محاربة المسلمینا
(مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنا)
کبیرہ گناہوں میں سے چونتیس واں گناہ کہ جس کے کبیرہ ہونے کی معتبر نص میں صراحت کی گئی ہے ،وہ خدا کے دوستوں (یعنی مسلمانوں)سے جنگ کرنا ہے چنانچہ اعمش کی روایت میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اور فضل بن شاذان کی روایت میں امام علی رضا (علیہ السلام) سے اس بات کی تصریح کی گئی ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کے لئے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور اس کے لئے دنیا میں شرعی سزا(حد)مقرر کی گئی ہے اور سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(
اِنِّمٰا جِزٰآءُ الَّذِیْنِ یُحٰارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ وَیَسْعُوْنِ فِی الْاَرْضِ فَسٰاداً اَنْ یُّقتَلُّو اَو ْتُقَطَّع اَیْدِیْهُمْ وَاَرْجُلَهُمْ مِنْ خِلٰافٍ اَوْ یُنْفعوا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیٰا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذٰابٌ عَظِیْمٌ اِلَّاالذِّیْنَ تٰابُوْا مِنْ قَبْلُ اَنْ تَقدِ رُوْا عَلَیْهِمْ فَاعْلَمُواَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
)
۔ (سورہ مائدہ آیت ۳۳،۳۴)
اور جو لوگ خدااور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں(اور احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے(ملکوں )دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ(چن چن کر)یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاوں ہیر پھیر کے(ایک طرف کاہاتھ دوسری طرف کا پاوں)کاٹ ڈالے جائیں یاا نہیں(اپنے وطن کی)سرزمین سے شہر بدر کر دیا جائے یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہے اورآخرت میں تو ان کیلئے بہت بڑا عذاب ہے مگر ہاں جن لوگوں نے اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پاو توبہ کر لی تو(ان کا گناہ بخش دیا جائے گا)کیونکہ سمجھ لو کہ خدا بے شک بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
منہج میں لکھا ہے ہجرت کے چھٹے سال عونیہ اور عکل سے ایک گروہ حضرت رسالت مآب (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوااور اسلام سے مشرف ہونے کے بعد وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ رہنے لگے۔لیکن جب مدینہ کی آب وہوا ان کے لئے سازگار نہ ہوئی تو وہ مریض ہو گئے۔ان کی اس حالت کے بارے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو اطلاع دی گئی توآپ نے انہیں مدینہ سے باہر دودھ دینے والے اونٹوں کے درمیان جو کہ جبل العیر کے نزدیک تھا رہنے کی اجازت دی تا کہ وہاں کچھ روز رہیں اور اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیئں۔تا کہ انہیں مرض سے نجات حاصل ہو اور وہ صحت یا ب ہو جائیں وہ لوگ اس علاقے میں چلے گئے اور کچھ عرصے وہاں رہ کر صحت یاب ہوگئے۔ایک صبح انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور رسول اکرام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مخصوص پندرہ اونٹ چوری کر لئے اور مرتد ہو گئے اور اپنے قبیلے کی طرف چلے گئے ۔جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو یسار نے جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے غلام تھے ،کچھ آدمیوں کے ساتھ ان کاپیچھا کا اور ان تک پہنچ گئے۔آپس میں جنگ وجدل ہوئی۔آخر کار انہوں نے یسار کو گرفتار کر لیا اور ان کے ہاتھ پاوں کاٹ دیئے اور ان کی آنکھوں اور زبان میں کانٹے گھونپ دیئے حتی کہ وہ شہید ہو گئے اور جب رسول خدا کو اس واقع کی اطلاع ملی تو آپ نے کربزبن جابر کو ان کے پیچھے بھیجا ۔انہوں نے ان تمام کو گرفتار کر لیا اور ہاتھ پاوں باندھ کر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت حق تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ کر سولی پر لٹکا دیں۔
اور تقریباً اسی موضوع سے متعلق کچھ اوراختلاف کے ساتھ اہل بیت (علیہم السلام) سے بھی روایات وارد ہوئی ہیں۔
محا رب کون ہے
فقہاء کے نزدیک محارب وہ ہے جو اسلحہ مثلاًتلوار،نیزہ ،چاقہ،بندوق،لکڑی،پتھر وغیرہ اپنے پاس رکھے تا کہ مسلمانوں کو خوفزدہ کر کے ان کا مال اور ناموس لوٹ لے یا ان کا خون بہائے،خواہ تنہا ہو یا اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہوں، چاہیے اس کا مقصد حاصل ہو یا نہ ہو۔یعنی لوگ خوفزدہ ہوں،یا نہ ہوں ان کا مال لے جائے یا نہ لے جائے،انہیں قتل کرے یا نہ کرے بلکہ فقط اس مقصد کیلئے اسلحہ لے کر پھرے تو محارب ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ دریا میں ہے یا خشکی پر شہرو آبادی میں ہو یا صحرا و بیابان میں مثلاً رہزنوں کی طرح یہاں تک کہ اگر اسلحہ لے کر دن یا رات کے وقت کسی مسلمان کے گھر گھس جائے اور اہل خانہ پر حملہ کرے تو وہ محارب ہے۔
کتاب کافی میں مروی ہے کہ سورہ بن کلیب نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے گھر سے مسجد یا دوسری کسی جگہ جانے کے لئے نکلے تو ایسے میں کوئی آدمی اسے پیچھے سے پکڑ لے اور اسے مارے اور اسکا لباس چھین لے تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا ایسا شخص محارب ہے اور پرآیت(
اِنَّمٰا جَزٰآءُ الَّذِیْنَ یُحٰارِبُوْنِ
)
کا انطباق ہوتا ہے۔
اور اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ محارب مسلمان ہو یا غیر مسلمان ،مرد ہو یا عورت،اسلامی شہروں میں ہویا غیر اسلامی میں اور اس جملے یَسْعَوْنَ فِی الاَرْضِ فَسٰاداً کہ جو اس آیت میں موجود ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ محارب سے مرد نہ صرف جنگ اور مسلمانوں سے لڑنا بھڑنا ہے بلکہ زمین میں کسی بھی قسم کا فساد اور عام لوگوں کے امن وسکون میں خلل ڈالنا ہے اور عادتاً خوف و ہراس کا پھیلانا،اسلحہ کے استعمال اور قتل کی دھمکی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔المختصر محارب وہ ہے جو اسلحہ سے لیس ہو کر مسلمانوں کی جان ومال و ناموس اور امن و سکون کو سلب کرنے کے لیے حملہ کرے۔
خداوپیغمبر سے جنگ کرنا
آیہ شریفہ میں جو مسلمانوں سے جنگ کرنے کو خدا و پیغمبر سے جنگ کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے اس کا سبب مسلمانوں کی تعظیم و عزت ہے اسی طرح جو بھی معاملہ ان کے ساتھ ہو اس طرح ہے کہ جیسے خداو پیغمبر کے ساتھ ہوا۔چونکہ وہ(مسلمان)خداو پیغمبر کے ساتھ وابستہ ہیں یا اس کی وجہ یہ ہے کہ خداورسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مسلمانوں کو اذیت دینے اور ان کے مال یا ناموس یا خون کی طرف دست درازی کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور جو کوئی اس حکم کی مخالفت کرے وہ محارب (یعنی خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کرنے والا)ہے۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
عَنِ الصّادِقِ (ع) قٰالَ اللّٰهُ عَزَوَّجَلَّ لَیَأذَنُ بِحَرْبٍ مِّنّی مَنْ اَذیٰ عَبْدِی الْمُومِنِ وَلٰیاء مَنْ غَضَبی مَنْ اَکْرَمَ عَبْدِیَ الْمُومِنِ
(کافی ج ۲ ۔ص ۰۵۳)
خدائے عزوجل فرماتا ہے کہ وہ شخص مجھ سے جنگ کا اعلان کرتا ہے جو میرے مومن بندے کو اذیت دے اور میرے غضب سے وہ امان میں رہے گا جس نے میرے مومن بندے کا احترام کیا ۔
آپ نے یہ بھی فرمایا:
مَنْ اَهٰانَ لِیْ وَلِیّاً فَقَد بٰارَزَنِیْ بَالْمُحٰارَبَتِه
(کافی ج ۲ ص ۳۵۲)
جو کوئی میرے دوست کی توہین کرے اس نے کھلم کھلا مجھ سے جنگ کی ہے۔
محارب کی حد
جیسا کہ آیہ شریفہ میں گزر چکا ہے کہ چار طریقوں سے کسی ایک طریقے پر عمل کیا جائے قتل کرنا۔پھانسی دینا،ہاتھ اور پیر کو برعکس کاٹنا یا شہر بدر کرنا۔برہان قرآن صفحہ ۱۸۸ میں اس طرح تحریر ہے کہ اصطلاح فقہاء میں محارب سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے شہر یا بیابان یا سمندر میں رات کے وقت یا دن میں مزاحمت کرے خواہ کمزور ہو یا طاقتور ،خواہ مرد ہو یا عورت ایسا شخص فقہی اصطلاح میں محارب کہلایا جائے گا اور قرآن مجید اس کے اس عمل کو خدا اور رسول سے جنگ کے حکم میں شمار کرتا ہے اور اس کے بارے میں کہتے ہے۔اِنِّمٰا جَزٰآءُ الِّذِیْنَ یُحٰارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ
کتاب مذکورہ میں اس آیت کے ترجمہ کے بعد لکھا ہے محترم قارئین یہ ایک موقع ہے کہ جس نے بعض حساس طبیعت اور نازک دل رکھنے والے آزاد خیال لوگوں کو آزردہ اور متأثر کیا ہے اور اس اسلامی قوانین کو ان کی نظر میں وحشیانہ اور سخت بنا دیا ہے۔لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ آزاد خیال لوگ اپنی رقت قلبی اور مہر و محبت کا اظہار ہمیشہ مجرموں ڈاکووں اور خونخواروں ہی سے کیوں کرتے ہیں اور ان بے گناہ لوگوں اور معصوم عورتوں اور بچوں سے کہ جن کا مال،ناموس اور جان اس سر کش اور ظالم گروہ کی ہوا و ہوس کا شکار ہو جائے ان سے رحم اور شفقت کا اظہار کیوں نہیں کرتے۔آیا امن و امان کے قیام اور معاشرہ کی حفاظت و سلامتی کیلئے ان افراد کی سر کوبی اور کسی مریض کو موت و مرض سے بچانے اور حفاظت و سلامتی کیلئے بیماری کے ہزاروں جراثیموں کو ختم کر دینے میں کوئی فرق ہے۔کیا کوئی بھی عقلمند شخص کسی ماہر ڈاکٹر کو ان جراثیم کو ایک انجکشن یا دوائی سے ختم کر دینے کے قابل اعتراض سمجھے گا اور اس کے اس عمل کو وحشیانہ اور سخت کہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر منصف مزاج شخص اس حکم کو معاشرے کے ساتھ رحم او ر شفقت اور ڈاکووں اور مجرموں کے ساتھ عدل و انصاف کے مطابق سمجھے گا۔لیکن اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اسلام کے مہربان قانون بنانے والے نے جرم میں بھی رحم ومہربانی کو پیش نظر رکھا ہے۔
چنانچہ تفیسر مجمع البیان میں اسی آیت کے ذیل میں امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کی گئی ہے کہ محارب کی سزا اس کے جرم کے مطابق ہے۔پس اگر قتل کا مرتکب ہوا ہے تو اس کی سزا بھی قتل ہے اور اگر قتل کے علاوہ مال بھی لے گیا ہے تو اس کی سزا قتل اور سولی پر لٹکانا ہے اور اگر قتل کے بغیر صرف مال لے گیاہے تو اس کی سز اہاتھ اور پیر کاٹنا ہے اور اگر اس کا گناہ صرف بد امنی پھیلانا،راستہ کاٹنا ہو تو اس کی سزا صرف تبعید(شہر بدر کرنا) ہے۔روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ شارع اسلام نے محارب کا سزا دینے میں اس کی سزا گناہ کے لحاظ سے رکھی ہے اور گناہ گار کیلئے یہ خود ایک مہربانی ہے بلکہ اسلام نے اس حد تک مہربانی پر اکتفا نہیں کیا اور واضح کر دیا کہ جب بھی محارب شخص گرفتار ہونے سے پہلے توبہ کر لے تو وہ سزا سے مستثنیٰ ہے۔صرف لوگوں کے وہ حقوق جو اس نے ادا نہیں کئے ان کا ذمہ دار ہے۔چنانچہ سورہ مائدہ کی آیت ۳۴ اس بات کی دلیل ہے۔
اور صفحہ ۱۸۵ میں لکھا ہے انسانی معاشرہ میں آسمانی قوانین کا ہدف ومقصد یہ ہے کہ پانچ بنیادی اور اہم چیزوں یعنی جان،عقل،مال،نسل اور لوگوں کی عزت و ناموس کو حملے اور تباہی سے محفوظ رکھے کیونکہ ان پانچ اہم موضوعات میں سے کسی ایک میں بھی کمی یا زیادتی،جنگ،خونریزی انتشار اور شروفساد کا موجب ہو سکتا ہے اس میں شک نہیں کہ صرف امر ونہی کے ذریعے اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ صرف سزا کا خوف ہی ان اوامرونواہی کے اجراء کا ضامن ہو سکتا ہے۔
عظیم اسلامی فلسفی ابوریحان بیرونی کتاب۔تحقیق ماللھند میں ہندووں کے عقائد وافکار کی شرح کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ ان (ہندووں )کی مثال نصرانیوں کی مانند ہے کیونکہ ان کے افکار کی بنیاد خیر اور بطور کلی شر سے اجتناب کرنا ہے۔مثلا قتل و غارت گری اور دوسری برائیوں سے دوری اختیار کرنا۔یعنی کوٹ کے غاصب کو پیراہن پیش کرنا اور ایک گال پر طمانچہ مارنے والے کو دوسرا گال بھی پیش کر دیا اور نماز میں دشمن کیلئے دعائے خیر اور مغفرت طلب کرنا ہے۔بے شک یہ طریقہ ایک نیک اور پسندیدہ عمل ہے۔لیکن دنیا میں رہنے والے سب کے سب فلسفی نہیں ہیں بلکہ ان میں سے زیادہ تر گمراہ ہیں۔شمشیر اور تازیانے کے بغیر ان میں استقامت پیدا نہیں ہوتی اس زمانے میں جب قسطنطین فاتح نصرانی بنا تو اس نے شمشیر اور تازیانے کو حرکت دی کیونکہ سیاست ان دو کے بغیر نامکمل ہے۔ان وجوہات کی بناء پر خداوند عالم نے قرآن مجید میں حکیمانہ انداز میں قصاص کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایاہے۔
(
وَلَکمْ فِی الْقِصٰاصِ حَیٰوةٌ ٰیٰا اُولِی الْاَلْبٰابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنِ
)
۔
اس آیت میں ان عقل مند افراد کو جو اپنی عاقبت کی فکر کرتے ہیں اور زندگی کی قدر وقیمت کو جانتے ہیں،مخاطب کیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسانوں کی زندگی اور معاشرہ انسانی قصاص سے وابستہ ہے کیونکہ اگر کوئی شخص یہ جانتا ہو کہ قتل کرنے پر قتل کیا جائے گا اور قصاس کی خوفناک شکل وصورت قاتل کی کمین گاہ میں ہے تو وہ اپنا ارادہ بدل دیتا ہے اور نتیجتاً اپنی جان کو قصاص سے اور دوسرے کی جان کو ہلاکت سے بچالیتاہے۔ ان حقائق کی طرف توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلامی نے ان جیسے گناہوں مثلاً عمداً قتل ،زنا کی تہمت،زنا ،چوری،لڑائی جھگڑا شراب پینا اور مرتد یعنی دین سے پھر جانے کی سزا کا واضح نصوص میں تعین کیا ہے اور جب کہ دوسرے موارد میں کوئی خاص سزا مقرر نہیں کی ہے اور سزا کی قسم اور مقدار کا حاکم شرع پر چھوڑ دیا ہے تا کہ وہ جرم کے زمان ومکان کے تقاضوں اور مجرم کے حالات کے مطابق سزادے کیونکہ اس طرح کے گناہوں کا ارتکاب معاشرے اور قوموں کی بد بختی و پریشانی اور تزلزل کا باعث ہوتاہے۔(یہاں سے برہان قرآن کا بیان اختتام پذیر ہوا۔)
ان حدود کے اجراء کی کیفیت کا روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں کافی کی ایک روایت میں عمروبن عثمان مدائنی سے نقل کیا گیا ہے کہ امام علی رضا (علیہ السلام) سے اس آیت اِنَّمٰا جَزٰآءُ الَّذِیْنَ یُحٰارِبُوْن۔ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کونسا کام ان چار حدود میں سے کسی ایک کا موجب بنتا ہے،امام (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جب خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کرے اور زمین میں فساد پھیلائے اور کسی کو قتل کر کے اس کا مال لے جائے تو قتل کیا جائے گا اور سولی پر لٹکایا جائے گا اور اگر لوگوں کا مال لے لیکن کسی کو قتل نہ کرے تو اس کا دایاں ہاتھ بایاں پیر یا بایاں ہاتھ اور دایاں پیر کاٹے جائیں گے اور اگر تلوار اٹھائے اور خدا اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرے اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرے لیکن کسی کو قتل نہ کرے اور نہ ہی مال لے جائے تو تبعید(شہر بدر)کیا جائے گا۔پوچھا گیا کس طرح تبعید(شہر بدر) کیا جائے گا،امام (علیہ السلام) نے فرمایا جس شہر میں جرم کا ارتکاب کیا ہے دوسرے شہرمیں تبعید کیا جائے گا اور اس شہر کے رہنے والوں کو لکھا جائے گا کہ یہ تبعیدی ہے اسکے ساتھ میل جول نہ رکھیں اور نہ ہی کوئی معاملہ کریں اور نہ کھائیں پیئں یہاں تک کہ ایک سال تک اس کے ساتھ یہ سلوک رکھیں۔
چونکہ ہمارے زمانے میں ان حدود کا اجراء نہیں کیا جاتا اس لئے اس موضوع کی فروعات اور روایات اور نقل اقوال اور اس موضوع سے متعلق تحقیق کی ضرورت نہیں۔
جب بھی محارب پکڑنے جانے سے پہلے اپنے کردار پر پشیمان ہو اور توبہ کر لے تو ذکر شدہ حد اس پر سے ساقط ہو جاتی ہے۔لیکن اگر مال لے کرگیا ہووہ مال اس سے لے کر اس کے مالک کو دیا جائے گا اور اگر قتل کیا ہو تو قصاص ہوگا۔سوائے اس کے صاحب حق اسے بخش دے۔
چور سے دفاع کرنا
وہ چور جو اسلحہ سے لیس ہو کر مال لے جانے کے لئے حملہ کرے وہ محارب ہے اور اگر مال کا ملک مقابلہ کر سکتا ہو تو اپنا دفاع کرنا جائز ہے اور اگر اس حال میں چور قتل ہو جائے تو اس کے خون کی کوئی اہمیت نہیں اور اس کی کوئی ضمانت نہیں اور اگر مال کی حفاظت کرنا واجب ہویا چور اس کی ناموس پر حملہ کرنا چاہیئے تو قادر ہونے کی صورت میں دفاع کرنا واجب ہے سوائے اس کے کہ جان کا احتمال ہو اور اگرچہ چور صاحب مال کو قتل کرنے کا اراداہ رکھتا ہو تو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر دفاع اور مقابلہ کرنا واجب ہے ورنہ فرار ہو جائے۔یا چھپ جائے یا اس کے علاوہ کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے اس کی جان کی حفاظت ہو سکے اور اگر چور بغیر اسلحہ کے ہوتب بھی وہ محارب کے حکم میں ہے۔یعنی جو کچھ مسلح چور کے بارے میں ہے وہی اس کے لئے بھی ہے سوائے اس کے کہ محارب کی حد اس پر جاری نہیں ہوگی پس ایسی صورت میں کہ اگر چوروں کی تمام شرائط اس میں موجود ہیں تو چور کی حد جاری کی جائے گی اور اگر تمام شرائط نہ پائی جائیں تو صرف تعزیر و تادیب کی جائے گی،ایسا چور یا مستلب ہے یا مجلس مستلب (لٹیرا)وہ ہے جو کھلم کھلا لوگوں کا مال چوری کرے اور فرار ہو جائے اور محلس وہ ہے جو چھپ کر لوٹے اور فرار کر جائے ان ہر دو صورتوں میں حاکم شرع جو سزا بھی اس جرم کے ترک کرنے کیلئے مناسب سمجھے دے۔مثلاً جتنا مناسب سمجھے مارے یا قید میں رکھے۔
ایک شخص کسی لڑکی کے کان سے گوشوارہ اتار کر لے اڑا تھا اسے امیر المومنین (علیہ السلام) کی خدمت میں لایا گیا۔آپ نے فرمایا اس کی چوری اور لوٹ مار ظاہر ہے چونکہ پوشیدہ نہیں ہے اس لئے چوری کی حد ہاتھ کاٹنا ہے۔اس پر جاری نہیں ہو گی بلکہ تعزیر ہو گی۔پس اسے مارا اور قید کر دیا اور تیسری قسم مختال ہے یعنی جو دھوکے باز ہو اور حیلے بہانے سے کسی کا مال لے اڑے۔مثلاً جعلی سند بنائے اور اس ذریعے سے دوسروں کا مال ہتھیا لے لازمی طور پر اسے تعزیر کی جائے۔
( مردار ،خون اور خنزیر کا گوشت کھانا)
کبائر منصوصہ میں سے پینتسواں گناہ مردار،خون ،اور خنزیر کا گوشت کھانا ہے اور ہر وہ چیز کہ جس کے ذبح کے وقت خداوند عالم کا نام نہ لیا ہو اور روایت اعمش میں امام جعفر صادق سے اور فضل بن شاذان نے امام علی رضا (علیہ السلام) سے اس کے کبیرہ ہونے کی صراحت کی ہے اور قرآن مجید میں سورہ بقرہ آیت ۱۷۳ اور سورہ انعام کی آیت ۱۴۵ اور سورہ نحل میں آیت ۱۱۶ میں اس کی حرمت کی تصریح کی گئی ہے اور سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(
حُرِّمِتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَهَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمٰا اوُهِلَّ لِغَیْرِاللّٰهِ بَه وَالْمُنْخِنقتهُ وَالْمَوْقُوذةُ وَاَلْمُتَرَدِّیِتَهُ النطیعتة وَمٰا اَکَلَ السَّبُعُ اِلّٰا مٰا ذَکَّیْتُمْ وَمٰا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْاَزْلَامِ ذالکم فِسْق
)
(سورة مائدہ آیت ۳)
(اے لوگو)از خود مرا ہوا جانور اورخون اور سور کا گوشت اور جس جانور پر (ذبح کے وقت) خدا کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے اور گردن مروڑا ہو ااور چوٹ کھا کے مرا ہو ااور جو اونچی جگہ سے(کنوئیں وغیرہ میں )گر کر مر جائے اوریاجو سینگ سے مار ڈالا جائے اور جس کو درندے نے پھاڑ کھایا ہو یہ سب چیزیں تم پر حرام کی گئی ہیں اور یہ گناہ کی بات ہے۔
المختصر مذکورہ اشیاء کے کھانے کی حرمت اور کبیرہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے البتہ ان میں سے ہر ایک کی حقیقت و اقسام اور فروعات کا جاننا ضروری ہے جو کہ قرار ذیل ہیں۔
مرد ا ر
ہروہ جانور جو تذکیہ شرعی کے بغیر مر جائے وہ مردار ہے اور اس کا کھانا حرام ہے اور اگر خون جہندہ رکھتا ہو تو نجس بھی ہو گا لیکن اگر تذکیہ ہو گیا ہو تو پاک ہے(سوائے کتے اور سور کے جو ہمیشہ نجس اور قابل تطہیر نہیں ہیں)اگر حلال گوشت (جانور) ہو تو پس تذکیہ کے بعد اس کا کھانا حلال ہے۔اس بناء پر حلال گوشت جانوروں کی پہچان اور تذکیہ شرعی کی کیفیت جاننا ضروری ہے۔
انجمن تبلیغات اسلامی کے ایک مجموعہ میں تحریر ہے کہ فقہ اسلامی میں انتہائی وضاحت ودقت سے حلال گوشت جانور معین ہوئے ہیں۔جب ایک دانشنمند جو طبیعت کا ماہر ہو وہ اس طرف توجہ دے تو وہ ان بڑے علمی حقائق کا جو اس تقسیم بندی میں استعمال ہوئے ہیں،مشاہدہ کرے گا۔
دین اسلام نے عمومی طور پر گوشت خور جانوروں کو حرام قرار دیا ہے۔کیونکہ گوشت خور جانوروں کے معدے میں گندگی اور ان کا گوشت گندہ اور بد بودار ہوتا ہے اس لئے ان کے گوشت کھانے سے انسان بیمار ہوتا ہے اس کے برعکس زیادہ تر گھاس والے جانوروں کو حلال جانتا ہے۔
وہ تمام جانور جو ناخن رکھتے ہیں وہ حرام ہیں اور جو حیوانات کھر رکھتے ہیں وہ حلال کئے گئے ہیں اور ان میں سے کچھ کو مکروہ کہا گیا ہے مثلاً گھوڑا،خچر وغیرہ اور پرندوں میں حلال،حرام کی تمیز ان کے پر ہلانے پر موقوف ہے،جو پرندے فضا میں پرواز کرتے ہوئے اپنے پروں کو زیادہ پھیلا کر رکھیں وہ حرام اور جن کے پروں میں پرواز کرتے ہوئے اپنے پروں کو زیادہ پھیلا کر رکھیں وہ حرام اور جن کے پروں میں پرواز کے وقت سکون سے زیادہ حرکت ہو وہ حلال ہیں اس کے علاوہ تحریر ہے کہ اسلام نے شکار کو آزاد قرار دیا ہے لیکن اسے صرف اس وقت جائز قرار دیا ہے کہ جب (شکاری)اپنے گھر والوں کو فائدہ پہنچانے یا اپنی روزی حاصل کرنے کے لئے شکار کرے اور ایسا شکار کے جس سے مرادصرف لہو ولعب اور حیوانات کو مارنا ہو تو یہ جائز نہیں اور سفر میں اس (شکاری)کی نماز قصر نہیں ہو گی اور روزے بھی رکھے کیونکہ اس کا سفر غیر شرعی اور حرام ہے۔(مجموعہ تبلیغاتی اسلامی کا بیان یہاں ختم ہوا)۔
حیوانات کی تین قسمیں ہیں زمینی،آبی،ہوائی،زمینی جانور دو قسم کے ہوتے ہیں پالتو ،یعنی وہ جانور جو انسانوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور وحشی جو جنگل و بیابان میں رہتے ہیں۔
زمینی حیوانات
پالتو جانوروں میں صرف گائے ،بھیڑ،اونٹ حلال گوشت ہیں اور گھوڑے،گدھے اور خچر کا گوشت کھانا مکروہ ہے۔ان چھ کے علاوہ دوسرے پالتو جانوروں میں مثلاً بلی حرام گوشت ہے۔
جنگلی جانور حلا ل نہیں ہیں سوائے ہرن کی اقسام کے مثلاً پہاڑی بکرا،(بارہ سنگھا)جنگلی گائے،جنگلی گدھا اور خچر ،تمام درندہ جانوروں کا گوشت یعنی ایسے گوشت خور جانور کہ جو نوکیلی چونچ اور پنجہ رکھتے ہوں چاہئے قوی ہوں مثلاً شیر،چیتا،بھیڑیا وغیرہ ضعیف ہوں مثلاً لومڑی،بجو اور اسی طرح خرگوش کا گوشت اگرچہ درندوں میں سے نہیں لیکن حرام ہے۔
حشرات (کیڑے مکوڑوں)کی تمام اقسام کا کھانا حرام ہے مثلاً سانپ،چوہا پالتو ہوں یا جنگلی اور بھنورا،کیڑا ساہی(ایک جنگلی خاردار چوہا)سیاہ بھونرا،جوں وغیرہ۔
ہوائی حیوانات
ہوائی جانوروں یعنی پرندوں میں سے کبوتر کی تمام اقسام حلال ہیں،مثلاً قمری(کبوتر کی طرح کا ایک خوش آواز پرندہ)چکور،بٹیر،تیتر،قطا،مرغابی اور مرغوں کی اقسام اور چڑیوں کی قسمیں مثلاًبلبل،چنڈول(ایک چڑیا کا نام) صرد(موٹے سر اور چونچ والاآدھا سفید اور آدھا سیاہ پرندہ جو چڑیا کا شکار کرتا ہے)ار صواب(خاکستری رنگ لمبی گردن والا پرندہ جو غالباً کھجور کے درختوں پر رہتا ہے)اور شقراق(سبز رنگ کا خوبصورت پرندہ کبوتر کے برابر اور اس کے سیاہ پروں پر سرخ،سبز اور سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں)
چمگادڑ مور اور وہ گوشت خور پرندہ جو پنجہ رکھتا ہو خواہ قوی ہو کہ جو جانور کو چیز پھاڑ سکتا ہو،مثلاشکاری باز،چرخ(ایک قسم کا پرندہ)عقاب شاہین،باشق(ایک شکاری پرندہ جسے باشہ کہتے ہیں)یا ضعیف ہو،مثلا گدھ بنا بر احتیاط کووں کی تمام قسموں سے اجتناب کرنا چاہئے یہاں تک کہ زاغ سے بھی یعنی کھیتوں کے کووں سے اور البقع کہ جس کا رنگ سیاہ اور سفید ہوتا ہے اور وہ موٹے اور سیاہ رنگ کے کوے جو مردار کھاتے ہیں کیونکہ احتمال یہ ہے یہ درندہ صفت پرندوں میں سے ہوں۔
جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس بارے میں روایات میں خاص حکم موجود ہے۔وہ پرندے جن کے بارے میں کوئی خاص حکم وارد نہیں ہوا تو بطور کلی حرام گوشت کو حلال سے جدا کرنے اور اس کی پہچان کیلئے شرع میں دو علامات کا ذکر کیا گیا ہے۔
( ۱) پرواز کے وقت پروں میں سکون سے زیادہ حرکت ہو۔
( ۲) تین چیزیں رکھتا ہو صیصیہ یعنی وہ اضافی انگلی جو پرندے کی ران کے نیچے ہو حوصلہ(پوٹا) اور قانصہ(سنگدانہ)
اور ہر حیوان کا انڈا اسی حیوان کے حکم میں ہے یعنی حلال گوشت حیوان کا انڈا حلال اور حرام گوشت حیوان کا انڈا حرام ہے اور کسی ایسے جانور کا انڈا کہ جس کہ بارے میں ہمیں معلوم نہ ہو کہ حلال گوشت ہے یا حرام گوشت تو اگر اس کا اگلا سرا اور نچلا حصہ برابر نہ ہو مثلاًمرغی اور کبوتر کے انڈے کی طرح تو حلال ہے اور اگر دونوں طرف برابر ہے توحرام ہے۔
ضمناً یاد رکھئے کہ حلال گوشت جانور دو چیزوں کی وجہ سے حرام گوشت ہو سکتا ہے ( ۱) نجاست کھانے سے یا( ۲) انسان کے وطی کرنے کی وجہ سے اور ان دونوں کے احکامات کا رسالہ عملیہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
آبی حیوانات
