گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110504
ڈاؤنلوڈ: 7308

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110504 / ڈاؤنلوڈ: 7308
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

جھوٹی گواہی

انیسواں ایسا گناہ جس کے کبیرہ ہونے کی صراحت موجود ہے، جھوٹی گواہی دے دینا ہے۔ حضرت عبدلعظیم نے امام تقی علیہ السَّلام سے جو روایت نقل فرمائی ہے اس سے بھی یہی بات ثابت ہے۔ فضل ابن شاذان نے امام علی رضا علیہ السَّلام سے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔ اور اعمش نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے گناہانِ کبیرہ کی جو فہرست حاصل کی ہے اس سے بھی جھوٹی گواہی کا گناہِ کبیرہ ہونا ثابت ہے۔ جھوٹ کے موضوع میں پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے کہ جھوٹ ایک گناہِ کبیرہ ہے اور اسی کی ایک شاخ جھوٹی گواہی ہے۔

حضرت عبدالعظیم نے جو صحیح روایت نقل فرمائی ہے اس میں امام علیہ السَّلام نے جھوٹی گواہی کے گناہِ کبیرہ ہونے کی دلیل کے طور پر مندرجہ ذیل آیت بیان فرمائی تھی: وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْن الزُّوْر (سورئہ فرقان ۲۵: آیت ۷۲) یعنی "اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے (ایسے ہی لوگوں کی جزاء جنت کے اعلیٰ درجات ہیں)" اس آیت میں لفظ "ذُوْر" کے معنٰی ہے۔ "باطل کو حق ظاہر کرنا"

ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ

"( فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُواقَوْلَ الزُّورِ ) (سورئہ حج ۲۲: آیت ۳۰)

یعنی" بتوں کی پرستش سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچو۔"

حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں: عَدَلَتْ شَھَادَةُ الزُّوْرِ الشِّرْکَ بِاللهِ " جھوٹی گواہی دینا کسی کو خدا کا شریک قرار دیے دینے کے برابر ہے!" تفسیر ابوالفتح رازی میں لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے یہ جملہ مسلسل تین مرتبہ ارشاد فرمایا اور پھر یہ (سورئہ حج ۲۲: آیت ۳۰ والی) آیت تلاوت فرمائی۔

ایسی ہی مستدرک الوسائل میں حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام سے بھی حدیث منسوب ہے کہ : خداوند تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جھوٹی گواہی کو شرک کے مساوی قرار دیا ہے!" یعنی بتوں سے پرہیز کرنے کے بیان کے ساتھ ہی جھوٹ اور جھوٹی گواہی سے بھی پرہیز کا حکم آیا ہے۔

"قولِ زور" سے مراد غنا اور جھوٹ

ابھی جو روایتیں ذکر ہوئی ہیں ، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید میں جہاں لفظِ "زُور" آیا ہے، اس سے مراد "جھوٹ" ہے۔ جب کہ ایسی ہی آیتیں غنا اور گانے کے موضوع میں بھی آچکی ہیں اور لفظ "زور" کے معنی بعض روایتوں کی رو سے غنا یا گانے بجانے کے بھی ہیں۔ ان دونوں قسموں کی روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ دراصل لفظ "زور" ہر باطل اور ناپسندیدہ چیز کو کہتے ہیں۔ اور ان میں سرِ فہرست گانے بجانے کے علاوہ جھوٹ اور جھوٹی گواہی بھی ہے۔

جھوٹی گواہی دینے والے پر عذابِ جہنم

حضرت امام با محمد باقر علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:مَا مِنْ رَجُلٍ یَّشْهَدُ بِشَهَادَةِ ذُوْرٍ عَلیٰ مَالِ رَجُلٍ مُّسْلِمٍ لِیَقْطَعَهُ اِلَّا کَتَبَ اللهُ لَهُ مَکَانَهُ صَکاًّ اِلَی النَّارِ (کتابِ کافی) "جب کوئی شخص کسی مسلمان آدمی کا مال اس سے چھین لینے کے لئے جھوٹی گواہی دیتا ہے تو خدا اُسی وقت اس جھوٹی گواہی دینے والے کے لئے سخت شعلوں والی آگ کا عذاب لکھ دیتا ہے!"

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں:شَاهِدُ الزُّوْرِ لَا تَزُوْلُ قَدَمَاهُ حَتَّی تَجِبَ لَهُ النَّارُ (کتاب "کافی") "جھوٹی گواہی دینے والا آدمی ایسی گواہی دینے کے بعد اپنی جگہ سے قدم نہیں بڑھا پاتا کہ اس پر جہنم واجب ہو جاتا ہے۔"

قَالَ رَسُوْلُ اللهِ لَا یَنْقَضِی کَلَامُ شَاهِدِ الزُّوْرِ مِنْ بَیْنِ یَدَیِ الْحَاکِم حَتَّی یَتَبَوَّءَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ (کتاب "کافی") حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: حاکم کے سامنے جھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی ابھی پوری بھی نہیں ہوتی کہ اس کا ٹھکانا جہنم میں طے پاجاتا ہے۔"

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے کہ(قَالَ) مَنْ شَهِدَ شَهَادَةَ زُوْرٍ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنَ النَّاسِ عُلِّقَ بِلِسَانِه مَعَ الْمُنَا فِقیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنْ النَّارِ "کسی بھی انسان کے خلاف جو شخص جھوٹی گواہی دے گا اسے جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں منافقوں کے ساتھ اس کی زبان سے لٹکا دیا جائے گا۔" وَمن حَبسَ مِنْ اَخِیْہِ الْمُسْلِمِ شَیْاً مِّنْ حَقِّہ حَرَّمَ اللهُ عَلَیْہِ بَرَکَةَ الرِّزقِ اِلَّا اَنْ یَّتُوْبَ (وسائل الشیعہ) "اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا کوئی حق ضبط کرے گا تو خدائے تعالیٰ اس وقت تک اس کے رزق سے برکت ہٹا لے گا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے۔"

حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ حدیث نقل فرماتے ہیں کہ( عَنْ اَبیْ جَعْفَرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ) مَنْ کَتَمَ شَهَادَةً اَوْشَهِدَ بِهَا لِیَهْدِ رَبِهَادَمُ امْرِءٍ مُّسْلِمٍ اَوْ لِیَزْوِیَ بِهَا مَالَ امْرِءٍ مُّسْلِمٍ اَتیٰ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَلِوَجْهِه ظَلَمَةُ مَدَّ البَصَرِ وَفِیْ وَجْهِه کُدُوْحُ تَعْرِفُهُ الْخَلائِقُ بِاسْمِه وَنَسَبِه (وسائل الشیعہ، گواہی کے ابواب ، باب ۲) یعنی "جو شخص شرعی حاکم کے سامنے گواہی چھپائے گا یا کسی مسلمان آدمی کا خون بہانے یا اس کا مال چھین لینے کی نیت سے جھوٹی گواہی دے گا وہ قیامت کے دن اس حال میں محشور ہوگا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے حدِّ نگاہ تک اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا اور اس کے چہرے پر خراشیں لگی ہوں گی اور لوگ اُسے اس نام اور نسب سے پہچانیں گے۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہی کا یہ ارشاد ہے (قَالَ) اَلَآ اُنَبِّئکُمْ بِاَلْبَرِ الْکبائِرِ؟ کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہِ کبیرہ بتاؤں؟" قُلْنابَلیٰ یَا رَسُوْلَ اللهِ اصحاب کہتے ہیں کہ ہم نے کہا "کیوں نہیں اے الله کے رسول!" قَالَ اَلْاِشْرَاکُ بِااللهِ تعالیٰ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ "خدائے تعالیٰ کا کسی کو شریک قرار دے دینا اور والدین کے ہاتھوں عاق ہو جانا" وَکَانَ مُتّکِاً فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) آرام سے ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ اٹھ بیٹھے اور فرمایا:اَلَا وَقَوْلُ الزُّوْرِ "آگاہ ہوجاؤ اور ہر جھوٹی بات بھی سب سے بڑا گناہِ کبیرہ ہے!"

راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جھوٹ کی مذمت میں اتنی بار تاکید کی تھی کہ ہم سوچتے تھے کہ اے کاش وہ اتنی تاکید نہ فرماتے۔ (مستدرک الوسائل)

ظاہر ہے قَوْل زُوْر میں یا ہر جھوٹی بات میں جھوٹی گواہی بھی شامل ہے اور رسولِ خدا نے اسے ایک سب سے بڑے گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے۔ ایک تو خود جھوٹ گناہِ کبیرہ ہے۔ دوسرے ایک مسلمان پر بہتان بھی جھوٹی گواہی میں ہوتا ہے۔ بہتان بھی گناہِ کبیرہ ہے۔ تیسرے یہ کہ جھوٹی گواہی کی بنیاد پر کسی مظلوم پر ظلم ہو جاتا ہے اور ظلم خود ایک گناہِ کبیرہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہے کہ جھوٹی گواہی کے ذریعے آدمی نا جائز مال کو اپنے لئے ظاہری طور پر جائز ثابت کرنا چاہتا ہے۔ حرام خدا کو حلال ظاہر کرنا خود ایک گناہِ کبیرہ ہے، اور دوسروں کا حق غضب کرنا بھی ایک گناہِ کبیرہ ہے۔ بہر حال بات سمجھ میں آتی ہے کہ جھوٹی گواہی اس لئے ایک سب سے بڑا گناہِ کبیرہ ہے کہ یہ کئی گناہانِ کبیرہ کا مجموعہ ہے۔

کسی چیز کا علم ہونے کے بعد گواہی دی جائے

جھوٹی گواہی دینے کے سلسلے میں فرق نہیں ہے کہ آدمی جھوٹ کو جھوٹ جانتے ہوئے جھوٹی گواہی دے یا بغیر یقین کے یونہی گواہی دے ڈالے جو حقیقت میں جھوٹی ہو۔ یہ بھی گناہِ کبیرہ ہے۔ آدمی پر واجب ہے کہ وہ اس وقت گواہی نہ دے جب تک اسے اپنے سچّا ہونے کا یقین نہ ہو۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں :لَا تَشْهَدْ بِشَهَادَةٍ حَتَّی تَعْرِفَهَا کَمَا تَعْرِفُ کَفَّکَ (وسائل الشیعہ) " اس وقت تک کوئی گواہی مت دو جب تک کہ تمہیں اس کے بارے میں ایسا یقین حاصل نہ ہو جیسا یقین تمہیں اپنی ہتھیلی کے وجود کے بارے میں ہے۔"

وَقَالَ النَّبِیُّ لِمَنْ سَأَلَهُ عَنِ الشَّهَادَةِ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے گواہی دینے یا نہ دینے کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: تَرَی الشَّمْسَ؟ "کیا تم سورج کو دیکھ رہے ہو؟ " قَالَ نَعَمْ اس شخص نے عرض کیا "جی ہاں!" فَقَالَ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:اَلَا مِثْلِهَا فَشْهَدْ اَوْدَعْ (وسائل الشیعہ ، گواہی کے ابواب ، باب ۲۰)" ایسی سورج کی سی گواہی دے دیاکرو، اور اگر ایسا آنکھوں دیکھایا اس جیسا یقین نہ ہوتو گواہی مت دو"

اور حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کا ارشاد ہے :لَیُودِّ الشَّا هِدُ مَا یَشْهَدْ عَلَیْه وَلْیَتّقِ اللّٰهَ رَبَّه فَمَنِ الزُّوْرِاَنْ عَّشْهَدَ الرَّجُلُ بِمَا لَا یَعْلَمُ اَوْ یُنْکِرَمَا یَعْلَمُ "گواہ کو صرف وہی گواہی دینی چاہیئے جو وہ یقین سے جانتا ہو۔ اسے اپنے پروگرام یعنی الله سے ڈرتے رہنا چاہیئے۔ زُوْر (جھوٹی بات) یہ بھی ہے کہ آدمی یقین کے بغیر ہی گواہی دے ڈالے یا ایک چیز کایقین ہے مگر وہ اس سے انکا ر کربیٹھے ۔"وَقَدْ قَالَ اللّٰهُ عَزَّوجَلَّ وَاجْتَنِبُواْ قُوْلَ الزُّوْرِ حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِه " خدائے عزّوجل فرماتا ہے کہ ہر جھوٹی بات سے پرہیز کرو ۔خداکی خاطر خود کو برائیوں سے پاک رکھو اور شرک نہ کرو۔" فَعَدَلَ تَبَرَکَ اسْمُہ شَھَا دَةَ الزُّوْرِ بِا لشِرْکِ(مستدرک الوسائل) " پس خدا ونِد تعالیٰ نے جھوٹی گواہی کو شرک کے ہم پلہ قرار دے دیا ہے!"

