گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110493
ڈاؤنلوڈ: 7308

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110493 / ڈاؤنلوڈ: 7308
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

جھوٹ

سترہواں ایسا گناہ جس کے کبیرہ ہونے کی صراحت موجود ہے۔ جھوٹ بولناہے۔ شیخ انصاری علیہ الرّحمہ کتاب " مکاسبِ محترمہ " میں فرماتے ہیں: "جھوٹ بولنا نہ صرف یہ کہ عقلی اعتبار سے یقینا حرام ہے، بلکہ تمام آسمانی ادیان، خصوصا ًاسلام کے لحاظ سے یہ حرام ہے نہ صرف قرآن ِمجید بلکہ احادیث اجماع اور عقل، ادلّہ اربعہ سے جھوٹ کا حرام ہونا ثابت ہے۔

فضل ابن شاذان نے حضرت امام علی رضا علیہ السَّلام سے جو گناہانِ کبیرہ کی فہرست نقل کی ہے اور اسِی طرح کی روایت اعمش نے امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے جو نقل کی ہے، ان دونوں میں جھو ٹ کو صاف الفاظ میں گناہِ کبیرہ بتایا گیا ہے۔

جھوٹ بڑے گناہوں میں سے ایک

حضرت رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے کہاَلَآ اُخْبِرُکُمْ بأَکِبَرِالْکَبَآئِر: اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰهِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَوْلُ الزُّوْر (وسائل الشیعہ) " آگاہ ہوجاو، مَیں تمھیں گناہانِ کبیرہ میں سے سب سے بڑے گناہوں کو بتاتا ہوں: کسی کو خدا کا شریک قرار دینا، والدین کے ذریعے عاق ہوجانا، اور جھوٹ بولنا!"

اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السَّلام سے مروی ہے کہ

جُعِلَتِ الْخَبَآئِثُ کُلّهَافَیْ بَیْتٍ وَّاحِدٍ وَجُعِلَ مِفْتَاحُهَا الْکِذْبَ

(مستدرک الوسائل ، کتاب حج، باب ۱۳۰) ۔

"تمام برائیاں ایک کمرے میں مقفّل ہیں اور اسکی چابی جھوٹ ہے!"

فرشتے لعنت بھیجتے ہیں

حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا :اِنَّ الْمُومِنَ اِذَاکَذِبَ بِغَیْرِ عُذْرٍ لَعَنَه سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ " مومن جب بغیر کسی عذر کے جھوٹ بولتا ہے تو اس پر ستّر ہزار فرشتے لعنت بھیجتے ہیں!! "وَخَرَجَ مِنْ قِلْبِه نَتِنُ حتّٰی یَبْلُغَ الْعَرْش "اور اس کے دِل سے ایسی سخت بدبو اٹھتی ہے جو عرش تک پہنچتی ہے!وَکَتَبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ بِتْلِکَ الْکِذْبَةِسَبْعِیْنَ زِنْیَةً اَهْوَنُهَا کَمَنْ زَنیٰ بِاُمِّه (کتاب مستدرک الوسائل) " اور اس ایک جھوٹ کے سبب سے خدا اس کے لئے ستّر مرتبہ زنا کرنے کے برابر کا گناہ لکھ دیتا ہے۔ اور وہ بھی ایسے زنا جن میں سے معمولی ترین زنا، ماں کے ساتھ (نعوذ بالله)ہو"

بے شک کوئی گناہ اتنا بڑا نہیں ہے جتناکہ جھوٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ جھوٹ کے نقصانات زنا کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ بعض جھوٹ ایسے ہوتے ہیں جو دو قبیلوں اور دو قوموں کو آپس میں لڑوا دیتے ہیں ۔ بعض جھوٹ ایسے ہوتے ہیں جو بے شمار جانوں اور ان گنت عصمتوں کو ضائع کردیتے ہیں یاکم ازکم مالی نقصان کا اور انسانی اصولوں کی پامالی کا سبب بنتے ہیں۔ بعض جھوٹ ایسے ہوتے ہیں جو خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آئمہ ومعصومین (علیہم السلام) پر باندھے جاتے ہیں ۔ ظاہر ایسے جھوٹ بدترین گناہ ہیں ۔ بعض جھوٹی گواہیاں بے گناہ آدمیوں کو سولی پر چڑھا دیتی ہیں اور کئی گھرانے تباہ کردیتی ہیں اسی لئے ایک روایت میں ہے اَلْکِذْبُ شَرُّمِّنَ الشَّرَابِ " جھوٹ شراب سے زیادہ بڑی بُری ہے!"

جھوٹ کی مذمت میں آیات

سورئہ نحل میں ارشاد ہے( اِنَّمَایَفْتَرِی الْکَذِ بُ الَّذِیْنَ لَایُومِنُوْنَ بِآیَاتِ اللّٰهِ ) (سورئہ نحل ۱۶: آیت نمبر ۱۰۵) " جھوٹ بہتان تو بس وہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے!"

اورسورئہ زُمر میں ارشاد ہے( اَنَّاللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَکَذِبُ کَفَّارُ ) (سورئہ زُمَر ۳۹: آیت نمبر ۳) " بے شک خدا جھوٹ اور بہت ناشکرے آدمی کو ہدایت نہیں دیتا!"

اسِی طرح چند دیگر آیتوں سے استفادہ ہوتا کہ جھوٹا شخص خدا کی لعنت کا مستحق ہے اور خدا اس سے غضب ناک رہتا ہے۔ مثلاً( فَنَجْعَلْ لَٓعْنَةَاللّٰهِ عَلَی الْکاذِبِیْنَ ) (سورئہ آ لِ عمران ۳: آیت نمبر ۶۱) " پھر ہم جھوٹوں پر خُدا کی لعنت کے لئے بددُعا کریں گے!" اور مثلاً( اَنَّ لَعْنَةَاللّٰهِ عَلَیْهِ اِنَّ کَانَ مِنَ الْکاذبِیْنَ ) (سورئہ نور ۲۴: آیت نمبر ۷) اور اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے!"

گناہ کی مذمت اور اس کے نقصانات سے متعلق کئی آیت و روایات موجود ہیں مرحوم حاجی نوری علیہ الرَّحمہ نے اختصار کے طور پر اور آسانی سے یاد ہو جانے کے لئے چالیس موضوعات میں ان آیات وروایات کو تقسیم کر دیا ہے جو ہم پیش کر رہے ہیں۔

( ۱) جھوٹ،فسق ہے

سورئہ بقرہ میں ارشاد ہے( فَلَارَفَثَ وَلَا فَسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ) (سورئہ بقرہ ۲: آیت نمبر ۱۹۷)" پس حج میں نہ تو جماع کی اجازت ہے نہ فسق وفجور کی اجازت ہے۔ اور نہ ہی کسی جھگڑے کی اجازت ہے۔" اس آیت شریفہ میں فسق سے مراد جھوٹ ہے اور مثلاً سورئہ حجرات میں جھوٹے کو فاسق کہاگیا ہے۔ ارشاد ہے کہ( اِنْ جَا ئَکُمْ فَاسِقُ بِنبَاِفَتَبَیَّنُوْا ) (سورئہ حجرات ۴۹: آیت نمبر ۶)" اگر تمھارے پاس کوئی جھوٹا آدمی کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو۔" اس آیت میں ولید کو جاسق یعنی جھوٹا قرار دیاگیا ہے۔

( ۲) " قَوْلَ الزُّوْر" سے مُراد

بُت پرستی کے ساتھ جھوٹ سے پرہیز کا حکم دیا گیا ہے اور ارشاد ہے کہ( فَاجْتَنِبُ ا لرَّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ) (سورئہ حج ۲۲: آیت ۳۰) " پس تم ناپاک چیزوں مثلاً بتوں سے بچو اور لغو باتوں سے بھی بچو ۔" یہاں قَوَْلَ الزُّوْر یالغو باتوں سے مُراد جھوٹ ہے۔

( ۳) جھوٹ بولنے والا مومن نہیں ہوت

گزشتہ آیت شریفہ (سورئہ نحل ۱۶: آیت نمبر ۱۰۵) سے ثابت ہوتا ہے کہ جو جھوٹ بولتا ہے وہ مومن نہیں ہوتا اور جو مومن ہوتا ہے وہ جھوٹ نہیں بولتا ۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے " جھوٹ، بہتان وہی لوگ باندھتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے !" ظاہر ہے خدا کی آیتوں پر ایمان نہ رکھنے والاشخص مومن نہیں ہوسکتا۔

( ۴) جھوٹ اثم اور گناہ ہے

روایتوں میں جھوٹ کو "اِثم" یا "ذَنْب" (گناہ) بھی کہا گیا ہے۔ مثلاً حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جھوٹ پورا پورا اِثم اور گناہ ہے۔

( ۵) جھوٹا شخص ملعون ہے

جھوٹا شخص خدا کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے اور اس پر خدا کا غضب اور قہر نازل ہوتا ہے۔ مثلاً ارشاد ہے

( اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ کاَنَ مِنَ الْکاَذبِیْنَ ) (سورئہ نور ۲۴: آیت ۷)

" اور اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے۔"

( ۶) جھوٹے کاسیاہ چہرہ

پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا(قَالَ) اِیَّاکَ وَالْکِذْبَ فاِنّه یُسَوَدُّاْوَجْهَ (مستدرک الوسائل) " جھوٹ سے بجتے رہو، اس لئے کہ جھوٹ مُنْہ کالا کردیتا ہے!"

کتاب "حبیبُ السِّیرَ " میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ:

سلطان حسین میرزا خراسان اور زابلستان کا بادشاہ تھا۔ اس نے آذر بائیجان اور عراق کے بادشاہ سلطان یعقوب میرزا کے پاس اپناایک ایلچی بہت سی کتابوں اور دیگر تحفوں کے ساتھ روانہ کیا ۔ ان کتابوں میں" کلیاتِ جامی" رکھنے کا بھی اس نے حکم دے دیا تھا جو اس زمانے میں بہت پسند کی جاتی تھی ۔

امیر حسین ابیوروی نام ایلچی جلدی میں غلطی کر بیٹھا اور " کلیاتِ جامی" کی بجائے "فتوحاتِ مکّی" لے گیا۔ عراق کے بادشاہ نے اس کے ساتھ بہت شفقت آمیز سلوک کیا اور کہا: " اتنی طویل مسافت میں تم بہت اکتاگئے ہوگئے!" ایلچی کہنے لگا:" جی نہیں سلطان نے آپ کے لئے کلیاتِ جامی بھی بھیجی ہے راستے میں جب بھی پڑاوکرتا تھا تو اس کا مطالعہ کر کے محظوظ ہوتا تھا!" سلطان یعقوب نے پر اشتیاق سے وہ کتاب تحفوں میں سے منگوائی تو وہ موجود نہیں تھی ۔ اب ایلچی کا شرمنّدگی کے مارے بُرا حال ہوگیا۔ بادشاہ نے کہا تم کو شرم نہیں آئی ایسا جھوٹ کہتے ہوئے!"

ایلچی کہتا ہے کہ " میں انتہائی شرمندگی کے ساتھ دربار سے نکلا اور سلطان سے خط کا جواب لئے بغیر ہی اور راستے میں پڑاو کئے بغیر ہی خراسان پہنچ گیا! میرا جی چاہ رہاتھاکہ کاش مرجاتا مگر یہ جھوٹ نہ کہتا!"

( ۷) جھوٹ کا گناہ شراب سے بڑھ کر ہے

حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام کا ارشاد ہے :اِنَّ اللّٰهَ جَعَلَ لِشَرِّ اَقْفَالاً وَجَعَلَ مَفَاتِیْحِ تِلک َالاَقْفَال الشَرَابُ، وَالْکِذْبُ شَرُّ مِّنَ الشَّرابِ (اصولِ کافی، کتاب الایمان والکفر، جھوٹ کاباب) "بیشک خدانے تمام برئیوں کے کچھ نہ کچھ تالے بنائے ہیں اور ان تالوں کی چابی شراب ہے جب کہ جھوٹ شراب سے بدتر ہے!"

اگرچہ شراب عقل وہوش کو ختم کردیتی ہے لیکن جھوٹ نہ صرف عقل کو خبط کردیتا ہے بلکہ انسان کو اتنابے حیا اور بے غیرت بنادیاتا ہے کہ وہ ہر قسم کی شیطانیت پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ شرابی کی عقل جب کام نہیں کرئی ہے تو وہ چالاکی اور عیّاری نہیں دکھا سکتا، جب کہ آدمی جھوٹ بول کر چالاکی سے معاشرے کو شرابی سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا دیتا ہے۔

( ۸) جھوٹے کا بدبو دار مُنہ

مروی ہے کہ قیامت کے دِن ہر جھوٹے آدمی کے مُنْہ سے سخت بدبو آئے گی!

