گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110503
ڈاؤنلوڈ: 7308

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110503 / ڈاؤنلوڈ: 7308
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

جھوٹی قسم

اٹھارہواں ایسا گناہ جس کے گناہ جس کے کبیرہ ہونے پر روایتوں میں صراحت موجود ہے وہ جھوٹی قسم ہے۔ جھوٹی قسم کھاکر کوئی خبر دینا ایک گناہِ کبیرہ ہے۔ خاص طور پر خدا کی قسم کسی جھوٹ بات میں کھانا ایک انتہائی بڑا گناہ ہے۔ روایتوں میں ہے ایسا شخص گناہوں میں ڈوبا ہوا رہتا ہے۔ اور جہنم میں بھی آگ میں گھرار ہے گا۔ گھٹی قسم سے متعلق روایت میں موجود ہے کہ وہ آدمی کے دین کو اس طرح ختم کردیتی ہے جس طرح کوئی تیز دھار کی چیز بدن سے بالوں کو اکھاڑ دیتی ہے۔

عبدالعظیم نے جو صحیح روایت نقل کی ہے اس سے بھی اور فضل ابنِ شاذان نے حضرت امام علی رضا علیہ السَّلام سے جو روایت نقل کی ہے اس سے بھی جھوٹی قسم کے گناہِ کبیرہ ہونے کااظہا ر ہوتاہے۔ کتاب "تَحفُ العقول " میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ : جھوٹی قسم ایمان کو خراب کردینے والی ہوتی ہے۔"

( بحاالانوار جلد ۳ صفحہ ۱۷۷)

جھوٹی قسم کا عذاب

( اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتُروْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَ یْمَا نِهمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِکَ لَا خَلَا قَ لَهُمْ فَیْ الْاَ خِرَةِ وَلَایُکَلِّمُهُمُ اللّٰهِ وَلَا یَنْظُرُ اِ لَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیمٰةِ وَلَا یُزَکِّهِمْ وَلَهُمْ عَذَابَُ اَلِیْمُ

) (سورئہ اٰلِ عمران ۳: آیت ۷۷)

" بے شک جو لوگ اپنے عہد اور قسم کو جو انھوں نے خدا سے کی ہو، دنیا کے تھوڑے سے معاوضے کے بدلے میں توڑدیتے ہیں انھیں لوگوں کے واسطے آخرت میں کچھ حصّہ نہیں۔ اور قیامت کے دن خدا ان سے بات تک نہیں کرے گا اور ان پر اپنی نظر ِرحمت بھی نہیں ڈالے گا اور نہ ہی انھیں گناہوں سے پاک کرے گا ۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے!" حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے یہ آئیہ شریفہ اس بات کی دلیل کے طور پر تلاوت فرمائی تھی کہ جھوٹی قسم ایک گناہِ کبیرہ ہے۔

رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے قسم کھانے کا حکم د ی

تفسیر المیزان میں یہ واقعہ شیخ صدوق کی کتاب " امالی " سے نقل کیا گیا ہے کہ امر اُ ء القیس اور ایک آدمی کے درمیان ایک زمین کے سلسے میں جھگڑا ہوگیا۔ ہرکوئی کہتا تھاکہ وہ اس کے زمین ہے ۔ یہ دونوں حضرت رسول ِخدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں یہ جھگڑا لے کر حاضر ہوئے ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اِمُرء القیس سے فرمایا: "آیا تم دو عادل گواہ پیش کرسکتے ہو؟" اس نے کہا : "جی نہیں " آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: " پس تمہارے خلاف دعویٰ کرنے والے شخص کو قسم کھالینی چاہیئے ۔" اِمُرء القیس نے کہا: " وہ تو جھوٹی قسم کھائے کر میری زمین لے لے گا!" آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا : اگر وہ جھوٹی قسم کھائے گا توایسے لوگوں میں شامل ہوجائے گا جس پرکل قیامت کے دن خدا نظرِ رحمت نہیں ڈالے گا اور اسے گناہوں سے پاک نہیں کرے گا۔ اس شخص کے لئے درد ناک عذاب ہوگا!" جب اس شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا یہ بیا ن سُنا تو بہت ڈرگیا اور اِمُرء القیس کی زمین کے سلسلے میں اپنے جھوٹے دعوے سے باز آیا۔

حضرت امام جعفرِ صادق علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:

مَنْ حَلَفَ عَلٰی یَمِیْنٍ وَهُوْ یَعْلَمُ أَنَّه کَاذِ بُ فَقَدْ بَارَذَ اللّٰه تَعَالٰی

(کتاب "کافی " باب ایمان و کفر")

" جو شخص کوئی قسم کھائے اور وہ جانتا ہوکہ وہ جھوٹا ہے تو گویا وہ خدا سے کُھل کر جنگ کرنے والا ہے!"

امام محمد باقر علیہ السَّلام فرماتے ہیں کہ رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا :

(( عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ قَالَ قَال رَسُوْل اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْه وَآ له وَسَلَّمْ ) اِیَّا کُمْ وَالْیَمِیْنَ الْفَاجِرَةَ فَاِنَّهَا تَدَعُ الِدِّیَارَ مِنْ اَهْلِهَا بِلَاقِع )

(کتاب "کافی " باب ایمان وکفر)

" جھوٹی قسم سے پرہیزکرو۔ اس لئے کہ یہ آبادیوں کو برباد کردیتی ہے۔ اور جھوٹی قسم کھانے والے کو بے سہارا بنادیتی ہے۔"

دیگر روایات میں ہے کہ جھوٹی قسم اور قطعِ رحمی ایسی چیزیں ہیں جو آبادیوں کو ویران کر دیتی ہیں ، بسنے والوں سے خالی کردیتی ہیں اور نسلوں کا سلسلہ منقطع کردیتی ہیں ۔ مثلاً ایسی ہی ایک روایت کے الفاظ ہیں :