اور پانی کے جانوروں میں صرف چھلکے والی مچھلی حلال ہے اور اس کے چھلکوں سے مراد حقیقی چھلکے ہیں خواہ اس کے چھلکے بعد میں(کسی وجہ سے گر چکے ہوں)مثلاًکنعت(قبا مچھلی)کہتے ہیں کہ یہ انتہائی شریر ہوتی ہے اور تمام چیزوں پر اپنے آپ کو مارتی اور ملتی ہے ،جس کی وجہ سے اس کے چھلکے گر جاتے ہیں اور غالباً اسکی چھلکوں والی دم باقی رہ جاتی ہے۔
حیوانات کا تذکیہ
وہ حیوانات کہ جو خون جہندہ رکھتے ہوں،شرعاًان کا تذکیہ دو چیزوں سے ہوتا ہے ایک تو شکار کے ذریعے دوسرا ذبح کے ذریعے،شکار میں حلال کرنے کی دو صورتیں ہیں اس سدھائے کتے کے ذریعہ کہ جو حکم مانتا ہو،یعنی جب اس سے کہیں جاو تو چلا جائے اور جب کہیں آو تو آجائے اور اپنا شکار کھانے کا عادی نہ ہو اور کتے کو شکار پر چھوڑنے والامسلمان ہو اور چھوڑتے ہوئے اس نے اللہ کا نام لیا ہو اور کتا شکاری کی نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔
شکار کے حلال ہونے کے دوسرے اسباب تلوارونیزہ اورلوہے کے نوکدار ہتھیار کارتوس وغیرہ ہیں۔اس طرح کے حیوان کے بدن کو پارہ کردے خواہ یہ ہتھیار آہنی ہو یا کسی اور دھات کا بنا ہو شکار کے حلال ہونے کے باعث ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ تیز انداز مسلمان ہو اور تیر چلاتے ہوئے بسم اللہ کہے اور اگر ان شرائط کے ساتھ کتے یا تیروتفنگ سے شکار کا کام تمام ہو جائے تو اس کا کھانا جائز ہے،لیکن اگر شکاری اپنے شکار کو زندہ پالے تو اسے ان شرائط کے ساتھ کہ جن کا ذکر ہو گا ذبح کرے ۔علاوہ ازیں دوسرے مسائل مثلاً چیتے،جال،کمند وغیرہ سے کیا ہوا شکار ناجائز ہے مگر یہ کہ جس وقت شکاری پہنچے تو شکار زندہ ہو اور وہ اسے ذبح کر دے تو جائز ہو گا۔
اس کے علاوہ جنگلی حلال گوشت جانور شکار کرنے سے صرف اس وقت پاک وحلال ہو گا کہ جب وہ فرار ہوسکتا ہو یا پرواز کر سکتا ہو۔اس بنا پر ہرن کا وہ بچہ جو فرار نہ ہو سکتا ہو یا کبک(چکور)کا بچہ جو پرواز نہ کر سکتا ہو تو یہ کتے یا اسلحہ سے شکار کرنے سے حلال و پاک نہیں ہوں گے۔
گوشت کھانے کے با رے میں گفتگو
تفیسر المیزان میں سورہ مائدہ کی تیسری آیت کے ضمن میں تین فصلوں میں مفید باتیں بیان کی گئی ہیں۔جس کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتا ہے۔
( ۱) گوشت کھانے کے بارے میں طرح طرح کے عقائد
بلاشبہ انسان بھی دوسرے حیوانات کی طرح نظام ہاضمہ رکھتا ہے اور اجزائے مادی میں سے ہر وہ چیز جو اسکے کام آسکتی ہے اور جزوبدن بن سکتی ہو اپنی طرف جذب کرتی ہے اس بنا پر طبیعت کے لحاظ سے کوئی مضائقہ نہیں کہ انسان ہر وہ چیز جو چبانے اور نگلنے کے قابل ہو کھائے۔مگریہ کہ نقصان دہ ہونے یا طبیعتاً تنفر کی بناء پر اس سے پرہیز کرے مثلاً وہ سمجھتا ہے کہ فلاں کھانے کی چیز زہر وغیرہ کی بنا پر جسمانی لحاظ سے نقصان دہ ہے یا یہ کہ وہ جان لے کہ فلاں چیز کا کھانا معنوی لحاظ سے اس کے لئے نقصان دہ ہے مثلاً وہ غذائیں جو مختلف مذاہب وشریعتوں میں حرام ہیں۔
تنفر:اگر انسان کسی چیز کو نجس سمجھتا ہو تو نتیجتاًوہ اس سے دوری اختیار کرتا ہے۔مثلاً انسان اپنا پاخانہ نہیں کھاتا کیونکہ اسے گندہ غلیظ سمجھتا ہے اور بعض اوقات اسکی کراہت ونفرت اعتقادی عوامل کی بنا پرہوتی ہے۔مثلاً مسلمان خنزیر کے گوشت کو نجس اور غلیظ سمجھتے ہیں لیکن نصرانی اسے پاک و طاہر سمجھتے ہیں۔غیر مسلم بہت حیوانات مثلاً کیکڑا مینڈک اور چوہا کھاتے ہیں جب کہ مسلمان انہیں برا سمجھتے ہیں۔
پس واضح ہو کہ انسان خصوصاً گوشت کھانے میں مختلف نظریات رکھتا ہے ۔بدھ مذہب کے آئین میں تمام حیوانات کا گوشت کھانا حرام قرار دیا ہے،یہ تفریط دراصل ان حدود کو توڑنے کے نتیجے میں تھی جو کہ قدیم افریقی وحشی قوم اور دوسرے وحشیوں کے درمیان رائج تھی کہ وہ ہر قسم کا گوشت حتیٰ کہ انسان کا گوشت بھی کھاتے تھے عرب کے لوگ چارپایوں کا گوشت حتیٰ کہ دوسرے تمام حیوانات مثلاً چوہا،چھپکلی بھی کھاتے تھے چاہے وہ خود مر جائیں یا دم گھوٹ کر مارا جائے یا کسی اور ذریعے سے انہیں مارا جائے اور کہتے تھے کہ تم لوگ اپنے ہاتھوں سے مارے ہوئے کو تو کھاتے ہو؟لیکن جس کو خدامارے(بغیر تذکیہ کے خود بخود مر جائے)اسے نہیں کھاتے؟
جیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ چین کے بعض بت پرست افراد ہرقسم کے جانور،کتا بلی ،کیڑے،سانپ،مینڈک،سیپی اور دوسرے حشرات بھی کھاتے ہیں لیکن اسلام نے میانہ روی کا راستہ اختیار کیا ہے یعنی ایسا گوشت کہ جسے انسان طبعاً اچھا سمجھے مباح قرار دیا ہے اور اس اجمال کی تفصیل ذیل میں بیان کی گئی ہے۔
چاپایوں میں بھیڑ بکری،گائے،اونٹ کو حلال کیا ہے اور ان میں سے کچھ کو مثلاً گھوڑے،گدھے وغیرہ کو مکروہ قرار دیا ہے اور غیر شکاری پرندوں میں ان کو حلال کیا ہے کہ جو سنگدانہ رکھتے ہوں اور پرواز کے وقت پر مارتے ہوں اور کبوتر کی طرح پنجہ نہ رکھتے ہوں اور دریائی جانوروں میں کچھ مچھلیوں کو حلال کیا ہے۔جن کا فقہ کی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے اور جانوروں کے خون اور مردار اور ہر جانور کہ جسے خدا کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اسے حرام قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں اسلام کا مقصد یہ تھا کہ قانون فطرت یعنی انسانوں کے مستقبل کو بنیادی طور پر گوشت کھانے سے زندہ کرے اور اس ضمن میں صحیح فکر اور طبع سلیم کو بھی محترم گردانا ہے اور فکر صحیح اور طبع سلیم وہ چیز کبھی تجویز نہیں کرتی جو نقصان دہ ہواور جس سے طبع انسان متنفر ہو یاجو بری لگے اور س سے کراہت محسوس ہو۔
( ۲) کسی جاندار کو مارنا کیا رحم کے خلاف ہے؟
ممکن ہے کہ کوئی سوال کرے اور کہے کہ جانور کی بھی روح ہے اور بھی انسان کی طرح موت کی تلخی کو محسوس کرتا ہے۔پس یہ کس طرح مناسب ہے کہ ان کو زندگی جیسی نعمت سے محروم کر دیا جائے اور ان کی حیات کی شرینی کو موت کی تلخی میں بدل دیا جائے جب کہ خدا تو ارحم الراحمین ہے۔اس کی رحمت سے یہ بات کس طرح میل کھاتی ہے کہ وہ حکم دے کہ جاندار کو ذبح کیاجائے تا کہ انسان اس سے لذت اٹھائے اور بہرہ مندہ ہو؟ حالانکہ دونوں کے نفس اور احساس مساوی ہیں۔
اس بات کا جواب یہ ہے کہ جو کچھ اعتراض کے طور پر کہا گیا ہے یہ صرف جذبات واحساسات کے حقائق پر غالب آجانے کی بنا پر ہے(یاد رکھئے)شریعت اور قانون سازی حقیقی مصالح کی تابع ہے نہ کہ خیالی جذبات و احساسات کے ۔اس بات کی توضیح یہ ہے کہ العالم المادہ عالم الم تبدیل و التغیر عالم مادہ عالم تغیر و تبدل ہے اوللعالم عالم الاکل والماکول مرکبات زمینی زمین سے کھاتے ہیں اور زمین کو اپنے اندر ضم کرتے ہیں اور اس کو اپنی صورت میں لے آتے ہیں(جیسے انسان،حیوان اور پرندے وغیرہ)س کے بعد دوبارہ زمین انہیں کھاتی ہے اور فنا کر دیتی ہے۔زمین مسلسل نباتات میں اور نباتات زمین میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اس کے علاوہ جاندار پانی اور نباتات سے استفادہ کرتے ہیں اور کچھ حیوانات دوسرے حیوانات کو (غذا کے طور پر )کھاتے ہیں۔مثلاً درندہ جانور دوسرے جانوروں کا شکار کرتے اور ان کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کے کھاناے کا طبعی نظام ایسا ہے کہ وہ دوسری کوئی چیز نہیں کھاسکتے مثلاً پنجوں والے پرندے دوسرے پرندوں مثلاً کبوتروں اور چڑیوں کی مانند پرندوں کو پکڑتے اور کھاتے ہیں اور چھوٹے پرندے بھی اناج وغیرہ کے دانے ،دانے دار چیزیں اور کیڑے مکوڑے مثلا مکھی،پسو،مچھر وغیرہ کھاتے ہیں اور حشرات انسان اور دوسرے حیوانات کے خون سے استفادہ کرتے ہیں اور نیتجتاً زمین ان سب جانداروں کو کھا جاتی ہے۔
اس بنا پر نظام تکوین اور ناموس خلقت کہ جو تمام موجودات پر مطلق(کسی قسم کی پابندی کے بغیر)حکومت رکھتا ہے اور ہر چیز اس کی تابع ہے خالق فطرت نے اس کاگوشت وغیرہ کھانے کا حکم دیا ہے اور وجود کے اجزاء کی اس طرف راہنمائی کی ہے اور اس نے انسان کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ گوشت و نباتات کھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔وہ بھیڑ کی طرح نہیں ہے کہ نہ دانتوں سے کاٹ سکے اور نہ اٹھاسکے اور نہ ہی درندوں کی طرح ہے کہ نہ چبا سکتا ہو اور نہ نرم کر سکتا ہو۔ان تمام صلاحیتوں کے علاوہ انسان کے منہ میں ذائقہ کی قوت رکھی گئی ہے۔وہ گوشت کھانے سے لذت اٹھاتا ہے اور اس کے علاوہ وہ خواہش غذا جو دوسرے اعضاء ہضم میں قرار دی ہے یہ سب تکوینی و تخلیقی رہنمائی اور ان چیزوں کے مباح و جائز ہونے کی طرف اشارہ ہے اور اسلام ایک دین فطری ہے کہ جس نے ہر وہ چیز کہ جس کی طرف اس کی خلقت رہنمائی کرتی ہے ۔اسے مباح قرار دیاہے۔
اس کے علاوہ دوسرے قوانین بھی وضع کئے ہیں کہ جنہیں خلاق فطرت نے مقرر کیا ہے۔یعنی وہ گوشت جو جسمانی یا معنوی لحاظ سے نقصان دہ ہو یا ہر وہ چیز جو طبع سلیم کو بری لگے اور جس سے نفرت پیدا ہواس سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔خلاصہ ہر وہ چیز جو جسمانی یا روحانی نمویا انسانی معاشرہ کے مصالح کے خلاف ہو اور اسے نقصان پہنچائے مثلاً جوئے یا مخصوس تیر اندازی سے گوشت تقسیم کرنا حرام قرار دیا ہے اور اسی طرح خبائث یعنی نجس چیزیں کہ جو طبیعت انسان کو بری لگیں حرام فرمایا ہے۔
اور باقی اعتراض مہرو محبت اور رحم کی داستان کہ جو جانوروں کے ذبح کرنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں بلاشبہ رحم ایک امر تکوینی و تخلیقی ہے کہ جو انسان کی فطرت اور بہت سے جانوروں میں ودیعت فرمائی ہے اور یہ تکوینی و تخلیقی مہر ومحبت اس لئے نہیں رکھی گئی کہ سب کاموں میں اس کی اطاعت کی جائے کیونکہ خود تکوینی و تخلیقی رحم دلی اور محبت بطور مطلق نہیں۔اگر ایسا ہو تا تو موجودات میں آلام ومصائب اور مختلف قسم کی بیماریوں اور پریشانیوں کا نام و نشان نہ ہوتا اس کے علاوہ رحم و شفقت انسانی عدل کی مانند نہیں کہ جو بذاتہ اخلاق فاضلہ میں سے ہو اور ہر گوشہ زندگی کو احاطہ کرتا ہو(یعنی ہر حالت میں رحم سے کام لینا چاہئے)تو ہمارے لئے مناسب نہیں کہ ہم ظالموں کا مواخذہ کریں یا مجرم کو سزا دیں یا دشمن سے دشمنی کریں اور اگر ہم ایسا کریں تو زمین اور اہل زمین فتنہ و فساد سے ہلاک ہو جائیں۔
لہٰذا بطور عموم یہ حکم دیاہے کہ مہر ومحبت کو پیش نظر رکھا جائے یعنی جانور کو سختی سے اور اذیت دے کر ذبح نہیں کرنا چاہئے اور ذبح کئے ہوئے جانور کی روح جدا ہونے سے قبل اس کے اعضاء کاٹنا اور کھال اتارنا جائز نہیں ہے۔منحنقہ(گلا گھونٹاہوا)اور موقوذہ(اتنا مارا ہوا جس سے وہ مرجائے)کو حرام قرار دیا اور ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے جب کہ وہ دیکھ رہا ہو، ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے اور اسی باب میں تحریر ہے کہ اسلام نے جانور کو ذبح سے پہلے پانی پلانے کا حکم دیا اور جس قدر ہو سکے ذبح ہونے والے جانور کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اس کے علاوہ دوسرے احکام فقہی کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہیں۔
اور رحمت الہٰی کی بات کہ خدا ارحم الراحمین ہے۔رحم الہٰی کا مطلب رقت قلبی اور تاثر شعوری(حس) نہیں بلکہ اس سے مراد مستحق کو اس حد تک فیض ورحمت پہنچانا کہ جس کا وہ سزاوار ہے۔لہذا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کے بارے میں ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ عذاب ہے حالانکہ وہ خدا کی طرف سے رحمت و خیر ہوتی ہے اور اسی طرح اس کے برعکس بھی ۔پس حکمت الہٰی کی نظر سے جائز نہیں کہ قانون بناتے وقت ہمارے جھوٹے احساسات کسی امر خداوندی کو غلط سمجھیں اور حقیقت واقع کے بر خلاف غفلت سے فیصلہ کریں۔گزشتہ باتوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ا سلام نے گوشت کھانے کو جائز قرار دیا ہے اور جو شرائط وقیود اس کے مباح اور جائز ہونے کے لئے مقرر کی ہیں اس میں اس نے فطرت کی پیروی کی ہے۔
فِطْرَةَ اللّٰهِ الَّتِی فَطَرَ النّٰاسَ عَلَیْهٰا لَاتَبْدِیْلَ لَخلْقِ اللّٰهِ ذٰالِکَ الَّذِیْنَ الْقِیِّم
۔
( ۳) اسلام نے زبح کا حکم کیوں دیا؟
دوسرا سوال کہ ہم یہ قبول کرتے ہیں کہ گوشت کھانے کو فطرت اور خلقت نے جائز سمجھا ہے۔تو پس اس سلسلے میں حکم رحم کی رعایت کے لئے اس حیوان پر جو خود مر جائے اکتفا کیوں نہیں کیا گیا؟
اس سوال کا جواب فصل دوم میں جو باتیں تحریر کی گئی ہیں ان سے ظاہر ہو جاتا ہے ۔کیونکہ رحمت کے ایسے معنی لینے کا لازمہ حقیقی احکام کو باطل کرنا ہے اور اسلام نے اسی جذبہ رحم کو نوع انسانی میں قائم رکھنے کے لئے رحم کرنے سے متعلق احکام دیئے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر فقط مردہ وغیرہ کو جائز قرار دے تو نہ صرف اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا جسمانی و روحانی لحاظ سے مردار کھانا نقصان دہ ہے اور یہ خود خلاف رحمت ہے کیونکہ یہ چیز لوگوں کیلئے پر یشانی اور زحمت کا باعث ہوتی اور لوگ جانور کے مرنے تک انتظار کرتے تا کہ اس سے بہر مند ہو سکیں۔(منقول از تفہیم میزان)