( ۹) ملائکہ کا اظہارِبیزاریا

بدبو اس قدر ہوگی کہ فرشتے تک جھوٹے شخص کے پاس نہیں جائیں گے اور اس سے دور ہٹیں گے۔ یہ بات صرف قیامت تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا میں بھی فرشتوں کو جھوٹے لوگوں کے مُنْہ سے بَدبو محسوس ہوتی ہے۔ حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ) میں ہے :اِنَّ الْعَبْدَ اِ ذَالکَذِبَ تَبَاعَدَعَنْهُ الْمَلَکُ مِنْ نَتْنِ مَا جَآءَ مِنْهُ (مستدرک الوسائل) " جب خدا کا کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کے مُنْہ سے اتنی بدبو آئی ہے کہ فرشتے اس سے دور ہٹ جاتے ہیں !"

جھوٹ کفر کا سبب

( ۱۰) خدا وندِتعالیٰ جھوٹے پر لعنت بھیجتا ہے، جس طرح کہ آیت مباہلہ اور آیت لِعان (سورئہ نور ۲۴: آیت ۷) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس سے پہلے ذکر ہوا۔

( ۱۱) مروی ہے کہ جھوٹے کے مُنْہ سے خارج ہونے والی بدبو عرش تک پہنچ جاتی ہے!

( ۱۲) یہ مروی ہے کہ عرش کو اٹھائے ہوئے خداکے مقرّب فرشتے جھوٹے پر لعنت بھیجتے ہیں!

( ۱۳) جھوٹ ایمان کو خراب کردیتا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السَّلام فرماتے ہیںعَنْ اَ بِیْ جَعْفَرٍ) اَلْکِذْبُ خَرَابُ اِلْایْمَانِ (کتاب "کافی ") "جھوٹ ایمان کو خراب کردینے والا ہوتاہے۔"

( ۱۴) جھوٹ ایمان کاذائقہ چکھنے سے آدمی کو محروم کردیتا ہے ۔ امام علی علیہ االسَّلام فرماتے ہیں(عَنْ عَلِّیٍ)لَا یَجِدُ عَبْدُ طَعْمَ الْاِیْمَانِ حَتَّی یَدْرُکَ الْکِذْبَ هَزْلَهُ وَ جِدَّه (کتاب "کافی") کوئی بندہ ایمان کا ذائقہ اس وقت تک چکھنے سے محروم رہتا ہے جب تک وہ جھوٹ کو ترک نہ کرے‘ خواہ وہ جھوٹ مذاق میں ہو یا سنجیدگی کے ساتھ!"

( ۱۵) روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ دلوں میں دشمنی اور کینے کا سبب بنتا ہے!

( ۱۶) جھوٹ کی وجہ سے آدمی کا اخلاق دیگر تمام انسانوں کی نسبت ذیادہ خراب ہو جاتا ہے۔ حدیثِ نبوی میں ہے:اَقَلُّ النَّاسِ مُرَوَّةً مَنْ کَانَ کَاذِبًا (مستدرک الوسائل) "مروت اور اخلاق کے اعتبار سے پست ترین آدمی وہ ہے جو جھوٹ بولتا ہو"

( ۱۷) مروی ہے کہ جھوٹ ایک ایسے گھر کی چابی ہے جس میں تمام برائیاں مقفّل ہیں!

( ۱۸) جھوٹ فسق و فجور ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مروی ہے کہاِیّاکُمْ وَالْکِذْبَ فَاِ نَّه مِنَ الْفُجُوْرِ وَهُمَا فِی النَّارِ (مستدرک الوسائل) "جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ یہ فسق و فجور کی ایک قسم ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنمی ہیں!"

( ۱۹) روایت میں ہے کہ ایک جھوٹ کے بدلے ستّر ہزار فرشتے جھوٹے آدمی پر لعنت کرتے ہیں!!

( ۲۰) جھوٹ منافق کی علامت ہے۔ رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ حدیث مستدرک الوسائل میں موجود ہے کہ : "منافق کی تین علامتیں ہیں: جھوٹ بولنا، خیانت کرنا اور وعدہ خلافی کرنا۔"

( ۲۱) جھوٹے شخص کا مشورہ شرعی لحاظ سے پسندیدہ نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیںلَا رَأْ لِکَذُوْبٍ (مستدرک الوسائل) "جھوٹے شخص کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے!"

( ۲۲) جھوٹ بدترین نفسیاتی بیماری ہے! امیرالمومنین حضرت علی علیہ السَّلام کا ارشاد ہے: وَ عِلَّةُ الْکِذْبِ اَقْبَحُ عِلَّةٍ(مستدرک الوسائل) "اور جھوٹ کی بیماری بدترین نفسیاتی بیماری ہے!

( ۲۳) جھوٹ شیطان کے ہاتھ کی زینت ہے۔ حدیثِ نبوی میں ہے کہاِنَّ لِاِبْلِیْسَ کُحُلاًوَّ لُعُوْقًاوَّ سُعُوْطاً "بیشک ابلیس سُرمہ بھی لگاتا ہے، انگلی میں چھلّا بھی پہنتا ہے۔ اور نسوار بھی استعمال کرتا ہے!"فَکُحْلُهُ النُّعَاسُ وَ لُعُوْقُهُ الْکِذْبُ وَ سُعُوْطُهُ الْکِبْرُ "پس اُس کا سُرمہ اونگھنا اور سستی کرناہے، اس کی انگلی کا چھلّا جھوٹ ہے اس کی نسوار غرور و تکبر ہے!"

( ۲۴) انسان جو چیزیں کماتا ہے اُن میں جھوٹ بدترین چیز ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہی کا ارشاد ہے:اَدْبَی الرِّبَا الْکِذْبُ (وسائل الشیعہ) "انسان کی بدترین کمائی جھوٹ کا سود ہے! " جی ہاں، گناہ کے اعتبار سے، آدمی جھوٹ بول کر سب سے زیادہ گناہ کما لیتا ہے!

( ۲۵)جَآءَ رَجُلُْ اِلَی النَّبِیّ ایک شخص نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا۔فَقَالَ: مَا عَمَلُ اَهْلِ النَّارِ اس نے دریافت کیا " ایسا کون سا عمل ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کہ جہنمی بنا دیتا ہے؟" فَقَالْ: اَلْکِذْبُ آنحضرت نے جواب دیا۔ وہ "جھوٹ ہے!"اِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ فَجَرَوَاذٰافَجَرَ کَفَرَ وَاِذٰا کَفَرَ دَخَلَ النَّارَ (مستدرک الوسائل) " جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو ہر گناہ کے سلسلے میں بے باک ہوجاتا ہے، اور جب اتنا بڑھ جاتا ہے تو کفر کر بیٹھتا ہے اور جب کفر کر بیٹھتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتا ہے!"

جھوٹ نسیان اور بھول پیدا کرتا ہے

( ۲۶) امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں کہاِنَّ مِمَّآ اَعَانَ اللّٰهُ عَلَی الْکَذَّابِیْنَ اَلنِّسْیَانَ (وسائل الشیعہ) "بیشک بہت جھوٹ بولنے والوں کو خدا جو سزائیں دیتا ہے اُن میں سے ایک نسیان (اور بھول )کا مرض ہے! " پس آدمی جھوٹ بولتاہے اور بھول جاتا ہے کہ اُس نے جھوٹ بولا تھا۔ پھر اس کا جھوٹ پکڑا جاتارہتاہے، وہ رسواہوتا ہے مگر اپنی رسوائی کو چھپانے کی کوشش میں وہ جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے اور دوسرا جھوٹ بول کروہ پہلا جھوٹ نبھانے کی کوشش کردیتا ہے ۔لیکن وہ بھی بھول کر خود کو مزید رسوا کر دیتا ہے۔

( ۲۷) " جھوٹ، نفاق اور منافقت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہی۔"

جھوٹ بولنے والوں پر سخت عذاب

( ۲۸) جھوٹ بولنے والوں پر خاص قسم کے عذاب نازل ہوتے ہیں آقائے راوندی کی کتاب "دعوات" میں اس موضوع پر ایک طولانی حدیثِ نبوی موجود ہے جس میں آنحضرت شبِ معراج کا آنکھو ں دیکھا حال بیان فرماتے ہیں ۔ اسی میں فرماتے ہیں کہ:

" میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کو پیٹھ کے بَل لٹایا گیا ہے اور دوسرا شخص اس کے سَر پر کھڑا ہے۔ کھڑے ہوئے شخص کے ہاتھ میں ایک نو کیلا لوہے کا ڈنڈا ہے جس سے وہ لیٹے ہوئے شخص کو زخمی کردیتا ہے۔ اس کا مُنْہ گردن تک ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے! ڈنڈا اوپر ہوجاتاہے تو دوبارہ نیچے آنے سے پہلے وہ شخص ٹھیک ہوجاتا ہے اور بار بار اس عذاب سے وہ گذرتا ہے!"

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں میں نے پوچھا " اس کے عذاب کی وجہ کیا ہے؟"

بتایا گیا: " یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا تھا تو ایسا جھوٹ کہتا تھا جس سے دنیا کے لوگوں کو نقصان پہنچتا تھا۔ پس قیامت تک اس پر (مرنے کے بعد ) ایسا ہی عذاب ہوگا!"

( ۲۹) جھوٹا شخص نمازِ شب سے محروم رہتاہے اور اس طرح نمازِ شب سے حاصل ہونے والی برکتوں سے بھی محروم رہتا ہے اور اس کی ایک برکت رزق کی فراوانی ہے۔ شریفی ، حضرت جعفر صادق علیہ السَّلام سے نقل کرتے ہیں کہ:اِنَّ الرَّجُلَ لَیَکْذِ بُ الْکِذْبَ فَیَحْرُمُ بِهَا صَلٰوةُ اللَّیْلِ، فَاِ ذا حَرُمَ صَلٰو ةُ اللَّیْلِ حَرُمَ بِهَا الرِّزْقُ (بحارالانوار) " بے شک آدمی جب جھوٹ بولتا ہے تو اس کی وجہ سے نمازِ شب کی توفیق اسے حاصل نہیں ہوتی اور جب نمازِ شب کی توفیق نہیں ہوتی تو اس کی وجہ سے فراوانی رزق بھی نہیں ہوتی!"

( ۳۰) جھوٹ ہدایت سے محرومی کا اور گمراہی کا سبب ہوتا ہے آیت میں ہے اِنَّ اللَّٰہَ لَا یَھْدِیٰ مَنْ ھُوَکََاذِ بُ کَفَّارُ (سورئہ زمر ۳۹: آیت ۳) " بے شک خدا جھوٹے ناشکرے کو ہدایت نہیں دیتا!"

( ۳۱) جھوٹے سے انسانیت رخصت ہوجاتی ہے ! حضرت عیسی ابن مریم علیہ السَّلام کا ارشاد ہے مَنْ کَثُرَ کِذْبُہ ذَھَبَ بَھَآ ئُہُ (کتاب "کافی") جس شخص کا جھوٹ کثرت سے ہوتا ہے اس کی انسانیت رخصت ہوجاتی ہے ۔" پھر کوئی اُس سے مانوس نہیں ہوتا اور کوئی اس سے دِلی لگاو نہیں رکھتا!

( ۳۲) " جھوٹ سب سے زیادہ خبیث اور گندی چیز ہے!"

( ۳۳) جھوٹ ایک گناہِ کبیرہ ہے ، جس طرح کہ ثابت ہوچکا ہے۔

( ۳۴) جھوٹ ایمان سے دُور ہے، بلکہ اس کی ضد ہے پیغمبر ِاکرم فرماتے ہیں اَلْکِذْبُ مْجَانِبُ الْاَیْمَانِ (مستدرک الوسائل) " جھوٹ جتنا بڑھے گا ایمان اتناکم ہوگا!"

( ۳۵) سب سے بڑا گنہگار جھوٹا شخص ہے ! حدیثِ نبوی میں ہے کہ

ٍ مِنْ اَعْظَمِ الْخَطَیَا اَللَّسَّانُ الْکذُوْبُ (مستدرک الوسائل)

"ایک سب سے بڑا گناہ بہت باتونی اور بہت جھوٹے شخص کا گناہ ہے!"

( ۳۶) جھوٹا آدمی اپنے جھوٹ کی وجہ سے ہلاکت میں پڑجاتا ہے۔ پیغمبرِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں :اِجْتَنِبُوا لْکِذْبُ وَاِنْ رَأَیْتُمْ فِیْهِ النَّجَاةَ فَاِنَّ فِیْهِ الْهَلَکَةَ (مستدرک الوسائل) " جھوٹ سے پرہیز کرو ، اگرچہ تمھیں اس میں نجات نظر آرہی ہو، مگر در حقیقت اس میں ہلاکت ہوتی ہے!"