اِنَّ فِیْ کِتَابِ عَلِیٍّ اَنَّ الْیَمِیْنَ الْکَذِبَةَ وَقطِیْعَةَالرَّحِمِ تَذَرَانِ الدِّیَارَ بِلَا قِعٍ مِنْ اَهْلِهَا وَتُنْغِلُ فِیْ الرَِّ حْمِ یَعْنِیْ اِنْقِطَاعَ النَّسْلِ (کتاب" کافی " باب ایمان وکفر ")

جھوٹی قسم کے بُرے اثرات

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں :

(عَنْ اَبِیْ عَبَدَ اللّٰهِ قَالَ ) اَلْیِمِیْنُ الْغَمُوْسُ یُنْتَظَرُ بِهَااَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً

(کتاب" کافی " باب ایمان وکفر)

جھوٹی قسم کھانے والا شخص چالیس راتوں کے اندر تنگدست ہوجاتاہے !" اسی مضمون کی چند دیگر روایت بھی موجود ہیں ۔ چھٹے امام علیہ السَّلام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ:اَلْیَمِیْنُ الْغَبُوْسُ الَّتِی تُوْجِبُ النَّارَالرَّجْلُ یَحْلِفُ عَلٰی حَقَّ امْرِءٍ مُسَلمٍ عَلٰی جَسِْ مَا لِه (کتاب "کافی ‘ ‘ باب ایمان وکفر) " وہ جھوٹی قسم جو جہنم میں جا نے کا سبب بنتی ہے، یہ ہے کہ آدمی کسی مسلمان شخص کے حق کو مارنے کے لئے یا اس کا مال چھین لینے کے لئے کھائے ۔" امام علیہ السَّلام کا یہ بھی ارشا د ہے کہ:اِ ذَا قَالَ الْعَبْدُ عَلِمَ اللّٰهُ وَکَانَ کَاذِ باً قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ اَمَاوَجَدْتِّ اَحَدًتَکْذِبُ عَلَیْهِ غَیْرِیْ (کتاب"کافی" باب ایمان و کفر) یعنی جب کوئی شخص کہتا ہے "خدا جانتا ہے" حالانکہ وہ جھوٹ بول رہا ہو تو خدائے تعالٰے اس سے کہتا ہے! " کیا تمہیں میرے علاوہ کوئی اور نہیں ملا جس پر تم جھوٹ باندھ سکو!!"

امام جعفر صادق علیہ السَّلام یہ بھی فرماتے ہیں کہ

مَنْ قَالَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَالَا یَعْلَمُ اهْتَزَّلِذٰلِکَ عَرْشُه اِعْظَا مًالَه ( کتاب "کافی" )

" یعنی جو شخص کہتا ہے کہ خدا جانتا ہے ، حالانکہ خدا کے علم میں اس کے برخلاف بات ہوتو خدا کی عظمت و ہیبت دیکھ کر عرشِ خدا لرز اٹھتا ہے!"

قسم کی اقسام

(قسم کے ذریعے کوئی چیز ثابت کی جاتی ہے یا کوئی کام لازم ہوجاتاہے۔)

قسم کسی بات یا خبر کوثابت کرنے کے لئے یا اسے تاکید کے ساتھ بیان کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے اور اس کی چار قسمیں ہیں : واجب مستحب مکروہ اور حرام ۔

قسم کھا ناکب واجب ہے ؟

اگر جان یا عزّت کی حفاظت کا مسئلہ ہو تو آدمی کو اپنی خاطر یا کسی مسلمان کی خاطر قسم کھالینا واجب ہے ۔ اسی طرح اگر اپنے مال کی یا ایسے مال کی حفاظت کا مسئلہ ہوجس کی حفاظت واجب ہو اور جو قسم کھائے بغیر ممکن نہ ہو تو وہاں بھی قسم کھانا واجب ہے۔ حتیّٰ کہ کبھی جان ، عزت یا خطیر مال کی خاطر جھوٹی قسم کھانابھی واجب ہوجاتا ہے۔ البتّہ آدمی کوکوشش کرنی چاہیئے کہ وہ جھوٹی قسم کھانے کے بجائے توریہ کرے اوراس طرح احتیاط سے کام بھی چلالے۔

قسم کھا نا مستحب ہے

بعض مقامات پر قسم کھانا مستحب ہوتا ہے اور بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں قسم نہ کھانا مستحب ہے۔ اگر اپنے یا کسی مسلمان کے مال کی حفاظت کا ایسا مسئلہ ہو جو واجب نہ ہو، یعنی ایسا مال ہو جس کی حفاظت واجب نہ ہو تو اس کے لئے قسم کھانا مستحب ہے۔ یہ وہ مال ہے جو بہت کم ہو اور جس کی قیمت تیس درہم سے کم ہو ۔

زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام سے کہا : ظالم حکّام ہم سے زبردستی ٹیکس اور خراج وصول کرتے ہیں ۔ اگر ہم جھوٹی قسم کھائیں کہ ہمارے پاس ٹیکس دینے کو کچھ نہیں ہے اور ایسی قسم کے بغیر مال کی حفاظت ممکن نہ ہو تو کیسا ہے؟ " امام علیہ السَّلام نے فرمایا(فَقَالَ)اِحْلِفْ لَهُمْ فَهُوَاَحْلٰی مِنَ التَّمْرِوَالزَّبَدِ (وسائل الشیعہ ، کتاب الایمان ، باب ۱۳ ، حدیث ۶) ( ظاہر ہے ایسی قسم کھجور اور مکھن سے زیادہ لذیز ہے ظاہر ہے ایسی قسم ظالم کے ظلم سے نجات کا باعث ہے۔)

