گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110513
ڈاؤنلوڈ: 7308

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110513 / ڈاؤنلوڈ: 7308
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

قلب ِسیاہ پر وعظ و نصیحت کا اثر نہیں ہوت

یعنی ان کے دل میں گناہوں سے زنگ آلود ہو کر تاریکی چھا گئی ہے۔ حقیقی آنکھ سے محروم ہو کر نہ حق کا چہرہ دیکھ سکتا ہے نہ حق کی پہچان باقی رہتی ہے، نہ نصیحت قبول کرنے اور خیرو خوبی کا راستہ نظر آتا ہے۔ اسی لیے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا ارشاد ِ گرامی ہے:

"کوئی شخص کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے مگر اس کو عملا ً بنا نہیں لاتا۔ کبھی بندہ گناہ کا کام کرتا ہے اور خدا اُسے دیکھتا ہے اور فرماتا ہے میری عزّت کی قسم اس کے بعد میں تجھے ہر گز نہیں بخشوں گا"۔

بعبارت ِ دیگر وہ اس گناہ کی وجہ سے حق تعالیٰ کے الطاف کے استحقاق اور قابلیت سے کلیّتہ ً محروم رہتا ہے اور نہ اُسے توبہ کرنے کی توفیق ہو تی ہے جس کے نتیجہ میں اُس کا گناہ بخشا نہیں جاتا۔

علّامہ مجلسی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے تمام گناہوں سے ڈرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ ہر گناہ سے یہی گُمان ہوتا ہے کہ شاید یہ درگزر کرنے کے قابل نہ ہو۔

گذ شتہ گناہوں سے ڈرنا

اہلِ ایمان کو اپنے گذشتہ گناہوں سے ڈرتے اور روتے رہنا چاہیئے کیونکہ ہمیں اطمینان و یقین نہیں کہ کونسا گناہ ہماری شامت کا سبب بنے گا۔ چونکہ امام (علیہ السلام) نے ہمیں نشاندہی نہیں فرمائی کہ پروردگار ِ عالم کی نظروں سے گرانے والا وہ کانسا گناہ ہے جس سے ہم مغفرت ِ الٰہی اور اس کے درگذر سے محروم ہو جائیں۔ البتہ اس قسم کے گناہ کی نشاندہی کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جس گناہ کے سر زد ہو نے کے بعد توبہ نہیں کی اور پشیمان نہیں ہوئے وہی گناہ ہمیں عفو و مغفرت ِ پروردگار سے محروم کرتا ہے۔ اس لیے بارگاہ ِ خداوندی میں تضّرع و زاری کرتے ہوئے توبہ کے دروازے سے داخل ہو جائیں۔ اُن گناہوں سے جو ہمیں یاد ہیں خصوصا ً اور ایسے گناہوں سے جو بھول گئے ہیں عموماً توبہ کر کے ان کی تلافی کریں۔ اور توبہ کرنے کا طریقہ اس کے بعد ذکر کیا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

شفاعت امید کا موجب ہے نہ مغرور ہونے کا سبب

گذشتہ بیان سے معلوم ہو ا کہ موضوع ِ شفاعت غرور اور نافرمانی کی جرأت کا سبب نہیں بننا چاہیئے بلکہ گناہ گار کے لیے شفاعت مایوسی کے عالم میں اُمید کو تقویّت دیتی ہے اور بندے کو توبہ و انابہ کی طرف شوق اور رغبت پیدا کراتی ہے تاکہ وہ بلند مراتب پر فائز ہو جائے اور ربُّ العالمین کے قرب و جوار کے اعلیٰ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائے۔

پھر بھی خوف و ہراس ہونا چا ہیئے

ایک طرف شفاعت کی امید اور دوسری طرف لا پروائی نہیں ہونا چاہیئے ۔ شفاعت کی امید کے ساتھ دل میں خوف ِ خدا بھی ضروری ہے۔ چونکہ خوف شفاعت کے منافی نہیں یعنی جو شخص پروردگار ِ عالم کے لطف و کرم اور شفاعت کا امیدوار ہے تو ممکن ہے عین اسی حالت میں اُسے خوف و ہراس محسوس ہو جائے ورنہ خدا نہ کرے اپنے آقاؤں کی شفاعت اُسے بہت طویل زمانہ گزر جانے کے بعد حاصل ہو۔ بعبارت ِ دیگر وہ لمبی مدت تک عالم ِ برزخ کے عذاب میں گرفتار رہنے کے بعد اُسے شفاعت نصیب ہو اور اس دوران جو خوف و ترس اُسے حاصل ہو رہا ہے وہی اہل ِ بیت ِ اطہار (علیہم السلام) کی شفاعت حاصل کرنے اور سختی سے اُن کا دامن پکڑنے کا موجب ہو جائے۔

شیعیان ِ اہل ِ بیت علیہم السّلام

شیعوں کے مقام اور اہل ِ بیت (علیہم السلام) کے دوستداروں کی نجات کے بارے میں جو روایتیں ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کو جہنم کی آگ نہیں جلا سکتی۔ پس ایسی روایات ہماری امید کو تقویت بخشنے والی ہیں اور ہمارے آقاؤں کی محبت ہمارے لیے باعث ِ اطمینان ضرور ہے لیکن یہ امید و اطمینان نہ بنادیں نیز معصیّت پر دلیری کا باعث نہ بنیں۔

شیعہ اور محبّ

اس موضوع سے متعلق روایات دو عنوانات پر مشتمل ہیں ۔ پہلی شیعہ اور دوسری محب ِ اہل ِ بیت (علیہم السلام) ۔ تاہم اُن شیعوں کا مقام و مرتبہ بلند ہے کیونکہ انہوں نے علم وعمل کے میدان میں سبقت حاصل کی ہے اور پھر بھی وہ اپنے آپ کو شیعہ اہل ِ بیت صلوات اللہ علیہم اجمعین کہنے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ مثلاً جناب محمد بن مسلم ثقفی ، جو حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق + کے جلیل القدر اصحاب میں شمار ہوتے تھے ، ان کے متعلق ان دونوں بزرگوں نے شیعوں کو حکم دیا تھا کہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔ اس کے علاوہ علم ِ رجال کی کتب میں لکھا ہو اہے کہ اپنے زمانے میں محمد بن مسلم سے بڑھ کر کوئی فقیہ موجود نہ تھا۔

محمد بن مسلم کی قاضی شریک سے گفتگو

ایک مرتبہ یہ بزرگوار ابو کریبةُالاٰزدی کے ساتھ قاضی شریک کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شریک نے غصّے سے ان کی طرف دیکھا اور کہا : "یہ دونوں جعفری اور فاطمی ہیں"۔ یعنی اہل ِ بیت اطہار (علیہم السلام) کے شیعہ ہیں۔ یہ سنتے ہی دونوں زاروقطار رونے لگے۔ قاضی نے اُن سے گریہ کا سبب دریافت کیا تو بولے کہ آپ نے ہمیں ایک عظیم شخصیّت (حضرت جعفر بن محمد الصادق ) کی طرف نسبت دی ہے۔ ہم جیسے کم زہد و تقویٰ اور اتنی عظیم نسبت !( چہ نسبت خاک را با عالم پاک)۔ آپ ازراہِ کرم ہماری اس درخواست کی پذیرائی فرمائیں تو ہم آپ کے رہین ِ منّت ہوں گے۔

امام کی پیروی کرنے والے حقیقی شیعہ ہیں

ہاں ہم شیعہ حقیقی کا خطاب اس شخص کو دے سکتے ہیں کہ تمام کردار و گفتار میں اُن کا پیروکار ہو۔ چنانچہ باب الحوائج حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

اِنَّمَا شِیْعَتُنَا مَنْ شَیّعَنَا وَاتَبَعَ آثارَنا وَ اقْتَدَیٰ بِاَعْمَالِنَا (بحارالانوار)

"اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہمارا شیعہ صرف وہ ہے کہ (تمام حالات میں) ہماری پیروی کرے، ہمارے نقشِ قدم پر چلے اور ہمارے اعمال کی اقتداء کرے"۔

کچھ شیعوں کے ساتھ حضرت علی (علیہ السلام) کی گفتگو

ایک رات حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) مسجد سے باہر جا رہے تھے ۔ چاندنی کی وجہ سے فضا روشن تھی۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک گروہ آپ کے پیچھے آ رہا تھا۔ آ پ نے فرمایا : تم لوگ کون ہو؟، عرض کیا : ہم آپ کے شیعہ ہیں ۔ آنحضرت نے ان کے چہروں کو غور سے دیکھا اور ارشاد فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تمہارے چہروں پر شیعہ ہونے کی کوئی نشانی نہیں پائی جاتی؟ عرض کی: مولا! شیعوں کی علامت کیا ہے؟ فرمایا:

صَفَرَالْوُجُوْهُ مِنَ الْسَّهَرِ، عَمَشَ الْعُیُوْنُ مِنَ الْبُکَاءِ، حَدَبُ الظُّهُوْرُ مِنَ الْقِیَامِ، خَمَصُ البُطُوْنُ مِنَ الصِّیَامِ ذَبَلَ الشِّفَاةُ مِن الدُّعَاءِ، عَلَیْهِمْ غَبَرَةُ الْخَاشِعِیْنَ ۔

(بحارالانوار۔ نقل ازامالی شیخ طوسی وارشاد شیخ مفید علیہا الرحمة)

"عبادت خدا میں زیادہ شب بیداری سے اُن کے چہرے زرد ہوتے ہیں، خوف ِ خدا سے زیادہ رونے کے سبب ان کی آنکھوں سے پانی گرتا ہے، عبادت میں زیادہ مشغول رہنے کے باعث ان کی کمر جھکی ہوئی ہوتی ہے، روزہ زیادہ رکھنے کی بناء پر ان کا پیٹ پیٹھ سے ملا ہوا ہوتا ہے، کثرت ِ دعا سے ان کے ہونٹ خشک ہوتے ہیں اور ان پر خوف ِ الٰہی چھایا ہوتا ہے"۔ قارئین ِ کرام کی مزید اطلاع کے لیے یہاں تین روایتوں پر اکتفا کر رہا ہوں۔