( ۳۷) جھوٹا آدمی دوستی کے اور بھائی بنائے جانے کے قابل نہیں ہوتا ۔ امیر المومنین علیہ السَّلام فرماتے ہیں: یَنبََغیْ لِلرَّجُلِ الْمُسْلِمِ اَنْ یَّجْتَنِبَ مُواخَاةَ الْکَذَّابِ "ہر مسلمان آدمی کو چاہیے کہ وہ بہت چھوٹے آدمی کے ساتھ دوستی اور برادری کا رشتہ نہ باندھے !"اِنَّه یُکَدَّبُ حَتَّی یَجِیْ َ بِا لصِّدْقِ فَلَا یُصَدَّقُ (وسائل الشیعہ) "اس لئے جھوٹے سے دوستی کرنے والے شخص کو بھی جھوٹا سمجھا جائے گا! حتّٰی کہ اگر وہ سچی بات بھی کرتے گا تو سچ نہیں مانا جائے گا!"

( ۳۸)( اِنِّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوِ مُسْرِفُ کَذَّابُ ) (سورئہ مومن ۴۰: آیت ۲۸) " بے شک خدا اسراف کرنے اور جھوٹ بولنے والے کو راہِ ہدایت نہیں دکھاتا!" جھوٹا شخص حق اور حقیقت سے دور رہتا ہے۔

( ۳۹) جھوٹا شخص صرف دیکھنے میں انسان ہوتا ہے لیکن عالمِ برزخ میں اس کی صورت انسانی نہیں ہوتی۔ رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حضرت فاطمہ زہرا ء = کو حدیثِ معراج بناتے ہوئے فرمایا تھا: شبِ معراج میں نے ایک عورت کو دیکھا جس کا سر سُور سے ملتا جلتا تھا اور جس کا باقی بدن گدھے کی طرح کا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ فتنے اُٹھاتی تھی اور جھوٹ بولتی تھی!" (کتاب "عیون اخبار الرَّضا)

جھوٹ کے مختلف درجات

اگرچہ شہیدِ ثانی علیہ الرحمہ کی طرح مجتہدین کا ایک گروہ جھوٹ کو، خواہ وہ کیسا ہی ہو، مطلق طور پر گناہِ کبیرہ قرار دیتا ہے، لیکن روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ کے مختلف درجات ہیں۔ اُن میں سے بعض یقینا کبیرہ ہیں، بعض جھوٹ سب سے بڑے گناہِ کبیرہ ہیں، اور بعض جھوٹ البتّہ ایسے بھی ہیں جن کے گناہِ کبیرہ ہونے میں شک ہے۔ اب ہم جھوٹ کے مختلف درجات ایک ایک کر کے بیان کر رہے ہیں۔

اللّٰہ، رسول اور امام کے خلاف جھوٹ

بدترین قسم کا جھوٹ خدا، رسول اور امام کے خلاف جھوٹ ہے۔ سورئہ نحل میں ارشاد ہے( وَلَا تَقُوْالِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ هٰذَا حَلٰلُ وَ هٰذَا حَرَامُ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللهِ الْکَذِبَ اِنَّ الَّذَیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ o مَتَاعُ قَلِیْلُ وَّلَهُمْ عَذَاٰبُ اَلَیْمُ ) (سورئہ نحل ۱۶: آیت ۱۱۶ اور ۱۱۷) " اور جھوٹ موٹ جو کچھ بھی تمہاری زبان پر آئے نہ کہہ بیٹھا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ اس طرح تو تم خدا پر جھوٹ بہتان باندھو گے۔ بیشک جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔ (دنیا میں) فائدہ تو ذرا سا ہے لیکن (آخرت میں) اُن کے لئے دردناک عذاب ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں(قَالَ) اَلْکِذْبُ عَلَی اللهِ وَ عَلیٰ رَسُوْلِه مِنَ اْلکَبَآئِرِ (کتاب کافی) خدا پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر جھوٹ باندھنا گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔"

اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے ابو نعمان سے فرمایا تھا: لَا تَکْذِبْ عَلَیْنَا کِذْبَةً فَتَسْلُبُ الْحَنِیْفِتَةَ (کافی) یعنی " ہم پر ایک جھوٹ بھی مت باندھو کیوں کہ اس طرح جھوٹ تمھیں اسلام جیسے خاص دین سے خارج کر دے گا۔" یعنی اماموں پر ایک جھوٹ بھی باندھنے سے ایمان کا نور دل سے ختم ہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹ اتنا شدید ہے کہ اگر جان بوجھ کر روزے کی حالت میں باندھا جائے تو روزہ باطل ہو جاتا ہے۔

جھوٹ خواہ کیسا بھی ہو

جھوٹ خواہ کیسا بھی ہو اور کسی انداز میں ہو تو حرام ہے۔ جس طرح زبان سے جھوٹ کہنا حرام ہے اُسی طرح قلم سے جھوٹ لکھنابھی حرام ہے۔ بلکہ ایساا شارہ انگلی یاسر وغیرہ سے کرنا بھی حرام ہے جو جھوٹا ہو۔ مثلاً نماز نہ پڑھنے والے آدمی سے کوئی پوچھے کہ کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے تو اگر وہ سرسے ہاں کا اشار ہ کرئے تو یہ بھی جھوٹ اور گناہ ہے۔ اسی طرح یہ جانتے ہوئے کہ دوسرا آدمی جھوٹ بول رہا ہے، اس کے جھوٹ کو مزید پھیلانا اور اُس کی تائید کرنا حرام ہے۔

آیات واحادیث کو اپنے مطلب میں ڈھال لینا

خدا، رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور معصومین (علیہم السلام)کے خلاف جھوٹ باندھنے کے معنی یہی ہیں کہ آدمی کسی بات کی جھوٹی نسبت اِن حضرات میں کسی کودے۔ مثلاً پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جو بات نہیں کہی ہو، یہ جانتے بوجھتے بھی کہے کہ یہ پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا ہے، یا یہ جانتے ہوئے بھی کہ عربی کا فلاں جملہ آیت نہیں ہے، یہ کہہ دے کہ یہ آیت قرآنی ہے۔ اِسی طرح آیات واحادیث کے حیقیقی معنوں یا ظاہری معنوں کے برخلاف کوئی معنی اپنے مطلب کے مطابق کرنابھی حرام ہے۔ یا غلط ترجمہ کرے۔

ہرکسی کے بس کی بات نہیں

اسی لئے منبر پر تقریر کرنایا کہیں اور آیا ت وروایات کا ترجمہ کرنا ان کی تشریح کرنا ہر کسی کا کام نہیں ہے یہ بہت خطرناک موقع ہوتا ہے اور کافی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مقرر عربی قواعد مکمل طور سے پڑھاہوانہ ہو اور اُسے آیات وروایات کی ظاہری مطالب سمجھنا آتانہ ہو تو وہ خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر جھوٹ باندھنے سے بچ نہیں سکتا۔ اِسی لئے مقرّروں کو چاہئے کہ وہ کافی احتیاط کریں اور آیات کا وہی معنی بتائیں جو واضح اور ظاہر ہوں ۔ خاص طور پر متشابہ آیتوں کے ترجمہ وتشریح سے پرہیز کریں۔

خدا کے خلاف جھوٹ کا ایک مقام

خدا پر جھوٹ باندھنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آدمی ہے کہ آدمی اپنی جھوٹی بات کو سچ ظاہر کرنے کے لئے کہے کہ " خدا شاہد ہے کہ میں سچ کہہ رہا ہوں یا یہ کہے کہ خدا جانتا ہے کہ میں سچ کہہ رہاہوں۔امام جعفر صادق علیہ السَّلام کا ارشاد ہے کہ:

مَنْ قَالَ عَلِمَ اللّٰهُ مَالَا یَعْلَمُ اِ هْتَزَّلَهُ الْعَرْشُ اِعْظَا مًا لِلّٰهِ عَزَّوَجَلَّ (کافی) " جو شخص کہے کہ خدا جانتا ہے " حالانکہ خدا اُس کے برخلاف جانتا ہو تو خدا کی عظمت اور اس کا جلال دیکھ کر عرش کانپ اٹھتا ہے!" ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں کہ:اِذَا قَالَ الْعَبْدُ عَلِمَ اللّٰهُ وَکَانَ کَاذِبًاقَا لَ اللّٰهُ تَعَالٰی جب کوئی بندہ کہتا ہے کہ " خدا جانتا ہے " : حلانکہ وہ جھوٹ کہہ رہا ہو تو خدا تعالیٰ اس سے کہتا ہےاَمَاوَجَدْتَّ اَحَدًا تَکْذِ بُ عَلَیْهِ غَیْرِ یْ ؟ (وسائل الشیعہ ، کتاب الایمان باب ۵) یعنی " تمہیں میرے علاوہ کوئی اور نہیں ملا۔ جس پر تم جھوٹ باندھ سکو؟"

بعض روایتوں میں ہے کہ جب بندہ کسی جھوٹ بات پر خدا کو گواہ بناتا ہے تو خدا وندِ عالم اس سے فرماتا ہے " تمہیں مجھ سے کمزور اور کوئی نہیں ملا جو اِ س جھوٹ پر تمہارا گواہ بن سکے؟"

پیغمبروامام کے خلاف جھوٹ

پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امام (علیہ السلام)پر جھوٹ باندھنا یہ ہے کہ آدمی اپنی جانب سے کوئی حدیث گھڑے اور اُن سے منسوب کردے۔ اِسی طرح کوئی جعلی حدیث جانتے بوجھتے صحیح حدیث قرار دے دے۔ البتہ اگر قرائن میں موجود ہوں کہ حدیث صیحح ہو تو اُسے معصوم سے نسبت دی جاسکتی اور نقل کیا جاسکتا ہے۔

روایات کوسند کے ساتھ نقل کریں

البتہ کتابوں میں ایسی بہت حدیثیں ملتی ہیں جن کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ صحیح ہیں یا جعلی۔ اگر ایسی حدیثیں بیان کرنی ہوں تو کتاب کا یاراوی کا حوالہ دے کر بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ نقل کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیئے کہ حدیث میں ضروریاتِ دین کے برخلاف کوئی بات نہ ہو ۔ اگر ضروریاتِ دین کے خلاف بات ہو تو حدیث یقیناً جعلی ہوگی ۔ اسی طرح امام اور معصوم کی توہین کا اس میں کوئی پہلو نہیں ہونا چاہئے اسی طرح کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جس کو عقلِ سلیم تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ اور احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ صرف ایسی ہی کتابوں سے آدمی احادیث نقل کرے جو معتبر ہوں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام فرماتے ہیںوَلَاتُحَدِّثْ اِ لَّاعَنْ ثِقَةٍ فَتَکُوْنَ کَذَّابًا وَالْکِذْبُ ذُلُّ (کشف المحجہّ)یعنی " اور کسی معتبر آدمی کے سوا کسی اور سے حدیث نقل مت کرو رنہ تم بہت بڑا جھوٹ کہہ بیٹھو گے ۔ اور جھوٹ خدا اورمخلوقِ خدا کے سامنے ذلّت کا باعث ہی ہوتا ہے۔"

حضرت امیرالمومنین علی علیہ السَّلام نے حارث ہمدانی کو جو خط لکھا تھا اس میں یہ نصیحت بھی فرمائی تھی کہوَلَا تُحَدِّثِ النَّاسَ بِکُلِّ مَا سَمِعْتَ فَکَفٰٰی بِذَالِکَ کِذْبًا (نہج البلاغہ) " ہر سُنی سنائی بات لوگوں سے نہیں کہہ دیا کرو جھوٹ بولنے کے سلسلے میں یہی کافی ہے۔"

اسی طرح حدیث کو من وعن نقل کرنا چاہئے ۔ نہ ایک لفظ اپنی طرف سے بڑھانا چاہیئے اور نہ ایک لفظ کم کرنا چاہیئے اِسی طرح کوئی لفظ بدلنا بھی نہیں چاہیئے، ورنہ اِن تمام صورتوں میں معصومین پر بہتان ہوجاتا ہے۔

رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیںمَنْ قَالَ عَلَیَّ مَا لَمْ اَقُلْ فَلْیَتَبَوَّءْ مَقْعَدُه مِنَ النَّارِ (وسائل الشیعہ) " جو شخص مجھ سے ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو تو وہ جہنم میں بیٹھے گا!"

