ہے جس نے دنيا کو بيدار کيا ہے ۔ ا س سلسلے ميں فلسطين اور شمالي افريقہ جيسے ممالک کا مشاہدہ کيا جا سکتا ہے کہ جہاں اسلام نے اپنا پرچم گاڑ ديا ہے ۔

ايک زمانے سے کافر اور استکباري ثقافت و تہذيب کے مقابلے ميں مسلمانوں کو کمزور اور ضعيف شمار کيا جاتا تھا ليکن آج اسلامي انقلاب کے رونما ہونے کے بعد حالات يکسرے بدل گئے ہيں ۔ کل تک جہاں لاکھوں مسلمان اپني حکومتوں سے اپنا حق مانگتے ہوئے گھبراتے تھے آج اس انقلاب کي بدولت بلاخوف و خطر اپني آواز بلند کرتے ہيں اور حق طلبي کرتے ہيں ۔

آج اسلامي ممالک ميں مساجد آباد ہو گئي ہیں ، نماز جمعہ کا اہتمام ہو گيا ہے ليکن کل تک ان مسجدوں ميں فقط چند بوڑھے افراد ہي آيا کرتے تھے۔ اب مسجدوں ميں فقط بوڑھے افراد نہيں بلکہ بڑي تعداد ميں نوجوان اور جوان طبقہ بھي آتا ہے ۔ يہ جمہوري اسلامي کے موجودہ اسلامي انقلاب ہي کي برکات ہيں ۔

بندہ خدا بندہ انسان نہيں ہو سکت

بعض افراد خيال کرتے ہيں کہ نظريہ توحيد بعد از مرگ زمانے سے مربوط ہے۔ جبکہ حقيقت يہ ہے کہ توحيد پر اعتقاد اور يقين قبل از موت یعني عالم دنيا کي تعمير اور اصلاح کا پيش خيمہ ہوتا ہے ۔ دور حاضر ميں ہميں بلکہ ساري امت اسلاميہ کو اسي نظريہ اور اعتقاد پر عمل پيرا ہونے کي ضرورت ہے ۔ جس قدر ہم توحيد اور عبوديت خدا کي سمت قدم بڑھائيں گے اتنا ہي دنيا کي شيطاني اور استکباري طاقتوں سے محفوظ تر ہوتے جائيں گے ۔ جمہوري اسلامي کي مسلمان ملت نے جس حد تک توحيد خدا وند عالم کو قبول کيا ہے اسي حد تک امريکہ اور دوسري استکباري طاقتوں کے شر سے محفوظ اور ان کي غلامي سے آزاد ہے ۔ يہ ہے توحيد اور عبوديت خدا وندي کا خاصہ ۔

صرف مذہب ہي موجودہ دنيوي مسائل کا حل ہے

اگر مذہب موجود نہ ہو تو دنيا ميں فقط استکبار اور ظلم باقي رہ جائے گا ۔لہذا فقط دين ہي اس طرح کے مسائل و مشکلات کا حل ہے ۔ آج تمام اسلامي ملتوں کا وظيفہ اور ذمہ داري ہے کہ اسلام کو اپني آماجگاہ بنائيں اور اسلام کي حاکميت کو قبول کريں ۔ اتفاقاً اسلامي ملتوں کے علاوہ دوسري تمام ملتوں کے پاس ايسا کوئي عالي اور مقدس نظام حيات اور نظام حکومت نہيں ہے کہ جس کي طرف قدم بڑھائيں۔

يہي وجہ ہے کہ نيشنلزم ان کي قبر بنتا جا رہا ہے ، نيشنلزم نے بشريت کو کيا ديا ہے ؟ ممکن ہے کہ نيشنلزم ايک مختصر سے عرصے کے لئے اطمينان ، سکون اور جوش وغيرہ فراہم کر دے ليکن اس کا نتيجہ نہايت بدتر ہے اور وہ ہے بشريت کا خاتمہ ۔ خود ہمارے علاقے ميں يہ کوشش کي گئي کہ اس علاقے کے مسلمانوں کو نيشنلزم کي بنياد پر ايراني ، ترکي ، عربي وغيرہ ميں تقسيم کر ديا جائے اور نہ فقط بين الاقوامي پيمانے پر بلکہ قومي پيمانے پر بھي يہ کوشش کي گئي ، يہ ہے استعماري سازش ۔