البتہ اگر تھوڑا سا مال ہو، خاص طور پر اگر تیس درہم سے کم مالیت کی رقم ہو تو اس کوظالم کے ہاتھ میں جانے سے بچانے کے لئے قسم کھانے کی بجائے قسم نہ کھانا مستحب ہے۔ حضرت امام جعفر صا دق علیہ السَّلام یہ حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ) نقل فرماتے ہیں کہ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ مَنِ اَجَلَّ اللّٰهَ انْ یَّحْلِفَ بِه اَعْطَا هُ اللّٰه خَیْرًا مِمَّا ذَهَبَ مِنْهُ (فروع، کافی ، کتاب الایمان ) یعنی رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا : جو شخص خداکی بزرگی اور عظمت کا لحاظ کرتے ہوئے قسم نہ کھائے گا تو خدا وند تعالٰی اسے ایسا مال عطا فرمادے گا جو ہاتھ سے گئے ہوئے مال سے بہترہوگا۔ "

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں کہ :اِذٰا اُ دّعِیَ عَلَیْکَ مَا لُ وَلَمْ یَکُنْ لَه عَلَیْکَ فَاَرَادَ اَنْ یُّحَلِّفَکَ فَاِنْ بَلَغَ مِقْدَارَ ثَلِثٰیْنَ دِ رْهَمًافَاَعْطِه وَلَا تَحْلِفْ "اگر تمہارے خلاف کچھ مال کو دعوی کیاجائے لیکن دعویٰ کرنے والے کا تم پر کو ئی حق نہ ہو اور وہ تم سے قسم کھلوانا چاہے تو یہ دیکھو کہ اگر مال تیس درہم کی حد میں ہے تو اسے عطا کردو اور قسم نہ کھاو ۔"وَاِنْ کاَنَ اَکْثَرَمِنْ ذٰلِکَ فَا حْلِفْ وَلَا تُعْطِه ۔ ("فروغِ کافی")اور اگر مال تیس درہم سے زیادہ کا ہو تو قسم کھالو اور اسے کچھ نہ دو۔"

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں کہ

مَنْ قدَّمَ غَرِیْمًا اِلَی السُّلْطَانِ یَسْتَحْلِفُه وَهُوَیَعْلَمْ أَنَّه یَحْلِفُ ثُمَّ تَرَکَه تعْظِیمًا لِلّٰهِ تَعَالٰی لَمْ یَرْضَ اللّٰهُ تَعَالٰی لَه بَِنْزِ لَةٍ یَوْمَ الْقِیَا مَةِ اِلّامَنْزِ لَةَ اَبْرَاهِیْمَ خَلِیْلِ الرَّحْمٰنِ

(وسائل الشیعہ )

" جو شخص اپنے قرض دار (یا جس پر کچھ مال دینے کی ذمّہ داری عائد ہوتی ہو ) کوبادشاہ کے پاس پیش کرے اور بادشاہ اس سے قسم کھلوانا چاہے لیکن وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ قسم کھانے کا حق رکھتا ہے" خدا کی عظمت کا لحاظ رکھتے ہوئے قسم نہ کھائے تو قیامت کے دن خدائے تعالیٰ ایسے شخص کو حضرت ابراہیم خلیل الله سے کم کادرجہ دینے پر راضی نہیں ہوگا!

سیّد سّجاد (علیہ السلام) قسم نہیں کھاتے

کتابِ کافی میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السَّلام کی بیوی کا تعلّق قبیلہ بنی حنیفہ سے تھا۔ امام علیہ السَّلام کے ایک شیعہ نے امام سیّد الساجدین کو خبر دی کہ یہ عورت آپ کے جد حضرت امیر المومنین علیہ السَّلام کی دشمن ہے۔ تحقیق کے بعد امام علیہ االسَّلام نے اسے طلاق دے دی۔ وہ عورت پہلے ہی مہرلے چکی تھی، اس کے باوجود اس نے امام زین العابدین علیہ السَّلام کے خلاف مہر کا جھوٹا دعویٰ حاکمِ مدینہ کے سامنے پیش کردیا !اس نے چار سو دینا ر مہر کا مطالبہ کیا تھا ۔سید سجاد (علیہ السلام) سے حاکم مدینہ نے کہا یا تو آپ قسم کھا لیجئے آپ نے مہر کی رقم ادا کر دی حضرت سَّیدسجاد علیہ السَّلام نے قسم نہیں کھائی ،بلکہ اپنے بیٹے حضرت محمد باقر علیہ السَّلام کو حکم دے دیا کہ وہ اس عورت کو چار سودینا ر دے دیں ۔ حضرت محمد باقر علیہ السَّلام نے عرض کیا" آپ پر قربان جاوں ، کیا حق آپ کے ساتھ نہیں ہے؟" امام علیہ السَّلام نے فرمایا: " کیوں نہیں ، لیکن میں خداکو اس امر سے زیادہ بزرگ اورلائق احترام سمجھتا ہوں کہ اس کے نام سے کچھ دنیوی مال کی خاطر قسم کھا بیٹھوں!"

حق بات پر زور دینے کے لئے قسم

حق بات کو ثابت کرنے کے لئے یا حق بات پر زور دینے کے لئے اور اس کی اہمیّت بتانے کے لئے قسم کھانا نہ صرف جائزہے بلکہ مستحب بھی ہے۔ جیسے پیغمبر ِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) قسم کھا تے ہوئے فرماتے ہیں: فَوَاللّٰہُ لَایَمِلُّ اللّٰہُ حَتّٰی تَمِِلُّوْ (کتاب مسالک ، بابِ ایمان ) " خدا کی قسم خدا مغفرت دینے میں دریغ نہیں کرے گا اگرچہ یہ ممکن ہے کہ تم لوگ مغفرت طلب کرنے میں کوتاہی کرو!"

