گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110501
ڈاؤنلوڈ: 7308

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110501 / ڈاؤنلوڈ: 7308
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

جہاد سے فرار

ستائیسواں گناہ کبیرہ جس کے بارے میں نص شرعی ہے وہ جہاد شرعی سے فرار کرنا ہے۔ یعنی جہاد شرعی کے اس معرکے سے فرار اختیار کرنا جہاں پر دشمن دوگناسے زیادہ نہ ہو وہ احادیث جو گناہاں کبیرہ کے سلسلے میں رسول خدا اور امیر المومنین وامام صادق وامام محمد تقی وامام رضا ٪ سے نقل کی گئی ہیں اس میں انہوں نے صرحتاجہاد سے فرار اختیار کرنے کو سورہ انفال کی ۱۶ ویں آیت سے استدلال کرتے ہوئے گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( یا ایها الذین امنوا اذا القیتم الذین کفرو ا زحفا فلا توّلوهم الادبار ومن یوّلهم یومئذ دبره الا متجر فالقتال اومتحیر الی فئة فقد باء بغضب من اللّٰه وما واه جهنم وبئس المصیر ) (سورہ انفال آیت ۱۶)

اے ایمان والو جب تمہارا میدان جنگ میں کفار سے مقابلہ ہو تو (خبردار) ان کی طرف پیٹھ نہ پھیرنا اور جو کوئی ان سے پیٹھ پھیرے گا وہ یقینی خداکے غضب میں آگیا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے مگر یہ کہ پیٹھ پھیرنا مصلحت جنگ کی بناء پر یا پناہ حاصل کرنے کے لیے یا اسلحہ جمع کرنے کے لئے ہو۔

حضرت امیر المومنین علی - فرماتے ہیں:

ولیعلم المنهزم بانه مسخط ربه موبق نفسه وان فی الفرار موجدة اللّٰه والذل الازم والعارالاباقی وان الفار لغیر مزید فی عمره ولا محجوربینه ودین یومه ولا یرضی ربه ولموت الرجل محقا قبل اتیان هذه الخصال خیر من الرضا بالتلبس بها والا قرار علیها ۔ (وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۶۵ ب ۲۹)

میدان جہاد سے فرار کرنے والے کو جان لینا چاہئے کہ اس نے اپنے خدا کو غضب ناک کیا اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا اس لئے کہ جہاد سے بھاگناخدا کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ اور فرار کرنے والے کو یقینی طور پر پر یشانی اور ابدی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کا فرار کرنا اس کے اور اس کی موت کے درمیان رکاوٹ نہیں بن سکتا اور اس کی عمر زیادہ نہیں ہوسکتی یعنی اگر اس کی موت آچکی ہو تو اس کا فرار کرنا اس کو فائدہ پہنچانہیں سکتا بلکہ اس کی موت کسی اورسبب سے واقع ہوسکتی ہے۔ اور اگر اس کی موت کا وقت نہیں آیا ہو توجہاد میں شرکت کرنے سے بھی اس کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا پس غضب خدا ذلت و رسوائی کے ساتھ زندگی گزارنے سے یہ بہتر ہے کہ انسان حق کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی جان جان آفیرین کے سپر دکردے۔

ابتدا ئی اور دفاعی جہاد

جہاد شرعی کی دو قسمیں ہیں۔ ا۔ ابتدائی اور ۲ ۔ دفاعی۔ جہادابتدائی سے مراد یہ ہے کہ مسلمان دعوت اسلام اور قیام عدل کے لئے کفارسے جنگ شروع کریں لیکن اس قسم کے جہاد کے لئے پیغمبر ، امام یا امام کے خصوصی نائب کی اجازت لازمی شرط ہے۔ لیکن یہ زمانہ چونکہ غیبت کبریٰ کا ہے۔ اس لئے اس قسم کا جہاد جائز نہیں۔

جہاد دفاعی یہ ہے کہ اگر کفار اسلامی شہروں پر حملہ کریں اور اسلام کی بنیاد اور آثار کو مٹانا چاہیں یا یہ کہ مسلمانوں پر حملہ کر کے ان کے مال واسباب کو لوٹ لینا اور انکی جان وعزت وناموس کو ظلم کا نشانہ بنانا چاہیں تو ایسی صورت میں تمام مسلمانوں پر القرب فلاقرب واجب کفائی ہے۔کہ کفار کے حملے کا دفاع کریں اور ان کے ظلم کی روک تھام کے لئے ان سے جنگ کریں اور اس قسم کے جہاد میں امام ونائب امام کی اجازت شرط نہیں ہے۔

میدان جہاد سے فرار کرنا جو کہ ہماری بحث کا موضوع ہے۔ آیا یہ قسم اول سے متعلق ہے یا ہر دو قسموں کے ہے۔ اس سلسلے میں دو قول ہیں بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ اس جہاد سے متعلق ہے جو امام یا اس کے نائب خصوصی کی اجازت سے ہو (مثلاً شہید کے لئے غسل وکفن کا ساقط ہونا بھی ایسے ہی جہاد سے متعلق ہے۔) بعض دوسرے علماء کا کہنا ہے کہ اس میں دونوں قسمیں شامل ہیں جو کوئی ان مسائل کو یا جہاد کے دوسرے مسائل کو جاننا چاہتاہو اسے چاہئے کہ فقہ سے متعلق کتابوں کی طرف رجوع کرے۔