بحمد ا? اسلامي انقلاب نے کسي حد تک اس خطے کے ان مسائل کا سد باب کيا ہے کيونکہ ايک مناسب اور صحيح نظام حکومت اور نظام حيات ہي ملت کو اس طرح کے مسائل سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ دوسرے اديان و مذاہب اتفاقاً ايسا کوئي نظام حيات و حکومت نہيں رکھتے جو معاشرے کو ايک صحيح سمت ميں لے جاسکے ۔ يہ ہماري خوش قسمتي ہے کہ ہم اس طرح کے نظام حيات کے حامل ہيں ۔

ہمارا يعني مسلمانوں کا فريضہ ہے کہ ہم نظام اسلامي اور افکار اسلامي کي طرف ايک بار پھر پلٹيں تاکہ دنيا ميں اپنا ايک مقام اور تشخيص قائم کر سکيں ۔ ايک ارب کي آبادي کم نہيں ہوتي ہے ۔ يہي آج کے موجودہ مسائل کا حل ہے اور يہي رسول اکرم کي بعثت کا بھي ہدف تھا اور اگر ايسا ہو گيا تو خليج فارس ميں موجودہ ہماري ان مخالف طاقتوں کو منہ چھپانے کي جگہ نہيں ملے گي ۔

اسلام محور اصلي

محور اسلام ہے ۔ ہمارا فريضہ ہے کہ فقط اسلام کي خاطر قدم اٹھائيں اور اسلام کے نام پر آگے بڑھيں ۔ آج جمہوري اسلامي ، اسلام کا بنيادي مرکز ہے ۔ آج سارے عالم اسلام کي نگاہيں جمہوري اسلامي کي طرف لگي ہوئي ہيں جبکہ دوسري جانب نيشنلزم ميں کشش تو درکنار لوگ اس سے فرار کر اختيار کر رہے ہيں ليکن جمہوري اسلامي ہر شخص کو اپني طرف جذب کر رہا ہے ۔ اس کي وجہ کيا ہے ؟ اس کي وجہ ايمان ، اسلام اور جہاد في سبيل ا? ہے جس ميں ظلم ، فساد ، بد اخلاقي سے جنگ اور آزادي و عدل و انصاف کي حمايت شامل ہے ۔ اسي بنا پر اقوام عالم جمہوري اسلامي کي طرف جذب ہو رہي ہے ۔

اسلامي معاشرہ لوگوں کي عزت کا سبب ہے

اگر ہم خدا کي جانب ايک قدم بڑھائيں تو خدا بھي ہماري نصرت کرے گا ۔’’ من کان ? کان ا? لہ ‘‘ ( بحار الانوار ج ٨٣ ص ٣١٩ ) اگر ہم نے

خالصتاًخدا کي راہ ميں قدم اٹھايا تو خدا وند عالم بھي اپنے ارادے کو ہماري ترقي و ارتقائ ميں قرار دے گا اور پھر ساري کائنات کے اصول و قوانين ہمارے ساتھ ہوں گے اور اگر ايسا نہ ہو سکا تو ہم بھي دنيا کي دوسري اقوام کي مانند ہو کر رہ جائيں گے ۔ اگر انسان خدا سے انس نہ رکھتا ہو ، خدا کے لئے زندگي نہ گذارتا ہو تو کيا فرق پڑتا ہے کہ وہ ايراني ہو يا پاکستاني ، مسلمان ہو يا غير مسلمان۔ يہ ضمانت ہميں کون دے سکتا ہے کہ بالفرض اگر کوئي شخص اسلام پر اعتقاد رکھتا ہو اور کسي حد تک عبادت بھي انجام ديتا ہو تو اس کو دنيوي و اخروي عزت حاصل ہو جائے گي جبکہ ہم نے ديکھا بھي کہ گذشتہ صديوں ميں عزت و افتخار اسلامي ہمارے پاس نہيں رہا ۔