اسی طرح قسم کی ایک اور مثال حضرت امیر لمومنین علی علیہ السَّلام کا یہ قول ہے:

فَوَاللّٰهِ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا اَعْلَمُ لَضَیحکْتُمْ قَلِیْلًا وَّ لَبَکَیْتُمْ کَثِیْراً (کتاب مسالک ۔ باب ِایمان ) "خدا کی قسم اگر لوگ ہو جانتے ہوتے جو میں جانتا ہوں ، تو بہت کم ہنسا کرتے اور بہت زیادہ رویاکرتے!"

قرآنِ مجید میں اور معصومین کی روایت میں کئی مقامات پر قسمیں کھائی گئی ہیں ۔ ان تمام قسموں کا تعلق اِسی قسم سے ہے، یعنی اسی قسم میں حق بات پر زور دینے اور اس کی اہمیت بتانے کے لئے کھائی گئی ہیں ۔

ایک شخص نے حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلا م کو ایک خط لکھا اس خط میں اس نے امام محمد باقر علیہ السَّلام سے پوچھا تھا کہ آپ سے جو بات جھوٹ منسوب کی جارہی ہے اس سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

امام علیہ السَّلام نے جواب میں لکھا تھا:

وَاللّٰهِ مَاکَانَ ذٰلِکَ وَاِنِّی لَاَکْرَهُ اَنْ اَقُوْلَ وَاللّٰهِ عَلٰی حَالٍٍ مِنْ احَوْالِ وَلِکٰنَّهُ،غَمَّنِیْ اَن یَّقَالَ مَالَمْ یَکُنْ (مستدرک الوسائل) یعنی " خدا کی قسم جو بات منسوب کی جارہی ہے وہ حقیقت نہیں ہے،لیکن میں اس کو جھٹلانے کے لیے کسی بھی حال میں وَالله کہناپسندنہیں کرتا لیکن مجھے اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ ایسی بات کہی جارہی ہے جو واقع نہیں ہوئی۔"

قسم کھا نا مکروہ ہے

مستحب اور واجب قسموں کا بیان گذرا۔ ان واجب یا مستحب قسموں کے علاوہ کی دیگر حالتوں میں کلی طور پر قسم کھانا مکروہ ہے، خواہ وہ گزشتہ بات کے لئے ہویا مستقبل میں ہونے والی کسی بات پر ہو ۔ بہرحال عام حالتوں میں عام طور پر قسم مکروہ ہوتی ہے۔ اگر آدمی غیر ضروری طور پر قسم کھائے کہ کل ایسا ہوا تھا۔ یا اس وقت ہے جب سچ بات پر قسم کھائی جائے ۔ اگر جھوٹی بات پر قسم کھائی جائے تو یقیناً حرام ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کا فرمان ہے کہلاتَحْلِفُوْا بِاللّٰهِ صَادِقِیْنَ وَلَا کَاذِبِیْنَ " خدا کی قسم نہ کھایا کرو خواہ تم لوگ سچ بول رہے ہو یاجھوٹ !"فَاِنَّه عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ وَلَا تَجْعَلُو اللّٰهَ عُرْضَةً لِاَیْمَانِکُمْ (فروغِ کافی،قسم کا باب)اس لئے کہ خدائے عَزّوجل فرماتا ہے "خدا کواپنی قسموں کے لئے استعمال مت کرو !" (سورئہ بقرہ ۲: آیت ۲۲۴)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام یہ بھی فرماتے ہیں کہمَنْ حَلَفُ بِاللّٰه کٰاذبًا کَفَرَ " جس شخص نے خدا کی جھوٹی قسم کھائی اس نے کفر اختیار کیا۔"

وَمَنْ حَلَفَ بِالِلّٰهِ صَادِقًا اَثِمَ اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ وَلاَ تَجْعَلُوْا للّٰهَ عُرْضَةً لاَِّیْمَانِکُمْ (فروغِ کافی ، قسم کا باب) " اور جس شخص نے خدا کی سچی قسم کھائی اس نے گناہ کیا ! اس لئے کہ خدائے تعالیٰ فرماتاہے: "خدا کی سچی قسم کھائی اس نے گناہ کیا! اس لئے کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے: "خدا کو اپنی قسموں کے لئے استعمال مت کرو!"

مندرجہ بالا حدیث کی وضا حت کچھ یوں ہے کہ خدا کی جھوٹی قسم کھانا یقینا ایک بہت بڑا گناہِ کبیرہ ہے اور گناہِ کبیرہ کرنے والا شخص ایمان کے اعلیٰ مرتبے سے گرجاتا ہے۔ اس کی مناسبت سے اس کے دل میں کچھ کفرآجاتا ہے، اور سچی قسم کوبھی امام علیہ السَّلام نے گناہ کہاہے ، اور لفظ "اثم " استعمال کیا ہے ۔چونکہ مجتہدین کے درمیان مشہو ر فتویٰ یہی ہے کہ سچی قسم کھانا مکروہ ہے اور حرام نہیں ہے، اس لئے یہاں اس لفظ سے سچی قسم کوشدید مکروہ قرار دیاگیا ہے۔

حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کی ہدایت

فروغ کافی میں یہ حدیث بھی موجود ہے جو حضرت امام جعفرصادق علیہ السّلام نے بتائی ہے اِجْتَمَعَ الْحَوَارِ یُّوْنَ اِلٰی عِیسٰی فَقَا لُوْا حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کے حواریوں (شاگردوں ) نے ان کے پاس جمع ہو کر عرض کیا یَامُعَلِّمَ الْخیْرِاُرْشُدْنَا "اے خیر سکھانے والے ! ہم کو کچھ نصیحت کیجئے ۔"فَقَالَ اِنَّ مُوْسیٰ نَبِیَّ اللّٰهِ اَمَرَکُمْ اَنْ لَّا تَحْلِفُوْ بِاللّٰهِ کَاذِبِیْنَ بے شک خدا کے نبی موسیٰ علیہ السَّلام نے تم کو خدا کی جھوٹی قسم نہ کھانے کا حکم دیا تھا۔"وَاَنَا اٰمُرُکُمْ اَنْ لاَتَحْلِفُوْا کَاذِبِیْنَ وَلَا صَادِقِیْنَ ("فروغِ کافی ، قسم کا باب) "اورمیں تم کو حکم دیتا ہوں کہ خدا کی نہ تو جھوٹی قسم کھاؤ نہ سچی!"

قابلِ احترام چیزوں کی قسم

جن موقعوں پر خدا کی قسم کھا سکتے ہیں وہاں دیگر قابلِ احترام، شخصیتوں اور مقدس چیزوں کی قسم کھانا بھی جائز ہے۔ ایسے مقامات پر مثلاًقرآنِ مجید کی قسم، کعبہ کی قسم یا پیغمبرِ اکرم اور آئمہ کی قسم بھی کھانا جائز ہے۔ اسی طرح ہر قابلِ احترام ذات یا چیز کی قسم بھی جائز ہے۔ مثلاً آدمی اپنے باپ یا بیٹے یا کسی بھی آدمی کی قسم کھا سکتا ہے۔

جن روایتوں میں خدا کا نام لے کر قسم کھانے سے منع فرمایا گیا وہ اپنا حق ثابت کرنے کے لئے ممنوع ہے، کوئی سچی بات بتانے کے لئے ممنوع نہیں ہے۔ البتہ جب اپنا حق ثابت کرنے کے لئے قسم کھانا ضروری ہو تو شرعی طور پر خدا ہی کی قسم کھانی چاہیئے۔ کسی اور ذات یا چیز کی قسم ایسی صورت میں صحیح نہیں ہے۔ شرعی لحاظ سے اس طرح معاملہ ختم نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر مستقبل میں کوئی کام کرنے کا ارادہ ہو اور اس کے لئے کوئی قسم کھانی پڑے تو اس میں بھی خدا ہی کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ کوئی اور قسم شرعی حیثیت نہیں رکھتی۔

وہ قسم کہ جس کا کھانا ہمیشہ حرام ہے

وہ قسم جو ہر حالت میں حرام ہے اور اسے کبھی بھی نہیں کھاسکتے ، وہ خدا اور اسکے کبھی بھی نہیں کھاسکتے، وہ خدا اور اس کے دین سے بیزاری اور دوری اختیار کرنیکی قسم کھانا ہے مثلًا آدمی کہے:

"اگر میں ایسا کام نہ کروں تو خدا سے بیزار ہوجاوں گا یا دین ِاسلام چھوڑدوں گا!" اس قسم کی بات یقینا حرام ہے ۔اسی طرح اگر آدمی کہے : اگر میں نے فلاں کام نہیں کیا توپیغمبِر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا انکا رکر بیٹھوں گا یا حضرت علی علیہ السَّلام کی ولایت سے باہرنکل جاوں گا ، یا یہودی وغیر ہ بن جاونگا۔

اس قسم کی شرط بھی حرام ہے۔ ایسی بات بہر حال میں حرام ہے خواہ اپنا حق ثابت کرناہو یا نہ کسی سچی بات پر زور دینا ہو خواہ مستقبل میں کیس کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہو، یا کسی بات پر زور دینا مراد ہو، یا حال اور ماضی میں ایساہو، بہر صورت حرام ہے۔

عَنِ الَنِّبیِ أَنَّه سَمِعَ وَجُلًا یَقُوْلُ اَنَا بَرِ یُّ مِنْ دینِْ مُحَمَّدٍ نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایک شخص کو کہتے سنا: " میں دینِ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے بیزار ہوجاوں گا!"فَقَالَ رَسُوْلَ اللّٰهِ وَیْلَکَ اِذا بَرِئْتَ مِنْ دِیْنِ مُحَمَّدٍ وعَلٰی دِیْنِ مَنْ تَکُوْنُ رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے یہ سُن کر فرمایا: " تجھ پر وائے ہو! اگر تو دین ِ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے بیزار ہوجائے گا۔ تو پھر کس کا دین ختیار کرے گا؟ "قَالَ فَمَا کَلَّمَه رِسُوْلُ اللّٰهِ حَتّٰی ماَتَ (کتاب کافی، قسم کاباب) راوی کہتا ہے کہ پھر رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس شخص سے بات چیت نہیں کی یہاں تک کہ آنحضرت اس دنیا سے چل بسے ۔

یونس ابن ظبیان سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا(عَنِ الصَّادِقَ أنَّه قَالَ) یَایُوْنُسُ لاَ تَحْلِفْ بِالْبَرَآئةِ مِنّا صَادِ قًا اَوْ کَا ذِ بًا بَرِءَ مِنَّا (کتاب کافی ، قسم کا باب ) " اے یونس ہم سے بیزاری کی بات قسم میں استعمال مت کیا کرو ۔ جو شخص ہم سے بیزاری کی بات قسم میں استعمال کربیٹھتاہے، خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا،ہم سے بیزار ہوجاتا ہے!"