آقائے نوری کی کتاب دارالسلام میں لکھا ہے کہ ایک شخص عالمِ باعمل ، کتاب مقامِع کے مصنّف ا ٓقائے محمدعلی کے پاس کر مان شاہ میں پہنچا ۔ اُس نے کہا: " میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اپنے دانتوں سے حضرت امامِ حُسین علیہ السَّلام کا گوشت نوچ رہا ہوں ۔اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟" آقائے محمد علی کچھ دیر سَر جُھکائے فکرمند بیٹھے رہے اور پھر فرمایا: " شاید آپ مجلس پڑھتے ہیں اور ذکر مصائب کرتے ہیں۔" اُس شخص نے کہا " جی ہاں" اُنھوں نے فرمایا یا تو یہ سلسلہ ترک کردیجئے یا معتبر کتابوں سے نقل کرتے ہوئے پڑہیئے۔ "

کتاب شفاء ُ الصّدُور میں لکھا ہے کہ آیت اللہ الحاج محمدابراہیم کلباسی کے حضور ایک عالم مجلس پڑھ رہے تھے۔ وہ بتارہے تھے کہ حضرت امام حُسین علیہ السَّلام نے فرمایا: " یا زینب یازینب" یہ سُن کر آیت اللہ کلباسی نے بآوازِ بلند فرمایا: "خدا تیرا منہ توڑ دے ! امام نے یازینب دو مرتبہ نہیں فرمایا تھا، بلکہ ایک مرتبہ فرمایا تھا!"

( ۱) روایت کے مضمون کو بیان کرنا

البتہ حدیث یا آیت کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کرنا جائز ہے لیکن اِس کی شرط یہ ہے کہ حدیث نقل کرنے والا شخص نہ صرف یہ کہ عربی سے اچّھی طرح واقف ہو بلکہ اُسے مراد سمجھنے کا فن بھی آتا ہو ۔ خلاصہ یہ کہ حدیث کے ظاہری معنی اپنے الفاظ میں بیان کرنا جائز ہے۔

البتہ اگر معصوم کی شان کے خلاف محسوس نہ ہو تو نظم کو نثراور نثر کو نظم میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ماضی کے واقعات کو زبانِ حال میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہنا ہو کہ ایک شخص امام کی خدمت میں حاضر ہواتو امام نے اس سے فرمایا، تو زبانِ حال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک شخص امام کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور امام اُس سے فرماتے ہیں البتہ سامعین کو معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ زبانِ حال ہے۔ اسی طرح اگرحدیث میں ہوکہ امام نے منع فرمایا تو اپنے الفاظ میں ایسا کہنا جائز ہے کہ امام نے فرمایا ایسا مت کرو۔

( ۲) جھوٹی قسم اور گواہی سے اجتناب

جھوٹ کا ایک اور درجہ یہ ہے کہ جھوٹی قسم کھائی جائے ، جھوٹی گواہی دی جائے یاشرعی عدالت میں گواہی چھپائی جائے ۔ یہ بھی ایسا جھوٹ ہے جس کے گناہِ کبیرہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اِن میں سے ہر ایک کا تفصیلی بیان انشاء اللہ آنے والا ہے۔

( ۳) جھوٹ کے مُضر اثرات

ایسا جھوٹ یقیناًگناہِ کبیرہ ہے جس کے مضراثرات ہوں، اور دوسروں کو جس سے نقصان پہنچے۔ اگر نقصان بڑا ہو تو گناہ بھی اُسی کی مناسبت سے زیادہ ہے۔ مثلاً جھوٹبولنے سے اگر کسی کا مالی نقصان ہوتا ہو تو اس کا گناہ ایسے جھوٹ سے یقیناکم ہے جس کے نتیجے میں جان ضائع ہوتی ہو۔

( ۴) ہنسی مذاق میں جھوٹ

جھوٹ کی ایک اور قسم مذاق میں جھوٹ بولنا ہے ۔ مثلاً ایک بھولے بھالے شخص سے کہا جائے کہ فلاں عورت تم سے شادی پر مائل ہے یا فلاں شخص نے آج رات تمھیں کھانے پر بلایا ہے جب کہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہ ہو۔ اِس قسم کا جھوٹ بھی حرام ہے چونکہ روایتوں سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ حرام ہے۔ البتہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اگر حقیقت کے خلاف بات مذاق میں اِس طرح کہی جائے کہ اس کا مذاق ہونا صاف ظاہر ہو۔ تو حرام نہیں ہے مثلاًایک غیر شادی شدہ آدمی سے مذاق میں کہا جائے کہ دیکھو تمہاری بیوی جارہی ہے تویہ حرام نہیں ہے۔ اِس لئے کہ سُننے والوں کو اِس سے دھوکا نہیں ہوتا ۔ اگر دھوکے میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو حرام ہے ۔ البتہ بعض مجتہدین مطلق طور پر مذاق میں جھوٹ بولنے کو حرام قرار دیتے ہیں خواہ اس کا مذاق ہونا ظاہر ہو یا ظاہر نہ ہو ، اور یہی احتیاط کا طریقہ ہے اور روایتیں بھی مطلق طور پر مذاق میں جھوٹ بولنے کومنع کرتی ہیں۔

جھوٹ سے مکمّل اجتناب

حضرت امام زین العابدین علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

اِتَقُوا لْکِذْبَ، اَلصَّغِیْرَمِنْهُ وَالْکَبِیْرَ فِیْ کُلِّ جِدٍّوَّهَزْلٍ (کافی)

" جھوٹ سے پرہیز کرو، خواہ وہ چھوٹاہو یا بڑا، خواہ وہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق میں۔"

حضرت امیرالمومنین علیہ السَّلام فرماتے ہیں:لَا یَحَجِدُ عَبْدُ طَعْمَ الْاِیْمَانِ حَتَّی یَتْرُکَ الْکِذْبُ جِدَّه وَهَزْلَه (کافی)

"کوئی بندہ اُس وقت تک ایمان کا ذائقہ چکھ نہیں سکتا جب تک وہ جھوٹ سے پرہیز نہ کرے، خواہ وہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق میں ہو ۔"

امیرالمومنین علیہ السَّلام ہی سے مروی ہے کہلَا یَسْلَحُ الْکِذْبُ جِدُّ وَ لَا هَزْلُ وَلَآاَنْ یَّعِدَاَحَدُکُمْ صَبِیَّه ثُمَّ لَا یَفِیْ لَه اِنَّ الْکِذبَ یْهِدیْ اِلیٰ الْفُجُوْرُیَهْدِیْ اِلیٰ النَّارِ (وسائل الشیعہ)

" جھوٹ میں بہتری نہیں ہے خواہ وہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق میں۔ اپنے چھوٹے بچّے سے بھی ایساوعدہ نہیں کرنا چاہیے جسے پورا کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ بے شک جھوٹ آدمی کو بے باکی سے بڑے بڑے گناہ کرنے پر اُکسادیتاہے اور وہ بڑے بڑے گناہ آدمی کو جہنّم میں پہنچادیتے ہیں۔"

رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حضرت ابوذر کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا(عَنْ اَبِیْ ذَرٍفَیْ وَصِیَةِ النَّبِیِّ لَه قَالَ) یَا اَبَاذَرِّمَنْ مَلَّکَ مَا بَیْنَ فُخْذَیْهِ وَمَابَیْنَ لَحْیَیْهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ، اِنَّ الرَّجُلَ لَیَتَکَلَّمَ بِالْکَلْمَةِ فِیْ الْمَجْلِسِ لِیَضْحَکَهُمْ بِهَا فَیَهِوِیْ فِیْ جَهَنَّمَ مَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ۔

"اے ابو ذر جو شخص اپنی شرم گاہ کو اور اپنی زبان کو حرام سے محفوظ رکھے گا وہ بہشت میں داخل ہوگا۔ جو شخص کسی جگہ لوگوں کو ہنسانے کے لئے ایک جھوٹی بات کہے گا تو وہی جھوٹی بات اس کو جہنّم کی طرف لے جائے گی!"

یَااَبَا ذَرٍ وَیْلُ لِّلَّذِیْ یُحَدِّثُ وَ یَکْذِبُ لِیَضْحِکَ بِه الْقَوْم وَیْلُ لَّه یَا اَبَا ذَرٍ مَنْ صَمَتَ نَجٰی فَعَلَیْکَ بِا لصُّمْتِ وَلَا تَخْرَجْنَ مِنْ فِیْکَ کِذْبَةُ اَبَدًا ۔

"اے ابوذر! وائے اُس پر جو بات کرتا ہو تو جھوٹ بولتا ہو تاکہ لوگوں کہ ہنساسکے۔ وائے ہو اس پر، وائے ہواس پر! اے ابوذر! جو خاموش رہا نجات پا گیا۔ پس جھوٹ بولنے کی نسبت خاموشی تمھارا فرض ہے اور تمھارے منہ سے کبھی بھی ایک چھوٹا سا جھوٹ بھی نہیں نکلنا چاہیئے۔

حضرت ابوذرکہتے ہیں(قُلْتُ) یَارَسُوْلَ اللهِ فَمَا تَوْبَةُ الرَّجُلِ الّذِیْ یَکْذِبُ مُتَعَمِّدًا؟

"یا رسول الله ! جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والے شخص کی توبہ کس طرح ہوگی؟

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جواب دیا

" قَالَ اَلَا ستِغْفَارُ وَ صَلٰواتِ الْخَمْسِ تُغْسَلُ ذٰلِکَ (وسائل الشیعه)

"استغفار اور پانچوں وقت باقاعدہ نماز سے یہ گناہ دھول جائے گا۔"

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) یہ بھی فرماتے ہیں :

(عَنِ الَّنبِی فِیْ بَیَنِ اِشْراطِ السَّا عَةِ وَیَکُوْنُ الْکِذْبُ عِنْدَهُمْ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِ وَلَوْ کَانَ مَازِحًا (کتاب جہاد)

"جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو اگرچہ اُس نے مذاق میں جھوٹ کہا ہو۔"

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) یہ بھی فرماتے ہیں :( عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہ)اَنَازَعِیْمُ بَیْتٍ فِیْ اعْلیَ الْجَنَّةِ وَبَیْتُ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّہِ وَبَیْتُ فَیْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَاءَ وَاِنَ کَا نَ مُحِقًا وَلِمنْ تَرَکَ الْکِذْبُ وَاِنْ کَانَ ھَازِلًا وَ لِمْنْ حَسُنَ خَلْقُہُ (کتاب "خصال")

" میں ضمانت دیتا ہوں کہ جنت کے اعلیٰ ترین درجے پر ایک گھر ہر ایسے شخص کو دلواوں گا، جو لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے اگرچہ وہ حق پر ہو ۔ اور جنت کے درمیانی ددرجے میں ایک گھر ہر ایسے شخص کو دلاوں گا جو جھوٹ سے پرہیزکرے، اگرچہ وہ مذاق میں ہوا ور جنّت کے باغ میں ایک گھر ہر ایسے شخص کو دلواوں گا جو اچّھے اخلاق والا ہو۔"

مذاق میں جھوٹ بولنا عام حالات میں گناہ تو ہے لیکن گناہِ کبیرہ نہیں ہے ۔ البتہ اگر مذاق میں جھوٹ بولنے سے کسی مومن کا دل ٹوٹ جاتا ہو، اس کو اذّیت پہنچتی ہو، جسمانی زحمت کا سامناکرنا پڑتا ہو یا اس کی بے عزتی ہوتی ہو تواِن صورتوں میں مذاق میں بھی جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ بن جاتا ہے۔

مبالغہ ، جھوٹ نہیں

عام بول چال میں جو مبالغہ ہوتا ہے وہ جھوٹ نہیں ہے ۔ مثلاً چند مرتبہ ایک بات بتانے کے بعد آدمی کہہ دیتاہے کہ میں نے تم کو سو مرتبہ یہ بتایاہے۔ ظاہر ہے اُس نے سو مرتبہ نہیں بتایااور یہ بھی ظاہر ہے کہ بتانے والے کی مراد سو عدد نہیں ہے بلکہ تاکید کرنا مقصد ہے اور یہ بتانا مقصد ہے کہ بہت زیادہ مرتبہ بتایا ہے۔

اِسی طرح مجاز، اور استعارہ کنایہ ہر قسم کا جائز ہے۔ خصوساً شاعری میں کوئی حرج نہیں ہے۔

کسی بھی جھوٹ کومعمولی نہیں سمجھنا چاہیئے

ایسا بہت دیکھا گیا ہے کہ جب میزبان کھانے کے لئے پوچھتا ہے تو مہمان تکلّف میں بھوکا ہونے کے باوجود کہتا ہے کہ " مجھے بھوک نہیں ہے" یہ صاف جھوٹ ہے! لوگ نادانی میں اِس جھوٹ کی پرواہ نہیں کرتے ہیں اورمعمولی چیز سمجھتے ہیں حالانکہ روایتوں میں اِس کی بھی مذّمت موجود ہے اور اس کا حرام ہونا شرعاً ثابت ہے۔

اسماء بنتِ عُمیَس کہتی ہیں کہ: عائشہ کی شادی کی پہلی رات رسولِ خدا نے دودھ کا ایک برتن مجھے دے کر فرمایاکہ " یہ عورتوں کو پینے کے لئے دے دو ۔" عورتوں نے کہا"ہمیں بھوک نہیں ہے۔" رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سُن کرفرمایا " بھوک اور جھوٹ، دونوں کو جمع مت کرو!"

اسماء نے پوچھا" یارسول ا للہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)! اگر ہم کو کسی چیز کی رغبت ہو مگر ہم کہیں کہ رغبت نہیں ہے تو کیایہ جھوٹ شمار ہوتا ہے؟" آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا :اِنَّ الکذْبَ لَکُکْتَبُ حَتَّ تُکْتُبَ اْلِکُذَیْبَةُ کَذِیْبَةً (سفینہ البحار جلد ۲ صفحہ ۴۷۳) " ہاں ، بیشک ہر قسم کا جھوٹ لکھا جاتا ہے،یہاں تک کہ چھوٹا چھوٹاجھوٹ بھی لکھاجاتاہے۔

اگر آدمی اخلاقاً کسی دوسرے شخص کو کہے ! " آئیے تشریف لائیے ہمارے گھر ۔" لیکن دِل میں چاہتا ہوکہ وہ گھر میں نہ آئے ، تو یہ جھوٹ نہیں ہے۔ اِس لئے کہ آئیے " ایک حکمیّہ اور انشائیّہ جملہ ہے، یعنی نہ تو اِس کو سچ کہہ سکتے ہیں اور نہ جھوٹ۔ البتہ ایسی دکھاوے کی خوش اخلاقی سے پرہیز احتیاط کا تقاضا ہے۔ در حقیقت دِل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ ہو، ایک قسم کی منافقت ہے۔

ایک دن حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام اپنے فرزنداسماعیل کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک چاہنے والا شخص آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ جب امام علیہ السَّلام اُٹھ کر اپنے مکان کے زنانے حصّے میں جانے لگے تو وہ شخص بھی اٹھ کر زنا نے حصّے کے دروازے تک آیا۔ امام علیہ السَّلام وہیں سے اُس رخصت ہوگئے۔ اندر آکر جناب اسماعیل نے امام سے پوچھا: آپ نے اخلاقی طور پر اُسے اندر آنے کے لئے کیوں نہیں کہا؟" حضرت نے فرمایا: اس کا اندر آنا مناسب نہیں تھا۔ میں نہیں چاہتاتھا کہ اس کو اند ر بلاوں اور یہ بھی پسند نہیں کرتا تھاکہ خدا مجھے ایسے لوگوں میں شمار کرے جو کہتے کچھ ہوں اور دِل میں چاہتے کچھ ہوں !

(بحارالانوار ، جلد ۱۲ ، مومن بھائی کی عزّت وناموس والے باب سے صفحہ ۲۴۱)

جھوٹا خواب

جھوٹ کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ آدمی کہے: " میں نے خواب میں ایسا ایسا دیکھا " یاکوئی خواب کو کسی اور سے منسوب کردے کہ فلاں نے دیکھا جو حقیقت نہ ہو ، یہ بھی جھوٹ ہے۔

حضرت رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ سب سے بڑے جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں۔

( ۱)اَنُ یَّدْعَی الَّرجُلُ اِلٰی غَیْرَاَبِیْهِ کسی شخص کو اس کے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کے نام سے پکارنا۔

( ۲)اَوْیَریٰ عَیْنَهُ فَیْ الْمَنٰامِ مٰالَمْ تَرَیٰا یا جھوٹ موٹ کاخواب بیان کرنا جو آنکھوں سے نہیں دیکھا ہو۔

( ۳)اَوْیَقُوْلُ مٰالَمْ اَقُلْ یا ایسی بات بتائے جو میری زبان سے جاری نہ ہوئی ہو۔

جھوٹ کی ایک قسم بنے بنائے قصّے گھڑناہے ۔ جن کی کوئی بنیاد نہ ہو اور جن کو حقیقت سمجھا جائے ۔ رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں (قَالَ رَسُوْلُ ا للّٰہِ) شَرُّالرِّوَایَة ِرِوَایَةُالْکِذْبِ (بحارالانوار، جلد ۱۵ صفحہ ۴۳) بدترین روایتوں میں سے ایک جھوٹی بات کا نقل کرنا ہے۔

مثال میں جھوٹ

کسی عقلی مطلب کو زیادہ ذہن نشین کرنے کے لئے اُسے مثال سے واضح کیا جاتاہے۔ کبھی جانوروں کی آپس میں گفتگو بتائی جاتی ہے۔ (مثلاً علامّہ اقبال کی ایک نظم میں گلہری پہاڑ کو غرور چھوڑدینے کی نصیحت کرتی ہے ۔) اِس سے کسی کو دھوکا نہیں ہوتا ، بلکہ فائدہ یہی ہوتاہے، اس لئے ایسی باتیں جائز ہیں ۔ اہلِ بیت علیہم السّلام سے نقل ہونے والی روایتوں میں بھی ایسی باتیں مل جاتی ہیں ِ اور ایسی روایتیں بھی موجود ہیں جن سے اس طرح مثال دے کرقصّے کہانی کی شکل میں نصیحت کرنے یا حقائق بتانے کی اجازت ملتی ہے۔

امام حسن (علیہ السلام) نے مثال بیان فرمائی

حضرت امام حسن (علیہ السلام) معاویہ کے دربار میں ایک دفعہ موجود تھے کہ ایک شخص نے امام (علیہ السلام)کے خلاف کچھ نازیبا جملے کہے۔ امام علیہ السَّلام نے جواب میں فرمایا : اے عمر ابن عثمان! تیری فطرت میں کتنی حماقت ہے کہ تو ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ تیری مثال اُس مچھر کی سی ہے جو خود کو بڑا سمجھ کر کجھورکے درخت پر بیٹھا تھا اور اُڑتے وقت اس نے درخت سے کہا تھا: مضبوطی سے جمے رہو، اب میں اُڑکر اُترنے والا ہوں!" درخت نے جواب دیا تھا: " میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ تم مجھ پرکب سے بیٹھے ہوئے ہو ۔ اب تمہارا یہاں سے اٹھنا مجھے کس طرح گراں ہوسکتاہے؟!"

جھوٹ سننا بھی حرام ہے

یہ بات جان لینی چاہیئے کہ جس طرح جھوٹ بولنا حرام ہے اسی طرح یہ جانتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے اسے سننا بھی حرام ہے ۔ جس طرح جھوٹ بات لکھنا یا پڑھنا حرام ہے اسی طرح جھوٹ بات نقل کرنابھی حرام ہے۔قرآنِ مجید میں یہودیوں اور منافقوں کی اسی بات پر مذّت ہوئی کہ وہ جھوٹی باتیں اِدھر سے اُدھر پھیلاتے ہیں ۔ مثلاً ارشاد ہے۔

"سَمَّاعُوْنَ لِلْکَذِبِ " جھوٹی باتیں سننے والے۔

شیخ صدوق نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے روایت کی ہے کہ امام سے پوچھا گیا:(سُئِلَ عَنِ الصَّادِقِ) أَیَحِلُّ الْاِسْتِمَاعُ لَهُمْ " کیا جھوٹے لوگوں کا جھوٹ غور سے سننا جائز ہے؟"

فَقَالَ لَامَنْ اَصْغٰی اِلَی ناطِقٍٍ فَقَدْعَبَدَه فَاِنُ کَانَ النّاطِقُ عَنْ الله فَقَدْ عَبدَ الله وَ انْ کَانَ الْنَاطق عَنْ اِبْلِیْسَ فَقَدْ عَبَداِبْلِیْسَ (کتاب اعتقادات) امام علیہ السَّلام نے فرمایا " نہیں ، جو شخص کسی بات کرنے والے کی بات شوق سے سنتا ہے تو اس کی مرضی کے مطابق عبادت کر بیٹھا ہے اگر بولنے والا خداکو مانتا ہے تو سننے والا خدا کی عبادت کرے گا اور اگر شیطان کی بات مانتا ہے توسنُنے والابھی شیطان کی عبادت کرے گا!" ایسی ہی ایک حدیث امام محمد باقر علیہ السَّلام سے بھی مروی ہے۔ جو کتابِ کافی میں موجود ہے۔ وَاجْتَنِبُوْا قَوَلَ الزُّوْرِ (سورئہ حج ۲۲ : آیت نمبر ۳۰) یعنی " بے ہودہ باتوں سے اجتناب کرو " اور وَاْلَّذِیْنَ لاَ یْشَھدُونَ الزّوْرَ (سورہ فرقان ۲۵ : آیت ۷۲) " یعنی " جولوگ بے ہودہ چیز کا تماشا نہیں دیکھتے ۔" ان جیسی آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ سننا بھی حرام ہے ظاہر ہے کہ جس جگہ آدمی جھوٹ بولتا ہے وہ معصیت اور خداکی نافرمانی کی جگہ ہوتی ہے، اور سننے والا شخص اِس معصیت میں شریک ہوجاتا ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ نہی عن المنکر کی رو سے بھی واجب ہے کہ جھوٹ کو جھٹلایا جائے تاکہ وہ جھوٹ سے پرہیز کرے۔

"توریہ" کیا ہے؟

توریہ کے معنی ہیں ایک ایسی بات کہنا جس کے دو معنی ہوں ۔ ایک معنی درست ہواوردوسرا معنٰی حیققت کے خلاف ہو ۔ اور کہتے ہیں کہ توریہ کرنے والا شخص درست معنی کا ارادہ کرتاہے جب کہ سنُنے والا حقیقت کے خلاف والا معنی سمجھ بیٹھتا ہے۔ مثلاً ایک ظالم شخص آپ کے گھر آتا ہے اور آپ کو گھرسے باہر بلواتا ہے آپ اُس سے بچنا چاہتے ہیں اور گھر میں چھپے بیٹھے رہناچاہتے ہیں تو ایسے میں آپ کے گھر کا فر دروازے پر جا کرکہہ سکتا ہے: "وہ یہاں نہیں ہیں ۔" اِس سے مرادیہ ہو کہ آپ اُس دروازے کے پاس نہیں ہیں ۔ یہ جائز ہے۔ اگرچہ ظالم سمجھے کہ آپ گھر میں نہیں ہیں۔

یاظالم شخص آپ سے کسی مظلوم کا پتّہ پوچھتا ہے تاکہ اُس پر ظلم کرے تو آپ اس کا پتہ معلوم ہونے کے باوجود کہہ سکتے ہیں کہ: " مجھے اس کا پتہ نہیں معلوم ۔" یہاں لفظ " اُس سے " مراد کوئی اور شخص لے سکتے ہیں جس کا پتہ آپ کو واقعی معلوم نہ ہو ۔

اِسی طرح اگر خدا نخواستہ آپ سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہو اور کوئی آپ سے پوچھ بیٹھے : کیاکبھی ایسا گناہ آپ سے سرزد ہوا ہے؟ " آپ یہ کہہ کر اپنی عزّت محفوظ رکھ سکتے ہیں: اَسَتْغَفِرُاللّٰہ! میں خدا کی پناہ مانگوں گا اگر ایسا گناہ کر بیٹھوں۔" اِسی طرح آپ کوئی حکّمیہ، انشائیّہ یا سوالیّہ جملہ کہہ سکتے ہیں ۔ مثلاً : " کیاآپ مجھ سے ایسی توقع رکھتے ہیں کہ ایسا گناہ کروں گا؟ " یا یہ دُعا کہہ سکتے ہیں کہ " خدا مجھے ایسے گناہ سے محفوظ رکھے ۔"

اِسی طرح آپ نے اگر کسی شخص کو اُس عیب بتایا اور وہ ناراض ہونے لگا تو یہ جھوٹ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ میں یہ عیب نہیں ۔ آپ اُسے منا نے کے لئے کہہ سکتے ہیں : " آپ کی شخصیت ایسی ہے کہ آپ کے بارے میں ایسی بات نہیں کہنی چاہیئے۔"

"توریہ" کا حکم

توریہ کی تین قسمیں ہیں :

پہلی قسم

پہلی قسم کا توریہ ہے کہ کوئی مصلحت در پیش ہو یا کسی نقصان سے بچنا مقصود ہو۔اِس کی مثالیں اوپر ذکر ہوئیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ توریہ کی یہ قسم جائز ہے۔

دوسری قسم

دوسری قسم کا توریہ ، یہ ہے کہ آدمی توریہ کرکے کسی دوسرے کو نقصان پہنچاناچاہتاہو، اُسے تکلیف دینا چاہتا ہو یا اس کی بے عزّتی کرنا چاہتاہو۔اِس میں شک نہیں کہ ایسا تو ریہ حرام ہے۔

تیسری قسم

تیسری قسم کا توریہ کچھ یوں ہے کہ اس میں نہ تو کوئی مصلحت ہو اور نہ ہی اُس سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچتا ہو۔ بعض مجتہدین نے فرمایا ہے کہ ایسی صورت میں توریہ حرام ہے ۔ اِس لئے کہ توریہ درحقیقت جھوٹ کی ایک قسم ہے اور جھوٹ کوجن دلیلوں سے حرام قرار دیا گیا ہے اُن ہی سے اِس تیسری قسم کا توریہ بھی حرام ثابت ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بات ہے کہ اِس قسم کے توریہ کوجائز قرار پاتا ہے اُنہی دلیلوں کے ذریعے ایسا توریہ بھی جائز قرار پاتاہے۔ اور ظاہرہے کہ توریہ جھوٹ نہیں ہے۔

بہرحال احتیاط کاراستہ یہی ہے کہ آدمی توریہ صرف وہاں کرے جہاں جائز ہونا یقینی ہو۔

وہ مقامات جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے

( ۱) جب بھی جان ،مال یاعزّت کو خطرہ لاحق ہو اور جھوٹ بولنے سے وہ خطرہ ٹل جاتا ہو تو ایسی صورت میں جھوٹ بولنا جائزہے۔ خواہ اپنی جان، مال یاعزّت کوخطرہ لاحق ہو یاکسی اور کی۔ یہاں تک کہ نقصان سے بچنے کے لئے اگر قسم بھی کھانی پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ بعض موقعوں پر جب بڑا نقصان سامنے ہو، مثلاًجان کو خطرہ لاحق ہو تو جھوٹ بول کر جھوٹی قسم کھاکر جان بچانا واجب ہوجاتاہے ۔ مثلاً جان کو خطرہ لاحق ہو تو جھوٹ بول کر جھوٹی قسم کھا کر جان بچانا واجب ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک ظالم شخص کسی مسلمان کو قتل کرنا چاہے ، اُسے مارنا پیٹناچاہے، اُس کی بے عزّتی کرنا چاہے، اُس کا قابلِ ذکر مال ضبط کرلیناچاہے یا اُسے جیل میں بند کردینا چاہے اور وہ آپ سے اُس کا پتہ پوچھے تو آپ پر واجب ہے کہ اُس کا پتہ نہ بتائیں، خواہ آپ کو جھوٹی قسم کھاکرکہناپڑے کہ اس کا پتہ نہیں معلوم۔

اِسی طرح اگر آپ کے پاس کسی کی امانت موجود ہے اور کوئی ظالم اس امانت کو موجود ہے اور کوئی ظالم اس امانت کو ہتھیالیناچاہتاہوتو آپ پرواجب ہے کہ آپ اُس امانت کی حفاظت کریں، خواہ آپ کوجھوٹ یا جھوٹی قسم کا سہارالینا پڑے۔

مسلمانوں کی نجات کے لئے جھوٹی قسم

مسلمانوں کی نجات کے لئے جھوٹی قسم کھانے کے حق میں کئی روایات موجود ہیں مثلاً شیخ انصاری اپنی کتاب "مکاسب" میں امام جعفرصادق علیہ السَّلام اور حضرت علی علیہ السَّلام کے وحوالے سے یہ حدیثِ نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ) نقل کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:(عَنْ جَعْفَرعَنْ آبَآئِه عَنْ عَلٍیّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ) اِحْلِفْ بِااللهِ کَاذِبًا وَنَجِّ اَخَاکَ مَنِ الْقَتْلِ (وسائل الشیعہ، کتاب الایمان جلد ۳ باب ۱۲)

"خدا کی جھوٹی قسم کھا بیٹھو لیکن اپنے مسلمان بھائی کو نا حق قتل ہونے سے بچا لو!۔"

اسماعیل ابنِ سعد کی صحیح حدیث میں ہے کہ اُنھوں نے کہا: میں نے امام علی رضا علیہ السَّلام سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو بادشاہ سے اپنا مال محفوظ رکھنے کے لئے جھوٹی قسم کھا بیٹھا ہو۔ امام علی رضا علیہ السَّلام نے فرمایا:قَالَ لا بَأْسَ "کوئی حرج نہیں ہے۔" وَسَئَلَتُہُ راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السَّلام سے پھر پوچھا:هَلْ یَحْلِفُ الرَّجُلُ عَلٰی هَالِ اَخِیْهِ کَمَا یَحْلِفُ عَلٰی مَالِ نَفْسِه؟

"اگر آدمی اپنے مسلمان بھائی کا مال ضائع ہونے سے بچانے کے لئے جھوٹی قسم کھائے، جس طرح کہ خود اپنا مال بچانے کے لئے کھائی ہو تو کیا جائز ہے؟ امام علی رضا علیہ السَّلام نے جواب دیا (قَالَ نَعَمْ) "ہاں" جائز ہے۔

(وسائل الشیعہ، کتاب الایمان، جلد ۳ ، باب ۱۲)

اورحضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں:فَاَمَّا الیَمِیْنُ الَّذِیْ یُوْجَرُ عَلَیْهَا الرَّجُلُ اِذَا حَلَفَ کَاذِبًا لَمْ تَلْزِمْهُ الْکَفَّارَةُ فَهُوَ اَن یَحْلِفَ الرَّجُلُ فِیْ خَلَاصِ اِمْرَءٍ مُّسْلِمٍ اَوْ خَلَاصِ مَالِه مِنْ مُتَّعَدِّ یَتَعَدّیٰ عَلَیْه مِنْ لُصٍّ اَوْغَیْرِه

"اگر کسی مسلمان شخص کو نجات دلانے کے لئے یا اُس کے مال کو کسی ظالم یا چور کے ہاتھ میں جانے سے بچانے کے لئے کوئی شخص جھوٹی قسم کھانے پر مجبور ہو تو نہ صرف یہ کہ جھوٹی قسم کا کفارہ ادا نہیں دینا پڑے گا بلکہ اُس کو بڑا اجروثواب ملے گا۔"(کتابِ فقیہ)

مالی نقصان اور جھوٹ

یہاں پر دو باتیں ذہن نشین کرلینی چاہئیں۔ ایک یہ کہ اگرچہ کہ مطلق طور پر ہر قسم کے نقصان سے بچنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے لیکن اگر مالی نقصان برداشت کرسکتا ہو تو مستحب ہے کہ آدمی نقصان برداشت کرے، لیکن جھوٹ نہ بولے، امیر المومنین علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:عَلَامَةُ الْایْمَانِ اَنَّ تُوثِرَ الصِّدْقَ حَیْثُ یَضُرُّکَ عَلٰی الْکِذْبِ حَیْثُ یَنْفَعُکَ (نہج البلاغہ)

"ایمان کی علامت یہ ہے کہ آدمی نقصان کے موقعے پر بھی سچ بولے اور فائدے کی خاطر بھی جھوٹ نہ بولے۔"

جہاں تک ہوسکے توریہ کریں

ایک اور بات ذہن نشین کرنے کے قابل یہ ہے کہ جن مقامات پر مجتہدین توریہ کو لازم سمجھتے ہوں اور توریہ سے کام چل جاتا ہو تو جھوٹ بولنے کی بجائے احتیاط یہ ہے کہ آدمی توریہ کرے۔

دو مومنوں میں جھوٹ کے ذریعے صُلح وصفائی

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا:

(عَنِ الصَّادِقِ) اَلْکَلَامُ ثَلٰثَهُ صِدْقُ و کِذْبُ وَاِصْلَاحُ بَیْنَ النَّاسِ، قِیْلَ لَه جُعِلْتُ فِدَاکَ وَمَا الْاِصْلَاحُ بَیْنَ النَّاسِ؟ قَالَ: تَسمَعُ مِنَ الرَّجُلِ کَلَامًا تُبْلِغُه فَتَنْحَبَتْ نَفْسُه فَتَقُوْلُ سَمِعْتُ فَلَانًا قَالَ فِیْکَ مِنَ الْخَیْرِ کَذَا و کَذَا

(وسائل الشیعہ، کتاب حج)

"کلام کی تین قسمیں ہیں: سچ، جھوٹ اور لوگوں کے درمیان صُلح کرانا۔

کسی نے پوچھا: "میں آپ پر قربان جاؤں، یہ لوگوں کے درمیان صُلح کیا چیز ہے؟" امام علیہ السَّلام نے فرمایا " تم ایک شخص سے کوئی بات سُنو اور اُس میں ترمیم کر کے کسی اور کو سناؤ کہ وہ تمہارے بارے میں بہت اچھی اچھی باتیں کر رہا تھا۔ (جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہو۔")

دوسروں کا سخت پیغام

خلاصہ یہ کہ اگر صُلح و صفائی کرنے میں دو آدمیوں کے درمیان موجود رنجش دور کرنے میں اگر جھوٹ کا سہارا بھی لینا پڑے تو ایسا کرنے کا حکم ہے اور اس سے آدمی جھوٹ کے گناہ میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اس قسم کی بات کو صُلح یا اصلاح کہتے ہیں۔ دوسروں کاسخت پیغام اگر آدمی کو پہنچا دے تو اس سے رنجش مزید بڑھ جائے۔

اسی طرح مثلاً میاں بیوی الگ ہوچکے ہوں اور طلاق کی نوبت آسکتی ہو تو آدمی جھوٹ بول کر بھی اُن کے درمیان صُلح و صفائی کرادے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ مثلاً شوہر سے جا کر کہے ! "تمہاری بیوی جُدائی سے بہت پریشان ہے اور تمہاری محبت کا اُسے شدت سے احساس ہورہا ہے کہ وہ بیمار پڑسکتی ہے۔" اِسی طرح بیوی کے پاس جاکر بھی ایسی ہی جھوٹ موٹ باتیں کی جا سکتی ہیں تاکہ صُلح و صفائی ہوجائے۔

لوگوں کے درمیان مصالحت

حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مروی ہے کہ "واجبات بجا لانے کے بعد سب سے اچھا عمل لوگوں کے درمیان صُلح و صفائی کرانے کے سوا کچھ نہیں ہے! یہ ایسا خیر ہے جو خیر کو دنیا میں پھیلاتا ہے۔"

حضرت امیرالمومنین علیہ السَّلام نے بتایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے وصیت کے موقع پر فرمایا :یَا عَلِیُّ اِنَّ اللهَ تَعَالٰی اَحَبَّ الْکِذْبَ فِی الصَّلَاحِ وَاَبْغَضَ الصِّدْقَ فِی الْفَسَادِ (وسائل الشیعہ، کتاب حج، باب ۱۴۱)

"اے علی! بے شک خدائے تعالٰے مُصالحت کی خاطر جھوٹ کو بھی پسند کر لیتا ہے اور دنگا فساد کی راہ میں سچ بولنے کو بھی سخت نا پسند کرتا ہے!"

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا یہ بھی ارشاد ہے کہ "لوگوں کے درمیان مصالحت کرنا، مصالحت کی فکر کرنا اور جھگڑے دور کرنا نماز روزے سے زیادہ افضل ہے۔"

ابو حنیفہ سائق الحاج کہتے ہیں کہ میرے درمیان اور میرے داماد کے درمیان ایک میراث کے سلسلے میں جھگڑا تھا۔ ابھی ہم جھگڑ ہی رہے تھے کہ حضرت امام جعفر صادق کے وکیل مفضّل کا اُدھر سے گذر ہوا۔ انھوں نے کچھ دیر رُک کر ہم دونوں کو اپنے گھر بُلالیا اور اپنے پاس سے چار سو درہم دے کر ہمارے درمیان جھگڑا ختم کرا دیا۔ پھر انھوں نے کہا! " یہ مال جو میں نے تمہیں دیا یہ میرا نہیں تھا بلکہ میرے مولا امام جعفر صادق علیہ السَّلام کا تھا۔انھوں نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ جب بھی میرے اصحاب میں جھگڑا ہوجائے تو میرے مال کے ذریعے اُن کا جھگڑا دور کردیا کرو!"