آج بھي ہم مشاہدہ کر سکتے ہيں کہ ايسے افراد موجود ہيں جو مسلمان تو ہيں ليکن ذلت کي زندگي بسر کر رہے ہيں ، کفار ان پر حاوي ہيں ، امريکہ ان پر حکومت کر رہا ہے ، مغربي دنيا کے نام نہاد متخصصين ان پر تجربات کر رہے ہيں ۔ لہذا اگر يہ کہا جائے کہ مسلمان ہونا ہي کافي ہے تو ان سب کو باعزت و با افتخار زندگي بسر کرني چاہيے جبکہ ايسا نہيں ہے ۔

پس اس طرح کہنا چاہيے کہ انسان کو عزت و افتخار، اصل اور حقيقي اسلام سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ فقط ظاہري مسلمان ہونے سے يعني خدا کے سامنے سراپا تسليم ہو جانا ہي حقيقي مسلمان ہونے کے مترادف ہے ۔ ’’الاسلام هو التسليم ‘‘ ( بحار الانوار ج ٦٥ ص ٣٠٩ ) يعني سراپا تسليم ’’( ان الدين عند الله الاسلام ) ‘‘ ( آل عمران ١٩ )۔ دين يعني خدا کے حضور سر تسليم خم کر دينا ۔ ’’( و من يبتغ غير الاسلام دينا ً فلن يقبل منه ) ‘‘ ( آل عمران ٨٥ ) ۔الغرض معاشرہ کے ہر فرد کے لئے خواہ عوام الناس ميں سے ہو يا خواص ميں سے ، لازم ہے کہ بارگاہ خدا وندي ميں سراپا تسليم ہو مخصوصاً معاشرہ کے ذمہ دار افراد ۔

آئندہ زمانہ اسلام کا زمانہ ہے

ہماري خوش قسمتي ہے کہ آج عالم اسلام ميں بيداري کي ايک لہر دوڑ گئي ہے اور مسلمان اسلام کي حاکميت کو قبول کر رہے ہيں ۔ مشرق سے مغرب تک چاروں جانب مسلمانان عالم اسلام کي طرف جذب ہو رہے ہيں ۔

شيطاني اور استکباري حکومتيں کب تک بعض اسلامي ممالک کے جوانوں کو عبادت حج سے روک سکيں گي ؟ کب تک مسلمانوں کو سفر مکہ و مدينہ سے باز رکھ سکيں گي ؟ آج اسلام شمالي افريقہ اور بعض دوسرے اسلامي ممالک کے سياسي حالات ميں تبديلي کا باعث بن رہا ہے ۔ کيا ممکن ہے کہ ان ممالک کے مسلمانوں کو بھي حج جيسي عظيم عبادت سے روکا جا سکے گا ؟ ہم حج اور زيارت حرمين شريفين کو اپنا مسلّم حق سمجھتے ہيں اور اپني تمام تر قدرت و طاقت کے ساتھ اپنے اس حق کا آل سعود سے مطالبہ کرتے ہيں کہ جنھوں نے ہمارے اس مذہبي حق پر تصرف کر رکھا ہے ۔ انشائ ا... ہم ايک دن آل سعود سے اپنا يہ حق چھين کر رہيں گے ۔

موجودہ کفر یعني استکبار کو سمجھ لينا چاہيے کہ آئندہ زمانہ اسلام کا ہے اور اس کے مقابلے ميں کوئي بھي طاقت اسلام کي بڑھتي ہوئي قدرت اور عالم اسلام ميں مسلمانوں کي مخالفت کرنے کي جرآت نہ کر سکے گي ۔

اسلام مسلمانوں کي خود شناسي کا سبب ہے

ايک دوسرا مسئلہ يہ ہے کہ اسلام مخالف طاقتيں اسلام کي بڑھتي ہوئي طاقت اور مسلمانوں کي روز افزوں بيداري سے متعلق باقاعدہ آگاہ ہو گئي ہيں ۔ اس کي وجہ يہ ہے کہ ان لوگوں نے ديکھ ليا ہے کہ اسلام اخلاقي اقدار سے ماورائ ايک نظام حيات پيش کر سکتا ہے يعني اسلام فقط اخلاقيات پر مبني مذہب نہيں ہے ۔