شیعہ ہونے کے لیے دعویٰ کافی نہیں

عَنْ جَابِرٍ عن اَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْهِ السَّلاَمُ اَیَکْتَفِیْ مَنْ یَنْتَحِلُ التَشَیُّعَ اَن یَقُوْلَ بِحُبِنَا اَهْلَ الْبَیْتِ فَوَاللّٰهِ مَامِنْ شِیْعَتِنَا اِلاَّ مَنْ اِتَّقِ اللّٰهَ وَاطَاعَه ۔

"جابر حضرت امام محمّد باقر (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کیا کسی کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے کو شیعیت کی طرف نسبت دے اور کہے کہ میں اہلِ بیت (علیہم السلام) کا دوستدار ہوں؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ اس شخص کے سوا اور کوئی نہیں جو خدا سے ڈرتا ہے اور ان کے احکام کی اطاعت کرتا ہے"۔

عَنْ مُفْضِّلْ بِن عَمَر قَالَ قَالَ اَبُوْعَبْدِاللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلاَمُ اِذَا اَرَدْتَ اَنْ تَعْرِفَ اَصْحَابِی فَانظُرْ اِلٰی مَنْ اِشْتَدَّ وَرَعَه وَخافَ خالِقَه وَرَجَا ثَوَابَهُ وَاِذَا رَاَیْتَ هٰولآءِ فَهٰولآءِ اَصْحَابِیْ (کافی)

"حضرت امام صادق (علیہ السلام) نے مفضل بن عمر سے فرمایا : اگر تم ہمارے اصحاب کو پہچاننا چاہتے ہو تو اس شخص کو دیکھو جو سختی کے ساتھ گناہوں سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے خالق سے زیادہ ڈرتا ہے اور وہ اس کے ثواب کا امیدوار ہوتا ہے ۔ جب تم کہیں بھی ایسے افراد کو دیکھنا تو سمجھ لینا کہ یہی لوگ میرے اصحاب ہیں"۔

دَخَلَ عِیْسیٰ بْنُ عَبْدِاللّٰهِ القُمّی اِلٰی ابی عَبْدِاللّٰه (ع) فَقَالَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ لَیْسَ مِنَّا وَلاَکَرَامَةَ مَنْ کَانَ فِیْ مِصْرٍ فِیْهِ مِأَ اَلفٍ اَوْیَزِیْدُوْنَ وَکَانَ فِیْ ذٰالِکَ الْمِصْرِ اَحَدُاَوْرَعُ مِنْه (کافی)

"عیسیٰ بن عبداللہ قمّی حضرت ابی عبداللہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں اور نہ ہمارے نزدیک اس کی عزت ہے کہ کسی شہر میں ایک لاکھ نفر آباد ہوں اور وہاں ایک آدمی (غیر شیعہ ) بھی اس سے زیادہ پرہیزگار موجود ہو۔ یعنی شیعہ اہل ِ بیت کو ایمان ، عمل اور تقویٰ میں سب سے بہتر ہونا چاہیئے کہ اس کا مقابل کوئی دوسرا نہ ہو"۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام ِ پاک میں اُسے ’خیرالبریّہ ‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔

( اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) (سورہ ۹۸ آیت ۷)

"بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے، یہی لوگ بہترین ِ خلائق ہیں"۔

اور حضرت رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے یہ روایت ہے کہ ’خیرالبریّہ‘ سے مراد شیعیان ِ علی (علیہ السلام) ہیں۔ جیسا کہ فرمایا:

تَاْتِیْ اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ یَوْمَ الِْیَامَة، رَاضِیْنَ مَرْضِیْنَ (تفسیر طبری مناقب خوارزمی۔ الصواعق۔ تالیف ابن حجر)

"اے علی! ’خیرالبریّہ‘سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں۔قیامت کے دن جو کچھ اللہ تعالیٰ ان کو مرحمت فرمائے گا اس سے راضی اور خوشی کی حالت میں ہوں گے اور وہ سب پسندیدہ خدا ہوں گی"۔

ولایت

کوئی شک نہیں کہ جس کو اہل ِ بیت اطہار کی ولایت حاصل ہو گی وہ نجات پانے کا اہل ہو گا۔ بلکہ انبیاءِ کرام اور آئمہ اطہار # کے ساتھ ہوگا۔ چنانچہ امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:

حَقٌ عَلٰی اللّٰهِ اَنْ یَبْعَثَ وَلِیَّنَا مُشْرِقًا وَجْهُهُ نَیِّراً بُرْهَانُهُ ظَاهِرَةً عِنْدَاللّٰهِ حُجَّتُهُ، حَقٌّ عَلٰی اللّٰهِ تَعَالٰی اَنْ یَّجْعَلَ وَلِیَّنَا مَعَ النبییّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسْنَ اُوْلٰئِکَ رَفِیْقًا (بحارالانوار)

"ہمارے دوستدار کو قیامت کے دن ایسی حالت میں محشور کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے کہ اس کا چہرہ خوبصورتی سے چمک رہا ہو۔ اس کی دلیل روشن اور اس کی حجّت اللہ کے نزدیک ظاہر ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے کہ ہمارے دوست ( صاحب ِ ولایت) کو قیامت کے دن انبیاء و شہداء و صدیقین کے ساتھ محشور فرمائیں اور یہ ہستیاں بہترین رفیق ہیں"۔

مگر جاننا چاہیئے کہ ولایت کے معنی کیا ہیں

کتاب مجمع البحرین میں ولایت کے لغوی معنی کے بارے میں لکھا ہے:

اَلْوَلاَیَةُ بِالْفَتْحِ؛ مَجَبَّةُ اَهْلَ الْبَیْت عَلَیْهِمُ السَّلاَ مُ وَاِتّبَاعُهُمْ فِیْ الدِّیْن وَامْتِثَالُ اَوْامِرِ هِمْ وَانَوَاهِیهِمْ وَالتَّاَسِّیْ بِهِمْ فِی الْاَعْمَالِ وَالْاَخْلاَقِ ۔

"ولایت زبر کے ساتھ اہل ِ بیت (علیہم السلام) کی محبت اور دینی امور میں پیروی کرنا اور جن چیزوں کا امر ہے اُن کو کما حقّہ‘ بجا لانا اور جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے دور رہنا اور اعمال و اخلاق اُ ن کے نقش ِ قدم پر چلنے کا نام ولایت ہے۔ ولایت کی اس تعریف سے واضح ہو کہ ولایت سے مراد فقط محبّت و اطاعت ہے۔ میرے اس بیان کی دلیل حدیث زرارہ ہے جو کہ حضرت امام محمّد باقر (علیہ السلام) سے منقول ہے جس میں امام (علیہ السلام) نے ولایت کو اطاعت سے تعبیر فرمایا ہے"۔

حضرت علی(علیہ السلام) کی ولایت خدا کا مضبوط قلعہ ہے

اس مضمون کا مفہوم ’سلسلةُالذّہب‘ جیسی حدیث شریف سے استفادہ کیا گیا ہے جو صدوق نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ اس کی عبارت یوں ہے:

قَالَ اللّٰهُ تَعالٰی وَلاَیَةُ عَلِیّ بِن اَبیْطَالِبٍ حِصْنِیٍ فَمَنْ دَخَلَ فِی حِصْنِیْ اَمِنَ مِنْ عَذَابِیْ ۔

"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : علی بن ابی طالب کی ولایت میرا قلعہ ہے ۔ پس جو کوئی میرے قلعے میں داخل ہو وہ میرے عذاب سے محفوظ رہا"۔

اس میں شک نہیں کہ اہلِ بیتِ عصمت و طہارت (علیہم السلام) کی ولایت کے قلعے میں داخل ہونے سے مقصود شیطان اور نفس و خواہشات کی پیروی سے دور بھاگنا اور ان کے دشمنوں سے دور رہنا ہے۔ اور ان بزرگواروں کی پناہ میں داخل ہونا ہے۔ مختصر یہ کہ تمام افعال و اقوال میں ان عظیم ہستیوں کا پیروکار ہونا چاہیئے۔ جاننا چاہیئے کہ لفظ تَحصُّن (مستحکم قلعہ میں پناہ لینا) صرف لفظ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ فعل و عمل کے ذریعہ ان بزرگواروں کی پناہ میں آنا چاہیئے ۔ چونکہ ہر شخص جس کی پیروی کرتا ہے یقینا وہ اس کے (حصن) قلعے میں پناہ لیتا ہے۔ پس جو کوئی معصیّت میں مبتلا ہوتا ہے وہ عصیان کاری کی حالت میں حصن علی (علیہ السلام) سے خارج ہوتا ہے اور نفس ِ امّارہ اور شیطان کے دام میں پھنس جاتا ہے۔

درندہ شیر سے قلعے میں پناہ لینا

بزرگانِ دین کا قول ہے کہ جو کوئی زبان سے اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ ا لشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ (یعنی پناہ لیتا ہوں میں اللہ کی شیطان مردود سے) کہتا ہے لیکن عملی طور پر شیطان کی پیروی کرتا ہے، اس شخص کی مانند ہے کہ جس کے شکار کو شیر درندہ کمین گاہ میں بیٹھا ہو ہو اور اس کے سامنے ایک قلعہ موجود ہو اور وہ شیر سے کہتا ہو : اگر تو نے حملہ کیا تو میں اس قلعے میں پناہ لے لوں گا۔ باوجود خطرے کے وہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا اور قلعہ میں داخل نہیں ہوتا۔ آخر کار شیر اُسے موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ ورنہ وہ کوشش کر کے جلد تر قلعے کے اندر داخل ہو جائے تب ہی نجات پائے گا۔

قلعے میں داخل ہونا چا ہیئے

پس جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ تمام خطروں سے محفوظ رہے اُسے چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کے مضبوط قلعے میں ،جو کہ حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کی پیروی ہے ، داخل ہو جائے۔ اگر خدا نخواستہ وہ عملاً شیطان کے دام میں پھنسا ہو ہے اور زبان سے دعویٰ کرے کہ میں محب ِ علی ہوں، اس سے کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہو سکتا۔

کیا کردار کے بغیر زبانی دعویٰ کافی ہے؟

یَاجَابِرُ لاَتَذْهَبَنَّ بِکَ الْمَذَاهِبُ حَسِبَ الرَّجُلُ اَنْ یَقُوْلَ احِبُّ عَلِیْاً وَّاَتَوَلاَّهُ ثُمَّ لاَیَکُوْنُ مَعَ ذٰلِکَ فِعَالاً فَلَوْ قَالَ اِنِّیْ اُحِبُّ رَسُولَ اللّٰه (ص) فَرَسُوْلُ اللّٰهِ خَیْرٌ مِنْ عَلِیّ ثُمَّ لاَیَتَّبِعُ سِیْرَتَهُ ولاَیَعْمَل بِسُنَّتهِ نَفَعَه حُبُّهُ اِیَّاهُ

فَاَتَقُوا اللّٰهَ وَاعْمَلُوْا لِمَا عِنْدَاللّٰهِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰهِ وَبَیْنَ اَحَدِ قَرَاَبةٌ اَحَبُّ الْعِبَادِ اِلٰی اللّٰهِ وَاَکْرَمُهُمْ عَلَیْهِ اَتقَیٰهُمْ وَاَعْمَلُهُمْ بِطَاعَتِهِ یَاجَابِرُ وَاللّٰهِ لاَ یَتَقَرَّبُ اِلٰی اللّٰهِ اِلاَّ بِطَاعَتِه وَمَا مَعَنَابَرَاءَ ةٌ مِنَ النارِ وَلاَ عَلٰی اللّٰه عَلٰی اَحَدٍ مِنْ حُجَّةٍ مَنْ کَانَ مُطِیْعاً لِلّٰهِ فَهُوَ لَنَا وَلِیُّ وَمَن کانَ للّٰهِ عَاصِیاً فَهُوَ لَنَاعَدُوٌ وَمَا تَنَالُ وَلاَ یَتُنَا اِلاَّ بِالْعَمَلِ وَالْوَرَع (کافی)

"حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے شیعوں کے صفات بیا ن کرنے کے بعد فرمایا: اے جابر! آیا کسی شخص کا اتنا کہنا کافی ہے کہ میں علی (علیہ السلام) کو دوست رکھتا ہوں اور مجھے ان کی ولایت حاصل ہے۔ اس دعوے کے باوجود عملی طور پر اہلبیت (علیہم السلام) کی پیروی نہیں کرتا۔ اگر کسی نے کہا بے شک میں رسول ِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو دوست رکھتا ہوں کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) علی (علیہ السلام) سے بہتر ہیں اور میں شیعہ محمد ہوں۔ (اس دعوے کا جواب یہ ہے کہ خود پیغمبرِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنے اہلبیت کی پیروی کے بارے میں تاکید فرمائی ہے)، ’تعجب ہے‘ کہ باوجود دعوائے محبت ِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اُن کی سیرتِ طیّبہ کی متابعت نہیں کرتے اور نہ ان کی سنت پر عمل پیرا ہیں ۔ فقط دعوائے محبت سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ پس تم اللہ سے ڈرو تا کہ اس کی رحمت تمہارے شامل ِ حال ہو جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور کسی کے درمیان رشتہ داری نہیں ۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ترین اور عزیز ترین بندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرتا ہو اور سب سے زیادہ عمل کرتا ہو۔"

عمل ہی سے مقصد حاصل ہوتا ہے

گذشتہ فرمائش سے پیوستہ فرمایا:

یَاجَابِرُ وَاللّٰهِ لاَیَتَقَرَّبُ اِلٰی اللّٰهِ اِلاَّ بِطَاعَتِهِ وَمَا مَعَنَا بَرَاءَ ةٌ مِّنَ النَّارِ وَلاَعَلَی اللّٰهِ عَلٰی اَحَدٍ مِنْ حُجَّتِهِ مَنْ کَانَ مُطِیْعاً لِلّٰهِ فَهُوَ لَنَا وَلِیٌّ وَمِنَ کَانَ للّٰهِ عَاصِیاً فَهُوَ لَنَاعَدُوٌّ وَمَا تَنَالُ وَلاَ یَتُنَا اِلاَّ بِالْعَمَلِ وَالْوَرَعِ (کتاب کافی)

"اے جابر! خدا کی قسم قرب ِ الٰہی بغیر اس کی اطاعت کے کسی طرح نصیب نہیں ہوتا۔ جب ہمارے شیعوں کے پاس اطاعت و عمل نہ ہو تو ان کو بے قصور ٹھہرا کر جہنم سے آزادی کا ہمارے پاس کوئی حکم نامہ نہیں۔ فقط یہ کہنا کہ ’ شیعہ ہوں‘، بارگاہ ِ الٰہی میں قابل ِ سماعت دلیل نہیں۔ (اگر خدا چاہے تو اُسے عذاب میں مبتلا کر سکتا ہے کیونکہ خداوند ِ عالم کی طرف سے یہ وعدہ نہیں کہ ’مدعی تشیع‘ کو بخش دیں گے۔ معیار اطاعت و عمل ہے)۔ پس جو کوئی اللہ کی اطاعت کرنے والا ہو وہی ہمارا ولی (دوستدار) ہے اور جو معصیّت کار ہو وہ ہمارا دشمن ہے۔ اور ہماری ولایت سوائے تقویٰ و عمل کے کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتی۔"

تقویٰ کی اقسام کے متعلّق علّامہ مجلسی کی رائے

علّامہ مجلسی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تقویٰ کی چار قسمیں ہیں:

( ۱) ’ ورع تابعین‘، جس سے مراد محرمات سے پرہیز کرنا ہے۔

( ۲) ’ ورع صالحین‘، یعنی مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرنا تاکہ حرام سے آلودہ نہ ہو۔

( ۳) ’ ورع متقین‘، جس سے مقصد مباح چیزوں کو ترک کرنا ہے تاکہ حرام چیزوں میں مبتلا نہ ہوں۔ مثلاً لوگوں کے حالات نہ پوچھنا اس خوف سے کہ مبادا غیبت کے مرتکب ہو جائیں۔

( ۴) ’ ورع سالکین‘، یعنی غیر ِ خدا سے منہ پھیر لو ا س ڈر سے کہ قیمتی عمر بیہودہ کاموں میں صرف ہو جائے۔ اگرچہ حرام کے ارتکاب کا اسے اندیشہ بھی نہ ہو۔

محبت

حضرات اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السلام) اور برادران ِ اہل ِ تسنّن کی بہت سی روایتوں سے بشارت ملی ہے کہ جس سے ایمان دار لوگوں کی امید کو تقویت ملتی ہے کہ اس محبت کی برکت سے خواہش پرستی اور شیطان کی پیروی سے مکمل دوری حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر کسی نے کسی بزرگ ہستی سے دوستی کی تو اس دوستی کا لازمہ یہ ہے کہ محبوب کے دوستوں سے دوستی برقرار رکھیں اور دشمنوں سے دشمنی۔ شیطان کی دوستی اور خواہشات ِ نفسانی کی پیروی اللہ تعالیٰ بندگی اور محبت اہل ابرار (علیہم السلام) کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

انشاء اللہ دوستداران علی (علیہ السلام) ان کی محبت کی برکت سے شیطان کی راہ سے دور رہیں گے۔ لہٰذا معلوم ہو کہ محبت بھی ولایت کی طرح معصیت سے برأت کا سبب نہیں بننا چاہیئے بلکہ اس کے برعکس اگر حقیقی اور سچا محب ہے تو پھر خواہشات ِ نفسانی کے گرد نہیں گھومتا۔ اس مطلب کو واضح کرنے کے لیے چند مختصر احادیث کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

محبّت انسان کو ثابت قدم کرتی ہے

قَالَ الْبَاقِرُ (ع) مَاثَبَتَ اللّٰهُ حُبَّ عَلِّیٍ فِی قَلْبِ اَحَدٍ فَزَلَّتْ لَهُ القَدَمُ اِلاَّ ثَبتَّهَا اللّٰهُ وَثَبَّتَ لَه قَدَمٌ اُخریٰ (بحارالانوار)

" حضر ت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: خداوند ِ عالم نے حضرت علی (علیہ السلام) کی دوستی کو جس شخص کے دل میں جگہ دی ہے اس کے قدم میں معصیت سے لغزش نہیں آتی بلکہ اللہ اُسے بچا کر اس میں ثابت قدمی پیدا کرتا ہے اور دوسرے اُٹھنے والے قدم کو بھی استحکام بخشا ہے۔"

جناب جابر انصاری کی وصیّت

اِنْ تَزَلَّ لَهُمْ قَدَمٌ بِکَثْرَةِ ذُنُوْبِهِمْ ثَبَتَتْ لَهُمْ اُخْرَیٰ بِمَحَبَّهِمْ

(ج ا سفینة البحار)

حضرت جابر انصارے نے اپنی وصیت میں عطیہ کوفی سے کہا " اگر اہلِ بیت صلوات اللہ علیہم اجمعین کے دوستوں کا پہلا قدم گناہوں کی کثرت کے سبب لڑکھڑا گیا تو اِن حضرات کی محبت کی وجہ سے دوسرا قدم جمانے کی سکت اللہ تعالیٰ پیدا کردے گا۔"

حضرت علی کے دوستداروں کے لیے فرشتوں کی استغفار

بہت سی روایتوں سے یہ ثابت ہے کہ دوستداران اہل بیت (علیہم السلام) کے لیے ملائکہ استغفار کرتے ہیں ۔ چنانچہ بحار الانوار میں اہل ِ سنّت و الجماعت سے یہ روایت نقل کی گئی ہے :

عَنْ اَنَسٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ (ص)قَال خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ نُوْرِ وَجْهِ عَلیِّ بْنِ اَبِیْطَالِب سَبْعِیْنَ اَلفَ مَلَکٍ یَسْتَغْفِرُوْنَ لَه وَلِمُحِبِّیْهِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ

"خداوندعالم نے حضرت علی (علیہ السلام) کے نور سے ستّر ہزار طرشتے پیدا کئے ہیں۔ یہ ملائک اُن پر اور ان کے دوستوں کے لیے قیامت تک استغفار کرتے رہیں گے۔ "

حضرت علی(علیہ السلام) کی محبت گناہوں کو جلا ڈالتی ہے

اس بارے میں صراحتاً روایت ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کی دوستی گناہوں کو فنا کردیتی ہے ۔ چنانچہ بحار الانوار میں ابن ِ عباس نے یہ روایت حضرت رسول ِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کی ہے:

حُبُّ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالَبٍ یَأْکُلُ الذُّنُوْبَ کَمَا تَاْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ۔

"یعنی حضرت علی (علیہ السلام) کی محبت گناہوں کو اس طرح جلا دیتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو جلاتی ہے۔

رذل سواد معاصی بروں برد مہرش

چنانکہ ماہ برد ظلمت ِشب ِ دیجور

زحبّ او ست بروز جزانہ از طاعت

امید ِ مغفرت از حیّ ِ لا یزال ِ غفور

(رباعی)

یعنی حضرت علی (علیہ السلام) کی محبت دل کی سیاہی کو اس طرح مٹا دیتی ہے جیسے چاند تاریک رات کے اندھیرے کو۔ قیامت کے دن مغفرت ان کی محبت کے صلے میں ملے گی نہ کہ اطاعت و عبادت کے عوض۔ مگر اس محبت کے ساتھ ہمیشہ رہنے والے غفور ِ رحیم کی امید بھی دل میں ہونی چاہیئے۔ (یعنی محبت سے سر شار ہو کر اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے)۔

پریشا نیاں اور بلا ئیں گنا ہوں کو زائل کر د یتی ہیں

اس بارے میں روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ِ بیت (علیہم السلام) کے گناہ گار دوستوں کو دنیا میں گو نا گوں بلاؤں میں مبتلا کرتا ہے تا کہ مرنے سے پہلے گناہوں سے پاک ہو جائیں ۔ اگر گناہ زیادہ ہیں تو جان کنی کی سختی سے؛ اگر اس سے بھی زیادہ ہیں تو برزخ سے لے کر محشر تک کے عذاب سے پاک کردیتا ہے۔ بالفرض وہ اس قدر گناہ گار ہے کہ میدانِ حشر تک کثرت سے گناہ باقی ہوں اور معاف نہیں ہوئے ہوں تو جہنم کی آگ سے معذّب ہو گا اور گناہوں سے پاک و صاف ہو کے بعد نکالا جا ئے گا۔ اور وہ شخص جس کے دل میں محبت ِ اہل ِ بیت (علیہم السلام) اور ایمان کا ذرہ موجود ہے وہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ چونکہ ہمیشہ کا عذاب کفّار اور دشمنان ِ اہل ِ بیت ِ رسول صلوات اللہ علیہم اجمعین کے لیے مخصوص ہے۔

محبّت کے انداز سے فیض حاصل کر سکتا ہے

ضمناً اس نکتے کی ہاد دہانی بھی کی جاتی ہے کہ عذاب ِ الٰہی میں کم یا زیادہ مدّت گرفتار رہنے کا دارومدار محبت ِ اہل ِ بیت (علیہم السلام) کی شدّت اور ضعف کی بناء پر ہے۔ محبت زیادہ ہو تو شفاعت بھی جلد ہو گی بلکہ سکرات موت کے وقت اس کی فریاد کو پہنچتے ہیں۔ چنانچہ جناب سیّد حمیری نے سوانح عمری میں لکھا ہے کہ سیّد اسماعیل حمیری شاعر ِ اہل ِ بیت (علیہم السلام) تھے۔ ۱۷۳ ھء میں وفات پائی۔حضرت علی (علیہ السلام) کی ہر ایک فضیلت کے بارے میں ایک قصیدہ انشاء فرمایا ہے ان کو کسی مجلس میں اس وقت تک سکون و قرار نہیں ملتا تھا جب تک کہ وہ اپنے قصائد میں سے کوئی قصیدہ پڑھ کر نہ سنا دیں۔ اِن بزرگوار کی رحلت کے وقت بڑی کرامت ظاہر ہوئی ۔ چنانچہ شیعہ و سنی کتب مثلاً الغدیر، جلد سوم ، کتاب الأغانی ، مناقب ِ سروری، کشف الغمہ، امالی شیخ صدوق، بشارة المصطفیٰ، اور رجال کشی میں یہ حکایت نقل کی گئی ہے۔ اس کا خلاصہ یوں ہے:

سیّد صاحب کی وفات کے وقت شیعہ مذہب کے مخالفین کی ایک جماعت موجود ہو گئی ۔ سیّد صاحب خوبصورت آدمی تھے اور سرخ و سفید چہرہ رکھتے تھے۔ بار بار اور کثرت سے افسوس کا اظہار کر رہے تھے ۔ اسی اثناء میں ان کے چہرے پر روشنائی کی طرح ایک سیاہ نقطہ ظاہر ہو اور دیکھتے ہی دیکھتے تیزی سے پھیلنے لگا۔ یہاں تک کہ سارا چہرہ تارکول کی طرح سیاہ ہو گیا۔ مخالفین خوش ہو نے لگے اور ملامت چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ سیّد پر خاموشی اور بے ہوشی طاری تھی۔ ایک مرتبہ ہوش آیا تو آنکھیں کھولیں اور نجف اشرف کی سمت رخ کر کے فریا د کی : یا امیر المومنین ، اے بے چاروں کے مرکز ِ امید، کیا آپ اپنے دوستوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں ؟ کہتے ہیں کہ تین بار اس جملے کی تکرار کی ۔ اتنے میں خدا کی قسم ایک نور اُن کی پیشانی پر ظاہر ہو جو آہستہ آہستہ پھیلتا گیا۔ یہاں تک کہ چہرہ مبارک چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکنے لگا۔ سیّد نے ہنستے ہوئے خوشی میں فی البریہہ یہ شعر کہے:

کَذِبَ الزَا عِمُوْنَ اَنَّ عَلَیّاً

لَنْ یُّنْجِی مُحِبُّهُ مِنْ هَتَاتِ

جھوٹ کہا ہے ایسا گمان کرنے والوں نے کہ علی (علیہ السلام) اپنے دوست کو سختی سے نجات نہیں دے سکتے۔

قَدْوَرَبِّیْ دَخَلْتُ جَنَّةَ عَدْنٍ

وَعَفَالِیَ الْاِلٰهُ عَنْ سَیِّئاتی

میرے پروردگار کی قسم میں بہشت میں داخل ہو ا ہوں اور یقینا اللہ تعالیٰ نے میرے گناہ بخش دیئے ۔

فَاَبْشِرُوا الْیَومَ اَوْلیاءَ عَلیٍ

وَتَولُّوْا عَلِیاً حَتّیٰ الْمَمَاتِ

پس تمہیں بشارت ہو اے دوستدارانِ علی (علیہ السلام) جو مرتے دم تک علی (علیہ السلام) کا دوستدار رہے۔

ثُمَّ مِنْ بَعْدِهِ تَوَلُّوْا بَنِیْهِ

وَاحِداً بَعْدَ وَاحِدٍ بِالصِّفاتِ

اس کے آپ (علیہ السلام) کے گیارہ فرزند۔ یکے بعد دیگرے جو امامت کے جملہ اوصاف رکھتے ہیں ، ان کی محبت کریں۔

ان چار اشعار کے بعد اللہ کی وحدانیت ، پیغمبر ِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رسالت اور امیر المومنین (علیہ السلام) کی ولایت کا زبان سے اقرار کیا۔ آنکھیں بند کیں اور دنیا سے سدھار گئے۔

خواہشات محبت کی راہ میں رکاوٹ ہیں

کبھی ایس ابھی ہوتا ہے کہ دنیوی مال و دولت سے زیادہ محبت اور خواہشاتِ نفسانی کے ہیجان سے ہا آلِ محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کی محبت دل میں نہ ہونے ہا اگر ہے تو کمی کی بناء پر لوگ مرتے وقت اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السلام) کو بھول جاتے ہیں اور جس چیز کی محبت میں وہ سرشار ہوتے ہیں موت کے وقت صرف وہی نظر آتا ہے۔ اس بارے میں بہت سی روایتیں ہیں۔ ان کا یہاں ذکر کرنا موضوع سے علیحدہ اور طوالت کا باعث ہو گا اس لیے مختصر گذارش پر اکتفا کی جاتی ہے۔

سودا خوش است کہ یکجا کند کسی

اس مصرعے سے جو مطلب اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اہل ِ ایمان اپنے دل میں زیادہ سے زیادہ محبت ِ اہل ِ بیت (علیہم السلام) پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے علاوہ دوسری چیزوں کی محبت کو دل سے نکال دیں اور ہر گناہ سے خصوصاً گناہان ِ کبیرہ سے اجتناب کریں تاکہ انشاء اللہ بُرے انجام سے محفوظ رہیں۔

نعمت کو معصیت میں استعمال نہ کریں

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اپنے بعض دوستوں کے نام یہ خط لکھا:

اِنْ اَرَدْتَّ اَنْ یَخْتِم عَمَلُکَ بِخَیْرٍ حَتّیٰ تَقْبِضَ وَاَنْتَ فِیْ اَفْضَل الْاَعْمَالِ فَعَظِّمِ اللّٰهِ حَقَه اَنْ تَبْذِلَ نعْمَائِهِ فی مَعَاصِیْهِ وَاَنْ تَنْتَر بِحِلّمِه مِنْکَ وَاَکْرِمْ کُلَّ مَنْ وَّجَدْ یَذکُرُنَا اَوْیَنْتَحِلُ مَوَدَّتَنَا ثُمَّ لَیْسَ عَلَیْکَ صَادِقاً کانَ اَوْکَاذِباً اِنَّمَا لَکَ نِیَّتُکَ وَعَلَیْهِ کِذْبُهُ (بِحَار الْاَنْوار)

" اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری عمر و عاقبت بہترین اعمال و حالات کے ساتھ انجام پا ئے اور اسی حالت میں روح قبض ہو تو اللہ تعالیٰ کو کما حقّہ‘ بزرگ جانو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی نعمتوں کو اس کی نافرمانیوں میں صرف کرو اور خداوند ِ متعال کی عنایات کا غلط فائدہ اٹھا کر مغرور ہو جاؤ (یعنی نعمت ِ خداوندی کو معصیت کی راہ میں صرف نہ کرو) اور ہر اس شخص کی عزّت کرو جو ہم اہل ِ بیت کو یاد کرتا رہتا ہے یا ہماری دوستی کا اظہار کرتا ہے ا س سے واسطہ نہیں کہ وہ سچ بولتا ہے یا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے، کیونکہ تم کو اپنی نیت کا اچھا صلہ اور اس کو اپنے جھوٹ کا گناہ (سزا) مل جائے گا۔"

گناہ کی تاریکی اور توبہ کا نور

عَنِ الصَّادِق (ع) فی تَفْسِیْرِ قَوْله تَعَالٰی ((( اللّٰهُ وَلِیُّ الَّذینَ آمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلٰی النُّوْرِ ) )) قَالَ علیه السَّلام یَعْنِیْ مِنْ ظُلُمَاتِ الذُّنُوْبِ اِلٰی نُوْرا التَّوْبَةِ وَالْمَغْفِرَةِ لِوَلاَ یَتِهِمْ کُلُّ اِمَامٍ عَادِلٍ مِنَ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ ((( وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلٰیْهُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمَات ) )) اِنَّمَا عُنِیَ بِهٰذا عَلٰی اَنَّهُمْ کَانُوْا عَلٰی نُوْرِ الْاِسْلَامِ فَلَمَّا اَنْ تَوَلوْا کُلَّ اِمَامٍ جَائِرٍ لیْسَ مِن اللّٰهِ خَرَجُوا بِوَلایَتِهِمْ مِنْ نُوْرِالْاِسْلَامِ اِلٰی ظُلُمَاتِ الْکُفْرِ فَاَوْجَبَ اللّٰهُ لَهُمُ النَّارُ مَعَ الْکُفَّارِ

(تفسیر صافی ص ۶۸ نقل از اصول کافی)

"اس قولِ خدا کی تفسیر کے بارے میں کہ ’ خدا ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لا چکے انہیں تاریکیوں سے نکال کررو شنی میں لاتا ہے‘، حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے توبہ اور مغفرت کے نور کی طرف لے جاتا ہے ۔ کیونکہ ان لوگوں کو ہر ایک امام عادل اور اللہ کی طرف سے منصوب پیشواؤں یعنی بارہ امام (علیہم السلام) کی ولایت حاصل ہے۔

اوراس آیت کے آخری حصے "اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا انکے سرپرست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر تاریکیوں میں ڈال دیتے ہیں"۔(سورہ بقرہ آیت ۲۵۷) کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کا ارادہ اس آیہ شریفہ سے اس کے سوا اور کچھ نہیں "جو لوگ نوراسلام پر تھے اس کے بعد ہر ایک ظالم اور ناحق پیشواؤں کی پیروی کرتے رہے جو کہ منصوب من اللہ نہیں تھے ۔اس لئے نور اسلام سے کفر کی تاریکیوں کی طرف نکل گئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے کافروں کے ساتھ جہنم کی آگ ان کے لیے واجب قرار دیدی

کبیرہ اور صغیرہ کے معنی

گذشتہ مطالب سے یہ واضح ہوا کہ گناہ کی دو قسمیں ہوتی ہیں؛کبیرہ اور صغیرہ۔کبیرہ گناہ کے خواص اور اس کے ترک یا مرتکب ہونے سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ معلوم ہوئے ۔اب ہم گناہ کبیرہ سے مراد اور ان کی تعداد بیان کریں گے ۔

اس موضوع پر علمائے کرام کے اقوال ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ان تمام اختلافات اور اعتراضات کو بیان کرنے سے اس کتاب کی شکل ہی بدل جائے گی ۔ چوں کہ ہماری غرض اختصار اور عام لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے ،لہٰذا تفصیل کے خواہش مند حضرات کتاب شرح کافی اور اربعین شیخ بہائی کی طرف رجوع کریں۔

اس مسئلہ میں علمائے کرام اور مراجع تقلید کی تحقیق کے مطابق مستند وجامع قول وہی ہے جو کہ اہل بیت آیة فقیہ اہل ِ بیت آیة اللہ العظمیٰ السیّد محمد کاظم طباطبائی یزدی طاب ثراہ نے باب شرائط امام جماعت عروة الوثقٰی میں بیان فرمائے ہیں۔ ہم اسی پ راکتفا کرتے ہوئے سید موصوف کے فرمودات کا خلاصہ یہاں ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے گناہ کبیرہ کے تعیّن کے چار طریقے اس طرح بتائے ہیں:

گناہ کبیرہ کیا ہے؟

( ۱) کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جو قرآن و حدیث میں صریحاً کبیرہ قرار دیا گیا ہو۔ اس قسم کے گناہوں کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے جن کو اہل بیت عصمت (علیہم السلام) کی احادیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اب ہم ان روایات کی تشریح و تجزیہ کرتے ہیں۔

( ۲) کبیرہ ہر وہ گناہ ہے کہ قرآن مجید اور سنّت معتبرہ میں جس کے مرتکب شخص کے لیے واضح طور پر جہنم کی وعید دی گئی ہو یا یہ کہ واضح طور پر قرآن و حدیث میں آتش جہنم کا وعدہ ذکر نہیں مگر ضمناً مذکور ہے۔ مثلاً قول ِ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) :

"جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی یقیناً وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر کے ذمے سے بری ہوتا ہے۔"

اس روایت میں اشارتاً آتش جہنم کا وعدہ ہے مگر واضح الفاظ میں ذکر نہیں۔ لیکن دوسری روایتوں سے ان مبہم نکات کی وضاحت کے لیے روشن دلیلیں ملتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق + نے فرمایا:

الکَبَائِرُ کُلُّ مَا اَوْعَدَ اللّٰهُ عَلَیْهِ النَّارْ ۔

"گناہ کبیرہ ہر وہ گناہ ہے کہ جس پر خدائے تعالیٰ نے جہنم کا وعدہ کیا ہے۔"

اور وہ روایت صحیحہ جو امام زادہ عبدالعظیم حسنی / سے منقول ہے ، آگے ذکر ہو گی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عذاب ِ الٰہی کا وعدہ خواہ قرآن میں ہو یا سنّت و اخبار میں ، کوئی فرق نہیں۔

( ۳) ہر وہ گناہ جو قرآن یا سنّت معتبرہ کی رو سے مسلمہ طور پر گناہ کبیرہ ہو۔ اگر اس کے مقابل کوئی دوسرا گناہ اس سے زیادہ بڑا شمار کریں تو وہ بھی گناہ ہے۔ مثلاً قتل نفس گناہان ِ کبیرہ میں سے ہے اور قرآن و سنّت دونوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ ابن محبوب کی صحیح حدیث میں ’ نفس محترم ‘ کا قتل واضح عبارت میں گناہ کبیرہ محسوب کیا گیا ہے۔ اور قرآن مجید میں قاتل کے لیے عذاب کا وعدہ دیا ہو ا ہے۔ پس اگر قرآن پاک میں یا ایسی سنّت جسے معتبر سمجھا جائے اس کے کے معنی سے یہ واضح ہو جائے کہ فلاں گناہ قتل نفس سے بڑا گناہ ہے اس صورت میں وہ گناہ بھی گناہ کبیرہ ہی ہو گا۔ مثلاً فتنہ انگیزی کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ِ ربّانی ہے کہ وہ قتل نفس سے بھی بڑا گناہ ہے:

وَالْفِتْنَةُ اَکْبَرُ مِن الْقَتْلِ

اس سے ہمیں یقین پیدا ہوتا ہے کہ فتنہ بھی گناہان کبیرہ میں محسوب ہوتا ہے۔

( ۴) کبیرہ وہ گناہ ہے جو د ین دار اور شریعت پسند افراد کے نزدیک بڑا گناہ ہو۔ اس طرح کہ یہ یقین حاصل ہو جائے کہ مثلاً فلاں گناہ اس وقت سے لے کر زمانہ معصوم (علیہ السلام) تک سارے متدینیین مسلسل گناہ کبیرہ شمار کرتے آئے ہیں ۔ جیسا کہ عقلاً اور مسئلہ جانتے ہوئے خانہ خدا کی بے حرمتی کے قصد سے مسجد بجس کرنا یا نعوذباللہ قرآن مجید دور پھینک دینا وغیرہ وغیرہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتے ہیں۔

گناہ کبیرہ کے تعیّن کرنے کے چار طریقے جیسا کہ سیّد نے فرمایا، بیان کیے گئے۔ جن میں پہلی قسم وہ گناہان کبیرہ ہیں جن کے بارے میں نص موجود ہے۔ باقی تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے کبیرہ ہونا ثابت ہو اس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے۔

مذکورہ چار طریقوں سے متعلّق عروة الوثقیٰ کی اصل عبارت

( ۱)الْمَعْصِیَةُ الْکَبِیْرة، هِیَ کُلُّ مَعْصِیَةٍ وُرِدَا النَّصُّ بِکَوْنِهَا کَبِیْرَةٌ کجُمْلَةٍ مِن المعًاصِیْ الْمَذْکُوْرَةِ فِیْ مَحِلْهَا ۔

"کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جو قرآن و سنّت میں صریحاً کبیرہ ثابت ہو چکا ہو اس قسم کے گناہان ِ کبیرہ (کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے) ہر ایک کا ذکر اپنے موضوع کے تحت ہو گا۔"

( ۲)اَوْوُرِدَالتوْ عِیْدُ بِالنَّارِ عَلَیْهَا فی الْکِتَابِ اَوْ السُّنَّةِ صَرِیْحاً اَوْضِمْناً ۔

"یا کبیرہ ہو وہ گناہ ہے کہ قرآن اور سنّت معتبرہ میں جس کے مرتکب شخص کے لیے واضح طور پر ضمناً وعید دی گئی ہو۔"

( ۳)اَوْ وُرِدَ فِی الْکِتَابِ اَوِ السُنّةِ کوْنُهُ اَعْظَمَ مِنْ اَحَدِ الْکَبَائِر الْمَنصُوْصَةِ اَوِالْمَوْعُوْدُ عَلَیْهَا بِالنَّارِ

"یا ہر وہ گناہ جو قرآن مجید یا سنّت ِ معتبرہ میں کسی ایک گناہ کو صراحتاً دوسرے گناہ سے بڑا شمار کیا گیا ہے یا جس پرآتش جہنم کا وعدہ کیا گیا ہو۔"

( ۴)اَوْکَانَ عَظِیْمةً فِیْ اَنْفُسِ اَهْلِ الشَّرْعِ ۔

"یا کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جسے اہل شرع بڑا گناہ محسوب کریں۔"

اب ہم تبرکاً گناہانِ کبیرہ کے مدارک اور ان سے متّعلق روایات نقل کرتے ہیں اور ہر ایک کی تشریح اپنی جگہ تفصیل کے ساتھ ہوگی۔

پہلی روایت

قَالَ الصَّدُوْقُ فِیْ عُیُوْنِ الْاَخْبَارِ عَنْ عَبْدِ الْعَظِیْمِ بْنِ عَبْدِاللّٰهِ الحَسَنِیْ قَالَ حَدَّ ثَنِیْ اَبُوْ جَعْفَر الثَّانِیْ قَالَ سَمِعْتُ اَبِیْ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ اَبِیْ مُوْسیٰ بْنِ جَعْفَرٍ (ع) یَقُوْلُ دَخَلَ عَمْرُو بْن عُبَیْدٍ علی اَبی عَبْدُاللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلاَمُ فَلَمَا سَلَّمَ وَجَلَسَ تَلاٰ هٰذِه الْآیَةَ (( ( الَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبَائِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ ) ثُمَّ اَمْسَکَ ؟ قَالَ اُحِبُّ اَنْ اَعْرِفَ الْکَبَائِرِ مِنْ کِتَابِ اللّٰهِ تَعَالٰی وَمَنْ یُّشْرِکْ باللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الجَنَّةَ ۔(سورہ ۵ ۔آیت ۷۲)

"صدوق نے عیون الأخبار میں(امام زادہ) حضرت عبدالعظیم بن عبداللہ الحسنی کے حوالے سے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ آپ نے فرمایا: میں نے ابو جعفر ثانی (امام محمد تقی ) سے سنا اور انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد بزرگوار حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے سنا اور انہوں نے کہا کہ میں حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ ایک دن عمروبن عبید حضرت ابی عبداللہ جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب وہ سلام کر کے بیٹھ گئے تو عمرو بن عبید نے اس آیت کی تلاوت فرما ئی :

"وہ لوگ جو گناہانِ کبیرہ اور بے حیائیوں سے پرہیز کرتے ہیں ۔" اس کے بعد تھوڑی دیر خاموش رہے تو امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: آپ خاموش کیوں ہو گئے؟ عرض کیا میں کتاب خدا سے گناہان کبیرہ جاننا اور اخذ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا: اے عمرو تمام گناہانِ کبیرہ میں سے بزرگ ترین گناہ اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینا ہے۔ جیسا کہ خود فرمایا ہے، " یاد رکھو جس نے خدا کا شریک بنایا اس پر خدا نے بہشت کو حرام کردیا۔"

( ۲)وَبَعْدُهُ الْیَاْسُ مِنْ رَّوْح اللّٰهِ تَعَالٰی لِاَنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی یَقُوْلُ: یَایْئَسُ مِنْ رَّوحِ اللّٰهِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُوْن ۔ (سورہ ۱۲ ۔آیت ۸۷)

"اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہونا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے سوائے گروہ کافروں کے اور کوئی نا امید نہیں ہو کرتا۔"

( ۳)ثُمَّ الْاَمْنُ مِنْ مَکْرِ اللّٰهِ لِاَنَّ عَزَّوَجلَّ یَقُوْلُ فَلاَ یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰهِ اِلاَّ الْقَوْمُ الخَاسِرُوْن (سورہ ۷ ۔آیت ۹۹)

"اللہ تعالیٰ کے مکر (یعنی ناگہانی انتقام و قہر) سے نہ ڈرنا گناہ ِ کبیرہ ہے۔ چنانچہ خدائے بزرگ و برتر کا ارشاد ہے : یاد رہے کہ خدا کے داؤ سے صرف گھاٹا اٹھانے والے ہی نڈر ہو بیٹھتے ہیں۔"

( ۴)وَمِنْهَا عقوقِ الوَالِدَینِ لِاَنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَه جَعَلَ الْعَاقَ جَبَّاراًشَقِیّاً

"گناہان کبیرہ میں سے ایک عاق والدین ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا :

"وَبَرّاًبِوَالِدَیهِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّاراً عَصِیّاً "

’یعنی اپنے ماں باپ کے حق میں سعادت مند تھے اور سرکش و نافرمان نہ تھے۔ ‘

یہاں ماں باپ کے نافرمان کو سرکش اور شقی فرمایا۔"

( ۵)وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلاَّ بِالْحَقِّ لِاَن اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ (( ( فَجَزَاو جَهَنَّمُ خَالِداً فِیْهَا )) )

"کسی مومن کو نا حق قتل کرنا (گناہ کبیرہ) حرام ہے۔ کیونکہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( وَمَنْ یَقْتُلْ مُومِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآءُ هُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِیْهَا وَغَضِبَ اللّٰهَ عَلَیْهِ وَلَعَنَه وَاَعَدَّ لَه عَذَاباً عَظِیما ) ً

"اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالے (تو اس کا کوئی کفّارہ نہیں بلکہ) اس کی سزا دوزخ ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔ اس پر خدا نے اپنا غضب ڈھایا اور لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا سخت عذاب تیّار کر رکھا ہے۔"(سورہ ۴ ۔آیت ۹۳)

( ۶)وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ لِاَنَّ تَعَالٰی یَقُوْلُ ( اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً ) ۔

"کسی پاکدامن مرد یا عورت کو زنا یا لواطہ کی طرف نسبت دینا گناہ کبیرہ ہے۔ جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:

( اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُومِنَاتِ لُعِنُوْا فِیْ الدُّنََیَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ) ۔ (سورہ ۲۴ ۔آیت ۲۳)

"بے شک جو لوگ پاکدامن ، بے خبر اور ایمان دار عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں (خدا کی) لعنت ہے۔ اور ان پر بڑا (سخت ) عذاب ہو گا۔"

( ۷)وَاَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ لِاَنَّ اللّٰهِ تَعَالٰی یَقُوْلُ ( (( اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَاراً وَّسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا ) ۔

"اور مال یتیم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ خداوند عالم نے فرمایا:

( اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتَامٰی ظُلْماً اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَاراً ط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً ) (سورہ ۴ ۔آیت ۱۰)

’جو لوگ یتیموں کے مال نا حق چٹ کر جایا کرتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس انگارے بھرتے ہیں اور عنقریب واصل جہنم ہو ں گے۔ "

( ۸)وَالْفرَارُ مِنَ الزَّحْفِ لِاَنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی یَقُوْلُ ( وَمَنْ یَوَلّهِمْ یَوْمَئِذٍدُبْرَه اِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِقِتَالٍ اَوْمُتَحَیِّزاً اِلٰی فِٴَةٍ فَقَدْ بَآءَ بَغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰهُ جَهَنَّمُ وَبِئسَ الْمَصِیْرُ )

(سورہ ۸ ۔ آیت ۱۶)

جہاد میں پیش قدمی کرنے کی بجائے بھاگ جانا گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اور (یاد رہے) اس شخص کے سوا جو لڑائی میں کترائے یا کسی جماعت کے پاس جا کر (اور) جو شخص بھی اس دن ان کفّار کی طرف سے اپنی پیٹھ پھیرے گا وہ یقینی (ہر پھر کے) خدا کے غضب میں آگیا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور وہ (کیا) بُرا ٹھکانہ ہے۔"

( ۹)وَاَکْلُ الرِّبْوا لِاَنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی یَقُوْلُ :( اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبْوا یَقُوْمُوْنَ اِلاَّکَمَایَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ) ۔

"گناہانِ کبیرہ میں سے ایک سود خوری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن کھڑے نہ ہو سکیں گے مگر اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جس کو شیطان نے لپٹ کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔‘

ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْ اِنَّما الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبوْا ط وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبْوا ۔

"یہ اس وجہ سے کہ وہ اس کے قائل ہو گئے کہ جیسا بِکری کا معاملہ ویسا ہی سود کا معاملہ ، حالانکہ بِکری کو تو خدا نے حلال قرار دیا اور سود کو حرام کر دیا۔"

( ۱۰)وَالْسِّحرُ لِاَنَّ تَعَالٰی وَلَقَدْ عَمِلُوْا لَمَن اِشْتَراهُ مَالَهُ فِیْ الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ط

"اور سحر (جادو) گناہ کبیرہ ہے۔ "چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "وہ یقینا جان چکے تھے کہ جو شخص ان (جادو کی برائیوں ) کا خریدار ہوا وہ آخرت میں بے نصیب ہے۔"

وَلَبِئسَ مَاشَرَوُا اَنْفُسِهِمْ لَوْکَانُوْایَعْلَمُوْنَ

’اور بے شبہ (معاوضہ ) بہت ہی بڑا ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا۔ کاش کچھ سمجھتے ہوتے۔"

( ۱۱)وَالزِّنَالِاَنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی یَقُوْلُ ( وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَاماً یُصنَاعَفْ لَه الْعَذَابُ یَوْمَ الِْیَامَة، وَیَخْلُدْفِیهِ مُهَاناً )

گناہان کبیرہ میں سے ایک ’زنا‘ ہے۔ چونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( وَالَّذِیْنَ لَایَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ الٰهاً آخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ الاَّ بالْحَقِّ وَلَایَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اثاماً یُّضاعَفْ لَه الْعَذابُ وَیَخْلُدُ فِیْهِ مُهَاناً ) ۔

(سورہ ۱۹ آیت ۶۸،۶۹)

"اور وہ لوگ جو خدا کے ساتھ دوسرے معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس جان کے مارنے کو خدا نے حرام کردیا ہے اس کو نا حق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں ۔ اور جو شخص ایسا کرے گا وہ آپ اپنے گناہ کی سزا بھگتے گا۔ قیامت کے دن اس کے لیے عذاب دو گنا کر دیا جائے گا اور اس میں ہمیشہ ذلیل و خوار رہے گا۔"

( ۱۲)وَالیَمِیْنِ الْغَمُوسِ الْفَاجِرَةِ لِاَنَّ اللّٰه تَعَالٰی یُقوْلُ :( اِنَّ اَلَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَیْمَانِهِم ثَمَناً قَلِیلاً اُوْلئِٓکَ لَاخَلَاقَ لَهُمْ فِیْ الْآخِرةِ وَلَایُکَلِمُهُمُ اللّٰهُ وَلَایَنْظُرُ الَیْهِمْ یَوْمَ اَلقیٰامَةِ لَایُزَکِیْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلَیْمٌ ) (سورہ ۳ ۔آیت ۷۷)

"گناہانِ کبیرہ میں ایک ’ یمین غموس ‘ جھوٹی قسم ہے۔ جس کے بارے میں خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے:"بے شک جو لوگ اپنے عہد اور قسمیں جو خدا سے کی تھیں اُن کے بدلے تھوڑا (دنیوی) معاوضہ لے لیتے ہیں ، انہیں لوگوں کے واسطے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور قیامت کے دن خدا ان سے بات تک تو کرے گا نہیں اور نہ اُن کی طرف نظر (رحمت) ہی کرے گا۔ اور نہ اُن کو (گناہوں کی گندکی سے) پاک کرے گا۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔"

( ۱۳)وَالْغُلُوْلُ لِاَنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی یَقُوْلُ ( وَمَنْ یّغْلُلُ یَاْتِ بِمَاغَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ) ۔

جن گناہوں کے بارے میں نصوص صریحہ موجود ہیں، ان میں سے ایک، غلول، خیانت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( وَمَاکَانَ لِنَبیّ اَنْ یَغُلَّط وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَاغَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ تُوَفّیٰ کُلُّ نَفْسٍ مَّاکَسَبَتْ وَهُمْ لَایُظْلَمُوْنْ اَفَمَنِ اَتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّٰهِ کَمَنْ بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَأ وهُ جَهَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرِ ) ۔ (سورہ ۳ ۔آیت ۱۶۱،۱۶۲)

"کسی نبی کے (ہر گز) یہ شایانِ شان نہیں کہ وہ خیانت کرے۔ اور جو خیانت کرے گا تو جو چیز خیانت کی ہے قیامت کے دن وہی چیز (بعینہ خدا کے سامنے) لانی ہو گی۔ اور پھر ہو شخص اپنے کئے کا پورا بدلا پائے گا۔ اور ان کی کسی طرح حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ بھلا جو شخص خدا کی کوشنودی کا پابند ہو گیا وہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو خدا کے غضب میں گرفتار ہو اور جس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا بُرا ٹھکانہ ہے۔"

( ۱۴)وَمَنْعُ الزَّکوٰة، الْمَعرُوْضَةِ لِاَنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی ( یَقُوْلُ فَتُکوْیٰ بِهَاجِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُوْرُهِمْ ) ۔

"واجب زکوٰة کو روکنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَایُنْفِقُوْنَهَا فی سَبِیْلِ اللّٰهِ فَبَشِرّهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ) ۔

"اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے جاتے ہیں اور اس کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو اے رسول ان کو دردناک عذاب کی خو ش خبری سنا دو۔"

( ۱۵)وَشَهَادَةُ الزُّوْرِ لِاَنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی یَقُوْلُ :

( وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ ) ۔

"اور جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :"تم جھوٹی گواہی سے پرہیز کرو۔"

( ۱۶)وَکِتْمانُ الشَّهَادَةِ لِاَنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی یَقُوْلُ ( لَاتَکْتُمُوْا الشَّهَادَةَ ط وَمَنْ یَکْتُمْهَا فَاِنَّهُ اٰثِمٌ قَلْبُه ط وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌَ ) ۔

"تم گواہی کو نہ چھپاؤ۔ اور جو چھپائے گا تو بے شک اس کا دل گناہ گار ہے اور تم لوگ جو کرتے ہو خدا اس کو خوب جانتا ہے۔"

( ۱۷)وَشُرْبِ الْخَمْرِ لِاَنَّ تَعَالٰی انَهٰی عَنْهَا کَمَا نَهٰی عَنْ عِبَادَةِ الْاَوْثانِ ۔

"اور شراب خوری گناہ کبیرہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس سے منع فرمایا ہے ۔ جیسا کہ بت پرستی سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

( وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمیَْسِرِط قُلْ فِیْهِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثمُهُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ) (سورہ ۲ آیت ۲۱۹)

"اے رسول، تم سے لوگ شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو تم ان سے کہدو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے۔ اور (کچھ فائدے) بھی ہیں۔ اور ان کے فائدے سے ان کا گناہ بڑھا ہو اہے۔"

( ۱۸)وَتَرْکُ الصَّلٰوةِ مُتَعَمِّدًا

"اور جان بوجھ کر نماز ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے۔"

( ۱۹)اَوَشَیْئاً مِمَّا فَرَضَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ لِاَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ قَالَ مَنْ تَرَکَ الصَّلوٰةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرَءَ مِنْ ذِمّةِ اللّٰهِ وَذِمَّةِ رَسُوْلِهِ ۔

"یا بعض ضروریات ِ دین جو کہ اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دی ہیں عمداً ترک کرنا گناہان ِ کبیرہ میں سے ہے۔ چونکہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا جو کوئی جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے تو یقینا خداوند عالم اور اس کے رسول کی امان سے خارج ہے۔"

( ۲۰) وَنَقْضُ اِلْعَھْدِ

ٍ "یعنی عہد شکنی گناہ کبیرہ میں شمار ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِهِ الخ ) (سوره رعدآیت ۲۵)

"اور وہ لوگ جو خدا سے عہد و پیمان کو پکا کرنے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں۔"

( ۲۱)وَقَطِیعَةُ الرَّحِمِ لِاَنَّ اللّٰه تَعَالٰی یَقُوْلُ ( وَیَقْطَعُوْنَ مَا اَمَرَاللّٰهُ بِراَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِیْ الْاَرْضِط اُوْلٰئِکَ لَهُمُ اللَّعْنَهُ وَلَهُمْ سُوْءُ الدَّارِ ) (سورہ رعد۔آیت ۲۵)

"اور رشتہ داروں سے تعلقات قطع کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا آیت میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے:

’اور جن (باہمی تعلقات) کے قائم رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے انہیں قطع کرتے ہیں اور روئے زمین میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی ہیں جن کے لیے لعنت ہے اور ایسے ہی لوگوں کو واسطے بُرا گھر (جہنم) ہے۔"

جب حضرت ابی عبداللہ جعفر صادق (علیہ السلام) نے گناہان ِ کبیرہ بیان کر کے اپنے کلام اختتام تک پہنچایا تو راوی عمرو بن عبید فریاد اور بکا کے ساتھ یہ کہتا ہوا باہر نکل گیا: "یقینا ہلاکت میں پڑ گیا وہ شخص جو اپنے رائے سے کچھ کہے اور آپ حضرات کے علم و فضل سے انکار کرے۔"

پہلی روایت یہیں پر اختتام کو پہنچی۔

د وسری روا یت

فِی صَحِیْحِ بْنِ مَحبُوْب قَالَ کَتَبَ مَعِیْ بَعْضُ اَصْحَابِنَا اِلٰی اَبِیْ الْحَسَنِ (ع) یَسْئَلُهُ عَن الْکَبَائِرِکَمْ هِیَ ؟ وَمَاهِی ؟ فَکَتَبَ (ع) الْکَبَائِرَ مَنْ اِجْتَنَبَ مَاوَعَدَ اللّٰهُ عَلَیْهِ النَّارُ کَفَّرَ عَنْهُ سَیّئاتَهُ اِذَا کَانَ مُوْمِناً وَالسَّبْعُ مُوْبِقَاتٍ ۔

"ابن محبوب سے صحیح میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ اس نے کہا: " میرے بعض رفقاء نے میرے ساتھ حضرت ابی الحسن امام رضا (علیہ السلام) کو خط لکھا جس میں پوچھا گیا تھا کہ گناہان ِ کبیرہ کی تعداد کیا ہے، اور ان کے تعیّن کے لیے حقیقی تعریف کیا ہے؟ آنحضرت (علیہ السلام) نے یوں تحریر فرمایا:

" گناہان کبیرہ وہ گناہ ہیں جن کے مرتکب ہو نے والے شخص کے لیے وعدہ آتش دیا گیا ہے۔ اگر کسی مومن نے ان سے پرہیز کیا ( اور توبہ کی) تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ محو کر دیتا ہے۔ جن گناہوں پر عذاب کا وعدہ ہے وہ سات ہیں:

قَتْلُ النَّنَسْ اِلْحَرَام (کسی کو جان سے مارنا جبکہ شرعاً اس کا قتل حرام ہو)

وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْن (اور والدین کا عاق ہونا)

وَاَکلُ الرِبوٰا (اور سود کھانا)

وَالتَّعَرُّبُ بَعْدَ الْهِجْرَة (ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ جاہلیت کی طرف پلٹنا)

وَقَذْفُ الْمُحْصِنَةِ (اور پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا)

وَاَکْلُ مَالَ الْیَتِم (اور مال یتیم کھانا)

وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّخفِ (محاذ جنگ سے فرار ہو جانا)

یہاں تک ابن محبوب کی روایت ختم ہوئی۔ (وسائل الشیعہ۔ کتاب جہاد)

تیسری روایت

وَفِیْ رَوَایَةِ اَبِیْ الصَّامت عَنْ اَبِیْ عَبْدِاللّٰهِ (ع) قال: اَکْبَرُا الْکَبَائِرُ الشِّرْکُ بِاللّٰهِ وَقَّتْلُ النَّفْس الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلاَّ بِالْحَقَّ وَاَکْلُ اَمْوَالِ الیَتَامیٰ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَذْفُ الْمحصَنَاتِ وَالْفَرارُ مِنَ الزَّحْفِ وَانْکَارُ مَااَنْزَل اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ ۔

ابی صامت نے حضرت ابی عبداللہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: گناہان کبیرہ میں سب سے بڑا گناہ ( ۱) اللہ تعالیٰ کے لیے شریک بنانا ( ۲) جس کے قتل کواللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اسے جان سے مار دینا ، مگر وہ شخص جو کہ ازروئے شریعت واجب القتل ہو ( ۳) یتیموں کا مال کھانا ( ۴) والدین کا عاق کرنا ( ۵) پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا ( ۶) محاذ ِ جنگ سے بھاگ جانا ( ۷) خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے اتاری ہوئی ضروریات دین سے انکار کرنا ہے۔"

وَفِیْ روایةِ عبدِالرَّحمٰن بن کثیر عَنْه (ع) وَاِنْکَارُ حَقِّنَا وَفِی رَوَایَةِ اَبِیْ خَدِیْجَة عَنه (ع) قال: الْکِذْبُ عَلٰی اللّٰهِ وَعَلٰی رَسُوْلهِ وَعَلٰی الْاَوْصِیَاءِ مِنْ الْکَبَائِرِ وَفِیْ مُرْسَلَةِ الصَّدُوْقِ عُدَّمِنْهُ الْحَیْفُ فِی الْوَصِیَّةِ وَ فِیْ مُرْسَلة کَنْزِالْفَوَائِدِ عُدَّمِنْهُ اِسْتِحْلَالُ بَیْتِ الْحَرَامِ (وسائل۔کتاب الجہاد)

"عبدالرحمٰن ابن کثیر نے آنحضرت (علیہ السلام) سے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ ہم اہل بیت (علیہم السلام) کے حقوق سے انکار گناہ کبیرہ ہے۔ اور ابی خدیجہ نے آنحضرت (علیہ السلام) سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ( ۹) اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور اوصیائے کرام پر جھوٹ باندھنا گناہان کبیرہ میں شمار ہے۔ اور صدوق کی روایت مرسلہ میں ( ۱۰) وصیّت میں کسی پر ظلم کر کے ارث سے محروم کرنا گناہ کبیرہ میں محسوب کیا گیا ہے۔ ( ۱۲) اور کتاب کنزالفوائد کی مرسلہ روایت کے مطابق خانہ خدا میں بدامنی کو حلال جاننا گناہ کبیرہ ہے(جس کو اللہ تعالیٰ نے جائے امن قرار دیا ہے)۔"

چوتھی روایت

وَفِیْ عُیُوْنِ الْاَخْبَارِ بِاَسَایِنْدِهِ عَنِ الفَفَلِ بِن شَاذَان عَنْ الرَِّضا، فِیْما کَتَبَ الٰی الْمَاْمُوْنِ وَاجْتِنَابِ الْکَبَائِرِ وَهِیَ ۔

کتاب عیون الأخبار میں معتبر اسناد کا حوالہ دیتے ہوئے فضل بن شاذان نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے اس خط کا ذکر کیا ہے جس میں گناہان ِکبیرہ سے پرہیز کے بارے میں مامون کو لکھا تھا۔ آنحضرت (علیہ السلام) کے خط کی مختصر عبارت یہ ہے:

( ۱)قَتْلُ اِلنَّفْسِ الَّتیْ حَرَّمَ اللهُ تَعَالیٰ جن لوگوں کے جان سے مارنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔

( ۲) وَالزِّنَا اور زنا کرنا

( ۳) وَالسَّرِقَةُ اور چوری کرنا

( ۴) وَ شُربُ الْخَمْرِ اور شراب پینا

( ۵) وَعُقُوْقُ الْوالِدَیْنِ اور عاق والدین ہونا

( ۶)وَالْفِرَارُمِنَ الزَّحْفِ محاذ جنگ سے بھاگنا

( ۷) وَاَکْلُ مَال الیَتِیمْ ظلم و زیادتی سے مال یتیم کھانا

( ۸)وَاکْل ُالْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَااُهِلَّ لِغَیْرِاللّٰهِ مِنْ غَیْرِ ضِرُوْرَةِِاور بغیر مجبوری کے مردار، خون، سور کا گوشت کھانا اور اس ذبیحہ کا گوشت کھانا جس پر غیر خدا کا نام لیا گیا ہو، گناہ کبیرہ ہے۔

( ۹)وَاَکْل الرِّبْوابَعْدَالْبَیِّنَةِ واضح اور ثابت ہو نے کے بعد سود کھانا۔

( ۱۰)وَالسُّحْتُ اور مال حرام کھانا

( ۱۱)وَاْلْمَیْسِرُ وَالْقُمَارُ اور جوا کھیلنا

( ۱۲)وَالْبَخْسُ فِی الْمِکْیالِ وَالْمِیْزَانِ اور ناپ تول میں کمی کرنا

( ۱۳)وْقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا

( ۱۴)وَاللِّوَاطُ اور مرد کا مرد کے ساتھ فعل ِ بد کرنا

( ۱۵)وَالْیَاْسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا

( ۱۶)وَالْاَمِنُ مِنْ مَّکْرِاللّٰهِ اور اللہ تعالیٰ کے مکر (ناگہانی انتقام اور قہر) سے نہ ڈرنا

( ۱۷)وَالْقُنُوْطُ مِنْ رَّحْمَةِاللّٰهِ اور رحمت ِ خدا سے بد گمان ہونا

( ۱۸)وَالْمَعُوْنَةُ لِلظَّالِمِیْنِ اور ظالموں سے تعاون کرنا

( ۱۹)وَالرّکُوْنُ اِلَیْهِمْ اور ظالموں سے میل جول رکھنا

( ۲۰)وَالْیَمِیْنُ الغَمُوْسِ اور جھوٹی قسم کھانا

( ۲۱)وَ حَبْسُ الْحُقوْقِ مِنْ غَیْرِعُسْرِِ اور کسی سختی و مجبوری کے بغیر کسی کا حق روکے رکھنا

( ۲۲)وَالْکِذْبُ اور جھوٹ بولنا

( ۲۳)وَ الْکِبْرُ اور تکبّر کرنا

( ۲۴)وَالْاِسْرَافُ حد سے زیادہ خرچ کرنا

( ۲۵)وَ التَّبْذِیْرُ غیر اطاعتِ خدا میں مال خرچ کرنا

( ۲۶)وَالْخِیَانَةُ اور دھوکہ دینا

( ۲۷)وَالْاِسْتِخْفَافُ بِالْحَجِّ اور حج بیت اللہ کو اہمیت نہ دینا

( ۲۸)وَالْمُحَارَبَةُ لِاَوْلِیَائِاللّٰهِ اور اللہ کے دوستوں کے ساتھ لڑنا

( ۲۹)وَالْاِشْتِغَالُ بِالْمَلَا هِی اور لہو و لعب میں مشغول رہنا

( ۳۰)وَالْاِصْرَارُعَلیٰ الذُّنُوْبِ اور گناہوں پر اصرار کرنا۔

انشاء اللہ اِن روایتوں کا ترجمہ اور تشریح نیزدیگر روایتیں گناہانِ کبیرہ کے ضمن میں بیان ہوں گی۔

ایک مشکل مسئلہ کا حل

گناہان کبیرہ کے مو ضوع پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ

( ۱) اس قدر اہمیت کے حامل موضوع کو قر آن مجید میں مفصّل بیان کیوں نہیں کیا گیا اور ان کی تعداد معیّن کیوں نہیں کی گئی؟

( ۲) اس بارے میں صاحبان عصمت و طہارت کی احادیث واردہ کے درمیان اختلافات کیوں ہے؟بعض روایت میں ان کی تعداد پانچ ،بعض میں سات ،کچھ روایات میں نو، اکیس اور اکتیس بیان کی گئی ہے ۔یہاں تک ابن عباس/سے جو روایات نقل کی گئی ہے اس میں تقریباََسات سو سات گناہانِ کبیرہ شمار کئے گئے ہیں۔اب ہم دونوں سوالوں کے جوابات دیتے ہیں۔

( ۱) پہلے اعتراض کا جواب

قرآنِ مجید میں گناہانِ کبیرہ کی تعداد معیّن نہ کر کے گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بڑا لطف وکرم فرمایا ہے اور اس میں بہت حکمت پوشیدہ ہے با لفرض اگر تعداد معیّن ہوتی تو لوگ صرف انہی گناہوں سے اجتناب کرتے جن سے منع کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ جہالت اور خواہشات ِنفسانی کی وجہ سے دوسرے گناہوں کے ارتکاب کی جرأت کرتے اور نادانی سے یہ خیا ل کرتے کہ معدودہ گناہوں کے علاوہ کسی گناہ کے ارتکاب سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ اس طرح وہ ہر خرابی اور گناہ کے انجام دینے میں دلیر ہو جاتے اور تمام منہیات میں ملوث ہوتے۔

یاد رکھیئے: وہ بہت برا اور بد کردار بندہ ہے جو اپنے مہربان پروردگارکی حدود میں دلیری اور بے باکی کا مظاہرہ کرے۔ اور جن امور کو ترک کرنے کا حکم ہو اُسے وہ انجام دے بلکہ اس قسم کی دلیری اور بے حیائی گناہ ِ کبیرہ کی طرف قدم بڑھانے کی جرأت پیدا کرتی ہے۔

چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو "گناہان ِ صغیرہ" سے منع فرمایا ہے اگر اس بارے میں لاپرواہی برتی گئی تو آہستہ آہستہ گناہان کبیرہ سے بھی بے باک ہو جائے گا