جہاد سے فرار کے مسائل کی مناسبت سے مناسب ہے کہ حضرت امیر المومنین-کی جنگوں میں ثابت قدمی کا ذکر کیا جائے۔ جو کہ آپ کے فضائل ومناقب میں سے ہے۔ تاریخ شیعہ وسنی میں کہیں یہ بات نہیں ملتی کہ حضرت علی نے کسی بھی میدان جنگ سیراہ فرار اختیار کی ہو خاص طور پر غزوہ احد میں صرف وہ ہستی کہ جس نے راہ فرار نہیں کیا وہ احضرت علی کی ذات تھی۔ چنانچہ بحاالانوار کی نویں جلد میں باب شجاعت میں ابن مسعود سے حضرت علی کے بارے میں ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ کہ وہ چودہ افراد جو راہ فرار اختیارکرنے کے بعد دوبارہ پلٹ آئے اوررسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ مل گئے وہ ابودجانہ مقداد۔ طلحہ اور مصعب تھے اور اس کے سب انصار لوٹ آئے۔ یعنی یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دیا تھا اور تمام اصحاب نے راہ فرار اختیار کی فقط علی تھے جو مشرکین کی صفوں میں داخل ہوکر ان کے سروں کو اپنی تلوار سے جدا کرتے رہے۔

غزوہ احزاب میں حضر ت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حضرت علی کرار غیر فرار کا لقب دیا یعنی وہ شخص جو ہمیشہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے اور کسی بھی وقت فرار اختیار نہیں کرتا امام کے اس صفت سے متصف ہونے میں کوئی شک نہیں تاریخ شیعہ وسنی اس بات پر متفق ہے کہ ابو بکر  و عثمان  نے غزوہ خیبر وحنین وذات السلاسل میں راہ فرار اختیار کی اور ابن ابی الحدید اپنے مشہور قصیدے میں اس بات کر طرف اشارہ کرتا ہے۔

ولیس بنکر فی الحنین فراره وفی احد قد فرخو فا وخیبر ا

اس بات میں تعجب نہیں کہ روزحنین ابوبکر فرار کر گئے اور اس کے بعد غزوہ خیبر و احد میں بھی ڈر کر راہ فرار اختیار کی۔

ہجرت کے بعد اعرابی ہونا

وہ اٹھائیسواں گناہ کے جس کے کبیرہ ہونے کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ وہ ہجرت کے بعد اعرابی ہوناہے۔

چنانچہ اصول کافی میں گناہان کبیرہ کے باب میں صحیحہ ابن محبوب سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے خط میں امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے گناہان کبیرہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اس کے جواب میں ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کو گناہ کبیر میں شمار کیا اس کے علاوہ محمد بن مسلم حضرت جعفر صادق علیہ لاسلام سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت نے ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کو گناہان کبیر ہ میں شمار کیا ہے۔ اور وہ گناہان کبیرہ جو کتاب علی میں ہیں اس میں ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کو گناہان کبیرہ میں شمار کیا ہے۔اور اس کے علاوہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

التعرب بعد الهجرة والشرک واحد (اصول کافی باب الکبائر ج ۲ ص ۲۷۸)

ہجرت کے بعد اعرابی ہونا اور شرک ایک ہی قسم کا گناہ ہے۔

ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کا کیا مطلب ہے ؟

وہ صحرا نشین بدو جو مذہب اور اس کے آداب ورسوم سے بالکل بے خبر اور بے پرواہوں انہیں اعرابی کہتے ہیں۔ اور ہجرت یعنی اس کا صحرا نشینی کو ترک کر کے مرکز اسلام میں آنا اور پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) یا ان کے کسی وصی کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہونا اور دین خدا کا پابند ہونا اور دینی مسائل کو یاد کرنا ۔

اور ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ باتیں کہ جن کا سیکھنا ان کیلئے ضروری تھا ان کو سیکھنے سے پہلے ان اعرابیوں کااپنی سابقہ حالت یعنی جہالت و نادانی اور غفلت کی طرف پلٹ جانا ہے۔

آغاز اسلام میں وہ امور دینی کہ جن کا یاد کرنا ضروری تھا ان کے لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی طرف ہجرت کرنا واجب تھا ۔ اور ایسی صورت میں جبکہ مسلمان کافروں کے علاقے میں رہتے ہوئے اپنے اسلامی آدب و رسوم کی ادائیگی نہ کرسکتے ہوں مثلاً نہ نماز پڑھ سکتے ہوں نہ ماہ رمضان کے روزے رکھ سکتے ہوں اور نہ ہی دوسرے احکام دین انجام دے سکتے ہوں تو اس کا وہاں پر رہنا حرام تھا۔