حرمت والی قسم کا کفّارہ

جو قسم حرام ہے، خصوصًا ایسی قسم جس میں مقدّس ہستیوں سے بیزاری کی بات کی گئی ہو، اس کا کفّارہ مجتہدین کے ایک گروہ نے ظہار کے کفارے کی مانندبتایا ہے۔ مجتہدین کے ایک اور گروہ نے اس کا کفّارہ نذر توڑنے کے کفّارے کی مانندبتایا ہے جوکہ ماہ رمضان کا روزہ توڑنے یانہ رکھنے کا کفّارہ ہے۔

(حوالہ ، شرائع الاسلام کتاب کفّارات)

البتہ شیخ مفیدفرماتے ہیں کہ اگر بیزاری والی قسم آدمی توڑبیٹھے تو اس کا کفّارہ دس غریبوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاناہے اور اس کے ساتھ توبہ بھی کرنا ہے۔ یہی فتویٰ حضرت امام حسن عسکری علیہ السَّلام کے ایک خط سے بھی ثابت ہوتا ہے جو کتاب مسالک میں تحریر ہے۔ امام علیہ السَّلام فرماتے ہیںیُطْعِمُ عَشْرَةَ مَسَاکِیْنَ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ مُدُّ وَیَسْتَغْفِرُاللهََ "وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے گا۔ ہر مسکین کو ایک مد طعام دے گا، اور خدا سے استغفار بھی کرے گا۔" ایک مد ایک سو چون مثقال کے برابر ہوتا ہے اور جو چودہ چھٹانک یا سات سو پچاس گرام (پونا کلو گرام) کا ہوتا ہے۔ اس میں آدمی گندم، آٹا، جَو، چاول، یا پکی پکائی کوئی بھی غذا دے سکتا ہے۔ مندرجہ بالا روایت کی سند صحیح ہے اس لئے احتیاط کو ترک نہیں کرنا چاہیئے۔

امام جعفر صادق اور منصور دوانیقی

ایک شخص عباسی بادشاہ منصور دوانیقی کے پاس گیا اور امام جعفر صادق کے خلاف اسے بھڑکانے لگا۔ اس نے کہا: " وہ چاہتے ہیں کہ آپ پر حملہ آور ہوں۔ انھوں نے اس کام کے لئے رقمیں ادھر اُدھر بھیجیں ہیں ۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ وہ عبدالله ابن حسن کے بیٹوں محمد اور ابراہیم کی مدد کرتے رہے ہیں جنھوں نے آپ پر حملہ کیا تھا!"

منصور نے امام جعفر صادق علیہ السَّلام کو مدینے سے طلب کرلیا۔ جب امام علیہ السَّلام دربار میں پہنچے تو منصور نے وہ سُنی سُنائی بات نقل کرتے ہوئے امام علیہ السَّلام پر سخت نکتہ چینی کی۔ امام نے فرمایا: " میں ایسی باتوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ یہ تمام باتیں جھوٹ اور تہمت ہیں۔" منصور نے امام علیہ السَّلام سے ایسی باتیں منسوب کرنے والے شخص کو طلب کر لیا اس ملعون نے اپنی کہی ہوئی تہمتیں دوبارہ دُھرادیں! امام علیہ السَّلام نے فرمایا " کیا اپنی باتوں پر تم قسم کھا سکتے ہو؟" اس ملعون نے قسم کھانی شروع کردیوَاللهِ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الطَّالِبُ الْغَالِبُ الحَیُّ الْقَیُّومُ حضرت نے بیچ میں اسے روک کر فرمایا: " قسم کھانے میں جلدی نہ کرو۔ بلکہ جیسا میں کہوں ویسی قسم کھاؤ!"

منصور نے پوچھا: " اس نے جو ابھی قسم کھائی ہے کیا اس میں کوئی نقص ہے؟"

امام علیہ السَّلام نے جواب دیا "جب خدا کی قسم کھاتے ہوئے آدمی خدا کی تعریف کر بیٹھتا ہے تو خدا فوری عذاب نازل کرنے سے رک جاتا ہے ۔ پس اسے کچھ یوں قسم کھانی چاہیئے:اُبَّرِءُ مِنْ حَوْلِ اللهِ وَقُوَّتِه وَاَلْجَاُاِلیٰ حَوْلِیْ وَقُوَّتِیْ اِنِّی لَصَادِقُ فِیْمَا اَقُوْلُ " (شیخ طوسی کی کتاب امالی اور کتاب منہج الدّعوات)

یعنی " میں خدا کی طاقت و قوت سے بیزاری اختیار کرتا ہوں اور اپنی ہی طاقت و قوت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ سچ کہہ رہا ہوں!"

منصور نے اس شخص کو حکم دیا کہ اسی طرح قسم کھائے۔ ابھی اس نے پوری قسم نہیں کھائی تھی کہ اس کی زبان کتے کی طرح باہر نکل کر لٹک گئی اور وہ اسی وقت واصلِ جہنم ہوا!

کیا یہ بات حرمت والی قسم کے خلاف ہے؟

اس روایت سے ہو سکتا ہے کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ بیزاری والی قسم کھانا صحیح ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ محقق قمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک تو اس روایت کی سند ضعیف ہے، دوسرے یہ کہ ایسی قسم کھلوانا شاید صرف امام علیہ السَّلام کے لئے جائز ہو۔ امام علیہ السَّلام جانتے تھے کہ قسم کھانے والا شخص مومن نہیں ہے بلکہ اہلِ بیت علیہم السَّلام کا دشمن ہے اور خود کو بری الزمہ ثابت کرنے کے لئے ایسا ضروری تھا۔ (کتاب جامع االشّتات صفحہ ۷۴۴)

محقق کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السَّلام اس ملعون کو ہلاکت کا مستحق سمجھتے تھے اور اس کی ہلاکت بیزاری والی قسم کھانے ہی پر منحصر تھی اور ضروری تھی تاکہ مقام امامت کی توہین نہ ہو اور تاکہ امام علیہ السَّلام منصور کے ہاتھوں قتل ہونے سے محفوظ رہیں۔ اس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ منصور سادات اور مومنین کے قتل سے بھی وقتی طور باز آگیا تھا۔