جھوٹی گوا ہی دینے والے کی رسوائی

ہوتا یہ ہے کہ شرعی حاکم کے پاس اگر گواہ اپنی گواہی کے جھوٹے ہونے کا اقرار کر بیٹھے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا اس نے جان بوجھ کر جھوٹ کو جھوٹ سمجھتے ہوئے گواہی دی تھی یا نہیں۔ اگر اس نے عمداً جھوٹی گواہی دی تھی تو اس کوفاسق قرار دے دیا جاتا ہے ۔ لیکن اگر خطا اور اشتباہ کا احتمال ہو تو گواہ کو فاسق شمار نہیں کیا جاتا۔ یعنی بعد میں بھی اس کی گواہی قابل ِقبول نہیں رہتی ۔ خواہ گواہ فاسق شمار ہویا نہ ہو، دونوں صورتوں میں اگر اس کی تلافی کرنا گواہ پر واجب ہوجاتا ہے ۔ مزید تفصیلات فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔

گواہی کے جھوٹے ثابت ہونیکا ایک طریقہ خود اقرار ہے یعنی گواہ اپنی گواہی کے جھوٹا ہونے کا اقرار کرے۔ گواہی کے جھوٹے ثابت ہونے کا دوسرا طریقہ بَیِّنہ کہلاتا ہے۔ یعنی دو عادل آدمی گواہ کے خلاف گواہی دیں تو بھی گواہی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ ان دونوں طریقوں کے علاوہ بھی گواہ کو جھوٹا قرار دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شرعی حاکم کو کسی بنیاد پر یقین ہوجائے کہ گواہ نے دھوکہ کیا ہے اور جھوٹبولا ہے۔ پس اپنے یقین کی بنیاد پر حاکمِ شرع گواہ کو مستر دکردے گا۔ اگر جھوٹی گواہی کی وجہ سے کسی کو نقصان ہوا ہے تو گواہ سے اس کا عوض دلوائے گا، اور گواہ کو تعزیر کرے گا۔ یعنی ڈانٹے گایا جس حد تک مصلحت ہو کوڑے مارے گا تاکہ آئندہ وہ جھوٹی گواہی سے بازرہے۔ حاکمِ شرع والا ہے تاکہ کوئی شخص اس کی گواہی سے دھوکہ نہ کھائے اور کسی سلسلے میں اس پراعتماد نہ کرے ۔ اس طرح جوٹی گواہی دینے والا شخص معاشرے میں رسوا ہوکر رہ جاتا ہے اور اس طرح معاشرے کا نظام محفوظ ہوجاتاہے ۔ تعزیر اور گواہ کے خلاف اعلان عام دونوں صورتوں میں ہوتا ہے خواہ اس کی گواہی کی بنیاد پر حاکم شرع حکم سُنا چکا ہو یا نہیں۔

ان کی گواہی کو کبھی قبول نہ کیا جائے

حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلَّام فرماتے ہیں :اِنَّ شُهُوْ دَ الزُّوْرِ یُجْلَدُوْنَ جَلْدًا لَیْسَ لُه وَقْتُ ذٰلِکَ اِ لَی الِاْ مَامِ وَیُطَافُ بِهِمْ حَتَّی یَعْرِ فَهْمُ النّاسُ " جھوٹی گواہی دینے والوں کو ڑے لگائے جانے چاہئیں، اور کوڑوں کی تعداد معین کرنا امام علیہ السَّلام (یا حاکِم شرع) کی مرضی پر ہے اور جھوٹی گواہی دنے والوں کو شہر میں گھمایا جانا چاہیئے تاکہ لوگ ان کو اچھی طرح پہچان لیں (اور آئندہ ان پر بھروسہ نہ کریں ") پھر امام علیہ السَّلام نے یہ آیت شریفہ کی تلاوت فرمائی :( وَلَا تَقْبَلُ لَهُمْ سُهَا دَةً اَبدًا وَ اُولٓئِکَ هُمْ الْفَا سِقُوْنَ اِلّاَ الَّذِیْنَ تَابُوْا ) (سورئہ نور اایت نمبر ۴) اور پھر آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یا د رکھو کہ یہ لوگ فاسق ہیں ، ہاں مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کرلی " (تو خدا بڑا مہربان ہے یعنی توبہ اور اصلاح کے بعد ان کی گواہی پھر قابلِ قبول ہے۔ ) روای کہتا ہے کہ قُلْتُ میں نے امام علیہ السَّلام سے دریافت کیا بِمَ یُعْرَفُ تَوْبَتُہ؟ "کس طرح معلوم ہوگا کہ اس نے توبہ کرلی ہے؟"قَالَ یُکَذِّبُ نَفْسَه عَلٰی رُوسِ الَا شُهَارِ حَیْثُ یُضْرَبُ وَیَسْتَغْفِرُ رَبَّه فَاِذَا فَعَلَ ذٰلِکَ فَثَمَّ ظَهَرَتْ تُوْبَتُه (وسائل الشیعہ ) " جس جگہ پر اس کو تعزیر کے سلسلے میں کڑے لگائے گئے ہوں وہیں وہ گواہوں کے مجمع کے سامنے اپنی گواہی کو جھوٹا قرار دے اور اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرے۔ جب وہ ایسا کرے گا تو اس طرح اس کی توبہ ظاہر ہوجائے گی۔

خسا رے کو پورا کرے

اگر جھوٹی گواہی کی وجہ سے کسی مسلمان کی جان مال یا عزت کا نقصان ہو ہو تو خود جھوٹے گواہ سے قصاص لیا جاتا ہے اور نقصان کی تلافی کی جاتی ہے ۔ جمیل نامی راوی حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السَّلام سے جھوٹی گواہی دینے والے شخص کے بارے میں یہ صحیح روایت نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا(قَالَ) اِنْ کاَنَ الشَّیْی قَآئِمًا بِعَیْنِه رَوَّ عَلٰٰٰی صَاحِِبِه، وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ ضَمِنِ بِقَدْرِ مَآاَتْلَفَ مِنْ مَّالِ الرّجُلِ (کتاب مسالک ) یعنی " اگر چیز بعینہ باقی ہے تو اس ے مالک کو واپس لوٹادے ۔ اور اگر چیز باقی نہیں ہے تو جس حد تک اس نے دوسرے آدمی کا مال تلف کیا ہے اُس حد تک وہ (جھوٹاگواہ) ضامن ہے۔" یعنی وہ اسی جیسی دوسری چیز اصل مالک کو لا کردے گا یا اس کی قیمت ادا کریگا ۔ مزید معلومات کے لئے فقہی کتابو ں کا مطالعہ کیا جائے۔

اسِ گناہ سے توبہ

جھوٹی گواہی جِسے گناہِ کبیر ہ کی توبہ کا طریقہ بھی معلوم ہوگیا ۔ توبہ کرنے کے لئے ، خواہ وہ کسی گناہ کی ہو، آدمی کواپنے کئے پر پہلے سخت پشیمان ہوجانا چاہیئے۔ پروردگار سے اس کے حکم کی مخالفت پر استغفا ر کرنا چاہیئے، اور جس مسلمان کونقصان پہنچاہو۔ اس کی تلافی کردے۔ خدا وندِ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔( اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُورُ رِّحَیمُ ) (سورئہ نور ۲۴: آیت ۵)

ہاں مگر جو لوگ توبہ کر لیتے ہیں اور اپنی اصلاح کرلیتے ہیں (یامعاملے کی اصلاح کرلیتے ہیں اورتلافی کردیتے ہیں) تو خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان

سچی گواہی سے اجتناب

بیسواں گناہِ کبیرہ یہ ہے کہ ٓادمی شرعی عدالت میں اپنی سچی گواہی دینے سے اجتناب کرے۔ حضرت عبدالعظیم نے امام محمد علیہ السَّلام سے جو صیح روایت نقل فرمائی ہے، اُس میں صاف طور پر اِسے بھی گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے ۔ حق کو حق ثابت کرنے اور باطل کو باطل ثابت کرنے کے لئے کچھ شرطوں کی موجودگی میں جوبیان ہوں گی، گواہی دینا واجب ہوجاتا ہے۔ مذکورہ صحیح روایت میں حضرت امام محمد تقی علیہ السَّلام گواہی چھپانے کے گناہِ کبیرہ ہونے کی دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کرتے ہیں:( وَلَا تَکُتُمُواالشَّهَادَةَ وَمَنْ یَّکْتُمْهَا فَاِنَّه اٰ ثِمُ قَلْبُه وَاللّٰهُ بِمَاتَعْلَمُوْنَ عَلِیْمُ ) (سورئہ بقرہ ۲: آیت ۲۸۳) " اور تم گواہی کو نہ چھپایا کرو ۔ جو شخص گواہی کو چھپائے گا بیشک اس کا دل گنہگار ہے اور جو تم لوگ کرتے ہو خدا اس کو خوب جانتا ہے۔"

اس آیت شریفہ میں آثِمُ قَلْبہ کہاگیا ہے اور دل کو گنہگار بتایا گیا ہے۔ اس میں دونکتے ہیں ۔ایک تو یہ کہ گواہی چھپانا ایک قلبی گناہ ہے، یعنی ایسا گناہ ہے ، جودل کرتا ہے اور اس میں اعضاء وجوارح براہِ راست کچھ نہیں کرتے ۔ آدمی دِل میں حقیقت کو چھپالیتا ہے اورزبان سے ظاہر نہیں کرتا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جس حد تک دل کو جسم کے تمام اعضاء وجوارح پر فضیلت حاصل ہے،اسی حد تک دِل کا گناہ بھی اعضاء وجوارح کے گناہ سے زیادہ بڑا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے دل کی اِطاعتِ خدا، اُس اطاعت سے کہیں افضل ہے جو اعضاء وجوارح کے ذریعے ہوتی ہے ۔ یہ دِل ہی ہے جو آدمی کو شرک جیسے سب سے بڑے گناہ میں آلودہ کردیتا ہے۔ دِل کے گناہ، بہرحال اعضاء وجوارح کے گناہ سے کہیں زیادہ بڑے ہوتے ہیں ۔ دِل کے انہی گناہوں میں سے ایک اسی آیت شریفہ کی رو سے شرعی عدالت میں گواہی کو چھپانا ہے۔ اسی آیت کے آخر میں مزید تاکید کرتے ہوئے خدا فرماتا ہے کہ وَاللّٰہُ بِمَاتَعْلُمَوْنَ عَلِیْمُ یعنی خواہ وہ لوگ تمہارے دِل کے اس گناہ کو نہ جانیں، لیکن خدا تو اچھی طر ح جانتاہے اور وہ ضرور اس کی سزادے گا۔

خداونِدتعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے( وَلَایَأْبَ الشْهْدَآءُ اِذَامَا دُعُوْا ) ۔ (سورئہ بقرہ ۲: آیت ۲۸۲) " اورجب گواہوں کو گواہی کے لیے بلایا جائے تو ان کو انکا ر نہیں کرنا چاہیئے "۔ اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد ہے( وَمَنْ اَظِلَمَ مِمَّنْ کَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَه مِنَ اللّٰهِ ) (سورئہ بقرہ ۲: آیت ۱۴۰) " اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کے پاس خدا کی طرف داری میں گواہی موجود ہو لیکن وہ اس گواہی کو چھپادے!" ایسا شخص یقیناً ان اہلِ کتاب کی طرح سے ہے جنھوں نے توریت اور انجیل میں پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفٰے کے اوصاف پڑھ لئے تھے مگر اس کے باوجودان کو چھپالیا تھا!

سچّی گواہی دیجئے ، خواہ آپ کو نقصان ہو

سورئہ نساء میں خدا ونِد تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:( یاَ اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنَوْ کُوْنُواقَوّٰمِیْنَ بِالْقِسطِ شَهَدآءَ لِلّٰهِ وَلَوْعَلٰٓی اَنْفُسِکُْمْ اُوِالْوَالَّدِیْنََ وَالْاَقْرَبِیْنَ اِن یَّکُنْ غَنِیًّااَوْفَقِیْرًافَاللّٰهُ اَوْلٰی بِهِمَا، فَلَا تَبِتَّعُوالْهَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُواْ وَاِنْ تَلْوآ اَوْتُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰه کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ) (سورئہ نسا ء ۴: آیت ۱۳۵)" اے ایمان والو ! مضبوطی کے ساتھ انصاف پر قائم رہو اور سچّی گواہی دوا گرچہ یہ گواہی خود تمہارے ،ماں باپ یا قرابت داروں کے لئے مضر ہی کیوں نہ ہو۔ خواہ مالدار ہو یا غریب، ہر شخص کوسّچی گواہی دینی چاہیئے۔خدا تم سے زیادہ دوسروں پر مہربان ہے۔ پس تم حق سے کترانے میں نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو۔ اگر تم گواہی گھما پھر اکے دوگے، گول مول بات کرو گے یا گواہی دینے سے بالکل انکا ر کردو گے تو یادر ہے کہ خدا تمہارے کرتوتوں سے بخوبی واقف ہے۔" پس آدمی کو دولت مندوں سے ڈرکر یا غریبوں پر رحم کھانے کے عنوان سے بھی گواہی نہیں چھپانی چاہیئے یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ بچارے غریب کے خلاف گواہی دے دی تو اس کا کیا بنے گا ۔ پس گواہی کے سلسلے میں نہ تو اپنی ذاتی مصلحت مِدنظر رکھنی چاہئیے اور نہ ہی دوسروں کی منفعت کا لحاظ کرنا چاہیئے۔ ہرحال میں پس حکمِ خداوندی کو مدِّ نظر رکھنا چاہیئے۔

دشمن کے حق میں بھی انصاف

سورئہ مائدہ میں ارشاد ہے:( یَا ایُّهَالّذِیْنَ اَمَنُوْاکُوْنُوْ آقَوَّمِیْنَ لِلّٰهِ شَهَدَآءَ بَالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلیٰٓ اَلَّا تَعْدِ لُوْا، اِعْدِلُوْا هُوْ اَقْرَبُ لِتَّقْوٰی وَاتَّقُو اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ) (سورئہ مائدہ ۵: آیت ۸) "

اے ایمان لانے ولاو!خدا کی خوشنودی کے لئے انصاف کے ساتھ گواہی دینے پر تیا رہو تمہیں کسی قبیلے کی عداوت اس جرم میں نہ پھنسوادے کہ تم نا انصافی کرنے لگو۔ خبردار، بلکہ تم ہر حال میں انصاف ہی کرو جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے ضرور جانتا ہے۔"

اس آیت شریفہ میں یہ حکم موجود ہے کہ گواہی صرف خوشنودیِ خدا کے ہونی چاہیئے اور کسی قسم کی دشمنی حق گوئی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیئے۔ ایک اور جگہ اور ارشاد ہے:( وَاقِیْمُوْالشَهَادَةَلِلّٰه ِ ) (سورئہ طلاق ۶۵: آیت ۳)" اور خدا ہی کے لئے تم ٹھیک ٹھیک گواہی دیا کرو"۔

سچّی گواہی چھپانے والے

جضرت امام امحمد باقرعلیہ السَّلام فرماتے ہیں:مَنْ کَتَمَهَا اَطْعَمَهُ اللّٰهُ لَحْمُه عَلٰٰی رُوسِ الْخلَائِقِ یُوْمَ الْقِیَامَةِ ( "جوشخص گوہی چھپائے گا قیامت کے دِن اس کا گوشت کاٹ کرخدا سب لوگوں کے سامنے اسے حکُم دے گا کہ وہ اپنا گوشت خود کھائے !" امام محمد باقر علیہ السَّلام یہ بھی فرماتے ہیں کہ گواہی چھپانے کی مذمت میں آنے والی آیت میںفَاِ نَّه اَثِمُ قَلْبُه سے مرادکَافِرُ قَلْبُه ہے۔ یعنی جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دِل کافر ہوتا ہے! یعنی اس کے دِل میں کفر ہوتا ہے۔)

امام علیہ السَّلام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ( مَنْ رَّجَعَ عَنْ شَهَدَةٍاَوْ کَتَمَهَا اَطْعَمَه اللّٰهُ لَحْمَه عَلٰی رُوسِ الْخلائِقِ وَیَدْخُلُ النّارَ وَهُوَ یَلُرْکُ لِسَا نَه ) (وسائل الشیعہ ) یعنی " جو شخص گواہی دینے سے پھر جائے گا یا سیرے سے گواہی چھپا لے گا، خدا ونِد تعالیٰ (قیامت کے دن ) سب لوگواں کے سامنے اس کا گوشت خود اسی کوکھلوائے گا اور اایساشخص جب جہنّم میں داخل ہوگا تو اپنی زبان دانتوں سے کاٹ رہا ہوگا!"

حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السَّلام فرماتے ہیںوَاِنْ سُئِلْتَ عَنِ الشَّهَادَةِ فَأَدِّهَا "جب تم سے گواہی مانگی جائے تو گواہی ضرور دو "( فَانَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ یُقُوْلُ اِنَّ اللّٰهَ یَأْمُرُکُمْ اَنْ تَودُّوا لَامَانَاتِ اِلٰٓی اَهْلِهَا ) (سورئہ نساء آیت ۵۸) اس لئے کہ خدا عزّوجل فرماتا ہے : "بے شک خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کوان کے اہلِ لوگوں تک پہنچا دو ۔" گواہی خود ایک امانت ہے اس کے علاوہ خدائے تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے(وَقَالَ تعالیٰ) ( وَمَنْ اَظْلَمُ مِمّنْ کَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَه مِنَ اللّٰهِ ) (سورئہ بقرہ ۲: آیت ۱۴۰) " اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کے پاس خدا کی طرف داری میں گواہی موجود ہو لیکن وہ اس کو چھپادے!"(وسائل الشیعہ)

تفسیرِ علی ابن ابراہیم قمی میں حضرت امیر المومنین علیہ اسَّلام کا یہ قَوْل نقل ہے کہ : "جو شخص کوئی گواہی اپنے پاس رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے ظاہر کردے ۔ جب اس سے گواہی طلب کی جائے تو وہ بتادے۔ کسی کی ملامت سے نہ ڈرے ۔ اپنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بہرحال انجام دے!"

کیا گواہ بنناواجب ہے؟

جب کوئی مسلمان اپنے دینی بھائی سے خواہش کرتا ہے کہ وہ اس کا ساتھ دے اور گواہی کے لئے شرعی عدالت میں حاضر ہوجائے، یا کسی معاملے میں گواہ بن جائے تاکہ اگر آئندہ گواہی کی ضرورت پڑے تو گواہی دے سکے، تو آیا شرعًا اس کی یہ خواہش پوری کرنا واجب ہے یا نہیں ؟ فقہا ومجتہدین کے درمیان مشہوریہی ہے کہ گواہی دینے پر یا کسی معاملے کا گواہ بن جانے پر آمادہ ہوجانا واجب ہے ۔ خداوندِ تعالٰی خو دحکم فرماتا ہے کہ

( واسْتَشَهْدُوُاَوْاشَهِیْدَیْنِ مِنَ رِّجَالِکُمْ فَاِنْ لَّمْ یَکُوْ نَارَجُلَیْن فَرَجُلُ وَّامْرَءَ تَان مِمَّنْ تَرْضَونَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدَاهُمَافتُد کرّ اِحْدٰاهُماَ الْأُخرٰی وَلِاٰ یَأْبَ الشُّهَدَ آءُ اِذَا مَا دُعُوْا ) ( سورئہ بقرہ ۲: آیت ۲۸۲)

" اور اپنے لوگوں میں سے جن لوگوں کو تم گواہی کے لئے پسند کرو کم سے کم دو مردوں کی گواہی کرالیا کرو۔ پھر اگر دو مردنہ ہوں تو کم سے ایک مرد اور دوعورتیں۔ کیونکہ ان دونوں میں سے اگر ایک بھول جائے گی تو ایک دوسری کو یاد دلادے گی، اور جب گواہ بلائے جائیں تو انھیں گواہی کے لئے انکار نہیں کرنا چاہیئے۔"

ہشام کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا( وَلَا یَأْبَ الشُُّهَدَآءُ اِذَ ا مَادُعُوْا ) (سورئہ بقرہ ۲: آیت ۲۸۲) (" اور جب گواہ بلائے جائیں تو انہیں گواہی کے لئے انکا ر نہیں کرنا چاہیئے") سے مراد " گواہ بننے کے لئے بلائے جائیں ۔"ہے۔

قَالَ قَبْلَ الشَّھَادَةَ ۔یعنی امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا اصل شرعی حاکم کے پاس گواہی دینے سے قبل کی گواہی مراد ہے۔ اور اسی آیت کے بعد والی آیات میں وَلَاتَکُمتُّمُوْاالشَّھَادَةَ سے مراد ہے کہ حاکمِ شرعی کے پاس گواہی کو مت چھپاؤ۔

بہت سی روایتوں میں آیا ہے کہ گواہ بن جانا واجب ہے۔ مثلاً محمد بن فضیل نے حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السَّلام سےوَلَا یَأَبَ الشُّهَدآءُ اِذَ مَا دُعُوْا (جب گواہوں کوبلایا جائے تو ان کو انکا ر نہیں کرنا چاہیئے۔ سورئہ بقرہ ۲: آیت ۲۸۲) کہ یہ معنی نقل کئے ہیں کہ(فَقَالَ اِذْدَعَاکَ الرَّجُلُ لِتَشْهَدَلَه عَلٰٰی دَیْنٍ اَوْ عَلٰی حَقٍّ لَمْ یَسَعْ لَکَ اَنْ تُقَاعِسَ عَنْهُ (وسائل الشیعہ، گواہی کے ابواب، باب ایک) "جب کوئی شخص تم کو کسی قرضے یا کسی حق کے سلسلے میں گواہ بننے کی خاطر بلائے تو تم کواتنی چھوٹ نہیں ہے کہ اس سے لاپرواہی کرو!"

جب خدا ونِد تعالیٰ نے سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں حاکم شرع کے سامنے گواہی دینے کو واجب قرار دے دیا ہے تواس کا لازمہ یہ ہے کہ آدمی پہلے گواہ بن چکا ہو ۔ جب آدمی کسی معاملے میں گواہ کا کردار ادا کرچکا ہو تب کہیں جا کر وہ عدالت میں گواہی دے سکے گا۔ اس کے علاوہ جب گواہ بنانے کا حکم ہے تو معقول نہیں ہے کہ ایک شخص پر واجب ہو کہ وہ دوسرے کو گواہ بننے کے لئے کہے لیکن دوسرے پر گواہ بننا واجب نہ ہو۔

وہ لوگ جن کی دُعا قبول نہیں ہوتی

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں :"چارقسم کے لوگوں کی دعا مستجاب نہیں ہوتی:

(!) ایسا شخص جو ہاتھ پر ہاتھ دہرے اپنے گھر میں بیٹھا رہے، کمانے کی کوشش نہ کرے، اور دعا کرے کے خدایا مجھے روزی دے! ایسے شخص کو جواب دے دیا جاتا ہے کہ کیا ہم نے تجھے طلبِ رزق میں کوشش کرنے کا حکم نہیں دیا تھا؟!

( ۲) ایسا شخص جو اپنی بیوی کے لئے بدعا کرے۔ اس سے کہہ دیا جاتا ہے کہ آیاکہ یہ مسئلہ ہم نے تیرے اختیار میں نہیں دے دیا تھا کہ اگر ایسی بیوی نہیں چاہتا تو اسے رشتہ ازواج سے آزاد کر دے!

( ۳) ایسا شخص جس کا کچھ مال تھا لیکن اس نے اسراف کیا اور بے ہودہ کاموں میں اسے ضائع کرڈالا ۔ اب اگر وہ دُعا کرے کہ خدایا مجھے روزی دے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ آیاہم نے تجھے اعتدال سے خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا؟!

( ۴) اور ایسا شخص جو اپنا کچھ مال دوسرے کو قرض دے، لیکن اس معاملے پر کسی کو گواہ نہ بنائے۔ایسی صورت میں اگر قرض دار شخص انکار کردے تو اس کی دعا کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ کیا ہم نے تمہیں گواہ بنانے کاحکم نہیں دیا تھا؟! " (کتاب عِدَّةُ الدَّاعی)

اس بناء پر جب کوئی آدمی کسی سے گواہ بننے کی درخواست کرے تو اس پر واجب ہے کہ وہ گواہ بن جائے، اگرچہ گواہی کے ہے اُسے کہیں جانا بھی پڑے ۔ اس پر واجب ہے کہ وہ لاپرواہی نہ کرے اور تمام اہم باتوں پر توجّہ دے،۔ دیکھی اور سُنی ہوئی تاہم بتوں کو ذہن نشین کرے، یا اپنے پاس لکھ کر محفوظ رکھے، تاکہ ضرورت کے وقت یا گواہی دیتے وقت کوئی بھول یاا شتباہ نہ ہوجائے اور وہ یقین کے ساتھ حقیقت بتاسکے۔

گواہی د ینا واجب اور اس کاچھپا نا حرام

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کسی کی درخوست کے بغیر اور خود اپنی خواہش کے بغیر ہی گواہ بن بیٹھتا ہے۔ مثلًایہ ہوتا ہے کہ وہ گذرتے ہوئے کسی چیز کو دیکھ لے یا کوئی بات سُن لے۔ بعد میں اگر اس سے گواہی طلب کی جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت یہ ہے کہ اگر وہ گواہی دے دے تو کسی مسلمان کو وہ نقصان سے بچاسکے گا یا اُسے اس کا حق مل جائے گا، جب کہ اگر گواہی نہ دے تو اس مسلمان کو ضرر پہنچے گایا اسے اسکا حق مل جائے گا، جب کہ اگر گواہی نہ دے تو اس مسلمان ضرر پہنچے گایا اس کا حق حاصل نہ ہوگا ، ایسی صورت میں گواہی دینا واجب ہوجاتا ہے۔ بلکہ اگر اس شخص کو گواہ پہچانتا نہ ہو جو حق پر ہو، یا بُھول گیا ہو، تب بھی واجب ہے کہ وہ خود کو شرعی قاضی کے پاس گواہ کے طور پر پیش کرے اور جو کچھ دیکھا یاکہ سُنا تھا وہ بتادے ۔ ایسی صورت میں ، جب کہ کسی مسلمان کا حق ضائع ہورہا ہو اسے ضرر پہنچ رہا ہو، سکوت اختیار کرنا حرام ہے ۔ مظلوم کی مدد کرنا اور ظالم کو ظلم سے روکنا اگرممکن ہوتو واجب ہوتا ہے۔

لیکن اگر گواہی نہ دینے اور سکوت اختیار کرلینے کی صورت میں کسی مسلمان کا حق ضائع نہ ہوتا ہو یا اسے ضرر نہ پہنچتا ہو تو گواہی دینا واجب نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر اسے گواہی دینے کے لئے بھی کہا جائے تو بھی وہ گواہی دینے سے انکار کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ اس کو باقاعدہ گواہ نہیں بنایا گیا تھا اور اب گواہی دینے سے کسی کا نقصان بھی نہیں ہورہا ہے۔

محمد ابنِ مسلم حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام سے یہ صحیح روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ(عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْه السَّلامُ)اِذَاسَمِعَ الرَّجُلُ الشَّهَادَةَوَلَمْ یُشْهَدْ عَلَیْهَااِنْ شَاءَ شَهِدَ وَاِنْ شَاءَ سَکَتَ (وسائل الشیعہ ، گواہی کے ابواب ، باب ۵) یعنی " اگر آدمی کوئی گواہی سُن لے لیکن اسے گواہ نہ بنایا گیا ہو تو اس کی مرضی ہے کہ چاہے تو گواہی دے دے اور چاہے تو سکوت اختیار کرے۔"

جس بات پر یقین ہے اس کی گواہی دو

گواہ کو گواہی کے تمام پہلووں پر اچھی طرح توجہ دینی چاہیئے اور گواہی دینے کا موقع آئے تو صرف ان ہی باتوں کی گواہی دینی چاہیئے جن پر اسے یقین ہے ایسی باتیں گواہی میں انہیں پیش کردینی چاہیں جو اس نے خود نہ سُنی ہوں یا جنہیں اس نے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔ جس طرح کہ خود حدیث میں ہے کہ گواہی کی بات سورج کی جیسی روشن اور واضح ہونی چاہیئے۔

جب سچّی گواہی سے کسی پر ظلم ہو

یہ بات جان لینی چاہیئے کہ اگر گواہی دے دینے سے کسی مسلمان کی جان ، مال، عزّت یا خود گواہ کی جان ، مال یا عزّت کو خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہئیے۔ گواہی چھپانا اس لئے حرام ہے اورگواہی دینااس لئے واجب ہے تاکہ معاشرے میں عدل وانصا ف قائم رہے اور معاشرے کا نظام صحیح روش پر چلتا رہے ظلم کاخاتمہ ہو۔ ظالم کوسزا ملے اور حق دار کو اُس کا حق۔ لیکن جب خود گواہی دینا ظلم کا سبب بن رہا ہو تو ایسی گواہی چھُپالینا واجب ہے۔ مثلًا آدمی جانتا ہے کہ اگر ظالم کے خلاف وہ گواہی دیدے گا تو وہ بعد میں اس کا مال لوٹ لے گا یا ایذائیں پہنچائے گا یا اس کے کسی عزیز رشتہ دار پر ظلم کر بیٹھے گا۔ ایسی صورت میں گواہی چھپا لینا واجب ہے اسی طرح اگر آدمی دیکھ رہا ہو کہ قرض دار قرض میں ڈوبا ہوا ہے اور ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی اپنے مفلس ہو نے کو ثابت کرسکتا ہے، دوسری طرف وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ قرض دینے والا شخص مہلت دینے پر تیار نہیں ہے ۔ تو ایسی صورت میں گواہی دے دینا کہ یہ اس کا قرض دار ہے۔ بیچارے قرض دار پر ظلم ہوجائے گا ۔ پس یہاں گواہی چھپالینا واجب ہے۔

حضر ت امام موسٰی کا ظم علیہ السَّلام فرماتے ہیں کہ:فَا قِمِ الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰی نَفْسِکَ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ فِیْمَا بَیْنَکَ وَبَیْنَهُمْ فَاِنَ خِفْتَِ عَلٰی اَخِیْکَ الضَیْمُ فَلَا (وسائل الشیعہ )" تم الله کے لئے گواہی دو اگرچہ گواہی دینے میں خود تمہیں اپنے یا پانے والدین اور اعزاء وا قرباء کے خلاف کچھ کہنا پڑے ۔ لیکن پہرحال تمہیں اپنے دینی بھائی کو گواہی چھپا کر نقصان دینا نہیں چاہیئے۔ لیکن اگر تمہارے دینی بھائی کو نقصان پہنچنے کا خداشہ ہو تو گواہی نہ دو ۔"

حضرت امام جعفرِ صادق علیہ السَّلام کودا ود بن عصین روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے امام کویہ کہتے سُناہے کہ ا۔قِمْ الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ عَلٰی الْوَلِدَیْنِ وَالْولَدِوقلَا تُقِیْمُوْهَا عَلَی الْاَخِ فِی الدِّیْنِ الضَیْرَ "خدا کے لئے لِلّٰہِ فِیالله گواہی دیا کرو، اگرچہ والدین اور بیٹے کے خلاف کچھ کہنا پڑے ۔ لیکن اپنے دینی بھائی کے خلاف ضَیْر کی خاطر گواہی نہ دو ۔"قُلتُ وَمَا الَّضْیُر؟ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : "ضَمْیر کیا چیز ہے ؟"قَالَ اِذَ التَعَدَّی فِیْهِ صَاحِبُ الْحَقِّ الذِی یَدَّ عِیْهِ قِبَلَه خَلَاف مااَمَرَ اللّٰهُ بِه وَرَسُوْلُه یہ اس قت ہے جب کوئی حق رکھنے والا شخص اپنا حق حاصل کرنے کے سلسلے میں خدا و رسول کے حکم کے خلاف ظلم پر اتر آئے ۔"

وَمِثْلُ ذٰلِکَ اَنْ یَکُوْنِ لِرَجُلِِ عَلٰی اٰ خَرِ دِیْنُ وهُوَ مُعْسِرُ وَاَمَرَ اللّٰهُ تَعالٰی بِاِنْظَارِه حَتَّی تَیَسَّر قَالق تَعَلٰی فَنَظِرَةُ اِلٰی مَیْسِرَةٍ، وَیَسْئَلُکَ اَنْ تُقِیْمَ الشَّهَا دةَوَاَنْت َ تَعْرِ فُه بالْعُسْرِ، اَلَا یَحِلُّ اَنْ تِقپیِمَ الشَّهَادَة (وسائل الشیعہ)

"اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کا قرض دوسرے شخص کی گردن پر ہو لیکن وہ دوسرا شخص تنگی میں ہو ۔خدائے تعالٰی نے ایسی صورت میں اسکو آسودہ حال ہونے تک مہلت دینے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے:فَنَظِرَةُ اِلٰی مَیْسِرَةٍ (سورئہ بقرہ ۳: آیت ۲۸۰) " اس کے باوجو د قرض دینے والا شخص تم سے گواہی دینے کو ہے۔ اب چونکہ تم قرض دار شخص کی تنگ دستی سے واقف ہو اس لئے تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ تم گواہی دے دو (کہ اس نے قرض لیا تھا)"