تم ہجرت کیوں نہیں کرتے

تفسیرمنہج الصادقین میں لکھا ہے کہ مسلمانو ں میں سے کچھ لوگ مثلاً قیس بن جولید اور انہی کی طرح کے دوسرے افراد جو بظہر تو مسلمان تھے اور لا الہ الا اللہ پڑھتے تھے لیکن انہوں نے قدرت رکھتے ہوئے مکہ سے مدینہ ہجرت نہیں کی اور جب سرداران قریش رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے جنگ کے ارادے سے بدر کی طرف بڑھے تو یہ بھی ان کے ہمراہ تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تو اس موقع پر خدا وند عالم نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی

( ان الذین توفیهم الملائکة ظالمی انفسهم قالوافیم کنتم قالو ا کنامستضعفین فی الارض قالواالم تکن ارض اللّٰه واسعة فتها جرو افیها فاولئک ماوهم جهنم وسائت مصیرا ) (سورئہ النساء آیت ۹۹)

بے شک وہ لوگ کے جن کی روح فرشتوں نے اس وقت قبض کی جبکہ وہ (دارلحرب میں پڑے) اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے تو فرشتے قبض روح کے بعد حیرت سے کہتے ہیں تم کس حالت (غفلت) میں تھے تو وہ (معذرت کے بعد) کہتے ہیں کہ ہم روئے زمین میں بے کس تھے تو فرشتے کہتے ہیں کہ خدا کی (ایسی لمبی چوڑی) زمین میں اتنی گنجائش نہ تھی کہ تم (کہیں) ہجرت کر کے چلے جاتے (جیسا کہ بہت سے مسلمانوں نے حبشہ کی طرف کی تھی) پس ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ پس یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ایسے مقام سے کہ جہاں پر انسان کے لئے اسلامی طریقے سے زندگی گزارنا ممکن نہ ہو تو وہاں سے ہجرت کرنا واجب ہے۔

حضرت رسولِ خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے:

من فربد ینه من ارض الی ارض و ان کان شبر امن الا رض استو جب له الجنة و کان رفیق ابیه ابراهیم و نبیه محمد (منہج الصادقین ج ۳ ص ۹۳)

جو کوئی اپنے دین کی خاطر ایک سرزمین سے دوسری سرزمین کی طرف ہجرت کرے خواہ یہ ہجرت ایک بالشت برابر ہو تو خداوندِ عالم اس کے لئے بہشت واجب کر دیتا ہے اور اس کے رفیق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہوں گے۔

( الا المستضعفین من الرجال والنساء والولدان لا یستطیعون حیلة ولا یهتدون سبیلا فاولئک عسی الله ان یعفوعنهم وکان الله عفوا غفورا ) (سورئہ النساء آیت ۱۰۰)

مگر وہ مرد عورتیں اور بچے اس قدر بے بس ہیں کہ نہ تو (دارالحرب سے نکلنے) کی کوئی تدبیر کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو اپنی رہائی کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے تو امید ہے کہ خدا ایسے لوگوں سے درگزر کرے گا اور خدا تو بڑا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

عکرمہ سے روایت ہے کہ مکہ میں بہت سے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے مگر وہ ہجرت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے لیکن جب نہ کرنے والوں کی تنبیہ کے لئے آیت نازل ہوئی اور ان لوگوں تک پہنچی تو جندع بن ضمرہ نے اپنے بیٹوں سے کہا۔ اگرچہ میں بوڑھا اور بیمار ہوں لیکن میں ان بے بس و عاجز لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ جنہیں خدا نے ہجرت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے ابھی مجھ میں سکت باقی ہے اور میں مدینے کا راستہ بھی جانتا ہوں مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ میری اچانک موت واقع اور ترک ہجرت کی بنا پر میرے ایمان میں خلل واقع ہو پس میں جس تخت پر لیٹا ہوں تم مجھے اسی طرح باہر لے چلو اس کے بیٹوں نے اس کے حکم کی اطاعت کی اور اسی حالت میں اسے لے کر چلے لیکن جب وہ منزل تنعیم پر پہنچا تو اس پر موت کے آثار ظاہر ہوئے پس اس نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور کہا۔

اللهم هذا لک و هذه لرسولک ابا یعک علی ما یبا یعک علیه

( منہج الصادقین)

خدایا یہ ہاتھ تیرا اور یہ تیرے رسول کا میں تیری بیعت کرتا ہوں ان باتوں پر کم جس کے لئے تیرے رسول نے تیری بیعت کی اور اس کے بعد اس کی روح پرواز کر گئی اور جب اس کے مرنے کی خبر مدینہ پہنچی تو بعض صحابہ نے کہا اگر جندع مدینہ پہنچ جاتا تو اس کے لئے بہتر ہوتا کیونکہ اسے ہجرت کرنے کا ثواب مل جاتا پس خداتعالیٰ نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل کی۔

ومن یحرج من بیتہ مھا جر الی الله و رسولہ ثم ید رکہ الموت فقد وقع اجرہ علی الله و کان الله غفورا رحیما۔

جو شخص اپنے گھر سے جلا وطن ہو کر خدا اور اس کے رسول کی طرف نکل کھڑا ہوا اور راستے ہی میں اس کی موت واقع ہو جائے تو خدا پر اس کا ثواب لازم ہو گیا اور خدا تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔(سورئہ النساء آیت ۱۰۰)

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد اعرابی ہونا

بحکم خدا لوگوں کا احکام دینی کو سیکھنے کے لئے رسول خدا کی طرف ہجرت کرنا واجب تھا اور بالکل اسی طرح ان لوگوں کے لئے جو کافروں کے علاقے میں اپنے اسلامی آداب و رسوم مثلاً نماز و روزے کی ادائیگی نہیں کر سکتے تھے ان کے لئے بھی اس مقام سے ہجرت کرنا واجب تھا۔

اور ہجرت کا ترک کرنا یا ہجرت کے بعد پہلے والی حالت کی طرف لوٹ جانا حرام اور گناہانِ کبیرہ میں سے تھا کہ جس کے بارے میں خداوند عالم نے آتش جہنم کا وعدہ کیا ہے۔

حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بعد دینی احکام کو جاننے اور دین پر خدا کا پابند ہونے (جس میں اہم ترین امام کی معرفت ہے) کے لئے آئمہ کی طرف ہجرت کرنا واجب تھا تعرب یعنی امام کی معرفت اور وظائف دینی کو سیکھنے کے لئے امام کی طرف ہجرت نہ کرنا اور ہجرت کے بعد اعرابی ہونا یعنی امام کو پہچاننے کے بعد ان سے روگردانی اختیار کرنا چنانچہ شیخ حذیفہ بن منصور سے نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

المتعرب بعد الهجرة التارک لهذا الا مر بعد معرفته (معانی الاخبار ص ۷۷)

ہجرت کے بعد اعرابی ہونا امام کو پہچاننے کے بعد ان کی ولایت اور اطاعت کا انکار کرنا ہے۔

اس زمانے میں جبکہ امام زمان (عجل الله تعالیٰ فرجہ ) پردہ غیبت میں ہیں ہجرت کرنے اور ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کے وہی احکام ہیں جن کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔

ضروری ہے کہ ہجرت فقیہ کی طرف کی جائے

دو قسم کے لوگوں پر ہجرت واجب ہے۔ پہلی قسم کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو مسائل دینی سے غافل و بے خبر ہیں۔ اور جس جگہ پر وہ رہتے ہوں وہاں پر کوئی عالم دین نہ ہو کہ جس کی طرف رجوع کر سکیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے علاقے کی طرف ہجرت کریں کہ جہاں پر عالم دین موجود ہو اور اس تک رسائی ممکن ہو تاکہ وہ ضروری مسائل کو یاد کو سکیں۔

دوسرے وہ لوگ جو سرزمین کفر پر کفار کی رکاوٹیں حائل کرنے اور اذیتیں دینے کی بنا پر دینی آداب و رسوم کی ادائیگی نہیں کر سکتے ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ ایسے علاقے کی طرف ہجرت کریں جہاں پر مذہبی آزادی ہو۔ شیعہ فقہاء نے اس بات کو صراحتاً بیان کیا ہے۔

ضمناً جیسا کہ آیہ (الا المستضعفین) کی تشریح میں بیان کیا گیا ہے کہ ہجرت کرنا صرف اسی صورت میں واجب ہے کہ جب استطاعت رکھتا ہو اور اس کے لئے ممکن ہو لیکن بیماری غربت اور بہت زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے ہجرت کی طاقت نہ ہو تو اس کے لئے واجب نہیں۔

ہجرت کا واجب ہونا ہمیشہ کے لئے ہے

حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

لا ینقطع الهجرة حتی تنقطع التوبة ولا تنقطع التوبة حتی تطلع الشمس من مغربها (مسالک ج ۴ ص ۳۵۳)

ہجرت کا واجب ہونا اس وقت تک کے لئے ہے ۔ جب تک توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا اور توبہ کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ کرے (یعنی ہجرت کا حکم قیامت تک کے لئے ہے)

حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

والهجرة قائمة علی حدها الاول ماکان الله فی اهل الارض من حاجة ۔

ہجرت کرنے کا حکم جیسا کہ رسول خدا کے زمانے میں تھا انہی شرائط کے ساتھ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ خداوند عالم اہل زمین سے اطاعت اور بندگی چاہے یعنی جب تک انسان احکام شرعی کا مکلف رہے گا حکم ہجرت بھی باقی رہے گا۔

مکہ معظمہ سے دوسری جگہ ہجرت نہیں کی جاسکتی

کتاب مسالک میں شہید ثانی فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کا مطلب کہ (فتح کے بعد ہجرت نہیں ) اس سے مراد خصوصاً مکہ معظمہ سے ہجرت ہے۔ یعنی جب مکہ مشرکین کے قبضہ سے نکل کر اسلام کا مرکز بن گیا تو اب وہاں سے کسی دوسری طرف ہجرت کرنے کی کوئی وجہ نہیں لیکن دوسرے علاقے جہاں پر کفار کا قبضہ ہے اور مسلمان اپنے مذہبی رسوم کو ادا نہیں کر سکتے تو پس ان لوگوں کے لئے ہجرت کے واجب ہونے کا وہی حکم ہے بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ مکہ کے فتح ہونے کے بعد مکہ سے ہجرت کرنے میں کوئی فضیلت نہیں جیسے کہ فتح مکہ سے پہلے انفاق و جہاد کی فضیلت تھی اور جیسا کہ نص قرآنی ہے۔

( لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل ) (سورئہ حدید آیت ۱۰)

تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے (اپنا مال) خرچ کیا اور جہا د کیا (اور جس نے فتح کے بعد کیا ) وہ برابر نہیں۔ اس بات کی توضیح اور کامل فائدے کے لئے ہم ہجرت کے بعد اعرابی ہونے سے متعلق بعض مطالب کی طرف اشارہ کریں گے۔

واجب، مستحب اور مباح ہجرت

علامہ مجلسی کتاب منتھی میں فرماتے ہیں کہ ہجرت کی تین قسمیں ہیں۔ واجب، مستحب، مباح۔

ہجرت واجب

وہ مسلمان جو کافروں کے علاقے میں ان کی رکاوٹ کے باعث اپنے دین کو ظاہر نہ کر سکتا ہو اور نہ ہی وظائف دینی کو انجام دے سکتا ہو۔ اور ہجرت کرنے میں اس کے لئے کوئی عذر شرعی مثلاً مرض وغیرہ نہ ہو تو اس کا وہاں سے ہجرت کرنا واجب ہے (فرمان خدا کے مطابق جیسا کہ پیچھے گذر چکا ہے)

ہجرت مستحب

وہ مسلمان جو کافروں کے علاقے میں رہتے ہوئے اپنے دین کو ظاہر کر سکتا ہو اور وظائف دینی کو انجام دے سکتا ہو اور ہجرت کرنے میں اس کے لئے کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو تو اس کے لئے ہجرت کرنا مستحب ہے۔ اور اگر کوئی شرعی مجبوری ہو تو مستحب بھی نہیں بلکہ مباح ہے۔

اہل سنّت کے علاقے سے ہجرت نہیں ہے

شرح لمعہ اور جامع المقاصد میں شہید اول کی طرف نسبت دی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ وہ مسلمان جو کافروں کے علاقے میں مصیبت میں مبتلا ہو اور ہجرت کرنے پر قادر بھی ہو تو اس کے لئے واجب ہے کہ وہ ہجرت کرے اور اسی طرح وہ شیعہ جو اہل سنت کے علاقے میں الجھن و پریشانی کا شکار ہو اور اپنے مذہبی رسوم کو ادا نہ کر سکتا ہو تو ایسی صورت میں اگر قادر ہو تو اسے چاہئیے کہ وہ شیعہ علاقے کی طرف ہجرت کرے لیکن ان کا یہ فرمان درست نہیں کیونکہ شیعوں کو مخالفین کے علاقوں میں اپنے مذہبی رسوم ادا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں وہ آداب و رسوم جو صرف شیعوں سے مختص ہیں مثلاً ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا اور سر اور پیر کا مسح کرنا غالباً اہل سنت کے علاقے میں رہنے کا لازمہ یہ نہیں کہ ان امور کو ترک کرنا چاہیئے لیکن جب بھی عمل بجا لانے میں خطرے کا احتمال ہو تو تقیہ کرنا چاہیئے اور ضروری ہے کہ اہل سنت کی طرح عمل بجا لائے اور یقینا اس کا علم ہمارے مذہب کے مطابق ہو جس کی شہید کی طرف نسبت دی گئی ہے بلکہ آئمہ سے ایسی بہت سی روایت وارد ہوئی ہیں جس میں تقیہ پر زرو دیا گیا ہے اور اہل سنت سے حسن معاشرت اور ان کی جماعت میں شرکت کے لئے کہا گیا ہے۔

شہید کے فرمان پر استدلال

بعض علماء شہید کے اس فرمان کے صحیح ہونے کو اس حدیث سے ثابت کرتے ہیں کہ شیخ نے محمد بن مسلم سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو سفر کے دوران ایسی جگہ پہنچتا ہے کہ جہاں مٹی اور پتھر نہیں اور وہ تمام علاقہ برف سے ڈھکا ہوا ہو اور وہ مجنب بھی ہو تو اسے کیا کرنا چاہیئے۔ امام نے فرمایا اسی برف سے تیمم کرے اور نمازپڑھے میں اس کے لئے مناسب نہیں سمجھتا کہ وہ دوبارہ کسی ایسے علاقے کی طرف جائے جہاں پر اس کا دین اس کے ہاتھوں سے چلا جاتا ہے۔