یاد رکھیے کہ کھانے کے لئے جانور کو ذبح کرنا اس کے لئے کوئی ظلم نہیں بلکہ اس کے تکامل کے اسباب پورا کرنے کے لئے یہی ضروری ہے۔کیونکہ جانور ذبح سے قبل صابت(خاموش)بے شعور اور بے عقل ہوتا ہے اور کچھ نہیں سمجھتا۔لیکن ذبح ہونے اورانسان کے بدن کا جزوبننے کے بعد ناطق صاحب ادراک اور باشعور ہو جاتا ہے۔مثلاً بھیڑ کی زبان سے کوئی فضیلت اور کمال ظاہر نہیں ہوتا لیکن جب انسان کے بدن کا جز بن جاتی ہے تو حقائق کو آشکار کرتی ہے اور خدا کی حمد وثناء کرتی ہے اور اسی طرح دوسرے اچھے کام اور کمالات کہ جو انسان کے دوسے اعضاء جوارح سے ظاہر و آشکار ہوتے ہیں۔
ذ بح شرعی کے ذریعے تذ کیہ
تذکیہ کے اسباب میں دوسرا ذبح شرعی ہے یعنی (جانور کی )گردن کی چار بڑی رگوں کو پورے طور پر گلے کے ابھرے ہوئے ہوئے حصے سے نیچے کی طرف سے کاٹ دیا جائے(ان چار رگوں سے مراد ایک سانس کی نالی،دوسری کھانے کی نالی اور گردن کی دوموٹی رگین جو سانس کی نالی کے پاس ہوتی ہیں) اور اس کے لئے بھی پانچ شرطیں ہیں۔
( ۱) ذبح کرنے والا مسلمان ہو چاہئے مرد ہو یا عورت اور بچہ بھی اگر برے بھلے کی تمیز رکھتا ہو تو ذبح کر سکتا ہے۔
( ۲) جانور کے سر کو کسی ایسی چیز سے کاٹے جو لوہے کہ ہو لیکن اگر لوہا نہ ہو اور صورتحال یہ ہو کہ اگر جانور ذبح نہ کریں تو مر جائے گا تو کسی بھی تیز چیز سے جو اس کی چاروں رگیں قطع کردے مثلاً شیشہ یا پتھر وغیرہ سے اسے ذبح کر سکتے ہیں۔
( ۳) ذبح کے وقت جانور کی صورت ۔ہاتھ ۔پیر اور شکم قبلہ کی طرف ہونا چاہئے۔لیکن اگر بھول جائے یا قبلہ معلوم نہ ہو کہ قبلہ کدھر ہے یا حیوان کو روبہ قبلہ نہ کر سکتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
( ۴) جس وقت ذبح کرے توخدا کا نام لے اور بسم اللہ کہنا کافی ہے اور اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
( ۵) ذبح ہو جانے کے بعد جانور حرکت کرے خواہ آنکھ پھرائے یا دم ہلائے یا پاوں زمین پر مارے اور احتیاط یہ ہے کہ اتنا خون اس کے بدن سے نکل جائے جیسا کہ عام طور سے نکلتا ہے۔
اونٹ کو ذبح کرتے ہوئے ان پانچ مذکورہ شرطوں کے علاوہ ضروری ہے کہ چھری یا کوئی دوسری لوہے کی چیز جو کانٹے والی ہو اس کی گردن اور سینے کے درمیان اس جگہ پر جہاں گڈھا سا ہوتاہے بھونک دیں۔
اور اگر حیوان سر کش ہو اور اسے شرعی طریقے سے ذبح کرنا ممکن نہ وہ مثلاً کنویں میں گر جائے اور یہ احتمال ہو کہ وہیں مر جائے گا تو اس کے جسم پر جہاں بھی ایسا زخم لگاکہ جس کی وجہ سے اس کادم نکل جائے تو حلال ہو جاتا ہے اور اس کا قبلہ رو ہونا بھی ضروری نہیں لیکن دوسری شرطوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔
مچھلی کا تذکیہ یہ ہے کہ اسے پانی سے زندہ پکڑا جائے پس اگر چھلکے والی مچھلی کو پانی سے زندہ پکڑا جائے اور وہ باہر آکر جان دے تو پاک ہے اور س کا کھانا جائز ہے اور اگرپانی میں مرجائے تو بھی پاک ہے کیونکہ وہ خون جہندہ نہیں رکھتی لیکن اس کا کھانا حرام ہو گا اور ضروری نہیں کہ مچھلی کا شکار کرنے والا مسلمان ہو پس اگر کافر بھی مچھلی کا شکار کرے تو اس کا کھانا حلال ہے۔اس شرط کے ساتھ کہ یہ جانتے ہوں کہ مچھلی پانی سے باہر آکر مری ہے۔
ٹڈی کا تذکیہ اسے زندہ پکڑنا ہے اور جب ٹڈی کو ہاتھ یا کسی دوسرے طریقے سے زندہ پکڑا جائے تو اس کی جان نکلنے کے بعد اس کا کھانا حلال ہے اور ضروری نہیں کہ اسے پکڑنے والا مسلمان ہو اور پکڑتے ہوئے اللہ کا نام لے۔
ایسی ٹڈی کا کھانا کہ جس کے پرنہ پھوٹے ہوں اور اڑنہ سکتی ہو ،حرام ہے شکار یا ذبح کرنے کے بعد اگر جانور کے پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکلے تو اگر اس بچے کے اعضاء پورے ہو چکے ہوں اور جسم پر اون یا بال اگ چکے ہوں تو بچہ پاک ہے۔کیونکہ اس کی ماں حلال گوشت ہے اس لئے اس (بچے)کا کھانا جائز ہے۔
حرام گوشت جانور تذ کیہ سے پاک ہوجا تے ہیں
جس قدر گزر چکا ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ سوائے کتے اور خنزیر کے ہر حرام گوشت جانور تذکیہ شرعی سے پاک ہو جاتا ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے اور اگر تذکیہ نہ ہو تو اس کا مردہ نجس بھی ہو گا۔ہاں اگر خون جہندہ رکھتا ہو اور تذکیہ کے بغیر مر جائے تو اس کا کھانا حرام ہے لیکن وہ نجس نہیں ہے۔مثلاً سانپ اور کیڑے وغیرہ اور ہر حلال گوشت جانور کہ جس کا شرعی تذکیہ ہو چکا ہو تو اس کا کھانا حلال ہے اور اگر بغیر تذکیہ کے مرجائے تو وہ نجس ہے اور اس کا کھانا حرام ہوگا اور اگر خون جہندہ نہ رکھتا ہو تو اس کا کھانا حرام ہے لیکن نجس نہیں ہو گا مثلاً مچھلی کہ جو پانی میں مر گئی ہو۔اس بناء پر مردار کہ جس کا کھانا حرام ہے۔وہ مرادر حیوان ہے جو تذکیہ شرعی کے بغیر مر جائے خواہ مرض کی وجہ سے یا موت کی وجہ سے ہو یا بیرونی اسباب میں سے کسی سبب کی بناء پر اچانک یا آہستہ آہستہ اسکی موت واقع ہوئی ہو چونکہ جانور کی موت بیرونی و ناگہانی موت کی بناء پر کم واقع ہوتی ہے ممکن ہے کہ یہ خیال ہو کہ جانور اس طرح مرنے سے مردار نہیں ہوتا۔آیہ شریفہ میں اس قسم کا بھی خاص طور پر ان پانچ چیزوں میں ذکر کیا گیا ہے اور ان سب کو مردار قرار دیا گیا ہے۔
( ۱) متحنقہ۔وہ جانور جو گلا گھونٹنے سے مر جائے خواہ تصادف کی بناء پر ہو یا کسی نے عمداً گھونٹا ہو خواہ کسی آلے وغیرہ سے گھونٹا جائے مثلاً اس کی گردن میں رسی باندھ کر گلے کو دبایا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے یا اس کے سر کو دولکڑیوں کے درمیان داخل کیا جائے یہ طریقہ اور اس کے علاوہ کئی طریقے زمانہ جاہلیت(اسلام سے قبل)میں رائج تھے۔
( ۲) موقوذہ۔وہ جانور جسے اس قدر مارا جائے کہ وہ مرجائے۔
( ۳) متردیہ۔وہ جانور جو بلندی پر سے گر گیا ہو مثلاً پہاڑ پر سے یا کنویں میں گر کرمرجائے۔
( ۴) نطیحہ ۔وہ جانور جو دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مرجائے۔
( ۵) مٰااَکَلَ السبعوہ جانور کہ جسے درندے نے چیز پھاڑ کر اس کا کچھ حصہ کھالیا ہو تو اس کا باقی ماندہ حصہ مردار ہو۔
اس آیہ شریفہ میں مٰا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِسے مراد زمانہ جاہلیت کے طریقے سے منع ہے۔چونکہ اسلام سے پہلے مشرکین کعبہ کے اطراف میں پتھروں کو نصب کردیتے تھے اور انہیں مقدس اور پرستش کے قابل سمجھتے تھے اور ان کے اوپر جانوروں کو ذبح کرتے تھے۔
اور وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْاَزَلْاٰمِسے مراد قربانی کی بھیڑ یا دوسے چارپائے کو حصے کرنے کے لئے لینے سے منع کیا گیا ہے اور اس وقت اس بات کی تشخیص کے لئے کہ کون حصہ رکھتا ہے اور کون نہیں رکھتا اور دو یا مختلف حصوں کی تشخص کیلئے ہر ایک مخصوص تیر استعمال کرے یہ بھی ایک قسم کا جوا ہے۔چنانچہ جوئے کی بحث میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
مردار کیوں حرام ہے؟
کتاب کافی اور امالی میں مفضل بن عمرو سے روایت کی گئی ہے کہ اس نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ خداوند عالم نے مردار،خون اور خنزیر کے گوشت کو کیوں حرام قرار دیا ہے؟امام نے فرمایا۔
ایسا نہیں ہے کہ خداوند عام نے کچھ چیزوں کو اپنے بندوں کے لئے حرام اور کچھ حلال قرار دیا تا کہ جو حرام ہے(نعوذباللہ)اس سے وہ اپنی خواہش پوری کرے اور حلال چیز سے جب کہ وہ رغبت نہیں رکھتا اس لئے بندوں کا حصہ قرار دیا (خلاصہ خداوند عالم نے اپنے فائدے کے پیش نظر حلال و حرام کا قانون نہیں بنایا)بلکہ(حقیقت یہ ہے کہ )خدا نے جب مخلوق کو پیدا کیاتووہی بہتر جانتا ہے کہ کون سی شئے انسانی جسم کے لئے مفید وضروری ہے لہذا اسے اپنے فضل سے مباح و حلال قرار دیا اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کون سے شئی انسانی جسم کے لئے ضرر رساں ہے لہذا اسے منع کیا اور حرام قرار دیا البتہ انہی حرام چیزوں کو اس شخص کے لئے جو مجبور وہ اور اس کے پاس جان بچانے کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو(انہی حرام چیزوں کو)مباح و حلال قرار دیا۔لیکن صرف اسی قدر(کھانے کی) اجازت دی کہ جس سے اس کی جان بچ جائے۔
ثُمَّ قٰالَ(ع) وَاَمّٰا الْمَیْتَہَ فَاِنَّہُ لٰا یُدْنِیْھٰا اَحَدٌ اِلّٰا ضَعفُ بَدُنُہ وَنَحِلَ جِسمُہُ وَذَھَبَ قُوَّتَہُ وَانْقَطَعَ نَسْلُہُ وَلٰا یَمُوْتُ اٰکِلُ الْمَیْتَةِ اِلّٰا فُجْئاةً(امالی ۔وسائل)
اس کے بعد آپ نے فرمایا مردار کھانے سے جسم کمزور ولاغر ہو جاتا ہے اور قوت ختم ہو جاتی ہے اور نسل منقطع ہو جاتی ہے اور مردار کھانے والے کی موت ا چانک واقع ہوتی ہے۔
شاید ان مفاسد کی وجہ یہ ہو کہ اگر جانور خود مر جائے یا اس کا گلا گھونٹا جائے تو آن واحد میں اس کے بدن میں جاری خون رک جاتا ہے۔گندہ اور فساد آور خون اسکی رگوں میں رہ جاتا ہے اور جانور کے گوشت کو فاسد اور زہریلا کر دیتا ہے اور ذبح کرنے سے یہ خون خارج ہو جاتا ہے اورجانور کا گوشت گندگی اور زہریلے پن سے محفوظ رہتا ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی حدیث احتجاج میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب زندیق نے امام (علیہ السلام) سے پوچھا کہ خداوند عالم نے مردار کو کیوں حرام کیا ہے تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا۔
فَقٰالَ(ع) فَرْقاًبَینَهٰا وَبَیْنَ مٰایَذْکَرَ عَلَیْهِ اسْمُ اللّٰهِ تَعٰالٰی وَالْمَیْتَة قَدْ جَمَدَ فِیْهٰا الدَّمُ وَتَراٰجَعَ اَلٰی بَدَنِهٰا فَلَحْمُهٰا ثَقِیْلٌ غَیْرُ مُرِیّ لِاَنَّهٰا یُوکَلُ لَمْحَمٰا بِدَمِهٰا قٰالَ فَالسَّمَکُ مَیْتَةٌ؟فَقٰالَ(ع) اِنَّ السَّمَکَ ذَکٰاتُهُ اِخرٰاجُهُ حَیّاً مِّنْ الْمٰآءِ ثُمَّ یُتْرَکُ حَتٰی یَمُوْتُ مِِںْ ذٰاتِ نَفْسِه وَذٰالِکَ اَنَّهُ لَیْسَ لَهُ دَمٌ وَکَذٰالِکَ الْجَرٰادِ
(بحار الانوار۔احتجاج امام صادق(ع) ص ۲۵۰)
امام (علیہ السلام) نے فرمایا:مردار حرام کیا گیا تا کہ اس جانور میں اور جس پرخدا کا نام نہ لیا گیا ہوفرق ہو۔اس کے علاوہ چونکہ مردار کا خون بدن سے خارج نہیں ہوتا بلکہ اس کے بدن میں پلٹ جاتا ہے اور منجمد ہو جاتا ہے جس سے اس کا گوشت ثقیل اور ناگوار ہو جاتا ہے اور اس کا گوشت خون کے ساتھ کھایا جاتا ہے تو اس زندیق نے کہا کہ پھر تو مچھلی کا گوشت بھی مردار اور حرام ہونا چاہئے ۔کیونکہ اسکے جسم سے بھی خون خارج نہیں ہوتا۔امام (علیہ السلام) نے فرمایا مچھلی کا تذکیہ یہی ہے کہ اسے پانی سے نکال کر باہر چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ خود مر جائے اور اسے ذبح کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس میں خون نہیں ہوتا اور اسی طرح ٹڈی بھی۔
علامہ مجلسی بحار الانوار کی چوتھی جلد میں اس حدیث کی شرح کے ضمن میں فرماتے ہیں۔چونکہ جانور کا مردہ ہونا اور اس کی حرمت کے دوسبب ہیں۔ایک یہ کہ ذبح و نحر کی شرائط کا خیال نہ رکھنا اور دوسرے ذبح و نحر نہ کرنا۔پس امام (علیہ السلام) نے پہلی صورت میں مردار کے حرام ہونے کی وجہ مذہبی و معنوی حکم قرار دیا ہے ۔چنانچہ اگر خدا کا نام لیا جائے تو دنیوی و اخروی،صوری و معنوی برکتیں انسان کے روح و بدن کا مقدر ہوتی ہیں اور اگر ترک کرے تو ان برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔
اور دوسری صورت میں کہ جب جانور ذبح اور نحر کئے بغیر مر جائے تو وہ خون جو رگوں میں رہ گیا ہے وہ اس گوشت کے ساتھ کھایا جائے گا اور خون کھانے میں جو بڑے مفاسد ہیں انسان ان میں مبتلا ہو جائے گا اور جب سائل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس بناء پر مچھلی بھی حرام اور مردار ہوگی کیونکہ اسے بھی تو ذبح نہیں کیا جاتا اور اس سے بھی خون خارج نہیں ہوتا؟تو امام (علیہ السلام) نے جواب دیا کیونکہ مچھلی میں زیادہ خون نہیں ہوتا اس لئے اسے ذبح کرنا ضروری نہیں کہ اس ذریعے سے خون خارج ہو سکے اور مچھلی میں جو تھوڑا سا خون ہوا ہے وہ ذبح کئے ہوئے جانور میں باقی ماندہ خون کی طرح ہے جو بے ضرر اور حلال ہے۔
خونا
خون کی دو قسمیں ہیں، نجس اور پاک،انسان اور ہر اس جانور کا خون نجس ہے کہ جو خون جہندہ رکھتا ہو،یعنی اگر اس کی شہ رگ کا ٹیں تو خون اچھل کر نکلے۔خواہ کم ہو یا زیادہ اس بناء پر وہ خون جو دودھ دوہتے ہوئے دودھ میں نظر آئے وہ نجس ہے اور دودھ کو بھی نجس کر دیتا ہے اور اس کا پینا حرام ہے اور بنا پر احتیاط وہ معمولی سا خون جو انڈے میں نظر آئے اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیئے۔
لیکن دو طرح کا خون پاک ہے۔ایک ہر اس جاندار کا خون جو خون جہندہ نہیں رکھتا ہو مثلاً مچھلی و مچھر وغیرہ۔دوسرے حلال گوشت جانور کو ذبح کرنے کے بعد جو باقی ماندہ خون رہ جائے وہ حلال ہے۔پس اگر جانورو ں کو حکم شرعی کے مطا بق ذبح کیا جائے اورمعمول کے مطابق خون بہہ جائے تو جسم میں بچا ہوا خون پاک ہے۔لیکن اگر (جانور)کے سانس لینے یا جانور کا سربلندی پر ہونے کی وجہ سے خارج شدہ خون دوبارہ بدن میں پلٹ جائے تو اسکا بقیہ خون پاک نہیں ہو گا۔
اس کے علاوہ بطور کلی خون چاہے پاک ہو یا نجس اس کا کھانا حرام ہے۔لیکن وہ پاک خون جو مچھلی اورذبح شدہ جانور کے بدن کا جزو ہویعنی اگر اس طرح ہو کہ گوشت کا جزو شمار کیا جائے تواس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔البتہ اگر اسے خون کہاجائے تو اس کا کھانا حرام ہے۔
خون کے حرام ہونے کا سبب
تفسیر عیاشی میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا خون (پینا) مرض قلب(شدید پیاس اور جنون) سنگدلی اور بے رحمی کا سبب بنتا ہے اور خون پینے والے سے عین ممکن ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنے والدین یا کسی رشتہ دار یا کسی دوست کو قتل کردے۔
آپ نے فرمایا:وَاَمَّا الدَّمُ فَاِنَّهُ یُورِثُ اَکْثَرُ الْمٰآءِ الْاَصْفَرِ
۔۔۔۔۔۔۔(کافی)
خون کا پینا جسم میں زرد پانی کی تولید کا سبب بنتا ہے۔اور انسانی بدن کو بد بو دار اور انسان کو بد اخلاق بناتا ہے اور اس کی نسل میں ایک طرح کا جنون ہوتا ہے اور دل کو بے رحم بناتا ہے۔(وسائل )
سَئَلَ الزِّنْدِیْقُ اَبٰا عَبْدِ اللّٰهِ(ع) لِمَ حَرَّمَ الدَّمُ الْمَسْفُوْحَ؟قٰالَ(ع)لَاِنَّهُ یُورِثُ الْقَسٰاوَةَوَیَسْلُبُ الْفُئٰوادَ رَحْمَةً وَیُعَفِّنُ الْبَدَنَ وَیُغَیِّرُ اللَّوْنَ وَاَکْثَرَ مٰا یُصِیْبُ الْاِنْسٰانُ الْجُذٰامَ یَکُوْنُ مِنْ اَکْلِ الدِّمِ
۔ ( احتجاج جلد ۴ بحار الانوراص ۲۵۰)
زندیق نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا بہائے ہوئے خون کو حرام قرار دینے کی کیا وجہ ہے؟
امام (علیہ السلام) نے فرمایا خون پینے سے قساوت قلبی اور بے رحمی پیدا ہوتی ہے بدن کو بد بودار کرتا ہے اور رنگ کو متغیر کرتا ہے اور غالباً خون پینے سے انسان کو جذام کو مرض ہوتا ہے۔
حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ خون پینے سے انسان کے جسم میں طاعون،زخم اور پھوڑے پیدا ہوتے ہیں جو غالباً انسان کی موت کا سبب بنتے ہیں،
خنزیر
خنزیر اور کتا دو نجس العین جانور ہیں جن کے بدن کے تمام اجزاء حتیٰ بال اور ناخن کہ جن میں جان نہیں ہوتی،وہ بھی نجس ہیں اور ان کو ذبح کرنا بیہودہ عمل ہے۔یعنی یہ (جانور) کسی بھی طریقے سے پاک نہیں ہو سکتے اور ان کا (گوشت) کھانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔
امام علی رضا (علیہ السلام) خنزیر کا گوشت کھانے کی حرمت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
حَرَمَ الْخِنْزِیْرُ لِاَنَّهُ مُشَوِّهٌ جَعَلَهُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ عِظَةً لِلْخَلْقِ عِبْرَةً وَّ تَخْوِیفاً وَدَلِیْلاً عَلٰی مٰا مَسَخَ عَلٰی خِلْقَتِهِ وَلِاَنَّ غَذٰائٓهُ اَقْذَرُ الْاَقْذٰارِ مَعَ عَلَلٍ کَثِیْرةٍ
(عیون الخبار الرضا (علیہ السلام)۔وسائل باب اول)
خداوند عالم نے خنزیر (کا گوشت) کھانا حرام فرمایا ہے،چونکہ یہ ایک ہیبت ناک اور بد صورت جانور ہے اور خداوند عالم نے اسے اس لئے پید اکیا ہے کہ لوگ(اسے دیکھ کر) نصیحت وعبرت حاصل کریں(یعنی اسے دیکھ کر سمجھ لیں کہ خدا ہر چیز سے زیادہ قوی ہے اور اپنی انسانی شکل کی خوبصورتی پر خدا کا شکر ادا کریں)اور شہوت پر ستی و بے ہودہ باتیں جو اس چیز کا سبب بنتی ہے پر ہیز کریں کہ خداوندعالم ان کی خوبصورتی کو خنزیر کی صورت میں بدل دے اور وہ مسخ ہوجائیں(چنانچہ گزشتہ امتوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ سب لوگ عالم برزخ اور قیامت میں خنزیر کی سیرت کی وجہ سے اسی کی صورت میں محشور ہوں گے) نیز خنیزیر کو انسانو ں میں رکھا تا کہ ان گزشتہ امتوں کی دلیل ہو جو اس صورت میں مسخ ہو گئے تھے اور خنزیر کے گوشت کی حرمت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس کی خوراک انتہائی نجس اور گندی چیزیں ہوتی ہیں اور اس کے خون میں بے شمار مفاسد اور نقصانات ہیںِ
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتا ہیں:
وَاَمّٰالَحْمُ الْخِنْزِیْرِ فَاِنَّ اللّٰهَ تَبٰارَکَ وَتَعٰالٰی مَسَخَ اَقْوٰاماً فِی صُوْرَةٍ شَتّیٰ مِثْلَ شِبْهِ الْخِنْزِیْرِ وَالْقِرَدِ وَ الدُّبِّ وَمٰا کٰانَ مِنَ الْمَسُوْخ ثُمَّ هِیَ عَنْ اَکْلِه لَمْثِلَه یَنْتِفَعُ النّٰاسَ بِه وَلٰا یَسْتَخِفُّوا بِعُقُوْبَتِه
(تفسیر عیاشی اورکتاب الَطعمہ و الاشربہ وسائل باب اول صفحہ ۲۴۸)
خداوند عالم نے کئی قوموں کو مختلف جانوروں کی صورت میں مسخ کر دیا تھا ،انہی میں سے خنزیر وبندر اور ریچھ وغیرہ اور کچھ دوسرے جانور بھی مسخ کئے گئے ہیں ۔پھر ان جانوروں کے کھانے سے منع کیا گیا ہے تا کہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں اور اس کے عذاب کو حقیر نہ سمجھیں۔
انجمن تبلیغات اسلامی کی کتاب،اسلام وعلم امروز میں تحریر ہے خنزیر ایک ایسا جانور ہے کہ جانوروں کے ماہرین اسے موٹی جلد والے جانوروں میں شمار کرتے ہیں اور سبور و حشی خنزیر اور پانی کے گھوڑے کو ایک ہی خاندان کا جز سمجھتے ہیں۔خنزیر کا گوشت کھانے کے بہت زیادہ نقصانات ہیں لیکن فی الحال اس کے کھانے کی ظاہری علت کو بیان کیا گیا ہے۔
خداوند عالم نے خنزیر کا گوشت کھانا سے قوم یہود کو منع کیا اور مسلمانوں پر حرام قرار دیا ہے۔عیسائی آج بھی خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں اور تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ آج جب کہ وہ خنزیر کے گوشت کی حرمت کا سبب سمجھ گئے ہیں۔لیکن پھر بھی اس کے کھانے سے باز نہیں آتے۔ماہرین علم طبیعت آج واضح طور پر سمجھ گئے ہیں کہ خنزیر کے گوشت میں کیا کیا نقصانات ہیں اس دنیا میں اس کے نقصان سے بچنے کا واحد حل یہی تھا کہ اسے حرام قرار دیا جائے۔
وہ ممالک کہ جہاں خنزیر کا گوشت زیادہ کھایا جاتا ہے وہاں پیچش کی بیماری عام ہے اور اس کے برعکس اسلامی ممالک میں جہاں خنزیر کا گوشت بالکل نہیں کھایا جاتا وہاں یہ مرض بالکل نہیں ہے۔
گوشت خنزیر کے نقصانات کی تفصیل
( ۱) معنوی اوراخلاقی نقصانات،علم طبیعت کے لحاظ سے یہ بات مسلم ہے کہ انسان جس بھی جانور کا گوشت زیادہ استعمال کرے تو وہ اسی جانور کے اخلاق سے متصف ہو جاتا ہے ۔مثلاً اگر انسان ہمیشہ گائے کا گوشت کھائے تو گائے کی صفت اور طاقت اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور اگر بھیڑ کا دودھ اور گوشت کھاے تو رحم دلی اور بھیڑ کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔
اسی طرح خنزیر کا گوشت کھانے سے انسان میں خنزیر کی طرح صفات پیدا ہو جاتی ہے۔خنزیر بے حیائی اور بے غیرتی میں مشہور ہے۔اس میں عصبیت جنسی نہیں پائی جاتی۔یہ وہ بے غیرت جانور ہے جو دوسرے خنزیر کو اپنے مادہ کی طرف دعوت دیتا ہے اور پھر خوش ہوتاہے۔غرض کہ جتنی بھی جنسی بے غیرتی ہے اور بے شرمی کی باتیں ہیں وہ سب اس کے اندر جمع ہیں۔تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ یورپی بھی اس جانور کی برائی کو سمجھتے ہیں اور جب بھی کسی کو بے حیائی و بے غیرتی کا طعنہ دینا ہو تو اسے خنزیر کے نام سے پکارتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی گالی اورخنزیر کا دوسا معنوی نقصان یہ ہے کہ یہ غلاظت خور ہے۔جب بھی پاخانہ کرتا ہے اسے کھا لیتا ہے اور کسی چیز کا خیال نہیں رکھتا نتیجتاًاس کا وجود سرپاگندگی ہے۔
یہ بد صورت جانور کہ جسے دیکھ کر انسان کراہیت محسوس کرتا ہے گندا اور سراپا گندگی اور کثافت کھانے والا یہ وہی جانور ہے کہ جسے مغربی نادان لوگ اس کے نقصانات جانتے ہوئے بھی مہنگی قیمت پر خریدتے ہیں اور اس کی آنتوں کو اس کے خون اور چربی سے پر کر کے انتہائی شوق سے کھاتے ہیں ،بجائے اس کے کہ کم قیمت پر بھیڑ کے سالم گوشت سے فائدہ اٹھائیں وہ بہت زیادہ قیمت دے کر اپنے لئے بد بختی خریدتے ہیں۔ مشہور ہے کہ خنزیر مظہر شیطان ہے اور بالعموم یہ فکر خود مغربی لوگوں کی ہے جو کہ اس جانور کے مرید ہیں۔چنانچہ اپنے مذہبی قصوں میں جب بھی شیطان کا تجسم پیش کرتے ہیں تو اسے خنزیر کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔انجیل برنایا میں ان حقائق کی وضاحت ان کی تحریر سے ہوسکتی ہے۔انہوں نے خنزیر کو مظہر شیطان کہا ہے اور کہتے ہیں کہ اس حیوان کے بدن میں شیطان کی روح ہے ۔انجیل کہ جو فعلاً عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے۔اس میں بھی اس بات کی تائید کی گئی ہے۔چنانچہ متی میں ۸ ۔ ۲۳ اور مرقس ۵ ۔ ۱ تک اور لوقا ۸ ۔ ۲۸ تک ۳۹ حضرت عیسیٰ کا شیطان کو خنزیر کے گلے میں داخل کرنا اور اس گلے کو ندی کی طرف بھیجنے کی تشریح کی گئی ہے۔اس بناء پر معنوی لحاظ سے عیسائی بھی خنزیر کا گوشت کھانے کی برائی جانتے ہیں ۔لیکن پھر بھی اس کا گوشت کھانے سے اجتناب نہیں کرتے۔
( ۲) جسمانی نقصانا
جسمانی لحاظ سے خنزیر کے بہت زیدہ نقصانات ہیں لیکن اس میں سے دو بہت زیادہ اہم ہیں ایک تو ٹریکین( Trichine )سور کے گوشت کا کیڑاٹریکنوز ( Trichinoes ) (سور کے کیڑے کی بیماری)اور دوسرے کرم کدو کہ جس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے۔
( ۳) تڑیکینا
یہ ایک چھوٹا جاندار ہے جو خنزیر کے گوشت میں اپنی جگہ بناتا ہے تڑیکین ایک کیڑا ہے کہ جس میں نر ایک سے ڈیڑھ ملی میٹر تک ہو تا ہے اور مادہ تین ملی قطر رکھتی ہے ۔ایک مادہ کے عرصے میں دس سے پندرہ ہزار تک انڈے دیتی ہے ۔صرف خنزیر کا گوشت کھانے سے تریکین انسان کے بدن میں داخل ہوجاتے ہیں اور شروع میں خون کے سرخ جرثومے زیادہ ہو جاتے ہیں اور بعد میں ختم ہو جاتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ سرخ جرثومے انتہائی کم ہو جاتے ہیں اور انسان خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے اور ممکن ہے کہ یہی حالت اسے موت کی طرف دھکیل دے۔
جب تڑیکین معدے میں داخل ہوتے ہیں تو معدے کی رطوبتوں کے اثر انداز ہونے کی بنا پر ان کے جھتوں کی مضبوط دیوار ٹوٹ جاتی ہے اور تیزی سے اپنی نسل میں اضافہ کرتے ہیں اور معدے اور خون کے ذریعے بدن میں داخل ہو جاتے ہیں۔
اس کا سب سے پہلا اثر سر چکرانا اور مخصوص قسم کا بخار ہے۔یہ بخار نظام ہاضمہ سے مربوط ہو جاتا ہے اور اسہال(دست)( Diarrhoea )شروع ہوجاتے ہیں۔یہ بخار شروع میں کم ہوتا ہے لیکن آہستہ آہستہ زیادہ اور پرانا ہو جاتا ہے۔
اور دوسرے مختلف امراض مثلاً اعصاب میں کھنچاو بدن میں خارش Itch ) تمام بدن میں سخت سستی و تھکاوٹ کا ہونا ۔بدن میں انتہائی کمزوری کی بناء پر دردوں کا رہنا وغیرہ اور چار پانچ روز ہی میں موت سر پر منڈلانے لگتی ہے۔
اور مرض کے دوسرے آثار بھی مریض کے چبانے،نگلنے اور سانس لینے کے عمل سے ظاہر ہوتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ موت دوسرے عوامل کی بناء پر واقع ہو۔کیونکہ یہ کیڑے اپنے قیام کے تیسرے ہفتے میں معدے کے عضلات پر حملہ شروع کر دیتے ہیں اور ساتویں ہفتے میں انتہائی زیادہ ہو جاتے ہیں۔کمزور مرض قوی ہو جاتا ہے اور مریض کو مار دیتا ہے۔
تڑیکین کیڑوں سے جو مرض پیدا ہو تا ہے وہ( Trichinoes )ٹریکنوز کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مرض ان ممالک میں بہت زیادہ ہے جہاں خنزیر کا گوشت کثرت سے استعمال ہوتاہے اور اسلامی ملکوں میں کہ جہاں خنزیر (کا گوشت) حرام ہے ،یہ مرض بالکل نہیں ۔جب تڑیکین معدے میں داخل ہو جائیں تو پھر کیڑے مار کوئی بھی دوائی ان کو دور کرنے پر قادر نہیں ہے جب بھی نو مولود تڑیکین عضلات میں نفوذ کر جائیں تو اسکا کوئی علاج نہیں اور ہر صورت میں مریض کو موت سے ہمکنار کر دیتے ہیں۔
اس مرض کے خطرناک ہونے اور سرایت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ خنزیر کے ایک کلو گوشت میں ممکن ہے کہ ۴۰۰( چار سو)ملین نومولود تڑیکین ہوں۔
( ۴) پیچش کی بیماریا