دشمنان اسلام نے ديکھ ليا کہ اسلام ہي تھا جس کي بنا پر ايران ميں اسلامي انقلاب رونما ہوا ، اسلام کي بنياد پر ہي ايک نظام حکومت کي بنا رکھي گئي ، اس دين کي بنا پر ايک ملت آگاہ اور بيدار ہوئي يعني وہ اسلامي قوت ہي تھي جس نے اس ملت کو ذلت اور غلامي سے نکال کر آزادي اور خود اعتمادي بخشي اور پھر ايک وقت ايسا آيا کہ سارے دنياوي وسائل و ہتھيار ان مسلمانوں کے آگے ہيچ ہو کر رہ گئے ۔

ہماراسب کچھ اسلام کي برکت سے ہے

ہمارے پاس جو کچھ بھي ہے اسلام کي برکت سے ہے ۔ ايران کا اسلامي انقلاب اسي اسلام کي برکت سے رونما ہوا ۔ اگر ہمارے پاس ايمان و اسلام نہ ہوتا تو قطعاً ممکن نہيں تھا کہ ظاہري اعتبار سے قوي اور قدرتمند شاہي حکومت کے مقابلے ميں ہماري ملت استقامت کر پاتي ۔

انقلاب کے بعد ، عوام کا ثبات قدم ، جمہوري اسلامي کي عميق ہوتي ہوئي جڑيں ، مختلف جہات سے ترقي و ارتقائ ،ايران عراق کي جنگ ميں ايران کي استقامت ، سياسي اور اقتصادي ميدانوں ميں ہماري فتح و کاميابياں يہ سب کچھ اسي لئے ہوا کہ ہم راہ حق کے مسافر ہيں ۔ يہ سب کچھ اسلام اور اعتقادات اسلامي کا مرہون منت ہے ۔لہذا ہمارا فريضہ ہے کہ ہم اپني اس بيش بہا معنوي قدرت کي حفاظت کريں ۔ ہماري روز مرہ زندگي ميں ، قول و فعل ميں ، معاشرہ ميں ، حکومتي پيمانے پر اس قدرت کا اظہار ہونا چاہيے ۔ ہماري تمام تر توجہ دين پر ہوني چاہيے ۔ ہمارے ذاتيات ، ہمارے جذبات و خواہشات کسي بھي صورت ميں دين پر حاوي نہيں ہونے چاہئيں ۔ ہماري روز مرہ زندگي ، حکومت ، معاشرے کے فيصلے اوراہداف کا معيار دين اسلام ہونا چاہيے۔ اگر ہم نے مذکورہ روش اختيار کر لي اور باقي رکھ لي تب ہي ہم ترقي کر سکتے ہيں ۔

البتہ يہ بھي قابل غور ہے کہ يہاں اسلام سے مراد اسلام محمدي ہے نہ امريکي اسلام يعني وہ اسلام جو مظلوم اور ستم رسيدہ عوام کي حمايت کرتا ہے نہ کہ قدرتمند اور اغنيائ افراد کا کھلونا ۔ دنيا ميں ايسے افراد بھي ہيں جو مسلمان ہونے کا دعوي توکرتے ہيں ليکن ان کا اسلام ،اسلام محمدي نہيں بلکہ ابو جہل و ابو لہب کا اسلام ہے ، امريکي اسلام ہے ۔ ايسے افراد کا اسلام سے فقط اتنا ہي سروکار ہوتا ہے کہ وہ اپني ذاتي زندگي کو کامياب بنا سکيں ، اسلام سے سوئ استفادہ کر سکيں وغيرہ وغيرہ ۔ يہ ايسا اسلام ہے جس سے فقط سرمايہ دار اور صاحب ثروت افراد ہي کا فائدہ ہوتا ہے ۔ ہم اس اسلام کو کسي بھي قيمت اور کسي بھي صورت ميں قبول نہيں کرتے ہيں ۔