کیونکہ اس حدیث میں امام نے ایسی جگہ کہ جہاں پر وضو و غسل نہیں کیا جا سکتا جانے سے منع فرمایا پس ضروری ہے کہ ایسی جگہ پر کہ جہاں انسان مذہب شیعہ کے مطابق غسل و وضو نہیں کر سکتا ہو نہ ٹھہرا جائے۔

لیکن یہ دلیل کافی نہیں کیونکہ بظاہر حدیث میں ایسی جگہ جانے سے منع کیا گیا ہے کہ جہاں انسان کو یقین ہو کہ وہاں جانے سے واجبات خدا میں سے کوئی واجب ترک ہوجائے گا جبکہ اس بات کا صرف احتمال ہے کہ اہل سنت کے علاقے میں تقیہ کرنا پڑے گا نہ کہ یقین اور اگر تقیہ میں اہل سنت کے مطابق عمل بھی کرنا پڑے تو تقیہ کے سلسلے میں جو دلائل دئیے گئے ہیں ان کے مطابق وہ عمل درست ہوگا ہاں اگر اہل سنت کے علاقے سے ہجرت کرنے میں زیادہ مصلحت ہو تو ہجرت کا مستحب ہونا بعید نہیں اگر وہ ان کے علاقے میں آئمہ کی ولایت کا اظہار نہ کر سکتا ہو تو ہجرت کرنا مستحب ہوگا۔

کفار کے علاقے میں تبلیغ ولایت

صماد السمندی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں مشرکین کے علاقے کی طرف جارہا ہوں اور مجھے وہاں رہنا پڑے گا۔ لیکن بعض مومنین مجھ سے کہتے ہیں کہ یہ کام اچھا نہیں کیونکہ اگر تمہاری موت اس علاقے میں واقع ہوگئی تو تم کافروں کے ساتھ محشور ہوگے۔ امام نے فرمایا اے صمادکیا تم ان کے علاقے میں ہم اہلبیت کی ولایت کا ذکرکرسکو گے اور لوگوں کی دین حق کی طرف رہنمائی کرسکو گے صماد نے کہا جی ہاں مولا وہاں پر مکمل آزادی ہے اور وہاں ے لوگ حق بات کو سنتے اور اسے قبول کرتے ہیں۔ امام نے کہا کیا کسی اسلامی علاقے میں رہتے ہوئے اتنی آزادی ہوگی کہ تم حق کو ظاہر کرسگواور لوگوں کو ہماری ولایت کی دعوت دے سکو صماد نے کہا نہیں مولا بلکہ ہمیں سخت تقیہ کرنا پڑتا ہے۔اور کسی میں بھی یہ جرات نہیں کہ آپ میں سے کسی نام لے سکے۔ امام نے فرمایا پس اگر کسی ایسے غیر اسلامی علاقے میں تمہاری موت واقع ہوجائے تو قیامت کے دن امت واحدہ میں محشور ہوگے۔ یعنی ایک آدمی ایک امت کے برابر ہوگا جیسے کہ حضرت ابرہیم کو امت قنتہ کہا گیا ہے۔ اور اس دن تمہارے ایمان کا نور تمہارے چہرے سے ہویدا ہوگا۔ (وسائل الشیعہ کتاب جہاد ص ۴۴۰)

شرح کافی میں علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ اس بات کا احتمال ہے کہ ہجرت کے بعد اعرابی ہونے سے مراد اعرابیت کو اختیار کرنا اور ہجرت کو ترک کرنا ہو۔ ہجرت کے واجب ہونے اور ہجرت کا حکم آنے کے بعد مثلاً (سود کا حرام سود کے حرام ہونے کا حکم آنے کے بعد) بہرحال ابتداء میں ہجرت کو ترک کرنا یا ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ اعرابی بن جانا وہ گناہ ہے کہ جس کے بارے میں خداوند عالم نے قرآن مجید میں جہنم کا وعدہ کیا ہے۔

اعرابیت اور ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کے موارد

شروع میں ذکر کیا گیا ہے کہ عرب کے بدو اور دیہاتی کو اعرابی کہتے ہیں۔ کیونکہ مرکز اسلام اور مسلمین کے اجتماع سے دوری کے سبب وہ دینی احکام نہیں سیکھ سکتے تھے نہ انہیں یاد کر سکتے تھے اور نہ ہی ان پر عمل پیرا ہوسکتے تھے اسی وجہ سے قرآن میں خدواند عالم نے ان کی مذمت فرمائی ۔

( الاعراب اشد کفرا ونفاقا واجد ران لا یعلموا حد ود ماانزل اللّٰه علی رسوله و اللّٰه علیم حکیم ) (سورہ توبہ آیت ۹۷)

عرب کے گنوار دیہاتی کفر ونفاق میں بڑے سخت ہیں اور اس قابل ہیں کہ جو احکام خدا نے اپنے رسول پر نازل فرمائے انہیں نہ جانیں اور خدا تو بڑا دانا حکیم ہے۔

اور اس کے علاوہ خدا نے فرمایا:

( ومن الا عرب من یتخد ما ینفق مغرما ویتر بص بکم الدوائر علیهم دائرة السوء و اللّٰه سمیع علیم ) (سورہ توبہ آیت ۹۹)

کچھ گنوار دیہاتی ایسے بھی ہیں کہ جو کچھ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں (زمانے کی ) گردشوں کے منتظر ہیں انہی پر زمانے کی بری گردش پڑے اور خدا تو سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

اس کے علاوہ دوسرے مقام پر ارشاد خداوندی ہے

( ومن الاعراب من یومن باللّٰه والیوم الاخرو یتخذ ماینفق قربات عند ا للّٰه وصلوات الرسول الا انهاقربة لهم سید خلهم ا للّٰه فی رحمته ان ا للّٰه غفور رحیم ) (سورہ توبہ آیت ۱۰۰)

کچھ دیہاتی تو ایسے بھی ہیں جو خدا اور آخرت پر ایمان رکیھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں (اسے خدا کی بارگاہ میں) تقرب اور رسول کی دعاوں کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ آگاہ ہوجاو کہ واقعی ان کی یہ نیکیاں ضرور ان کے تقرب کا باعث ہیں خدا بہت جلد انہیں اپنی رحمت میں داخل کرگا۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

احکام دین میں نادانی بھی اعرابیت ہے

وہ دو آیات جو اعراب کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا قابل مذمت ہونا ۔ صحرا نشینی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان میں ایمان کا نہ ہونا اور احکام دین کا نہ جاننا اور عمل سے بے بہرہ ہونا ان کی مذمت کا سبب ہے۔ جیسا کہ آیت سوم میں گزر چکا ہے لیکن وہ اعراب جو احکام و ایمان وعمل میں پورے اترے ان کی خدا نے مدح سرائی کی ہے اور ان کے لئے رحمت کا ودہ کیا ۔ اس بنا پر ہر وہ مسلمان جو احکام دینی حاصل کرنے اور شرعی مسائل کو یاد کرنے سے اجتناب کرے اور وہ دینی اجتماعات کہ جہاں پر حقائق ومعارف اوردینی مسائل کو سمجھایا جاتا ہے۔ وہاں سے دوری اختیار کرے تو دراصل وہ اعرابی ہے۔ اور وہی آیات جو اعراب کی مذمت میں نازل ہوئیں اس کے لئے بھی ہیں اگرچہ وہ شہری ہی کیوں نہ ہو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

تفقهو افی الدین فانه من لم یتفقه منکم فی الدین فهو اعرابی ان ا للّٰه عزّوجلّ یقول فی کتابه لیتفقهوا فی الدین ولینذروا قومهم اذا رجعوالیهم لعلهم یحذرون (بحارا الانوار کتاب العقل)

مسائل دینی سے آگاہ ہوجاوپس تم میں سے وہ شخص جو مسائل دینی کو نہ سمجھے وہ اعرابی ہے۔ جیسا کہ خدائے عزّو جلّ اپنی کتاب میں فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر جماعت میں کچھ لوگ کیوں نہیں نکلتے تاکہ وہ مسائل دین کو سمجھیں اور جب وہ واپس پلٹیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں شاید وہ لوگ ڈرجائیں(خداکی مخالفت کرنے سے )پس اس بنا پر اعرابی وہ ہے وجو ایمان اور وظائف دینی کو سمجھنے کی کوشش نہ کرے۔اس کے علاوہ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

علیکم بالتفقه فی دین ا للّٰه ولا تکونو اعرابافان لم یتفقه فی الدین لم ینظر اللّٰه الیه یوم القیمة ولم یزک له عملا (منیة المرید تالیف شہید ثانی ص ۳۰)

دین خدا سے آگاہی تمہارے لئے ضروری ہے۔ اور اعرابی نہ بنو کیونکہ اگر کوئی حکم الہٰی کو نہ سمجھے تو خدا وند عالم روز قیامت اس پر رحمت کی نظر نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کے عمل کو پاکیزہ بنائے گا۔

سیکھنے کے بعد عمل نہ کرنے والا بھی اعرابی ہے۔

محدث فیض کتاب وافی میں لکھتے ہیں کہ بعید جنہیں کہ شرعی آداب و سنت کوسمجھنے کے بعد اسے چھوڑدینے والے اور اس پر عمل نہ کرنے والے پر بھی اعرابی ہوناصادق آئے۔ اور اس بات کی تائید میں وہ اس حدیث کو جو کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے( باب التارک لھذالامر صفحہ ۱۵۳) میں نقل کی گئی ہے پیش کرتے ہیں ۔ اور علامہ مجلسی شرح کافی میں فرماتے ہیں ۔ کہ بعض فقہاء شیعہ کا کہنا ہے کہ ہجرت کے بعد اعرابی ہونا ہمارے زمانے میں وہ شخص جو علم حاصل کرنے کے بعد اسے ترک کر دے یعنی علم دینی سے بالکل علیحدہ ہوجائے وہ اعرابی ہے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

یقول الرجل هاجرت ولم یهاجر انما المهاجرون الذین یهجرون السیئات ولم یاتو ابهاویقول الرجل جاهدت ولم یجاهد انما الجهاد اجتناب المحارم ومجاهدة العدووقد یقا تل اقوام فیحبون القتال لا یریدون الاالذکر (بحارالانوار ج ۱۵ ص ۱۸۸)

ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے ہجرت کی حالانکہ اس نے حقیقت میں ہجرت نہیں کی چونکہ ہجرت کرنے والا صرف وہی ہیں جو گناہوں کو ترک کرتے ہیں۔ اور ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ اور کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے راہ خدا میں جہاد کیا درحقیقت وہ جہاد کرنے والوں میں سے نہیں کیونکہ جہاد توحرام کاموں سے دوری اختیار کرنا اور دشمن (باطنی) سے جنگ کرنا ہے۔ جبکہ بعض لوگ میدان جنگ میں خدا کی اطاعت ورضا کے لئے نہیں جاتے بلکہ ان کا مقصد صرف شہرت حاصل کرناہوتا ہے تاکہ وہ لوگ انہیں شجاعت وبہادری پر سراہیں۔

جہالت وغفلت کا صحر

اور وہ بات جو آیات واحادیث اور کلام فقہا میں گزری ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اعرابی ہونے سے مراد ہے کہ انسان جہل وبے خبری کے صحرا میں معارف الھیہ اور کمالات انسانی اور سعادت ابدی سے محروم رہے اور اس فانی دنیا کی چارہ روزہ زندگی اور خواہشات جنسی کے حصول ہی کو سب کچھ سمجھے۔ اور اسے سعادت ومعرفت کے حصول کی کوئی پرواہ نہ ہو اور ہر قسم کے گناہ اور برا کام جو کہ آخرت کے عذاب سبب بنے اس سے پرہیز نہ کرے اور ہر عمل خیر جو کہ ہمیشہ کے ثواب کا موجب ہو اس کی طرف توجہ نہ دے وہی اعرابی ہے۔ اور ہجرت اس کی برعکس کیفیت کا نام ہے۔ اور ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرنے متنبہ ہونے اور یاد دہانی کے بعد انسان ہجرت کرے دوبارہ اعرابی بن جائے۔یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان ایک عرصے تک نیک کاموں کو بجالاتارہے اور پھر اس کے بعد انہیں ترک کر دے ۔

ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کی حرمت کا حکم تب آئے گا جب کہ اعرابی ہونا بے اعتنائی اور سستی کی بناپر ہو نہ کہ غلطی یا رکاوٹوں کی وجہ سے ضروری ہے کہ ہر وہ نیک کام جسے انسان ایک عرصے تک انجام دیتا رہا ہو حتیٰ الامکان ترک نہ کرے۔

جابر جعفی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ انہوں نے فرمایا۔

انی احب ان ادوم علی العمل اذاعودته نفسی وان فاتنی باللیل قضیته بالنهاروان فاتنی بالنهار قضیته باللیل وان احب الاعمال الی ا للّٰه مادیم علیها فان الاعمال تعرض کل خمیس وکل راس شهر واعمال السنة تعرض فی النصف من شعبان فاذا عودت نفسک عمل قدم علیه سنة (بحاارالانور)

میں اس بات کوپسند کرتا ہوں کہ نیک کام کو انجام دیتا رہوں تاکہ میرے نفس کو اس کی عادت پڑجائے اور اگر وہ عمل دن میں مجھ سے چھوٹ جائے تو رات کو اس کی قضا کروں اور اگر رات کو چھوٹ جائے تو دن میں اس کی قضا کروں یقینا خدا کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جسے جاری رکھا جائے۔ پس ہر ہفتہ کے اعمال جمعرات کو اور ہر مہینے کے اعمال آخر ماہ کو اور ہر سال کے اعمال نصف شعبان کو امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں۔ پس جب بھی کسی نیک کام کا آغاز کرو تو اسے ایک سال تک جاری رکھو (یعنی کم از کم ایک سال تک بجالاتے رہو)

علوم د ین کوترک کرنا

علوم دینی حاصل کرنے کے بعد اسے جاری رکھنے کے بجائے ترک کردینا جیسا کہ گزرچکا ہے بعض بزرگوں نے اسے بھی ہجرت کے بعد اعرابی ہونیکی اقسام میں شمار کیا ہے۔ اور اس کا حرام ہونا اس صورت میں ہے کہ علم دین اس شخص کے لئے واجب عینی ہو جسکی تفصیل گزر چکی ہے۔ اور اس صورت کے علاوہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ اسے آخری عمر تک ترک نہ کرے جیسا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے۔

اطلبو العلم من المهد الی اللحد

گہوارے سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو۔

یعنی خلوص نیت اورقربت کے ارادے سے نیک کاموں میں مشغول رہے تاکہ وہ عظیم سعادتیں جو دنیا و آخرت میں ان نیک اعمال کو انجام دینے سے حاصل ہوتی ہیں ان سے محروم نہ ہو۔