جھوٹی قسم سے توبہ

اگر آدمی ماضی یا حال کی کسی بات پر جھوٹی قسم کھا بیٹھے تو اس کی توبہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کہے پر سخت پشیمان ہو۔ یہ جان لے کہ اس نے خداوندِ عالم کے نامِ مبارک کو کھلونا سمجھ رکھا تھا اور ایک گناہ کر بیٹھا تھا۔ جس قدر آدمی پشیمان ہوگا، اپنے گناہ کو بڑا سمجھے گا اور استغفار کرے گا اتنا ہی وہ خدا کی رحمت و مغفرت سے نزدیک ہوتا جائے گا۔ اگر جھوٹی قسم کھانے کے باعث کسی مسلمان کو مالی نقصان پہنچا ہو یا اس کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہو تو جھوٹی قسم کھانے والے شخص کو چاہیئے کہ وہ مالی نقصان کو پورا کر دے، مظلوم شخص سے معافی مانگ لے اور جس طرح بھی ہوتلافی کرے۔

قسم کب صحیح ہوگی؟

اگر آدمی یہ قسم کھائے کہ وہ مستقبل میں فلاں کام انجام دیتا رہے گا یا فلاں کام نہیں کرے گا تو اس کے صحیح ہونے کی کچھ شرطیں ہیں۔ اگر ان شرطوں پر قسم پوری اترتی ہو تو ایسی قسم توڑنا حرام ہے اور توڑنے کی صورت میں کفارہ دینا واجب ہے۔ ایسی قسم کی کچھ شرطیں ہیں جو یہ ہیں:

( ۱) جس کام کی قسم آدمی کھائے وہ واجب یا مستحب ہونا چاہئیے۔ مثلاً آدمی یہ قسم کھا سکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر صبح کی نماز قضا نہیں کرے گا یا نمازِ شب ترک نہیں کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی کام چھوڑ دینے کی آدمی قسم کھائے تو وہ کام حرام یا مکروہ ہونا چاہیئے۔ مثلاً آدمی یہ قسم کھا سکتا ہے کہ وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ یا مسجد میں نہیں تھوکے گا۔ کسی مباح کام کو ترک کرنے کی قسم اس وقت صحیح ہے جب اس کا کوئی معقول فائدہ ہو۔ مثلاً سگریٹ پینا مباح ہے اور آدمی سگریٹ کی عادت ترک کرنے کے لئے قسم کھا سکتا ہے۔

( ۲) واجب ، مستحب، حرام، مکروہ یا مباح، ان پانچوں احکام والے کاموں کی قسم اس وقت درست ہے جب کہ خدا کا نام زبان سے لیا جائے ، اور کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عزم ہو، محض کھیل کھیل میں خدا کی قسم آدمی نہ کھائے۔ آدمی اپنی عادت کے تحت اگر کہے کہ والله میں ایسا کام کر بیٹھوں گا یا خدا کی قسم میں ایسا بُرا کام نہیں کروں گا اور واقعی اس کا عزم ایسا ہو تو وہ قسم میں نافذ ہو جاتی ہے، ورنہ نہیں۔ ارشاد ہے:

( لاٰ یُوٰاخِذُکُمُ اللهُ با لِلَّغُوِ فِی اَیْمٰانِکُمْ وَلِکٰن یُّوٰاخِذُکُمْ بِمٰا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمٰانَ فَکَفّٰارً تُهُ اِطْعٰامُ عَشَرَةِ مَسٰاکِیْنَ مِنْ اَوسَطِ مٰا تُطْعِمُوْنَ اَوْ کٍسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْدُ رَقَبَةِ فَمَنْ لَّمْ یَجِدُ فَصیٰامُ ثَلٰثَةِ اَیّٰامٍ ذٰالِکَ کَفّٰارَةُ اَیْمٰانُکُمْ اِذٰا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوْا اَیْمٰا نُکُم کَذٰا لِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُم اٰیٰا تِه لَعَلَّکُم تَشْکُرُوْنَ ) (سورئہ مائدہ ۵: آیت ۸۹)

یعنی " خدا تم کو بیکار قسموں کے کھانے پر تو (خیر) گرفت نہ کرے گا، مگر بالقصد پکی قسم کھانے ( اور اس کے خلاف کرنے پر) تو ضرور تمہاری گرفت کرے گا۔ (اور سنو) اس کا جرمانہ جیسا کہ تم خود اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو، اسی قسم کا اوسط درجہ کا دس محتاجوں کو کھانا کھلانا یا ان کو کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ پھر جس سے یہ سب نہ ہو سکے تو تین دن کے روزے (رکھنا) یہ تو تمہاری قسموں کا جرمانہ ہے۔ جب تم قسم کھاؤ اور پوری نہ کرو۔ اور اپنی قسموں کے پوری کرنے کا خیال رکھو۔ خدا اپنے احکام کو تمہارے واسطے یوں صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔"