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ صُلح اور مُصالحت کتنی اہم چیز ہے؟۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا تھا کہ یہ کام نماز ، روزے سے زیادہ افضل ہے۔ حالانکہ عام طور پر یہ کام مستحب ہے، جب کہ نماز و روزہ واجب ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ نماز روزے سے آدمی کے ذات بہتر بنتی ہے۔ جب کہ مُصالحت کروانے سے پورا معاشرہ بہتر بنتا ہے اور پورے معاشرے میں اس طرح نماز روزہ عام ہوتاہے۔ مسلمانوں کا آپس میں مل جُل کر رہنا نہ صرف آخرت کے اعتبار سے اہم ہے بلکہ دینوی اعتبار سے بھی بہت مفید ہے۔ جب مومن کے دِل میں خدا کے خاطر ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں تو اتنی قوت پیدا ہوتی ہے کہ نہ صرف ظاہری دشمنوں سے مقابلہ ہوسکتا ہے بلکہ باطنی دشمنوں یعنی نفس اور شیطان سے بھی مقابلہ آسان ہوجاتا ہے۔

آبِ کُر اور اتحادِ قلبی

لوگوں کے قلبی اتحاد و اتفاق کی مثال آبِ کُر سے دی جا سکتی ہے۔ یعنی جب تک پانی کم مقدار میں مختلف برتنوں میں ہو اور برتن میں کُر کی مقدار سے کم ہو، تو جیسے ہی اس میں نجاست پڑے گی وہ فوراً نجس ہوجائے گا۔ لیکن جب انہی پانیوں کوایک بڑے ظرف میں ڈال دیا جائے اور وہ کُر کی مقدار تک پہنچ جائے تو اب وہ نہ صرف یہ کہ نجاست کے ملتے ہی نجس نہیں ہوگا بلکہ وہ نجس چیز آسانی سے پاک کر دے گا۔ بالکل اِسی طرح جب لوگ متحد ہوں گے ان کے متحد دلوں پر رحمتِ الہٰی واقع ہوگی اور ان سب کے دلوں پر پروردگارِ عالم مہربانی فرمائے گا تو اتحاد کا فائدہ ہر ایک کو پہنچے گا۔ اس کے علاوہ اس اتحادِ قلبی کے نتیجے میں اسلام کی شان و شوکت دوبالا ہو جائے گی۔

اسی طرح نمازِ جماعت کی فضیلت اور اس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ برادردینی کے ساتھ حسنِ سلوک، اس کی مدد اور اس کے ساتھ ایثار کرنے کا بڑا اجر ہے۔ اسی طرح مومن بھائی ملنے جلنے ، اس سے مصافحہ کرنے اور اس سے بوسہ لینے کا بہت ثواب بیان کیا گیا ہے۔ اور دو مومنوں کے درمیان صُلح کرانے کا انتہائی عظیم اجر ہے اور خدا کے لئے مومنوں سے دوستی رکھنے کا ثواب بیان کیا گیا ہے۔ ان تمام امور کے ثواب اور اس طرح اس جیسے دوسرے امور کے اجر و ثواب سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ تمام اُمور مومنوں کے قلبی اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے ہیں۔

جنگ میں جھوٹ

بعض روایتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کافروں سے جنگ میں جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان پر غلبہ حاصل ہو تو جھوٹ بولنا جائز ہے۔

اہلیہ سے وعدہ

البتہ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اگر وہ اپنی بیوی سے جھوٹا وعدہ نہیں کرے گا تو گھر میں لڑائی جھگڑا شروع ہوجائے گا یا اس کی بیوی سخت ناراض ہوگی یا خدانخواستہ جھوٹ نہ بولنے کے وجہ سے طلاق ہوجائے گی۔ تو پھر ایسی مجبوری کی صورت میں جھوٹا وعدہ کر لینا جائز ہے۔

خوفِ عذاب اور اعمالِ صالحہ

حضرت علی ابنِ ابی طالب علیہ السَّلام فرماتے ہیں کہ اِیَّا کُمْ وَالْکِذْبَ فَِأنَّ کُلَّ رَاجٍ طَالِبُ وَ کُلَّ خَآئِفُ ھَارِبُ (کتاب "کافی") "(ثوابِ الٰہی اور عذاب سے مغفرت کی امید پر) جھوٹ بولنے سے بچو! کیونکہ جب کوئی شخص کسی چیز کی امید کرتا ہے تو اسے حاصل کرنا چاہتا ہے (یعنی اس کے حصول کے لئے ویسے کام بھی کرتا ہے۔) اسی طرح جب کوئی شخص کسی چیز سے ڈرتا ہے تو اس چیز سے دوری اختیار کرتا ہے۔"

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السَّلام اس بات کو واضح فرمارہے ہیں کہ اگر کسی کو واقعاً ثواب حاصل کرنا ہے اور وہ خدا سے ثواب کی امید رکھتا ہے تو اسے ہر گز جھوٹ نہیں بولنا چاہیئے بلکہ اس امید کا لازمہ یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ کو انجام دے۔ جھوٹ بولنا تو فعلِ حرام ہے اور انتہائی برا کام ہے! اسی طرح اگر کوئی شخص واقعاً عذابِ الہیٰ سے ڈرتا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ گناہوں سے فرار اختیار کرے۔ کیوں کہ گناہ عذاب میں مبتلا ہونے کا سبب ہے۔ اگر کوئی شخص صرف زبانی دعویٰ کرتا ہے کہ میں خدا سے ثواب کی اُمید رکھتا ہوں ، اس کے عذاب سے ڈرتا ہوں ، اور گناہوں کو ترک نہ کرے اور اعمالِ صالحہ کو انجام نہ دے تو ایسا شخص جھوٹا ہے۔

نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:یُدَعِّیْ بِزَعْمِه أنَّه یَرْجُوْاللهَ کَذِبَ وَالْعَظِیْمِ مَا بَا لُه لَا یَتَبَیَّنُ رَجَآ ئُه فِیْ عَمَلهِ وَ کُلُّ مَنْ رَجَا عُرِفَ رَجَائُه فِیْ عَمَلِه الّا رِجَآءَ اللهِ فَاِنَّه مَدْخُوْلُ وَ کُلُّ خَوْفٍ مُحَقَّقُ اِلَّا خَوْفَ اللهِ فاِنَّه مَعْلُولُ (نہج البلاغہ) "جو شخص یہ خیال کرتا ہو کہ وہ خدا سے امید رکھتا ہے لیکن اس کے عمل سے اس کا اظہار نہ ہو تو خدائے بزرگ کی قسم وہ جھوٹا ہے۔ حالانکہ جب کسی بھی چیز کی امید رکھتا ہو تو وہ اس کے عمل سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ خدا سے امید رکھے اور اس کے عمل سے ظاہر نہ ہو! ( ایسا شخص خدا سے امید رکھنے والا نہیں بلکہ دھوکے میں ہے)۔ اسی طرح جب بھی کوئی شخص کسی چیز سے ڈرے تو اس کا عملی مظاہرہ کرتا ہے یعنی اس چیز سے فرار اختیار کرتا ہے پھر خوفِ خدا رکھنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود گناہوں سے فرار کیوں نہیں اختیار کرتا!

جس طرح آدمی خوفِ خدا، اور اس سے امید و رجآء رکھنے کا دعویٰ کرے اور اس کا عملی ثبوت نہ دے تو وہ جھوٹا ہے بالکل اسی طرح اگر کوئی صبر، شکر، رضا، تسلیم، تواضع اور حلم جیسی چیزوں کا دعویٰ کرے لیکن اس کا ثبوت پیش نہ کرے تو وہ بھی جھوٹا کہلائے گا!

جو زبا ن پر، وہی دل میں

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں:اِذَا کَبَّرْتَ فَا سْتَصْغِرْ مَا بَیْنَ الْعُلیٰ وَالثَّرٰی دُوْنَ کِبْرِیَآئِه "جب تم الله اکبر کہو تو جو کچھ بھی عرش سے فرش تک کے درمیان ہے سب کو خدا کے مقابلے میں چھوٹا سمجھ کر ہی (دل کی گہرائی) سے کہو۔" فَاِنَّ اللهَ تَعَالٰیاِذَا طَّلَعَ عَلٰی قَلْبِ الْعَبْدِ وَ هُوَ فِیْ قَلْبِه عَارِضُ عَنْ حَقِیْقَةِ التَّکْبِیْرِ "اس لئے کہ خداوندِ تبارک و تعالٰے جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی بندہ حقیقت میں الله اکبر دل کی گہرائی سے نہیں کہہ رہا ہے! قَالَ تَعَالٰی ( تو پھر اس سے خداوندِ عالم یہ ارشاد فرماتا ہے )یَا کَاذِبُ اتَخَدْ عَنِیْ وَعِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ لَاُحَرِّمَنّکَ حَلَا وَةَ ذِکْرِیْ (مصباح الشریعہ) " اے جھوٹے! تو مجھے سے چالاکی کر رہا ہے۔ میری عزت اور جلال کی قسم میں تجھے اپنے ذکر کی لذت سے محروم رکھوں گا!"

انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ زبان سے تو الله اکبر کہتے ہیں لیکن (نعوذبالله) ان کا دل اور عمل الله اصغر (الله سب سے چھوٹاہے) کہہ رہا ہوتا ہے! یعنی اگر ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ خدا کے لئے فلاں کام کردو یا خداکے لئے فلاں کام مت کرو تو وہ اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں کرتے ہیں! لیکن اگر انہیں آپ سو روپے دے دیں تو وہ فوراً آپ کی بات مان لیں گے! یعنی سو روپیہ ان کی نظر میں بڑا ہے، خدا بڑا نہیں ہے! (نعوذ بالله) ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جب انہیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ اگر اس کارِ خیر کو انجام نہ دیا، یا فلاں بُرے کام کو ترک نہ کیا تو مصیبت میں پھنس جائیں گے یا کوئی شخص انہیں تکلیف پہنچائے گا۔ مصیبت اور تکلیف سے بچنے کے لئے تو فوراً وہ اس کام کے کرنے یا چھوڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن اگر صرف اور صرف خدا کے لئے ایسا کام کرنا پڑتا تو وہ ہر گز اس کے لئے تیار نہیں ہوتے!

اظہارِ بندگی اور جھوٹ

اگر کوئی شخص ربّ العالمین سے اظہارِ بندگی کرتے ہوئے کہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) لیکن رات دن مال و دولت کی پوجا کرتے رہے اور اپنا پیٹ بھرنے اور جنسی شہوت کو پورا کرنے کے علاوہ اس کی زندگی کا کوئی اور مقصد نہ ہو تو کیا آپ اسے سچا کہیں گے؟

کیا ایسا شخص واقعاً خدا کی عباد ت کرنے والا ہے؟ اسی طرح جب کوئی شخص صرف اور صرف ظاہری اسباب اور وسائل ہی کو سب کچھ سمجھنے لگے اور انہی پر بھروسہ کرنے لگے، انہی سے مدد مانگنے لگے تو کیا ایسا شخص سچا کہلائے گا ؟ اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ کہہ کر اس کی مخالفت کرنا بھی جھوٹ ہے۔

دعاوں میں جھوٹ

دعاؤں اور مناجات میں بھی اکثر اوقات آدمی جھوٹا دعویٰ کر بیٹھتا ہے! مثال کے طور پر جب کوئی شخص یہ کہے "رَضیْتُ باللهِ رَبَّا" یعنی میں اپنے پروردگار سے راضی اور خوش ہوں کیونکہ وہ میری تربیت اور پرورش کرنے والا ہے۔ وہی تمام مخلوقات کی پرورش کرتا ہے، میں اس سے راضی ہوں۔

اب اگر کوئی شخص خدا کے فیصلے پر راضی نہ ہو اس کی قضا و قدر کو تسلیم نہ کرے، بلکہ جب اس کی اپنی مرضی کے خلاف کوئی کام واقع ہو جائے تو غم و غصہ کے عالم میں خدا سے شکایتیں کرنے لگے! اس کی شکایت کرنے والے جملے اس بات کے گواہ ہیں کہ ہو جھوٹا ہے!

اقرارِ آئمہ (علیہم السلام) اور جھوٹ

اس طرح جب کوئی شخص کہےوَبِمُحَمَّدٍ بَبِیَّا وَ بِا لْقُرْآنِ کِتَابًا وَبِعَلِیٍّ اِمَامًا یعنی میں اس سے خوش ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) میرے نبی ہیں اور قرآن مجیدمیری کتاب ہے۔ علی (علیہ السلام)میرے امام ہیں اور یہ سب میری ہدایت اور رہنمائی کے لئے ہیں۔ زبان سے تو یہ کہے لیکن مقامِ عمل میں خواہشاتِ نفسانی اور شیطان کو اپنا رہنما قرار دے! اور انہی کی پیروی کرے ! قرآن اور اس کے احکامات کی طرف توجہ تک نہ دے۔ ائمہ کے ارشادات کو نظر انداز کر دے تو ایسا شخص جھوٹا ہے۔

کیا سچ کہتا ہے؟

جب کوئی شخص یہ دُعا کرتے ہوئے کہتا ہےاِذَا رَأَیْتُ ذُنُوْبِیْ فَزِعْتُ وَاِذَا رَأَیْتُ کَرَمَکَ طَمَعْتُ (پروردگارا) "جب میں اپنے گناہوں کو دیکھتا ہوں تو گریہ کرتا ہوں اور جب تیرے لطف و کرم کو دیکھتا ہوں تو اس بات کی اُمید پیدا ہوتی ہے کہ تو بخش دے گا۔" زبان سے تو یہ کہتا ہے لیکن گناہوں کی پرواہ نہیں کرتا ہے اور اگر گناہ کو گناہ سمجھ بھی لے تو اُسے بلا خوف کرنے لگتا ہے! گناہ کرتے وقت اس کی پیشانی پر بل تک نہیں پڑتا! وہ خدا کے لطف و کرم کا طلب گار تک نہیں ہوتا! کیا ایسا شخص سچ کہتا ہے؟ اس کا جھوٹ بالکل واضح نہیں!؟

اسی طرح جب کوئی شخص کہتا ہے کہ " اَبْکِیْ لِخُرُوْجِ نَفْسِیْ "یعنی میں جانکنی کے خوف سے رو رہا ہوں۔ قبر کے سوال و جواب کے خوف سے رو رہا ہوں۔ قیامت کے خوف سے رو رہا ہوں۔ حالانکہ وہ کسی ایسے خوف میں نہیں رو رہا ہے! اس کا جھوٹ آشکار ہے۔ شاید ایسے ہی جھوٹ کی طرف امام زین العابدین علیہ السَّلام نے دُعائے ابو حمزہ میں فرمایا ہے:اَوْ لَعَّلکَ وَجَدْ تَّنِیْ فِیْ مَقَامِ الْکَاذبِیْنَ فَرَفَضْتَنِیْ "خداوندا! شاید تو نے مجھے جھوٹوں کے مقام پر پایا ہے اسی لئے تو نے (مجھ پرسے نظرِ رحمت ہٹا لی ہے) اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا ہے۔" یعنی میں نے اپنی خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب میں ہلاکت کی کونسی وادی میں جاگروں گا۔

امام (علیہ السلام) سے جھوٹ

امام علیہ السَّلام سے جھوٹ بولنے کی مثال یہ ہے کہ زیارتِ امام میں کہےاٰخِذُ بِقَوْلِکُمْ عَامِلُ بِاَمْرِکُمْ مُطِیْعُ لَّکُمْ یعنی "اے آئمہ معصومین علیہم السَّلام! میں آپکے اقوال کو قبول اور آپ کے احکام پر عمل کرنے والا ہوں آپ کی اطاعت کرنے والا ہوں۔" اب اگر کوئی ان کے ارشاداتِ گرامی کو سنے اور ان پر عمل نہ کرے بلکہ خواہشاتِ نفسانی پر عمل کرے۔ ایسا شخص شیطان ہے! اس کا امام سے جھوٹ ظاہر ہے!

اسی طرح امام سے جھوٹ کی ایک اور مثال یہ جملہ ہے جو زیارت پڑھتے ہوئے کہے: سِلْمُ لِّمَنْ سَالَمَکُمْ وَحَرْبُ لِّمَنْ حَارَبَکُمْ۔ یعنی "اے آئمہ طاہرین علیہم السَّلام! جو شخص آپ سے امن و سلامتی کے ساتھ رہے گامیں بھی اس کے ساتھ امن و سلامتی سے رہوں گا، اور جو شخص آپ سے جنگ کرے گا اور آپ کی مخالفت کرے گا میں بھی اس سے جنگ کروں گا اور مخالفت اس کی کروں گا۔" دعویٰ تو یہ ہے لیکن عملی طور پر وہ دشمنانِ دین سے دوستی رکھتا ہے اور ان کے ساتھ میل جول رکھتا ہے! اس کے برعکس مومنین اور محبّانِ آئمہ علیہ السَّلام سے دشمنی اختیار کرتا ہے! اسی طرح جب آئمہ سے مخاطب ہو کر یہ کہتا ہے کہ اَلتَّارِکُ لِلْخِلَافِ عَلَیْکُمُ "یعنی اے آئمہ مومنین علیہم السَّلام! آپ کے مخالفین

کوترک کرنے والا ہوں۔" حالانکہ عملی طور پر ایسا نہیں کرتا! کیا ایسا شخص امام سے جھوٹ نہیں بول رہا ہے

پھر ہم دعا کیسے کریں؟

یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ذکرِ خدا کرنے اور دعا پڑھنے کی صورت میں خدا، رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امام علیہ السَّلام سے جھوٹ بولنے والا قرار پائے تو پھر وہ آخر دعا زیارت کیسے کرے؟

اس کا تفصیلی جواب تو ہم یہاں پر نہیں دے سکتے کیونکہ یہ کتاب اس موضوع پر نہیں لکھی جا رہی ہے۔ البتہ مختصراً یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ ہم نے خدا، رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امام علیہ السَّلام کے بارے میں جس قسم کے جھوٹ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ عجب ، خود پسندی اور غرور وغیرہ سے بچا نے کے لئے ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مومن اپنے ذکرِ خدا اور دعاؤں پر ناز کرنے لگے! ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیئے۔ کوئی شخص یہ کہے کہ ہم اپنی دعاؤں اور ذکرِ خدا میں جب سچ نہیں بولتے ہیں تو پھر ہمیں دعا اور ذکرِ خدا کو چھوڑ دینا چاہیئے۔ ایسی مایوسی شیطانی خیالات کا نتیجہ ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ اُسے ثواب سے محروم کر دے اور یاد الہٰی سے روک دے۔ کیونکہ ہر شخص بالکل ابتداء ہی سے سچا نہیں ہوا کرتا بلکہ اپنی کوشش اور جدوجہد کے نتیجے میں صداقت کے مقام اور مرتبے کو حاصل کرتا ہے۔ اور پھر خداوندِ عالم اپنے لطف و کرم سے اسے منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔

دعاؤں میں جو جملے بیان کئے گئے ہیں یا تو کوئی شخص اس کے معنٰی کو سمجھتا ہے یا نہیں سمجھتا ۔ جو شخص معنٰی کو نہیں سمجھتا اور قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے یا ان دعاؤں کو پڑھتا ہے جو آئمہ معصومین علیہ السَّلام سے ہم تک پہنچی ہیں تو یقینا ان جملوں کی نورانیت کا اثراس پر پڑتا ہے اور اس کا دل منور ہو جاتا ہے اس کے علاوہ اسے ثواب بھی ملتا ہے۔ جو شخص قرآنِ مجیداور دعاؤں کے معنٰی کو نہیں سمجھتا اور اسے پڑھتا ہے یقینا اسے جھوٹا نہیں کہا جا سکتا۔

ہر شخص کے مختلف مراتب

لیکن وہ اشخاص جو قرآن اور دعاؤں کے معنٰی کو سمجھتے ہیں انہیں یہ جان لینا چاہیئے کہ ان کے مختلف درجات ہیں۔ سب سے اعلٰے درجہ پر آئمہ معصومین علیہم السَّلام ہیں جو مکمل طور پر ان کے معنٰی کو سمجھتے ہیں ، اوراکثر مومنین اس مقام و مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتے تو پھر بھلا ان کے بارے میں کیسے یہ کہا جا سکتا ہے وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ لہٰذا ہم یہی کہ سکتے ہیں کہ انشاء الله مومنین جھوٹ نہیں بول رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام مومنین خوفِ خدا رکھتے ہیں جیسا کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے وَخَا فُونِ اِنْ کُنتُمْ مُؤمِنِیْنَ (سورئہ آلِ عمران ۳: آیت ۱۷۵) اگر تم سچے مومن ہو تو مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔" اسی طرح تمام مومنین خدا سے اُمید رکھتے ہیں۔ یقینا مومنین کے دلوں میں جو خوفِ خدا ہے اور وہ جس طرح خدا سے امید رکھتے ہیں اس کے بھی مختلف درجات ہوتے ہیں اور ان کے یہ درجات آئمہ علیہ السَّلام کے برابر ہر گز نہیں ہو سکتے۔

مومنین چونکہ تزکیئہ نفس کی اس منزل پر نہیں ہوتے اور اپنی خواہشاتِ نفسانی کا شکار ہوجاتے ہیں اسی لئے وہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان سے خداوندِ عالم کے احکامات کی اطاعت میں بھی بھول چوک ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ دُعائے ابو حمزہ ثمالی میں ہے:

اِلٰهِی لَمْ اَعْصِکَ حِیْنَ عَصَیْتُکَ وَاَنا بِرُبُوْبِیَّتِکَ جٰاهِدُ وَّلَا بِاَمْرِکَ مُسْتَخِفُّ وَلَا لِعُقُوْبَتِکَ مُتَعْرِضُ وَلَا لِوَ عِیْدِکَ وَاَنا بِرُبُوْبِیِتَّکَ جٰا حِدُ وَّ لَا بِاَمْرِ کَ مُسْتَخِفُ وَلَا لِعُقُوْبَتِکَ مُتَعَرِضُّ وَلَا لِوَعِیْدِکَ مُتَهَا وِ نُ وَلٰکِنْ خَطیئةُعَرَضَتْ لِیْ وَلٰکِنْ خطِیْةُ عَرَضَتْ لِی وَ سَوَّلَتْ لِیْ وَسَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ وَغَلَبَتْیِ هَوَایَ ۔

یعنی " خدا وندا میں نے جوکئے ہیں وہ اس لئے نہیں کئے کہ تیری خدا ئی کا انکار کرنے والا تھا اورمیں نے اس وجہ سے گناہ نہیں کئے کہ تیرے حکم کو معمولی سمجھتاتھا اور نہ ہی تیرے عذاب کو کمتر سمجھ کر میں نے گناہ کئے ۔ بلکہ میں نے گناہ کئے ۔ بلکہ میں نے اپنی غلطی کا ہلی ، نفس پر ستی اور غرور کی وجہ سے گناہ کئے ہیں۔"

پُختہ یقین اور انحراف

خدا پر ایمان اور اس کے عذاب کا خوف اگر انسان میں پایا جائے تو اس کے باوجود خواہشات نفسانی کے غالب آجانے کی وجہ سے وہ گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ اگر انسان خدا پر یقین رکھے تو کوئی گناہ نہ کرے ۔ بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرے ہوئے انسان اور جمادات میں کوئی فرق نہیں ہے مردہ نہ کوئی حرکت کر سکتا ہے اورنہ ہی اس سے کوئی کام واقع ہوسکتا ہے پھر بھی آدمی پر وہم غالب آجاتا ہے اور اس کا یقین اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا، اور رات کی تاریکی میں وہ میت کے ساتھ کمرے میں تنہا نہیں رہ سکتا اسے خوف محسوس ہوتا ہے ۔ یہی وجہ تو ہے کہ ہم دُعا میں پڑھتے ہیں وَیَقِینًا صَادِقًا یعنی " پروردگارا مجھے ایسا سچّا یقین عطا فرمایا جس کے نتیجے میں مَیں تیر ی اطاعت کرسکو ں۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص بھی پروردگارِ عالم سے سچّے خوف کی تمنّا کرے یعنی ایسے خوف کی دُعا کرے جو اُسے تمام گناہوں سے بچائے توخدا ونِد عالم اس کے دل میں سچّا خوف پیدا کردیتا ہے۔ اور اس کے خوف کے درجات میں اضافہ ہوتاچلا جاتا ہے۔ جس طرح کہ عبورّیت اور اطاعت کے درجات کوشش کے نتیجے میں بڑھتے رہتے ہیں۔

روایت میں آیا ہےمَنْ طَلَبَ شِیئًاوَ جَدَّ وَجَدَ یعنی " جو شخص بھی کسی چیز کو چاہے اور اس کے لئے کوشش کرے وہ اس کو پالیتا ہے۔"

جی ہاں! مطلق طور پر ہر اعتبار سے صادق ہونا آئمہ معصومین علیہم السَّلام ہی کو زیب دیتا ہے۔ یہی وجہ تو ہے کہ وَکُوْ نُوْا مَعَ السَّادِقیْنَ (سورئہ توبہ ۹ : آیت ۱۱۹ ) اور سچوں (صادقین) کے ساتھ ہوجاو۔" اس آیت میں صادقین سے مراد اہل ِ بیت علیہم السَّلام ہیں