امام موسٰی کاظم سے ایک روایت

عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْقاَسِمِ ابْنِ الْفُضیْلِ عَنْ اَبِیْ الْحَسِنِ عَلَیْهِ اسَّلامُ قَالَ ۔ محمد ابن قاسم ابن فضیل نے حضررت امام موسٰی کاظم علیہ السَّلام سے روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہعَنْ رُجُلِِ مِّنْ مُوَالِیْکَ عَلَیْهِ دَیْنُ لِرَجُلِِ مُخَالِفِِ یُرَِّیْدُ اَنْ یُّعْسِرَه و یَحْبِسَه ، وَقَدْعَلِمَ اللّٰهُ أَنَّهَا یَسسَتْ عِنْدَ ه وَلٰا یَقْدرُ عَلَیْهِ وَلَیْسَ لِغَرِیْمِه بَِیََّنَةُ ، هَلْ یَجُوزُ لَه اَنْ یّلِفَ لَه عَنْ نَفْسِه حَتَّی یَیْسِرَ اللّٰهُ لَه ،وَاِن کَا نَ عَلَیْهِ شُهُوْدُ مِّنْ مَّوْالِیْکَ قَدْعَوَفُوْاأَنَّه لَا یَقْدِرُهَلْ یَجُوزُ اَنْ یَّشَهَدُوْاعَلَیْهِ ؟

" میں نے امام سے پوچھا: آپ کے چاہنے والوں میں ایک شخص ہے جو آپ کے ایک دشمن کا قرض لئے ہوئے ہے۔ وہ شخص آپ کے اس چاہنے والے پر سختی کرنا چاہتا ہے اور جیل بھیج دینا چاہتا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ اس کے پاس قرض ادا کرنے کے لے رقم نہیں ہے اور نہ ہی وہ ادا کرنے پر فی الحال قادر ہے۔ اس کے پاس اپنی تنگ دستی ثابت کرنے کے لئے بینہ (دو عادل آدمیوں کی گواہی )بھی نہیں ہے۔ آیا ایسی صورت میں وہ اپنی تنگ دستی ثابت کرنے کے لئے اور اس پریشانی کو آسودہ حالی ہوجانے تک کے لئے اپنے اوپر سے ہٹانے کے لئے قسم کھاسکتا ہے؟ اور اگر آپ کے چاہنے والوں میں سے کچھ گواہ اس قرض دار کے خلاف ایسے بھی ہوں جو اس کی تنگ دستی سے واقف ہیں، تو کیا ان کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کے خلاف گواہی دے دیں۔ (کہ اس نے قرض لیا تھا)؟

قَالَ لَا یَجُوْزُ اَنْ یَّشَهَدُوْا عَلَیْهِ وَلَا یَنْوِیْ ظُلْمُه (کافی۔تہذیب گواہی کا باب )امام موسٰی کاظم علیہ السَّلام نے جواب دیا۔ " ان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اُس (قرض دار ) پر ظلم کا قصد کرے!"

جب گواہی دینے سے ضرر پہنچے

یہ جو ہم نے کہا تھا کہ اگر گواہی دینے کے سبب سے گواہ کو یا کسی مسلمان کو ضرر پہنچتا ہو تو گواہی دینا حرام ہے، یہ اس صورت میں ہے جب کہ وہ ضرر ظلم کی حد میں آتا ہو اور بے جاہو ۔ پس اگر ضرر کا آدمی مستحق ہو اور عدالت کا تقاضا ہو کہ اس کووہ ضرر پہنچے تو گواہی دینا پھر بھی واجب رہتاہے۔ مثلاً ایک شخص نے کوئی جرُم کیا ہے۔ اب آدمی جو اس جُرم کا گواہ ہے ، محض اس لئے اس گواہی کو چھپانہیں سکتا کہ اگر گواہی دے دی تو وہ آدمی دیا ہو ا قرض واپس مانگ لے گا۔ یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ مجرم کو شرعی طور پر سزا ملنی چاہیئے اگرچہ گواہ کو مالی نقصان کا سامناکرناپڑے ۔ اگر گواہ واقعی ایسا قرضدار ہے جو قرض ادا نہیں کرسکتا تو وہ بیّنہ (دو عادل آدمیوں کی گواہی ) یا قسم کے ذر یعے اپنی تنگ دستی ثابت کرسکتا ہے۔ ہاں البتہ اگر مجرم کا جُرم گواہ پر آنے والے ضرر سے چھوٹا ہو، یعنی گواہ کو حد سے زیادہ زحمت ، پریشانی یا جان کا خطرہ لاحق ہو تو یہ گواہی چھپانے کے لیئے ایک معقول عذرہے۔

نقصان اور فائدہ نہ ہونا

یہ بات کہے بغیر نہ رہ جائے کہ ضرر ہونا اور فائدے سے محروم ہوجانا ، یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں ۔ اگر مندرجہ بالا مثال میں ایسا ہوکہ اگر گواہ مجرم کے خلاف گواہی نہ دے تو وہ مجرم اس کی آمدنی کے وسائل پیدا کرے گا، لیکن گواہی دے دینے کی صورت میں وہ اس فائدے سے محروم ہوجائے گا تو یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ فائدہ نہ پہنچنا، ضرر نہیں کہلاتا۔

ہاں البتّہ اگر گواہ مثلًا خود مجرم ہی کا ملازم ہو، گواہی دے دینے کی صور ت میں اس کی نوکری چھوٹ جاتی ہو اور اس کے بعد انتہائی سخت پریشانی کا اندیشہ ہوکہ عرفِ عام میں اس کو ضرر کہاجائے تو آدمی گواہی چھپاسکتاہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جھوٹی قسم ، جھوٹی گواہی ، اور گواہی چھپانا، ان تینوں میں سے ہر ایک گناہِ کبیرہ ہے اور اس صورت میں گناہِ کبیرہ ہے جب کہ کوئی ضرر اس سے ٹکرا نہ رہا ہو۔ پس اگرنا حق گواہ کو یا کسی اور مسلمان کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہوتو یہ تینوں گناہ نہیں رہتے بلکہ جائز ہوجاتے ہیں ،۔ بعض مواقعے تو ایسے آتے ہیں جب (مثلاً جان بچانے کے لیے) جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی گواہی دینا، یا گواہی چھپا لینا واجب ہوجاتا ہے۔ بہرحال اصول یہ ہے کہ جو چیز زیادہ اہم ہواسے اختیار کرلینا چاہیئے۔