بے کار کام کی قسم

گزشتہ بیان سے معلوم ہوا کہ ایسی ہی قسم شرعی ہے اور نافذ ہے جس میں کوئی عقلی یا شرعی فائدہ موجود ہو۔ پس ایسے کام کے کرنے کی قسم کھائی جاسکتی ہے جس کے کرنے میں رجحان ہو یا جو واجب یا مستحب ہو۔ اسی طرح اگر آدمی کوئی کام نہ کرنے کی قسم کھائے تو اس کے نہ کرنے میں کوئی عقلی رجحان ہونا چاہیئے یا وہ نا پسندیدہ کام مکروہ یا حرام ہونا چاہئیے۔ اس بناء پر لغو اور بے پردہ بات پر قسم کھا لینا خود لغو اور بے ہودہ ہے۔ ایسی قسم شرعی نہیں ہے اور نافذ نہیں ہوتی۔ پس بیہودہ قسم نہیں کھانی چاہیئے۔ خواہ وہ عقلی طور پر بے ہودہ ہو یا شرعی طور پر۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آدمی واجب یا مستحب کام کو ترک کر دینے کی، یا حرام اور مکروہ کو انجام دینے کی قسم کھائے تو یہ قسم لغو ہے۔

پس اگر آدمی استطاعت رکھنے کے باوجود حج پر نہ جانے کی، اپنے عیال کو خرچ نہ دینے کی، اپنی ماں سے یا کسی اور رشتہ دار یا مومن سے بات چیت بند کر دینے کی یا اپنے رشتہ داروں سے صلئہ رحمی نہ کرنے کی، یا دو آمیوں کے درمیان آئندہ جھگڑا دور نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھے تو ایسی قسم شرعی حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ آدمی کو چاہئیے کہ اگر ایسی کوئی قسم کھا بیٹھا ہو تو استغفار کرے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

اِذَا حَلَفَ الرَّجُلُ عَلٰی شَیً وَالَّذِیْ حُلِفَ اِتْیَانُهُ خَیْرُ مِّنْ تَرْکِه فَلْیَاتِ الّذِیْ هُوَ خَیْرُ " اگر آدمی کوئی کام نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھے ، حالانکہ وہ کام ایسا ہو جسے کرنا نہ کرنے سے بہتر ہو تو اسے چاہیئے کہ ایسا کام ضرور کرے جو بہتر ہے۔"وَلَا کَفَّارَةَ عَلَیْهِ وَاِنَّمَا ذٰلِکَ مِنْ خَطُوٰاتِ الشَّیْطَانِ (کافی قسم کا باب)

"ایسی قسم توڑنے کا اس پر کوئی کفارہ بھی نہیں ہے۔ یہ تو صرف شیطان کا ڈالا ہوا وسوسہ ہے۔"

اس حدیث سے اور اس جیسی دیگر احادیث سے اگرچہ یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ لغو کام یعنی نا معقول یا غیر شرعی کام پر قسم نافذ نہیں ہوتی اور اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن مشہور مجتہدین نے فرمایا ہے کہ مباح کام میں بھی قسم نافذ ہو جاتی ہے۔ پس اگر کوئی آدمی مباح کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائے اور اس میں کوئی عقلی فائدہ بھی نظر نہ آتا ہو۔ تب بھی اسے احتیاط کرنی چاہیئے۔ ایسی قسم توڑنے سے پرہیز کرنا چاہئیے اور اگر توڑ بیٹھے تو احتیاطاً اس کا کفّارہ بھی ادا کار دینا چاہیئے۔ مشہور مجتہدین کے فتوے کے مطابق مباح کام پر قسم کھا لینے سے وہ واجب بن جاتا ہے۔ پس اس سلسلے میں احتیاط ہی بہتر ہے۔

سعیداعرج نامی راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے ایسا کام کرنے کی قسم کھا لی ہے، حالانکہ جس کا نہ کرنا بہتر ہے اور اب وہ قسم توڑنے سے بھی ڈر رہا ہے۔ امام علیہ السَّلام نے فرمایااَمَا سَمِعْتَ قَوْلَ رَسُوْلِ اللهِ "کیا تم نے رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا یہ قول نہیں سُنا کہ"اِذَارَأَیْتَ خَیْراً مِنْ یَمِیْنِکَ فَدَعْهَا (کتابِ "کافی") "جب بھی تم دیکھو کہ تمہاری قسم کے خلاف کام کرنا بہتر ہے تو ایسی قسم کی پرواہ نہ کرو۔" اور چھوڑ دو۔"

قسم کی قسمیں

کتاب کافی ہی میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا:

قسم کی تین قسمیں ہیں:

( ۱) ایسی قسم جس کے سبب سے جہنم واجب ہو جاتا ہے۔

( ۲) ایسی قسم جس کے سبب سے کفّارہ واجب ہو جاتا ہے۔

( ۳) اور ایسی قسم جو نہ جہنم کی موجب ہے اور نہ کفّارے کی موجب ہے۔ جس قسم کے کھانے سے جہنم واجب ہو جاتا ہے وہ جھوٹی قسم ہے۔ ایسی جھوٹی قسم ہے جس سے دوسرے مسلمان کو مالی نقصان یا زحمت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ جیسے یمین غموس (یعنی جھوٹی قسم جو ارادة کھائی جائے۔ کہا جاتا ہے)

جس قسم کے کھانے سے کفارہ واجب ہو جاتا ہے وہ کارِ خیر کو بجا لانے یا بُرے کام کو چھوڑ دینے کی قسم ہے۔ ایسی قسم اگر آدمی توڑ دے تو کفارہ واجب ہے۔ کفّارے کے ساتھ ساتھ توبہ اور پشیمانی بھی واجب ہے۔ اور جس قسم کے کھانے سے نہ جہنم واجب ہوتا ہے اور نہ کفّارہ واجب ہوتا ہے وہ قطعِ رحمی کرنے کی قسم ہے جو زبردستی حاکم، والدین یا شریکِ زندگی کے سامنے آدمی کو کھانی پڑی ہو۔ اس نوع میں ہر ایک ایسی قسم شامل ہے جو کسی حرام کام کے انجام دینے یا کسی واجب کام کے ترک کرنے پر کھائی گئی ہو۔" مزید تفصیلات کے لئے بڑی فقہی کتابیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں