گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110500
ڈاؤنلوڈ: 7308

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110500 / ڈاؤنلوڈ: 7308
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

گانا

سولہواں ایسا گناہ جِسے صاف الفاظ میں کبیرہ بتایا گیا ہے گاناگانا ہے۔ اعمش نے امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے جو روایت نقل کی ہے اس میں بھی یہ صراحت موجود ہے محمد ابن مسلم کہتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السَّلام نے فرمایا

(قاَلَ) اَلْغِنَآءُ مِمّا اَوْعَدَاللّٰهُ عَلَیْه النَّارَ (فروغِ کافی، بابِ غنا)

" گانا ایک ایسا گناہ ہے، جس پر خدا نے جہنّم کا عذاب رکھا ہے۔" اور دیگر بہت سی حدیثوں سے ثابت ہے کہ ہروہ گناہ،گناہِ کبیرہ ہے جس پر عذاب کی بات خدا وندِ تعالٰی نے کی ہو۔

گانا کیا ہے؟

سیَّد مرتضیٰ اپنی کتاب "وسیلہ" میں فرماتے ہیں:

العنآء حرام فعله وسِمٰاعُه والتکسبُ به ولیسَ هُومجّردُ تِحْسِیْنِ الصّوْتِ، بَلْ هُومَدُّالصّوْتِ وتَرْجِیْعُهُ بکیفّیةٍخاصّةٍ مُطرِبه تنُاٰسِبُ مجلس الّهوِواَلطّربِ "

گانا حرام ہے۔ گانا سُننابھی حرام ہے اور اس کے ذریعے مال کمانا بھی حرام ہے۔ البتہ ہر اچھی آواز گانا نہیں ہے بلکہ گانا ایک خاص انداز میں آواز کو کھینچے اور حلق میں مخصوص انداز سے گھمانے کو کہتے ہیں، جو کہ لہو ولعب اور عیش وطرب کی محفلوں میں رائج ہے۔ ایسا گانا موسیقی کے آلات سے عام طور پر ہم آہنگ ہوتا ہے ۔"

اکثر شیعہ مجتہدین لغت کے ماہرین کی طرح کہتے ہیں کہ گانا آواز کو حلق میں گھمانے کوکہتے ہیں۔ (کلاسیکی موسیقی اور بعض قوالیوں میں ایساہی ہوتاہے اور آآآآ جیسی آواز پیدا ہوتی ہے۔ لغت "صحاح" میں لکھتا ہے کہ گانا ایک ایسے انداز کی آواز کو کہتے ہیں جو انسان کو غیر معمولی حد تک غمگین یا خوش کردیتی ہو۔ تقریباً ایسے ہی معنی دیگر لغتوں میں درج ہیں۔ بس گانا ایک ایسی آواز ہے جو آدمی کو ایک کہف وسرور یا غم کی حالت میں ڈال دیتی ہو۔

کتاب ذخیرة العباد میں لکھا ہے کہ:

گانا لہوولعب کی خاطر نکالی گئی ہر ایسی آوازکو کہتے ہیں جس کی وجہ سے شہوت اُبھرے، خواہ وہ کلاسیکی موسیقی کی طرح حلق میں آواز گھمانے سے پیدا ہوتی ہو یا کسی اور طریقے سے الغرض عرفِ عام میں جِسے گاناکہا جاتا ہو وہ حرام ہے۔ پس اگر اشعار، قرآن یانوحے مرثیے بھی گانے کی طرز پر پڑھے جائیں تو یہ بھی گناہ ہے، بلکہ عام گانے سے زیادہ بڑاگناہ ہے۔ اس لئے کہ اس میں اس طرح قرآنِ مجید اور نوحے مرثیے کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا گناہ اور عذاب دُگناہے۔"

گانے کے بارے میں

( ۱) گانا، گناہِ کبیرہ

جب حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام نے فرمایا تھاکہ " گانا ایسی چیزوں میں سے ہے جس پر خداوندِ تعالیٰ نے عذاب کا قول دیا ہے " تو یہ آیت شریفہ بھی تلاوت فرمائی تھی:

( وَمِنَ النّاس مَنْ یَّشْتَریْ لَهْوُ الْحَدِیْثِ لِیُضلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِعِلْمٍٍ وَّ یَتِخّذَهَاهُزُوً ااُولٰٓئِکَ لَهُمْ عَذابُ مَّهِیْنُ ) (سورئہ القمان ۳۱: آیت نمبر ۲)

" اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو بیہودہ چیزیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوچے سمجھے وہ لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکا دیں اور خدا کی نشانیوں کا مذاق اُڑائیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے بڑارسواکردینے والا عذاب ہے!"

( ۲) آیت میں "لَہْوَالْحَدِیْثِ" سے مرادگانا

اس آیت شریفہ اور امام محمد باقر علیہ السَّلام کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گانا بھی لَہْوَالْحَدِیْث یعنی بیہودہ چیزوں میں سے ایک ہے۔ بیہودہ چیز کوئی نامناسب بات ، حرکت یا شاعری وغیرہ ہوسکتی ہے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو اور جو انسان کو فائدے سے محروم کردے دوسرے الفاظ میں کلامِ حق اورقرآنِ مجید کی بات ماننے سے روک دینے والی ہر چیز لَھْوَالْحَدِیْثہے ۔ گمراہ کردینے والی ہر چیز لَھْوَالْحَدِیْث ہے فسق وفجور، عیّاشی اور فحاشی کی طرف مائل کرنے والی ہر چیز لَھْوَالْحَدِیْث ہے خواہ وہ گانا سُننا ہو یا خودگانا ہو، یہ ایسی ہی بیہودہ چیزیں ہیں ۔ اوپر جو آیت پیش کی گئی اس کے بعد والی آیت میں ارشاد ہے :

( وَاِذَاتُتْلٰی عَلَیْْه اٰیٰتُنَاوَلّٰی مُسْتَکْبِرًا کَأَنْ لّمْ یَسْمَعْهَاکَاَنَّ فِیْ اُذُنَیْهِ وَقْرًا فَبَشّرِهُ بَعِذٰبٍ اَلِیْمٍ ) (سورئہ لقمان ۳۱ ۔ آیت ۷)

قولَ الزُّوْرِ" کی تفسیر

گانے باجے کے لئے قرآنِ مجید میں لَھْوَالْحَدِیْث کے علاوہ لفظ قَوْلَ الزُّوْر بھی استعمال ہو اہے ۔ امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے ابوبصیر نے اس آیت شریف کی تفسیر بوجھی تھی( وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ ) (سورئہ حج ۲۲: آیت نمبر ۳۰) " اور لغو باتوں سے بچے رہو۔" امام علیہ السَّلام نے جواب میں فرمایاتھا (قَالَ) اَلْغِنا ٓءُُ یعنی " گانا لغو بات ہے۔" اور امام محمد تقی علیہ السَّلام کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی :( وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ) (سورئہ فرقان ۲۵: آت نمبر ۷۲)" اور وہ لوگ قریب کے پاس دیکھنے کے لئے کھرے ہی نہیں ہوتے" پھر اس آیت شریفہ کی تفسیرپوچھی گئی تو امام محمد تقی علیہ السَّلام نے جواب دیا(قَالَ) اَلْغِنآء ُ یعنی " یہاں زُوْر یا فریب سے مراد گاناہے"(شیخ طوسی کی کتاب امالی" اور کتاب کافی )

ایک اور حدیث میں ہے کہ حمّاد ابن عثمان نے اِسی آیت شریفہ کے بارے میں بوچھا تو امام محمد تقی علیہ السَّلام نے فرمایا :(قَالَ) مِنْهُ قَوْل الرَّجُلِ الَّذِیْ یُغْنِیْ یعنی " اس میں ایسے شخص کی بے ہودہ باتیں بھی شامل ہیں جو گارہا ہو۔"

( ۴) گا نا "لَغُو" ہے

اسی آیت شریفہ کے بعد والا ٹکڑا ہے( وَاِذَ مَرُّوْا با لْلَغْوِ مَرُّوْا کِرََامًا ) ( سورئہ فرقان ۲۵: آیت نمبر ۷۲)" اور جب وہ کسی چیز کے پاس سے گزرتے تو خداکو آلودہ کئے بغیر پہلو بچالیتے ہیں اور اپنی شرافت محفوظ رکھتے ہیں" اسی طرح ایک اور آیت میں ہے( وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ الّلَغْوِ مُعْرِضُوْنَ ) (سورئہ مومنون ۲۴: آیت نمبر ۳ ) " اور جب لوگ لغو باتوں سے منہ پھیرے رہتے ہیں۔"

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام اور امام علی رضا علیہ السَّلام سے پوچھا گیا کہ ان دونوں آیتوں میں مومنین کی جو صفات بیان کی گئی ہیں یہاں " لغُو " سے کیا مراد ہے؟ توان دونوں معصوموں نے اپنے اپنے زمانے میں یہی فرمایا تھاکہ :" لَغْو دراصل گانا باجا ہے اور خدا کے بندے اس میں آلودہ ہونے سے بچے رہتے ہیں۔" ( کتابِ" کافی " اور کتاب عُیُونُ اخبارِ رضا")

( ۵) آپس میں نفاق اور گانا

عَنْ اِبِیْعَبْدِ اللّٰہِ قَالَ امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا:اسْتِمَاعُ الْغِنَِآءِ وَالَّهْوِ یُنْبِتُ النِّفَا قَ فِیْ الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّوْعَ ( کتاب"کافی") گانے باجے کو اور بے ہودہ باتوں کو غور سے سُننا دل میں نفاق کو اسی طرح پیدا کردیتا ہے جس طرح پانی سبزے کی نشوونما کا باعث بنتاہے۔"

کافی ہی میں چھٹے امام علیہ السّلام کی یہ روایت بھی موجود ہے کہهَلْ غَنَآء ُعَشُّ النِّفَاقِ " گانا باجا نفاق جیسے پرندے کا گھونسلا ہے۔"

گانے کا پروگرام

جس جگہ گانا باجا ہوتا ہے وہاں خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔ حضرت امام جعفرصادق علیہ السَّلام نے فرمایالاَ تَدْ خُلُوْا بُیوُتاً اَللّٰهُ مُعْرِضُ عَنْ اَهْلِهَا (کتاب کافی) ایسے گھروں میں داخل بھی مت ہو جس کے رہنے والوں پر سے خدا نے اپنی نظرِرحمت ہٹالی ہو!" یہی امام علیہ السّلام فرماتے ہیںبَیْتُ الْغِنَآءِ لاَ یُومَنُ فِیْهِ الْفَجِی ة "جس گھر میں گانا باجا ہوتا ہے وہ ناگہانی مصیبتوں سے محفوظ نہیں رہتا!"وَلاَ یُجَابُ فِیْهِ الدَّعْوَةُ "ایسے مقام پر دُعا مستحب نہیں ہوتی!۔"وَلاَ یَدْخُلُهُ الْمَلَکُ (کتابِ "کافی" ‘اور مستدرک الوسائل ‘باب ۷۸) " اور ایسی جگہ فرشتے نہیں آتے!" اور گزری ہوئی حدیثوں سے اسی کتاب میں ثابت ہوچکا ہے کہ جب خدا کا غضب نازل ہوتا ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ پس یہ عذر کافی نہیں ہے کہ ہم توایسی جگہ جاتے ہیں جہاں گانے کا پروگرام ہوتا ہے لیکن دل سے بیزار ہیں۔ بیزاری عملی طور پر ہونی چاہیئے اور گانے باجے کو روکنا چاہیئے۔

( ۷) گانا اور فقر و فاقہ

حضرت علی علیہ السَّلام سے مروی ہےوَالْغِنَآءُ یُوْرِثُ النِّفَاقَ وَ یُعَقِّبُ الْفَقْرَ

"اور گانا باجا نفاق پیدا کرتا ہے اور فقر و فاقہ کا باعث بنتا ہے!"( مستدرک الوسائل‘ باب ۷۸)

( ۸) گانے کا عذاب

حضر ت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مروی ہے کہیُحْشَرُ صَاحِبُ الْغِنآءِ مَنْ قَبَرِ ه اَعْمٰی وَآخْرَ سَ وَاَبْکَمَ (جامعُ الاخبار) "گانا گانے والا شخص اپنی قبر سے جب میدانِ حشر میں نکلے گا تو اندھا بھی ہوگا ، بہرا بھی ہوگا اور گونگا بھی ہوگا !" روایت میں یہ بھی ہے کہ گانے گانے والوں کو اسی علامت سے پہچاناجائے گا!

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کایہ ارشاد بھی ہے کہ(قَالَ) مَنْ اِسْتَمَعَ اِلیٰ الَّلهْوِیُذابُ فِیْ اُذُنِه الْاُنُکُ (تجارت،مستدرک الوسائل، باب ۸۰) " جو شخص گانا باجا غور سے سنے گا اس کے کان میں پگھلا ہو ا سیسہ ڈالاجائے گا!"

رحمتِ خداسے محرومی

قطب راوندی نے پیغمبرِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ " گانا گانے والا شخص ایسے لوگوں میں شامل ہے جن پر قیامت کے دن خدا نظرِ رحمت نہیں ڈالے گا!"

گلوکار سے محبت

عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْه السَّلاٰمُ قَالَ امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا:مَنْ اَصْغٰی اِلٰی ناَطِقٍ فَقَدْعَبَدَه "جو شخص کسی بولنے والے کا احترام کرے گا وہ گویا اس کا بندہ ہوجائے گا!" فَاِنْ کَانَ النّاطِقُ یُودِّیْ عَنِ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ فَقَدْ عَبَدَ اللّٰهَ وَاِنْ کَانَ النّاطَقُ یُودِّی عَنِ الشِیْطَانِ فَقَدْ عَبَدَ الشَیْطَانَ (فروغِ کافی ،گانے کا باب) " اگر بولنے والا شخص خدا کی طرف لے جاتا ہو تو احترام کرنے والا شخص خدا کی عبادت کرتا ہے اور اگر وہ شیطان کی طرف لے جاتا ہو تو وہ شیطان کی عبادت کر بیٹھتا ہے!"

چھٹے امام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ : جو شخص بھی گانا گانے کی آواز بلند کرتا ہے تو اس پر دو شیطان دونوں کندھو ں پر سوار ہوجاتے ہیں اور اس وقت اپنے پیر کی ایڑی اس کے سینے پر مارتے رہتے ہیں جب تک کہ اس کا گانا ختم نہیں ہوجاتا!" پس جب شیطان گلوکار کو لات مارتے ہوں تو ایساشخص محبت کئے جانے کے کہاں لائق ہے!

بہشت میں سُریلی آوازیں

حضرت امام علی رضا علیہ السَّلام کا ارشاد ہے (عَنْ اَبِیْ الْحَسَنِ قَالَ) مَنْ نَزَّهَ نَفْسَه عَنِ الْغِِنَآءِ فَاِنَّ فِیْ الْجَنَّتِ شَجَرَةًیأْمُرُاللّٰهُ الرِّیَاح اَنْ تُحَرِّکَهَا فَیَسْمَعُ لَهَا صَوْتًا لَمْ یُسْمَعْ بِمِثْلِه وَمَنْ لَمْ یَتَنَزَّه ْعَنْهُ لَمْ یَسْمَعْهُ (کتاب " کافی") یعنی " جو شخص خود کو گانے سے بچائے رکھے گا تو خدا سے جنت میں ایک درخت میں سے آواز سنوائے گا کہ ایسی اچھی آواز کسی نے نہیں سنی ہوگی ! اور جو شخص اپنے آپ کو گانے سے نہیں بچائے گا وہ ایسی آواز نہیں سن سکے گا۔"

جنت میں خوبصورت نغمے

حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ حدیث تفسیر مجمع البیان میں موجود ہے کہ : "جوشخص بہت گانے سنتا رہا ہو وہ روحانیوں کی آواز قیامت میں نہیں سُننے گا"پوچھا گیا۔’ ’ یا رسول اللّٰہ ! یہ روحانی کون لوگ ہیں؟ فرمایا: جنت میں خوش الحانی سے گانے والے۔"

اور حضرت علی علیہ السَّلام کا یہ قول نہج البلاغہ میں موجود ہےدٰاودُ سَیِّدُ قُرَّآءِ اَهْلِ الْجَنَّةِ یعنی " حضرت داود علیہ السَّلام جنت کے خوش الحان لوگوں کے سردار ہوں گے۔"

جنت میں لوگ حضرت داؤد علیہ السَّلام سے ایسے عمدہ نغمے سنیں گے کہ دنیا میں ان کی مثال نہیں ملتی ہوگی‘ البتہ ایسے ہی لوگ سن سکیں گے جو دنیا میں گانا سننے سے پرہیز کرتے ہوں۔

سخت تنبیہ

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں: "َظْهَرُ فِیْ ٓ اُمَّتِی الْخَسْفُ وَالْقَذْف " میری اُمّت میں ایسے واقعات ظاہر ہوں گے کہ زمین دھنس جایا کرے گی اور آسمان سے پتّھر برسا کریں گے!"قَالُو مَتٰی ذٰلِکَ؟ "لوگوں نے پوچھا کہ ایسا کب ہوگا؟" قَالَ اِذاظَھَرَتِ الْمَعَازِفُ واْلِقَیْنَاٰتُ وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "جب گانے باجے کے آلات عام ہوں گے ، گانا گانے والی لڑکیاں کثرت سے ہوں گی اور نشہ آور چیزوں کا استعمال پھیل جائے گا! "وَاللّٰهِ لَیَبِیْتَنَّ اُنَاسُ مِّنْ اُمَّتِی عَلٰی اَشَرٍوَّ بَطَرٍوَّ لَعِبٍ فَیُصْبِحُوْنَ قَرِدَةً وَّ خَنَازِیْرَ لِاستِحْلٰالِهِمُ الْحَرَامَ وَاتّخَاذِهِمُ الْقَینَاتِ وَشُرْبِهِمُ الْخُمُوْرَ وَاَکْلِهِمُ الرِّبَا وَ لَبْسِهِمُ الْحَرِیْرَ (وسائل الشیعہ‘ کتاب التجارہ‘گانے کا باب)

یعنی "خدا کی قسم میری امّت کے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو رات کو مستی اور عیاشی کے عالم میں گذاریں گے اور صبح درحقیقت بندروں اور سوّروں کی مانند ہوجائینگے! یہ اس سبب ہوگا کہ وہ حرام کو حلال سمجھتے ہونگے۔ گانا گانے والی لڑکیوں میں مگن ہونگے‘ نشہ آور چیزیں استعمال کریں گے‘ سود کا مال کھائینگے اور ریشمی کپڑے پہنتے ہوں گے!"

گانا اور زنا

گانا زنا کا سبب بن جاتا ہے۔ رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے( عَنِ النَّبِیِّ) اَلْغِنَآءُ رُقْیَةُ الزِّنَا (مستدرک الوسائل‘ کتاب تجارت) "گانا‘ زنا کی سیڑھی ہے!"

گانے سے آدمی کی شہوت اُبھرآتی ہے اور اس کے بُرے نتائج سامنے آجاتے ہیں۔ نہ صرف گانے سے شہوت اُبھرتی ہے بلکہ گانا سننے سے بھی یہی حال ہوتا ہے۔ آدمی خدا سے غافل ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی بدکاری کے لئے آمادہ نظر آتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السَّلام کا ارشاد ہےوَالْمَلَاهِیَ الَّتِی تَصُدُّ عَنْ ذِکْرِاللّٰهِ کَالْغِنَآءِ وَضَرْبِ الْاَوَتَارِ یعنی " اور لہو ولعب کے وہ تمام کام گناہِ کبیرہ ہیں جو خداوندِ تعالےٰ کی یاد سے غافل کر دیتے ہیں‘ مثلاً گانا باجا اور موسیقی کے آلات کا استعمال!"

جی ہاں‘ موسیقی نہ صرف شرم و حیاء اور غیرت کو ختم کردیتی ہے‘ بلکہ محبت‘ انسانیت اور رحم جیسے جذبات کو بھی فنا کر دیتی ہے۔ الغرض معاشرے کو جہنم کا نمونہ بنا دیتی ہے!

گانے کے حرمت

شیعہ مجتہدین کے درمیان اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ گانا حرام ہے‘ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ گانے کی حرمت پر اجماع موجود ہے۔ کتاب "مستند" کے مُولّف فرماتے ہیں کہ گانا باجا کو حرام ہونا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ یعنی اگر کوئی مسلمان یہ کہے کہ گانا باجا حرام نہیں ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا! کتاب "ایضاح" کے مُولّف فرماتے ہیں کہ گانے باجے کو حرام قرار دینے کے سلسلے میں جو روایتیں وارد ہوئی ہیں وہ متواتر ہیں۔

البتہ گانے کے معنٰی میں اور اس کی تعریف تھوڑا بہت اختلاف موجود ہے۔ اکثر مجتہدین یہی کہتے ہیں کہ ہر وہ آواز جو عیش و طرب کی خواہش اور جنسی قوت کو اُبھار سکتی ہو وہ گانا باجاہے اور حرام ہے۔

قرآنِ مجید گانے کے انداز میں

جس طرح کہ پہلے بیان ہوا ، گانے کے طرز پر قرآنِ مجید پڑھنا یا نوحہ مرثیہ پڑھنا یا اذان دینا بھی حرام ہے۔ اِس سلسلے میں نظم اور نثر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بلکہ مقدّس چیزوں کو گانے کے طرز پرپڑھنے کا گناہ دُگناہے۔ ایک تو گانے کی آواز نکالنے کا گناہ، اور دوسرے قابلِ احترام چیزوں کی بے حرمتی کا گناہ۔

اچھّی آواز میں قرآن پڑھنا

البتہ ہر اچھی آواز گانا نہیں ہے۔ خوش الحانی سے، گلے میں آواز گھمائے بغیر اگر تلاوتِ قرآن کی جائے یانوحہ مرثیہ پڑھ جائے تونہ صرف یہ کہ یہ کوئی بُری بات نہیں ہے بلکہ اچھّی بات ہے۔ رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے(قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهُ عَلَیْه وَآله وسَلَمْ) اِقْرَوالْقُرْآنَ باَلْحَانِ الْعَرَبِ وَاَصْوَاتِهَا "قرآن عرب لوگوں کے لہجے میں خوش الحانی سے پڑھاکرو۔"

وَاِیَّاکُمْ وَلُحُوْنَ اَهْلِ الْفِسْقِ وَاَهْلِ الْکَبَائِرِفَاِنَّه سَیَجیءُ اقْوَامُ یُرَجِّعُوْنَ الْقُرْآنَ تَرْجِیْعَ الْغِنَآوَالنَّوْحِ وَالرُّهْبانِیَّةِلَایَجُوْزُ تَرَا قِیْهِمْ قُلُوْبُهُمْ مَقْلُو بَة ُوَقُلُوْ بُ مَنْ یُّعْجِبُه شَاءْ نُهُمْ (وسائل الشیعہ، کتاب صلوٰة)"

تم کو فاسقوں اور گناہِ کبیرہ کرنے والوں سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ یقینا ایسے لوگ دنیا میں آئیں گے جو قرآن کو گانے کے، گا کر رُلانے والوں کے اور راہبوں کے طرز پر پڑھاکریں گے ۔ ایسے لوگوں کے پاس جانا یا ان کو اپنے پاس بلانا جائز نہیں ہوگا ۔ ایسے لوگوں کے دل اُلٹے ہوئے ہوں گے، اور جو لوگ ایسوں سے متاثر ہوں گے ان کے دِل بھی ایسے ہی اُلٹے اور کج ہوں گے!"

خوبصورت آواز اور گانا

قیامت قریب ہونے کی علامتیں ذکر کرتے ہوئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں :ایسے لوگ بھی دنیا میں آئیں گے جو قرآن کو دنیاوی مقاصد کے لئے حفظ کریں گے اورگانے کے طرز پر تلاوت کریں گے۔"

البّتہ ایسی احادیث بھی ملتی ہیں، جیسا کہ ذکر ہوا، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھّی آواز میں قرآن کی تلاوت مستحب ہے۔ بس اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ وہ گانے کے طرز پر نہ ہو۔

لڑکی کی شادی میں گانا بجانا

بعض مجتہدین نے تین شرطوں کے ساتھ شادی کے موقع پر عورتوں کو گانے کی اجازت دی ہے:

( ۱) پہلی شرط یہ ہے کہ گاناسُننے والوں میں کوئی مرد موجود نہ ہو، یہاں تک کہ محرم مرد بھی موجودنہ ہوں۔

( ۲) دوسری شرط یہ ہے کہ گانے فحش نہ ہوں اور جھوٹی باتوں پر مشتمل نہ ہوں۔

( ۳) تیسری شرط یہ ہے کہ گانے کے ساتھ ڈھول تاشہ اور دیگر بجانے کے آلات استعمال نہ ہوں۔

بعض علماء نے دف (یعنی ایسا ڈھول جس کے ایک ہی طرف کھال ہو ) شادی میں بجانے کی اجازت دی ہے۔ شہیدِ ثانی اورمحققِ ثانی فرماتے ہیں کہ دف شادی میں اس صورت میں بجاناجائز ہے جب کہ اس کے اطراف میں جھنجھنے نہ لگے ہوں۔

لیکن احتیاط یہ ہے کہ شادی کے موقع پر نہ تو عورتیں گانا گائیں اور نہ ہی کوئی چیز بجائیں۔ شیخ انصاری علیہ الرَّحمہ "مکاسب" میں شہید ِثانی کتاب"دروس" میں اورسیَّد مرتضیٰ کتاب" وسیلہ " میں اس موضوع پر یہی فرماتے ہیں : اَلْاِحْتِیَاطُ طَرِ یْقُ النَّجاَةِ یعنی احتیاط ہی نجات کا راستہ ہے۔

امانت میں خیانت

بائیسواں ایسا گناہ جس کی نص یعنی محکم آیت یا صحیح اور واضح روایات کے زریعے صراحت ہوئی ہوکہ وہ گناہ کیبرہ ہے، امانت میں خیانت کر نا ہے ۔ حضرت عبدالعظیم نے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے جو صحیح روایت نقل کی ہے اور اسی طرح حضرت علی رضا، حضرت امام موسیٰ کاظم اور حضرت امام جعفر صادق علیہم السَّلام سے جو روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔ ان سے بھی خیانت کا گناہِ کبیرہ ہونا ثابت ہے۔

خیانت خود ایک عربی لفظ ہے۔ اعمش نے امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے جو روایت نقل کی ہے اس میں گناہان کبیرہ کی فہرست بتائے ہوئے " وَالْخیاَنةُ " کا لفظ استعمال کیا ہے۔ البتہ خیانت کے معنی میں جو دوسرا لفظ استعمال ہوتا ہے وہ " غُلُولً" ہے ۔ فضل بن شاذان نے حضرت امام رضا علیہ السَّلام سے جو روایت نقل کی ہے اس میں لفظ "غُلُول" استعمال ہواہے جو خیانت کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ بعض اہلِ لغت نے کہا ہے کہ غلول ایسے مال غنیمت میں خیانت کوکہتے ہیں جو کافروں سے ہتھیا لیا ہو ، مسلمانوں کے قبضے میں آگیا ہو لیکن ابھی اسکی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن بعض دیگر اہل لغت نے لکھا ہے کہ لفظ غلول ہر قسم کی خیانت کو کہتے ہیں خواہ وہ مال غنیمت میں ہو یا کسی اور مال میں۔

قرآن مجید میں خیانت کار کاعذاب

ارشاد رب العزت ہے کے( وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمََا غَلَّ یَوْم َ الْقِیٰمَةِ ثُمَّ تُوفیٰ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ، اَفَمَنِ اتَّبَعَ رَضْوَانَ اللّٰهِ کَمَنْ بآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰه جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصیْرُ ) (سورئہ آل عمران ۳ : آیت ۱۶۱،۱۶۲) اور جوخیا نت کرے تو جو چیز خیانت کی ہے قیامت کے دن وہی چیز (بعینہ خدا کے سامنے ) لانا ہوگا اور پھرشخص اپنے کئے کا پورابدلہ پائیگا۔ اور ان کی کسی طرح حق تلفی نہیں کی جائے گی ۔ بھلا جو شخص خداکی خوشنودی کاپابند ہو۔کیا وہ اس شخص کے برابر ہوسکتاہے جوخدا کے غضب میں گرفتار ہو اورجِس کا ٹھکانہ جہنم ہے؟! اور وہ کیا برا ٹھکانہ ہے!"

سورہ تحریم میں ارشاد ہے :( فَخَا نَتاهُمَا فَلَمْ یُغنِیٰاعَنْهُمٰا مِنِ اللّٰهِ شَیْئاً وَّقِیْلَ ادْخُلَا الٰٰناّرَمَعَ الدّاٰ خِلیْنَ ) (سورہ تحریم ۶۶ آیت ۱۰) " تو ان دونوں (حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں ) نے اپنے شوہروں کے ساتھ خیا نت کی تو ان کے شوہر (نبی ہونے کے باوجود) خداکے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے اور ان دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہوجاو۔"

ارشاد ہے کہ :( اِنَّ اللّٰهَ لا یحبُّ الخَائِنیْنَ ) (سورئہ انفال ۸ : آیت ۵۸) " بے شک خدا خیانت کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا ۔"

اسی طرح ارشاد ہے کہ:

( یَایُّهَالَّذیْنَ اٰمَنُو الَا تَخُونُو اللّٰهَ واالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُو اْ اَمٰنتِکُم وَاَنْتم تَعْلَموْنَ )

(سورئہ انفال ۸ : آیت ۲۷)

"اے ایمان لانے والو ! نہ توخدا اور رسول کے ساتھ خیانت کرو ، اور نہ ہی تمہارے پاس جو امانتیں ہیں ان میں خیانت نہ کرو، حالانکہ تم تو جانتے ہو( کہ خیانت ایک بڑا گناہ ہے۔ )"

اسی طرح ارشاد ہے کہ:( فَاِنْ اَمِنَ بَعَضُکُمْ بَعضًا فلیُودِّ الَّذِی اوتُمِنَ اَمَانَتَه وَلْْیَتَّق اِللّٰهَ ربَّه ) (سورہ بقرہ ۲ : آیت ۲۸۳)

"اگر تم میں سے ایک کادوسرے پر اعتبار ہوتوجس شخص پر اعتبا کیا ہے وہ اعتبارکرنے والے شخص کی امانت پوری کی پوری لوٹادے اوراپنے پروردگار سے ڈرتارہے۔" ارشاد ہے کہ : اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَودُّو الْاَمِانٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا بے شک خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو امانت والوں تک ضرور لوٹا دو ۔ (سورئہ نساء ۴ : آیت نمبر ۵۸)

روایات میں خیانت کی مذّمت

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں :مَنْ کَانَ اَمَانَتَه فی الدُّنیا وَلَمْ یَرُدَّ هَا اِلٰی اَهْلِهَا ثمّ اَدْرکَه الْمُوْتُ مَاتَ عَلیٰ غَیْرملّتی "جو شخص دنیا میں اپنے پاس رکھی ہوئی امانت میں خیانت کرے گا اور اسے اس کے مالک تک نہیں لوٹائے گا اور اسے موت آجائے گئی تو وہ میری ملت میں رہتے ہوئے نہیں مرے گا ! " یعنی وہ مسلمان کی موت نہیں مرے گا!"

وَیَلْقٰی اللّٰهَ وَهُوَعَلَیهِ غَضْبٰانُ وَمَن ِاشْترَیٰ خیانَةً وَهُوَیَعْلَمُ فَهُوَکَالّذی خاَنَهٰا (وسائل الشیعہ م کتاب امانت ،باب ۳ ، صفحہ ۶۴۱) " ایسا شخص جب خدا سے ملاقات کرے گا تو خدا اس پر غضب ناک ہوگا! (اور جو شخص خیانت کا مال خریدے اور وہ یہ جانتا ہو کہ یہ خیانت کا مال ہے تو وہ بھی خیانت کرنے والے شخص کی طرح ہے۔ "تو وہ بھی خیانت کا مال ہے تو وہ بھی خیانت کا مال خریدے اور وہ یہ جانتا ہو کہ یہ خیانت کا مال ہے تو وہ بھیخیانت کرنے والے شخص کی طرح ہے ۔ " ایک اور حدیث میں ہے کہفَیُؤمَرُ بِهِ اِلٰی النَّارِ فَیُهْویٰ بِهِ فِی شَفِیْر جَهَنَّمَ (وسائل الشعیہ، کتاب امانت، باب ۲) اور اس کو جہنم میں ڈال دینے کا حکم دیا جائیگا پھر وہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے گہرے گڑھے میں پڑا رہے گا!"

آنحضرت کا یہ بھی ارشاد ہے کہمَنْ کَانَ مُسْلِماً فَلاَ یَمْکُروَلَا یَخْدَعْ " اگر کوئی شخص مسلمان ہے تو اسے نہ تو مکر سے کام لینا چاہیئے اور نہ ہی کسی کو دھوکا دینا چاہیئے! "فَاِنّیٰ سَمِعْتُ جِبْرَئیِْلَ اَنَّ المکْرَوَ الْخَدِیَعَةَ فِی النَّارِ "میں نے جبرئیل سے سنا ہے کہ مکر اور فریب جہنم کی چیزیں ہیں۔" پھر آنحضرت نے فرمایا(ثمَّ قَالَ) لَیْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ مُسْلماً، وَلَیْسَ مِنّا مَنْ خَانَ مُوْمِناً (وسائل الشیعہ، کتاب امانت، باب ۳) " ہم میں سے نہیں ہے جو کسی مسلمان کو فریب دے اور ہم میں سے نہیں ہے جو خدا پر ایمان لانے والے کسی شخص کے ساتھ خیانت کرے!"

اصول کافی میں یہ حدیث ہے کہ تین خصلتیں ایسی ہیں جو آدمی کے نفاق کی علامت ہیں اگرچہ وہ نماز روزے کا پابند ہو اور خود کو سچا مسلمان سمجھتا ہو: جھوٹ، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت۔ یہ حدیث نبوی ابھی وعدہ خلافی کے باب میں گذر چکی ہے۔

امیر المئومنین حضرت علی علیہ السَّلام فرماتے ہیں:اَرْبَعَةُ لَا تَدْ خُلُ وَاحِدَةُ مِنّهْنُ بَیْتاً اِلَّا خَرَبَ وَلَمْ یُعَمَّرْ بالبَرَکَةِ "چار چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک بھی اگر کسی کے گھر میں داخل ہوجائے تو وہ مالی اعتبار سے تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی برکت کے ساتھ وہ گھر آباد نہیں رہتا:اَلْخیَانَةُ وَالسِّرْقَةُ وَشُرْبَ الْخَمْرِ وَالزِّنَا (وسائل الشیعہ) "خیانت، چوری، شراب خوری اور زنا۔" پس جس گھر کے کسی فرد یا افراد میں ان چار برائیوں میں سے کوئی برائی پائی جائے تو اس گھر سے برکت اٹھ جاتی ہے اور وہ گھر مالی اعتبار سے تباہ ہو جاتا ہے مثلاً چوری کرنے والے کے گھر سے برکت اٹھتی ہے، نہ یہ کہ جہاں چوری کی جائے۔

خیانت باعث فقر و فاقہ

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے کہالْاَ مَانَةُ تَجْلِبُ الْغِنٰی وَالخِیَانَةُ تَجْلِبُ الْفَقْرَ (وسائل الشیعہ، کتاب امانت) "امانت کا لحاظ دولتمندی اور مالی پریشانی سے بے نیازی کا موجب ہے جبکہ خیانت مالی پریشانی اور فقر کا سبب ہے!"

راوی کہتے ہیں کہ :قُلتُ لِاَ بی عَبْدِاللّٰهِ: اِمْرَئَةُ بِالْمَدِنْنَةِ کٰا نِ النّاسُ یَضَعُقںَ عِنْدَهَاالْجَوَارِی فَیَصُلَحْنَ وَقُلْنَا مَاصُبُّ عَلَیْها مِنَ الرِّزْقِ " میں نے امام جعفرصادق کی خدمت میں عرض کیا: "مدینہ میں ایک خاتو ن ہیں جن کے پاس لوگ تربیت کے لئے اپنی بچیاں چھوڑدیتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اس جیسی بے نیاز خاتون نہیں دیکھی گئی جو تھوڑی سی روزی میں بھی بڑے آرام سے گزار لیتی ہے۔ اسے کبھی بھی مالی اعتبار سے پر یشان نہیں دیکھا گیا ! " امام نے فرمایا(فَقَالَ) اِنَّها صَدَقَتِ الحَدِیْث وَاَدَّتِ الْاَمَانَةَ وَذٰلِکَ یَجْلِبُ الرِّزْقَ (وسائل الشیعہ ،کتاب امانت ، پہلاباب، حدیث نمبر ۵) اس لئے کہ وہ خاتون سچ بولتی ہے امانت کا لحاظ کرتی ہے یہ ایسے کام ہیں جو روزی اور کشادہ حالی کا باعث بنتے ہیں ۔"

حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کی یہ حدیث وسائل الشیعہ میں موجود ہے کہ : "کسی شخص کے لمبے لمبے رکوع وسجود کو نہ دیکھو چونکہ ممکن ہے یہ اس کی عادت ہو ایسی عادت ترک کرنا اس کے لیے سخت مشکل ہو لیکن سچ اور امانت داری کو دیکھو ۔ " یعنی دو خصلتیں ایسی ہیں جو ایمان کے قوی ہونے اور آدمی کے سعاد ت مند ہونے کی دلیل ہیں۔

امانت خواہ کسی کی بھی ہو

ہمارے پاس ایسی بہت سی روایتیں ہیں جن کا موضوع یہ ہے کہ امانت خواہ کسی ہو ، اس کا لحاظ واجب ہے اور اس میں خیانت حرام ہے خواہ مسلمان ہو یاکافر ، اس کی امانت کی حفاظت واجب ہے ۔ یہاں تک کہ ناصبی لوگوں یعنی اہل بیت (علیہم السلام) سے کھلّم کھلا دشمنی کا اظہار کرنے والوں کی امانت کابھی خیا ل رکھنا بھی واجب ہے۔ حالانکہ ناصبی لوگ بدترین قسم کے کافر ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیںاِتَّقوا اللّٰهَ وَاَدُّوْا الْاَمَانَةَاِلٰی مَن اِئتمَنَکُمْ فَلِوْ اَنَّ قاَتِلَ عَلِیٍّ ائْتَمَنَنِیْ عَلٰٰی اَمانَةٍ لَا اِدَّیْتُهَا اِلِیْهِ (وسائل الشیعہ ، کتابِ امانت، باب ۳ ، صفحہ ۶۴۱)" خدا سے ڈرو ! اور جس شخص نے بھی تمہارے پاس امانت رکھائی ہے اس کی امانت برقت لوٹا دو!۔ اگر علی کا قاتل بھی مجھے امین سمجھے کر میرے پاس کوئی امانت رکھتا تو میں ضرور اسے بروقت لوٹاتا !" اسی حدیث میں ہے کہفَاتَّقُو اللّٰه وَاَدُّ وْاالْاَمِنَتَ الیٰ الاَسْوَدِ وَالْاَبْیصَنِ واِنْ کٰانَ حَرُوْ رِیاًّ وَاِنْکَانَ شَامِیاًّ "پس خدا سے ڈرو اور گورے کالے سب کی امانتوں کاخیال ر کھو اگرچہ امانت رکھنے والاشخص خوارج (حضرت علی کے دشمنوں) میں سے ہو اور اگرچہ کہ امانت رکھنے والا شخص شام کا رہنے والا ہو (اہل بیت کے خلاف لڑنے والایااُن سے دشمنی رکھنے والا ہو۔)"

اِنَّ رَجُلاً قَالَ لِاَبی عَبْدِاللّٰهِ ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے پوچھا :النَّاصِبُ یَحِلُّ لِیْ اغْتِیَالُه ؟کیا ناصبی (یعنی اہل بیت کے کھلے دشمن) کی امانت میں خیانت میرے لئے جائزہے ۔؟قَالَ اَدِّ الْاَمَانَةَ اِلٰی مَنْ اِْتَمَنَکَ وَاَرَادَ مِنْکَ النَّصِیْحَةَ وَلَوْاِلٰی قَاتِلِ الْحسُیَیْنِ (وسائل الشیعہ،کتاب امانت، باب ،صفحہ ۶۴۱)

امام نے جواب دیا : ہر اس شخص کی ا مانت کالحاظ کروجس نے تمہارے پاس امانت رکھائی ہے یا تم سے نیک مشورہ طلب کیا ہے، اگرچہ وہ حسین کاقاتل ہی کیوں نہ ہو!!" اسی جیسی ایک اور روایت یہ ہے:عَنْ الْحُسَیْنِ الشُّبَّانِّی قَالَ قُلْتُ لِاَبِیْ عَبْدِاللّٰه ِ حسین شبانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق سے عرض کیارَجُلُ مِّنْ عِنْدَه مِّنْ مَّوَالِیْکَ یَسْتَحِلُّ مَالَ بَنی اُمَیَّةَ وَدِمَائَهُمْ وَاَنَّه وَقَعَ لَهُمْ عِنْدَه وَدِیْعَة " آپ کے چاہنے والوں میں سے ایک شخص ہے جو بنی امیہ کا مال اور خون اپنے اوپر حلال سمجھتاہے اور بنی امیّہ کے لوگوں کی کچھ امانتیں بھی اس کے پاس ہیں ۔ "فَقَالَ اَدُّ واالَاَمَانَةَ اِلٰی اَهْلِهَا وَاِنق کَانَ مُجُوْسِیًّا (وسائل الشیعہ ) امام علیہ السَّلام نے فرمایا: "امانت کو اسکے مالک تک بروقت اورباحفاظت لوٹادو، اگر چہ امانت رکھوانے والے مجوسی ہی کیوں نہ ہوں!"

چھٹے امام یہ بھی فرماتے ہیں کہاِنَّ اللّٰهَ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیاَ اِلّا بِصِدِقِ الْحَدِیْثِ وَاَدَاءِ الْاَمَانَةِ اِلٰی الْبِرِّ وَالْفَاجِرِ (وسائل الشیعہ ) "خدائے تعالٰی نے کوئی بھی نبی مبعوث نہیں فرمایا مگر یہ کہ سچ بولنے اور نیک وبدہر قسم کے لوگوں کی امانت کا لحاظ رکھنے کے حکم کے ساتھ مبعوث فرمایاہے۔"

عَنْ محمّدبن الْقاسِمِ قَالَ سَئَلْتُ اَبَا الْحَسَنَ عَنْ رَجُلٍ اِسْتَوْدَعَ رَجُلًا مالَاً لَّه قِیْمَةُ وَالرَّجُلْ الذّیْ عَلَیهِ الْمَال رَجُلُ مِّنَ الْعَرَبِ یَقْدِرُ عَلٰی اَنْ لَا یُعْطِیَه شیئاً وَالرَّجُلْ الَّذِیْ اسْتَوْدَعَه خَبِیْثُ خَارِجِیُ محمدبن قاسم کہتے ہیں کہ میں نے ابو الحسن حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السَّلام سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے دوسرے شخص کے پاس کچھ قیمتی مال امانت کے طور پرر کھایا ہے۔ امانت کی ذمہ داری قبول کرنے والا شخص عرب ہے اور اتنی طاقت رکھتا ہے کہ امانت میں میں سے کچھ نہ لوٹائے۔ جبکہ امانت رکھوانے والا شخص خبیث اور خارجی (اہل بیت کا دشمن ) ہے"قَالَ لِیْ قُلْ لَّه یُرْعَلَیهِ فَاِنَّه ائِتَمََنَه عَلَیهِ بِاَمَانَةِاِللّٰهِ (وسائل الشیعہ ) امام نے فرمایا:"اُس کے پاس خدا کی امانت رکھائی ہے!" (یعنی ایسی امانت رکھائی ہے جسے کے لحاظ کا خدانے حکم دیاہے!)عَنْ عَلِّی بن الْحپسین یَقُوْلُ لِشِیْعَتِهِ حضرت امام زین العابدین علیہ السَّلام اپنے شیعوں سے فرماتے ہیں:

عَلَیْکُمْ بِاَراء الْاَمَانَةِ فَوَالَّذِیْ بَعَثَ مُحَمَّدًابِالْحَقِّ نَبیًا لَو اَنَّ فَاتِلَ اَبِیَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِّی اٍئْتَمَنَنِیْ عَلَی السََّیْفِ الّذِیْ قَتَلَه بِه لَاَدَّیْتُه اَلَیْهِ (وسائل الشیعہ ،، کتاب امانت ) "تمہارا فرض ہے کہ تم امانت کو بروقت اداکرو اُس ذات کی قسم جس نے محمد کو برحق نبی کے طور پر معبوث کیا، اگر میرے بابا حسین  ابن علی  کاقاتل بھی میرے پاس وہ تلوار امانت کے طور پر رکھوادے جس سے اسنے اُن کو قتل کیا تھا تو میں ضرور اسے برو قت واپس کرتا!!!

شیطان بہکاتاہے

ہر وہ کام جو شرعی لحاظ سے اہم ہوتاہے، جتنا زیادہ اہم ہوتاہے۔ شیطان اس بارے میں اتنا ہی زیادہ بہکانے کی کوشش کرتا ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

مَن اِئْتُمِنَ عَلٰی اَمَانَةٍ فَاَدَّاهَا فَقَدْ حَلَّ اَلْفَ عُقْدَةِ مِّنْ عُقَدِ النَّارِ "جس شخص کے پاس امانت رکھائی گئی ہوا ور وہ اسے بروقت ادا کردے تو وہ جہنم سے بندھی ہوئی اپنی ایک ہزار گرِہوں کو کھول لیتاہے!"

فَاَدِرُوْا بالَاَمانة " پس امانت کی ادائیگی کے سلسلے میں سُستی نہ کرو" ۔فَاِنَّ مَنْ اِئْتُمِنَ عَلٰٰی اَمَانَةٍ وَکَّلَ بِه اِبْلِیْسُ مِاَةَ شَیْطَانٍ مِنْ مَّرَدَةِ اَعْوَانِه لِیَضِلُّوه وَیُوَسْوِسُوْاا اِلَیْهِ حَتَّی یُهْلِکُوْه اِلَّا مَنْ عَصِمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ "بے شک جس شخص کے پاس امانت رکھائی جاتی ہے ابلیس اپنے سو سرکش اور مددگار شیطانوں کو اس کے پیچھے لگا دیتا ہے تاکہ وہ اسے گمراہ کریں اور اس کے دل میں خیانت کرنے کا وسوسہ پیدا کریں! وہ اس وقت تک اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اسے ہلاکت میں نہیں ڈال دیتے۔ بس وہی ان کے شر سے بچا رہتا ہے جس کو خدا بچائے۔

حضرت محمد کا لقب امینا

حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سیرت کے سلسلے میں سب نے نقل کیا ہے کہ اسلام آنے سے قبل کفارِ قریش آنحضرت کو امین کے لقب سے پکارتے تھے۔ آپ کی امانتداری پر مشرکوں تک کو اتنا بھروسہ تھا کہ وہ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھایا کرتے تھے۔ یہ صرف قبیلئہ قریش کا حال نہیں تھا، بلکہ عرب کے تمام قبیلوں اور علاقوں کے لوگوں کو بھی آنحضرت کی امانتداری پر اعتماد تھا۔ جب وہ حج کے زمانے میں مکہ آتے تھے تو اپنی امانتیں آنحضرت کے سپرد کر جاتے تھے۔ اسلام کے آجانے کے بعد بھی یہی حال رہا۔ ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جب آنحضرت کو مدینے کی جانب ہجرت کرنی تھی تو انہوں نے حضرت علی علیہ السَّلام کو وہ تمام امانتیں سپرد کر دی تھی اور فرمایا تھا: "ہر روز صبح اور شام مکہ میں ندا کرو کہ جس شخص نے بھی محمد کے پاس کوئی امانت رکھائی تھی، آئے تاکہ میں اسے لوٹا دوں!"

خیانت کی قسمیں

امانت کی ضد خیانت ہے۔ اور خیانت کی تین قسمیں ہیں: خدا کے ساتھ خیانت ۔ رسول کے ساتھ خیانت۔ اور لوگوں کے ساتھ خیانت۔

( ۱) امانتِ خد

سورئہ احزاب میں ارشاد ہے کہ( اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ علٰی السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ اِنَّه کَانَ ظَلُوْماً جَهُوْلاً ) (سورئہ احزاب ۳۳: آیت ۷۲) " ہم نے اپنی امانت کو سارے آسمان اور زمیں اورپہاڑوں کے سامنے پیش کیاجو انہوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے۔ لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا بے شک انسان اپنے حق میں بڑا ظالم اور نادان ہے۔"

یہاں خدا کی امانت سے کیا مراد ہے اس سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ امانت نعمتِ عقل ہے۔ اس امانت کی صحیح حفاظت یہ ہے کہ اس کے ذریعے آدمی اپنے معبود کو پہچانے اور اسی کی راہ پر چلے۔ بعض کہتے ہیں کہ خداوندِ تعالیٰ نے واجبات اور محرمات کو جو احکام اپنے پیغمبر کے توسط سے بندوں تک پہنچائے ہیں۔ وہ خدا کی امانت ہیں، اور ان کی پابندی ہی امانت کی حفاظت ہے۔ ظاہر ہے کہ آسمان و زمین میں اور پہاڑوں میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ ایسی امانتوں کی حفاظت کر سکیں اس لئے انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ لیکن انسان ایسی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے قبول کرلیا۔ بے شک انسان ظَلُوْم اور ظَالم ہے اپنی غضب والی قوت کو عقل والی قوت پر ترجیح دے دیتا ہے اور امانتِ خدا میں خیانت کر بیٹھتا ہے۔ اور بے شک انسان جہول اور نادان ہے۔ اپنی شہوت والی قوت کی پیروی کر بیٹھتا ہے اور اس کے زور میں امانتِ خدا میں خیانت کرنے کے عذاب سے بے خبر ہو جاتا ہے!

د ولت عقل اور امانت د اریا

عقل بھی خدا کی ایک بڑی امانت ہے اور اس کی امانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی ہر وقت عقل ہی کا لحاظ کرے، کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرے جو عقل کے حکم یا اذن کے بغیر ہو۔ اگر آدمی عقل کو مغلوب کر کے رکھے اور شہوت یا غضب جیسی قوتوں کی پیروی کرے تو وہ خدا کی اس اہم امانت میں خیانت کر بیٹھے گا۔ پروردگارِ عالم نے اپنے بندوں کو جوتکالیف شرعیہ دی ہیں یعنی ان کے لئے حلال و حرام کو بیان فرمایا ہے، ان کی نسبت امانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی ہر ممکن کوشش کر کے اپنی شرعی ذمہ داریوں کو سمجھے، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی مسئلے میں یہ تک نہ جانتا ہو کہ اس بارے میں حکمِ خدا کیا ہے؟ اپنی تکلیف شرعی کو سمجھ لینے کے بعد اس سلسلے میں امانتداری کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اسے دل کی گہرائی سے قبول کرے اس اس پر مکمل طور سے عمل پیرا ہو۔

امام محمد باقر علیہ السَّلام فرماتے ہیں(عن الباقر) فَخِیٰانَةُ اللهِ والرَّسُولِ مَعْصِیَتُهُمَا وَاَمَّا خِیَانَةُ الْاَمَانَةِ فَکُلُّ اِنْسَانٍ مَاْمُوْنُ عَلٰی مَا افْتَرَضَ اللهُ تعٰالٰی عَلَیْهِ (تفسیر صافی) "خدا اور رسول کے ساتھ خیانت ان کی نافرمانی ہے اور جہاں تک امانت میں خیانت کا تعلق ہے، ہر انسان خدائے تعالیٰ کے دئیے ہوئے فرائض کا امانتدار ہے۔" یعنی واجباتِ خدا ہر انسان کے پاس امانت ہیں اور اس ا مانت کی حفاظت ان کی پابندی ہے۔

اِنَّ عَلِیًّا اِذَا حَضَرَ وَقتُ الصَّلوٰةَ یِتَمَلْمَلُ وَیَتَزِلْزَلُ وَ یَتَلَوَّنُ ۔ امیرالمئومنین حضرت علی علیہ السَّلام جب نماز کا وقت ہوتا تو بے چین ہو جاتے تھے، لرزنے لگتے تھے، اور ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگتا تھا!فَیُقَالُ لَه مَالَکَ یا اَمِیْرَالْمُومِنِیْنَ ؟ لوگ ان سے کہتے تھے: "امیر المئومنین یہ آپ کا کیا حال ہو رہا ہے؟ فَیَقُوْلُ تو حضرت علی فرماتے تھے:جَاءَ وَقتُ الصَّلوٰةِ، وَقْتُ اَمَانَةٍ عَرَضَهَا اللهُ عَلٰی السَّمٰواتِ وَالاَرْضِ وَالجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا (تفسیر صافی) "نماز کا وقت آگیا! اس امانت کی ادائیگی کا وقت آگیا جسے خدا نے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تھا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کیا تھا اور اس سے خوف محسوس کیا تھا! "البتہ یہ بات صرف نماز سے مخصوص نہیں ہے تمام فرائضِ الہٰی خدا کی امانت ہیں، البتہ نماز ایک انتہائی اہم فریضہ ہے۔

احکامِ دین دوسروں تک پہنچائیں

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں لوگوں کی اکثریت خدا کی امانتوں میں خیانت کرہی ہے۔ لوگ دنیا، مادہ پرستی حرص اور شہوت میں اتنے مگن ہیں کہ کسی کو احکام دین سیکھنے کی فکر تک نہیں ہوتی ، عمل کرنا تودور کی بات ہے۔ روز بروز دین کے آثار محو ہوتے جارہا ہیں اور فرائض الہیٰ کا لحاظ کم ہوتا جاررہا ہے۔ پس اس زمانے میں پہلے سے زیادہ میں پہلے سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگ نہ صرف یہ کہ خود احکامِ دین حاصل کریں ، بلکہ دوسروں تک بھی پہنچائیں خود بھی عمل کے سلسلے میں لاپرواہی نہ کریں۔ اور دوسروں کو بھی عمل کی تاکید کریں۔

اما نت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ)

شیعہ اور سنی دونوں کے پاس یہ حدیث مسلم ہے کہ رسول اکرم نے اپنی وفات سے قبل فرمایاتھا: اِنیِّ تَارِکُ فِیْکُمْ الثِقِلْین کِتابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِی(بحارالانوار ،جلد ۶) " میں تم لوگوں کے درمیان دوگراں چیز یں چھوڑے جارہاہوں،ایک توکتابِ خدا ہے اور ایک میری عترت ہیں۔ "اس کے بعد کاجملہ تاریخ میں یہ ہے کہ "میں قیامت کی دن تم سے سوال کروں گا کے ساتھ کیا کیا؟"

تفسیرمجمع البیان میں لکھا ہے کہ : قرآن وعترت کو ثقْلَیْن یا دوگراں چیزیں اسی لئے کہاگیاہے کہ ان کی پیروی بہت گرں گزرتی ہے۔ یہ ایسی امانتیں ہیں جن کا لحاط بہت بھاری ثابت ہوتا ہے۔ سچامسلمان وہی ہے جو اتنی بھاری ذمّہ داری اُٹھالے ۔ قرآن کے احکامپر عمل کرے اور اہلبیتِ رسول کی پیروی کرے۔ لیکن افسوس کہ امت محمدّی نے اتنی اہم امانتوں کاخیال نہیں رکھاہے۔( وَقَالَ الرّسُوْلُ یَارَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخذُوْاهٰذاالْقُراٰنَ مَهْجُوْراً ) (سورئہ فرقان ۲۵: آیت ۳۰) اور (قیامت کے دن ) رسول کہیں گے کہ اے میرے پروردگار ! میری قوم نے اس قرآن کوچھوڑدیا تھا!! " اے کاش کہ ہم قوم رسول کی اُس اکثریت میں شامل نہ ہوں جس کی رسول ،خداسے شکایت کریں گے۔

اہل بیت رسول امانتدارہیں

اہل بیت رسول خود رسول خدا کی ایک امانت ہیں جو آنحضرت ہمارے لیے چھوڑگئے ہیں۔ اس امانت کالحاظ یہ ہے کہ دل میں ان سے محبت ومودت رکھی جائے۔ ان کی حقانیت کوصدقِ دل سے مانا جائے ۔ ان کے احکام کی اطاعت کی جائے۔ ان کے احکام کوخدااور سولکے احکام سمجھاجائے۔ ان کو خدا کی طرف سے حجّت سمجھاجائے۔خدانے انھیں بھیج کر ہم پر حجّت تمام کی ہے ۔اب ہم یہ عذر نہیں کرسکتے کہ رسول کی وفات کے بعد ہماری ہدایات کے لئے کوئی نہیں تھا۔ اُن کوپانے اورخدا کے درمیان واسطہ سمجھاجائے۔ صحابہ کرام کو ان کی نشانی سمجھ کر ان کا احترام کیاجائے۔ سادات کی ضرورتوں کاخیال رکھاجائے تاکہ اس طرح اُن کے جد کی امانت کاحق ادا ہوسکے۔

ایک طرف اہل بیت علہیم السَّلام خود رسول اکرم کی وفات کے بعد سے اب تک اور قیامت تک احکامِ خدا اور احکامِ رسول کیاامانت دار ہیں اور امین ہیں تودوسری طرف وہ خود ہمارے حق میں رسول کی ایک گراں امانت ہیں ۔ قرآن مجید کی طرح کی امانت ہیں۔ اس امانت کا لحا ظ یہ بھی ہے کہ اہل بیت کے غم کو ہم اپناغم سمجھیں اور اہل بیت کی خوشی کواپنی خوشی جانیں۔ اگروہ ظاہری زندگی میں ہوں تو خودان کی زیارت کریں اور اگر وہ اس دنیاسے جاچکے ہوں توانکے روضوں اور مزارات کی زیارت کریں۔

لوگوں کی امانت

امانت کی دو قسمیں ہیں: ایک امانت ملکی، اورایک امانت ِ شرعی ۔امانت ملکی یہ ہے کہ آدمی اپنا مال یا پانی ملکیت کی چیزکسی دوسرے شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھائے۔ امانتِ ملکی کی چندقسمیں ہیں۔کبھی کوئی چیز محض محفوظ کرنے کی غرض سے رکھائی جاتی ہے کبھی کوئی چیزا ستعمال کی نیت سے دی جاتی ہے تاکہ وہ بعدمیں لوٹائی جاسکے ۔ اس کوعاریہ یامستعار بھی کہتے ہیں ۔یہ بھی امانت کی ایک قسم ہے۔ کبھی کوئی چیز دی جاتی ہے لیکن اس کا کرایہ لیا جاتاہے جیسے کرائے پر مکان دے دیا جاتا ہے یہ بھی ایک قسم کی امانت ملکی ہے کبھی کوئی چیز رہن یا گر وی رکھائی جاتی ہے اور اس کی ضمانت پر کچھ مال حاصل کیاجاتاہے ۔رہن میں ر کھی ہوئی چیز بھی ایک امانت ہے۔ اگر اس کی ضمانت پر لیا جانے والا مال لوٹایانہ جاسکے تو رہن میں رکھی ہوئی چیز کو بیچ کر نقصان پوراکیا جاتا ہے۔ اسی طرح مضاربہ کا مال یعنی سرمایہ کاری کا مال بھی ایک امانت ہوتا ہے ۔ جو دوسرے کو تجارت کی غرض سے دیاجاتاہے ۔ اسی طرح قرض بھی ایک امانت ہوتاہے ایسی تمام چیزیں امانت ِملِکی ہیں۔

شرعی امانتیں

امانتِ شرعی یہ ہے کہ شرعی حکم سے کسی شخص کا مال کسی دوسرے شخص کے پاس امانت شمار ہو،خود مالک نے وہ مال امانت کے طورپر نہ ر کھایاہو مثلاً ہواچلی اور ہمسائے کے گھر میں لٹکا ہوا لباس اڑکربر ابروالے گھر میں گر گیایا کسی کا گمشدہ پالتو جانور کسی دوسرے کے گھر میں پہنچ گیایا خریدارنے ایک بند پیکٹ خریدا جس کے اندر دو کاندارا پنا کچھ مال رکھ کر بھول گیا تھا ، کیاخرید ار بھولے سے دوکاندار کو کچھ زیادہ رقم دے کر چلاگیا ہو، یا ایک خطیر رقم آدمی کوراستے میں پڑی مل گئی ہو یا چوری اور غضب وغیرہ کا مال ہاتھ آگیا ہو تو ایسی تمام چیزیں شرعی طور پر امانت شمار ہوتی ہیں۔ اور ان کے مالک تک پہنچانا واجب ہوتا ہے خود استعمال کا حق نہیں ہوتا۔ امانت شرعی کی ایک اورمثال یہ ہے کہ کسی کاخط کسی کو مل گیا ہو اب جسے ملا ہے اس پر فرض ہوتا ہے کہ جس کے نام وہ خط ہے اس تک پہنچانے کاانتظام کرے۔ دوسروں کاخط کھولنا اور اسے پڑھنا حرام ہے۔

لوگوں کے مال میں خیانت

اگر دوسروں کی امانت ملکی کی یا امانتِ شرعی کسی کے پاس ہوتو اس میں خیانت کرنا حرام ہے۔ اور جیسا کہ گزرا،یہ گناہانِ کبیرہ میں سے ہے خیانت تین گناہوں کامجموعہ ہے:

( ۱) دوسروں پر ظلم ، ( ۲) تفریط یعنی ایک واجب کے سلسلے میں لاپرواہی۔ اور( ۳) دوسروں کے مال میں ناجائز تصرف

( ۱) دوسروں کے مال میں بغیر اجازت تصرف

دوسروں کے مال میں ان کی اجازت کے بغیر تصرّف کرنا اور اسے استعمال کرنا ظلم ہے۔ اگرآدمی کسی دوسرے کی مرضی کے بغیراس کا مال اٹھالے،خواہ دوسرے کے علم میں ہو یا نہ ہو، اگر چہ قرض کے طور پر اٹھائے اور واپس دینے کا ارادہ ہو، لیکن چونکہ مالک راضی نہیں ہے اس لیے یہ بھی خیانت اور حرا م ہے۔ دوسرے کی چیز اسکی مرضی کے بغیر ایک لمحہ بھی اس کی مرضی کے بغیر استعمال کرنا حرام ہے۔ بلکہ دوسرے کی چیز اس کی مرضی کے بغیر ایک جگہ سے اٹھاکر دوسری جگہ کوئی عذر شرعی نہ ہونے کی صورت میں رکھ دینا بھی حرام ہے۔البتہ اگر بِالْفَحْویٰ معلوم ہو یعنی اجازت حاصل کئے بغیرمعلوم ہوکہ مالک راضی ہوگا تو اس کے مال میں تصرف جائز ہے۔ لیکن جب تصّرف جائز ہوتو اگر ستعمال کے دوران وہ مال ضائع ہوگیا یا اس میں کوئی نقص پیدا ہوگیا تو استعمال کرنے والا شخص ضامن ہے اور اسے اس کا عوض مالک کو دینا ہوگا۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر امانت دار شخص نے اپنی حد تک امانت کی حفاظت کی ہو، اور اس کے باوجود امانت کی چیز میں نقص پیدا ہوگیا ہو یا وہ ضائع ہوگئی ہو تو امانت دار شخص ضامن نہیں اس کو اس کا عوض دینا نہیں پڑے گا لیکن امانتدار شخص نے لا پروہی کی ہو تو وہ اس کی تلافی کا ضامن ہوگا۔ اسی طرح مالک کی مرضی کے بغیر اس کے مال میں تصّر ف کرنے والا بھی نقصان کی صورت میں جامن ہوگا، بلکہ اسے تو مال فوراً لوٹادیناچاہیئے یا اجازت لے لیناچاہئے ۔ سورئہ توبہ کی آیت ۹۱ میں ارشاد ہے: مَاعَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ یعنی " احسا ن مند کا کوئی زور نہیں ہے۔ " اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس شخص نے امانت رکھ کراحسان کیا ہواور اپنی حد تک حفاظت کرنے کے باوجو د امانت ضائع ہوگئی ہو تو امانت رکھوانے والا شخص اپنے محسن کے خلاف دعویٰ نہیں کرسکتا۔

( ۲) امانت کی حفاظت میں لاپرواہی

عرف ِعا م میں اگر کہا جائے کہاآدمی نے امانت کی حفاظت کے سلسلے میں لاپرواہی کی ہے مثلاً اسے محفوظ جگہ پر نہیں رکھا ہے تو وہ ضامن ہوگا، یعنی اسے اس کی تلافی کرنی پڑے گی ۔ امانتدار شخص کو مالک کی مرضی کے بغیریہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کی امانت کسی اور کے پاس بطور امانت رکھ دے کسی اور کے پاس امانت کو منتقل کرنے کے لئے بھی مالک کی اجازت ضروری ہے۔اگر مالک کی اجازت کے بغیر امانت دار شخص نے منتقلی کر دی اور وہ دوسرے شخص کے پاس ضائع ہو گئی تو پہلا امانتدار شخص ضامن ہوگا، اور کہاجائے گا کہ جس شخص کے پاس مالک نے امانت رکھوائی تھی اس نے لاپرواہی کی ہے ۔ پس اگرچہ اصل امانتدار شخص کسی کو اپنی طرح یا اپنے سے بہتر امین سمجھتاہوتب بھی امانت کے مالک کی اجازت ضروری ہے۔ اس طرح امانتدار شخص امانت کو اپنے ہمراہ سفر پر نہیں لے جا سکتا۔ اس کے لئے بھی مالک کی اجازت ضروری ہوگی ۔اگر امانتدار شخص کو سفر پر جانا ہو تو وہ اس کو کسی ایسی جگہ رکھ سکتا ہے جو عام طور پر محفوظ شمار ہو۔ لیکن کسی آدمی کے حوالے کرنے کے لئے مالک کی اجازت لازمی ہوگی ۔ ہاں البتہ اگر اندیشہ ہوکہ امانت دار کی غیر موجودگی میں امانت ضائع ہوجا ئیگی توایسی صورت میں واجب ہے کہ امانت یا تومالک کو یا مالک کے وکیل(نائب وغیرہ)کو لوٹادے ۔ اگر مالک یا اس کے وکیل موجود نہ ہوتو حاکم شرع (مجتہد یا اس کے وکیل )کے حوالے کرجائے یا اس امانت کی خاطر سفر نہ کرے ۔ ہاں اگر سفر امانت کی حفاظت سے زیادہ ضروری ہو اور مالک ، اس کا وکیل ، مجتہد،یااس کا وکیل بھی نہ ملے تو تب وہ کسی قابل اِعتماد آدمی کے پاس امانتاً رکھواکر جاسکتاہے ،یا اگرچاہے تو ساتھ لے جاسکتاہے۔

اگر ایک شخص کومعلوم ہے کہ وہ امانت کی مناسب حفاظت نہیں کرسکتا تواس پر واجب ہے کہ وہ امانت قبول نہ کرے ۔ اگر ایسے شخص نے امانت لے لی ہے تواس پر واجب ہے کہ امانت لوٹادے ۔لیکن اگر امانت رکھو انے والاشخص یعنی مالک پھر بھی اسی کو امین بنانا چاہتا ہو، حالانکہ اسنے اسے بتادیا ہو کہ وہ امانت کی حفاظت صحیح طرح نہیں کرسکتا، تب وہ امانت قبول کرلیناجائز ہے ۔لیکن اگر ایسے شخص کے ہاتھوں امانت ضائع ہوجائے تو بہرحال اصل مالک ہی کو نقصان ہوگااور امانتدار شخص کسی صورت میں ضامن نہیں ہوگا ۔ حتٰی کہ عذرپیش کرنے کے باوجود اگر کسی شخص کو امانتداربنناپڑگیا ہو تو اس پر اس کی حفاظت واجب نہیں ہوتی ۔ پھر بھی اخلاقًا بہتر ہے کہ جہاں تک ہوسکے حفاظت کرے۔

ظاہرہے کہ امانت ایک ایسا جائز معاملہ ہے جسے طرفین(امانتدار اور مالک )میں سے کوئی بھی جب چاہے ختم کرسکتا ہے۔ یعنی مالک جب چاہے امانتدار سے اپنا مال لے سکتا ہے ۔ اسی طرح امانتدار شخص جب چاہے مالک کو مال لوٹا سکتا ہے۔ البّتہ جب مالک اپنی چیز مانگے توامانت دار پر واجب ہے کہ وہ اسے لوٹادے اسی طرح جب بھی امانت دار شخص امانت لوٹانا چاہے تو مالک کو حق نہیں ہے کہ وہ امانت دار کے پاس امانت باقی رکھنے پر زور دے ۔

( ۳) امانت کے لوٹانے میں سستی

اگرچہ امانت رکھوانے والا شخص کا فر حربی ہو، اور عام حالات میں اسکے مال پر قبضہ جائز ہو، تب بھی اگر وہ کچھ مال امانتًا رکھائے تو اس امانت پر قبضہ کرناجائز نہیں ہے۔ ہاں اگر ایک چور چوری کا مال امانت کے طور پر رکھائے یاکوئی غاصب اور ظالم شخص غصبی مال امانتاً رکھائے تو واجب ہے کہ وہ مال لے لیاجائے لیکن اس کے اصل مالک یا مالکوں کو دے دیا جائے۔

جس طرح کہ بیان ہوا کہ امانت کا مال اس کے مالک ہی کو لوٹا نا چاہیئے اگر وہ نہ ملے تو اس کے وکیل کو مثلاً اس کے گھر کے کسی ذمہ دار فرد کو دے دینا چاہیئے۔ اگر وہ بھی نہ ملے تو حاکمِ شرع یعنی مجتہد یا اس کے وکیل کے پاس رکھوادینی چاہیئے۔ اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو پھر کسی بھی دوسرے قابلِ اعتماد شخص کو امانتدار بنا دینا چاہئیے۔ خاص طور پر جب آدمی مرنے کی علامتیں اپنے اندر پائیں تو اس پر واجب ہے کہ وہ امانت لوٹانے کی فکر کرے۔ اگر اوپر والی ترتیب کے لحاظ سے کوئی نہ مل رہا ہو، حتٰی کہ کوئی قابلِ اعتماد اور امین شخص بھی نہ مل رہا ہو، تو اس پرواجب ہے کہ وہ وصیت کر جائے اور امانت کے مالک کا نام پتہ لکھوا دے۔

اسی طرح اگر امانت کے مالک کو اطلاع ملے کہ امانتدار شخص مر گیا ہے تو اس پر بھی واجب ہے کہ وہ جاکر اپنی امانت واپس لے لے۔ اگر مرحوم کے وارث اسے نہ پہچانتے ہوں تو وہ امانت کی نشانیاں بتا کر لے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر امانت کا مالک مر جائے تو امانتدار شخص پر واجب ہے کہ وہ امانت کا مال اس کے وارثوں کو پہنچا دے۔

کرائے پر دینا، عاریتاً دینا، رہن پر دینا اور مضاربہ

جیسا کہ بیان ہوا، کرائے پر لیا ہوا مال عاریتاً لیا ہوا مال ( یعنی کچھ عرصہ استعمال کی خاطر لیا ہوا مال)، رہن میں رکھایا ہوا مال، اور سرمایہ کاری کی نیت سے لیا گیا مال، ان میں سے ہر ایک امانت ہے۔ جب بھی مال کا مالک مطالبہ کرے تو فوراً واپس لوٹا نا واجب ہے، ہاں البتہ اگر ایسی امانتوں میں کوئی مدت طے پاگئی ہو تو اس مدت کے اندر مالک اپنے مال کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ مثلاً مالک مکان اس وقت تک کرائے دار سے اپنا مکان نہیں لے سکتا جب تک کہ طے ہو جانے والی کراے کی مدت ختم نہ ہوجائے۔ اسی طرح رہن اس وقت تک واپس نہیں لیا جا سکتا جب تک کہ اس کی ضمانت لیا گیا مال نہ لوٹا دیا جائے۔ اسی طرح سرمایہ کاری کے لئے دیا ہوا مال بھی ہے۔ جو مدت مقرر ہوئی ہے، اس سے پہلے مالک نہیں مانگ سکتا۔ ہاں البتہ جب مدت گزر جائے اور معاملہ ختم ہونے لگے تو ایسی ا مانتوں کے امانتدار شخص پر امانت لوٹا دینا واجب ہے، اگرچہ کہ مالک طلب نہ کرے۔ ہاں اگر مالک خود مہلت دے دے یا اس کے پاس مزید رکھوانا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

البتہ عاریہ ایک ایسی چیز ہے کہ مالک طے شدہ مدت سے پہلے ہی مال کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نے دوسرے سے ایک ہفتے کے لئے کتاب پڑھنے کو لی۔ لیکن کتاب کے مالک نے دو ہی دن میں کتاب مانگ لی تو اس پر واجب ہے کہ وہ کتاب لوٹا دے ۔ یہ بالکل امانت کی طرح سے ہے عام طور پر جسے امانت کہا جاتا ہے، اگرچہ مالک نے کوئی مدت مقرر کی ہو، تب بھی وہ اس مدت سے پہلے اپنی امانت واپس لے سکتا ہے۔

مالک کی تلاش اور اس کی طرف سے صدقہ

یہ تو بات ہوئی امانتِ ملکی کی۔ اور اگر امانت شرعی کسی کے پاس ہو تو اس کے مالک کو واپس لوٹا دے۔ اگر مالک معلوم نہ ہو تو واجب ہے کہ ایک سال تک اسے تلاش کرے ، مثلاً مساجد میں اعلان کروائے۔ ایک سال کے بعد بھی اگر وہ نہ ملے تو اس کی جانب سے وہ پورا مال صدقہ کردے۔

امانت دینے والا اور لینے والا بالغ وعاقل ہو

امانت کا معاملہ اسی وقت صحیح ہے جبکہ امانت رکھوانے والا اور رکھنے والا، دونوں عاقل اور بالغ ہوں۔ پس کسی دیوانے یا کسی نابالغ بچے کو نہ تو امانت رکھوانے کا حق حاصل ہے اور نہ ان کے پاس امانت رکھنا صحیح ہے۔ ہاں اگر دیوانے شخص یا نابالغ بچے کا سرپرست اجازت دے دے تو ایسوں کی امانت رکھنا جائز ہے۔ البتہ خواہ دیوانے شخص یا نابالغ بچے کی ولی کی اجازت سے امانت رکھی ہو یا ایسے ہی دیوانے یا نابالغ بچے کا مال رکھ لیا ہو، دونوں صورتوں میں اگر مال ضائع ہوجائے تو مال رکھنے والا شخص ضامن ہوگا اور دیوانے یا نابالغ بچے کے سر پرست کو مال لوٹائے گا خود دیوانے یا نابالغ بچے کو نہیں لوٹائے گا۔ اسی طرح اگر مال ضائع نہ ہوا ہو اور سرپرست کی مرضی کے بغیر لے لیا ہو، تب بھی مال سرپرست ہی کو دینا ہوگا ہاں البتہ اگر آدمی کسی بالغ بچے یا دیوانے کے ہاتھ میں کچھ مال دیکھے اور اندیشہ ہوکہ اس کے ہاتھ سے یہ مال ضائع ہوجائے گا تو لے کر سرپرست تک پہنچا سکتا ہے اور اگر اس دوران مال تلف ہوجاے تو وہ ضامن نہیں ہے۔

یہ امانتداری کے کچھ احکام تھے مزید تفصیلات کے لئے فقہی کتابوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ جو چیز اہم ہے وہ امانت داری کی اہمیت کو سمجھنا اور خیانت جیسے گناہ کی خرابی سے آگاہ ہونا ہے۔ اس سلسلے میں ہم بس ایک آیت اور چند روایت مزید پیش کر رہے ہیں۔

قرآن میں امانتداروں کا مدح

سورئہ آلِ عمران میں ارشاد ہوا:( وَمِنْ اَهْلِ الکِتٰبِ مَنْ اِن تَامَنْهُ بِقِنْطَارٍ یُّودّه اِلَیْکَ وَمِنْهُمْ مَنْ اِنْ تِاْ مَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُودِّه اَلَیْکَ اِلَّا مَا رُمْتَ عَلَیْهِ قَآئِماً، ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الاُمِّییِنَ سَبِیْلُ وَّیَقُوْلُوْنَ عَلٰی اللهِ الْکَذِبَ وَهُمْ یَعْلَمُوْنَ ) (سورئہ آلِ عمران ۳ آیت ۷۵) " اور اہلِ کتاب کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس روپے کے ڈھیر امانت رکھ دوتو بھی اُسے (جب چاہوبعینہ) تمہارے حوالے کردیں گے اور بعض ایسے ہیں کہ اگر ایک اشرفی بھی امانت رکھوتو جب تک تم برابر (ان کے سر) پر کھڑے نہ رہو گے تمہیں واپس نہ دیں گے۔ یہ (بدمعاملگی) اس وجہ سے ہے کہ ان کا تو قول ہے کہ (عرب کے) جاہلوں کا (حق مار لینے میں ) ہم پر کوئی (الزام کی) راہ ہی نہیں ، اور وہ جان بوجھ کر خدا پر جھوٹ جوڑتے ہیں۔"

اس آیئہ شریفہ میں خداوند تعالیٰ ان عیسائیوں کی تعریف کر رہا ہے جو غیر عیسائی لوگوں کی امانت میں بھی خیانت کو جائز نہیں سمجھتے جبکہ خدا ان یہودیوں کی مذمت فرمارہا ہے جو غیر یہودی لوگوں میں تھوڑے سے مال میں بھی خیانت کو روا رکھتے ہیں اور خدا پر تہمت لگاتے ہیں کہ خدا نے اس کی ان کو اجازت دے رکھی ہے۔

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جب یہ آیئہ شریفہ پڑھی تھی تو فرمایا تھا :کَذِبَ اَعْدَاءُ اللهِ مَا مِنْ شَئٍی کَانَ فِی الجَاهِلِیة اِلَّا وَهُوَ تَحْتَ قَدَمِیْ اِلَّا الْاَمَانَةَ فَاِنَّهَا مُودَّاةُ الٰی الْبِرِّ وَالْفَاجِرِ (تفسیر مجمع البیان) "خدا کے دشمن جھوٹ بولتے ہیں ! میں نے اسلام سے پہلے کے زمانہ جاہلیت کی ہر چیز اور اس کے ہر طریقے کی اصلاح کر دی ہے۔ ہاں بس امانت اپنی جگہ باقی ہے۔ امانت خواہ نیک آدمی کی ہو یا فاسق و فاجر کی ، بہر حال اسے لوٹانا ہے۔" یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ خیانت کرنے والے لوگ ان یہودیوں کے برابر ہیں جو خیانت کرتے ہیں۔ البتہ اگر کوئی مسلمان خیانت کرنے کو جائز سمجھے تو وہ خدا کے دشمنوں میں شمار ہوتا ہے۔

امانت رکھے ہوئے مال سے اپنا نقصان پورا کرلینا

آیات و روایات کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ امانت میں خیانت کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ کتاب نہایہ میں شیخ طوسی اور بہت سے قدیم مجتہدین نے بھی یہی فرمایا ہے۔

راوی صحیح حدیث نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:عَنْ اِلصَّادقِ اَنَّه سَئَلَ عَن اِلرّجُلِ یَبْعَثُ اِلَی الرَّجُلِ یُقُوْلُ لَه اِبْتَعْ لِیْ ثوْباً، فیَطلُبُ لَه فِی السُّوْقِ، فَیَکُوْنُ عِنْدَه مِثلُ مَا یَجِدُ لَه فِی السُّوْقِ فَیُعْطِیُه مِنْ عِنْدِه ۔ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے کہا! " ایک شخص نے دوسرے شخص کو یہ کہہ کر بھیجا کہ میرے لئے فلاں کپڑا خرید لاؤ۔ پس اس دوسرے شخص نے بازار میں وہ کپڑا تلاش کیا تو اس نے دیکھا کہ جو کپڑا پہلے شخص کو مطلوب ہے وہ اس کے پاس پڑا ہوا ہے۔ پس وہ دوسرا شخص کچھ بتائے بغیر اپنا کپڑا اسے دے کر اس کے عوض میں بازار سے خریدے ہوئے مال اپنے پاس رکھ سکتا ہے؟"

قَالَ لَایَقْرِبَنَّ وَلُا یُدَنِسْ نَفْسَه یعنی امام نے فرمایا: اُس کو ایسی حرکت کا سوچنا بھی نہیں چاہیئے اور اس طرح اپنے نفس کو آلودہ نہیں کرلیناچاہیئے ۔۔ " پھرامام نے سورئہ احزاب کی آیت ۷۲ تلاوت فرمائی اورپھر ارشاد فرمایا(قَالَ وَاِنْ کَانَ عِنْدَه خَیْرُ مِّمّا یَجِدُلُه فِیْ السُّوْقِ فَلاَیُعْطِیَهُ من عِنْدِه (تفسیر صافی نقل از "تہذیب") یعنی

"اگر چہ کہ اس کے پاس برابر والی چیز سے بہتر ہو تب بھی وہ اپنی طرف سے (یعنی پہلے شخص کوکچھ بتائے بغیر ) نہ دے ۔ "اس لئے کہ اصل معاملہ جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرا شخص پہلے شخص کی رقم لے کر بازار سے ایک مخصوص کپڑا لے آئے ۔ پس اس معاملے کی ذرا سی بھی خلاف ورزی خیانت ہوگی ۔

سلیمان بن خالد کہتے ہیں:

میں نے حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السّلام سے پوچھا کہ : ایک شخص میرا قرضدا ر تھا لیکن نہ صرف یہ کہ اس نے قرض ادا نہیں کیا بلکہ جھوٹی قسم بھی کھالی کہ کسی قرض کاسلسلہ نہیں ہے۔ اس کے بعد اس نے اپناکچھ مال میرے پاس امانت کے طو پر رکھوایا ہے۔ آیا میں اس کی امانت کو اپنے قرض میں کاٹ کر خوداستعمال کرسکتا ہوں ؟ :قَالَ اِنَّهُّ خَانَکَ فَلا تَکُنْقه وَتَدْکُلُ فِیْمَا عَیَّبْتَه عَلَیْهِ (کتاب " نہایہ ") امام نے جواب دیا : "بیشک جس نے تمہاے ساتھ خیانت کی لیکن تمہیں اس کے ساتھ خیانت نہیں کرنی چاہئے ۔ ابھی تم نے اس کاجو عیب بتایا اس کے زمرے میں تمہیں بھی داخل نہیں ہوجانا چاہیئے۔

جیسا کہ بیان ہوا،شیخ طوسی ودیگر قدیم مجتہدین مطلق آیتوں اور ایسی روایتوں کی روشنی میں یہ فتوی دے چکے ہیں کہ خیانت کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ لیکن کتاب "ملحقات عروة الوثقیٰ"کے قضاوت والے باب میں مرحوم سید کاظم طباطبا ئی فرماتے ہیں : "مجتہدین کے درمیان مشہوریہ ہے کہ امانت کے مال سے اپنا جائز حق وصول کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ " خود مرحوم سید کاظم طباطبائی کابھی یہی فتویٰ تھا لیکن احتیاط یہ ہے کہ ایسا کام نہ کیا جائے۔

اسی طرح اگر ایک شخص کسی کوکچھ مال دے اور کہے کہ "یہ مال سادات یا غریبوں تک پہنچادو" اور اتفاق سے جس کو مال دیا گیا ہے وہ خود بھی سید یاغریب ہو توو ہ مالک کی اجازت کے بغیر خود اس مالک کی تصرف نہیں کر سکتا ۔ ہاں اگر معلوم ہوکہ اگرخود وہ تصرّف کرلے تو بھی مالک راضی ہوگا تو درست ہے۔

خیانت کا بوجھ اور روز قیامت

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں :

(قَالَ) اَلَالا یَغُلَّنَّاَحَدُ بَعِیْراً فَیاَْتِیْ بِه عَلٰی ظَهْرِهِ رُ عاَءُ

"خبردار! کوئی شخص ایک اونٹ کی بھی خیانت کا مرتکب ہرگز نہ ہو ۱ ورنہ وہ قیامت کے دن اُسی اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کرآئے گا اور اونٹ کی طرح بلبلا رہا ہوگا !"

اَلَا لَا یَغُلَّنَّ اَحَدُ فَرَسًا فَیَاْتِیْ بِهِ یَوْمَ الْقِیاَمَةِ عَلٰی ظَهْرِ هِ لَه حَمحَمةُ ۔ "خبردار ! کوئی شخص ایک گھوڑے کی بھی خیانت کا ہر گز مرتکب نہ ہو! ورنہ وہ قیامت کے دن اسی گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر آئے گا اور ہنہنا رہا ہوگا!" فیقولُ یا محَمَّدُ یا مُحمَّدُ "ایسا خیانت کار شخص مجھے مدد کے لئے پکارے گا:یَا مُحَمَّد ! یَا مُحَمَّد! فَاَقُوْلُ قَدْ بَلّغْتُ لَا اَمْلِکُ لَکَ مِن اللهِ شَیئًا (کتاب "کافی") آنحضرت فرماتے ہیں کہ: " میں اس سے کہوں گا کہ میں نے تمہیں تبلیغ کر دی تھی۔ اب(تمہاری نا فرمانی کی صورت میں ) تمہارے متعلق خدا کے حضورمیری کوئی ذمہ داری نہیں ہے!"

علامہ مجلسی پیغمبر اکرم کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ:رُدُّوْاالْخَیْط وَالْمَخِیْطَ فَاِنَّ الْغُلُوْلَ عَارُ وَّ شَنَارُ یَوْمَ الْقَیٰمَةِ (کتاب "شرح کافی") یعنی "حتٰی دھاگہ اور سوئی تک واپس لوٹا دیا کرو۔ اس لئے کہ خیانت قیامت کے دن بہت ننگ و عار اور رسوائی کا باعث ہوگی۔

ایک شخص آنحضرت کی خدمت میں آیا ۔ وہ ایک سُوا (بڑی سوئی) بغیر اجازت لے گیا تھا۔ اس نے آنحضرت سے کہا: "میں یہ سُوا لے گیا تھا تاکہ اس سے اپنے لئے پالانِ شتر تیار کر سکوں۔" آنحضرت نے فرمایا: اگر اس سوئے میں میرا حق ہے تو میں نے اسے معاف کیا۔ اور اگر دوسرے مسلمانوں کا حق ہے تو اس کی قیمت تم دے دو تاکہ وہ بیت المال میں شامل ہو اور سب کے درمیان عدل سے تقسیم ہو!" اس عرب شخص نے کہا: "میں نہیں جانتا تھا کہ یہ اتنا سخت مسئلہ ہے۔ اگر ایسا ہے تومیں سوا اپنے پاس نہیں رکھوں گا۔" یہ کہہ کر اس نے وہ سوا آنحضرت کو دیا اور چلا گیا۔

د

( یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْما هُمْ ) سے مراد

علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ میدانِ حشر میں خیانت کرنے والے شخص کے کاندھوں پر خیانت کا مال رکھا ہوا ہوگا۔ ہر آدمی کی اسی طرح کوئی نہ کوئی علامت ہوگی جس سے اُس آدمی کا گناہ پہچانا جائے گا۔ جو شخص بھی کسی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرے گا اور توبہ کئے بغیر مر جائے گا، خدا قیامت کے دن اُ س کے ساتھ عدل کا سلوک کرے گا۔ عدل اس حد تک ہوگا کہ جس قسم کا گناہ آدمی نے زیادہ کیا ہو اُسی کی مناسبت سے کوئی علامت بھی آدمی کے ساتھ لگی ہوگی۔ مثلاً شرابی کے ہاتھ میں شراب کی ایسی بوتل ہوگی جس کی بدبو سے اہلِ محشر کو تکلیف پہنچ رہی ہوگی۔ اسی طرح گانا بجانے کے آلات، بجانے والے شخص کے ہاتھ میں چپکے ہوئے ہوں گے۔ اسی طرح جوا کھیلنے والوں کے ہاتھ میں جوئے کے آلات ہوں گے۔ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْما ھُمْ (سورئہ رحمٰن ۵۵: آیت ۴۱) یعنی "مجرموں کو اُ ن کی پیشانی سے پہچانا جائے گا۔" اس آیہ شریفہ سے یہی مراد ہے۔

رسولِ اکرم اور امانت

ایک دن مسجدِ نبوی میں ایک غریب آدمی آیا اور رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے اپنی غربت کا ذکر کرنے لگا۔ آنحضرت نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، خدا قادر ہے۔" اسی طرح ایک اور فقیر آیا، آنحضرت نے اُس سے بھی یہی فرمایا پھر ایک تیسرا غریب آدمی آیا۔ آنحضرت نے اُسے بھی بٹھا دیا۔ پھر ایک اور شخص آیا۔ اُس نے چار صاع (تقریباً بارہ سیر) گندم زکوٰة کے طور پر پیش کیا۔ آنحضرت نے ایک ایک صاع (تقریباً تین تین سیر) گندم تینوں میں سے ہر ایک غریب آدمی کو دیا۔ ایک صاع یعنی تقریباً تین سیر گندم بچ گیا۔ مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد آنحضرت نے خود اعلان فرمایا کہ ایک صاع گندم موجود ہے، جو شخص بھی مستحق ہو آکر لے لے۔ لیکن کوئی نہیں آیا۔ مجبوراً آنحضرت زکوٰة کی وہ امانت اپنے گھر لے گئے۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ اس رات آنحضرت فکر مند نظر آرہے تھے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا: "مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میں آج مرجاؤں اور یہ امانت مستحق تک نہ پہنچے بلکہ میرے پاس رہ جائے!"

نیز مروی ہے کہ جب آنحضرت پر مرض الموت طاری تھا تو آپ کے پاس غریبوں کو دینے کے لئے چھ یا سات دینار کا مال رکھا ہوا تھا۔ آنحضرت نے اُسے طلب فرمایا۔ اور اس کو گن کر کہا: "ہو سکتا ہے کہ محمد خدا کے حضور پہنچ جائے اور یہ دینار اُس کے ذمے پڑے رہ جائیں!" پھر آنحضرت نے امیرالمومنین حضرت علی علیہاالسَّلام کو یہ دینار فقیروں تک پہنچانے کے لئے دیئے اور فرمایا "اب مجھے اطمینان ہو گیا!"

(ناسخ التواریخ جلد ۳ حالاتِ رسولِ خدا ص ۵۴۴)

راز کی باتیں بھی امانت ہیں

کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ کسی کی راز کی بات کسی کے پاس ہوتی ہے، اور وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ کسی اور کو نہ بتائے۔ ایسی بات بھی ایک امانت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کوئی راز کی بات آدمی کو خود بخود معلوم ہوجائے یعنی جس شخص کے متعلق وہ بات ہے، خود اس نے نہ بتائی ہو، لیکن اندازہ ہو کہ وہ شخص پسند نہیں کرے گا کہ وہ بات پھیل جائے۔ ایسی بات بھی شرعی لحاظ سے امانت ہے۔ دیکھی یا سنی ہوئی راز کی بات فاش کر دینا خیانت ہے کتاب "غرر الحکم" میں حضرت امیرالمومنین کا یہ قول موجود ہے کہ:اِذَاعَة سِرٍّ اُوْدِعْتَه غَدْرُ یعنی "راز کی جو بات تمہیں راز رکھنے کے لئے سنائی گئی ہو، اُسے فاش کردینا خیانت اور غداری ہے!"

راز کی بات خواہ دوست کی ہو یا دشمن کی، خواہ اچھے آدمی کی ہو یا بُرے آدمی کی، جب وہ امانت کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو بہر حال اُسے فاش کرنا حرام ہے۔

آپس کی باتیں بھی امانت ہیں

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے کہ:المُجَالِسُ بِالْاَمَانَةِ وَلَا یَحِلُّ لِمُومِنٍ اَنْ یَّقُوْلَ عَنْ اَخِیْهِ الْمُومِن قَبِیْحاً (بحارالانوار جلد ۱۶) یعنی "ایک ساتھ بیٹھنے والے شخص کو امانت کا خیال کرنا چاہیئے کسی مومن کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مومن بھائی کی کوئی بڑی بات فاش کردے۔"

نبی کریم سے حضرت ابوذر نقل کرتے ہیں(عَنِ النَّبِیِّ) یَا اَبٰاذَرٍ اَلْمُجَالِسُ بِالاَمَنَةِ وَاِفْشَاءُ کَ سِرَّ اَخِیْکَ خِیَانَةُ فَاجْتَنِبْ ذٰلِکَ (وسائل الشیعہ) "اے ابوذر! ایک ساتھ بیٹھنے والے شخص کو امانت کا خیال کرنا چاہیئے۔ اگر تم اپنے مومن بھائی کا راز فاش کردو گے تو خیانت کر بیٹھو گے۔ پس ایسے کام سے بچو۔"

ایک بیٹھک یا میٹنگ میں جو باتیں بھی ہوتی ہیں وہ اُس کے افراد کے پاس امانت ہوتی ہیں۔ جو بات چھپانے کے لائق ہو، اُسے فاش نہیں کرنا چاہیئے۔ روایت میں ہے کہ:اَلمُجَالِسُ بِالاَمَانَةِ اِلَّا ثلَاثَةُ مُجَالِس مَجْلِسُ سُفِکَ فِیْهِ دَمُ حَرَامُ، وَمَجْلِسُ اُسْتُحِنَ فِیْهِ فَرْجُ حَرَامُ وَمجْلِسُ اُسْتُحِلَّ فِیْهِ مَالُ حَرَامُ بِغَیْرِحَقِّهِ (بحار الانوار جلد ۱۶ نقل از امالی مفید)

ایک ساتھ بیٹھنے والے شخص کو امانت کا خیال رکھنا چاہیئے۔ ہاں البتہ تین قسم کی بیٹھکوں میں ہونے والی بات فاش کرنا حرام نہیں ہے۔ ایک وہ جگہ جہاں حرام طریقے سے کسی کی جان لینے کی بات ہورہی ہو۔ ایک وہ جگہ جہاں زنا کا پروگرام طے پارہا ہو۔ اور ایک وہ جگہ جہاں ناحق حرام مال کھانے کی بات ہو رہی ہو۔ "ایسی جگہوں پر ہونے والی باتیں کسی کا حق ثابت کرنے کے موقع پر قاضی کے سامنے گواہ بن کر پیش کی جاسکتی ہیں۔ بلکہ بعض موقعوں پر بات کی اتنی اہمیت ہوتی ہے کہ راز فاش نہ کرنا حرام ہوتا ہے۔

سورئہ تحریم میں پروردگارِ عالم ازواجِ پیغمبر میں سے بعض کو سر زنش کر رہا ہے کہ انہوں نے آنحضرت کے ساتھ خیانت کی تھی اور آپ کا راز فاش کر دیا تھا۔ خدا ان دونوں کو توبہ کرنے کی ہدایت دے رہا ہے اور فرمارہا ہے کہ:( اِنْ تتُوْبَا اِلَی اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمٰا ) (سورئہ تحریم ۶۶: آیت ۴) " اگر تم دونوں توبہ کرو تو بہتر ہے، کیونکہ تمہارے دل تاریک ہوگئے ہیں۔"

اسی سورت میں حضرت نوح اور حضرت لوط پیغمبروں کی بیویوں کا بھی کچھ یوں ذکر ہے:( فَخَانَتٰا هُمَا فَلَمْ تُغْنِیٰا عَنْهُمَا مِنَ اللهِ شیْئًا وَقِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ ) (سورئہ تحریم ۶۶: آیت ۱۰) " دونوں نے اپنے شوہروں کے ساتھ خیانت کی (گھر کے راز فاش کردئیے) تو ان کے شوہر خدا کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آئے اور ان دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی داخل ہوجاؤ۔"

راز کی باتیں بتا دینا امانت میں خیانت ہے

عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ سِنَانَ قَالَ قُلْتُ لَه عبدالله بن سنان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے پوچھا:عَوْرَةُ المُوْمِنِ عَلَی الْمُوْمِنِ حَرَامُ؟ مومن کی چھپائی جانے کے لائق چیز مومن پر حرام ہے؟ قَالَ نَعَمْ امام نے جواب دیا: "ہاں"قُلْتُ تَعْنِیْ سِفْلَیْهِ میں نے پھر پوچھا: "کیا آپ نے اس سے مراد پیشاب اور پاخانے کے مقامات لئے ہیں؟" قَالَ لَیْسَ حَیْث تَذْهَبُ امام نے فرمایا: "وہ بات مراد نہیں ہے جدھر تمہارا دھیان جارہا ہے۔"اِنَّمَا هُوَ اِذَاعَةُ سِرِّه (کتاب "کافی") "(اگرچہ کہ مومن کی شرمگاہ کو دیکھنا بھی حرام ہے، ) لیکن میری مراد مومن کا راز فاش کردینا ہے۔"

امام یہ بھی فرماتے ہیں :مَنْ غَسَّلَ مَیِّتاً مُومِناً فَاَدّیٰ فِیْهِ الْاَمَانَةَ غُفِرَلَه "جو شخص کسی مومن کی میت کو غسل دے اور اس کے سلسلے میں امانت کا خیال رکھے تو اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں "قِیْلَ وَکَیْفَ یُودِیْ فِیْهِ الْاَمَانَةَ؟ پوچھا گیا کہ " کوئی شخص میت کے سلسلے میں امانت کا خیال کس طرح رکھ سکتا ہے؟ "قَالَ لَا یُخْبِرُبِمَا یَریٰ (کتاب "امالی") امام نے جواب دیا "وہ میت کے بدن میں جوعیب دیکھے، دوسروں کو نہ بتائے۔"

گذشتہ بیان سے معلوم ہوا تھا کہ راز فاش کرنا بطور کلی خیانت ہے، خواہ جس شخص کا راز ہو، اس نے خود رازداری کی شرط کے ساتھ بتایا ہو، یا ایسے ہی چلتے پھرتے معلوم ہوگیا ہو۔ بہر حال راز ایک امانت ہے جس میں خیانت جائز نہیں ہے۔ یعنی جس کا راز ہے، اگر وہ اس کے کھل جانے پر ناراض ہوتا ہو تو اسے فاش کرنا خیانت اور حرام ہے۔ اس قسم کی امانت یعنی راز کی امانت کے کچھ درجے ہوتے ہیں اور اس کی کچھ قسمیں ہوتی ہیں۔ بعض میں خیانت کو چغل خوری یا چغلی کہتے ہیں، اور بعض میں خیانت کو غیبت کہا جاتا ہے۔ انشاء الله ان میں سے ہر ایک کا بیان اپنے اپنے مقام پر ہوگا۔

مسلمانوں کے جنگی راز کفار تک پہنچانا

خدا ، پیغمبر اور تمام مسلمانوں سے خیانت کا اپنا اپنا مرتبہ ہوتا ہے ایک قسم کی خیانت یہ بھی ہوتی ہے کہ آدمی خود اپنے ساتھ خیانت کر بیٹھتا ہے ان تمام خیانتوں کا مجموعہ مسلمانوں کے سیاسی رازوں اور فوج کے پوشیدہ امور کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والے کافروں سے بیان کر دینا ہے۔ آدمی اس طرح نہ صرف خدا، پیغمبر اور تمام مسلمانوں سے خیانت کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھ بھی خیانت کرتا ہے۔ دشمن کی تقویت اور مسلمانوں کی شکست کا سبب بنتا ہے شاید اسی خیانت کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے:

( یَااَیُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ لَا تَخُونُوااللهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوااَمٰنٰتِکُم وَاَنْتُم تَعْلَمُوْنَ )

(سورئہ انفال ۸: آیت ۲۷)

یعنی "اے ایمان لانے والو، نہ تو خدا اور رسول کی خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو حالانکہ تم سب کچھ سمجھتے بوجھتے ہو۔"

اس آیہ شریفہ کی شانِ نزول میں جابر ابن عبدالله سے منقول ہے کہ ایک دن جبرئیل نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو خبر دی کہ ابوسفیان فلاں جگہ مشرکوں کے ایک لشکر کے ساتھ پڑاؤ کئے ہوئے ہے۔ آپ اس سے جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔ اور اس خبر کو پوشیدہ رکھیں تاکہ اچانک ان پر حملہ کر سکیں۔ منافقین میں سے ایک شخص نے یہ خبر لکھی اور ابوسفیان کو مسلمانوں کے اچانک حملہ کرنے والے پروگرام سے آگاہ کردیا۔ اس کے علاوہ اسی آیت کے ذیل میں ابو لبابہ نامی شخص کی خیانت اور اس کی توبہ کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