الغرض ہمارے پاس جو کچھ ہے اسلام کي وجہ اور اسلام کي برکت سے ہے یعني خدا پر توکل و ايمان کي وجہ سے ہے۔ لہذا قرب خدا اور ارتباط خدا کو کسي بھي حال ميں فراموش نہيں کيا جا سکتا ۔

اسلام مسلمان قوموں کي راہ نجات ہے

اگر اقوام اسلامي کي ترقي و عروج کے راز کي جستجو کي جائے تو تمام تر تاريخي مطالعات کے بعد خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کي ترقي و عروج فقط اور فقط اسلام پر منحصر ہے ۔ دنيا کے کسي خطے کے مسلمان استکباري طاقتوں کے ذريعہ پيدا کي گئي مشکلات اور مسائل کا سامنا اس وقت تک نہيں کر سکتے جب تک راہ اسلام کو نہ اپنا ليں ۔جمہوري اسلامي نے ايسا ہي کيا اور راہ نجات حاصل کر لي ۔

اسلامي انقلاب يعني صالح افراد کي تربیت

جمہوري اسلامي کا انقلاب اسي لئے عالم وجود ميں آيا ہے کہ صالح افراد پيدا کر سکے ۔ انھيں صالح افراد کي بدولت ہمارا اسلامي انقلاب آج تک باقي ہے ۔ ہماري قوم صالح ہے ليکن ابھي اس سمت ميں ہميں ايک طويل راہ طے کرني ہے ۔

احکام اسلامي کي پیروي

مسلمان ملت جس قدر اسلام کي پيروي کرے گي اسي حد تک دوام اور ترقي حاصل کرسکے گي۔ آج ساري دنيا بلکہ ہمارے مخالفين تک کيوں ہماري خارجہ پاليسي کي تعريف کرتے ہيں ؟ اسي لئے کہ ہماري خارجہ پاليسي احکام اسلامي پر مبني ہے ۔

اسلامي برکات

يہ اسلام ہي کي برکت تھي کہ ہم نے اپنے دشمن کو شکست دي ہے اور مايوس کيا ہے ۔ اسلام ہي تھا جس کي بنا پر ہم نے دشمن کے مختلف النوع حيلوں کو اپنے پيروں تلے روندا ہے ۔ يہ بھي اسلام ہي کي برکت تھي کہ ايران ميں انقلاب آيا اور ہم نے اپني تمام مادي و معنوي ترقي و ارتقائ کا آغاز کيا جو آج بھي جاري ہے ۔ ہمارے پاس جو کچھ بھي ہے اسلام کي وجہ سے ہے ، اسلام کي برکت سے ہے ، قرآن کي برکت سے ہے ۔ ہمارے تمام مسائل و مشکلات کا حل بھي اسلام اور قرآن کي پيروي سے حاصل ہو جائے گا ۔ عالم اسلام جس قدر اسلام سے نزديک رہے گا اتنا ہي اس کي عزت ميں اضافہ ہو گا اور مسلمان جس قدر متحد ہوں گے اتنا ہي اسلام سے استفادہ کا امکان بڑھ جائے گا ۔

اسلام عالمي استکبار کا شديد مخالف ہے

امريکہ اور اس کي حليف طاقتيں اچھي طرح سمجھ گئي ہيں کہ مذہب اور معرفت ديني کي بقا کے ساتھ ساتھ دنيا پر حکومت نہيں کي جا سکتي ۔ ان استکباري قوتوں کي کاميابي اسي ميں پوشيدہ ہے کہ دنيا کو دين و مذہب سے دور رکھيں ، عوام کو بے دين ، بے عقيدہ ، بے ايمان بنا ديں ، ان سے مذہبي حميت و غيرت چھين ليں ۔ امريکہ جيسے ممالک ايسا ہي معاشرہ چاہتے ہيں ۔ لہذا جب بھي اور کہيں بھي يہ ديکھتے ہيں کہ ايمان ، عمل ، جہاد وغيرہ کو رائج کيا جا رہا ہے تو فوراً اس کي مخالفت شروع کر ديتے ہيں لہذا اگر عالم اسلام چاہتا ہے کہ ان استکباري طاقتوں کا مقابلہ کرے تو لازمي ہے کہ پہلے خود کو قوي کرے ۔