خنزیر کا گوشت کھانے سے انسان پر جو خطرناک ترین بیماریاں عارض ہوتی ہیں ان میں سے ایک پیچش کا مرض ہے کہ جس کی تولید کا عمل تنہا کرم کدو ہے اس کیڑے کا بدن ایک سر سے مرکب ہے کہ جس کے دو زنجیری حلقے اور چار شاخیں ہوتی ہیں کہ جس کے ذریعے یہ اپنے آپ کو انسان کے معدے کی دیوار سے چپکا لیتا ہے۔سر کے بعد زنجیر حلقے سے بہت زیادہ لمبی ہوتی ہے جو اس کے بدن کو تشکیل دیتا ہے اور کبھی یہ حلقہ مجموعاً کئی میٹر تک ہو جاتا ہے ۔سر کے نزدیک کا حلقہ بہت چھوٹا ہو تا ہے اور جس قدر اس سے دور ہوتا جاتا ہے ،حلقہ اتنا ہی سخت ہو جاتا ہے اور ہمیشہ نئے زیادہ کرتے ہیں لیکن بدن کے آخری حلقے جو انڈوں سے بھرے ہوئے ہیں وہ علیحدہ ہو کر پاخانے کے ساتھ خارج ہو جاتے ہیں۔ہر حلقہ میں تنہا دو جنس نر اور مادہ ہوتے ہیں جس جس سے تولید کا عمل جاری رہتا ہے ۔وہ انڈے جو اس ذریعے سے (پاخانے)کے ساتھ خارج ہوتے ہیں،خنزیر انہیں کھا لیتا ہے اور اسی وجہ سے انڈے خنزیر کے معدے میں چلے جاتے ہیں اور اس طرح وہ انڈے دوبارہ تولید کا عمل شروع کر دیتے ہیں۔اگر اس خنزیر کے گوشت کو انسان کھائے تو (بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ خنزیر کے گوشت میں نو مولودتنیانہ ہوں۔وہ کیڑے جیسے ہی انسان کی آنتوں میں داخل ہوتے ہیں،نمو پاتے ہیں اور تنیابن جاتے ہیں۔جیسا کہ کہا جاتا ہے ۔اس کے برعکس یہ کرم کدو ایک زیادہ نہیں ہے۔ممکن ہے کہ کئی کیڑے انسان کے بدن میں داخل ہوں ۔کرم کدو کا وجود انسان کے بدن میں بہت زیادہ بیماریوں کا موجب بنتا ہے اور ماہرین کے کہنے کے مطابق اس سے بچنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ خنزیر کا گوشت نہ کھایا جائے۔
پیچش کا مرض ان ممالک میں بہت زیادہ ہے جہاں پر خنزیر کا گوشت کثرت سے استعمال ہو تا ہے جیسے جرمنی میں۔
خنزیر کے گوشت کے نقصانات صرف ان ہی چیزوں پر منحصر نہیں بلکہ خنزیر کا گوشت ثقیل الہحضم اور معدے کے لئے انتہائی تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔
خنزیر کا گوشت کھانے سے غالباً انسان میں زہر پیدا ہوتا ہے کہ جسے اصطلاح عملی میں بوتولیسیم کہتے ہیں۔
در حقیقت ان لوگوں کی حالت پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ جو عملی تجربات کی بناء پر خنزیر کا گوشت کھانے کے نقصانات سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے پرہیز نہیں کرتے اور اس بارے میں دین اسلام کی عظمت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ جس نے آج سے ایک ہزار تیس سو سال پہلے کہ جب دنیا ان مسائل سے بہت دور تھی خنزیر کے گوشت کے نقصانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے حرام قراردیا ۔
اور اسی طرح کتے کے بارے میں کہ جسے دین اسلام نے نجس العین قرار دیا اور اسے گھر میں رکھنے سے منع فرمایا ہے۔بالآخر یہ حقیقت بھی عیاں ہو گئی کہ کتے سے بہت سی بیماریاں انسان میں منتقل ہوتی ہیں مثلاً خارش،گنجا پن اور دوسرے جلدی امراض جو سمبیوں کے اثر سے پیدا ہوتے ہیں۔مثلاً بھاری اور سب سے بڑا مرض کرم کدو سگ ہے اور کتے سے مختلف قسم کی جوئیں انسان میں منتقل ہوتی ہیں اور پھیپھڑوں کا مرض وغیرہ۔
ان میں سے ہر مرض کی تفصیل مذکورہ کتاب میں ذکر کی گئی ہے اور مزید لکھتے ہیں کہ یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ کتے کے برتن چاٹنے سے جو جراثیم برتن پر لگ جاتے ہیں وہ مٹی کے علاوہ کسی چیز سے دور نہیں ہوتے چنانچہ اسلام میں بھی اس کے پاک ہونے کا انحصار صرف مٹی ملنے پر ہ
تَرْکُ الصَّلٰاةِ عَمْداً
(نماز کو عمدا ًترک کرنا)
کبائر منصوسہ میں سے چھیتس واں گناہ نماز کو عمداً ترک کرنا ہے۔چنانچہ عبدا لعظیم کے صحیفہ میں امام محمد تقی ،امام علی رضا ،امام موسی کاظم اور امام جعفر صادق سے اسکی تصریح کی گئی ہے۔اور اسی طرح امیر المومنین علی (علیہ السلام) سے نقل کی گئی روایت میں بھی اس کے کبیرہ ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔چونکہ نماز کا وجوب اسلام کے مسلمہ احکامات میں سے ہے۔پس جو کوئی (نماز کے وجوب کا )انکار کرتے ہوئے نماز نہ پڑھے تو وہ کافر اور دین اسلام سے خارج ہے کیونکہ نماز کا انکار رسالت کا انکار اور قرآن مجید کو تسلیم نہ کرنا ہے اور ایسا شخص کافر ہے۔اور اگر نمازکے وجوب کا منکر نہ ہو اور قرآن پاک اورخاتم الانبیآء (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رسالت کو حق مانتا ہو،اور اعتقاد رکھتا ہو کہ نماز خداوند عالم کی طراف سے واجب کی گئی ہے لیکن سستی اور لا پرواہی کی بناء پر ترک کرتا ہو تو ایسا شخص فاسق ہے۔
صورت اول کے پیش نظر وہ روایات جو تارک نماز کے کافر ہونے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں بہت زیادہ ہیں اور مضمون سب کا ایک ہے۔(لئالی الاخبار صفحہ ۳۹۴ وصلوة وسائل)
امام جعفر صادق (علیہ السلام)فرماتے ہیں:
(قٰالَ علیه السلام) جٰآءَ رَجُلٌ اِنیٰ النَّبِیّ (صلی الله علیه و آله) فَقٰالَ یٰارَسُوْلَ اللّٰهِ (صلی الله علیه و آله) اَوْصِنِیْ فَقْالَ (صلی الله علیه و آله) لٰا تَدَعْ الصَّلٰوةَ مُتَعَمِّداًفَانِّ مَنْ تَرَکَهٰا مُتَعَمَّداً فَقَدْبَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّتُه الْاِسْلٰامِ
(صلات وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحہ ۲۹)
ایک شخص رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے وصیت فرمائیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ نماز کو عمداً ترک نہ کرو کیونکہ جو کوئی جان بوجھ کر نماز ترک کرتا ہے تو وہ ملت اسلامی سے خارج ہے۔رسول خدا فرماتے ہیں۔
عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ (ع) قٰالَ(ع)قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ (صلی الله علیه و آله) مٰامِنْ بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَبَیْنَ اَنْ یَّکْفُرَ اَنْ یَتْرُکَ الصَّلٰوةَ الْفَرِیْضَتَه مُتَعَمِّداً اَوْ یَتَهٰاوَنَ بِهٰا فَلٰا یُصَلِّیهٰا
(وسائل الشیعہ ج ۳ ص ۲۹)
جو چیز مسلمان کو کافر کر دیتی ہے وہ واجب نماز کو جان بوجھ کر ترک کرنا یا اسے حقیر و سبک سمجھ کر نہ پڑھنا ہے۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے یہ بھی فرمایا
مٰا بَیْنِ الْکُفْرِ وَالْاِیْمٰانِ اِلّٰا تَرْکُ الصَّلٰوةِ
(وسائل الشیعہ ج ۳ ص ۲۹)
"سوائے نماز کو ترک کرنے کے ایمان و کفر کے درمیان کائی فاصلہ نہیں ہے۔"
علامہ مجلسی شرح کافی میں فرماتے ہیں کہ ان روایات میں سے بعض اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام واجبات کو یا ان میں سے کچھ کو جان بوجھ کر ترک کرنا کفر ہے۔اور یہ خود کفر کے معانی میں سے ایک ہے کہ جو آیات و احادیث میں وارد ہوا ہے چنانچہ وارد ہوااِنَّ تٰارِکَ الصِّلٰوةِ عَمْداً کٰافِرٌ وَتٰارِکَ الزَّکٰاةِ کٰافِرٌ وَتٰارِکَ الْحَجِّ کٰافِرٌ
جان بوجھ کر نماز کو ترک کرنے والا کافر ہے،یا زکوٰة نہ دینے والا کافر ہے اور جوکوئی حج کو ترک کرے گا وہ کافر ہے۔
یہی سبب ہے کہ روایات واردہ میں بالخصوص ترک واجبات کو جزو گناہان کبیرہ قرار نہیں دیا اور شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ حرام کام کے ارتکاب میں غالباً انسان پر شہوت غالب آجاتی ہے اور سے گناہ پر اکساتی ہے۔
مثلاً زنا،یا یہ کہ انسان پر غصہ غالب آجائے اور ظلم،بد زبانی مار اور قتل جیسے ظلم پر آمادہ کرے۔واجبات کے ترک کرنے مثلاً نماز میں شہوت یا غصے کو کوئی دخل نہیں جو اسے ترک نماز پر اکسائے ۔نماز کو ترک کرنے کا سبب فقط دینی حکم کو سبک و حقیر سمجھنا اور سستی برتنا ہے ۔اس بناء پر واجبات کو ترک کرنا خداوند عالم کے ساتھ کفر کرنے میں داخل ہے۔
نماز ترک کرنے میں دین کو اہمیت نہ دینا ظاہر وآشکار ہے خصوصاًاس حدیث میں نماز کے ترک کرنے کو کفر جانا ہے ۔کیونکہ زکوٰة و حج کو ترک کرنے کا سبب بعض اوقات مال کی لالچ ہوتی ہے ۔اور روزہ کے ترک کرنے میں ہو سکتا ہے کہ پیٹ کی بھوک رکاوٹ بنے لیکن نماز کو ترک کرنے کا سبب سوائے دین کو سبک سمجھنے کے اور کچھ نہیں۔
صدو ق علل الشرائع میں نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا گیا کہ زنا کرنے والے کو کافر اور شرابی کیوں نہیں کہا جاتا جبکہ نماز ترک کرنے والے کو کافر کہا جاتا ہے۔ امام (علیہ السلام) نے فرمایا زنا وغیرہ شہوت کے غالب آنے کی وجہ سے ہوتے ہیںوَتٰارِکُ الصَّلٰوةِ لٰا یَتْرُکُهَا اِلَّا اسْتِخْفٰا فاًبِهٰا
لیکن نماز ترک نہیں کی جاتی سوائے اس کے کہ اسے حقیر سمجھا جائے کیونکہ زنا کرنے والا زنا سے لذت حاصل کرتا ہے اور اس لذت کو حاصل کرنے کے لئے وہ زنا کرتا ہے لیکن نماز ترک کرنے والا ترک نماز سے کوئی لذت نہیں اٹھاتا۔
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ واجبات کا ترک کرنا اگر دین کو سبک سمجھنے کی بناء پر ہو تو یہ کفر ہے۔پیغمبر اکرم فرماتے ہیں لَیْسَ مِنّٰا مِنَ اسْتَخَفَّ بِصَلٰاتِہوہ ہم سے نہیں جو نماز کو حقیر سمجھے اور دوسری حدیث میں ہے اسے ہماری شفاعت حاصل نہ ہوگی اور جونشہ آور چیزیں استعمال کرتا ہو وہ ہم میں سے نہیں اور خدا کی قسم جو شراب پیتا ہووہ حوض کوثر پر وارد نہیں وہ سکے گا( فروع کافی ج ۳ ص ۲۷۱) اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے وقت رحلت فرمایا۔
قٰالَ اَبُوالْحَسِنِ(ع) لَمّٰا حَضَرَ اِبَی الْوَفٰاةُ قَالَ لِیْ یٰا بُنیَّ اِنَّهُ لٰا تَنٰالُ شَفَاعَتُنٰا مَنِ اسْتَخَفَّ بِالصَّلٰوةِ
۔( فروع کافی ج ۳ ص ۲۴۱)
حضرت ابوالحسن موسیٰ بن جعفر سے مروی ہے کہ میرے والد بزرگوار نے وقت رحلت مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہم اہل بیت کی شفاعت ایسے کسی شخص کو حاصل نہ ہو گی جو نماز کو سبک سمجھتا ہو۔
کچھ بے عقل لوگوں کی غلط فہمی
بعض بے نمازیوں میں سے کچھ کو جب نصیحت کی جاتی ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ نماز کیوں نہیں پڑھتے تو ،وہ جواب میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نماز وروزے کا محتاج نہیں حالانکہ ان کا یہ جواب ایک شیطانی خیال ہے یعنی ان کا نماز ترک کرنے کا سبب پروردگار عالم کی بے نیازی نہیں بلکہ صرف ان لوگوں کی جہالت کاسبب ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو پروردگار عالم کا بندہ اور محتاج نہیں سمجھتے اسی لئے اس سے بندگی کے رابطے کو توڑ لیا ہے اور اس کے علاوہ اپنے آپ کو اس کے احسان اور نعمتوں میں گھرا ہوا نہیں سمجھتے اسی لئے انہوں نے شکر گزاری اور وظیفہ بندگی کی ادائیگی کوترک کر دیا ہے دوسرے لفظوں میں انکا نماز ترک کرنے کا سبب ان کی سختی و سنگدلی ،ظلم و زیادتی اور ہٹ دھرمی ہے اور جیسا کہ خداوندعالم کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وَضْعُ کُلُّ شیْءٍ فِیْ مَحَلِّہ ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھے۔تو وہ نفوس جو غلیظ اور پتھر اور لوہے سے زیادہ سخت ہیں انہیں جہنم میں جگہ دے اوران کے برعکس جیسا کہ آیات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیک و صالح افراد جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں انہیں دار السلام میں جگہ دے۔
قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ
نماز ترک کرنا وہ گناہ ہے کہ جس کے بارے میں قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے چنانچہ خداوند عالم سورہ مدثر میں فرماتا ہے۔
(
فِی جَنّٰاتٍ یَّتَسٰائٓلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِینَ مٰاسَلَکَمُ فِیْ سَقَرٍ؟ قٰالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ وَکُنّٰا نَخُوضُ مَعَ الْخٰائِضِیْنَ وَکُنّٰانَکُذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنَ
)
۔(سورہ مدثر آیت ۴۰ ۔ ۴۶)
جنتی لوگ جہنمیوں سے پوچھ رہے ہوں گے کہ آخر تمہیں دوزخ میں کون سی چیز گھسیٹ لائی وہ لوگ کہیں گے کہ ہم نہ تو نماز پڑھتے تھے۔اور نہ محتاجوں کو کھانا کھلاتے تھے۔(واجب صدقات کو ادا نہیں کرتے تھے)اور اہل باطل کے ساتھ ہم بھی برے کام میں گھس پڑے تھے اور روز جزا کو جھٹلایا کرتے تھے۔
اور سورہ قیامت میں خداوند عالم فرماتا ہے:
"(
فَلٰا صَدَّقَ وَلَاٰ صَلّٰی وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلیّٰ ثُمَّ ذَهَبَ اَلٰی اَهْلِهِ یَتَمَطَّی
)
"
کافر یہ گمان کرتا ہے کہ وہ ہرگز اٹھایا نہیں جائے گا اسی لیے نہ پیغمبروں کی تصدیق کرتا ہے تاکہ کوئی ذمہ داری نہ آپڑے (یا واجب صدقہ نہیں دیتا اور نہ ہی مقام بندگی اور عبادت میں بڑھتا ہے)اور نہ ہی نماز گزار بنتا ہے بلکہ فرستادہ خدا کی تکذیب کرتا ہے اورحق پرستوں سے روگردانی کرتا ہے اور غرور تکبر کے عالم میں اپنے گھر کی طرف اتراتا ہوا چلتا ہے۔(سورہ قیامت آیت ۳۱ ۔ ۳۲)
ان آیات میں منکرین معاد اور کافروں کی بری صفات میں سے کچھ بیان کی گئیں ہیں:
( ۱) پیغمبروں کی تصدیق نہیں کرتے اور خدائے واحد کے وجود کا اقرار نہیں کرتے۔
( ۲) نماز نہیں پڑھتے حالانکہ نماز ایمان کی اہم علامتوں میں سے ہے اور اسکا ترک کرنا کفر ہے۔
( ۳) پیغمبروں کی طرف دروغ گوئی کی نسبت دیتے ہیں۔
( ۴) حق بات سے روگردانی کرتے ہیں۔
مقام تہدید اور ان کی ہلاکت کی خبر دینے کے بعد فرماتا ہے اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی مفسرین میں سے بعض نے کہا اس کلمے کے معنی وَیْلٌ لَّکَ ہیں اور چار مرتبہ اسکی تکرار تاکید کے لئے ہے۔یاچار مرتبہ اشارہ سے مراد ہلاکت ہے یعنی دنیا میں ہلاکت ،قبر میں عذاب،قیامت میں وحشت اور دوزخ میں ہمیشہ کا قیام۔اور سورہ مٰاعُوْن میں فرماتا ہے فَوَیْلٌ لِّلْمُسَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلٰاتِھِمْ سٰاھُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ یُرٰائٓوُنِ(سورہ ماعون آیت ۴ ۔ ۶) ان نمازیوں کی تباہی ہے جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں جو دکھاوے کے واسطے کرتے ہیں۔یعنی کیونکہ وہ اس کے ثواب پر اعتقاد نہیں رکھتے اور ترک نماز پر عذاب سے نہیں ڈرتے اور یہ کہ ظاہراً تو نماز پڑھتے ہیں تا کہ انہیں مسلمانوں سے کوئی گزند نہ پہنچے تنہائی میں نماز نہیں پڑھتے اور مستحقین کو زکوٰة نہیں دیتے۔
وَیْلٌ (سخت عذاب) ہے نماز میں غفلت کرنے والوں کے لئے ،نماز جو کہ دین کا ستون ہے،اور اسلام و کفر کے درمیان سرحد ہے ۔وَیْلٌ جہنم کے طبقات میں سے ایک طبقے کا نام ہے۔یا اس میں موجود ایک کنویں کا نام ہے یا عذاب کا کلمہ ہے اور اس پر تنوین بڑائی کو ظاہر کرتی ہے یعنی بڑا عذاب۔سورہ مریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(
فَخَلَفَ مَنْ بَعْدِهِمِ خَلْفٌ اَضٰاعُو الصَّلٰوةَ واَتَّبَعُوا الشَّهَوٰاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیّاً
)
۔(سورہ مریم آیت ۵۹)
پھر ان (پیغمبروں)کے بعد کچھ نا خلف(ان کے)جانشین ہوئے۔جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور نفسانی خواہشات کے چیلے بن گئے عنقریب ہی یہ لوگ غی میں پہنچیں گے۔(غی جہنم کی ایک وادی ہے جہاں پر جہنم کے دوسرے طبقوں سے زیادہ شدید تر عذاب ہے اور اہل جہنم اس کے عذاب سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ابن عباس سے منقول ہے کہ اس میں ایسا سانپ ہے کہ جس کی لمبائی ساٹھ سال اور چوڑائی تیس سال کی مسافت کے برابر ہے اور جب سے وہ پیدا کیا گیا ہے وہ اپنا منہ فقط نماز کو ترک کرنے والے اورشرابی کو نگلنے کے لئے کھولتا ہے۔سورہ روم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَلٰا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ
)
(سورہ روم آیت ۳۱)
پابندی سے نماز پڑھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاو۔اس آیت میں اشارہ ہے کہ نماز ترک کرنے والا بت پرست اور مشرک کے ساتھ برابر ہے۔نماز کی اہمیت کے بارے میں قرآن مجید کی آیات بہت زیادہ ہیں لیکن جو کچھ تحریر کیا گیا وہی کافی ہے۔
ترک نماز پر پندرہ د نیوی اور اُخروی نتائج
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں جو اپنی نماز کو سبک سمجھتا ہو اور اس کی انجام دہی میں سستی کرتا ہو خدائے عزوجل اسے پندرہ بلاوں میں مبتلا کردے گا(جس میں سے) چھ دنیا سے متعلق ہیں اور تین جان کنی کے عالم سے اور تین قبر سے اور تین روزقیامت سے متعلق ہیں یعنی جب وہ اپنی قبر سے باہر آئے گا وہ چھ بلائیں جو دنیا سے متعلق ہیں یہ ہیں۔
( ۱) خداوند عالم اس کی عمر کو کم کر دے گا۔
( ۲) اور اس کا رزق ختم کر دے گا۔
( ۳) نیک لوگوں کی علامتیں اسکے چہرہ سے ختم کر دے گا۔
( ۴) جو بھی نیک کام کرے گا قبول نہیں ہو گا اور اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا۔
( ۵) اس کی دعا قبول نہیں ہوگی۔
( ۶) نیک لوگوں کی دعاوں سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
وہ تین بلائیں جو موت کے وقت سے متعلق ہیں:
( ۱) ذلت و خواری کی موت مرے گا۔
( ۲) بھوک کی حالت میں مرے گا
( ۳) پیاسا اور پیاس کی حالت میں اس طرح مرے گا کہ اگر دنیا کی نہروں کو پی لے پھر بھی وہ سیراب نہیں ہوگا۔
اور وہ تین بلائیں جو قبر میں اس تک پہنچیں گی:
( ۱) ایک فرشتے کو اس پر مقرر کیا جائے گا کہ اسے فشار دے اور سرزنش کرے۔
( ۲) اس کی قبر کو اس کے لئے تنگ کر دیا جائے گا۔
( ۳) اس کی قبر تاریک اور ہول ناک ہو گی۔
اور قیامت سے متعلق تین بلائیں یہ ہیں
( ۱) فرشتہ اسے حساب کے لئے اس طرح کھینچ رہا ہوگا کہ حساب کے مقام پر تمام لوگ اسے دیکھ رہے ہوں گے۔
( ۲) اس کے حساب میں سختی ہو گی۔
( ۳) خداوند عالم اس پر رحمت کی نظر نہیں کرے گا اسے پاکیزہ نہیں کرے گا اور اس کے لئے یہ درد ناک عذاب ہے۔
اہم ترین واجب الہیٰ
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہاَوَّلُ مٰا یُحٰاسِبُ بِهِ الْعَبْدُ اَلصَّلٰوْةَ فَاِنْ قُبِلَتْ قُبِلَ سَآئِرُ عَمَلِهِ واِنْ رُدَّتْ عَلَیْهِ رُدَّ عَلَیْهِ سٰائِٓرُ عَمَلِهِ
(بحار الانورا جلد ۱۸ صفحہ ۵۲) قیامت میں سب سے پہلے جس عمل کے بارے میں انسان سے باز پرس ہو گی وہ نماز ہے اگر وہ قبول ہو گئی تو دوسرے اعمال بھی قبول ہو جائیں گے اور اگر وہ رد کر دی گئی تو دوسرے اعمال بھی رد کردیئے جائیں گے۔
سَئَلَ مُعٰاوِیَتهِ بْن وَهَبِ اَبٰا عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السّٰلامُ عَنْ افَضْلَ مٰایَتَقَرَّبُ بِهِ الْعِبٰادُ اِلَی اللّٰهِ فَقٰالَ عَلَیهِ السَّلٰامُ مٰا اَعْلَمُ شَئاً بَعْدَ الْمَعْرِفَتهِ اَفْضَلُ مِنْ هٰذِهِ الصَّلٰوةِ اَلَا تَرٰی اَنَّ الْعَبْدَ الصّٰالِحَ عِِیْسی بِنْ مَرْیَمَ قٰالَوَاَوْصٰانِی بِالصّلوةِ وَالزَّکٰوةِ مٰادُمْتُ حَیاً وَسَئَلَ النّبِیُّ (صلی الله علیه و آله) عَنْ اَفْضَلِ الْاَعْمٰالِ فََقٰالَ (صلی الله علیه و آله) الصَّلٰوةُ لِاَوَّلِ وَقِتْهٰا
۔
( فروع کافی ج ۳ س ۲۶۴)
معاویہ امن وہب نے امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے پوچھا کہ وہ سب سے افضل عمل کہ جس کے سبب انسان اپنے ربّ کے قریب ہو سکے کونسا ہے؟آپ نے فرمایا خدا و نبی وامام کی معرفت کے بعد نماز سے افضل(عمل)نہیں جانتا۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا کے صالح بندے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جب تک میں زندہ ہوں خداوندعالم نے مجھے نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے کا حکم اعمال کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا۔تمام اعمال میں سب سے بہتر عمل ایسی نماز ہے جسے اول وقت میں ادا کیا گیا ہو۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔
عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْهِ السَّلٰامُ قٰالَ عَلَیْهِ السَّلٰامُ) اَلصَّلٰوةُ عَمُودُ الدِّیْنَ مِثْلُهٰا کَمَثْلِ عَمُودُ الْفَسْطٰاطِ اِذٰا ثَبَتَ الْعَمُوْدُ ثَبَتَتِ الْاَوْتٰادِ وَالْاَطْنٰابِ اِذاٰ مٰالَ الْعَمُوْدُ وَانْکَسَرَلَمْ یَثْبُتْ وَتَدٌ وَلٰاطَنٰابَ
(بحار الانوار جلد ۱۸ باب فضل الصلوة صفحة ۹ ج جدید ۸۲ ص ۲۱۸)
نماز دین کا ستون ہے(نماز)خیمہ کی درمیانی لکڑی کی مانند ہے کہ جب تک وہ قائم ہے۔خیمہ کی رسیاں اور کیلیں جمی رہیں گے ۔اور جب وہ لکڑی سیدھی نہ رہے یا ٹوٹ جائے تو کیلیں اور رسیاں بھی اپنی جگہ سے اکھڑ جاتی ہیں اور خیمہ گرجاتا ہے۔
اسی طرح ایمان اور تمام اعمال عبادات نماز سے وابستہ ہیں ۔کہ اگر اسے (یعنی نماز کو)ترک کر دیا گیا تو سارے اعمال بھی جائع ہو جاتے ہیں۔امام جعفر صادق (علیہ السلام) اس آیت جو کوئی ایمان لانے کے بعد کافر ہو جائے اس کا عمل باطل ہے کی شرح میں فرماتے ہیں:
عَنِ الصّٰادِقِ عَلَیْهِ السَّلٰامُ فِیْ قَوْلِهِ تَعٰالٰی وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمٰان ِفَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُقَالَ عَلَیْهِ السَّلٰامُ مِنْ ذٰلِکَ اَنْ یَّتَرْکُ الصَّلٰوةُ مِنْ غَیْرِ سُقْمٍ وَّلٰا شُغْلٍ
(بحار الانوار جلد ۱۸ جدید جلد ۸۲)
یہ آیت نماز کو بغیر کسی مرض اور مصیبت کے ترک کرنے سے متعلق ہے۔یعنی وہ مرض اور مصیبت جو (نماز کو )فراموش کرنے کا سبب بن جائے۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
بُنِیَ الْاَسْلٰامُ عَلٰی خَمْسَتِه اَشْیٰآءٍ عَلَی الصَّلٰوةِ وَالزَّکٰوةِ وَالْحَجِّ وَالصَّوْمِ وَالْوِلٰایَته
۔(بحار الانوار جلد ۱۱۱ آخر باب فضل الصلوٰہ عقاب تارکھا صفحہ ۱۴ )
دین اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ۔نماز ، زکوٰة،حج، روزہ اور ولایت زرارہ نے پوچھا کونسی افضل ہے؟امام (علیہ السلام) نے فرمایا ولایت کیونکہ ولایت آل محمد (علیہم السلام) باقی ماندہ کی چابی کی مانند ہے اور ولایت کے بعد نماز سب سے افضل ہے کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ اَلصَّلٰوةُ عَمُودُ دِیْنِکُم نماز تمہارے لئے دین کا ستون ہے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں کہ جب قیامت برپا ہو گی تو بچھو کی جنس کا ایک جانور دوزخ سے باہر آئے گا اس کا سر ساتویں آسمان پر اور اس کی دم زمین کے نیچے اور اس کا منہ مشرق سے مغرب تک ہو گا اور کہے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرتے تھے پس جبرائیل امین نازل ہو ں گے اور کہیں گے تم کن لوگوں کو چاہتے ہو تو وہ کہے گا پانچ گروہوں کو نماز ترک کرنے والوں کو ، زکوٰة نہ دینے والوں کو ،سود کھانے والوں کو،شراب پینے والوں کو اور وہ لوگ جو مسجد میں دنیوی باتیں کرتے تھے۔(یعنی حرام گفتگو کرنا مثلاً مسلمانوں کی غیبت اور ان پر تہمت لگانا یا باطل کو رائج کرنا ،ظالم کی مدح کرنا اور کسی ایسے شخص کی تعریف کرنا جو تعریف کے قابل نہیں اور کسی ایسے کی مذمت کرنا جو قابل مذمت نہیں۔وغیرہ)لئالی الاخبار)اور آپ نے یہ بھی فرمایا جہنم میں ایک وادی ہے کہ اس کے عذاب کی شدت سے جہنمی ہر روز ستر ہزار مرتبہ چیختے ہیں اس میں آگ کا ایک گھر ہے اور اس گھر میں ایک آگ کا کنواں ہے اور اس کنویں میں تابوت ہے کہ جس میں ایک سانپ ہے اس کے ہزار سر ہیں اور ہر سر میں ہرار منہ ہیں اور ہر منہ ملیں ہزار ڈنگ ہیں اور ہر ڈنگ کی لمبائی ہزار گز ہے۔انس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) یہ عذاب کس کے لئے ہے آپ نے فرمایا شراب پینے والے اور نماز ترک کرنے والے کے لئے۔
نماز ترک کرنے والے کے لئے شدید عذاب کی بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں لیکن یہی مقدار کافی ہے۔
نماز ترک کرنے والے کی مدد
بہت سی روایات میں بے نمازی کی مدد کرنے والے کے لئے سخت عذاب وارد ہو ا ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں۔
مَنْ اَعٰانَ تٰارِکَ الصَّلٰوةِ بَلُقْته اَوْ کِسْوَةٍ فَکَاَنَّمٰا قَتَلَ سَبْعَیْنَ نَبِیّاً اَوَّلُهُم اٰدَمُ وَاٰخِرُهُمْ مُحَمَّدُ (صلی الله علیه و آله)
۔(لئالی الاخبار ج ۴ ص ۵۱)
جو کوئی نماز رترک کرنے والے کی خوارک یا لباس دیکر مدد کرے گا تو ایسا ہے کہ اس نے ستر انبیاء کو قتل کیا ان میں سے اول آدم (علیہ السلام)اور آخر حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ)ہے۔آپ نے یہ بھی فرمایا:
مَنْ اَعٰانَ تَارِکُ الصَّلٰوةِ بِشَرْ بتَهٍ مٰآءٍ فَکَاَنَّمٰا حٰارَبَ وَجٰادَلَ مَعِیَ وَمَعَ جَمِیعِ الْاَنْبِیآءِ
۔ (لئالی الاخبار ص ۳۹۵)
جو کوئی (بے نمازی کو )ایک گھونٹ پانی دے تو یہ ایسا ہی ہے کہ اس نے میرے اور تمام انبیاء سے جنگ کی ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو کوئی بے نمازی کے ساتھ ہنسے تو گویا اس نے ستر مرتبہ خانہ کعبہ کو منہدم کیا۔
(لئالی الاخبار صفحہ ۳۹۵)
ظاہراًایسی احادیث سے مراد یہ ہے کہ مدد واحسان کرنا ترک نماز میں جرات کا سبب بنے اور بلاشبہ جب بھی گناہگارپر احسان گناہ میں جرأت اور گناہ کو جاری رکھنے کا سبب بنے تو حرام ہے اور نہی عن المنکر کی رو سے احسان نہ کرنا واجب ہے۔
اس بناء پر اگر نماز ترک کرنے والے کی مدد کرنا اس کے نماز کو ترک کرنے میں جرأت کا سبب نہ بنے یعنی مدد کرنا یا نہ کرنا(اس کے نماز نہ پڑھنے پر)کوئی اثرنہ کرے تو معلوم نہیں کہ وہ ان روایات سے متعلق ہے یا نہیں اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مدد احسان اس کے گناہ چھوڑ دینے اورنماز پڑھنے کاسبب بن جاتا ہے تو ایسی صورت میں بغیر کسی شک کے اس کی مدد کرنا بہتر ہے بلکہ بعض موارد میں واجب بھی ہو جاتی ہے۔
نماز ترک کرنے کی کچھ قسمیں ہیں
( ۱) نماز کو بطور کلی انکار کرتے ہوئے ترک کرنا یعنی نماز کو واجب الہٰی نہیں سمجھتا ہو اور اس کی انجام دہی کو اپنے لازم نہیں جانتا ہو جیسا کہ گزرچکا ہے کیونکہ وہ دین کے امر ضروری کا منکر ہے اس لئے کافر ہو گیا ہے در حقیقت اس نے پیدا کرنے والے کی خدائی رسالت خاتم الانبیآء (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور قرآن مجید کا انکار کیا ہے۔اور یہ ایسا شخص ہے جو ابدی عذاب سے دوچار ہو گا اور اس کے لئے نجات کی کوئی راہ نہیں ہے۔
( ۲) نماز کو بطور کلی ترک کرنا لیکن انکار کرتے ہوئے نہیں بلکہ آخرت کے کاموں سے لاپرواہی و بے اعتنائی اور نفسانی خواہشات اور دنیوی امور میں مشغول ہو نے کے بناء پر ہے۔ترک نماز کی یہ قسم فسق کا سبب ہے اور ایسا شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے اور بعض آیات میں اس کا شدید عذاب ہے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اگر ایسا شخص ایمان کی حالت میں دنیا سے جائے تو بھی وہ ترک نماز کی بناء پر عذاب سے دوچار ہونے کے بعد ہی نجات حاصل کر سکے گا۔لیکن نماز ترک کرنے والے کا دنیا سے ایمان کی حالت میں جانا بہت ہی مشکل اور بعید ہے کیونکہ ایمان کا ظرف قلب ہے اور وہ گناہوں کی وجہ سے سخت اور تاریک ہو جاتا ہے اور اس طرح ایمان کے نور کو ختم کر دیتا ہے سوائے اس کے کہ خداوند تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کی مدد کرے اور دوستی اہل بیت (علیہم السلام) کی بناء پرموت کے وقت وہ اس کی فریاد کو پہنچیں اور وہ ایمان کی حالت میں مرے کیونکہ ممکن ہے کہ ان کی شفاعت اسکے عذاب میں تخفیف پیدا کر دے ۔یا ختم کر دے لیکن خود ان حضرات سے روایت کی گئی ہے کہ ہم اہل بیت کی شفاعت اس تک نہیں پہنچے گی جو اپنی نماز کو سبک سمجھے اور اسے ضائع کرے جیسا کہ بیان ہوا۔
( ۳) بعض اوقات نمازترک کرنا ۔یعنی ضعف ایمانی ،اور امور آخرت سے لاپرواہی کی بناء پر کبھی نماز پڑھتا ہے اور کبھی نہیں پڑھتا یا اوقات نماز کو اہمیت نہ دینے کی بناء پر اور اس خیال سے کہ بعد میں نماز ادا کرے گا وقت فضیلت میں نماز ادا نہیں کرتا۔
ترک نماز کی یہ قسم بے شک ذکر کی گئی دوقسموں کی طرح نہیں ہے ۔لیکن ایسا شخص نماز کو ضائع کرنے والوں اور اسے سبک شمار کرنے والوں میں سے ہے اور جو کچھ نماز کو ضائع کرنے والوں اور اسے حقیر سمجھنے والوں کے بارے میں وارد ہوا ہے اس کے لئے بھی ہے اور ایسے شخص کے بارے میں خاص طورپر روایات وارد ہوئی ہیں اورایک روایت میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ۔
عَنْ اَبَیْ عَبِداللّٰهَ عَلَیْهِ السَّلٰامُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ (صلی الله علیه و آله) مَنْ صَلّی الصَّلٰوةَ بِغَیْرِ وَقْتِهٰا رُفِعَتْ لَهُ سَوْدآءٌ مُظْلمَةٌ تَقُولُ ضَیَّعَتْی ضَیَّعَکَ اللّٰهُ کَمٰا ضَیَّعَتَنِیْ وَقٰالَ (صلی الله علیه و آله) اَوَّلُ مٰا سُئِلَ الْعَبْدُ اِذٰا وَقَفَ بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ عَنِ فَاِنْ زَکَّتْ صَلٰوتَهُ زکیٰ سٰائِٓرُ عَمَلِهِ وَاِنْ لَّمْ تُزَکِّ الصَّلٰوتَهُ لَمْ یُزکِّ سٰائِرُ عَمَلِهِ
(وسائل الشیعہ باب اول جلد ۳ س ۸۰)
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ارشاد فرمایا جو کوئی واجب نماز کو وقت گزرنے کے بعد پڑھے تو وہ نماز تاریک اور وحشت ناک حالت میںٰ اوپر جاتی ہے اور اپنے پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ تو نے مجھے ضائع کیا۔خدا تجھے ضائع کرے جیسا کہ تو نہ مجھے ضائع کیا۔اورفرمایا جب بندہ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوتا ہے تو سب سے پہلی چیز کہ جس کے بارے میں روزقیامت انسان سے سوال کیا جائے گاوہ نماز ہے پس اگر نماز صحیح ہو تو باقی تمام اعمال صحیح ہیں اور اگر نماز صحیح نہ ہو تو اس کے دوسرے اعمال بھی صحیح نہیں ہیں۔اور اسی طرح رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں:
لٰایُنَالُ شَفٰاعِتی غَداً مَّنْ اخَرَّ الصَّلٰوةَ الْمَفْرُوضَتَه بَعْدَ وَقْتِهٰا
(صلواة وسائل الشیعہ حدیث ۱۳ ج ۳ ص ۸۱)
میری شفاعت اس شخص تک نہیں پہنچے گی،جو واجب نماز میں وقت داخل ہونے کے بعد تاخیر کرے یہاں تک کہ اس کا وقت گزر جائے ۔
آپ نے یہ بھی فرمایا:
لٰا یَزٰالُ الشَّیْطٰانُ هٰائِٓباً لِابْنِ اَدَمَ زَعْراًمِّنْهُ مٰا صَلَّی الصَّلٰوةَ الْخَمْسَ فَاِذٰا ضَیَّعَهُنَّ اجْتَرَاءَ عَلَیْهِ فَادَخْلَهُ ف،ی الْعَظٰائِمِ
۔ (وسائل الشیعہ باب احدیث ۱۲ ج ۳ ص ۸۱)
جب تک انسان محتاط ہو،اور دن رات کی پانچ نمازوں کو وقت پر بجالائے تو شیطان اس سے کوفزدہ رہتا ہے اور اس کے قریب نہیں آتا۔اورجب بھی ان(نمازوں)کو ضائع کرے تو شیطان اس پر حاوی ہو جاتا ہے اور اسے بڑے گناہوں میں ملوث کر دیتا ہے۔امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جو کوئی نماز واجب کو وقت پر پڑھے گا اگر وہ اس کی اہمیت کو سمجھتاہو اور کسی چیز کواس پر مقدم نہ کرے تو خداوند عالم اس کے لئے عذاب سے نجات لکھ دیتا ہے(یعنی اس پر عذاب نازل نہیں کرے گا ۹ اور جو کوئی نماز کو اس کا وقت گزرنے کے بعد پڑھے اور امور دنیا کو نماز پر مقدم سمجھے تو اس کافیصلہ خدا کے ہاتھ ہے چاہے اسے بخش دے یا اسے عذاب دے۔(یعنی اس کے لئے قطعی نجات نہیں ہے۔)
اوّل وقت میں نماز پڑھنے کی تا کید
روایات میں نماز کے اوقات کا لازماً خیال رکھنے اور اسے وقت پر بجا لانے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے تا کہ نماز کو اول وقت میں ادا کیا جائے اور بغیر کسی عذر کے اول وقت سے تاخیر نہیں کرنا چاہئے اور ہمارے رہبروں نے سخت ترین حالات میں بھی نماز کی اول وقت میں ادائیگی کو ترک نہ کیا۔
چنانچہ ارشاد القلوب میں روایت ہے کہ حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) جنگ صفین میں ایک دن جنگ میں مشغول تھے اور اس حالت میں بھی دو صفوں کے درمیان باربار آفتاب کی طرف دیکھ رہے تھے ابن عباس نے پوچھا کہ آپ آفتاب کو کیوں دیکھ رہے ہیں؟امام (علیہ السلام) نے فرمایااَنْظُرُ اِلَی الزَّوٰالِ حَتّٰی نُصَلِّیمیں
وقت زوال کو (جو نماز ظہر کا اول وقت ہے) جاننا چاہ رہا ہوں تا کہ نماز اداکروں ابن عباس نے کہا آیا اس جنگ کے وقت نماز پڑھنے کاوقت ہے امام (علیہ السلام) نے فرمایا،ہم اس قوم سے کس لئے جنگ کر رہے ہیں:اِنَّمٰا تُقٰاتِلُهُمْ عَلَی الصَّلٰوةِ
ہمارا ان سے جنگ کرنے کامقصد ہی نماز کا قیام ہے۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے کبھی بھی نماز شب کو ترک نہیں کیا یہاں تک کہ لیلتہ الحریر(جنگ صفین سخت ترین سردی کی راتوں )میں بھی۔
مروی ہے کہ روز عاشورہ زوال کے وقت ابوثمامہ صیدادی،حضرت سید الشہدا امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
یٰا مَولٰایَ اِنَّنٰا مَقْتُولُونَ لٰا مَحٰالَتَه وَقَدْحَضَرَتِ الصَّلٰوةُ فَصَلِّ بِنٰافَانِّی اِظُنُّهٰا اٰخِرَصَلٰوةٍ نُصِلِّیْهٰا لَعَلَّنٰا نَلْقَی اللّٰهِ تَعٰالیٰ عَلیٰ اَدٰا فَرِیْضَةٍ مِّنْ فَرٰآئِضِهِ فِیْ هَذَا الْمَوْضَعِ الْعَظِیْمِ
۔(جلد دہم بحار الانوار اور لھوف سید)
اے میرے مولا! ہم یقینا سب قتل کر دیئے جائیں گے اور نماز ظہر کا وقت ہو چکا ہے پس نماز پڑھائیے۔یعنی باجماعت نماز پرھائیں ہماارخیال ہے کہ یہ ہماری آخری نماز ہے اورامید ہے کہ ہم اس عظیم مقام پر اللہ تعالی کے فرائض میں سے ایک فریضہ ادا کرتے ہوئے اس سے ملاقات کریں گے۔
امام (علیہ السلام) نے سر کو آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمانے لگے تم نے نماز کو یاد کیا خداوند عالم تمہیں نماز گزاروں میں شامل کرے ہاں یہ تو نماز کا وقت ہے اور فرمایا اذان دو خدا تم پر رحمت کرے اورجب اذان سے فارغ ہوئے تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا اسے پسر سعد کیا شریعت اسلامی کو بھول گئے ہو آیا جنگ نہیں روکے گے کہ نماز ادا کریں اور اس کے بعد جنگ کریں پس امام (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز خوف اس طرح ادا کی کہ زُہَیرِابن القین اور اسعید بن عبد اللہ حنفی سیدا لشہدا امام حسین (علیہ السلام) کے سامنے کھڑے تھے اورجس طرف سے بھی تیر یا نیزہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ)تک پہنچتا تھا خود کو ڈھال بنا لیتے تھے یہاں تک کہ تیرہ تیر سعید کے بدن میں نیزہ وشمشیر کے زخموں کے علاوہ لگے اور وہ زمین پر گرنے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔
واجبات نماز میں سے کسی واجب کو ترک کرنا
یعنی نماز تو پڑھتا ہے لیکن اس طرح نہیں کہ جس طرح اس سے کہا گیا ہے درست نماز کی شرائط کی پرواہ نہیں کرتا اور اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا،مثلاًنماز کو غصبی لباس،یا مکان میں یا نجاست میں پڑھتا ہے یا قرا ئت اور واجب اذکار کو نہیں پڑھتا یا غلط پڑھتا ہے اور اس کی تصحیح کی کوشش نہیں کرتاقرائت اور ذکر واجب کے وقت بدن کو ساکن نہیں رکھتا اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص نماز کو ضائع کرنے والوں اور نماز کو حقیر جاننے والوں میں سے ہے۔اور جو کچھ نماز کو سبک شمار کرنے والوں کے بارے میں وارد ہو ا ہے اس کے لئے بھی وہی ہے۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) مسجد میں تشریف فرماتھے کہ ایک آدمی آیا اور نماز پڑھنے میں مشغول ہو گیا اور اپنی نماز کے رکوع و سجود کو کاملاً ادا نہ کیا(یعنی ان میں سے ذکر واجب کو چھوڑ دیا یا صحیح نہیں پڑھا یا بدن کو ساکن نہیں رکھا اور اقوال وافعال میں اطمینان حاصل نہیں کیا)تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا(یہ شخص )اپنے سر کو زمین پہ اس طرح رکھتا ہے جس طرح کوا اپنی چونچ زمین پر مارتا اور اٹھاتا ہے اگر یہ اس طرح نماز پڑھتے ہوئے مرجائے تو وہ میرے دین پر نہیں مرے گا۔وسائل باب ۸)
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں:
اَسْرَقُ السَّرّٰاقُ مَنْ سَرِقَ مِنْ صَلٰوتِهِ قِیْلَ یٰا رَسُوْلَ اللّٰهِ (صلی الله علیه و آله) کَیْفَ یَسْرَقُ مِنْ صَلٰوتِهِ قٰالَ (صلی الله علیه و آله) لٰایُتِمُّ رُکُوعَهٰا وَسُجُودَهٰا
(صلوٰت مستدرک الوسائل باب ۸ حدیث ۱۸)
چوروں میں سب سے بڑا چور وہ ہے جو اپنی نمازمیں چوری کرے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی نماز میں کس طرح چوری ہو سکتی ہے آپ نے فرمایا نماز کے رکوع و سجود کو صحیح طرح انجام نہ دے۔(وسائل باب ۸ حدیث ۱۸)
اور فرماتے ہیںلٰا صَلٰوةَ لِمَنْ لَمْ یُتِمَّ رُکُوْعَهٰا وَسُجُوْدَهٰا
(صلوة مستدرک الوسائل باب ۸ حدیث ۱۸) جو کوئی نماز کے رکوع وسجود کو صحیح ادا نہ کرے تو وہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے نماز ہی نہ پڑھی ہو۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو کوئی نماز کے رکوع وسجود اور دوسرے تمام واجبات کو صحیح انجام دے تو وہ نماز نورانیت اور درخشندگی کی حالت میں اوپر جاتی ہے آسمان کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں اور نماز کہتی ہے تم نے میری حفاظت کی خدا تمہاری حفاظت کرے اور ملائکہ کہتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ کی صلوت ورحمت ہو اس نماز پڑھنے والے پر اور اگر واجبات نماز کو صحیح طرح ادا نہ کرے تو نماز تاریکی کی حالت میں اوپر جاتی ہے اور آسمان کے دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں اور نماز کہتی ہے تو نے مجھے ضائع کیا خدا تجھے ضائع کرے اور وہ نماز اس کی صورت پر ماردی جاتی ہے(صلوت مستدرک الوسائل باب ۸ حدیث ۱۵)
آپ نے یہ بھی فرمایابِکُلِّ شَیْءٍ وَجْهٌ وَوَجْهُ دِیْنِکُمْ الصَّلٰوةُ فَلٰا یَشِیْنَّ اَحَدَکُمْ وَجْهَ دِیْنِکُمْ
(صلوة مستدرک الوسائل باب ۶ حدیث ۵)
ہر چیز کی ایک صورت ہوتی ہے کہ جو اسکے اجزاء بدن میں سے اعظم اور اشرف ہے اورتمہارے دین کا چہرہ اور صورت نماز ہے پس تم میں سے کوئی بھی اپنی نماز کو خراب اور بد نما نہ کرے کہ جو صورت بدن کی طرح دین کی صورت ہے۔
اس بارے میں روایات بہت ہیں،لیکن مطلب کی وضاحت کے لئے یہی کافی ہے کہ جو کوئی واجبات نماز میں سے کسی ایک واجب کو جو کہ نماز کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے ترک کرے تو وہ اس شخص کی مانند ہے جو بالکل نماز نہیں پڑھتا۔