قرب خدا اور توکل بر خد

ايک موحد اور خدا پرست قوم کي ترقي اور دوام اس وقت تک باقي رہ سکتا ہے جب تک وہ قرب خدا اور توکل بر خدا کے قانون پر عمل پيرا رہے ۔ اسي قوت نے ہميں آگے بڑھنے کي طاقت عطا کي اور ہميں کاميابي سے سرفراز کيا ہے ۔

يہي الہي قوت تھي جس نے ہميں دشمنوں پر غالب کيا ، ٨ سال تک ايران، عراق جنگ ميں ہميں استقامت عطا کي ،ہمارے داخلي اور خارجي مسائل کا تدارک کيا ، اقتصادي ، سياسي ، سماجي مشکلات سے ہميں باہر نکالا ۔ہماري جگہ اگر کوئي دوسرا ہوتا تو نہ جانے کب کا اپني راہ فراموش کر بيٹھتا ۔ يہي الہي قوت تھي کہ آج جس پر ہم فخر کر رہے ہيں اور باعزت زندگي گذار رہے ہيں ۔

آج اسلام کے ماسوا دوسري کوئي ايسي طاقت نہيں ہے جو دنيا کي موجودہ شيطاني طاقتوں کا مقابلہ کر سکے ۔ خدا کا شکر ہے کہ آج ايک بار پھر خورشيد اسلام نے سارے عالم اسلام پر نور افشاني شروع کر دي ہے اور عالم اسلام ، اسلام کے پرچم تلے ان شيطاني طاقتوں سے مقابلہ کے لئے آمادہ ہو رہا ہے ۔

يہ ايک اميد بخش اور فرحت افزا قدم ہے اور انشائ اللہ. عالم اسلام کي يہ بيداري امريکہ اور اس کي حليف طاقتوں کو پسپا کر دے گي اور دنیا کو نجات بخشے گي ۔

آج تمام اسلامي حکومتوں کي ذمہ داري ہے کہ اسلام محمدي سے قريب ہوں ۔ اگر يہ حکومتيں واقعي اپني عوام کي حامي ہيں تو فقط اسلامي احکام کي پيروي کے ذريعہ ہي اپني عوام کو نجات دلا سکتي ہيں کیونکہ فقط اسلام ہي عزت ، افتخار ، استقلال اور قدرت عطا کر سکتا ہے ۔

اسلامي انقلاب کي بنياد الہي اقدار پر ہے

جس وقت ايران کا اسلامي انقلاب رونما ہوا اس وقت دنيا سے الہي اقدار کا خاتمہ ہو چکا تھا اور ماديت نے انساني زندگي کو مکمل طور پر اپنے شکنجے ميں قيد کر ليا تھا ۔ آج اگر مشاہدہ کيا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ماديت کي بنياديں متزلزل ہو گئي ہيں ۔ وہ انقلاب جس کي بنياد ماديت پر رکھي گئي تھي يعني مارکسزم اور سوشلزم آج ماضي کا حصہ بن کر رہ گيا ہے ۔

انقلاب سے قبل ايسا نہيں تھا ۔اشتراکيت خود کو اس قدر قوي اور قدرتمند سمجھتي تھي کہ فقط اپني قدرت پر ہي اکتفا نہيں کي تھي بلکہ افغانستان پر فوجي حملہ کر دياتھا تاکہ اس طرف سے بھي اشتراکي نظام کو وسيع کيا جا سکے ۔ آج حالت يہ ہے کہ اشتراکيت ميوزيم کا حصہ ہے اور بس ۔ لطف اندوز بات تو يہ ہے کہ جن

ممالک ميں اشتراکي نظام حکومت رائج تھا وہاں اس نظام کي مخالفت کي باگ دوڑ ان ہاتھوں ميں تھي جو دين ، معنويت ، خدا ، عيسائيت کے پيرو تھے ۔ يہ تھي ايران کے اسلامي انقلاب کي نور افشاني ۔

جس وقت اسلامي انقلا ب رونما ہوا اس وقت اسلام کے بارے ميں ايسا کوئي نظريہ نہيں تھا کہ اسلام ايک حيات بخش انقلاب بھي لا سکتا ہے حتي اسلامي ممالک ميں بھي اگر کسي انقلاب کي بنياد رکھي جاتي تھي تو اشتراکيت پر ، انقلابي يعني اشتراکي۔ دنيا والوں نے اپنے زعم ناقص ميں اسلام کو کمزور اور ضعيف کر ديا تھا ۔ ظاہري حالات يہ تھے کہ کوئي شخص مسلمان ہونے کے ناطے خود پرفخر نہيں کرتا تھا ۔ آج حالات مختلف ہيں ، جہاں بھي کچھ مسلمان يکجا ہو جاتے ہيں خواہ اقليت ميں ہي رہ کر ، اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہيں۔ يہ سب کب سے ہوا ؟ اسلامي انقلاب کے بعد ۔

اسلامي انقلاب کي دوسري خصوصيت يہ رہي ہے کہ ظاہري اور مادي طاقتيں ، الہي اور معنوي اقدار کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہيں ۔ دنيا ميں ايسے بہت کم افراد ہوں گے جو اس حقيقت سے آگاہ نہ ہوں۔ فقط وہي افراد اس حقيقت سے نا آشنا ہيں جو دنيا ميں رونما ہونے والے واقعات کا عميق مطالعہ نہيں کرتے ہيں ۔ استکباري طاقتوں کي اہم ترين کمزوري اور شکست يہي ہے کہ آج بھي ايران ميں انقلاب ، اسلام ، اسلامي حکومت باقي ہے اور روز بروز روبہ ترقي ہے ۔ ايک اسلامي حکومت کا عالم وجود ميں آنا اور روز بروز ترقي کرنا دنيوي طاقتوں کي شکست کي علامت ہے کيونکہ يہ طاقتيں کسي بھي صورت ميں اسلامي حکومت کے وجود کو برداشت نہيں کر سکتيں ۔ دنيوي طاقتوں کي تو ہميشہ خواہش ہي يہ ہوتي ہے کہ اسلامي اور معنوي نظام حکومت کو جس طرح ممکن ہو سکے ، نيست و نابود کر ديں ۔ ان شيطاني طاقتوں کي لاکھ کوششوں کے باوجود آج بھي اسلامي انقلاب اور پيام اسلام اپنے مقام پر باقي ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ وسيع سے وسيع تر ہوتا جارہا ہے ۔ ايشيا ، افريقہ اور دنيا کے دوسرے ممالک اس کي واضح مثاليں ہيں يعني دشمنان اسلام ميں اسلام سے مقابلہ کرنے کي طاقت نہيں ہے ۔

معنويت اور نظام جمہوري اسلامي

يہ ايک حقيقت ہے کہ ايک دن ايسا آئے گا جب معنويت اور روحانيت دنيا پر محيط ہوگي ۔ ناممکن ہے کہ امريکہ اور اس کي مانند دوسري قدرتيں دنيا سے الہي اقدار کو ختم کر ديں ۔ امريکہ ، جمہوري اسلامي کي تمام تر مخالفت کے باوجود اپني کوششوں ميں کامياب نہيں ہو سکتا ۔ ہمارا اسلامي نظام حکومت اپني اسي آب و تاب کے ساتھ باقي رہے گا جس آب و تاب کے ساتھ موجودہ حالت ميں ہے بلکہ اس کي ضوفشانيوں ميں روز بروز اضافہ ہوتا رہے گا جيسا کہ آج تک ہوتا رہا ہے ۔ امريکہ کي لاکھ کوششوں کے باوجود اسلامي نظام نے ہر امريکي حملے کا پوري شدت سے جواب ديا ہے ۔